ہجرت نبوی کا ساتواں سال

قسموں کے مسائل(حصہ اول)

جب اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے جنت وجہنم کوپیدافرمایاتواس وقت جبرائیل علیہ السلام نے قسم اٹھائی تھی، ابراہیم علیہ السلام نے بھی اپنی قوم کے سامنے قسم اٹھائی تھی،اللہ تبارک وتعالیٰ کی ہربات سچ ہے اسے قسم اٹھانے کی ضرورت نہیں ہے مگرانسانوں کویقین دلانے کے لئے اس نے اپنی آخری کتاب قرآن مجیدمیں کئی مقامات پرخودقسم اٹھائی ،تین مقامات پرنبی صلی اللہ علیہ وسلم کو قسم اٹھانے کاحکم فرمایااورمشرکین بھی قیامت کے روزقسمیں کھائیں گے،

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: لَمَّا خَلَقَ اللهُ الْجَنَّةَ قَالَ لِجِبْرِیلَ: اذْهَبْ فَانْظُرْ إِلَیْهَا، فَذَهَبَ فَنَظَرَ إِلَیْهَا، ثُمَّ جَاءَ، فَقَالَ: أَیْ رَبِّ وَعِزَّتِكَ لَا یَسْمَعُ بِهَا أَحَدٌ إِلَّا دَخَلَهَاثُمَّ حَفَّهَا بِالْمَكَارِهِ،ثُمَّ قَالَ : یَا جِبْرِیلُ اذْهَبْ فَانْظُرْ إِلَیْهَا، فَذَهَبَ فَنَظَرَ إِلَیْهَا، ثُمَّ جَاءَ فَقَالَ: أَیْ رَبِّ وَعِزَّتِكَ لَقَدْ خَشِیتُ أَنْ لَا یَدْخُلَهَا أَحَدٌ، قَالَ: فَلَمَّا خَلَقَ اللهُ النَّارَ قَالَ: یَا جِبْرِیلُ اذْهَبْ فَانْظُرْ إِلَیْهَا، فَذَهَبَ فَنَظَرَ إِلَیْهَا، ثُمَّ جَاءَ فَقَالَ: أَیْ رَبِّ وَعِزَّتِكَ لَا یَسْمَعُ بِهَا أَحَدٌ فَیَدْخُلُهَا فَحَفَّهَا بِالشَّهَوَاتِ ثُمَّ قَالَ: یَا جِبْرِیلُ اذْهَبْ فَانْظُرْ إِلَیْهَا، فَذَهَبَ فَنَظَرَ إِلَیْهَا، ثُمَّ جَاءَ فَقَالَ: أَیْ رَبِّ وَعِزَّتِكَ لَقَدْ خَشِیتُ أَنْ لَا یَبْقَى أَحَدٌ إِلَّا دَخَلَهَا

جیسے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجب اللہ تعالیٰ نے جنت اور جہنم کو پیدا فرمایا تو جبرئیل علیہ السلام کوجنت کی طرف روانہ فرمایااورکہاجنت اوراس میں رہنے والوں کے لئے جومیں نے تیارکیاہے اسے دیکھو، جبرئیل علیہ السلام دیکھ کرواپس لوٹے توانہوں نے کہااے میرے رب !تیری عزت کی قسم!جوبھی اس کے متعلق سن لے گاوہ تواس میں داخل ہوناچاہے گا، پھراللہ تعالیٰ نے اس کومکروہات کے گھیرے میں دے دیا (اس میں آنے والوں کوجوعمل کرنے ہوں گے اورجن شرعی پابندیوں کوقبول کرناہوگا،عمومی طورپران کی طرف طبیعت مائل نہیں ہوتی یاحق کی راہ پرجمے رہنے کی وجہ سے تکلیفیں اٹھانی ہوں گی) پھرفرمایاجبریل علیہ السلام !جاؤاوراسے دیکھ کرآؤ،پس وہ گئے اوراس کودیکھاپھرآئے اورکہااے میرے رب! تیری عزت کی قسم!مجھے اندیشہ ہے کہ اس میں کوئی داخل نہیں ہوسکے گا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاپھرجب دوزخ کوپیداکیاتوجبریل علیہ السلام سے کہاجاؤاوردوزخ کودیکھ کرآؤوہ گئے اوردیکھ کرآئے ،واپس آکرکہااے میرے رب!تیری عزت کی قسم !کوئی نہیں جواس کے متعلق سنے اورپھراس میں داخل ہو،پھراللہ تعالیٰ نے اس کونفسانی خواہشات اورمرغوبات کے گھیرے میں دے دیاپھرفرمایااے جبریل علیہ السلام !جاؤاوراسے دیکھ کرآؤوہ گئے اوراسے دیکھاپھرآئے اورکہااے میرے رب!تیری عزت اورتیرے جلال کی قسم!مجھے اندیشہ ہے کہ اس میں داخل ہونے سے کوئی بھی نہیں بچ سکے گا۔[1]

