ہجرت نبوی کا ساتواں سال

غزوہ خیبر محرم سات ہجری(اگست۶۲۸ء)

بعثت رسول کے بعدوقت کے ساتھ ساتھ تین گروہ اسلام دشمنی میں پیش پیش رہے تھے ،ان میں سب سے اول قریش مکہ تھے جوتجارت پیشہ تھے اورخودکوبنی اسمائیل میں شمارکرتے تھے اس بناپربیت اللہ کی متولی تھے ،مگران میں کوئی اسمائیلی شعارموجودنہ رہاتھا،انہوں نے اسماعیل علیہ السلام کی دعوت توحیدکوبھلاکر ۳۶۰سے زیادہ مٹی پتھرکے بے جان بتوں کومعبودیت کے تمام اختیارسونپ رکھے تھے ،جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کے حکم سے انہیں راہ حق بتلانے کے لئے کلمہ توحیدبلندفرمایاتووہ اس کلمہ حق کو نیچا دکھانے کے لئے اوراپنے مشرکانہ آبائی دین کی سربلندی کے لئے پوری قوت سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم اورآپ کے اصحاب پرٹوٹ پڑے،کمزوروبے بس مسلمانوں کودین حق سے برگشتہ کرنے کے لئے ان پرانسانیت سوزظلم وستم کابازارگرم کردیا،آخرمجبورہوکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اورآپ کے اصحاب اپنے دین کی حفاظت کے لئے پہلے حبشہ اورپھر مدینہ منورہ میں ہجرت کرگئے ،جہاں انصار نے انہیں اپنے کلیجوں سے لگالیا،اپناسب کچھ اپنے مسلمان مہاجربھائیوں پرنچھاورکرنے پرآمادہ ہوگئے ،اس پربھی قریش کی آگ ٹھنڈی نہ ہوئی تو منافقین مدینہ کوساتھ ملاکر اللہ وحدہ لاشریک کے نام لیواؤں کونیست ونابودکرنے کے لئے ان سے جنگیں کیں ،جس میں ان کے کئی نامورشہسواراپنے بدترین انجام کوپہنچ چکے تھے اورآخرغزوہ احزاب جس میں وہ دس ہزارکالشکرلے کرمدینہ منورہ پرحملہ آورہوئے تھے میں برترین شکست کے بعدانہیں مسلمانوں کے مقابلہ میں اپنی کم مائیگی کا احساس ہوگیاتھا،اس کے علاوہ قریش کی آمدن کاواحدزریعہ تجارت تھا،جنگوں میں بھرپور شمولیت کی وجہ سے وہ اس طرف توجہ نہ دے سکے جس سے معاشی طورپران کی کمر ٹوٹ چکی تھی اس لئے انہوں نے اپنی جان بچانے اوراپنی معاشی پوزیش کوبہتربنانے کے لئے اپنے باقی دوفریقوں سے مشاورت کے بغیرحدیبیہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دس سال جنگ نہ کرنے کامعاہدہ کیااورایک طرف ہوگئے۔

دوسراگروہ یہودمدینہ تھے،جوخودکواہل کتاب کہتے اور لکھناپڑھناجانتے تھے ،انہوں نے اپنی کتاب کی تعلیم کے لئے مدینہ طیبہ میں بڑے بڑے مدرسے کھول رکھے تھے ، مگرانہوں نے اپنی کتاب میں اتنی تحریفات کردیں تھیں کہ اس کتاب میں اللہ کاکلام کم اوران کی من مانی خرافات زیادہ تھیں ، اوراگرکہیں کچھ حق باقی رہ گیاتھاتووہ اس پرعمل کرناگوارانہیں کرتے تھے ،یہ مختلف اطراف سے پٹ کرمدینہ منورہ،خیبر،تیماء اوروادی القریٰ میں قیام پذیرہوگئے تھے،مدینہ منورہ میں انہوں نے تجارت کواپنایاجہاں اوس وخزرج زراعت کرتے تھے،یہودیوں نے مدینہ میں اپنے قدم جمانے کے لئے ان دونوں قبائل میں سازشوں کاجال بچھایاجس سے ان میں عرصہ درازتک جنگیں ہوتی رہیں جس میں ان کے افرادبھی قتل ہوئے اوروہ معاشی طورپربھی بہت کمزورہوگئے،یہ صورت حال یہودکے حق میں تھی چنانچہ وہ دونوں طرف سودپرسرمایہ کاری کرکے خوب مال بناتے اوراپنے قدم مضبوط کرتے رہےاوراب نوبت یہاں تک پہنچ چکی تھی کہ دونوں قبائل آپس میں لڑنے کے قابل ہی نہ رہے تھے،جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت فرماکرمدینہ منورہ پہنچے توتمام قبائل یہودسے معاہدہ امن وبھائی چارہ فرمایا،اورجس چیزمیں اللہ تعالیٰ کاواضح حکم نہ ہوتاتواہل کتاب کی پیروی کوپسندفرماتے،مگر یہودجن کی فطرت میں سازش اورعہدشکنی بسی ہوئی ہے بہت جلد معاہدہ امن وبھائی چارے کے باوجودمنافقین مدینہ اورقریش مکہ اورصحرامیں خانہ بدوش بدووں کے ساتھ مل کرسازشوں کاجال بچھانے لگے جس کے نتیجے میں پہلے بنی نضیر،پھربنی قینقاع کومدینہ منورہ سے جلاوطن ہوناپڑااوران کے سردارخیبرکی طرف چلے گئے جہاں انہیں خیبرکاسردارتسلیم کرلیاگیا،ان یہودی سرداروں کی کوششوں سے قریش مکہ،قبائل بنوغطفان،یہودبنوقریظہ اورصحراکے مشرک بدووں کوساتھ ملاکرمسلمانوں کوصفحہ ہستی سے مٹانے کے لئے دس ہزارکے لشکرکے ساتھ مدینہ منورہ کاگھیراؤکرلیا،یہ حملہ ایک طویل سیاسی کٹھ جوڑ،مذاکرات اورسفارتی وفودکے تبادلے کانتیجہ تھا،اس طرح خیبرنے کم ازکم سیاسی طورپرایک ایسی اہمیت اختیارکرلی جواس سے پہلے اسے حاصل نہ تھی ،مکہ مشرکین کی سیاسی سرگرمیوں اورحربی تیاریوں کامرکزتھاتوخیبراس کے مقابلے میں یہودکی سرگرمیوں اورتیاریوں کامرکزبنا،مگراتحادیوں کی حسرتیں ان کے دلوں میں رہ گئیں اوراللہ تعالیٰ کی رحمت سےدس ہزارکاوہ گروہ ناکام ونامرادواپس پلٹ گیا،مگراتحادیوں کی ہزیمت اورپسپائی کی وجہ سے خیبرکی یہ اہمیت کم نہ ہوئی بلکہ زیادہ ہوگئی ،اب وہ ایک علیحدہ اورخودمختاراکائی تھے جسے یہودعرب کی نمائندہ حیثیت حاصل ہوگئی تھی ،غزوہ بنوقریظہ کے بعدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہودی قبیلہ بنوقریظہ کے جنگجوؤں کومعاہدہ شکنی کے جرم میں ان کی اپنی کتاب کے فیصلے کے مطابق قتل کردیا۔

تیسراگروہ جزیرہ نماالعرب کے وسیع وعرض صحرامیں پھیلے خانہ بدوش بدوتھےجولوٹ مارکی کاروائیاں کرتے تھےاوران کے سرداراپنے قبیلہ کی معاشی ضروریات کے لئے قریش مکہ اوریہودیوں کے آلہ کاربنے رہتے تھے۔

جب پہلاگروہ قریش ایک طرف ہوگیا تو چندہی دنوں بعد آپ کوخیبر(عبرانی زبان میں خیبرکے معنی قلعہ کے ہیں )پرچڑھائی کاحکم ہواتاکہ انہیں اپنے جرائم کی سزادی جا سکے ، خیبرایک نخلستان ہے جوسطع سمندرسے ۲۸۰۰فٹ بلنداورمدینہ منورہ سے ۱۸۴کلومیڑشمال میں واقع ہے ،تقریباًایک سوکلومیڑتک خیبرکاراستہ تنگ اورپیچ داردروں میں سے گزرتاہے ،خیبرکھجورکے بکثرت باغات،زراعت اورقلعوں والاعلاقہ تھا،اس وقت صرف علاقہ الکتیبیہ میں کھجورکے چالیس ہزاردرخت تھے، یہاں کے باشندے جنگجوتھے مگر کسی ایک جگہ اجتماعی طورپرآبادنہ تھے بلکہ آس پاس کی متعددوادیوں میں آبادتھے اورکھجورکے باغات اورگندم کے کھیتوں کے درمیان بنے ہوئے قلعہ بندگھروں میں رہتے تھے،یہاں کی آب وہواقدرے غیرصحت مندہے قزوینی نے لکھاہے کہ یہاں کے باشندے دائمی بخارمیں مبتلارہا کرتے تھے اپنے مکروفریب اورخباثت میں مشہور تھے ،لیکن انہی میں سموال بن عادیابھی تھاجواپنی وفاداری میں مشہورتھا۔

خیبرکے قلعے:خیبرکی آبادی دوحصوں میں تقسیم تھی ،اس کے ایک حصہ میں پانچ ناقابل تسخیرمضبوط قلعے تھے،جن کے یہ نام تھے

قلعہ الناعم،قلعہالصعب بن معاذ، قلعہالکتیبہ اورقلعہبقلہ ۔

ان میں سے مشہورتین قلعوں پرمشتمل علاقہ نظاة لاتاتھااورباقی دوقلعوں کاعلاقہ شق کے نام سے مشہورتھا۔

دوسراحصہ الکتیبہ کہلاتا تھاجس میں تین قلعے تھے،جن کے یہ نام تھے۔

قلعہ القموص جوبنونضیرکے خاندان ابوالحقیق کاقلعہ تھا،

قلعہ الوطیح اورقلعہ سلالم۔

ان کے علاوہ چھوٹے چھوٹے اور کئی قلعے بھی تھے مگروہ اتنے مستحکم نہ تھے۔

چنانچہ حسب فرمان آپ نے تیاریاں شروع کردیں ،عام طورپررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی روانگی کی خبرکوخفیہ رکھتے تھے مگرغزوہ خیبرمیں آپ نے ایسانہیں کیاکیونکہ قریش نے اپنی جان بچانے کے لئے دس سالہ معاہدہ امن کرلیاتھااور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پڑوسی مشرک قبائل پر تادیبی حملے کرکے ان کی شوکت کا کانٹانکال پھینکاتھااورمسلمان مدینہ منورہ میں کسی حملہ سے بے خوف وخطراپنی زندگی بسرکررہے تھے اور اب مسلمان خیبرپرحملہ کرنے کے لئے تیارہوئے تویہ کوئی رازنہ تھاجسے چھپایاجاتا، اس لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں خیبرپرحملہ کرنے کے لئے اعلان جہاد کیا اور اعلانیہ عام تیاری فرمائی تومسلمانوں میں خوشی کی لہردوڑگئی،مخلفین(جوقریش کے خوف سے عمرہ کے لئے آپ کے ساتھ روانہ نہیں ہوئے تھے اور مختلف عذرکرکے گھروں میں دبکے رہے تھے)نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنےاپنی رغبت کااظہارکیاکہ وہ بھی خیبر پرحملہ کرنے والے لشکر میں شامل ہوکر جہادکاشرف حاصل کرنا چاہتے ہیں ، حالانکہ حقیقت میں ان مخلفین کامقصدشرف جہادکاحصول نہیں بلکہ صرف ان عظیم غنائم میں شریک ہوناتھاجن کا وعدہ اللہ تعالیٰ نے صلح حدیبیہ میں شریک صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے فرمایا تھا ، دوسرے معنوں میں یہ پیشگی خبرتھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اورآپ کے اصحاب رضی اللہ عنہن کو معرکہ خیبر میں لازماً کامیابی حاصل ہوگی اور انہیں عظیم غنائم حاصل ہوں گے، جب مخلفین کو یقین ہو گیاکہ بغیرکسی نقصان کے انہیں کثیرمال غنیمت حاصل ہوگاتو اسی مادی ودنیوی مقاصدکے لئے ساتھ چلنے کا اظہار کیا مگرنبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کے فرمان کے مطابق اعلان فرمایاکہ خیبرمیں یہودیوں کے ساتھ جنگ کرنے کے لئے آپ کے ساتھ اصحاب شجرہ ہی شریک ہوسکیں گے جو حدیبیہ میں حاضر تھے،اورمخلفین کی آزمائش کے لئے فرمایاکہ اس کے علاوہ جولوگ جہادکی رغبت کے باعث ساتھ چلنا چاہتے ہیں توچلیں مگر انہیں مال غنیمت کی تقسیم میں شامل نہیں کیا جائے گا،چنانچہ اس اعلان کانتیجہ بھی فوراًسامنے آ گیا وہی مخلفین جومخلصانہ طورپرجہادکی رغبت کانعرہ لگاکرلشکرخیبرمیں شامل ہوناچاہتے تھے جب انہوں نے اس اعلان کو سنا تو کسی ایک نے بھی ساتھ چلنے کا عندیہ نہ دیا،اس لئے لشکرخیبرکی تعدادچودہ سوہی رہی،

 أَتَیْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فِی نِسْوَةٍ مِنْ بَنِی غِفَارٍ، فَقُلْنَا: یَا رَسُولَ اللهِ، قَدْ أَرَدْنَا أَنْ نَخْرُجَ مَعَكَ إلَى وَجْهِكَ هَذَا، وَهُوَ یَسِیرُ إلَى خَیْبَرَ، فَنُدَاوِی الْجَرْحَى، وَنُعِینُ الْمُسْلِمِینَ بِمَا اسْتَطَعْنَافَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: عَلَى بَرَكَةِ اللهِ!قَالَتْ: فَخَرَجْنَا مَعَهُ

بنی غفارمیں سے ایک عورت کابیان ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبرکاقصدکیاتومیں چندعورتوں کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضرہوئی اور عرض کیااے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم !ہم عورتیں چاہتی ہیں کہ آپ کے ساتھ جہادمیں چلیں ہم مقدوربھرزخمیوں کی تیمارداری کریں گی اورمسلمانوں کومددپہنچاکرثواب کی مستحق ہوں گے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااللہ تعالیٰ تمہارے ارادہ میں برکت دے، چنانچہ ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ روانہ ہوئیں ۔[1]

وَخَرَجَ مَعَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مِنْ الْمَدِینَةِ عِشْرُونَ امْرَأَةً،أُمّ سَلَمَةَ زَوْجَتُهُ، وَصَفِیّةُ بِنْتُ عَبْدِ الْمُطّلِبِ، وَأُمّ أَیْمَنَ، وَسَلْمَى امْرَأَةُ أَبِی رَافِعٍ مُوَلّاةُ النّبِیّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، وَامْرَأَةُ عَاصِمِ بْنِ عَدِیّ وَلَدَتْ سَهْلَةَ بِنْتَ عَاصِمٍ بِخَیْبَرَ، وَأُمّ عُمَارَةَ نَسِیبَةُ بِنْتُ كَعْبٍ، وَأُمّ مَنِیعٍ وَهِیَ أُمّ شباث، وكعیبة بنت سعد الأسلمیّة، وأمّ مطاع الْأَسْلَمِیّة، وَأُمّ سُلَیْمٍ بِنْتُ مِلْحَانَ، وَأُمّ الضّحّاكِ بنت مسعود الحارثیّة، وهند بنت عمرو ابن حِزَامٍ، وَأُمّ الْعِلَاءِ الْأَنْصَارِیّةُ، وَأُمّ عَامِرٍ الْأَشْهَلِیّة، وَأُمّ عَطِیّةَ الْأَنْصَارِیّةُ، وَأُمّ سَلِیطٍ

چنانچہ بیس عورتیں جوصلح حدیبیہ کے وقت موجودنہ تھیں مجاہدین کی مدداورزخمیوں کی دیکھ بھال اورکھاناپکانے کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ روانہ ہوئیں ،ان عورتوں میں ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا ،صفیہ رضی اللہ عنہا بنت عبدالمطلب ،اورام ایمن رضی اللہ عنہا اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آزادکردہ غلام ابورافع کی بیوی سلمی رضی اللہ عنہا ،اورعاصم بن عدی کی بیوی ،اورام عمارہ رضی اللہ عنہا بنت کعب،اورام منیح ،اورکعیبہ بنت سعدالاسلمیہ ،اورام مطاع الاسلمیہ ،اورام سلیم بنت ملحان ،اورام الضحاک بنت مسعود الحارثیہ ،اورہندبنت عمروبن حزام ،اورام العلاء انصاریہ ،اورام عامرالاشھلیہ ،اورام عطیہ الصاریہ رضی اللہ عنہا اورام سلیط شامل تھیں ۔[2]

مدینہ طیبہ کے باقی صاحب ثروت یہودی جوغزوہ بنی قریظہ کے معاہدہ شکنوں میں شامل نہ تھے مسلمانوں کے تحفظ میں کامل آزادانہ طورپرزندگی بسر کر رہے تھے،مگرجب انہیں علم ہوا کہ مسلمان خیبرسے جنگ کرنے کی تیاری کررہے ہیں تو یہ بات انہیں شاق گزری کیونکہ انہیں یقین تھاکہ خیبر پر مسلمانوں کے قابض ہوجانے کا مقصدجزیرہ العرب میں دخیل یہودیوں کے وجودکاخاتمہ ہے ،اس لئے مسلمانوں کے عادلانہ سلوک کے باوجودان کی تمام ہمدردیاں یہود خیبر کے ساتھ تھیں ، یہ صاحب ثروت تھے اوراکثرمسلمان مالی لحاظ سے کمزوری کی وجہ سے ان سے قرض لیتے رہتے تھے ، انہوں نے مسلمانوں کو خیبر سے جنگ کو روکنے اور یہود خیبرکے مفادکے لئے اس بات سے فائدہ اٹھایااور مقروض مسلمانوں سے یہ مطالبہ شروع کردیاکہ وہ اپنے قرضوں کی فوری ادائیگی کریں ، ایک صحابی کا بیان ہے کہ جب ہم نے خیبرجانے کی تیاری کرلی تومدینہ کے تمام یہودیوں نے جس جس مسلمان سے کچھ قرضہ لیناتھااس کامطالبہ شروع کر دیا

وَكَانَ لِأَبِی الشّحْمِ الْیَهُودِیّ عِنْدَ عَبْدِ اللهِ بْنِ أَبِی حَدْرَدٍ الْأَسْلَمِیّ خَمْسَةُ دَرَاهِمَ فِی شَعِیرٍ أَخَذَهُ لِأَهْلِهِ ، فَلَزِمَهُ، فَقَالَ: أَجّلْنِی فَإِنّی أَرْجُو أَنْ أَقْدَمَ عَلَیْك فَأَقْضِیَك حَقّك إنْ شَاءَ اللهُ، إنّ اللهَ عَزّ وَجَلّ قَدْ وَعَدَ نَبِیّهُ خَیْبَرَ أَنْ یَغْنَمَهُ إیّاهَافَقَالَ: یَا أَبَا الشّحْمِ، إنّا نَخْرُجُ إلَى رِیفِ الْحِجَازِ فِی الطّعَامِ وَالْأَمْوَالِ،وَكَانَ عَبْدُ اللهِ بْنُ أَبِی حَدْرَدٍ مِمّنْ شَهِدَ الْحُدَیْبِیَةَ،فَقَالَ أَبُو الشّحْمِ حَسَدًا وَبَغْیًا: تَحْسِبُ أَنّ قِتَالَ خَیْبَرَ مِثْلُ مَا تَلْقَوْنَهُ مِنْ الْأَعْرَابِ؟ فِیهَا والتوراة عشرة آلاف مقاتل!قَالَ ابْنُ أَبِی حَدْرَدٍ: أَیْ عَدُوّ اللهِ! تُخَوّفْنَا بِعَدُوّنَا وَأَنْتَ فِی ذِمّتِنَا وَجِوَارِنَا؟

ایک یہودی ابوشحم نے عبداللہ بن حدرداسلمی سے جو کے پانچ درہم لینے تھے جو اس نے اپنے گھروالوں کے لئے خریدے تھے،اس نے عبداللہ رضی اللہ عنہ سے مطالبہ کیاتواس نے جواب دیاکہ مجھے کچھ مہلت دومجھے امیدہے کہ میں ان شاء اللہ تمہاراقرض جلد چکا دوں گا،اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی سے وعدہ فرمایاہے کہ وہ خیبرمیں انہیں کثیر مال غنیمت سے نوازے گا، اوراے ابوشحم !ہم حجازکے سبزہ زاریعنی خیبرکے طعام اوراموال کی طرف جارہے ہیں اورعبداللہ بن حدردغزوہ حدیبیہ میں شریک تھے،ابوشحم نے حسداورسرکشی اختیارکرتے ہوئے کہاتمہارے خیال میں خیبرکی جنگ اس طرح ہوگی جس طرح تم اعراب کے ساتھ کرتے ہو وہاں پردس ہزار جانبازہیں ،ابن ابی حدرد رضی اللہ عنہ نے کہااے اللہ کے دشمن! توہمیں دشمن سے ڈراتاہے حالانکہ توہماری پناہ اور حفاظت میں ہے؟

وَاَللهِ لَأَرْفَعَنّكَ إلَى رَسُولِ اللهِ!فَقُلْت: یَا رَسُولَ اللهِ أَلَا تَسْمَعُ إلَى مَا یَقُولُ هَذَا الْیَهُودِیّ؟ وَأَخْبَرْته بِمَا قَالَ أَبُو الشّحْمِ، فَأَسْكَتَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ ولم یَرْجِعْ إلَیْهِ شَیْئًا، إلّا أَنّی رَأَیْت رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ حَرّكَ شَفَتَیْهِ بِشَیْءٍ لَمْ أَسْمَعْهُ،فَقَالَ الْیَهُودِیّ: یَا أَبَا الْقَاسِمِ، هَذَا قَدْ ظَلَمَنِی وَحَبَسَنِی بِحَقّی وَأَخَذَ طَعَامِی!قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:أَعْطِهِ حَقّهُ،قَالَ عَبْدُ اللهِ: فَخَرَجْت فَبِعْت أَحَدَ ثَوْبَیْ بِثَلَاثَةِ دَرَاهِمَ، وَطَلَبْت بَقِیّةَ حَقّهِ فَقَضَیْته، وَلَبِسْت ثَوْبِی الْآخَرَ، وَكَانَتْ عَلَیّ عِمَامَةٌ فَاسْتَدْفَأْت بِهَا. وَأَعْطَانِی سَلَمَةُ بْنُ أَسْلَمَ ثَوْبًا آخَرَ، فَخَرَجْت فِی ثَوْبَیْنِ مَعَ الْمُسْلِمِینَ، وَنَفّلَنِی اللهُ خَیْرًا، وَغَنِمْت امْرَأَةً بَیْنَهَا وَبَیْنَ أَبِی الشّحْمِ قَرَابَةٌ فَبِعْتهَا مِنْهُ بِمَالٍ

اللہ کی قسم !میں تجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے جاؤں گا، چنانچہ پھرمیں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جاکر کہااے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !کیاآپ نے سناکہ یہ یہودی کیا کہتا ہے؟اس کے بعدمیں نے آپ کووہ بات بتائی جوابوشحم نے کہی تھی،یہ بات سن کررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش ہو گئے اورکچھ جواب نہ دیامگرمیں نے آپ کولب ہلاتے دیکھالیکن کوئی بات نہ سن سکا،یہودی نے آپ سے کہااے ابو القاسم !اس شخص نے مجھ پرظلم کیا اور میرے حق کوروکا اور میرا کھانالے لیا،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااس کاحق اسے دے دو،عبداللہ رضی اللہ عنہ کابیان ہے کہ میں نے باہرآکراپناایک کپڑا تین درہم میں فروخت کردیااوراس کابقیہ حق بھی کسی سے رقم لے کر ادا کر دیا اور دوسرے کپڑے کومیں نے پہن لیا،میرے پاس ایک عمامہ تھاجس سے میں گرمی حاصل کرتاتھا ، دوسرا کپڑا مجھے سلمہ بن اسلم نے دیاتومیں دو کپڑوں میں مسلمانوں کے ساتھ نکلا اوراللہ تعالیٰ نے مجھے مال غنیمت دیا،مجھے غنیمت میں ایک ایسی عورت ملی جو ابوشحم کی رشتہ دارتھی،میں نے اسے مال کے عوض اس کے پاس فروخت کر دیا [3]

منافقین :مدینہ منورہ کے منافقین جوبظاہرمسلمان تھے مگر یہودکے پیچھے ایک خفیہ مددگارطاقت تھے ،وہ یہودکومسلمانوں پرحملہ کرنے کے لئے اکساتے اورکھلم کھلایاخفیہ طور پر جیسے ممکن ہوتاان کی مدد کرتے تھے،جب بنونضیرجلاوطن ہوکرخیبراپنے بھائی بندوں میں چلے گئے تب بھی ان کے ساتھ ان کے مضبوط تعلقات قائم رہے اوریہ مسلمانوں کی صفوں کے اندر رہ کرمسلمانوں کی جاسوسی کرنے اوران رازوں کوخیبرمنتقل کرنے لگے جن کوجاننے کے لئے یہودبے چین تھے ،جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبرپرحملہ کرنے کا عزم کر لیا

أن عَبْدُ اللهِ بْنُ أُبَیٍّ ابْنُ سَلُولٍ أرسل إلیهم یخبرهم بأن محمدا سائر إلیكم، فخذوا حذركم، وأدخلوا أموالكم حصونكم، واخرجوا إلى قتاله ولا تخافوا منه، إن عددكم كثیر وقوم محمد شرذمة قلیلون عزل لا سلاح معهم إلا قلیل

تورئیس المنافقین عبداللہ بن ابی ابن سلول نے فورا ًاشجع قبیلے کے ایک شخص کوخط لکھ کرخیبرکے یہودیوں کی طرف روانہ کیا جس میں اس نے لکھاکہ محمد( صلی اللہ علیہ وسلم )تمہاری طرف آنے والے ہیں اپنے بچاؤکی تدابیرکرلواوراپنے اموال کواپنے قلعوں میں داخل کرلواورآپ سے جنگ کے لئے میدان میں آجاؤمحمدکے ساتھی بہت کم ہیں اوران کے پاس ہتھیاربھی تھوڑے ہیں جبکہ تمہاری تعدادبہت ہے اس لئے ان سے خوفزدہ نہ ہونا۔[4]

اس طرح مدینہ منورہ کے اندرکی خبریں انہیں بن مانگے ہی مل جاتی تھیں ۔

یہود خیبر کوغزوہ احزاب کی ناکامی کے بعدپہلے ہی توقع تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جوابی طورپراہل خیبرسے جنگ کریں گے اس لئے وہ متوقع حملے کے پیش نظربھرپورجنگ کی تیاری میں مصروف تھے ،انہوں نے اگلے تمام مضبوط ومستحکم قلعوں کوعورتوں وبچوں سے خالی کروا کرانہیں پچھلے قلعہ کتیبہ میں بھجوادیا،اس سے پچھلی لائن میں غذائی مواد کا بڑا ذخیرہ منتقل کر دیا تاکہ متوقع محاصرے کے وقت کام آئے اورسب سے سامنے قلعہ نطات کے میدان اوربرج کمسلح جوانوں سے بھرے ہوئے تھے ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قریش مکہ سے صلح ہو جانے کے بعد یہودخیبرکوحملہ کاخطرہ اوربڑھ گیاتھااس لئے جیش نبوی کی نقل وحرکت کی معلومات کے حصول کے لئے انہوں نے مدینہ طیبہ اور خیبر کے درمیان جاسوس بھیجے،

أرسلوا كنانة بن أبی الحقیق وهودة بن قیس فی أربعة عشر رجلا إلى غطفان لیستمدوا بهم، وشرطوا لهم نصف ثمار خیبر إن غلبوا على المسلمین، فجمعوا ثم خرجوا لیظاهروا یهود خیبر

اور اپنے قدیم دوستوں اورپڑوسی اعراب نجدسے مددطلب کرنے میں ایک چودہ رکنی وفدروانہ کیاجس کے لیڈرخیبرکانیابادشاہ کنانہ بن ابی الحقیق اوریہودکاسرکردہ لیڈرقبیلہ وائل کا ھوذہ بن قیس الوائلی تھے، اس وفد نے قبیلہ غطفان ،بنواسداوربنی مرہ کادورہ کیااوران سے ایک سال کے خیبرکے پھلوں کانصف کے وعدے پرمددطلب کی۔ غطفان اور بنو اسدنے یہودکے مطالبہ کوقبول کرنے میں ذرابھی تردد سے کام نہ لیااور یہود کی مددکے لئے عیینہ بن حصن الفزاری اورطلیحہ بن خویلد کی قیادت میں اپنے آدمیوں کے کئی دستے بھیجےاورچارہزارجانبازوں کوتیارکرکے بھیجنے کا وعدہ بھی کیا ،مگر بنومرہ کے سردارحارث بن عوف مری نے دانشمندی سے کہامسلمان جب بھی یہودپرحملہ کرتے ہیں انہیں فتح و نصرت نصیب ہوتی ہے اس لئے بنی مرہ کی گردنوں کوموت کے لئے پیش کرناایک عبث فعل ہے جس کاانجام یہودکی شکست اورمسلمانوں کی فتح ہے ،اسی بات پراس نے ایک آدمی کوبھی بھیجنے سے انکارکر دیا

جَاءَهُ الْحَارِثُ بْنُ عَوْفٍ، قَالَ: أَلَمْ أَقُلْ لَك إنّك تُوضَعُ فِی غَیْرِ شَیْءٍ؟ وَاَللهِ لَیَظْهَرَنّ مُحَمّدٌ عَلَى مَنْ بَیْنَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ، الْیَهُودُ كَانُوا یُخْبِرُونَنَا هَذَاأَشْهَدُ لَسَمِعْت أَبَا رَافِعٍ سَلّامَ بْنَ أَبِی الْحُقَیْقِ یَقُولُ: إنّا نَحْسُدُ مُحَمّدًا عَلَى النّبُوّةِ حَیْثُ خَرَجَتْ مِنْ بَنِی هرون، وَهُوَ نَبِیّ مُرْسَلٌ وَالْیَهُودُ لَا تُطَاوِعُنِی عَلَى هَذَا، وَلَنَا مِنْهُ ذَبَحَانِ، وَاحِدٌ بِیَثْرِبَ وَآخَرُ بِخَیْبَرَ قَالَ الْحَارِثُ، قُلْت لِسَلّامٍ:یَمْلِكُ الْأَرْضَ جَمِیعًا؟قَالَ: نَعَمْ وَالتّوْرَاةُ الّتِی أُنْزِلَتْ عَلَى مُوسَى، وَمَا أُحِبّ أَنْ تَعْلَمَ الْیَهُودُ بِقَوْلِی فِیهِ!

