بعثت نبوی کا دسواں سال(عام الحزن )

 مضامین سورۂ الاحقاف

سورت کی ابتداقرآن کریم کی حقانیت،توحیداورحشرکے دلائل اوربتوں کی مذمت سے کیاگیاجنہیں مشرکین نے معبودبنارکھاتھاحالانکہ وہ نہ سنتے تھے، نہ دیکھتے تھے ،نہ نفع اورنقصان ان کے اختیارمیں تھااورنہ ہی وہ پرستش کرنے والوں کی دعائیں قبول کرسکتے تھے اورقیامت کے روزاپنے پرستش کتنے والوں کے منکر ہوں گے۔

xکفارمکہ کوان کی گمراہی اورغروروتکبرپرخبردارکیاکہ ایساشخص جوتمہارامحسن ہے،جوتمہیں ذلت ورسوائی اورضلالت کی پستیوں سے نکال کرآخروی عزت ووقارکی راہ پرلانا چاہتا ہے،جوتمہیں جہنم کی دیکتی ہوئی آگ سے بچاکرعیش وآرام کی جنتوں میں داخلے کاخواہشمندہے تم لوگ اپنے بغض وعنادمیں اس حدتک بڑھ چکے ہوکہ اس کوجلاوطن کرنے بلکہ اس کے قتل کرنے کے درپے ہومگراس کاانجام خودتمہارے اپنے حق میں ہی خراب ہوگا،جس پاکیزہ دعوت کوتم اپنے لیے رحمت سمجھنے کے بجائے وبال جان اورغلط تخیلات میں باطل قراردے رہے ہودراصل اسی دعوت میں بیان کیاگیا عقیدہ اور اعمال ہی جہنم سے نجات کاسبب ہیں ،قرآن کلام الٰہی ہے اورمحمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے سچے نبی ہیں ، تمہارے جاہلانہ تخیلات ان حقائق کواس لیے تسلیم نہیں کرتے کیونکہ اس میں تمہارے آباؤاجدادکے گمراہ کن عقائدو نظریات اوراعمال کی مخالفت ہے ۔

xعقیدہ توحیدکومدلل اندازمیں بیان کرکے فرمایاکہ اگرتم نے عقل ودلیل سے حقیقت کوسمجھنے کی کوشش کرنے کے بجائے تعصب اورہٹ دھرمی سے ان حقائق کوتسلیم نہیں کرو گے تو اللہ تعالیٰ کسی اورقوم اورمخلوق کے ذریعے سے اپنے نبی کی تائیدفرمائے گااورجنات کے واقعے کواس سلسلہ میں بطورتمثیل بیان کیاگیا۔

xاخلاق حسنہ کے ضمن میں ایمان،عبادات،استقلال واستقامت اوروالدین کے ساتھ حسن سلوک کاحکم دیاگیااورغرورواستکباراورگمراہی کی مذمت کی گئی۔

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

شروع اللہ کے نام سے جو بیحد مہربان نہایت رحم والا ہے

حم ‎﴿١﴾‏ تَنزِیلُ الْكِتَابِ مِنَ اللَّهِ الْعَزِیزِ الْحَكِیمِ ‎﴿٢﴾‏ مَا خَلَقْنَا السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَمَا بَیْنَهُمَا إِلَّا بِالْحَقِّ وَأَجَلٍ مُّسَمًّى ۚ وَالَّذِینَ كَفَرُوا عَمَّا أُنذِرُوا مُعْرِضُونَ ‎﴿٣﴾(الاحقاف)
’’حا میم ،اس کتاب کا اتارنا اللہ تعالیٰ غالب حکمت والے کی طرف سے ہے، ہم نے آسمانوں اور زمین اور ان دونوں کے درمیان کی تمام چیزوں کو بہترین تدبیر کے ساتھ ہی ایک مدت معین کے لیے پیدا کیا ہے، اور کافر لوگ جس چیز سے ڈرائے جاتے ہیں منہ موڑ لیتے ہیں ۔‘‘

حا میم ،اس جلیل القدرکتاب قرآن کریم کواللہ تعالیٰ نے اپنے بندے اوررسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم پرنازل کیاہے،اوراللہ بڑی عزت والا اوربڑی حکمت والا ہے،اس کاکوئی فعل حکمت سے خالی نہیں ہوتا ، ہم نے زمین اورآسمانوں کواوران کے درمیان ساری چیزوں کو عبث اوربے کارنہیں بلکہ سراسر برحق،بہترین تدبیر اورابدالابادکے لئے نہیں ایک متعینہ ، طے شدہ مدت کے لئے پیدا کیاہے،جیسے فرمایا

خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ بِالْحَقِّ۔۔۔ ۝۝۳            [1]

ترجمہ:اس نے آسمان وزمین کوبرحق پیداکیاہے ۔

وَهُوَالَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ بِالْحَقِّ ۔۔۔۝۷۳     [2]

ترجمہ:وہی ہے جس نے آسمان و زمین کو برحق پیدا کیا ہے۔

اَلَمْ تَرَ اَنَّ اللهَ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ بِالْحَقِّ۔۔۔۝۰۝۱۹ۙ [3]

ترجمہ:کیا تم دیکھتے نہیں ہو کہ اللہ نے آسمان و زمین کی تخلیق کو حق پر قائم کیا ہے؟۔

 خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ بِالْحَقِّ۔۔۔ ۝۵   [4]

ترجمہ:اس نے آسمان وزمین کوبرحق پیدا کیا ہے۔

خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ بِالْحَقِّ ۔۔۔۝۰۝۳ [5]

ترجمہ:اس نے آسمان وزمین کوبرحق پیداکیاہے۔

وَخَلَقَ اللهُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ بِالْحَقِّ۔۔۔ ۝۲۲ [6]

ترجمہ:اللہ تعالیٰ نے آسمان وزمین کوبرحق پیداکیاہے ۔

وَمَا خَلَقْنَا السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ وَمَا بَیْنَہُمَآ اِلَّا بِالْحَقِّ۔۔۔۝۸۵          [7]

ترجمہ:ہم نے زمین اور آسمان کو اور ان کی موجودات کو حق کے سوا کسی اور بنیاد پر خلق نہیں کیا ہے۔

یعنی اس کائنات کو اللہ وحدہ لاشریک نے تخلیق فرمایاہے، یہ کائنات ہمیشہ سے نہیں ہے اورنہ کسی حادثہ کے نتیجے میں وجودمیں آگئی ہے بلکہ اس میں ہرچیزکسی خاص ڈیزائن کے تحت تخلیق کی گئی ہے اوراس کائنات کانظام کچھ خاص حساب اورپروگرام کے مطابق چل رہاہےاوراس کائنات کاذرہ ذرہ بامقصدہے۔جب خالق وہ ہے توحکم بھی اسی کاہوگا،جیسے فرمایا:

۔۔۔اَلَا لَهُ الْخَلْقُ وَالْاَمْرُ۔۔۔ ۝۵۴ [8]

ترجمہ:خبرداررہو!اسی کی خلق ہے اوراسی کاامرہے ۔

جب وہ وقت موعودآجائے گاتواللہ مالک الملک کے حکم سےآسمان و زمین کایہ موجودہ طبیعی نظام درہم برہم ہو جائے گامگربالکل نیست ونابودنہیں ہو جائے گا ، اس کے بعداللہ تعالیٰ زمین وآسمانوں کی موجودہ ہیئت بدل دے گااورایک دوسرا نظام دوسرے قوانین فطرت کے ساتھ بنا دے گا،اوروہی عالم آخرت ہوگا، جیسے فرمایا

یَوْمَ تُبَدَّلُ الْاَرْضُ غَیْرَ الْاَرْضِ وَالسَّمٰوٰتُ ۔۔۔۝۴۸ [9]

ترجمہ:ڈراؤانہیں اس دن سے جبکہ زمین وآسمان بدل کر کچھ سے کچھ کردیئے جائیں گے ۔

مگرجن لوگوں نے اللہ کی کتاب اوراس کے رسول کی تکذیب کی ہے،جب ان کو حیات بعدالموت ، حساب کتاب اوراعمال کی جزاوسزاسے ڈرایا جاتاہے توخودکوغیرذمہ دار اورغیر جواب دہ سمجھ کرحقائق سے منہ موڑلیتے ہیں اوران پرایمان لاکراخروی عذاب سے بچنے کی کوشش نہیں کرتے۔

‏ قُلْ أَرَأَیْتُم مَّا تَدْعُونَ مِن دُونِ اللَّهِ أَرُونِی مَاذَا خَلَقُوا مِنَ الْأَرْضِ أَمْ لَهُمْ شِرْكٌ فِی السَّمَاوَاتِ ۖ ائْتُونِی بِكِتَابٍ مِّن قَبْلِ هَٰذَا أَوْ أَثَارَةٍ مِّنْ عِلْمٍ إِن كُنتُمْ صَادِقِینَ ‎﴿٤﴾‏ وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّن یَدْعُو مِن دُونِ اللَّهِ مَن لَّا یَسْتَجِیبُ لَهُ إِلَىٰ یَوْمِ الْقِیَامَةِ وَهُمْ عَن دُعَائِهِمْ غَافِلُونَ ‎﴿٥﴾وَإِذَا حُشِرَ النَّاسُ كَانُوا لَهُمْ أَعْدَاءً وَكَانُوا بِعِبَادَتِهِمْ كَافِرِینَ ‎﴿٦﴾(الاحقاف)
’’آپ کہہ دیجئے! بھلا دیکھو تو جنہیں تم اللہ کے سوا پکارتے ہو مجھے بھی تو دکھاؤ کہ انہوں نے زمین کا کونسا ٹکڑا بنایا ہے یا آسمانوں میں کونسا حصہ ہے؟ اگر تم سچے ہو تو اس سے پہلے ہی کوئی کتاب یا کوئی علم ہے جو نقل کیا جاتا ہو میرے پاس لاؤ، اور اس سے بڑھ کر گمراہ اور کون ہوگا؟ جو اللہ کے سوا ایسوں کو پکارتا ہے جو قیامت تک اس کی دعا قبول نہ کرسکیں بلکہ ان کے پکارنے سے محض بےخبر ہوں اور جب لوگوں کو جمع کیا جائے گا تو یہ ان کے دشمن ہوجائیں گے اور ان کی پرستش سے صاف انکار کرجائیں گے۔‘‘ ‏

اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! ان مشرکین سے کہو تم اللہ وحدہ لاشریک کوچھوڑکرجن کے حضوررسوم عبادات بجالاتے ہو،جنہیں اپنی مشکلات اورپریشانیوں میں پکارتے ہو،جن کی خوشنودی کے لئے نذرونیازپیش کرتے ہو،جن سے رزق اوراولادیں مانگتے ہوکبھی تم نے ان ہستیوں کی طاقت وقدرت اوراختیا کاکوئی مظہر بھی دیکھا ہے ؟ذرااپنی صداقت کی گواہی میں مجھے دکھاؤتوسہی کہ انہوں نے زمین میں کیاپیداکیاہے؟تم خودتسلیم کرتے ہو کہ یہ وسیع وعریض زمین اوراس میں تمام چیزیں اللہ تعالیٰ نے پیداکی ہیں ،جیسے فرمایا:

وَلَىِٕنْ سَاَلْتَہُمْ مَّنْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ لَیَقُوْلُنَّ اللہُ۔۔۔۝۲۵ [10]

ترجمہ:اگر تم ان سے پوچھو کہ زمین اور آسمانوں کو کس نے پیدا کیا ہے ، تو یہ ضرور کہیں گے کہ اللہ نے۔

وَلَىِٕنْ سَاَلْــتَہُمْ مَّنْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ لَیَقُوْلُنَّ اللہُ۔۔۔۝۳۸ [11]

ترجمہ:ان لوگوں سے اگر تم پوچھو کہ زمین اور آسمانوں کو کس نے پیدا کیا ہے تو یہ خود کہیں گے کہ اللہ نے۔

وَلَىِٕنْ سَاَلْتَہُمْ مَّنْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ لَیَقُوْلُنَّ خَلَقَہُنَّ الْعَزِیْزُ الْعَلِیْمُ۝۹ۙ [12]

ترجمہ:اگر تم ان لوگوں سے پوچھو زمین اور آسمانوں کو کس نے پیدا کیا ہے تو یہ خود کہیں گے کہ انہیں اسے زبردست علیم ہستی نے پیدا کیا ہے۔

یاپھریہ بتلاؤکہ ساتوں آسمانوں کی تخلیق وتدبیرمیں ان کا کوئی حصہ ہے؟جیسے فرمایا:

وَقُلِ الْحَمْدُ لِلہِ الَّذِیْ لَمْ یَتَّخِذْ وَلَدًا وَّلَمْ یَكُنْ لَّہٗ شَرِیْكٌ فِی الْمُلْكِ وَلَمْ یَكُنْ لَّہٗ وَلِیٌّ مِّنَ الذُّلِّ۔۔ۧ[13]

ترجمہ:اور کہوتعریف ہے اس الٰہ کے لیے جس نے نہ کسی کو بیٹا بنایا، نہ کوئی بادشاہی میں اس کا شریک ہے اور نہ وہ عاجز ہے کہ کوئی اس کا پشتیبان ہو۔

الَّذِیْ لَہٗ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَلَمْ یَتَّخِذْ وَلَدًا وَّلَمْ یَكُنْ لَّہُ شَرِیْكٌ فِی الْمُلْكِ وَخَلَقَ كُلَّ شَیْءٍ فَقَدَّرَہٗ تَقْدِیْرًا۝۲ [14]

ترجمہ:وہ جو زمین اور آسمانوں کی بادشاہی کا مالک ہے جس نے کسی کو بیٹا نہیں بنایا ہے ، جس کے ساتھ بادشاہی میں کوئی شریک نہیں ہے۔

تم اس کوبھی تسلیم کرتے ہوکہ آسمانوں کی تخلیق اللہ ہی نے کی ہے اوروہی اپنی مشیت وحکمت کے تحت اس میں تدبیرکرتاہے،جیسے فرمایا

اِنَّ رَبَّكُمُ اللہُ الَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ فِیْ سِتَّةِ اَیَّامٍ ثُمَّ اسْتَوٰى عَلَی الْعَرْشِ یُدَبِّرُ الْاَمْرَ۔۔۔۝۳ [15]

ترجمہ:حقیقت یہ ہے کہ تمہارا رب وہی الٰہ ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دنوں میں پیدا کیا پھر تخت حکومت پر جلوہ گر ہوا اور کائنات کا انتظام چلا رہا ہے ۔

یُدَبِّرُ الْاَمْرَ مِنَ السَّمَاۗءِ اِلَى الْاَرْضِ۔۔۔۝۵ [16]

ترجمہ:وہ آسمان سے زمین تک دنیا کے معاملات کی تدبیر کرتا ہے۔

یاپھرقرآن نازل ہونے سے پہلے کوئی الہامی کتاب یاانبیاء وصلحاء کی تعلیمات کاکوئی ایساحصہ جوکسی قابل اعتمادذریعہ سے پہنچاہویااپنے عقائد کے ثبوت میں تمہارے پاس کوئی عقلی نقلی دلیل ہوتووہی لے آؤ ،

عَنْ مُجَاهِدٍ، {أَوْ أَثَارَةٍ مِنْ عِلْمٍ}قَالَ:أَحَدٌ یَأْثُرُ عِلْمًا

مجاہد رحمہ اللہ نے اس آیت أَوْ أَثَارَةٍ مِنْ عِلْمٍ کی تفسیرمیں کہاہے یاکسی سے دلیل پیش کروجوعلم کونقل کرتاہو۔[17]

اس طرح کی بھی کوئی چیزتمہارے پاس موجودنہیں کیونکہ تمام الہامی کتابیں بالاتفاق وہی توحیدپیش کرتی ہیں جن کی طرف قرآن دعوت دے رہاہے،اس طرح انبیاء وصلحاکے جتنے بچے کھچے نقوش موجودہیں ان میں بھی کہیں اس بات کی شہادت نہیں ملتی کہ کسی نبی یارسول نے کبھی لوگوں کواللہ کے سواکسی اورکی بندگی وعبادت کرنے کی تعلیم دی ہو،بلکہ ان کی دعوت تواللہ وحدہ لاشریک کی بندگی اورکفروشرک سے روکنا تھی۔

وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِیْ كُلِّ اُمَّةٍ رَّسُوْلًا اَنِ اعْبُدُوا اللهَ وَاجْتَـنِبُوا الطَّاغُوْتَ۔۔۔۝۳۶ [18]

ترجمہ: ہم نے ہرامت میں ایک رسول بھیج دیااوراس کے ذریعہ سے سب کوخبردارکردیاکہ اللہ کی بندگی کرواورطاغوت کی بندگی سے بچو۔

۔۔۔اعْبُدُوا اللهَ مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَیْرُهٗ۔۔۔ ۝۵۹ [19]

ترجمہ:اللہ کی بندگی کرواس کے سوا تمہاراکوئی الٰہ نہیں ہے۔

توپھراس شخص سے زیادہ راہ راست سے بھٹکاہوا انسان اورکون ہوگاجو اللہ وحدہ لاشریک کوچھوڑکرجوکائنات کاخالق ہے ، جواپنی تمام بحروبرکی مخلوقات کارازق ہے ،جواپنی مخلوقات کی پکارکوسنتااورجواب دیتاہے ،جس کے پاس ہرطرح کی قدرت واختیارہے فوت شدہ اشخاص کومددکے لئے پکارے جن کانہ توذرہ برابرتخلیق میں کوئی حصہ ہے ،نہ وہ رزق بہم پہنچانے پر قدرت رکھتے ہیں اور نہ قیامت تک پکارنے والے کی پکارپر نفی یااثبات میں کوئی کاروائی کر سکتے ہیں بلکہ ان تک پکارنے والوں کی پکارسرے سے پہنچتی ہی نہیں ،نہ وہ اپنے کانوں سے سن سکتے ہیں اورنہ کسی اورذریعہ سے ان تک یہ اطلاع پہنچتی ہے کہ کوئی انہیں مددکے لئے پکار رہا ہے ،اور روزمحشر جب روئے زمین کے تمام انسان اعمال کی جوابدہی کے لئے جمع کیے جائیں گے اس وقت وہ اپنی عبادت کرنے اوراپنے پکارنے والوں کے دشمن اوران کی عبادت کے منکر ہوں گے۔جیسے فرمایا

وَاتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِ اللهِ اٰلِهَةً لِّیَكُوْنُوْا لَهُمْ عِزًّا۝۸۱ۙكَلَّا۝۰ۭ سَیَكْفُرُوْنَ بِعِبَادَتِهِمْ وَیَكُوْنُوْنَ عَلَیْهِمْ ضِدًّا۝۸۲ۧ [20]

ترجمہ: ان لوگوں نے اللہ کوچھوڑکراپنے کچھ الٰہ بنارکھے ہیں کہ وہ ان کے پشتیبان ہوں گے،کوئی پشتیبان نہ ہوگاوہ سب ان کی عبادت کاانکار کریں گے اور الٹے ان کے مخالف بن جائیں گے ۔

ایک مقام پر یوں فرمایا

وَقَالَ اِنَّمَا اتَّخَذْتُمْ مِّنْ دُوْنِ اللهِ اَوْثَانًا۝۰ۙ مَّوَدَّةَ بَیْنِكُمْ فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا۝۰ۚ ثُمَّ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ یَكْفُرُ بَعْضُكُمْ بِبَعْضٍ وَّیَلْعَنُ بَعْضُكُمْ بَعْضًا۔۔۔۝۰۝۲۵ۤۙ        [21]

ترجمہ:اوراس نے کہاتم نے دنیاکی زندگی میں تواللہ کوچھوڑکراپنے درمیان محبت کاذریعہ بنا لیا ہے مگر قیامت کے روزتم ایک دوسرے کاانکاراورایک دوسرے پرلعنت کروگے ۔

ایک مقام پر فرمایا

وَالَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللهِ لَا یَخْلُقُوْنَ شَـیْـــًٔـا وَّهُمْ یُخْلَقُوْنَ۝۲۰ اَمْوَاتٌ غَیْرُ اَحْیَاۗءٍ۝۰ۚ وَمَا یَشْعُرُوْنَ۝۰ۙ اَیَّانَ یُبْعَثُوْنَ۝۲۱ۧ         [22]

ترجمہ: اور وہ دوسری ہستیاں جنہیں اللہ کوچھوڑکرلوگ پکارتے ہیں وہ کسی چیز کے بھی خالق نہیں ہیں بلکہ خودمخلوق ہیں ،مردہ ہیں نہ کہ زندہ،اوران کوکچھ معلوم نہیں ہے کہ انہیں کب (دوبارہ زندہ کرکے ) اٹھایاجائے گا۔

ایک مقام پرفرمایا

لَهٗ دَعْوَةُ الْحَقِّ۝۰ۭ وَالَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِهٖ لَا یَسْتَجِیْبُوْنَ لَهُمْ بِشَیْءٍ اِلَّا كَبَاسِطِ كَفَّیْهِ اِلَى الْمَاۗءِ لِیَبْلُغَ فَاهُ وَمَا هُوَبِبَالِغِهٖ۝۰ۭ وَمَا دُعَاۗءُ الْكٰفِرِیْنَ اِلَّا فِیْ ضَلٰلٍ۝۱۴ [23]

