ہجرت نبوی کا ساتواں سال

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کاقبول اسلام

قال أبو عبید وقد اختلف فی اسم أبی هریرة

ابوعبیدہ کہتے ہیں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے نام میں اختلاف ہے۔[1]

ویقال: كان اسمه عبد نهم، وعبد غنم، ویقال: سكین ویقال: جرثوم. ویقال: عبد العزى، وقیل: سكین بن وذمة، قیل ابن مل

کہاجاتاہے کہ ان کانام عبدنہم،عبدغنم تھا،اوریہ بھی کہاجاتاہے کہ انہیں سکین کہاجاتاتھا،یہ بھی کہا جاتاہے کہ انہیں جرثوم کہاجاتاتھا،یہ بھی کہاجاتاہے کہ انہیں عبدالعزیٰ کہاجاتاتھا،یہ بھی کہاجاتاہے کہ انہیں سکین بن وذمہ کہاجاتاتھااورانہیں ابن مل بھی کہا جاتا تھا۔[2]

كَانَ اسْمُ أبی هریرة فی الجاهلیة عبد شمس، وفی الإِسْلامِ عَبْدُ اللهِ ،حَدَّثَنِی بَعْضُ أَصْحَابِنَا عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ، قَالَ: كَانَ اسْمِی فِی الْجَاهِلِیَّةِ عَبْدَ شَمْسٍ فَسُمِّیتُ فِی الإِسْلامِ عَبْدَ الرَّحْمَنِ ، وَإِنَّمَا كُنِّیتُ بِأَبِی هُرَیْرَةَ ، وقد غلبت عَلَیْهِ كنیته ، لأَنِّی وَجَدْتُ هِرَّةً فَجَعَلْتُهَا فِی كُمِّی، فَقِیلَ لِی: مَا هَذِهِ؟ قُلْتُ: هرّة، قیل: فأنت أبو هریرة

دور جاہلیت میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کانام عبدشمس تھاجب انہوں نے اسلام قبول کیاتورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےان کانام عبداللہ رکھا،اوربعض لوگ کہتے ہیں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کانام دورجاہلیت میں عبدشمس تھامگرجب انہوں نے اسلام قبول کیاتورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےان کانام عبدالرحمٰن رکھااورابوہریرہ رضی اللہ عنہ ان کی کنیت ہے اورکنیت ان کے نام پرغالب ہو گئی ، ایک مرتبہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے پوچھاگیاکہ آپ کی یہ کنیت کس نے تجویزکی،انہوں نے جواب دیاکہ ایک دفعہ مجھے ایک بلی مل گئی تھی جس کومیں اپنی آستین میں لیے پھرتاتھامجھے سے پوچھاگیایہ تم کیاساتھ لے کرپھرتے ہو؟ میں نے کہایہ ایک بلی ہے، اسی وقت سے مجھے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہاجانے لگا۔

 كُنْتُ أَحْمِلُ هِرَّةً یَوْمًا فِی كُمِّی، فَرَآنِی رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ لِی: مَا هَذِهِ؟ فَقُلْتُ: هِرَّةٌ، فَقَالَ:یَا أَبَا هُرَیْرَةَ

ایک روایت میں ہےایک دن میں بلی کواپنی آستین میں لے کرگھوم رہاتھاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے دیکھ کرپوچھایہ کیاہے؟ میں نے عرض کیاایک بلی ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ !۔[3]

عن عبد الله بن رافع، قال: قلت لأبی هریرة: لم أكتنیت بأبی هریرة؟ قال: أما تفرق منی؟ قلت: بلى، والله إنی لأهابك، قال: كنت أرعى غنم أهلی، وكانت لی هریرة صغیرة، فكنت أضعها باللیل فی شجرة، فإذا كان النهار ذهبت بها معی، فلعبت بها فكنونی أبا هریرة

ایک روایت میں عبد الله بن رافع کہتے ہیں میں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے دریافت کیاآپ کی یہ کنیت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کس وجہ سے ہے؟انہوں نے کہاکیاتم مجھ سے ڈرتے نہیں ، میں نے کہاکیوں نہیں واللہ!آپ سے ضرورڈرتاہوں ، انہوں نے کہامیں اپنے گھروالوں کی بکریاں چراتاتھااورمیں نے گھرپرایک چھوٹی سی بلی پال رکھی تھی، رات کواسے ایک درخت پررکھ دیتا تھااورصبح کوجب اپنی بکریاں چرانے جاتاتواس بلی کوساتھ لے لیتااوراس کے ساتھ کھیلتارہتا، لوگوں نے بلی سے میراغیرمعمولی لگاؤدیکھ کر ابوہریرہ رضی اللہ عنہ (بلی کاباپ)کہناشروع کردیا۔[4]

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ وطن سے چلتے وقت اپنی والدہ کوبھی ساتھ لیتے آئے تھے ان کانام باختلاف میمونہ یاامیمہ تھا۔

ابوہریرہ کی ہجرت :

وَقَدِمَ أَبُو هُرَیْرَةَ حِینَئِذٍ الْمَدِینَةَ فَوَافَى سباع بن عرفطة فِی صَلَاةِ الصُّبْحِ، فَسَمِعَهُ یَقْرَأُ فِی الرَّكْعَةِ الْأُولَى: كهیعص، وَفِی الثَّانِیَةِ: وَیْلٌ لِلْمُطَفِّفِینَ. فَقَالَ فِی نَفْسِهِ: وَیْلٌ لِأَبِی فُلَانٍ، لَهُ مِكْیَالَانِ، إِذَا اكْتَالَ اكْتَالَ بِالْوَافِی، وَإِذَا كَالَ كَالَ بِالنَّاقِصِ، فَلَمَّا فَرَغَ مِنْ صَلَاتِهِ أَتَى سِبَاعًا فَزَوَّدَهُ حَتَّى قَدِمَ عَلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَكَلَّمَ الْمُسْلِمِینَ، فَأَشْرَكُوهُ وَأَصْحَابَهُ فِی سُهْمَانِهِمْ

جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم خیبرروانہ ہوگئے توصبح کے وقت جب سباع بن عرفطہ غفاری نمازفجرپڑھارہے تھے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ مسجدنبوی میں حاضرہوئے ،جب انہیں پہلی رکعت میں کہٰیعص اوردوسری رکعت میں وَیْلٌ لِلْمُطَفِّفِینَ پڑھتے سناتونمازہی میں کہنے لگے ابوفلاں ہلاک ہوجائے اس نے دوپیمانے بنارکھے ہیں جب لیتاہے تو پورے پیمانے سے لیتاہے اورجب دیتاہے تو ناقص پیمانے سے دیتاہے،جب وہ نمازسے فارغ ہوئے توسباع بن عرفطہ غفاری رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضرہوئے ،انہوں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کوزادِراہ دے کرخیبرکی طرف روانہ کردیا چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضرہونے کے لئے یہ خیبرروانہ ہوگئے جب یہ وہاں پہنچے توخیبرفتح ہوچکا تھا ۔[5]

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ قَالَ: لَمَّا قَدِمْتُ عَلَى النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قُلْتُ فِی الطَّرِیقِ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےجب میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ملنے کے لیے جانے لگاتومیں نے راستے میں بڑے ذوق وشوق سے یہ شعرپڑھتارہا۔

یَا لَیْلَةً مِنْ طُولِهَا وَعَنَائِهَا ، عَلَى أَنَّهَا مِنْ دَارَةِ الْكُفْرِ نجت

ہائے رات کی درازی اورمشقت کتنی بری ہے،تاہم اس نے مجھے دارالکفرسے نجات بخشی

قَالَ: وَأَبَقَ مِنِّی غُلَامٌ فِی الطَّرِیقِ، فَلَمَّا قَدِمْتُ عَلَى النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فبایعته فبینا أنا عنده إذ طلع الغلام فقال لی رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ : یَا أَبَا هُرَیْرَةَ هَذَا غُلامُكَ، فَقُلْتُ: هُوَ لِوَجْهِ اللهِ. فَأَعْتَقْتُهُ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے وطن سے چلتے وقت ایک غلام کوبھی ساتھ لے لیاتھاجوراستے میں کہیں گم ہوگیا، جب میں خیبرپہنچ کرنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت اوربیعت سے مشرف ہوا تو اتفاق سے وہ غلام بھی وہیں پہنچ کیارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاابوہریرہ رضی اللہ عنہ تمہاراغلام آگیا ، میں نے عرض کیااے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !میں اسے اللہ کی راہ میں آزادکرتا ہوں ۔[6]

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اوران کے ساتھ چندساتھی فتح خیبرکے بعدوہاں پہنچے مگرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کومال غنیمت میں سے کوئی حصہ نہیں دیا،

عَنْ أَبِی مُوسَى، قَالَ:قَدِمْنَا عَلَى النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بَعْدَ أَنِ افْتَتَحَ خَیْبَرَ فَقَسَمَ لَنَا، وَلَمْ یَقْسِمْ لِأَحَدٍ لَمْ یَشْهَدِ الفَتْحَ غَیْرَنَا

ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے بیان کیاخیبرکی فتح کے بعدہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پہنچے لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے(مال غنیمت میں )ہمارابھی حصہ لگایاآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے سواکسی بھی ایسے شخص کاحصہ مال غنیمت میں نہیں لگایاجوفتح کے وقت(اسلامی لشکرکے ساتھ)موجودنہ رہاہو۔ [7]

بیعت کے بعدابوہریرہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دامن اقدس سے ایسے وابستہ ہوئے کہ آخری دم تک اسے ہاتھ سے نہ چھوڑا،انہوں نے ایک تواپنی مسکینی کی بناپراوردوسرے فیضان نبوی سے زیادہ سے زیادہ بہرہ یاب ہونے کی خاطراصحاب صفہ کی مقدس جماعت میں شمولیت اختیارکرلی تھی ،سفرہویاحضر،خلوت ہویاجلوت،رات ہویادن،حج ہویاعمرہ وہ ہرموقع پربارگاہ رسالت میں حاضررہنے کی کوشش کرتے تھے ،فقیہ الامت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے تھے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ہم سب سے زیادہ بارگاہ رسالت میں حاضررہتے تھے۔

فدخل رجل فقال:یَا أَبَا مُحَمَّدٍ، وَاللهِ مَا نَدْرِی، هَذَا الْیَمَانِیُّ أَعْلَمُ بِرَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَمْ أَنْتُمْ؟ تَقَوَّلَ عَلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مَا لَمْ یَقُلْ یَعْنِی أَبَا هُرَیْرَةَ ،فَقَالَ طَلْحَةُ:وَاللهِ مَا یَشُكُّ أَنَّهُ سَمِعَ مِنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مَا لَمْ نَسْمَعْ وَعَلِمَ مَا لَمْ نَعْلَمْ إِنَّا كُنَّا قَوْمًا أَغْنِیَاءَ لَنَا بُیُوتٌ وَأَهْلُونَ، كُنَّا نَأْتِی نَبِیَّ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ طَرَفَیِ النَّهَارِ، ثُمَّ نَرْجِعُ، وَكَانَ أَبَا هُرَیْرَةَ رَضِیَ اللهُ عَنْهُ مِسْكِینًا لَا مَالَ لَهُ وَلَا أَهْلَ وَلَا وَلَدَ، إِنَّمَا كَانَتْ یَدُهُ مَعَ یَدِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، وَكَانَ یَدُورُ مَعَهُ حَیْثُمَا دَارَ، وَلَا یَشُكُّ أَنَّهُ قَدْ عَلِمَ مَا لَمْ نَعْلَمْ وَسَمِعَ مَا لَمْ نَسْمَعْ، وَلَمْ یَتَّهِمْهُ أَحَدٌ مِنَّا أَنَّهُ تَقَوَّلَ عَلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مَا لَمْ یَقُلْ

ایک دفعہ طلحہ رضی اللہ عنہ (صاحب احد)سے کسی شخص نے کہاابومحمد!ہم نہیں جانتے کہ یہ یمنی(ابوہریرہ رضی اللہ عنہ )ارشادات نبوی کا بڑا حافظ ہے یاآپ لوگ؟وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسی احادیث بیان کرتے ہیں جوآپ نہیں کرتے،طلحہ رضی اللہ عنہ نے فرمایااس میں کوئی شک نہیں کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے لسان رسالت سے بہت سی ایسی باتیں سنی ہیں جوہم نے نہیں سنیں ،اس کا سبب یہ ہے کہ ہم لوگ گھربار،اہل وعیال اور مال وجائدادوالے تھے اوران کی نگہداشت کے بعدصبح وشام کوجووقت ملتاتھابارگاہ رسالت میں گزارتے تھے ، ابوہریرہ رضی اللہ عنہ مسکین تھے ،مال ومتاع اوربیوی بچوں کے جھنجھٹ سے آزادتھے اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں ہاتھ دیئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ساتھ رہتے تھے اسی لیے ان کوہم سب سے زیادہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات سننے کاموقع ملا ، ہم میں سے کسی نے ان پریہ الزام نہیں لگایاکہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنے بغیرکوئی حدیث بیان کرتے ہیں ۔[8]

والدہ کاقبول اسلام:

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ أنه قَالَ:إِنِّی كُنْتُ أَدْعُو أُمِّی إِلَى الْإِسْلَامِ , فَتَأْبَى عَلَیَّ، قَالَ: فَدَعَوْتُهَا ذَاتَ یَوْمٍ إِلَى الْإِسْلَامِ , فَأَسْمَعَتْنِی فِی رَسُولِ اللهِ صلّى الله علیه وسلم مَا أَكْرَهُ ، فَجِئْتُ إِلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَأَنَا أَبْكِی , فَقُلْتُ: یَا رَسُولَ اللهِ إِنِّی كُنْتُ أَدْعُو أُمَّ أَبِی هُرَیْرَةَ إِلَى الْإِسْلَامِ , فَتَأْبَى عَلَیَّ، وَإِنِّی دَعَوْتُهَا الْیَوْمَ , فَأَسْمَعَتْنِی فِیكَ مَا أَكْرَهُ , فَادْعُ اللهَ أَنْ یَهْدِیَ أُمَّ أَبِی هُرَیْرَةَ إِلَى الْإِسْلَامِ ، فَفَعَلَ، فَجِئْتُ فَإِذَا الْبَابُ مُجَافٌ , وَسَمِعْتُ خَضْخَضَةَ الْمَاءِ، فَلَبِسَتْ دِرْعَهَا وَعَجِلَتْ عَنْ خِمَارِهَا , ثُمَّ قَالَتْ: ادْخُلْ یَا أَبَا هُرَیْرَةَ،

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں میں اپنی والدہ کودعوت اسلام پیش کرتاتھامگروہ اسے قبول کرنے سے انکارکرتی تھیں ، ایک روزمیں نے انہیں دعوت اسلام پیش کی توانہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں ایسی باتیں سنائیں جنہیں میں ناپسندکرتاتھا، میں روتاہوارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیااورعرض کی اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !میں اپنی والدہ کودعوت اسلام پیش کرتاتھاتووہ اسے قبول کرنے سے انکارکرتی تھیں مگرآج جب میں نے انہیں دعوت اسلام پیش کی توانہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں ایسی باتیں سنائیں جنہیں میں ناپسندکرتاہوں آپ اللہ تعالیٰ سے دعافرمائیں کہ وہ ابوہریرہ کی والدہ کواسلام کی طرف پھیردے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعافرمائی،میں اپنے گھرآیاتودروازہ بندتھااورپانی کے بہنے کی آوازسنائی دے رہی تھی، میری والدہ نے اپناشلوکاپہنااورجلدی سے اوڑھنی اوڑھی اورپھرکہااے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ !اندرآجاؤ،

فَدَخَلْتُ، فَقَالَتْ: أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ، فَجِئْتُ أَسْعَى إِلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَبْكِی مِنَ الْفَرَحِ كَمَا بَكَیْتُ مِنَ الْحُزْنِ، فَقُلْتُ: أَبْشِرْ یَا رَسُولَ اللهِ , فَقَدْ أَجَابَ اللهُ دَعَوْتَكَ، قَدْ هَدَى اللهُ أُمَّ أَبِی هُرَیْرَةَ إِلَى الْإِسْلَامِ،ثُمَّ قُلْتُ: یَا رَسُولَ اللهِ ادْعُ اللهَ أَنْ یُحَبِّبَنِی وَأُمِّیَ إِلَى الْمُؤْمِنِینَ وَالْمُؤْمِنَاتِ وَإِلَى كُلِّ مُؤْمِنٍ وَمُؤْمِنَةٍ، فَقَالَ: اللهُمَّ حَبِّبْ عُبَیْدَكَ هَذَا وَأُمَّهُ إِلَى كُلِّ مُؤْمِنٍ وَمُؤْمِنَةٍ، فَلَیْسَ یَسْمَعُ بِی مُؤْمِنٌ وَلا مؤمنة إلا أحبنی

میں گھرکے اندرداخل ہوا تومیری والدہ نے کہامیں گواہی دیتی ہوں کہ اللہ کے سواکوئی معبودنہیں اورمحمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کے بندے اور رسول ہیں ، میں دوڑتاہوارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیااس وقت میں خوشی سے رو رہا تھا جس طرح غم سے روتے ہیں ، میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !خوش ہوجایئے اللہ تعالیٰ نے آپ کی دعاقبول فرماکرابوہریرہ کی والدہ کواسلام قبول کرنے کی ہدایت دی۔ پھرعرض کی اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم دعافرمائیں کہ اللہ تعالیٰ سب مومنوں کے دل میں میری اورمیری والدہ کی محبت پیداکردے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعافرمائی اے اللہ!تمام مومنوں اورمومنات کے دلوں میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اوران کی والدہ کی محبت پیداکردے، اوراس دعاکااثریہ ہواکہ خودابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے قول کے مطابق جومومن آدمی ان کے بارے میں سنتاان سے محبت کرنے لگتا۔[9]

أن أبا هریرة كان إذا غدا من منزله لبس ثیابه ثم وقف على أمه فقال السلام علیك یا أمتاه ورحمة الله وبركاته جزاك الله عنى خیرا كما ربیتنی صغیرا السلام علیك یا أمتاه ورحمة الله وبركاته، فترد علیه وأنت فجزاك الله عنى خیرا یا بنی كما بررتنی كبیرة

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اپنی والدہ کی حدسے زیادہ تعظیم وتکریم کرتے تھے جب وہ گھرمیں داخل ہوتے توکہتے اسلام علیکم ورحمة وبرکاتہ اے میری ماں ! اللہ تعالیٰ آپ پراسی طرح رحم (رحمت)کرے جس طرح آپ نے بچپن میں مجھ پررحم کیااورمیری پرورش کی،وہ جواب میں کہتیں وعلیک السلام یابنی ورحمة الله وبرکاتہ اورکہتیں اے بیٹے!اللہ تعالیٰ تم پربھی اسی طرح رحمت نازل فرمائے جس طرح تم نے جوان ہوکرمیری خدمت کی ہے۔[10]

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کووالدہ سے جد قدرتعلق خاطرتھااس کااندازہ اس واقعہ سے کیاجاسکتاہے۔

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ أَنَّهُ قَالَ: خَرَجْتُ یَوْمًا مِنْ بَیْتِی إِلَى الْمَسْجِدِ لَمْ یُخْرِجْنِی إِلا الْجُوعُ ،فَوَجَدْتُ نَفَرًا مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَقَالُوا: یَا أَبَا هُرَیْرَةَ مَا أَخْرَجَكَ هَذِهِ السَّاعَةَ؟فَقُلْتُ: مَا أَخْرَجَنِی إِلا الْجُوعُ ، فَقَالُوا: نَحْنُ وَاللهِ مَا أَخْرَجَنَا إِلا الْجُوعُ ،فَقُمْنَا فَدَخَلْنَا عَلَى رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فقال: مَا جَاءَ بِكُمْ هَذِهِ السَّاعَةَ؟ فَقُلْنَا: یَا رَسُولَ اللهِ جَاءَ بِنَا الْجُوعُ، قَالَ فَدَعَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بِطَبَقٍ فِیهِ تَمْرٌ فَأَعْطَى كُلَّ رَجُلٍ مِنَّا تَمْرَتَیْنِ فَقَالَ: كُلُوا هَاتَیْنِ التَّمْرَتَیْنِ وَاشْرَبُوا عَلَیْهِمَا مِنَ الْمَاءِ فَإِنَّهُمَا سَتَجْزِیَانِكُمْ یَوْمَكُمْ هَذَا،قَالَ أَبُو هُرَیْرَةَ: فَأَكَلْتُ تَمْرَةً وَجَعَلْتُ تَمْرَةً فِی حُجْرَتِی،فقال رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:یَا أَبَا هُرَیْرَةَ لِمَ رَفَعْتَ هَذِهِ التَّمْرَةَ؟ فَقُلْتُ: رَفَعْتُهَا لأُمِّی،فَقَالَ:كُلَّهَا فَإِنَّا سَنُعْطِیكَ لَهَا تَمْرَتَیْنِ،فَأَكَلْتُهَا فَأَعْطَانِی لَهَا تَمْرَتَیْنِ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےایک روزمیں بھوک سے بیتاب ہوکرمیں مسجدکی طرف نکلا،میں نے وہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کچھ اصحا ب صفہ کوپایاانہوں نے مجھ سے پوچھااے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اس وقت تم گھرسے نکل کریہاں کیسے آئے ہو؟ میں نے کہامجھے بھوک نے گھرسے نکلنے پرمجبورکردیا،انہوں نے کہااللہ کی قسم !ہم بھی بھوک سے بیتاب ہوکر باہرنکلے ہیں ،ہم کھڑے ہوئے اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پہنچے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھااس وقت کیسے آئے ہو؟ میں نے عرض کیااے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! بھوک کھینچ لائی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھجوروں کاایک طباق منگوایااورہرشخص کودودوکھجوریں دے کرفرمایایہ دوکھجوریں کھاؤاوراس کے بعدپانی پیویہی دوکھجوریں تمہیں آج کے لیے کافی ہوں گی، ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں میں نے ایک کھجورکھالی اوردوسری اپنے دامن میں اٹھاکررکھ لی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا اے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ !تم نے یہ کھجورکس لیے دامن میں رکھ لی ہے؟ میں نے عرض کیایہ میں اپنی والدہ کے لئے رکھی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایاتم یہ کھجورکھالوتمہاری والدہ کے لیے بھی تم کودوکھجوریں دیں گے،انہوں نے تعمیل ارشادکی اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں دوکھجوریں اورعطافرمائیں تاکہ وہ اپنی والدہ کی خدمت میں پیش کریں ۔[11]

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ زندگی بھروالدہ کے خدمت گزاررہے اورجب تک وہ حیات رہیں ان کی تنہائی کے خیال سے فریضہ حج اداکرنے کے لیے بھی (تنہا)نہ گئے۔

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کوبارگاہ نبوی میں اتناتقریب حاصل ہوگیاتھاکہ دوسرے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم جوسوالات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھنے میں جھجھک محسوس کرتے تھے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بڑی بے تکلفی سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھ لیتے تھے۔

عَنْ أُبَیِّ بْنِ كَعْبٍ، قَالَ:كَانَ أَبُو هُرَیْرَةَ جَرِیئًا عَلَى النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَسْأَلُهُ عَنْ أَشْیَاءَ لَا نَسْأَلُهُ عَنْهَا

ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوالات پوچھنے میں بہت جری تھے وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسے ایسے سوالات کرتے تھے جوہم لوگ نہیں کرسکتے تھے۔[12]

خودرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے اشتیاق حدیث کااعتراف تھا۔

قُلْتُ: یَا رَسُولَ اللهِ: مَنْ أَسْعَدُ النَّاسِ بِشَفَاعَتِكَ یَوْمَ الْقِیَامَةِ؟ فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: لَقَدْ ظَنَنْتُ یَا أَبَا هُرَیْرَةَ أَلَّا یَسْأَلَنِی عَنْ هَذَا الْحَدِیثِ أَحَدٌ أَوَّلَ مِنْكَ؛ لَمَا رَأَیْتُ مِنَ حِرْصِكَ عَلَى الْحَدِیثِ أَسْعَدُ النَّاسِ بِشَفَاعَتِی یَوْمَ الْقِیَامَةِ مَنْ قَالَ: لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ خَالِصًا مِنْ قِبَلِ نَفْسِهِ

ایک مرتبہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھااے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !قیامت کے دن کون خوش نصیب آپ کی شفاعت کازیادہ مستحق ہوگا؟رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاتمہاری حرص علی الحدیث دیکھ کرمیراپہلے سے خیال تھاکہ یہ سوال تم سے پہلے کوئی اورنہ پوچھے گا،قیامت کے دن میری شفاعت سے بہرہ مندہونے والا خوش نصیب وہ ہو گا جس نے دل کی انتہائی گہرائیوں سے لاالٰہ الااللہ کہاہوگا۔ [13]

رات دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فیض صحبت سے متمتع ہونے کی بناپرابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے سینے میں اس قدراحادیث کاذخیرہ محفوظ ہوگیاتھاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایاکرتے تھےابوہریرہ رضی اللہ عنہ علم کاظرف ہے۔

تحصیل علم کے بے پناہ شوق نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کوفکرمعاش سے بے نیازکردیاتھااوروہ بارگاہ نبوی سے تحصیل علم کودنیاکی ہرشئے پرترجیح دیتے تھے۔

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:أَلَا تَسْأَلُنِی مِنْ هَذِهِ الْغَنَائِمِ الَّتِی یَسْأَلُنِی أَصْحَابُكَ؟ فَقُلْتُ: أَسْأَلُكَ أَنْ تُعَلِّمَنِی مِمَّا عَلَّمَكَ اللهُ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےایک بارسروردوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس مال غنیمت آیارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ازراہ شفقت مجھ سے پوچھاکیوں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ تمہیں بھی اس مال غنیمت کی کچھ خواہش ہے جیساکہ تمہارے ساتھیوں کو ہے ؟ میں نے عرض کیااے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !میری خواہش تویہی ہے کہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے وہ علم سیکھتارہوں جواللہ نے آپ کوسکھایاہے،مال میرے کس کام کاہے۔[14]

فقال له زید: علیك بأبی هریرة، فإنّی بینما أنا وأبو هریرة وفلان فی المسجد ندعو للَّه ونذكره إذ خرج علینارَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ حتى جلس إلینا فسكتنا فقال:عُوْدُوا لِلَّذِی كُنْتُمْ فِیْهِ ، قال زید:فَدَعَوْتُ أَنَا وَصَاحِبِی قَبْلَ أَبِی هُرَیْرَةَ،فجعل رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یؤمّن على دعائنا ثُمَّ دَعَا أَبُو هُرَیْرَةَ، اللهُمَّ إِنِّی أَسْأَلُكَ مَا سَأَلَكَ صَاحِبَایَ هَذَانِ، وَأَسَأَلُكَ عِلْماً لاَ یُنْسَى، فقال رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:آمِیْنَ،فَقُلْنَا: یَا رَسُوْلَ اللهِ، وَنَحْنُ نَسْأَلُ اللهَ عِلْماً لاَ یُنْسَى، قَالَ: سَبَقَكُمَا الغُلاَمُ الدَّوْسِیُّ

زیدبن ثابت رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں ایک دن میں مسجدنبوی میں دعااوراللہ کے ذکرمیں مشغول تھامیرے ساتھ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اورایک شخص اوربھی تھااتنے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اورہمارے پاس تشریف فرماہوگئے، ہم خاموش ہوگئے،اورفرمایاتم جو دعائیں اورذکرکررہے تھے کرتے رہو،زید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں میں اورمیراساتھی ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے پہلے دعائیں کرنے لگے،اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہماری ہردعا پرآمین کہتے تھے، پھر ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بارگاہ الٰہی میں یوں عرض پیراہوئے بارالٰہاجوکچھ میرے ساتھی مجھ سے پہلے مانگ چکے ہیں وہ مجھے بھی عطافرمااس کے علاوہ ایساعلم عطافرماجوکبھی فراموش نہ ہو، اس پررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آمین کہا، اس کے بعدمیں اورمیرے دوسرے ساتھی نے عرض کیااے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !ہم کوبھی ایساعلم عطاہوجوکبھی نہ بھولے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاوہ تواس دوسی نوجوان کے حصہ میں آچکا۔[15]

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ آستانہ نبوی کے ایک درویش طالب علم ہی نہیں تھے بلکہ ایک مردمجاہدبھی تھے ۔

غزوہ خیبرکے بعدانہوں نے فتح مکہ،غزوہ حنین اورغزوہ تبوک (جیش عسرة)میں سیدالامم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہم رکابی کاشرف حاصل کیا۔

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ قَالَ:وَدَّعَنِی رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ:أَسْتَوْدِعُكَ اللهَ الَّذِی لَا تَضِیعُ وَدَائِعُهُ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں ایک موقع پررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھےایک خاص مہم سپردکی، جب میں چلنے لگے تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے بہ نفس نفیس الوداع کہااور یہ کلمات فرمائے میں تجھے اللہ کی امان میں دیتا ہوں جس کی امانتیں ضائع نہیں ہوتیں ۔[16]

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فطرتانہایت سادہ مزاج تھے آسودہ حال ہوکربھی انہوں نے اپنی سادہ وضع قائم رکھی۔

عَنْ أَبِی رَافِعٍ قَالَ: كَانَ مَرْوَانُ رُبَّمَا اسْتَخْلَفَ أَبَا هُرَیْرَةَ عَلَى الْمَدِینَةِ فَیَرْكَبُ حِمَاراً بِبَرْذَعَةٍ، وَفِی رَأْسِهِ خُلْبَةٌ مِنْ لِیْفٍ، فَیَسِیْرُ، فَیَلْقَى الرَّجُلَ، فَیَقُوْلُ: الطَّرِیْقَ! قَدْ جَاءَ الأَمِیْرُ.

ابورافع سے مروی ہےمروان رحمہ اللہ نے انہیں مدینہ منورہ کی امارت سپرد کی ،اس وقت ان کی سادگی کی یہ کیفیت تھی شہرسے نکلتے توگدھاسواری میں ہوتااس پرنمدے کابالان کسا ہوتاتھااوراس کی لگام کھجورکی چھال کی ہوتی تھی جب کوئی سواری کے راستے میں آجاتاتوہنس کرکہتے راستہ چھوڑدوامیرکی سواری آرہی ہے۔[17]

اورلکڑیوں کاگھٹاخوداپنی پشت پراٹھاکرگھرلے آتے تھے۔

أبا السراج الطوسی یقول رئی أبو هریرة وهو أمیر المدینة وعلى ظهره حزمة حطب وهو یقول طرقوا للأمیر

ابوسراج الطوسی کہتے ہیں میں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کودیکھاوہ ان دنوں مدینہ منورہ کے امیرتھے اورانہوں نے اپنی پشت پرلکڑیوں کاگھٹااٹھارکھاتھا جب کوئی راستے میں آ جاتا تو کہتے امیرکے لیے راستہ چھوڑدو۔[18]

ثعلبة بن أبی مالك القرظی حدثه أن أباهُرَیْرَةَ أَقْبَلَ فِی السُّوْقِ یَحْمِلُ حُزْمَةَ حَطَبٍ وَهُوَ یَوْمَئِذٍ خَلِیْفَةٌ لِمَرْوَانَ فَقَالَ أَوْسِعِ الطَّرِیْقَ لِلأَمِیْرِ یا بن أبی مالك ، فَقُلْتُ أصْلَحَكَ اللهُ یكفی هذا فقال أوسع الطریق للأمیر والحزمة علیه

ثعلبہ بن ابو مالک القرظی سے مروی ہےایک دن اپنے گدھے پرلکڑیوں کاگھٹارکھ کربازارسے گزررہے تھے اوروہ مروان کی طرف سے مدینہ کےامیرتھے میں راستے میں ان سے ملاتومجھے کہنے لگے ابومالک!اپنے امیرکے لیے راستہ کھلاکردومیں نے کہااللہ آپ پررحم فرمائے راستہ توکافی معلوم ہوتاہے،فرمایاتمہاراامیرلکڑیوں کاگھٹااٹھائے ہوئے ہے اس کے لیے راستہ کھلاکردو۔[19]

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ خوف آخرت سے ہروقت لرزاں وترساں رہتے تھے۔

أَنَّ شُفَیًّا الْأَصْبَحِیَّ حَدَّثَهُ أَنَّهُ دَخَلَ الْمَدِینَةَ فَإِذَا هُوَ بِرَجُلٍ قَدْ اجْتَمَعَ عَلَیْهِ النَّاسُ فَقَالَ مَنْ هَذَا؟فَقَالُوا أَبُو هُرَیْرَةَ،فَدَنَوْتُ مِنْهُ حَتَّی قَعَدْتُ بَیْنَ یَدَیْهِ وَهُوَ یُحَدِّثُ النَّاسَ، فَلَمَّا سَکَتَ وَخَلَا قُلْتُ لَهُ أَنْشُدُکَ بِحَقٍّ وَبِحَقٍّ لَمَا حَدَّثْتَنِی حَدِیثًا سَمِعْتَهُ مِنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّی اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عَقَلْتَهُ وَعَلِمْتَهُ،

شفیا اصبحی کہتے ہیں میں مدینہ میں داخل ہوا تو دیکھا کہ لوگ ایک آدمی کے گرد جمع ہوئے ہیں میں نے پوچھا کہ یہ کون ہیں ؟ کہا گیا یہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ہیں ، میں بھی ان کے قریب ہوگیا یہاں تک کہ ان کے بالکل سامنے بیٹھ گیا وہ لوگوں سے حدیث بیان کر رہے تھے، جب وہ خاموش ہوئے تو میں نے عرض کیا کہ میں آپ سے اللہ کے واسطے ایک سوال کرتا ہوں کہ مجھ سے کوئی ایسی حدیث بیان کیجئے جسے آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا اور اچھی طرح سمجھا ہو،

فَقَالَ أَبُو هُرَیْرَةَ أَفْعَلُ لَأُحَدِّثَنَّکَ حَدِیثًا حَدَّثَنِیهِ رَسُولُ اللهِ صَلَّی اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عَقَلْتُهُ وَعَلِمْتُهُ ثُمَّ نَشَغَ أَبُو هُرَیْرَةَ نَشْغَةً ،فَمَکَثَ قَلِیلًا ثُمَّ أَفَاقَ فَقَالَ لَأُحَدِّثَنَّکَ حَدِیثًا حَدَّثَنِیهِ رَسُولُ اللهِ صَلَّی اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فِی هَذَا الْبَیْتِ مَا مَعَنَا أَحَدٌ غَیْرِی وَغَیْرُهُ ثُمَّ نَشَغَ أَبُو هُرَیْرَةَ نَشْغَةً أُخْرَی ثُمَّ أَفَاقَ فَمَسَحَ وَجْهَهُ فَقَالَ لَأُحَدِّثَنَّکَ حَدِیثًا حَدَّثَنِیهِ رَسُولُ اللهِ صَلَّی اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَأَنَا وَهُوَ فِی هَذَا الْبَیْتِ مَا مَعَنَا أَحَدٌ غَیْرِی وَغَیْرُهُ ثُمَّ نَشَغَ أَبُو هُرَیْرَةَ نَشْغَةً أُخْرَی ثُمَّ أَفَاقَ وَمَسَحَ وَجْهَهُ فَقَالَ أَفْعَلُ لَأُحَدِّثَنَّکَ حَدِیثًا حَدَّثَنِیهِ رَسُولُ اللهِ صَلَّی اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَأَنَا مَعَهُ فِی هَذَا الْبَیْتِ مَا مَعَهُ أَحَدٌ غَیْرِی وَغَیْرُهُ ثُمَّ نَشَغَ أَبُو هُرَیْرَةَ نَشْغَةً شَدِیدَةً ثُمَّ مَالَ خَارًّا عَلَی وَجْهِهِ فَأَسْنَدْتُهُ عَلَیَّ طَوِیلًا

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نےفرمایا ضرور بیان کروں گا جسے میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا اور اچھی طرح سمجھا پھر چیخ ماری اور بےہوش ہوگئے، جب افاقہ ہوا تو فرمایا میں تم سے ایسی حدیث بیان کروں گا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے اسی گھر میں بیان کی تھی اس وقت میرے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ کوئی تیسرا نہیں تھا اس کے بعد ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بہت زور سے چیخ ماری اور دوبارہ بےہوش ہوگئے تیسری مرتبہ بھی اسی طرح ہوا اور منہ کے بل نیچے گرنے لگے تو میں نے انہیں سہارا دیا اور کافی دیر تک سہارا دئیے کھڑا رہا،