(جنت اوراس کی نعمتیں ،دوزخ اوراس کاعذاب فی الواقع پیداکیے جاچکے ہیں ،جنت کاداخلہ شرعی پابندیوں پرعمل کرنے سے ہی ممکن ہے اوران کے بالمقابل نفسانی خواہشات کی پیروی اورشرعی پابندیوں سے آزادی جہنم میں جانے کاباعث ہیں لہذاضروری ہے کہ انسان نفسانی خواہشات کی پیروی سے دوررہے)

ابراہیم علیہ السلام نے ان الفاظ میں قسم اٹھائی تھی

 وَتَاللهِ لَاَكِیْدَنَّ اَصْنَامَكُمْ بَعْدَ اَنْ تُوَلُّوْا مُدْبِرِیْنَ۝۵۷ [2]

ترجمہ:اوراللہ کی قسم! میں تمہارے ان معبودوں کے ساتھ جب تم علیحدہ پیٹھ پھیر کر چل دو گے ایک چال چلوں گا۔

اللہ تعالیٰ نے یہ قسمیں اٹھائیں

 وَالَّیْلِ اِذَا یَغْشٰى۝۱ۙ [3]

ترجمہ:رات کی قسم جب وہ ڈھانپ لے ۔

وَالشَّمْسِ وَضُحٰىهَا۝۱۠ۙ [4]

ترجمہ:قسم ہے سورج کی اوراس کی دھوپ کی۔

وَالْفَجْرِ۝۱ۙوَلَیَالٍ عَشْرٍ۝۲ۙ [5]

ترجمہ: قسم ہے فجرکی اوردس راتوں کی۔

 وَالتِّیْنِ وَالزَّیْتُوْنِ۝۱ [6]

ترجمہ:قسم ہے انجیر اور زیتون کی۔

وَالنَّازِعَاتِ غَرْقًا [7]

ترجمہ:ڈوب کرسختی سے کھینچنے والوں کی قسم۔

۔۔۔قُلْ اِیْ وَرَبِّیْٓ اِنَّهٗ لَحَقٌّ۝۰ۭۚؔ وَمَآ اَنْتُمْ بِمُعْجِزِیْنَ۝۵۳ۧ [8]

ترجمہ:آپ فرما دیجئے کہ ہاں قسم ہے میرے رب کی وہ واقعی سچ ہے اورتم کسی طرح اللہ کوعاجزنہیں کرسکتے۔

قُلْ بَلٰى وَرَبِّیْ لَتَاْتِیَنَّكُمْ۔۔۔ ۝۳ۤۙ [9]

ترجمہ:آپ کہہ دیجئے کہ مجھے میرے رب کی قسم وہ یقیناًتم پرآئے گی۔

۔۔۔قُلْ بَلٰى وَرَبِّیْ لَتُبْعَثُنَّ۔۔۔ ۝۷  [10]

ترجمہ:آپ کہہ دیجئے کہ کیوں نہیں اللہ کی قسم ! تم ضروردوبارہ اٹھائے جاؤ گے ۔

عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: كَانَتْ یَمِینُ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: لاَ وَمُقَلِّبِ القُلُوبِ