ترجمہ:اسی کوپکارنابرحق ہے ،رہیں وہ دوسری ہستیاں جنہیں اس کوچھوڑکریہ لوگ پکارتے ہیں وہ ان کی دعاؤں کاکوئی جواب نہیں دے سکتے ،انہیں پکارنا تو ایسا ہے جیسے کوئی شخص پانی کی طرف ہاتھ پھیلاکراس سے درخواست کرے کہ تومیرے منہ تک پہنچ جاحالانکہ پانی اس تک پہنچنے والا نہیں ،بس اسی طرح کافروں کی دعائیں بھی کچھ نہیں ہیں مگرایک تیربے ہدف!۔

ایک مقام پر فرمایا:

قُلِ ادْعُوا الَّذِیْنَ زَعَمْتُمْ مِّنْ دُوْنِ اللهِ۝۰ۚ لَا یَمْلِكُوْنَ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ فِی السَّمٰوٰتِ وَلَا فِی الْاَرْضِ وَمَا لَهُمْ فِیْهِمَا مِنْ شِرْكٍ وَّمَا لَهٗ مِنْهُمْ مِّنْ ظَهِیْرٍ۝۲۲وَلَا تَنْفَعُ الشَّفَاعَةُ عِنْدَهٗٓ اِلَّا لِمَنْ اَذِنَ لَهٗ۝۰۝۲۳ [24]

ترجمہ:(اے نبی! ان مشرکین سے)کہوکہ پکاردیکھواپنے ان معبودوں کوجنھیں تم اللہ کے سوا اپنا معبود سمجھے بیٹھے ہو،وہ نہ آسمانوں میں ذرہ برابرچیزکے مالک ہیں نہ زمین میں ،وہ آسمان وزمین کی ملکیت میں شریک بھی نہیں ہیں ،ان میں سے کوئی اللہ کامددگاربھی نہیں ہے اوراللہ کے حضورکوئی شفاعت بھی کسی کے لئے نافع نہیں ہوسکتی بجزاس شخص کے جس کے لئے اللہ نے سفارش کی اجازت دی ہو۔

وَإِذَا تُتْلَىٰ عَلَیْهِمْ آیَاتُنَا بَیِّنَاتٍ قَالَ الَّذِینَ كَفَرُوا لِلْحَقِّ لَمَّا جَاءَهُمْ هَٰذَا سِحْرٌ مُّبِینٌ ‎﴿٧﴾‏ أَمْ یَقُولُونَ افْتَرَاهُ ۖ قُلْ إِنِ افْتَرَیْتُهُ فَلَا تَمْلِكُونَ لِی مِنَ اللَّهِ شَیْئًا ۖ هُوَ أَعْلَمُ بِمَا تُفِیضُونَ فِیهِ ۖ كَفَىٰ بِهِ شَهِیدًا بَیْنِی وَبَیْنَكُمْ ۖ وَهُوَ الْغَفُورُ الرَّحِیمُ ‎﴿٨﴾(الاحقاف)
’’اور انہیں جب ہماری واضح آیتیں پڑھ کر سنائی جاتی ہیں تو منکر لوگ سچی بات کو جب کہ ان کے پاس آچکی کہہ دیتے ہیں کہ یہ صریح جادو ہے، کیا وہ کہتے ہیں کہ اسے تو اس نے خود گھڑ لیا ہے، آپ کہہ دیجئے! کہ اگر میں ہی اسے بنا لایا ہوں تو تم میرے لیے اللہ کی طرف سے کسی چیز کا اختیار نہیں رکھتے، تم اس( قرآن) کے بارے میں جو کچھ سن رہے ہو اسے اللہ خوب جانتا ہے، میرے اور تمہارے درمیان گواہی کے لیے وہی کافی ہے اور وہ بخشنے والا مہربان ہے۔‘‘

ان لوگوں کوجب ہماری صاف صاف آیات سنائی جاتی ہیں اورحق ان کے سامنے آجاتاہے تویہ کافر کلام الٰہی کے قوت اعجازاورقوت تاثیرکودیکھ کراسے جادوکے کرشمہ سے تعبیر کرتے ہیں ، جیسے فرمایا

 ۔۔۔هَلْ ھٰذَآ اِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ۝۰ۚ اَفَتَاْتُوْنَ السِّحْرَ وَاَنْتُمْ تُبْصِرُوْنَ۝۳   [25]

ترجمہ:یہ شخص آخرتم جیساایک بشرہی توہے پھرکیا تم آنکھوں دیکھتے جادوکے پھندے میں پھنس جاؤگے ۔

اورپھراس سے بھی انحراف کرکے کہتے ہیں کہ یہ پہلے وقتوں کی کہانیاں ہیں ۔

وَقَالُوْٓا اَسَاطِیْرُ الْاَوَّلِیْنَ اكْتَتَبَهَا۔۔۔ ۝۵ [26]

ترجمہ:کہتے ہیں یہ پرانے لوگوں کی لکھی ہوئی چیزیں ہیں جنہیں یہ شخص نقل کراتا ہے۔

کبھی کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے خودتصنیف کر لیا ہے ؟ جیسے فرمایا :

۔۔۔اِنْ ھٰذَآ اِلَّا اخْتِلَاقٌ۝۷ۖۚ    [27]

ترجمہ:یہ کچھ نہیں ہے مگرایک من گھڑت بات۔

وَقَالُوْٓا اَسَاطِیْرُ الْاَوَّلِیْنَ اكْتَتَبَہَا فَہِیَ تُمْلٰى عَلَیْہِ بُكْرَةً وَّاَصِیْلًا۝۵قُلْ اَنْزَلَہُ الَّذِیْ یَعْلَمُ السِّرَّ فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ۝۰ۭ اِنَّہٗ كَانَ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا۝۶  [28]

ترجمہ:کہتے ہیں یہ پرانے لوگوں کی لکھی ہوئی چیزیں ہیں جنہیں یہ شخص نقل کراتا ہے اور وہ اسے صبح و شام سنائی جاتی ہیں ،اے نبی ( صلی اللہ علیہ وسلم )! ان سے کہو کہ اسے نازل کیا ہے اس نے جو زمین اور آسمانوں کا بھید جانتا ہےحقیقت یہ ہے کہ وہ بڑا غفور و رحیم ہے۔

ان سے کہواگرمیں نے اسے خودتصنیف کرکے اللہ کی طرف منسوب کردیا ہے تو یقیناً جرم عظیم کیاہے جس پر اللہ مجھے سخت ترین عذاب دے

وَلَوْ تَقَوَّلَ عَلَیْنَا بَعْضَ الْاَقَاوِیْلِ۝۴۴ۙلَاَخَذْنَا مِنْهُ بِالْیَمِیْنِ۝۴۵ۙثُمَّ لَقَطَعْنَا مِنْهُ الْوَتِیْنَ۝۴۶ۡۖفَمَا مِنْكُمْ مِّنْ اَحَدٍ عَنْهُ حٰجِـزِیْنَ۝۴۷ [29]

ترجمہ:اوراگراس(نبی صلی اللہ علیہ وسلم )نے خودگھڑکرکوئی بات ہماری طرف منسوب کی ہوتی توہم اس کا دایاں ہاتھ پکڑلیتے اوراس کی رگ گردن کاٹ ڈالتے ،پھرتم میں سے کوئی (ہمیں )اس کام سے روکنے والانہ ہوتا۔

ایک مقام پر فرمایا

قُلْ اِنِّىْ لَنْ یُّجِیْرَنِیْ مِنَ اللهِ اَحَدٌ۝۰ۥۙ وَّلَنْ اَجِدَ مِنْ دُوْنِهٖ مُلْتَحَدًا۝۲۲ۙ [30]

ترجمہ:کہومجھے اللہ کی گرفت سے کوئی بچانہیں سکتااورنہ میں اس کے دامن کے سواکوئی جائے پناہ پاسکتاہوں ۔

تم جس جس اندازسے قرآن کریم کی تکذیب کرتے ہوکبھی اسے جادوکبھی کہانت اورکبھی گھڑاہو کہتے ہواللہ ان کو خوب جانتاہے اوروہی تمہاری مذموم حرکتوں کا تمہیں بدلہ دے گا، اللہ اس بات کی گواہی کے لئے کافی ہے کہ حکمتوں سے بھرایہ قرآن اسی کی طرف سے نازل ہواہے اوروہی تمہاری تکذیب ومخالفت کابھی گواہ ہے ، اور اگر کوئی اپنی کوتاہیوں ،ہٹ دھرمیوں پر شرمندہ ہو کر ایمان لے آئے اوربخشش کاطلب گارہوتووہ بڑادرگزر کرنے والااوررحم کرنے والا ہے۔

قُلْ مَا كُنتُ بِدْعًا مِّنَ الرُّسُلِ وَمَا أَدْرِی مَا یُفْعَلُ بِی وَلَا بِكُمْ ۖ إِنْ أَتَّبِعُ إِلَّا مَا یُوحَىٰ إِلَیَّ وَمَا أَنَا إِلَّا نَذِیرٌ مُّبِینٌ ‎﴿٩﴾‏ قُلْ أَرَأَیْتُمْ إِن كَانَ مِنْ عِندِ اللَّهِ وَكَفَرْتُم بِهِ وَشَهِدَ شَاهِدٌ مِّن بَنِی إِسْرَائِیلَ عَلَىٰ مِثْلِهِ فَآمَنَ وَاسْتَكْبَرْتُمْ ۖ إِنَّ اللَّهَ لَا یَهْدِی الْقَوْمَ الظَّالِمِینَ ‎﴿١٠﴾(الاحقاف)
’’ آپ کہہ دیجئے !کہ میں کوئی بالکل انو کھا پیغمبر نہیں ، نہ مجھے یہ معلوم ہے کہ میرے ساتھ اور تمہارے ساتھ کیا کیا جائے گا، میں تو صرف اسی کی پیروی کرتا ہوں جو میری طرف وحی بھیجی جاتی ہے اور میں تو صرف علی الاعلان کردینے والا ہوں ، آپ کہہ دیجئے !اگر یہ (قرآن) اللہ ہی کی طرف سے ہو اور تم نے اسے نہ مانا ہو اور بنی اسرائیل کا ایک گواہ اس جیسی کی گواہی بھی دے چکا ہو اور ایمان بھی لا چکا ہو اور تم نے سرکشی کی ہو، تو بیشک اللہ تعالیٰ ظالموں کو راہ نہیں دکھاتا۔‘‘

پچھلی تباہ شدہ قوموں کی طرح اہل مکہ بھی یہی کہتے تھے کہ یہ کیسارسول ہے جوتمہارے جیسابشرہے ،جوتم کھاتے ہووہ وہی کھاتاہے ،بیوی بچوں والاہے اورمعاش کے لئے بازاروں میں چلتاپھرتاہے ،اللہ نے اس کے ساتھ اس کی تائیدکے لئے کوئی فرشتہ بھی نہیں بھیجااورجب اس سے کسی معجزے کامطالبہ کرتے ہیں تووہ بھی پورانہیں کرتا،اللہ تعالیٰ نے فرمایااے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! ان سے کہودنیاکی تاریخ کامیں پہلااور نرالارسول تونہیں ہوں ،مجھ سے پہلے متعددرسول دنیامیں آچکے ہیں اورابراہیم علیہ السلام اوراسماعیل علیہ السلام کوتم اچھی طرح جانتے ہواوران کی ذریت پرفخربھی کرتے ہووہ بھی میری طرح بشرہی تھے ،میری طرح انہیں بھی دنیاوی ضروریات درپیش ہوتی تھیں ،ان کے ساتھ بھی کوئی فرشتہ نہیں اتراتھاتو پھر جب میں بھی ان کی طرح ہوں اورمیری دعوت بھی ان کی دعوت کے موافق ہے تومیری رسالت پرتمہیں کیااعتراض ہوسکتاہے ؟میں فاعل حقیقی ،مختارکامل اور عالم الغیب نہیں ہوں کہ ماضی حال مستقبل مجھ پرروشن ہوں ،تمہارامستقبل تودرکنارمجھے تواپنے مستقبل کابھی علم نہیں ، ماضی حال مستقبل کاعلم تو اللہ رب العالمین کے پاس ہے جوعلام الغیوب ہے، میں تو صرف اس وحی کی پیروی کرتاہوں جومیرے پاس بھیجی جاتی ہے ،میرے پاس کوئی ذاتی علم یاایساعلم جواللہ تعالیٰ کی عطاکے بغیرہویاقدیم ولامحدودہووہ میرے پاس نہیں ،میں ایک علی الاعلان متنبہ کرنے والے کے سوااورکچھ نہیں ہوں ، لہذااگرتم میری رسالت کومانتے ہوئے میری دعوت پرایمان لے آؤتویہ دونوں جہانوں میں تمہاری خوش نصیبی ہوگااوراگرٹھکراتے ہوتوتمہاراحساب اللہ کے ذمہ ہے میں نے تمہیں برے انجام سے متنبہ کردیاہے اورمیں بری الذمہ ہوں ،

 أَنَّ أُمَّ العَلاَءِ،أَنَّهُ اقْتُسِمَ المُهَاجِرُونَ قُرْعَةً فَطَارَ لَنَا عُثْمَانُ بْنُ مَظْعُونٍ، فَأَنْزَلْنَاهُ فِی أَبْیَاتِنَا، فَوَجِعَ وَجَعَهُ الَّذِی تُوُفِّیَ فِیهِ، فَلَمَّا تُوُفِّیَ وَغُسِّلَ وَكُفِّنَ فِی أَثْوَابِهِ، دَخَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ،فَقُلْتُ: رَحْمَةُ اللَّهِ عَلَیْكَ أَبَا السَّائِبِ، فَشَهَادَتِی عَلَیْكَ: لَقَدْ أَكْرَمَكَ اللَّهُ،فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:وَمَا یُدْرِیكِ أَنَّ اللَّهَ قَدْ أَكْرَمَهُ؟فَقُلْتُ: بِأَبِی أَنْتَ یَا رَسُولَ اللَّهِ، فَمَنْ یُكْرِمُهُ اللَّهُ؟

ام العلا رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں جب مہاجرین وانصار میں بھائی چارہ کرایاگیاتوہمارے حصہ میں عثمان بن مظعون آئے ،وہ ہمارے ہاں بیمار ہوئے اورفوت ہوگئے جب ہم ان کوکفن پہناچکے تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے، تو میرے منہ سے نکل گیااے ابوالسائب! اللہ تجھ پررحم کرے ،میری توتجھ پرگواہی ہے کہ اللہ تعالیٰ یقیناًتیرااکرام کرے گا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تمہیں کیسے معلوم ہوگیا کہ اللہ تعالیٰ یقیناًاس کااکرام کرے گا؟میں نے کہامجھے تواس سلسلہ میں کچھ خبر نہیں ہےمیرے ماں باپ آپ پر فداہوں اے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم ! لیکن اورکسے نوازے گا ؟

فَقَالَ: أَمَّا هُوَ فَقَدْ جَاءَهُ الیَقِینُ، وَاللَّهِ إِنِّی لَأَرْجُو لَهُ الخَیْرَ وَمَا أَدْرِی وَاللَّهِ وَأَنَا رَسُولُ اللَّهِ مَا یُفْعَلُ بِی، قَالَتْ: فَوَاللَّهِ لاَ أُزَكِّی أَحَدًا بَعْدَهُ أَبَدًا قَالَتْ: فَأَحْزَنَنِی ذَلِكَ، فَنِمْتُ، وفَرِیتُ لِعُثْمَانَ بْنِ مَظْعُونٍ عَیْنًا تَجْرِی، فَجِئْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَأَخْبَرْتُهُ فَقَالَ:ذَلِكِ عَمَلُهُ

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاسنوان کے پاس توان کے رب کی طرف کا یقین آ پہنچا اورمجھے ان کے لئے بھلائی اورخیرکی امیدہے، اللہ کی قسم !مجھے اللہ کارسول ہونے کے باوجودعلم نہیں کہ قیامت کومیرے ساتھ کیاکیا جائے گا؟اس پرمیں نے کہااللہ کی قسم اب اس کے بعدمیں کسی کی برات نہیں کروں گی،انہوں نے بیان کیاکہ اس واقعہ پرمجھے بڑارنج ہواپھرمیں سوگئی تومیں نے خواب میں دیکھاکہ عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ کے لئے ایک بہتاہواچشمہ ہے،میں آپ کی خدمت میں حاضرہوئی اورآپ سے اپناخواب بیان کیاتوآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ یہ ان کاعمل تھا۔[31]

اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! ان سے کہو!کبھی تم نے سوچا بھی کہ اگر یہ کلام اللہ ہی کی طرف سے ہواورتم نے اس کا انکارکردیاتوتمہاراکیاانجام ہوگااور تمہیں کیسی دردناک سزائیں ملیں گی،جیسے فرمایا

قُلْ اَرَءَیْتُمْ اِنْ كَانَ مِنْ عِنْدِ اللهِ ثُمَّ كَفَرْتُمْ بِهٖ مَنْ اَضَلُّ مِمَّنْ هُوَفِیْ شِقَاقٍؚبَعِیْدٍ۝۵۲ [32]

ترجمہ:اے نبی!ان سے کہوکبھی تم نے یہ بھی سوچاکہ اگرواقعی یہ قرآن اللہ ہی کی طرف سے ہواورتم اس کا انکارکرتے رہے تواس شخص سے بڑھ کر بھٹکا ہواورکون ہوگاجواس کی مخالفت میں دورتک نکل گیاہو؟۔

تم لوگ محض اپنی ہٹ دھرمی اورتعصبات میں اس کلام کاانکارکرتے ہو ،اپنے آپ کودھوکہ دینے کے لیے اسے پرانے زمانے کی کہانیاں کہتے ہو، اللہ کے پاکیزہ کلام کومیرا من گھڑت کہتے ہوحالانکہ اس کی سچائی کی شہادت اس سے پہلے منزل کتابیں دے رہی ہوں ،اس لئے نبی اسرائیل کا ایک عام آدمی(عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت اور اس کتاب پر ایمان لے آیاہے،جیسے فرمایا

وَاِذَا یُتْلٰى عَلَیْهِمْ قَالُوْٓا اٰمَنَّا بِهٖٓ اِنَّهُ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّنَآ اِنَّا كُنَّا مِنْ قَبْلِهٖ مُسْلِـمِیْنَ۝۵۳ [33]

ترجمہ: اور جب یہ ان کوسنایا جاتا ہے تووہ کہتے ہیں کہ ہم اس پرایمان لائے یہ واقعی حق ہے ہمارے رب کی طرف سےہم توپہلے ہی مسلم ہیں ۔

ایک مقام پر فرمایا

قُلْ اٰمِنُوْا بِهٖٓ اَوْ لَا تُؤْمِنُوْا۝۰ۭ اِنَّ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَ مِنْ قَبْلِهٖٓ اِذَا یُتْلٰى عَلَیْهِمْ یَخِرُّوْنَ لِلْاَذْقَانِ سُجَّدًا۝۱۰۷ۙوَّیَـقُوْلُوْنَ سُبْحٰنَ رَبِّنَآ اِنْ كَانَ وَعْدُ رَبِّنَا لَمَفْعُوْلًا۝۱۰۸وَیَخِرُّوْنَ لِلْاَذْقَانِ یَبْكُوْنَ وَیَزِیْدُهُمْ خُشُوْعًا۝۱۰۹۞[34]

ترجمہ:اے نبی!ان لوگوں سے کہہ دوکہ تم اسے مانویانہ مانوجن لوگوں کواس سے پہلے علم دیاگیاہے انہیں جب یہ سنایاجاتاہے تووہ منہ کے بل سجدے میں گرجاتے ہیں اورپکاراٹھتے ہیں پاک ہے ہمارارب! اس کاوعدہ تو پوراہوناہی تھااوروہ منہ کے بل روتے ہوئے گرجاتے ہیں اوراسے سن کران کا خشوع اوربڑھ جاتاہے۔

ایک اہل کتاب کے ایمان لانے کے بعداس کے مُنَزَّلٌ مِنْ اللَّه ہونے میں کوئی شک نہیں رہ جاتالیکن تم اپنے گھمنڈمیں پڑے رہے ،بیشک اللہ ظالموں کو ہدایت نہیں دیاکرتا۔

وَقَالَ الَّذِینَ كَفَرُوا لِلَّذِینَ آمَنُوا لَوْ كَانَ خَیْرًا مَّا سَبَقُونَا إِلَیْهِ ۚ وَإِذْ لَمْ یَهْتَدُوا بِهِ فَسَیَقُولُونَ هَٰذَا إِفْكٌ قَدِیمٌ ‎﴿١١﴾‏ وَمِن قَبْلِهِ كِتَابُ مُوسَىٰ إِمَامًا وَرَحْمَةً ۚ وَهَٰذَا كِتَابٌ مُّصَدِّقٌ لِّسَانًا عَرَبِیًّا لِّیُنذِرَ الَّذِینَ ظَلَمُوا وَبُشْرَىٰ لِلْمُحْسِنِینَ ‎﴿١٢﴾‏ إِنَّ الَّذِینَ قَالُوا رَبُّنَا اللَّهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا فَلَا خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَلَا هُمْ یَحْزَنُونَ ‎﴿١٣﴾‏ أُولَٰئِكَ أَصْحَابُ الْجَنَّةِ خَالِدِینَ فِیهَا جَزَاءً بِمَا كَانُوا یَعْمَلُونَ ‎﴿١٤﴾‏(الاحقاف)
’’اور کافروں نے ایمانداروں کی نسبت کہا کہ اگر یہ (دین) بہتر ہوتا تو یہ لوگ اس کی طرف ہم سے سبقت کرنے نہ پاتے، اور چونکہ انہوں نے اس قرآن سے ہدایت نہیں پائی پس یہ کہہ دیں گے کہ قدیمی جھوٹ ہے، اور اس سے پہلے موسیٰ کی کتاب پیشوا اور رحمت تھی، اور یہ کتاب ہے تصدیق کرنے والی عربی زبان میں تاکہ ظالموں کو ڈرائے اور نیک کاروں کو بشارت ہو، بیشک جن لوگوں نے کہا کہ ہمارا رب اللہ ہے، پھر اس پر جمے رہے تو ان پر نہ کوئی خوف ہوگا نہ غمگین ہونگے، یہ تو اہل جنت ہیں جو سدا اسی میں رہیں گے ان اعمال کے بدلے جو وہ کیا کرتے تھے۔‘‘

