بعثت نبوی کا دسواں سال(عام الحزن )

ام المومنین خدیجہ الکبریٰؓ کی وفات(رمضان المبارک ۱۰بعثت نبوی)

وَكَانَتْ خَدِیجَةُ وَزِیرَةَ صِدْقٍ عَلَى الإِسْلامِ ، كَانَ یَسْكُنُ إِلَیْهَا

ابن ہشام کہتے ہیں ام المومنین خدیجہ رضی اللہ عنہا فروغ اسلام کے سلسلے میں انتہائی اخلاص کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مددکرتی تھیں اورمشکل حالات میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کوسکون کاسامان فراہم کرتی تھیں ۔[1]

فَكَانَ لا یَسْمَعُ مِنَ الْمُشْرِكِینَ شَیْئًا یَكْرَهُهُ مِنْ رَدٍّ عَلَیْهِ وَتَكْذِیبٍ لَهُ إِلا فَرَّجَ اللَّهُ عَنْهُ بِهَا، تُثَبِّتُهُ وَتُصَدِّقُهُ، وَتُخَفِّفُ عَنْهُ، وَتُهَوِّنُ عَلَیْهِ مَا یَلْقَى مِنْ قَوْمِهِ

ایک روایت میں ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کومشرکین کی تردیدیاتکذیب سے جوکچھ صدمہ ہوتاوہ ام المومنین خدیجہ رضی اللہ عنہا کے پاس آکردورہوجاتاتھاکیونکہ وہ آپ کی باتوں کی تصدیق کرتی تھیں اورمشرکین کے معاملہ کوآپ کے سامنے ہلکاکرکے پیش کرتی تھیں ۔[2]

مگرجب ام المومنین خدیجہ رضی اللہ عنہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شعب بنوہاشم سے باہرآئیں تومسلسل تکالیف ومصائب کے باعث ان کی صحت دن بدن خراب ہوتی گئی آخرکارنکاح کے بعدپچیس سال زندہ رہ کررمضان المبارک یاشوال دس بعثت نبوی میں ہجرت سے تین سال قبل اس عدم ہستی نماسے ہستی عدم نما کوانتقال ل فرماگئیں ،

بعض کے نزدیک ام المومنین خدیجہ رضی اللہ عنہا بنت خویلد، ابوطالب کی وفات کے تین دن کے بعدفوت ہوئیں ۔

وتوفیت خدیجة رضی الله عنها بعد أبی طالب بثلاثة أیام

ام المومنین خدیجہ رضی اللہ عنہا ابوطالب کی وفات کے تین دن کے بعدفوت ہوئیں ۔[3]

وتوفیت خدیجة بعده بثلاثة أیام

ام المومنین خدیجہ رضی اللہ عنہا تین دن کے بعدفوت ہوئیں ۔[4]

بعض کے نزدیک دوماہ بعدفوت ہوئیں ،

وقیل: كان بین موت أبی طالب وموت خدیجة شهر وخمسة أیام

بعض کے نزدیک ابوطالب کی وفات کے ایک ماہ پانچ دن بعد ہوئی۔

وقیل: كان بین موت أبی طالب وموت خدیجة شهر وخمسة أیام.

یہ بھی کہاجاتاہے کہ ام المومنین خدیجہ رضی اللہ عنہا کی وفات ابوطالب کی وفات کے ایک ماہ پانچ دن بعد ہوئی۔[5]

تُوُفِّیَتْ خَدِیجَةُ بِنْتُ خُوَیْلِدٍ فِی شَهْرِ رَمَضَانَ سَنَةَ عَشْرٍ مِنَ النُّبُوَّةِ وَهِیَ یَوْمَئِذٍ بِنْتُ خَمْسٍ وَسِتِّینَ سَنَةً

مگرمشہوریہی ہے کہ ام المومنین خدیجہ رضی اللہ عنہا بنت خویلدکی وفات ہجرت سے تین سال قبل ۱۰ نبوی کے رمضان المبارک میں ہوئی اس وقت ان کی عمر۶۵ سال تھی۔[6]

ایک روایت میں ہے کہ وفات کے وقت ان کی عمر۶۴سال چھ ماہ تھی،

ام المومنین خدیجہ رضی اللہ عنہا جوایک نیک ووفاداربیوی کااعلیٰ نمونہ تھیں

وَكَانَتْ أَوَّلَ مَنْ آمَنْ باللَّه وَبِرَسُولِهِ، وَصَدَّقَ بِمَا جَاءَ مِنْهُ

جنہوں نے سب سے پہلے بلاتردداللہ وحدہ لاشریک اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کوتسلیم کیااورآپ صلی اللہ علیہ وسلم پرجوکلام نازل ہوااس کی تصدیق کی۔[7]

ام المومنین خدیجہ رضی اللہ عنہا کی بڑی فضیلتں ہیں

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: أَتَى جِبْرِیلُ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: یَا رَسُولَ اللَّهِ: هَذِهِ خَدِیجَةُ قَدْ أَتَتْ مَعَهَا إِنَاءٌ فِیهِ إِدَامٌ، أَوْ طَعَامٌ أَوْ شَرَابٌ، فَإِذَا هِیَ أَتَتْكَ فَاقْرَأْ عَلَیْهَا السَّلاَمَ مِنْ رَبِّهَا وَمِنِّی وَبَشِّرْهَا بِبَیْتٍ فِی الجَنَّةِ مِنْ قَصَبٍ لاَ صَخَبَ فِیهِ، وَلاَ نَصَبَ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےجبرائیل علیہ السلام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تشریف لائے اور فرمایااے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم !یہ خدیجہ رضی اللہ عنہا تشریف لارہی ہیں ان کے پاس ایک برتن ہے جس میں سالن یاکھانایاکوئی مشروب ہےجب وہ آپ کے پاس آپہنچیں توآپ انہیں ان کے رب کی طرف سے اورمیری طرف سے سلام کہیں اورجنت میں موتی کے ایک محل کی بشارت دیں جس میں نہ شوروشغب ہوگانہ درماندگی وتکان۔[8]

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ جَعْفَرِ بْنِ أَبِی طَالِبٍ، قَالَ:أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لِخَدِیجَةَ: إِنَّ جِبْرِیلَ أَتَانِی، فَقَالَ: بَشِّرْ خَدِیجَةَ بِبَیْتٍ مِنْ قَصَبٍ لَا صَخَبَ فِیهِ، وَلَا نَصَبَ

عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایامجھے حکم دیاگیاہے کہ میں خدیجہ رضی اللہ عنہا کوجنت میں ایسے محل کی بشارت دوں جوموتی کاہوگااورجس میں شوروغل اورمحنت ومشقت نہ ہوگی۔[9]

قَالَ ابْنُ هِشَامٍ:أَنَّ جِبْرِیلَ عَلَیْهِ السَّلَامُ أَتَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: أُقْرِئْ خَدِیجَةَ السَّلَامَ مِنْ رَبِّهَا،فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: یَا خَدِیجَةُ، هَذَا جِبْرِیلُ یُقْرِئُكَ السَّلَامَ مِنْ رَبِّكَ،فَقَالَتْ خَدِیجَةُ: اللَّهُ السَّلَامُ، وَمِنْهُ السَّلَامُ، وَعَلَى جِبْرِیلِ السَّلَامُ

ابن ہشام کہتے ہیں جبرائیل علیہ السلام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اورکہا خدیجہ رضی اللہ عنہا کوان کے رب کی طرف سے سلام کہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااے خدیجہ رضی اللہ عنہا !یہ جبرائیل علیہ السلام ہیں جوتمہیں تمہارے رب کاسلام پہنچارہے ہیں ام المومنین خدیجہ رضی اللہ عنہا نے کہااللہ سلام ہے اوراسی سے سلامتی ہے اورجبرائیل علیہ السلام پربھی سلام ہو۔[10]

وَهَذِهِ خَاصَّةٌ لَا تُعْرَفُ لِامْرَأَةٍ سِوَاهَا

حافظ ابن قیم رحمہ اللہ نے لکھاہےیہ ایک ایسی فضیلت ہے جوآپ رضی اللہ عنہ کے سواکسی اورعورت کومیسرنہیں ہوئی۔[11]

ان کی اچانک رحلت پررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بہت غمگین تھے،

وَدُفِنَتْ فِی الْحَجُونِ

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں بمقام حجون دفن کیا۔[12]

ونزلَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فِی قبرها

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں قبرمیں لٹانے کے لئے خودقبرکے اندر اترے تھے۔[13]

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خدیجہ رضی اللہ عنہا سے جوتعلق وانس تھاوہ آپ عمربھرنہ بھول سکے اورہمیشہ ان کی تعریف فرماتے رہتے تھے۔