اس کے علاوہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہےنبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی قسم بس اتنی تھی کہ نہیں ،قسم ہے اس ذات کی جو دلوں کا پھیرنے والاہے۔ [11]

اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف مواقع پریوں قسم اٹھائی۔

عَنْ أَبِی سَعِیدٍ، قَالَ:قَالَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:وَالَّذِی نَفْسِی بِیَدِهِ

اورسعدبن ابی وقاص رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے۔[12]

اورروزقیامت مشرکین رب کے حضوریوں قسمیں کھائیں گے۔

۔۔۔وَاللهِ رَبِّنَا مَا كُنَّا مُشْرِكِیْنَ۝۲۳ [13]

ترجمہ:قسم اللہ کی اپنے پروردگار کی ! ہم مشرک نہیں تھے۔

وَاَقْسَمُوْا بِاللهِ جَهْدَ اَیْمَانِهِمْ۔۔۔ ۝۴۲ [14]

ترجمہ:اوران کفارنے اللہ تعالیٰ کی بڑی زوردارقسم اٹھائی تھی۔

یعنی اللہ کی ذات وصاف کی قسم اٹھائی جاسکتی ہے اس کے علاوہ کسی کی قسم اٹھاناحرام ہے ۔

فإن أهل الجاهلیة كانوا یعتقدون

دور جاہلیت میں مشرکین اپنے شرکاء ومبعودان باطلہ کی قسمیں کھاتے تھے۔[15]

اسلام نے غیراللہ کی قسمیں اٹھانے سے روک دیا۔

عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُمَا،أَنَّهُ أَدْرَكَ عُمَرَ بْنَ الخَطَّابِ فِی رَكْبٍ وَهُوَ یَحْلِفُ بِأَبِیهِ ، فَنَادَاهُمْ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:أَلاَ، إِنَّ اللهَ یَنْهَاكُمْ أَنْ تَحْلِفُوا بِآبَائِكُمْ، فَمَنْ كَانَ حَالِفًا فَلْیَحْلِفْ بِاللهِ، وَإِلَّا فَلْیَصْمُتْ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہےوہ سیدناعمر رضی اللہ عنہ بن خطاب کے پاس پہنچے جوچندسواروں کے ساتھ تھے اوراس وقت سیدنا عمر رضی اللہ عنہ اپنے والدکی قسم کھا رہے تھے،اس پررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں پکارکرکہاآگاہ ہوجاؤ!یقیناًاللہ تعالیٰ تمہیں اپنے آباء واجداد کی قسم کھانے سے منع فرمایاہے پس اگرکسی کوقسم ہی کھانی ہوتووہ اللہ کی قسم کھائے ورنہ خاموش رہے۔[16]

ایک روایت میں ہے جس نے اللہ کے سواکسی چیزکی قسم اٹھائی اس نے شرک کیا۔

عَنْ سَعْدِ بْنِ عُبَیْدَةَ، قَالَ: سَمِعَ ابْنُ عُمَرَ، رَجُلًا یَحْلِفُ: لَا وَالْكَعْبَةِ، فَقَالَ لَهُ ابْنُ عُمَرَ: إِنِّی سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَقُولُ:مَنْ حَلَفَ بِغَیْرِ اللهِ فَقَدْ أَشْرَكَ

سعدبن عبیدہ سے مروی ہے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے کسی کوسناکہ وہ کعبہ کی قسم کھارہاتھاتوانہوں نے اس سے کہابے شک میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سناجس نے اللہ کے علاوہ کسی اورکی قسم اٹھائی اس نے شرک کیا۔ [17]

عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: كَانَ عُمَرُ یَحْلِفُ: وَأَبِی، فَنَهَاهُ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:مَنْ حَلَفَ بِشَیْءٍ دُونَ اللهِ تَعَالَى فَقَدْ أَشْرَكَ، وَقَالَ الْآخَرُ:فَهُوَ شِرْكٌ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے سیدناعمر رضی اللہ عنہ نے اپنے باپ کی قسم کھائی تونبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پکارکرفرمایاجس نے اللہ کے علاوہ کسی اورکی قسم اٹھائی اس نے شرک کیااوربعدمیں فرمایایہ شرک ہے۔[18]

ایک روایت میں ہے اس نے کفرکیا۔

عَنْ سَعْدِ بْنِ عُبَیْدَةَ، أَنَّ ابْنَ عُمَرَ سَمِعَ رَجُلاً یَقُولُ: لاَ وَالكَعْبَةِ، فَقَالَ ابْنُ عُمَرَ: لاَ یُحْلَفُ بِغَیْرِ اللهِ، فَإِنِّی سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَقُولُ: مَنْ حَلَفَ بِغَیْرِ اللهِ فَقَدْ كَفَرَ أَوْ أَشْرَكَ

سعدبن عبیدہ سے مروی ہےعبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے کسی کوسناکہ وہ کعبہ کی قسم کھارہاتھاتوعبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے اس سے کہااللہ کے سواقسم نہیں کھاناچاہیے میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سناآپ فرماتے تھےجس نے اللہ کے علاوہ کسی اورکی قسم اٹھائی اس نے کفرکیایا شرک کیا۔[19]

غیراللہ کی قسم کھاناخواہ وہ کعبہ کی ہویافرشتے یاانبیاء یااولیاء صالحین یاآباء واجدادوغیرہ کی اسے گویااللہ کے ہم پلہ ٹھیراناہے یااس کی سی صفات سے موصوف سمجھناہے جوکہ واضح شرک ہے ،جس سے ایساہوجائے اسے چاہیے کہ وہ ایمان کی تجدیدکرے اور لاالٰہ الااللہ پڑھے۔

بعض حضرات نے یہ اشکال پیداکیاہے کہ ایک طرف توغیراللہ کی قسم اٹھانے کی ممانعت ہے اوردوسری طرف اللہ تعالیٰ نے خود غیراللہ یعنی مخلوقات وغیرہ کی قسم اٹھائی ہے ، جیسے اوپرسورہ الشمس میں گزرچکاہے۔

طلحہ رضی اللہ عنہ بن عبیداللہ سے مروی ہے وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں ایک شخص نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سےنماز،روزہ ،زکوٰة وغیرہ کے بارے میں دریافت کیاآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے جواب دیا

قَالَ: فَأَدْبَرَ الرَّجُلُ، وَهُوَ یَقُولُ: وَاللهِ، لَا أَزِیدُ عَلَى هَذَا، وَلَا أَنْقُصُ مِنْهُ،فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: أَفْلَحَ إِنْ صَدَقَ

جب وہ شخص پیٹھ موڑکرچلاتوکہتاجاتاتھااللہ کی قسم !میں نہ ان میں سے زیادتی کروں گااورنہ ان میں کمی کروں گا،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااس نے فلاح پائی اگراس نے سچ کہاہے۔[20]

انہی سے ایک دوسری روایت میں یہ الفاظ ہیں

قَالَ: فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:أَفْلَحَ، وَأَبِیهِ إِنْ صَدَقَ، أَوْ دَخَلَ الْجَنَّةَ وَأَبِیهِ إِنْ صَدَقَ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیہاتی کے متعلق کہااس کے باپ کی قسم !وہ کامیاب ہوگیااگراس نے سچ کہا ہے یااس کے باپ کی قسم !جنت میں جائے گااگراس نے سچ کہاہے ۔ [21]

اس کاجواب یوں دیاگیاہےاس جیسی قسموں میں رب کالفظ مضمرہے جیسے وَرَبِّ الشَّمْسُ اوروَرَبِّ أَبِیهِ وغیرہ،ایسی قسمیں صرف اللہ تعالیٰ کے ساتھ خاص ہیں أَفْلَحَ، وَأَبِیهِ کے الفاظ ثابت ہی نہیں بلکہ یہ لفظ ثابت ہیں  َٔفْلَحَ وَاللهِ إِنْ صَدَقَ جیسا کہ امام ابن عبدالبر رحمہ اللہ نے یہ وضاحت کی ہے۔