جن لوگوں نے قرآن کوکلام الٰہی تسلیم کرنے سے انکارکردیاہے وہ اہل ایمان کے متعلق کہتے ہیں کہ اگریہ قرآن برحق ہوتااورمحمد صلی اللہ علیہ وسلم کسی صحیح بات کی طرف دعوت دے رہے ہوتے توبلال رضی اللہ عنہ ،عمار رضی اللہ عنہ ،صہیب رضی اللہ عنہ ،خباب رضی اللہ عنہ اوران جیسے غربا وفقرالوگ اسلام قبول کرنے میں ہم جیسے جہاندیدہ ، ذی عزت وذی مرتبہ پر سبقت کاشرف حاصل نہ کرسکتے تھے،اللہ تعالیٰ نے فرمایا

وَكَذٰلِكَ فَتَنَّا بَعْضَهُمْ بِبَعْضٍ لِّیَقُوْلُوْٓا اَهٰٓؤُلَاۗءِ مَنَّ اللهُ عَلَیْهِمْ مِّنْۢ بَیْنِنَا ۔۔۔  [35]

ترجمہ:دراصل ہم نے اس طرح ان لوگوں میں سے بعض کوبعض کے ذریعہ سے آزمائش میں ڈالاہے تاکہ وہ انہیں دیکھ کرکہیں کیایہ ہیں وہ لوگ جن پرہمارے درمیان اللہ کافضل وکرم ہواہے۔

چونکہ انہوں نے کلام الٰہی سے رہنمائی حاصل نہیں کی اس لئے اپنی خجالت دورکرنے کے لئے کہیں گے کہ قرآن میں تو پرانے وقتوں کی فرسودہ کہانیاں ہیں ،اس طرح وہ قرآن اورقرآن مجیدپرایمان لانے والوں کی تنقیص کرتے ہیں اوریہی تکبرہے،

عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ مَسْعُودٍ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:الْكِبْرُ بَطَر الْحَقِّ، وغَمْط النَّاسِ

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما سے مروی ہےجس کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاہے تکبرحق کاانکارکرنے اورلوگوں کوحقیرسمجھنے کانام ہے۔[36]

اس طرح وہ جلیل ترین عطیات سے محروم ہوگئے ،حالانکہ نزول قرآن سے پہلے موسیٰ پر تورات رہنمااوررحمت بن کرنازل ہوچکی ہے اوریہ قرآن اپنے سے پہلے کی تمام کتابوں کومُنَزَّلٌ مِنْ اللَّه کہتااور ان کی تصدیق کرتا ہے اور ان کی اپنی فصیح وبلیغ عربی زبان میں نازل کیاہے تاکہ تو کفر،فسق اورنافرمانی کاارتکاب کرنے والوں کو عذاب جہنم اورایمان لانے والوں اوراعمال صالحہ اختیار کرنے والوں کوبخشش اورلازوال انواع و اقسام کی نعمتوں سے بھری جنتوں کی بشارت دے دے،یقیناًجولوگ اللہ کی وحدانیت کی گواہی دیتے ہیں پھرمرتے دم تک اس عقیدہ پرقائم رہتے ہیں ،اس میں کسی باطل عقیدے کی آمیزش نہیں کرتے ، اللہ کے ساتھ کسی کوشریک نہیں ٹھہراتے بلکہ اللہ کی اطاعت پراستقامت اختیارکرتے ہیں ، روز محشر انہیں کسی قسم کاکوئی خوف لاحق نہ ہوگانہ وہ غمگین ہوں گے ،جیسے فرمایا

اِنَّ الَّذِیْنَ قَالُوْا رَبُّنَا اللهُ ثُمَّ اسْـتَقَامُوْا تَـتَنَزَّلُ عَلَیْهِمُ الْمَلٰۗىِٕكَةُ اَلَّا تَخَافُوْا وَلَا تَحْزَنُوْا وَاَبْشِرُوْا بِالْجَنَّةِ الَّتِیْ كُنْتُمْ تُوْعَدُوْنَ   [37]

ترجمہ: جن لوگوں نے کہاکہ اللہ ہمارارب ہے اورپھروہ اس پر ثابت قدم رہے ،ان پر یقیناًان پرفرشتے نازل ہوتے ہیں اوران سے کہتے ہیں کہ نہ ڈرو،غم نہ کرواورخوش ہو جاؤاس جنت کی بشارت سے جس کاتم سے وعدہ کیا گیا ہے ۔

ایسے باکمال لوگ جنت میں داخل ہونے والے ہیں جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے اپنے ان نیک اعمال کے بدلے جووہ دنیامیں کرتے رہے ہیں ۔

وَوَصَّیْنَا الْإِنسَانَ بِوَالِدَیْهِ إِحْسَانًا ۖ حَمَلَتْهُ أُمُّهُ كُرْهًا وَوَضَعَتْهُ كُرْهًا ۖ وَحَمْلُهُ وَفِصَالُهُ ثَلَاثُونَ شَهْرًا ۚ حَتَّىٰ إِذَا بَلَغَ أَشُدَّهُ وَبَلَغَ أَرْبَعِینَ سَنَةً قَالَ رَبِّ أَوْزِعْنِی أَنْ أَشْكُرَ نِعْمَتَكَ الَّتِی أَنْعَمْتَ عَلَیَّ وَعَلَىٰ وَالِدَیَّ وَأَنْ أَعْمَلَ صَالِحًا تَرْضَاهُ وَأَصْلِحْ لِی فِی ذُرِّیَّتِی ۖ إِنِّی تُبْتُ إِلَیْكَ وَإِنِّی مِنَ الْمُسْلِمِینَ ‎﴿١٥﴾‏ أُولَٰئِكَ الَّذِینَ نَتَقَبَّلُ عَنْهُمْ أَحْسَنَ مَا عَمِلُوا وَنَتَجَاوَزُ عَن سَیِّئَاتِهِمْ فِی أَصْحَابِ الْجَنَّةِ ۖ وَعْدَ الصِّدْقِ الَّذِی كَانُوا یُوعَدُونَ ‎﴿١٦﴾(الاحقاف)
’’اور کافروں نے ایمانداروں کی نسبت کہا کہ اگر یہ (دین) بہتر ہوتا تو یہ لوگ اس کی طرف ہم سے سبقت کرنے نہ پاتے، اور چونکہ انہوں نے اس قرآن سے ہدایت نہیں پائی پس یہ کہہ دیں گے کہ قدیمی جھوٹ ہے، اور اس سے پہلے موسیٰ کی کتاب پیشوا اور رحمت تھی، اور یہ کتاب ہے تصدیق کرنے والی عربی زبان میں تاکہ ظالموں کو ڈرائے اور نیک کاروں کو بشارت ہو، بیشک جن لوگوں نے کہا کہ ہمارا رب اللہ ہے، پھر اس پر جمے رہے تو ان پر نہ کوئی خوف ہوگا نہ غمگین ہونگے، یہ تو اہل جنت ہیں جو سدا اسی میں رہیں گے ان اعمال کے بدلے جو وہ کیا کرتے تھے۔‘‘

والدین سے بہترسلوک :

ہم نے انسان کوہدایت کی کہ وہ اپنے والدین کے ساتھ نیک برتاؤکرے ،اس کی ماں نے نوماہ تک مشقت اٹھاکراسے پیٹ میں رکھااورمشقت اٹھا کرہی اس کوجنا،جیسے فرمایا

وَقَضٰى رَبُّكَ اَلَّا تَعْبُدُوْٓا اِلَّآ اِیَّاهُ وَبِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا۝۰ۭ اِمَّا یَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ اَحَدُهُمَآ اَوْ كِلٰـهُمَا فَلَا تَـقُلْ لَّهُمَآ اُفٍّ وَّلَا تَنْهَرْهُمَا وَقُلْ لَّهُمَا قَوْلًا كَرِیْمًا۝۲۳  [38]

ترجمہ:تیرے رب نے فیصلہ کردیاہے کہ تم لوگ کسی کی عبادت نہ کرومگرصرف اس کی،والدین کے ساتھ نیک سلوک کرواگر تمہارے پاس ان میں سے کوئی ایک یادونوں بوڑھے ہوکررہیں توانہیں اف تک نہ کہو،نہ انہیں جھڑک کرجواب دوبلکہ اسے احترام کے ساتھ بات کرو۔

 وَوَصَّیْنَا الْاِنْسَانَ بِوَالِدَیْهِ۝۰ۚ حَمَلَتْهُ اُمُّهٗ وَهْنًا عَلٰی وَهْنٍ وَّفِصٰلُهٗ فِیْ عَامَیْنِ اَنِ اشْكُرْ لِیْ وَلِوَالِدَیْكَ۝۰ۭ اِلَیَّ الْمَصِیْرُ۝۱۴ [39]

ترجمہ:اوریہ حقیقت ہے کہ ہم نے انسان کواپنے والدین کاحق پہچاننے کی خودتاکیدکی ہے ،اس کی ماں نے ضعف پرضعف اٹھاکراسے اپنے پیٹ میں رکھااوردوسال اس کادودھ چھوٹنے میں لگے (اسی لئے ہم نے اس کونصیحت کی کہ)میراشکرکراوراپنے والدین کاشکربجالا،میری ہی طرف تجھے پلٹناہے۔

وَالْوَالِدٰتُ یُرْضِعْنَ اَوْلَادَھُنَّ حَوْلَیْنِ كَامِلَیْنِ لِمَنْ اَرَادَ اَنْ یُّـتِمَّ الرَّضَاعَةَ ۔۔۔۝۲۳۳ [40]

ترجمہ:جوباپ چاہتے ہوں کہ ان کی اولادپوری مدت رضاعت تک دودھ پیئے تومائیں اپنے بچوں کامل دوسال دودھ پلائیں ۔

اس لئے ماں کے ساتھ حسن سلوک کواولیت دی گئی ہے اورباپ کادرجہ اس کے بعدفرمایاہے ،

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ، قَالَ:جَاءَ رَجُلٌ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: یَا رَسُولَ اللَّهِ، مَنْ أَحَقُّ النَّاسِ بِحُسْنِ صَحَابَتِی؟قَالَ:أُمُّكَ، قَالَ: ثُمَّ مَنْ؟ قَالَ:ثُمَّ أُمُّكَ،قَالَ: ثُمَّ مَنْ؟قَالَ:ثُمَّ أُمُّكَ،قَالَ: ثُمَّ مَنْ؟قَالَ:ثُمَّ أَبُوكَ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیااورپوچھااے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !میرے حسن سلوک کاسب سے زیادہ مستحق کون ہے ؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاتمہاری ماں ،اس نے پھر پوچھا پھر کون؟فرمایاتیری ماں کاوہ بولاپھرکون؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاتمہاری ماں ،وہ پھربولا پھرکون ؟فرمایا تیرےباپ کا۔[41]

اوراس کے حمل اوردودھ چھڑانے میں تیس مہینے لگ گئے ،

عَنْ بَعْجَةَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الْجُهَنِیِّ قَالَ: تَزَوَّجَ رَجُلٌ مِنَّا امْرَأَةً مِنْ جُهَیْنة، فَوَلَدَتْ لَهُ لِتَمَامِ سِتَّةِ أَشْهُرٍ فَانْطَلَقَ زَوْجُهَا إِلَى عُثْمَانَ فَذَكَرَ ذَلِكَ لَهُ، فَبَعَثَ إِلَیْهَا فَلَمَّا قَامَتْ لِتَلَبِسَ ثِیَابَهَا بَكَتْ أُخْتُهَا فَقَالَتْ: مَا یُبْكِیكِ؟! فَوَاللَّهِ مَا الْتَبَسَ بِی أَحَدٌ مِنْ خَلْقِ اللَّهِ غَیْرَهُ قَطُّ، فَیَقْضِی اللَّهُ فِیَّ مَا شَاءَ، فَلَمَّا أُتِیَ بِهَا عُثْمَانُ أَمَرَ بِرَجْمِهَا، فَبَلَغَ ذَلِكَ عَلِیًّا فَأَتَاهُ، فَقَالَ لَهُ: مَا تَصْنَعُ؟ قَالَ: وَلَدَتْ تَمَامًا لِسِتَّةِ أَشْهُرٍ، وَهَلْ یَكُونُ ذَلِكَ؟

بعجہ بن عبداللہ جہنی سے روایت ہے ہمارے ایک شخص نے جہینہ قبیلے کی ایک عورت سے شادی کی تواس نے پورے چھ ماہ بعداس کے بیٹے کوجنم دے دیا،اس عورت کاشوہرسیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے پاس گیااوراس نے آپ کی خدمت میں اس کاذکرکیا،سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے اس عورت کوبلابھیجا،تووہ اپنے کپڑے پہننے کے لیے کھڑی ہوئی تواس کی بہن رونے لگی؟اس نے پوچھاکہ تم کیوں روتی ہو؟اللہ کی قسم!اللہ تعالیٰ کی مخلوق میں سے اپنے اس شوہرکے سوااورکسی نے میرے ساتھ کبھی اختلاط نہیں کیااس لیے اللہ تعالیٰ میرے بارے میں جوچاہے گا فیصلہ فرمائے گا،جب اس عورت کوسیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے پاس لایاگیاتوآپ نے اسے رجم کرنے کاحکم دے دیا،سیدنا علی رضی اللہ عنہ کوجب یہ بات پہنچی تووہ آپ کے پاس آئے اورفرمانے لگے کہ آپ کیاکرتے ہیں ؟انہوں نے جواب دیاکہ اس عورت نے پورے چھ ماہ بعدبچے کوجنم دیاہے توکیاچھ ماہ بعدبچہ پیداہوسکتاہے؟ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایاکیاآپ قرآن نہیں پڑھتے؟انہوں نے جواب دیاکیوں نہیں ،

فَقَالَ لَهُ [عَلِیٌّ] أَمَا تَقْرَأُ الْقُرْآنَ؟ قَالَ: بَلَى قَالَ: أَمَا سَمِعْتَ اللَّهَ یَقُولُ وَحَمْلُهُ وَفِصَالُهُ ثَلاثُونَ شَهْرًا وَقَالَ یُرْضِعْنَ أَوْلادَهُنَّ] حَوْلَیْنِ كَامِلَیْنِ، فَلَمْ نَجِدْهُ بَقَّى إِلَّا سِتَّةَ أَشْهُرٍ قَالَ: فَقَالَ عُثْمَانُ: وَاللَّهِ مَا فَطِنْتُ لِهَذَا عَلَیَّ بِالْمَرْأَةِ فَوَجَدُوهَا قَدْ فُرِغَ مِنْهَا، قَالَ: فَقَالَ بَعْجَةُ: فَوَاللَّهِ مَا الْغُرَابُ بِالْغُرَابِ وَلَا الْبَیْضَةُ بِالْبَیْضَةِ بِأَشْبَهَ مِنْهُ بِأَبِیهِ، فَلَمَّا رَآهُ أَبُوهُ قَالَ: ابْنِی إِنِّی وَاللَّهِ لَا أَشُكُّ فِیهِ، قَالَ: وَأَبْلَاهُ اللَّهُ بِهَذِهِ الْقُرْحَةِ قُرْحَةِ الْأَكَلَةِ، فَمَا زَالَتْ تَأْكُلُهُ حَتَّى مَاتَ

سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے کہاکیاآپ نے اللہ تعالیٰ کایہ فرمان نہیں سنا اوراس کے حمل اوردودھ چھڑانے میں تیس مہینے لگ گئے اوریہ فرمان تو مائیں اپنے بچّوں کو کامل دو سال دودھ پلائیں اس طرح حمل کے لیے چھ ماہ بچتے ہیں ،یہ سن کرسیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے فرمایااللہ کی قسم ! میں اس بات کوسمجھ نہیں سکاعورت کومیرے پاس واپس لاؤمگرلوگ اسے رجم کرکے فارغ ہوچکے تھے،بعجہ نے کہااللہ کی قسم !اس بچے کواپنے باپ کے ساتھ اس قدرمشابہت تھی کہ کوے کوکوے کے ساتھ اورانڈے کوانڈے کے ساتھ بھی اس طرح مشابہت نہیں ہوتی،جب اس کے باپ نے اسے دیکھاتوکہاکہ یہ میرابیٹاہے اللہ کی قسم !مجھے اس کے بارے میں کوئی شک نہیں ، لیکن اللہ تعالیٰ نے اس شخص کواس آزمائش میں مبتلاکردیاکہ اس کے چہرے پرگوشت کھانے والاایک پھوڑانکل آیاجواسے مسلسل کھاتارہاحتی کہ وہ مرگیا۔[42]

اس احسان عظیم کے بعدایک مومن کی دعاکا ذکر فرمایا یہاں تک کہ جب وہ اپنی پوری جوانی کو پہنچا اور پھر چالیس سال کا ہو گیا اور عقل وفہم کمال کوپہنچا،مزاج میں بردباری آگئی تواس نے کہااے میرے رب! مجھے توفیق دے کہ میں تیری نعمتوں کاشکریہ اداکروں جوتونے مجھے اور میرے والدین کو عطا فرمائیں ، اورایسے نیک عمل کی توفیق دے جواپنی ظاہری صورت میں بھی ٹھیک ٹھیک تیرے قانون کے مطابق ہواورحقیقت میں بھی تیرے ہاں مقبول ہونے کے لائق ہو اور میری اولادکوبھی صالح بناکرمجھے سکھ دے،میں تیرے حضور گناہ اورمعاصی سے توبہ کرتاہوں اورمیں اطاعت گزاربندوں میں سے ہوں ،

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ:وَكَانَ یُعَلِّمُنَا كَلِمَاتٍ وَلَمْ یَكُنْ یُعَلِّمُنَاهُنَّ كَمَا یُعَلِّمُنَا التَّشَهُّدَ:اللَّهُمَّ أَلِّفْ بَیْنَ قُلُوبِنَا، وَأَصْلِحْ ذَاتَ بَیْنِنَا، وَاهْدِنَا سُبُلَ السَّلَامِ، وَنَجِّنَا مِنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ، وَجَنِّبْنَا الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ، وَبَارِكْ لَنَا فِی أَسْمَاعِنَا وَأَبْصَارِنَا وَقُلُوبِنَا وَأَزْوَاجِنَا وَذُرِّیَّاتِنَا، وَتُبْ عَلَیْنَا، إِنَّكَ أَنْتَ التَّوَّابُ الرَّحِیمُ، وَاجْعَلْنَا شَاكِرِینَ لِنِعْمَتِكَ، مُثْنِینَ بِهَا، قَابِلِیهَا وَأَتِمَّهَا عَلَیْنَا

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کوالتحیات میں یہ دعا پڑھنے کی تلقین کیاکرتے تھے اے اللہ !ہمارے دلوں میں الفت ڈال اورہمارے آپس میں اصلاح کردے اورہمیں سلامتی کی راہیں دکھااورہمیں اندھیروں سے بچا کر نور کی طرف نجات دےاورہمیں ہربرائی سے بچالے خواہ وہ ظاہرہوخواہ چھپی ہوئی ہو اورہمیں کانوں میں اورآنکھوں میں اوردلوں میں اوربیوی بچوں میں برکت دےاور ہم پر رجوع فرمایقیناتورجوع فرمانے والامہربان ہے،اے اللہ!ہمیں اپنی نعمتوں کا شکر گزار اوران کے باعث اپناثناخواں اور نعمتوں کااقراری بنا اوراپنی بھرپور نعمتیں ہمیں عطا فرما۔[43]

اس طرح کے لوگوں سے ہم ان کے بہترین اعمال کوقبول کرتے ہیں اور ان کی لغزشوں ، کمزوریوں اورخطاؤں کومعاف فرمادیتے ہیں ،یہ لوگ جنت میں داخل ہونے والے خوش نصیبوں میں شامل ہوں گے،یہ وہ سچاوعدہ ہے جوان سے کیا جاتاتھا۔