عَنْ عَلِیِّ بْنِ أَبِی طَالِبٍ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُمْ،عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:خَیْرُ نِسَائِهَا مَرْیَمُ بِنْتُ عِمْرَانَ وَخَیْرُ نِسَائِهَا خَدِیجَةُ بِنْتُ خُوَیْلِدٍ

سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا دنیا کی بہترین خواتین مریم بنت عمران اور خدیجہ رضی اللہ عنہا بن خویلدہیں ۔[14]شعب بنی ہاشم کی محصوری کے بعدآپ وفات پا گئیں اور عائشہ رضی اللہ عنہا صدیقہ سے آپ کی شادی مدینہ منورہ میں انجام پائی ، اتنا عرصہ گزر جانے کے باوجودآپ صلی اللہ علیہ وسلم اکثروبیشتر ام المومنین خدیجہ الکبریٰ رضی اللہ عنہا کا ذکر ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے سامنے کرتے رہتے تھے، خدیجہ رضی اللہ عنہا سے آپ کوکتنی محبت تھی اس کی چند جھلکیاں ملاحظہ فرمائیں ،

عَنْ عَائِشَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ:اسْتَأْذَنَتْ هَالَةُ بِنْتُ خُوَیْلِدٍ، أُخْتُ خَدِیجَةَ، عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَعَرَفَ اسْتِئْذَانَ خَدِیجَةَ فَارْتَاعَ لِذَلِكَ، فَقَالَ:اللَّهُمَّ هَالَةَ،قَالَتْ: فَغِرْتُ، فَقُلْتُ: مَا تَذْكُرُ مِنْ عَجُوزٍ مِنْ عَجَائِزِ قُرَیْشٍ، حَمْرَاءِ الشِّدْقَیْنِ، هَلَكَتْ فِی الدَّهْرِ، قَدْ أَبْدَلَكَ اللَّهُ خَیْرًا مِنْهَا

ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہےایک مرتبہ ام المومنین خدیجہ رضی اللہ عنہا کی بہن ہالہ بنت خویلدجن کی آواز خدیجہ رضی اللہ عنہا سے بہت مشابہت رکھتی تھی تشریف لائیں اور اندر آنے کی اجازت چاہی،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کی آوازسن کرتڑپ اٹھے اورفرمایااللہ یہ ہالہ ہو، خدیجہ الکبریٰ رضی اللہ عنہا چاہےفوت ہو چکی تھیں مگر عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی سوکن تھیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ تڑپ دیکھ کربولیں آپ قریش کی ایک بوڑھی عورت کو اتنا یاد کرتے ہیں جسے فوت ہوئے اتنا عرصہ گزر چکا ہےاوراللہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کواس سے اچھی بیوی دے دی ۔[15]

فَغَضِبَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، قُلْتُ:وَالَّذِی بَعَثَكَ بِالْحَقِّ لَا أَذْكُرُهَا بَعْدَ هَذَا إِلَّا بِخَیْرٍ

عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی یہ بات سنکررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سخت غصہ ہوئے ، عائشہ رضی اللہ عنہا نے جب یہ صورت دیکھی توفوراًبولیں اللہ کی قسم جس نے آپ کوحق کے ساتھ بھیجا ہے آئندہ میں ان کا ذکربھلائی کے علاوہ کسی طرح نہ کروں گی۔[16]

عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: كَانَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ إِذَا ذَكَرَ خَدِیجَةَ أَثْنَى عَلَیْهَا، فَأَحْسَنَ الثَّنَاءَ، قَالَتْ: فَغِرْتُ یَوْمًا، فَقُلْتُ: مَا أَكْثَرَ مَا تَذْكُرُهَا حَمْرَاءَ الشِّدْقِ، قَدْ أَبْدَلَكَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ بِهَا خَیْرًا مِنْهَا، قَالَ:مَا أَبْدَلَنِی اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ خَیْرًا مِنْهَا، قَدْ آمَنَتْ بِی إِذْ كَفَرَ بِی النَّاسُ، وَصَدَّقَتْنِی إِذْ كَذَّبَنِی النَّاسُ، وَوَاسَتْنِی بِمَالِهَا إِذْ حَرَمَنِی النَّاسُ، وَرَزَقَنِی اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ وَلَدَهَا إِذْ حَرَمَنِی أَوْلَادَ النِّسَاءِ

ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خدیجہ کا تذکرہ جب بھی کرتے تھے تو ان کی خوب تعریف کرتے تھے، ایک دن مجھے غیرت آئی اور میں نے کہا کہ آپ کیا اتنی کثرت کے ساتھ ایک سرخ مسوڑھوں والی عورت کا ذکر کرتے رہتے ہیں جس کے بدلے میں اللہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس سے بہترین بیویاں دے دیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ نے فرمایا اللہ نے مجھے اس کے بدلے میں اس سے بہتر کوئی بیوی نہیں دی،وہ مجھ سے اس وقت ایمان لائی جب لوگ کفر کررہے تھےاورمیری اس وقت تصدیق کی جب لوگ میری تکذیب کررہے تھےاوراپنے مال سے میری ہمدردی اس وقت کی جب کہ لوگوں نے مجھے اس سے دور رکھااور اور اللہ نے مجھے اس سے اولاد عطا فرمائی جب کہ میری دوسری بیویوں سے میرے یہاں اولاد نہ ہوئی۔[17]

آپ صلی اللہ علیہ وسلم خدیجہ رضی اللہ عنہا کی ملنے والیوں اور ان کی سہیلیوں کا بھی ہمیشہ عزت واحترام فرماتے تھے،

عَنْ عَائِشَةَ، رَضِیَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ:وَإِنْ كَانَ لَیَذْبَحُ الشَّاةَ فَیُهْدِی فِی خَلاَئِلِهَا مِنْهَا مَا یَسَعُهُنَّ

ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہےجب کبھی کوئی بکری ذبح فرماتے تواس میں سے کچھ گوشت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی سہیلیوں اور ملنے والیوں کوروانہ کردیتے جوان کے لئے کافی ہوجاتا۔[18]

عن عائشة، قالت:دخلت امْرَأَةٌ سَوْدَاءُ عَلَى رَسُولِ اللَّه صَلَّى اللَّه عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَأَقْبَلَ عَلَیْهَا وَاسْتَبْشَرَ بِهَا. فَقُلْتُ: یَا رَسُولَ اللَّه، أَقْبَلْتَ عَلَى هَذِهِ السَّوْدَاءِ هَذَا الإِقْبَالَ؟ فَقَالَ: إِنَّهَا كَانَتْ تَدْخُلُ عَلَى خَدِیجَةَ كَثِیرًا

ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہےایک مرتبہ ایک کالے رنگ کی عورت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس عورت کابڑی تپاک اورمسرت سے استقبال فرمایاجب وہ واپس چلی گئی تو میں نے پوچھااس عورت کی آمدپرآپ اس قدر خوش کیوں ہوئے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایایہ عورت اکثر و بیشتر خدیجہ رضی اللہ عنہا کے پاس آیاکرتی تھی ۔[19]

عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: جَاءَتْ عَجُوزٌ إِلَى النَّبِیِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ لَهَا: مَنْ أَنْتَ؟قَالَتْ: أَنَا جَثَّامَةُ الْمُزَنِیَّةُ. قَالَ: بَلْ أَنْتِ حَسَّانَةُ الْمُزَنِیَّةُ، كَیْفَ حَالُكُمْ؟ كَیْفَ كُنْتُمْ بَعْدَنَا؟ قَالَتْ: بِخَیْرٍ، بِأَبِی أَنْتَ وَأُمِّی یَا رَسُولَ اللَّهِ! فَلَمَّا خَرَجَتْ قُلْتُ:یَا رَسُولَ اللَّهِ، تُقْبِلُ عَلَى هَذِهِ الْعَجُوزِ هَذَا الإِقْبَالِ!

ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں ایک بڑھیانبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایاتوکون ہے؟ اس نے جواب دیا میں جثامہ مرینہ ہوں ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں بلکہ توحسانہ مرینہ ہے، پھررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی خیروعافیت پوچھی،اس نے جواب دیااے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !میرے ماں باپ آپ پرقربان ہوں میں خیریت سے ہوں ، عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں جب وہ چلی گئی تو میں نے پوچھااے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !یہ عورت کون ہے؟۔[20]

فَقُلْتُ: بِأَبِی أَنْتَ وَأُمِّی، إِنَّكَ لَتَصْنَعُ بِهَذِهِ الْعَجُوزِ شَیْئًا لَا تَصْنَعُهُ بِأَحَدٍ قَالَ: إِنَّهَا كَانَتْ تَأْتِینَا عِنْدَ خَدِیجَةَ، أَمَا عَلِمْتِ أَنَّ كَرَمَ الْوُدِّ مِنَ الْإِیمَانِ

ایک دوسری روایت میں ہےام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے پوچھااے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !میرے ماں باپ آپ پرقربان ہوں جوکچھ آپ اس بڑھیاکے لیے کررہے تھے یہ اورکسی دوسرے کے لیے آپ نہیں کرتے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب میں ارشادفرمایا اے عائشہ رضی اللہ عنہا !یہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کی زندگی میں ہمارے پاس آیاکرتی تھی اورعہدکو پورا کرنا بھی ایمان میں سے ہے۔[21]

اسی طرح غزوہ بدر میں جب زینب رضی اللہ عنہا بنت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے شوہرجوابھی تک مسلمان نہ ہوئے تھے گرفتار ہوکر آئے

لَمَّا بَعَثَ أَهْلُ مَكَّةَ فِی فِدَاءِ أُسَرَائِهِمْ، بَعَثَتْ زَیْنَبُ بِنْتُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فِی فِدَاءِ أَبِی الْعَاصِ بْنِ الرَّبِیعِ بِمَالٍ، وَبَعَثَتْ فِیهِ بِقِلَادَةٍ لَهَا كَانَتْ خَدِیجَةُ أَدْخَلَتْهَا بِهَا عَلَى أَبِی الْعَاصِ حِینَ بَنَى عَلَیْهَاقَالَتْ: فَلَمَّا رَآهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ رَقَّ لَهَا رِقَّةً شَدِیدَةً وَقَالَ: إنْ رَأَیْتُمْ أَنْ تُطْلِقُوا لَهَا أَسِیرَهَا، وَتَرُدُّوا عَلَیْهَا مَالَهَا، فَافْعَلُوافَقَالُوا: نَعَمْ یَا رَسُولَ اللَّهِ،فَأَطْلَقُوهُ، وَرَدُّوا عَلَیْهَا الَّذِی لَهَا

جب اہل مکہ نے اپنے قیدیوں کے چھڑانے کے لیے فدیہ بھیجاتوآپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی زینب رضی اللہ عنہا جومکہ مکرمہ میں اپنے خاوند کے گھرپرتھیں اپنے شوہرکی رہائی کے لئے اپناوہ ہارجوان کی والدہ خدیجہ الکبریٰ رضی اللہ عنہا نے انہیں تحفہ کے طورپردیا تھا مدینہ منورہ روانہ کردیا،جب وہ ہاررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نظروں کے سامنے آیاتوآپ صلی اللہ علیہ وسلم کواپنی محبوب بیوی خدیجہ رضی اللہ عنہا یاد آگئیں جس سے آپ پررقت طاری ہوگئی اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگرتم مناسب سمجھوتوزینب رضی اللہ عنہا کے قیدی کو بغیرفدیہ ہی رہا کردواوراس کامال واپس کردو،صحابہ کرام نے عرض کیااے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم ! سر تسلیم خم ہے،انہوں نے ابوالعاص کومع اس ہارکے رخصت کیا۔[22]

کیونکہ ابوطالب رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے انتہائی مددگاراورسخت حفاظت ومدافعت کرنے والے تھے اور خدیجہ رضی اللہ عنہا آپ کی خیرخواہی وغمگساری کرنے والی تھیں ،ان دونوں کی وفات سے قریش کی جسارتیں بڑھ گئیں اوروہ کھل کرآپ کوتکالیف پہنچانے لگے ،

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ، قَالَ: حضرتُهم وَقَدْ اجْتَمَعَ أشرافُهم یَوْمًا فِی الحِجْر، فَذَكَرُوا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَقَالُوا: مَا رَأَیْنَا مثلَ مَا صَبَرْنَا عَلَیْهِ مِنْ أَمْرِ هَذَا الرَّجُلِ قَطُّ، سفَّه أحلامَنا، وَشَتَمَ آباءَنا، وَعَابَ دینَنا، وفرَّق جماعَتنا، وسبَّ آلِهَتَنَا، لَقَدْ صَبَرْنَا مِنْهُ عَلَى أَمْرٍ عَظِیمٍ، أَوْ كَمَا قَالُوا. فبینَا هُم فِی ذَلِكَ إذْ طَلَعَ رسولُ اللَّهِ -صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَأَقْبَلَ یَمْشِی حَتَّى اسْتَلَمَ الركنَ، ثُمَّ مَرَّ بِهِمْ طَائِفًا بِالْبَیْتِ، فَلَمَّا مَرَّ بِهِمْ غَمَزُوهُ بِبَعْضِ الْقَوْلِ. قَالَ: فَعَرَفْتُ ذَلِكَ فِی وَجْهِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ثُمَّ مَضَى، فَلَمَّا مرَّ بِهِمْ الثَّانِیَةَ غَمَزُوهُ بمثلِها، فعرفتُ ذَلِكَ فِی وَجْهِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وسلم ثم مرَّ الثَّالِثَةَ فَغَمَزُوهُ بِمِثْلِهَا، فَوَقَفَ ثُمَّ قَالَ: أَتَسْمَعُونَ یَا معشرَ قُریش، أَمَا وَاَلَّذِی نَفْسِی بِیَدِهِ، لَقَدْ جِئْتُكُمْ بالذَّبْح.

عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہےایک دفعہ قریش کے بڑے بڑے لوگ حجراسودکے پاس خانہ کعبہ میں جمع ہوئے اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاذکرکرنے لگےاورکہنے لگے اس شخص کے بارے میں ہمارے صبروبرداشت کی بھی کوئی مثال نہیں ، اس نے ہمیں بیوقوف کہا، ہمارے آباؤاجدادکوگالیاں دیں ،ہمارے دین کوبرابھلاکہا،ہماری جماعت کے ٹکڑے ٹکڑے کردیئے،ہمارے معبودوں پرباتیں بنائیں ہم نے ان تمام باتوں پرصبرکیاہے، وہ اسی قسم کی باتیں کررہے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی تشریف لے آئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجراسودکوبوسہ دے کربیت اللہ کاطواف کرناشروع کیا جب آپ قریش کے پاس سے گزرے تو انہوں نے آنکھوں آنکھوں میں ایک دوسرے کواشارے کیے جس کاناگواراثرمیں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے پرمحسوس کیا،دوسری مرتبہ وہاں سے گزرے توانہوں نے پہلے کی طرح پھر اشارے بازی کی اورمیں نے اس کااثررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے میں دیکھا، تیسری مرتبہ گزرے توآپ نے وہاں کھڑے ہوکرفرمایااے گروہ قریش !تم سنتے ہوخبردارہوجاؤاس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہےمیں تمہارے پاس ذبح کے ساتھ آیاہوں

قَالَ: فَأَخَذَتْ القومَ كلمتُه حَتَّى مَا مِنْهُمْ رَجُلٌ إلَّا كَأَنَّمَا عَلَى رَأْسِهِ طائرٌ وَاقِعٌ، حَتَّى إنَّ أشدَّهم فِیهِ وَصَاةً قَبْلَ ذَلِكَ لَیرْفَؤُه بِأَحْسَنِ مَا یَجِدُ مِنْ الْقَوْلِ، حَتَّى إنَّهُ لِیَقُولَ: انصرفْ یَا أَبَا الْقَاسِمِ، فَوَاَللَّهِ مَا كنتَ جَهُولًا. قَالَ: فَانْصَرَفَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى إذَا كَانَ الغدُ اجْتَمَعُوا فِی الحِجْر وَأَنَا مَعَهُمْ، فَقَالَ بعضُهم لِبَعْضِ: ذَكَرْتُمْ مَا بَلَغَ مِنْكُمْ، وَمَا بَلَغَكُمْ عَنْهُ، حَتَّى إذَا بادَاكم بِمَا تَكْرَهُونَ تَرَكْتُمُوهُ. فَبَیْنَمَا هُمْ فِی ذَلِكَ طَلَعَ عَلَیْهِمْ رسولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَوَثَبُوا إلَیْهِ وثبةَ رجلٍ وَاحِدٍ، وَأَحَاطُوا بِهِ، یَقُولُونَ: أَنْتَ الَّذِی تَقُولُ كَذَا وَكَذَا؛ لِمَا كَانَ یَقُولُ مِنْ عَیْب آلِهَتِهِمْ وَدِینِهِمْ، فَیَقُولُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:نَعَمْ، أَنَا الَّذِی أَقُولُ ذَلِكَ. قَالَ: فَلَقَدْ رأیتُ رَجُلًا مِنْهُمْ أَخَذَ بمجْمَع رِدَائِهِ. قَالَ: فَقَامَ أَبُو بَكْرٍ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ دُونَهُ، وَهُوَ یَبْكِی وَیَقُولُ: أَتَقْتُلُونَ رَجُلًا أَنْ یَقُولَ رَبِّی اللَّهُ؟