 ثُمَّ أَفَاقَ فَقَالَ حَدَّثَنِی رَسُولُ اللهِ صَلَّی اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَنَّ اللهَ تَبَارَکَ وَتَعَالَی إِذَا کَانَ یَوْمُ الْقِیَامَةِ یَنْزِلُ إِلَی الْعِبَادِ لِیَقْضِیَ بَیْنَهُمْ وَکُلُّ أُمَّةٍ جَاثِیَةٌ فَأَوَّلُ مَنْ یَدْعُو بِهِ رَجُلٌ جَمَعَ الْقُرْآنَ وَرَجُلٌ یَقْتَتِلُ فِی سَبِیلِ اللهِ وَرَجُلٌ کَثِیرُ الْمَالِ ، فَیَقُولُ اللهُ لِلْقَارِئِ أَلَمْ أُعَلِّمْکَ مَا أَنْزَلْتُ عَلَی رَسُولِی، قَالَ بَلَی یَا رَبِّ! قَالَ فَمَاذَا عَمِلْتَ فِیمَا عُلِّمْتَ ،قَالَ کُنْتُ أَقُومُ بِهِ آنَائَ اللیْلِ وَآنَائَ النَّهَارِ، فَیَقُولُ اللهُ لَهُ کَذَبْتَ وَتَقُولُ لَهُ الْمَلَائِکَةُ کَذَبْتَ ، وَیَقُولُ اللهُ بَلْ أَرَدْتَ أَنْ یُقَالَ إِنَّ فُلَانًا قَارِئٌ فَقَدْ قِیلَ ذَاکَ

پھر انہیں ہوش آیا تو کہنے لگے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا قیامت کے دن اللہ تعالیٰ بندوں کے درمیان فیصلہ کرنے کے لئے نزول فرمائیں اس وقت ہر امت گھٹنوں کے بل گری پڑی ہوگی پس جنہیں سب سے پہلے بلایا جائے گا وہ تین شخص ہوں گے ایک حافظ قرآن دوسرا شہید اور تیسرا دولتمند شخص، اللہ تعالیٰ قاری سے پوچھیں گے کیا میں نے تمہیں وہ کتاب نہیں سکھائی جو میں نے اپنے رسول پر نازل کی،عرض کرے گا کیوں نہیں اے میرے رب! اللہ تعالیٰ پوچھے گا تو نے اپنے حاصل کردہ علم کے مطابق عمل کیا ، وہ عرض کرے گا میں اسے دن اور رات پڑھا کرتا تھا، اللہ تعالیٰ فرمائے گا تم جھوٹ بولتے ہو اسی طرح فرشتے بھی اسے جھوٹا کہیں گے، پھر اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ تم اس لئے ایسا کرتے تھے کہ لوگ کہیں کہ فلاں شخص قاری ہے چنانچہ وہ تو کہہ دیا گیا،

وَیُؤْتَی بِصَاحِبِ الْمَالِ فَیَقُولُ اللهُ لَهُ أَلَمْ أُوَسِّعْ عَلَیْکَ حَتَّی لَمْ أَدَعْکَ تَحْتَاجُ إِلَی أَحَدٍ قَالَ بَلَی یَا رَبِّ!قَالَ فَمَاذَا عَمِلْتَ فِیمَا آتَیْتُکَ ؟ قَالَ کُنْتُ أَصِلُ الرَّحِمَ وَأَتَصَدَّقُ،فَیَقُولُ اللهُ لَهُ کَذَبْتَ وَتَقُولُ لَهُ الْمَلَائِکَةُ کَذَبْتَ ، وَیَقُولُ اللهُ تَعَالَی بَلْ أَرَدْتَ أَنْ یُقَالَ فُلَانٌ جَوَادٌ فَقَدْ قِیلَ ذَاکَ ، وَیُؤْتَی بِالَّذِی قُتِلَ فِی سَبِیلِ اللهِ، فَیَقُولُ اللهُ لَهُ فِی مَاذَا قُتِلْتَ، فَیَقُولُ أُمِرْتُ بِالْجِهَادِ فِی سَبِیلِکَ فَقَاتَلْتُ حَتَّی قُتِلْتُ، فَیَقُولُ اللهُ تَعَالَی لَهُ کَذَبْتَ وَتَقُولُ لَهُ الْمَلَائِکَةُ کَذَبْتَ، وَیَقُولُ اللهُ بَلْ أَرَدْتَ أَنْ یُقَالَ فُلَانٌ جَرِیئٌ فَقَدْ قِیلَ ذَاکَ، ثُمَّ ضَرَبَ رَسُولُ اللهِ صَلَّی اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عَلَی رُکْبَتِی فَقَالَ یَا أَبَا هُرَیْرَةَ أُولَئِکَ الثَّلَاثَةُ أَوَّلُ خَلْقِ اللهِ تُسَعَّرُ بِهِمْ النَّارُ یَوْمَ الْقِیَامَةِ

پھر مالدار آدمی کو پیش کیا جائے گا اور اللہ تعالیٰ اس سے پوچھے گا کیا میں نے تمہیں مال میں اتنی وسعت نہ دی کہ تجھے کسی کا محتاج نہ رکھا، وہ عرض کرے گا ہاں میرے رب ! اللہ تعالیٰ فرمائے گا میری دی ہوئی دولت سے کیا عمل کیا؟ وہ کہے گا میں قرابت داروں سے صلہ رحمی کرتا اور خیرات کرتا تھا،اللہ تعالیٰ فرمائے گا تو جھوٹا ہے فرشتے بھی کہیں گے تو جھوٹا ہے،اوراللہ تعالیٰ فرمائے گا تو چاہتا تھا کہ کہا جائے فلاں بڑا سخی ہے سو ایسا کیا جا چکا، پھر شہید کو لایا جائے گااللہ تعالیٰ فرمائے گا تو کس لئے قتل ہوا؟ وہ کہے گا تو نے مجھے اپنے راستے میں جہاد کا حکم دیا پس میں نے لڑائی کی یہاں تک کہ میں شہید ہوگیا، اللہ تعالیٰ فرمائے گا تو جھوٹا ہے فرشتے بھی کہیں گے تو جھوٹا ہےاور اللہ تعالیٰ فرمائے گا تیری نیت یہ تھی کہ لوگ کہیں فلاں بڑا بہادر ہے پس یہ بات کہی گئی، ابوہریرہ فرماتے ہیں پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا دست مبارک میرے زانو پر مارتے ہوئے فرمایا اے ابوہریرہ اللہ تعالیٰ کی مخلوق میں سے سب سے پہلے انہی تین آدمیوں سے جہنم کو بھڑکایا جائے گا۔[20]

فیاضی اورسیرچشمی بھی ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کاخاص وصف تھاوہ اپنامال بے دریغ اللہ کی راہ میں لٹاتے رہتے تھےاورصدقہ وخیرات کرنے میں روحانی مسرت محسوس کرتے تھے ۔

بعث مروان الى ابی هریرة بمائة دینار فلما كان العد ارسل إلیه فقال انه لیس الیك بعثت وإنما غلطت ، فقال ما عندی منها شئ وإذا خرج عطائی فاقبضها قال وانما أراد مروان أن یعلم أینفقها أم یحبسها

ایک مرتبہ مروان رحمہ اللہ نے انہیں سو دینار بھیجے انہوں نے یہ سب کے سب صدقہ کردیئے اگلے دن مروان رحمہ اللہ نے یہ دینارواپس مانگ بھیجے کہ یہ کسی اورکے لیے تھے آپ کوغلطی سے چلے گئے، انہوں نے کہلابھیجاوہ دینارمیں نے کسی کودیے دیئے ہیں انہیں میری تنخواہ سے وضع کرلینا،مروان کامقصدصرف ان کوآزماناتھا۔[21]

عن سلم بن بشیر بن جحل بَكَى أَبُو هُرَیْرَةَ فِی مَرَضِهِ فَقِیلَ لَهُ: مَا یُبْكِیكَ یَا أَبَا هُرَیْرَةَ؟قَالَ: أَمَا إِنِّی لا أَبْكِی عَلَى دُنْیَاكُمْ هَذِهِ وَلَكِنِّی أَبْكِی لِبُعْدِ سَفَرِی وَقِلَّةِ زَادِی، أَصْبَحْتُ فِی صُعُودٍ مُهْبِطَةٌ عَلَى جُنَّةٍ وَنَارٍ فَلا أَدْرِی إِلَى أیهما یسلك بی

سلم بن بشیربن حجل کہتے ہیں جب ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی مرض الموت کاوقت آیاتووہ رونے لگےمیں نے دریافت کیااے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کیوں رورہے ہو؟فرمانے لگے میں دنیا اور دنیاکی آسائشوں اور دلفریبیوں کے چھوٹ جانے پر نہیں رورہامیں توآخرت کے طویل سفرکاسوچ کر رورہاہوں کیونکہ میرازادراہ بہت تھوڑاہے، میں اس وقت جنت اوردوزخ کے نشیب وفرازمیں ہوں معلوم نہیں کس راستہ پرجاناپڑے۔[22]

مالك بن أنس عَنِ الْمَقْبُرِیِّ عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَأَنَّ مَرْوَانَ دَخَلَ عَلَیْهِ فِی شَكْوِهِ الَّذِی مَاتَ فِیهِ فَقَالَ: شَفَاكَ اللهُ یَا أَبَا هُرَیْرَةَ! فَقَالَ أَبُو هُرَیْرَةَ: اللهُمَّ إِنِّی أُحِبُّ لِقَاءَكَ فَأَحِبَّ لِقَائِی ،قَالَ فَمَا بَلَغَ مَرْوَانُ أَصْحَابَ الْقَطَا حَتَّى مَاتَ أَبُو هُرَیْرَةَ

مروان رحمہ اللہ ان کے مرض الموت میں ان کے پاس آیااورکہااللہ آپ کوشفادے!ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہااے اللہ!میں تیری ملاقات کوپسندکرتاہوں لہذاتوبھی میری ملاقات کوپسندفرما مروان اصحاب القطاتک بھی نہیں پہنچاتھاکہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی وفات ہوگئی۔[23]

سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ قَالَ: أَنَّهُ دَخَلَ عَلَى أَبِی هُرَیْرَةَ وَهُوَ مَرِیضٌ فَقَالَ: اللهُمَّ اشْفِ أَبَا هُرَیْرَةَ، فَقَالَ أَبُو هُرَیْرَةَ: اللهُمَّ لا تُرْجِعُنِی،قَالَ فَأَعَادَهَا مَرَّتَیْنِ، فَقَالَ لَهُ أَبُو هُرَیْرَةَ: یَا أَبَا سَلَمَةَ إِنِ اسْتَطَعْتَ أن تموت فمت فو الذی نَفْسُ أَبِی هُرَیْرَةَ بِیَدِهِ لَیُوشِكَنَّ أَنْ یَأْتِیَ عَلَى الْعُلَمَاءِ زَمَنٌ یَكُونُ الْمَوْتُ أَحَبَّ إِلَى أَحَدِهِمْ مِنَ الذَّهَبِ الأَحْمَرِ. أَوْ لَیُوشِكَنَّ أَنْ یأتی على الناس زمان یأتی الرجل قَبْرِ الْمُسْلِمِ فَیَقُولُ: وَدِدْتُ أَنِّی صَاحِبُ هَذَا الْقَبْرِ

ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن کہتے ہیں میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی بیماری میں ان کی عیادت کے لیے گیااوران کی صحت یابی کے لیے دعاکی اے اللہ!ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کوشفادے، ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بولے اے اللہ!اب مجھے دنیامیں نہ لوٹا، دومرتبہ یہ کلمات دہرائے، اورپھرابوسلمہ رحمہ اللہ سے مخاطب ہوکرفرمایاابوسلمہ!مجھے اس ذات کی قسم جس کی قبضہ قدرت میں میری جان ہے وہ زمانہ دورنہیں جب لوگ موت کوسرخ سونے کے ذخیرے سے زیادہ محبوب سمجھیں گے ،تم زندہ رہے تودیکھوگے کہ جب آدمی کسی مسلمان کی قبرپرگزرے گاتوتمناکرے گاکہ اے کاش!بجائے اس کے میں اس قبرمیں مدفون ہوتا۔[24]

عَنْ أَبِی سَلَمَةَ قَالَ:دَخَلْتُ عَلَى أَبِی هُرَیْرَةَ وَهُوَ یَمُوتُ، فَقَالَ لأَهْلِهِ: لا تُعَمِّمُونِی وَلا تُقَمِّصُونِی كَمَا صُنِعَ لِرَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ

ابوسلمہ سے مروی ہے میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے پاس گیااوروہ اپنی زندگی کی آخری گھڑیاں گزاررہے تھے،انہوں نے اپنے متعلقین سے کہانہ میرے عمامہ باندھنااورنہ کرتہ پہناناجیساکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے کیاگیاتھا۔[25]

عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ مِهْرَانَ مَوْلَى أَبِی هُرَیْرَةَأَنَّ أَبَا هُرَیْرَةَ لَمَّا حَضَرَتْهُ الْوَفَاةُ قَالَ: لا تَضْرِبُوا عَلَیَّ فُسْطَاطًا وَلا تَتَّبِعُونِی بِنَارٍ وَأَسْرِعُوا بِی إِسْرَاعًافَإِنِّی سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَقُولُ: إِذَا وُضِعَ الرَّجُلُ الصَّالِحُ أَوِ الْمُؤْمِنُ عَلَى سَرِیرِهِ قَالَ: قَدِّمُونِی،وَإِذَا وُضِعَ الْكَافِرُ أَوِ الْفَاجِرُ عَلَى سَرِیرِهِ قَالَ: یَا وَیْلَتِی أَیْنَ تَذْهَبُونَ بِی!

عبدالرحمٰن بن مہران مولائے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےجب ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی وفات کاوقت آیاتوانہوں نے کہامیری قبرپرشامیانہ نصب نہ کرنااورجنازے کے پیچھے آگ لے کر چلنا اور جنازہ لے جانے میں جلدی کرناکیونکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سناہے کہ صالح یامومن کوچارپائی پررکھاجاتاہے تووہ کہتاہے مجھے جلدی لے چلواورجب کافریافاجرکوچارپائی پررکھاجاتاہے توکہتاہے مجھے کہاں لے جارہے ہو۔[26]

كَانَ لَهُ یَوْمَ تُوُفِّیَ ثَمَانٍ وَسَبْعُونَ سَنَةً

اس کے بعدانہوں نے پیک اجل کولبیک کہااس وقت ان کی عمر۷۸برس کی تھی۔

عَمْرِو بْنِ حَزْمٍ قَالَ: صَلَّى عَلَیْهِ الْوَلِیدُ بْنُ عُتْبَةَ وَهُوَ أَمِیرُ الْمَدِینَةِ، صَلَّى عَلَیْهِ وَفِی الناس ابن عمر وأبو سعید الخدری

عمروبن حزم کہتے ہیں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی نمازجنازہ اس وقت کے امیرمدینہ ولیدبن عتبہ نے پڑھائی، اکابرمیں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ اورابوسعیدخدری رضی اللہ عنہ جنازے میں شریک تھے۔

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ جنازے کے آگے آگے چل رہے تھے اورابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے لیے دعائے مغفرت کرتے جاتے تھے۔

عَبْدُ اللَّهِ بْنُ نَافِعٍ عَنْ أَبِیهِ قَالَ: كنت مع ابْنِ عُمَرَ فِی جَنَازَةِ أَبِی هُرَیْرَةَ وَهُوَ یَمْشِی أَمَامَهَا وَیُكْثِرُ التَّرَحُّمَ عَلَیْهِ،وَیَقُولُ: كَانَ مِمَّنْ یَحْفَظُ حَدِیثِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عَلَى الْمُسْلِمِینَ،

عبداللہ بن نافع سے مروی ہےمیں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے جنازے میں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھا وہ جنازے کے آگے آگے چل رہے تھے اورابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے لیے دعائے مغفرت کرتے جاتے تھے اورکہہ رہے تھے وہ ان لوگوں میں تھے جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث یادکرکے لوگوں تک پہنچائی۔[27]

لَمَّا مَاتَ أَبُو هُرَیْرَةَ كَانَ وَلَدُ عُثْمَانَ یَحْمِلُونَ سَرِیرَهُ حَتَّى بَلَغُوا الْبَقِیعَ

نمازجنازہ کے بعدعثمان ذوالنورین رضی اللہ عنہ کے صاحبزادوں نے چارپائی کوکندھادے کرجنت البقیع پہنچایااوراسلام کے اس رجل عظیم کوفخ مہاجرین میں سپرخاک کردیا۔[28]

غطفان کاغنیمت سے حصہ طلب کرنا:

موسیٰ بن عقبہ لکھتے ہیں بنوفزارہ اہل خیبرکی امدادکے لئے آئے تھے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کوپیغام بھیجاکہ ان کی امدادنہ کرواورواپس اپنے گھرچلے جاؤہم تمہیں اس کے بدلہ میں خیبرکااتنااتناعلاقہ دے دیں گےلیکن انہوں نے آپ کی یہ پیشکش ٹھکرادی ،جب اللہ تعالیٰ نے آپ کواہل خیبرپرفتح عطافرمائی تو بنوفزارہ کے جولوگ وہاں تھے وہ حیاءکوخیربادکہہ کرآپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے

فَقَالَ عُیَیْنَةُ: أُعْطِنِی یَا مُحَمّدُ مِمّا غَنِمْت مِنْ حُلَفَائِی فَإِنّی انْصَرَفْت عَنْك وَعَنْ قِتَالِك وَخَذَلْت حُلَفَائِی وَلَمْ أُكْثِرْ عَلَیْك، وَرَجَعْت عَنْك بِأَرْبَعَةِ آلَافِ مُقَاتِلٍ ،فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: كَذَبْت، وَلَكِنْ الصّیَاحُ الّذِی سَمِعْت أَنَفَرَك إلَى أُهْلِكْ،قَالَ: أَجِزنِی یَا مُحَمَّدُ؟ قَالَ: لَكَ ذُو الرُّقَیْبَةِ،قَالَ: وَمَا ذُو الرُّقَیْبَةِ؟ قَالَ: الْجَبَلُ الَّذِی رَأَیْتَ فِی النَّوْمِ أَنَّكَ أَخَذْتَهُ، فَقَالُوا: إِذًا نُقَاتِلُكَ،فَقَالَ: مَوْعِدُكُمْ كَذَافَلَمَّا سَمِعُوا ذَلِكَ مِنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ خَرَجُوا هَارِبِینَ

اوران کا لیڈرعیینہ بن حصن الفزاری کہنے لگااے محمد( صلی اللہ علیہ وسلم )!آپ نے میرے حلیفوں سے جوغنیمت حاصل کی ہے وہ مجھے بھی دیں کیونکہ میں نے آپ سے جنگ نہیں کی اوراپنے حلیفوں کوبھی چھوڑدیااوراپنے چار ہزار جانبازوں کولے کرواپس چلاگیا،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا توجھوٹ بولتاہے ،تونے ایک آوازسنی تھی کہ اپنے گھر چلاجا ،اس نے کہااے محمد( صلی اللہ علیہ وسلم )!مجھے بدلہ دیجئے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اچھا تمہیں ذوالرقیبہ(خیبرکے نزدیک ایک پہاڑکانام ہے) دیا، عیینہ نے پوچھاذوالرقیبہ کیا ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاوہ پہاڑجسے تونے خواب میں دیکھاتھاکہ تونے اسے پکڑاہے،وہ بولا پھرہم آپ سے لڑیں گے،آپ نے فرمایاضرورلڑواورفلاں جگہ آجاؤ،لیکن وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاجواب سن کربھاگ کھڑے ہوئے۔[29]

یہودکی درخواست :

أَنَّ عُمَرَ بْنَ الخَطَّابِ، وَكَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ لَمَّا ظَهَرَ عَلَى خَیْبَرَ أَرَادَ إِخْرَاجَ الْیَهُودِ مِنْهَا، وَكَانَتِ الْأَرْضُ حِینَ ظَهَرَ عَلَیْهَا لِلَّهِ تَعَالَى وَلِرَسُولِهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَلِلْمُسْلِمِینَ، فَأَرَادَ إِخْرَاجَ الْیَهُودِ مِنْهَا فَسَأَلَتِ الْیَهُودُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَنْ یُقِرَّهُمْ بِهَا، عَلَى أَنْ یَكْفُوا عَمَلَهَا، وَلَهُمْ نِصْفُ الثَّمَرِ، فَقَالَ لَهُمْ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:نُقِرُّكُمْ بِهَا عَلَى ذَلِكَ مَا شِئْنَا،

سیدناعمر رضی اللہ عنہ بن خطاب سے مروی ہےجب خیبرفتح ہوگیااوریہاں کی زمین اللہ ، اس کے رسول اورمجاہدین کی ہوگئی تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارادہ فرمایاکہ یہودحسب معاہدہ یہاں سے چلے جائیں ،لیکن یہو د نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ درخواست کی کہ ہم آپ سے خیبرکوبہترجانتے ہیں آپ اس زمین پرہمیں رہنے دیں ہم آپ کے لئے زراعت کریں گےجوپیداوارہوگی اس کانصف حصہ آپ کو ادا کر دیا کریں گے ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کویہ خیال پسندآیااوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی یہ درخواست منظورفرمالی اورساتھ ہی یہ بھی صرحتاً فرمایادیاجب تک ہم چاہیں گے تم کو برقرار رکھیں گے۔[30]

جب معاہدہ طے پاگیاتومسلمان ان کی فصلوں اورسبزیوں پردست درازی کرنے لگے ،یہودیوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اس کی شکایت کی توآپ نے مسلمانوں کوانتباہ کیاکہ وہ یہودسے معترض نہ ہوں اوراپنے حق کے سواکوئی چیزان کے کھیتوں سے نہ لیں ،مسلمانوں نے اس حکم کی تعمیل کی اوران سے قیمتاًچیزیں لینے لگے ، مسلمانوں کااجتناب اس حدتک پہنچ گیاکہ ایک یہودی مسلمان سے کہتاکہ میں تجھے یہ پھل بغیرکسی قیمت کے دیتاہوں مگروہ قیمت اداکیے بغیراسے نہ لیتاتھا،بہرحال یہودی مال وجان اورعزت کے بارے میں مطمئن ہوکرمسلمانوں کی پناہ میں رہنے لگے ،

عَنْ عَائِشَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ:كَانَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَبْعَثُ عَبْدَ اللهِ بْنَ رَوَاحَةَ فَیَخْرُصُ النَّخْلَ، حِینَ یَطِیبُ قَبْلَ أَنْ یُؤْكَلَ مِنْهُ، ثُمَّ یُخَیِّرُ یَهُودَ یَأْخُذُونَهُ بِذَلِكَ الْخَرْصِ، أَوْ یَدْفَعُونَهُ إِلَیْهِمْ بِذَلِكَ الْخَرْص

ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے جب کھجوریں پکنے کے قریب آتیں توان کے کھائے جانے سے پہلے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ کو خیبر میں بھیجتے تھے وہ ان کے پھلوں کی مقدار کااندازہ لگاتے تھےاور یہ معاملہ پکنے سے پہلے کا ہوتا تھا اندازہ لگانے کے بعد یہود کو اختیار دیا جاتا کہ جونسا چاہیں لے لیں اور جونسا چاہیں ہمارے لیے چھور دیں ۔[31]

حكم الألبانی: ضعیف الإسناد

حَدَّثَنِی عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِی بَكْرٍ، یَبْعَثُ إلَى أَهْلِ خَیْبَرَ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ رَوَاحَةَ خَارِصًا بَیْنَ الْمُسْلِمِینَ وَیَهُودَ، فَیَخْرُصُ عَلَیْهِمْ، فَإِذَا قَالُوا: تَعَدَّیْتُ عَلَیْنَا، قَالَ: إنْ شِئْتُمْ فَلَكُمْ، وَإِنْ شِئْتُمْ فَلَنَافَقَالُوا هَذَا الْحَقُّ،وَبِالْحَقِّ قَامَتْ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ

عبداللہ بن ابوبکر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےعبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ کواہل خیبرکی طرف بھیجااورانہوں نےکھیتوں اورپھلوں کاتخمینہ کیا،یہودنے کہاتم نے اندازہ میں ہم پر زیادتی کی ہے،عبداللہ رضی اللہ عنہ نے کہاتم جس حصہ کوچاہولے لو،یہودی اس عدل وانصاف کودیکھ کرکہتے کہ یہ حق بات ہے اور ایسی ہی عدل وانصاف سے آسمان وزمین قائم ہیں ۔[32]

فَبَعَثَ عبد الله ابن رَوَاحَةَ فَخَرَصَهَا عَلَیْهِمْ ثُمَّ قَالَ یَا مَعْشَرَ الْیَهُودِ أَنْتُمْ أَبْغَضُ الْخَلْقِ إِلَیَّ قَتَلْتُمْ أَنْبِیَاءَ اللهِ وَكَذَبْتُمْ عَلَى اللهِ وَلَیْسَ یَحْمِلُنِی بُغْضِی إِیَّاكُمْ عَلَى أَنْ أَحِیفَ عَلَیْكُمْ

ایک روایت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ کوخیبربھیجاانہوں نےکھیتوں اورپھلوں کاتخمینہ کیاپھر فرمایااے گروہ یہودتمام مخلوق میں تم میرے نزدیک سب سے زیادہ مبغوض تم ہو،تم ہی نے اللہ کے پیغمبروں کوناحق قتل کیا،تم ہی نے اللہ پرجھوٹ باندھالیکن تمہارا بغض مجھے کبھی اس پرآمادہ نہیں کرسکتاکہ میں تم پرکسی قسم کی ظلم وزیادتی کروں ۔[33]

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوقتل کرنے کی سازش:

فَلَمَّا اطْمَأَنَّ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَهْدَتْ لَهُ زَیْنَبُ بِنْتُ الْحَارِثِ، امْرَأَةُ سَلَّامِ بْنِ مِشْكَمٍ ، شَاةً مَصْلِیَّةً ، وَقَدْ سَأَلَتْ أَیَّ عُضْوٍ مِنْ الشَّاةِ أَحَبُّ إلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ؟ فَیَقُولُونَ: الذّرَاعُ وَالْكَتِفُ، فَعَمَدَتْ إلَى عَنْزٍ لَهَا فَذَبَحَتْهَا، ثُمّ عَمَدَتْ إلَى سُمّ لَابَطِیّ ،قَدْ شَاوَرَتْ الْیَهُودَ فِی سُمُومٍ فَأَجْمَعُوا لَهَا عَلَى هَذَا السّمّ بِعَیْنِهِ، فَسَمّتْ الشّاةَ وَأَكْثَرَتْ فِی الذّرَاعَیْنِ وَالْكَتِفَیْنِ. فَلَمّا غَابَتْ الشّمْسُ صَلّى رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ الْمَغْرِبَ وَانْصَرَفَ إلَى مَنْزِلِهِ، وَیَجِدُ زَیْنَبَ جَالِسَةً عِنْدَ رَحْلِهِ فَیَسْأَلُ عَنْهَا فَقَالَتْ:أَبَا الْقَاسِمِ، هَدِیّةٌ أَهْدَیْتهَا لَك

چندروزخیبرمیں قیام کے بعدجب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خیبرکی فتح ،غنائم کی تقسیم اوریہودیوں کوخیبرمیں کھیتوں اورباغات کے آبادکرنے کا معاہدہ کرکے فارغ ہوچکے تو ایک یہودی عورت زینب بنت حارث جومرحب کے بھائی حارث کی بیٹی اور سلام بن مشکم کی بیوی تھی نے اپنے باپ ، شوہراوربھائی کے قتل کابدلہ لینے کی غرض سے آپ کے پاس ایک بھنی ہوئی بکری کاہدیہ بھیجا،اس نے لوگوں سے دریافت کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بکری کے کون سے عضو کوپسندکرتے ہیں ؟ لوگوں نے کہا آپ دستی کے گوشت کوپسندفرماتے ہیں ، اس نے بکری ذبح کی اوراس میں ایک خطرناک قسم کازہرجسے لابطی(پچھاڑنے والا)کہاجاتاہے خاص طور پر مطلوبہ گوشت کوخوب زہرآلودہ کیا،اوراسے بھون کرجب سورج غروب ہوگیااوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نمازمغرب اداکرلی اوراپنی جگہ پرتشریف فرماہوئے توزینب آپ کی خدمت اقدس میں حاضرہوئی اوراسے آپ کے سامنے رکھ دیااورکہااے ابوقاسم صلی اللہ علیہ وسلم !یہ ہدیہ ہے قبول فرمائیں ،

وَمَعَهُ بِشْرُ بْنُ الْبَرَاءِ بْنِ مَعْرُورٍوَكَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَأْكُلُ الْهَدِیّةَ وَلَا یَأْكُلُ الصّدَقَةَ، فَلَمَّا وَضَعَتْهَا بَیْنَ یَدَیْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، تَنَاوَلَ الذِّرَاعَ، فَلَاكَ مِنْهَا مُضْغَةً، فَلَمْ یُسِغْهَافَأَمَّا بِشْرٌ فَأَسَاغَهَاوَأَمَّا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَلَفَظَهَا ، قَالَ: إنَّ هَذَا الْعَظْمَ لَیُخْبِرُنِی أَنَّهُ مَسْمُومٌ، فَقَالَ بِشْرُ بْنُ الْبَرَاءِ: قَدْ وَاَللهِ یَا رَسُولَ اللهِ وَجَدْت ذَلِكَ مِنْ أَكْلَتِی الّتِی أَكَلْتهَا، فَمَا مَنَعَنِی أَنّ أَلْفِظَهَا إلّا كَرَاهِیَةَ أُنَغّصَ إلَیْك طَعَامَك،بِشْرُ بْنُ الْبَرَاءِ بْنِ مَعْرُورٍ، مَاتَ مِنْ الشّاةِ الْمَسْمُومَةِ

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اس وقت بشربن براء بن معرور رضی اللہ عنہ بیٹھے ہوئے تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہدیہ کاگوشت کھالیاکرتے تھے اورصدقہ کاگوشت نہیں کھاتے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی پسندکے مطابق دستی کواٹھاکرایک لقمہ چبایامگرنگلانہیں ،اوربشربن براء نے بھی آپ کے ساتھ لقمہ اٹھا کر کھایااورنگل لیا،لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لقمہ نگلنے کے بجائے فوراًتھوک دیااوربشربن براء سے کہااس کے کھانے سے ہاتھ روک دو،اورفرمایایہ ہڈی مجھے بتلارہی ہے کہ اس میں زہرملاہواہے،بشر رضی اللہ عنہ نے کہااس ذات کی قسم جس نے آپ کو عزت دی ہے مجھے بھی اپنے لقمہ میں یہی بات معلوم ہوئی تھی مگرمیں نے اس خیال کے پیش نظراس کونہیں اگلاکہ میں آپ کے کھانے کوبے لطف نہ کر دوں ، ابھی بشر رضی اللہ عنہ اپنی جگہ سے اٹھے بھی نہ تھے کہ زہرکی تاثیرکی شدت سے ان کارنگ سیاہ پڑگیا

ودعا رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بِزَیْنَبَ فَقَالَ: سَمَمْت الذّرَاعَ؟ فَقَالَتْ: مَنْ أَخْبَرَك؟إنَّ هَذَا الْعَظْمَ لَیُخْبِرُنِی أَنَّهُ مَسْمُومٌ، فَاعْتَرَفَتْ،قَالَ لَهَا مَا حَمَلَكِ عَلَى ذَلِكَ؟قَالَتْ أَرَدْتُ إِنْ كُنْتَ نَبِیًّا فَیُطْلِعَكَ اللهُ وَإِنْ كُنْتَ كَاذِبًا فَأُرِیحَ النَّاسَ مِنْكَ،أَنَّهُ كَانَ تَرَكَهَا لِأَنَّهُ كَانَ لَا یَنْتَقِمُ لِنَفْسِهِ ثُمَّ قَتَلَهَا بِبَشَرٍ قِصَاصًا

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہدیہ پیش کرنے والی عورت زینب کوبلایااوراس سے دریافت کیاتونے بکری کے گوشت میں زہر ملایا ہے،اس نے کہاآپ کو کس نے اطلاع دی ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایامیرے ہاتھ میں بکری کی جودستی ہے اس نے مجھے خبردی ہے کہ اس میں زہرملاہواہے،اس پراس نے زہرکااقرارکرلیاکہ ہاں میں نے زہرملایاہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت کیاتم نے ایساکیوں کیا ؟اس عورت نے جواب دیامیں نے سوچا اگرآپ واقعہ نبی ہیں تواللہ تعالیٰ آپ کو اس کی خبردے دے گا اوراگرآپ جھوٹے نبی ہیں تولوگ آپ کی طرف سے نجات حاصل کرلیں گے،کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بدلہ لینے کے بجائے معاف کردیناپسندکرتے تھے اس لئے اس یہودن کاجواب سن کر آپ نے اپنی ذات کی حدتک اسے معاف فرما دیا مگر بشربن براء رضی اللہ عنہ کےقصاص میں اسے قتل کردیاگیا۔[34]

وَاحْتَجَمَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عَلَى كَاهِلِهِ مِنْ أَجْلِ الَّذِی أَكَلَ. حَجَمَهُ أَبُو هِنْدٍ بِالْقَرْنِ وَالشَّفْرَةِ

اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےاپنی گردن کے قریب پشت پرسنگیاں کھچوائیں جوابوہندنے سینگ اورچھری سے لگائے۔[35]

بَعْدَ ذَلِكَ ثَلَاثَ سِنِینَ حَتَّى قَالَ فِی وَجَعِهِ الَّذِی مَاتَ فِیهِ: مَا زِلْتُ أَجِدُ مِنَ الْأُكْلَةِ الَّتِی أَكَلْتُ مِنَ الشَّاةِ یَوْمَ خَیْبَرَ، فَهَذَا أَوَانُ انْقِطَاعِ الْأَبْهَرِ مِنِّی، قَالَ الزُّهْرِیُّ: فَتُوُفِّیَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ شَهِیدًا

جب تین سال بعدآپ صلی اللہ علیہ وسلم مرض الموت میں مبتلاہوئے تو آپ نے فرمایاکہ میں ہمیشہ اس بکری سے جومیں نے خیبرمیں کھائی تھی تکلیف اٹھاتارہاہوں مگراب تواس کے زہرسے میری شہ رگ کٹ گئی ہے،اسی واسطے امام زہری کہتے ہیں کہ آپ شہیدفوت ہوئے ہیں ۔[36]

كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَدْ قَالَ فِی مَرَضِهِ الَّذِی تُوُفِّیَ فِیهِ، وَدَخَلَتْ أُمُّ بِشْرٍ بِنْتُ الْبَرَاءِ بْنِ مَعْرُورٍ تَعُودُهُ: یَا أُمَّ بِشْرٍ، إنَّ هَذَا الْأَوَانَ وَجَدْتُ فِیهِ انْقِطَاعَ أَبْهَرِی مِنْ الْأَكْلَةِ الَّتِی أَكَلْتُ مَعَ أَخِیكَ بِخَیْبَرِ

جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کومرض وفات ہوااوربشربن براء رضی اللہ عنہ کی بہن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مزاج پرسی کوآئیں توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااے بشر رضی اللہ عنہ کی بہن!یہ مرض جومجھ کوہے میں اس میں اپنی رگوں کواسی نوالہ کے اثرسے ٹوٹتے ہوئے دیکھ رہاہوں جومیں نے خیبرمیں تمہارے بھائی بشربن براء رضی اللہ عنہ کے ساتھ کھایاتھا۔[37]

 اہل فدک کی سپردگی

خیبرکے مشرق میں دودن کی مسافت پرایک یہودی بستی فدک تھی،جوآج کل حائل کے علاقے میں حائط کے نام سے مشہورہے،

لَمّا أَقْبَلَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ إلَى خَیْبَرَ فَدَنَا مِنْهَا، بَعَثَ مُحَیّصَةَ بْنَ مَسْعُودٍ إلَى فَدَكَ یَدْعُوهُمْ إلَى الْإِسْلَامِ وَیُخَوّفُهُمْ أَنْ یَغْزُوَهُمْ كَمَا غَزَا أَهْلَ خَیْبَرَ وَیَحِلّ بِسَاحَتِهِمْ قَالَ مُحَیّصَةُ: جِئْتهمْ فَأَقَمْت عِنْدَهُمْ یَوْمَیْنِ

خیبرپہنچ کررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے محیصہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کویہودفدک کے پاس دعوت اسلام دے کرروانہ کیاتاکہ وہ اسلامی سوسائٹی میں شامل ہوجائیں ،لیکن اہل فدک کویقین کامل تھاکہ مٹھی بھر ، بے سروسامان مسلمان خیبرکے جدیداسلحہ سے لیس دس ہزاریہودیوں جانبازوں سے شکست کھاجائیں گےاس لئے انہوں نے خیبرکاحال جاننے تک ٹال مٹول سے کام لیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قاصدکودو دن کی قیام پذیرائی کے بعد بھی کوئی واضح جواب نہ دیا۔[38]