اس نے اسی پراکتفانہ کیابلکہ خزارہ کے سردارعیینہ بن حصن کے پاس جاکراسے مشورہ دیاکہ اے عیینہ !توایک عبث کام کررہاہے اللہ کی قسم ! محمد مشرق ومغرب کے درمیان جو کچھ بھی ہے اس پرضرورغالب آکر رہیں گے، یہ بات خود یہودہمیں بتاتے تھے، میں شہادت دیتاہوں کہ میں نے ابورافع سلام بن ابی الحقیق کوکہتے سناہے کہ محمدکی نبوت پراس لئے حسدکرتے ہیں کہ وہ بنی ہارون سے نکل گئی ہے اور محمد نبی مرسل ہیں اوریہودی میری بات نہیں مانتے،ہماری ان سے دوجنگیں ہوں گی ایک مدینہ میں (اوروہ ہو چکی ہے)اورایک خیبر میں ،میں نے کہااے سلام !کیاوہ زمین پرغالب آجائے گا؟اس نے جواب دیاہاں قسم تورات کی جو موسیٰ علیہ السلام پرنازل ہوئی لیکن میں یہ بات پسندنہیں کرتاکہ اس کے بارے میں یہودکومیرے اس قول کاعلم ہو،مگرعیینہ نہ مانااوروہ اپنے دستوں کے ساتھ روانہ ہوا۔[5]

متفقہ منصوبہ :یہوداورغطفان کامسلمانوں کے خلاف متفقہ منصوبہ یہ تھاکہ غطفان کے قبائل مسلمانوں کے خلاف فوجی لحاظ سے اس اسکیم کے تحت یہودکی مددکریں گے۔

xغطفانی قبائل اپنے مسلح جوانوں کاایک دستہ یہودیوں کے ساتھ ان کے قلعوں میں رہنے کے لئے بھیجیں ،چنانچہ اس شق کے مطابق ان قبائل نے عیینہ بن حصن،طلیحہ بن خویلداورحذیفہ بن بدر الغزاری کی قیادت میں خیبرمیں کئی دستے بھیجے جن کی تعداد غالباً ایک ہزارتھی تاکہ جب مسلمان ان پرحملہ کریں تووہ ان کے ساتھ شریک ہوسکیں ،اس طرح قلعوں میں مسلح جانبازوں کی مجموعی تعداد گیارہ ہزار کے لگ بھگ تھی۔

xچارہزارغطفانی جانبازمسلمانوں پراس وقت حملہ کریں جب وہ خیبرکے قریب پہنچ جائیں ۔

سریہ ابان رضی اللہ عنہ بن سعید

دوسرے گروہ یہودخیبرکی سرکوبی کے لئے روانگی کی تیاری مکمل ہوچکی تھی مگرآپ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ کے گردمقیم تیسرے گروہ ان بدوسے غافل نہ تھے جونجدکے وسیع وعریض صحرامیں خیمہ زن تھے اورلوٹ ماراورڈاکہ زنی کے لئے کاروائیاں کرتے رہتے تھے اس لئے تمام مجاہدین کوخیبرکی طرف لے جانا،یہودسے نمعلوم وقت تک مقابلہ کرنااورپھرواپس آنے کے لئے کافی عرصہ درکارتھا،ماہ حرام کے بعدان بدوں کی طرف سے سخت خطرہ تھاکہ وہ اس زریں موقعہ سے فائدہ اٹھائیں گے ،کیونکہ یہ بدومکانات یاقلعوں میں نہیں بلکہ خیموں میں رہتے تھے اس لئے ان پراوران کی کاروائیوں پرمکمل طورپرقابوپالینامشکل امرتھااس لئے ان کے لئے صرف خوف زدہ کرنے والی تادیبی کاروائیاں ہی مفیدہوسکتی تھیں ، اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سرکش بدووں کواپنے علاقہ تک محدودرکھنے اورانہیں خوف زدہ کرنے کے لئے ابان بن سعید رضی اللہ عنہ کی کمان میں ایک دستہ نجدکی طرف روانہ فرمایاتاکہ وہ وہ ایسی تادیبی کاروائیاں کرتے رہیں جس سے دشمن خوف زدہ ہوکر اپنے علاقوں تک محدو رہیں ۔

خیبرکی طرف روانگی:

أَنَّهُ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ اسْتَعْمَلَ على الْمَدِینَة نمیلَة بنُون مصغر بن عَبْدِ اللهِ اللیْثِیَّ وَعِنْدَ أَحْمَدَ وَالْحَاكِمِ مِنْ حَدِیثِ أَبِی هُرَیْرَةَ أَنَّهُ سِبَاعُ بْنُ عُرْفُطَةَ وَهُوَ أَصَحُّ

جب تیاری مکمل ہوگئی توحسب دستورآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ منورہ کی اسلامی ریاست کے انتظامی امورکے لئے ابن ہشام کے مطابق نمیلہ بنون مصغر بن عبداللہ لیثی کواورامام احمدبن حنبل رحمہ اللہ اورحاکم کے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث کے مطابق سباع بن عرفطہ الغفاری کواپنانائب مقرر فرمایااوریہی صحیح ہے۔[6]

وَاسْتَخْلَفَ عَلَى الْمَدِینَةِسِبَاعَ بْنَ عُرْفُطَةَ الْغِفَارِیَّ

اورمدینہ منورہ پرسباع بن عرفطہ الغفاری رضی اللہ عنہ کواپنانائب مقرر فرمایا۔[7]

وَبَعَثَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وسلّم عبّاد بن بشر فِی فَوَارِسَ طَلِیعَةٍ،

اور راستوں کی دیکھ بھال کرنے ،دشمن کی کمین گاہوں وغیرہ کی آگاہی کے لئے عباد بن بشرانصاری کی قیادت میں نوجوانوں کاایک جاسوس دستہ آگے روانہ فرمایا۔[8]

وَمَعَهُمْ دَلِیلَانِ مِنْ أَشْجَعَ یُقَالُ لِأَحَدِهِمَا حَسِیلُ بْنُ خَارِجَةَ، وَالْآخَرُ عَبْدُ اللهِ بْنُ نُعَیْمٍ

کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اورآپ کے اصحاب رضی اللہ عنہم خیبرکے راستوں سے ناآشنا تھے اس لئے نجدکے قبیلہ اشجع کے دوماہررہبرکی خدمات حاصل کی گئیں جس میں ایک کانام حسیل بن خارجہ اوردوسرے کاعبداللہ بن نعیم تھا۔[9]

وَقَالَ مُوسَى بْنُ عُقْبَةَ لَمَّا رَجَعَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وسلَّم مَنْ الحدیبیة مكث عِشْرِینَ یَوْمًا أَوْ قَرِیبًا مِنْ ذَلِكَ،قَالَ ابْنُ إِسْحَاقَ.ثُمَّ أَقَامَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بِالْمَدِینَةِ حِینَ رَجَعَ مِنَ الْحُدَیْبِیَةِ، ذَا الْحِجَّةِ وَبَعْضَ الْمُحَرَّمِ

موسیٰ بن عقبہ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ حدیبیہ سے واپسی کے بعدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کم وبیش بیس روزمدینے میں قیام فرمایا،اورابن اسحاق کہتے ہیں غزوہ حدیبیہ سے واپسی کے بعدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ منورہ میں پوراماہ ذی الحجہ اورماہ محرم کاکچھ حصہ بسرفرمایا۔ [10]

ثُمَّ خَرَجَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فِی بَقِیَّةِ الْمُحَرَّمِ سَنَةَ سَبْعٍ

اورپھر محرم سات ہجری کے آخری دنوں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبرکے جہادکاقصدفرمایا۔[11]

حفاظتی دستے کے پیچھے چودہ سو مجاہدین اسلام تھے،

صَالِحِ بْنِ كَیْسَانَ قَالَ: كَانَ مَعَ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَوْمَ خَیْبَرَ مائتا فرس

صالح بن کیسان کہتے ہیں غزوہ خیبرکے موقعہ پرنبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ دوسو گھوڑےبھی شامل تھے۔[12]

الرِّجَالُ أَربع عشرَة مائَة، وَالْخَیْل مِائَتَا فَارِسٍ

غزوہ خیبرمیں چودہ سوآدمی تھے اوردوسوگھوڑے تھے۔[13]

جومسلمانوں کی آج تک کی جنگی تاریخ کی سب سے بڑی تعداد تھی ، ورنہ ماقبل غزوات میں سوارتیس سے زیادہ نہ ہو سکے تھے اور وسائل نقل وحمل کے لئے کچھ اونٹوں کے ساتھ خیبرکی طرف روانہ ہوئے۔

ایک شرط:قریش مکہ(جس میں مسلمانوں کے دوست ودشمن دونوں شامل تھے) کفروایمان کی جنگ کاقطعی فیصلہ کرنے والاغزوہ خیبرکے نتائج پربڑے اہتمام سے جائزہ لے رہے تھے،قریش جانتے تھے کہ اس وقت جزیرہ العرب میں یہود خیبراوران کے غطفانی حلیفوں سے بڑکرکر جانبازشہسواروں کی تعداد،اسلحہ جات ،جنگی تیاریوں اور مضبوط ومستحکم قلعہ جات کامقابلہ کرنے والاکوئی نہیں ،اس کے علاوہ ان کے مضبوط قلعہ جات ہیں ،جن میں کھانے کاوافرذخیرہ ہے اورپینے کے چشمے ہیں جبکہ مسلمان عددی لحاظ سے بھی کمترہیں اوراسلحہ کے لحاظ سے بھی کمزورہیں اوروہ قلعوں کے بجائے کھلے میدان میں ہوں گے اوران کی رسدکابھی کوئی بندوبست نہیں اس لئے وہ یہودیوں سے عبرت ناک شکست کھائیں گے ، اس معرکہ کی اہمیت کے پیش نظرقریش کی محفلوں میں اس کے نتائج کے متعلق باتیں ہوتی رہتیں کہ اس معرکہ میں فتح ونصرت کس فریق کا مقدر بنتی ہے،اس بحث وتکرارمیں دوگروپ بن جاتے ،ایک گروپ جس کاسردارحویطب بن عبدالعزیٰ تھاکاخیال تھاکہ اس معرکہ میں بھی مسلمانوں کو عددی لحاظ سے کمتر ہونے ، اسلحہ کے لحاظ سے کمزورہونے ،قلعوں کے بجائے کھلے میدان میں ہونے اور رسدکاکوئی بندوبست نہ ہونے کے باوجودبھی یہودیوں اوران کے حلیفوں پرفتح ونصرت حاصل ہو گی ، دوسرافریق جس کالیڈرصفوان بن امیہ تھااوراس کے ساتھ عباس بن مرداس ،نوفل بن معاویہ وغیرہ تھے حویطب بن عبدالعزیٰ کے برعکس قسمیں کھاکر کہتے تھے کہ اس معرکہ میں یہودی اوران کے حلیف اسدوغطفان اپنے بہادراور نامور شہسواروں کے ساتھ مسلمانوں کاہمیشہ کے لئے صفایہ کردیں گے، اس بحث وتکرارمیں دونوں فریقوں میں شدیدجھگڑاکھڑاہوگیا

فَاضْطَرَبَ الصّوْتُ، فَقَالَ أَبُو سُفْیَانَ بْنُ حَرْبٍ:خَشِیت واللّات حَیّزَ عَبّاسِ بْنِ مِرْدَاسٍ، فَغَضِبَ صَفْوَانُ وَقَالَ: أَدْرَكَتْك الْمُنَافِیَةُ! فَتَخَاطَرْنَا مِائَةَ بَعِیرٍوَجَاءَهُ الْخَبَرُ بِظُهُورِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَأَخَذَ حُوَیْطِبُ وَحَیّزُهُ الرّهْنَ

شدیدجھگڑے کی وجہ سے آواز بلند ہوئی توابوسفیان بن حرب نے کہالات کی قسم !مجھے عباس بن مرداس اوراس کی پارٹی کے متعلق خدشہ ہے، توصفوان بن امیہ نے ناراض ہوکرکہامیں نے تجھے مخالف پایاہے،بالآخردونوں فریقوں میں سواونٹوں کی شرط لگ گئی کہ جس فریق کی بات ثابت ہوجائے وہ ہارنے والے فریق سے سواونٹ حاصل کر لے گا جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہوداوران کے حلیفوں پرغالب آنے کی اطلاع پہنچی تو حویطب بن عبدالعزیٰ نے شرط کے مطابق صفوان بن امیہ سے سواونٹ حاصل کرلئے۔[14]

جاسوس کی گرفتاری:

فَأَخَذَ عَیْنًا لِلْیَهُودِ مِنْ أَشْجَعَ فَقَالَ: مَنْ أَنْتَ؟ قَالَ: بَاغٍ أَبْتَغِی أَبْعِرَةً ضَلّتْ لِی، أَنَا عَلَى أَثَرِهَا قَالَ لَهُ عَبّادٌ: أَلَك عِلْمٌ بِخَیْبَرَ؟ قَالَ:عَهْدِی بِهَا حَدِیثٌ، فِیمَ تَسْأَلُنِی عَنْهُ؟ قَالَ: عَنْ الْیَهُودِ. قَالَ: نَعَمْ، كَانَ كِنَانَةُ بْنُ أَبِی الْحُقَیْقِ وَهَوْذَةُ بْنُ قَیْسٍ سَارُوا فِی حُلَفَائِهِمْ مِنْ غَطَفَانَ، فَاسْتَنْفَرُوهُمْ وَجَعَلُوا لَهُمْ تَمْرَ خَیْبَرَ سَنَةً، فَجَاءُوا مُعَدّینَ مُؤَیّدِینَ بِالْكُرَاعِ وَالسّلَاحِ یَقُودُهُمْ عُتْبَةُ بْنُ بَدْرٍ، وَدَخَلُوا مَعَهُمْ فِی حُصُونِهِمْ، وَفِیهَا عَشَرَةُ آلَافِ مُقَاتِلٍ

عبادبن بشر رضی اللہ عنہ نے راستے میں قبیلہ اشجع کے ایک آدمی کویہودکاجاسوس سمجھ کرپکڑلیا اور کہا تم کون ہو؟ اس نے کہا میں تو گمشدہ اونٹ کی تلاش میں نکلا ہواہوں ،تو عباد نے اس سے کہا کیا تمہیں خیبر سے متعلق کوئی خبر ہے؟ تو اس نے کہا کہ میں تو یہاں نیا ہوں مجھ سے خیبر کے متعلق کیوں پوچھتے ہو پھر عباد نے یہود سے متعلق پوچھا تو اس نے اعتراف کر لیا،شروع شروع میں اس نے جاسوس ہونے سے انکارکیامگرجب اس سے سختی سے پوچھاگیااوراسے امان دی گئی تواس نے اپنے اجرتی جاسوس ہونے کااعتراف کرلیا ، اورکنانہ بن ابی الحقیق اورھوذہ بن قیس کے بارے میں بتایاکہ وہ ایک وفدکے ساتھ اپنے غطفانی حلیفوں کے پاس مددلینے گئے ہیں اورانہوں نے انہیں خیبرکی ایک سال کی کھجوروں پر جنگ پرتیار کرلیا ہے اوروہ گھوڑوں اوراسلحہ کی مددلے کرآئے ہیں ، ان کی قیادت عتبہ بن بدر کر رہاتھا اوروہ ان کے ساتھ ان کے قلعوں میں داخل ہوگئے ہیں جہاں دس ہزارجانبازپہلے سے موجودہیں ،

وَهُمْ أَهْلُ الْحُصُونِ الّتِی لَا تُرَامُ، وَسِلَاحٌ وَطَعَامٌ كَثِیرٌ لَوْ حُصِرُوا لِسِنِینَ لَكَفَاهُمْ، وَمَاءٌ وَاتِنٌ یَشْرَبُونَ فِی حُصُونِهِمْ، مَا أَرَى لِأَحَدٍ بِهِمْ طَاقَة، الْقَوْمُ مَرْعُوبُونَ مِنْكُمْ خَائِفُونَ وَجِلُونَ لِمَا قَدْ صَنَعْتُمْ بِمَنْ كَانَ بِیَثْرِبَ مِنْ الْیَهُودِ فَقَالَ لِی كِنَانَةُ: اذْهَبْ مُعْتَرِضًا للطریق فإنهم لا یستنكرون مكانك، واحزرهم لَنَا، وَادْنُ مِنْهُمْ كَالسّائِلِ لَهُمْ مَا تَقْوَى بِهِ، ثُمّ أَلْقِ إلَیْهِمْ كَثْرَةَ عَدَدِنَا وَمَادّتِنَا فَإِنّهُمْ لَنْ یَدَعُوا سُؤَالَك، وَعَجّلْ الرّجْعَةَ إلَیْنَا بِخَبَرِهِمْ

اوراہل قلعہ کی طرف کوئی شخص منہ نہیں کر سکتا،وہاں پروافر مقدار میں پانی ،غذائی اجناس اوراسلحہ موجودہیں جوکئی سال کے محاصرے کے لئے کافی ہیں ،میں کسی قوم میں ان کے ساتھ لڑنے کی طاقت نہیں پاتا، البتہ جو کچھ تم لوگوں نے مدینہ منورہ کے یہودکے ساتھ کیاہے وہ اس سے مرعوب اورخوف زدہ ہیں ،کنانہ بن ابی الحقیق نے مجھے کہاہے کہ راستے میں جا کیونکہ وہ آپ کی منزلت کو مانتے ہیں اس لیے تو انہیں ہماری نسبت ڈرا اور ایک سائل کی طرح تمہیں ان کی کثرت تعداداورقوت کے بارے میں بتلاؤں ،وہ تمہارے سوال کوہرگزنہیں چھوڑیں گے پھران کے حالات معلوم کرکے جلد از جلد ہمارے پاس آجاؤ،

وَإِنّ یَهُودَ یَثْرِبَ بَعَثُوا ابْنَ عَمّ لِی وَجَدُوهُ بِالْمَدِینَةِ، قَدْ قَدِمَ بِسِلْعَةٍ یَبِیعُهَا، فَبَعَثُوهُ إلَى كِنَانَةَ بْنِ أَبِی الْحُقَیْقِ یُخْبِرُونَهُ بِقِلّتِكُمْ وَقِلّةِ خَیْلِكُمْ وَسِلَاحِكُمْ. وَیَقُولُونَ لَهُ:فَاصْدُقُوهُمْ الضّرْبَ یَنْصَرِفُوا عَنْكُمْ، فَإِنّهُ لَمْ یَلْقَ قَوْمًا یُحْسِنُونَ الْقِتَالَ! وَقُرَیْشٌ وَالْعَرَبُ قَدْ سَرَوْا بِمَسِیرِهِ إلَیْكُمْ لِمَا یَعْلَمُونَ مِنْ مَوَادّكُمْ وَكَثْرَةِ عَدَدِكُمْ وَسِلَاحِكُمْ وَجَوْدَةِ حُصُونِكُمْ! وَقَدْ تَتَابَعَتْ قُرَیْشٌ وَغَیْرُهُمْ مِمّنْ یَهْوَى هَوَى مُحَمّدٍ، تَقُولُ قُرَیْشٌ: إنّ خَیْبَرَ تَظْهَرُ! وَیَقُولُ آخَرُونَ: یَظْهَرُ مُحَمّدٌ، فَإِنْ ظَفَرَ مُحَمّدٌ فَهُوَ ذُلّ الدّهْرِ!

اور مدینہ کے یہود نے بھی میرے عم زادکو جو مدینہ میں پایا جو کہ سامان کی خرید وفروخت کی غرض سے آیا ہوا تھا،کنانہ ابن ابی الحقیق کی طرف تمہاری قلت تعداد ، گھوڑوں اوراسلحہ کے بارے میں معلومات دے کربھیجاہے اور کہا ہے کہ ابھی تک مسلمانوں کو جنگ کرنے والے لوگوں سے پالانہیں پڑا،تم انہیں خوب ضرب لگاؤپھریہ تمہاری طرف رخ نہیں کریں گے،قریش مکہ اوردوسرے عرب قبائل بھی اس بات پرخوش ہیں کہ تم لوگ خیبرپرحملہ کرنے کے لئے جارہے ہوکیونکہ تمہیں ابھی تک ان کے غذائی اجناس کے ذخیروں ،قلعوں کی مضبوطی ، جانبازجوانوں اور ہتھیاروں کے متعلق پتہ ہی نہیں چل سکااور لوگ باتیں بنارہے ہیں ،قریش کہتے ہیں اہل خیبرغالب رہیں گے جبکہ دوسرے لوگ کہتے ہیں محمد غالب رہیں گے،اگرمحمدغالب ہو گئے توعمربھرکی رسوائی ہوگی،

فَأَتَى بِهِ عَبّادٌ النّبِیّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَأَخْبَرَهُ الْخَبَرَفَقَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطّابِ: اضْرِبْ عُنُقَهُ،قَالَ عَبّادٌ: جَعَلْت لَهُ الْأَمَانَ،فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: أَمْسِكْهُ مَعَك یَا عَبّادُ! فَأَوْثِقْ رِبَاطًافَلَمّا دَخَلَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ خَیْبَرَ عَرَضَ عَلَیْهِ الْإِسْلَامَ،فَأَسْلَمَ

تفشیش مکمل کرکے عبادبن بشر رضی اللہ عنہ نے اس جاسوس کورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کرکے تمام حقیقت حال سے آگاہ کیا، سیدناعمر رضی اللہ عنہ نے کہامجھے اسے قتل کرنے دو،عبادبن بشر رضی اللہ عنہ نے کہاآپ ایسانہیں کرسکتے میں نے اسے امان دی ہے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااے عباد رضی اللہ عنہ !اسے باندھ کراپنے ساتھ رکھوجب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خیبرمیں داخل ہوئے تواس جاسوس کوحاضرکرنے کاحکم فرمایااوراسے دعوت اسلام پیش کی جسے اس نے قبول کرلیا۔[15]

حَتَّى إِذَا كُنَّا بِالصَّهْبَاءِ، وَهِیَ مِنْ أَدْنَى خَیْبَرَصَلَّى العَصْرَ، ثُمَّ دَعَا بِالأَزْوَادِ فَلَمْ یُؤْتَ إِلَّا بِالسَّوِیقِ، فَأَمَرَ بِهِ فَثُرِّیَ، فَأَكَلَ وَأَكَلْنَاثُمَّ قَامَ إِلَى المَغْرِبِ، فَمَضْمَضَ وَمَضْمَضْنَا، ثُمَّ صَلَّى وَلَمْ یَتَوَضَّأْ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوبنوغطفان اوریہودکے گٹھ جوڑکی اطلاع مل چکی تھی اس لئے خیبرکی طرف جاتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جبل عفراور وادی صہبا کوجوخیبرکے نشیب میں واقع ہےعبورکرکے وادی رجیح میں پڑاؤ ڈالا (یہاں سے یہودکے حلیف بنوغطفان کی آبادی ایک دن اورایک رات کے فاصلے پرواقع تھی تاکہ وہ مرعوب ہوکریہودخیبرکی مددکونہ پہنچ سکیں )یہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز عصرادافرمائی پھرکھانے کاکچھ منگوایاتوصرف ستولایاگیاجسے آپ نے اورمجاہدین نے کھایاپھرآپ نمازمغرب کے لئے کھڑے ہوئے توپچھلے وضوپر اکتفا کر کے صرف کلی فرمائی ،صحابہ کرام نے بھی کلی ہی کی ، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نمازادافرمائی۔[16]

 ثُمّ صَلّى الْعِشَاءَ بِالنّاسِ،ثُمّ دَعَا بِالْأَدِلّاءِ فَجَاءَ حُسَیْلُ بْنُ خَارِجَةَ الْأَشْجَعِیّ، وَعَبْدُ اللهِ بْنُ نُعَیْمٍ الْأَشْجَعِیّ. قَالَ: فقال رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ لِحُسَیْلٍ: امْضِ أَمَامَنَا حَتّى تَأْخُذَنَا صُدُورُ الْأَوْدِیَةِ، حَتّى نَأْتِیَ خَیْبَرَ مِنْ بَیْنَهَا وَبَیْنَ الشّامِ، فَأَحُولُ بَیْنَهُمْ وَبَیْنَ الشّامِ وَبَیْنَ حُلَفَائِهِمْ مِنْ غَطَفَانَ،فَقَالَ حُسَیْلٌ: أَنَا أَسْلُكُ بِك

پھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عشاء کی نمازادا فرمائی ،دوسری صبح روانہ ہونے سے قبل آپ نے دونوں رہبروں حسیل بن خارجہ اورعبداللہ بن نعیم کوطلب فرمایااوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےحسیل بن خارجہ کہا کہ وہ لشکر کو خیبر میں مدینہ منورہ کے راستہ کے بجائے شام کی طرف سے داخل کریں تاکہ اس حکمت عملی سے لشکر اسلام بنوغطفان اوریہودکے درمیان حائل ہوجائے اوران کی طرف سے کسی طرح کی مددکاامکان ختم ہوجائے اوردوسری طرف یہودکاشام کی طرف فرارہونے کاراستہ بندکردیں ،چنانچہ رہبرحسیل حسب ہدایت لشکر کو ایسے ہی راستے پرلے چلا۔[17]

فَلَمّا قَدِمَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ خَیْبَرَ أَرْسَلَ إلَیْهِمْ سَعْدَ بْنَ عُبَادَةَ وَهُمْ فِی الْحِصْنِ، فَلَمّا انْتَهَى سَعْدٌ إلَى الْحِصْنِ نَادَاهُمْ: إنّی أُرِیدُ أَنْ أُكَلّمَ عُیَیْنَةَ بْنَ حِصْنٍ. فَأَرَادَ عُیَیْنَةُ أَنْ یُدْخِلَهُ الْحِصْنَ، فَقَالَ مَرْحَبٌ: لَا تَدْخُلْهُ فَیَرَى خَلَلَ حِصْنِنَا وَیَعْرِفُ نَوَاحِیَهُ الّتِی یُؤْتَى مِنْهَا، وَلَكِنْ تَخْرُجُ إلَیْهِ، فَقَالَ عُیَیْنَةُ: لَقَدْ أَحْبَبْت أَنْ یَدْخُلَ فَیَرَى حَصَانَتَهُ وَیَرَى عَدَدًا كَثِیرًا فَأَبَى مَرْحَبٌ أَنْ یُدْخِلَهُ، فَخَرَجَ عُیَیْنَةُ إلَى بَابِ الْحِصْنِ،فَقَالَ سَعْدٌ: إنّ رَسُولَ اللهِ أَرْسَلَنِی إلَیْك یَقُولُ: إنّ اللهَ قَدْ وَعَدَنِی خَیْبَرَ فَارْجِعُوا وَكُفّوا، فَإِنّ ظَهَرْنَا عَلَیْهَا فَلَكُمْ تَمْرُ خَیْبَرَ سَنَةً

جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خیبرپہنچے تو اسلامی لشکرکوخطرات سے بچانے کے لئے خزرج کے سردار سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کوغطفان کے سالار عیینہ بن حصن کی طرف بھیجا جواس وقت مرحب کے قلعہ میں تھا،جب اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قاصدکاعلم ہواتواس نے انہیں قلعہ کے اندر بلانے کا ارادہ کیا،مگرمرحب نے کہا اسے قلعہ کے اندرداخل نہ کرواس طرح وہ قلعہ میں داخل ہونے کا راستہ اوراسے اندرسے دیکھ لے گابلکہ تم خوداس کی طرف جاؤ، عیینہ نے کہا میں چاہتاہوں کہ اندرداخل ہو کر قلعہ کی مضبوطی اوریہاں ہماری کثرت تعدادکواپنی آنکھوں سے دیکھ کرمرعوب ہوجائے،مگرمرحب نے یہ دلیل منظورنہیں کی اس لئے عیینہ قلعہ سے باہر نکل کر سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ سے ملا،سعد رضی اللہ عنہ نے اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا پیغام پہنچایا وہ مسلمانوں اور یہودکے درمیان عنقریب ہونیوالی جنگ میں غیر جانبدار رہیں اور انہیں یقین دلایاکہ اللہ تعالیٰ اپنے وعدے کے مطابق انہیں خیبرپرفتح ونصرت عطافرمائے گااوراللہ کاوعدہ کبھی ٹل نہیں سکتااس کے عوض وہ انہیں خیبرکی ایک سال کی کھجوریں دینے کوتیار ہیں ۔

مگر عیینہ اپنی اور اپنے حلیف یہودکی کثرت اورمسلمانوں کی قلت تعدادکودیکھ کرغرورمیں مبتلا ہوگیا اورظاہراًاس کاغروربجاتھا،مادی اندازوں کے مطابق ہر چیزمسلمانوں کے خلاف اوریہودکے حق میں تھی ، چودہ سوآدمیوں کی طاقت پندرہ ہزارآدمیوں کے مقابلہ میں ایسی تھی جیسے تلوارکے مقابلہ میں لاٹھی،مگر اس نے اللہ تعالیٰ کے سچے وعدے کو عبث جانا،اس نے اللہ کی بے شمارمخفی مخلوقات کی طاقت کونہ جانااوریہ خیال کیاکہ وہ اپنی عددی برتری کی وجہ سے مسلمانوں پر غالب ہوجائیں گےچنانچہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس پیشکش کوحقارت سے ٹھکرا دیااورغیرجانبداری اختیارکرنے سے انکارکردیا

فَقَالَ عُیَیْنَةُ: إنّا وَاَللهِ مَا كُنّا لِنُسَلّمَ حَلْفَاءَنَا لِشَیْءٍ، وَإِنّا لنعلم ما لك ولمن معك بما هاهنا طَاقَةٌ، هَؤُلَاءِ قَوْمٌ أَهْلُ حُصُونٍ مَنِیعَةٍ، وَرِجَالٍ عَدَدُهُمْ كَثِیرٌ، وَسِلَاحٌ. إنْ أَقَمْت هَلَكْت وَمَنْ مَعَك، وَإِنْ أَرَدْت الْقِتَالَ عَجّلُوا عَلَیْك بِالرّجَالِ وَالسّلَاحِ،وَلَا وَاَللهِ، مَا هَؤُلَاءِ كَقُرَیْشٍ، قَوْمٌ سَارُوا إلَیْك، إنْ أَصَابُوا غِرّةً مِنْك فَذَاكَ الّذِی أَرَادُوا وَإِلّا انْصَرَفُوا، وَهَؤُلَاءِ یُمَاكِرُونَكَ الْحَرْبَ ویطاولونك حتى تملّهم، فَقَالَ سَعْدُ بْنُ عُبَادَةَ: أَشْهَدُ لَیَحْضُرَنّكَ فِی حِصْنِك هَذَا حَتّى تَطْلُبَ الّذِی كُنّا عَرَضْنَا عَلَیْك، فَلَا نُعْطِیك إلّا السّیْفَعیینہ ، فَرَجَعَ سَعْدٌ إلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَأَخْبَرَهُ بِمَا قَالَ،وَقَالَ سَعْدٌ:یَا رَسُولَ اللهِ، إنّ اللهَ مُنْجِزٌ لَك مَا وَعَدَك وَمُظْهِرٌ دِینَهُ، فَلَا تُعْطِ هَذَا الْأَعْرَابِیّ تَمْرَةً وَاحِدَةً، یَا رَسُولَ اللهِ، لَئِنْ أَخَذَهُ السّیْفُ لَیُسَلّمُنّهُمْ وَلَیُهَرّبْنَ إلَى بِلَادِهِ كَمَا فَعَلَ ذَلِكَ قَبْلَ الْیَوْمِ فِی الْخَنْدَقِ

اورسعدبن عبادہ رضی اللہ عنہ سے کہا ہماراجواب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوپہنچادوکہ اللہ کی قسم !ہم اپنے یہودی حلیفوں کو کسی قیمت پرنہیں چھوڑیں گے ،ہمیں تمہاری تعداداور طاقت کاعلم ہے جبکہ یہودیوں کے پاس مضبوط قلعہ ہیں ،ان کے پاس جانبازوں اوراسلحہ کی کثرت ہے اگر تم لوگوں نے ان سے مقابلہ کیاتوہلاک ہوجاؤگے، اللہ کی قسم! یہ قریش کی طرح کے لوگ نہیں ہیں جنہوں نے تمہاری طرف چڑھائی کی تھی اوردھوکے سے نقصان اٹھایا تھا مگر یہ لوگ ایک لمباعرصہ تک تم سے جنگ کریں گے یہاں تک کہ تم اکتاجاؤ، عیینہ کاجواب سن کر سعدبن عبادہ رضی اللہ عنہ نے یقین کامل سے دبنگ لحجہ میں کہا اے عیینہ !میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تیرے پاس اس قلعہ میں آئیں گے اورجوہم نے تجھے پیش کش کی ہے اس کاتوہم سے مطالبہ کرے گا مگر اس وقت ہم تجھے تلوارکے سواکوئی اور چیز نہ دیں گے،پھرسعدبن عبادہ رضی اللہ عنہ نے واپس آکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو عیینہ کی باتوں سے آگاہ کیااورسعد رضی اللہ عنہ نےعرض کیااے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم !اللہ تعالیٰ نے آپ سے جووعدہ کیاہے وہ اسے ہرحالت میں پورا کرے گااوراپنے دین کوغالب فرمائے گا،اس بدوکو ایک دانہ کھجوربھی نہ دیجئے گا،اے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم !اگرتلواروں نے اسے آلیاتووہ انہیں چھوڑکراپنے علاقہ کی طرف اس طرح بھاگے گاجیسے وہ اس سے قبل خندق کے روزبھاگ چکاہے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسلسل خیبرکی طرف رواں دواں رہے۔[18]

غطفان کااپنے علاقہ کی طرف فرار:

انسان کچھ سوچتاہے مگررب کی مشیت کچھ اورہوتی ہے اورہوتاوہی ہے جورب چاہتاہے،معاہدہ کی دوسری شق کے مطابق غطفان کے چارہزارجانبازمجاہدین کی واپسی کا راستہ روکنے کے لئے اسلامی لشکرکے تعاقب میں چل رہے تھےاورمسلسل ایک دن اور ایک رات چلتے رہے ، جب مسلمانوں کواس بات کاعلم ہواتووہ بڑی الجھن میں پڑگئے مگر ان کے عزم میں کوئی کمی نہ آئی اوروہ اللہ تعالیٰ کی نصرت پرکامل اعتماد،فتح کے وعدے پریقین کے ساتھ مسلسل خیبرکی طرف رواں دواں رہے

حَتَّى إذَا سَارُوا مَنْقَلَةً سَمِعُوا خَلْفَهُمْ فِی أَمْوَالِهِمْ وَأَهْلِیهِمْ حِسًّا، ظَنُّوا أَنَّ الْقَوْمَ قَدْ خَالَفُوا إلَیْهِمْ، فَرَجَعُوا عَلَى أَعْقَابِهِمْ، فَأَقَامُوا فِی أَهْلِیهِمْ وَأَمْوَالِهِمْ

اسی اثناء میں بنوغطفان کو اپنے عقب میں کچھ شوروغل سنائی دیاتوانہوں نے خیال کیاکہ مسلمانوں نے ان کے اہل وعیال پرحملہ کردیا ہے اس لئے وہ آگے بڑھنے کے بجائے پیچھے پلٹ گئے اور اپنے اہل وعیال اور اموال میں رہے۔[19]

فَلَمّا كَانَ بَعْدَ هَذِهِ مِنْ تِلْكَ اللّیْلَةِ سَمِعُوا صَائِحًا یَصِیحُ، لَا یَدْرُونَ مِنْ السّمَاءِ أَوْ مِنْ الْأَرْضِ: یَا مَعْشَرَ غَطَفَانَ، أَهْلَكُمْ أَهْلَكُمْ! الْغَوْثَ، الْغَوْثَ بِحَیْفَاءَ- صِیحَ ثَلَاثَةً- لَا تُرْبَةَ وَلَا مَالَ! قَالَ: فَخَرَجْت غَطَفَانُ على الصّعب والذّلول، وكان أَمْرًا صَنَعَهُ اللهُ عَزّ وَجَلّ لِنَبِیّهِ ، فَلَمّا أَصْبَحُوا أَخْبَرَ كِنَانَةَ بْنَ أَبِی الْحُقَیْقِ وَهُوَ فِی الْكَتِیبَةِ بِانْصِرَافِهِمْ، فَسَقَطَ فِی یَدَیْهِ ، وَذَلّ وَأَیْقَنَ بِالْهَلَكَةِ، وَقَالَ: كُنّا مِنْ هَؤُلَاءِ الْأَعْرَابِ فِی بَاطِلٍ، إنّا سِرْنَا فِیهِمْ فَوَعَدُونَا النّصْرَ وَغَرّونَا، وَلَعَمْرِی لَوْلَا مَا وَعَدُونَا مِنْ نَصْرِهِمْ ما نابذنا محمّدا بالحرب وَلَمْ نَحْفَظْ

کچھ دنوں بعد ایک پکارنے والے کی آواز سنائی دی لیکن وہ جان نہ سکے کہ یہ آواز آسمان سے ہے یا زمین سے کہ حیفاء میں اپنے اہل وعیال کی خبر لو نہ کہ قبرستان اور نہ مال ،ایسی ہی ایک آوازان غطفانیوں نے بھی تین مرتبہ سنی جویہودکے ساتھ ان کے قلعوں میں رہ رہے تھےجسے سن کروہ بھی راتوں رات یہودکواکیلاچھوڑکراپنے گھروں اوراہل وعیال کی حفاظت کے لئے بھاگ کھڑے ہوئےیہ معاملہ اللہ کی طرف سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تائید کیلئے تھا،جب صبح ہوئی اورکنانہ بن ابی الحقیق کو الْكَتِیبَةِ کے علاقہ میں غطفانیوں کے فرارکی خبرملی تووہ بہت پشیمان ہوااوراسے اپنی موت کایقین ہو گیااوراس نے کہاہم ان اعراب کے بارے میں غلطی پرتھےہم ان کے پاس گئے انہوں نے ہم سے مددکاوعدہ کیااورپھرعین وقت پرہمیں دھوکادیا،میری زندگی کی قسم! اگریہ ہمیں اپنی مددکاوعدہ نہ کرتے توہم محمد سے جنگ کی نہ ٹھانتے،ہمیں سلام بن ابی الحقیق کی بات کو مان لیناچاہئے تھا،

فَلَمّا انْتَهَى الْغَطَفَانِیّونَ إلَى أَهْلِهِمْ بِحَیْفَاءَ وَجَدُوا أَهْلَهُمْ عَلَى حَالِهِمْ فَقَالُوا: هَلْ رَاعَكُمْ شَیْءٌ؟قَالُوا: لَا وَاَللهِ. فَقَالُوا: لَقَدْ ظَنَنّا أَنّكُمْ قَدْ غَنِمْتُمْ، فَمَا نَرَى مَعَكُمْ غَنِیمَةً وَلَا خَیْرًا!فقال عیینة لأصحابه: هذا والله من مكاید مُحَمّدٍ وَأَصْحَابِهِ ، خَدَعَنَا وَاَللهِ!فَقَالَ لَهُ الْحَارِثُ بْنُ عَوْفٍ: بِأَیّ شَیْءٍ؟قَالَ عُیَیْنَةُ: إنّا فِی حِصْنِ النّطَاةِ بَعْدَ هَدْأَةٍ إذْ سَمِعْنَا صَائِحًا یَصِیحُ، لَا نَدْرِی مِنْ السّمَاءِ أَوْ مِنْ الْأَرْضِ: أَهْلَكُمْ أَهْلَكُمْ بِحَیْفَاءَ- صِیحَ ثَلَاثَةً- فَلَا تُرْبَةَ وَلَا مَالٍ! قَالَ الْحَارِثُ بْنُ عَوْفٍ: یَا عُیَیْنَةُ، وَاَللهِ لَقَدْ غَبَرْت إنْ انْتَفَعْت،وَاَللهِ إنّ الّذِی سَمِعْت لَمِنْ السّمَاءِ! وَاَللهِ لَیَظْهَرَنّ مُحَمّدٌ عَلَى مَنْ نَاوَأَهُ ، حَتّى لَوْ نَاوَأَتْهُ الْجِبَالُ لَأَدْرَكَ مِنْهَا مَا أَرَادَ فَأَقَامَ عُیَیْنَةُ أَیّامًا فِی أَهْلِهِ ثُمّ دَعَا أَصْحَابَهُ لِلْخُرُوجِ إلَى نَصْرِ الْیَهُودِ، فَجَاءَهُ الْحَارِثُ بْنُ عَوْفٍ فَقَالَ: یَا عُیَیْنَةُ أَطِعْنِی وَأَقِمْ فِی مَنْزِلِك وَدَعْ نَصْرَ الْیَهُودِ، مَعَ أَنّی لَا أَرَاك تَرْجِعُ إلَى خَیْبَرَ إلّا وَقَدْ فَتَحَهَا مُحَمّدٌ وَلَا آمِنْ عَلَیْك، فَأَبَى عُیَیْنَةُ أَنْ یَقْبَلَ قَوْلَهُ وَقَالَ: لَا أَسْلَمَ حُلَفَائِی لِشَیْءٍ