ممانعت ایسی قسم سے ہے جسے غیراللہ کی تعظیم کی غرض سے اٹھایاجائے جب کہ وہ قسم ممنوع نہیں ہے جسے عرب لوگ کلام میں تاکید پیداکرنے کے لئے اٹھایاکرتے تھے تاہم یہ مکروہ ضرورہے کیونکہ غیراللہ کی قسم سے ممانعت صحیح دلائل سے ثابت ہے اوریہی قول راجح ہے۔

xکیاقرآن مجیدکی قسم اٹھائی جاسکتی ہے۔

لِأَنَّ الْحَالِفَ بِالْمُصْحَفِ إنَّمَا قَصَدَ الْحَلِفَ بِالْمَكْتُوبِ فِیهِ، وَهُوَ الْقُرْآنُ، فَإِنَّهُ بَیْنَ دَفَّتَیْ الْمُصْحَفِ بِإِجْمَاعِ الْمُسْلِمِینَ

قرآن مجیدکی قسم اٹھانا جائز ہے کیونکہ یہ اللہ کی صفت کلام ہے ،اکثروبیشترفقہاء نے اسی کے مطابق فتوی دیاہے۔[22]

أُقْسِمُ عِنْدَ قِرَانِ النِّیَّةِ بِالْقَسَمِ كَذَا؛ لِأَنَّ أَصْلَهُ الْحَالُ فِی اسْتِعْمَالِ الْفُقَهَاءِ

میں قسم اٹھاتے وقت قسم کو کسی نیت سے جوڑتا ہوں کیونکہ فقہاء کے نزدیک قسم کا استعمال صورتحال کے مطابق ہے۔ (فتح القدیر۷۴؍۵)

xجس شخص نے قسم کے وقت ان شاء اللہ کہاتواس نے استثناء کردیااب اس کی قسم کسی صورت نہیں ٹوٹے گی۔

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ،أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: مَنْ حَلَفَ عَلَى یَمِینٍ، فَقَالَ: إِنْ شَاءَ اللهُ لَمْ یَحْنَثْ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجس نے قسم اٹھاتے وقت ان شاء اللہ کہہ دیااس پرقسم توڑنے کاکفارہ نہیں ۔[23]

 عَنْ عِكْرِمَةَ، یَرْفَعُهُ، قَالَ:أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: وَاللهِ لَأَغْزُوَنَّ قُرَیْشًا، لَأَغْزُوَنَّ قُرَیْشًا، ثُمَّ سَكَتَ سَاعَةً، ثُمَّ قَالَ: إِنْ شَاءَ اللهُ،قَالَ:ثُمَّ لَمْ یَغْزُهُمْ

عکرمہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تین مرتبہ قسم اٹھاکرکہااللہ کی قسم میں ضرور قریش سے جنگ کروں گا،پھرآخرمیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا اگراللہ نے چاہا اور پھرآپ نے ان سے غزوہ نہ کیا۔[24]