قَذَفَ اللهُ الرُّعْبَ فِی قُلُوبِ أَهْلِ فَدَكِ، حِینَ بَلَغَهُمْ مَا أَوْقَعَ اللهُ تَعَالَى بِأَهْلِ خَیْبَرَ، فَبَعَثُوا إلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یُصَالِحُونَهُ عَلَى النِّصْفِ من فدك، فَقدمت عَلَیْهِ رُسُلُهُمْ بِخَیْبَرِ فَقَبِلَ ذَلِكَ مِنْهُمْ

مگر جب انہوں نے اچانک نمایاں بہادریہودی سرداروں کے قتل ،خیبرمیں مکمل شکست اورمسلمانوں کامضبوط ومستحکم قلعوں کی فتح کاحال سنا تو ان کی کمرٹوٹ گئی اوران پر رعب طاری ہو گیا جس پرانہوں نے اطاعت اختیارکرلی اورپیغام دیاکہ ان کے ساتھ بھی اہل خیبرجیسامعاملہ کیاجائےیعنی ہماری جانوں کوامان دی جائے اورہم اپناتمام اسباب چھوڑ کر یہاں سے جلاوطن ہوجائیں گے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی درخواست کومنظورفرمالیااوروہ لوگ وہاں سے چلے گئے۔[39]

وَیُقَالُ: عَرَضُوا عَلَى النّبِیّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَنْ یَخْرُجُوا مِنْ بِلَادِهِمْ وَلَا یَكُونُ لِلنّبِیّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عَلَیْهِمْ مِنْ الْأَمْوَالِ شَیْءٌ، وَإِذَا كَانَ جُذَاذُهَا جَاءُوا فَجَذّوهَا، فَأَبَى النّبِیّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وسلّم أن یقبل ذلك

بعض کہتے ہیں کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے یہ بات پیش کی کہ وہ اپنے علاقہ سے نکل جاتے ہیں لیکن آپ کوہمارے اموال پرکوئی اختیارنہ ہوگالیکن جب ان کی علیحدگی ہوئی توانہوں نے آکرمال کے حصے کیے مگرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبول کرنے سے انکارفرمادیا۔

وقال لهم محیّصة: مالكم مَنَعَةٌ وَلَا رِجَالٌ وَلَا حُصُونٌ، لَوْ بَعَثَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ إلَیْكُمْ مِائَةَ رَجُلٍ لَسَاقُوكُمْ إلَیْهِ، فَوَقَعَ الصّلْحُ بَیْنَهُمْ أَنّ لَهُمْ نِصْفَ الْأَرْضِ بِتُرْبَتِهَا لَهُمْ، وَلِرَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ نِصْفُهَا، فَقَبِلَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ ذلك

بعض کہتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی آخری پیش کش کو مسترد کر دیا تو انہوں نے مقادمت کافیصلہ کیاتوآپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قاصد محیصہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے انہیں کہا تمہارے پاس نہ محفوظ رہنے کے لئے قلعہ جات ہیں اورنہ ہی لڑنے والے جانباز ، اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف سومجاہدبھی تمہاری طرف بھیج دیئے توتم ان کامقابلہ نہ کر پاؤگے اوروہ تمہیں ہانک کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے جائیں گے،اس وقت انہوں نے صلح کرنی چاہی تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے ساتھ نصف زمین پرصلح کرلی۔[40]

فَكَانَتْ فَدَكُ لِرَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ خَالِصَةً، لِأَنَّهُ لَمْ یُوجَفْ عَلَیْهَا بِخَیْلِ وَلَا رِكَابٍ

چونکہ فدک بغیرکسی حملہ اورلشکرکشی کے فتح ہواتھااس لئے فدک کی زمین صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے مخصوص تھی۔[41]

اورخیبرکی طرح غانمین میں تقسیم نہیں ہوااس میں سے آپ اپنے اوپرخرچ کرتے تھے ، بنوہاشم کے بچوں کی عیالداری کرتے تھے اوران میں سے غیرشادی شدہ ضرورت مندوں کی شادی فرماتے تھے،

عَنْ عَائِشَةَ، أَنَّ فَاطِمَةَ عَلَیْهَا السَّلاَمُ، بِنْتَ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَرْسَلَتْ إِلَى أَبِی بَكْرٍ تَسْأَلُهُ مِیرَاثَهَا مِنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مِمَّا أَفَاءَ اللهُ عَلَیْهِ بِالْمَدِینَةِ، وَفَدَكٍ وَمَا بَقِیَ مِنْ خُمُسِ خَیْبَرَفَقَالَ أَبُو بَكْرٍ: إِنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:لاَ نُورَثُ، مَا تَرَكْنَا صَدَقَةٌ، إِنَّمَا یَأْكُلُ آلُ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فِی هَذَا المَالِ، وَإِنِّی وَاللهِ لاَ أُغَیِّرُ شَیْئًا مِنْ صَدَقَةِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عَنْ حَالِهَا الَّتِی كَانَ عَلَیْهَا فِی عَهْدِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، وَلَأَعْمَلَنَّ فِیهَا بِمَا عَمِلَ بِهِ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ،فَأَبَى أَبُو بَكْرٍ أَنْ یَدْفَعَ إِلَى فَاطِمَةَ مِنْهَا شَیْئًا

ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاانتقال ہوگیااورسیدناابوبکر رضی اللہ عنہ خلیفہ مقررہوئے تو فاطمہ الزہرہ رضی اللہ عنہا نے سیدناابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کے پاس کسی کو بھیجا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس مال سے جوآپ صلی اللہ علیہ وسلم کواللہ تعالیٰ نے مدینہ اورفدک میں عنایت فرمایاتھااورخیبرکاجوپانچواں حصہ رہ گیاتھااس میں اپنی میراث کامطالبہ کیا ،لیکن سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے انکارفرمادیااوران سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاہے کہ ہم پیغمبروں کاکوئی وارث نہیں ہوتاہم جوکچھ چھوڑجائیں وہ سب عامة المسلمین پرصدقہ ہوتاہے،البتہ آل محمد صلی اللہ علیہ وسلم اسی مال سے کھاتی رہے گی، اورمیں اللہ کی قسم !جوصدقہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چھوڑگئے ہیں اس میں کسی قسم کاتغیرنہیں کروں گاجس حال میں وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہدمیں تھااب بھی اسی طرح رہے گااورمیں اس میں (اس کی تقسیم وغیرہ)میں وہی طرزعمل اختیارکروں گاجورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کااپنی زندگی میں تھا ، الغرض سیدناابوبکر رضی اللہ عنہ نے فاطمہ رضی اللہ عنہا کوکچھ بھی دینامنظورنہ کیا۔[42]

سیدنا عمربن خطاب رضی اللہ عنہ نے اپنے دورخلافت میں خیبرکے یہودیوں کے ساتھ فدک کے یہودیوں کوبھی جلاوطن کرنے کافیصلہ کیا،اورمال اوراقتصادیات کے ماہرصحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو فدک کے کھیتوں اوراس کی تمام اراضی کی قیمت لگانے کے لئے بھیجا ، جب ان کی قیمت کااندازہ مکمل ہوگیاتوخلیفہ وقت نے فدک کے یہودیوں کونصف قیمت اداکردی جوپچاس ہزاریااس سے کچھ زیادہ تھی،پھرانہیں خیبرکے یہودیوں کے ساتھ شام کی طرف جلاوطن کردیا۔

وادی القریٰ کی فتح

وادی قریٰ شام اورمدینہ کے مابین مقام تیماء وخیبرکے درمیان واقع ایک سرسبز وادی ہے جس میں بہت سے دیہات ہیں جن میں بے شمارچشمے ہیں ،اس لئے اس کانام وادی القریٰ (متعدددیہات والی وادی)رکھاگیا،یہاں یہودآکربس گئے تھے اورکاشتکاری کرتے تھے ،

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ، قَالَ: فَلَمَّا انْصَرَفْنَا مَعَ رَسُول الله صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ من خَیْبَرَ إلَى وَادِی الْقُرَى نَزَلْنَا بِهَا أَصِیلًا مَعَ مَغْرِبِ الشَّمْسِ،وَمَعَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ غُلَامٌ لَهُ ، أَهْدَاهُ لَهُ رِفَاعَةُ بْنُ زَیْدٍ الْجُذَامِیُّ، ثُمَّ الضَّبِینِیُّ قَالَ ابْنُ هِشَامٍ: جُذَامٌ، أَخُو لخم،قَالَ: فو الله إنَّهُ لَیَضَعُ رَحْلَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ إذْ أَتَاهُ سَهْمٌ غَرْبٌ فَأَصَابَهُ فَقَتَلَهُ،فَقُلْنَا: هَنِیئًا لَهُ الْجَنَّةُ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: كَلَّا، وَاَلَّذِی نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِیَدِهِ، إنَّ شَمْلَتَهُ الْآنَ لَتَحْتَرِقُ عَلَیْهِ فِی النَّارِ، كَانَ غَلَّهَا مِنْ فَیْءِ الْمُسْلِمِینَ یَوْمَ خَیْبَرَ، قَالَ: فَسَمِعَهَا رَجُلٌ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَأَتَاهُ فَقَالَ: یَا رَسُولَ اللهِ، أَصَبْتُ شِرَاكَیْنِ لِنَعْلَیْنِ لِی، قَالَ: فَقَالَ:یُقَدُّ لَكَ مِثْلَهُمَا مِنْ النَّارِ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں خیبرکی فتح کے بعدمدینہ منورہ واپسی میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم وادی القریٰ (جوان دنوں العلا کہلاتاہے)میں عصرومغرب کے درمیان غروب کے قریب یہاں پہنچے، وہاں کے یہودی پہلے سے ہی اپنے عربی حلیفوں کو جمع کرکے گڑھیوں اور قلعوں میں پناہ لے کربنوک شمشیرمقادمت کرنے کافیصلہ کرچکے تھے اس لئے جب آپ وہاں پہنچے توانہوں نے قلعوں سے تیروں کی بارش برساکرآپ کااستقبال کیا، آپ کاایک غلام مدعم تھاجورفاعہ بن زیدخزاعی ثم الضبی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نذرکیاتھاابن ہشام کے مطابق جذام لخم کا بھائی تھا،یہ غلام آپ صلی اللہ علیہ وسلم کاکجاوہ اٹھاکررکھ رہاتھاکہ ایک تیرکہیں سے اس غلام کے آلگااورمعلوم نہ ہواکہ کس نے ماراہے؟غلام تیرکے صدمہ سے مر گیا ، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کہنے لگے اس کے لئے شہادت کی موت مبارک ہو،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہرگز نہیں ،اللہ کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے غزوہ خیبر میں جوچادراس نے تقسیم سے پہلے غنیمت کے مال سے چرائی تھی وہ شعلہ بن کراس کے جسم پربھڑک رہی ہے،یہ سن کرایک آدمی جوتے کاایک یادوتسمے لایااورکہنے لگایہ میں نے غنیمت کے مال سے لئے تھے،آپ نے فرمایایہ ایک یادوتسمے آگ کے ہیں ۔[43]

ملی امانتوں کامعاملہ انتہائی سخت ہے ،بلااجازت امیریابلااستحقاق کوئی معمولی چیزبھی اٹھالینابہت بڑے عقاب کاباعث ہے ، یعنی خیانت اورچوری ایسے گناہ ہیں جن کی مجاہدکے لیے بھی بخشش نہیں ہے۔

عَنْ زَیْدِ بْنِ خَالِدٍ الْجُهَنِیِّ، أَنَّ رَجُلًا مِنْ أَصْحَابِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ تُوُفِّیَ یَوْمَ خَیْبَرَ، فَذَكَرُوا ذَلِكَ لِرَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ:صَلُّوا عَلَى صَاحِبِكُمْ،فَتَغَیَّرَتْ وُجُوهُ النَّاسِ لِذَلِكَ،فَقَالَ:إِنَّ صَاحِبَكُمْ غَلَّ فِی سَبِیلِ اللهِ، فَفَتَّشْنَا مَتَاعَهُ فَوَجَدْنَا خَرَزًا مِنْ خَرَزِ یَهُودَ لَا یُسَاوِی دِرْهَمَیْنِ

زیدبن خالدجہنی رضی اللہ عنہ کابیان ہے اسی دن اشجع کاایک آدمی فوت ہوگیالوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کواس کی خبردی توآپ نے فرمایاتم لوگ اپنے ساتھی کی نمازجنازہ پڑھ لو،اس سےلوگوں کے چہروں کارنگ متغیرہوگیا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاتمہارے ساتھی نے راہ اللہ میں خیانت کی تھی،زیدبن خالدنے اس کے سامان کی تلاشی لی تواس میں یہودیوں کے موتی ملے جودودرہم کی قیمت کے برابربھی نہ تھے۔[44]

حكم الألبانی:ضعیف

فَعَبَّأَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَصْحَابَهُ لِلْقِتَالِ وَصَفَّهُمْ وَدَفَعَ لِوَاءَهُ إِلَى سَعْدِ بْنِ عُبَادَةَ وَرَایَةً إِلَى الحباب بن المنذر، وَرَایَةً إِلَى سَهْلِ بْنِ حُنَیْفٍ، وَرَایَةً إِلَى عَبَّادِ بْنِ بِشْرٍثُمَّ دَعَاهُمْ إِلَى الْإِسْلَامِ، وَأَخْبَرَهُمْ أَنَّهُمْ إِنْ أَسْلَمُوا أَحْرَزُوا أَمْوَالَهُمْ وَحَقَنُوا دِمَاءَهُمْ، وَحِسَابُهُمْ عَلَى اللهِ،فَبَرَزَ رَجُلٌ مِنْهُمْ فَبَرَزَ إِلَیْهِ الزُّبَیْرُ بْنُ الْعَوَّامِ فَقَتَلَهُ،ثُمَّ بَرَزَ آخَرُ فَقَتَلَهُ،ثُمَّ بَرَزَ آخَرُ فَبَرَزَ إِلَیْهِ عَلِیُّ بْنُ أَبِی طَالِبٍ رَضِیَ اللهُ عَنْهُ فَقَتَلَهُ،ثُمّ بَرَزَ آخَرُ فَبَرَزَ لَهُ أَبُو دُجَانَةَ فَقَتَلَهُ،ثُمّ بَرَزَ آخَرُ فَبَرَزَ لَهُ أَبُو دُجَانَةَ فَقَتَلَهُ،حَتّى قَتَلَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مِنْهُمْ أَحَدَ عَشَرَ رَجُلًا

جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہودکو جنگ پرآمادہ پایاتولوگوں کوجہادکی ترغیب دی اورمجاہدین اسلام کی صف بندی فرمائی،لشکرکاعلم سعدبن عبادہ رضی اللہ عنہ کواورایک پرچم حباب بن منذر رضی اللہ عنہ اورایک پرچم سہل بن حنیف کو اورایک پرچم عبادہ بن بشرکوعطافرمایا،پھریہود کودعوت اسلام دی اوربتایاکہ تم اسلام لے آؤتوتمہارے مال محفوظ ہوں گے ،تمہاری جانوں کوامان ہوگا اورحساب اللہ تعالیٰ پرہوگا مگر انہوں نے اسلام قبول نہیں کیا،آپ نے ان کے قلعوں کامحاصرہ کرلیا،تیسرے دن یہود جنگ کے لئے نکل آئے،ان کاایک شہسوار قلعہ سے نکل کر میدان میں آیا اور مبارزت طلب کی اس کے مقابلے میں زبیربن عوم رضی اللہ عنہ نکلے اور اسے قتل کردیا، پھر دوسرا شہسوار قلعہ سے نکل کرمیدان میں آیااور مبارزت طلب کرنے لگااس کے مقابلے میں بھی زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ نکلے اوراسے قتل کردیا،پھرتیسرایہودی میدان میں آیااس کے مقابلے میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ بن ابی طالب نکلے اور اسے قتل کردیا،اس کے بعدایک شہسوار میدان میں نکلا اس کے مقابلے میں ابودجانہ رضی اللہ عنہ نکلے اوراس کوڈھیرکردیا، پھرایک شہسوارمیدان میں نکلا اوراس کے مقابلے میں پھر ابودجانہ رضی اللہ عنہ نکلے اوراس کوخاک نشین کردیا،یہ مبارزت مسلسل جاری رہی یہاں تک کہ ان کے گیارہ آدمی قتل ہو گئے،

كُلّمَا قَتَلَ رَجُلٌ دَعَا مَنْ بَقِیَ إلَى الْإِسْلَامِ،وَلَقَدْ كَانَتْ الصّلَاةُ تَحْضُرُ یَوْمئِذٍ فَیُصَلّی رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بِأَصْحَابِهِ ثُمّ یَعُودُ فَیَدْعُوهُمْ إلَى اللهِ ورسوله فَقَاتَلَهُمْ حَتّى أَمْسَوْا وَغَدَا عَلَیْهِمْ فَلَمْ تَرْتَفِعْ الشّمْسُ، قَیْدَ رُمْحٍ حَتّى أَعْطَوْا بِأَیْدِیهِمْ، وَفَتَحَهَا عَنْوَةً، وَغَنّمَهُ اللهُ أَمْوَالَهُمْ وَأَصَابُوا أَثَاثًا وَمَتَاعًا كَثِیرًاوَقَسَمَ مَا أَصَابَ عَلَى أَصْحَابِهِ بِوَادِی الْقُرَى، وَتَرَكَ الْأَرْضَ وَالنَّخِیلَ فِی أَیْدِی الْیَهُودِ وَعَامَلَهُمْ عَلَیْهَا

جب بھی کوئی ایک یہودی شہسوار ماراجاتاتونبی صلی اللہ علیہ وسلم یہود کو اسلام کی دعوت دیتے، اور نمازکاوقت آجاتاتوآپ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ہمراہ نماز ادا فرماتے اورواپس آکرانہیں اسلام ، اللہ اوراس کے رسول کی طرف دعوت دیتےمگروہ انکارکرتے رہے ، یہودیوں اور مجاہدین اسلام میں شام تک مسلسل جنگ جاری رہی،چوتھے دن صبح سویرے مجاہدین اسلام نے ان پرایک تباہ کن حملہ کیا جسے وہ روکنے میں ناکام ہوگئے اور سورج ابھی نیزہ برابر بھی بلند نہیں ہوا تھاکہ یہود شکست کھاگئے اورمسلمانوں نے بہت سامال غنیمت حاصل کیاجوآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں تقسیم فرمادیا،شکست کے بعدیہودنے گزارش کی کہ ان کے ساتھ بھی اہل خیبرجیسامعاملہ کیاجائے ان کی درخواست بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے منظوررفرمالی،اورزمین اورکھجورکے درختوں کویہودکے پاس رہنے دیا اورانہی کوکارندہ مقررفرمادیا[45]

وادی القریٰ کے یہودیوں کی اطاعت اختیارکرنے کے بعدجزیرہ العرب میں یہودیوں کے سب سے طاقتوارمورچے کاخاتمہ ہوگیاجس نے سقوط خیبرکے بعد مسلمانوں کا مقابلہ کیاتھا۔

اہل تیماء کی مصالحت

خیبرکے شمال میں حفیرہ العیداکے راستے تقریباً دوسوتیس میل دورتبوک کاایک مشہورنخلستانی شہرتیماء ہے ،یہاں کے باشندے بڑے صاحب قوت تھے اوران کے قلعہ جات بھی پہاڑوں کی چوٹیوں پرتھےان کے متعلق توقع تھی کہ وہ کچھ مقادمت کریں گے،

 فَلَمَّا بَلَغَ یَهُودُ تَیْمَاءَ مَا وَطِئَ بِهِ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَفَدَكَ وَوَادِیَ الْقُرَى، صَالَحُوا رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عَلَى الْجِزْیَةِ، وَأَقَامُوا مَا بِأَیْدِیهِمْ بِأَمْوَالِهِمْ

مگر جب تیماء کے یہودیوں کوخیبر،فدک اوروادی القریٰ کی خبریں موصول ہوئیں توانہوں نے کسی قسم کی محاذآرائی کامظاہرہ کرنے کے بجائے ازخودایک آدمی بھیج کرجزیہ پر صلح کی پیش کش کی،چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی اس پیش کش قبول فرماکر مصالحت کی ایک تحریرلکھ دی ،معاہدہ کے الفاظ یہ تھے۔

بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِیمِ

هَذَا كِتَابٌ مِنْ محمد رسول الله لبنی غادیا أنَّ لَهُمُ الذِّمَّةَ وَعَلَیْهِمُ الْجِزْیَةَ وَلا عَدَاءَ وَلا جَلاءَ. اللیْلُ مَدٌّ وَالنَّهَارُ شَدٌّ.

وَكَتَبَ خَالِدُ بْنُ سَعِیدٍ

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

یہ تحریرہے محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے بنوغادیاکے لئے۔

ان کے لئے یہ ذمہ ہے اوران پرجزیہ ہےان پرنہ زیادتی ہوگی ،نہ انہیں جلاوطن کیاجائے گا،رات معاون ہوگی اوردن پختگی بخش(یعنی یہ معاہدہ ہمیشہ کے لئے پختہ ہوگا)

یہ تحریرخالدبن سعید رضی اللہ عنہ نے لکھی۔[46]

چنانچہ جزیہ کے معاہدہ کے بعدوہ اپنے علاقے میں امن کے ساتھ برقراررہے۔

فَلَمَّا كَانَ زَمَنُ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللهُ عَنْهُ أَخْرَجَ یَهُودَ خَیْبَرَ وَفَدَكٍ وَلَمْ یُخْرِجْ أَهْلَ تَیْمَاءَ

اس لئے جب خلیفہ دوم سیدنا عمر رضی اللہ عنہ بن خطاب نے اپنے دورخلافت میں خیبر اورفدک کے یہودیوں کوجلاوطن کیاتوتیماء کے یہودیوں کوجواہل ذمہ تھے اوران سے کوئی بدعہدی بھی نہیں ہوئی تھی جلاوطن نہ کیا بلکہ ان کواپنے گھروں میں آزاد چھوڑ د یا ۔

غزوہ خیبرکے بعدابھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم راستے میں ہی تھے کہ سورۂ الجمعہ کاپہلارکوع نازل ہوا،

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: كُنَّا جُلُوسًا عِنْدَ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَأُنْزِلَتْ عَلَیْهِ سُورَةُ الجُمُعَةِ: {وَآخَرِینَ مِنْهُمْ لَمَّا یَلْحَقُوا بِهِمْ}[47]

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں ہم نبی اکر صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بیٹھے ہوئے تھے جب یہ آیات نازل ہوئیں ’’اور (اس رسول کی بعثت) ان دوسرے لوگوں کے لیئے بھی جو ابھی ان سے نہیں ملے ہیں ۔[48]

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

شروع اللہ کے نام سے جو بیحد مہربان نہایت رحم والا ہے

یُسَبِّحُ لِلَّهِ مَا فِی السَّمَاوَاتِ وَمَا فِی الْأَرْضِ الْمَلِكِ الْقُدُّوسِ الْعَزِیزِ الْحَكِیمِ ‎﴿١﴾‏ هُوَ الَّذِی بَعَثَ فِی الْأُمِّیِّینَ رَسُولًا مِّنْهُمْ یَتْلُو عَلَیْهِمْ آیَاتِهِ وَیُزَكِّیهِمْ وَیُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَإِن كَانُوا مِن قَبْلُ لَفِی ضَلَالٍ مُّبِینٍ ‎﴿٢﴾‏ وَآخَرِینَ مِنْهُمْ لَمَّا یَلْحَقُوا بِهِمْ ۚ وَهُوَ الْعَزِیزُ الْحَكِیمُ ‎﴿٣﴾‏ ذَٰلِكَ فَضْلُ اللَّهِ یُؤْتِیهِ مَن یَشَاءُ ۚ وَاللَّهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِیمِ ‎﴿٤﴾‏(الجمعة)
’’(ساری چیزیں) جو آسمان اور زمین میں ہیں اللہ تعالیٰ کی پاکی بیان کرتی ہیں (جو) بادشاہ نہایت پاک (ہے) غالب و با حکمت ہے، وہی ہے جس نے ناخواندہ لوگوں میں ان ہی میں سے ایک رسول بھیجا جو انہیں اس کی آیتیں پڑھ کر سناتا ہے اور ان کو پاک کرتا ہے اور انہیں کتاب اور حکمت سکھاتا ہے، یقیناً یہ اس سے پہلے کھلی گمراہی میں تھے، اور دوسروں کے لیے بھی انہی میں سے جو اب تک ان سے نہیں ملے، وہی غالب با حکمت ہے،یہ اللہ کا فضل ہے جسے چاہے اپنا فضل دے اور اللہ تعالیٰ بہت بڑے فضل کا مالک ہے۔‘‘

سورۂ کے آغازمیں فرمایاکہ ہروہ چیزجوآسمانوں میں ہے اورہروہ چیزجوزمین میں ہے اپنے خالق ومالک اوررازق اللہ کی تسبیح کررہی ہے، جیسےفرمایا

تُـسَبِّحُ لَهُ السَّمٰوٰتُ السَّـبْعُ وَالْاَرْضُ وَمَنْ فِیْهِنَّ۝۰ۭ وَاِنْ مِّنْ شَیْءٍ اِلَّا یُسَبِّحُ بِحَمْدِهٖ وَلٰكِنْ لَّا تَفْقَهُوْنَ تَسْبِیْحَهُمْ۔۔۔۝۰۝۴۴ [49]

ترجمہ:اس کی پاکی تو ساتوں آسمان اور زمین اور وہ ساری چیزیں جو ان میں ہیں سب اس کی تسبیح کرتے ہیں ،کوئی چیز ایسی نہیں جو اس کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح نہ کر رہی ہو ، مگر تم ان کی تسبیح سمجھتے نہیں ہو۔

یعنی تمام مخلوقات اس وحدہ لاشریک ہی کو اپنا معبودمانتے ہیں اوراس کی عبادت کرتے ہیں ،اس کے حکم کی اطاعت کرتی ہے،اللہ بادشاہ ہے، وہ عظمت والاہے اوروہ ہرنقص اورآفت سےمنزہ اورپاک ہے ، اورتمام اشیاء پرغالب ہے،اوروہ اپنی تخلیق وامرمیں حکمت والاہے۔یہ چاروں عظیم الشان اوصاف دعوت دیتے ہیں کہ اللہ رب العالمین کو وحدہ لاشریک ماناجائے اورہرطرف سے منہ موڑکرصرف اس کی عبادت اوراطاعت کی جائے۔

جب ابراہیم علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کے حکم سے اپنی بیوی ہاجرہ اوراپنے شیرخواربیٹے اسماعیل علیہ السلام کوبیت اللہ کے قریب چٹیل میدان میں لابسایااورانہیں چھوڑکرواپس جانے لگے تو دعافرمائی تھی

رَبَّنَا وَابْعَثْ فِیْهِمْ رَسُوْلًا مِّنْھُمْ یَتْلُوْا عَلَیْهِمْ اٰیٰـتِكَ وَیُعَلِّمُهُمُ الْكِتٰبَ وَالْحِكْمَةَ وَیُزَكِّیْهِمْ۝۰ۭ اِنَّكَ اَنْتَ الْعَزِیْزُ الْحَكِیْمُ۝۱۲۹ۧ [50]

ترجمہ:اور اے رب !ان لوگوں میں خود اِنہی کی قوم سے ایک رسول اٹھائیو جو انہیں تیری آیات سنائے ، ان کو کتاب اور حکمت کی تعلیم دے اور ان کی زندگیاں سنوارے تو بڑا مقتدر اور حکیم ہے ۔

اللہ تعالیٰ نے ان کی دعاقبول فرمائی اوراحسان عظیم کرتے ہوئے اپناآخری پیغمبران میں مبعوث فرمایا،چنانچہ فرمایاوہی اللہ ہے جس نے امیوں (ان پڑھ عربوں میں جنہیں یہودی بدمذہب اورکمترسمجھتے تھے) کے اندرایک رسول خودانہی میں سے اٹھایاجوانہیں اس کی آیات سناتاہے جوایمان ویقین کی موجب ہیں ، ان کی زندگی سنوارتاہے ،یعنی اخلاق فاضلہ کی تعلیم اوران کی ترغیب کے ذریعے سے ان کوپاک کرتاہے اوراخلاق رذیلہ سے ان کوروکتاہے اوران کو کتاب اورحکمت کی تعلیم دیتاہے،یعنی انہیں اللہ کی منزل کتاب اورسنت کاعلم سکھاتا ہے حالانکہ اس سے پہلے وہ کھلی گمراہی میں پڑے ہوئے تھے،شجروحجراوراپنے ہاتھوں سے تراشے ہوئےبتوں کی پرستش کرتے تھے اور خونخواردرندوں جیسے اخلاق رکھتے تھے ، اسی مضمون کوایک اورمقام پرفرمایا

لَقَدْ مَنَّ اللهُ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ اِذْ بَعَثَ فِیْھِمْ رَسُوْلًا مِّنْ اَنْفُسِھِمْ یَتْلُوْا عَلَیْھِمْ اٰیٰتِهٖ وَیُزَكِّیْھِمْ وَیُعَلِّمُھُمُ الْكِتٰبَ وَالْحِكْمَةَ۝۰ۚ وَاِنْ كَانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍ۝۱۶۴ [51]

ترجمہ:درحقیقت اہلِ ایمان پر تو اللہ نے یہ بہت بڑا احسان کیا ہے کہ ان کے درمیان خود انہی میں سے ایک ایسا پیغمبر اُٹھایا جو اس کی آیات انہیں سناتا ہے ، ان کی زندگیوں کو سنوارتا ہے اور ان کو کتاب اور دانائی کی تعلیم دیتا ہے ، حالانکہ اس سے پہلے یہی لوگ صریح گمراہیوں میں پڑے ہوئے تھے۔

اوراس رسول کی بعث صرف عرب کے لئے نہیں بلکہ عرب وعجم کے لئے تمام لوگوں کے لئے بھی ہے جوعہدصحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بعدقیامت تک ہوں گےیعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت قیامت تک تمام جہاں والوں کے لئے ہے ،جیسے متعددمقامات پرفرمایا

قُلْ یٰٓاَیُّھَا النَّاسُ اِنِّىْ رَسُوْلُ اللهِ اِلَیْكُمْ جَمِیْعَۨا۔۔۔۝۱۵۸ [52]

ترجمہ:اے نبی ! کہو کہ اے انسانو! میں تم سب کی طرف اس اللہ کا پیغمبر ہوں ۔

۔۔۔وَاُوْحِیَ اِلَیَّ هٰذَا الْقُرْاٰنُ لِاُنْذِرَكُمْ بِهٖ وَمَنْۢ بَلَغَ ۔۔۔ ۝۱۹ۘ [53]

ترجمہ: اور یہ قرآن میری طرف بذریعۂ وحی بھیجا گیا ہے تاکہ تمہیں اور جس جس کو یہ پہنچے سب کو متنبہ کر دوں ۔

وَمَآ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا رَحْمَةً لِّلْعٰلَمِیْنَ۝۱۰۷(الانبیائ۱۰۷)

ترجمہ:اے نبی ! ہم نے تو تم کو دنیا والوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجا ہے۔

تَبٰرَكَ الَّذِیْ نَزَّلَ الْفُرْقَانَ عَلٰی عَبْدِهٖ لِیَكُوْنَ لِلْعٰلَمِیْنَ نَذِیْرَۨا۝۱ۙ [54]

ترجمہ:نہایت متبرک ہے وہ جس نے یہ فرقان اپنے بندے پر نازل کیا تاکہ سارے جہان والوں کے لیے خبردار کر دینے والا ہو ۔

وَمَآ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا كَاۗفَّةً لِّلنَّاسِ بَشِیْرًا وَّنَذِیْرًا وَّلٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَ۝۲۸ [55]

ترجمہ:اور (اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ) ہم نے تم کو تمام ہی انسانوں کے لیے بشیر و نذیر بنا کر بھیجا ہے مگر اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں ۔

اورجوکوئی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تمام نوع انسانی کے لئے رسالت کاانکارکرے اس کے لئے فرمایا

۔۔۔وَمَنْ یَّكْفُرْ بِهٖ مِنَ الْاَحْزَابِ فَالنَّارُ مَوْعِدُهٗ۔۔۔ ۝۱۷ [56]

ترجمہ: اور انسانی گروہوں میں سے جو کوئی اس کا انکار کرے تو اس کے لیے جس جگہ کا وعدہ ہے وہ دوزخ ہے ۔

اس سے ثابت ہواکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیغمبری تمام نوع انسانی کے لئے ہے صرف عرب کے لئے مخصوص نہیں ہے،

عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ السَّاعِدِیِّ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:إِنَّ فِی أَصْلَابِ أَصْلَابِ أَصْلَابِ رِجَالٍ [مِنْ أَصْحَابِی رِجَالًا ] وَنِسَاءً مِنْ أُمَّتِی یَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ بِغَیْرِ حِسَابٍ ثُمَّ قَرَأَ وَآخَرِینَ مِنْهُمْ لَمَّا یَلْحَقُوا بِهِمْ یَعْنِی: بَقِیَّةٌ مَنْ بَقِیَ مِنْ أُمَّةِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ

سہل بن سعدالساعدی فرماتے ہیں اب سے تین پشتوں کے بعدآنے والے میرے امتی بغیرحساب جنت میں داخل ہوں گے اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی آیت’’اور (اس رسول کی بعثت) ان دوسرے لوگوں کے لیے بھی جو ابھی ان سے نہیں ملے ہیں اللہ زبردست اور حکیم ہے۔‘‘ تلاوت فرمائی۔[57]

عَنْ قَتَادَةَ فِی قَوْلِهِ تَعَالَى: {لِأُنْذِرَكُمْ بِهِ وَمَنْ بَلَغَ} [58]إِنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:بَلِّغُوا عَنِ اللهِ، فَمَنْ بَلَغَتْهُ آیَةٌ مِنْ كِتَابِ اللهِ فَقَدْ بَلَغه أَمْرُ اللهِ

قتادہ رحمہ اللہ اللہ تعالیٰ کے فرمان’’ اوریہ قرآن میری طرف بذریعہ وحی بھیجاگیاہے تاکہ تمہیں اورجس جس کویہ پہنچے سب کومتنبہ کردوں ۔‘‘کے بارے میں کہتے ہیں اللہ تعالیٰ کی دعوت اس کے بندوں کوپہنچاؤجس شخص کے پاس قرآن مجیدکی ایک آیت بھی پہنچ گئی اسے اللہ تعالیٰ کاامرپہنچ گیا۔[59]

عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ كَعْبٍ فِی قَوْلِهِ: {لِأُنْذِرَكُمْ بِهِ وَمَنْ بَلَغَ}[60] ، قَالَ:مَنْ بَلَغَهُ الْقُرْآنُ فَقَدْ أَبْلَغَهُ مُحَمَّدٌ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ

اورمحمدبن کعب رحمہ اللہ آیت ’’ اوریہ قرآن میری طرف بذریعہ وحی بھیجاگیاہے تاکہ تمہیں اورجس جس کویہ پہنچے سب کومتنبہ کردوں ۔‘‘کے بارے میں فرماتے ہیں جس شخص کو قرآن پہنچ گیااس نے گویاخودرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کودیکھ لیا بلکہ گویاآپ صلی اللہ علیہ وسلم سے باتیں کرلیں اوراس پراللہ تعالیٰ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کادین پیش کردیا۔

 عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: كُنَّا جُلُوسًا عِنْدَ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَأُنْزِلَتْ عَلَیْهِ سُورَةُ الجُمُعَةِ: {وَآخَرِینَ مِنْهُمْ لَمَّا یَلْحَقُوا بِهِمْ}[61] قَالَ: قُلْتُ: مَنْ هُمْ یَا رَسُولَ اللَّهِ؟ فَلَمْ یُرَاجِعْهُ حَتَّى سَأَلَ ثَلاَثًا، وَفِینَا سَلْمَانُ الفَارِسِیُّ، وَضَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَدَهُ عَلَى سَلْمَانَ، ثُمَّ قَالَ:لَوْ كَانَ الإِیمَانُ عِنْدَ الثُّرَیَّا، لَنَالَهُ رِجَالٌ – أَوْ رَجُلٌ – مِنْ هَؤُلاَءِ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ سورۂ الجمعة کی یہ آیت ’’نازل ہوئی جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سورہ جمعہ کی یہ آیت’’اور(اس رسول کی بعث)ان دوسرے لوگوں کے لئے بھی ہے جوابھی ان سے نہیں ملے ہیں ۔‘‘ تلاوت فرمائی،توابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے عرض کیااے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !یہ دوسرے لوگ کون ہیں ؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی جواب نہیں دیاآخریہی سوال تین مرتبہ کیا، مجلس میں سلمان فارسی رضی اللہ عنہ بھی موجودتھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان پرہاتھ رکھ کرفرمایااگرایمان ثریاپربھی ہوگاتب بھی ان لوگوں (یعنی فارس والوں )میں سے اس تک پہنچ جائیں گے یایوں فرمایاکہ ایک ایک آدمی ان لوگوں میں سے اس تک پہنچ جائے گا۔[62]

