بعثت نبوی کا دسواں سال(عام الحزن )

طائف کاسفر

مشرکین مکہ دعوت اسلام کوسننے اورقبول کرناتوکجاان کی چیرہ دستیاں بڑھتی جارہی تھیں ،جس سے نہ تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم محفوظ تھے اورنہ ہی کوئی مسلمان، چنانچہ

خرج إلى الطائف بعد ذلك بثلاثة أشهر وثمانیة أیام

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ام المومنین خدیجہ رضی اللہ عنہا کی وفات کے تین ماہ آٹھ دن بعدطائف روانہ ہوئے[1]

خرج إلى الطائف بعد موت خدیجة بثلاثة أشهر فی لیال بقین من شوّال سنة عشر ومعه زید بن حارثة

اورمغلطلائی کے نزدیک ام المومنین خدیجہ رضی اللہ عنہا کی وفات کے پورے تین ماہ بعد طائف روانہ ہوئے،ابھی شوال دس نبوی کے چنددن باقی تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ زید رضی اللہ عنہ بن حارثہ تھے۔[2]

فَخَرَجَ إِلَى الطَّائِفِ وَمَعَهُ زَیْدُ بْنُ حَارِثَةَ. وَذَلِكَ فِی لَیَالٍ بَقِینَ مِنْ شَوَّالٍ سَنَةَ عَشْرٍ مِنْ حِینَ نُبِّئَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم زید رضی اللہ عنہ بن حارثہ کے ہمراہ طائف روانہ ہوئے ابھی شوال دس نبوی کے چنددن باقی تھے۔[3]

فخرج ومعه زید بن حارثة إلى الطائف فی شوال سنة عشر من النبوة یلتمس من ثقیف النصر لأنهم كانوا أخواله

یہ دیکھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم ستائیس شوال دس بعثت نبوی (جنوری ،فروری ۶ ۲۰ ء)کوآزادکردہ غلام ہمراہ پاپیادہ غزوان پہاڑپرآبادشہر طائف روانہ ہوئے جوعزیٰ بت کی قدیم عبادت گاہ تھی ،یہ شہرمکہ سے جنوب مشرقی سمت ۶۵میل کے فاصلہ پر واقع ہےاوراپنی سرسبزی وشادابی،عمدہ چراگاہ اوراپنے پھلوں خاص کرانگور، آلو بخارا، انار اورآڑوکی اعلیٰ اقسام وکثرت پیداوارکی وجہ سے مشہورہے تاکہ قبیلہ ثقیف کو دعوت اسلام دیں اوران سے مدد حاصل کر سکیں کیونکہ وہ رشتے میں آپ کے ماموں تھے، راستہ میں جس قبیلہ سے گزرہوتااسے دعوت اسلام پیش کرتے چلے گئے مگرکسی کویہ دعوت قبول کرنے کی توفیق نہ ہوئی۔

لَمَّا انْتَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ إلَى الطَّائِفِ، عَمَدَ إلَى نَفَرٍ مِنْ ثَقِیفٍ، هُمْ یَوْمَئِذٍ سَادَةُ ثَقِیفٍ وَأَشْرَافُهُمْ، وَهُمْ إخْوَةٌ ثَلَاثَةٌ: عَبْدُ یَالَیْلَ بْنُ عَمْرِو بْنِ عُمَیْرٍ، وَمَسْعُودُ بْنُ عَمْرِو بْنِ عُمَیْرٍ، وَحَبِیبُ بْنُ عَمْرِو بْنِ عُمَیْرِ بْنِ عَوْفِ بْنِ عُقْدَةَ بْنِ غِیرَةَ بْنِ عَوْفِ بْنِ ثَقِیفٍ، وَعِنْدَ أَحَدِهِمْ امْرَأَةٌ مِنْ قُرَیْشٍ مِنْ بَنِی جُمَحٍ، فَجَلَسَ إلَیْهِمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَدَعَاهُمْ إلَى اللَّهِ، وَكَلَّمَهُمْ بِمَا جَاءَهُمْ لَهُ مِنْ نُصْرَتِهِ عَلَى الْإِسْلَامِ، وَالْقِیَامِ مَعَهُ عَلَى مَنْ خَالَفَهُ مِنْ قَوْمِهِ فَقَالَ لَهُ أَحَدُهُمْ:هُوَ یَمْرُطُ ثِیَابَ الْكَعْبَةِ إنْ كَانَ اللَّهُ أَرْسَلَكَ

جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم طائف پہنچے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ثقیف کے عمربن عمیرثقفی کے تین بیٹوں اوروہاں کے سرداروں عبدیالیل، مسعود اورحبیب کی مجلس میں تشریف لے گئے اوران میں سے ایک کے پاس بنی جمع کے قبیلہ سے قریش کی ایک عورت بیٹھی ہوئی تھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں دعوت اسلام پیش کی اور انہیں اسلام کی تائید وحمایت سے متعلق بات چیت کی اور مخالف قوم کے مقابلہ میں شانہ بشانہ میراساتھ د و،دونوں عمروڈرے ہوئے تھے اورعدم تحفظ کاشکارتھےاس لیےانہوں نے بھی اس پاکیزہ دعوت کوسننے سے سختی سے انکارکردیا اور استہزا وتمسخرکے لہجے میں یہ الفاظ کہے ،ایک بھائی نے کہاکیااللہ نے کعبہ کاپردہ چاک کرنے کے لئے تجھے نبی بناکربھیجا ہے ؟

وَقَالَ الْآخَرُ: أَمَا وَجَدَ اللَّهُ أَحَدًا یُرْسِلُهُ غَیْرَكَ! وَقَالَ الثَّالِثُ: وَاَللَّهِ لَا أُكَلِّمُكَ أَبَدًا. لَئِنْ كُنْتَ رَسُولًا مِنْ اللَّهِ كَمَا تَقُولُ، لَأَنْتَ أَعْظَمُ خَطَرًا مِنْ أَنْ أَرُدَّ عَلَیْكَ الْكَلَامَ، وَلَئِنْ كُنْتَ تَكْذِبُ عَلَى اللَّهِ، مَا یَنْبَغِی لِی أَنْ أُكَلِّمَكَ. فَقَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مِنْ عِنْدِهِمْ وَقَدْ یئس من خبر ثَقِیفٍ، وَقَدْ قَالَ لَهُمْ فِیمَا ذُكِرَ لِی: إذَا فَعَلْتُمْ مَا فَعَلْتُمْ فَاكْتُمُوا عَنِّی،وَكَرِهَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَنْ یَبْلُغَ قَوْمَهُ عَنْهُ، فَیُذْئِرَهُمْ ذَلِكَ عَلَیْهِ

دوسرے بھائی نے کہا کیا اللہ کواپنی پیغمبری کے لئے تمہارے سوااورکوئی نہیں ملا؟تیسرے بھائی نے کہااللہ کی قسم میں تجھ سے کلام ہی نہیں کروں گا،اگرواقعی اللہ نے تجھے اپنارسول بناکربھیجاہے تو تیرے کلام کوردکرناسخت خطرناک ہے،اوراگرتم اللہ کے رسول نہیں ہوتو پھر قابل خطاب اورلائق التفات نہیں ،جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان لوگوں سے بالکل ناامیدہوگئے توآپ صلی اللہ علیہ وسلم وہاں سے اٹھ کھڑے ہوئے اورصرف اتناکہاتم بھائیوں نے جوکہاسوکہابہرحال اسے پس پردہ ہی رکھنااوراس خیال سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ اگرمیری قوم میری اس ناکامی کوسنے گی توبہت خوش ہوگی۔[4]

اورآپ کے خلاف مزیدکمربستہ ہوئیں گے۔

فأقام بالطائف عشرة أیام لا یدع أحدا من أشرافهم إلا جاءه وكلمه، وأغروا به سفهاءهم وعبیدهم یسبونه ویصیحون به، حتى اجتمع علیه الناس، وقعدوا له صفین على طریقه،فلما مر صَلّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلّمَ بین الصفین جعل لا یرفع رجلیه ولا یضعهما إلا أرضخوهما أی دقوهما بالحجارة حتى أدموا رجلیه صَلّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلّمَ حَتّى اخْتَضَبَتْ نعلاه بالدماء