وَالَّذِی قَالَ لِوَالِدَیْهِ أُفٍّ لَّكُمَا أَتَعِدَانِنِی أَنْ أُخْرَجَ وَقَدْ خَلَتِ الْقُرُونُ مِن قَبْلِی وَهُمَا یَسْتَغِیثَانِ اللَّهَ وَیْلَكَ آمِنْ إِنَّ وَعْدَ اللَّهِ حَقٌّ فَیَقُولُ مَا هَٰذَا إِلَّا أَسَاطِیرُ الْأَوَّلِینَ ‎﴿١٧﴾‏ أُولَٰئِكَ الَّذِینَ حَقَّ عَلَیْهِمُ الْقَوْلُ فِی أُمَمٍ قَدْ خَلَتْ مِن قَبْلِهِم مِّنَ الْجِنِّ وَالْإِنسِ ۖ إِنَّهُمْ كَانُوا خَاسِرِینَ ‎﴿١٨﴾‏ وَلِكُلٍّ دَرَجَاتٌ مِّمَّا عَمِلُوا ۖ وَلِیُوَفِّیَهُمْ أَعْمَالَهُمْ وَهُمْ لَا یُظْلَمُونَ ‎﴿١٩﴾‏ وَیَوْمَ یُعْرَضُ الَّذِینَ كَفَرُوا عَلَى النَّارِ أَذْهَبْتُمْ طَیِّبَاتِكُمْ فِی حَیَاتِكُمُ الدُّنْیَا وَاسْتَمْتَعْتُم بِهَا فَالْیَوْمَ تُجْزَوْنَ عَذَابَ الْهُونِ بِمَا كُنتُمْ تَسْتَكْبِرُونَ فِی الْأَرْضِ بِغَیْرِ الْحَقِّ وَبِمَا كُنتُمْ تَفْسُقُونَ ‎﴿٢٠﴾‏(الاحقاف)
’’اور جس نے اپنے ماں باپ سے کہا کہ تم سے میں تنگ آگیا، تم مجھ سے یہ کہتے رہو گے کہ میں مرنے کے بعد زندہ ہوجاؤں گا مجھ سے پہلے بھی امتیں گزر چکی ہیں ، وہ دونوں جناب باری میں فریاد کرتے ہیں اور کہتے ہیں تجھے خرابی ہو تو ایمان لے آ، بیشک اللہ کا وعدہ حق ہے، وہ جواب دیتا ہے کہ یہ تو صرف اگلوں کے افسانے ہیں ، وہ لوگ ہیں جن پر (اللہ کے عذاب کا) وعدہ صادق آگیا ان جنات اور انسانوں کے گروہوں کے ساتھ جو ان سے پہلے گزر چکے، یقیناً یہ نقصان پانے والے تھے،اور ہر ایک کو اپنے اپنے اعمال کے مطابق درجے ملیں گے تاکہ انہیں ان کے اعمال کا پورے بدلے دےاور ان پر ظلم نہ کیا جائے گا،اور جس دن کافر جہنم کے سرے پر لائے جائیں گے (کہا جائے گا) تم نے اپنی نیکیاں دنیا کی زندگی میں ہی برباد کردیں اور ان کا فائدہ اٹھا چکے، پس آج تمہیں ذلت کے عذاب کی سزا دی جائے گی، اس باعث کہ تم زمین میں ناحق تکبر کیا کرتے تھے اور اس باعث بھی کہ تم حکم عدولی کرتے تھے۔‘‘

سعادت منداولادکے بعدبدبخت اورنافرمان اولادکاذکرفرمایاجواپنے والدین کے ساتھ گستاخی سے پیش آتی ہے اورباپ کی ناصحانہ باتوں پریادعوت ایمان وعمل صالحہ پر ناگواری اورشدت غیظ کااظہارکرتے ہوئے کہتا ہےتمہارے لئے ہلاکت ہو تم نے تومجھے تنگ کرکے رکھ دیاہے ، ہروقت تم مجھے یہی مجھے خوف دلاتے رہتے ہوکہ مرنے کے بعد اعمال کی باز پرس کے لئے میں پھرقبرسے زندہ نکالاجاؤں گاحالانکہ مجھ سے پہلے بہت سی نسلیں گزرچکی ہیں ان میں سے توکوئی اٹھ کرنہیں آیاہے،مسلمان والدین اللہ کی دہائی دے کر دردمندی سے کہتے ہیں ارے بدنصیب !ابھی وقت نہیں گزرااپنے ان غلیظ عقائدسے تائب ہوکرحیات بعدالموت اورجزاوسزاکوتسلیم کرلے ،بیشک اللہ کاوعدہ سچاہےوہ ایک وقت مقررہ پرتمام لوگوں کوان کی قبروں سے زندہ کرے گااورسب کو میدان محشرمیں جمع کرکے اعمال کی بابت سوال کرے گااگراعمال نیک ہوئے توجنت ورنہ جہنم کے دردناک عذاب میں داخل کردے گا،مگروہ منکر حیات بعدالموت کومحال سمجھتے ہوئے تکبرسے کہتا ہے مرنے کے بعدکوئی زندہ نہیں ہوگا،اعمال کی کوئی جزاوسزا نہیں ، کوئی جنت ودوزخ نہیں ،یہ سب اگلے وقتوں کی فرسودہ کہانیاں ہیں ،یہ وہ لوگ ہیں جن پرعذاب کافیصلہ چسپاں ہوچکا ہے،جیسے فرمایا:

قَالَ فَالْحَقُّ۝۰ۡوَالْحَقَّ اَقُوْلُ۝۸۴ۚ لَاَمْلَــــَٔنَّ جَهَنَّمَ مِنْكَ وَمِمَّنْ تَبِعَكَ مِنْهُمْ اَجْمَعِیْنَ۝۸۵ [44]

ترجمہ:فرمایاتوحق یہ ہے اورمیں حق ہی کہاکرتاہوں کہ میں جہنم کوتجھ سے اوران سب لوگوں سے بھردوں گاجوان انسانوں میں سے تیری پیروی کریں گے ۔

انہی عقائدواعمال کے حامل جنوں وانسانوں کے جوگروہ پہلے گزر چکے ہیں روزقیامت یہ بھی انہی کے ساتھ نقصان اٹھانے والوں میں شامل ہوں گے،

عَنِ الْحَسَنِ، فِی قَوْلِهِ: وَالَّذِی قَالَ لِوَالِدَیْهِ أُفٍّ لَكُمَا أَتَعِدَانِنِی أَنْ أُخْرَجَ،قَالَ:هُوَ الْكَافِرُ الْفَاجِرُ الْعَاقُّ لِوَالِدَیْهِ الْمُكَذِّبُ بِالْبَعْثِ

حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں اس آیت’’اورجس نے اپنے ماں باپ سے کہاکہ تم سے میں تنگ آگیا،تم مجھ سے یہ کہتے رہوگے کہ میں مرنے کے بعدزندہ ہوجاؤں گا۔‘‘ کا مصداق ہروہ کافروفاجرہے جواپنے ماں باپ کانافرمان اوربعث بعدالموت کی تکذیب کرتا ہے۔[45]

اہل خیرواہل شردونوں کے درجے ان کے اعمال کے لحاظ سے ہیں تاکہ اللہ ان کے اعمال کاٹھیک ٹھیک بدلہ دے،اللہ نہ اچھے لوگوں کی نیکیاں اورقربانیاں ضائع کرے گا اور نہ برے لوگوں کوان کی واقعہ برائی سے بڑھ کرسزادے گا،

قَالَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ زَیْدِ بْنِ أَسْلَمَ: دَرَجَاتُ النَّارِ تَذْهَبُ سَفَالًا وَدَرَجَاتُ الْجَنَّةِ تَذْهَبُ عُلُوًّا

عبدالرحمٰن بن زیدبن اسلم کاقول ہے جہنم کے درجے نیچے کی طرف اورجنت کے درجے اوپرکی طرف جاتے ہیں ۔[46]

پھرجب یہ کافرجہنم کے کنارے لاکرکھڑے کیے جائیں گے توان سے کہاجائے گاتم اپنے حصے کی نعمتیں اپنی دنیاکی زندگی میں ختم کرچکے اوران کالطف تم نے اٹھالیااورانہی میں مست ہوکرتم آخرت کی فکرسے غافل ہوگئے،

وَقَدْ تَوَرَّعَ أَمِیرِ الْمُؤْمِنِینَ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ، رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنْ كَثِیرٍ مِنْ طَیِّبَاتِ الْمَآكِلِ وَالْمَشَارِبِ، وَتَنَزَّهَ عَنْهَا وَیَقُولُ:إِنِّی أَخَافُ أَنْ أَكُونَ كَالَّذِینِ قَالَ اللَّهُ تَعَالَى لَهُمْ وقَرَّعهم:أَذْهَبْتُمْ طَیِّبَاتِكُمْ فِی حَیَاتِكُمُ الدُّنْیَا وَاسْتَمْتَعْتُمْ بِهَا

اسی آیت کے پیش نظرامیرالمومنین سیدناعمرفاروق رضی اللہ عنہ نے بہت زیادہ مرغوب اورلطیف غذاؤں سے اجتناب کرلیاتھااورفرمایاکرتےتھے مجھے ڈرہے کہ کہیں میں ان لوگوں میں نہ ہوجاؤں جنہیں اللہ تعالیٰ ڈانٹ ڈپٹ کے ساتھ فرمائے گاتم اپنے حصے کی نعمتیں اپنی دنیاکی زندگی میں ختم کرچکے اوران کالطف تم نے اٹھالیا۔[47]

چنانچہ زمین میں جونا حق تکبرتم کرتے رہے اوراللہ کی جوجونافرمانیاں تم نے کیں ان کی پاداش میں آج تم کواہانت اوررسوائی والاعذاب دیاجائے گا۔

أَجَارَنَا اللَّهُ مِنْ ذَلِكَ كُلِّهِ

اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے فضل وکرم سے ان سب عذابوں سے محفوظ رکھے۔

وَاذْكُرْ أَخَا عَادٍ إِذْ أَنذَرَ قَوْمَهُ بِالْأَحْقَافِ وَقَدْ خَلَتِ النُّذُرُ مِن بَیْنِ یَدَیْهِ وَمِنْ خَلْفِهِ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا اللَّهَ إِنِّی أَخَافُ عَلَیْكُمْ عَذَابَ یَوْمٍ عَظِیمٍ ‎﴿٢١﴾‏ قَالُوا أَجِئْتَنَا لِتَأْفِكَنَا عَنْ آلِهَتِنَا فَأْتِنَا بِمَا تَعِدُنَا إِن كُنتَ مِنَ الصَّادِقِینَ ‎﴿٢٢﴾‏ قَالَ إِنَّمَا الْعِلْمُ عِندَ اللَّهِ وَأُبَلِّغُكُم مَّا أُرْسِلْتُ بِهِ وَلَٰكِنِّی أَرَاكُمْ قَوْمًا تَجْهَلُونَ ‎﴿٢٣﴾(الاحقاف)
’’اور عاد کے بھائی کو یاد کرو جبکہ اس نے اپنی قوم کو احقاف میں ڈرایا اور یقیناً اس سے پہلے بھی ڈرانے والے گزر چکے ہیں اور اس کے بعد بھی یہ کہ تم سوائے اللہ تعالیٰ کے اور کی عبادت نہ کرو، بیشک میں تم پر بڑے دن کے عذاب سے خوف کھاتا ہوں ، قوم نے جواب دیا کیا آپ ہمارے پاس اس لیے آئے ہیں کہ ہمیں اپنے معبودوں (کی پرستش) سے باز رکھیں ؟ پس اگر آپ سچے ہیں تو جس عذاب کا آپ وعدہ کرتے ہیں اسے ہم پر لا ڈالیں ،(حضرت ہود نے) کہا (اس کا) علم تو اللہ ہی کے پاس ہے، میں تو جو پیغام دے کر بھیجا گیا تھا وہ تمہیں پہنچا رہا ہوں لیکن میں دیکھتا ہوں کہ تم لوگ نادانی کر رہے ہو۔‘‘

سرداران قریش اپنی طاقت اور بڑائی کے زعم میں مبتلاتھے ،اس لئے انہیں قوم عادکاقصہ سنایاجس کے متعلق اہل عرب جانتے تھے کہ وہ اپنے زمانے کی ایک شاندارتمدن رکھنے والی طاقت ونخوت کی مالک قوم تھی فرمایاکہ ذراانہیں قوم عادکے پیغمبرہود علیہ السلام کاقصہ سناؤجب کہ ہود علیہ السلام نے حضرموت کے قریب احقاف میں اپنی قوم کوخبردارکیاتھا

وَقَالَ قَتَادَةُ: ذُكر لَنَا أَنَّ عَادًا كَانُوا حَیًّا بِالْیَمَنِ أَهْلَ رَمْلٍ مُشْرِفِینَ عَلَى الْبَحْرِ بِأَرْضٍ یُقَالُ لَهَا: الشِّحْر

قتادہ کہتے ہیں ہم سے بیان کیاگیاہے کہ عادیمن کاایک قبیلہ تھاجورہت والے علاقے میں رہتاتھااورشحرنامی جگہ میں ساحل سمندرپرتھا۔[48]

اورایسی پاکیزہ دعوت دینے والے ہود علیہ السلام کوئی انوکھے رسول نہیں تھے بلکہ پہلے بھی پیغمبریہ دعوت دے چکے تھے اوراس کے بعدبھی مبعوث ہوتے رہے،ان سب کی دعوت ایک ہی تھی کہ طاغوت کی بندگی واطاعت سے تائب ہوکر اللہ وحدہ لاشریک کی بندگی کرواللہ کے سواکوئی بندگی واطاعت کامستحق نہیں ہے ،جیسے فرمایا

فَاِنْ اَعْرَضُوْا فَقُلْ اَنْذَرْتُكُمْ صٰعِقَةً مِّثْلَ صٰعِقَةِ عَادٍ وَّثَمُوْدَ۝۱۳ۭ اِذْ جَاۗءَتْہُمُ الرُّسُلُ مِنْۢ بَیْنِ اَیْدِیْہِمْ وَمِنْ خَلْفِہِمْ اَلَّا تَعْبُدُوْٓا اِلَّا اللہَ۔۔۔۝۱۴  [49]

ترجمہ:اب اگر یہ لوگ منہ موڑتے ہیں تو ان سے کہہ دو کہ میں تم کو اسی طرح کے ایک اچانک ٹوٹ پڑنے والے عذاب سے ڈراتا ہوں جیسا عاد اور ثمود پر نازل ہوا تھاجب اللہ کے رسول ان کے پاس آگے اور پیچھے، ہر طرف سے آئے اور انہیں سمجھایا کہ اللہ کے سوا کسی کی بندگی نہ کرو ۔

اگرتم اس پاکیزہ دعوت کوقبول نہیں کرتے تو مجھے تمہارے حق میں ایک بڑے ہولناک دن کے عذاب کااندیشہ ہے،قوم نے اس دردمندی کایہ جواب دیااے ہود علیہ السلام !کیا تو اس لئے مبعوث ہواہے کہ ہمیں بہکاکرہمارے معبودوں سے پھیردےجن کی ہمارے آباؤاجدادپرستش کرتے چلے آئے ہیں ؟ہود علیہ السلام پرخلوص اندازمیں طرح طرح سے وعظ ونصیحت کرتے رہے مگر لاحاصل ،جب ایک عرصہ گزرگیااورتکذیب کے باوجودکوئی تبدیلی واقع نہ ہوئی توقوم کے سرداروں نے عذاب الٰہی کومحال سمجھااوربڑی جرات کے ساتھ مطالبہ کیا اے ہود علیہ السلام علیہ السلام !اگرواقعی توسچاہے تو جس ہولناک عذاب سے توہمیں ڈراتارہتاہے وہ لے آؤ،اورایسامطالبہ ہرمشرک قوم اپنے پیغمبرسے کرتی رہی ہے جیسے فرمایا

یَسْتَعْجِلُ بِهَا الَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ بِهَا۔۔۔ ۝۱۸ [50]

ترجمہ:جولوگ اس کے آنے پرایمان نہیں رکھتے وہ تواس کے لئے جلدی مچاتے ہیں ۔

ہود علیہ السلام نے کہاتمہارے مطالبہ کے مطابق دنیامیں تم پرعذاب نازل ہوگا یا نہیں ہوگایاکتنی مہلت دینے کے بعد نازل ہوگا یہ اللہ کی مشیت پرمنحصرہے،میرامنصب تویہ ہے پوری دیانت وامانت کے ساتھ اورواضح طورپر دعوت حق تمہیں پہنچادوں اس کے سوامجھ پرکوئی اورذمہ داری نہیں ہے ،مگرمیں دیکھ رہاہوں کہ تم لوگ عقل وشعورسے کام نہیں لے رہے ہوبلکہ میری تنبیہ کوایک مذاق سمجھ رہے ہومگرتمہیں اندازہ نہیں کہ اللہ کاعذاب کیسادردناک ہوتاہے۔

فَلَمَّا رَأَوْهُ عَارِضًا مُّسْتَقْبِلَ أَوْدِیَتِهِمْ قَالُوا هَٰذَا عَارِضٌ مُّمْطِرُنَا ۚ بَلْ هُوَ مَا اسْتَعْجَلْتُم بِهِ ۖ رِیحٌ فِیهَا عَذَابٌ أَلِیمٌ ‎﴿٢٤﴾‏ تُدَمِّرُ كُلَّ شَیْءٍ بِأَمْرِ رَبِّهَا فَأَصْبَحُوا لَا یُرَىٰ إِلَّا مَسَاكِنُهُمْ ۚ كَذَٰلِكَ نَجْزِی الْقَوْمَ الْمُجْرِمِینَ ‎﴿٢٥﴾‏ وَلَقَدْ مَكَّنَّاهُمْ فِیمَا إِن مَّكَّنَّاكُمْ فِیهِ وَجَعَلْنَا لَهُمْ سَمْعًا وَأَبْصَارًا وَأَفْئِدَةً فَمَا أَغْنَىٰ عَنْهُمْ سَمْعُهُمْ وَلَا أَبْصَارُهُمْ وَلَا أَفْئِدَتُهُم مِّن شَیْءٍ إِذْ كَانُوا یَجْحَدُونَ بِآیَاتِ اللَّهِ وَحَاقَ بِهِم مَّا كَانُوا بِهِ یَسْتَهْزِئُونَ ‎﴿٢٦﴾‏ وَلَقَدْ أَهْلَكْنَا مَا حَوْلَكُم مِّنَ الْقُرَىٰ وَصَرَّفْنَا الْآیَاتِ لَعَلَّهُمْ یَرْجِعُونَ ‎﴿٢٧﴾‏ فَلَوْلَا نَصَرَهُمُ الَّذِینَ اتَّخَذُوا مِن دُونِ اللَّهِ قُرْبَانًا آلِهَةً ۖ بَلْ ضَلُّوا عَنْهُمْ ۚ وَذَٰلِكَ إِفْكُهُمْ وَمَا كَانُوا یَفْتَرُونَ ‎﴿٢٨﴾(الاحقاف)
’’پھر جب انہوں نے عذاب کو بصورت بادل دیکھا اپنی وادیوں کی طرف آتے ہوئےتو کہنے لگےیہ ابر ہم پر برسنے والا ہے (نہیں ) بلکہ دراصل یہ ابر وہ (عذاب) ہے جس کی تم جلدی کر رہے تھے، ہوا ہے جس میں دردناک عذاب ہےجو اپنے رب کے حکم سے ہر چیز کو ہلاک کر دے گی، پس وہ ایسے ہوگئے کہ بجز ان کے مکانات کے اور کچھ دکھائی نہ دیتا تھا، گناہ گاروں کے گروہ کو ہم ایسی ہی سزا دیتے ہیں ،اور بالیقین ہم نے (قوم عاد) کو وہ مقدور دیئے تھے جو تمہیں تو دیئے بھی نہیں ، اور ہم نے انہیں کان آنکھیں اور دل بھی دے رکھے تھے لیکن ان کے کانوں اور آنکھوں اور دلوں نے انہیں کچھ بھی نفع نہ پہنچایا، جبکہ وہ اللہ تعالیٰ کی آیتوں کا انکار کرنے لگے اور جس چیز کا وہ مذاق اڑایا کرتے تھے وہی ان پر الٹ پڑی، اور یقیناً ہم نے تمہارے آس پاس کی بستیاں تباہ کردیں اور طرح طرح کی ہم نے اپنی نشانیاں بیان کردیں تاکہ وہ رجوع کرلیں ، پس قرب الٰہی حاصل کرنے کے لیے انہوں نے اللہ کے سوا جن جن کو اپنا معبود بنا رکھا تھا انہوں نے ان کی مدد کیوں نہ کی ؟ بلکہ وہ تو ان سے کھو گئے،( بلکہ دراصل) یہ ان کا محض جھوٹ اور( بالکل) بہتان تھا۔‘‘

قوم ہو د علیہ السلام کے مطالبہ عذاب کے سبب اللہ تعالیٰ نے ان پراپنی رحمت برسانا بندکردی جس سے خشک سالی ہوگئی ،جب ایک عرصہ بیت گیاتواللہ تعالیٰ نے ایک بادل کی شکل میں ان اپناعذاب بھیج دیا ،جب قوم ہود علیہ السلام نے دورسے اس گھنے بادل کواپنی وادیوں کی طرف آتے دیکھاتوخوشیاں منانے لگےکہنے لگے یہ گھنا بادل چلاآرہا ہے جوہماری بستیوں پرخوب برسے گااورہماری واریوں کوسیراب کردے گاجس سے خشک سالی دورہوجائے گی، ہود علیہ السلام نے یااللہ نے یا اصل صورت حال نے عملاًان کوجواب دیاایسانہیں ہےبلکہ یہ وہی قہرالٰہی ہے جس کے لئے تم جلدی مچارہے تھے،یہ ہواکاوہ طوفان ہے جس میں دردناک عذاب چلاآرہا ہے،جواللہ کے حکم سے ہرچیزکونیست ونابودکرڈالے گا،