راوی کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس کلام کاایسااثرہواکہ قریش سکتہ کی حالت میں ہوگئے اوروہ شخص جوان میں زیادہ گفتگوکررہاتھاوہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سےنرمی سے باتیں کرنالگا اے ابوالقاسم !اللہ کی قسم !آپ جاہل تونہیں آپ بخیریت تشریف لے جائیں ،چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے گئے،پھردوسرے روزیہ لوگ حجراسودکے پاس بیت اللہ میں اکٹھے ہوئے اورمیں وہیں پرتھاان میں سے بعض نے بعض سے کہاتمہارا رویہ ان سے اور اس نے تم کو کیسا ڈانٹا اس کی ایک دھمکی میں تم نے اس کا پیچھا چھوڑ دیا،اسی اثناء میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وہاں تشریف لائےتو آپ کو دیکھتے ہی سب کے سب یکبارگی کود پڑےاورچاروں اطراف سے گھیر لیااورکہنے لگےتم ہی ایسااورایساکہتے ہواور ہمارے معبودوں اورہمارے دین میں عیب جوئی کرتے ہو، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاہاں میں یہ سب کہتاہوں ،راوی کہتے ہیں میں نے دیکھاکہ ان میں سے ایک شخص ( عقبہ بن ابی معیط) نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو گلے سے پکڑلیا،سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ آپ کوچھڑانے کے لئے اٹھے اورروتے ہوئے کہاکیاتم ایک آدمی کواس لئے قتل کرناچاہتے ہوکہ وہ کہتاہے کہ میرارب اللہ ہے، تب قریش آپ صلی اللہ علیہ وسلم کوچھوڑکرچلے گئے۔[23]

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کابیان ہے کہ مسندایویعلی اورمسندالبزارمیں صحیح سندکے ساتھ انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے

عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ: لَقَدْ ضَرَبُوا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مَرَّةً حَتَّى غُشِیَ عَلَیْهِ فَقَامَ أَبُو بَكْرٍ فَجَعَلَ یُنَادِی وَیْلَكُمْ أَتَقْتُلُونَ رجلا ان یَقُول رَبِّی الله، فَتَرَكُوهُ وَأَقْبَلُوا عَلَى أَبِی بَكْرٍ

ایک دفعہ مشرکین نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کواتناماراکہ آپ بے ہوش ہوگئے ، سیدناابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ آئے انہیں لعن طعن کی اورفرمایاتم تباہ وبربادہوجاؤ!کیاتم ایک شخص کومحض اس لیے قتل کررہے ہوکہ وہ کہتاہے میرارب اللہ ہے ؟ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوتوچھوڑدیامگرسیدناابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ پرٹوٹ پڑے۔[24]

عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ أَبِی بَكْرٍ، فَأَتَى الصَّرِیخُ إِلَى أَبِی بَكْرٍ، فَقِیلَ: أَدْرِكْ صَاحِبَكَ: فَخَرَجَ مِنْ عِنْدِنَا وعلیه غدائر أربع، فخرج وهو یقول: أَتَقْتُلُونَ رَجُلًا أَنْ یَقُولَ: رَبّی اللهَ؟ فَلَهَوْا عَنْهُ وَأَقْبَلُوا عَلَى أَبِی بَكْرٍ فَرَجَعَ إِلَیْنَالَا نمس شَیْئًا مِنْ غَدَائِرِهِ إِلَّا رجع معنا

اوراسماء بنت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی روایت میں یوں ہےسیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس کوئی بلانے والا آیااورکہنے لگااپنے دوست کوجاکرچھڑاؤ،چنانچہ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ فوراًگھرسے نکل بھاگے ان کے بال چارلٹوں میں بٹے ہوئے تھے وہاں پہنچ کرکہنے لگے کیاتم ایک آدمی کواس لئے قتل کرتے ہوکہ وہ کہتاہے میرارب اللہ ہے؟یہ سنتے ہی انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوتوچھوڑدیا اورسیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ سے لپٹ گئے،اوران کواتنازدوکوب کیااوران کے اس قدربال کھینچے کہ جب ہم ان کے بالوں کوہاتھ لگاتی تھیں تووہ ہمارے ہاتھ میں آجاتے تھے۔[25]

عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَیْرِ، قَالَ: سَأَلْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَمْرٍو، عَنْ أَشَدِّ مَا صَنَعَ المُشْرِكُونَ بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: رَأَیْتُ عُقْبَةَ بْنَ أَبِی مُعَیْطٍ، جَاءَ إِلَى النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ یُصَلِّی،فَوَضَعَ رِدَاءَهُ فِی عُنُقِهِ فَخَنَقَهُ بِهِ خَنْقًا شَدِیدًا، فَجَاءَ أَبُو بَكْرٍ حَتَّى دَفَعَهُ عَنْهُ، فَقَالَ: {أَتَقْتُلُونَ رَجُلًا أَنْ یَقُولَ رَبِّیَ اللَّهُ، وَقَدْ جَاءَكُمْ بِالْبَیِّنَاتِ مِنْ رَبِّكُمْ} [26]

عروہ رضی اللہ عنہ بن زبیر سے مروی ہےمیں نے ایک مرتبہ عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے پوچھاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوقریش کی طرف سے سب سے سخت تکلیف کونسی پہنچی ہے؟وہ بولے ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حطیم میں نمازپڑھ رہے تھے کہ عقبہ بن ابی معیط نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی گردن مبارک میں کپڑا ڈال کراس زورسے گلاگھونٹاکہ اگربروقت امدادنہ ملتی توآپ کی زندگی خطرے میں پڑجاتی،سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ آئے اورعقبہ کوکندھوں سے پکڑکرپیچھے کھینچا اور کہا’’کیاتم ایک آدمی کواس لئے قتل کرتے ہوجوکہتاہے میرارب اللہ ہےاوروہ تمہارے رب کے پاس سے اپنی سچائی کے لئے روشن دلائل بھی ساتھ لایاہے۔‘‘[27]

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ كَانَ یُصَلِّی عِنْدَ البَیْتِ، وَأَبُو جَهْلٍ وَأَصْحَابٌ لَهُ جُلُوسٌ، إِذْ قَالَ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ: أَیُّكُمْ یَجِیءُ بِسَلَى جَزُورِ بَنِی فُلاَنٍ، فَیَضَعُهُ عَلَى ظَهْرِ مُحَمَّدٍ إِذَا سَجَدَ؟ فَانْبَعَثَ أَشْقَى القَوْمِ فَجَاءَ بِهِ، فَنَظَرَ حَتَّى سَجَدَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، وَضَعَهُ عَلَى ظَهْرِهِ بَیْنَ كَتِفَیْهِ، وَأَنَا أَنْظُرُ لاَ أُغْنِی شَیْئًا، لَوْ كَانَ لِی مَنَعَةٌ، قَالَ: فَجَعَلُوا یَضْحَكُونَ وَیُحِیلُ بَعْضُهُمْ عَلَى بَعْضٍ

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہےایک دفعہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خانہ کعبہ میں نمازپڑھ رہے تھے اورابوجہل کفارکی ایک جماعت میں بیٹھاہواتھاان میں سے ایک نے کہاکیاتم اس ریاکارکودیکھتے نہیں ؟کیسے دکھاوے کی نماز پڑھ رہا ہے،کوئی ہے جوآل فلاں کے گھرجائے اورخون میں لت پت اونٹ کی اوجھڑی اوراس کی جیراٹھالائے اورجب یہ سجدہ میں جائے تواس کے کندھوں کے درمیان رکھ دے؟قریش کاایک بدبخت انسان اٹھااورجب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سجدہ کیا تواس نے آپ کے صلی اللہ علیہ وسلم کے کندھوں کے درمیان رکھ دیااورمشرکین ہنسنے لگے،اورہنستے ہنستے ایک دوسرے پرگرنے لگے