جب غطفان کے یہ لوگ جویہودیوں کے قلعوں سے نکل گئے تھے حیفاء میں اپنے گھروں میں پہنچے تو انہوں نے اپنے اہل وعیال کوخیریت کے ساتھ پایا اور ان سے پوچھاکیاتمہیں کسی چیزنے ڈرایاتھا؟انہوں نے کہااللہ کی قسم! ہمیں کسی چیزنے نہیں ڈرایااورہماراخیال ہے کہ تم نے غنیمت حاصل کرلی ہے مگروہ ہم تمہارے پاس نہیں پاتے ،عیینہ بن حصن نے اپنے ساتھیوں سے کہااللہ کی قسم ! یہ محمد( صلی اللہ علیہ وسلم )اوراس کے اصحاب کی چال ہے،اللہ کی قسم ! ہم دھوکے میں آگئے،حارث بن عوف مری نے اسے کہاکس چیزکے دھوکے میں ؟توعیینہ نے کہامیں رات کاپہلاحصہ گزارنے کے بعدقلعہ نطاة میں تھاکہ ہم نے ایک پکارنے والے کی آوازکوتین مرتبہ سنا،ہم نہیں جانتے کہ وہ آواز آسمان سے آرہی تھی یازمین سے کہ حیفاء میں اپنے اہل کی خبرلو، نہ قبرستان نہ مال،حارث بن عوف نے کہااے عیینہ !اگرتونے اس آوازسے فائدہ اٹھایاتوباقی رہے گااللہ کی قسم جوآوازتونے سنی ہے وہ آسمان سے تھی اللہ کی قسم! محمد( صلی اللہ علیہ وسلم )اپنے دشمنوں پرضرورغالب آکررہیں گے حتی کہ اگر پہاڑوں نے بھی اس سے دشمنی کی تووہ بھی اپنے ارادوں میں کامیاب رہیں گے،یینہ نے چندروزاپنے اہل وعیال میں قیام کیااورپھراپنے ساتھیوں کویہودکی مددکے لئے خروج کرنے کوکہا،حارث بن عوف نے پھرآکراسے کہااے عیینہ! میری بات کومان جااوراپنے گھرمیں رہ اوریہودکی مددکرناچھوڑدےاگرتووہاں چلابھی گیاتوتیرے وہاں پہنچنے سے قبل محمد اسے فتح کرچکے ہوں گے اورمیں تیرے بارے میں مطمئن بھی نہیں ہوں ،مگر عیینہ نے اس کے دردمندانہ مشورہ کوردکردیااورکہامیں اپنے حلیفوں کوکسی چیز کی خاطرنہیں چھوڑ سکتا،پھراپنے اطاعت گزارغطفانیوں کے ساتھ یہودکی مددکرنے کے لئے نکلا مگرابھی خیبرنہیں پہنچاتھاکہ اسے معلوم ہوگیاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبرپرقبضہ کرلیاہے۔[20]

فوجی نظم وضبط :

فَبَیْنَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فِی طَرِیقِ خَیْبَرَ فِی لَیْلَةٍ مُقْمِرَةٍ إذْ أَبْصَرَ بِرَجُلٍ یَسِیرُ أَمَامَهُ، عَلَیْهِ شَیْءٌ یَبْرُقُ فِی الْقَمَرِ كَأَنّهُ فِی الشّمْسِ وَعَلَیْهِ بَیْضَةٌ ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وسلّم :من هذا؟ فَقِیلَ: أَبُو عَبْسِ بْنِ جَبْرٍ فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ :أَدْرَكُوهُ! قَالَ: فَأَدْرَكُونِی فَحَبَسُونِی، وَأَخَذَنِی مَا تَقَدّمَ وَمَا تَأَخّرَ، وَظَنَنْت أَنّهُ قَدْ نَزَلَ فِیّ أَمْرٌ مِنْ السّمَاءِ، فَجَعَلْت أَتَذَكّرُ مَا فَعَلْت حَتّى لَحِقَنِی رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فقال: مالك تَقْدُمُ النّاسَ لَا تَسِیرُ مَعَهُمْ؟قُلْت: یَا رَسُولَ اللهِ، إنّ نَاقَتِی نَجِیبَةٌ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فوجی نظم وضبط کی بڑی پابندی فرماتے تھے اورخلاف ورزی کرنے والے کوسزادیتے تھےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک چاندنی رات میں خیبرکی طرف جا رہے تھے کہ راستے میں آپ نے ایک آدمی کواپنے آگے چلتے ہوئے دیکھااس پرکوئی ایسی چیزتھی جوچاندنی میں چمکتی تھی،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے برامناتے ہوئے فرمایایہ کون شخص ہے؟ کسی عرض کیا یہ ابوعبس بن جبرہے(کیونکہ اس نے نظم وضبط کی خلاف ورزی کی تھی اس لئے)آپ نے فرمایااسے پکڑلوصحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے انہیں پکڑکرقیدکردیا، ابو عبس بن جبر کو خوف ہوا کہ شایدان کے بارے میں کوئی حکم نازل ہواہے اس لئے انہیں گرفتارکرلیاگیاہے،پھررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے فعل پراظہارناراضگی کرتے ہوئے فرمایا تجھے کیاتکلیف ہے کہ تو لوگوں کے ساتھ چلنے کے بجائے ان کے آگے آگے چلتاہے؟میں نے جواب دیااے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم میری ناقہ بڑی تیزرفتارہے توآپ نے مجھے اس قید سے زیادہ کوئی سزانہ دی۔[21]

اورسلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ اونٹوں کوتیزچلانے کے لئے عامربن اکوع رضی اللہ عنہ خوش الحانی سے حدی پڑھتے ہوئے آگے آگے تھے،حدی کے اشعارتھے۔

اللهُمَّ لَوْلاَ أَنْتَ مَا اهْتَدَیْنَا ، وَلاَ تَصَدَّقْنَا وَلاَ صَلَّیْنَا

اللہ کی قسم اگراللہ نہ ہوتاتوہم ہدایت نہ پاتے،نہ صدقہ دیتے اورنہ نمازپڑھتے

فَاغْفِرْ فِدَاءً لَكَ مَا أَبْقَیْنَا ، وَثَبِّتِ الأَقْدَامَ إِنْ لاَقَیْنَا

ہم تجھ پرقربان جواحکام ہم بجانہیں لائے انہیں معاف فرما،اورجب ہم مقابلہ کریں توہمیں ثابت قدمی عطافرما

 وَأَلْقِیَنْ سَكِینَةً عَلَیْنَا ، إِنَّا إِذَا صِیحَ بِنَا أَبَیْنَا

تو ہم پرسکینت وطمانیت نازل فرما،جب ہمیں جہادکے لئے پکاراجاتاہے ہم دوڑکرپہنچتے ہیں

وَبِالصِّیَاحِ عَوَّلُوا عَلَیْنَا

اورپکارکرہم سے استغاثہ کیاہے۔[22]

بعض روایات میں یہ رجزیہ کلمات بھی ہیں ۔

إِنَّ الَّذِینَ قَدْ بَغَوْا عَلَیْنَا ، إِذَا أَرَادُوا فِتْنَةً أَبَیْنَا

جن لوگوں نے ہم پرظلم وزیادتی کی ہے،جب وہ ہمیں فتنہ میں مبتلاکرنے کاارادہ کرتے ہیں توہم اسے قبول نہیں کرتے

 وَنَحْنُ عَنْ فَضْلِكَ مَا اسْتَغْنَیْنَا،فَثَبِّتِ الْأَقْدَامَ إِنْ لَاقَیْنَا

اے اللہ ہم تیرے فضل وکرم سے بے نیازنہیں ،جب ہم مقابلہ کریں توہمارے قدموں کوجمادے۔[23]

فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:مَنْ هَذَا؟قَالَ: عَامِرٌ یَا رَسُولَ اللهِ،قَالَ:غَفَرَ لَكَ رَبُّكَ

عامربن اکوع رضی اللہ عنہ کے توحیدمیں ڈوبے اشعار (حدی) سن کررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایاکہ حدی پڑھنے والاکون ہے؟صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیااے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !وہ عامربن اکوع رضی اللہ عنہ ہیں ،آپ نے فرمایاپروردگاراس کی مغفرت فرمائے۔[24]

یَرْحَمُهُ اللهُ، قَالَ: وَمَا اسْتَغْفَرَ لِإِنْسَانٍ قَطُّ یَخُصُّهُ إِلَّا اسْتُشْهِدَقَالَ رَجُلٌ مِنَ الْقَوْمِ وَجَبَتْ یَا نَبِیَّ اللهِ لَوْلَا أَمْتَعْتَنَا بِهِ

ایک روایت میں ہے فرمایااللہ تعالیٰ اس پر رحم فرمائے،اوران کا(جنگ کے موقع پر)تجربہ تھاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی کوخاص کرکے دعائے مغفرت فرماتے تووہ شخص ضرور شہید ہوجاتا تھا، ایک شخص( سیدناعمربن خطاب رضی اللہ عنہ ) نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کہایااے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم !آپ نے اس کے لئے شہادت کو واجب کردیاکاش! آپ عامر رضی اللہ عنہ کی شجاعت سے چندروزاور ہمیں متمتع فرماتے۔[25]

یہودکی میٹنگ :

قائدین یہودکو جب علم ہوگیاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجاہدین اسلام کے ساتھ ان کی طرف روانہ ہوگئے ہیں توانہوں اسلامی لشکرکے مقابلہ کے لئے بہترین منصوبوں پرتبادلہ خیال کرنے کے لئے ایک میٹنگ بلائی، بحث ومباحثہ کے دوران وہ تین گروپوں میں تقسیم ہوگئے ،

وَرَأَیْتُمْ خَیْبَرَ وَحُصُونَهَا وَرِجَالَهَا لَرَجَعْتُمْ قَبْلَ أَنْ تُصَلّوا إلَیْهِمْ، حُصُونٌ شَامِخَاتٌ فِی ذُرَى الْجِبَالِ

ایک گروپ کاخیال تھاہمارے قلعے بہت مضبوط ومستحکم ہیں ان میں جانبازوں کی موجودگی میں مسلمان داخل نہ ہوسکیں گے اس لئے ہمیں فصیلوں کے پیچھے سے مسلمانوں کا مقابلہ کرناچاہیے،ایک لمبے عرصہ کے بعد بالآخر مسلمان تنگ آ کر محاصرہ چھوڑدیں گےکیونکہ بڑے بڑے قلعے اور مستحکم جو کہ پہاڑوں کی چوٹیوں پر واقع ہیں ۔

فَإِنّی قَدْ رَأَیْت مَنْ سَارَ إلَیْهِ مِنْ الْحُصُونِ،لَمْ یَكُنْ لَهُمْ بَقَاءٌ بَعْدَ أَنْ حَاصَرَهُمْ حَتّى نَزَلُوا عَلَى حُكْمِهِ، وَمِنْهُمْ مَنْ سَبْیٍ وَمِنْهُمْ مِنْ قَتْلِ صَبْرًافَقَالَتْ الْیَهُودُ: إنّ حُصُونَنَا هَذِهِ لَیْسَتْ مِثْلَ تِلْكَ، هَذِهِ حصون منیعة فى ذُرَى الْجِبَالِ، فَخَالَفُوهُ وَثَبَتُوا فِی حُصُونِهِمْ

دوسرا گروپ جس کالیڈرمشہورشہسوارمرحب کابھائی حارث تھاجس کالقب ابوزینب تھااوریہ دونوں قبیلہ حمیرسے تعلق رکھتے تھے کا جرات مندانہ نظریہ تھاجولوگ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم )کے مقابلہ میں قلعہ بندہوئے وہ ان کے مقابلہ میں ٹھیرنہ سکے اورانہیں ان کاحکم مانناپڑاجن میں سے کچھ قیدہوئے اورکچھ باندھ کرقتل کردیئے گئے اس لئے ہمیں قلعہ بندہوکرلڑنے کے بجائے باہرنکل کرمسلمانوں سے فیصلہ کن جنگ کرنی چاہیےمگرلیڈروں نے اس کی تجویز کو ردکردیااورکہااے ابوزینب!ہمارے قلعے ان قلعوں کی طرح کمزورنہیں ہیں بلکہ یہ مضبوط ومستحکم اورپہاڑوں کی چوٹیوں پرہیں ،ان میں دس ہزارجانبازموجودہیں ،ان کی موجودگی میں انہیں سرکرنامسلمانوں کے بس کاروگ نہیں ہے، اس لئے ہمیں قلعہ بندہوکرفصیلوں کے پیچھے سے مسلمانوں کامقابلہ کرناچاہیے۔

فَزِعَتْ الْیَهُودُ إلَى سَلّامِ بْنِ مِشْكَمٍ فَقَالُوا: فَمَا الرّأْیُ أَبَا عَمْرٍو؟وَیُقَالُ أَبَا الْحَكَمِ. قَالَ: وَمَا تَصْنَعُونَ بِرَأْیٍ لَا تَأْخُذُونَ مِنْهُ حَرْفًا؟ قَالَ كِنَانَةُ: لَیْسَ هَذَا بِحِینِ عِتَابٍ، قَدْ صَارَ الْأَمْرُ إلَى مَا تَرَى. قَالَ: مُحَمّدٌ قَدْ فَرَغَ مِنْ یَهُودِ یَثْرِبَ، وَهُوَ سَائِرٌ إلَیْكُمْ، فَنَازِلٌ بِسَاحَتِكُمْ، وَصَانِعٌ بِكُمْ مَا صَنَعَ بِبَنِی قُرَیْظَةَ.

تیسراگروپ جس کالیڈرسلام بن مشکم نضری تھا اوریہی یہودی فوج کا سالارعام تھاجسے اس دورمیں یہودکاجنگ بازکہاجاتاتھاکہ حیی بن اخطب کی طرف اشارہ کرکے کہایہ سب کاروائی ابوعمر کی ہے جس نے ہمیں سب سے پہلے منحوس بنایا اور ہماری رائے کی مخالفت کرکے ہمیں اپنے اموال اورہمارے شرف سے محروم کیااورہمارے بھائیوں کاقتل کیااورقتل سے بھی سخت تربات یہ ہے کہ اس نے ہمارے بچوں کو قید کرایا، حجازمیں یہودی کبھی بھی کھڑے نہ ہوسکیں گے اورنہ ہی یہودکاکوئی ارادہ اوررائے ہوگی ،پھراس نے ابوزینب سے بھی بڑھ کرجرات مندانہ تجویزپیش کی کہ خیبرکے قلعوں سے باہر مسلمانوں سے جنگ کرنے کے بجائے مدینہ منورہ جاکران سے دودوہاتھ کرنے چائیں ۔ کنانہ(ابن ابی الحقیق)نے کہایہ آپس کی لڑائی کاوقت نہیں ہے،بات بہت آ گے نکل چکی ہے،محمد( صلی اللہ علیہ وسلم )یثرب کے یہودسے فارغ ہوچکے ہیں اوراب وہ گوشمالی کے لئے تمہاری طرف آرہے ہیں اوروہ وہی کچھ کریں گے جوانہوں نے بنی قریظہ کے ساتھ کیا تھا،

قَالُوا: فَمَا الرّأْیُ؟ قَالَ: نَسِیرُ إلَیْهِ بِمَنْ مَعَنَا مِنْ یَهُودِ خَیْبَرَ، فَلَهُمْ عَدَدٌ، وَنَسْتَجْلِبُ یَهُودَ تَیْمَاءَ، وَفَدَكٍ، وَوَادِی الْقُرَى، ثُمّ نَسِیرُ إلَیْهِ فِی عُقْرِ دَارِهِ فَنُقَاتِلُ عَلَى وِتْرٍ حَدِیثٍ وَقَدِیمٍ. فَقَالَتْ الْیَهُودُ: هَذَا الرّأْیُ. فَقَالَ كِنَانَةُ: إنّی قَدْ خَبَرْت الْعَرَبَ فَرَأَیْتهمْ أَشِدّاءَ عَلَیْهِ، وَحُصُونُنَا هَذِهِ لَیْسَتْ مِثْلَ مَا هُنَاكَ، وَمُحَمّدٌ لَا یَسِیرُ إلَیْنَا أَبَدًا لِمَا یَعْرِفُ.قَالَ سَلّامُ بْنُ مِشْكَمٍ:هَذَا رَجُلٌ لَا یُقَاتِلُ حَتّى یُؤْخَذَ بِرَقَبَتِهِ

دوسرے لیڈروں نے سلام بن مشکم سے پوچھاپھرکیاکرناچاہیے؟ اس نے کہاہم کسی عرب کی مددکے بغیراپنے بڑے لشکرکے ساتھ مدینہ منورہ کی طرف روانہ ہوں راستے میں تیماء ،فدک اوروادی القریٰ کے یہودیوں کوبھی ساتھ لے کر ان کے صحن میں جااتریں اورپرانے اورنئے کنبے کے ساتھ جنگ کریں ، قائدین یہودکی اکثریت اس تجویزکی طرف مائل ہوگئی لیکن کنانہ بن ابی الحقیق نے سلام بن مشکم کے نظریہ کی مخالفت کی اورکہامیں نے عربوں کو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف بڑاسخت پایاہے اورہمارے قلعے بھی یثرب کے قلعوں کی طرح کمزورنہیں ان حالات میں میراخیال ہے کہ محمدکبھی بھی ہماری طرف نہیں آئیں گے،اس بات پرسلام بن مشکم بگڑگیااورکنانہ کی طرف اشارہ کرکے کہایہ شخص اس وقت تک نہیں لڑے گاجب تک اس کو گردن سے نہ پکڑلیاجائے۔[26]

فَانْتَهَى بِهِ إلَى مَوْضِعٍ لَهُ طُرُقٌ، فَقَالَ لَهُ:یَا رَسُولَ اللهِ، إنّ لَهَا طُرُقًا یُؤْتَى مِنْهَا كُلّهَا، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: سَمّهَا لِی!وَكَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یُحِبّ الْفَأْلَ الْحَسَنَ وَالِاسْمَ الْحَسَنَ، وَیَكْرَهُ الطّیَرَةَ وَالِاسْمَ الْقَبِیحَ ،فَقَالَ الدّلِیلُ: لَهَا طَرِیقٌ یُقَالُ لَهَا حَزَنٌ،قَالَ: لَا تَسْلُكْهَا!قَالَ: لَهَا طَرِیقٌ یُقَالُ لَهَا شاش، قَالَ:لَا تَسْلُكْهَا!قَالَ: لَهَا طَرِیقٌ یُقَالُ لَهَا حَاطِبٌ ،قَالَ: لَا تَسْلُكْهَا! قَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطّابِ رَضِیَ اللهُ عَنْهُ: مَا رَأَیْت كَاللّیْلَةِ أَسَمَاءً أَقْبَحَ! سَمّ لِرَسُولِ اللهِ!قَالَ:لَهَا طَرِیقٌ وَاحِدَةٌ لَمْ یَبْقَ غَیْرُهَا، فَقَالَ عُمَرُ: سَمّهَاقَالَ: اسْمُهَا مَرْحَبٌ،قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: نَعَمْ اُسْلُكْهَا! قَالَ عُمَرُ: أَلّا سَمّیْت هَذَا الطّرِیقَ أَوّلَ مَرّةٍ!

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسافت طے کرتے ہوئے جب ایک چورستہ (چورنگی) پرپہنچے جہاں سے مختلف سمت میں راستے جاتے تھے تو دونوں رہبروں نے کہایارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ سب راستے خیبر کی طرف جاتے ہیں ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ان راستوں کے نام بتلاؤاوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اچھی فال اوراچھے نام پسندفرماتے تھے اوربری فال اور برے نام ناپسندکرتے تھے،انہوں نے کہااس راستے کانام حزن(سخت اورکھردرا)ہے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااس راستے پرنہ جاؤ، انہوں نے کہایہ راستہ شاش(تفرق واضطراب والا)کہلاتاہے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااس راستے پرنہ جاؤ،انہوں نے کہایہ راستہ حاطب(لکڑہارا)کہلاتاہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااس راستے پرنہ جاؤ،سیدناعمر رضی اللہ عنہ بن خطاب نے کہامیں نے اس جیسی رات سے قبل کبھی بھی ایسے برے ناموں نہیں سنے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے بولے یا بتائے گئے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاایک راستے کے علاوہ کوئی راستہ نہیں بچا، سیدناعمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیاآپ نام فرمائیں ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااس راستے کانام مرحب ہے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاہاں اس راستے پرچلو،سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کیا اس نام پہلے نہیں گزرا؟

بہرحال آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سب راستوں کو چھوڑکرمرحب پرجاناپسندفرمایاآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ منورہ سے خیبرتک چاردن کی مسافت یعنی ۹۶عربی میل کافاصلہ طے فرمایا۔

عَنْ أَنَسٍ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَتَى خَیْبَرَ لَیْلًا

اورانس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات کے وقت خیبر پہنچے۔[27]

اہل عرب کی عادت تھی کہ وہ دشمن قبیلے کے اطراف میں گھات لگاکربیٹھے رہتے اور رات کے پچھلے پہردشمن پر اچانک حملہ کردیتے تھے مگرسوائے مجبوری کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حربی سیاست اس کے برعکس تھی،

عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: كان رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ إِذَا غَزَا قَوْمًا لَمْ یُغِرْ عَلَیْهِمْ حَتَّى یُصْبِحَ، فَإِنْ سَمِعَ أَذَانًا أَمْسَكَ، وَإِنْ لَمْ یَسْمَعْ أَذَانًا أَغَارَ، فَنَزَلْنَا خَیْبَرَ لَیْلا، فَبَاتَ رَسُول اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، حَتَّى إِذَا أَصْبَحَ لَمْ یَسْمَعْ أَذَانًا

انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت مبارکہ تھی کہ رات کے وقت کسی پرحملہ نہیں کرتے تھے،بلکہ صبح کا انتظارفرماتے،اگربستی سے اذان کی آوازسنتے تواس پرحملہ نہ فرماتے ،آوازنہ سنتے توپھرحملہ کردیتے تھے ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم رات کے وقت خیبرپہنچے، چنانچہ صبح کے وقت آپ نے آذان کی آوازنہ سنی توحملہ کی تیاری فرمانے لگے۔[28]

وَلَمَّا قَدِمَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ خَیْبَرَ صَلَّى بِهَا الصُّبْحَ، وَرَكِبَ الْمُسْلِمُونَ، وَلَمّا أَشْرَفَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عَلَى خَیْبَرَ قَالَ لِأَصْحَابِهِ:قِفُوا!ثُمّ قَالَ: قُولُوا اللهمّ رَبَّ السَّمَوَاتِ وَمَا أَظْلَلْنَ وَرَبَّ الْأَرَضِینَ وَمَا أَقَلَلْنَ، وَرَبَّ الشَّیَاطِینِ وَمَا أَضَلَلْنَ، وَرَبَّ الرِّیَاحِ وَمَا أَذْرَیْنَ فَإِنَّا نَسْأَلُكَ خَیْرَ هَذِهِ الْقَرْیَةِ وَخَیْرَ أَهْلِهَا وَخَیْرَ مَا فِیهَا، وَنَعُوذُ بِكَ مِنْ شَرِّهَا وَشَرِّ أَهْلِهَا وَشَرِّ مَا فِیهَا، أَقَدِمُوا بِسْمِ اللهِ

جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خیبرپہنچے توآپ نے صبح کی نمازپڑھی اورپھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم اورآپ کے صحابہ رضی اللہ عنہم سوارہوکرخیبرکی طرف چل پڑے،جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خیبرکے قریب پہنچے اوراس کے درودیوار نظرآنے لگے توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کوفرمایاکچھ دیرٹھیرجاؤ، پھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااللہ سے دعاکرو ’’اے اللہ!ساتوں آسمانوں اوران میں جوکچھ ہے ان سب کے پروردگار،ساتوں زمینوں اوران کی حقیرمخلوقات کے پروردگار،شیطانوں اوران کی گمراہ ٹولیوں کے پروردگار،ہواؤں اورجن چیزوں کووہ اڑالے جاتی ہے ان سب کے پروردگار،اس بستی کی اچھی چیزوں ،یہاں کے باشندوں کی اچھی باتیں اوراس بستی میں جوعمدہ چیزیں ہیں ہم تجھ سے ان سب کے طلبگارہیں اوریہاں کی بری چیزوں ،یہاں کے باشندوں کی برائیوں اورفتنہ سامانیوں اوریہاں کی تمام برائیوں سے پناہ مانگتے ہیں ۔‘‘ اے مجاہدو!اب اللہ کانام لے کرآگے بڑھو۔[29]

وَكَانَ الْیَهُودُ یَقُومُونَ كُلّ لَیْلَةٍ قَبْلَ الْفَجْرِ فَیَتَلَبّسُونَ السّلَاحَ وَیَصُفّونَ الْكَتَائِبَ ، فَلَمّا نَزَلَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بِسَاحَتِهِمْ لَمْ یَتَحَرّكُوا تِلْكَ اللّیْلَةَ، وَلَمْ یَصِحْ لَهُمْ دِیكٌ حَتّى طَلَعَتْ الشّمْسُ، فَأَصْبَحُوا وَأَفْئِدَتُهُمْ تَخْفِقُ، وَفَتَحُوا حُصُونَهُمْ مَعَهُمْ الْمَسَاحِی وَالْكَرَازِینُ وَالْمَكَاتِلُ، قَالُوا: مُحَمَّدٌ وَاللهِ، مُحَمَّدٌ وَالخَمِیسُ!( مَقْدَمَة، مَیْمَنَةً، مَیْسَرَةً، قَلْب،سافہ)فَوَلّوْا هَارِبِینَ حتى رجعواإلَى حُصُونِهِمْ

منافقین اور یہودنے مسلمانوں کی مدینہ منورہ سے روانگی کی اطلاع قبل ازوقت یہودخیبرکوپہنچادی تھی اوریہودی خطرے سے نپٹنے کے لئے ساری رات صبح تک مسلح ہوکرنکلاکرتے تھے،جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وہاں پہنچےتووہ ا س رات کوایسے غافل ہوئے کہ ان کا نہ کوئی جانورحرکت میں آیانہ مرغ نے بانگ دی جس کی وجہ سے انہیں لشکراسلامی کی آمدکی خبرنہ ہوئی، طلوع آفتاب کے بعدجب وہ جاگے اوربے خبری میں قلعوں کے دروازے کھول کرکھیتی کے آلات کدال ،پھاولے اورٹوکرے لیکراپنے کھیتوں میں کام کر نے کے لئے نکلے اوراچانک لشکر اسلام پران کی نظرپڑی، توگھبراکرچلائے محمد( صلی اللہ علیہ وسلم )اللہ کی قسم ! لشکر کے پانچوں حصوں ( مقدمہ،میمنہ،میسرہ،قلب اورسافہ) کے ساتھ آگئےاورپھرمنہ پھیرکرعجلت میں اپنے اہل وعیال کے ساتھ قلعوں میں داخل ہوگئے[30]

 عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ:فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: اللَّهُ أَكْبَرُ، خَرِبَتْ خَیْبَرُ، إِنَّا إِذَا نَزَلْنَا بِسَاحَةِ قَوْمٍ {فَسَاءَ صَبَاحُ المُنْذَرِینَ} [31]

انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجاہدین کوفتح کی بشارت دیتے ہوئے فرمایااللہ اکبر! خیبراجڑگیا،اللہ اکبرخیبرویران ہوگیاجب ہم کسی قوم کے میدان میں اترتے ہیں تو’’باخبرکی گئی قوم کی صبح بہت بری ہوتی ہے ۔‘‘[32]

پھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لشکرکے پڑاؤکے لئے ایک جگہ کاانتخاب فرمایا

فَلَمّا أَصْبَحَ جَاءَهُ الْحُبَابُ ابن الْمُنْذِرِ بْنِ الْجَمُوحِ فَقَالَ: یَا رَسُولَ اللهِ صَلّى اللهُ عَلَیْك، إنّك نَزَلْت مَنْزِلَك هَذَا، فَإِنْ كَانَ عَنْ أَمْرٍ أَمَرْت بِهِ فَلَا نَتَكَلّمُ فِیهِ، وَإِنْ كَانَ الرّأْیُ تَكَلّمْنَا،فَقَالَ رَسُول اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: بل هُوَ الرّأْیُ، فَقَالَ:یَا رَسُولَ اللهِ، دَنَوْت مِنْ الْحِصْنِ وَنَزَلْت بَیْنَ ظُهْرَیْ النّخْلِ وَالنّزّ ، مَعَ أَنّ أَهْلَ النّطَاةِ لِی بِهِمْ مَعْرِفَةٌ، لَیْسَ قَوْمٌ أَبْعَدَ مَدَى مِنْهُمْ، وَلَا أَعْدَلَ مِنْهُمْ، وَهُمْ مُرْتَفِعُونَ عَلَیْنَا، وَهُوَ أَسْرَعُ لِانْحِطَاطِ نَبْلُهُمْ، مَعَ أَنّی لَا آمَنُ مِنْ بَیَاتِهِمْ یَدْخُلُونَ فِی خَمْرِ النّخْلِ، تَحَوّلْ یَا رَسُولَ الله إلى موضع بریء مِنْ النّزّ وَمِنْ الْوَبَاءِ، نَجْعَلْ الْحَرّةَ بَیْنَنَا وَبَیْنَهُمْ حَتّى لَا یَنَالَنَا نَبْلُهُمْ

جب صبح ہوئی تواس پرحباب بن منذر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کیااے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم !آپ نے اس مقام پرپڑاؤفرمایاہےاگراس مقام پرآپ نے اللہ کے حکم سے پڑاؤفرمایاہے توپھربولنے کی کوئی گنجائش نہیں اوراگرآپ نے اپنی جنگی تدبیر کے تحت پڑاؤکیاہے توکچھ عرض کروں ؟رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایانہیں یہ میری اپنی جنگی تدبیر ہے،حباب بن منذر رضی اللہ عنہ نے عرض کیااے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم ! یہ مقام قلعہ نطاة سے بہت ہی قریب ہے اورخیبرکے سارے تربیت یافتہ اورجنگ آزمودہ جانبازاسی قلعہ میں ہیں ،اتنی قربت کی وجہ سے انہیں ہماری ہرحرکت کاپوراپوراعلم رہے گاجبکہ ہم ان کی ہرچال سےبے خبرہوں گے ، میں اہل نطات سے بخوبی واقف ہوں کوئی قوم ان سے زیادہ دیرتک مقابلہ میں ڈٹنے والی اور ان سے زیادہ تیراندازنہیں اوروہ ہم سے بلندجگہ جمع ہیں جس سے وہ جلدازجلدہمیں اپنے تیروں کانشانہ بناسکتے ہیں پھرہم ان کے شبخون مارنے سے بھی محفوظ نہیں ،اس لئے کہ وہ شبخون مارکرکھجوروں کے گھنے باغات میں چھپ سکتے ہیں ،اس لئے مناسب ہوگاکہ آپ کسی ایسی جگہ پڑاؤڈالنے کاحکم فرمائیں جہاں لشکرمحفوظ ہو،

ثُمّ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: نُقَاتِلهُمْ هَذَا الْیَوْمَ. وَدَعَارَسُول اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مُحَمّدَ بْنَ مَسْلَمَةَ فَقَالَ: اُنْظُرْ لَنَا مَنْزِلًا بَعِیدًا مِنْ حُصُونِهِمْ بَرِیئًا مِنْ الْوَبَاءِ، نَأْمَنُ فِیهِ بَیَاتَهُمْ، فَطَافَ مُحَمّدٌ حَتّى انْتَهَى إلَى الرّجِیعِ ، ثُمّ رَجَعَ إلَى النّبِیّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ لَیْلًا فَقَالَ: وَجَدْت لَك مَنْزِلًا

ان کایہ مشورہ سن کرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے اتفاق کیا اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا آج کے دن جنگ نہیں ہوگی اورمحمدبن مسلمہ رضی اللہ عنہ کوحکم فرمایاکہ اس قلعہ سے دورکوئی اورجگہ پڑاؤکے لئے تلاش کروتاکہ ہم ان کے حیلے بازوں سے بچ سکیں ،محمدبن مسلمہ رضی اللہ عنہ نے قلعہ الناعم سے کچھ دوروادی الرجیع کے زیریں حصہ میں جہاں پانی تھا ہیڈ کوارٹر بنایا اور رات کونبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم وہاں چلے گئے اور فرمایااس جگہ کواپناہیڈکوارٹربنالو۔[33]

چنانچہ یہیں سے سالاراپنے اپنے جھنڈوں تلے جنگ کے لئے روانہ ہوتے اورشام کوواپس لوٹ آتے تھے۔

 لشکرکانگہبان دستہ:

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلامی لشکرکی نگہبانی اوررات کے وقت دشمن کے قلعوں کے گرداگردان کی حرکات کاجائزہ لینے کے لئے ایک گشتی دستہ تیارکیاجس میں سیدنا عمرفاروق رضی اللہ عنہ بھی شامل تھے

وَیَسْتَخْلِفُ على الْعَسْكَرَ عُثْمَانَ بْنَ عَفّانَ رَضِیَ اللهُ عَنْهُ

جبکہ لشکرکے پڑاؤکی قیادت اورانتظامی امورسیدناعثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کوسونپی۔[34]

زخمیوں کی دیکھ بھال کے لئے ایک سنٹربنایا

ثُمّ ابْتَنَى رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عَلَیْهَا مَسْجِدًا

اوریہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مسجد تعمیر فرمائی جس میں اپنے قیام خیبرکی مدت میں نمازپڑھتے رہے ۔

قلعہ ناعم کی فتح :

 عَنْ سَلَمَةَ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْأَكْوَعِ، قَالَ: بَعَثَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَبَا بَكْرٍ الصِّدِّیقَ رَضِیَ اللهُ عَنْهُ بِرَایَتِهِ، وَكَانَتْ بَیْضَاءَ، فِیمَا قَالَ ابْنُ هِشَامٍ، إلَى بَعْضِ حُصُونِ خَیْبَرَ، فَقَاتَلَ، فَرَجَعَ وَلَمْ یَكُ فَتْحٌ، وَقَدْ جَهَدَ ثُمَّ بَعَثَ الْغَدَ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ، فَقَاتَلَ، ثُمَّ رَجَعَ وَلَمْ یَكُ فَتَحَ ، وَقَدْ جَهَدَ،فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: لَأُعْطِیَنَّ الرَّایَةَ غَدًا رَجُلًا یُفْتَحُ عَلَى یَدَیْهِ، یُحِبُّ اللهَ وَرَسُولَهُ، وَیُحِبُّهُ اللهُ وَرَسُولُهُ،قَالَ: فَبَاتَ النَّاسُ یَدُوكُونَ لَیْلَتَهُمْ أَیُّهُمْ یُعْطَاهَافَلَمَّا أَصْبَحَ النَّاسُ غَدَوْا عَلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، كُلُّهُمْ یَرْجُو أَنْ یُعْطَاهَا فَقَالَ:أَیْنَ عَلِیُّ بْنُ أَبِی طَالِبٍ،فَقَالُوا: یَشْتَكِی عَیْنَیْهِ یَا رَسُولَ اللهِ، قَالَ:فَأَرْسِلُوا إِلَیْهِ فَأْتُونِی بِهِ، فَلَمَّا جَاءَ بَصَقَ فِی عَیْنَیْهِ وَدَعَا لَهُ، فَبَرَأَ حَتَّى كَأَنْ لَمْ یَكُنْ بِهِ وَجَعٌ،قَالَ وَدَعَا لِی فَقَالَ اللهُمَّ أَذْهِبْ عَنْهُ الْحَرَّ وَالْقَرَّ قَالَ فَمَا اشْتَكَیْتُهُمَا حَتَّى یومی هَذَا