عَنْ عَائِشَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهَا، زَوْجِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَتْ:وَكَانَ إِذَا رَأَى غَیْمًا أَوْ رِیحًا عُرِفَ فِی وَجْهِهِ، قَالَتْ: یَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ النَّاسَ إِذَا رَأَوْا الغَیْمَ فَرِحُوا رَجَاءَ أَنْ یَكُونَ فِیهِ المَطَرُ، وَأَرَاكَ إِذَا رَأَیْتَهُ عُرِفَ فِی وَجْهِكَ الكَرَاهِیَةُ،فَقَالَ: یَا عَائِشَةُ مَا یُؤْمِنِّی أَنْ یَكُونَ فِیهِ عَذَابٌ؟ عُذِّبَ قَوْمٌ بِالرِّیحِ، وَقَدْ رَأَى قَوْمٌ العَذَابَ، فَقَالُوا: هَذَا عَارِضٌ مُمْطِرُنَا

ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہےجب آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہوایا بادل دیکھتے تو آپ کے چہرے سے فکر ظاہر ہوتامیں نے پوچھااے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! لوگ توبادل دیکھ کرخوش ہوتے ہیں کہ بارش برسے گی لیکن آپ کے چہرے پراس کے برعکس تشویش کے آثارنظرآتے ہیں ؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے عائشہ رضی اللہ عنہا !اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ اس بادل میں عذاب نہیں ہوگا جب کہ ایک قوم ہواکے عذاب سے ہی ہلاک کردی گئی ،اس قوم نے بھی بادل دیکھ کرکہاتھایہ بادل ہے جوہم پربارش برسائے گا۔[51]

عَنْ عَائِشَةَ، زَوْجِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهَا قَالَتْ: كَانَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ إِذَا عَصَفَتِ الرِّیحُ، قَالَ: اللهُمَّ إِنِّی أَسْأَلُكَ خَیْرَهَا، وَخَیْرَ مَا فِیهَا، وَخَیْرَ مَا أُرْسِلَتْ بِهِ، وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ شَرِّهَا، وَشَرِّ مَا فِیهَا، وَشَرِّ مَا أُرْسِلَتْ بِهِ، قَالَتْ: وَإِذَا تَخَیَّلَتِ السَّمَاءُ، تَغَیَّرَ لَوْنُهُ، وَخَرَجَ وَدَخَلَ، وَأَقْبَلَ وَأَدْبَرَ، فَإِذَا مَطَرَتْ، سُرِّیَ عَنْهُ، فَعَرَفْتُ ذَلِكَ فِی وَجْهِهِ، قَالَتْ عَائِشَةُ: فَسَأَلْتُهُ، فَقَالَ: لَعَلَّهُ، یَا عَائِشَةُ كَمَا قَالَ قَوْمُ عَادٍ: {فَلَمَّا رَأَوْهُ عَارِضًا مُسْتَقْبِلَ أَوْدِیَتِهِمْ قَالُوا هَذَا عَارِضٌ مُمْطِرُنَا} [52]

ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں جب شدت کی ہوا چلتی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعا فرماتےاےاللہ! میں تجھ سے اس کی اوراس میں جوہے اس کی اورجس کویہ ساتھ لے کرآئی ہے اس کی بھلائی طلب کرتاہوں اورتجھ سے اس کی اوراس میں جوہے اس کی اورجس چیزکے ساتھ یہ بھیجی گئی ہے اس کی برائی سے پناہ چاہتاہوں (یعنی یہ عذاب کا باعث نہ ہو)اور جب آسمان ابر آلود ہوتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (کے چہر مبارک) کا رنگ بدل جاتا چنانچہ (اضطراب و گھبراہٹ کی وجہ سے ایک جگہ نہ رہتے بلکہ) کبھی گھر سے باہر نکلتے اور کبھی باہر سے اندر آتے اس طرح پھر آتے اور پھر جاتے، جب بارش شروع ہو جاتی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا خوف واضطراب ختم ہوجاتا(ایک مرتبہ) عائشہ رضی اللہ عنہا نے جب یہ (تغیر و اضطراب) محسوس کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا سبب پوچھا توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے عائشہ رضی اللہ عنہا !میں ڈرتاہوں کہ کہیں یہ اسی طرح نہ ہو جسے قوم ہود نے اپنی طرف بادل بڑھتادیکھ کرخوشی سے کہاتھاکہ یہ بدلی ہم پربرسنے والی ہے۔[53]

أَنَّ عَائِشَةَ أَخْبَرَتْهُ، أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ كَانَ إِذَا رَأَى سَحَابًا مُقْبِلًا مِنْ أُفُقٍ مِنَ الْآفَاقِ، تَرَكَ مَا هُوَ فِیهِ وَإِنْ كَانَ فِی صَلَاتِهِ، حَتَّى یَسْتَقْبِلَهُ، فَیَقُولُ:اللَّهُمَّ إِنَّا نَعُوذُ بِكَ مِنْ شَرِّ مَا أُرْسِلَ بِهِ ، فَإِنْ أَمْطَرَ قَالَ: اللَّهُمَّ سَیْبًا نَافِعًا مَرَّتَیْنِ، أَوْ ثَلَاثًا، وَإِنْ كَشَفَهُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ وَلَمْ یُمْطِرْ حَمِدَ اللَّهَ عَلَى ذَلِكَ

ایک اورروایت میں عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب کبھی آسمان کے کسی کنارے سے ابر اٹھتا دیکھتے تواپنے تمام کام چھوڑدیتے اگرچہ نمازمیں ہوں اوریہ دعا پڑھتےاےاللہ !میں تجھ سے اس برائی سے پناہ چاہتاہوں جو اس میں ہے، اوراگر برس جاتا تودومرتبہ یاتین مرتبہ یہ دعاپڑھتےاے اللہ! جاری اورفائدہ دینے والاپانی عنایت فرما پس اگربادل کھل جاتاتواللہ عزوجل کی حمدکرتے۔[54]

اللہ تعالیٰ نے اس تندوتیز ہواکو ان پرسات رات اورآٹھ دن مسلسل مسلط رکھا،جیسے فرمایا

سَخَّرَهَا عَلَیْهِمْ سَبْعَ لَیَالٍ وَّثَمٰنِیَةَ اَیَّامٍ۝۰ۙ حُسُوْمًا فَتَرَى الْقَوْمَ فِیْهَا صَرْعٰى۝۰ۙ كَاَنَّهُمْ اَعْجَازُ نَخْلٍ خَاوِیَةٍ۝۷ۚ [55]

ترجمہ: اللہ تعالیٰ نے اس کومسلسل سات رات اورآٹھ دن ان پرمسلط رکھا(تم وہاں ہوتے تو)دیکھتے کہ وہ وہاں اس طرح بکھرے پڑے ہیں جیسے وہ کھجورکے بوسیدہ تنے ہوں ۔

جب عذاب ختم ہواتو ان کے رہائشی مکانات کے سواوہاں کوئی انسان نظرنہ آتا تھا ہوانے ان کے مویشیوں ،ان کے مال ومتاع اورخودان کونیست ونابودکرکے رکھ دیاتھا، مجرموں کوان کے جرم و ظلم کے سبب ہم اس طرح بدلہ دیا کرتے ہیں ،ہم نے ان کومال و دولت ،طاقت اورزمین کے ایک بڑے حصہ پراقتدارواختیارعطاکیاتھا جبکہ تمہارادائرہ اقتدارتوشہرمکہ کی مختصر حدودکے اندرہی ہے ،قوم ہود علیہ السلام کوہم نے ان کی سماعت،ان کی بصارت اوران کے اذہان میں کسی قسم کی کمی نہ کی تھی کہ یہ کہاجاتاکہ انہوں نے کم علمی اورعلم پرقدرت نہ رکھنے اورعقل میں کسی خلل کی وجہ سے حق کوترک کردیا مگرانہوں نے کانوں سے حق نہ سنا ، آنکھوں سے اللہ کی نشانیوں کونہ دیکھا،اور دل ودماغ سے سوچ کرصحیح فیصلے نہ کیے ،کیونکہ انہوں نے اللہ کی آیات کا انکار کیاتھااس لئے یہ چیزیں ان کے کچھ کام نہ آئیں اوروہ اسی چیز کے پھیر میں آگئے جس کاوہ مذاق اڑاتے تھے۔یہ وہ طوفانی ہواتھی جوجس چیز پرسے گزرجاتی تھی اسے نیست ونابود کردیتی تھی ،جیسے فرمایا

وَفِیْ عَادٍ اِذْ اَرْسَلْنَا عَلَیْهِمُ الرِّیْحَ الْعَقِیْمَ۝۴۱ۚمَا تَذَرُ مِنْ شَیْءٍ اَتَتْ عَلَیْهِ اِلَّا جَعَلَتْهُ كَالرَّمِیْمِ۝۴۲ۭ  [56]

ترجمہ:اور(تمہارے لئے نشانی ہے) عادمیں ،جب کہ ہم نے ان پرایک ایسی بے خیرہوابھیج دی کہ جس چیزپربھی وہ گزرگئی اسے بوسیدہ کرکے رکھ دیا۔

ایک مقام پر فرمایا

فَجَــعَلْنٰھَا نَكَالًا لِّمَا بَیْنَ یَدَیْهَا وَمَا خَلْفَهَا وَمَوْعِظَةً لِّلْمُتَّقِیْنَ۝۶۶ [57]

ترجمہ:اس طرح ہم نے ان کے انجام کواوراس زمانے کے لوگوں اوربعدکی آنے والی نسلوں کے لئے عبرت اورڈرانے والوں کے لئے نصیحت بناکر چھوڑا۔

اے اہل مکہ !آنکھیں کھول کراپنے گردوپیش پرنظردوڑاؤاورمکہ اورشام کے درمیان ثمودیوں کی بستیوں اوراہل یمن اوراہل مدین کی قوم سباکودیکھو،،قوم لوط کاعلاقہ جواب بحیرہ لوط کہلاتا ہے وہ بھی تمہارے تجارتی راستے میں پڑتاہے،ان کے علاوہ اوربہت سی قوموں کوان کے باطل عقائداورتکذیب حق کے باعث صفحہ سے مٹادیا،ہم نے انہیں گمراہی کے گھوراندھیروں سے نکالنے کے لئے ان کی طرف رسول مبعوث کیے،انہیں باربار اور طرح طرح سے سمجھایاشایدکہ وہ کفروشرک سے تائب ہوکرہماری طرف پلٹ آئیں مگرانہوں نے ہماری نشانیوں اورآیات کی کوئی پرواہ نہ کی اوراپنے معبودوں کی قوت واختیارات پرتکیہ کرکے ان کی پرستش میں لگے رہے،آخرایک وقت مقررہ پر ہم نے ان پراپناعذاب نازل کردیا،مگرجن معبودوں کووہ تقرب الٰہی کاذریعہ اوروسیلہ سمجھ کرپرستش کرتے تھے ،جن کی مشکل کشائی اورحاجت روائی کے دعوی دارتھے،جن کی خوشنودی کے لئےنذرانے اورچڑھاوے چڑھائے جاتے تھے، اس سخت ترین وقت میں کوئی مشکل کشا ،کوئی حاجت رواان کی مددکونہ پہنچا بلکہ ان قوموں کے ساتھ ہی نیست ونابود ہوگئے،جوخودساختہ عقائداورجھوٹ انہوں نے گھڑرکھے ان کایہ المناک انجام ہوا ۔

وَإِذْ صَرَفْنَا إِلَیْكَ نَفَرًا مِّنَ الْجِنِّ یَسْتَمِعُونَ الْقُرْآنَ فَلَمَّا حَضَرُوهُ قَالُوا أَنصِتُوا ۖ فَلَمَّا قُضِیَ وَلَّوْا إِلَىٰ قَوْمِهِم مُّنذِرِینَ ‎﴿٢٩﴾‏ قَالُوا یَا قَوْمَنَا إِنَّا سَمِعْنَا كِتَابًا أُنزِلَ مِن بَعْدِ مُوسَىٰ مُصَدِّقًا لِّمَا بَیْنَ یَدَیْهِ یَهْدِی إِلَى الْحَقِّ وَإِلَىٰ طَرِیقٍ مُّسْتَقِیمٍ ‎﴿٣٠﴾‏ یَا قَوْمَنَا أَجِیبُوا دَاعِیَ اللَّهِ وَآمِنُوا بِهِ یَغْفِرْ لَكُم مِّن ذُنُوبِكُمْ وَیُجِرْكُم مِّنْ عَذَابٍ أَلِیمٍ ‎﴿٣١﴾‏ وَمَن لَّا یُجِبْ دَاعِیَ اللَّهِ فَلَیْسَ بِمُعْجِزٍ فِی الْأَرْضِ وَلَیْسَ لَهُ مِن دُونِهِ أَوْلِیَاءُ ۚ أُولَٰئِكَ فِی ضَلَالٍ مُّبِینٍ ‎﴿٣٢﴾‏(الاحقاف)
’’اور یاد کرو ! جبکہ ہم نے جنوں کی ایک جماعت کو تیری طرف متوجہ کیا کہ وہ قرآن سنیں ، پس جب (نبی کے) پاس پہنچ گئے تو (ایک دوسرے سے) کہنے لگے خاموش ہوجاؤ، پھر جب پڑھ کر ختم ہوگیا تو اپنی قوم کو خبردار کرنے کے لیے واپس لوٹ گئے، کہنے لگے اے ہماری قوم ! ہم نے یقیناً وہ کتاب سنی ہے جو موسیٰ (علیہ السلام) کے بعد نازل کی گئی ہے جو اپنے سے پہلی کتابوں کی تصدیق کرنے والی ہے جو سچے دین کی اور راہ راست کی رہنمائی کرتی ہے، اے ہماری قوم ! اللہ کے بلانے والے کا کہا مانو، اس پر ایمان لاؤ تو اللہ تمہارے گناہ بخش دے گا، اور تمہیں المناک سزا سے پناہ دے گا، اور جو شخص اللہ کے بلانے والے کا کہا نہ مانے گاپس وہ زمین میں کہیں (بھاگ کر اللہ کو) عاجز نہیں کرسکتا اور نہ اللہ کے سوا اور کوئی مددگار ہوں گے یہ لوگ کھلی گمراہی میں ہیں ۔‘‘

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ:مَا قَرَأَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عَلَى الْجِنِّ، وَلا رَآهُمْ، انْطَلَقَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فِی طَائِفَةٍ مِنْ أَصْحَابِهِ عَامِدِینَ إِلَى سُوقِ عُكَاظٍ، وَقَدْ حِیلَ بَیْنَ الشَّیَاطِینِ وَبَیْنَ خَبَرِ السَّمَاءِ، وَأُرْسِلَتْ عَلَیْهِمُ الشُّهُبُ، قَالَ: فَرَجَعَتِ الشَّیَاطِینُ إِلَى قَوْمِهِمْ، فَقَالُوا: مَا لَكُمْ؟ قَالُوا: حِیلَ بَیْنَنَا وَبَیْنَ خَبَرِ السَّمَاءِ، وَأُرْسِلَتْ عَلَیْنَا الشُّهُبُ، قَالَ: فَقَالُوا: مَا حَالَ بَیْنَكُمْ وَبَیْنَ خَبَرِ السَّمَاءِ إِلا شَیْءٌ حَدَثَ، فَاضْرِبُوا مَشَارِقَ الْأَرْضِ وَمَغَارِبَهَا، فَانْظُرُوا مَا هَذَا الَّذِی حَالَ بَیْنَكُمْ وَبَیْنَ خَبَرِ السَّمَاءِ،

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جنوں کونہ قرآن پڑھ کرسنایااورنہ انہیں دیکھا،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی ایک جماعت کے ساتھ بازارعکاظ کی طرف تشریف لے جارہے تھےجبکہ شیاطین کے لیے آسمانی خبریں سننے سے رکاوٹ پیداکردی گئی تھی اوران پرشہاب ثاقب کومسلط کردیاگیاتوشیاطین اپنی قوم کے پاس آئے توقوم نے پوچھاکیاہوا؟ انہوں نے جواب دیاکہ ہمارے لیے آسمان کی خبریں سننے کی راہ میں رکاوٹ پیداکردی گئی ہے اور ہم پرشہاب ثاقب مسلط کردیے گئے ہیں

قو م نے کہاتمہارے اورآسمانی خبروں کے درمیان رکاوٹ اسی لیے پیداکردی گئی ہے کہ کوئی خاص واقعہ رونماہواہے لہذامشرق ومغرب میں جاکراس واقعے کاسراغ لگاؤاوردیکھوکہ تمہارے اورآسمانی خبروں میں رکاوٹ کاسبب کیاہے،

قَالَ: فَانْطَلَقُوا یَضْرِبُونَ مَشَارِقَ الْأَرْضِ وَمَغَارِبَهَا یَبْتَغُونَ مَا هَذَا الَّذِی حَالَ بَیْنَهُمْ وَبَیْنَ خَبَرِ السَّمَاءِ؟ قَالَ: فَانْصَرَفَ النَّفَرُ الَّذِینَ تَوَجَّهُوا نَحْوَ تِهَامَةَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، وَهُوَ بِنَخْلَةَ عَامِدًا إِلَى سُوقِ عُكَاظٍ، وَهُوَ یُصَلِّی بِأَصْحَابِهِ صَلاةَ الْفَجْرِ، قَالَ: فَلَمَّا سَمِعُوا الْقُرْآنَ، اسْتَمَعُوا لَهُ، وَقَالُوا: هَذَا وَاللَّهِ الَّذِی حَالَ بَیْنَكُمْ وَبَیْنَ خَبَرِ السَّمَاءِ، قَالَ: فَهُنَالِكَ حِینَ رَجَعُوا إِلَى قَوْمِهِمْ، فَقَالُوا: یَا قَوْمَنَا {إِنَّا سَمِعْنَا قُرْآنًا عَجَبًا یَهْدِی إِلَى الرُّشْدِ فَآمَنَّا بِهِ} [58]الْآیَةَ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَلَى نَبِیِّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: {قُلْ أُوحِیَ إِلَیَّ أَنَّهُ} [59]وَإِنَّمَا أُوحِیَ إِلَیْهِ قَوْلُ الْجِنِّ

جنات مشرق ومغرب میں پھیل گئے تاکہ اس واقعے کاسراغ لگائیں جس کی وجہ سے ان کے لیے آسمان کی خبریں سننے سے رکاوٹ کھڑی کردی گئی ہے، ان کی ایک جماعت جوتہامہ کی طرف آئی تھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچی جبکہ آپ سوق عکاظ کی طرف جانے کے لیے مقام نخلہ میں تشریف فرماتھے اوراپنے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ساتھ نمازفجرادافرمارہے تھے، جب انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کوقرآن مجیدکی تلاوت کرتے ہوئے سناتوکان لگادیےاورکہنے لگے اللہ کی قسم!یہی ہے وہ چیزجس کی وجہ سے تمہیں آسمان کی خبریں سننے سے منع کردیاگیاہے،جب وہ اپنی قوم کے پاس گئے توکہنے لگے ’’اے ہماری قوم کے لوگو!ہم نے ایک بڑا ہی عجیب قرآن سنا ہے راہ راست کی طرف رہنمائی کرتا ہے اس لیے ہم اس پر ایمان لے آئے ہیں اور اب ہم ہرگز اپنے رب کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کریں گے۔‘‘اسی موقع پراللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پریہ آیات نازل فرمائیں ’’ اے نبی ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کہو، میری طرف وحی بھیجی گئی ہے کہ جنوں کے ایک گروہ نے غور سے سنا۔‘‘اورجنوں کی اس بات سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کوبذریعہ وحی مطلع کیاگیا۔[60]