وَأَنَا قَائِمٌ أَنْظُرُ،لَوْ كَانَتْ لِی مَنَعَةٌ طَرَحْتُهُ عَنْ ظَهْرِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّم،وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ سَاجِدٌ لاَ یَرْفَعُ رَأْسَهُ، حَتَّى جَاءَتْهُ فَاطِمَةُ، فَطَرَحَتْ عَنْ ظَهْرِهِ، فَرَفَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ رَأْسَهُ، ثُمَّ أَقْبَلَتْ عَلَیْهِمْ تَشْتِمُهُمْ،ثُمَّ قَالَ:اللَّهُمَّ عَلَیْكَ بِقُرَیْشٍ. ثَلاَثَ مَرَّاتٍ، فَشَقَّ عَلَیْهِمْ إِذْ دَعَا عَلَیْهِمْ، قَالَ: وَكَانُوا یَرَوْنَ أَنَّ الدَّعْوَةَ فِی ذَلِكَ البَلَدِ مُسْتَجَابَةٌ، ثُمَّ سَمَّى:اللَّهُمَّ عَلَیْكَ بِأَبِی جَهْلٍ، وَعَلَیْكَ بِعُتْبَةَ بْنِ رَبِیعَةَ، وَشَیْبَةَ بْنِ رَبِیعَةَ، وَالوَلِیدِ بْنِ عُتْبَةَ، وَأُمَیَّةَ بْنِ خَلَفٍ، وَعُقْبَةَ بْنِ أَبِی مُعَیْطٍ

میں کھڑا کھڑایہ سب کچھ دیکھ رہاتھالیکن بے بس تھا کاش مجھ میں طاقت ہوتی اورمیں اس کوآپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کندھوں سے اتارپھینکتا،کسی نے جاکرفاطمہ رضی اللہ عنہا بنت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو اس حادثہ کی خبر دی،وہ دوڑتی ہوئی آئیں ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بد ستورسجدے میں تھے،بوجھ کی وجہ سے سرنہیں اٹھاسکتے تھے،فاطمہ رضی اللہ عنہا نے اس گندگی کوآپ کی پیٹھ مبارک سے اتار پھینکا،پھران کوبرابھلاکہنے لگیں ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نمازسے فارغ ہوکردعاکے لئے ہاتھ اٹھائے اور بلند آوازسے ان کے حق میں یوں بددعاکی ،آپ کامعمول تھاکہ دعاکرتے توتین دفعہ دعاکرتے اورجب سوال کرتے توتین مرتبہ سوال کرتے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بارگاہ الٰہی میں عرض کیاالٰہی!قریش کو پکڑلے،الٰہی!عمروبن ہشام،عتبہ بن ربیعہ،ولیدبن عتبہ ، امیہ بن خلف،عقبہ بن ابی معیط اورعمارہ بن ولید کو پکڑلے،

فَوَالَّذِی بَعَثَ مُحَمَّدًا صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بِالْحَقِّ،لَقَدْ رَأَیْتُ الَّذِینَ سَمَّى صَرْعَى یَوْمَ بَدْرٍ، ثُمَّ سُحِبُوا إِلَى الْقَلِیبِ قَلِیبِ بَدْرٍ

عبداللہ کہتے ہیں اللہ کی قسم جس نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کوحق کے ساتھ مبعوث فرمایامیں نے غزوہ بدرمیں ان سب کوقتل ہوئے پڑے دیکھاہے،سخت دھوپ کی وجہ سے ان کے رنگ سیاہ پڑگئے تھے،پھرانہیں گھسیٹ کربدرکے کنوئیں میں ڈالاگیا ۔[28]

خط کشیدہ الفاظ صحیح مسلم میں ہیں ۔

وَطْءُ عُقْبَةَ بْنِ أَبِی مُعَیْطٍ عَلَى رَقَبَتِهِ وَهُوَ سَاجِدٌ عِنْدَ الْكَعْبَةِ حَتّى كَادَتْ عَیْنَاهُ تَبْرُزَانِ

ایک دن جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سجدے کی حالت میں تھے عقبہ بن ابی معیط نے جوآپ کاہمسایہ تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی گردن مبارک پراپناپاؤں رکھ دیااوراس زورسے دبایاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھیں مبارک باہرنکل آئیں ۔[29]

عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَیْرِ، قَالَ:لَمَّا نَثَرَ ذَلِكَ السَّفِیهُ عَلَى رَأْسِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ ذَلِكَ التُّرَابَ ، دَخَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بَیْتَهُ وَالتُّرَابُ عَلَى رَأْسِهِ، فَقَامَتْ إلَیْهِ إحْدَى بَنَاتِهِ، فَجَعَلَتْ تَغْسِلُ عَنْهُ التُّرَابَ وَهِیَ تَبْكِی وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَقُولُ لَهَا:لَا تَبْكِی یَا بُنَیَّةِ، فَإِنَّ اللَّهَ مَانِعٌ أَبَاكَ،وَیَقُولُ بَیْنَ ذَلِكَ: مَا نَالَتْ مِنِّی قُرَیْشٌ شَیْئًا أَكْرَهُهُ، حَتَّى مَاتَ أَبُو طَالِبٍ

عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں ایک مرتبہ قریش کے ایک بدبخت شخص نے سامنے آ کر آپ کے سرمبارک پرمٹی ڈال دی،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسی حالت میں کہ سر پر مٹی پڑی تھی گھر تشریف لائے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک لڑکی نے اٹھ کرمٹی دھوئی اور سر دھوتے ہوئے اس تحقیر پر روتی جا رہی تھی جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں تسلی وتشفی دیتے ہوئے فرماتے جارہے تھے بیٹی!روؤنہیں اللہ تعالیٰ تمہارے باپ کی حفاظت فرمائے گا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایاقریش نے میرے ساتھ کوئی ایسی بدسلوکی نہ کی جومجھے ناگوار گزری ہویہاں تک کہ ابوطالب کاانتقال ہوگیا۔[30]

مشرکین آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دروازے پرخون اورخون سے لت پت اوجھڑی ڈال دیتے تھے ،بعض لوگ نماز کی حالت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم پربکری کے بچہ دانی پھینک دیتے تھے ،بعض لوگ جب آپ کی ہانڈی وغیرہ پکنے کے لئے چولہے پرہوتی تواس میں ڈال دیتے، کیونکہ یہ سارا سال ہی مصائب وآلام میں کٹاتھااس لئے اس سال کانام ہی عام الحزن یعنی غم کاسال رکھ دیاگیااوراسی نام سے یہ سال مشہورہوگیا۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کوبھی ظلم وستم کانشانہ بنایاجاتاتھا

الْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ، قَالَ: لَقِیَهُ سَفِیهٌ مِنْ سُفَهَاءِ قُرَیْشٍ، وَهُوَ عَامِدٌ إلَى الْكَعْبَةِ، فَحَثَا عَلَى رَأْسِهِ تُرَابًا. قَالَ: فمرَّ بِأَبِی بَكْرٍ الْوَلِیدُ بْنُ الْمُغِیرَةِ، أَوْ الْعَاصُ بْنُ وَائِلٍ. قَالَ: فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ: أَلَا تَرَى إلَى مَا یَصْنَعُ هَذَا السَّفِیهُ؟ قَالَ: أَنْتَ فعلتَ ذَلِكَ بِنَفْسِكَ. قَالَ: وَهُوَ یَقُولُ: أَیْ رَبِّ، مَا أَحْلَمَكَ! أَیْ رَبِّ، مَا أَحْلَمَكَ! أَیْ رب، ما أحلمك!

قاسم بن محمد سے روایت ہےایک مرتبہ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ خانہ کعبہ کی طرف جارہے تھے کہ راستے میں قریش کے ایک احمق نے ان کے سرپرمٹی ڈال دی،اس وقت ولیدبن مغیرہ اورعاص بن وائل بھی بازارمیں گزررہے تھے،سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ان سے کہاآپ دیکھتے نہیں اس بیوقوف نے کیاکیاہے؟ وہ بولےاس نے کچھ نہیں کیاہے یہ سب کچھ اپنے ساتھ تم نے خودکیاہے،سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ بولے الٰہی !توکتناحوصلے والاہے ،الٰہی توکتناحوصلے والاہے،الٰہی توکتناحوصلے والاہے۔[31]