عمروبن اکوع رضی اللہ عنہ سے مروی ہےابن ہشام کے مطابق : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدناابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کو سفیدنشان عنایت فرماکرخیبرکے ایک قلعہ کی طرف روانہ کیا،سیدناابوبکر رضی اللہ عنہ نے بڑی کوشش کی اوربہت لڑے لیکن قلعہ فتح نہ ہواآخرواپس آگئے،پھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی قلعہ کی طرف یہی نشان دے کرسیدناعمر رضی اللہ عنہ بن خطاب کوروانہ کیاانہوں نے بھی بڑی محنت اورجانفشانی کی مگرآخرفتح حاصل کئے بغیرواپس چلے آئے،سیدناعلی رضی اللہ عنہ آشوب چشم کی وجہ سے پیچھے رہ گئے تھے لیکن بعدمیں انہوں نے پیچھے رہنامناسب نہ سمجھااور آپ سے خیبرمیں آملے، اسی شب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےابن سعد رضی اللہ عنہ کو( ازراہ قدردانی اورحوصلہ افزائی کے لئے) فرمایا کل میں ایک ایسے شخص کے ہاتھ میں جھنڈادوں گا جواللہ اوراس کے رسول سے محبت کرتاہے اوراللہ اور اس کا رسول بھی اس سے محبت کرتے ہیں اوراللہ تعالیٰ اس کے ہاتھوں اس قلعہ کوفتح کرائے گا،رات بھرلوگ انتظارکرتے رہے کہ کل صبح جھنڈاکس خوش نصیب کوملتاہے،اس لئے صبح سویرے تمام صحابہ رضی اللہ عنہم اس امیدکے ساتھ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسے جھنڈا عطافرمائیں گے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خدمت میں حاضر ہو گئے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا سیدناعلی رضی اللہ عنہ بن ابی طالب کہاں ہیں ؟ جانثارصحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیااے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم وہ اپنے خیمہ میں ہیں اور آشوب چشم میں مبتلا ہیں ،حکم فرمایاان کے یہاں کسی کوبھیج کربلوالو، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم انہیں لانے کے لئے لپکے اورساتھ لے کرحاضرخدمت ہو گئے،اس وقت ان کی آنکھوں پرپٹی بندھی ہوئی تھی،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی آنکھوں میں اپنالعاب دہن لگایااوران کے لئے دعافرمائی،کچھ دیرمیں وہ صحت مندہوگئے گویاانہیں آنکھوں کی تکلیف ہوئی ہی نہ تھی، سیدناعلی رضی اللہ عنہ فرماتے تھے کہ اس دن کے بعدپھرکبھی مجھے آشوب چشم کی شکایت پیدانہ ہوئی۔

قَالَ وَدَعَا لِی فَقَالَ اللَّهُمَّ أَذْهِبْ عَنْهُ الْحَرَّ وَالْقَرَّ قَالَ فَمَا اشْتَكَیْتُهُمَا حَتَّى یومی هَذَا

اوران کے حق میں اللہ تعالیٰ سے یہ دعافرمائی اے اللہ !علی رضی اللہ عنہ کوگرمی اورسردی سے محفوظ رکھنا،سیدناعلی رضی اللہ عنہ فرماتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعاکے بعدمجھے کبھی گرمی اورسردی کااحساس نہیں ہوا ۔[35]

وہ شدیدگرمی میں روئی کاموٹاجبہ پہنتے تھے اورشدیدسردی میں باریک کپڑے پہنتے تھے اورسردی کی پرواہ نہیں کرتے تھے

فَأَعْطَاهُ الرَّایَةَ،فَقَالَ عَلِیٌّ: یَا رَسُولَ اللهِ، أُقَاتِلُهُمْ حَتَّى یَكُونُوا مِثْلَنَا؟ فَقَالَ: انْفُذْ عَلَى رِسْلِكَ حَتَّى تَنْزِلَ بِسَاحَتِهِمْ، ثُمَّ ادْعُهُمْ إِلَى الإِسْلاَمِ، وَأَخْبِرْهُمْ بِمَا یَجِبُ عَلَیْهِمْ مِنْ حَقِّ اللهِ فِیهِ، فَوَاللهِ لَأَنْ یَهْدِیَ اللهُ بِكَ رَجُلًا وَاحِدًا، خَیْرٌ لَكَ مِنْ أَنْ یَكُونَ لَكَ حُمْرُ النَّعَمِ

پھر انہیں اپناسفیدعلم عطافرمایا،جب سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے علم سنبھالاتو عرض کیااے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم !میں ان سے اپنے جیساہونے تک جنگ کروں گا ؟(یعنی جب تک وہ اسلام قبول نہ کرلیں ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااے علی رضی اللہ عنہ !اپناکام نہایت وقارومتانت سے شروع کرو،جب ان کے میدان میں پہنچ جاؤپھرانہیں اسلام کی دعوت پیش کرو،ان کوراہ ہدایت پیش کرو(تاکہ جہاں تک ممکن ہولڑائی کی نوبت ہی نہ آئے)اللہ کے جوحقوق ان پرفرض ہے انہیں اس سے آگاہ کرواللہ کی قسم! اگراللہ تعالیٰ تیرے ذریعہ ایک آدمی کوہدایت فرما دے تویہ تیرے لئے سرخ اونٹوں (جوبہت اعلی اورقیمتی مانے جاتے ہیں )سے بہترہے۔[36]

تاکہ یہود اسلامی معاشرے کاایک حصہ بن جائیں اورجنگ کی نوبت ہی نہ آئے ، اور یہی طریقہ آئندہ کے لئے مسلمانوں اوراہل کتاب کے درمیان رائج ہوگیا،حسب فرمان سیدنا علی رضی اللہ عنہ مرحب کے قلعہ ناعم کے نیچے پہنچےاورنمائندہ نبوی کے طورپرجنگ سے پہلے یہودکو کفرکی ظلمتوں سے نکل کر نور توحیدکی طرف دعوت پیش کی،مگریہودکواپنی کثرت تعداد،جنگی تیاریاں ، سامان حرب ،اورکافی عرصہ کے لئے ذخیرہ اجناس پربڑامان تھا اس پرتکیہ کرکے انہوں نے اس پاکیزہ دعوت کوقطعی طور پر مسترد کردیا اورجنگ کرنے کا فیصلہ کرلیا،ان کے ارادے دیکھ کرآپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی لشکرکی ترتیب قائم کرنے اورقیادتوں کی تقسیم میں لگ گئے اورمہاجرین میں ایک جھنڈاسیدناابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ اورایک سیدنا عمرفاروق رضی اللہ عنہ کوجبکہ انصارمیں

وَرَایَةً إلَى الْحُبَابِ بْنِ الْمُنْذِرِ، وَرَایَةً إلَى سَعْدِ بْنِ عُبَادَةَ

ایک جھنڈا حباب بن منذر رضی اللہ عنہ اور دوسرا سعدبن عبادہ کوعطافرمایا ۔

جنگ کے آداب:

فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:لا تَمَنَّوْا لِقَاءَ الْعَدُوِّ وَاسْأَلُوا اللهَ الْعَافِیَةَ، فَإِنَّكُمْ لا تَدْرُونَ مَا تُبْتَلُونَ بِهِ مِنْهُمْ ،اللهُمَّ أَنْتَ رَبُّنَا وَرَبُّهُمْ، وَنَوَاصِینَا وَنَوَاصِیهِمْ بِیَدِكَ، وَإِنَّمَا تَقْتُلُهُمْ أَنْتَ، ثُمَّ الْزَمُوا الأَرْضَ جُلُوسًا، فَإِذَا غَشَوْكُمْ فَانْهَضُوا وَكَبِّرُوا

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حملہ کے وقت صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے فرمایادشمن سے جنگ کی تمنانہ کرواوراللہ تعالیٰ سے عافیت طلب کروتمہیں معلوم نہیں کہ تم کس چیزمیں مبتلا ہونے والے ہو اور جب دشمن سے مدبھیڑہوتوکہو اے اللہ !توہمارااوران کارب ہے ، ہماری اوران کی پیشانیاں تیرے ہاتھ میں ہیں صرف توہی انہیں قتل کرتاہے، پھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مڈبھیڑکے وقت انہیں جنگ کے بعض طریقے سکھائے اورفرمایاپھربیٹھ کرزمین کے ساتھ لگ جاؤ،جب وہ تمہارے پاس آئیں توکھڑے ہو جاؤ اور تکبیر کہو۔[37]

نظم وضبط :

وَكَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ حِینَ انْتَهَى إلَى حِصْنِ نَاعِم فِی النّطَاةِ وَصَفّ أَصْحَابَهُ نَهَى عَنْ الْقِتَالِ حَتّى یَأْذَنَ لَهُمْ، فَعَمِدَ رَجُلٌ مِنْ أَشْجَعَ فَحَمَلَ عَلَى یَهُودِیّ، وَحَمَلَ عَلَیْهِ مَرْحَبٌ فَقَتَلَهُ، فَقَالَ النّاسُ: یَا رَسُولَ اللهِ، اُسْتُشْهِدَ فُلَانٌ! فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: أَبْعِدْ مَا نَهَیْت عَنْ الْقِتَالِ؟فَقَالُوا: نَعَمْ،فَأَمَرَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مُنَادِیًا فَنَادَى: لَا تَحِلّ الْجَنّةُ لِعَاصٍ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فوجی نظم وضبط کی خلاف ورزی پسندنہیں فرماتے تھے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم النّطَاةِ کے قلعہ نَاعِم کے قریب پہنچ گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لشکرکوحکم دیاکہ جب تک آپ اجازت نہ دیں جنگ شروع نہ کریں ،لیکن نجدکے قبیلہ اشجع کے ایک نوجوان نے ایک یہودی کودیکھااوراسے قتل کردینے کے ارادہ سے اس پرحملہ کردیامگرمرحب نے یہودی کے درمیان حائل ہوکراس نوجوان کوقتل کر دیا،صحابہ رضی اللہ عنہم نے کہااے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم فلاں آدمی شہیدہوگیاہے! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکیاوہ میرے جنگ سے منع کرنے کے بعدماراگیاہے؟صحابہ رضی اللہ عنہم نے کہاہاں !توآپ نے منادی کوحکم دیا کہ یہ اعلان کرے کہ نافرمان کے لئے جنت میں جاناجائزنہیں ۔[38]

مجاہدین اسلام تمام دن سخت گرمی کے باوجود پلٹ پلٹ کراس قلعہ پریلغارکرتے رہےلیکن یہودیوں کے لیڈر مرحب اوراس کے بھائی یاسروحارث کی قیادت میں انہیں سخت مقاومت کاسامنااور بہت نقصان اٹھاناپڑا،قلعہ کے اوپرسے بارش کی طرح برسنے والے تیروں سے پچاس مجاہدین زخمی ہوگئےجن میں سعدبن عبادہ رضی اللہ عنہ بھی شامل تھے جبکہ مجاہدین کے تیریہودیوں کاقلعہ کے اوپربرجوں کے پیچھے ہونے کی وجہ سے بے اثر تھے، محمدبن مسلمہ رضی اللہ عنہ کے بھائی محمود رضی اللہ عنہ بن مسلمہ بہادروں کی طرح لڑتے رہےپھرلڑائی کی شدت اورہتھیاروں کے بوجھ سے تھک کر کچھ دیر سایہ حاصل کرنے اورسستانے کے لئے قلعہ کی دیوارکے ساتھ بیٹھ گئے،

فَدَلّى عَلَیْهِ مَرْحَبٌ رَحًى فَأَصَابَ رَأْسَهُ،فَهَشّمَتْ الْبَیْضَةُ رَأْسَهُ حَتّى سَقَطَتْ جِلْدَةِ جَبِینِهِ عَلَى وَجْهِهِ، وَأُتِیَ بِهِ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ،فَرَدّ الْجِلْدَةَ فَرَجَعَتْ كَمَا كَانَتْ، وَعَصَبَهَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بِثَوْبٍ،فَمَكَثَ ثَلَاثَةَ أَیّامٍ یَمُوتُ رَحِمَهُ اللهُ.

موقعہ دیکھ کراوپرسے مرحب نے ان پرچکی کا پاٹ گرادیاجوان کے سرپرگرااوران کا خود ٹوٹ گیااوران کی پیشانی کی کھال ان کے منہ پرگرگئی،انہیں اٹھاکررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس (امدادی سنٹرپر)لایاگیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دست مبارک سے کھال کواس کی جگہ لاکرکپڑے کی پٹی باندھ دی،محمد رضی اللہ عنہ بن مسلمہ ان کی حالت دیکھ کرسخت مغموم تھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کوتسلی دی اورفرمایاانشاء اللہ تیرے بھائی پرپتھرگرانے والاکل اپنے کیفرکردارکوپہنچ جائے گا،لسان رسالت سے نکلے ہوئے الفاظ دوسرے دن یوں پورے ہوئے کہ محمود رضی اللہ عنہ پرپتھرگرانے والایہودی دوسرے دن ماراگیا لیکن تین دن موت وحیات کی کشمکش میں مبتلارہنے کے بعد وہ عازم فردوس بریں ہوگئے،اللہ ان پررحمت کی بارش برسائے۔[39]

یہودیوں نے حارث کی قیادت میں قلعے سے باہرنکل کر انصار کے ایک دستہ پرسخت حملہ کردیامگرزبردست جنگ کے بعدانصارنے حارث کوقلعہ کے اندربھاگنے پر مجبور کر دیا ، یہودنے تازہ دم ہوکراسینونامی ایک آدمی کی قیادت میں دوبارہ حملہ کردیااورسخت دباؤڈالایہاں تک کہ انہیں بکھیر کررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب تک پہنچ گئے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کویہ بات بہت گراں گزری۔

قلعہ کامحاصرہ پندرہ دن جاری رہاجس میں یہودنے اپنی شدیدمقادمت کوجاری رکھااورکئی مرتبہ مسلمانوں کواپنے ہیڈکوارٹرتک پیچھے ہٹنے پرمجبورکردیا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دشمن کو مشتعل کرنے کے لئے تاکہ وہ قلعہ سے باہرنکل کرمقابلہ کرے علاقہ النظاة میں کھجوروں کے باغات کوکاٹ ڈالنے کاحکم فرمایا،صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے تعمیل حکم میں چارسودرختوں کوکاٹ کرڈھیرکردیاجس کاخاطرخواہ نتیجہ نکلا۔

مبارزت :

سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ سے مروی ہے سب سے پہلے یہودکاسردار مرحب جواپنی طاقت اورحربی صلاحیت کی بناپرایک ہزارمردوں کے برابرتسلیم کیاجاتاتھادوزرہیں پہنے ، دوتلواریں حمائل کیے ،ہاتھ میں نیزہ تھامے اورسرپرخودپہنے ہوئے غروروتکبرکے ساتھ اٹھلاتااوریہ رجزپڑھتاہواایک حملہ آورسانڈکی طرح میدان جنگ میں نمودار ہوا او ر مبارزت طلب کی۔

قَدْ عَلِمَتْ خَیْبَرُ أَنِّی مَرْحَبُ ،شَاكِی السِّلَاحِ بَطَلٌ مُجَرَّبُ

خیبرجانتا ہے کہ میں مرحب ہوں ،بہادر،تجربہ کاراورہتھیارپوش

إِذَا الْحُرُوبُ أَقْبَلَتْ تَلَهَّبُ

جب جنگ وجدل کاشعلہ بھڑک رہاہو

اس کے مقابلہ میں سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ کے چچاعامربن اکوع رضی اللہ عنہ یہ رجزپڑھتے ہوئے میدان میں نکلے۔

 قَدْ عَلِمَتْ خَیْبَرُ أَنِّی عَامِرُ ، شَاكِی السِّلَاحِ بَطَلٌ مُغَامِرُ

خیبرجانتا ہے کہ میں عامر ہوں ،شہ زور،جنگجواورہتھیارپوش۔[40]

فَاخْتَلَفَا ضَرْبَتَیْنِ فَوَقَعَ سَیْفُ مَرْحَبٍ فِی تُرْسِ عَامِرٍ، فَذَهَبَ عَامِرٌ یَسْفَلُ لَهُ فَرَجَعَ بِسَیْفِهِ عَلَى نَفْسِهِ، فَقَطَعَ أَكْحَلَهُ، وَكَانَتْ فِیهَا نَفْسُهُ ،قَالَ سَلَمَةُ: فَخَرَجْتُ فَإِذَا أَنْفُرٌ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: بَطَلَ عَمَلُ عَامِرٍ، قَتَلَ نَفْسَهُ،قَالَ: فَلَمَّا قَفَلُوا قَالَ سَلَمَةُ: رَآنِی رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ آخِذٌ بِیَدِی، قَالَ:مَا لَكَ، قُلْتُ لَهُ: فَدَاكَ أَبِی وَأُمِّی، زَعَمُوا أَنَّ عَامِرًا حَبِطَ عَمَلُهُ؟قَالَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:كَذَبَ مَنْ قَالَهُ، إِنَّ لَهُ لَأَجْرَیْنِ – وَجَمَعَ بَیْنَ إِصْبَعَیْهِ – إِنَّهُ لَجَاهِدٌ مُجَاهِدٌ، قَلَّ عَرَبِیٌّ مَشَى بِهَا مِثْلَهُ

دونوں مدمقابل نے ایک دوسرے پرتلوارسے بھرپوروارکیا،عامر رضی اللہ عنہ نے مرحب کی تلوارکاواراپنی ڈھال پرروکا اور مرحب پرنیچے پنڈلی پر وارکرناچاہا لیکن ایک تووہ قدمیں چھوٹے تھے دوسرے ان کی تلواربھی چھوٹی تھی جس کے نتیجے میں تلوارپلٹ کرخودان کے گھٹنے کے اگلے حصہ پر آلگی جس سے وہ زخمی ہوگئے اورانہیں میدان سے ہٹادیا گیا اور بعدمیں وہ اسی زخم سے متاثرہوکرفوت ہوگئے، سلمہ کہتے ہیں کہ جب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھیوں کی جماعت سے نکلا تو بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کہنے لگے اکوع رضی اللہ عنہ نے خودکشی کی ہے ،اس کے اعمال رائیگاں گئے، سلمہ بن الاکوع رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے دیکھااورمیرا ہاتھ پکڑکرفرمایاکیابات ہے؟میں نے عرض کیااے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم !میرے ماں باپ آپ پرقربان ہوں بعض لوگوں کا خیال ہے کہ عامر رضی اللہ عنہ کے اعمال رائیگاں گئے ہیں (کیونکہ خوداپنی ہی تلوارسے ان کی وفات ہوئی ہے) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجھوٹاہے وہ شخص جواس طرح کی باتیں کرتاہے ،انہیں تودوہرا اجرملے گاپھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی دوانگلیوں کواکٹھاکرکے فرمایاانہوں نے تکلیف اور مشقت بھی اٹھائی اوراللہ کے راستے میں جہادبھی کیا،شایدہی کوئی عربی ہوجس نے ان جیسی مثال قائم کی ہو ،وہ بڑاجانباز مجاہدتھا ،کوئی عرب کم ہی اس طرح اونٹوں کو چلا سکتا ہے[41]

فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: إنَّهُ لَشَهِیدٌ، وَصَلَّى عَلَیْهِ، فَصَلَّى عَلَیْهِ الْمُسْلِمُونَ

اورابن اسحاق کی روایت ہےان کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایابے شک وہ شہیدہے اورپھررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اورسب مسلمانوں نے ان کی نمازجنازہ پڑھی۔[42]

 فِی رِوَایَة بن إِسْحَاقَ إِنَّهُ لَشَهِیدٌ وَصَلَّى عَلَیْهِ

اورفتح الباری میں ہےاورابن اسحاق کی روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاوہ شہیدہے اوراس کی نمازجنازہ پڑھی۔[43]

عامر رضی اللہ عنہ کے بعدسیدنا علی رضی اللہ عنہ بن طالب یہ رجزپڑھتے ہوئے میدان میں تشریف لے گئے ۔

 أَنَا الَّذِی سَمَّتْنِی أُمِّی حَیْدَرَهْ ،كَلَیْثِ غَابَاتٍ كَرِیهِ الْمَنْظَرَهْ

میری والدہ نے میرانام حیدررکھاہے،جنگل کے شیرکی طرح خوفناک

أُوفِیهِمُ بِالصَّاعِ كَیْلَ السَّنْدَرَهْ

میں انہیں صاع کے بدلے نیزے کی ناپ پوری کروں گا

فَاخْتَلَفَ هُوَ وَعَلِیٌّ ضَرْبَتَیْنِ، فَضَرَبَهُ عَلِیٌّ عَلَى هَامَتِهِ، حَتَّى عَضَّ السَّیْفُ مِنْهَا بِأَضْرَاسِهِ

اب مرحب کامقابلہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے ہوا دونوں نے ایک دوسرے پربھرپوروارکیے ،سیدناعلی رضی اللہ عنہ نے مرحب کے سرپراس زورسے تلوارماری کہ وہ خودکوکاٹتی ہوئی مرحب کی داڑھوں تک اترگئی اور اس کی بہادری شہ زوری اورتجربہ کاری دھری کی دھری رہ گئی اوروہ وہیں اپنے انجام کوپہنچ گیا۔[44]

ثُمَّ خَرَجَ بَعْدَ مَرْحَبٍ أَخُوهُ یَاسِرٌ

پھرمرحب کا بھائی یاسرجویہودکے مشہورشہسواروں ،شجاع ترین اورسخت جنگجوسرداروں میں سے تھا گھوڑے پربیٹھایہ کہتاہواقلعہ سے باہرنکلا۔

قَدْ عَلِمَتْ خَیْبَرُ أَنِّی یَاسِرُ ،شَاكِی السِّلَاحِ بَطَلٌ مُغَاوِرُ

خیبرجانتاہے کہ میں یاسرہوں ،میں حملہ کرنے والا،ہتھیاربندبہادرہوں

إِذَا اللُّیوثُ أَقْبَلَتْ تُبَادِرُ ،إِنَّ حِمَایَ فِیهِ مَوْتٌ حَاضِرُ

جب شیرحملہ کرتے ہیں ،تومیرے حملے سے جانبازہچکچاتے ہیں ؍میری چراگاہ میں موت حاضرہے

اوراپنانیزہ گاڑکرمبارزت طلب کی،

فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:قُمْ یَا زُبَیْرُ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااے زبیر رضی اللہ عنہ !اس کے مقابلے کے لیے کھڑے ہو،چنانچہ زبیربن العوام رضی اللہ عنہ یہ کہتے ہوئے اس کے مقابلہ کے لئے میدان میں نکلے ۔

قَدْ عَلِمَتْ خَیْبَرُ أَنِّی زَبَّارْ ، قَدِمَ لِقَوْمٍ غَیْرُ نَكِسٍ فَرَّارْ،

خیبرجانتاہے کہ میں ایک بہادرآدمی ہوں ،ایک سردارکادوسرے سردارسے مقابلہ ہوگاجوفراراختیارکرنے والانہیں

ابْنُ حُمَاةِ الْمَجْدِ وَابْنُ الْأَخْیَارْ ، یَاسِرُ لَا یَغْرُرْكَ جَمْعُ الْكُفَّارْ،

میں بزرگی کی حفاظت کرنے والوں اورنیک لوگوں کابیٹاہوں ،یاسرکفارکی جمعیت تجھے دھوکامیں نہ ڈال دے

فَجَمْعُهُمْ مِثْلُ السَّرَابِ الْجَارْ

ان کی جمعیت توچلتے ہوئے سراب کی طرح ہے۔[45]

فَقَالَتْ صفیة أُمُّهُ: یَا رَسُولَ اللهِ، یَقْتُلُ ابْنِی؟ قَالَ: بَلِ ابْنُكِ یَقْتُلُهُ إِنْ شَاءَ اللهُ،فَقَتَلَهُ الزبیر

زبیر رضی اللہ عنہ لمبے قدکے تھے مگران کا قدوقامت یاسرکے مقابلے میں کچھ بھی نہ تھا اورمعلوم ہوتاتھاکہ وہ آج یاسرکے ہاتھ سے نہیں بچیں گے،زبیر رضی اللہ عنہ کی والدہ صفیہ رضی اللہ عنہا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیاکیامیرابیٹاقتل کردیاجائے گا؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایانہیں بلکہ ان شاء اللہ تمہارابیٹااسے قتل کردے گا،چنانچہ زبیر رضی اللہ عنہ نے تلوارکے چندوارمیں ں ہی اپنے مدمقابل کاکام تمام کردیا۔[46]

فَقَالَ له رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: فِدَاك عَمّ وَخَالٌ!وَقَالَ النّبِیّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:لِكُلّ نَبِیّ حَوَارِیّ وَحَوَارِیّ الزّبَیْرُ

اس موقع پررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایاتم پرمیرے چچااورماموں قربان ہوں اورنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاہرنبی کے کچھ معین ومددگارہوتے ہیں اورمیرا مددگار زبیر رضی اللہ عنہ ہیں ۔[47]

وَبَرَزَ عَامِرٌ وَكَانَ رَجُلًا طَوِیلًا جَسِیمًا فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ حِینَ طَلَعَ عَامِرٌ:أَتَرَوْنَهُ خَمْسَةَ أَذْرُعٍ؟ وَهُوَ یَدْعُو إلَى الْبِرَازِ، یَخْطِرُ بِسَیْفِهِ وَعَلَیْهِ دِرْعَانِ، مُقَنّعٌ فِی الْحَدِیدِ یَصِیحُ: مَنْ یُبَارِزُ؟فَبَرَزَ إلَیْهِ عَلِیّ عَلَیْهِ السّلَامُ فَضَرَبَهُ ضَرَبَاتٍ، كُلّ ذَلِكَ لَا یَصْنَعُ شَیْئًا، حَتّى ضَرَبَ سَاقَیْهِ فَبَرَكَ، ثُمّ ذُفّفَ عَلَیْهِ فَأَخَذَ سِلَاحَهُ

پھرایک طویل اورجسیم عامرنامی یہودی سالار باہرنکلا، جب عامرباہرنکلاتورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکیا تو نے پانچ ذراع ولا آدمی دیکھا ہے؟اور وہ مبارزت کیلئے پکار رہا ہے دو درہیں پہنی ہوئی اور ہاتھ میں تلوار لیئے ہوئے مبارزت کیلئے چلا رہا ہے کہ کون مقابلہ کرنے کو تیار ہے؟ سیدناعلی رضی اللہ عنہ بن ابی طالب اس کے مقابلے میں نکلے،دونوں نے ایک دوسرے پرضربات لگائیں مگرکوئی نتیجہ نہ نکلا،آخرسیدناعلی رضی اللہ عنہ نےاس کی پنڈلی پروارکیا اوراسے گراکرقتل کردیااوراس کااسلحہ حاصل کرلیا۔[48]

پھرایک اوریہودی مقابلے کے لئے نکلاجس کامحمدبن مسلمہ رضی اللہ عنہ نے خاتمہ کردیاپھرعام جنگ شروع ہوگئی

قَالَ فَكَانَ الزُّبَیْرُ إِذَا قِیلَ لَهُ والله إن كان سیفك یومئذ صارماً یقول: والله ما كان بصارم وَلَكِنِّی أَكْرَهْتُهُ

جب زبیربن عوام رضی اللہ عنہ کوکہاجاتاکہ اس دن آپ کی تلوارکاٹنے والی تھی تووہ کہتے تھے وہ کاٹنے والی نہ تھی لیکن میں نے اسے کاٹنے پر مجبور کردیاتھا۔[49]

وَلَمَّا دَنَا علی رَضِیَ اللهُ عَنْهُ مِنْ حُصُونِهِمُ اطَّلَعَ یَهُودِیٌّ مِنْ رَأْسِ الْحِصْنِ فَقَالَ: مَنْ أَنْتَ؟فَقَالَ أَنَا عَلِیُّ بْنُ أَبِی طَالِبٍ،قَالَ: یَقُولُ الْیَهُودِیُّ: عَلَوْتُمْ، وَمَا أُنْزِلَ عَلَى مُوسَى

ابن اسحاق لکھتے ہیں جب سیدنا علی رضی اللہ عنہ قلعہ کے نزدیک ہوئے توقلعہ کی چوٹی سے ایک یہودی نے جھانک کرپوچھاتم کون ہو؟ سیدناعلی رضی اللہ عنہ نے جواب دیامیں علی رضی اللہ عنہ بن ابی طالب ہوں ، اس یہودی نے کہاتوریت کی قسم! تم غالب آگئے۔ [50]

اس روزشدیدگرمی تھی اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو زرہیں ایک خوداورٹوپی کے نیچے لوہے کی جال دارزرہ پہنی ہوئی تھی اورظرب نامی گھوڑے پرسوارتھے ،آپ کے دست مبارک میں ایک نیزہ اورایک ڈھال تھی اورصحابہ کرام رضی اللہ عنہم آپ کوچاروں طرف سے گھیراکرڈھال بنے ہوئے تھے ،کیونکہ یہودکھلے میدان میں نکل کرلڑنے سے ڈرتے تھے اس لئے حسب عادت اپنے قلعے کے آس پاس ہی لڑتے رہےاگرانہیں شکست کااندیشہ ہوتا تو فوراًقلعہ میں داخل ہوکردروازہ بندکردیتے ،اس لئے یہودکے کئی سربرآوردہ لوگوں کے قتل ہونے کے باوجود یہ جنگ مسلسل سات دن جاری رہی جس میں مسلمانوں کوشدیدمزاحمت کا سامنا کرناپڑا، مگروہ مجاہدین کے کاری ضربوں کوروک نہ سکے بالآخر ان کی مقادمت عملاً جواب دے گئی،وہ مجاہدین کے حملے روکنے سے عاجزہوگئے تو ان کے حوصلے پست ہوگئے اوروہ شکستہ دل ہوکراس قلعہ سے فرارہوکردوسرے مضبوط ومستحکم قلعہ الصعب میں جمع ہونے لگے،

فَفُتِحَ حِصْنُ نَاعِمٍ

بالآخرایک شدید جنگ کے بعد علی ٰ رضی اللہ عنہ کے ہاتھوں قلعہ ناعم فتح ہوگیا۔[51]

فَكَانَ أَوَّلُ حُصُونِهِمْ اُفْتُتِحَ حِصْنُ نَاعِمٍ

چنانچہ سب سے پہلے جوقلعہ فتح ہوااس کانام ناعم تھا۔[52]

مگرمجاہدین اس قلعہ سے کوئی یہودی اسیرنہ کرسکے۔

صحابہ کابیمارپڑنا:

وَقَدِمُوا خَیْبَرَ عَلَى ثَمَرَةٍ خَضْرَاءَ وَهِیَ وَبِئَةٌ وَخَیْمَةٌ، فَأَكَلُوا مِنْ تلك الثّمرة، وأهمدتهم الْحُمّى، فَشَكَوْا ذَلِكَ إلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: قَرّسُواالْمَاءَ فِی الشّنَانِ، فَإِذَا كَانَ بَیْنَ الْأَذَانَیْنِ فَاحْدَرُوا الْمَاءَ عَلَیْكُمْ حَدْرًا وَاذْكُرُوا اسْمَ اللهِ،فَفَعَلُوا فَكَأَنّمَا أُنْشِطُوا مِنْ عِقَال

جب آپ خیبرتشریف لائے تواس وقت کھجوریں سبز(یعنی خام)تھیں ،اکثرصحابہ رضی اللہ عنہم نے حملہ سے قبل وہ کھائیں جس سے وہ بخارمیں مبتلاہوگئے جس سے ان کی جسمانی قوتیں متاثرہوئیں لیکن یہ بخاران کے عزم وحوصلوں کونہ توڑسکااوربڑے صبروبہادری کے ساتھ جہادکوجاری رکھا،انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کی شکایت کی،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاچھاگلوں میں پانی بھرکرٹھنڈاکروپھرفجرکی ہردواذانوں (تہجداورفجر)کے درمیان اس پانی پراللہ کانام دم کرکے اپنے اوپرڈال لو،چنانچہ صحابہ نے یہ عمل کیاجس سے بخارجاتارہا۔[53]

قلعہ الصعب بن معاذکی فتح:

یہودیوں کے سب سے مضبوط اورمستحکم قلعہ ناعم کی فتح سے مجاہدین کے حوصلے اوربلندہوگئے جبکہ یہوداپنی کامیابی سے مایوس ہوچکے تھے، یہودیوں کے دوسرادفاعی قلعہ الصّعْبِ تھا

وَإِنّ عَلَیْهِ لَخَمْسُمِائَةِ مُقَاتِلٍ

جس میں پانچ سوجنگجواورتیرانداز موجودتھےاوران کی قیادت الدیال اوریوشع کررہے تھے،

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حباب بن منذرانصاری رضی اللہ عنہ کوجھنڈاعطافرمایااوراس قلعہ پرحملہ کاحکم فرمایا انہوں تعمیل حکم میں مجاہدین کے ساتھ اس قلعہ کوگھیرے میں لے لیا

بَرَزَ رَجُلٌ مِنْ الْیَهُودِ یُقَالُ لَهُ یُوشَعُ یَدْعُو إلَى الْبِرَازِ فَبَرَزَ إلَیْهِ الْحُبَابُ بْنُ الْمُنْذِرِ فَاخْتَلَفَا ضَرَبَاتٌ فَقَتَلَهُ الْحُبَابُ،وَبَرَزَ آخَرُ یُقَالُ لَهُ الزّیّالُ، فَبَرَزَ لَهُ عُمَارَةُ بْنُ عُقْبَةَ الْغِفَارِیّ فَبَدَرَهُ الْغِفَارِیّ فَیَضْرِبُهُ ضَرْبَةً عَلَى هَامَتِهِ

عرب کے معروف طریقہ کے مطابق یہودی سالاریوشع قلعہ سے باہرنکلااور مبارزت طلب کی،اس کے مقابلے میں حباب بن منذر رضی اللہ عنہ نکلے ،تلواروں کے شدیدواروں کے بعدحباب بن منذر رضی اللہ عنہ نے یوشع کوقتل کردیاجس سے یہودمیں غم وغصہ پھیل گیااوران کادوسراسالارالزیال باہرنکلااورقلعہ کے سامنے نیزہ گاڑکرمبارزت طلب کی،اس کے مقابلہ میں عمارہ بن عقبہ غفاری رضی اللہ عنہ نکلے ،سخت مقابلے کے بعدعمارہ رضی اللہ عنہ نے اس کوخاک نشین کردیا، مبارزت کی کاروائیوں میں مسلمانوں کی فتح کے بعدمجاہدین نے قلعہ کے گرد اپنامحاصرہ سخت کردیااورقلعہ کادفاع کرنے والے یہودیوں کی بدحالی کاآغازہوگیا۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کادعاکرنا:

لمبے محاصرے کی وجہ سے اسلامی لشکر کے بعض دستوں کے پاس خودونوش کی کمی ہونے لگی تھی اوربھوک تک نوبت پہنچ گئی ، جب تین روزگزرگئے تو

أَتَوْا رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالُوا: وَاَللَّهِ یَا رَسُولَ اللهِ لَقَدْ جَهَدْنَا وَمَا بِأَیْدِینَا مِنْ شَیْءٍ، فَلَمْ یَجِدُوا عِنْدَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ شَیْئًا یُعْطِیهِمْ إیَّاهُ، فَقَالَ: اللهمّ إنَّكَ قَدْ عَرَفْتُ حَالَهُمْ وَأَنْ لَیْسَتْ بِهِمْ قُوَّةٌ، وَأَنْ لَیْسَ بِیَدِی شَیْءٌ أُعْطِیهِمْ إیَّاهُ، فَافْتَحْ عَلَیْهِمْ أَعْظَمَ حُصُونِهَا عَنْهُمْ غَنَاءً، وَأَكْثَرَهَا طَعَامًا وَوَدَكًا