ایک روایت میں ہےجب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم طائف والوں سے مایوس ہوکرمکہ مکرمہ کی طرف جارہے تھے کہ رات ہوگئی اورآپ نے مکہ کے قریب وادی نخلہ میں قیام فرمایا،وہاں عشایافجریاتہجدکی نماز میں قرآن مجیدکی تلاوت فرمارہے تھےکہ اللہ تعالیٰ نے نصیبین کے سات یانو جنوں کی ایک جماعت کوآپ کی طرف پھیردیا تاکہ وہ قرآن کو سنیں ،جب وہ اس جگہ پہنچے جہاں تم نماز میں سورۂ الرحمان کی تلاوت کر رہے تھے،جب انہوں نے اللہ تعالیٰ کے پاکیزہ کلام کوسناتو آپس میں کہنے لگے خاموش ہو جاؤاورخوب توجہ سے اس جلیل القدر کلام کوسنو،جیسے جیسے انہوں نے قرآن کوسنااس نے ان کے دلوں کومسخرکرلیا،جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نمازسے فارغ ہوئے تووہ قوم کی خیرخواہی کے لئے متنبہ کرنے والے بن کرواپس پلٹے،اور جاکرکہااے ہماری قوم کے لوگو!ہم نے ایک پاکیزہ کلام سنا ہے جوموسیٰ کے بعدنازل ہوا ہے(یعنی وہ پہلے تورات اور دوسری آسمانی کتابوں پرایمان رکھتے تھے ،اورانہوں نے محسوس کیاکہ قرآن بھی وہی تعلیم دے رہاہے جوانبیاء دیتے چلے آئے ہیں تو وہ اس پرایمان لے آئے) یہ کلام اپنے سے پہلے منزل کتابوں کی تصدیق کرتا، اعتقادی واخباری مسائل میں حق کی جانب رہبری اوراعمال میں راہ راست دکھاتا ہے،جواللہ تعالیٰ اوراس کی جنت تک پہنچاتاہے ،قرآن کی مدح وتوصیف اور اس کامقام ومرتبہ بیان کرنے کے بعدنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت پرایمان لانے کی دعوت دی ،اے ہماری قوم کے لوگو! اللہ وحدہ لاشریک کی طرف بلانے والے کی دعوت حق پرلبیک کہو اوراس پرایمان لے آؤ،اللہ جوغفورورحیم ہے،جواپنے بندوں کے گناہوں کو بخش دیناپسندکرتاہے تمہارے گناہوں سے درگزر فرمائے گااورتمہیں جہنم کے عذاب الیم سے بچادے گا،جنوں نے کہایااللہ تعالیٰ نے فرمایااورجوکوئی اللہ کے داعی کی بات کوتسلیم نہ کرے وہ زمین کی وسعتوں میں گم ہوکر اللہ کوعاجز نہیں کرسکتا اور نہ اس کے کوئی ایسے حامی وسرپرست ہیں کہ اللہ کے عذاب سے اس کو بچا لیں ،ایسے لوگ کھلی گمراہی میں پڑے ہوئے ہیں ۔ چنانچہ اپنی قوم کے جنوں کی یہ دعوت حق جنوں کے لیے موثرثابت ہوئی اوراکثرجن حق کی طرف مائل ہوگئے اورگروہ درگروہ بارگاہ نبوی میں حاضرہوکراسلام قبول کرلیا،یعنی جنوں میں نصیحت کرنے والے توہیں لیکن ان میں پیغمبرنہیں ہیں اوربلاشبہ اللہ تعالیٰ نے جنوں میں سےکوئی پیغمبرنہیں بھیجا،جیسے فرمایا

وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ اِلَّا رِجَالًا نُّوْحِیْٓ اِلَیْہِمْ مِّنْ اَہْلِ الْقُرٰى۔۔۔  [61]

ترجمہ:اے نبی ( صلی اللہ علیہ وسلم ) ! تم سے پہلے ہم نے جو پیغمبر بھیجے تھے وہ سب بھی انسان ہی تھےاور انہی بستیوں کے رہنے والوں میں تھےاور انہی کی طرف ہم وحی بھیجتے رہے ہیں ۔

وَمَآ اَرْسَلْنَا قَبْلَكَ مِنَ الْمُرْسَلِیْنَ اِلَّآ اِنَّہُمْ لَیَاْكُلُوْنَ الطَّعَامَ وَیَمْشُوْنَ فِی الْاَسْوَاقِ۔۔۔۝۲۰ۧ [62]

ترجمہ:اے نبی( صلی اللہ علیہ وسلم ) ! تم سے پہلے جو رسول بھی ہم نے بھیجے تھے وہ سب بھی کھانا کھانے والے اور بازاروں میں چلنے پھرنے والے لوگ ہی تھے۔

اورابراہیم علیہ السلام کے بارے میں فرمایا:

۔۔۔وَجَعَلْنَا فِیْ ذُرِّیَّتِہِ النُّبُوَّةَ وَالْكِتٰبَ۔۔۔ ۝۲۷ [63]

ترجمہ:اور اس کی نسل میں نبوت اور کتاب رکھ دی۔

یعنی ابراہیم علیہ السلام کے بعدجوبھی انبیاء مبعوث ہوئے وہ تمام کے تمام ابراہیم علیہ السلام کی نسل سے ہی مبعوث ہوئے۔ایک مقام پراللہ تعالیٰ نے ارشادفرمایا:

یٰمَعْشَرَ الْجِنِّ وَالْاِنْسِ اَلَمْ یَاْتِكُمْ رُسُلٌ مِّنْكُمْ یَقُصُّوْنَ عَلَیْكُمْ اٰیٰتِیْ وَیُنْذِرُوْنَكُمْ لِقَاۗءَ یَوْمِكُمْ ھٰذَا۔۝۱۳۰ [64]

ترجمہ: اے گروہ جن و انس ! کیا تمہارے پاس خود تم ہی میں سے وہ پیغمبر نہیں آئے تھے جو تم کو میری آیات سناتے اور اس دن کے انجام سے ڈراتے تھے؟۔

تواس سے یہاں دونوں جنسوں کامجموعہ مرادہے اوراس کامصداق ان میں سے ایک جنس یعنی انسان مرادہے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خودبھی جنوں کی طرف دعوت حق پہنچانے کے لئے تشریف لے گئے ،

عَنْ عَامِرٍ، قَالَ: سَأَلْتُ عَلْقَمَةَ هَلْ كَانَ ابْنُ مَسْعُودٍ شَهِدَ مَعَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ لَیْلَةَ الْجِنِّ؟ قَالَ: فَقَالَ عَلْقَمَةُ، أَنَا سَأَلْتُ ابْنَ مَسْعُودٍ فَقُلْتُ: هَلْ شَهِدَ أَحَدٌ مِنْكُمْ مَعَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ لَیْلَةَ الْجِنِّ؟ قَالَ: لَا وَلَكِنَّا كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللهِ ذَاتَ لَیْلَةٍ فَفَقَدْنَاهُ فَالْتَمَسْنَاهُ فِی الْأَوْدِیَةِ وَالشِّعَابِ. فَقُلْنَا: اسْتُطِیرَ أَوِ اغْتِیلَ. قَالَ: فَبِتْنَا بِشَرِّ لَیْلَةٍ بَاتَ بِهَا قَوْمٌ فَلَمَّا أَصْبَحْنَا إِذَا هُوَ جَاءٍ مِنْ قِبَلَ حِرَاءٍ.

عامر سے مروی ہےمیں نے علقمہ رضی اللہ عنہ سے پوچھا کیا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ لیلة الجن میں تھےتو علقمہ نے کہا میں نے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما سے پوچھا کیا تم میں سے کوئی لیلة الجن میں رسول اللہ کے ساتھ تھا؟تو انہوں نے کہا کہ نہیں لیکن ایک رات ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نہ پایا تو ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پہاڑی وادیوں اور کھائیوں میں تلاش کیاہم نے کہا کہ آپ کو جن لے گئے یا کسی نے دھوکہ سے شہید کر دیا بہر حال ہم نے وہ رات بد ترین رات والی قوم کی طرح گزاری جب ہم نے صبح کی تو آپ حرا کی طرف سے تشریف لائے

قَالَ: فَقُلْنَا یَا رَسُولَ اللهِ فَقَدْنَاكَ فَطَلَبْنَاكَ فَلَمْ نَجِدْكَ فَبِتْنَا بِشَرِّ لَیْلَةٍ بَاتَ بِهَا قَوْمٌ. فَقَالَ: أَتَانِی دَاعِی الْجِنِّ فَذَهَبْتُ مَعَهُ فَقَرَأْتُ عَلَیْهِمُ الْقُرْآنَ قَالَ: فَانْطَلَقَ بِنَا فَأَرَانَا آثَارَهُمْ وَآثَارَ نِیرَانِهِمْ وَسَأَلُوهُ الزَّادَ فَقَالَ: لَكُمْ كُلُّ عَظْمٍ ذُكِرَ اسْمُ اللهِ عَلَیْهِ یَقَعُ فِی أَیْدِیكُمْ أَوْفَرَ مَا یَكُونُ لَحْمًا وَكُلُّ بَعْرَةٍ عَلَفٌ لِدَوَابِّكُمْ. فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:فَلَا تَسْتَنْجُوا بِهِمَا فَإِنَّهُمَا طَعَامُ إِخْوَانِكُمْ

ہم نے عرض کیا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !ہم نے آپ کو گم پایا اور آپ کو تلاش کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نہ ڈھونڈ سکے ہم نے رات اس طرح گزاری جیسے کوئی قوم سخت بے چینی میں رات گزارتی ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میرے پاس جنات کی طرف سے بلانے والا آیا میں اس کے ساتھ چلا گیا اور میں نے ان کے سامنے قرآن کی تلاوت کی، فرمایا پھر وہ ہمیں اپنے ساتھ لے گئے اور ہمیں اپنے جنات کے نشانات اور آگ کے نشانات دکھائے، جنات نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنے کھانے کی چیزوں کے بارے میں سوال کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا ہر وہ ہڈی جس کو اللہ کے نام کے ساتھ ذبح کیا گیا ہو تمہارے ہاتھوں میں آتے ہی وہ گوشت کے ساتھ پر ہو جائے گی اور ہر مینگنی تمہارے جانوروں کی خوراک ہے، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہڈی اور مینگنی سے استنجا نہ کرو کیونکہ یہ دونوں تمہارے بھائیوں کا کھانا ہیں ۔[65]

‏ أَوَلَمْ یَرَوْا أَنَّ اللَّهَ الَّذِی خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَلَمْ یَعْیَ بِخَلْقِهِنَّ بِقَادِرٍ عَلَىٰ أَن یُحْیِیَ الْمَوْتَىٰ ۚ بَلَىٰ إِنَّهُ عَلَىٰ كُلِّ شَیْءٍ قَدِیرٌ ‎﴿٣٣﴾‏ وَیَوْمَ یُعْرَضُ الَّذِینَ كَفَرُوا عَلَى النَّارِ أَلَیْسَ هَٰذَا بِالْحَقِّ ۖ قَالُوا بَلَىٰ وَرَبِّنَا ۚ قَالَ فَذُوقُوا الْعَذَابَ بِمَا كُنتُمْ تَكْفُرُونَ ‎﴿٣٤﴾‏(الاحقاف)
’’کیا وہ نہیں دیکھتے کہ جس اللہ نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا اور ان کے پیدا کرنے سے وہ نہ تھکا، وہ یقیناًمردوں کو زندہ کرنے پرقادرہے؟ کیوں نہ ہو؟ وہ یقیناً ہر چیز پر قادر ہے، وہ لوگ جنہوں نے کفر کیا جس دن جہنم کے سامنے لائے جائیں گے (اور ان سے کہا جائے گا کہ) کیا یہ حق نہیں ہے ؟ تو جواب دیں گے کہ ہاں قسم ہے ہمارے رب کی! (حق ہے) (اللہ) فرمائے گا اب اپنے کفر کے بدلے عذاب کا مزہ چکھو ۔‘‘

اورحیات بعدالموت ،حساب کتاب اوراعمال کی جزاکے ان مکذبین کویہ سجھائی نہیں دیتاکہ جس اللہ نے آسمانوں اورزمین کی عظمت ان کی وسعت اوران کی تخلیق میں مہارت کے باوصف کسی مشقت کے بغیران کوتخلیق کردیا،جیسے فرمایا

وَلَــقَدْ خَلَقْنَا السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ وَمَا بَیْنَہُمَا فِیْ سِـتَّةِ اَیَّامٍ۝۰ۤۖ وَّمَا مَسَّـنَا مِنْ لُّغُوْبٍ۝۳۸ [66]

ترجمہ:ہم نے زمین اور آسمانوں کو اور ان کے درمیان کی ساری چیزوں کو چھ دنوں میں پیدا کر دیااور ہمیں کوئی تکان لاحق نہ ہوئی۔

کیااتنی کامل قدرتوں اورقوت والارب اس پرقادرنہیں ہے کہ مردوں کو دوبارہ ان کی قبروں سے زندہ کردے ؟ جیسےفرمایا

لَخَــلْقُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ اَكْبَرُ مِنْ خَلْقِ النَّاسِ وَلٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَ۝۵۷ [67]

ترجمہ:آسمانوں اورزمین کاپیداکرناانسان کو پیدا کرنے کی بہ نسبت یقیناًزیادہ بڑاکام ہے مگراکثرلوگ جانتے نہیں ہیں ۔

کیوں نہیں ،وہ اعمال کی جزاکے لئے جنوں اورانسانوں کودوبارہ پیدافرمائے گایقیناًوہ ہرچیزکی قدرت رکھتا ہے ،جس روزیہ مکذبین آگ کے سامنے لائے جائیں گے اس وقت ان سے پوچھاجائے گا دنیا میں جب تمہیں حیات بعدالموت ،حساب کتاب اوراعمال کی جزاوسزاکے بارے میں تلقین کی جاتی تھی توتم شدت سے اس کاانکارکرتے تھے ،دعوت حق کوجادوگردانتے تھے ،اب جبکہ تم دوبارہ زندہ ہوچکے ہو،اپنے اعمال کاحساب دے کرعذاب جہنم کے مستحق قرارپاچکے ہواوراب دوزخ تمہارے سامنے ہے اب بتاؤکیا یہ حق نہیں ہے؟کیایہ جادوہے یاتم دیکھ ہی نہیں رہے ہو؟کہیں گے ہاں ہمارے رب کی قسم! یہ واقعی حق ہے،مگراس وقت یہ اعتراف بے فائدہ ہو گا،اللہ فرمائے گا اچھا تواب اپنے کفرکے بدلے عذاب جہنم کامزا چکھو ۔

فَاصْبِرْ كَمَا صَبَرَ أُولُو الْعَزْمِ مِنَ الرُّسُلِ وَلَا تَسْتَعْجِل لَّهُمْ ۚ كَأَنَّهُمْ یَوْمَ یَرَوْنَ مَا یُوعَدُونَ لَمْ یَلْبَثُوا إِلَّا سَاعَةً مِّن نَّهَارٍ ۚ بَلَاغٌ ۚ فَهَلْ یُهْلَكُ إِلَّا الْقَوْمُ الْفَاسِقُونَ ‎﴿٣٥﴾‏(الاحقاف)
’’ پس (اے پیغمبر ! ) تم ایسا صبر کرو جیسا صبر عالی ہمت رسولوں نے کیا اور ان کے لیے( عذاب طلب کرنے میں ) جلدی نہ کرو، یہ جس دن اس عذاب کو دیکھ لیں گے جس کا وعدہ دیئے جاتے ہیں تو (یہ معلوم ہونے لگے گا کہ )دن کی ایک گھڑی ہی( دنیا میں ) ٹھہرے تھے، یہ ہے پیغام پہنچا دینا، پس بدکاروں کے سوا کوئی ہلاک نہ کیا جائے گا۔‘‘

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کوصبرکی تلقین :

اللہ رب العزت نے کفارومشرکین کے ناروارویہ پررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوصبرکی تلقین کی کہ مصائب والم کے سامنے سینہ سپرہوناعالی مرتبہ ،بلندہمت پیغمبروں کی سنت رہی ہے ، چنانچہ جس طرح انہوں نے تکذیب کرنے والوں کی مخالفت اورطرح طرح کی اذیتوں پر صبرکیا اسی طرح آپ بھی صبرکریں ، انہیں دعوت حق دیتے رہیں ،اللہ تعالیٰ سے اپنی امت کے لئے ہدایت کے طلب گاررہیں اوران کے معاملہ میں جلدی نہ کریں ،جیسے فرمایا

وَذَرْنِیْ وَالْمُكَذِّبِیْنَ اُولِی النَّعْمَةِ وَمَهِلْهُمْ قَلِیْلًا۝۱۱ [68]

ترجمہ: ان جھٹلانے والے خوشحال لوگوں سے نمٹنے کاکام تم مجھ پرچھوڑدواورانہیں ذراکچھ دیراسی حالت میں رہنے دو۔

فَمَــهِّلِ الْكٰفِرِیْنَ اَمْهِلْهُمْ رُوَیْدًا۝۱۷ۧ [69]

ترجمہ:پس چھوڑ دواے نبی!ان کافروں کواک ذراکی ذراان کے حال پرچھوڑدو۔

چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رب کے حکم کی تعمیل میں ایساصبرکیاکہ آپ سے پہلے کسی نبی نے ایساصبرنہیں کیا،مکذبین نے آپ پرمصیبتوں کے پہاڑتوڑدیے ،اللہ تعالیٰ کی طرف دعوت کاراستہ روکا،محاربت اورعداوت میں جوکچھ ان کے بس میں تھاکر ڈالا مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم دعوت حق بیان فرماتے رہے ،دعوت حق کی تکذیب کرنے والوں کے خلاف جہادکرتے رہے ، پھر اس راہ میں جوتکالیف اوراذیتیں آپ کوپہنچیں ان پرصبرکرتے رہےیہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کوزمین پراقتدارسے سرفرازفرمایا،اللہ قادرمطلق نے آپ کے دین کوتمام ادیان پراورآپ کی امت کوتمام امتوں پرغالب کردیا،فرمایاجس روزیہ مکذبین قیامت کےہولناک عذاب کودیکھ لیں گے جس کاانہیں خوف دلایاجارہاہے توانہیں یوں معلوم ہوگا کہ جیسے دنیامیں دن کی ایک گھڑی بھرسے زیادہ نہیں رہے تھے،جیسے فرمایا

كَاَنَّهُمْ یَوْمَ یَرَوْنَهَا لَمْ یَلْبَثُوْٓا اِلَّا عَشِـیَّةً اَوْ ضُحٰىهَا۝۴۶ۧ [70]

ترجمہ:جس روزیہ لوگ اسے دیکھ لیں گے تو انہیں یوں محسوس ہوگاکہ (دنیامیں یاحالت موت میں ) یہ بس ایک دن کے پچھلے پہریااگلے پہرتک ٹھیرے ہیں ۔

وَیَوْمَ یَحْشُرُھُمْ كَاَنْ لَّمْ یَلْبَثُوْٓا اِلَّا سَاعَةً مِّنَ النَّهَارِ یَتَعَارَفُوْنَ بَیْنَھُمْ۔۔۔۝۰۝۴۵ [71]

ترجمہ:اورجس روزاللہ ان کواکٹھاکرے گاتو(یہی دنیاکی زندگی انہیں ایسی محسوس ہو گی)گویایہ محض ایک گھڑی بھرآپس میں جان پہچان کرنے ٹھہرے تھے۔

ہم نے دعوت حق پہنچاکران پرحجت قائم کردی ہے پھر کیااللہ کے نافرمانوں اوراس کی حدود پامال کرنے والوں کے سوا اور کوئی ہلاک ہوگا۔

فَقَالَ لَهُ زَیْدُ بْنُ حَارِثَةَ: كَیْفَ تَدْخُلُ عَلَیْهِمْ. یَعْنِی قُرَیْشًا. وَهُمْ أَخْرَجُوكَ؟فَقَالَ: یَا زَیْدُ إِنَّ اللَّهَ جَاعِلٌ لِمَا تَرَى فَرَجًا وَمَخْرَجًا وَإِنَّ اللَّهَ نَاصِرٌ دِینَهُ وَمُظْهِرٌ نَبِیَّهُ

جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم طائف سے مکہ مکرمہ کے قریب پہنچے توزیدبن حارثہ رضی اللہ عنہ نے عرض کیااے اللہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم !اہل مکہ نے آپ کونکالاہے اب ہم کس طرح داخل ہوں گے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے زید!اللہ تعالیٰ اس مصیبت سے رہائی کی کوئی سبیل ضرورپیدافرمائے گااوراللہ ہی اپنے دین کاحامی اورمددگارہے اوریقیناًوہ اپنے نبی کوسب پرغالب فرمادے گا۔[72]

ثُمَّ انْتَهَى] إِلَى حِرَاءٍ. ثم بعث إلى الأخنس بن شریق فقال: هل أنت مجیری حتى أبلغ رسالة ربى؟فقال: إن الحلیف لا یجیر على الصریح، فقال الرسول: ائت سهیل بن عمرو،فقال: إن بنى عامر بن لؤیّ لا تجیر على بنى كعب،فَأَرْسَلَ رَجُلا مِنْ خُزَاعَةَ إِلَى مُطْعِمِ بْنِ عَدِیٍّ: أَدْخُلُ فِی جِوَارِكَ؟فَقَالَ: نَعَمْ. وَدَعَا بَنِیهِ وَقَوْمَهُ فَقَالَ: تَلَبَّسُوا السِّلاحَ وَكُونُوا عِنْدَ أَرْكَانِ الْبَیْتِ فَإِنِّی قَدْ أَجَرْتُ مُحَمَّدًا،فَقَامَ مُطْعِمِ بْنِ عَدِیٍّ عَلَى رَاحِلَتِهِ فَنَادَى: یَا مَعْشَرَ قُرَیْشٍ إِنِّی قَدْ أَجَرْتُ مُحَمَّدًا، فَلَا یَهِجْهُ أَحَدٌ مِنْكُمْ، فَدَخَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَطَافَ بِالْبَیْتِ وَصَلَّى عِنْدَهُ، ثُمَّ انْصَرَفَ إلَى مَنْزِلِهِ والمطعم بن عدی وَوَلَدُهُ مُحْدِقُونَ بِهِ بِالسِّلَاحِ حَتَّى دَخَلَ بَیْتَهُ