عَنْ خَبَّابٍ، قَالَ:أَتَیْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ مُتَوَسِّدٌ بُرْدَهُ فِی ظِلِّ الْكَعْبَةِ وَقَدْ لَقِینَا مِنَ الْمُشْرِكِینَ شِدَّةً شَدِیدَةً ، فَقُلْتُ: یَا رَسُولَ اللَّهِ أَلَا تَدْعُو اللَّهَ لَنَا؟فَقَعَدَ وَهُوَ مُحْمَرٌّ وَجْهُهُ فَقَالَ:إِنْ كَانَ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ لَیُمْشَطُ أَحَدُهُمْ بِأَمْشَاطِ الْحَدِیدِ مَا دُونَ عَظْمِهِ مِنْ لَحْمٍ أَوْ عَصَبٍ مَا یَصْرِفُهُ ذَلِكَ عَنْ دِینِهِ، وَیُوضَعُ الْمِنْشَارُ عَلَى مَفْرِقِ رَأْسِهِ فَیُشَقُّ بِاثْنَیْنِ مَا یَصْرِفُهُ ذَلِكَ عَنْ دِینِهِ، وَلَیُتِمَّنَّ اللَّهُ هَذَا الْأَمْرَ حَتَّى یَسِیرَ الرَّاكِبُ مَا بَیْنَ صَنْعَاءَ إِلَى حَضْرَمَوْتَ، لَا یَخْشَى إِلَّا اللَّهَ وَالذِّئْبَ عَلَى غَنَمِهِ،وَلَكِنَّكُمْ تَسْتَعْجِلُونَ

خباب رضی اللہ عنہ سے مروی ہےمیں ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضرہوااس وقت آپ خانہ کعبہ کے سائے میں اپنی چادرپرسررکھ کرلیٹے ہوئے تھے اورہمیں کفار کی طرف سے بڑی تکالیف پہنچی تھی،میں نے کہااے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ اللہ تعالیٰ سے دعانہیں کرتے ؟ آپ اٹھ کربیٹھ گئے ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کاچہرہ انورغصہ سے سرخ ہوگیااورفرمایاتم سے پہلے لوگوں کے بدن پرلوہے کی کنگھیاں چلائی جاتی تھیں اور گوشت پوست اتارکرہڈیاں ننگی کردی جاتی تھیں مگراس قسم کا انتہائی ظلم بھی ان کوراہ حق سے برگشتہ نہیں کرسکتاتھا، ان کے سروں پرآرارکھ کردوٹکڑوں میں چیردیاجاتاتھا مگراس قسم کاانتہائی ظلم بھی ان کوراہ حق سے برگشتہ نہیں کرسکتاتھا، اللہ کی قسم !یہ دین پوراہوکررہے گا اورایک وقت آئے گاکہ ایک آدمی صنعاء سے حضرموت تک چلے گااوراس کوراستے میں اللہ کے ڈریااپنی بکریوں پربھیڑیئے کے ڈرکے سواکوئی ڈرنہیں ہوگا مگرتم لوگ جلدی کرتے ہو۔[32]

ام المومنین سودہ رضی اللہ عنہا بنت زمعہ سے شادی

سودہ رضی اللہ عنہا بنت زمعہ جولمبے قداوربھاری جسم کی عورت تھیں ،اس وجہ سے تیزی کے ساتھ چل پھرنہیں سکتی تھیں ،

إنما كانت سودة زوجا لرجل من السابقین إلى الإسلام الذین احتملوا فی سبیله الأذى والذین هاجروا إلى الحبشة بعد أن أمرهم النبیّ بالهجرة وراء البحر إلیها

وہ اوران کے شوہر سکران بن عمرو دعوت اسلام کے ابتدائی دورمیں ہی مسلمان ہوگئے تھے ،قریش کے ظلم وستم سے مجبورہوکر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اجازت سےاپنے دین کی حفاظت کے لئے دوسری ہجرت حبشہ میں دونوں میاں بیوی نے وطن کو خیرآباد کہہ دیاتھا۔[33]

وَالسَّكْرَانُ بْنُ عَمْرِو بْنِ عَبْدِ شَمْسٍ، مَعَهُ امْرَأَتُهُ سَوْدَةُ بِنْتُ زَمْعَةَ بْنِ قَیْسٍ، مَاتَ بِمَكَّةَ قَبْلَ هِجْرَةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ

اورسکران بن عمروبن عبدشمس نے اپنی زوجہ سودہ بنت زمعہ بن قیس کے ساتھ حبشہ ہجرت کی ،سکران کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت مدینہ منورہ سے قبل مکہ مکرمہ انتقال ہوگیا۔[34]

ایک روایت میں ہےحبشہ سے واپس آکران کاشوہرجنگ جلولامیں شہادت پاچکاتھا ،

مگرموسی بن عقبہ ،ابومعشراورزبیرکاقول ہے کہ انہوں نے حبشہ میں وفات پائی،

السكران بْن عمرو بْن عبد شمس ابن عبد ود بْن نصر بْن مالك بْن حسل بْن عامر بْن لؤی أخو سهیل بْن عمرو، وهو من مهاجرة الحبشة، هاجر إلیها ومعه امرأته سودة بنت زمعة، وتوفی هناك

سکران بن عمروبن عبدشمس ابن وبدود نے اپنی اہلیہ سودہ بنت زمعہ کے ساتھ حبشہ کی طرف ہجرت کی اوروہیں حبشہ میں ہی وفات پائی۔[35]

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کےگھرباراوربال بچوں کاانتظام سب ام المومنین خدیجہ رضی اللہ عنہا کی ذمہ داری تھی،اس کے علاوہ وہ ہرمشکل وقت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی غم خواری اورغم گساری کیا کرتی تھیں اس لئے ان کے انتقال کے بعدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نہایت پریشان وغمگین تھے،

جَاءَتْ خَوْلَةُ بِنْتُ حَكِیمِ بْنِ الأَوْقَصِ السُّلَمِیَّةُ امْرَأَةُ عُثْمَانَ بْنِ مَظْعُونٍ إِلَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فقالت: یَا رَسُولَ اللَّهِ كَأَنِّی أَرَاكَ قَدْ دَخَلَتْكَ خَلَّةٌ لِفَقْدِ خَدِیجَةَ، فَقَالَ: أَجَلْ. كَانَتْ أُمَّ الْعِیَالِ وَرَبَّةَ الْبَیْتِ، قَالَتْ: أَفَلا أَخْطِبُ عَلَیْكَ؟قَالَ: بَلَى فَإِنَّكُنَّ مَعْشَرَ النِّسَاءِ أَرْفَقُ بِذَلِكَ، ثُمَّ انْطَلَقْتُ إِلَى سَوْدَةَ بِنْتِ زَمْعَةَ وَأَبُوهَا شَیْخٌ كَبِیرٌ، قَدْ جَلَسَ عَنِ الْمَوْسِمِ،قَالَتْ: فَحَیَّیْتُهُ بِتَحِیَّةِ أَهْلِ الْجَاهِلِیَّةِ، وَقُلْتُ: أَنْعِمْ صَبَاحًا قَالَ: مَنْ أَنْتِ، قَالَتْ: قُلْتُ خَوْلَةُ بِنْتُ حَكِیمٍ

یہ حالت دیکھ کرعثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ کی بیوی خولہ رضی اللہ عنہا بنت حکیم نے خدمت میں عرض کیاکیاآپ کوکسی مونس ورفیق کی ضرورت ہے؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں ،وہ میرے بچوں کی ماں اورگھرکی رکھوالی کرنے والی تھیں ،انہوں نے عرض کیاکہ کیامیں آپ کی طرف سے کسی کوپیغام نکاح دوں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکیوں نہیں ضرور تم عورتیں اس معاملہ کوزیادہ سمجھتی ہو،چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت حاصل کرکے وہ سودہ رضی اللہ عنہا بنت زمعہ کے گھر گئیں اوران کے والدبہت بوڑھے ہوچکے تھے،جب وہ ان کے گھرمیں داخل ہوئیں توانہیں جاہلیت کے طریقہ پرسلام کیاصبح بخیر،انہوں نے کہاتم کون ہو؟میں نے جواب دیا میں خولہ بنت حکیم ہوں ،

قَالَتْ: فَرَحَّبَ بِی وَقَالَ: مَا شَاءَ اللهُ أَنْ یَقُولَ، قَالَتْ قُلْتُ محمد بن عبد الله بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ یَذْكُرُ سَوْدَةَ بِنْتَ زَمْعَةَ، قَالَ: كُفُؤٌ كَرِیمٌ مَاذَا تَقُولُ صَاحِبَتُكِ قَالَتْ: قُلْتُ تُحِبُّ ذَاكَ قَالَ: قُولِی لَهُ فَلْیَأْتِ ، قَالَتْ: فَجَاءَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى الله علیه وآله وَسَلَّمَ، فَمَلَكَهَا وَأَصْدَقَهَا رَسُولُ الله صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَربع مائَة دِرْهَمٍ