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دس دن طائف میں قیام پذیررہے اس دوران آپ نے وہاں کے سربرآوردہ معززین سے ملاقات فرمائی اورسب کودعوت اسلام پیش کی مگر کسی نے دعوت اسلام قبول کرنے کے بجائے طائف کے اوباش اوربازاری لڑکوں کوشہ دے دی، چنانچہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے واپسی کاارادہ فرمایاتویہ اوباش اوربازاری لڑکے گالیاں دیتے ، تالیاں پیٹتے اورشورمچاتے آپ کے پیچھے چل پڑے شوروشغب سن کرایک جم غفیرجمع ہوگیا،پھرمعاملہ آگے بڑھا اور راستے میں دوصفوں کی صورت میں بیٹھ گئے، جب سیدالامم،رحمة للعالمین،سیدالکونین صلی اللہ علیہ وسلم واپسی کے لیے صفوں کے درمیان سے گزرے تو قدم اٹھانے اور رکھنے کی صورت میں ان بدبختوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں پر اس قدر پتھربرسائے کہ آپ کے قدموں سے خون جاری ہوگیا یہاں تک کہ آپ کے جوتے خون میں تربتر ہو گئے،

وَزَیْدُ بْنُ حَارِثَةَ یَقِیهِ بِنَفْسِهِ، حَتَّى لَقَدْ شُجَّ فِی رَأْسِهِ شِجَاجًا، أَنَّهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ كَانَ إِذَا أَذْلَقَتْهُ الحجارة، قعد إلى الأرض فیأخذون بعضدیه فَیُقِیمُونَهُ، فَإِذَا مَشَى رَجَمُوهُ وَهُمْ یَضْحَكُونَ

زید رضی اللہ عنہ بن حارثہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پتھروں سے بچانے کے لئے آپ کے آڑے آتےاس لئے ان کے سر میں بھی کئی جگہ چوٹ آئی، جب آپ زخموں کی تکلیف پربیٹھ جاتے تویہ بدبخت آپ کے بازوپکڑکردوبارہ پتھر برسانے کے لئے کھڑاکردیتے اورآپ کی حالت پرقہقہے لگاتے،

الغرض بنوثقیف نے دعوت اسلام کوردکردیا اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم کوشدیدزخمی کردیا،بدکردارلوگوں نے یہ سلسلہ اس وقت تک جاری رکھاجب تک طائف سے تین میل دور آپ کو ایک باغ میں جوعتبہ بن ربیعہ اورشیبہ بن ربیعہ کاتھا پناہ لینے پرمجبورکر دیا

فَعَمَدَ إلَى ظِلّ حَبَلَةٍ مِنْ عِنَبٍ فَجَلَسَ فِیهِ، فَلَمّا اطْمَأَنّ رَسُولُ اللهِ صَلّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلّمَ قَالَ: فِیمَا ذُكِرَ لِی:

یہاں سے وہ ہجوم واپس چلا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم انگورکی بیل کے سائے میں ایک دیوارسے ٹیک لگاکر بیٹھ گئے،جب کچھ اطمینان ہواتوبارگاہ ایزدی میں حزن والم اورغم وافسوس کے ساتھ دعافرمائی جودعائے مستضعفین کے نام سے مشہورہے

اللَّهمّ إلیك أشكو ضعف قوتی وهو انى عَلَى النَّاسِ یَا أَرْحَمَ الرَّاحِمِینَ، أَنْتَ رَبُّ الْمُسْتَضْعَفِینَ، وَأَنْتَ رَبِّی إِلَى مَنْ تَكِلُنِی، إِلَى بِعِیدٍ یَتَجَهَّمُنِی أَمْ إِلَى عَدُوٍّ مَلَّكْتَهُ أَمْرِی. إِنْ لَمْ یَكُنْ بِكَ غَضَبٌ عَلَیَّ فَلَا أُبَالِی وَلَكِنَّ عَافِیَتَكَ هِیَ أَوْسَعُ لِی، أَعُوذُ بِنُورِ وَجْهِكَ الَّذِی أَشْرَقَتْ لَهُ الظُّلُمَاتُ، وَصَلَحَ عَلَیْهِ أَمْرُ الدُّنْیَا وَالْآخِرَةِ مِنْ أَنْ تُنْزِلَ بِی غَضَبَكَ أَوْ تُحِلَّ عَلَیَّ سَخَطَكَ لَكَ العتبى حتى ترضى لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِكَ

اے اللہ! میں تجھ سے اپنی کمزوری اورتدبیرکی کمی اورلوگوں کی بے توقیری کی شکایت کرتا ہوں ،اے ارحم الراحمین توکمزوروں کاخاص طور پر مربی ومددگارہےاورتوہی میرابھی رب ہے ،تومجھے کس کے سپردکرے گاکسی غضبناک اورترش رو دشمن کی طرف یاکسی دشمن کی طرف کہ جس کوتومیرے معاملے کامالک بنادیاہے ،اگرتومجھ سے ناراض نہ ہو توپھرمجھے کسی کی بھی پرواہ نہیں ؟ مگرتیری عافیت اورسلامتی میرے لئے باعث صدافتخار ہے،میں پناہ مانگتاہوں تیری بزرگ ذات کے وسیلے سے جس سے تمام ظلمتیں منور ہوئیں اورجس پر دنیا و آخرت کے معاملات ٹھیک ہوئے ،میں اس سے پناہ مانگتاہوں کہ تیراغضب اورناراضی مجھ پراترے اوراصل مقصودتجھ ہی کوسنانااورراضی کرناہے ، بندہ میں کسی شرسے پھرنے اورخیرکے کرنے کی قدرت نہیں مگرجتنی تیری بارگاہ سے عطاہوجائے۔[5]

فِلْمًا رَآهُ ابْنَا رَبِیعَةَ عُتْبَةُ وَشَیْبَةُ وَمَا لقی تحركت له رحمهما فدعوا غلاما لهما نصرانیاً یقال له عداس [وقالا لَهُ] خُذْ قِطْفًا مِنْ هَذَا الْعِنَبِ فَضَعْهُ فِی هَذَا الطَّبَقِ، ثُمَّ اذْهَبْ بِهِ إِلَى ذَلِكَ الرَّجل، فَقُلْ لَهُ یَأْكُلُ مِنْهُ،فَفَعَلَ عَدَّاسٌ، ثمَّ ذَهَبَ بِهِ حَتَّى وَضَعَهُ بَیْنَ یَدَیْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ ثُمَّ قَالَ لَهُ: كُلْ، فَلَمَّا وَضَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وسلَّم یَدَهُ فِیهِ قال:بِسْمِ اللَّهِ ثم أكل

عتبہ بن ربیعہ اورشیبہ بن ربیعہ جن کے دل پتھرسے زیادہ سخت تھے دونوں باغ میں بیٹھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بے کسی اورمظلومیت کودیکھ رہے تھے،آپ کی یہ درماندگی دیکھ کرخونی قرابت اورقبائلی حمیت نے جوش مارااورانہوں نے اپنے نصرانی غلام عداس کوحکم دیاکہ کچھ انگوررکھ کراس شخص کو دے آؤ اوران سے کہوان میں سے کچھ ضرورکھائیں ، حسب حکم عداس نے کچھ گچھے انگورلاکررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش کردیئے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہاتھ بڑھایااوربسم الله پڑھ کرانگورکھاناشروع کیا،

ثم نظر عَدَّاسٌ فِی وَجْهِهِ ثمَّ قَالَ:وَاللَّهِ إِنَّ هَذَا الْكَلَامَ مَا یَقُولُهُ أَهْلُ هَذِهِ الْبِلَادِ،فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَمِنْ أَهْلِ أَیِّ بِلَادٍ أَنْتَ یَا عَدَّاسُ وَمَا دِینُكَ؟قَالَ نَصْرَانِیٌّ، وَأَنَا رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ نِینَوَى،فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مِنْ قَرْیَةِ الرَّجُلِ الصَّالِحِ یُونُسَ بْنِ مَتَّى،فَقَالَ لَهُ عَدَّاسٌ: وَمَا یُدْرِیكَ مَا یُونُسُ بْنُ مَتَّى؟