پھرآپ نے غارحرامیں پہنچ کربنوخزاعہ کے ایک شخص کے ذریعےاخنس بن شریق کے پاس پیغام بھیجاکہ کیامیں آپ کی پناہ میں مکہ آسکتاہوں کہ اللہ کاپیغام پہنچا سکوں ؟ اخنس نے جواب دیامیں قریش کاحلیف ہوں اس لئے میں آپ کوپناہ دینے سے معذرت خواہ ہوں ، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی پیغام سہیل بن عمروکے پاس بھیجا،اس نے جواب دیامیں بنوعامربن کعب کے مقابلہ میں پناہ نہیں دے سکتا،پھررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی پیغام مطعم بن عدی کے پاس بھیجاکہ کیامیں آپ کی پناہ میں مکہ آسکتا ہوں ؟مطعم نے پناہ دینے کی حامی بھرلی،اس نے اپنے بیٹوں اورقوم کے لوگوں کوبلاکرحکم دیاکہ وہ ہتھیارلگاکرحرم کے دروازے پرکھڑے ہوجائیں میں نے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم )کوپناہ دی ہے، اور مطعم بن عدی خودبھی اونٹ پرسوارہوکرحرم کے پاس آکرکھڑاہوا اور پکار کر کہااے گروہ قریش!میں نے محمد( صلی اللہ علیہ وسلم )کوپناہ دی ہے کوئی ان سے تعرض نہ کرے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حرم میں تشریف لائے اورطواف کرکے دورکعت نمازادافرمائی اورمطعم بن عدی اوراس کے اسلحہ سے لیس بیٹوں کے حلقہ میں اپنے گھرتشریف لے گئے۔[73]

علامہ زرقانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں اخنس اور سہیل کے عذرقابل اعتراض ہیں کیونکہ اگروہ پناہ دینے کے اہل نہ ہوتے تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان سے پناہ ہی نہ مانگتے اورآپ اچھی طرح اپنی قوم کے احوال وعادات جانتے تھے،عامراورکعب دونوں بھائی تھے ،ان کاباپ لوی تھااورعامرسہیل کاجدامجدتھا لہذا بنوعامراوربنوکعب دونوں ایک دوسرے کوپناہ دے سکتے تھے۔[74]

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کابنوخزاعہ کے ایک شخص کاانتخاب اوراسے مطعم بن عدی کے پاس بھیجناآپ صلی اللہ علیہ وسلم کی انتہائی اعلیٰ سیاسی بصیرت ،تاریخی شعوراورشاندارسیاسی حکمت عملی پرمبنی تھا،اس حکمت وبصیرت سے اگاہی کے لیے اس تفصیل کوجانناضروری ہے،دراصل مطعم بن عدی ان دنوں بنونوفل کے سردارتھےاوربنونوفل کاجداکبرنوفل تھااورنوفل عبدالمطلب کامخالف تھا،

لما هلك المطلب بن عبد مناف، وكان العاضد لعبد المطلب والذاب عنه والقائم بأمره، وثب نوفل بن عبد مناف على أركاح كانت لعبد المطلب. وهی الساحات والأفنیة. فغلب علیها، واغتصبه إیاها. فاضطرب عبد المطلب لذلك، واستنهض قومه معه، فلم ینهض كبیر أحد منهم، فكتب إلى أخواله من بنی النجار، من الخزرج،قالوا: فقدم علیه منهم جمع كثیف، فأناخوا بفناء الكعبة وتنكبوا القسی وعلقوا التراس، فلما رآهم نوفل، قال: لشر ما قدم هؤلاء. فكلموه. فخافهم، ورد أركاح عبد المطلب علیہ،والله ما رأینا بهذا الوادى (أحداأحسن وجها، ولا أتمّ خلقا، ولا) أعظم حلما،

ایک مرتبہ نوفل نے(اپنے بھتیجے)نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے داداعبدالمطلب کے محلہ پرحملہ کیااوران کے گھروں اورزمینوں پرقبضہ کرلیا،عبدالمطلب نے پریشانی میں اپنی قوم سے مددطلب کی مگرکوئی سردارمددکے لیے نہ آیاتب انہوں نے اپنے ماموں بنونجارکے قبیلہ خزرج کو قصیدہ لکھ بھیجا،جس کے نتیجے میں خزرج کی ایک بڑی جماعت کعبے کے صحن میں آن اتری اوروہ گلے میں ڈھالیں آویزاں کیے اپنی کمانوں پرٹیک لگاکرکھڑے ہوگئے ،جب نوفل نے دیکھاتوبولایہ توکسی لڑائی کے لیے آئے ہیں ،جب اس نے ان سے گفتگوکی توڈرگیااورعبدالمطلب کے مکانات اورزمینیں واپس کردیں ،اس صورت حال کودیکھ کرطاقتوراورعزت داربنوخزاعہ والوں نے کہااللہ کی قسم !ہم نے اس وادی میں عبدالمطلب سے خوبصورت ،صحت منداوربردبارشخص نے دیکھا

ولقد نصره أخواله من الخزرج، ولقد ولدناه كما ولدوه- وأن جده عبد مناف لابن حبی بنت حلیل بن حبشیة سید الخزاعة- ولو بذلنا له نصرنا وحالفناه انتفعنا به وبقومه وانتفع بنا. فأتاه وجوههم، فقالوا: یا أبا الحارث، إنا قد ولدناك كما ولدك قوم من بنی النجار، ونحن، بعد، متجاورون فی الدار، وقد أماتت الأیام ما كان یكون فی قلوب بعضنا على قریش من الأحقاد، فهلم، فلنحالفك. فأعجب ذلك عبد المطلب وقبله وسارع إلیه فأجابهم إلى حلف،

ان کے ننھیال خزرج نے ان کی مددکی ہے اورجس طرح خزرج ان کے ننھیال ہیں اسی طرح ہم بھی ان کے ننھیال ہیں کیونکہ ان کے داداعبدمناف ہمارے سردارحلیل بن حبشیہ کی بیٹی جیٰ کے بیٹے ہیں ،کیاہی اچھاہوکہ ہم آپس میں حلیف بن جائیں ،ایک دوسرے کی مددکریں اورفائدہ حاصل کریں ،چنانچہ بنوخزاعہ کے سردارعبدالمطلب کے پاس آئے اورکہااے ابوالحارث!جس طرح بنونجارسے آپ کاتعلق ہے کہ وہ آپ کے ننجیال ہیں اسی طرح ہم بھی آپ کے ننھیال سے تعلق رکھتے ہیں اورپھرہم ایک دوسرے کے پڑوسی بھی ہیں ،پرانے دن نکل گئے اوردلوں سے کینے نکل گئے ،آیئے!ہم آپس میں ایک دوسرے کے حلیف بن جائیں ،عبدالمطلب کویہ بات پسندآئی اورانہوں نے اس مشورے کوقبول کرلیا۔[75]

کیونکہ بنونوفل اورعبدشمس نے اس معاہدے کواپنے مفادات کے خلاف سمجھتے تھے اس لیے اس میں شریک نہ ہوئے ۔اب جبکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بنوخزاعہ کے ایک شخص کوبنی نوفل کے سردارکے پاس بھیجنے کے لیے منتخب کیاتویہاں درحقیقت مذکورہ تاریخی واقعات کی طرف اشارہ کرنااورعبدالمطلب اوربنوخزاعہ کے درمیان معاہدے کی یاددہانی کرنامقصودتھاجوبنونوفل اوربنوشمس کے خلاف طے پایاتھا،اورمقصدیہ تھاکہ لوگ سمجھ لیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ مکرمہ میں کمزوربن کربیٹھے نہیں رہیں گے بلکہ بنوخزاعہ سے تعلقات استورکریں گے یاخزرج سے مددمانگیں گے جیسے آپ کے داداعبدالمطلب نے کیاتھا،اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم درحقیقت مطعم بن عدی سے اس لیے پناہ حاصل کرناچاہتے تھے کہ اس کی طرف سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کوڈرانے اوردھمکانے کاسلسلہ رک جائے،اورمطعم بن عدی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حمایت کسی مہربانی اورنیکی کے جذبے سے نہیں کررہاتھابلکہ وہ توصرف اپنےمفاداورپوزیشن مستحکم کرنے کے لیے کررہاتھااورقریش نبی صلی اللہ علیہ وسلم کوبنونوفل کے پہرے میں جاتے خاموشی سے اس لیے دیکھ رہے تھے کہ وہ بنونوفل کی تلواروں سے خائف نہ تھے بلکہ وہ بنوخزاعہ کی تلواروں اورخزرج کے تیرکمانوں سے خائف تھے۔[76]

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دورکے رواج کے مطابق پناہ توضرورحاصل کی مگراس پناہ کی بناپرآپ صلی اللہ علیہ وسلم اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے دعوت وتبلیغ کے کام میں کوئی فرق نہیں پڑا،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےمطعم بن عدی کےاس احسان کویادرکھااور اسی احسان کے بدلے غزوہ بدرکے دن اسیران بدرکی بابت آپ نے یہ ارشادفرمایاتھا

لَوْ كَانَ الْمُطْعِمُ بْنُ عَدِیٍّ حَیًّا ثُمَّ كَلَّمَنِی فِی هَؤُلاءِ النَّتْنَى لتركتهم له

اگرآج مطعم بن عدی زندہ ہوتااورپھرمجھ سے ان لوگوں کے بارے میں کچھ کلام کرتاتومیں اس کی رعایت سے ان سب کویک لخت چھوڑدیتا۔[77]

مطعم بن عدی نے پناہ دی توحسان بن ثابت رضی اللہ عنہ نے ان کی اس جرات وجانبازی یایوں تذکرہ کیا۔

أَجَرْتَ رَسُولَ اللَّهِ مِنْهُمْ فَأَصْبَحُوا ، عَبِیدَكَ مَا لَبَّى مُهِلٌّ وَأَحْرَمَا

تم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کومکہ والوں سے پناہ دی وہ تمہارے غلاموں کی طرح سہم کررہ گئے۔جب تک احرام باندھے جائیں گے اورصدائے لبیک پکاری جائے گی تمہاری جرات کوداددی جاتی رہے گی ۔

فَلَوْ سُئِلَتْ عَنْهُ مَعَدٌّ بِأَسْرِهَا ،،وَقَحْطَانُ أَوْ بَاقِی بَقِیَّةِ جُرْهُمَا

اگرقبیلہ معد(قریش)قحطان اوربنوجرہم کے بچے کھچے افرادسے مطعم کے بارے میں پوچھاجائے

لَقَالُوا هُوَ الْمُوفِی بِخُفْرَةِ جَارِهِ ،وَذِمَّتِهِ یَوْمًا إذَا مَا تَذَمَّمَا

تووہ پکاراٹھیں گے وہی توایساباوفاہے کہ جب کسی کوپناہ دے دے یاکسی کاذمہ اٹھالے تواپنی پناہ اورذمے کابہت پاس رکھتاہے۔(ابن ہشام۳۸۰؍۱)

اورالبدایة والنهایة میں یہ شعر یوں ہیں ۔

 فَلَوْ كان مجد مخلد الیوم واحد ، من النَّاس نحی مَجْدُهُ الْیَوْمَ مُطْعِمَا

اگرآج کسی شخص کواس کی بزرگی اورنیک نامی نجات دے سکتی تووہ مطعم بن عدی ہوتا

 أَجَرْتَ رَسُولَ اللَّهِ مِنْهُمْ فَأَصْبَحُوا ، عِبَادَكَ مَا لَبَّى مُحِلٌّ وَأَحْرَمَا

اے مطعم!تونے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کولوگوں سے تحفظ دلایاتوسب تیرے ایسے مطیع ہوگئے کہ تیری اجازت کے بغیرکسی نے نہ تلبیہ پکارااورنہ احرام باندھا

 فَلَوْ سُئِلَتْ عَنْهُ مَعَدٌّ بِأَسْرِهَا وَقَحْطَانُ أَوْ بَاقِی بَقِیَّةِ جُرْهُمَا، لَقَالُوا هُوَ الْمُوفِی بِخُفْرَةِ جَارِهِ وذمته

پس اگرمطعم کے بارے میں بنومعد،بنوقحطان اوربنوجرہم کے باقی ماندہ قبائل سے پوچھاجائے تووہ کہیں گے اپنے پڑوسی سے عہدنبھانے والااورذمہ داری عائدہونے کی صورت میں اسے پوراکرنے والاتھا

یوماً إذا ما تجشما وَمَا تَطْلُعُ الشَّمْسُ الْمُنِیرَةُ فَوْقَهُمْ ، عَلَى مِثْلِهِ فیهم أعز وأكرما إباءً إِذَا یَأْبَى وَأَلْیَنَ شِیمَةً

اوراس سے زیادہ عزت وشرف کے مالک شخص پرآج تک روشن سورج طلوع نہیں ہواوہ عزت نفس اوراچھی طبیعت کامالک ہے

وَأَنْوَمَ عَنْ جَارٍ إِذَا اللَّیْلُ أَظْلَمَا قُلْتُ وَلِهَذَا

اورجب رات کا اندھیرا چھا جائے تووہ پڑوسی سے براسلوک نہیں کرتا۔[78]

طفیل رضی اللہ عنہ بن عمرودوسی رضی اللہ عنہ کاقبول اسلام

وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، عَلَى مَا یَرَى مِنْ قَوْمِهِ، یَبْذُلُ لَهُمْ النَّصِیحَةَ، وَیَدْعُوهُمْ إلَى النَّجَاةِ مِمَّا هُمْ فِیهِ. وَجَعَلَتْ قُرَیْشٌ، حِینَ مَنَعَهُ اللَّهُ مِنْهُمْ، یُحَذِّرُونَهُ النَّاسَ وَمَنْ قَدِمَ عَلَیْهِمْ مِنْ الْعَرَبِ ،كَانَ الطُّفَیْلُ بْنُ عَمْرٍو الدَّوْسِیُّ یُحَدِّثُ أَنَّهُ قَدِمَ مَكَّةَ، وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بِهَا فَمَشَى إِلَیْهِ رِجَالٌ مِنْ قُرَیْشٍ، وَكَانَ الطفیل رَجُلًا شَرِیفًا شَاعِرًا لَبِیبًا

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی قوم سے ایسی تکالیف اٹھانے کے باوجودان کی نصیحت کے خواہاں رہتے تھے اوران کی نجات کے خواستگارتھے اورقریش کایہ قاعدہ تھاکہ وہ ہرایک آنے والے کوجومکہ معظمہ میں آتارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے اس قدربہکاتے تھے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب بھی نہ آتااورنہ آپ کاکلام سنناپسندکرتا،طفیل رضی اللہ عنہ بن عمرودوسی رضی اللہ عنہ کہاکرتے تھے کہ وہ مکہ معظمہ میں آئے اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وہیں مقیم تھے،قریش کے چندآدمی خاص طورپران کے پاس آئے،طفیل رضی اللہ عنہ بن عمروعرب کے مشہورقبیلہ دوس کے سردار، شاعراوردانش مندآدمی تھے

قَالُوا لَهُ: إِنَّكَ قَدِمْتَ بِلَادَنَا، وَإِنَّ هَذَا الرَّجُلَ وَهُوَ الَّذِی بَیْنَ أَظْهُرِنَا فَرَّقَ جَمَاعَتَنَا، وَشَتَّتَ أَمْرَنَا، وَإِنَّمَا قَوْلُهُ كَالسِّحْرِ یُفَرِّقُ بَیْنَ الْمَرْءِ وَابْنِهِ، وَبَیْنَ الْمَرْءِ وَأَخِیهِ، وَبَیْنَ الْمَرْءِ وَزَوْجِهِ، وَإِنَّمَا نَخْشَى عَلَیْكَ وَعَلَى قَوْمِكَ مَا قَدْ حَلَّ عَلَیْنَا، فَلَا تُكَلِّمْهُ وَلَا تَسْمَعْ مِنْهُ،قَالَ: فَوَاللَّهِ مَا زَالُوا بِی حَتَّى أَجْمَعْتُ أَنْ لَا أَسْمَعَ مِنْهُ شَیْئًا، وَلَا أُكَلِّمَهُ حَتَّى حَشَوْتُ فِی أُذُنَیَّ حِینَ غَدَوْتُ إِلَى الْمَسْجِدِ كُرْسُفًا، فَرَقًا مِنْ أَنْ یَبْلُغَنِی شَیْءٌ مِنْ قَوْلِهِ.

مشرکین مکہ کہنے لگے(جیسے ہرآنے والے کے کانوں میں یہ بات ڈالتے تھے)توہمارے علاقہ میں آیاہےاوریہ آدمی(محمد صلی اللہ علیہ وسلم )جوہمارے پاس ہے اس نے ہماری جمعیت کوپراگندہ کردیاہے اورہمارے ہرکام کوتقسیم کررہاہے،اس کی بات میں جادوجیسااثرہے وہ اپنے کلام سے انسان اوراس کے باپ کے درمیان ،ایک انسان اوراس کے بھائی کے درمیان،ایک انسان اوراس کی بیوی کے درمیان تفریق ڈال دیتے ہیں اورہمیں تمہارے اورتمہاری قوم کے متعلق بھی وہی خطرہ ہےجس سے ہم دوچار ہورہے ہیں اس لئے ہماری نصیحت ہے کہ نہ توان سے ملیں اورنہ ان کی کوئی بات سنیں ،چنانچہ وہ کہتے ہیں اللہ کی قسم !وہ برابرمیرے پیچھے لگے رہے یہاں تک کہ میں نے مصمم ارادہ کرلیاکہ وہ نہ تومحمد صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی بات کروں گا اورنہ ہی کوئی گفتگو سنوگاچنانچہ میں نے اپنے کانوں میں روئی ٹھونس لی کہ مباداکوئی ایسی بات ان کے کانوں میں نہ پڑجائے جس سے ان کاآبائی دین خراب ہو جائے اور وہ معبودوں کے قہروغضب کاشکارہوجائیں ،مگراللہ کی مشیت کے آگے کس کی چلتی ہے وہ جسے چاہتاہے ہدایت عطافرمادیتاہے اورجسے چاہتاہے گمراہ کردیتاہے،

قَالَ: فَغَدَوْتُ إِلَى الْمَسْجِدِ، فَإِذَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَائِمٌ یُصَلِّی عِنْدَ الْكَعْبَةِ، فَقُمْتُ قَرِیبًا مِنْهُ، فَأَبَى اللَّهُ إِلَّا أَنْ یُسْمِعَنِی بَعْضَ قَوْلِهِ، فَسَمِعْتُ كَلَامًا حَسَنًا فَقُلْتُ فِی نَفْسِی: وَاثُكْلَ أُمِّیَاهُ، وَاللَّهِ إِنِّی لَرَجُلٌ لَبِیبٌ شَاعِرٌ، مَا یَخْفَى عَلَیَّ الْحَسَنُ مِنَ الْقَبِیحِ، فَمَا یَمْنَعُنِی أَنْ أَسْمَعَ مِنْ هَذَا الرَّجُلِ مَا یَقُولُ؟ فَإِنْ كَانَ مَا یَقُولُ حَسَنًا قَبِلْتُ، وَإِنْ كَانَ قَبِیحًا تَرَكْتُ

ایک دن جب میں صبح کے وقت حرم میں گیا جہاں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نمازادافرمارہے تھے،اللہ کاکرنایہ ہواکہ طفیل رضی اللہ عنہ کے کانوں سے ٹھونسی ہوئی روئی نکل گئی جس سے اللہ کاپاکیزہ کلام ان کے کانوں میں پہنچا ، وہ اس کلام کی پاکیزگی، الفاظ کی شیرینی اورمضامین کی گہرائی میں ڈوب گئے،انہوں نے اپنے دل میں کہامیری ماں مرے !واللہ میں ماہرفن شاعر ہوں ،مجھ سے کلام کا حسن وقبح پوشیدہ نہیں ،پھرمیرے لئے اس شخص کی بات سننے میں کیاحرج ہے ؟وہ جوکلام پیش کرتے ہیں اگروہ بھلاہے تومیں اسے قبول کرلوں گااوراگر ایسانہیں ہے تو چھوڑ دوں گا

قَالَ: فَمَكَثْتُ حَتَّى انْصَرَفَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ إِلَى بَیْتِهِ، فَتَبِعْتُهُ حَتَّى إِذَا دَخَلَ بَیْتَهُ دَخَلْتُ عَلَیْهِ، فَقُلْتُ: یَا مُحَمَّدُ! إِنَّ قَوْمَكَ قَدْ قَالُوا لِی: كَذَا وَكَذَا، فَوَاللَّهِ مَا بَرِحُوا یُخَوِّفُونِی أَمْرَكَ حَتَّى سَدَدْتُ أُذُنَیَّ بِكُرْسُفٍ لِئَلَّا أَسْمَعَ قَوْلَكَ، ثُمَّ أَبَى اللَّهُ إِلَّا أَنْ یُسْمِعَنِیهِ، فَسَمِعْتُ قَوْلًا حَسَنًا، فَاعْرِضْ عَلَیَّ أَمْرَكَ، فَعَرَضَ عَلَیَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ الْإِسْلَامَ، وَتَلَا عَلَیَّ الْقُرْآنَ

یہ سوچ کروہ وہیں رکے رہے ،جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گھرکی طرف لوٹے تویہ بھی ان کے پیچھے پیچھے چل پڑے ،جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گھرمیں داخل ہوئے تویہ بھی اندرداخل ہوگئے اورعرض کیااے محمد صلی اللہ علیہ وسلم !آپ کی قوم نے مجھ سے ایسا ایسابیان کیاتھااوراللہ کی قسم !وہ مجھے تمہارے معاملہ میں خوف دلاتے رہےآخرمیں نے روئی سے اپنے کان بندکرلیے تاکہ میں آپ کاکلام نہ سن سکوں لیکن اللہ نے مجھے آپ کاکلام سناہی ڈالااوربہت ہی اچھاکلام سنایا آپ کس چیزکی طرف دعوت دیتے ہیں وہ بیان کریں ؟رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اسلام کی تبلیغ فرمائی اورکلام اللہ سے کچھ آیات سنائیں ،