یہ سن کروہ خوش ہوئے اورپوچھاکیسے آناہوا؟انہوں نے فرمایامحمدبن عبداللہ بن عبدالمطلب نے سودہ بنت زمعہ کے لیے نکاح کاپیغام بھیجاہے،انہوں نے جواب دیاہاں محمدشریف کفوہیں لیکن سودہ رضی اللہ عنہا سے دریافت کر لو، سودہ رضی اللہ عنہا نے یہ پیغام قبول کرلیاالغرض تمام معاملات طے پاگئے،جب سودہ رضی اللہ عنہا کی عدت ختم ہوئی تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے گھر تشریف لے گئے ، سودہ رضی اللہ عنہا کے والدنے انہیں آپ کے نکاح میں دے دیا اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےچارسودرہم مہرادافرمایا

قَالَتْ وَقَدِمَ عَبْدُ بْنُ زَمْعَةَ فَجَعَلَ یَحْثِی عَلَى رَأْسِهِ التُّرَابَ، وَقَالَ بَعْدَ أَنْ أَسْلَمَ: لَعَمْرُكَ إِنِّی لَسَفِیهٌ یَوْمَ أَحْثِی عَلَى رَأْسِی التُّرَابَ أَنْ تَزَوَّجَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى الله علیه وآله وَسَلَّمَ سَوْدَةَ بِنْتَ زَمْعَةَ

نکاح کے بعد سودہ رضی اللہ عنہا کے بھائی عبداللہ بن زمعہ جوابھی ایمان نہیں لائے تھے کو جب نکاح کاعلم ہواتوسرپرخاک ڈال لی مگراسلام قبول کرنے کے بعد اپنی اس حماقت پرافسوس کرتے رہے۔[36]

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ:كَانَتْ سَوْدَةُ بِنْتُ زَمْعَةَ عِنْدَ السَّكْرَانِ بْنِ عَمْرٍو أَخِی سُهَیْلِ بْنِ عَمْرٍو فَرَأَتْ فِی الْمَنَامِ كَأَنَ النَّبِیَّ صَلَّى اللَّهُ علیه وسلم أقبل یمشی حتى وطیء عَلَى عُنُقِهَا، فَأَخْبَرَتْ زَوْجَهَا بِذَلِكَ،فَقَالَ: وَأَبِیكَ لَئِنْ صَدَقَتْ رُؤْیَاكِ لأَمُوتَنَّ وَلَیَتَزَوَّجَنَّكِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ ،

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے نکاح سے قبل سودہ رضی اللہ عنہا سکران رضی اللہ عنہ بن عمروکے نکاح میں تھیں جو سہیل بن عمروکے بھائی تھے توانہوں نے ایک خواب دیکھاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سامنے سے تشریف لارہے ہیں اورآکران کی گردن کوچھواہے، یہ خواب انہوں نے اپنے خاوندسے بیان کیاتوانہوں نے فرمایااگرتمہارایہ خواب سچاہے تواس کی تعبیریہ ہے کہ میراانتقال ہوجائے گااورتمہارانکاح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہوگا،

ثُمَّ رَأَتْ فِی الْمَنَامِ لَیْلَةً أُخْرَى أَنَّ قَمَرًا انْقَضَّ عَلَیْهَا مِنَ السَّمَاءِ وَهِیَ مُضْطَجِعَةٌ، فَأَخْبَرَتْ زَوْجَهَافَقَالَ:وَأَبِیكِ لَئِنْ صَدَقَتْ رُؤْیَاكِ لَمْ أَلْبَثْ إِلا یسیرا حتى أموت وتزوجین مِنْ بَعْدِی، فَاشْتَكَى السَّكْرَانُ مِنْ یَوْمِهِ ذَلِكَ فَلَمْ یَلْبَثْ إِلا قَلِیلا حَتَّى مَاتَ، وَتَزَوَّجَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ

اسی طرح ایک مرتبہ پھرخواب میں دیکھاکہ وہ سوئی ہوئی ہیں اورچاندان کے اوپرٹوٹ کرگراہے،یہ خواب بھی انہوں نے اپنے شوہرکوبتایاانہوں نے کہاکہ اگرتمہاراخواب سچاہے تواس کی تعبیریہ ہوگی کہ میں عنقریب انتقال کرجاؤں گا،چنانچہ اسی روزسکران بیمارہوئے اورکچھ دن بعدان کاانتقال ہوگیااورپھرسودہ بنت زمعہ کی شادی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہوگئی۔[37]

فَكَانَتْ أَوَّلَ امْرَأَةٍ تَزَوَّجَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بَعْدَ خَدِیجَةَ

ام المومنین خدیجہ رضی اللہ عنہا کے بعدسب سے پہلانکاح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاانہی سے ہوا۔[38]

أَطْعَمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ سَوْدَةَ بِنْتَ زَمْعَةَ بِخَیْبَرَ ثَمَانِینَ وَسْقًا تَمْرًا وَعِشْرِینَ وَسْقًا شَعِیرًا

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ام المومنین سودہ بنت زمعہ رضی اللہ عنہا کوخیبرکے مال غنیمت میں سے اسی وسق کھجوریں اوربیس وسق جویاگندم دیئے۔[39]

 أَبَا هُرَیْرَةَ یَقُولُ:قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ . حِینَ رَجَعَ مِنْ حِجَّةِ الْوَدَاعِ: هَذِهِ فِی ظُهُورَ الْحُصْرِ] . قَالَ صَالِحٌ: وَكَانَتْ سَوْدَةُ تَقُولُ لا أَحُجُّ بعدها أبدا

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےحجة الوداع سے واپسی پررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایاکہ یہ حج ظہورحضرہے یعنی اس حج کے بعدمیری ازواج مطہرات اپنے گھروں کولازم پکڑیں اورسفراختیارنہ کریں ،اسی بناپرام المومنین سودہ رضی اللہ عنہا فرمایاکرتی تھیں کہ میں اس کے بعداب کوئی حج نہیں کروں گی ۔

عَنْ ابْنِ سِیرِینَ قَالَ: قَالَتْ سَوْدَةُ حَجَجْتُ وَاعْتَمَرْتُ فَأَنَا أَقَرُّ فِی بَیْتِی كَمَا أَمَرَنِی اللَّهُ. عَزَّ وَجَلَّ

ابن سیرین کہتے ہیں ام المومنین سودہ رضی اللہ عنہا نے فرماتی تھیں کہ میں نے حج اورعمرہ کرلیاہے لہذااب میں اپنے گھرپرہی رہوں گی جیساکہ اللہ عزوجل کاحکم ہے۔[40]

أَنَّ سَوْدَةَ بِنْتَ زُمْعَةَ وَهَبَتْ یَوْمَهَا لِعَائِشَةَ وَكَانَ النَّبِیُّ صَلَّى اللَّهُ تَعَالَى عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَقْسِمُ لِعَائِشَةَ بِیَوْمِهَا ویوم سودة

جب ام المومنین سودہ رضی اللہ عنہا بہت بوڑھی ہوگئیں توانہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رضا کی خاطر اپنی باری کادن ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کوہبہ کردیا اس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے ہاں دودن گزارتے تھے ایک دن عائشہ رضی اللہ عنہا کااورایک دن سودہ رضی اللہ عنہا کا۔[41]

ام المومنین سودہ رضی اللہ عنہا کاجودوسخااورفیاضی میں ایک خاص مقام تھا،ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے علاوہ وہ اس وصف میں سب سے ممتازتھیں ،انہیں درہم ودینارکوئی کوئی محبت نہ تھی جوکچھ آتاتھااس کواللہ کی راہ میں خرچ کردیتی تھیں ،

عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عمر أن عمر بن الْخَطَّابِ بَعَثَ إِلَى سَوْدَةَ بِنْتِ زَمْعَةَ بِغَرَارَةٍ من دراهم فقالت: مَا هَذَهِ؟قَالُوا: دَرَاهِمُ. قَالَتْ: فِی الْغِرَارَةِ مغل التَّمْرِ. یَا جَارِیَةُ بَلِّغِینِی الْقِنْعَ. قَالَ: فَفَرَقَتْهَا.