حكم الألبانی: ضعیف

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ،عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: قَالَ: سُلَیْمَانُ بْنُ دَاوُدَ لَأَطُوفَنَّ اللیْلَةَ عَلَى سَبْعِینَ امْرَأَةً، تَحْمِلُ كُلُّ امْرَأَةٍ فَارِسًا یُجَاهِدُ فِی سَبِیلِ اللهِ،فَقَالَ لَهُ صَاحِبُهُ: إِنْ شَاءَ اللهُ، فَلَمْ یَقُلْ ،وَلَمْ تَحْمِلْ شَیْئًا إِلَّا وَاحِدًا، سَاقِطًا أَحَدُ شِقَّیْهِ، فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: لَوْ قَالَهَا لَجَاهَدُوا فِی سَبِیلِ اللهِ،قَالَ شُعَیْبٌ وَابْنُ أَبِی الزِّنَادِ: تِسْعِینَ وَهُوَ أَصَحُّ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاسلیمان بن داود علیہ السلام نے کہا میں آج رات میں اپنی ستربیویوں کے پاس جاؤں گااورہربیوی ایک شہسوارجنے گی جواللہ کے راستے میں جہادکرے گا،ان کے ساتھی نے کہاان شاء اللہ لیکن انہوں نے نہیں کہاچنانچہ کسی بیوی کے یہاں بھی بچہ پیدانہیں ہواصرف ایک کے یہاں ہوااوراس کی بھی ایک جانب بیکارتھی،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااگرسلیمان ان شاء اللہ کہہ دیتے( توسب کے یہاں بچے پیداہوتے )اوراللہ کے راستے میں جہادکرتے،شعیب اورابن ابی الزنادنے(بجائے سترکے)نوے کہاہے اوریہی بیان زیادہ صحیح ہے۔[25]

الإجماع على ذلك

اس مسئلہ پرمسلمانوں کااجماع ہے۔[26]

xجس شخص نے کسی چیزکی قسم اٹھائی پھراسے بہترکام نظرآیاتووہ کیاکرے۔

عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ سَمُرَةَ، قَالَ: قَالَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:یَا عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ سَمُرَةَ، لاَ تَسْأَلِ الإِمَارَةَ، فَإِنَّكَ إِنْ أُوتِیتَهَا عَنْ مَسْأَلَةٍ وُكِلْتَ إِلَیْهَا، وَإِنْ أُوتِیتَهَا مِنْ غَیْرِ مَسْأَلَةٍ أُعِنْتَ عَلَیْهَا، وَإِذَا حَلَفْتَ عَلَى یَمِینٍ، فَرَأَیْتَ غَیْرَهَا خَیْرًا مِنْهَا، فَكَفِّرْ عَنْ یَمِینِكَ وَأْتِ الَّذِی هُوَ خَیْرٌ

عبدالرحمٰن بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے عبدالرحمن بن سمرہ رضی اللہ عنہ امارت طلب نہ کر اس لئے اگر تمہیں طلب کرنے کے بعد امارت دیدی گئی تو تم اس کے حوالے کردئیے جاؤ گے اور اگر بغیر مانگے تمہیں مل جائے تو تمہاری مدد کی جائے گی،اور جب تم کسی کام پر قسم کھاواوراس کے مخالف کام کوبہترسمجھوتوبہترکام کرلواورقسم کاکفارہ اداکردو،اورایک روایت میں یہ لفظ ہیں کہ قسم کاکفارہ اداکردواوربہترکام کرلو۔[27]

فقال أبو حنیفة:لا یجوز تقدیم الكفارة على الحنث،وقال الشافعی: یجوز تقدیمها على الحنث

امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کاموقف ہے یہ جائزنہیں ہے کہ قسم توڑنے سے پہلے کفارہ ادا کر دیا جائے ۔امام شافعی رحمہ اللہ کاموقف ہے کہ ایساکرنابھی جائزہے۔

امام شافعی رحمہ اللہ کاموقف راجح ہے جیساکہ گزشتہ حدیث میں دونوں صورتوں کاذکرہے اورامام بخاری رحمہ اللہ نے یہ باب قائم کیاہے ،

بَابُ الكَفَّارَةِ قَبْلَ الحِنْثِ وَبَعْدَهُ

قسم کاکفارہ ،قسم توڑنے سے پہلے اوراس کےبعددونوں طرح دے سکتاہے۔

xجسے قسم اٹھانے پرمجبورکیاجائے توقسم اس پرلازم نہیں ہوگی اوراسے توڑنے سے وہ گناہ گاربھی نہیں ہوگا۔