عداس نے حیران ہوکرآپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے مبارک کی طرف دیکھااورکہااللہ کی قسم ! اس شہرمیں توکوئی شخص بھی یہ جملہ کہنے والا نہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے سے پوچھا تم کہاں کے رہنے والے ہو؟ اور تمہارادین کیاہے؟ عداس نے جواب دیامیں نینوا (ملک عراق میں شہرموصل)کاباشندہ ہوں اورنصرانی ہوں ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااس نینوا کے جہاں اللہ کے نیک بندے یونس بن متی مبعوث ہوئے تھے؟ عداس نے بڑی حیرانی سے دریافت کیاآپ یونس بن متی کوکیسے جانتے ہیں ؟

فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ ذَلِكَ أَخِی، كَانَ نَبِیًّا وَأَنَا نَبِیٌّ،فَأَكَبَّ عَدَّاسٌ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یُقَبِّلُ رَأْسَهُ وَیَدَیْهِ وَقَدَمَیْهِ، قَالَ یَقُولُ ابْنَاءُ رَبِیعَةَ أَحَدُهُمَا لِصَاحِبِهِ: أَمَّا غُلَامُكَ فَقَدْ أَفْسَدَهُ عَلَیْكَ،فلما جاء عداس قالا له: ویلك یا عداس! مالك تُقَبِّلُ رَأْسَ هَذَا الرَّجُلِ وَیَدَیْهِ وَقَدَمَیْهِ؟

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاوہ میرے دینی بھائی تھے،وہ بھی نبی تھے اورمیں بھی نبی ہوں ،یہ سن کرعداس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پرجھک پڑا آپکی پیشانی ،ہاتھوں اورپیروں کوبوسہ دیااورکلمہ شہادت پڑھ لیا،یہ دیکھ کرابنائے ربیعہ نے آپس میں کہا اس شخص نے اب ہمارے غلام کوبھی برگشتہ کردیا جب عداس یہاں سے اٹھ کراپنے آقاؤں کے پاس پہنچاتوعتبہ اورشیبہ نے کہاتواس شخص کے ہاتھوں اور پیروں کوکیوں بوسہ دیتاتھا؟

قَالَ: یا سیدی، مَا فِی الْأَرْضِ شئ خَیْرٌ مِنْ هَذَا لَقَدْ أَخْبَرَنِی بِأَمْرٍ مَا یَعْلَمُهُ إِلَّا نَبِیٌّ،قَالَا لَهُ: وَیْحَكَ یَا عَدَّاسُ لَا یَصْرِفَنَّكَ عَنْ دِینِكَ فَإِنَّ دِینَكَ خَیْرٌ مِنْ دِینِهِ

عداس نے کہااےمیرے مالک !روئے زمین پر اس شخص سے بہترکوئی اورنہیں ،انہوں نے مجھے ایک ایسی بات بتائی ہے جسے نبی کے علاوہ اورکوئی نہیں جانتا،انہوں نے کہااےعداس! خبرداررہنایہ شخص کہیں تجھے تیرے دین سے منحرف نہ کردے،تیرادین اس کے دین سے بہترہے۔[6]

جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ افاقہ محسوس کیاتوآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے واپس مکہ مکرمہ کاسفرجاری کردیا۔