قبیلہ اسلم کی شاخ بنوسہم کے لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اورعرض کیا اے اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !ہم لوگ بھوک اورکمزوری سے نڈھال ہوچکے ہیں اور ہمارے پاس کھانے کوکچھ بھی نہیں ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بھی اس وقت کچھ نہ تھاجوان کودیتے،چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خصوصی طور پر دعا کے لئے ہاتھ اٹھائے اوررب کے حضورعرض کیااےاللہ! توخوب جانتاہے جوان لوگوں کی حالت ہے اورمیرے پاس بھی کچھ نہیں جومیں انہیں دے دوں ، پھر پکارکرکہااے میرے رب !تواپنے فضل وکرم سے سب سے بڑاقلعہ ان لوگوں کے ہاتھوں پرفتح کرادے تاکہ ان کے مال غنیمت سے غنی ہوجائیں اور کھانے کی چیزوں کے انبار لگا دے۔[54]

پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجاہدین کواس قلعہ پرحملہ کاحکم فرمایااس کے بعد مجاہدین نے ایک نئے جوش وولولے کے ساتھ قلعہ الصعب پرحملہ کردیاجن میں بنواسلم کے لوگ پیش پیش تھے،یہودیوں کے ماہرتیراندازں نے قلعہ کے برجوں سے مجاہدین کے ہیڈکوارٹرکوبطورخاص نشانہ بناکرتیروں کی بارش برسادی

 قَدْ نَزَلَ عَنْ فَرَسِهِ وَمِدْعَمٌ یُمْسِكُ فَرَسَهُ

جہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھوڑے پرسوارجنگ کی نگرانی فرما رہے تھے اورمدعم نے لگام پکڑی ہوئی تھی۔

مگر مجاہدین اسلام نے اپنے آپ کونبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے گردڈھال بنادیا،مجاہدین نے بھی قلعہ پرتیربرسائے لیکن یہودیوں کے تیروں کا جو اثر مسلمانوں پر ہو رہا تھا مسلمانوں کے تیروں کایہودیوں پروہ اثرنہیں ہورہاتھا،مجاہدین نے ایک عام حملہ کرکے اس قلعہ میں داخل ہونے کی کوشش کی مگرمدافعین کی سخت مقادمت کی وجہ سے وہ کامیاب نہ ہوسکے، اس کے برعکس یہودیوں نے قلعہ سے باہرنکل کرسخت حملہ کیاکہ سوائے مسلمانوں کے سالارحباب بن منذر رضی اللہ عنہ کے سوا مجاہدین تتربتر ہو گئے اوریہودانہیں بھگاتے ہوئے ہیڈ کوارٹرلے گئے ،قریب تھاکہ کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچ جائیں مگرآپ اپنی جگہ پرحسب عادت ثابت قدم رہے

وَنَدَبَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ الْمُسْلِمِینَ وَحَضّهُمْ عَلَى الْجِهَادِ وَرَغّبَهُمْ فِیهِ، وَأَخْبَرَهُمْ أَنّ اللهَ قَدْ وَعَدَهُ خَیْبَرَ یُغَنّمُهُ إیّاهَا فَأَقْبَلَ النّاسُ جَمِیعًا حَتّى عَادُوا إلَى صَاحِبِ رَایَتِهِمْ، ثُمّ زَحَفَ بِهِمْ الْحُبَابُ فَلَمْ یَزَلْ یَدْنُو قَلِیلًا قَلِیلًا، وَتَرْجِعُ الْیَهُودُ عَلَى أَدْبَارِهَا حَتّى لَحَمَهَا الشّرّ فَانْكَشَفُوا سِرَاعًا، وَدَخَلُوا الْحِصْنَ وَغَلّقُوا عَلَیْهِمْ، وَوَافَوْا عَلَى جُدُرِهِ وَلَهُ جُدُرٌ دُونَ جُدُرٍ فَجَعَلُوا یَرْمُونَنَا بِالْجَنْدَلِ رَمْیًا كَثِیرًا، وَنَحّونَا عَنْ حِصْنِهِمْ بِوَقْعِ الْحِجَارَةِ،وَرَجَعْنَا إلَیْهِمْ فَاقْتَتَلْنَا عَلَى بَابِ الْحِصْنِ أَشَدّ الْقِتَال

اوراس تباہ کن حملہ کے سامنے اپنے گھوڑے سے اترکرشکست خوردہ مسلمانوں کوبھی ثابت قدم رہنے اور جہاد کی تر غیب دیتے ہوئے پکارکر فرمایااے مجاہدو!اللہ نے تمہیں خیبرکی غنیمت دینے کاوعدہ فرمایا ہے ،یہودیوں کے سامنے ڈٹ جاؤاورتباہ کن تیروں کے ساتھ تیراندازی کرو،اس آوازکوسنتے ہی اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے واپس پلٹ کررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گردحلقہ قائم کر دیااورنئے سرے سے اپنے سالارکے پیچھے جمع ہو گئے اورقلعہ میں داخل ہونے کے ارادے سے سخت حملہ کیااوریہودیوں کوپیچھے دھکیلتے ہوئے قلعہ کی فصیلوں کے قریب پہنچ گئے ،قلعہ کے اوپرسے یہود سنگباری کرنے اور تیربرسانے لگے جس سے مجاہدین پیچھے پلٹ کرپہلی جگہ پر آگئےاور یہوداپنے کئی آدمی قتل کروانے کے بعدپسپاہوکراپنے قلعہ میں داخل ہوگئے،مگرجب مجاہدین پیچھے ہٹے تویہودیوں نے قلعہ سے باہرنکل کردوبارہ پہلے سے زیادہ سخت حملہ کردیاقلعہ کے دروازے پرشدیدجنگ ہوتی رہی اوریہودکی مسلمانوں کوپیچھے دھکیلنے کی کوئی کوشش کامیاب نہ ہوئی جس میں کئی یہودیوں قتل ہوئے

وَقُتِلَ یَوْمئِذٍ عَلَى الْبَابِ ثَلَاثَةٌ مِنْ أصحاب رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ ، أبو ضیّاح، وَقَدْ شَهِدَ بَدْرًا، ضَرَبَهُ رَجُلٌ مِنْهُمْ بِالسّیْفِ فَأَطَنّ قِحْفَ رَأْسِهِ، وَعَدِیّ بْنُ مَرّةَ بْنِ سراقة، طعنه حدهم بِالْحَرْبَةِ بَیْنَ ثَدْیِهِ فَمَاتَ، وَالثّالِثُ الْحَارِثُ بْنُ حَاطِبٍ وَقَدْ شَهِدَ بَدْرًا

اوراس دن قلعہ کے دروازے پررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے تین صحابہ شہیدہوئے،ابوضیاح جوغزوہ بدرمیں شریک تھےیہودیوں کے آدمیوں میں سے ایک شخص نے اپنی تلوار سے ان پروار کیا جس سے ان کا سر مضمحل ہوگیااورعدی بن مرہ بن سراقہ حربہ سے سینے پر وار کیا جس وجہ سے وہ کھب گیااور شہید ہوگئےاور تیسرے حارث بن حاطب تھے جوغزوہ بدرمیں شریک تھے۔

اور بالآخر تیسرے روزپورے دن قلعہ کے سامنے شدید جنگ کے بعد سورج غروب سے پہلے ہی یہ دوسرامضبوط قلعہ بھی مسلمانوں کے عزم وحوصلے کے سامنے ڈھیر ہوگیا ، جب مسلمان اس قلعہ میں داخل ہوئے تویہودی خوف زدہ ہوکر ایک منتشرگروہ کی طرح بھاگےجن میں کئی قتل ہوئے اورکچھ اسیرہوگئےاور باقی ماندہ یہاں سے فرار ہوکر تیسرے مضبوط قلعہ زبیرمیں جمع ہوگئے

لَقَدْ رَأَیْت فَتَیَانِ أَسْلَمَ وَغِفَارٍ فَوْقَ الْحِصْنِ یُكَبّرُونَ،فَوَجَدْنَا وَاَللهِ مِنْ الْأَطْعِمَةِ مَا لَمْ نَظُنّ أَنّهُ هُنَاكَ، مِنْ الشّعِیرِ، وَالتّمْرِ، وَالسّمْنِ، وَالْعَسَلِ، وَالزّیْتِ، وَالْوَدَكِ وَأَخْرَجْنَا مِنْهُ آلَةً كَثِیرَةً لِلْحَرْبِ، وَمَنْجَنِیقًا وَدَبّابَاتٍ وَعُدّةً

بنواسلم اورغفارکے مجاہدین قلعے کی دیواروں پرچڑھ گئے اورنعرہ تکبیربلندکیا،مجاہدین کو اس قلعہ کے تہہ خانے سے وافر مقدار میں جو،کھجور،گھی ، شہد ،تیل کے علاوہ بہت سی زرہیں ،تلواریں ، منجنیق اوردبابے(یہ حملہ کرنے اور بچاؤ کرنے والے ہتھیارترقی یافتہ رومی وایرانی فوجیں استعمال کرتی تھیں مگر جن کے استعمال کے متعلق کوئی عرب نہیں جانتا تھا ) بھی حاصل کیے۔[55]

جس سے معلوم ہوتاہے کہ یہودیوں نے ان چیزوں کوشام سے حاصل کیا ہوگااوران کا مدینہ طیبہ پرحملہ کرنے کا پروگرام تھا۔

قلعہ الناعم اورالصعب پرقبضہ کے بعدآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک چھوٹے سے دستہ کوان قلعوں کی نگرانی کے لئے علاقہ النطاة میں رہنے کاحکم دیاتاکہ اگر مسلح یہودیوں میں سے کوئی ان قلعوں میں چھپے ہوئے ہوں توان ختم کردیں ۔یہودی دفاع کے پہلے دومضبوط ومستحکم ترین قلعوں کی فتح کے بعد مسلمانوں کاپلڑابھاری ہو گیا جبکہ یہودیوں میں گھبراہٹ اور ناامیدی پھیل گئی ،انہیں تصوربھی نہ تھاکہ وہ مشہو رو معروف بہادرسالاروں دس ہزارجانبازوں کی موجودگی ، مضبوط ومستحکم قلعوں ،وافرمقدارمیں جنگی سازوسامان اورخوراک کے باوجودمیں مٹھی بھرمسلمانوں کے سامنے جو اپنی چھوٹی سی ریاست سے دور،بھوک سے نڈھال بغیرکسی اوٹ کے کھلے میدان میں پڑے ہوئے تھے پسپاہوجائیں گے،لیکن جو کچھ ہوااچانک ہی ہواجس سے یہودی اوران کے حمائتی حیران رہے گئے،ان قلعوں کے علاوہ چھوٹے چھوٹے اور قلعے بھی تھے مگران کی کوئی جنگی اہمیت نہ تھی اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان پرحملہ کرنے کی زحمت گوارہ نہ فرمائی اورخیبرکے نصف اول میں واقع تیسری دفاعی لائن قلعہ الزبیرکی طرف متوجہ ہوئے جس میں یہودی جمع ہوکرجنگ کی تیاریوں میں مصروف تھے ۔

گدھوں کے گوشت کی مناہی :

(قَالَ: أَصَابَنَا جُوعٌ شَدِیدٌفَخَرَجَ عِشْرُونَ حِمَارًا مِنْهُ،فأخذها المسلمون فانتحروها)فَلَمَّا أَمْسَى النَّاسُ مَسَاءَ الیَوْمِ الَّذِی فُتِحَتْ عَلَیْهِمْ، أَوْقَدُوا نِیرَانًا كَثِیرَةً، فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:مَا هَذِهِ النِّیرَانُ عَلَى أَیِّ شَیْءٍ تُوقِدُونَ؟قَالُوا: عَلَى لَحْمٍ، قَالَ:عَلَى أَیِّ لَحْمٍ؟قَالُوا: لَحْمِ حُمُرِ الإِنْسِیَّةِ،(فَإِنَّهَا رِجْس) قَالَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:أَهْرِیقُوهَا وَاكْسِرُوهَافَقَالَ رَجُلٌ: یَا رَسُولَ اللهِ، أَوْ نُهَرِیقُهَا وَنَغْسِلُهَا؟قَالَ:أَوْ ذَاكَ

مجاہدین بھوک سے بے حال تھے، انہوں نے کسی قلعہ سے تیس گدھوں کو باہرنکلتے ہوئے دیکھاتومسلمانوں نےانہیں پکڑکر ذبح کردیا اوران کا گوشت پکانے کی غرض سے ہنڈیاں چولہوں پر چڑھا لیں ، جس دن قلعہ فتح ہوناتھااس کی جب رات ہوئی تولشکرمیں جگہ جگہ آگ جل رہی تھی، نبی اکرم نے ہرطرف آگ جلتی دیکھی تودریافت فرمایایہ آگ کیسی ہے اورکس چیزکے لئے اس کوجگہ جگہ جلارکھاہے؟صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیالوگ گوشت پکارہے ہیں ، آپ نے دریافت فرمایا کس جانور کاگوشت پکا رہے ہیں ؟صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نےجواب عرض کیاگیاوہ گھریلوگدھوں کاگوشت پکارہے ہیں ،آپ نے فرمایاوہ نجس ہے ،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاسب گوشت پھینک دواوربرتنوں کوتوڑدو،ایک صحابی رضی اللہ عنہ نے عرض کیااے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !ایساکیوں نہ کرلیں کہ گوشت تو پھینک دیں اور ہانڈیوں کودھولیں ،آپ نے فرمایا اچھا برتنوں کودھولو۔[56]

خط کشیدہ الفاظ مغازی واقدی میں ہیں ۔

فَأَمَرَ مُنَادِیًا فَنَادَى فِی النَّاسِ: إِنَّ اللهَ وَرَسُولَهُ یَنْهَیَانِكُمْ عَنْ لُحُومِ الحُمُرِ الأَهْلِیَّةِ،فَأُكْفِئَتِ القُدُورُ وَإِنَّهَا لَتَفُورُ بِاللحْمِ

اس کے بعدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک منادی سے اعلان کرایاکہ اللہ اوراس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم تمہیں پالتوگدھوں کے گوشت کے کھانے سے منع کرتے ہیں ، چنانچہ تمام ہانڈیاں الٹ دی گئیں حالانکہ وہ گوشت کے ساتھگ جوش ماررہی تھیں ۔[57]

اسی جنگ میں آپ نے ہرکچلی والے درندہ جانورکے کھانے،تقسیم ہونے سے پہلے غنیمت کامال بیچنے اور استبرارحم سے قبل لونڈی کے ساتھ ہم بستری کرنے سے منع فرمایا۔

قَامَ فِینَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: لَا یَحِلُّ لِامْرِئٍ یُؤْمِنُ بالله وَالْیَوْمِ الْآخِرِ أَنْ یَسْقِیَ مَاؤُهُ زَرْعَ غَیْرِهِ، یَعْنِی إتْیَانَ الْحَبَالَى مِنْ السَّبَایَا، وَلَا یَحِلُّ لِامْرِئِ یُؤْمِنُ بالله وَالْیَوْمِ الْآخِرِ أَنْ یُصِیبَ امْرَأَةً مِنْ السَّبْی حَتَّى یَسْتَبْرِئَهَا،وَلَا یَحِلُّ لِامْرِئِ یُؤْمِنُ بالله وَالْیَوْمِ الْآخِرِ أَنْ یَبِیعَ مَغْنَمًا حَتَّى یَقْسِمَ، وَلَا یَحِلُّ لِامْرِئِ یُؤْمِنُ بالله وَالْیَوْمِ الْآخِرِ أَنْ یَرْكَبَ دَابَّةً مِنْ فَیْءِ الْمُسْلِمِینَ حَتَّى إذَا أَعْجَفَهَارَدَّهَا فِیهِ ، وَلَا یَحِلُّ لِامْرِئِ یُؤْمِنُ بالله وَالْیَوْمِ الْآخِرِ أَنْ یَلْبَسَ ثَوْبًا مِنْ فَیْءِ الْمُسْلِمِینَ حَتَّى إذَا أَخْلَقَهُ رَدَّهُ فِیهِ

ابن اسحاق رویفع رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبرکے دن کھڑے ہوکرخطبہ دیاجوآدمی اللہ،اللہ کے رسول اورروزآخرت پرایمان رکھتا ہے اس کے لئے حلال نہیں کہ وہ اپناپانی غیرکی کھیتی کوپلائے یعنی حاملہ عورت سے جولونڈی پکڑی ہوئی آئی ہو صحبت کرے،جوآدمی اللہ،اللہ کے رسول اورروزآخرت پرایمان رکھتا ہے اس کے لئے حلال نہیں کہ وہ استبرارحم سے قبل کسی لونڈی سے جماع کرے،جوآدمی اللہ،اللہ کے رسول اورروزآخرت پرایمان رکھتا ہے اس کے لئے حلال نہیں کہ وہ تقسیم ہونے سے پہلے غنیمت کامال بیچےاورجوآدمی اللہ تعالیٰ،اللہ کے رسول اورروزآخرت پرایمان لایاہے اس کے لئے حلال نہیں کہ وہ غنیمت کے کسی جانورپرسواری کرے اوراس کو لاغرکرنے کے بعدغنیمت میں لوٹادے، اورجوآدمی اللہ تعالیٰ،اللہ کے رسول اورروزآخرت پرایمان لایاہے اس کے لئے حلال نہیں کہ وہ مسلمانوں کی غنیمت سے کوئی کپڑاپہنے اوراس کوبوسیدہ کرنے کے بعداس میں جمع کردے۔[58]

دورجاہلیت میں اہل عرب اپنی قبیح رسم ورواج کے موافق متعہ(اجرت طے کرکے چندروزکے لئے عورت سے طالق قائم کرنا) کیاکرتے تھے (جس میں نہ ولی کی اجازت ہے ،نہ شہادت ہے،نہ اعلان ہے،نہ نان ونفقہ ہے،نہ سکتی ہے،نہ طلاق ہے،نہ لعان ہے،نہ ظہارہے،نہ ایلاء ہے،نہ عدت ہے،نہ میراث ہے اور نہ کوئی حدمتعین ہے ) حلال وحرام کے بہت سے احکام رفتہ رفتہ نازل ہوچکے تھے مگرمتعہ اورسودکی حرمت کے بارے میں ابھی تک کوئی واضح حکم نازل نہیں ہواتھاچنانچہ اس قبیح فعل کوروکنے کے لئے سب سے پہلے غزوہ خیبرمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایا،

عَنْ عَلِیِّ بْنِ أَبِی طَالِبٍ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ،أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:نَهَى عَنْ مُتْعَةِ النِّسَاءِ یَوْمَ خَیْبَرَ

سیدنا علی رضی اللہ عنہ بن ابی طالب سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ خیبرمیں عورتوں سے متعہ کی ممانعت کی تھی۔[59]

الرَّبِیعُ بْنُ سَبْرَةَ الْجُهَنِیُّ، عَنْ أَبِیهِ،أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ نَهَى عَنِ الْمُتْعَةِ، وَقَالَ:أَلَا إِنَّهَا حَرَامٌ مِنْ یَوْمِكُمْ هَذَا إِلَى یَوْمِ الْقِیَامَةِ

ربیع بن سبرہ جہنی رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نکاح متعہ سے ممانعت فرمائی اور فرمایا آگاہ رہو یہ آج کے دن سے قیامت کے دن تک حرام ہے۔ (صحیح مسلم كِتَابُ االنکاح بَابُ نَدْبِ مَنْ رَأَى امْرَأَةً فَوَقَعَتْ فِی نَفْسِهِ، إِلَى أَنْ یَأْتِیَ امْرَأَتَهُ أَوْ جَارِیَتَهُ فَیُوَاقِعَهَا)

وَلَمْ تُحَرَّمِ الْمُتْعَةُ یَوْمَ خَیْبَرَ، وَإِنَّمَا كَانَ تَحْرِیمُهَا عَامَ الْفَتْحِ هَذَا هُوَ الصَّوَابُ، وَقَدْ ظَنَّ طَائِفَةٌ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ أَنَّهُ حَرَّمَهَا یَوْمَ خَیْبَرَ، وَاحْتَجُّوا بِمَا فِی الصَّحِیحَیْنِ مِنْ حَدِیثِ عَلِیِّ بْنِ أَبِی طَالِبٍ رَضِیَ اللهُ عَنْهُ أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ نَهَى عَنْ مُتْعَةِ النِّسَاءِ یَوْمَ خَیْبَرَ، وَعَنْ أَكْلِ لُحُومِ الْحُمُرِ الْإِنْسِیَّةِ

علامہ ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں متعہ فتح خیبرکے دن حرام نہیں کیاگیابلکہ فتح مکہ کے موقع پراسے حرام کیاگیااوریہی درست تررائے ہے، بعض اہل علم کایہ خیال ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے فتح خیبرکے دن حرام بتایااورانہوں نے صحیحین کی اس روایت سے دلیل لی ہے جوسیدناعلی رضی اللہ عنہ بن ابی طالب سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبرکے دن عورتوں سے متعہ کرنے اورپالتوگدھوں کاگوشت کھانے سے منع فرمایا۔[60]

وَفِی الصَّحِیحَیْنِ أَیْضًا: أَن علیا رَضِیَ اللهُ عَنْهُ سَمِعَ ابْنَ عَبَّاسٍ یُلَیِّنُ فِی مُتْعَةِ النِّسَاءِ، فَقَالَ: مَهْلًا یَا ابْنَ عَبَّاسٍ؛ فَإِنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ نَهَى عَنْهَا یَوْمَ خَیْبَرَ، وَعَنْ لُحُومِ الْحُمُرِ الْإِنْسِیَّةِ

اورصحیحین میں ہے کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کوعورتوں سے متعہ کے مسئلہ میں نرمی کرتے دیکھاتوفرمایااے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما !ٹھہرورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبرکے دن عورتوں سے متعہ کرنے اورپالتوگدھوں کاگوشت کھانے سے منع فرمایاہے۔[61]

وَلَمَّا رَأَى هَؤُلَاءِ أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَبَاحَهَا عَامَ الْفَتْحِ ثُمَّ حَرَّمَهَا قَالُوا: حُرِّمَتْ ثُمَّ أُبِیحَتْ ثُمَّ حُرِّمَتْ،قَالَ الشَّافِعِیُّ: لَا أَعْلَمُ شَیْئًا حُرِّمَ ثُمَّ أُبِیحَ ثُمَّ حُرِّمَ إِلَّا الْمُتْعَةَ، قَالُوا: نُسِخَتْ مَرَّتَیْنِ. وَخَالَفَهُمْ فِی ذَلِكَ آخَرُونَ، وَقَالُوا: لَمْ تُحَرَّمْ إِلَّا عَامَ الْفَتْحِ، وَقَبْلَ ذَلِكَ كَانَتْ مُبَاحَةً ،وَقِصَّةُ خَیْبَرَ لَمْ یَكُنْ فِیهَا الصَّحَابَةُ یَتَمَتَّعُونَ بِالْیَهُودِیَّاتِ، وَلَا اسْتَأْذَنُوا فِی ذَلِكَ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، وَلَا نَقَلَهُ أَحَدٌ قَطُّ فِی هَذِهِ الْغَزْوَةِ، وَلَا كَانَ لِلْمُتْعَةِ فِیهَا ذِكْرٌ الْبَتَّةَ، لَا فِعْلًا وَلَا تَحْرِیمًا، بِخِلَافِ غَزَاةِ الْفَتْحِ؛ فَإِنَّ قِصَّةَ الْمُتْعَةِ كَانَتْ فِیهَا فِعْلًا وَتَحْرِیمًا مَشْهُورَةً، وَهَذِهِ الطَّرِیقَةُ أَصَحُّ الطَّرِیقَتَیْنِ،

اورجب لوگوں نے دیکھاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح کے سال اسے مباح بتایااورپھرحرام کیاتوکہنے لگے حرام ہوا،پھرمباح ہوا،پھرحرام ہوا،امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میں نہیں سمجھتاکہ متعہ کے سواکوئی بات حرام کی گئی ہو،پھرمباح کی گئی ہوپھردوبارہ حرام کی گئی ہو(مروی ہے)کہ دوبارہ یہ حکم منسوخ ہوااوربعدوالوں نے اس کی مخالفت کی ہے ، وہ کہتے ہیں کہ یہ صرف فتح مکہ کے سال حرام ہوااس سے قبل مباح تھااورخیبرکے واقعہ میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم یہودی عورتوں سے متعہ نہیں کرتے تھے،اورنہ انہوں نے اس سلسلہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت چاہی اوراس غزوہ میں کسی نے اس قسم کی بات نقل کی اورنہ اس واقعہ میں فعلاًوقولاًاس کاذکرہوابخلاف فتح مکہ کے اس میں فعلاًوقولاًمتعہ کا معاملہ سامنے آیا،یہ طریقہ دونوں سے زیادہ صحیح ترہے،

وَفِیهَا طَرِیقَةٌ ثَالِثَةٌ، وَهِیَ أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ لَمْ یُحَرِّمْهَا تَحْرِیمًا عَامًا الْبَتَّةَ، بَلْ حَرَّمَهَا عِنْدَ الِاسْتِغْنَاءِ عَنْهَا، وَأَبَاحَهَا عِنْدَ الْحَاجَةِ إِلَیْهَا، وَهَذِهِ كَانَتْ طَرِیقَةَ ابْنِ عَبَّاسٍ حَتَّى كَانَ یُفْتِی بِهَا وَیَقُولُ: هِیَ كَالْمَیْتَةِ وَالدَّمِ وَلَحْمِ الْخِنْزِیرِ، تُبَاحُ عِنْدَ الضَّرُورَةِ وَخَشْیَةِ الْعَنَتِ، فَلَمْ یَفْهَمْ عَنْهُ أَكْثَرُ النَّاسِ ذَلِكَ وَظَنُّوا أَنَّهُ أَبَاحَهَا إِبَاحَةً مُطْلَقَةً، وَشَبَّبُوا فِی ذَلِكَ بِالْأَشْعَارِ، فَلَمَّا رَأَى ابْنُ عَبَّاسٍ ذَلِكَ رَجَعَ إِلَى الْقَوْلِ بِالتَّحْرِیمِ

نیزتیسراطریقہ بھی مروی ہے وہ یہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے مطلقاًحرام نہیں بتایابلکہ ضرورت کے وقت جائز اور بلاضرورت اسے حرام قراردیاجبکہ ضرورت کے وقت جائز ہے،(مروی ہے)کہ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما اس کافتوی دیاکرتے تھے اورفرمایاکرتے تھے کہ یہ مردار،خون اورسورکے گوشت کی طرح ہے کہ ضرورت اور شدت حاجت میں استعمال کیاجاسکتاہے،چنانچہ اکثرلوگ اسے سمجھ نہ سکے اورسمجھاکہ انہوں نے اسے مطلقاًمباح قراردیاہے،عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے یہ دیکھاتورجوع کرلیا اوراس کے حرام ہونے کافتوی دیا۔[62]

وَاخْتَلَفُوا أَیُّ وَقْتٍ أَوَّلُ مَا حُرِّمَتْ فَقِیلَ فِی خَیْبَرَ وَقِیلَ فِی عُمْرَةِ الْقَضَاءِ وَقِیلَ فی عام الفتح وهذا یَظْهَرُ وَقِیلَ فِی أَوْطَاسٍ وَهُوَ قَرِیبٌ مِنَ الَّذِی قَبْلَهُ وَقِیلَ فِی تَبُوكَ وَقِیلَ فِی حَجَّةِ الْوَدَاعِ

علامہ ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں اس بات میں اختلاف ہے کہ سب سے پہلے کب متعہ کوحرام کیاگیاکہاجاتاہے ایک توغزوہ خیبرکے دوران دوسرے عمرة القضاکے موقع پر اورتیسرے فتح مکہ کے موقع پر،اور کہا جاتا ہے کہ اوطاس کے موقع پر،دوسری روایات میں ان میں سے دومواقع غزوہ تبوک اورحجة الوادع بیان کیاگیاہے۔[63]

بطل نکاح الشغاروالتحلیل ونکاح المتعة والموقت

وقتی نکاح ،نکاح متعہ،نکاح حلالہ اورنکاح شغار(تبادلہ یاوٹہ سٹہ )ناجائزاورباطل ہے۔[64]

عَنْ عُبَادَةَ ابْن الصَّامِتِ، قَالَ: نَهَانَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَوْمَ خَیْبَرَ عَنْ أَنْ نَبِیعَ أَوْ نَبْتَاعَ تِبْرَ الذَّهَبِ بِالذَّهَبِ الْعَیْنِ، وَتِبْرَ الْفَضَّةِ بِالْوَرِقِ الْعَیْنِ،وَقَالَ: ابْتَاعُوا تِبْرَ الذَّهَبِ بِالْوَرِقِ الْعَیْنِ، وَتِبْرَ الْفِضَّةِ بِالذَّهَبِ الْعَیْنِ

اورعبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ خیبرمیں منع فرمایاکہ ہم کچے سونے کوپکے سونے اورکچی چاندی کوپکی چاندی کے عوض خریدوفروخت کریں ،اورفرمایاکہ کچی چاندی کوپکے سونے اورکچے سونے کوپکی چاندی کے عوض خریدوفروخت کریں ۔[65]

پھراس قلعہ سے مال غنیمت کوابویسرکعب بن زائدانصاری نے جمع کیااورجیش نبوی کے پڑاؤپرمنتقل کردیا

وَنَادَى مُنَادِی رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: كُلُوا وَاعْلِفُوا وَلَا تَحْتَمِلُوایَقُولُ: لَا تَخْرُجُوا بِهِ إلَى بِلَادِكُمْ فَكَانَ الْمُسْلِمُونَ یَأْخُذُونَ مِنْ ذَلِكَ الْحِصْنِ مَقَامَهُمْ طَعَامَهُمْ وَعَلَفَ دَوَابّهِمْ، لَا یُمْنَعُ أَحَدُ أَنْ یَأْخُذَ حَاجَتَهُ وَلَا یُخَمّسُ الطّعَام

اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اعلان فرمایاکہ غنائم کی تقسیم سے قبل کوئی آدمی کسی چیزکوہاتھ نہ لگائےہاں البتہ انسانی زندگی کے لئے جوچیزضروری ہواسے لے سکتا ہے،چنانچہ مجاہدین ایک ماہ سے زائدتک وہاں سے اپناکھانا،جانوروں کاچارہ لیتے رہے اوردوسری کسی چیزسے فائدہ نہ اٹھایا کھانے کاخمس بھی نہ لگایاگیا۔[66]

وَوَجَدُوا خَوَابِیَ، السّكَرِ، فَأُمِرُوا فَكَسَرُوهَا، فَكَانُوا یَكْسِرُونَهَا حَتّى سَالَ السّكَرُ فِی الْحِصْنِ، وَعَمِدَ یَوْمئِذٍ رَجُلٌ مِنْ الْمُسْلِمِینَ فَشَرِبَ مِنْ الْخَمْرِ، فَرَفَعَ إلَى النّبِیّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَكَرِهَ حِینَ رَفَعَ إلَیْهِ فَخَفَقَهُ بِنَعْلَیْهِ، وَمَنْ حَضَرَهُ، فَخَفَقُوهُ بِنِعَالِهِمْ. وَكَانَ یُقَالُ لَهُ عَبْدُ اللهِ الْخَمّارِ،وَكَانَ رَجُلًا لَا یَصْبِرُ عَنْ الشّرَابِ قَدْ ضَرَبَهُ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مِرَارًا، فَقَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطّابِ رَضِیَ اللهُ عَنْهُ: اللهُمّ الْعَنْهُ! مَا أَكْثَرَ مَا یُضْرَبُ! فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: لَا تَفْعَلْ یَا عُمَرُ، فَإِنّهُ یُحِبّ اللهَ وَرَسُولَهُ،قَالَ: ثُمّ رَاحَ عَبْدُ اللهِ فَجَلَسَ مَعَهُمْ كَأَنّهُ أَحَدُهُمْ

جنگی سازوسامان کے علاوہ مجاہدین نے بڑے بڑے مٹکوں اورمشکیزوں میں پرانی شراب کی ایک بڑی مقداربھی پائی،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے شراب کوگرانے اوراس کے برتنوں کوتوڑنے کاحکم فرمایا چنانچہ شراب قلعہ میں بہہ پڑی،ایک آدمی عبداللہ الخمارجوشراب نوشی سے بازنہ رہ سکتاتھااوراس جرم میں کئی بارمارکھاچکاتھانے اس شراب کوپی لیااسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کیاگیاآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے ناپسندیدگی کی نظرسے دیکھااوراسے جوتے لگائے اورمجاہدین کوبھی اسے جوتے لگانے کاحکم فرمایا،سیدناعمر رضی اللہ عنہ بن خطاب نے اسے جوتے لگاتے ہوئے کہااے اللہ!اس پرلعنت فرماکہ کتنی بار پیٹنے کے بعد بھی باز نہ آئے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااے عمر رضی اللہ عنہ !ایسامت کہو یہ اللہ اوراس کے رسول سے محبت کرتاہے، سزاملنے کے بعدعبداللہ چلاگیااوراپنے ساتھیوں میں جاکربیٹھ گیاگویاوہ ان کاایک آدمی ہے۔[67]

وَجَدْنَا فِیهِ آنِیّةً مِنْ نُحَاسٍ وَفَخّارٍ كَانَتْ الْیَهُودُ تَأْكُلُ فِیهَا وَتَشْرَبُ، فَسَأَلْنَا رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ،فَقَالَ: اغْسِلُوهَا وَاطْبُخُوا وَكُلُوا فِیهَا وَاشْرَبُوا، عِشْرُونَ عِكْمًامَحْزُومَةً مِنْ غَلِیظِ مَتَاعِ الْیَمَنِ، وَأَلْفُ وَخَمْسُمِائَةِ قَطِیفَةٍ، یُقَالُ: قَدِمَ كُلّ رَجُلٍ بِقَطِیفَةٍ عَلَى أَهْلِه، وَوَجَدُوا عَشَرَةَ أَحْمَالِ خَشَبٍ، فَأَمَرَ بِهِ فَأَخْرَجَ مِنْ الْحِصْنِ ثم أحرق

مال غنیمت میں مجاہدین نے یہودیوں کے زیراستعمال تانبے اورمٹی کے برتن بھی پائے،صحابہ رضی اللہ عنہم نے ان کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاانہیں دھولواوران میں پکاؤاورکھاؤاورپیو،اس کے علاوہ یمن کے موٹے کپڑوں کے باندھے ہوئے بیس بنڈل،ڈیڑھ ہزار مخملی چادریں ملیں ،جن کی بہت سی مقدارکوفروخت کردیاگیااوربہت سی لوگ اپنے گھروالوں کے لئے لے گئےاورلکڑیوں کے دس گھٹے ملے جنہیں آپ کے حکم سے جلادیاگیااوریہ کئی دن تک جلتے رہے۔ [68]

 قلعہ الزبیرکی فتح:

یہ قلعہ کیونکہ پہاڑکی چوٹی پرواقع تھااس لئے اس کانام حصن قلہ تھا،فتح کے بعدجن غنائم تقسیم ہوئے تویہ زبیر رضی اللہ عنہ بن عوام کے حصہ میں آیااوراس کانام قلعہ زبیر پڑگیا،اس میں داخل ہونے کاراستہ بڑادشوار اورمشکل تھا،اوران راستوں پرماہرتیراندازدستے متعین تھے جس کی وجہ سے اس پر نہ سواردستہ حملہ سکتا تھا اورنہ پیدل دستہ، اس لئے صورت حال کے مطابق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس قلعہ کامحاصرہ فرمالیامگرپہلے دوقلعوں کی طرح انہوں نے مبارزت طلب کرنے کے لئے قلعے کے دروازے نہ کھولے ، انہیں یقین کامل تھاکہ ان دشوارراستوں کی وجہ سے مسلمان اسے فتح کرنے کی قدرت نہ پائیں گے ،جبکہ مجاہدین کومحاصرہ لمباکرنے میں کوئی دلچسپی نہ تھی اوروہ یہودیوں کے اس قلعہ میں محفوظ ہونے سے زچ ہورہے تھے اور یہودخیبرکے ساتھ فیصلہ کن جنگ کرنے کے مشتاق تھے،اللہ تعالیٰ اپنی مشیت سے چاہئے تودشمنوں سے ہی کام لے لے،

 حَاصَرَهُمْ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ ثَلَاثَةَ أَیَّامٍ، فَجَاءَ رَجُلٌ مِنَ الْیَهُود یُقَال لَهُ عزال فَقَالَ: یَا أَبَا الْقَاسِمِ تُؤَمِّنُنِی عَلَى أَنْ أَدُلَّكَ عَلَى مَا تَسْتَرِیحُ بِهِ مِنْ أَهْلِ النَّطَاةِ وَتَخْرُجُ إِلَى أَهْلِ الشِّقِّ، فَإِنَّ أَهْلَ الشِّقِّ قَدْ هَلَكُوا رُعْبًا مِنْكَ؟ قَالَ: فَأَمَّنَهُ رَسُول الله عَلَى أَهْلِهِ وَمَالِهِ، فَقَالَ لَهُ الْیَهُودِیُّ: إِنَّكَ لَوْ أَقَمْتَ شَهْرًا تُحَاصِرُهُمْ مَا بَالَوْا بِكَ، إِنَّ لَهُمْ تَحْتَ الْأَرْضِ دُبُولًا یَخْرُجُونَ بِاللیْلِ فیشربون مِنْهَا ثمَّ یرجعُونَ إِلَى قلعتهم فَیَمْتَنِعُونَ مِنْكَ،فَإِنْ قَطَعْتَ مَشْرَبَهُمْ عَلَیْهِمْ أَصْحَرُوا لَكَ

جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو محاصراکیے ہوئے تین روزگزرگئے توحسن اتفاق سے عزال نامی ایک یہودی نے پوشیدہ طورپر آکرعرض کیااے ابوالقاسم!اگرآپ مہینہ بھر بھی ان کامحاصرہ جاری رکھیں گے تب بھی انہیں کوئی پریشانی اورتکلیف نہیں ہوگی اگرآپ مجھے اوراولاداورمال کی امان دیں تومیں ایک ایساطریقہ بتلاسکتاہوں جس سے آپ بڑی آسانی سے اس قلعہ کوفتح کرسکتے ہیں ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اس کے اہل ومال کی مان دے دی، تواس نے کہایہودیوں کے پاس زمین کے نیچے پانی کے چشمے ہیں یہ لوگ رات کوخاموشی سے باہرنکلتے ہیں اورچشموں سے حسب ضرورت پانی حاصل کرکے قلعے میں داخل ہوجاتے ہیں ،اگرآپ ان کا پانی روک دیں تویہ زیادہ عرصہ تک پانی کی بندش برداشت نہیں کرسکیں گے اورہتھیارڈال کراطاعت اختیارکرنے پرمجبورہوجائیں گے،

فَسَارَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ إِلَى مَائِهِمْ فَقَطَعَهُ عَلَیْهِمْ،فَقَاتَلُوا أَشَدَّ الْقِتَالِ ، وَقُتِلَ مِنَ الْمُسْلِمِینَ نَفَرٌ، وَأُصِیبَ نَحْوُ الْعَشَرَةِ مِنَ الْیَهُودِوَافْتَتَحَهُ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ

پھررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہودیوں کے پانی کے چشموں تک مجاہدین کی رہنمائی کی اورمجاہدین نے ان پرقبضہ کرکے ان کاپانی بندکردیااب یہودیوں کے پاس دوہی راستے تھے کہ یاتووہ مسلمانوں کی اطاعت اختیارکرلیں یاپانی کے چشموں کوواپس لینے کے لئے قلعہ سے باہرنکلیں اورجنگ کریں ،انہوں نے اطاعت اختیارکرنے کے بجائے جنگ کوترجیح دی اورقلعہ کادروازہ کھول کرمسلمانوں پرشدیدحملہ کردیا،فریقین کے درمیان بڑی گھمسان کی جنگ ہوئی لیکن مسلمان اس حملہ کے سامنے ثابت قدم رہے اوردفاع کوچھوڑکریک جان ہوکران پرجارحانہ حملہ کردیاجس سے دس یہودی اور کئی مجاہدین شہیدہوگئے اوروہ تتربترہوکر پہلے دوقلعوں کی طرح اس قلعہ میں داخل ہونے کی کوشش کرنے لگے لیکن مجاہدین نے اس کاموقعہ نہ دیااوراللہ سبحانہ وتعالیٰ نے فتح ونصرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مقدرمیں رکھی۔[69]

اس قلعہ سے کتنے غنائم حاصل ہوئے اس کے متعلق کچھ موادنہیں ملتا۔

قلعہ ابی کی فتح:

قلعہ الزبیرکی شکست کے بعدیہود علاقہ الشق کے قلعہ امامی جسے قلعہ ابی کہتے تھے میں ڈیرے ڈال دیئے اورقلعہ بندہوکرجیش نبوی سے مقابلہ کرنے کی تیاریاں کرنے لگے جومسلسل ان پرحملے کررہے تھے،کیونکہ خیبرکے تین مضبوط قلعے مجاہدین کے پاس تھے اوراب یہودیوں کے کھجوروں کے جھنڈمیں چھپ کر شبخون مارنے اور قلعہ کے اوپرسے تیروں کا بھی کوئی خطرہ باقی نہ رہاتھااورقلعہ الزبیرکی فتح کے بعدلشکرنبوی پشت کی جانب سے محفوظ ہوگیاتھا اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے علاقہ الشق کے قلعوں پر حملہ کرنے کے لئے اپنا ہیڈ کورٹر وادی الرجیع کے زیریں علاقہ سے بالائی علاقہ المنزلہ کے مقام پرجسے سُمْوَانُ کہاجاتاتھا میں منتقل کردیا، اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جوبنفس نفیس لشکراسلامی کی قیادت فرمارہے تھے ابودجانہ انصاری رضی اللہ عنہ کوایک دستہ دے کر قلعہ ابی کا محاصرہ کرنے کاحکم فرمایااورتعمیل حکم میں جانبازوں نے قلعہ کامحاصرہ کرلیا،اس قلعہ میں بھی دشوارگزارراستوں کی وجہ سے داخل ہونابڑامشکل تھالیکن یہ علاقہ النطاة کے تینوں قلعوں سے زیادہ مضبوط نہ تھاجن میں مسلمان جنگ کے سخت مراحل سے گزرکرداخل ہو چکے تھے،

فَخَرَجَ مِنْهُمْ رَجُلٌ یُقَالُ لَهُ عَزُولٌ فَدَعَا إِلَى الْبَرَازِ فَبَرَزَ إِلَیْهِ الْحُبَابُ بْنُ الْمُنْذِرِفَقَطَعَ یَدَهُ الْیُمْنَى مِنْ نِصْفِ ذِرَاعِهِ وَوَقَعَ السَّیْفُ مِنْ یَدِهِ، وَفَرَّ الْیَهُودِیُّ رَاجِعًا فَاتَّبَعَهُ الْحُبَابُ فَقَطَعَ عُرْقُوبَهُ، وَبَرَزَ مِنْهُمْ آخَرُ فَقَامَ إِلَیْهِ رَجُلٌ مِنَ الْمُسْلِمِینَ فَقَتَلَهُ الْیَهُودِیُّ، فَنَهَضَ إِلَیْهِ أَبُو دُجَانَةَ فَقَتَلَهُ وَأَخَذَ سَلَبَهُ، وَأَحْجَمُوا عَنِ الْبَرَازِ فَكَبَّرَ الْمُسْلِمُونَ، ثُمَّ تَحَامَلُوا عَلَى الْحِصْنِ فَدَخَلُوهُ وَأَمَامَهُمْ أَبُو دُجَانَةَ، فَوَجَدُوا فِیهِ أَثَاثًا وَمَتَاعًا وَغَنَمًا وَطَعَامًا، وَهَرَبَ من كَانَ فِیهِ من الْمُقَاتلَة وتقحموا الجزر كَأَنَّهُمْ الضباب حَتَّى صَارُوا إِلَى حصن البزاة بِالشِّقِّ

محاصرہ سے تنگ آکریہودیوں کے دو جانباز گھوڑوں پر سوار ہوکرایک دوسرے کے پیچھے میدان میں آئے اورمبارزت طلب کی،عزول نامی جانباز کے مقابلہ کے لئے حباب بن منذرانصاری رضی اللہ عنہ میدان میں نکلے،اورتلوارکے چندہاتھ کھیلنے کے بعداس کا نصف دایاں ہاتھ کاٹ دیا،جس سے اس کی تلوارگرگئی اوروہ نہتاہوگیا،وہ قلعہ کی طرف بھاگا مگرحباب رضی اللہ عنہ نے اسے بھاگنے کاموقعہ نہ دیااوراسے قتل کرکے واپس اپنی صفوں میں آگئے،عزول کے قتل کے بعددوسرے یہودی نے قلعہ سے باہرنکل کرمسلمانوں کو للکار کر مبارزت طلب کی،اس کے چیلنج کوقبول کرکے مقابلے میں اسلامی لشکرکے ہراول دستوں کے سالارابودجانہ سماک بن خرشہ انصاری رضی اللہ عنہ سرخ پٹی باندھے میدان میں نکلے ، دونوں جانبازبڑے جوش وخروش سے نبردآزمائی کرتے رہےیہاں تک کہ ابودجانہ سماک بن خرشہ انصاری رضی اللہ عنہ نے اس شہسوارکوقتل کردیااوراس کے سامان زرہ اور تلوارکولے کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضرہوئے ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ چیزیں عطیہ کے طورپرانہیں عطافرمادیں ،دونوں جانبازوں کے قتل ہونے سے یہودیوں پر مجاہدین کارعب چھا گیا اوروہ مبارزت طلبی سے کنارہ کشی کرنے لگے ،انہوں نے قلعہ میں پناہ لینے اوراس کی دیواروں کے پیچھے سے مسلمانوں سے جنگ کرنے کے لئے قلعہ کادروازہ بندکرنے کی کوشش کر کی مگر ابودجانہ سماک بن خرشہ انصاری رضی اللہ عنہ نے انہیں اس کاموقعہ نہیں دیااورانہوں نے اپنے دستے کوسرعت کے ساتھ حملہ کرنے کاحکم دیا،قلعہ کے اردگردفریقین میں سخت معرکہ آرائی ہوئی اوریہودیوں نے اپنی جانوں پرکھیل کر اس دستہ کاشدیدمقابلہ کیامگرانجام کارانہیں شکست فاش ہوئی اورمجاہدین قلعہ میں داخل ہونے میں کامیاب ہوگئے اور یہودی اپنی جان بچانے کے لئے ہرجانب بھاگ کھڑے ہوئے ،قلعہ کے اندرکچھ دیرتک زوردارجنگ ہوتی رہی مگریہودکامورال گرچکاتھا،ان کے کئی سربرآوردہ لوگ قتل ہو چکے تھے اس لئے شکست خوردہ مدافعین مسلمانوں سے جم کرلڑنے کے بجائے فرارہوکرعلاقہ الشق کے آخری مضبوط تر قلعہ النزار میں جمع ہونے لگےجس میں ان کے اہل وعیال جمع تھے، مجاہدین نے قلعہ پرقابض ہوکرتمام ہتھیاروں ،مویشیوں اورغلے پرقبضہ کرلیا۔[70]

قلعہ النزار کی فتح:

اب یہودیوں کی تمام امیدیں اس قلعہ سے وابستہ تھی اور انہیں یقین تھاکہ مسلمان قلعہ النزارکی مضبوطی اوربہترین جانبازوں کی وجہ سے انتہائی کوششوں کے باوجوداس قلعہ کوفتح نہیں کرسکیں گےاورطویل عرصہ کے محاصرے سے اکتاکرجس راستے سے آئے تھے اسی راستے سے لوٹ جائیں گے یامذاکرات پرمجبورہوجائیں گے اورچونکہ کہ بہتر پوزیشن میں ہوں گے اس لئے صلح کے وقت شرائط کواپنے حق میں کریں گے ،قلعہ ابی پرقبضہ کرنے کے بعدمجاہدین نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قیادت میں اس قلعہ کابھی سختی کے ساتھ محاصرہ کرلیااورسختی سے دباؤ ڈالنے لگے تاکہ وہ اطاعت اختیارکرلیں ،دوسری طرف یہودی پہلے قلعوں الناعم ،الصعب ،الزبیراورقلعہ ابی سے باہرنکل کرلڑنے کاانجام دیکھ چکے تھے اوریہ بھی جانتے تھے کہ اس قلعہ کے مسلمانوں کے ہاتھوں فتح ہوجانے سے یہودی مقادمت کاکلی طورپرخاتمہ ہوجائے گااوروہ خیبرکے نصف ثانی کے دفاع کی قدرت نہیں رکھ سکیں گے کیونکہ وہاں کے رہنے والوں کی شجاعت وبہادری اورجنگ میں استقلال الشق اورالنطاة کے یہودیوں جیسانہیں ہے اس لئے وہ قلعہ سے باہر نکلنے کی جرات نہیں کررہے تھے،انہوں نے اس قلعہ کے برجوں اورپہرے کی جگہوں کواپنے جانبازوں اورماہرتیراندازوں سے بھردیااورمسلمانوں کوقلعہ کی فصیلوں سے دوررکھنے کے لئے چوٹیوں سے پتھراورتیروں کی بارش برساتے رہے ان کانشانہ خاص طورپروہ جگہ تھی جہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم پڑاؤکیے ہوئے تھے ، ان کے جواب میں مسلمان بھی ان کی طرف تیرچلارہے تھے لیکن مدافعین کابلندجگہ پر ہونے کی وجہ سے ان کے تیربے اثر ہو رہے تھے ،قلعہ پرحملہ کرنے کے لئے گھوڑوں کے لئے کوئی راستہ نہ تھااورمسلمانوں کے حملے صرف پیادہ لشکرپرہی منحصرتھے اس لئے پیادہ دستوں نے کئی بارقلعہ پرحملہ کیامگرچوکس یہودیوں نے ان تمام کوششوں کو ناکام بنادیا، نصف ماہ سے زیادہ عرصہ تک محاصرہ کرنے اورباربارحملہ کرنے کے باوجودمجاہدین اسلام کی اس بلند قلعہ میں داخل ہونے کی کوئی صورت نہیں بن رہی تھی، اس صوت حال میں مجاہدین اکتا گئے تو

فَأَمَرَ النّبِیّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بِالْمَنْجَنِیقِ أَنْ تُصْلَحَ وَتُنْصَبَ عَلَى الشّقّ عَلَى حِصْنِ النّزَارِ، فَهَیّئُوا، فَمَا رَمَوْا عَلَیْهَا بِحَجَرٍ حَتّى فَتَحَ اللهُ عَلَیْهِمْ حِصْنَ النّزَارِ

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قلعہ کے برجوں اورفصیلوں کوتباہ کرنے اوربڑی بڑی چٹانوں کوراہ سے ہٹانے کے لئے قلعہ الصعب بن معاذ سے حاصل کی ہوئی کچھ طاقتواراور تباہ کن منجنیق کونصب کرنے کاحکم فرمایا(یہ وہ واحدہتھیارتھاجسے اس زمانے میں قلعوں کوتباہ کرنے کے لئے استعمال کیاجاتاتھا) تاکہ براہ راست حملہ کرکے قلعہ کے اندر داخل ہونے کاراستہ بنایاجائے ،جب منجنیق نصب ہوگئی تو قلعہ پرگولے پھینکے گئے جس سے قلعہ کی دیواروں میں شگاف پڑگئے اورمجاہدین ان کے ذریعہ سے قلعہ کے اندر داخل ہونے میں کامیاب ہوگئے۔

یہودکے لئے یہ آخری پناہ گاہ تھی ،ان کی عورتیں اور بچے بھی اسی قلعہ میں تھے اس لئے انہوں نے جان کی بازی لگاکرمسلمانوں کا مقابلہ کیامگراللہ کا دستوریہی ہے کہ حق وباطل کی جنگ میں فتح ونصرت ہمیشہ حق کی ہی ہوتی ہے چنانچہ وہ مسلمانوں کی قلیل تعدادکے سامنے ٹھیرنہ سکے اور خوف زدہ ہوکر اپنی جان بچانے کے لئے اپنے اہل وعیال کی پرواہ کیے بغیربھاگ کھڑے ہوئے اوراس قلعہ پربھی مسلمانوں نے قبضہ کرلیا،مجاہدین نے غنیمت میں اور چیزوں کے علاوہ دوہزارسے زیادہ عورتیں اوربچے بھی اسیربنالئے ، واقدی کے مطابق انہیں عورتوں میں بنی نضیرکے سردارحیی بن اخطب کی بیٹی اورکنانہ بن ابی الحقیق کی بیوی زینب(صفیہ رضی اللہ عنہا ) کوجوبہت حسین خاتون تھیں اورجس کی حال ہی میں کنانہ بن ابی الحقیق سے شادی ہوئی تھی اوراس کی عم زاد کواسیرکرلیاجبکہ ابن ہشام کے مطابق انہیں قلعہ القموس سے گرفتار کیا گیا تھا،

ثُمَّ الْقَمُوصُ، حِصْنُ بَنِی أَبِی الْحُقَیْقِ، وَأَصَابَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مِنْهُمْ سَبَایَا، مِنْهُنَّ صَفِیَّةُ بِنْتُ حُیَیِّ بْنِ أَخْطَبَ، وَكَانَتْ عِنْدَ كِنَانَةَ بْنِ الرَّبِیعِ بْنِ أَبِی الْحُقَیْقِ، وَبِنْتَیْ عَمٍّ لَهَا

پھررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنی ابی الحقیق کے قلعہ حصن القموص کوفتح کیااس قلعہ سے بہت سے قیدی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ آئے جن میں ام المومنین صفیہ رضی اللہ عنہا بھی تھیں اورپہلے یہ کنانہ بن ربیع بن ابی الحقیق کے پاس تھیں اوران کی چچازادبہنیں بھی ان کے پاس تھیں ۔[71]

عَیْنٌ تُسَمَّى الحمّة، وهی الّتی سَمَّاهَارَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَسَمَهُ الْمَلَائِكَةَ، یَذْهَب ثُلْثَا مَائِهَا فی فَلَج والثُّلُث الْآخَر فی فَلَج

یہاں الحمّة نامی ایک چشمہ ہے جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قسمة الملائکةکانام دیاتھااس کادوتہائی پانی ایک نالے میں اورایک تہائی دوسرے نالے میں جاتا ہے ۔[72]

اب فرار ہونے والے یہودی دوسرے حصہ کے قلعہ جات میں جمع ہوگئے ۔

وَقَدْ رَوَى مُوسَى بْنُ عُقْبَةَ عَنِ الزُّهْرِیِّ قِصَّةَ الْعَبْدِ الْأَسْوَدِ الَّذِی رَزَقَهُ اللهُ الْإِیمَانَ وَالشَّهَادَةَ فِی سَاعَةٍ وَاحِدَةٍ، قَالَا: وَجَاءَ عَبْدٌ حَبَشِیٌّ أَسْوَدُ مِنْ أَهْلِ خَیْبَرَ كَانَ فِی غَنَمٍ لِسَیِّدِهِ، فَلَمَّا رَأَى أَهْلَ خَیْبَرَ قَدْ أَخَذُوا السِّلَاحَ سَأَلَهُمْ،قَالَ مَا تُرِیدُونَ؟قَالُوا: نُقَاتِلُ هَذَا الرَّجُلَ الَّذِی یَزْعُمُ أنَّه نَبِیٌّ،فَوَقَعَ فِی نَفْسِهِ ذِكْرُ النَّبِیِّ فَأَقْبَلَ بِغَنَمِهِ حَتَّى عَمَدَ لِرَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ إِلَى مَا تَدْعُو؟قال أدعوك إلى الإسلام إلى أَنْ تَشْهَدَ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَأَنِّی رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَأَنَّ لَا تَعْبُدُوا إِلَّا اللهَ،

موسیٰ بن عقبہ زہری کے حوالے سے غزوہ خیبرکے واقعات کے ضمن میں کسی حبشی کاذکرکرتے ہیں جسے اللہ تعالیٰ نے ایمان کی دولت سے نوازااوراسی ساعت میں اس کی شہادت ہوگئی، کہتے ہیں کہ وہ خیبرکے ایک یہودی کانوکرتھااوراس کی بھیڑبکریاں چرایاکرتاتھاایک روزجب وہ بھیڑبکریاں لے کرجنگل کی طرف جانے لگاتواس نے اپنے مالک سے دریافت کیا یہ لوگ جنہوں نے یہاں پڑاؤڈال رکھاہے کون لوگ ہیں ؟ یہودی بولایہ لوگ اپنے آپ کومسلمان کہتے ہیں اورجوشخص ان کی قیادت کررہاہے اس کانام محمد( صلی اللہ علیہ وسلم )ہے ،اس کادعویٰ ہے کہ وہ اللہ کانبی ہے لیکن ہم اسے نبی نہیں مانتے بلکہ اپنااوراپنے دین کادشمن سمجھتے ہیں ،اب یہ شخص محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) اوراس کے ساتھی ہمیں اپنے دین میں شامل کرنے یاہم پرغلبہ حاصل کرنے مدینہ طیبہ سے یہاں آئے ہیں لیکن ہمیں یقین ہے کہ ہمارادین سچاہے اس لیے ہم دیکھتے ہیں کہ یہ لوگ ہم پرکس طرح فتح پاتے ہیں ،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کاذکراس کے دل پرنقش ہوگیاچنانچہ وہ حبشی جب اس یہودی کی بھیڑبکریاں لے کرخیبرکی نزدیکی چراگاہ کی طرف جانے لگاتووہ پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضرہوااورعرض کیامیں خیبرکے ایک یہودی کاچرواہاہوں ،میں نے سناہے کہ آپ خودکواللہ کانبی کہتے ہیں تومجھے بتائیے کہ آپ کادین کیاہے؟ اس حبشی کے اس سوال کے جواب میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایامیں کہتاہوں کہ اللہ ایک ہے اورمیں اس کاآخری نبی ہوں لیکن عرب ہی کی بعض قومیں نہ اللہ کومانتے ہیں اورنہ اس کےاحکام پرعمل کرتے ہیں ،یہ یہودی اگرچہ موسیٰ علیہ السلام کوزبان سے اپنانبی کہتے ہیں لیکن ان کے اوراللہ کے احکام پرعمل نہیں کرتے بلکہ میرے خلاف اس لیے سازشیں کرتے رہتے ہیں کہ میں اللہ کے آخری نبی کی حیثیت سے انہیں اللہ کے احکام کاپابندبناناچاہتاہوں ،میں یہاں اسی لیے آیاہوں کہ پہلے انہیں سمجھاؤں اوراسلام میں داخل ہوکراللہ کی اطاعت کی دعوت دوں ورنہ جیسااللہ کاحکم ہے ان سے جنگ کروں (حدیث نبوی کامفہومی وتشریحی ترجمہ)اس حبشی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس گفتگوسے متاثرہوکرآپ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیااگرمیں آپ کے دین میں داخل ہوجاؤں تومجھے کیاملے گا؟رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایازندگی میں بھی بھلائی اورآخرت میں بھی بھلائی یعنی جنت جودنیامیں نیکی کی راہ اختیارکرنے اوراللہ اوراس کے رسول کی اطاعت کرنے کااللہ تعالیٰ کی طرف سے صلہ ہوگا(حدیث نبوی کامفہومی وتشریحی ترجمہ)

فَقَالَ الْعَبْدُ: فَمَاذَا یَكُونُ لِی أَنْ شَهِدْتُ بِذَلِكَ وَآمَنْتُ بِاللهِ،قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: الْجَنَّةُ إِنْ مِتَّ عَلَى ذَلِكَ،فَأَسْلَمَ الْعَبْدُ فَقَالَ: یَا نَبِیَّ اللهِ إِنَّ هَذِهِ الْغَنَمَ عِنْدِی أَمَانَةٌ فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أخرجها من عسكرنا وارمها بالحصا فَإِنَّ اللهَ سَیُؤَدِّی عَنْكَ أَمَانَتَكَ، فَفَعَلَ فَرَجَعَتِ الْغَنَمُ إِلَى سَیِّدِهَا فَعَرَفَ الْیَهُودِیُّ أَنَّ غُلَامَهُ أَسْلَمَ،فَقَالَ: لَقَدْ حسن الله وجهك وطیب روحك وَكَثَّرَ مَالَكَ وَقَالَ: لَقَدْ رَأَیْتُ زَوْجَتَیْهِ مِنَ الحور العین یتنازعان جبته علیه یَدْخُلَانِ فِیمَا بَیْنَ جِلْدِهِ وَجُبَّتِهِ

وہ حبشی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے یہ کلمات سنتے ہی کلمہ طیبہ پڑھ کرمسلمان ہوگیاپھربولااے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم !میں آپ کی طرف سے خیبرکے یہودیوں سے جنگ کرناچاہتاہوں لیکن ان بھیڑبکریوں کاکیاکروں ؟ جو کہ میرے پاس امانتی ہیں ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاانہیں بستی کی طرف ہانک دویہ خوداپنے ٹھکانے پرچلی جائیں گی ،اس حبشی نے بھیڑبکریوں کواپنے مالک کی طرف ہانک دیااوریہودی نے سمجھ لیاکہ اس کےغلام نے اسلام قبول کرلیاہے ،پھرجیساکہ اس کی خواہش تھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے جنگ میں یہودیوں سے لڑتاہواشہیدہوگیاگویااللہ تعالیٰ کی رحمت سے اسلام اورشہادت دونوں نعمتوں سے بیک وقت سرفرازہوا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (اس کی لاش دیکھ کر)فرمایااللہ تعالیٰ نے اسے سرخرو،طیب البدن اورکثیرمال بنادیاہے میں دیکھ رہاہوں کہ دوحوران بہشتی جنہیں اللہ تعالیٰ نے اس کی زوجیت میں دے دیاہے اس پر آپس میں زیادہ سے زیادہ حق جتانے کی کوشش کررہی ہیں اوراس کے لبادے میں داخل ہونے کے لیے ایک دوسری پرسبقت لے جانے میں مصروف ہیں ۔[73]

عَنْ شَدَّادِ بْنِ الْهَادِ، أَنَّ رَجُلًا مِنَ الْأَعْرَابِ جَاءَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَآمَنَ بِهِ وَاتَّبَعَهُ، فَقَالَ: أُهاجر مَعَكَ، فَأَوْصَى بِهِ النَّبیّ صلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بَعْضَ أَصْحَابِهِ، فَلَمَّا كَانَتْ غَزْوَةُ خَیْبَرَ غَنِمَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَقَسَمَهُ، وَقَسَمَ لَهُ فَأَعْطَى أَصْحَابَهُ مَا قَسَمَ لَهُ، وَكَانَ یَرْعَى ظَهْرَهُمْ فَلَمَّا جَاءَ دَفَعُوهُ إِلَیْهِ، فَقَالَ مَا هَذَا؟ قَالُوا: قَسْمٌ قَسَمَهُ لَكَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ،فأخذه فجاء به النَّبیّ صلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: مَا هَذَا یا محمد؟ قال: قسم قسمته لك

امام بیہقی رحمہ اللہ نے ایک اورواقعہ بیان کیاہے شدادابن الہادکہتے ہیں ایک اعرابی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضرہوکرعرض کیاکہ میں اسلام میں داخل ہونااورآپ کے ساتھ ہجرت کرناچاہتاہوں ،چنانچہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دست مبارک پربیعت کرکے مسلمان ہوگیاجس کے بعدوہ ہمیشہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع دل وجان سے کوشش کرتا رہا اورنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے بارے میں اپنے بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کوخصوصی ہدایات دی تھیں ،پھرجب غزوہ خیبرکاموقع آیاتواس نے اس میں شرکت کی اورجتنامال غنیمت اس وقت تک مسلمانوں کے ہاتھ آیاتھارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میں سے اسے بھی دوسرے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے برابرحصہ دینے کی ہدایت فرمائی لیکن جب اسے اس کاحصہ دیاجانے لگاتووہ بولایہ کیاہے؟ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے کہارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمہیں مال غنیمت میں سے حصہ دیاہے،اس نے وہ حصہ لیااورنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضرہوکرعرض کیااے محمد صلی اللہ علیہ وسلم !یہ کیاہے؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایایہ مال غنیمت میں سے تیراحصہ ہے،

فَقَالَ: مَا عَلَى هَذَا اتَّبَعْتُكَ وَلَكِنِّی اتَّبَعْتُكَ عَلَى أَنْ أُرْمَى هَاهُنَا وَأَشَارَ إِلَى حَلْقِهِ بِسَهْمٍ فَأَمُوتَ فَأَدْخُلَ الْجَنَّةَ،فَقَالَ: إِنْ تَصْدُقِ اللهَ یَصْدُقْكَ،ثُمَّ نَهَضُوا إِلَى قِتَالِ الْعَدُوِّ فَأَتَى بِهِ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یُحْمَلُ وَقَدْ أَصَابَهُ سَهْمٌ حَیْثُ أَشَارَ فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ هُوَ هُوَ؟قَالُوا: نَعَمْ،قَالَ صَدَقَ اللهَ فَصَدَقَهُ.وَكَفَّنَهُ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فِی جُبَّةِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ ثُمَّ قدمه فصلى علیه وكان مِمَّا ظَهَرَ مِنْ صَلَاتِهِ: اللهُمَّ هَذَا عَبْدُكَ خرج مهاجراً فی سبیلك قتل شهیداً وأنا عَلَیْهِ شَهِیدٌ

اس نے کہامیں نے اس لالچ سے آپ کی اطاعت نہیں کی بلکہ میں نے تواس لیے آپ کی اطاعت کی ہے کہ جب اس جنگ کے دوران میں دشمن کاکوئی تیریہاں پیوست ہوگااورمیں اس کے زخم سے فوت ہوں گاتواس وقت میں اپنے پورے حق کاحقدارہوں گایعنی جنت میں جاؤں گا،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااگرتم نے سچ کہاہے تواللہ تعالیٰ اس کی تصدیق کردے گا،جب وہ دوبارہ یہودیوں کے خلاف جنگ میں شریک ہواتواتفاقاًکسی یہودی تیراندازکاتیراس کے حلقوم ہی میں آکرپیوست ہوااوروہ شہید ہوگیاپھرجب اس کی لاش رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش کی گئی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکیایہ وہی ہے؟صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیاجی ہاں ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااس نے اللہ کی تصدیق کی جس کی تصدیق آج خوداللہ تعالیٰ نے فرمادی ہے، اس ارشادکے بعدآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے حق میں دعائے خیرفرمائی اوراس کے کفن کے لیے اپنی عباعنایت فرمائی اس کے بعدآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی نمازجنازہ پڑھائی اورفرمایااے اللہ!تیرے اس بندے نے تیری راہ میں ہجرت کی تھی اوریہاں (تیری راہ ہی میں )شہیدہواہے جس کی میں گواہی دیتاہوں ۔[74]

عَنْ أَبِی الْیُسْرِ كَعْبِ بْنِ عَمْرٍو، قَالَ:وَاَللَّهِ إنَّا لَمَعَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بِخَیْبَرِ ذَاتُ عَشِیَّةٍ، إذْ أَقْبَلَتْ غَنَمٌ لِرَجُلِ مِنْ یَهُودَ تُرِیدُ حِصْنَهُمْ، وَنَحْنُ مُحَاصِرُوهُمْ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: مَنْ رَجُلٌ یُطْعِمُنَا مِنْ هَذِهِ الْغَنَمِ؟ قَالَ أَبُو الْیُسْرِ: فَقُلْتُ: أَنَا یَا رَسُولَ اللهِ، قَالَ: فَافْعَلْ، قَالَ: فَخَرَجْتُ أَشْتَدُّ مِثْلَ الظَّلِیمِ، فَلَمَّا نَظَرَ إلَیَّ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مُوَلِّیًا قَالَ: اللهمّ أَمْتِعْنَا بِهِ،قَالَ: فَأَدْرَكْتُ الْغَنَمَ وَقَدْ دَخَلَتْ أُولَاهَا الْحِصْنَ، فَأَخَذْتُ شَاتَیْنِ مِنْ أُخْرَاهَا، فَاحْتَضَنْتهمَا تَحْتَ یَدَیَّ، ثُمَّ أَقْبَلْتُ بِهِمَا أَشْتَدُّ، كَأَنَّهُ لَیْسَ مَعِی شَیْءٌ، حَتَّى أَلْقَیْتهمَاعِنْدَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ. فَذَبَحُوهُمَا فَأَكَلُوهُمَا

ابوالسیر رضی اللہ عنہ سے مروی ہےہم غزوہ خیبرمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے اورہم نے ایک قلعہ کامحاصرہ کررکھاتھاشام کوہم نے دیکھاکہ بکریوں کاایک ریوڑقلعہ میں داخل ہورہاہے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے مخاطب ہوکرفرمایاکوئی ایساشخص ہے جوہم کو ان بکریوں کاگوشت کھلائے ؟چھوٹے سے قدکے ایک صاحب(ابوالیسر رضی اللہ عنہ ) نے اٹھ کررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیااے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! یہ کام میں کروں گا، فرمایاجاؤیہ کام کرو، یہ کہہ کروہ اس بات کی پرواہ کیے بغیرکہ محصوردشمن کاکوئی تیر یا پتھر ان کی جان نہ لے لے تیرکی طرح بکریوں کی طرف لپکے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب مجھے بکریوں کی طرف دوڑتے ہوئے دیکھا توفرمایااے اللہ!ہمیں اس کے ساتھ نفع پہنچا،ابوالیسر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں آگے کی بکریاں توقلعہ کے اندرپہنچ گئی تھیں پچھلی بکریوں میں سے دوبکریاں میں نے پکڑلیں اورانہیں بغل میں دباکربھاگااوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آگے لاکران کوچھوڑدیاپھرلوگوں نے ان کوذبح کرکے پکایااوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کیااورخودبھی کھایا۔[75]

قلعہ القموس کی فتح:

جب پہلے حصہ کے پانچوں قلعے فتح ہوگئے توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبرکا دوسرا حصہ جو الْكُتَیْبَةِ کہلاتاتھاکے تین قلعوں قلعہ الْقَمُوص،قلعہ الْوَطِیح اورقلعہ سُلَالِم کا رخ کیا،ان قلعوں میں الْقَمُوص سب سے زیادہ مضبوط قلعہ تھاجوابی الحقیق کے بیٹوں کاتھایہودیوں کاسارازوراب انہی قلعوں پر تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے كُتَیْبَة کے باشندوں کا سختی کے ساتھ محاصرہ کرلیا جو چودہ دن جاری رہامگروہ اپنے قلعوں سے باہرنہ نکلتے تھے،

حَتَّى هَمَّ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَنْ یَنْصِبَ عَلَیْهِمُ الْمَنْجَنِیقَ،فَلَمّا أَیْقَنُوا بِالْهَلَكَةِ وَقَدْ حَصَرَهُمْ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَرْبَعَةَ عَشَرَ یَوْمًا سَأَلُوا رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ الصّلْحَ