اللہ تبارک وتعالیٰ نے فرمایا

مَنْ كَفَرَ بِاللهِ مِنْ بَعْدِ إِیمَانِهِ إِلَّا مَنْ أُكْرِهَ وَقَلْبُهُ مُطْمَئِنٌّ بِالْإِیمَانِ وَلَكِنْ مَنْ شَرَحَ بِالْكُفْرِ صَدْرًا فَعَلَیْهِمْ غَضَبٌ مِنَ اللهِ وَلَهُمْ عَذَابٌ عَظِیمٌ [28]

ترجمہ:جوشخص اپنے ایمان کے بعداللہ سے کفرکرے بجزاس کے جسے مجبورکیاگیاہواوراس کادل ایمان پر برقرار ہو مگر جو کھلے دل سے کفرکریں توان پراللہ کاغضب ہے اورانہی کے لئے بہت بڑاعذاب ہے۔

امام بخاری رحمہ اللہ نے صحیح بخاری میں یہ باب قائم کیاہے

كَیْفَ كَانَ بَدْءُ الوَحْیِ إِلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ؟

اوراس کے تحت یہ روایت نقل کی ہے

إِنَّمَا الأَعْمَالُ بِالنِّیَّات

عملوں کادارومدارصرف نیتوں پرہے۔ [29]

اورباب قائم کیا

 بَابُ النِّیَّةِ فِی الأَیْمَانِ

باب قسموں میں نیت کااعتبارہوگا ۔[30]

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:إِنَّ اللهَ قَدْ تَجَاوَزَ عَنْ أُمَّتِی الْخَطَأَ، وَالنِّسْیَانَ، وَمَا اسْتُكْرِهُوا عَلَیْهِ

ابوذرغفاری رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایامیری امت سے خطا،نسیان اورجس کام پر مجبور کیا گیا ہواس کاگناہ مٹادیاگیاہے۔[31]

ا ن دلائل سے معلوم ہواکہ قصداًاگرکسی کام پرقسم اٹھائی جائے تب ہی اسے پوراکرنالازم ہوگااوراسے توڑنے کی صورت میں کفارہ اداکرناپڑے گا بصورت دیگرایساکچھ ضروری نہیں ہے، نیزفقہانے بھی اسی بات کوترجیح دی ہے کہ قسم میں شرط ہے کہ انسان کومجبورنہ کیاگیاہو۔[32]

xلغو(بے مقصد)قسموں پرکوئی مواخذہ نہیں ۔

اللہ تبارک وتعالیٰ نے فرمایا

وَلَا تَتَّخِذُوْٓا اَیْمَانَكُمْ دَخَلًۢا بَیْنَكُمْ فَتَزِلَّ قَدَمٌۢ بَعْدَ ثُبُوْتِهَا وَتَذُوْقُوا السُّوْۗءَ بِمَا صَدَدْتُّمْ عَنْ سَبِیْلِ اللهِ۝۰ۚ وَلَكُمْ عَذَابٌ عَظِیْمٌ۝۹۴ [33]

ترجمہ:اوراے مسلمانو!تم اپنی قسموں کوآپس میں ایک دوسرے کودھوکادینے کاذریعہ نہ بنالینا ،کہیں ایسانہ ہوکہ کوئی قدم جمنے کے بعد اکھڑ جائے اورتم اس جرم کی پاداش میں کہ تم نے لوگوں کواللہ کی راہ سے روکابرانتیجہ دیکھواورسزابھگتو۔

یعنی ایسانہ ہوکہ کوئی شخص اسلام کی صداقت کاقائل ہوجانے کے بعدمحض تمہاری بداخلاقی دیکھ کراس دین سے برگشتہ ہوجائے اوراس وجہ سے وہ اہل ایمان کے گروہ میں شامل ہونے سے رک جائے کہ اس گروہ کے جن لوگوں سے اس کوسابقہ پیش آیاہوان کواخلاق اورمعاملات میں اس نے کفارسے کچھ بھی مختلف نہ پایاہو۔