امام قرطبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جیسا فرمایا تھاویساہی ہوابہت سے حدیث کے حافظ اورامام ملک فارس میں پیداہوئے ،جیسےامام بخاری رحمہ اللہ ،امام مسلم رحمہ اللہ اورامام ترمذی رحمہ اللہ وغیرہ ،یہ سب حدیث کے امام ملک فارس کے تھے اور حنفیوں نے امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کواس زمرے میں شمار کیا تو ہمیں امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی فضیلت اوربزرگی میں اختلاف نہیں مگران کی اصل ملک فارس سے نہ تھی بلکہ کابل سے تھی اورکابل بلاد فارس میں داخل نہیں اس لئے وہ اس حدیث کے مصداق نہیں ہوسکتے ،اس کے علاوہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ مدت العمرفقہ اوراجتہادمیں مصروف رہے اورعل حدیث کی طرف ان کی توجہ بالکل کم رہی اس لئے وہ حدیث کےامام نہیں گنے جاتے اورنہ ائمہ حدیث جیسے امام بخاری وامام مسلم رحمہ اللہ وغیرہ نے اپنی کتابوں میں ان سے روایت کی ہے بلکہ محدث محمد بن نصرمروزی کہتے ہیں امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی بضاعت حدیث میں بہت تھوڑی تھی اورخطیب رحمہ اللہ نے کہاامام ابوحنیفہ رحمہ اللہ نے صرف پچاس مرفوع حدیثیں روایت کی ہیں ،البتہ مجتہدامام مالک رحمہ اللہ اورامام احمدبن حنبل رحمہ اللہ اوراسحاق راہو رحمہ اللہ اوراوزاعی رحمہ اللہ اورسفیان ثوری رحمہ اللہ اورعبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ ایسے کامل گزرے ہیں کہ وہ فقہ اورحدیث میں بیک وقت امام تھے ،اللہ تعالیٰ ان سب سے راضی ہواوران کودرجات عالی عطافرمائےآمین۔

اللہ زبردست اورحکیم ہے،یہ اس کافضل وکرم ہے کہ اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کونبوت کے ساتھ سرفرازکیااوروہ اپنی حکمت ومشیت سے جسے چاہتاہے فضل وکرم سے بہرہ مندفرماتاہے اوروہ بڑاہی فضل فرمانے والاہے۔

مَثَلُ الَّذِینَ حُمِّلُوا التَّوْرَاةَ ثُمَّ لَمْ یَحْمِلُوهَا كَمَثَلِ الْحِمَارِ یَحْمِلُ أَسْفَارًا ۚ بِئْسَ مَثَلُ الْقَوْمِ الَّذِینَ كَذَّبُوا بِآیَاتِ اللَّهِ ۚ وَاللَّهُ لَا یَهْدِی الْقَوْمَ الظَّالِمِینَ ‎﴿٥﴾‏ قُلْ یَا أَیُّهَا الَّذِینَ هَادُوا إِن زَعَمْتُمْ أَنَّكُمْ أَوْلِیَاءُ لِلَّهِ مِن دُونِ النَّاسِ فَتَمَنَّوُا الْمَوْتَ إِن كُنتُمْ صَادِقِینَ ‎﴿٦﴾‏ وَلَا یَتَمَنَّوْنَهُ أَبَدًا بِمَا قَدَّمَتْ أَیْدِیهِمْ ۚ وَاللَّهُ عَلِیمٌ بِالظَّالِمِینَ ‎﴿٧﴾‏ قُلْ إِنَّ الْمَوْتَ الَّذِی تَفِرُّونَ مِنْهُ فَإِنَّهُ مُلَاقِیكُمْ ۖ ثُمَّ تُرَدُّونَ إِلَىٰ عَالِمِ الْغَیْبِ وَالشَّهَادَةِ فَیُنَبِّئُكُم بِمَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ ‎﴿٨﴾‏(الجمعة)
’’جن لوگوں کو تورات پر عمل کرنے کا حکم دیا گیا پھر انہوں نے اس پر عمل نہیں کیا ان کی مثال اس گدھے کی سی ہے جو بہت سی کتابیں لادے ہو، اللہ کی باتوں کو جھٹلانے والوں کی بڑی بری مثال ہے اور اللہ (ایسی) ظالم قوم کو ہدایت نہیں دیتا، کہہ دیجئے کہ اے یہودیو ! اگر تمہارا دعویٰ ہے کہ تم اللہ کے دوست ہو دوسرے لوگوں کے سواتو تم موت کی تمنا کرو اگر تم سچے ہو، یہ کبھی بھی موت کی تمنا نہ کریں گے بوجہ ان اعمال کے جو اپنے آگے اپنے ہاتھوں بھیج رکھے ہیں اور اللہ ظالموں کو خوب جانتا ہے،کہہ دیجئے کہ جس موت سے تم بھاگتے پھرتے ہو وہ تو تمہیں پہنچ کر رہے گی پھر تم سب چھپے کھلے کے جاننے والے (اللہ) کی طرف لوٹائے جاؤ گے اور وہ تمہیں تمہارے کیے ہوئے تمام کام بتلا دے گا۔‘‘

اللہ تعالیٰ نےبے عمل یہودیوں کی مذمت بیان فرمائی کہ جن لوگوں کوتوراة کاحامل بنایاگیاتھااوران کوحکم تھاکہ وہ تورات کی تعلیم حاصل کریں اوراس پرعمل کریں مگرانہوں نے اپنی ذمہ داری کونہ سمجھااور اسےپیٹھ پیچھے پھینک دیااوراس پرعمل نہ کیا،اس لئے ان کی کوئی فضیلت نہیں بلکہ ان یہودیوں کی مثال اس گدھے کی سی ہے جس کی کمر پرعلمی کتابوں کابوجھ ہومگر فہم وشعورسے عاری ہونے کی وجہ سےوہ نہیں سمجھتاکہ اس پرکس طرح کابوجھ ڈالاگیاہے،اسی طرح فہم وشعورکادعویٰ کرنے والے یہ یہودی ہیں جن کوتورات دی گئی تھی وہ اسے ظاہراًتوپڑھتے اورپڑھاتے ہیں مگر نہ اسے سمجھتے ہیں اورنہ ہی اس کے مقتضاپرعمل کرتے ہیں بلکہ بڑی جرات کے ساتھ دانستہ اللہ کے کلام میں تاویل وتحریف اورتغیروتبدل سے کام لیتے ہیں ،اس طرح یہ گدھے سے بھی بدترہیں ،جیسے فرمایا

وَلَقَدْ ذَرَاْنَا لِجَــهَنَّمَ كَثِیْرًا مِّنَ الْجِنِّ وَالْاِنْسِ ۝۰ۡۖ لَهُمْ قُلُوْبٌ لَّا یَفْقَهُوْنَ بِهَا۝۰ۡوَلَهُمْ اَعْیُنٌ لَّا یُبْصِرُوْنَ بِهَا۝۰ۡوَلَهُمْ اٰذَانٌ لَّا یَسْمَعُوْنَ بِهَا۝۰ۭ اُولٰۗىِٕكَ كَالْاَنْعَامِ بَلْ هُمْ اَضَلُّ۝۰ۭ اُولٰۗىِٕكَ هُمُ الْغٰفِلُوْنَ۝۱۷۹ [63]

ترجمہ:اور یہ حقیقت ہے کہ بہت سے جن اور انسان ایسے ہیں جن کو ہم نے جہنم ہی کے لیے پیدا کیا ہے، ان کے پاس دل ہیں مگر ہ ان سے سوچتے نہیں ، ان کے پاس آنکھیں ہیں مگر وہ ان سے دیکھتے نہیں ، ان کے پاس کان ہیں مگر وہ ان سے سنتے نہیں ، وہ جانوروں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی زیادہ گئے گزرے ، یہ وہ لوگ ہیں جو غفلت میں کھوئے گئے ہیں ۔

اس سے بھی زیادہ بری مثال ان لوگوں کی ہے جنہوں نے محض اپنے بغض وعناداورحسدوتکبرمیں اللہ کی آیات کوجھٹلادیاہے ،اللہ تعالیٰ ایسے ظالموں کو ہدایت عطا نہیں کرتا،

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: مَنْ تَكَلَّمَ یَوْمَ الْجُمُعَةِ وَالْإِمَامُ یَخْطُبُ، فَهُوَ كَمَثَلِ الْحِمَارِ یَحْمِلُ أَسْفَارًا، وَالَّذِی یَقُولُ لَهُ: أَنْصِتْ، لَیْسَ لَهُ جُمُعَةٌ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجوشخص جمعہ کے دن امام کے خطبہ ارشادکرنے کے دوران بات کرے اس کی مثال اس گدھے کی سی ہے جواپنی کمرکتابیں اٹھائے ہوئے ہواوراسے یہ کہے چپ رہ اس کابھی جمعہ جاتارہا۔ [64]

یہودونصاریٰ کادعویٰ تھاکہ وہ اللہ کے بیٹے اوراللہ کے پسندیدہ ہیں ،جیسے فرمایا

 وَقَالَتِ الْیَھُوْدُ وَالنَّصٰرٰى نَحْنُ اَبْنٰۗؤُا اللهِ وَاَحِبَّاۗؤُهٗ۔۔۔۝۰۝۱۸ [65]

ترجمہ:یہود اور نصاریٰ کہتے ہیں کہ ہم اللہ کے بیٹے اور اس کے چہیتے ہیں ۔

اورکیونکہ ہم اللہ تعالیٰ کی برگزیدہ مخلوق ہیں اس لئے جنت میں صرف یہودونصاریٰ ہی داخل ہوں ہوں ،جیسے فرمایا

 وَقَالُوْا لَنْ یَّدْخُلَ الْجَنَّةَ اِلَّا مَنْ كَانَ ھُوْدًا اَوْ نَصٰرٰى۔۔۔ ۝۱۱۱ [66]

ترجمہ:ان کا کہنا ہے کہ کوئی شخص جنت میں نہ جائے گا جب تک کہ وہ یہودی نہ ہو یا (عیسائیوں کے خیال کے مطابق) عیسائی نہ ہو ۔

اوریہ بھی ان کادعویٰ ہے کہ اگرہمیں جہنم میں جانابھی پڑاتووہ محض دن کے لئے جائیں گے،جیسے فرمایا

 وَقَالُوْا لَنْ تَمَسَّـنَا النَّارُ اِلَّآ اَیَّامًا مَّعْدُوْدَةً۔۔۔۝۰۝۸۰ [67]

ترجمہ:وہ کہتے ہیں کہ دوزخ کی آگ ہمیں ہرگز چھونے والی نہیں اِلا یہ کہ چند روز کی سزا مل جائے تو مل جائے۔

ذٰلِكَ بِاَنَّھُمْ قَالُوْا لَنْ تَمَــسَّـنَا النَّارُ اِلَّآ اَیَّامًا مَّعْدُوْدٰتٍ۔۔۔۝۰۝۲۴ [68]

ترجمہ:اُن کا یہ طرزِ عمل اس وجہ سے ہے کہ وہ کہتے ہیں آتشِ دوزخ تو ہمیں مس تک نہ کرے گی اور اگر دوزخ کی سزا ہم کو ملے گی بھی تو بس چند روز ۔

اللہ تعالیٰ نے ان کی اس خام خیالی پرفرمایااے محمد صلی اللہ علیہ وسلم !ان سے کہواے لوگو!جواللہ تعالیٰ کے پسندیدہ دین اسلام کوچھوڑکریہودی بن گئے ہو اگر تمہیں یہ گھمنڈہے کہ باقی سب لوگوں کوچھوڑکربس تم ہی اللہ کے چہیتے ہواوراگرتم اپنے زعم میں سچے ہوتوموت کی تمنا کروتاکہ تم جلدازجلد لازوال انواع واقسام کی نعمتوں بھری جنت میں داخل ہو سکو اوروہاں تمہیں اعزازواکرام حاصل ہولیکن یہ ہماری پشیین گوئی ہے کہ یہ خواہ کیسے ہی لمبے چوڑے دعوے کریں اپنے کفر،فسق وفجور،ظالم ونافرمانی اوراللہ تعالیٰ کی منزل کتاب تورات میں تحریف وتغیرکے سبب ہرگزموت کی تمنانہیں کریں گےبلکہ تم انہیں مشرکین سے بھی زیادہ جینے کاحریص پاؤگےخواہ وہ کیسی ہی زندگی ہو ، جیسےفرمایا

وَلَتَجِدَنَّھُمْ اَحْرَصَ النَّاسِ عَلٰی حَیٰوةٍ۝۰ۚۛ وَمِنَ الَّذِیْنَ اَشْرَكُــوْا۝۰ۚۛ یَوَدُّ اَحَدُ ھُمْ لَوْ یُعَمَّرُ اَلْفَ سَـنَةٍ۝۰ۚ وَمَا ھُوَبِمُزَحْزِحِهٖ مِنَ الْعَذَابِ اَنْ یُّعَمَّرَ۝۰ۭ وَاللهُ بَصِیْرٌۢ بِمَا یَعْمَلُوْنَ۝۹۶ۧ [69]

ترجمہ:تم انہیں سب سے بڑھ کر جینے کا حریص پاؤ گے حتی کہ یہ اس معاملے میں مشرکوں سے بھی بڑھے ہوئے ہیں ، ان میں سے ایک ایک شخص یہ چاہتا ہے کہ کسی طرح ہزار برس جیے ، حالانکہ لمبی عمر بہرحال اُسے عذاب سے تو دور نہیں پھینک سکتی ،جیسے کچھ اعمال یہ کر رہے ہیں اللہ تو انہیں دیکھ ہی رہا ہے۔

اوراللہ ان ظالموں کوخوب جانتاہے ،

إِنْ كُنْتُمْ تَزْعُمُونَ أَنَّكُمْ عَلَى هُدًى، وَأَنَّ مُحَمَّدًا وَأَصْحَابَهُ عَلَى ضَلَالَةٍ، فَادْعُوا بِالْمَوْتِ عَلَى الضَّالِّ مِنَ الْفِئَتَیْنِ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِینَ فِیمَا تَزْعُمُونَهُ

حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ اس آیت کی تفسیرمیں لکھتے ہیں اے یہودیو!اگرتمہارایہ دعویٰ ہے کہ تم حق پرہواورمحمد صلی اللہ علیہ وسلم اوران کے اصحاب گمراہی پرہیں توآؤاوریہ دعامانگوکہ ہم دونوں گروہوں میں جوگمراہی پرہواللہ اسے موت دے دے۔[70]

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: قَالَ أَبُو جَهْلٍ لَعَنَهُ اللهُ: إِنْ رأیتُ مُحَمَّدًا عِنْدَ الْكَعْبَةِ لآتینَّه حَتَّى أَطَأَ عَلَى عُنُقه،قَالَ: فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:لَوْ فَعَلَ لأخذَته الْمَلَائِكَةُ عِیَانًا وَلَوْ أَنَّ الْیَهُودَ تَمَنَّوا الْمَوْتَ لَمَاتُوا وَرَأَوْا مَقَاعِدَهُمْ مِنَ النَّارِ وَلَوْ خَرَجَ الَّذِینَ یُباهلون رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ لَرَجَعُوا لَا یَجِدُونَ مَالًا وَلَا أَهْلًا

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہےابوجہل،اللہ اس پرلعنت فرمائےنے بڑے دبدبہ سے کہاکہ اگرمیں محمد( صلی اللہ علیہ وسلم )کوکعبہ کے پاس بھی دیکھ لوں گاتو اس کی گردن ناپوں گا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب یہ خبرسنی توفرمایااگریہ ایساکرتاتوفرشتے اسے پکڑلیتے اورسب لوگ دیکھتے،اوراگریہودی میرے مقابلہ پر آکرموت طلب کرتے تویقیناً انہیں موت آجاتی اوروہ جہنم میں اپنی جگہ دیکھ لیتے، اوراگرلوگ مباہلہ کے لئے نکلتے تولوٹ کراپنے اہل ومال کوہرگزنہ پاتے۔[71]

اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم !ان سے کہوجس موت سے تم بھاگتے ہووہ توایک وقت مقررہ پرتمہیں آکررہے گی،جیسےفرمایا

 اَیْنَ مَا تَكُوْنُوْا یُدْرِكْكُّمُ الْمَوْتُ وَلَوْ كُنْتُمْ فِیْ بُرُوْجٍ مُّشَـیَّدَةٍ۔۔۔ ۝۷۸ [72]

ترجمہ:رہی موت تو جہاں بھی تم ہو وہ بہرحال تمہیں آکر رہے گی خواہ تم کیسی ہی مضبوط عمارتوں میں ہو۔

ایک مقام پرفرمایا

قُلْ لَّنْ یَّنْفَعَكُمُ الْفِرَارُ اِنْ فَرَرْتُمْ مِّنَ الْمَوْتِ اَوِ الْقَتْلِ وَاِذًا لَّا تُمَـتَّعُوْنَ اِلَّا قَلِیْلًا۝۱۶ [73]

ترجمہ: اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! ان سے کہواگر تم موت یا قتل سے بھاگو تو یہ بھاگنا تمہارے لیے کچھ بھی نفع بخش نہ ہوگا اس کے بعد زندگی کے مزے لوٹنے کا تھوڑا ہی موقع تمہیں مل سکے گا۔

عَنْ سَمُرَةَ بْنِ جُنْدُبٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: مَثَلُ الَّذِی یَفِرُّ مِنَ الْمَوْتِ كَمَثَلِ الثَّعْلَبِ، تَطْلُبُهُ الْأَرْضُ بِدَیْنٍ، فَجَعَلَ یَسْعَى , حَتَّى إِذَا أَعْیَى وَانْتَهَرَ دَخَلَ جُحْرَهُ، فَقَالَتْ لَهُ الْأَرْضُ: یَا ثَعْلَبُ , دَیْنِی؟ فَخَرَجَ، وَلَهُ حُصَاصٌ، فَلَمْ یَزَلْ كَذَلِكَ حَتَّى تَقَطَّعَتْ عُنُقُهُ , فَمَاتَ

سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاموت سے بھاگنے والے کی مثال ایسی ہے جیسے ایک لومڑی ہوجس پرزمین کاکچھ قرض ہواوروہ اس خوف سے کہ کہیں یہ مجھ سے اپناقرض نہ مانگ بیٹھے بھاگتے بھاگتے جب تھک جائے توایک بھٹ میں گھس جائے ،جہاں وہ گھسی اوروہیں زمین نے پھراس سے تقاضاکیاکہ اے لومڑی میراقرض اداکر،وہ لومڑی وہاں سے بھی دم دباکرتیزی سے بھاگی اورآخریونہی بھاگتے بھاگتے ہلاک ہوگئی۔[74]

پھرتم میدان محشرمیں اللہ مالک یوم الدین کی بارگاہ میں جوپوشیدہ وظاہرکاجاننے والا ہےاپنے اعمال کی جواب دہی کے لئے فرداًفردا ً پیش کیے جاؤگے اس وقت وہ تمہیں بتادے گاکہ تم دنیاکی چندروزہ زندگی میں کیااچھے برے اورقلیل وکثیراعمال کرتے رہے ہو۔

تربیت :

عَنْ أَبِی مُوسَى الأَشْعَرِیِّ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: لَمَّا غَزَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ خَیْبَرَ، أَوْ قَالَ: لَمَّا تَوَجَّهَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، أَشْرَفَ النَّاسُ عَلَى وَادٍ، فَرَفَعُوا أَصْوَاتَهُمْ بِالتَّكْبِیرِ: اللَّهُ أَكْبَرُ اللَّهُ أَكْبَرُ، لاَ إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: ارْبَعُوا عَلَى أَنْفُسِكُمْ، إِنَّكُمْ لاَ تَدْعُونَ أَصَمَّ وَلاَ غَائِبًا، إِنَّكُمْ تَدْعُونَ سَمِیعًا قَرِیبًا وَهُوَ مَعَكُمْ

ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے مروی ہےجب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (خیبر کی طرف)روانہ ہوئے(بعض روایات میں ہے واپسی میں مدینہ منورہ کے قریب پہنچے) تو(راستے میں )لوگ ایک وادی میں پہنچے اور بلندآوازسے تکبیر کہنے لگے اللہ اکبر،اللہ اکبر،لاالٰہ الااللہ( اللہ سب سے بلندوبرترہے ،اللہ سب سے بلندوبرترہے،اللہ کے سواکوئی معبودنہیں )کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم شوروغل اوربلندآواز کوپسند نہیں فرماتے تھے اس لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااپنے نفسوں پررحم کروتم کسی بہرے وجودکونہیں پکاررہے جسے تم پکاررہے ہووہ سب سے زیادہ سننے والااورتمہارے نزدیک ہے بلکہ وہ تمہارے ساتھ ہے۔[75]

یعنی ذکرالٰہی کے لیے چیخنے چلانے کی ضرورت نہیں ہے،نام نہادصوفیوں میں ذکربالجرکاایک وظیفہ مروج ہے،زورزورسے کلمہ کی ضرب لگاتے ہیں ،اس قدرچیخ کرکہ سننے والوں کے کان کھڑے ہوجاتے ہیں اس حدیث سے ان کی مذمت ثابت ہوتی ہے،اوراللہ تعالیٰ کاارشادہے

 ۔۔۔وَلَا تَجْـهَرْ بِصَلَاتِكَ وَلَا تُخَافِتْ بِهَا وَابْتَغِ بَیْنَ ذٰلِكَ سَبِیْلًا [76]

ترجمہ:اور اپنی نماز نہ بہت زیادہ بلند آواز سے پڑھو اور نہ بہت پست آواز سے ، ان دونوں کے درمیان اَوَسط درجے کا لہجہ اختیار کرو۔

عَنْ أَبِی مُوسَى الأَشْعَرِیِّ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ:وَأَنَا خَلْفَ دَابَّةِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَسَمِعَنِی وَأَنَا أَقُولُ: لاَ حَوْلَ وَلاَ قُوَّةَ إِلَّا بِاللهِ، فَقَالَ لِی:یَا عَبْدَ اللهِ بْنَ قَیْسٍ،قُلْتُ: لَبَّیْكَ یَا رَسُولَ اللهِ، قَالَ:أَلاَ أَدُلُّكَ عَلَى كَلِمَةٍ مِنْ كَنْزٍ مِنْ كُنُوزِ الجَنَّةِ،قُلْتُ: بَلَى یَا رَسُولَ اللهِ، فَدَاكَ أَبِی وَأُمِّی،قَالَ:لاَ حَوْلَ وَلاَ قُوَّةَ إِلَّا بِاللهِ

عبداللہ بن قیس رضی اللہ عنہ (ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ ) کا بیان ہےمیں آپ کی سواری کے پیچھے چل رہا تھااور لاَ حَوْلَ وَلاَ قُوَّةَ إِلَّا بِاللهِ پڑھتا جاتا تھا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کلمات سن لئےاورآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاعبداللہ بن قیس رضی اللہ عنہ ! میں نے کہااے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں حاضر ہوں ،آپ نے فرمایاکیامیں تمہیں ایک ایساکلمہ نہ بتادوں جوجنت کےخزانوں میں سے ایک خزانہ ہے؟میں نے عرض کیااے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم میرے ماں باپ آپ پرقربان ہوں ضروربتلائیں ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاوہ کلمہ یہی ہے لاَ حَوْلَ وَلاَ قُوَّةَ إِلَّا بِاللهِ یعنی گناہوں سے بچنااورنیکی کرنایہ اسی وقت ممکن ہے جب اللہ کی مددشامل حال ہو۔[77]

سنن ابوداودمیں یہ الفاظ ہیں

یَا أَیُّهَا النَّاسُ، إِنَّكُمْ لَا تَدْعُونَ أَصَمَّ، وَلَا غَائِبًا، إِنَّ الَّذِی تَدْعُونَهُ بَیْنَكُمْ وَبَیْنَ أَعْنَاقِ رِكَابِكُمْ

اے لوگو!تم کسی بہرے یاغائب کونہیں پکاررہے ہو،بے شک جسے تم پکارتے ہووہ تمہارے اورتمہاری سواریوں کی گردنوں کے درمیان(نہایت قریب ہے،لہذاچیخنے چلانے کی ضرورت نہیں )ہے۔[78]

حكم الألبانی : صحیح ق دون قوله إِنَّ الَّذِی تَدْعُونَهُ بَیْنَكُمْ وَبَیْنَ أَعْنَاقِ رِكَابِكُمْ وهو منكر

شیخ البانی رحمہ اللہ کے نزدیک اس میں ’’بے شک جسے تم پکارتے ہووہ تمہارے اورتمہاری سواریوں کی گردنوں کے درمیان(نہایت قریب) ہے۔‘‘کے الفاظ منکر(ضعیف)ہیں ۔

ام المومنین زینب رضی اللہ عنہا بنت حیی بن اخطب سے شادی

فَقَالَ لَهَا رَسُولُ اللهِ: اخْتَارِی. فَإِنِ اخْتَرْتِ الإِسْلامَ أَمْسَكْتُكِ لِنَفْسِی وَإِنِ اخْتَرْتِ الْیَهُودِیَّةَ فَعَسَى أَنْ أُعْتِقَكِ فَتَلْحَقِی بِقَوْمِكِ، فَقَالَتْ: یَا رَسُولَ اللهِ لَقَدْ هَوَیْتُ الإِسْلامَ وَصَدَّقْتُ بِكَ قَبْلَ أَنْ تَدْعُوَنِی حَیْثُ صِرْتُ إِلَى رَحْلِكَ وَمَا لِی فِی الْیَهُودِیَّةِ أَرَبٌ وَمَا لِی فِیهَا وَالِدٌ وَلا أَخٌ. وَخَیَّرْتَنِی الْكُفْرَ وَالإِسْلامَ فَاللهُ وَرَسُولُهُ أَحَبُّ إِلَیَّ مِنَ الْعِتْقِ وَأَنْ أَرْجِعَ إِلَى قَوْمِی،قَالَ:فَأَعْتَقَهَا فَتَزَوّجَهَا وَجَعَلَ عِتْقَهَا مَهْرَهَا

زینب بنت حیی خادم خاص انس رضی اللہ عنہ کی والدہ ام سلیم رضی اللہ عنہا کے ساتھ مدینہ منورہ کی طرف سفرکررہی تھیں سدصہباء پہنچ کرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں (ام المومنین جویریہ کی طرح ان کی خاندانی عزت ووجاہت اورہارون علیہ السلام کی زریت میں سے ہونے کے شرف کوملحوظ رکھ کر) آزادفرمادیااوراس کی تکریم کی خاطراسے تمام قیدیوں کے درمیان مطلق اختیار دیا کہ وہ دو راستوں میں سے جس کوچاہئے اختیارکرلے چاہئے تویہودیت پرقائم رہ کراپنے خاندان کے پاس چلی جائے اورچاہئے تواسلام قبول کرلے اوراپنی مرضی سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجیت میں آجائے ،اسیری کے چنددنوں میں زینب نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاکیزہ اورپسندیدہ اطوار اوراسلام کی عبادات کابغورجائزہ لے لیاتھا،اللہ تعالیٰ نے اس کے دل میں اسلام کی محبت ڈال دی،چنانچہ انہوں نے کہااے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !میں اسلام قبول کرتی ہوں آپ کی دعوت سے پہلے ہی آپ کو سچا مانتی تھی اب میرے گھر میں آگئی ہوتو یہودیت میں اب میرا کوئی نہیں رہا نہ والد اور نہ بھائی اور آپ نے مجھے اسلام وکفر کے مابین بھی اختیار دے دیا ہے پس مجھے تو اللہ اور اس کے رسول کی محبت میری آزادی پر مقدم ہے لہٰذا اب میں اپنی قوم کیسے جاؤں ،چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے زینب بنت حیی کی آزادی کوان کامہرقراردے کران سے شادی کرلی۔ [79]

اوران کانام زینب سے بدل کرصفیہ رکھ دیا

فَخَرَجَ بِهَا حَتَّى بَلَغَ بِهَا سُدَّ الصَّهْبَاءِ حَلَّتْ

جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سدصہباء پرپہنچے توزینب بنت حیی حیض سے پاک ہوگئیں ۔[80] جَهَّزَتْهَا لَهُ أُمُّ سُلَیْمٍ، فَأَهْدَتْهَا لَهُ مِنَ اللیْلِ

انس بن مالک رضی اللہ عنہ کی والدہ ام سلیم رضی اللہ عنہا نے انہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے تیار کیا اور رات کوآپ کے پاس رخصت کردیا[81]

فَأُتِیَ بِهَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَبِهَا أَثَرٌ مِنْهُ، فَسَأَلَهَا مَا هُوَ؟قَالَتْ: یَا رَسُولَ اللهِ، أُرِیتُ قَبْلَ قُدُومِكَ عَلَیْنَا كَأَنَّ الْقَمَرَ زَالَ مِنْ مَكَانِهِ فَسَقَطَ فِی حِجْرِی، وَلَا وَاللهِ مَا أَذْكُرُ مِنْ شَأْنِكَ شَیْئًا فَقَصَصْتُهَا عَلَى زَوْجِی فَلَطَمَ وَجْهِی وَقَالَ: تَمَنِّینَ هَذَا الْمَلِكَ الَّذِی بِالْمَدِینَةِ

اس موقع پرآپ نے ان کے چہرے پرایک نیل دیکھا تو آپ نے ام المومنین صفیہ رضی اللہ عنہا سے دریافت فرمایاکہ آپ کے چہرے پر ضرب کا یہ کیسا نشان ہے؟انہوں نے عرض کیااے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم !آپ کے خیبرپہنچنے سے قبل میں نے ایک خواب دیکھا تھا کہ چانداپنی جگہ سے ٹوٹ کرمیری آغوش میں آگراہے ، اللہ کی قسم ! مجھے آپ کے معاملے کاکوئی تصوربھی نہ تھا، میں نے یہ خواب اپنے شوہرکوسنایاتواس نے میرے چہرے پرایک زوردارتھپڑمارتے ہوئے کہا تم مدینہ کے بادشاہ کی آرزو کرتی ہو۔[82]

فَبَاتَ بِهَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فِی قُبَّةٍ لَهُ،فَقَصَصْتُهَا عَلَى زَوْجِی فَلَطَمَ وَجْهِی وَبَاتَ أَبُو أَیُّوبَ خَالِدُ بْنُ زَیْدٍ، أَخُو بَنِی النَّجَّارِ مُتَوَشِّحًا سَیْفَهُ، یَحْرَسُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، وَیُطِیفُ بِالْقُبَّةِ،حَتَّى أَصْبَحَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَلَمَّا رَأَى مَكَانَهُ قَالَ: مَالك یَا أَبَا أَیُّوبَ؟قَالَ: یَا رَسُولَ اللهِ، خِفْتُ عَلَیْكَ مِنْ هَذِهِ الْمَرْأَةِ، وَكَانَتْ امْرَأَةً قَدْ قَتَلْتَ أَبَاهَا وَزَوْجَهَا وَقَوْمَهَا وَكَانَتْ حَدِیثَةَ عَهْدٍ بِكُفْرٍ، فَخِفْتهَا عَلَیْكَ،فَزَعَمُوا أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: اللهمّ احْفَظْ أَبَا أَیُّوبَ كَمَا بَاتَ یَحْفَظُنِی

اوررات کورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے ساتھ ایک خیمہ میں رہے جب خواب اپنے شوہر کے سامنے بیان کیا تو انہوں نے مجھے تھپڑ رسید کر دیا، اور ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ تلوارلئے ہوئے رات بھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خیمہ کے گرد پہرادیتے رہے،صبح کورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو دیکھا تو فرمایااےابوایوب رضی اللہ عنہ !تم نے کس لئے تکلیف کی ؟ ابوایوب رضی اللہ عنہ نے عرض کیااے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !مجھے اس عورت سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں خوف تھا کیونکہ اس عورت کاباپ اورخاونداورساری قوم قتل ہوئی ہے، اوریہ عورت نومسلم ہےاس سبب سے مجھے اس کی طرف سے اندیشہ تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوایوب رضی اللہ عنہ کے حق میں دعافرمائی اے اللہ!جیسے ابوایوب رضی اللہ عنہ نے رات بھرمیری حفاظت کی ہے تواس کی ہمیشہ حفاظت فرمائیو۔[83]

ام المومنین صفیہ رضی اللہ عنہا کاولیمہ:

فَقَالَ:مَنْ كَانَ عِنْدَهُ شَیْءٌ فَلْیَجِئْ بِهِ،فُحِصَتِ الْأَرْضُ أَفَاحِیصَ، وَجِیءَ بِالْأَنْطَاعِ، فَوُضِعَتْ فِیهَا ثُمَّ جِیءَ بِالأَقِطِ وَالسَّمْنِ وَالتَّمْرِثُمَّ صَنَعَ حَیْسًاثُمَّ قَالَ لِی:آذِنْ مَنْ حَوْلَكَ، فَشَبِعَ النَّاسُ

دوسری صبح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ام المومنین صفیہ رضی اللہ عنہا کاولیمہ کیااور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے فرمایاجس کے پاس جوکچھ ہووہ لے آئے،زمین میں کئی گڑھے کھودے گئے اوراس میں چمڑے کادسترخوان بچھا دیاگیا، کوئی کھجورلایا،کوئی پنیرلایااورکوئی گھی لایااورپھران چیزوں کامالیدہ تیارکیاگیا،اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نےانس رضی اللہ عنہ سے کہا کہ آس پاس کے چندآدمی بلا لاؤ چنانچہ وہ تعمیل حکم میں چندصحابہ رضی اللہ عنہم کوولیمہ کی دعوت کھانے کے لئے بلالائے، سب لوگوں نے سیر ہو کر کھانا کھایا۔[84]

أَقَامَ عَلَى صَفِیَّةَ بِنْتِ حُیَیٍّ بِطَرِیقِ خَیْبَرَ ثَلاَثَةَ أَیَّامٍ

پھرخیبرکے راستے میں تین روزتک عروسی کے طورپران کے پاس قیام فرمایا۔[85]

ثُمَّ خَرَجْنَا إِلَى الْمَدِینَةِ فَرَأَیْتُ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یُحَوِّی لَهَا وَرَاءَهُ بِعَبَاءَةٍ ثُمَّ یَجْلِسُ عِنْدَ بَعِیرِهِ، فَیَضَعُ رُكْبَتَهُ وَتَضَعُ صَفِیَّةُ رِجْلَهَا عَلَى رُكْبَتِهِ حَتَّى تَرْكَبَ(دَفَعَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، وَدَفَعْنَا، قَالَ: فَعَثَرَتِ النَّاقَةُ الْعَضْبَاءُ، وَنَدَرَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، وَنَدَرَتْ، فَقَامَ فَسَتَرَهَا)فَاقْتَحَمَ أَبُو طَلْحَةَ، فَقَالَ: یَا رَسُولَ اللهِ جَعَلَنِی اللهُ فِدَاءَكَ،قَالَ: لا. عَلَیْكَ بِالْمَرْأَةِ،فَقَلَبَ ثَوْبًا عَلَى وَجْهِهِ، وَأَتَاهَا، فَأَلْقَاهُ عَلَیْهَاحَتَّى قَامَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَسَتَرَهَا،وَأَصْلَحَ لَهُمَا مَرْكَبَهُمَا، فَرَكِبَا وَاكْتَنَفْنَا رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ( قَالَ: فَلَیْسَ أَحَدٌ مِنَ النَّاسِ یَنْظُرُ إِلَیْهِ، وَلَا إِلَیْهَا، حَتَّى قَامَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَسَتَرَهَا، قَالَ: فَأَتَیْنَاهُ)

جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ روانہ ہونے لگے توآپ نے ام المومنین صفیہ رضی اللہ عنہا کواپنی عبا اوڑھ دی،اونٹنی پر بیٹھنے کے لئے اپنے پیچھے جگہ بنائی اورآپ نے ان کے اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے درمیان پردہ کھینچ دیاجب ام المومنین صفیہ رضی اللہ عنہا اونٹنی پرسوارہوتیں تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اونٹنی کے پاس بیٹھ جاتے اپناگھٹنا رکھ دیتے پھر ام المومنین صفیہ رضی اللہ عنہا اپناپیرآپ کے گھٹنے پررکھ کرسوارہوجاتیں ،مدینہ منورہ کے قریب پہنچ کرآپ نے اپنی اونٹنی عضباء کوتیزی کے ساتھ دوڑایا،تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے بھی اپنی سواریوں کو دوڑایا ، اتفاقاًآپ کی اونٹنی نے ٹھوکرکھائی اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم اورصفیہ رضی اللہ عنہا اس پرسے گرپڑے،ابوطلحہ رضی اللہ عنہ فوراًاپنی سواری سے اترے اورکہااے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم !اللہ مجھے آپ پرسے قربان کرے چوٹ تو نہیں آئی،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایانہیں ،پہلے خاتون کوسنبھالو، ابوطلحہ رضی اللہ عنہ اپنے منہ پرکپڑاڈال کرصفیہ رضی اللہ عنہا کی طرف گئے اوروہ کپڑاان پرڈال دیا،اتنے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی جلدی سے کھڑے ہوگئے اورصفیہ رضی اللہ عنہا پرپردہ تان دیا ،اس کے بعددونوں حضرات کی سواری درست کی جب آپ پالان اونٹنی پرسوارہوگئے توصحابہ کرام رضی اللہ عنہم آپ کے چاروں طرف جمع ہوگئے، اس سے پہلے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے ادبا ًآپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اورصفیہ رضی اللہ عنہا کی طرف نظرنہیں کی کیونکہ نظر پڑنے سے پہلے ہی آپ نے صفیہ کو پردے میں کر لیا تھاپھرآپ ان کے ساتھ آگے روانہ ہوئے۔[86]

خط کشیدہ الفاظ صحیح مسلم میں ہیں ،ابوطلحہ کی گفتگوصحیح مسلم میں نہیں ہے)

کیونکہ وہ اپنی قوم کی ایک معززعورت تھیں اس لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کابے حدعزت واحترام کرتے اورملاطفت سے پیش آتے تھے ، اور دوسری بیویوں کے درمیان برابری کادرجہ دیتے تھے

عَنْ أَنَسٍ، قَالَ: بَلَغَ صَفِیَّةَ أَنَّ حَفْصَةَ، قَالَتْ: بِنْتُ یَهُودِیٍّ، فَبَكَتْ، فَدَخَلَ عَلَیْهَا النَّبِیُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَهِیَ تَبْكِی، فَقَالَ: مَا یُبْكِیكِ؟ فَقَالَتْ: قَالَتْ لِی حَفْصَةُ: إِنِّی بِنْتُ یَهُودِیٍّ، فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: وَإِنَّكِ لاَبْنَةُ نَبِیٍّ، وَإِنَّ عَمَّكِ لَنَبِیٌّ، وَإِنَّكِ لَتَحْتَ نَبِیٍّ

انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ام المومنین صفیہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دوسری بیویوں سے ملتی تووہ مجھ پرفخرکااظہارکرتیں اوراے یہودی کی بیٹی کہہ کرمخاطب ہوتیں ،ایک دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس آئے تومیں رورہی تھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اورمیں رورہی تھی آپ نے دریافت فرمایاتم کیوں رورہی ہو؟میں نے جواب دیاکہ آپ کی بیویاں مجھ پرفخرکااظہارکرتیں ہیں اورمجھے یہودی کی بیٹی کہہ کرپکارتیں ہیں ،یہ سن کررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بہت غصہ آیااورآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجب تجھے وہ یہ بات کہیں یاتجھ پرفخرکااظہارکریں توانہیں کہناکہ ہارون علیہ السلام میراباپ ہے اورموسیٰ علیہ السلام میراچچاہے محمد صلی اللہ علیہ وسلم میرے شوہرہیں ۔[87]

یزدگردکی تین بیٹیوں پرتبصرہ،ایک ضعیف روایت:

ایک روایت ہے کہ جب ایران فتح ہوااوردوسری بہت سی ایرانی عورتوں کے ساتھ یزدگردکسریٰ کی تین بیٹیاں بھی مدینہ لائیں گئیں تو خلیفہ دوم سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے سیدنا علی علیہ السلام کے مشورہ پر یزدگردکسریٰ کی تین بیٹویوں کی قیمت ڈالی گئی اورسیدناعلی رضی اللہ عنہ نے انہیں خریدکرآزادفرمادیااوران کی تکریم ودلجوئی کے لئے ایک کی حسین رضی اللہ عنہ سےدوسری کی محمدبن ابی بکرسے اورتیسری کی عبداللہ بن عمرسے شادی کردی اس شادی سے انہیں بڑی سعادت حاصل ہوئی ، حسین کے ہاں ان کے بیٹے علی پیداہوئے جن کالقب زین العابدین ہے ، علی بن حسین کے بعد ہاشمی شجرہ کی تمام شاخوں کوکسریٰ کی بیٹی نے جنم دیا۔

فاجتمعوا على یزدجرد بن شهریار بن كسرى ابرویز، فملكوه علیهم، وهو یومئذ غلام ابن ست عشرة سنة

کسریٰ ایران شہریارکے بعداسکابیٹایزدگردتیرہ ہجری میں سولہ سال کی عمرمیں تخت نشین ہوا۔[88]

اسی سال خلیفہ دوئم سیدنا عمرفاروق رضی اللہ عنہ نے خلافت سنبھالی اور اس کے دوسال بعدمحرم چودہ ہجری میں جب مجاہدین اسلام ایران کے شہرقادسیہ پہنچے،اس وقت یزدگردکی عمراٹھارہ سال کی تھی،

فلما فتحها المسلمون أجمع یزدجرد بْن شهریار ملك فارس عَلَى الهرب فدلى من أبیض المدائن فی زبیل مضى إِلَى حلوان

جب مسلمانوں نے قادسیة فتح کیا تو فارس کے بادشاہ یزدگردمقابلہ کرنے کے بجائے مدائن چھوڑ کر حلوان پہنچ گیا۔[89]

سولہ ہجری میں مدائن فتح ہوااور مجاہدین یزدگرد کے پیچھے پیچھے حلوان کی طرف روانہ ہوئے،جب یزدگردکومجاہدین اسلام کے تعاقب کی خبرہوئی تووہ اپنے اہل وعیال کے ہمراہ خانقان،قم اورقاشان بھاگتاپھرا،سترہ ہجری میں فارس فتح ہواآخر بیانوے ہجری میں جب اس کی عمربتیس سال کی تھی وہ خراسان پہنچا،عبداللہ بن عامر رضی اللہ عنہ اموی نے خراسان کوبھی فتح کرلیا،آخرتیس ہجری میں خلیفہ سوئم سیدناعثمان غنی رضی اللہ عنہ کے عہدمیں اس کاخاتمہ ہوگیا،دوسرے معنوں میں اسلام لشکرکو کسی مقام پرشاہی خاندان پرتسلط حاصل نہ سکا۔

x آخریزدگردنے کب شادی کی اورکب اس کی جوان لڑکی پیداہوگئی،اورکب وہ گرفتارکرکے مدینہ منورہ لائی گئیں ۔

جب سترہ ہجری میں فارس فتح ہوااس وقت حسین بن علی رضی اللہ عنہ کی عمردس سال کی تھی،کیاان کی نابالغی میں ان کانکاح کردیاگیاتھا۔

xاس دورمیں لشکرکے ساتھ زخمیوں کی مرہم پٹی،دیکھ بھال اورامراء کی عیاشی کے لئے کچھ عورتیں ضرورساتھ ہوتی تھیں مگران لشکروں میں مریضوں ،زخمیوں کی خدمت یاامراء کی عیاشی کے لئے شہزادیاں ساتھ نہیں ہوتی تھیں ۔

xیزدگردکی اولادمیں سے خواہ وہ اس کی پوتی ہویانواسی ایک لڑکی کاپتہ چلتاہے جس کانام شریں دخت تھا،یہ خلافت بنی امیہ کے دورمیں ولیدبن عبدالملک بن مروان کی خلافت کے زمانے میں ترکستان سے گرفتارہوکرآئی اورخلیفہ ولیدبن عبدالملک کے حرم میں داخل ہوئی،جس سے ولیدکابیٹایزیدبن ولیدبن عبدالملک بن مروان پیداہوا،جو ایک سوسترہ ہجری میں خلیفہ ہوا،شریں دخت کے علاوہ کوئی اور ایرانی لڑکی کسی اموی کے حرم میں نہیں رہی ،علامہ ابن حزم نے جمہرة الانساب میں اس کی وضاحت کی ہے۔

xامام زین العابدین کی والدہ کانام سلافہ تھاجوایک باندی تھیں ،ابن حزم نے جمہرة الانساب میں ایک قول نقل کیاہے کہ عبداللہ رضی اللہ عنہ بن ابی سرح اموی نے جب سیدناعثمان غنی رضی اللہ عنہ کے عہدمیں افریقہ پرحملہ کیاتویہ سوڈان سے گرفتارہوکرآئیں تھیں ،اس لئے کوئی انہیں بربری اورکوئی سودانی قراردیتاہےلیکن نسلا ًیہ سندھی تھیں ۔

xایک روایت بحارالانوارسے پیش کی جاتی ہے کہ یہ سیدناعثمان غنی رضی اللہ عنہ کے عہدخلافت میں عرب آئی تھیں ، اس روایت کے راوی محمدبن یحیٰ صولی اورعون بن محمدالکندی ہیں ،جن کاتذکرہ شیعہ کتب رجال میں کہیں نہیں ملتا،عون بن محمد مورخ تھے ،

عون بن محمد الكندی اخباری ما حدث عنه سوى الصولی

ان سے سوائے محمدبن یحیٰ صولی کے اورکسی نے روایت نہیں لی۔[90]

کتب اہل سنت میں اس کاتذکرہ اس طرح ہے

أبو أحمد بن أبی العشار یقول: أبو أحمد العسكری یكذب على الصولی مثل ما كان الصولی یكذب على الغلابی مثل ما كان الغلابی یكذب على سائر الناس

ابواحمدبن عشاء کے ذریعہ یہ خبرملی ہے کہ ابواحمدعسکری کی طرف غلط روایات منسوب کرتاتھا،جس طرح محمدبن یحی ٰ صولی خودغلابی کی طرف اغلاط کونسبت دیتاتھا اورجس طرح غلابی تمام محدثین کی طرف خودغلط روایتیں بیان کرتاتھا۔[91]

xاصل میں یہ روایت زمخشری جس کانام محمودبن عمراورلقب جاء اللہ تھانے ربیع الابرارمیں لکھی ہے،ابن طولون نے امام زین العابدین کے حالات میں یہ روایت اس کے حوالہ سے نقل کردی لیکن یہ محض غلط ہے۔

xزمخشری کے علاوہ طبری،ابن الاثیر،یعقوبی،بلاذری اورابن قتیبہ وغیرہ کسی نے اس واقعہ کونہیں لکھا۔

نمازفجرکافوت ہوجانا:

خیبرسے واپسی میں ایک رات آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سفرجاری رکھا آخرشب مدینہ منورہ کے قریب ایک وادی میں پہنچ کر آپ آرام کے لئے اترپڑے

مَنْ رَجُلٌ یَحْفَظُ عَلَیْنَا الْفَجْرَ لَعَلَّنَا نَنَامُ؟ قَالَ بِلَالٌ: أَنَا یَا رَسُولَ اللهِ أَحْفَظُهُ عَلَیْكَ،فَنَزَلَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، وَنَزَلَ النَّاسُ فَنَامُواوَقَامَ بِلَالٌ یُصَلِّی، فَصَلَّى مَا شَاءَ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ أَنْ یُصَلِّیَ،ثُمَّ اسْتَنَدَ إلَى بَعِیرِهِ، وَاسْتَقْبَلَ الْفَجْرَ یَرْمُقُهُ، فَغَلَبَتْهُ عَیْنُهُ، فَنَامَ، فَلَمْ یَسْتَیْقِظْ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، وَلَا بِلَالٌ، وَلَا أَحَدٌ مِنْ أَصْحَابِهِ، حَتَّى ضَرَبَتْهُمُ الشَّمْسُ، فَكَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَوَّلَهُمُ اسْتِیقَاظًا، فَفَزِعَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: أَیْ بِلَالُ

اورفرمایا تم میں سے کون ہے جوہماری حفاظت کرے اورہمیں فجرمیں بیدارکردےشایدہماری آنکھ لگ جائے،بلال رضی اللہ عنہ نے عرض کیااے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم میں آپ کوفجرکے وقت بیدارکردوں گا،چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور دوسرے صحابہ بے فکرہوکرسوگئےجبکہ بلال رضی اللہ عنہ نوافل پڑھنے کھڑے ہوگئے اورجب تک اللہ نے چاہانمازپڑھتے رہے ، پھربلال رضی اللہ عنہ مشرق کی طرف منہ کرکے صبح کے انتظارمیں اپنی کاٹھی سے سہارالگاکربیٹھ گئے اورنیندان پرغالب ہوگئی، پھرنہ تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی جاگے اورنہ بلال رضی اللہ عنہ اورنہ آپ کے اصحاب میں سے کوئی اور شخص،جب یہاں تک کہ سورج کی شعاعیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم پرپڑیں تو سب سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گھبراکربیدارہوئے اورصحابہ رضی اللہ عنہم کوجگایا اوربلال رضی اللہ عنہ سے فرمایااے بلال!یہ تم نے ہم سے کیاکیا؟

فَقَالَ بِلَالُ: أَخَذَ بِنَفْسِی الَّذِی أَخَذَ بِأَبِی أَنْتَ وَأُمِّی یَا رَسُولَ اللهِ – بِنَفْسِكَ، قَالَ: صَدَقْتُ،ثُمَّ قَالَ: هَذَا وَادٍ بِهِ شَیْطَانٌ،فَلَمَّا جَاوَزَهُ أَمَرَهُمْ أَنْ یَنْزِلُوا، وَأَنْ یَتَوَضَّئُواثُمَّ صَلَّى سُنَّةَ الْفَجْرِ، ثُمَّ أَمَرَ بلالا فَأَقَامَ الصَّلَاةَ، وَصَلَّى بِالنَّاسِ، ثُمَّ انْصَرَفَ إِلَیْهِمْ، وَقَدْ رَأَى مِنْ فَزَعِهِمْ، وَقَالَ: یَا أَیُّهَا النَّاسُ إِنَّ اللهَ قَبَضَ أَرْوَاحَنَا وَلَوْ شَاءَ لَرَدَّهَا إِلَیْنَا فِی حِینٍ غَیْرِ هَذَا، فَإِذَا رَقَدَ أَحَدُكُمْ عَنِ الصَّلَاةِ أَوْ نَسِیَهَا، ثُمَّ فَزِعَ إِلَیْهَا فَلْیُصَلِّهَا كَمَا كَانَ یُصَلِّیهَا فِی وَقْتِهَافَإِنَّ اللهَ تَبَارَكَ وَتَعَالَى یَقُولُ أَقِمِ الصَّلاةَ لِذِكْرِی

بلال رضی اللہ عنہ نے عرض کیااے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم !میرے ماں باپ آپ پرقربان ،میری روح بھی اس نے قبض کی جس نے آپ کی روح قبض کی تھی،فرمایاتم نے سچ کہا ، پھر آپ اس وادی سے کوچ کرنے کاحکم دیاکہ یہاں شیطان ہےیہاں سے نکل کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اورصحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے وضوکیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فجرکی سنتیں اداکیں اوربلال رضی اللہ عنہ کو اذان کاحکم دیابلال رضی اللہ عنہ نے تکبیرکہی اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سب کونمازپڑھائی،سلام کے بعدحاضرین کی طرف متوجہ ہوکرفرمایااے لوگو!اللہ نے ہماری ارواح قبض فرمائیں ، اگرچاہتاتواس وقت کے علاوہ کسی اوروقت انہیں لوٹاتااس لئے جب تم میں سے کوئی نمازکے وقت سوجائے یابھول جائے تواسے چاہیے کہ اس طرح پڑھے جیسے وقت پر پڑھتا تھا،کیونکہ اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتاہے ’’ میرے ذکرکے لئے نمازقائم کرو۔‘‘[92]

بعض کہتے ہیں کہ یہ واقعہ کسی اورسفرمیں پیش آیاتھا۔

عَنْ عِمْرَانَ، قَالَ:كُنَّا فِی سَفَرٍ مَعَ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، وَإِنَّا أَسْرَیْنَا حَتَّى كُنَّا فِی آخِرِ اللیْلِ، وَقَعْنَا وَقْعَةً، وَلاَ وَقْعَةَ أَحْلَى عِنْدَ المُسَافِرِ مِنْهَا، فَمَا أَیْقَظَنَا إِلَّا حَرُّ الشَّمْسِ، وَكَانَ أَوَّلَ مَنِ اسْتَیْقَظَ فُلاَنٌ، ثُمَّ فُلاَنٌ، ثُمَّ فُلاَنٌ – یُسَمِّیهِمْ أَبُو رَجَاءٍ فَنَسِیَ عَوْفٌ ثُمَّ عُمَرُ بْنُ الخَطَّابِ الرَّابِعُ ، وَكَانَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ إِذَا نَامَ لَمْ یُوقَظْ حَتَّى یَكُونَ هُوَ یَسْتَیْقِظُ، لِأَنَّا لاَ نَدْرِی مَا یَحْدُثُ لَهُ فِی نَوْمِهِ، فَلَمَّا اسْتَیْقَظَ عُمَرُ وَرَأَى مَا أَصَابَ النَّاسَ وَكَانَ رَجُلًا جَلِیدًا، فَكَبَّرَ وَرَفَعَ صَوْتَهُ بِالتَّكْبِیرِ، فَمَا زَالَ یُكَبِّرُ وَیَرْفَعُ صَوْتَهُ بِالتَّكْبِیرِ حَتَّى اسْتَیْقَظَ بِصَوْتِهِ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ،

عمر ان رضی اللہ عنہ سے مروی ہےہم ایک سفر میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ تھے، ہم رات کو چلتے رہے، جب اخیر رات ہوئی تو اس وقت میں ہم ایک جگہ ٹھیرگئے اور (آپ جانتے ہیں ) مسافر کے نزدیک اس سے زیادہ کوئی نیند شیریں نہیں ہوتی، ابھی ہم تھوڑا وقت سوئے تھے کہ ہمیں آفتاب کی گرمی نے بیدار کر دیا، سب سے پہلے جو بیدار ہوا، فلاں شخص تھا، پھر فلاں شخص، پھر فلاں شخص، ابورجاء نے ان سب کے نام لیے تھے، مگر عوف بھول گئے، پھرسیدنا عمر رضی اللہ عنہ بن خطاب جاگنے ہونے والوں میں چوتھے شخص تھےاور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب آرام فرماتےتو آپ کو کوئی بیدار نہ کرتا تھاجب تک کہ آپ خود بیدار نہ ہوجائیں کیونکہ ہم نہیں سمجھ سکتے تھے کہ آپ کے لئے آپ کے خواب میں کیا امور پیش آنے والے ہیں ،مگر جب سیدنا عمر بیدار ہوئے، انہوں نے وہ حالت دیکھی، جو لوگوں پر طاری تھی اور وہ سخت مزاج آدمی تھےتو انہوں نے تکبیر کہی اور تکبیر کے ساتھ اپنے آواز بلند کرتے رہےیہاں تک کہ ان کی آواز کے وجہ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بیدار ہوئے

فَلَمَّا اسْتَیْقَظَ شَكَوْا إِلَیْهِ الَّذِی أَصَابَهُمْ، قَالَ:لاَ ضَیْرَ أَوْ لاَ یَضِیرُ ارْتَحِلُوا، فَارْتَحَلَ، فَسَارَ غَیْرَ بَعِیدٍ، ثُمَّ نَزَلَ فَدَعَا بِالوَضُوءِ، فَتَوَضَّأَ، وَنُودِیَ بِالصَّلاَةِ، فَصَلَّى بِالنَّاسِ، فَلَمَّا انْفَتَلَ مِنْ صَلاَتِهِ إِذَا هُوَ بِرَجُلٍ مُعْتَزِلٍ لَمْ یُصَلِّ مَعَ القَوْمِ، قَالَ:مَا مَنَعَكَ یَا فُلاَنُ أَنْ تُصَلِّیَ مَعَ القَوْمِ؟ قَالَ: أَصَابَتْنِی جَنَابَةٌ وَلاَ مَاءَ، قَالَ:عَلَیْكَ بِالصَّعِیدِ، فَإِنَّهُ یَكْفِیكَ،

جب آپ بیدار ہوئے تو جو مصیبت لوگوں پر گذری تھی اس کی شکایت آپ سے کی گئی، آپ نے فرمایا کچھ نقصان نہیں ، یا (یہ فرمایا کہ) کچھ نقصان نہ کرے گا،چلو پھر چلے اور تھوڑی دور جا کر اتر پڑے ، وضو کا پانی منگوایا پھر وضو کیا اور نماز کے لئے اذان کہی گئی آپ نے لوگوں کو نماز پڑھائی،جب آپ نماز سے فارغ ہوئے، یکایک ایک ایسے شخص پر آپ کی نظر پڑی جو گوشہ میں بیٹھا ہوا تھا، لوگوں کے ساتھ اس نے نماز نہیں پڑھی تھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے فلاں تجھے لوگوں کے ساتھ نماز پڑھنے سے کیا چیز مانع آگئی؟ اس نے عرض کیا کہ مجھے غسل کی ضرورت ہوگئی تھی اور پانی نہ تھا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تیرے لئے مٹی سے تیمم کرنا کافی ہے،

ثُمَّ سَارَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَاشْتَكَى إِلَیْهِ النَّاسُ مِنَ العَطَشِ، فَنَزَلَ فَدَعَا فُلاَنًا كَانَ یُسَمِّیهِ أَبُو رَجَاءٍ نَسِیَهُ عَوْفٌ وَدَعَا عَلِیًّا فَقَالَ: اذْهَبَا، فَابْتَغِیَا المَاءَ فَانْطَلَقَا،فَتَلَقَّیَا امْرَأَةً بَیْنَ مَزَادَتَیْنِ أَوْ سَطِیحَتَیْنِ مِنْ مَاءٍ عَلَى بَعِیرٍ لَهَا فَقَالاَ لَهَا: أَیْنَ المَاءُ؟ قَالَتْ: عَهْدِی بِالْمَاءِ أَمْسِ هَذِهِ السَّاعَةَ وَنَفَرُنَا خُلُوفٌ،قَالاَ لَهَا: انْطَلِقِی، إِذًا قَالَتْ: إِلَى أَیْنَ؟ قَالاَ: إِلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، قَالَتْ: الَّذِی یُقَالُ لَهُ الصَّابِئُ؟ قَالاَ: هُوَ الَّذِی تَعْنِینَ، فَانْطَلِقِی، فَجَاءَا بِهَا إِلَى النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، وَحَدَّثَاهُ الحَدِیثَ،

پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم چلے تو لوگوں نے آپ سے پیاس کی شکایت کی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اتر پڑے اور فلاں شخص کو بلایا، ابورجاء نے اس کا نام لیا تھا، مگر عوف بھول گئے اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو بلایا فرمایا کہ دونوں جاؤ اور پانی تلاش کرویہ دونوں چلے تو ایک عورت ملی جو پانی کے دو تھیلے یا دو مشکیزے اونٹ پر دونوں طرف لٹکائے اور خود درمیان میں بیٹھی (ہوئی چلی جا رہی) تھی، ان دونوں نے اس سے پوچھا کہ پانی کہاں ہے؟ اس نے کہا کہ کل اس وقت میں پانی پر تھی اور ہمارے مرد گم ہو گئے، ان دونوں نے اس سے کہا کہ (اچھا تو) اب چل، وہ بولی کہاں تک؟انہوں نے کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس، اس نے کہا وہی شخص جسے بے دین کہا جاتا ہے؟ انہوں نے کہا ہاں ! وہی ہیں جن کو تم یہ کہتی ہو تو چلو، پس وہ دونوں اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لائے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ساری کیفیت بیان کی،

قَالَ: فَاسْتَنْزَلُوهَا عَنْ بَعِیرِهَا، وَدَعَا النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بِإِنَاءٍ، فَفَرَّغَ فِیهِ مِنْ أَفْوَاهِ المَزَادَتَیْنِ أَوْ سَطِیحَتَیْنِ وَأَوْكَأَ أَفْوَاهَهُمَا وَأَطْلَقَ العَزَالِیَ، وَنُودِیَ فِی النَّاسِ اسْقُوا وَاسْتَقُوا، فَسَقَى مَنْ شَاءَ وَاسْتَقَى مَنْ شَاءَ،وَكَانَ آخِرُ ذَاكَ أَنْ أَعْطَى الَّذِی أَصَابَتْهُ الجَنَابَةُ إِنَاءً مِنْ مَاءٍ،قَالَ:اذْهَبْ فَأَفْرِغْهُ عَلَیْكَ، وَهِیَ قَائِمَةٌ تَنْظُرُ إِلَى مَا یُفْعَلُ بِمَائِهَا وَایْمُ اللهِ لَقَدْ أُقْلِعَ عَنْهَا، وَإِنَّهُ لَیُخَیَّلُ إِلَیْنَا أَنَّهَا أَشَدُّ مِلْأَةً مِنْهَا حِینَ ابْتَدَأَ فِیهَا

عمران رضی اللہ عنہ کہتے ہیں پھر لوگوں نے اس کو اونٹ سے اتارا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک برتن منگوایا، اور دونوں تھیلوں یا دونوں مشکیزوں کے منہ اس میں کھول دئیے، اور اس کے بعد ان کے بڑے منہ کو بند کر دیا اور ان کے چھوٹے منہ کو کھول دیا، لوگوں میں آواز دے دی گئی کہ (چلو) پانی پیو اور جانوروں کو بھی پلالو، پس جس نے چاہا خود پیا اور جس نے چاہا پلایا، آخر میں یہ ہوا کہ جس شخص کو غسل کی ضرورت ہوگئی تھی اس کو پانی کا ایک برتن دیا گیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجا! اور اس کو اپنے اوپر ڈال لے،وہ عورت کھڑی ہوئی دیکھ رہی تھی کہ اس کے پانی کے ساتھ کیا کیا جارہا ہے،اللہ کی قسم! (جب پانی لینا) اس کے تھیلے سے موقوف کیا گیا تو یہ حال تھا کہ ہمارے خیال میں وہ اب اس وقت سے بھی زیادہ بھرا ہوا تھا جب آپ نے اس سے پانی لینا شروع کیا تھا،

فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:اجْمَعُوا لَهَافَجَمَعُوا لَهَا مِنْ بَیْنِ عَجْوَةٍ وَدَقِیقَةٍ وَسَوِیقَةٍ حَتَّى جَمَعُوا لَهَا طَعَامًا، فَجَعَلُوهَا فِی ثَوْبٍ وَحَمَلُوهَا عَلَى بَعِیرِهَا وَوَضَعُوا الثَّوْبَ بَیْنَ یَدَیْهَا،قَالَ لَهَا:تَعْلَمِینَ، مَا رَزِئْنَا مِنْ مَائِكِ شَیْئًا، وَلَكِنَّ اللهَ هُوَ الَّذِی أَسْقَانَا، فَأَتَتْ أَهْلَهَا وَقَدِ احْتَبَسَتْ عَنْهُمْ، قَالُوا: مَا حَبَسَكِ یَا فُلاَنَةُ، قَالَتْ: العَجَبُ لَقِیَنِی رَجُلاَنِ، فَذَهَبَا بِی إِلَى هَذَا الَّذِی یُقَالُ لَهُ الصَّابِئُ فَفَعَلَ كَذَا وَكَذَا فَوَاللهِ إِنَّهُ لَأَسْحَرُ النَّاسِ مِنْ بَیْنِ هَذِهِ وَهَذِهِ، وَقَالَتْ: بِإِصْبَعَیْهَا الوُسْطَى وَالسَّبَّابَةِ، فَرَفَعَتْهُمَا إِلَى السَّمَاءِ تَعْنِی السَّمَاءَ وَالأَرْضَ أَوْ إِنَّهُ لَرَسُولُ اللهِ حَقًّا،

پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کچھ اس کے لیے جمع کر دو، لوگوں نے اس کیلئے عجوہ دقیق اور سویق وغیرہ جمع کر دیا جو ایک اچھی مقدار میں جمع ہو گیا اور اس کو ایک کپڑے میں باندھ دیا اور اس عورت کو اس کے اونٹ پر سوار کر کے کپڑا اس کے سامنے رکھ دیا، پھر آپ نے اس سے فرمایا کہ تم جانتی ہو کہ ہم نے تمہارے پانی سے کچھ بھی کم نہیں کیا لیکن اللہ ہی نے ہمیں پلایا،اب عورت اپنے گھر والوں کے پاس آئی چونکہ اس کو واپس ہونے میں تاخیر ہوگئی تھی تو انہوں نے کہا کہ اے فلانہ تجھے کس نے روک لیا؟ اس نے کہا کہ تعجب کی بات ہے مجھے دو آدمی ملے اور وہ مجھے اس شخص کے پاس لے گئے جسے بے دین کہا جاتا ہے اس نے ایسا ایسا کام کیا، اللہ کی قسم! وہ یقیناً اس کے اور اس کے درمیان میں سب سے بڑھ کر جادوگر ہے اور اس نے اپنی دونوں انگلیوں یعنی انگشت شہادت اور بیچ کی انگلی سے اشارہ کیا پھر ان کو آسمان کی طرف اٹھایا، مراد اس کی آسمان و زمین تھے) یا وہ سچ مچ اللہ کا رسول ہے،

فَكَانَ المُسْلِمُونَ بَعْدَ ذَلِكَ یُغِیرُونَ عَلَى مَنْ حَوْلَهَا مِنَ المُشْرِكِینَ، وَلاَ یُصِیبُونَ الصِّرْمَ الَّذِی هِیَ مِنْهُ، فَقَالَتْ: یَوْمًا لِقَوْمِهَا مَا أُرَى أَنَّ هَؤُلاَءِ القَوْمَ یَدْعُونَكُمْ عَمْدًا، فَهَلْ لَكُمْ فِی الإِسْلاَمِ؟ فَأَطَاعُوهَا، فَدَخَلُوا فِی الإِسْلاَمِ

اس کے بعد مسلمان ان کے آس پاس کے مشرکوں کو غارت کرتے تھے اور ان مکانات کو جن میں وہ تھی نہ چھوتے تھے،چنانچہ اس نے ایک دن اپنی قوم سے کہا کہ میں سمجھتی ہوں کہ بیشک یہ لوگ عمدا ًتمہیں چھوڑ دیتے ہیں تو اب بھی تمہیں اسلام میں کچھ پس و پیش ہے؟تو انہوں نے اس کی بات مان لی اور اسلام میں داخل ہو گئے۔[93]

مدینہ منورہ کے قریب تشریف آوری:

عَنْ أَبِی سَعِیدٍ، قَالَ: لَمْ نَعْدُ أَنْ فُتِحَتْ خَیْبَرُ فَوَقَعْنَا أَصْحَابَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فِی تِلْكَ الْبَقْلَةِ الثُّومِ وَالنَّاسُ جِیَاعٌ، فَأَكَلْنَا مِنْهَا أَكْلًا شَدِیدًاثُمَّ رُحْنَا إِلَى الْمَسْجِدِ، فَوَجَدَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ الرِّیحَ فَقَالَ:مَنْ أَكَلَ مِنْ هَذِهِ الشَّجَرَةِ الْخَبِیثَةِ شَیْئًا، فَلَا یَقْرَبَنَّا فِی الْمَسْجِدِ، فَقَالَ النَّاسُ: حُرِّمَتْ، حُرِّمَتْ،فَبَلَغَ ذَاكَ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ:أَیُّهَا النَّاسُ إِنَّهُ لَیْسَ بِی تَحْرِیمُ مَا أَحَلَّ اللهُ لِی، وَلَكِنَّهَا شَجَرَةٌ أَكْرَهُ رِیحَهَا

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ اورابوسعیدخدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہےراستہ میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کاگزرلہسن وپیازکے ایک کھیت سے ہوا،صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بھوکے تھے بہت سے لوگوں نے لہسن اورپیازکھائی ، پھرلوگ مسجدمیں آئے تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوبومعلوم ہوئی توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجوشخص اس ناپاک درخت(لہسن وپیاز) میں سے کھائے وہ مسجدمیں ہمارے پاس نہ پھٹکے ، لوگ بولے لہسن حرام ہوگیا،حرام ہوگیا،یہ خبرنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کوپہنچی توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااے لوگو!میں وہ چیزحرام نہیں کرتاجس کواللہ تعالیٰ نے میرے لیے حلال کیاہے لیکن لہسن کی بومجھے بری معلوم ہوتی ہے۔[94]

عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ:فَسِرْنَا حَتَّى إِذَا أَشْرَفْنَا عَلَى المَدِینَةِ نَظَرَ إِلَى أُحُدٍ فَقَالَ:هَذَا جَبَلٌ یُحِبُّنَا وَنُحِبُّهُ، ثُمَّ نَظَرَ إِلَى المَدِینَةِ فَقَالَ:اللهُمَّ إِنِّی أُحَرِّمُ مَا بَیْنَ لاَبَتَیْهَا بِمِثْلِ مَا حَرَّمَ إِبْرَاهِیمُ مَكَّةَ، اللهُمَّ بَارِكْ لَهُمْ فِی مُدِّهِمْ وَصَاعِهِمْ

انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ کے نزدیک پہنچے توآپ نے احدکودیکھ کرفرمایایہ پہاڑہم سے محبت کرتاہے اورہم اس سے محبت کرتے ہیں ،پھرمدینہ طیبہ پرنظرڈال کرفرمایاالٰہی!(توگواہ رہ ،تیرے حکم سے)میں اس کے دونوں کناروں کے درمیان واقع ہونے والے علاقوں کوحرم مقررکرتاہوں جس طرح ابراہیم علیہ السلام نے مکہ مکرمہ کوحرم مقرر فرمایاتھا،اےاللہ!اہل مدینہ کے مداورصاع میں برکت نازل فرما۔[95]

عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ: فَسَارُوا حَتَّى إِذَا كَانُوا بِظَهْرِ المَدِینَةِ أَوْ قَالَ أَشْرَفُوا عَلَى المَدِینَةِ قَالَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: آیِبُونَ تَائِبُونَ عَابِدُونَ سَاجِدُونَ لِرَبِّنَا حَامِدُونَ،فَلَمْ یَزَلْ یَقُولُهَا حَتَّى دَخَلَ المَدِینَةَ

انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہےجب آپ مدینہ منورہ کے سامنے پہنچ گئے یاراوی نے یہ کہاکہ جب مدینہ منورہ دکھائی دینے لگاتونبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دعاپڑھی’’ ہم واپس آرہے ہیں ،اپنے گناہوں سے توبہ کرتے ہیں ،اپنے رب کی عبادت کرتے ہیں اوراسی کی حمدوثنابیان کرتے ہیں ۔‘‘شہرمیں داخل ہونے تک یہی کلمات وردزبان رہے [96]

انصارکوباغات کی واپسی :

عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: لَمَّا قَدِمَ المُهَاجِرُونَ المَدِینَةَ مِنْ مَكَّةَ، وَلَیْسَ بِأَیْدِیهِمْ – یَعْنِی شَیْئًا – وَكَانَتِ الأَنْصَارُ أَهْلَ الأَرْضِ وَالعَقَارِ، فَقَاسَمَهُمُ الأَنْصَارُ عَلَى أَنْ یُعْطُوهُمْ ثِمَارَ أَمْوَالِهِمْ كُلَّ عَامٍ، وَیَكْفُوهُمُ العَمَلَ وَالمَئُونَةَ،لَمَّا فَرَغَ مِنْ قَتْلِ أَهْلِ خَیْبَرَ، فَانْصَرَفَ إِلَى المَدِینَةِ رَدَّ المُهَاجِرُونَ إِلَى الأَنْصَارِ مَنَائِحَهُمُ الَّتِی كَانُوا مَنَحُوهُمْ مِنْ ثِمَارِهِمْ

انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہےہجرت کے بعدجب مہاجرین مدینہ منورہ آئے توان کے پاس کچھ بھی نہ تھا،انصارزمینوں اورباغات کے مالک تھے،انصارنے مہاجرین سے یہ معاملہ کرلیاکہ وہ اپنے باغات میں سے انہیں ہرسال پھل دیاکریں گے اوراس کے بدلے مہاجرین ان کے باغات میں کام کیاکریں ،مگرخیبرکی فتح کے بعدمہاجرین اس اعانت وامدادسے مستغنیٰ ہوگئے،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب خیبرکے یہودیوں کی جنگ سے فارغ ہوئے اورمدینہ منورہ تشریف لائے تومہاجرین نے انصارکوان کے تحائف واپس کردیئے جوانہوں نے بھائی چارہ کے وقت سے انہیں پھلوں کی صورت میں دے رکھے تھے۔[97]

 أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: كَانَ الرَّجُلُ یَجْعَلُ لِلنَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ النَّخَلاَتِ، حَتَّى افْتَتَحَ قُرَیْظَةَ وَالنَّضِیرَ وَإِنَّ أَهْلِی أَمَرُونِی أَنْ آتِیَ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَأَسْأَلَهُ الَّذِی كَانُوا أَعْطَوْهُ أَوْ بَعْضَهُ،وَكَانَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَدْ أَعْطَاهُ أُمَّ أَیْمَنَ،قَالَ: فَسَأَلْتُ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَأَعْطَانِیهِنَّ، فَجَاءَتْ أُمُّ أَیْمَنَ ، فَجَعَلَتِ الثَّوْبَ فِی عُنُقِی، وَجَعَلَتْ تَقُولُ: كَلَّا وَاللهِ الَّذِی لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ، لَا یُعْطِیكَهُنَّ وَقَدْ أَعْطَانِیهِنَّ. أَوْ كَمَا قَالَتْ،فَقَالَ نَبِیُّ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:لَكِ كَذَا وَكَذَا وَتَقُولُ كَلَّا وَاللهِ. قَالَ: وَیَقُولُ:لَكِ كَذَا وَكَذَاقَالَ: حَتَّى أَعْطَاهَا، فَحَسِبْتُ أَنَّهُ قَالَ: عَشْرُ أَمْثَالِهَا، أَوْ قَالَ: قَرِیبًا مِنْ عَشْرَةِ أَمْثَالِهَا

انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بطورہدیہ اپنے باغ میں سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے چندکھجورکے درخت مقررکردیتے یہاں تک کہ بنو قریظہ اوربنونضیرکے قبائل فتح ہوگئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان ہدایاکوواپس کردیا،میرے گھرالوں نے بھی مجھے اس کھجورکوتمام کی تمام یااس کاکچھ حصہ لینے کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بھیجا،آپ نے وہ درخت اپنی دایہ ام ایمن (اسامہ بن زیدکی والدہ ) کو دے دیئے تھے،جب مہاجرین نے انصارکے سب درخت واپس کردیئے توام سلیم رضی اللہ عنہا نے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنے درخت طلب کیے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ام ایمن رضی اللہ عنہا سے فرمایاکہ ام سلیم رضی اللہ عنہا کے درخت واپس کردومگرام ایمن رضی اللہ عنہا نے درخت واپس کرنے سے انکار کر دیا، اتنے میں ام ایمن رضی اللہ عنہا بھی آگئیں اورمیری گردن میں کپڑاڈال کر کھینچنے لگیں اورکہاقطعاًنہیں اس ذات کی قسم!جس کے سواکوئی اورمعبودنہیں یہ پھل تمہیں نہیں ملیں گےیہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے عنایت فرماچکے ہیں ،یااسی طرح کے الفاظ انہوں نے بیان کیے،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ام ایمن کوناراض نہیں کرناچاہتے تھے اس لئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااے ام ایمن رضی اللہ عنہا ! تم یہ درخت واپس کردواوران کے بدلہ میں اتنے درخت لے لو،لیکن وہ اب بھی یہی کہے جارہی تھیں کہ قطعاًنہیں ، اللہ کی قسم ! یہاں تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں میراخیال ہے کہ انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیاکہ اس کادس گنادینے کاوعدہ فرمایا جب ام ایمن رضی اللہ عنہا راضی ہوئیں ۔[98]

ایک روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ان درختوں کے بدلے اپنے مخصوص باغ سے درخت دیئے۔

حبشہ سے دوسراوفد:

حبشہ کے جن عیسائیوں نے اسلام قبول کرلیاتھا،ان میں سے بہتر(۷۲)آدمیوں کے ایک اوروفدنے چھ ہجری کے آخرمیں مدینہ منورہ کاعزم کیا،ان اصحاب کامقصدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کاشرف حاصل کرناتھا،اتفاق سے اسی زمانے میں جعفر رضی اللہ عنہ بن ابی طالب بھی مہاجرین کی ایک جماعت کے ساتھ حبشہ سے مدینہ منورہ آرہے تھےاہل حبشہ اسی جماعت کے ساتھ مدینہ پہنچے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت غزوہ خیبرکے لئے تشریف لے گئے تھے،جعفر رضی اللہ عنہ اورحبشہ سے ان کے ساتھ آنے والے مسلمانوں نے تو خیبرجاکربارگاہ رسالت میں شرف باریابی حاصل کیالیکن اہل حبشہ کاوفدمدینہ منورہ ہی میں رہا،رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم خیبرسے تشریف لائے تواہل حبشہ آپ کی زیارت سے شاد کام ہوئے ،اس وفدمیں یہ لوگ شامل تھےابراہہ رضی اللہ عنہ ،ادریس رضی اللہ عنہ ،اشرف حبشی،بحیرالحبشی،تمام رضی اللہ عنہ ،تمیم الحبشی رضی اللہ عنہ ،دریدالراہب رضی اللہ عنہ ،ذووجن رضی اللہ عنہ ،ذومخمر(شاہ حبشہ کے بھیتجے)ذومناحب رضی اللہ عنہ ،ذومہدم رضی اللہ عنہ ، عامر الشامی رضی اللہ عنہ ،نافع رضی اللہ عنہ ۔ان میں سے بعض اصحاب نے مدینہ ہی میں مستقل سکونت اختیارکرلی،مفسرین نے لکھاہے کہ اس وفدکے اہل کتاب صحابہ کے بارے میں یہ آیات نازل ہوئیں تاکہ اہل مکہ شرم محسوس کریں کہ ہم تواپنے گھرآئی ہونعمت کوٹھکرارہے ہیں حالانکہ دوردورکے لوگ اس کی خبرسن کرآرہے ہیں اوراس کی قدروقیمت پہچان کراس سے فائدہ اٹھارہے ہیں ۔

اَلَّذِیْنَ اٰتَیْنٰهُمُ الْكِتٰبَ مِنْ قَبْلِهٖ هُمْ بِهٖ یُؤْمِنُوْنَ۝۵۲ وَاِذَا یُتْلٰى عَلَیْهِمْ قَالُوْٓا اٰمَنَّا بِهٖٓ اِنَّهُ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّنَآ اِنَّا كُنَّا مِنْ قَبْلِهٖ مُسْلِـمِیْنَ۝۵۳ اُولٰۗىِٕكَ یُؤْتَوْنَ اَجْرَهُمْ مَّرَّتَیْنِ بِمَا صَبَرُوْا وَیَدْرَءُوْنَ بِالْحَسَنَةِ السَّیِّئَةَ وَمِمَّا رَزَقْنٰهُمْ یُنْفِقُوْنَ۝۵۴ [99]

ترجمہ:جن لوگوں کواس سے پہلے ہم نے کتاب دی تھی وہ اس(قرآن)پرایمان لاتے ہیں ،اورجب یہ ان کوسنایاجاتاہے تووہ کہتے ہیں کہ ہم اس پرایمان لائے یہ واقعی حق ہے ہمارے رب کی طرف سے ،ہم توپہلے ہی مسلم ہیں ،یہ وہ لوگ ہیں جنہیں ان کا اجر دوبار دیا جائے گا اس ثابت قدمی کے بدلے جو انہوں نے دکھائی، وہ برائی کو بھلائی سے دفع کرتے ہیں اور جو کچھ رزق ہم نے انہیں دیا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں ۔

بعض مفسرین سورہ المائدہ کی یہ آیتیں بھی ان اصحاب کے بارے میں نازل ہوئیں ۔

وَاِذَاسَمِعُوْا مَآ اُنْزِلَ اِلَى الرَّسُوْلِ تَرٰٓی اَعْیُنَهُمْ تَفِیْضُ مِنَ الدَّمْعِ مِمَّا عَرَفُوْا مِنَ الْحَـقِّ۝۰ۚ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَآ اٰمَنَّا فَاكْتُبْنَا مَعَ الشّٰهِدِیْنَ۝۸۳ وَمَا لَنَا لَا نُؤْمِنُ بِاللهِ وَمَا جَاۗءَنَا مِنَ الْحَقِّ۝۰ۙ وَنَطْمَعُ اَنْ یُّدْخِلَنَا رَبُّنَا مَعَ الْقَوْمِ الصّٰلِحِیْنَ۝۸۴ [100]

ترجمہ:جب وہ اس کلام کوسنتے ہیں جورسول پراتراہے توتم دیکھتے ہوکہ حق شناسی کے اثرسے ان کی آنکھیں آنسوؤں سے ترہوجاتی ہیں وہ بول اٹھتے ہیں کہ پروردگار!ہم ایمان لائے ،ہمارانام گواہی دینے والوں میں لکھ لے،اوروہ کہتے ہیں کہ آخرکیوں نہ ہم اللہ پرایمان لائیں اورجوحق ہمارے پاس آیاہے اسے کیوں نہ مان لیں جب کہ ہم اس با ت کی خواہش رکھتے ہیں کہ ہمارارب ہمیں صالح لوگوں میں شامل کرے۔ [101]

 فتح خیبرکے بعدمسجدنبوی کی دوسری مرتبہ تعمیر

ابن جریح ،جعفربن عمروسے راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجدکودومرتبہ تعمیرکیااول جب آپ ہجرت فرماکرمدینہ منورہ تشریف لائے ،اس وقت مسجد کا طول وعرض سوگز سے کم تھا،دوسرے فتح خیبرکے بعدسات ہجری میں مزیدزمین خرید کرمسجدکی ازسرے نوتعمیرفرمائی،جب آپ نے مسجدکی توسیع کاارادہ فرمایاتومسجدسے متصل زمین ایک عام انصاری کی تھی جسے حاصل کرناناگزیرتھا

فقال له رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: بعینها بعین فی الجنة ، فقال یارَسُولَ اللهِ لیس لی وعیالی غیرها، ولا أستطیع ذلك، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:مَنْ یَبْتَاعُ مِرْبَدَ بَنِی فُلَانٍ غَفَرَ اللهُ لَهُ ، فَابْتَعْتُهُ بِعِشْرِینَ أَلْفًا أَوْ خَمْسَةٍ وَعِشْرِینَ أَلْفًا فَأَتَیْتُ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَقُلْتُ: قَدِ ابْتَعْتُهُ، فَقَالَ:اجْعَلْهُ فِی مَسْجِدِنَا وَأَجْرُهُ لَكَ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس انصاری سے فرمایاکہ یہ زمین جنت کے ایک محل کے معاوضہ میں ہمارے ہاتھ فروخت کردو،اس نے عرض کیااے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !میں اپنی ناداری و غربت اورکثیر العیالی کی وجہ سے اس کی استطاعت نہیں رکھتا،جس کے باعث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اعلان فرمایاکہ جوآدمی فلاں شخص کی جگہ خریدکرمسجدکی نذرکردے اللہ تعالیٰ اس کی مغفرت کردے گا، سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ ذی النورین نے اس انصاری سے بیس ہزاریاپچیس ہزاردرہم میں وہ مکان خریدلیا،پھریہ خوش کن خبر سنانے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضرہوئے،رحمة للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاعثمان یہ جگہ مسجدمیں شامل کردواس کااجرتمہیں اللہ تعالیٰ عطافرمائے گا۔[102]

أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ لَمَّا قَدِمَ الْمَدِینَةَ ضَاقَ الْمَسْجِدُ بِأَهْلِهِ، فَقَالَ:مَنْ یَشْتَرِی هَذِهِ الْبُقْعَةَ مِنْ خَالِصِ مَالِهِ، فَیَكُونَ فِیهَا كَالْمُسْلِمِینَ وَلَهُ خَیْرٌ مِنْهَا فِی الْجَنَّةِ؟فَاشْتَرَیْتُهَا مِنْ خَالِصِ مَالِی، فَجَعَلْتُهَا بَیْنَ الْمُسْلِمِینَ

ایک روایت ہےجب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ تشریف لائے اورمسجدمیں لوگوں کی کثرت سے گنجائش نہیں رہی تھی، اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجوآدمی اپنے پاکیزہ مال سے فلاں شخص سے اراضی خریدکرمسجدکشادہ کردے اسے اس سے کہیں بہتر جنت کامحل عطا کیا جائے گا، چنانچہ سیدنا عثمان ذی النورین رضی اللہ عنہ نے اسے اپنے ذاتی مال سے خریدکرمسجدمیں شامل کردیا۔[103]

فقال له رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: بعینها بعین فی الجنة ،فقال یارَسُولَ اللهِ لیس لی وعیالی غیرها، ولا أستطیع ذلك، فبلغ ذلك عثمان، فاشتراها بخمسة وثلاثین ألف درهم،ثم أتى النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فقال: أتجعل لی مثل الذی جعلت له عینا فی الجنة إن اشتریتها؟ قَالَ: نعم ،قال: قد اشتریتها وجعلتها للمسلمین

علامہ سمھووی طبرانی کی روایت اس طرح بیان کرتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صاحب مکان سے فرمایااگرتم اپنامکان مسجدکی توسیع کے لئے وقف کردوتوتمہیں اس کے عوض جنت میں محل ملے گا،اس نے عرض کیااے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں اپنی ناداری و غربت اورکثیر العیالی کی وجہ سے اس کی اسطاعت نہیں رکھتا،جب یہ اعلان سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ ذی النورین کے گوش گزارہواتوانہوں نے اس انصاری سے پینتیس ہزاردرہم میں وہ مکان خریدلیا،اورپھرنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضرہوکرعرض کرنے لگے اے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم !آپ انصاری کے جس مکان کوجنت کے محل کے بدلے خریدنا چاہتے تھے وہ مجھ سے جنت کے بدلے خریدفرمائیں ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاہاں ، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ قطعہ اراضی بمعاوضہ جنت سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ سے خریدکرمسجدمیں شامل کردیا۔[104]

جب تعمیر شروع ہوئی توبنیادوں سے اوپربھی تین ذراغ پتھرکی دیواریں بناکربقیہ دیواریں کچی اینٹوں سے مکمل کی گئیں اس تعمیرمیں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بھی اس میں شامل ہوئے۔

أَنَّهُمْ كَانُوا یَحْمِلُونَ اللبِنَ إِلَى بِنَاءِ الْمَسْجِدِ، وَرَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مَعَهُمْ،قَالَ: فَاسْتَقْبَلْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ عَارِضٌ لَبِنَةً عَلَى بَطْنِهِ، فَظَنَنْتُ أَنَّهَا قَدْ شُقَّتْ عَلَیْهِ، قُلْتُ: نَاوِلْنِیهَا یَا رَسُولَ اللهِ،قَالَ:خُذْ غَیْرَهَا یَا أَبَا هُرَیْرَةَ

چنانچہ وہ کہتے ہیں میں بھی مسجدکی تعمیرکے لئے اینٹیں اٹھاکرلارہاتھااوردوسرے صحابہ کرام کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی اینٹیں اٹھا اٹھا کرلارہے تھے،ایک مرتبہ میں سامنے آگیاتودیکھاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بہت سی اینٹیں اٹھاکر لا رہے ہیں اورسینہ مبارک سے ان کوسہارادیئے ہوئے ہیں ،میں نے سمجھاکہ بوجھ کی وجہ سے آپ نے ایسا کیا ہوا ہے،میں نے عرض کیااے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم مجھ کودے دیں میں پہنچا دیتا ہوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اینٹیں تواوربھی بہت سی ہیں تم وہاں سے اٹھالاویہ میرے لئے رہنے دو۔

قَالَ:خُذْ غَیْرَهَا یَا أَبَا هُرَیْرَةَ، فَإِنَّهُ لَا عَیْشَ إِلَّا عَیْشُ الْآخِرَةِ

ایک روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ! دوسری اینٹیں اٹھالوتحقیق نہیں ہے زندگی مگرزندگی آخرت کی۔[105]

فلقیه أسید بن حضیر فقال: اعطنیه یَا رَسُولَ اللهِ،قال: اذهب فاحمل أنت، فلست بأفقر منی إلى الله

اسیدبن حضیر رضی اللہ عنہ نے گزارش کی اے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم یہ اینٹیں مجھے دے دیں ، مگرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم دوسری جاکرلے آواللہ تعالیٰ کی طرف نیکیاں حاصل کرنے میں تم مجھ سے زیادہ محتاج نہیں ہو[106]

فطفقوا ینقلون اللبن وما یحتاجون إلیه ورَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ ینقل معهم،فلقیه رجل ومع رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ لبنة فقال: أعطنیهایَا رَسُولَ اللهِ،فقال: اذهب فخذ غیرها، فلست بأفقر إلى الله منی

(صحابہ)اینٹیں اوردوسری ضرورت کی چیزیں اٹھا رہے تھے اور ان کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی اٹھوا رہے تھے، ایک شخص سامنے آیااوروہ بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اینٹیں اٹھارہاتھااس نےگزارش کی اے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم !یہ اینٹیں مجھے دے دیں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجاؤدوسری اینٹیں اٹھالواللہ تعالیٰ کی طرف نیکیاں حاصل کرنے میں تم مجھ سے زیادہ محتاج نہیں ہو۔[107]

كُنَّا نَحْمِلُ لَبِنَةً لَبِنَةً وَعَمَّارُ بْنُ یَاسرٍ یَحْمِلُ لَبِنَتَیْنِ لَبِنَتَیْنِ، قَالَ: فَرَآهُ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَجَعَلَ یَنْفُضُ التُّرَابَ عَنْهُ، وَیَقُولُ: یَا عَمَّارُ أَلَا تَحْمِلُ لَبِنَةً كَمَا یَحْمِلُ أَصْحَابُكَ؟ قَالَ: إِنِّی أُرِیدُ الْأَجْرَ مِنَ اللهِ ہم

ان مزدوروں میں عماربن یاسر رضی اللہ عنہ کچھ زیادہ ہی جاں فشانی اورمستعدی سے مصروف کارتھے لوگ ایک ایک اینٹ اٹھاتے تھے اورعماربن یاسر رضی اللہ عنہ دودواینٹیں اٹھاتے تھے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں دیکھاتوان سے مٹی جھاڑتے ہوئے فرمایااے عمار!دوسرے ساتھیوں کی طرح تم ایک ایک اینٹ کیوں نہیں اٹھاتے؟انہوں نے عرض کیامیں اللہ سے اس کااجرچاہتاہوں ۔[108]

وكان المسلمون یحملون لبنة لبنة، وكان عمار بن یاسر ینقل لَبِنَتَیْنِ فقال صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: یا عمار، ألا تحمل كما یحمل أصحابك ؟قال: إنی أرید من الله الأجر فقال له علیه السلام بعد مسح ونفض التراب عنه: للناس أجر، ولك أجران

ایک روایت میں ہے مسلمان ایک ایک اینٹ اٹھاتے تھے اورعمار رضی اللہ عنہ دودواینٹیں اٹھارہے تھے،اے عمار رضی اللہ عنہ !تم دوسرے ساتھیوں کی طرح ایک ایک اینٹ کیوں نہیں اٹھاتے؟ ، انہوں نے عرض کیامیں اللہ کے ہاں اس کااجرچاہتاہوں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان پرہاتھ پھیرااوران کے وجودسے مٹی صاف کرتے ہوئے فرمایاان لوگوں کے مقابلے میں تمہارااجردوگناہے۔[109]

فَقَالَ: كُنَّا نَحْمِلُ لَبِنَةً لَبِنَةً وَعَمَّارٌ لَبِنَتَیْنِ لَبِنَتَیْنِ، فَرَآهُ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَیَنْفُضُ التُّرَابَ عَنْهُ(وَیَقُولُ:یَا عَمَّارُ أَلَا تَحْمِلُ لَبِنَةً لَبِنَةً كَمَا یَحْمِلُ أَصْحَابُكَ؟قَالَ: فَجَعَلَ یَنْفُضُ)قَالَ: إِنِّی أُرِیدُ الْأَجْرَ عِنْدَ اللهِ، وَیَقُولُ:وَیْحَ عَمَّارٍ، تَقْتُلُهُ الفِئَةُ البَاغِیَةُ، یَدْعُوهُمْ إِلَى الجَنَّةِ، وَیَدْعُونَهُ إِلَى النَّارِ قَالَ: یَقُولُ عَمَّارٌ: أَعُوذُ بِاللهِ مِنَ الفِتَنِ

ابوسعیدخذری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ہم لوگ ایک ایک اینٹ اٹھاتے مگرعمار رضی اللہ عنہ دودواٹھاتے تھے،جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نگاہ رحمت ان پرپڑی توشفقت اورتاسف بھرے لہجہ میں ان کے وجودسے مٹی جھاڑتے ہوئے فرمایا اے عمار رضی اللہ عنہ !تم دوسرے ساتھیوں کی طرح ایک ایک اینٹ کیوں نہیں اٹھاتے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجاؤاوراینٹیں اٹھاؤ،انہوں نے عرض کیامیں اللہ کے ہاں اس کااجرعظیم چاہتاہوں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاافسوس! عمار رضی اللہ عنہ کوباغیوں کی ایک جماعت قتل کرے گی،عمار رضی اللہ عنہ انہیں جنت کی دعوت دیں گے اوروہ انہیں جہنم کی طرف بلائیں گے،یہ سنتے ہی عمار رضی اللہ عنہ کہنے لگے میں فتنوں سے اللہ کی پناہ مانگتا ہوں ۔[110]

خط کشیدہ الفاظ مستدرک حاکم اوردلائل النبوة للبیہقی میں ہیں ۔

لَمَّا بَنَى رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مَسْجِدَهُ جَعَلَ الْقَوْمُ یَحْمِلُونَ وَجَعَلَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَحْمِلُ هُوَ وَعَمَّارٌ فَجَعَلَ عَمَّارٌ یَرْتَجِزُ وَیَقُولُ:نَحْنُ الْمُسْلِمُونَ نَبْتَنِی الْمَسَاجِدَا

ایک روایت میں ہےجب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجدکی تعمیرفرمائی توصحابہ کرام رضی اللہ عنہم اینٹیں اورگارالالاکردیتے تھے اورنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی اینٹیں اٹھااٹھاکرلارہے تھے،اس وقت عمار رضی اللہ عنہ بھی اینٹیں اٹھااٹھاکرلارہے تھے اوریہ رجزپڑھتے جاتے تھےہم مسلمان ہیں ہم مسجدیں بناتے ہیں ۔[111]

اسی طرح عمروبن العاص رضی اللہ عنہ جوپانچ ہجری میں مسلمان ہوئے تھے وہ بھی اس تعمیرمیں شامل تھے۔ [112]

وَأَسَّسُوا الْمَسْجِدَ فَجَعَلُوا طُولَهُ مِمَّا یَلِی الْقِبْلَةَ إِلَى مُؤَخَّرِهِ مِائَةَ ذِرَاعٍ. وَفِی هَذَیْنِ الْجَانِبَیْنِ مِثْلُ ذَلِكَ فَهُوَ مُرَبَّعٌ

تعمیر جدیدمیں اضافہ کے باعث طول وعرض 100x100 ذراع ہوگیا۔[113]

اورمسجدکے شمال مشرقی کونے میں اصحاب صفحہ کا چبوترا تعمیر کیا گیا۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجدمیں داخلے اورجانے کے آداب بتائے۔

 عَنْ أَبِی أُسَیْدٍ، قَالَ:قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: إِذَا دَخَلَ أَحَدُكُمُ الْمَسْجِدَ، فَلْیَقُلْ: اللهُمَّ افْتَحْ لِی أَبْوَابَ رَحْمَتِكَ ،فَإِذَا خَرَجَ، فَلْیَقُلْ: اللهُمَّ إِنِّی أَسْأَلُكَ مِنْ فَضْلِكَ

ابواسید رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجب تم میں سے کوئی مسجدمیں داخل ہوتو یہ دعاپڑھو’’ اے اللہ میرے لئے اپنی رحمت کے دروازے کھول دے۔‘‘ اورجب مسجدسے باہر نکلیں تو یہ دعاکرو’’الہٰی !میں تجھ سے تیرے فضل کاطلبگار ہوں ۔‘‘پڑھیں ۔[114]

فَاطِمَةَ بِنْتِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَتْ: كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ إِذَا دَخَلَ الْمَسْجِدَ، صَلَّى عَلَى مُحَمَّدٍ وَسَلَّمَ، وَقَالَ:اللهُمَّ اغْفِرْ لِی ذُنُوبِی، وَافْتَحْ لِی أَبْوَابَ رَحْمَتِكَ وَإِذَا خَرَجَ، صَلَّى عَلَى مُحَمَّدٍ وَسَلَّمَ، ثُمَّ قَالَ:اللهُمَّ اغْفِرْ لِی ذُنُوبِی، وَافْتَحْ لِی أَبْوَابَ فَضْلِكَ

فاطمہ الزہرا رضی اللہ عنہا بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب مسجدمیں داخل ہوتے تو درودو سلام کے بعدیہ دعاپڑھتے’’ اےمیرے رب! میرے گناہ معاف فرمادے اورمیرے لئے اپنی رحمت کے دروازے کھول دے۔‘‘اسی طرح جب مسجدسے باہر تشریف لے جاتے تودرودوسلام کے بعد اس طرح دعا پڑھتے’’اےمیرے رب! میرے گناہ معاف فرمادے اور میرے لئے اپنے فضل کے دروازے کھول دے۔‘‘ [115]

منبررسول

x ابھی تک منبررسول نہیں بنایاگیاتھاآپ صلی اللہ علیہ وسلم پہلا خطبہ ارشادفرماکردرمیان میں نیچے بیٹھ جاتے اورپھردوسرے خطبے کے لئے کھڑے ہوتے تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس سے تکلیف ہوتی تھی ۔

 عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُمَا: أَنَّ امْرَأَةً مِنَ الأَنْصَارِ قَالَتْ لِرَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: یَا رَسُولَ اللهِ أَلاَ أَجْعَلُ لَكَ شَیْئًا تَقْعُدُ عَلَیْهِ، فَإِنَّ لِی غُلاَمًا نَجَّارًا قَالَ:إِنْ شِئْتِ

جابربن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےایک انصاری عورت نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیااے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم !میں آپ کے لئے کوئی ایسی چیزکیوں نہ بنوادوں جس پرآپ وعظ کے وقت بیٹھا کریں کیونکہ میرے پاس ایک غلام بڑھئی ہے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااچھاتمہاری مرضی۔[116]

 أَرْسَلَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ إِلَى فُلاَنَةَ – امْرَأَةٍ مِنَ الأَنْصَارِ قَدْ سَمَّاهَا سَهْلٌ – مُرِی غُلاَمَكِ النَّجَّارَ، أَنْ یَعْمَلَ لِی أَعْوَادًا، أَجْلِسُ عَلَیْهِنَّ إِذَا كَلَّمْتُ النَّاسَ، فَأَمَرَتْهُ فَعَمِلَهَا مِنْ طَرْفَاءِ الغَابَةِ، ثُمَّ جَاءَ بِهَا، فَأَرْسَلَتْ إِلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَأَمَرَ بِهَا فَوُضِعَتْ هَا هُنَا

کچھ دن گزرگئے تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انصارکی فلاں عورت (عائشہ یافکیہ)کے پاس کہلابھیجاکہ تم اپنے بڑھی غلام کوکہوکہ میرے لئے لکڑی کاایسامنبربنادے جس پرمیں بیٹھ کرلوگوں سے خطاب کرسکوں ،چنانچہ اس انصاری عورت نے اپنے غلام کو منبر بنانے کاکہاوہ غابہ جنگل سے جھاوکے درخت کی لکڑی لایااوراس سے منبر تیار کرکے اس عورت کے پاس لے آیاپھراس عورت نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں منبر پہنچا دیا ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے منبراس مقام پررکھ دیاگیاجہاں آج بھی موجودہے۔[117]

عَنْ سَهْلٍ:أَنَّهُ كَانَ بَیْنَ جِدَارِ المَسْجِدِ مِمَّا یَلِی القِبْلَةَ وَبَیْنَ المِنْبَرِ مَمَرُّ الشَّاةِ

سہل بن سعد رضی اللہ عنہ الساعدی سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کامنبرمبارک جب مسجد میں رکھا گیاتو مسجدنبوی کے قبلے کی طرف کی دیواراورمنبرکے درمیان بکری کے گزرنے جتنافاصلہ تھا۔[118]

عَنْ سَلَمَةَ، قَالَ:كَانَ جِدَارُ المَسْجِدِ عِنْدَ المِنْبَرِ مَا كَادَتِ الشَّاةُ تَجُوزُهَا

سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کامنبرمبارک جب مسجد میں رکھا گیاتوقبلہ والی دیواراورمنبرکے درمیان صرف اتناسافاصلہ تھاجس سے بکری گزرسکتی تھی ۔[119]

منبرکاطول وعرض :

وطول منبر النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ ذراعان وشبر وثلاث أصابع، وعرضه ذراع راجح، وطول صدره وهو مستند النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ ذراع، وطول رمانتی المنبر اللتین یمسكهما رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ إذا جلس یخطب شبر واصبعان، وطول المنبر الیوم ثلاثة أذرع وشبر وثلاث أصابع، والدكة التی هو علیها طول شبر وعقدة، ومن رأسه إلى عتبته خمسة أذرع وشبر

منبرکے طول وعرض کے بارے میں علامہ ابن نجار رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے منبرمبارک کاطول دوہاتھ ایک بالشت اورتین انگل ،عرض ایک ہاتھ ، درمیان والاحصہ جس کے ساتھ تکیہ لگاتے تھے ایک ہاتھ لمبااوروہ بازوجن پرآپ خطبہ کے لئے بیٹھتے وقت ہاتھ رکھتے تھے ایک بالشت اوردوانگل اونچے تھے جبکہ آجکل اس کا طول تین بازو ایک بالشت اور تین انگل، اور اس کا اوپر والے حصہ کی لمبائی ایک بالشت اور عقدہ ، جبکہ اوپر سے تخت تک پانچ ہاتھ اور ایک بالشت ہے۔[120]

 قال إسماعیل بن عبد الله:الذی عمل المنبر غلام الأنصاریة واسمه مینا

اسماعیل بن عبداللہ کہتے ہیں اورانصاری عورت کے غلام کانام جس نے منبرتیارکیاتھامیناتھا۔[121]

 أُبَیِّ بْنِ كَعْبٍ، عَنْ أَبِیهِ، قَالَ:قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یُصَلِّی إِلَى جِذْعٍ إِذْ كَانَ الْمَسْجِدُ عَرِیشًا، وَكَانَ یَخْطُبُ إِلَى ذَلِكَ الْجِذْعِ، فَقَالَ رَجُلٌ مِنْ أَصْحَابِهِ: هَلْ لَكَ أَنْ نَجْعَلَ لَكَ شَیْئًا تَقُومُ عَلَیْهِ یَوْمَ الْجُمُعَةِ حَتَّى یَرَاكَ النَّاسُ وَتُسْمِعَهُمْ خُطْبَتَكَ؟قَالَ: نَعَمْ، فَصَنَعَ لَهُ ثَلَاثَ دَرَجَاتٍ

ابی بن کعب رضی اللہ عنہ اپنے والدسے روایت کرتے ہیں مسجدپرچھت ڈالنے سے پہلےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھجورکے خشک تنے کے پاس نمازکے لئے کھڑے ہوتے اوراسی تنے کے پاس خطبہ بھی ارشادفرماتے تھے،صحابہ میں سے ایک آدمی نے عرض کیاہم آپ کے لئے کوئی ایسی چیزبنادیں جس پرکھڑے ہوکرآپ جمعہ کوخطبہ دیں تاکہ لوگ آپ کا دیدار کر سکیں اور ارشادات عالیہ بھی سن سکیں ، آپ نے اس رائے کوپسندفرماکراجازت عنایت فرمائی، اورآپ کے لئے تین زینوں کا منبر تیارکرلیاگیا۔[122]

 أَنَّ الْمَرْأَةَ عَرَضَتْ هَذَا أَوَّلًا عَلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ ثُمَّ بَعَثَ إِلَیْهَا النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَطْلُبُ تَنْجِیزَ ذَلِكَ

ایک روایت ہےوہ بڑھی اسی عورت کاغلام تھاجس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں منبربنانے کی پیش کش کی تھی بعدازاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی طرف پیغام بھیجااوراس خاتون سے اجازت طلبی کے بعدغلام کواس کام پرمامورکیاگیا۔[123]

 سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ السَّاعِدِیِّ عَنْ أَبِیهِ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ كَانَ یقوم یوم الْجُمُعَةَ إِذَا خَطَبَ إِلَى خَشَبَةٍ ذَاتِ فَرْضَتَیْنِ. قَالَ: أَرَاهَا مِنْ دَوْمٍ. وَكَانَتْ فِی مُصَلاهِ فَكَانَ یَتَّكِئُ إِلَیْهَا ، فَقَالَ لَهُ أَصْحَابُهُ: یَا رَسُولَ اللهِ. إِنَّ النَّاسَ قَدْ كَثُرُوا فَلَوِ اتَّخَذْتَ شَیْئًا تَقُومُ عَلَیْهِ إِذَا خَطَبْتَ یَرَاكَ النَّاسُ؟فَقَالَ: مَا شِئْتُمْ،قَالَ سَهْلٌ: وَلَمْ یَكُنْ بِالْمَدِینَةِ إِلا نَجَّارٌ وَاحِدٌ ذهبت أَنَا وَذَاكَ النَّجَّارُ إِلَى الْخَافِقَیْنِ فَقَطَعْنَا هَذَا الْمِنْبَرَ مِنْ أَثْلَةٍ

عباس بن سہل بن سعدالساعدی اپنے والدسے روایت بیان کرتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کے روزایک دوشاخہ لکڑی سے تکیہ لگالیتے تھے جوآپ کے مصلیٰ کے قریب واقع تھی،صحابہ نے عرض کی اے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم !لوگوں کی تعدادزیادہ ہوگئی ہے اگرآپ اجازت دیں توکوئی ایسی چیزبنالیں جس پرکھڑے ہوکرخطبہ پڑھیں اورلوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا دیدار بھی کرسکتے ہیں ؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاایساکرلو،سہل رضی اللہ عنہ کہتے ہیں مدینہ منورہ میں صرف ایک ہی کاریگرتھامیں اسے ساتھ لے کرجنگل کوگیااورآثل کی لکڑی لاکرمنبر تیار کرا دیا۔[124]

 عَنِ ابْنِ عُمَرَ، أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ لَمَّا بَدَّنَ قَالَ لَهُ تَمِیمٌ الدَّارِیُّ: أَلَا أَتَّخِذُ لَكَ مِنْبَرًا یَا رَسُولَ اللهِ، یَجْمَعُ أَوْ یَحْمِلُ عِظَامَكَ؟قَالَ:بَلَى، فَاتَّخَذَ لَهُ مِنْبَرًا مِرْقَاتَیْنِ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے جسداطہرمیں جب کبرسنی کے باعث ضعف زیادہ ہوگیا توتمیم داری رضی اللہ عنہ نے عرض کیااے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم ! اگر ارشاد فرمائیں تومیں آپ کے لئے ایک ایسا منبر تیارکردوں جیسامیں نے ملک شام میں بنتے دیکھاہے تاکہ آپ اس پرسکون وطمانت سے بیٹھ سکیں ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس تجویزکو پسند فرمایا اورمنبر بنانے کی اجازت مرحمت فرما دی،چنانچہ آپ کے لئے دوزینوں کاممبرتیارکرلیاگیا۔[125]

عن ابن أبی الزناد وغیره أنه علیه الصلاة والسلام كان یَخْطُبُ یَوْمَ الْجُمُعَةِ إِلَى جِذْعٍ فِی الْمَسْجِدِ،فَقَالَ: إِنَّ الْقِیَامَ قَدْ شَقَّ عَلَیَّ، وشكا ضعفاً فی رجلیه ، فَقَالَ لَهُ تَمِیمٌ الدَّارِیُّ وكان من أهل فلسطین: یَا رَسُولَ اللهِ أنا أَعْمَلُ لَكَ مِنْبَرًاكَمَا رَأَیْتُ یُصْنَعُ بِالشَّامِ،قال: فلما أجمع ذوو الرأی من أصحابه على اتخاذه،قال الْعَبَّاسُ بْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ رضی الله عنه: إِنَّ لِی غُلامًایُقَالُ لَهُ: كِلابٌ، أعمل الناس،فقال له النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: فمره یعمل،فَأَرْسَلَهُ إِلَى أَثْلَةٍ بِالْغَابَةِ فَقَطَعَهَا،ثُمَّ عملهادَرَجَتَیْنِ ومجلساً، ثم جاء بالمنبر فوضعه فی موضع المنبر الیوم،ثم راح إلیه رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَوْمَ الْجُمُعَةِ