بالآخرنبی صلی اللہ علیہ وسلم نے منجنیق کو نصب کرنے کاحکم فرمایاتاکہ ان پرپتھربرسائے جائیں ، چودہ دن کے محاصرے کے بعدجب یہودکواپنی ہلاکت کا یقین ہوگیاکہ ان کایہ قلعہ زیادہ دیرتک مسلمانوں کے سامنے کھڑانہیں ہوسکے گاتووہ صلح کی طرف مائل ہوئے،واقدی کے بیان کے مطابق یہ تینوں قلعے بات چیت کے ذریعہ حاصل ہوئے تھے ، محمدبن مسلمہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قلعہ النزارکی طرف دیکھ کرفرمایایہ خیبرکاآخری قلعہ ہے جس میں لڑائی ہوئی ہے جبکہ ابن اسحاق کہتے ہیں قلعہ الْقَمُوص پر فریقین میں سخت جنگ ہوئی جس میں بہت سے یہودی مارے گئے اورسیدنا علی رضی اللہ عنہ بن ابی طالب نے بزور طاقت اس پرقبضہ کرلیا تھا ۔

فَأَرْسَلَ كِنَانَةَ رَجُلًا مِنْ الْیَهُودِ یُقَالُ لَهُ شَمّاخٌ إلَى النّبِیّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ

بہرحال یہودیوں کے سردارکنانہ بن ابی الحقیق نے صلح کی درخواست دے کرشماخ نامی شخص کونبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بھیجا ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ساری انسانیت کے لئے امن کے پیام برتھے اورجنگ وجدل سے نفرت کرتے تھے اس لئے جنگ کے مقابلے میں ہمیشہ ہی صلح کی طرف مائل رہتے تھے ، چنانچہ یہودیوں کا صلح کی طرف ہاتھ بڑھانے پررودارانہ سلوک فرماتے ہوئے اثبات میں جواب فرمایا،

فَنَزَلَ كِنَانَةُ فِی نَفَرٍ مِنْ الْیَهُودِ، فَصَالَحَهُ عَلَى مَا صَالَحَهُ، فَأَحْلَفَهُ عَلَى مَا أَحْلَفَهُ عَلَیْهِ

چنانچہ کنانہ ابن ابی الحقیق یہودیوں کی ایک جماعت لے کر صلح کی گفتگوکے لئے آیا ۔

فَصَالَحَ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عَلَى حَقْنِ دِمَاءِ مَنْ فِی حُصُونِهِمْ مِنَ الْمُقَاتِلَةِ

اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شرط پرصلح کی کہ قلعہ میں جوجانبازموجودہیں ان کی جان بخشی کی جائے گی ۔

 وَتَرْكِ الذُّرِّیَّةِ لَهُمْ

قلعہ میں موجودعورتوں اوربچوں کو اسیرنہیں کیاجائے گا۔

 وَیَخْرُجُونَ مِنْ خَیْبَرَ، وَأَرْضِهَا بِذَرَارِیِّهِمْ وَیُخَلُّونَ بَیْنَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَبَیْنَ مَا كَانَ لَهُمْ مِنْ مَالٍ وَأَرْضٍ وَعَلَى الصَّفْرَاءِ وَالْبَیْضَاءِ وَالْكُرَاعِ وَالْحَلْقَةِ

یہودپرلازم ہوگاکہ وہ تمام قلعوں کوخالی کرکے خیبر کوچھوڑ دیں اوران کاتمام جنگی سازوسامان سونا چاندی وغیرہ وہیں چھوڑدیں [76]

xیہودپرلازم ہوگاکہ ان کے قبضہ میں جوبھی اسلحہ ہے اسے مسلمانوں کے سپردکردیں اورجب تک وہ خیبرمیں ہیں اسلحہ لیکرنہ چلیں ۔

 فَصَالَحُوهُ عَلَى أَنْ یَجْلُوا مِنْهَا وَلَهُمْ مَا حَمَلَتْ رِكَابُهُمْ، وَلِرَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ الصَّفْرَاءُ وَالْبَیْضَاءُ وَالْحَلْقَةُ وَیَخْرُجُونَ مِنْهَا

یہوداپنے گھوڑے،اسلحہ اور سوناچاندی یہیں چھوڑکرباقی جس قدرمال اپنی سواریاں پرلادکرلے جاسکتے ہیں اٹھاکریکلخت خیبرسے نکل جائیں گے۔[77]

إِلَّا ثَوْبًا عَلَى ظَهْرِ إِنْسَانٍ

ایک روایت یہ بھی ہےصرف تن کے کپڑے پہن کرجلاوطن ہوجائیں گے۔[78]

مگریہ روایت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے طریق کے خلاف ہے۔

وَبَرِئَتْ مِنْكُمْ ذِمَّةُ اللهِ وَذِمَّةُ رَسُولِهِ إِنْ كَتَمْتُمُونِی شَیْئًا

اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں تنبیہ فرمائی کہ وہ کوئی چیزچھپائیں گے نہیں اگرانہوں نے ایسی حرکت کی توپھر اللہ اوراس کارسول اس معاہدہ سے بری الذمہ ہوں گے[79]

فَصَالَحُوهُ عَلَى ذَلِكَ

ابن ابی الحقیق نے یہ شرط منظورکرلی اورصلح ہوگئی۔[80]

اس کے بعدیہودنے تینوں قلعے مسلمانوں کے حوالے کردیئےاورتقریباًدوماہ تک جاری رہنے والی جنگ میں کمانڈرانچیف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے قلیل مجاہدین اورکمتراسلحہ کے ساتھ فاتح خیبرٹھیرے۔

اورابان بن سعید رضی اللہ عنہ بھی نجدمیں اپناکام خوش اسلوبی سے نمٹاکرآپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس خیبرتشریف لے آئے،خیبراسلامی ریاست مدینہ منورہ کاپہلامفتوحہ علاقہ تھااس لئے نظم ونسق کی طرف جوتوجہ دی گئی اورغیرمسلم رعایاکے متعلق جورویہ اختیارکیاگیاوہ آنے والی اسلامی سلطنتوں کے لئے مثال بنا۔

 یہودکی بددیانتی :

فَغَیَّبُوا مَسْكًا فِیهِ مَالٌ وَحُلِیٌّ لحیی بن أخطب، كَانَ احْتَمَلَهُ مَعَهُ إِلَى خَیْبَرَ حِینَ أُجْلِیَتِ النَّضِیرُفَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ لِعَمِّ حیی بن أخطب: مَا فَعَلَ مَسْكُ حیی الَّذِی جَاءَ بِهِ مِنَ النَّضِیرِ؟قَالَ: أَذْهَبَتْهُ النَّفَقَاتُ وَالْحُرُوبُ،فَقَالَ: الْعَهْدُ قَرِیبٌ وَالْمَالُ أَكْثَرُ مِنْ ذَلِكَ

سچائی ،ایمانداری اورمعاہدے کی پابندی یہودکی فطرت کے خلاف ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی واضح تنبیہ کے باوجودابوالحقیق کے دونوں بیٹوں نے بدعہدی کی اورحی بن اخطب کے زیورات سے بھراہواایک چرمی تھیلا چھپادیا جووہ بنونضیرکی مدینہ منورہ سے جلاوطنی کے وقت اپنے ہمراہ لایاتھااوراسی میں سب کازیورمحفوظ رہتاتھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حی بن اخطب کے چچاکوفرمایاحی جوتھیلابنونضیرسے اٹھاکرلایاتھاوہ کہاں ہے؟ اس نے کہاوہ سب اخراجات اورلڑائیوں میں خرچ ہوگیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مال بہت زیادہ تھااورزمانہ بھی زیادہ نہیں گزرا۔ [81]

مگروہ اپنی بات پراڑے رہے اور مال چھپانے کے الزام کوتسلیم کرنے سے انکارکردیا،ان کےچچیرے بھائی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آکرگواہی دی کہ میں کنانہ ابن ابی الحقیق کو ویرانے میں ایک جگہ پر روزانہ گھومتے ہوئے دیکھاہے،

فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ لِكِنَانَةَ:أَرَأَیْتُ إنْ وَجَدْنَاهُ عِنْدَكَ، أَأَقْتُلُكَ؟ قَالَ: نَعَمْ،فَأَمَرَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بِالْخَرِبَةِ فَحُفِرَتْ، فَأَخْرَجَ مِنْهَا بَعْضَ كَنْزِهِمْ،ثُمَّ سَأَلَهُ عَمَّا بَقِیَ، فَأَبَى أَنْ یُؤَدِّیَهُ، فَأَمَرَ بِهِ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ الزُّبَیْرَ بْنَ الْعَوَّامِ، فَقَالَ: عَذِّبْهُ حَتَّى تَسْتَأْصِلَ مَا عِنْدَهُ، فَكَانَ الزُّبَیْرُ یَقْدَحُ بِزَنْدٍ فِی صَدْرِهِ، حَتَّى أَشْرَفَ عَلَى نَفْسِهِ،ثُمَّ دَفَعَهُ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ إلَى مُحَمَّدِ بْنِ مَسْلَمَةَ، فَضَرَبَ عُنُقَهُ بِأَخِیهِ مَحْمُودِ بْنِ مَسْلَمَةَ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کنانہ بن ابی الحقیق کوتنبیہ فرمائی کہ سچ سچ بتادوورنہ اگرہم نے تمہارے پاس سے خزانہ برآمدکرلیاتوپھرمعاہدے کی خلاف ورزی کے جرم میں ہم تمہیں قتل کردیں گے،اس نے جواب دیامجھے منظورہے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجاہدین کواس جگہ پرکھدائی کاحکم فرمایاجہاں سے کچھ خزانہ نکل آیا، پھرباقی مال کے بارے میں دوبارہ اس سے دریافت کیاگیاتواس نے پھربھی انکار کر دیا،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے زبیر رضی اللہ عنہ بن العوام کے حوالے کردیااورفرمایااسے اس وقت تک سزادوجب تک کہ اس کے پاس جوکچھ ہے ہمیں حاصل ہوجائے،چنانچہ دوران تفتیش زبیر رضی اللہ عنہ نے اس کے سینے پرچقماق کی ضربیں لگائیں جس سے وہ ادھ موا ہو گیا اورمال کاپتہ بتلادیا،اس خزانہ میں سونے کے کنگن ،پازیبیں ، پہنچیاں ، بالیاں ، انگوٹھیاں ،جواہرات وزمردسے جڑے ہوئے ہاراورسونے کے جڑاؤہاردستیاب ہوئے جن کی قیمت کاتخمینہ دس ہزاردینارلگایاگیا ،پھررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے محمدبن مسلمہ رضی اللہ عنہ کے حوالے کردیاتاکہ وہ انہیں قلعہ ناعم کے نیچے اپنے بھائی محمود رضی اللہ عنہ بن مسلمہ کے قتل میں اس کی گردن ماردیں ۔[82]

چنانچہ ان دونوں بھائیوں کو قتل کردیاگیا۔

فریقین کے مقتولین :

اس غزوہ میں تریانوے یہودی قتل ہوئے،جن میں گیارہ نمایاں لیڈراورسردارتھے ور اکثرخیبرکے نصف اول النطاة اورالشق کے معرکوں میں قتل ہوئے۔

مسلمان شہداء کے بارے میں اختلاف ہے ایک قول ہے کہ کل پندرہ مسلمان شہیدہوئے ،ایک قول ہے کہ سولہ مسلمان شہیدہوئے چارقریش سے ،ایک قبیلہ اشجع سے ،ایک قبیلہ اسلم سے ،ایک اہل خیبرسے اورنوانصارسے۔

ایک قول ہے کہ اٹھارہ مجاہدین شہیدہوئے مگراہل سیر کے نزدیک سولہ مجاہدین کی شہادت کی روایت زیادہ قوی ہے۔

مہاجرین شہداء

اموال غنیمت :

اموال غنیمت میں زمین اورباغات کے علاوہ وہاں سے چارسو تلواروں ،ایک سوزرہوں ،ایک ہزارنیزوں اورپانچ سوترکش سمیت کمانوں کے علاوہ جدیدترین اور تباہ کن منجنیق بھی ملیں ، اس دورکی فوجی پوزیشن کے لحاظ سے یہ بہت بڑی چیزتھی اور متعددتورات کے نسخے حاصل بھی ہوئے جنہیں واپس لینے کے لئے یہود حاضرخدمت ہوئے توآپ نے یہ نسخے انہیں واپس فرمادیئے ۔

اموال غنیمت کی تقسیم:

عہدنبوی میں مسلمان جن جنگوں میں فاتح ٹھیرے ،ان میں سے کسی جنگ میں بھی اسلامی لشکرکواتنے غنائم نہیں ملے جس قدرغزوہ خیبرمیں ملے ،اللہ تعالیٰ کے وعدے کے مطابق خیبرکے مال غنیمت میں سونے اورچاندی کی بہت بڑی مقدارمسلمانوں کے ہاتھ لگی جس کے جمع کرنے میں یہودقدیم ترین زمانوں سے مشہور ہیں ،اور سب سے بڑی چیزخیبرکی زرخیز زمینیں اورکھجورکے باغات تھے جوسینکڑوں مربع میل کے علاقے میں پھیلے ہوئے تھے،خیبرکے صرف ایک کھیت میں چالیس ہزار کھجور کے درخت تھے اوراس قسم کے وہاں دسیوں کھیت تھے ،جب یہ زمینیں مسلمانوں کے قبضہ میں آئیں توان کی آمدنی میں اضافہ ہوگیا جس سے مجاہدین آسودہ حال ہو گئے اور انہیں پیٹ بھرکرکھانانصیب ہوااوران کووہ فائدہ اورخوشحالی ملی جوپہلے حاصل نہیں تھی حتی کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے

مَا شَبِعْنَا حَتَّى فَتَحْنَا خَیْبَرَ

ہمیں فتح خیبرکے بعدہی پیٹ بھر کر کھانا میسرہواہے۔[83]

 عَنْ عَائِشَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ:لَمَّا فُتِحَتْ خَیْبَرُ قُلْنَا الآنَ نَشْبَعُ مِنَ التَّمْرِ

اورام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہےجب خیبرفتح ہواتوہم نے کہااب ہمیں پیٹ بھرکرکھجورملے گی۔[84]

وَأَمّا أَرْضُهَا، فَقَسَمَهَا النّبِیّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بَیْنَ مَنْ حَضَرَهَا مِنْ أَهْلِ الْحُدَیْبِیَةِ

خیبرکی غنیمت میں زمینوں کے علاوہ سونا،چاندی ،گائے بیل اوراونٹ اورجو سامان تھاوہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نص قرآنی کے مطابق غانمین پرتقسیم کردیا اور زمینیں کوفقط اہل حدیبیہ پرتقسیم کیا۔[85]

وَقَسَمَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ خَیْبَرَ عَلَى سِتَّةٍ وَثَلَاثِینَ سَهْمًا جَمَعَ كُلُّ سَهْمٍ مِائَةَ سَهْمٍ،فَكَانَتْ ثَلَاثَةَ آلَافٍ وَسِتَّمِائَةِ سَهْمٍ، فَكَانَ لِرَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَلِلْمُسْلِمِینَ النِّصْفُ مِنْ ذَلِكَ، وَهُوَ أَلْفٌ وَثَمَانِمِائَةِ سَهْمٍ، لِرَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ سَهْمٌ كَسَهْمِ أَحَدِ الْمُسْلِمِینَ، وَعَزَلَ النِّصْفَ الْآخَرَ وَهُوَ أَلْفٌ وَثَمَانِمِائَةِ سَهْمٍ لِنَوَائِبِهِ وَمَا یَنْزِلُ بِهِ مِنْ أُمُورِ الْمُسْلِمِینَ

النّطَاةِ، وَالشّقّ اوراس کی ملحقہ زمینوں کو مجاہدین میں تقسیم کرنے کے لئےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خمس نکالنے کے بعد خیبرکی پیداوار کوچھتیس حصوں میں تقسیم کیا،ہرحصہ میں سوحصہ تھےاس طرح تین ہزارچھ سوحصے بنے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اورمسلمانوں کے لیے اٹھارہ سوسہم ہوتے اورباقی نصف یعنی اٹھارہ سوسہم اس کے محافظین اوروہاں پراہل اسلام کے لیے چھوڑدیے گئے۔[86]

عَنْ بُشَیْرِ بْنِ یَسَارٍ، مَوْلَى الْأَنْصَارِ، عَنْ رِجَالٍ، مِنْ أَصْحَابِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ لَمَّا ظَهَرَ عَلَى خَیْبَرَ، قَسَمَهَا عَلَى سِتَّةٍ وَثَلَاثِینَ سَهْمًا، جَمَعَ كُلُّ سَهْمٍ مِائَةَ سَهْمٍ، فَكَانَ لِرَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، وَلِلْمُسْلِمِینَ النِّصْفُ مِنْ ذَلِكَ، وَعَزَلَ النِّصْفَ الْبَاقِیَ لِمَنْ نَزَلَ بِهِ مِنَ الْوُفُودِ، وَالْأُمُورِ، وَنَوَائِبِ النَّاسِ

بشیر بن یسار رحمہ اللہ جو کہ انصار کے مولا تھا کئی اصحاب نبی سے روایت کرتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب خیبرفتح کیاتو خیبرکی پیداوار کو چھتیس حصوں پر تقسیم کیاہرحصہ میں سوحصہ تھے اس طرح تین ہزارچھ سوحصے بنے چنانچہ ان میں سے نصف یعنی اٹھارہ سوحصے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے غانمین میں تقسیم کردیئے اورباقی آدھے حصے اتفاقی اخراجات کے لیے محفوظ رکھے گئےکہ آپ کے پاس وفودآتے تھے یاکوئی ہنگامی خرچ ہوتایامسلمانوں پرکوئی مشکل آپڑتی تواس مدمیں میں سے لیاجاتاتھا ۔[87]

قَسَمَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَوْمَ خَیْبَرَ لِلْفَرَسِ سَهْمَیْنِ وَلِلرَّاجِلِ سَهْمًا إِذَا كَانَ مَعَ الرَّجُلِ فَرَسٌ فَلَهُ ثَلَاثَةُ أَسْهُمٍ، وَإِنْ لَمْ یَكُنْ مَعَهُ فَرَسٌ فَلَهُ سَهْمٌ

غزوہ خیبرمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پیادہ کے لیے ایک حصہ اورگھوڑے کودوحصے دیے ،جس کے پاس گھوڑاتھااسے تین حصے ملے اورجس کے پاس گھوڑانہیں تھااسے ایک حصہ ملا ۔[88]

وَكَانَ مَعَهُمْ مِائَتَا فَرَسٍ، لِكُلِّ فَرَسٍ سَهْمَانِ

اس غزوہ میں اہل حدیبیہ کے ساتھ دوسوگھوڑے بھی تھے اورہرگھوڑے کے دو حصے ہوتے ہیں اورسوارکاایک حصہ اس طرح ایک سوار کو تین حصے ملے یعنی کل دو سو گھوڑوں کوچھ سوحصے ملے تھے اورباقی بارہ سوپیادہ لشکرکوایک ایک کے حساب سے بارہ سو حصے ملے۔[89]

عَنْ أَبِی بَرْزَةَ الْأَسْلَمِیِّ، فَخَرَجَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فِی غَزْوَةٍ لَهُ. قَالَ: فَلَمَّا أَفَاءَ اللهُ عَلَیْهِ قَالَ لِأَصْحَابِهِ:هَلْ تَفْقِدُونَ مِنْ أَحَدٍ؟ قَالُوا: نَفْقِدُ فُلَانًا وَنَفْقِدُ فُلَانًا قَالَ:انْظُرُوا هَلْ تَفْقِدُونَ مِنْ أَحَدٍ؟قَالُوا: لَا، قَالَ: لَكِنِّی أَفْقِدُ جُلَیْبِیبًا؟ قَالَ:فَاطْلُبُوهُ فِی الْقَتْلَى ، قَالَ: فَطَلَبُوهُ فَوَجَدُوهُ إِلَى جَنْبِ سَبْعَةٍ قَدْ قَتَلَهُمْ، ثُمَّ قَتَلُوهُ. فَقَالُوا: یَا رَسُولَ اللهِ هَا هُوَ ذَا إِلَى جَنْبِ سَبْعَةٍ قَدْ قَتَلَهُمْ، ثُمَّ قَتَلُوهُ، فَأَتَاهُ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَقَامَ عَلَیْهِ فَقَالَ:قَتَلَ سَبْعَةً وَقَتَلُوهُ هَذَا مِنِّی وَأَنَا مِنْهُ. هَذَا مِنِّی وَأَنَا مِنْهُ مَرَّتَیْنِ أَوْ ثَلَاثًا ثُمَّ وَضَعَهُ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عَلَى سَاعِدَیْهِ وَحُفِرَ لَهُ مَا لَهُ سَرِیرٌ إِلَّا سَاعِدَا رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ وَضَعَهُ فِی قَبْرِهِ، وَلَمْ یُذْكَرْ أَنَّهُ غَسَّلَهُ

ابوبرزہ اسلمی رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک غزوہ پرتشریف لے گئے (کتب سیرمیں اس غزوہ کی تصریح نہیں کی گئی)جلبیب رضی اللہ عنہ بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمرکاب تھے جب اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کوفتح عطافرمائی اورمام غنیمت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش کیاگیاتوآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے پوچھا ہمارے کون کون سے آدمی لاپتہ ہیں ؟لوگوں نے کہا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! فلاں فلاں لوگ ہمیں نہیں مل رہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوبارہ یہی سوال کیادیکھ لوکوئی رہ تو نہیں گیا؟ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیانہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایالیکن مجھے جلبیب رضی اللہ عنہ نظر نہیں آرہا؟اسے تلاش کرو کہیں وہ قتل تونہیں ہوگیا،صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے انہیں تلاش کیاتو دیکھا کہ سات مشرک مقتول پڑے ہیں اورقریب ہی جلبیب رضی اللہ عنہ بھی خاک وخون میں آغشتہ پڑے ہیں ،صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے واپس آکرعرض کیااے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! جلبیب کے گردسات مشرک قتل ہوئے پڑے ہیں جنہیں جلبیب رضی اللہ عنہ نے قتل کیا اور پھر خو د شہید ہوئے،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خودوہاں تشریف لائے یہ عجیب منظردیکھ کرطبع مبارک بہت متاثرہوئی ،جلبیب رضی اللہ عنہ کے جسم اطہرکے پاس کھڑے ہوکرفرمایاسات آدمیوں کوقتل کرکے شہید ہوایہ مجھ سے ہے اورمیں اس سے ہوں ،یہ مجھ سے ہے اور میں اس سے ہوں یہ جملے دو تین مرتبہ دہرائے،پھر جب اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اٹھایا گیا تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اپنے بازوؤں پر اٹھا لیا اور تدفین تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دونوں بازو ہی تھے جو ان کے لئے جنازے کی چارپائی تھی، راوی نے غسل کا ذکر نہیں کیا۔[90]

قَالَ: فَحُفِرَ لَهُ وَوُضِعَ فِی قَبْرِهِ، وَلَمْ یَذْكُرْ غَسْلًا

اورصحیح مسلم میں ہےاس کے بعدسیدالمرسلین صلی اللہ علیہ وسلم نے جلبیب رضی اللہ عنہ کے جسداطہرکواپنے ہاتھوں پراٹھایااورقبرکھدواکراپنے دست مبارک سے ان کی تدفین فرمائی اورغسل نہیں دیا۔[91]

زینب بنت حیی :

عَنْ أَنَسٍ، قَالَ: جُمِعَ السَّبْیُ – یَعْنِی بِخَیْبَرَ – فَجَاءَ دِحْیَةُ فَقَالَ: یَا رَسُولَ اللهِ، أَعْطِنِی جَارِیَةً مِنَ السَّبْیِ،قَالَ:اذْهَبْ فَخُذْ جَارِیَةً، فَأَخَذَ صَفِیَّةَ بِنْتَ حُیَیٍّ،فَجَاءَ رَجُلٌ إِلَى النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: یَا نَبِیَّ اللهِ، أَعْطَیْتَ دِحْیَةَ، قَالَ یَعْقُوبُ: صَفِیَّةَ بِنْتَ حُیَیٍّ سَیِّدَةَ قُرَیْظَةَ، وَالنَّضِیرِ، ثُمَّ اتَّفَقَا مَا تَصْلُحُ إِلَّا لَكَ،قَالَ:ادْعُوهُ بِهَا فَلَمَّا نَظَرَ إِلَیْهَا النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ لَهُ:خُذْ جَارِیَةً مِنَ السَّبْیِ غَیْرَهَا

انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہےخیبرمیں جب قیدی عورتوں کوجمع کیاگیاتودحیہ بن خلیفہ کلبی رضی اللہ عنہ (جوایک خوبصورت شخص تھے اورجبرائیل علیہ السلام انہی کی شکل میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضرہوتے تھے) نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کیااے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم !ان قیدی عورتوں میں سے مجھے ایک کنیزعطافرمادیں ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جاؤ اور ایک کنیز لے لو،انہوں نے زینب بنت حیی کوجوسترہ سال کی ایک انتہائی حسین عورت تھیں اپنے لئے منتخب کرلیا،پھر ایک صحابی رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوااور عرض کیااے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ نے صفیہ بنت حی کودحیہ رضی اللہ عنہ کے حوالے کردیاوہ قریظہ اورنضیر(یہودی قبیلوں )کی سردارہے، سردارکی بیٹی ہے حالانکہ وہ آپ کے شایان شان ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایادحیہ رضی اللہ عنہ کوبلاؤ،دحیہ رضی اللہ عنہ زینب بنت حیی بن اخطب کے ہمراہ حاضرخدمت ہو گئے،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے زینب کودیکھاچونکہ زینب، ہارون رضی اللہ عنہ کی زریت ، ایک سردارکی بیٹی اورایک سردارکی بیوی تھیں اس طرح وہ بڑے اعزازواکرام کی حامل تھیں ،اس رتبے کی عورت کودوسرے قیدیوں کی طرح ہبہ نہیں کیاجاسکتاتھا، اس سیدہ عورت کی اپنی قوم میں عزت قائم رکھنے کے لئےآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دحیہ رضی اللہ عنہ کوفرمایاتم اس کوچھوڑکردوسری قیدی عورتوں میں سے کوئی اورعورت پسند کرلو ۔[92]

اورانہوں نے کنانہ بن ربیع بن ابی حقیق کی بہن کو پسند کر لیا۔

عَنْ أَنَسٍ، قَالَ:وَقَعَ فِی سَهْمِ دِحْیَةَ جَارِیَةٌ جَمِیلَةٌ، فَاشْتَرَاهَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بِسَبْعَةِ أَرْؤُسٍ، ثُمَّ دَفَعَهَا إِلَى أُمِّ سُلَیْمٍ تَصْنَعُهَا، وَتُهَیِّئُهَا قَالَ حَمَّادٌ: وَأَحْسَبُهُ قَالَ: وَتَعْتَدُّ فِی بَیْتِهَا صَفِیَّةُ بِنْتُ حُیَیٍّ

انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں دحیہ کلبی رضی اللہ عنہ کے حصے میں ایک بہت ہی خوبصورت لونڈی آئی،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کوسات غلام دے کرخریدلیا، پھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے( خادم خاص انس رضی اللہ عنہ کی والدہ ) ام سلیم رضی اللہ عنہا کے حوالے کیاتاکہ اسے بنائیں سنواریں اوربطوردلہن تیارکریں ، حمادکہتے ہیں اورمیراخیال ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایایہ ام سلیم رضی اللہ عنہا کے ہاں عدت پوری کرلے اوریہ صفیہ بنت حیی تھیں [93]

حبشہ سے جعفر رضی اللہ عنہ بن ابی طالب اورقبیلہ اشعرکے لوگوں کی آمد:

وَكَانَ مَنْ أَقَامَ بِأَرْضِ الْحَبَشَةِ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى بَعَثَ فِیهِمْ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ إلَى النَّجَاشِیِّ عَمْرِو بْنِ أُمَیَّةَ الضَّمْرِیِّ، فَحَمَلَهُمْ فِی سَفِینَتَیْنِ

جن صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے ملک حبشہ کی طرف ہجرت کی تھی اوروہاں مقیم تھے ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کوبلانے کے لئے عمروبن امیہ ضمری کو شاہ حبش نجاشی کے پاس بھیجاچنانچہ تعمیل حکم میں نجاشی نے ان مہاجرین کودوجہازوں میں سوارکرکے آپ کی خدمت میں روانہ کیا۔[94]

عَنْ أَبِی مُوسَى رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: بَلَغَنَا مَخْرَجُ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَنَحْنُ بِالیَمَنِ، فَخَرَجْنَا مُهَاجِرِینَ إِلَیْهِ أَنَا وَأَخَوَانِ لِی أَنَا أَصْغَرُهُمْ، أَحَدُهُمَا أَبُو بُرْدَةَ، وَالآخَرُ أَبُو رُهْمٍ، إِمَّا قَالَ: بِضْعٌ، وَإِمَّا قَالَ: فِی ثَلاَثَةٍ وَخَمْسِینَ، أَوِ اثْنَیْنِ وَخَمْسِینَ رَجُلًا مِنْ قَوْمِی،فَرَكِبْنَا سَفِینَةً، فَأَلْقَتْنَا سَفِینَتُنَا إِلَى النَّجَاشِیِّ بِالحَبَشَةِ،وَوَافَقْنَا جَعْفَرَ بْنَ أَبِی طَالِبٍ وَأَصْحَابَهُ عِنْدَهُ،فَقَالَ جَعْفَرٌ: إِنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بَعَثَنَا هَاهُنَا، وَأَمَرَنَا بِالإِقَامَةِ، فَأَقِیمُوا مَعَنَا، فَأَقَمْنَا مَعَهُ حَتَّى قَدِمْنَا جَمِیعًا فَوَافَقْنَا النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ حِینَ افْتَتَحَ خَیْبَرَ

ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں جب ہمیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت کے متعلق خبرملی توہم یمن میں تھے اس لئے ہم بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ہجرت کی نیت سے نکل پڑے ،میں اور میرے دو بھائی،میں دونوں سے چھوٹاتھا،میرے ایک بھائی کانام ابوبردہ تھااوردوسرے کاابورہم تھا،انہوں نے کہاکہ کچھ اوپرپچاس یاانہوں نے یوں بیان کیاکہ ترپن(۵۳)یاباون(۵۲)میری قوم کے لوگ ساتھ تھے،ہم سب کشتی میں سوارہوئے لیکن وہ ہمیں مدینہ منورہ لانے کے بجائے نجاشی کے ملک حبشہ میں لے گئے،اوروہاں ہماری ملاقات جعفر رضی اللہ عنہ بن ابی طالب اوراپنے دوسرے ساتھیوں کے ساتھ ہوئی،جعفر رضی اللہ عنہ نے کہاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں یہاں بھیجاتھااورحکم دیاتھاکہ ہم یہیں رہیں اس لئے آپ لوگ بھی ہمارے ساتھ یہیں ٹھیر جائیں چنانچہ ہم بھی وہیں ٹھیرگئے اورپھرسب ایک ساتھ (مدینہ منورہ)حاضرہوئے، جب ہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پہنچے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم خیبرفتح کرچکے تھے۔[95]

فَقَبَّلَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بَین عَیْنَیْهِ، وَالْتَزَمَهُ ،وَقَالَ:وَاللهِ مَا أَدْرِی بِأَیِّهِمَا أَفْرَحُ؛ بِفَتْحِ خَیْبَرَ أَمْ بِقُدُومِ جعفر ؟

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جعفر رضی اللہ عنہ بن ابی طالب کودیکھتے ہی گلے سے لگالیا اورپیشانی پربوسہ دیااورفرمایااللہ کی قسم میں فیصلہ نہیں کرسکتاکہ مجھے جعفر رضی اللہ عنہ کی آمد کی زیادہ خوشی ہے یافتح خیبرکی ؟۔[96]

عَنْ أَبِی مُوسَى رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ:فَأَسْهَمَ لَنَا، أَوْ قَالَ: فَأَعْطَانَا مِنْهَا، وَمَا قَسَمَ لِأَحَدٍ غَابَ عَنْ فَتْحِ خَیْبَرَ مِنْهَا شَیْئًا، إِلَّا لِمَنْ شَهِدَ مَعَهُ، إِلَّا أَصْحَابَ سَفِینَتِنَا مَعَ جَعْفَرٍ وَأَصْحَابِهِ، قَسَمَ لَهُمْ مَعَهُمْ

ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں (غزوہ خیبرکی فتح کے بعدہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پہنچے) لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبرکی غنیمتوں میں سے ہمارابھی حصہ مال غنیمت(جن کی تعداد سوسے زیادہ تھی ،اصل مال غنیمت،مال غنیمت کے خمس سے یااموال منقولہ میں سے قبل ازتقسیم بطوراعانت) میں لگایا یاانہوں نے یہ کہاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے غنیمت میں سے ہمیں بھی عطافرمایاحالانکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی ایسے شخص کاغنیمت میں حصہ نہیں لگایاجولڑائی میں شریک نہ رہاہوصرف انہی لوگوں کوحصہ ملاتھاجولڑائی میں شریک تھے البتہ ہماری کشتی کے ساتھیوں اورجعفراوران کے ساتھیوں کوبھی آپ نے غنیمت میں شریک کیاتھا۔[97]

فَقَدِمَ الْأَشْعَرِیُّونَ، فَجَعَلُوا یَرْتَجِزُونَ

انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہےشرف باریابی حاصل کرنے سے پہلے اشعریین نہایت ذوق وشوق سے یہ شعرپڑھتے تھے ۔

غَدًا نَلْقَى الْأَحِبَّةْ ، مُحَمَّدًا وَحِزْبَهْ

کل ہم اپنے دوستوں سے ملیں گے۔،محمد صلی اللہ علیہ وسلم اوران کے ساتھیوں سے

عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ،أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: یَقْدَمُ قَوْمٌ هُمْ أَرَقُّ مِنْكُمْ قُلُوبًا

انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہےجب قبیلہ اشعرکے لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں باریاب ہوئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا آنے والے لوگوں کے دل تمہارے دلوں کی نسبت نرم ہیں ۔[98]

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ،عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:أَتَاكُمْ أَهْلُ الیَمَنِ، هُمْ أَرَقُّ أَفْئِدَةً وَأَلْیَنُ قُلُوبًا، الإِیمَانُ یَمَانٍ وَالحِكْمَةُ یَمَانِیَةٌ، وَالفَخْرُ وَالخُیَلاَءُ فِی أَصْحَابِ الإِبِلِ، وَالسَّكِینَةُ وَالوَقَارُ فِی أَهْلِ الغَنَمِ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاتمہارے پاس ملک یمن سے(یہ ملک مکہ معظمہ سے داہنی طرف واقع ہے اس لیے اس کویمن کہتے ہیں ) لوگ آئے ہیں ، ان کے دل تمام آنے والوں سے زیادہ گدازہیں ،اوروہ خیرخواہی زیادہ قبول کرنے والے ہیں ،ایمان یمن میں ہے اوراطاعت بھی یمنیوں کاشیوہ ہے ،وہاں حکمت کے چشمے ہیں ،فخراورتکبران لوگوں میں ہوگا جو اونٹ اورگھوڑے رکھیں گے(یعنی قوم ربیعہ اورمضر) اورعلم اوروقاران لوگوں میں ہوگاجوبھیڑبکریاں رکھیں گے۔[99]