أَنَّ عَائِشَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهَا، زَوْجَ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، حَدَّثَتْهُ أَنَّهَا قَالَتْ لِلنَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: هَلْ أَتَى عَلَیْكَ یَوْمٌ كَانَ أَشَدَّ مِنْ یَوْمِ أُحُدٍ، قَالَ:لَقَدْ لَقِیتُ مِنْ قَوْمِكِ مَا لَقِیتُ، وَكَانَ أَشَدَّ مَا لَقِیتُ مِنْهُمْ یَوْمَ العَقَبَةِ، إِذْ عَرَضْتُ نَفْسِی عَلَى ابْنِ عَبْدِ یَالِیلَ بْنِ عَبْدِ كُلاَلٍ، فَلَمْ یُجِبْنِی إِلَى مَا أَرَدْتُ، فَانْطَلَقْتُ وَأَنَا مَهْمُومٌ عَلَى وَجْهِی، فَلَمْ أَسْتَفِقْ إِلَّا وَأَنَا بِقَرْنِ الثَّعَالِبِ فَرَفَعْتُ رَأْسِی، فَإِذَا أَنَا بِسَحَابَةٍ قَدْ أَظَلَّتْنِی، فَنَظَرْتُ فَإِذَا فِیهَا جِبْرِیلُ،

ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہےمیں نے ایک بارعرض کیااے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم ! کیاآپ پر غزوہ احدسے بھی زیادہ سخت دن گزرا ہے؟آپ نے فرمایاتیری قوم سے جوتکالیف مجھے پہنچیں سوپہنچیں لیکن سب سے زیادہ سخت دن وہ گزرا جس دن میں نے اپنے آپ کوعبدیالیل کے بیٹے پرپیش کیااس نے میری دعوت کو قبول نہیں کیامیں وہاں سے نہایت غمگین اوررنجیدہ واپس ہوا،مقام قرن الثعالب میں پہنچ کرکچھ افاقہ ہوا ، یکایک میں نے جوسراٹھایاتودیکھاکہ ایک ابرمجھ پر سایہ کیے ہوئے ہے اوراس میں جبرائیل علیہ السلام موجودہیں ،

فَنَادَانِی فَقَالَ: إِنَّ اللَّهَ قَدْ سَمِعَ قَوْلَ قَوْمِكَ لَكَ، وَمَا رَدُّوا عَلَیْكَ، وَقَدْ بَعَثَ إِلَیْكَ مَلَكَ الجِبَالِ لِتَأْمُرَهُ بِمَا شِئْتَ فِیهِمْ، فَنَادَانِی مَلَكُ الجِبَالِ فَسَلَّمَ عَلَیَّ، ثُمَّ قَالَ: یَا مُحَمَّدُ، فَقَالَ، ذَلِكَ فِیمَا شِئْتَ، إِنْ شِئْتَ أَنْ أُطْبِقَ عَلَیْهِمُ الأَخْشَبَیْنِ؟ فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: بَلْ أَرْجُو أَنْ یُخْرِجَ اللَّهُ مِنْ أَصْلاَبِهِمْ مَنْ یَعْبُدُ اللَّهَ وَحْدَهُ، لاَ یُشْرِكُ بِهِ شَیْئًا

جبرائیل علیہ السلام نے وہیں سے مجھے آوازدی کہ آپ کی قوم نے آپ کو جوجواب دیاہے وہ اللہ نے سن لیاہے،اس وقت اللہ نے آپ کے پاس ملک الجبال(پہاڑوں کافرشتہ)بھیجاہے تاکہ آپ اس کو جو چاہیں حکم ارشادفرمائیں ، اتنے میں ملک الجبال نے مجھے آوازدی اورمجھ کوسلام کیااورکہااے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ! میں ملک الجبال ہوں ،تمام پہاڑمیرے تصرف میں ہیں ،اللہ نے مجھے آپ کے پاس بھیجاہے آپ جو چاہیں مجھے حکم کریں اگرآپ حکم دیں توان دونوں پہاڑوں کو جن کے مابین اہل مکہ اوراہل طائف رہتے ہیں ملادوں جس سے تمام لوگ پس جائیں ،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں ،میں اللہ تعالیٰ سے امیدکرتاہوں کہ وہ ان کی نسل سے ایسے لوگ پیدا کرے گاجوصرف اللہ وحدہ لاشریک کی عبادت کریں گے اوراس کے ساتھ کسی کوشریک نہیں کریں گے۔[7]

رب کی بھیجی ہوئی اس غیبی امداد سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کادل جوغم والم سے بھراہواتھا مطمئن ہوگیااورطبیعت جو نڈھال تھی ہشاش بشاش ہوگئی۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے طائف کوکیوں منتخب فرمایا:

دکتورعلی محمدصلابی اپنی کتاب سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم ۶۴۶تا۶۴۸؍۱میں طائف کومنتخب کرنے کے بارے میں تحریرفرماتے ہیں طائف کاعلاقہ قریشی سرداروں کے لیے ایک دفاعی مرکزکی حیثیت رکھتاتھااورانتہائی توجہ کاحامل تھا،گزشتہ زمانے میں انہوں نے طائف کی سرزمین پرقبضہ کرنے کے لیے وادی وج پرحملہ بھی کیاتھاتاکہ یہ درختوں اورکھیتوں سے بھرازرخیزعلاقہ ان کے زیرنگیں آجائے،بنوثقیف نے خطرہ محسوس کرتے ہوئے آئندہ کے لیے قریش سے حلیفانہ معاہدہ کرلیااوران کے ساتھ بنودوس کوبھی شامل کرلیا۔[8]

علاوہ ازیں بہت سے اصحاب ثروت نے طائف میں جائیدادیں خریدرکھی تھیں اورگرمیوں کاموسم وہیں گزارتے تھے ،قبیلہ بنوہاشم،بنوعبدشمس اوربنومخزوم طائف سے مستقل رابطہ رکھتے تھے مزیدبرآں بنومخزوم کے بنوثقیف کے ساتھ کچھ مالی مفادات بھی وابستہ تھے۔[9]

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کاطائف کی طرف متوجہ ہوناایک سوچاسمجھاپروگرام تھااگرآپ صلی اللہ علیہ وسلم وہاں دعوتی مرکزقائم کرنے میں اورایک مددگارجماعت تیارکرنے میں کامیاب ہوجاتے توقریش چونک اٹھتے اورانہیں اپنی سلامتی اوراقتصادی مفادات براہ راست خطرے میں نظرآتے حتی کہ وہ محصورہوجاتے اوربیرونی دنیاسے کٹ جاتے،نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس دعوتی،سیاسی اوردفاعی اقدام سے معلوم ہوتاہے کہ آپ ظاہری اسباب بروئے لاکراسلامی مملکت یاایک جدیدطاقتورجماعت کے قیام کے خواہاں تھے جومیدان کارزارمیں دشمن کوپچھاڑسکے کیونکہ اب ایک مملکت یاطاقتورجماعت کاقیام لوگوں کواللہ کی طرف دعوت دینے کے سلسلے میں انتہائی ضروری تھا،جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم طائف پہنچے توآپ سیدھے ان کے مرکزاقتدارمیں تشریف لے گئے جہاں سے سیاسی فیصلے صادرہوتے تھے۔[10]

طائف کامرکزاقتدارکہاں تھا:

بنومالک اوراحلاف پرانے زمانے سے طائف کے رہائشی تھے اسی وجہ سے انہی کاطائف پرغلبہ تسلیم کیاجاتاتھا،مذہبی اورسیاسی قیادت بھی انہی قبائل کاحاصل تھی،عبادت خانے کی دیکھ بھال کامسئلہ ہویاعمومی سیاست کا،خارجی تعلقات ہوں یااقتصادی ترقی کامعاملہ درپیش ہوان دونوں قبائل ہی کاحکم ماناجاتاتھالیکن سرزمین طائف جوعرب کا سب سے زیادہ زرخیزاورخوبصورت علاقہ تھاوہ اس علاقے کے دفاع کرنے کی سکت نہیں رکھتے تھے ،اہل طائف ہوزان،قریش اوربنوعامرسے خوفزدہ رہتے تھے کیونکہ مذکورہ قبائل طائف کوبربادکرنے یااس پرقبضہ کرنے پرقادرتھے اسی لیے سرداران طائف نے مصالحت کی پالیسی اختیارکی اوراپنی سیاسی پوزیشن کے تحفظ کی غرض سے معاہدے کیے اورمفادات کی جنگ لڑی،یہ بعینہ وہی طریقہ تھاجسے قریش اپنائے ہوئے تھے ،چنانچہ بنومالک نے ہوزان سے اوراحلاف نے قریش سے تعلقات قائم کیے تاکہ ان کے شرسے محفوظ رہ سکیں ۔[11]