ابن الزنادسے مروی ہےرحمت للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کے روزکھجورکے تناکے پاس خطبہ ارشادفرماتے تھے ایک مرتبہ فرمایامجھ پرقیام شاق گزرتاہے اورمیرے پاوں میں ضعف آگیاہے،اس پرفلسطین کے باشندے تمیم داری رضی اللہ عنہ نے گزارش کی اے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم !میں آپ کے لئے ایک منبربنادوں جیساکہ میں نے ملک شام میں دیکھاہے، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اصحاب الرائے کااجلاس طلب فرمایااوراس معاملہ میں ان سے مشورہ لیا، عباس رضی اللہ عنہ بن عبدالمطلب نے کہاکلاب نامی میراایک غلام بہت اچھاکاریگرہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااسے کہومنبر بنا دے،عباس رضی اللہ عنہ نے غلام کوغابہ میں آثلہ کی لکڑی کاٹنے بھیج دیا(یہ لکڑی سخت اورمضبوط ہوتی ہے)چنانچہ کلاب نے لکڑی لاکرمنبربنایاجس کے دودرجے اورایک نشست گاہ تھی،پھراس مقام پررکھاگیاجہاں آج بھی نصب ہے، پھررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کے روزاس کی طرف آئے اورراحت وطمانیت سے اس پر تشریف فرماہوئے۔[126]

وَجزم بن سَعْدٍ بِأَنَّ ذَلِكَ كَانَ فِی السَّنَةِ السَّابِعَةِ وَفِیهِ نَظَرٌ لِذِكْرِ الْعَبَّاسِ وَتَمِیمٍ فِیهِ وَكَانَ قُدُومُ الْعَبَّاسِ بَعْدَ الْفَتْحِ فِی آخِرِ سَنَةِ ثَمَان وقدوم تَمِیم سنة تسع وَجزم بن النَّجَّارِ بِأَنَّ عَمَلَهُ كَانَ سَنَةَ ثَمَانٍ

علامہ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں ابن سعدکی تصریح کے مطابق منبرسن سات ہجری میں بنایاگیا مگریہ روایت محل نظرہے کیونکہ اس سلسلہ کی روایات میں عباس رضی اللہ عنہ اور تمیم الداری رضی اللہ عنہ کاذکر پایا جاتا ہے جبکہ عباس رضی اللہ عنہ فتح مکہ کے بعدآٹھ ہجری میں اور تمیم الداری رضی اللہ عنہ نوہجری میں مدینہ منورہ تشریف لائے،اورعلامہ ابن نجارنے منبربنانے کی قطعی تاریخ آٹھ ہجری قراردی ہے۔[127]

 فَعَمِلَ هَذِهِ الثَّلَاثَ دَرَجَاتٍ

سہل بن سعد رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہےغلام نے تین زینوں کامنبربنایاتھا [128]

x علامہ خلیل احمدابن ہٹوی لکھتے ہیں سنن ابوداود کتاب الصلاة بَابٌ فِی اتِّخَاذِ الْمِنْبَرِ۱۰۸۱ میں منبرکے دوزینوں کاذکرہے اورصحیح مسلم كِتَابُ الْمَسَاجِدِ وَمَوَاضِعِ الصَّلَاةَ بَابُ جَوَازِ الْخُطْوَةِ وَالْخُطْوَتَیْنِ فِی الصَّلَاةِ ۱۲۱۶میں تین زینے بیان کیے گئے ہیں بظاہرتضادپایاجاتاہےلیکن درحقیقت جب روایات میں دو زینے بیان کیے گئے ہیں ان میں نشست گاہ کاذکرنہیں جبکہ نشست گاہ سمیت تین ہی درجے تھے۔[129]

x ایک روایت ہے کہ جس بڑھی نے منبربنایاتھااس کانام باقوم تھا

أن باقوم مولى العاص بن أمیة صنع للنبی صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ منبره من طرفاء، ثلاث درجات

باقوم جوالعاص بن امیہ کامولی تھانے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے تین درجات پرمشتمل منبرتیارکیاتھا۔[130]

اوراسی کاریگرنے قریش کے دورمیں کعبہ تعمیر کیاتھا۔

 كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَخْطُبُ إِلَى خَشَبَةٍ فَلَمَّا كَثُرَ النَّاسُ قِیلَ لَهُ لَوْ كُنْتَ جَعَلْتَ مِنْبَرًا قَالَ وَكَانَ بِالْمَدِینَةِ نَجَّارٌ وَاحِدٌ یُقَالُ لَهُ مَیْمُونٌ

حافظ ابن حجرعسقلانی رحمہ اللہ نے یہ روایت شرف المصطنیٰ کے حوالہ سے نقل کی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک لکڑی کے پاس کھڑے ہوکرخطبہ ارشادفرماتے تھے لیکن جب لوگوں کی تعداد بڑھ گئی توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاتم میرامنبرتیارکردو اورمدینہ منورہ میں ایک ہی بڑھئی تھاجسے میمون کہتے تھے۔[131]

منبررسول بنانے والے کانام :

عَنْ عَبَّاسِ بْنِ سَهْلٍ عَنْ أَبِیهِ قَالَ كَانَ بِالْمَدِینَةِ نَجَّارٌ وَاحِدٌ یُقَالُ لَهُ مَیْمُونٌ

عباس بن سہل اپنے والدسے روایت کرتے ہیں مدینہ منورہ میں ایک ہی بڑھئی تھاجسے میمون کہتے تھے[132]

x علامہ شہاب الدین الحقانی نے مذکورہ غلام کے نام کے متعلق متعددروایات نقل کی ہیں ایک روایت کے مطابق اس کانام قبیصہ المخزومی بیان ہوااوراس کانام صباح بھی بتایا جاتاہے جو عباس رضی اللہ عنہ کاغلام تھا،نیزاس کانام باقوم یاباقول تھااوروہ سعیدبن العاص رضی اللہ عنہ کاغلام تھا،ایک روایت میں ہے کہ وہ تمیم الداری رضی اللہ عنہ کاغلام تھا،ایک روایت میں اسے سعد بن عبادہ کاغلام بیان کیاگیاہے،جبکہ ایک روایت کے مطابق وہ ایک انصاری عورت کاغلام تھا۔[133]

واختلف فى اسم صانعه، ففى الصحیح أنه میمون مولى امرأة من الأنصار، وقیل: مولى سعد بن عبادة، فكأنه فى الأصل مولى امرأته، وروى أبو نعیم أن صانعه باقوم الرومى مولى سعید بن العاص، أو باقول، أو صباح، أو قبیصة، أو مینا، أو صالح أو كلاب، وكلاهما مولى العباس، أو إبراهیم، أو تمیم الدارى كما ورد فى أبى داود. ویقول الحافظ فى الفتح: ولیس فى جمیع الروایات التى سمى فیها النجار شىء قوى السند سوى الحدیث الذى رواه أبو داود عن ابن عمر لكن لم یصرح فیه بأن صانعه تمیم. وأشبه الأقوال بالصواب بأنه میمون لكونه من طریق سهل بن سعد … وكان المنبر ذا ثلاث درجات

سہیلی لکھتے ہیں جس نے منبرتیارکیااس کے نام میں اختلاف ہے ،صحیح میں ہے کہ اس کانام میمون تھااوریہ انصارکی ایک عورت کاغلام تھااوریہ بھی کہاجاتاہے کہ یہ سعدبن عبادہ کاغلام تھا حقیقتاًیہ اس عورت کاغلام تھااورابونعیم کہتے ہیں یہ منبر باقوم الرومى نے تیار کیا تھاجوسعیدبن العاص کاغلام تھایا باقول ، صباح ، قبیصة، مینا، صالح ،كلاب نے تیارکیا تھااوریہ سب عباس رضی اللہ عنہ کے غلام تھے،یا إبراهیم نے یا تمیم الدارى نے تیارکیاتھاجیسے ابوداود نے لکھاہے،اورحافظ الفتح میں لکھتے ہیں تمام روایات کوجمع کیاجائے توکوئی بھی سندمیں قوی نہیں ہے سوائے ابو داؤدکی روایت کہ جس کو انہوں نے عبداللہ بن عمر سے روایت کیا لیکن اس میں تمیم کی صراحت نہیں ، مختلف اقوال ہیں لیکن صحیح قول یہ ہے کہ اس کا نام ساری کی ساری میں سے میمون تھا جوکہ سہل بن سعد کے طریقے سے مروی ہے ۔۔۔۔۔ اور منبر تین سیڑھیوں (درجات) پر مشتمل ہے۔[134]

فِی جَمِیعِ هَذِهِ الرِّوَایَاتِ الَّتِی سُمِّیَ فِیهَا النَّجَّارُ شَیْءٌ قَوِیُّ السَّنَدِ

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے بھی لمبی بحث کے بعد یہی لکھاہےکوئی روایت بھی مستندنہیں ہے۔[135]

 بَعْضُ أَهْلِ السِّیَرِ أَنَّهُ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ كَانَ یَخْطُبُ عَلَى مِنْبَرٍ مِنْ طِینٍ قَبْلَ أَنْ یَتَّخِذَ الْمِنْبَرَ الَّذِی مِنْ خَشَبٍ وَیُعَكِّرُ عَلَیْهِ

بعض اہل السیرکی روایات سے یہ بھی معلوم ہوتاہے کہ لکڑی کامنبرتیارہونے سے پہلے عارضی طورپرمٹی گارے سے منبربنایاگیاجس پررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ دیاکرتے تھے[136]

کھجورکے خشک تنا کارونا:

فَلَمَّا صُنِعَ الْمِنْبَرُ وَوُضِعَ فِی مَوْضِعِهِ الَّذِی وَضَعَهُ فِیهِ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:فَلَمَّا جَاءَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یُرِیدُ الْمِنْبَرَ مَرَّ عَلَیْهِ، فَلَمَّا جَاوَزَهُ، خَارَ الْجِذْعُ حَتَّى تَصَدَّعَ وَانْشَقَّ، فَرَجَعَ إِلَیْهِ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَمَسَحَهُ بِیَدِهِ حَتَّى سَكَنَ، ثُمَّ رَجَعَ إِلَى الْمِنْبَر

جب سیدالامم صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے منبرتیارہوگیاتوآپ حسب معمول جمعہ کے دن کھجورکے خشک تنے کے پاس سے گزرکر منبر پر رونق افروزہوئے ہی تھے کہ کھجورکاخشک تنا زارو قطار رونے لگاکیونکہ وہ مقدس ومطہرجسم اس سے مس نہ ہواتھا،وہ اس سعادت عظمیٰ اوراس سرچشمہ راحت سے یکسرمحروم ہوگیاتھا، اس دل فگار صدمہ کی شدت سے اس کاوجودشق ہوگیااور رونے کی ایسی ہیبت ناک آوازآنے لگی جیسے حاملہ اونٹنی آوازکرتی ہے ،اس حیرت انگیزاور مخیر العقول واقع سے تمام حاضرین پربھی رقت طاری ہوگئی ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم منبرسے نیچے اترکراس پراپنادست مبارک پھیرااس کے بعداس میں سے رونے کی آوازبندہوگئی ، پھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم منبرپرتشریف لے گئے۔[137]

 جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ:قَالَ: فَعَمِلَتْ لَهُ المِنْبَرَ، فَلَمَّا كَانَ یَوْمُ الجُمُعَةِ قَعَدَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عَلَى المِنْبَرِ الَّذِی صُنِعَ، فَصَاحَتِ النَّخْلَةُ الَّتِی كَانَ یَخْطُبُ عِنْدَهَا لِلْجِذْعِ مِثْلَ أَصْوَاتِ العِشَارِ حَتَّى كَادَتْ تَنْشَقُّ، فَنَزَلَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى أَخَذَهَا، فَضَمَّهَا إِلَیْهِ، فَجَعَلَتْ تَئِنُّ أَنِینَ الصَّبِیِّ الَّذِی یُسَكَّتُ، حَتَّى اسْتَقَرَّتْ، قَالَ:بَكَتْ عَلَى مَا كَانَتْ تَسْمَعُ مِنَ الذِّكْرِ

جابربن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے منبربن گیاتوجمعہ کے دن جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس منبرپرتشریف فرماہوئے تواس کھجورکی لکڑی سے رونے کی آوازآنے لگی جس پرٹیک دے کرآپ صلی اللہ علیہ وسلم پہلے خطبہ ارشادفرمایاکرتے تھےجیسے دس مہینے کی گابھن اونٹنی آوازکرتی ہےایسامعلوم ہوتاتھاکہ وہ پھٹ جائے گی،یہ دیکھ کرنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم منبرسے اترے اوراس تنا پراپنا دست مبارک پھیرااوراسے اپنے سینہ سے چمٹا لیا ،اس وقت بھی وہ لکڑی اس چھوٹے بچے کی طرح سسکیاں بھررہی تھی جسے چپ کروانے کی کوشش کی جاتی ہے، اس کے بعدوہ چپ ہوگئی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس کے رونے کی وجہ یہ تھی کہ یہ لکڑی خطبہ سناکرتی تھی (اب اس سے محروم ہوگئی) ۔[138]

لَوْ لَمْ أَحْتَضِنْهُ لحن إِلَى یَوْم الْقِیَامَة

سیدالامم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااگرمیں اس تناکوتسلی وتشفی دے کرخاموش نہ کرتاتووہ اس جاں گزارصدمہ میں قیامت تک روتا رہتا۔[139]

یہ واقعہ صحیح بخاری ،صحیح مسلم،صحیح ابن خزیمہ،صحیح ابن حبان ، مسند شافعی، مسند احمد، مستدرک حاکم،بیہقی،طبرانی ،ابویعلی، سنن نسائی، جامع ترمذی ،سنن ابن ماجہ میں درج ہے۔

اور یہ صحابہ کرام سید القراء ابی بن کعب المتوفی ۱۹ ہجری ، جابربن عبداللہ المتوفی ۷۲ہجری،خادم الرسول انس بن مالک المتوفی ۹۲ ہجری،عبداللہ بن عمرفاروق المتوفی ۷۳ ہجری ، ابن عم النبی عبداللہ بن عباس المتوفی۸۸ہجری،سہل بن سعدالساعدی المتوفی۹۱ہجری،ابوسعیدبن مالک الخدری المتوفی ۷۸ ہجری،بریدہ بن الخطیب سلمی المتوفی۶۳ ہجری،ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا المتوفی۵۹ہجری اورمطلب بن ابورداعہ القرشی اس واقعہ کے عینی شاہدتھے۔[140]

فلما هَدَمَ الْمَسْجِدَ أخذ ذلك الْجِذْعِ أُبَیِّ بْنِ كَعْبٍ رَضِیَ اللهُ عَنْهُ فلم یَزَلْ عِنْدَهُ حَتَّى أَكِلَتْهُ الْأَرْضُ أَكَلَتْهُ الْأَرَضَةُ وَعَادَ رُفَاتًا

پھر جب مسجدنبوی میں وسعت کی ضرورت پڑی اس وقت اس تنے کو ابی بن کعب رضی اللہ عنہ اپنے گھرلے گئے وہیں وہ گل گیا ،دیمک کھاگئی اورکھوکھولاہوکرریزہ ریزہ ہوگیا۔[141]

فَكَانَ الْحَسَنُ إِذَا حدث بهذا بكى. وقال: یا عباد اللَّهِ. الْخَشَبَةُ تَحِنُّ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ شَوْقًا إِلَیْهِ لِمَكَانِهِ فَأَنْتُمْ أَحَقُّ أَنْ تَشْتَاقُوا إِلَى لِقَائِهِ

خواجہ حسن بصری رحمہ اللہ جب یہ حدیث پڑھتے یابیان فرماتے توان پرگریہ طاری ہوجاتاتھاوہ ارشادفرماتے اے اللہ کے بندو!کس قدرعبرت کامقام ہے کہ ایک خشک لکڑی محبوب انسو جاں صلی اللہ علیہ وسلم کے فراق میں زاروقطاررونے لگی کیاتم اس سے کہیں زیادہ اس بات کے مستحق نہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ملاقات کی خاطرہروقت فکرمنداورگریہ کناں رہو [142]

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعدمنبرکی مختصرتاریخ:

منبرکی یہ کیفیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سیدناابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ ،سیدنا عمرفاروق رضی اللہ عنہ ،سیدنا عثمان ذی النورین رضی اللہ عنہ اورسیدنا علی رضی اللہ عنہ کے زمانہ خلافت میں قائم رہی۔[143]

جب امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ کا دور خلافت آیااس وقت تک نمازیوں کی بہتات کے پیش نظرمسجدنبوی میں تین مرتبہ اضافہ ہو چکا تھا، جب امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ مدینہ منورہ زیارت کے لئے آئے تو انہوں نے محسوس کیاکہ خطیب کی آوازلوگوں تک صحیح طورپرنہیں پہنچ پاتی ، لوگوں تک خطیب کی آواز پہنچانے کی غرض سے امیرموصوف نے امیرمدینہ کومنبر اونچا کرنے کاحکم فرمایاچنانچہ علامہ احمد شہاب الدین الخفاجی رقم طرازہیں کہ امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ جب زیارت مدینہ منورہ کوآئے تومنبرمبارک پر قباطی چادرچڑھائی پھرشام لوٹ جانے کے بعد امیر مدینہ مروان رحمہ اللہ کو لکھا کہ منبرشریف بلندکردوچنانچہ امیرموصوف نے منبرمیں چھ درجے بڑھادیئے اس طرح کل نودرجے ہوگئے[144]

وطول المنبر الیوم من أسفل عتبته إلى مؤخره سبع أذرع- أی بتقدیم السین- وشبر، وطوله فی الأرض إلى مؤخره ست أذرع

بعد ازاں سنگ مرمرکی ڈیڑھ فٹ بلندچوکی پرمنبررکھاگیاجس سے مجموعی بلندی سات ذراع اورایک بالشت ہوگئی جبکہ منبرکی اپنی بلندی صرف چھ ذراع نوفٹ تھی۔[145]

یہ منبرچھ سوسال تک مسجدنبوی میں قائم رہااور کسی نے بھی اضافہ یاکمی نہیں کی ،مگر ۶۵۴ہجری میں جب مسجدنبوی میں آتشزدگی کاروح فرساحادثہ آیاتواس سانحہ میں جہاں مسجدکوناقابل تلافی نقصان پہنچاوہاں منبرنبوی بھی نذرآتش ہوگیاجوتھوڑابہت حصہ جلنے سے بچ گیا اسے صندوق میں بندکرکے اسطوانہ حنانہ کے قریب دفن کر دیاگیا۔ ۶۵۶ہجری میں ملک مظفر شاہ یمن نے صندل کی لکڑی کاعالیشان منبربنواکربھیجاجو۶۶۶ہجری تک مسجدنبوی کی زینت بنارہا۔پھرملک ظاہررکن الدین بیبرس نے ۶۶۶ہجری میں نیامنبربھیجااور پہلا منبر ہٹادیاگیا،اس منبرپر۱۲۳سال تک خطبہ پڑھاجاتارہابالآخرلکڑی بوسیدہ اورکرم خوردہ ہوگئی جس کے باعث ۷۹۷ہجری میں ملک ظاہر برقوق سلطان مصرنے نیامنبر بھیجا جو۳۳سال مسجدنبوی کی زینے بنا،۸۲۰ہجری میں ملک مویدنے نیامنبرنصب کرایا،۸۸۶ہجری رمضان المبارک میں مسجدنبوی ایک مرتبہ پھر آگ کے بے رحم شعلوں کی لپیٹ میں آگئی جس سے منبربھی جل کرخاکسترہوگیا،بعدازاں ۸۸۸ہجری میں ملک اشرف قایتبائی نے نیامنبرنبواکرنصب کرایا، ۹۹۸ہجری میں عثمانی بادشاہ سلطان مرادشاہ نے سنگ مرمرکاخوبصورت،نفیس اوردیدہ زیب منبربنواکربھیجاجس کے بارہ زینے تھے،ملک اشرف قایتبائی والامنبرمسجدقبامیں منتقل کردیا گیا ۔ [146]

سلطان مرادشاہ کایہ منبرمحرم الحرام ۱۴۰۸تک ۴۱۱سال گزرنے کے باوجودیہ مسجدکی رونق اورمرجع خلائق بناہواہے اوراس کے استحکام اورمضبوطی میں کوئی خلل واقع نہیں ہوا۔

غزوہ ذات الرقاع(سات ہجری)

قَالَ وَیُقَالُ ذَاتُ الرّقَاعِ شَجَرٌ بِذَلِكَ الْمَوْضِعِ یُقَالُ لَهَا: ذَاتُ الرّقَاع

اس غزوہ کانام ذات الرقاع رکھنے کے سبب میں اختلاف ہےایک قول ہے کہ جہاں یہ غزوہ واقع ہواوہاں ایک درخت تھاجس کایہی نام تھااسی کے نام پراس غزوہ کانام رکھا گیا۔[147]

ایک قول یہ ہے کہ مسلمانوں کے جھنڈوں میں کپڑوں کے ٹکڑے تھے اس لئے اس کایہ نام پڑا۔

أَنَّهَا سُمِّیَتْ ذَاتَ الرِّقَاعِ لِأَنَّهُ جَبَلٌ كَانَ فِیهِ بُقَعُ حُمْرَةٍ وَسَوَادٍ وَبَیَاضٍ

ایک قول یہ ہےذات الرقاع ایک پہاڑکانام ہے جس کے پتھر سیاہ ، سفیداورسرخ رنگ کے ہیں گویااس پہاڑکے مختلف پیوندہیں اس لئے اس پہاڑکے نام پراس غزوہ کانام رکھاگیا۔[148]

وَهُوَ جَبَلٌ فِیهِ بُقَعٌ حُمْرَةٌ وَسَوَادٌ وَبَیَاضٌ قَرِیبٌ مِنَ النَّخِیلِ بَیْنَ السَّعْدِ وَالشَّقْرَة

اورابن سعد میں ہے یہ ایک پہاڑہے جس میں سرخی وسیاہی وسفیدی کی زمینیں ہیں اورالخلیل قریب السعداورالشقرة کے درمیان ہے۔[149]

عَنْ أَبِی مُوسَى رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ:خَرَجْنَا مَعَ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فِی غَزْوَةٍ وَنَحْنُ سِتَّةُ نَفَرٍ بَیْنَنَا بَعِیرٌ نَعْتَقِبُهُ، فَنَقِبَتْ أَقْدَامُنَا وَنَقِبَتْ قَدَمَایَ، وَسَقَطَتْ أَظْفَارِی، وَكُنَّا نَلُفُّ عَلَى أَرْجُلِنَا الخِرَقَ، فَسُمِّیَتْ غَزْوَةَ ذَاتِ الرِّقَاعِ

ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جہادکے لئے نکلے اورہم چھ آدمیوں کے پاس ایک اونٹ تھا جس پرہم باری باری سوارہوتے تھےاورزیادہ ترپیدل چلنے اورپرمشقت سفر کی وجہ سے ہمارے دونوں پیرپیدل چلتے چلتے پھٹ گئے ، ناخن گرگئے اس لئے ہم نے ان پرچیتھڑے باندھ لیے تھے اس لئے اس کانام ذات الرقاع (چیتھڑوں والی جنگ) رکھاگیا۔[150]

مگرزیادہ صحیح یہ ہے کہ وہ ایک جگہ کانام ہے ۔ جیسا کہ دعثور شاعرکاقول ہے۔

حَتَّى إِذَا كُنَّا بِذَاتِ الرِّقَاعِ

ترجمہ: یہاں تک کہ جب ہم مقام ذات الرقاع پرپہنچے۔

غزوہ میں نام کے اختلاف کے ساتھ اس بات میں بھی اختلاف ہے کہ یہ غزوہ کب واقع ہوا۔

قَالَ ابْنُ إسْحَاقَ: ثُمَّ أَقَامَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بِالْمَدِینَةِ بَعْدَ غَزْوَةِ بَنِی النَّضِیرِ شَهْرَ رَبِیعٍ الْآخَرِ وَبَعْضَ جُمَادَى

ابن اسحاق کے مطابق غزوہ بنی نضیرکے بعدماہ ربیع الآخراور کچھ دن جمادی کے مدینہ میں قیام پذیر رہے۔[151]

فَخَرَجَ فِی جُمَادَى الْأُولَى مِنَ السَّنَةِ الرَّابِعَةِ ، وَقِیلَ: فِی الْمُحَرَّمِ یُرِیدُ مُحَارِبَ وَبَنِی ثَعْلَبَةَ بْنِ سَعْدِ بْنِ غَطَفَانَ

علامہ حافظ ابن قیم رحمہ اللہ کہتے ہیں ہجرت کے چوتھے سال جمادی الاول کے مہینے میں آپ تشریف لے گئےاورایک قول ہے کہ محرم میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم محارب اوربنی ثعلبہ بن سعد بن غطفان کی طرف گئے۔[152]

فَإِنَّهُ زَعَمَ أَنَّ غَزْوَةَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ الرِّقَاعِ، كَانَتْ فِی الْمُحَرَّمِ سَنَةَ خَمْسٍ مِنَ الْهِجْرَةِ

طبری ،واقدی کے حوالے سے کہتے ہیں غزوہ ذات الرقاع محرم پانچ ہجری کوہوا۔[153]

وَعند بن سعد وبن حِبَّانَ أَنَّهَا كَانَتْ فِی الْمُحَرَّمِ سَنَةَ خَمْسٍ

ابن سعد رحمہ اللہ اور ابن حبان رحمہ اللہ کاموقف ہے کہ یہ محرم پانچ ہجری میں ہوا۔[154]

هَذِهِ الْغَزْوَةُ اخْتُلِفَ فِیهَا مَتَى كَانَتْ وَاخْتُلِفَ فِی سَبَبِ تَسْمِیَتِهَا بِذَلِكَ وَقَدْ جَنَحَ الْبُخَارِیُّ إِلَى أَنَّهَا كَانَتْ بَعْدَ خَیْبَرَ وَاسْتَدَلَّ لِذَلِكَ فِی هَذَا الْبَابِ بِأُمُورٍ سَیَأْتِی الْكَلَامُ عَلَیْهَا مُفَصَّلًا وَمَعَ ذَلِكَ فَذَكَرَهَا قَبْلَ خَیْبَرَ فَلَا أَدْرِی هَلْ تَعَمَّدَ ذَلِكَ تَسْلِیمًا لِأَصْحَابِ الْمَغَازِی أَنَّهَا كَانَتْ قَبْلَهَا كَمَا سَیَأْتِی أَوْ أَنَّ ذَلِكَ مِنَ الرُّوَاةِ عَنْهُ أَوْ إِشَارَةٌ إِلَى احْتِمَالِ أَنْ تَكُونَ ذَاتُ الرِّقَاعِ اسْمًا لِغَزْوَتَیْنِ مُخْتَلِفَتَیْنِ كَمَا أَشَارَ إِلَیْهِ الْبَیْهَقِیُّ عَلَى أَنَّ أَصْحَابَ الْمَغَازِی مَعَ جَزْمِهِمْ بِأَنَّهَا كَانَتْ قَبْلَ خَیْبَر مُخْتَلِفُونَ فِی زمانهابَلِ الَّذِی یَنْبَغِی الْجَزْمُ بِهِ أَنَّهَا بَعْدَ غَزَوَةِ بَنِی قُرَیْظَةَ لِأَنَّهُ تَقَدَّمَ أَنَّ صَلَاةَ الْخَوْفِ فِی غَزْوَةِ الْخَنْدَقِ لَمْ تَكُنْ شُرِعَتْ وَقَدْ ثَبَتَ وُقُوعُ صَلَاةِ الْخَوْفِ فِی غَزْوَةِ ذَاتِ الرِّقَاعِ فَدَلَّ عَلَى تَأَخُّرِهَا بَعْدَ الْخَنْدَق

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فتح الباری میں لکھتے ہیں اس غزوہ کے تاریخ وقوع ہونے میں اختلاف ہے وہ یہ کہ کب واقع ہوا اور اس کی وجہ تسمیہ کیا ہے ،امام بخاری کارجحان یہ ہے کہ یہ غزوہ خیبرکے بعدہواہے ،اس پرانہوں نے کئی دلائل دیئے ہیں ، جیسے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اورابوموسیٰ اشعری کی اس غزوہ میں شرکت،کیونکہ غزوہ خیبرکے بعدہی یہ کسی غزوہ میں شامل ہوسکتے تھے لیکن اس کے باوجودانہوں نے اس کوخیبرسے پہلے ذکر کیاہے ،معلوم نہیں انہوں نے عام مورخین کے قول کوکہ یہ غزوہ خیبرسے پہلے ہواہے تسلیم کرتے ہوئے جان بوجھ کرایساکیاہے یاان سے اس کے متعلق مختلف روایات کی بنا پر ہے یاانہوں نے اس احتمال کی طرف اشارہ کرنے کے لئے ایساکیاہے کہ ذات الرقاع دومختلف غزووں کا نام ہے ،جیساکہ بیھقی نے اس کی طرف اشارہ کیاہے ، پھر اصحاب مغازی اس جزم کے باوجودکہ غزوہ ذات الرقاع خیبرسے پہلے واقع ہواہے،اس کے زمانہ میں مختلف ہیں لیکن یہ بات یقین کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ یہ غزوہ خندق ،غزوہ بنوقریظہ اورغزوہ خیبر کے بعدوقوع پذیرہواہے اس لئے کہ غزوہ خندق ،غزوہ بنوقریظہ اورغزوہ خیبرمیں نمازخوف مشروع نہیں تھی مگرغزوہ ذات الرقاع میں نمازخوف کاثبوت ملتاہے جواس بات کی دلیل ہے کہ یہ غزوہ خیبرکے بعدواقع ہواہے [155]

غزوہ خیبرکے بعدنبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ دن تک مدینہ منورہ میں قیام فرمایا

قَالَ: جِئْت مِنْ نَجْدٍ وَقَدْ رَأَیْت أَنْمَارًا وَثَعْلَبَةَ قَدْ جَمَعُوا لَكُمْ جُمُوعًا، وَأَرَاكُمْ هَادِینَ عَنْهُمْ، فَبَلَغَ النّبِیّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَوْلُهُ، وَاسْتَعْمَلَ عَلَى الْمَدِینَةِ أَبَا ذَرٍّ الْغِفَارِیَّ، وَقِیلَ: عُثْمَانَ بْنَ عَفَّانَ، وَخَرَجَ فِی أَرْبَعِمِائَةٍ مِنْ أَصْحَابِهِ . وَقِیلَ سَبْعِمِائَةٍحَتّى سَلَكَ عَلَى الْمَضِیقِ ثُمّ أَفْضَى إلَى وَادِی الشّقَرَةِ فَأَقَامَ بِهِ یَوْمًاوَبَثّ السّرَایَا فَرَجَعُوا إلَیْهِ مَعَ اللّیْلِ، وَخَبّرُوهُ أَنّهُمْ لَمْ یَرَوْا أَحَدًا

قبیلہ انماریابنوغطفان کی دوشاخوں بنی ثعلبہ اوربنی محارب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جنگ کرنے کے لئے جمع ہونے لگے،اہل مکہ اپنی جان بچانے کے لئے حدیبیہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دس سال جنگ نہ کرنے کامعاہدہ کرچکے تھے،خیبرکے یہودہرطرح کی برتری کے باوجودمجاہدین سے بدترین شکست کھاکردم توڑچکے تھے ، اب جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان بدووں کے اجتماع کی خبر سنی تو ان کوپراگندہ کرنے کی غرض سے صحابہ رضی اللہ عنہم کو جنگی تیاری کاحکم فرمایااورمدینہ منورہ پر ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ یاعثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کونائب مقرر کر کے چارسویاسات سوصحابہ رضی اللہ عنہم کولے کرروانہ ہوئےاورمقام وادی شقرہ پرپہنچے اورایک دن قیام فرمایا وہاں سے طلایہ گر دستوں کومختلف اطراف میں روانہ فرمایاان دستوں نے رات کو واپس آکر اطلاع دی کہ انہوں نے کسی کونہیں دیکھا،

حَتَّى نَزَلَ نَخْلًا،موضع من نجد من أراضی غطفان، فَنَذَرَ زَوْجُهَا أَلَّا یَرْجِعَ حَتَّى یُهْرِیقَ دَمًا فِی أَصْحَابِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ،فَخَرَجَ یَتْبَعُ أَثَرَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّم،فَنَزَلَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مَنْزِلًا فَقَالَ: مَنْ رَجُلٌ یَكْلَؤُنَا لَیْلَتَنَا (هَذِهِ) ؟قَالَ: فَانْتَدَبَ رَجُلٌ مِنْ الْمُهَاجِرِینَ، وَرَجُلٌ آخَرُ مِنْ الْأَنْصَارِ، فَقَالَا: نَحْنُ یَا رَسُولَ اللهِ قَالَ: فَكُونَا بِفَمِ الشِّعْبِ قَالَ: وَكَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَأَصْحَابُهُ قَدْ نَزَلُوا إلَى شِعْبٍ مِنْ الْوَادِی، وَهُمَا عَمَّارُ بْنُ یَاسِرٍ وَعَبَّادُ بْنُ بِشْرٍفَلَمَّا خَرَجَ الرَّجُلَانِ إلَى فَمِ الشِّعْبِ، قَالَ الْأَنْصَارِیُّ لِلْمُهَاجِرِیِّ أَیَّ اللیْلِ تُحِبُّ أَنْ أَكْفِیكَهُ: أَوَّلَهُ أَمْ آخِرَهُ؟ قَالَ: بَلْ اكْفِنِی أَوَّلَهُ، فَنَامَ عَمّارُ بْنُ یَاسِرٍ، وقام عبّاد بن بشر یُصَلّی

یہاں سے آگے روانہ ہوکرآپ مقام نخل جوقبیلہ غطفان کی زمین میں نجدکاایک گاؤں ہےپرپہنچے وہاں کی نشست گاہوں میں صرف عورتوں کوپایا جنہیں گرفتارکرلیاگیا،اس کے شوہرنے نذرمانی کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی صحابی کوقتل کرے گا، پھریہ شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لشکرکے پیچھے روانہ ہوا،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم منزل پرپہنچ کرفروکش ہوئے اورفرمایاکون شخص ہے جوآج رات ہماری پاسبانی کرے گا؟عماربن یاسر رضی اللہ عنہ اورعبادبن بشر رضی اللہ عنہ نے کہااے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !ہم حفاظت اورپاسبانی کریں گے ان میں سے ایک مہاجراورایک انصاری تھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایاتم رات کومیدان کے دہانے پرجاکررہو،چنانچہ یہ دونوں میدان کے دہانے پرچلے گئے اورانصاری نے مہاجرسے کہاتم اول شب جاگوگے یا آخرشب؟مہاجرنے کہامیں آخررات جاگوں گاتم اول رات تک جاگ لو،یہ طے کرکے عماربن یاسر رضی اللہ عنہ سوگئے اورعبادبن بشر رضی اللہ عنہ اللہ وحدہ لاشریک کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے عبادت کے لئے کھڑے ہوگئے،

وَأَقْبَلَ عَدُوّ اللهِ یَطْلُبُ غِرّةً وَقَدْ سَكَنَتْ الرّیحُ، فَلَمّا رَأَى سَوَادَهُ مِنْ قَرِیبٍ قَالَ: یَعْلَمُ اللهُ إنّ هَذَا لَرَبِیئَةُ الْقَوْمِ! فَفَوّقَ لَهُ سَهْمًا فَوَضَعَهُ فِیهِ فَانْتَزَعَهُ فَوَضَعَهُ، ثُمّ رَمَاهُ بِآخَرَ فَوَضَعَهُ فِیهِ فَانْتَزَعَهُ فَوَضَعَهُ، ثُمّ رَمَاهُ الثّالِثَ فَوَضَعَهُ فِیهِ، فَلَمّا غَلَبَ عَلَیْهِ الدّمُ رَكَعَ وَسَجَدَ ثُمّ قَالَ لِصَاحِبِهِ: اجْلِسْ فَقَدْ أَتَیْت!فَلَمَّا رَأَى الْأَعْرَابِیُّ أَنَّ عَمَّارًا قَدْ قَامَ عَلِمَ أَنَّهُمْ قَدْ نَذِرُوا بِهِ فَهَرَبَ،قَالَ: وَلَمَّا رَأَى الْمُهَاجِرِیُّ مَا بِالْأَنْصَارِیِّ مِنْ الدِّمَاءِ، قَالَ: سُبْحَانَ اللهِ! أَفَلَا أَهْبَبْتَنِی أَوَّلَ مَا رَمَاكَ؟ قَالَ: كُنْت فِی سُورَةٍ أَقْرَأهَا وَهِیَ سُورَةُ الْكَهْفِ، فَكَرِهْت أَنْ أَقْطَعَهَا حَتّى أَفْرُغَ مِنْهَاوَلَوْلَا أَنّی خَشِیت أَنْ أُضَیّعَ ثَغْرًا أَمَرَنِی بِهِ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مَا انْصَرَفْت وَلَوْ أُتِیَ عَلَى نَفْسِی