قَالُوا: قَبِلْنَا، جِئْنَاكَ لِنَتَفَقَّهَ فِی الدِّینِ، وَلِنَسْأَلَكَ عَنْ أَوَّلِ هَذَا الأَمْرِ مَا كَانَ،قَالَ:كَانَ اللهُ وَلَمْ یَكُنْ شَیْءٌ قَبْلَهُ، وَكَانَ عَرْشُهُ عَلَى المَاءِ، ثُمَّ خَلَقَ السَّمَوَاتِ وَالأَرْضَ، وَكَتَبَ فِی الذِّكْرِ كُلَّ شَیْءٍ

جب یہ وفدآپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہواتوعرض کیااے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم !ہم آپ کی خدمت میں اس لئے حاضرہوئے ہیں کہ دین کاعلم حاصل کریں اورکائنات کے آغازکے بارے میں دریافت کریں کہ کس طرح تھی، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایاسب سے پہلے اللہ کے سواکچھ نہ تھااوراس کاتخت پانی پرتھا ، پھراس نے زمین وآسمان پیداکیے اور ہر چیزکولوح محفوظ میں لکھ دیا۔[100]

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے تکوین عالم کی تشریح سن کراہل وفداتنے خوش ہوئے کہ ان کے قدم زمین پرنہ ٹکتے تھے ۔

فقال رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: الْأَشْعَرُونَ فِی النّاس كصرة فیهامِسْك

ایک روایت میں ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنواشعرکی تعریف کرتے ہوئے فرمایااشعری لوگوں میں اس تھیلی کی مانندہیں جس میں کستوری ہو۔[101]

وَالْأَشْعَرِیُّونَ لَا یَفِرُّونَ فِی الْقِتَالِ، وَلَا یَغُلُّونَ، هُمْ مِنِّی، وَأَنَا مِنْهُمْ

ایک اورروایت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کایہ ارشادبھی نقل ہوا ہےاشعری نہ بھاگتے ہیں اورنہ شکست کھاتے ہیں وہ مجھ سے ہیں اورمیں ان سے ہوں ۔[102]

اشعریوں کاذوق عبادت ،شوق جہاد:

قبیلہ اشعرکے لوگ بڑے عبادت گزاراورجہادفی سبیل اللہ کے دیوانے تھے ۔

قَالَ أَبُو بُرْدَةَ، عَنْ أَبِی مُوسَى،قَالَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: إِنِّی لَأَعْرِفُ أَصْوَاتَ رُفْقَةِ الأَشْعَرِیِّینَ بِالقُرْآنِ حِینَ یَدْخُلُونَ بِاللیْلِ، وَأَعْرِفُ مَنَازِلَهُمْ مِنْ أَصْوَاتِهِمْ بِالقُرْآنِ بِاللیْلِ، وَإِنْ كُنْتُ لَمْ أَرَ مَنَازِلَهُمْ حِینَ نَزَلُوا بِالنَّهَارِوَمِنْهُمْ حَكِیمٌ، إِذَا لَقِیَ الخَیْلَ، أَوْ قَالَ: العَدُوَّ، قَالَ لَهُمْ: إِنَّ أَصْحَابِی یَأْمُرُونَكُمْ أَنْ تَنْظُرُوهُمْ

ان کے بارے میں ابوبردہ ،ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجب میرے اشعری احباب رات میں آتے ہیں تو میں ان کی( رات کو)قرآن پڑھتے وقت( اشعرقبیلہ کے لوگوں کی) آواز پہچانتاہوں اوران کے قرآن پڑھنے سے معلوم کرلیتاہوں کہ وہ کہاں کہاں کھڑے ہیں اگرچہ میں نے دن کونہیں دیکھاکہ کہاں کہاں فروکش ہیں ،اوران میں سے بعض اتنے دلیرہیں کہ جب دشمنوں میں بزدلی اورفرارکے آثاردیکھتے ہیں توان سے کہتے ہیں ٹھیرو!میرے بھائیوں نے پیغام بھیجاہے ذراانتظارکرو۔[103]

قبول اسلام کے بعدابوموسیٰ اشعری نے مدینہ منورہ میں مستقل سکونت اختیارکرلی،فتح مکہ،غزوہ حنین اورغزوہ تبوک میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمرکاب رہے،اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں یمن زیریں کاعامل مقررفرمادیا،دس ہجری میں وہاں سے مکہ آکرحجة الوداع میں شریک ہوئے اورپھریمن چلے گئے،ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کوقرآن مجیدسے غیرمعمولی شغف وانہماک تھا،فرصت کاساراوقت قرآن حکیم کی تلاوت اوراس کی تعلیم میں صرف ہوتاتھا،نہایت خوش آوازتھے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے بارے میں فرمایا

یَا أَبَا مُوسَى لَقَدْ أُوتِیتَ مِزْمَارًا مِنْ مَزَامِیرِ آلِ دَاوُدَ

اےابوموسیٰ رضی اللہ عنہ ! تمہیں داؤدکے سروں میں سے ایک سر(خوش آوازی)دی گئی ہے۔[104]

عَنْ أَبِی مُوسَى، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ لِأَبِی مُوسَى:لَوْ رَأَیْتَنِی وَأَنَا أَسْتَمِعُ لِقِرَاءَتِكَ الْبَارِحَةَ، لَقَدْ أُوتِیتَ مِزْمَارًا مِنْ مَزَامِیرِ آلِ دَاوُدَ

ابوموسی رضی اللہ عنہ نے کہارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوموسی رضی اللہ عنہ سے فرمایااگرتم مجھے دیکھتے جب میں کل رات تمہاری قرات سن رہاتھا(توبہت خوش ہوتے)بیشک تم کو آل داؤدکی آوازوں میں سے ایک آوازدی گئی ہے۔[105]

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ، أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ سَمِعَ عَبْدَ اللهِ بْنَ قَیْسٍ یَقْرَأُ، فَقَالَ:لَقَدْ أُعْطِیَ هَذَا مِنْ مَزَامِیرِ آلِ دَاوُدَ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عبداللہ بن قیس رضی اللہ عنہ کوتلاوت قرآن کرتے ہوئے سناتوفرمایابیشک اسے داؤد علیہ السلام جیسی بہترین آوازعطاکی گئی ہے۔[106]

عَنْ عَائِشَةَ،سَمِعَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قِرَاءَةَ أَبِی مُوسَى، فَقَالَ:لَقَدْ أُوتِیَ هَذَا مِنْ مَزَامِیرِ آلِ دَاوُدَ

ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوموسی رضی اللہ عنہ کوقرآن کریم کی قرات کرتے ہوئے سناتوفرمایابیشک اسے آل داؤدکی آوازوں میں سے ایک آوازدی گئی ہے۔[107]

مِزْمَارگانے بجانے کے آلے بانسری وغیرہ کوکہاجاتاہے لیکن یہاں مرادسراورخوش آوازی ہے،آل داؤدمیں آل کالفظ زائدہے ،مرادخودداؤد علیہ السلام ہیں کیونکہ حسن صوت داؤد علیہ السلام ہی کوعطاکیاگیاتھانہ کہ آپ کی آل کویاان میں سے کسی کو،بہرحال حسن صوت بھی اللہ کاانعام ہے جس کوچاہے وہ اس سے نوازدے ۔

عَنْ أَبِی مُوسَى رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ:فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:اللهُمَّ اغْفِرْ لِعَبْدِ اللهِ بْنِ قَیْسٍ ذَنْبَهُ، وَأَدْخِلْهُ یَوْمَ الْقِیَامَةِ مُدْخَلًا كَرِیمًا

ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے لئے یہ دعا فرمائی الٰہی!عبداللہ بن قیس کی خطائیں بخش دے اورقیامت کے دن اس کا(جنت فردوس میں ) باعزت داخلہ فرما۔[108]

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعدسیدناابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ نے انہیں اپنے عہدے پربرقراررکھا،جب سیدنا عمرفاروق رضی اللہ عنہ کی خلافت کاآغازہواتووہ اس عہدہ امارت سے مستعفی ہوکرایران کے میدان جہادمیں پہنچ گئے اورایرانیوں کے خلاف متعددمعرکوں میں دادشجاعت دی،سیدناعمرفاروق رضی اللہ عنہ کے عہدخلافت میں کئی سال بصرہ کے گورنررہے ، ایک سال کوفہ کی امارت پربھی فائزرہے اورخوزستان اوراصفہان کے کئی علاقے فتح کیے،سیدناعثمان ذوالنورین رضی اللہ عنہ کے عہدخلافت میں بھی وہ کئی سال تک بصرہ اورکوفہ کے گورنررہے ، خلیفہ سوئم سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعدجب سیدنا علی رضی اللہ عنہ اورامیرمعاویہ رضی اللہ عنہ کے درمیان اختلاف کاآغازہواتوملک شام کے ایک غیرمعروف گاؤں میں جاکرگوشہ نشین ہوگئے ،واقعہ تحکم میں وہ سیدناعلی رضی اللہ عنہ کی طرف سے حکم نامزدکیے گئےلیکن جب تحکیم کاخاطرخواہ نتیجہ نہ نکلاتودل برداشتہ ہوکرمکہ معظمہ چلے گئے اوروہیں چوالیس ہجری میں وفات پائی۔

کچھ لوگ کہتے تھے ہم نے تم سے پہلے ہجرت کی ہے اس لئے ہم تواس کے تم سے زیادہ حقدارہیں ۔

عَنْ أَبِی مُوسَى رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ:وَدَخَلَتْ أسماء بنت عمیس عَلَى حفصة فَدَخَلَ عَلَیْهَا عمر فَقَالَ: مَنْ هَذِهِ؟ قَالَتْ: أَسْمَاءُ بِنْتُ عُمَیْسٍ،قَالَ عُمَرُ: الحَبَشِیَّةُ هَذِهِ البَحْرِیَّةُ هَذِهِ؟قَالَتْ أَسْمَاءُ: نَعَمْ،قَالَ: سَبَقْنَاكُمْ بِالهِجْرَةِ، فَنَحْنُ أَحَقُّ بِرَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مِنْكُمْ، فَغَضِبَتْ وَقَالَتْ: كَلَّا وَاللهِ، كُنْتُمْ مَعَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یُطْعِمُ جَائِعَكُمْ، وَیَعِظُ جَاهِلَكُمْ، وَكُنَّا فِی دَارِ أَوْ فِی أَرْضِ البُعَدَاءِ البُغَضَاءِ بِالحَبَشَةِ، وَذَلِكَ فِی اللهِ وَفِی رَسُولِهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ،وَایْمُ اللهِ لاَ أَطْعَمُ طَعَامًا وَلاَ أَشْرَبُ شَرَابًا، حَتَّى أَذْكُرَ مَا قُلْتَ لِرَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، وَنَحْنُ كُنَّا نُؤْذَى وَنُخَافُ، وَسَأَذْكُرُ ذَلِكَ لِلنَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَأَسْأَلُهُ، وَاللهِ لاَ أَكْذِبُ وَلاَ أَزِیغُ، وَلاَ أَزِیدُ عَلَیْهِ

اسماء رضی اللہ عنہا بنت عمیس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ ام المومنین حفصہ رضی اللہ عنہا سے ملنے گئیں اتفاقاًاسی وقت سیدنا عمر رضی اللہ عنہ بھی وہیں آگئے،انہوں نے پوچھایہ کون ہیں ؟ام المومنین حفصہ رضی اللہ عنہا نے جواب دیایہ اسماء رضی اللہ عنہا بنت عمیس ہیں جوحبشہ سے آئیں ہیں ، سیدناعمر رضی اللہ عنہ بولے سمندرکے راستے آنے والی؟اسماء رضی اللہ عنہا نے کہاہاں ، سیدناعمر رضی اللہ عنہ نے کہاہم نے ان سے پہلے ہجرت کی ہے اس لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت اوردوستی کے ہم زیادہ حقدار ہیں ،اسماء رضی اللہ عنہا کوغصہ آیااور وہ بولیں اللہ کی قسم! ہرگزنہیں !آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہتے تھے ،وہ آپ میں سے بھوکوں کو کھلاتے اور جاہلوں کوعلم سکھاتے تھے ،ہم سفرمیں ،دوردرازاور ناپسندیدہ ملک میں رہتے تھے ،یہ سب مصیبتیں اورتکالیف ہم نے اللہ اوراس کے رسول کے لئے ہی جھیلی ہیں ، اللہ کی قسم! میں جب تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے آپ کی اس بات کی تحقیق نہ کرلوں گی نہ کھاناکھاؤں گی اورنہ ہی پانی پیوں گی،اللہ کی قسم! میں نہ غلط بیانی کروں گی اورنہ بڑھا چڑھا کر بات کروں گی،

فَلَمَّا جَاءَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَتْ: یَا نَبِیَّ اللهِ إِنَّ عُمَرَ قَالَ: كَذَا وَكَذَا؟فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: مَا قُلْتِ لَهُ؟قَالَتْ: قُلْتُ لَهُ كَذَا وَكَذَاقَالَ:لَیْسَ بِأَحَقَّ بِی مِنْكُمْ، وَلَهُ وَلِأَصْحَابِهِ هِجْرَةٌ وَاحِدَةٌ، وَلَكُمْ أَنْتُمْ – أَهْلَ السَّفِینَةِ – هِجْرَتَانِ،قَالَتْ: فَلَقَدْ رَأَیْتُ أَبَا مُوسَى وَأَصْحَابَ السَّفِینَةِ یَأْتُونِی أَرْسَالًا، یَسْأَلُونِی عَنْ هَذَا الحَدِیثِ، مَا مِنَ الدُّنْیَا شَیْءٌ هُمْ بِهِ أَفْرَحُ وَلاَ أَعْظَمُ فِی أَنْفُسِهِمْ مِمَّا قَالَ لَهُمُ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ،قَالَ أَبُو بُرْدَةَ: فَقَالَتْ أَسْمَاءُ: فَلَقَدْ رَأَیْتُ أَبَا مُوسَى، وَإِنَّهُ لَیَسْتَعِیدُ هَذَا الْحَدِیثَ مِنِّی

جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے توانہوں نے عرض کیااے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم ! سیدناعمر رضی اللہ عنہ نے ایساایساکہاہے؟رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاتم نے ان کو کیاجواب دیا؟انہوں نے کہامیں نے ان سے یہ یہ کہا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاوہ میری صحبت کے تم سے زیادہ مستحق نہیں ،ان کے اوران کے رفقاء کے لئے ایک ہجرت ہے اورتم جہاز میں آنے والوں کے لئے دو ہجرتیں ہیں ،اسماء رضی اللہ عنہا کہتی ہیں ابوموسیٰ اورکشتی میں دوسرے سوارلوگ مختلف ٹولیوں میں میرے پاس یہ حدیث سننے کی خواہش کرتے تھے،اللہ کی قسم وہ دنیاکی کسی چیزسے اتنا خوش نہ ہوتے تھے جتناوہ اس حدیث کوسن کرخوش ہوتے تھے،ابوبردہ رضی اللہ عنہ نے کہااسماء رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں میں نے ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ کودیکھاوہ (خوشی کے لئے)اس حدیث کومجھ سے دہراتے تھے۔[109]

وَشَهِدَ خَیْبَرَ مَعَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ نساء فرضخ لهن [من الفئ] وَلَمْ یَضْرِبْ لَهُنَّ بِسَهْمٍ

ان کے علاوہ کچھ غلام اوربیس عورتیں بھی مجاہدین کی خدمت اوراعانت کے لئے شریک ہوئی تھیں ،ان کونبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبرکے حاصل شدہ سامان میں سے بطوراعانت کچھ عطا فرمایا مگرزمینوں میں سے مردوں کی طرح ان کوکوئی حصہ نہیں دیاگیاجیساکہ سنن ابوداود،جامع ترمذی اورسنن نسائی کی روایات سے ظاہرہوتاہے۔[110]

وَقَدْ تَخَلّفَ عَنْهَا رِجَالٌ: مُرَیّ بْنُ سِنَانٍ، وَأَیْمَنُ بْنُ عُبَیْدٍ، وَسِبَاعُ بْنُ عُرْفُطَةَ الْغِفَارِیّ، خَلّفَهُ عَلَى الْمَدِینَةِ، وَجَابِرُ بْنُ عَبْدِ اللهِ وَغَیْرُهُمْ. وَمَاتَ مِنْهُمْ رَجُلَانِ، فَأَسْهَمَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ لِمَنْ تَخَلّفَ مِنْهُمْ وَمَنْ مَاتَ، وَأَسْهَمَ لِمَنْ شَهِدَ خَیْبَرَ مِنْ النّاسِ مِمّنْ لم یشهد الحدیبیة. وَأَسْهَمَ لِرُسُلٍ كَانُوا یَخْتَلِفُونَ إلَى أَهْلِ فَدَكَ، مُحَیّصَة بْنُ مَسْعُودٍ الْحَارِثِیّ وَغَیْرُهُ، فَأَسْهَمَ لَهُمْ رسول الله صلى الله علیه وسلم ولم یَحْضُرُوا. وَأَسْهَمَ لِثَلَاثَةِ مَرْضَى لَمْ یَحْضُرُوا الْقِتَالَ: سُوِیدُ بْنُ النّعْمَانِ، وَعَبْدُ اللهِ بْنُ سَعْدِ بْنِ خَیْثَمَةَ، وَرَجُلٌ مِنْ بَنِی خُطَامَة، وَأَسْهَمَ لِلْقَتْلَى الّذِینَ قَتَلُوا مِنْ الْمُسْلِمِینَ

ان کے علاوہ مری بن سنان رضی اللہ عنہ ،ایمن بن عبید رضی اللہ عنہ ،سباع بن عرفطہ الغفاری رضی اللہ عنہ اورجابربن عبداللہ رضی اللہ عنہ کوجوکسی وجہ سے مدینہ منورہ میں رہ گئے تھے ان میں دوآدمی فوت بھی ہو گئے تھے،اوراہل فدک کی طرف ایلچی بن کرآنے جانے والے مُحَیّصَة بن مسعود رضی اللہ عنہ الحارثی وغیرہ، تین بیماروں سویدبن النعمان،عبداللہ بن سعد بن خیثمہ اوربنی خطامہ کے ایک آدمی اورجوصحابہ شہید ہو گئے تھے ان کابھی حصہ لگایا۔[111]

[1] ابن ہشام ۳۴۲؍۲،الروض الانف ۱۱۵؍۷،البدایة والنہایة۲۳۲؍۴،ابن سعد۲۲۷؍۸

[2] مغازی واقدی ۶۸۵؍۲

[3]مغازی واقدی۶۳۴؍۲

[4] السیرة الحلیبة ۴۹؍۳

[5] مغازی واقدی۶۷۷؍۲

[6] فتح الباری ۴۶۵؍۷،السیرة الحلیبة۴۶؍۳،شرح الزرقانی علی المواھب ۲۴۵؍۳

[7] زادالمعاد۲۸۲؍۳،تاریخ طبری۹؍۳،ابن سعد۲۴۴؍۴،مغازی واقدی ۶۳۷؍۲

[8] مغازی واقدی۶۴۰؍۲

[9] مغازی واقدی۶۳۸؍۲

[10] البدایة والنہایة۲۰۶؍۴

[11] فتح الباری ۴۶۴؍۷،ابن ہشام ۳۲۸؍۲، الروض الانف۸۶؍۷،تاریخ طبری۹؍۳،البدایة والنہایة۲۰۶؍۴،دلائل النبوة للبیہقی۴۶۸؍۵،شرح الزرقانی علی المواھب۲۴۴؍۳

[12] ابن سعد۸۴؍۲

[13] ابن ہشام ۳۵۰؍۲

[14] مغازی واقدی۷۰۱؍۲

[15] مغازی واقدی۶۴۰؍۲

[16] صحیح بخاری کتاب المغازی بَابُ غَزْوَةِ خَیْبَرَ۴۱۹۵،مسنداحمد۱۵۸۰۰،دلائل النبوة للبیہقی۲۰۰؍۴،البدایة والنہایة ۲۰۷؍۴،السیرة النبویة لابن کثیر۳۴۶؍۳

[17] مغازی واقدی۶۳۹؍۲

[18] مغازی واقدی۶۵۰؍۲

[19] ابن ہشام۳۳۰؍۲

[20] مغازی واقدی۶۵۱؍۲

[21] مغازی واقدی۶۳۵؍۲

[22] صحیح بخاری کتاب الاداب باب مایجوزمن الشعروالرجزوالحدائ ۶۱۴۸، فتح الباری ۴۶۶؍۷

[23] مسنداحمد۶۷؍۲۷

[24] مسنداحمد۱۶۵۳۸

[25] صحیح بخاری کتاب المغازی بَابُ غَزْوَةِ خَیْبَرَ۴۱۹۶،صحیح مسلم کتاب الجہادوالسیر بَابُ غَزْوَةِ ذِی قَرَدٍ وَغَیْرِهَا۴۶۷۷،فتح الباری ۴۶۶؍۷

[26] مغازی واقدی۶۳۷؍۲

[27] صحیح بخاری کتاب المغازی بَابُ غَزْوَةِ خَیْبَرَ۴۱۹۷ ،البدایة والنہایة۲۰۹؍۴

[28] صحیح بخاری کتاب الاذان بَابُ مَا یُحْقَنُ بِالأَذَانِ مِنَ الدِّمَاءِ ۶۱۰،ابن ہشام ۳۲۹؍۲،الروض الانف ۹۱؍۷،عیون الاثر۱۷۳؍۲،البدایة والنہایة۲۰۹؍۴،السیرة النبویة لابن کثیر۳۴۸؍۳

[29] فتح الباری ۴۴۶؍۱،زادالمعاد۲۸۴؍۳،ابن ہشام۳۲۹؍۲،الروض الانف ۹۱؍۷، عیون الاثر۱۷۳؍۲،البدایة والنہایة۲۰۹؍۴،مغازی واقدی۶۴۲؍۲،دلائل النبوة للبیہقی۲۰۳؍۴

[30]۔مغازی واقدی۶۴۲؍۲

[31] الصافات: 177

[32] صحیح بخاری کتاب المغازی بَابُ غَزْوَةِ خَیْبَرَ۴۱۹۸،فتح الباری ۲۳۱؍۵،زادالمعاد۲۸۳؍۳،مغازی واقدی۶۴۳؍۲،ابن ہشام۳۳۰؍۲،دلائل النبوة للبیہقی ۲۰۳؍۴،الروض الانف۹۲؍۷،عیون الاثر ۱۷۴؍۲، البدایة والنہایة۲۱۰؍۴،ابن سعد۸۳؍۲

[33] مغازی واقدی۶۴۳؍۲

[34] امتاع الاسماع۳۰۸؍۱،السیرة الحلبیة۵۱؍۳

[35] فتح الباری ۴۷۷؍۷

[36] صحیح بخاری کتاب الجہادبَابُ دُعَاءِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ النَّاسَ إِلَى الإِسْلاَمِ وَالنُّبُوَّةِ، وَأَنْ لاَ یَتَّخِذَ بَعْضُهُمْ بَعْضًا أَرْبَابًا مِنْ دُونِ اللهِ۲۹۴۲،وکتاب فضائل اصحاب النبی ﷺ بَابُ فَضْلِ مَنْ أَسْلَمَ عَلَى یَدَیْهِ رَجُلٌ۳۰۰۹،وکتاب فضائل اصحاب النبی ﷺ بَابُ مَنَاقِبِ عَلِیِّ بْنِ أَبِی طَالِبٍ القُرَشِیِّ الهَاشِمِیِّ أَبِی الحَسَنِ رَضِیَ اللهُ عَنْهُ۳۷۰۱،وکتاب المغازی بَابُ غَزْوَةِ خَیْبَرَ۴۲۱۰،مسنداحمد۲۲۸۲۱، دلائل النبوة للبیہقی۲۰۵؍۴، زادالمعاد ۲۸۴؍۳،البدایة والنہایة ۲۱۱؍۴

[37] عیون الاثر ۱۷۵؍۲

[38] مغازی واقدی۶۴۸؍۲

[39] مغازی واقدی۶۴۵؍۲،عیون الاثر ۱۸۶؍۲

[40] مسنداحمد ۱۶۵۳۸

[41]۔صحیح بخاری کتاب المغازی بَابُ غَزْوَةِ خَیْبَرَ۴۱۹۶،صحیح مسلم کتاب الجہادوالسیربَابُ غَزْوَةِ خَیْبَرَ ۴۶۶۸، وبَابُ غَزْوَةِ ذِی قَرَدٍ وَغَیْرِهَا۴۶۷۸، دلائل النبوة للبیہقی ۲۰۷؍۴،البدایة والنہایة۲۱۴؍۴، السیرة النبویة لابن کثیر۳۵۶؍۳

[42] ابن ہشام ۳۲۹؍۲،الروض الانف ۸۹؍۷،عیون الاثر۱۷۳؍۲

[43] فتح الباری۴۶۷؍۴

[44] تاریخ طبری ۱۲؍۳

[45] تاریخ طبری ۱۱؍۳

[46] زادالمعاد۲۸۷؍۳،ابن ہشام۳۳۴؍۲،عیون الاثر۱۷۷؍۲،تاریخ طبری ۱۱؍۳،دلائل النبوة للبیہقی۲۱۷؍۴،السیرة النبویة لابن کثیر ۳۵۹؍۳

[47] مغازی واقدی۶۵۷؍۲

[48] مغازی واقدی۶۵۷؍۲

[49]البدایة والنہایة ۲۱۶؍۴

[50] ابن ہشام۳۳۵؍۲،الروض الانف ۱۰۲؍۷، عیون الاثر۱۷۷؍۲،البدایة والنہایة۲۱۲؍۴، زادالمعاد ۲۸۵؍۳، دلائل النبوة للبیہقی۲۰۹؍۴،شرع الزرقانی علی المواھب ۲۵۶؍۳،السیرة النبویة لابن کثیر۳۵۳؍۳

[51] فتح الباری ۴۶۶؍۷

[52] ابن ہشام۳۲۹؍۲،الروض الانف ۹۳؍۷،عیون الاثر۱۷۴؍۲،تاریخ طبری۹؍۳، البدایة والنہایة۲۱۸؍۴،السیرة النبویة لابن کثیر۳۶۳؍۳

[53]۔ مغازی واقدی۶۴۶؍۲

[54] ابن ہشام ۳۳۲؍۲،الروض الانف۹۷؍۷،عیون الاثر۱۷۶؍۲،تاریخ طبری ۱۰؍۳،البدایة والنہایة۲۲۱؍۴، شرح الزرقانی علی المواھب۲۶۴؍۳،دلائل النبوة للبیہقی۲۲۳؍۴، السیرة النبویة لابن کثیر۳۶۷؍۳

[55] مغازی واقدی ۶۶۴؍۲

[56] صحیح بخاری کتاب المغازی بَابُ غَزْوَةِ خَیْبَرَ۴۱۹۶،زادالمعاد۲۸۲؍۳،دلائل النبوة للبیہقی۲۰۰؍۴،البدایة والنہایة۲۰۸؍۴، مغازی واقدی۶۶۱؍۲ ،شرح الزرقانی علی المواھب۲۷۴؍۳، السیرة النبویة لابن کثیر۳۴۶؍۳

[57] صحیح بخاری کتاب المغازی بَابُ غَزْوَةِ خَیْبَرَ۴۱۹۹

[58] ابن ہشام۳۳۲؍۲،الروض الانف۹۶؍۷،عیون الاثر۱۷۶؍۲،البدایة والنہایة۲۱۹؍۴،ابن سعد ۸۸؍۲، السیرة النبویة لابن کثیر۳۶۵؍۳

[59] صحیح بخاری کتاب المغازی بَابُ غَزْوَةِ خَیْبَرَ۴۲۱۶،صحیح مسلم کتاب النکاح بَابُ نَدْبِ مَنْ رَأَى امْرَأَةً فَوَقَعَتْ فِی نَفْسِهِ، إِلَى أَنْ یَأْتِیَ امْرَأَتَهُ أَوْ جَارِیَتَهُ فَیُوَاقِعَهَا۳۴۳۱

[60] زادالمعاد۳۰۴؍۳،صحیح بخاری کتاب المغازی بَابُ غَزْوَةِ خَیْبَرَ ۴۲۱۶، صحیح مسلم کتاب النکاح بَابُ نَدْبِ مَنْ رَأَى امْرَأَةً فَوَقَعَتْ فِی نَفْسِهِ، إِلَى أَنْ یَأْتِیَ امْرَأَتَهُ أَوْ جَارِیَتَهُ فَیُوَاقِعَهَا۳۴۳۱

[61] صحیح مسلم کتاب النکاح بَابُ نِكَاحِ الْمُتْعَةِ، وَبَیَانِ أَنَّهُ أُبِیحَ، ثُمَّ نُسِخَ، ثُمَّ أُبِیحَ، ثُمَّ نُسِخَ، وَاسْتَقَرَّ تَحْرِیمُهُ إِلَى یَوْمِ الْقِیَامَةِ۱۴۰۷

[62]زادالمعاد۳۰۹؍۳

[63] البدایة والنہایة۲۲۰؍۴،السیرة النبویة لابن کثیر۳۶۶؍۳

[64] کنزالحقائق ۶۱

[65] ابن ہشام۳۳۲؍۲،الروض الانف۹۷؍۷،عیون الاثر۱۷۶؍۲

[66] مغازی واقدی ۶۶۴؍۲

[67] مغازی واقدی۶۶۵؍۲

[68] مغازی واقدی ۴۶۴؍۲

[69] زادالمعاد۲۸۸؍۳

[70] البدایة والنہایة۲۲۵؍۴، السیرة النبویة لابن کثیر۳۷۶؍۳

[71] ابن ہشام۳۳۱؍۲

[72] تاریخ الخمیس۴۸؍۲،دلائل النبوة للبیہقی۱۹۶؍۴

[73] البدایة والنہایة ۲۱۷؍۴،دلائل النبوة للبیہقی۲۲۰؍۴

[74] دلائل النبوة للبیہقی۶۸۱۷،زادالمعاد۲۸۸؍۳،البدایة والنہایة۲۱۸؍۴

[75] ابن ہشام۳۳۵؍۲،الروض الانف۱۰۲؍۷، مغازی واقدی۶۶۰؍۲،تاریخ الخمیس فی أحوال أنفس النفیس۵۱؍۲،سبل الهدى والرشاد، فی سیرة خیر العباد۱۲۱؍۵

[76]۔دلائل النبوة للبیہقی۲۲۶؍۴

[77] دلائل النبوة للبیہقی ۲۲۹؍۴

[78] زادالمعاد۲۸۹؍۳،دلائل النبوة للبیہقی۲۲۶؍۴

[79] ۔ زادالمعاد۲۸۹؍۳،دلائل النبوة للبیہقی۲۲۶؍۴

[80] زادالمعاد۲۸۹؍۳،مغازی واقدی۶۷۱؍۲

[81] زادالمعاد۲۸۹؍۳،دلائل النبوة للبیہقی۲۲۹؍۴،البدایة والنہایة۲۲۶؍۴

[82] ابن ہشام ۳۳۷؍۲،تاریخ طبری۱۴؍۳

[83] صحیح البخاری کتاب المغازی بَابُ غَزْوَةِ خَیْبَرَ ۴۲۴۳

[84] صحیح بخاری کتاب المغازی بَابُ غَزْوَةِ خَیْبَرَ۴۲۴۲

[85] الروض الانف ۱۲۷؍۷

[86] زادالمعاد۲۹۱؍۳

[87] سنن ابوداودكِتَاب الْخَرَاجِ وَالْإِمَارَةِ وَالْفَیْءِ بَابُ مَا جَاءَ فِی حُكْمِ أَرْضِ خَیْبَرَ ۳۰۱۲

[88] البدایة والنہایة۲۲۸؍۴،دلائل النبوة للبیہقی۲۳۸؍۴

[89] زادالمعاد۲۹۲؍۳

[90] مسنداحمد۱۹۷۸۴،الصَّحیِحُ من أحادیث السّیرة النبویة ۳۰۳؍۱،السیرة النبویة كما جاءت فی الأحادیث الصحیحة۳۳۱؍۲

[91] صحیح مسلم كتاب الْفَضَائِلِ بَابُ مِنْ فَضَائِلِ جُلَیْبِیبٍ رَضِیَ اللهُ عَنْهُ ۶۳۵۸

[92] سنن ابوداودکتاب الخراج والفی ئ والامارة بَابُ مَا جَاءَ فِی سَهْمِ الصَّفِیِّ۲۹۹۸

[93] سنن ابوداودکتاب الخراج والفی ئ والامارة بَابُ مَا جَاءَ فِی سَهْمِ الصَّفِیِّ۲۹۹۷

[94] ابن ہشام ۳۵۹؍۲

[95] صحیح بخاری کتاب المغازی بَابُ غَزْوَةِ خَیْبَرَ ۴۲۳۰،وکتاب فرض الخمس بَابٌ وَمِنَ الدَّلِیلِ عَلَى أَنَّ الخُمُسَ لِنَوَائِبِ المُسْلِمِینَ ۳۱۳۶

[96] زادالمعاد۲۹۶؍۳،ابن ہشام۳۵۹؍۲،الروض الانف ۱۴۲؍۷،البدایة والنہایة۹۱؍۳،ابن سعد۲۶؍۴ ،السیرة النبویة لابن کثیر۱۶؍۲

[97] صحیح بخاری کتاب فرض الخمس بَابٌ وَمِنَ الدَّلِیلِ عَلَى أَنَّ الخُمُسَ لِنَوَائِبِ المُسْلِمِینَ ۳۱۳۶

[98] دلائل النبوة للبیہقی۳۵۱؍۵

[99] صحیح بخاری کتاب المغازی بَابُ قُدُومِ الأَشْعَرِیِّینَ وَأَهْلِ الیَمَنِ ۴۳۸۸،صحیح مسلم کتاب بَابُ تَفَاضُلِ أَهْلِ الْإِیمَانِ فِیهِ، وَرُجْحَانِ أَهْلِ الْیَمَنِ فِیهِ۱۸۱

[100] صحیح بخاری کتاب التوحیدبَابُ وَكَانَ عَرْشُهُ عَلَى المَاءِ۷۴۱۸ ،زادالمعاد۵۴۲؍۳

[101] ابن سعد ۲۶۲؍۱

[102] مسنداحمد۱۷۱۶۶

[103] صحیح بخاری کتاب المغازی بَابُ غَزْوَةِ خَیْبَرَ۴۲۳۲

[104] صحیح بخاری کتاب فضائل القرآن بَابُ حُسْنِ الصَّوْتِ بِالقِرَاءَةِ لِلْقُرْآنِ۵۰۴۸

[105] صحیح مسلم کتاب فضائل القرآن بَابُ اسْتِحْبَابِ تَحْسِینِ الصَّوْتِ بِالْقُرْآنِ۱۸۵۲

[106] مسند احمد ۸۸۲۰

[107] مسنداحمد۲۴۰۹۷

[108] صحیح بخاری كِتَابُ المَغَازِی بَابُ غَزْوَةِ أَوْطَاسٍ ۴۳۲۳،صحیح مسلم كتاب فَضَائِلِ الصَّحَابَةِ رَضِیَ اللهُ تَعَالَى عَنْهُمْ بَابُ مِنْ فَضَائِلِ أَبِی مُوسَى وَأَبِی عَامِرٍ الْأَشْعَرِیَّیْنِ رَضِیَ اللهُ عَنْهُمَا ۶۴۰۶

[109] صحیح بخاری کتاب المغازی بَابُ غَزْوَةِ خَیْبَرَ ۴۲۳۰،۴۲۳۱،صحیح مسلم کتاب الفضائل بَابُ مِنْ فَضَائِلِ جَعْفَرِ بْنِ أَبِی طَالِبٍ وَأَسْمَاءَ بِنْتِ عُمَیْسٍ وَأَهْلِ سَفِینَتِهِمْ رَضِیَ اللهُ عَنْهُمْ۶۴۱۱، زادالمعاد۲۹۵؍۳،البدایة والنہایة۲۳۴؍۴

[110] البدایة والنہایة۲۳۲؍۴

[111] مغازی واقدی۶۸۴؍۴

Related Articles