ایک روایت میں ہے

ثمَّ قرا اعوذ بِاللَّه من الشَّیْطَان الرَّحِیم بِسم الله الرَّحْمَن الرَّحِیم قل هُوَ الله أحد الله الصَّمد إِلَى آخرهَا ثمَّ قَرَأَ قل أعوذ بِرَبّ الفلق

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سورۂ اخلاص اور معوذتین کی تلاوت فرمائی۔[79]

فَلَا وَاللَّهِ مَا سَمِعْتُ قَوْلًا قَطُّ أَحْسَنَ مِنْهُ، وَلَا أَمْرًا أَعْدَلَ مِنْهُ، فَأَسْلَمْتُ وَشَهِدْتُ شَهَادَةَ الْحَقِّ

اسلام سے دوروہی رہ سکتاہے جس کے دل میں کجی ہوورنہ اسلام کی حقانیت کو تسلیم اوراس کی تعلیمات کو قبول کیے بغیرکوئی چارہ نہیں چنانچہ طفیل رضی اللہ عنہ کہتے ہیں اللہ کی قسم! میں نے قرآن کریم سے بہترکبھی کوئی کلام سناہی نہیں تھااورنہ ان سے بہترعدل والی بات کبھی سنی تھی چنانچہ میں نے فوراًصدق دل سے دعوت اسلام کوقبول کرلیااورمیں نے حق کی گواہی دی،قریش کوایسے شخص کامسلمان ہونانہایت ہی شاق گزرا،

وَقُلْتُ: یَا نَبِیَّ اللَّهِ؛ إِنِّی امْرُؤٌ مُطَاعٌ فِی قَوْمِی، وَإِنِّی رَاجِعٌ إِلَیْهِمْ، فَدَاعِیهِمْ إِلَى الْإِسْلَامِ، فَادْعُ اللَّهَ لِی أَنْ یَجْعَلَ لِی آیَةً تَكُونُ عَوْنًا لِی عَلَیْهِمْ، فِیمَا أَدْعُوهُمْ إِلَیْهِ، فَقَالَ:اللَّهُمَّ اجْعَلْ لَهُ آیَةً، قَالَ: فَخَرَجْتُ إِلَى قَوْمِی حَتَّى إِذَاكُنْتُ بِثَنِیَّةٍ تُطْلِعُنِی عَلَى الْحَاضِرِ، وَقَعَ نُورٌ بَیْنَ عَیْنَیَّ مِثْلُ الْمِصْبَاحِ، قُلْتُ: اللَّهُمَّ فِی غَیْرِ وَجْهِی إِنِّی أَخْشَى أَنْ یَظُنُّوا أَنَّهَا مُثْلَةٌ وَقَعَتْ فِی وَجْهِی لِفِرَاقِی دِینِهِمْ،قَالَ: فَتَحَوَّلَ فَوَقَعَ فِی رَأْسِ سَوْطِی كَالْقِنْدِیلِ الْمُعَلَّقِ، وَأَنَا أَنْهَبِطُ إِلَیْهِمْ مِنَ الثَّنِیَّةِ حَتَّى جِئْتُهُمْ، وَأَصْبَحْتُ فِیهِمْ

طفیل رضی اللہ عنہ نے عرض کیااے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم !میری قوم میری بات مانتی ہے ،میں ان میں پہنچ کراسلام کی تبلیغ کروں گا آپ اللہ سے دعا فرمائیں کہ وہ مجھے کوئی ایسی نشانی عطافرمادے جومیری تبلیغ میں میری معین ومددگارثابت ہو،ان کی اس درخواست پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعافرمائی اے اللہ!کوئی نشانی عطافرما، پھرمیں اپنی قوم میں واپس آیاجب میں اپنے علاقہ کے ٹیلے پرپہنچا تو میری دونوں آنکھوں کے مابین چراغ کی ماند ایک نور چمکنے لگا،یہ دیکھ کرمیں نے اللہ سے دعاکی اے اللہ!یہ نورمیرے چہرے کے علاوہ کسی اورجگہ ظاہرہوکیونکہ مجھے اندیشہ ہے کہ کہیں موجودہ نورسے میری قوم والے یہ نہ سمجھ لیں کہ ان کا دین چھوڑدینے کی وجہ سے میری جسمانی ہیئت میں تبدیلی ہوگئی ہے ، فرماتے ہیں اللہ نے ان کی دعاقبول فرمائی اور وہ نور میری پیشانی سے ہٹ گیااورقندیل کی طرح میرے کوڑے کے سرے پرنمودار ہوگیا،

روایت ہے

فَكَانَتْ تُضِیءُ فِی اللَّیْلَةِ الْمُظْلِمَةِ،یُقَالَ لَهُ ذُو النُّورِ

جب اندھیری رات ہوتی تویہ کوڑااسی طرح روشن ہوجاتااسی وجہ سے طفیل رضی اللہ عنہ ذی النور یعنی نور والے کے لقب سے مشہورہوئے۔

چنانچہ جب میں بلندی سے نیچے اتررہاتھاحتی کہ میں ان کے پاس پہنچا جب میں پہنچاتوصبح ہوگئی

فَلَمَّا نَزَلْتُ، أَتَانِی أَبِی، وَكَانَ شَیْخًا كَبِیرًا، فَقُلْتُ: إِلَیْكَ عَنِّی یَا أَبَتِ، فَلَسْتَ مِنِّی، وَلَسْتُ مِنْكَ،قَالَ: لِمَ یَا بُنَیَّ؟ قُلْتُ: قَدْ أَسْلَمْتُ وَتَابَعْتُ دِینَ مُحَمَّدٍ قَالَ: یَا بُنَیَّ فَدِینِی دِینُكَ، قَالَ فَقُلْتُ: اذْهَبْ فَاغْتَسِلْ وَطَهِّرْ ثِیَابَكَ، ثُمَّ تَعَالَ حَتَّى أُعَلِّمَكَ مَا عَلِمْتُ،قَالَ: فَذَهَبَ فَاغْتَسَلَ وَطَهَّرَ ثِیَابَهُ، ثُمَّ جَاءَ فَعَرَضْتُ عَلَیْهِ الْإِسْلَامَ، فَأَسْلَمَ

جب میں نیچے پہنچ گیا تومیرے پاس میراباپ آیاوہ بوڑھاآدمی تھامیں نےاسے کہااے میرے والد!آپ مجھ سے دوررہیں کیونکہ اب نہ میں آپ کاہوں اورنہ آپ میرے ان کے والد نے حیران ہوکرکہااے میرے پیارے بیٹے ! کیا ہوگیا؟طفیل رضی اللہ عنہ نے کہامیں مسلمان ہوگیاہوں اوردین محمدکی اتباع میں آچکاہوں ،والدنے کہاتوبیٹے میرابھی وہی دین ہے جوتیراہے،میں نے کہااچھاجاؤاورغسل کرو،نئے کپڑے پہنوپھرمیرے پاس آؤتاکہ میں تمہیں وہ سکھاؤں جومیں نے سیکھاہے، کہتے ہیں وہ گئے اورغسل کیااوراپنے کپڑے پاک کیے پھرمیرے پاس آئے اورمیں نے اس کے سامنے اسلام کوپیش کیا اورانہوں نے اسلام قبول کرلیا

ثُمَّ أَتَتْنِی صَاحِبَتِی، فَقُلْتُ لَهَا: إِلَیْكِ عَنِّی فَلَسْتُ مِنْكِ وَلَسْتِ مِنِّی.قَالَتْ: لِمَ بِأَبِی أَنْتَ وَأُمِّی؟ قُلْتُ فَرَّقَ الْإِسْلَامُ بَیْنِی وَبَیْنَكِ، أَسْلَمْتُ وَتَابَعْتُ دِینَ مُحَمَّدٍ قَالَتْ: فَدِینِی دِینُكَ، قَالَ: قُلْتُ: فَاذْهَبِی فَاغْتَسِلِی، فَفَعَلَتْ ثُمَّ جَاءَتْ فَعَرَضْتُ عَلَیْهَا الْإِسْلَامَ فَأَسْلَمَت، فَقَالَتْ: بِأَبِی أَنْتَ أَتَخَافُ عَلَى الصِّبْیَةِ مِنْ ذِی الشِّرَى شَیْئًا؟ قُلْتُ: لا. أَنَا ضَامِنٌ لِمَا أَصَابَكِ

پھرمیری بیوی آئی میں نے اس سے کہاتویہاں سے چلی جاتیرامیراکسی قسم کاکوئی تعلق نہیں ہے ،میرے ماں باپ تجھ پرقربان یہ کیوں ؟میں نے کہااسلام نے میرے اورتمہارے درمیان حدفاضل پیداکردی ہے میں مسلمان ہوچکاہوں اورمحمد صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کواختیارکرلیاہے،وہ کہنے لگی تیرادین ہی میرادین ہے،میں نے کہااچھاجاؤپہلے غسل کرواس نے ایساہی کیاپھرواپس آئی میں نے اس پراسلام پیش کیااوروہ مسلمان ہوگئی،استھانوں کے رکھوالوں اورپجاریوں نے بتوں کی طاقت وقوت کے بے شمار افسانے لوگوں میں پھیلارکھے تھے تاکہ لوگ ان سے مرعوب رہیں اور ان کے حضورچڑھاوے وغیرہ چڑھاتے رہیں اوران کی جیب بھرتی رہے،اسی وجہ سے ان کی بیوی نے پوچھا میرے دین تبدیل کرنے سے مجھے اپنے قبیلے کے بت ذی الشرٰی سے توکوئی خطرہ نہ ہوگا؟ طفیل رضی اللہ عنہ نے کہاہرگزنہیں ،یہ بے بس مجسمے تمہاراکچھ نہیں بگاڑسکتے میں اس کاذمہ لیتا ہوں ،

ثُمَّ دَعَوْتُ دَوْسًا إِلَى الْإِسْلَامِ، فَلم یجبهُ إِلَّا أَبُو هُرَیْرَة،قَدِمَ طُفَیْلُ بْنُ عَمْرٍو الدَّوْسِیُّ وَأَصْحَابُهُ، عَلَى النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالُوا: یَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ دَوْسًا عَصَتْ وَأَبَتْ، فَادْعُ اللَّهَ عَلَیْهَا، فَقِیلَ: هَلَكَتْ دَوْسٌ، قَالَ: اللَّهُمَّ اهْدِ دَوْسًا وَأْتِ بِهِمْ

پھرمیں نے قبیلہ دوس کودعوت اسلام پیش کی مگر اس قبیلہ کے ایک سلیم الفطرت شخص ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے سوا سب نے اسے قبول کرنے سے انکار کردیامگرطفیل رضی اللہ عنہ بن عمرودوسی اپنے ساتھیوں کے ساتھ دوبارہ رسول مجتبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضرہوئے اور عرض کیااے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم !قبیلہ دوس کے لوگ سرکشی پراترآئے ہیں اوراللہ کاکلام سننے سے انکارکرتے ہیں ، آپ ان پربددعا فرمائیں ،مگررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعافرمائی اے اللہ دوس کوہدایت دے اور مسلمان بناکریہاں بھیج۔[80]

ثُمَّ قَالَ: ارْجِعْ إِلَى قَوْمِكَ فَادْعُهُمْ إِلَى اللَّهِ، وَارْفُقْ بِهِمْ، فَرَجَعْتُ إِلَیْهِمْ، فَلَمْ أَزَلْ بِأَرْضِ دَوْسٍ أَدْعُوهُمْ إِلَى اللَّهِ، ثُمَّ قَدِمْتُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بِخَیْبَرَ، فَنَزَلْتُ الْمَدِینَةَ بِسَبْعِینَ أَوْ ثَمَانِینَ بَیْتًا مِنْ دَوْسٍ، ثُمَّ لَحِقْنَا بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بِخَیْبَرَ، فَأَسْهَمَ لَنَا مَعَ الْمُسْلِمِینَ

پھر طفیل رضی اللہ عنہ سے ارشاد فرمایا کہ اپنے قبیلہ میں جاکرانہیں محبت اورنرمی سے اسلام کی تبلیغ کروچنانچہ واپس آکرانہوں نے حسب ہدایت تبلیغ اسلام کا کام شروع کردیا،اب دعائے نبوی کی برکت سے طفیل رضی اللہ عنہ کی تبلیغ نے بڑااثرکیااورقبیلہ دوس کے بیشتر لوگوں نے اسلام قبول کرلیا،غزوہ خیبرکے زمانے میں دوس کے اسی (۸۰ )خاندان اپنے وطن سے ہجرت کرکے مدینہ طیبہ چلے آئے ،ان میں طفیل رضی اللہ عنہ بن عمرواورابوہریرہ رضی اللہ عنہ بھی شامل تھے۔[81]

 

[1] النحل۳

[2] الانعام۷۳

[3] ابراہیم۱۹

[4] الزمر۵

[5] التغابن۳

[6] الجاثیة۲۲

[7] الحجر۸۵

[8] الاعراف ۵۴

[9] ابراہیم۴۸

[10] لقمان۲۵

[11] الزمر۳۸

[12] الزخرف۹

[13] بنی اسرائیل۱۱۱

[14] الفرقان۲

[15] یونس۳

[16] السجدة۵

[17] تفسیرطبری۹۴؍۲۲

[18] النحل۳۶

[19] الاعراف۵۹

[20] مریم ۸۱،۸۲

[21] العنکبوت۲۵

[22] النحل۲۰،۲۱

[23] الرعد۱۴

[24] سبا۲۲،۲۳

[25] الانبیائ۳

[26] الفرقان۵

[27] ص۷

[28] الفرقان۵،۶

[29] الحاقة۴۴تا۴۷

[30] الجن۲۲

[31] صحیح بخاری مناقب الانصارباب مقدم النبی واصحابہ المدینة ۳۹۲۹،وکتاب الجنائزباب الدخول علی المیت بعد الموت۱۲۴۳، مسند احمد ۳۱۰۳،۲۷۴۵۷،المعجم الکبیرللطبرانی ۳۳۷،مستدرک حاکم۳۶۹۶،السنن الکبری للنسائی۷۵۸۷،السنن الکبری للبیہقی۷۱۹۰

[32] حم السجدة۵۲

[33] القصص۵۳

[34] بنی اسرائیل۱۰۷تا۱۰۹

[35] الانعام۵۳

[36] صحیح مسلم كِتَابُ الْإِیمَانَ بَابُ تَحْرِیمِ الْكِبْرِ وَبَیَانِهِ۲۶۵

[37] حم السجدة۳۰

[38] بنی اسرائیل۲۳

[39] لقمان۱۴

[40] البقرة۲۳۳

[41] صحیح مسلم کتاب البروالصلة بَابُ بِرِّ الْوَالِدَیْنِ وَأَنَّهُمَا أَحَقُّ بِهِ۶۵۰۰،صحیح بخاری کتاب الادب بَابٌ مَنْ أَحَقُّ النَّاسِ بِحُسْنِ الصُّحْبَةِ ۵۹۷۱،سنن ابن ماجہ كِتَابُ الْوَصَایَا بَابُ النَّهْیِ عَنِ الْإِمْسَاكِ فِی الْحَیَاةِ وَالتَّبْذِیرِ عِنْدَ الْمَوْتِ۲۷۰۷

[42] تفسیرابن ابی حاتم۳۲۹۳،۳۲۹۴؍۱۰،تفسیر المراغی۱۸؍۲۶، التفسیر المنیر فی العقیدة والشریعة والمنهج۳۳؍۲۶،التفسیر الوسیط للقرآن الكریم ۹۱۶؍۹، تفسیر حدائق الروح والریحان فی روابی علوم القرآن۵۰؍۲۷

[43] سنن ابوداود کتاب الصلاة بَابُ التَّشَهُّدِ۹۶۹

[44] ص۸۴،۸۵

[45] تفسیرطبری۱۱۹؍۲۲

[46] تفسیرابن کثیر۲۸۴؍۷

[47] تفسیرالقرطبی ۲۰۱،۲۰۲؍۱۶،تفسیرابن کثیر۲۸۴؍۷

[48] تفسیرطبری۱۲۴؍۲۲

[49] حم السجدة۱۳،۱۴

[50] الشوریٰ۱۸

[51] صحیح بخاری کتاب تفسیرسورۂ الاحقاف بَابُ قَوْلِهِ فَلَمَّا رَأَوْهُ عَارِضًا مُسْتَقْبِلَ أَوْدِیَتِهِمْ قَالُوا هَذَا عَارِضٌ مُمْطِرُنَا بَلْ هُوَ مَا اسْتَعْجَلْتُمْ بِهِ رِیحٌ فِیهَا عَذَابٌ أَلِیمٌ۴۸۲۹ ، صحیح مسلم کتاب صلوٰة الاستسقاء بَابُ التَّعَوُّذِ عِنْدَ رُؤْیَةِ الرِّیحِ وَالْغَیْمِ، وَالْفَرَحِ بِالْمَطَرِ۲۰۸۶،سنن ابوداودکتاب الادب بَابُ مَا یَقُولُ إِذَا هَاجَتِ الرِّیحُ۵۰۹۸

[52] الأحقاف: 24

[53]صحیح مسلم کتاب صلوٰة الاستسقاء بَابُ التَّعَوُّذِ عِنْدَ رُؤْیَةِ الرِّیحِ وَالْغَیْمِ، وَالْفَرَحِ بِالْمَطَرِ۲۰۸۵

[54] سنن ابن ماجہ کتاب الدعاء بَابُ مَا یَدْعُو بِهِ الرَّجُلُ إِذَا رَأَى السَّحَابَ وَالْمَطَرَ ۳۸۸۹، السنن الکبری للنسائی ۱۸۴۳،مصنف ابن ابی شیبة۲۹۲۲۳

[55] الحاقة۷

[56] الذاریات۴۱،۴۲

[57] البقرة۶۶

[58] الجن: 2

[59] الجن: 1

[60] مسنداحمد۲۲۷۱،دلائل النبوة للبیہقی۲۲۵؍۲،صحیح بخاری كِتَابُ الأَذَانِ بَابُ الجَهْرِ بِقِرَاءَةِ صَلاَةِ الفَجْرِ ۷۷۳،صحیح مسلم كِتَابُ الصَّلَاةِ بَابُ الْجَهْرِ بِالْقِرَاءَةِ فِی الصُّبْحِ وَالْقِرَاءَةِ عَلَى الْجِنِّ،جامع ترمذی أَبْوَابُ تَفْسِیرِ الْقُرْآنِ بَاب وَمِنْ سُورَةِ الجِنِّ۳۳۲۳،السنن الکبری للنسائی۱۱۵۶۰،مستدرک حاکم۳۸۵۷

[61] یوسف۱۰۹

[62] الفرقان۲۰

[63] العنکبوت۲۷

[64] الانعام۱۳۰

[65]صحیح مسلم کتاب الصلاة بَابُ الْجَهْرِ بِالْقِرَاءَةِ فِی الصُّبْحِ وَالْقِرَاءَةِ عَلَى الْجِنِّ ۱۰۰۷، جامع ترمذی ابواب تفسیرالقرآن بَابٌ وَمِنْ سُورَةِ الأَحْقَافِ ۳۲۵۸

[66] ق۳۸

[67] المومن۵۷

[68] المزمل۱۱

[69] الطارق۱۷

[70] النازعات۴۶

[71] یونس۴۵

[72] ابن سعد۱۶۵؍۱،زادالمعاد۳۰؍۳

[73] ابن ہشام ۳۸۱؍۱،ابن سعد ۱۶۵؍۱، زادالمعاد۳۰؍۳،امتاع الاسماع۱۸۱؍۹

[74] محمدرسول اللہﷺلصادق عرجون۳۲۴؍۲

[75] انساب الاشراف للبلاذری۷۱؍۱

[76] اصول الفکرالسیاسی للتجانی عبدالقادرصفحہ۱۸۰

[77] صحیح بخاری كِتَابُ المَغَازِی باب ۴۰۲۴،سنن ابوداود كِتَاب الْجِهَادِ بَابٌ فِی الْمَنِّ عَلَى الْأَسِیرِ بِغَیْرِ فِدَاءٍ ۲۶۸۹،عیون الاثر۱۵۷؍۱

[78] البدایة والنهایة۱۶۹؍۳

[79] الخصائص الکبری۲۲۶؍۱

[80] صحیح بخاری کتاب الجہادبَابُ الدُّعَاءِ لِلْمُشْرِكِینَ بِالهُدَى لِیَتَأَلَّفَهُمْ۲۹۳۷

[81] زادالمعاد۵۴۶؍۳،ابن ہشام۳۸۲؍۱ ،الروض الانف۲۲۶؍۳ ،عیون الآثر۱۶۲؍۱، دلائل النبوة للبیہقی ۳۶۰؍۵، ابن سعد۱۷۹؍۴، الاستیعاب فی معرفة الاصحاب ۷۶۰،۷۶۱؍۲،السیرة النبویة لابن کثیر ۷۲؍۲

Related Articles