ایسی صورت حال میں جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے طائف کارخ کیاتوآپ ان دوطرفہ معاہدات اورتعلقات سے ہرگزغافل نہ تھے بلکہ جانتے تھے کہ طائف والوں کی کوئی ایک مرکزی طاقت نہیں ،وہ ایک اندرونی معاہدے کے تحت اپنی طاقت دوحصوں میں تقسیم کیے ہوئے ہیں ،ان میں سے جسے کسی بیرونی قبیلے کی حمایت حاصل ہوتی وہی زیادہ طاقتورہوتا،عمومی لحاظ سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم دونوں میں سے کسی ایک کواپنی طرف مائل کرلیتے توآپ کی سیاسی قوت مضبوط ہوسکتی تھی،اگرآپ بالخصوص احلاف کی حمایت حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاتے توآپ کادعوتی پروگرام انتہائی کامیاب رہتاکیونکہ احلاف فوجی لحاظ سے قریش کے حلیف تھے اوریہ معاہدہ کسی مذہبی ہم آہنگی یادینی دوستی پرمبنی نہ تھایہ توصرف قریش کے ڈرکی وجہ سے معرض وجودمیں آیا تھا لہذا انہیں اپنی طرف مائل کرناناممکن نہ تھا،اس غرض سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب سرزمین طائف میں پہنچے تو سیدھے بنوعمروبن عمیرکے ہاں گئے جواحلاف کے سردار اورقریش کے حلیف تھے اوربنومالک کارخ نہیں کیاجوبنوہوزان کے تعلق دارتھے۔[12]

واپسی میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وادی نخلہ میں السیل الکبیریاالزیمہ کے مقام پر چند روز قیام کیا،ایک رات آپ نمازپڑھ رہے تھے کہ نصیبین کے سات جن اس طرف سے گزرے اور کھڑے ہوکرتوجہ سے تلاوت قرآن سنی اورچلے گئے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کواس کامطلق علم نہ ہوا،اللہ تعالیٰ نے سورہ احقاف کی آیات ۲۸تا ۳۴ نازل فرمائیں ۔

[1] المحبر۱۱؍۱

[2] الإشارة إلى سیرة المصطفى وتاریخ من بعده من الخلفا۱۳۳؍۱

[3] ابن سعد۱۶۵؍۱

[4] ابن ہشام۴۱۹؍۱

[5] ابن ہشام ۴۲۰؍۱،الروض الانف ۲۶؍۴،دلائل النبوة للبیہقی المقدمة ۶۷،السیرة النبوة لابن کثیر۱۵۰؍۲،وسیلة الإسلام بالنبی علیه الصلاة والسلام۹۷؍۱،امتاع الاسماع ۳۰۶؍۸،شرح الشفا۳۲۹؍۲

[6] البدایة والنہایة۱۳۶؍۳،اصابة ۳۸۶؍۴، عیون الاثر۱۵۶؍۱،السیرة الحلبیة۴۹۹؍۱

[7] صحیح بخاری کتاب بدء الخلق بَابُ إِذَا قَالَ أَحَدُكُمْ: آمِینَ وَالمَلاَئِكَةُ فِی السَّمَاءِ، آمِینَ فَوَافَقَتْ إِحْدَاهُمَا الأُخْرَى، غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ ۳۲۳۱، صحیح مسلم کتاب الجہادبَابُ مَا لَقِیَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مِنْ أَذَى الْمُشْرِكِینَ وَالْمُنَافِقِینَ۴۶۵۳

[8] مقومات الدعیة الناجح للدلتورعلی بادحدح صفحہ۱۲۳

[9] اصول الفکرالسیاسی للتجانی عبدالقادرصفحہ۱۷۳

[10] اصول الفکرالسیاسی للتجانی عبدالقادرصفحہ۱۷۴

[11] اصول الفکرالسیاسی للتجانی عبدالقادرصفحہ۱۷۴

[12] اصول الفکرالسیاسی للتجانی عبدالقادرصفحہ۱۷۵

Related Articles