محمدبن عمرسے روایت ہےایک مرتبہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ بن خطاب نے آپ کی خدمت میں درہموں سے بھری ہوئی ایک تھیلی بھیجی،لانے والے سے پوچھااس میں کیاہے؟انہوں نے کہادرہم،فرمانے لگیں کھجورکی طرح درہم بھی اب تھیلی میں بھیجے جانے لگے؟ پھراپنی باندی سے فرمایاکہ تھال لے کرآؤاورپھروہ سارے کے سارے درہم اللہ کی راہ میں تقسیم کردیے۔[42]

ام المومنین سودہ رضی اللہ عنہا کی طبیعت میں ظرافت ومزاح کاعنصربھی تھاکبھی کبھی اس اندازسے چلتیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہنس پڑتے،

الأَعْمَشُ عَنْ إِبْرَاهِیمَ قَالَ: قَالَتْ سَوْدَةُ لِرَسُولِ الله. ص: صَلَّیْتُ خَلْفَكَ الْبَارِحَةَ فَرَكَعْتَ بِی حَتَّى أَمْسَكْتُ بِأَنْفِی مَخَافَةَ أَنْ یَقْطُرَ الدَّمُ، قَالَ: فَضَحِكَ. وَكَانَتْ تُضْحِكُهُ الأَحْیَانَ بِالشَّیْءِ

اعمش ابراہیم سے نقل کرتے ہیں ام المومنین سودہ رضی اللہ عنہا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیاکہ گزشتہ رات میں نے آپ کے پیچھے نمازپڑھی ،جب آپ نے اس قدردیرتک رکوع کیاکہ مجھے نکسیرپھوٹنے کاشبہ ہوگیااس لیے میں دیرتک اپنی ناک پکڑے رہی،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی بات سن کرمسکرادیئے۔[43]

تُوُفِّیَتْ سَوْدَةُ بِنْتُ زَمْعَةَ بِالْمَدِینَةِ فِی شَوَّالٍ سَنَةَ أَرْبَعٍ وَخَمْسِینَ فِی خِلافَةِ مُعَاوِیَةَ بْنِ أَبِی سُفْیَانَ

ام المومنین سودہ بنت زمعہ رضی اللہ عنہا کی وفات مدینہ منورہ میں شوال ۵۴ہجری میں امیرمعاویہ بن ابوسفیان رضی اللہ عنہما کے عہدخلافت میں ہوئی۔[44]

[1] عیون الاثر۱۵۱؍۱،ابن ہشام۴۱۶؍۱، دلائل النبوة للبیہقی۳۵۲؍۲،السیر والمغازی لابن اسحاق۲۴۳؍۱

[2] الاستیعاب فی معرفة الأصحاب ۱۸۱۹؍۴، ابن ہشام۲۴۰؍۱،عیون الاثر۱۱۰؍۱

[3] المحبر۱۱؍۱

[4] الاستیعاب فی معرفة الأصحاب۳۷؍۱

[5] الاستیعاب فی معرفة الأصحاب ۳۸؍۱

[6] ابن سعد۱۵؍۸

[7] ابن ہشام۲۴۰؍۱

[8] صحیح بخاری کتاب مناقب الانصار بَابُ تَزْوِیجِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ خَدِیجَةَ وَفَضْلِهَا رَضِیَ اللَّهُ عَنْهَا۳۸۲۰، مسنداحمد۷۱۵۶

[9] مسنداحمد۱۷۵۸،المعجم الکبیرللطبرانی۱۷۶۸،مستدرک حاکم۴۸۴۸،مسندابویعلی۶۷۹۵،مجمع الزوائد ومنبع الفوائد۱۵۲۷۲

[10] ابن ہشام۲۴۱؍۱

[11] زادالمعاد۱۰۲؍۱

[12] الاستیعاب فی معرفة الأصحاب۱۸۲۵؍۴

[13] المختصر الكبیر فی سیرة الرسول صلى الله علیه وسلم ۹۲؍۱، تفسیرالقرطبی۲۴۲؍۱۴

[14] صحیح بخاری کتاب مناقب الانصاربَابُ تَزْوِیجِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ خَدِیجَةَ وَفَضْلِهَا رَضِیَ اللَّهُ عَنْهَا ۳۸۱۵ ، صحیح مسلم کتاب الفضائل بَابُ فَضَائِلِ خَدِیجَةَ أُمِّ الْمُؤْمِنِینَ رَضِیَ اللهُ تَعَالَى عَنْهَا ۶۲۷۱، مسنداحمد۶۴۰

[15] صحیح بخاری کتاب مناقب الانصار بَابُ تَزْوِیجِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ خَدِیجَةَ وَفَضْلِهَا رَضِیَ اللَّهُ عَنْهَا۳۸۲۱

[16] المعجم الکبیر للطبرانی ۲۳

[17] مسنداحمد۲۴۸۶۴

[18] صحیح بخاری کتاب مناقب الانصاربَابُ تَزْوِیجِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ خَدِیجَةَ وَفَضْلِهَا رَضِیَ اللَّهُ عَنْهَا۳۸۱۶

[19]انساب الاشراف للبلاذری۱۷۶،۹۸؍۱

[20] الاستیعاب فی معرفة الأصحاب ۱۸۱۰؍۴،أسد الغابة فی معرفة الصحابة۴۸؍۷، الإصابة فی تمییز الصحابة۸۵؍۸

[21] شعب الایمان۸۷۰۰

[22]ابن ہشام۶۵۲؍۱، الروض الانف ۱۶۳؍۵،سبل الھدی والرشادفی سیرة خیرالعباد۷۱؍۴،حیاة محمدﷺ۱۷۸؍۱

[23] سیرة ابن اسحاق۲۲۹؍۱،ابن ہشام۲۸۹؍۱، الروض الانف۵۴؍۳،دلائل النبوة للبیہقی ۲۷۵؍۲، السیرة الحلیبة۴۱۷؍۱،خاتم النبینﷺ۳ ۵۷؍۱، سبل السلام من صحیح سیرة خیرالانام علیہ الصلاة۱۰۵؍۱، السیرة النبویة لابن کثیر۴۷۱؍۱

[24] فتح الباری ۱۶۹؍۷

[25] امتاع الاسماع۳۷۷؍۱،السیرة الحلبیة۴۱۷؍۱،الرحیق المختوم۸۳؍۱

[26] غافر: 28

[27] صحیح بخاری كتاب أصحاب النبی صلى الله علیه وسلم بَابُ قَوْلِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ لَوْ كُنْتُ مُتَّخِذًا خَلِیلًا۳۶۷۸، وکتاب تفسیر القرآن باب سُورَةُ المُؤْمِنِ ۴۸۱۵

[28] صحیح بخاری کتاب المغازی بَابُ دُعَاءِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عَلَى كُفَّارِ قُرَیْشٍ شَیْبَةَ، وَعُتْبَةَ، وَالوَلِیدِ، وَأَبِی جَهْلِ بْنِ هِشَامٍ، وَهَلاَكِهِمْ۳۹۶۰،وکتاب الوضوباب اذاالقی علی ظھر المصلی ۲۴۰،صحیح مسلم کتاب الجہاد بَابُ مَا لَقِیَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مِنْ أَذَى الْمُشْرِكِینَ وَالْمُنَافِقِینَ۴۶۴۹

[29] الروض الانف ۵۳؍۳

[30] ابن ہشام۴۱۶؍۱، الروض الانف۱۶؍۴، عیون الآثر۱۵۱؍۱

[31] ابن ہشام۳۷۴؍۱،الروض الانف۲۱۴؍۳،سبل الھدی والرشادفی سیرة خیرالعباد۴۱۱؍۲،السیرة الحلبیة ۴۲۷؍۱،السیرة النبوة لابن کثیر۶۶؍۲

[32]صحیح بخاری كِتَابُ المَنَاقِبِ بَابُ عَلاَمَاتِ النُّبُوَّةِ فِی الإِسْلاَمِ۳۶۱۲، مسند احمد ۲۱۰۵۷، صحیح ابن حبان۲۸۹۷،المعجم الکبیرللطبرانی۳۶۴۰،شعب الایمان۱۵۱۷،مسندالحمیدی۱۵۷

[33]حیاة محمد صلی اللہ علیہ وسلم ۲۰۵؍۱

[34] ابن ہشام۳۶۸؍۱

[35] اسدالغابة۵۰۴؍۲

[36] دلائل النبوة للبہیقی۴۱۱؍۲،مسنداحمد۲۵۷۶۹،المعجم الكبیرللطبرانی۴۴۵،مجمع الزوائد ومنبع الفوائد۱۵۷۸۶

[37] ابن سعد۴۵؍۸

[38] ابن سعد ۴۲؍۸، اسدالغابة۱۵۷؍۷

[39] ابن سعد۴۵؍۸

[40] ابن سعد۴۶؍۸

[41] الانوارفی شمائل النبی المختار ۶۷۲؍۱

[42] ابن سعد۴۵؍۸، الإصابة فی تمییز الصحابة۱۹۷؍۸،سیراعلام النبلائ۵۰۹؍۳

[43] ابن سعد۴۴؍۸،الإصابة فی تمییز الصحابة۱۹۷؍۸1

[44] ابن سعد۴۶؍۸

Related Articles