جب یہ مشرک آیاتوعباد بن بشر رضی اللہ عنہ کھڑے نمازپڑھ رہے تھے اس مشرک نے پہچان لیاکہ یہ لشکراسلامی کاپاسبان ہے،اس نے ان پرتیرچلایاجوٹھیک نشانہ پرلگامگرعبادبن بشر رضی اللہ عنہ  نے جن کے رگ وریشہ میں معبودحقیقی کی عبودیت اوربندگی سرایت کرچکی تھی ،جواپنے رب حقیقی کی محبت میں سرشارتھے ، جن کے دل میں ایمان کی حلاوت اترچکی تھی نمازمیں مشغول رہے اور نمازتوڑے بغیرتیرجسم سے نکال کرپھینک دیا،اس مشرک نے ان پردوسرا تیر چلایاعباد رضی اللہ عنہ  نے اس تیرکوبھی نمازتوڑے بغیرنکال کرپھینک دیا،اس مشرک نے تیسراتیرچلایا اب انہیں یہ اندیشہ ہواکہ کہیں دشمن کمین گاہ پرحملہ نہ کردے اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں جس غرض سے یہاں متعین کیاہے وہ فوت ہوجائے اس لئے جلدی سے نمازکوپوراکیا،اورسلام پھیرکراپنے ساتھی کو جگایاکہ اٹھومیں شدیدزخمی ہوگیا ہوں ،وہ مشرک ان کواپنے ساتھی کوجگاتے دیکھ کر فرارہوگیا، عمار جب بیدارہوئے اورعباد رضی اللہ عنہ کے جسم سے خون کورواں دیکھ کربولےسبحان اللہ! تم نے مجھے پہلے ہی تیرپرکیوں نہ جگادیا؟ عباد رضی اللہ عنہ نے کہامیں سورۂ کہف پڑھ رہا تھا مجھے یہ گوارانہ ہواکہ اسے قطع کر دوں ،جب پے درپے تیرلگے تب میں نے نمازپوری کی اورتم کوجگایا،اللہ کی قسم! اگررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کاخیال نہ ہوتاتونمازختم ہونے سے پہلے میری جان ختم ہوجاتی۔[156]

وَقَدْ ذَهَبَتْ الْأَعْرَابُ إلَى رُءُوسِ الْجِبَالِ وَهُمْ مُطِلّونَ عَلَى النّبِیّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ،فَلَقِیَ بِهَا جَمْعًا عَظِیمًا مِنْ غَطَفَانَ، فَتَقَارَبَ النَّاسُ، وَلَمْ یَكُنْ بَیْنَهُمْ حَرْبٌ، وَقَدْ خَافَ النَّاسُ بَعْضُهُمْ بَعْضًا وَفِیهَا صَلّى رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ صَلاةُ الْخَوْفِ، ثُمَّ انْصَرَفَ بِالْمُسْلِمِینَ،قَالَ: فَكَانَ أَوّلَ مَا صَلّى یَوْمَئِذٍ صَلَاةُ الْخَوْفِ

عورت کی گرفتاری کی خبران کی قوم کوپہنچی تووہ دہشت زدہ ہو کر پہاڑوں میں روپوش ہوگئےپھران کی ایک جمعیت جمع ہوکرلشکراسلامی سے لڑنے کے لئے آئی، دونوں گروہوں کا بمقام ذات الرقاع آمنا سامنا ہوا ،صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے ان کے مقابل صف بندی کرلی لیکن طرفین سے ایک دوسرے کوڈرانے دھمکانے کے سواکوئی جنگ نہیں ہوئی بعض لوگ دوسروں سے خوف زدہ ہوگئے تھےیہاں تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مقام پر صلوٰة الخوف(حالت جنگ میں نماز) ادافرمائی،اس کے بعدمسلمان واپس ہوگئے ، جابربن عبداللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں اس دن پہلی مرتبہ صلاة الخوف اداکی گئی۔[157]

قَالَ ابْنُ سَعْدٍ: وَكَانَ ذَلِكَ أول ما صلاها

ابن سعدکہتے ہیں یہ پہلی صلوة الخوف تھی۔[158]

أَنَّ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُمَا، أَخْبَرَ: أَنَّهُ غَزَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قِبَلَ نَجْدٍ، فَلَمَّا قَفَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَفَلَ مَعَهُ، فَأَدْرَكَتْهُمُ القَائِلَةُ فِی وَادٍ كَثِیرِ العِضَاهِ، فَنَزَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَتَفَرَّقَ النَّاسُ یَسْتَظِلُّونَ بِالشَّجَرِ، فَنَزَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ تَحْتَ سَمُرَةٍ وَعَلَّقَ بِهَا سَیْفَهُ، وَنِمْنَا نَوْمَةً، فَإِذَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَدْعُونَا، وَإِذَا عِنْدَهُ أَعْرَابِیٌّ، فَقَالَ:إِنَّ هَذَا اخْتَرَطَ عَلَیَّ سَیْفِی، وَأَنَا نَائِمٌ، فَاسْتَیْقَظْتُ وَهُوَ فِی یَدِهِ صَلْتًا، فَقَالَ: مَنْ یَمْنَعُكَ مِنِّی؟ فَقُلْتُ: اللَّهُ، – ثَلاَثًا

اسی غزوے میں ایک واقعہ جابر رضی اللہ عنہ سے یوں مروی ہےہم لوگ غزوہ ذات الرقاع میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے (دوران سفرہماراطرزعمل یہ تھاکہ) جب ہم کسی سایہ دار درخت پرپہنچتے تو اسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے( آرام ) لئے چھوڑدیتے تھے ، اسی طرح (ایک بار)آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پڑاؤڈالا،حسب دستورصحابہ کرام رضی اللہ عنہم سایہ حاصل کرنے کے لئے کانٹوں دار درختوں میں منتشرہوگئے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی ایک درخت کے نیچے اترے اوراپنی تلوارکودرخت کی ایک شاخ سے لٹکاکرآرام فرمانے لگے، ہمیں بس کچھ ہی دیرنیندآئی تھی کہ اسی اثنامیں ایک مشرک(صحیح بخاری کے مطابق غورث بن حارث،اورواقدی کے مطابق دعثور) نے آکردرخت سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تلواراتارکر ان پرتان لی، اور بولا تم مجھ سے ڈرتے ہو؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایانہیں ،اس نے کہااب تمہیں میرے ہاتھ سے کون بچائے گا؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑے اطمینان سے مختصرجواب دیااللہ۔ جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں ہمیں اچانک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پکاررہے تھےجب ہم وہاں پہنچے تودیکھاکہ ایک اعرابی آپ کے پاس بیٹھاہواہے،آپ نے(ہمیں )فرمایامیں سویا ہوا تھا اوراس نے میری تلوارسونت لی،اتنے میں میں جاگ گیادیکھاکہ میری تلواراس کے ہاتھ میں تھی،اس نے مجھ سے کہاتمہیں میرے ہاتھ سے کون بچائے گا؟میں نے تین مرتبہ کہا اللہ۔[159]

میں نے اسی طرح کہا اور تلواراس کے ہاتھ سے چھوٹ کرگرگئی ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اعرابی کوکوئی سزانہیں دی بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھ گئے۔

اورموسیٰ بن اسماعیل نے ابراہیم بن سعدسے ان سے زہری نے بیان کیاکہاکہ اس نے تلوارنیام میں کرلی اب وہ بیٹھاہواہے پھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کوکوئی سزانہیں دی۔

وَدَفَعَ جِبْرِیلُ فِی صَدْرِهِ فَوَقَعَ السَّیْفُ مِنْ یَدِهِ ،فَأَخَذَهُ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ

ابن اسحٰق کی روایت میں ہے جبرئیل امین نے اس کے سینہ پرایک گھونسہ رسیدکیاتوفوراًتلواراس کے ہاتھ سے چھوٹ گئی اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اٹھالی۔[160]

حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ أَبِی بِشْرٍ، عَنْ سُلَیْمَانَ بْنِ قَیْسٍ، عَنْ جَابِرٍ، قَالَ: فَسَقَطَ السَّیْفُ مِنْ یَدِهِ، قَالَ: فَأَخَذَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ السَّیْفَ فَقَالَ:مَنْ یَمْنَعُكَ مِنِّی؟قَالَ: كُنْ خَیْرَ آخِذٍ قَالَ: تَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَأَنِّی رَسُولُ اللهِ؟قَالَ: لَا، وَلَكِنْ أُعَاهِدُكَ عَلَى أَنْ لَا أُقَاتِلَكَ، وَلَا أَكُونُ مَعَ قَوْمٍ یُقَاتِلُونَكَ،فَخَلَّى سَبِیلَهُ ، فَأَتَى أَصْحَابَهُ وَقَالَ: جِئْتُكُمْ مِنْ عِنْدِ خَیْرِ النَّاسِ

ابوعوانہ کی روایت میں ہےجب میں نے کہااللہ تو تلواراس کے ہاتھ سے گرپڑی،پھروہ تلوار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اٹھالی اور فرمایااب تمہیں مجھ سے کون بچائے گا؟اس نے کہاآپ اچھے پکڑنے والے ہیں (یعنی مجھ پراحسان فرمائیں ) آپ نے فرمایاتم شہادت دیتے ہوکہ اللہ کے سواکوئی معبود نہیں اورمیں اللہ کارسول ہوں ؟اس نے کہانہیں البتہ میں آپ سے عہدکرتاہوں کہ آپ سے لڑائی نہیں کروں گااورنہ ہی کسی لڑنے والوں کاساتھ دوں گا ، جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے کوئی سزانہ دی،اوراس نے اپنی قوم میں جاکرکہامیں تمہارے یہاں سے سب سے اچھے انسان کے پاس سے آرہا ہوں ۔[161]

 أَنّهُ قَدْ بَلَغَنِی أَنّ دُعْثُورَ بْنَ الْحَارِثِ فِی أُنَاسٍ مِنْ قَوْمِهِ عُزْلٌ. فَأَدْخَلُوهُ على رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَدَعَاهُ إلَى الْإِسْلَامِ فَأَسْلَم

واقدی کہتاہےدعثوربن حارث نے اپنے قبیلہ میں پہنچ کراسلام کی دعوت دی اوربہت سے لوگ اس کی دعوت سے مسلمان ہوگئے۔

اسی قسم کاایک واقعہ غزوہ غطفان تین ہجری میں گزرچکاہے

 فی عیون الأثر:والظاهر أن الخبرین واحد اختلف الرواة فی اسمه، فبعضهم سماه غورث، وبعضهم دعثور

عیون الاثرمیں ہے یہ ایک ہی واقعہ ہے اوربعض کہتے ہیں دونوں الگ الگ ہیں ، اس کے نام میں اختلاف ہےبعض کہتے ہیں اس کانام غورث تھااوربعض کہتے ہیں دعثورتھا۔[162]

[1] تاریخ دمشق لابن عساکر ۳۰۷؍۶۷

[2] مختصرتاریخ دمشق۱۷۹؍۲۹،التاریخ الكبیر للبخاری بحواشی محمود خلیل۱۳۲؍۶

[3] الاستیعاب فی معرفة الأصحاب۱۷۶۹؍۴

[4]اسدالغابة۳۱۳؍۶

[5] زادالمعاد۲۸۲؍۳،دلائل النبوة للبیہقی ۱۹۸؍۴، البدایة والنہایة۲۰۷؍۴،ابن سعد۲۴۴؍۴

[6] ابن سعد۲۴۲؍۴

[7]صحیح بخاری کتاب المغازی بَابُ غَزْوَةِ خَیْبَرَ۴۲۳۳

[8] مستدرک حاکم ۶۱۷۲،التاریخ الكبیر للبخاری بحواشی المطبوع۱۳۳؍۶ ،سیر السلف الصالحین لإسماعیل بن محمد الأصبهانی۲۱۳؍۱،تاریخ دمشق لابن عساکر ۳۵۷؍۶۷، تاریخ اسلام بشار۵۶۰؍۲

[9] ابن سعد۲۴۵؍۴

[10] تاریخ دمشق لابن عساکر۳۶۹؍۶۷

[11] ابن سعد ۲۴۵؍۴

[12] مستدرک حاکم۶۱۶۶،الإصابة فی تمییز الصحابة۳۵۰؍۷

[13]مسنداحمد۸۸۵۸،صحیح بخاری كِتَابُ العِلْمِ بَابُ الحِرْصِ عَلَى الحَدِیثِ ۹۹،احادیث اسماعیل بن جعفر ۳۵۴،الإصابة فی تمییز الصحابة۳۵۰؍۷

[14]حلیة الأولیاء وطبقات الأصفیاء۳۸۱؍۱

[15] سیراعلام للنبلائ ۶۱۶؍۲، تهذیب الكمال فی أسماء الرجال۹۴؍۲۴،الإصابة فی تمییز الصحابة۳۵۷؍۷

[16] سنن ابن ماجہ كِتَابُ الْجِهَادِ بَابُ تَشْیِیعِ الْغُزَاةِ وَوَدَاعِهِمْ۲۸۲۵

[17] سیراعلام النبلائ ۶۱۴؍۲

[18]تاریخ دمشق لابن عساکر۳۷۳؍۶۷

[19] تاریخ دمشق لابن عساکر۳۷۳؍۶۷

[20] الزهد والرقائق لابن المبارك مَا رَوَاهُ نُعَیْمُ بْنُ حَمَّادٍ ۱۵۹؍۱،جامع ترمذی أَبْوَابُ الزُّهْدِ بَابُ مَا جَاءَ فِی الرِّیَاءِ وَالسُّمْعَةِ۲۳۸۲،السنن الکبری للنسائی۱۱۸۲۴،صحیح ابن خزیمة۲۴۸۲،صحیح ابن حبان۴۰۸،مستدرک حاکم۱۵۲۷،شرح السنة للبغوی۴۱۴۳

[21] تاریخ دمشق لابن عساکر۳۷۳؍۶۷

[22] تاریخ دمشق لابن عساکر۳۸۴؍۶۷

[23] ابن سعد۲۵۳؍۴

[24] ابن سعد۲۵۲؍۴

[25] ابن سعد۲۵۳؍۴

[26] ابن سعد۲۵۲؍۴

[27] ابن سعد۲۵۴؍۴

[28] ابن سعد۲۵۳؍۴

[29] زادالمعاد۲۹۶؍۳ ،مغازی واقدی۶۷۶؍۲،دلائل النبوة للبیہقی۲۴۸؍۴

[30]صحیح بخاری کتاب الخمس بَابُ مَا كَانَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یُعْطِی المُؤَلَّفَةَ قُلُوبُهُمْ وَغَیْرَهُمْ مِنَ الخُمُسِ وَنَحْوِهِ عن ابن عمر ۳۱۵۲، وکتاب الحرث والمزارعة بَابُ إِذَا قَالَ رَبُّ الأَرْضِ أُقِرُّكَ مَا أَقَرَّكَ اللهُ، وَلَمْ یَذْكُرْ أَجَلًا مَعْلُومًا، فَهُمَا عَلَى تَرَاضِیهِمَا۲۳۳۸،صحیح مسلم کتاب المساقاة بَابُ الْمُسَاقَاةِ، وَالْمُعَامَلَةِ بِجُزْءٍ مِنَ الثَّمَرِ وَالزَّرْعِ۳۹۶۵،سنن ابوداودکتاب الخراج والفیئوالامارة بَابُ مَا جَاءَ فِی حُكْمِ أَرْضِ خَیْبَرَ ۳۰۰۸، مسنداحمد۶۳۶۸

[31] سنن ابوداودکتاب البیوع بَابٌ فِی الْخَرْصِ۳۴۱۳

[32] سبل الھدی۳۹۸؍۸،ابن ہشام۳۵۴؍۲،الروض الانف۱۳۵؍۷،تاریخ طبری۲۰؍۳

[33] التمهید لما فی الموطأ من المعانی والأسانید۱۴۳؍۹،شرح الزرقانی على المؤطا ۵۴۳؍۳،امتاع الاسماع ۳۸۴؍۹

[34] ابن ہشام ۳۳۸؍۲، مغازی واقدی ۶۷۷؍۲،فتح الباری ۴۹۷؍۷

[35] زادالمعاد۱۱۲؍۴،مغازی واقدی ۶۷۸؍۲،ابن سعد ۱۵۶؍۲

[36] زادالمعاد۲۹۷؍۳

[37] ابن ہشام۳۳۷؍۲

[38] مغازی واقدی۷۰۶؍۲

[39] ابن ہشام۳۵۳؍۲

[40] مغازی واقدی ۷۰۶؍۲

[41] ابن ہشام۳۵۳؍۲

[42] صحیح بخاری کتاب المغازی بَابُ غَزْوَةِ خَیْبَرَ۴۲۴۰،۴۲۴۱ ،صحیح مسلم کتاب الجہادوالسیر بَابُ قَوْلِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ لَا نُورَثُ مَا تَرَكْنَا فَهُوَ صَدَقَةٌ۴۵۸۰، سنن ابوداودکتاب الجہادوالسیر بَابٌ فِی صَفَایَا رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مِنَ الْأَمْوَالِ ۲۹۶۸،مسند احمد ۵۵،صحیح ابن حبان۶۶۰۷،شرح السنة للبغوی۲۷۴۱

[43] صحیح بخاری کتاب الایمان والنذوربَابٌ هَلْ یَدْخُلُ فِی الأَیْمَانِ وَالنُّذُورِ الأَرْضُ، وَالغَنَمُ، وَالزُّرُوعُ، وَالأَمْتِعَةُ۶۷۰۷،صحیح مسلم کتاب الایمان بَابُ غِلَظِ تَحْرِیمِ الْغُلُولِ، وَأَنَّهُ لَا یَدْخُلُ الْجَنَّةَ إِلَّا الْمُؤْمِنُونَ ۳۱۰،سنن ابوداودکتاب الجہاد بَابٌ فِی تَعْظِیمِ الْغُلُولِ ۲۷۱۱،ابن ہشام ۳۳۸؍۲،الروض الانف ۱۱۲؍۷،عیون الاثر۱۸۷؍۲،تاریخ طبری۱۶؍۳،البدایة والنہایة ۲۳۷؍۴،مغازی واقدی ۷۱۰؍۲،دلائل النبوة للبیہقی۲۶۹؍۴

[44] سنن ابوداودکتاب الجہاد بَابٌ فِی تَعْظِیمِ الْغُلُولِ ۲۷۱۰ ،سنن ابن ماجہ کتاب الجہاد بَابُ الْغُلُولِ ۲۸۴۸،صحیح ابن حبان ۴۸۵۳،المنتقی ابن الجارود۱۰۸۱،زادالمعاد۹۸؍۳،دلائل النبوة للبیہقی۲۵۵؍۴

[45]۔زادالمعاد۳۱۴؍۳،مغازی واقدی۳۱۰؍۲،دلائل النبوة للبیہقی۲۷۰؍۴،البدایة والنہایة۲۴۸؍۴،السیرة النبویة لابن کثیر ۴۱۳؍۳

[46] ابن سعد۲۱۳؍۱

[47] الجمعة: 3

[48] صحیح بخاری کتاب التفسیرسورة الجمعة بَابُ قَوْلِهِ وَآخَرِینَ مِنْهُمْ لَمَّا یَلْحَقُوا بِهِمْ۴۸۹۷،صحیح مسلم کتاب الفضائل بَابُ فَضْلِ فَارِسَ ۶۴۹۸،جامع ترمذی ابواب تفسیرالقرآن بَابٌ وَمِنْ سُورَةِ الْجُمُعَةِ ۳۳۱۰،وابواب المناقب بَابٌ فِی فَضْلِ العَجَمِ۳۹۳۳ ،السنن الکبریٰ للنسائی۸۲۲۰

[49] بنی اسرائیل ۴۴

[50] البقرة۱۲۹

[51] آل عمران ۱۶۴

[52] الاعراف۱۵۸

[53] الانعام۱۹

[54] الفرقان۱

[55] سبا۲۸

[56] ھود۱۷

[57] تفسیرابن ابی حاتم ۱۸۸۹۱،۳۳۵۵؍۱۰

[58] الأنعام: 19

[59] تفسیر عبدالرزاق ۷۸۱،۴۴؍۲، تفسیرابن ابی حاتم ۷۱۶۶، ۱۲۷۲؍۴، تفسیرالدرالمنشور۲۵۷؍۳

[60] الأنعام: 19

[61] الجمعة: 3

[62] صحیح بخاری کتاب التفسیرسورة الجمعةبَابُ قَوْلِهِ وَآخَرِینَ مِنْهُمْ لَمَّا یَلْحَقُوا بِهِمْ ۴۸۹۷،صحیح مسلم کتاب الفضائل بَابُ فَضْلِ فَارِسَ۶۴۹۸،جامع ترمذی ابواب تفسیرالقرآن بَابٌ وَمِنْ سُورَةِ الْجُمُعَةِ ۳۳۱۰،وابواب المناقب بَابٌ فِی فَضْلِ العَجَمِ۳۹۳۳،مسنداحمد۹۴۰۶

[63] الاعراف۱۷۹

[64] مسنداحمد۲۰۳۳،مصنف ابن ابی شیبة۵۳۰۵، مسندالبزار۵۳۴۵

[65] المائدة۱۸

[66] البقرة۱۱۱

[67] البقرة۸۰

[68] آل عمران۲۴

[69] البقرة۹۶

[70] تفسیرابن کثیر۱۱۸؍۸

[71] مسنداحمد۲۲۲۵

[72] النسائ۷۸

[73] الاحزاب۱۶

[74] معجم الکبیرللطبرانی۶۹۲۲

[75] صحیح بخاری كِتَابُ المَغَازِی بَابُ غَزْوَةِ خَیْبَرَ۴۲۰۵

[76] بنی اسرائیل۱۱۰

[77] صحیح بخاری کتاب المغازی بَابُ غَزْوَةِ خَیْبَرَ عن ابی موسیٰ ۴۲۰۵، صحیح مسلم كتاب الذِّكْرِ وَالدُّعَاءِ وَالتَّوْبَةِ وَالِاسْتِغْفَارِ بَابُ اسْتِحْبَابِ خَفْضِ الصَّوْتِ بِالذِّكْرِ۶۸۶۲،جامع ترمذی ابواب الدعوات بَاب مَا جَاءَ فِی فَضْلِ التَّسْبِیحِ وَالتَّكْبِیرِ وَالتَّهْلِیلِ وَالتَّحْمِیدِ ۳۴۶۱،مسنداحمد۱۹۷۴۵

[78] سنن ابوداودکتاب الوتربَابٌ فِی الِاسْتِغْفَارِ۱۵۲۶

[79] ابن سعد ۹۶،۹۷؍۸،مغازی واقدی۷۰۷؍۲

[80] البدایة والنہایة۲۲۳؍۴،صحیح بخاری کتاب المغازی بَابُ غَزْوَةِ خَیْبَرَ ۴۲۱۱

[81]۔ صحیح مسلم کتاب النکاح بَابُ فَضِیلَةِ إِعْتَاقِهِ أَمَتَهُ، ثُمَّ یَتَزَوَّجُهَا ۳۴۹۷

[82] ابن ہشام۳۳۶؍۲،زادالمعاد۲۹۰؍۳

[83] ابن ہشام۳۳۹؍۲،البدایة والنہایة۲۴۲؍۴

[84] صحیح مسلم کتاب النکاح بَابُ فَضِیلَةِ إِعْتَاقِهِ أَمَتَهُ، ثُمَّ یَتَزَوَّجُهَا۳۴۹۷،۳۵۰۰،ابن سعد۸۹؍۲،البدایة والنہایة۲۲۳؍۴

[85] صحیح بخاری کتاب المغازی بَابُ غَزْوَةِ خَیْبَرَ۴۲۱۱،۴۲۱۲،البدایة والنہایة۲۲۳؍۴

[86] صحیح بخاری بَابُ فَضْلِ الجِهَادِ وَالسِّیَرِبَابُ مَنْ غَزَا بِصَبِیٍّ لِلْخِدْمَةِ۲۸۹۳، وبَابُ مَا یَقُولُ إِذَا رَجَعَ مِنَ الغَزْوِ؟۳۰۸۵ ، وکتاب المغازی بَابُ غَزْوَةِ خَیْبَرَ ۴۲۱۱،وکتاب البیوع بَابٌ هَلْ یُسَافِرُ بِالْجَارِیَةِ قَبْلَ أَنْ یَسْتَبْرِئَهَا ۲۲۳۵،صحیح مسلم کتاب النکاح بَابُ فَضِیلَةِ إِعْتَاقِهِ أَمَتَهُ، ثُمَّ یَتَزَوَّجُهَا ۳۵۰۱،ابن سعد۹۷؍۸،السیرة النبویة لابن کثیر۳۷۲؍۳

[87] جامع ترمذی ابواب المناقب بَابٌ فِی فَضْلِ أَزْوَاجِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ۳۸۹۶،صحیح ابن حبان۷۲۱۱،مسنداحمد۱۲۳۹۲

[88] الاخبارالطوال ۱۱۹

[89] فتوح البلدان بلاذری ۲۵۸، الاخبارالطوال ۱۲۶

[90] لسان المیزان ۳۸۸؍۴

[91] لسان المیزان ۴۲۸؍۵

[92] صحیح بخاری کتاب الصلوٰة باب الاذان ذھاب الوقت ۵۹۵ عن قتادہ،صحیح مسلم کتاب الصلوٰةبَابُ قَضَاءِ الصَّلَاةِ الْفَائِتَةِ، وَاسْتِحْبَابِ تَعْجِیلِ قَضَائِهَا عن ابوہریرہ ۱۵۶۰،السنن الکبری للنسائی ۱۱۳۸۴،موطاامام مالک کتاب وُقُوت الصَّلاَةِ بَابُ النَّوْمِ عَنِ الصَّلَاةِ ۲۵عن سعیدبن مسیب ،مصنف ابن ابی شیبة۴۷۵۴،مسنداحمد۲۲۶۱۱،صحیح ابن حبان ۱۵۷۹،شرح السنة للبغوی ۴۳۸،ابن ہشام ۳۴۰؍۲، زادالمعاد ۳۱۵؍۳

[93] صحیح بخاری كِتَابُ التَّیَمُّمِ بَابٌ الصَّعِیدُ الطَّیِّبُ وَضُوءُ المُسْلِمِ، یَكْفِیهِ مِنَ المَاءِ۳۴۴

[94]صحیح مسلم کتاب الصلوٰة بَابُ نَهْیِ مَنْ أَكَلِ ثُومًا أَوْ بَصَلًا أَوْ كُرَّاثًا أَوْ نَحْوَهَا ۱۲۵۶

[95] صحیح بخاری كِتَابُ الجِهَادِ وَالسِّیَرِبَابُ مَنْ غَزَا بِصَبِیٍّ لِلْخِدْمَةِ۲۸۹۳،وکتاب الاطعمة بَابُ الحَیْسِ۵۴۲۵، وکتاب الدعوات بَابُ التَّعَوُّذِ مِنْ غَلَبَةِ الرِّجَالِ۶۳۶۳، مسنداحمد۱۳۵۲۵

[96] صحیح بخاری کتاب الجہاد باب مایقول اذارجع من الغزو ۳۰۸۶

[97] صحیح بخاری کتاب الھبة وفضلھابَابُ فَضْلِ المَنِیحَةِ ۲۶۳۰، صحیح مسلم کتاب الجہادوالسیربَابُ رَدِّ الْمُهَاجِرِینَ إِلَى الْأَنْصَارِ مَنَائِحَهُمْ مِنَ الشَّجَرِ وَالثَّمَرِ حِینَ اسْتَغْنَوْا عَنْهَا بِالْفُتُوحِ ۴۶۰۳، زادالمعاد۳۱۵؍۳

[98] مسنداحمد۱۳۲۹۱، صحیح بخاری کتاب المغازی بَابُ مَرْجِعِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مِنَ الأَحْزَابِ، وَمَخْرَجِهِ إِلَى بَنِی قُرَیْظَةَ وَمُحَاصَرَتِهِ إِیَّاهُمْ ۴۱۲۰،صحیح مسلم کتاب بَابُ رَدِّ الْمُهَاجِرِینَ إِلَى الْأَنْصَارِ مَنَائِحَهُمْ مِنَ الشَّجَرِ وَالثَّمَرِ حِینَ اسْتَغْنَوْا عَنْهَا بِالْفُتُوحِ ،فتح الباری ۲۴۵؍۵،۴۱۱؍۷،دلائل النبوة للبیہقی ۲۸۸؍۴،البدایة والنہایة۹۲؍۴،ابن سعد۱۸۰؍۸

[99] القصص۵۲تا۵۴

[100] المائدة۸۳،۸۴

[101] الاصابة فی تمییز الصحابة ۳۲۳؍۲

[102] سنن نسائی كِتَابُ الْأَحْبَاسِ بَابُ وَقْفِ الْمَسَاجِدِ ۳۶۳۶ ،مصنف ابن ابی شیبة۳۲۰۲۳،السنن الکبری للنسائی ۴۳۷۶،صحیح ابن حبان۶۹۲۰،سنن الدارقطنی۴۴۳۶،وفائ الفائ۱۳۸؍۳

[103]جامع ترمذی ابواب المناقب بَابٌ فِی مَنَاقِبِ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ رَضِیَ اللهُ عَنْهُ، وَلَهُ كُنْیَتَانِ، یُقَالُ أَبُو عَمْرٍو، وَأَبُو عَبْدِ اللهِ۳۷۰۳،سنن نسائی كِتَابُ الْأَحْبَاسِ بَابُ وَقْفِ الْمَسَاجِدِ ۳۶۳۸،السنن الکبری للنسائی ۶۴۰۲،سنن الدارقطنی۴۴۳۷،السنن الکبری للبیہقی۱۱۹۳۶، مسند احمد ۵۵۵

[104] وفاء الوفا۱۳۸؍۳

[105] مسنداحمد۸۹۵۱،وفائ الوفائ۲۶۰؍۱،سبل الهدى والرشاد، فی سیرة خیر العباد۳۳۷؍۳

[106]۔ شرف المصطفیٰ ۳۸۵؍۲

[107] وفائ الوفائ ۲۵۷؍۱

[108] مسنداحمد۱۱۸۶۱

[109] شرح الزرقانی علی المواھب۱۷۸؍۲

[110] صحیح بخاری کتاب الصلاة بَابُ التَّعَاوُنِ فِی بِنَاءِ المَسْجِدِ۴۴۷ ،دلائل النبوة للبیہقی ۵۴۶؍۲،المستدرک حاکم ۲۶۵۳،مسند احمد۱۱۸۶۱

[111] ابن سعد۱۹۰؍۳،تاریخ دمشق لابن عساکر ۴۱۵؍۴۳

[112] دلائل النبوة للبیہقی

[113] ابن سعد ۱۸۴؍۱،وفاء الوفا۲۵۹؍۱

[114] صحیح مسلم كِتَابُ صَلَاةِ الْمُسَافِرِینَ وَقَصْرِهَا بَابُ مَا یَقُولُ إِذَا دَخَلَ الْمَسْجِدَ ۱۶۵۲، مسنداحمد۲۳۶۰۷

[115]مسنداحمد۲۶۴۱۶

[116] صحیح بخاری کتاب البیوع بَابُ النَّجَّارِ ۲۰۹۵

[117] صحیح بخاری کتاب الجمعة بَابُ الخُطْبَةِ عَلَى المِنْبَرِ ۹۱۷ ، صحیح مسلم کتاب المساجد بَابُ جَوَازِ الْخُطْوَةِ وَالْخُطْوَتَیْنِ فِی الصَّلَاةِ عن سہل۱۲۱۶،سنن ابوداودکتاب الصلاة بَابٌ فِی اتِّخَاذِ الْمِنْبَرِ ۱۰۸۰،سنن نسائی کتاب المساجدالصَّلَاةُ عَلَى الْمِنْبَرِ۷۴۰

[118] صحیح بخاری کتاب الصلاةبَابُ قَدْرِ كَمْ یَنْبَغِی أَنْ یَكُونَ بَیْنَ المُصَلِّی وَالسُّتْرَةِ؟ ۷۳۳۴

[119] صحیح بخاری کتاب الصلاةبَابُ قَدْرِ كَمْ یَنْبَغِی أَنْ یَكُونَ بَیْنَ المُصَلِّی وَالسُّتْرَةِ؟ ۴۹۷،سنن ابوداود کتاب الصلاة بَابُ مَوْضِعِ الْمِنْبَرِ ۱۰۸۲

[120] اخبارمدینہ۹۸؍۱

[121] فتح الباری ۳۱۷؍۳،وفاء الوفا۸؍۲

[122] سنن ابن ماجہ کتاب اقامة الصلوٰة بَابُ مَا جَاءَ فِی بَدْءِ شَأْنِ الْمِنْبَرِ۱۴۱۴

[123] شرح مسلم للنووی ۳۴؍۵

[124] ابن سعد ۱۹۲؍۱

[125] سنن ابوداود کتاب الصلاة بَابٌ فِی اتِّخَاذِ الْمِنْبَرِ۱۰۸۱

[126] ابن سعد۱۹۲؍۱ ،اخبار مدینہ۹۶؍۱

[127] فتح الباری۳۹۹؍۲

[128] صحیح مسلم كِتَابُ الْمَسَاجِدِ وَمَوَاضِعِ الصَّلَاةَ بَابُ جَوَازِ الْخُطْوَةِ وَالْخُطْوَتَیْنِ فِی الصَّلَاةِ ۱۲۱۶

[129] بزل المجہود۱۷۸؍۲

[130] مصنف عبدالرزاق۵۲۴۴

[131] فتح الباری ۳۹۸؍۲

[132]۔فتح الباری ۴۸۶؍۱

[133] نسیم الریاض۶۰؍۳

[134] الروض الانف۲۸۷؍۴

[135] فتح الباری ۳۹۸؍۲

[136] ۔ فتح الباری۳۹۹؍۲

[137] سنن الدارمی ۳۶، وفاء الوفائ۴؍۲

[138] صحیح بخاری کتاب البیوع بَابُ النَّجَّارِ ۹۱۸،۲۰۹۵

[139] سنن ابن ماجہ کتاب اقامة الصلوٰةبَابُ مَا جَاءَ فِی بَدْءِ شَأْنِ الْمِنْبَرِ ۱۴۱۵، سنن الدارمی ۳۹،مصنف ابن ابی شیبة۳۱۷۴۶، مسنداحمد۲۲۳۶، فتح الباری ۶۰۲؍۶

[140] رحمت للعالمین ۱۷۴؍۲

[141] وفائ الوفائ۴؍۲،سنن الدارمی۳۶

[142]۔الشفا بتعریف حقوق المصطفى۵۸۴؍۱

[143] معالم دارالحجرة۶۶

[144]۔نسیم الریاض ۶۱؍۳

[145] وفاء الوفاء ۱۳؍۲

[146] مراة الحرمین۴۷۱؍۱

[147] الروض الانف۱۷۵؍۶،عیون الاثر۷۶؍۲،ابن ہشام۲۰۴؍۲

[148] دلائل النبوة للبیہقی۳۷۲؍۳،مغازی واقدی ۳۹۵؍۱

[149] ابن سعد ۴۶؍۲

[150] صحیح بخاری کتاب المغازی بَابُ غَزْوَةِ ذَاتِ الرِّقَاعِ ۴۱۲۸،صحیح مسلم کتاب الجہادوالسیربَابُ غَزْوَةِ ذَاتِ الرِّقَاعِ۴۶۹۹

[151] ابن ہشام ۲۰۳؍۲،دلائل النبوة للبیہقی۳۷۰؍۳

[152] زادالمعاد۲۲۴؍۳

[153] تاریخ طبری۵۵۵؍۲

[154] فتح الباری۴۱۷؍۷

[155]فتح الباری ۴۱۷؍۷

[156] زادالمعاد۲۲۵؍۳،ابن ہشام ۲۰۸؍۲،مغازی واقدی ۳۹۷؍۱،دلائل النبوة للبیہقی ۳۷۹؍۳

[157]مغازی واقدی۳۹۶؍۱،دلائل النبوة للبیہقی۳۷۰؍۳

[158] عیون الاثر ۷۶؍۲

[159] صحیح بخاری کتاب الجہاد بَابُ مَنْ عَلَّقَ سَیْفَهُ بِالشَّجَرِ فِی السَّفَرِ عِنْدَ القَائِلَةِ۲۹۱۰،وکتاب المغازی بَابُ غَزْوَةِ ذَاتِ الرِّقَاعِ۴۱۳۶

[160] البدایة والنہایة۳؍۴

[161] دلائل النبوة للبیہقی۳۷۵؍۳،عیون الاثر۷۷؍۲،البدایة والنہایة ۹۸؍۴

[162] شرح الزرقانی علی المواھب۵۳۲؍۲

Related Articles