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو،عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: الكَبَائِرُ: الإِشْرَاكُ بِاللهِ، وَعُقُوقُ الوَالِدَیْنِ، وَقَتْلُ النَّفْسِ، وَالیَمِینُ الغَمُوسُ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ و سے مروی ہےنبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکبیرہ گناہ یہ ہیں ،اللہ کے ساتھ شرک کرنااوروالدین کی نافرمانی کرنااورکسی جان کو(ناحق)قتل کرنا اورقصداًجھوٹی قسم کھانا۔[34]

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: جَاءَ أَعْرَابِیٌّ إِلَى النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: یَا رَسُولَ اللهِ، مَا الكَبَائِرُ؟ قَالَ:الإِشْرَاكُ بِاللهِ، قَالَ: ثُمَّ مَاذَا؟ قَالَ:ثُمَّ عُقُوقُ الوَالِدَیْنِ، قَالَ: ثُمَّ مَاذَا؟ قَالَ:الیَمِینُ الغَمُوسُ،قُلْتُ: وَمَا الیَمِینُ الغَمُوسُ؟ قَالَ:الَّذِی یَقْتَطِعُ مَالَ امْرِئٍ مُسْلِمٍ، هُوَ فِیهَا كَاذِبٌ

عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہےایک بدوی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیااورکہنے لگااے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !بڑے بڑے گناہ کون سے ہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااللہ کے ساتھ شرک کرنا،اس نے پوچھاپھرکونساگناہ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاماں باپ کوستانا،اس نے پوچھاپھرکونساگناہ ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاغموس قسم کھانا،عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ نے کہااے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !غموس قسم کیاہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجان بوجھ کرکسی مسلمان کامال مارلینے کے لیے جھوٹی قسم کھانا۔[35]

والیمین الغموس هی التی یعلم الحالف كذبها

اکثرفقہاکی رائے یہ ہے کہ یمین غموس وہ ہے جس کابطلان قسم اٹھانے والے کے علم میں ہو۔[36]

اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے فرمایا

لَا یُؤَاخِذُكُمُ اللهُ بِاللغْوِ فِی أَیْمَانِكُمْ وَلَكِنْ یُؤَاخِذُكُمْ بِمَا عَقَّدْتُمُ الْأَیْمَانَ۔۔۔[37]

ترجمہ:تم لوگ جومہمل قسمیں کھالیتے ہوان پراللہ گرفت نہیں کرتامگرجوقسمیں تم جان بوجھ کرکھاتے ہوان پروہ ضرورتم سے مواخذہ کرے گا۔

عَنْ عَائِشَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهَا:أُنْزِلَتْ هَذِهِ الآیَةُ:لاَ یُؤَاخِذُكُمُ اللهُ بِاللغْوِ فِی أَیْمَانِكُمْ،قَوْلِ الرَّجُلِ: لاَ وَاللهِ وَبَلَى وَاللهِ

ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں مذکورہ آیت کامصداق ایسے شخص کوٹھیراتی ہیں جواس طرح باربارقسمیں کھائے،نہیں اللہ کی قسم ،ہاں اللہ کی قسم۔[38]

قسم کی اقسام :

قسم کی تین اقسام ہیں :لغو،غموس اورمعقد۔

وَإِنَّهُ قَوْلُ الرَّجُلِ فِی الْكَلَامِ مِنْ غَیْرِ قَصْدٍ: لَا وَاللهِ، بَلَى وَاللهِ

لغوقسم وہ ہے جوانسان بات بات میں عادتا ًبغیرارادے اورنیت کے کھاتارہتاہےاس پرکوئی مواخذہ نہیں ۔

غموس وہ جھوٹی قسم ہے جوانسان دھوکہ اورفریب دینے کے لئے کھائے یہ گناہ کبیرہ ہے لیکن اس پرکوئی کفارہ نہیں ۔

تؤكد به كلامها معقدوہ قسم ہے جوانسان اپنی بات میں تاکیداورپختگی کے لئے ارادة اورنیة کھائے،ایسی قسم اگرتوڑے گاتواس کاکفارہ اداکرناپڑے گا[39]

أن اللغو حلف الإنسان على الشیء یستیقن أنه كذلك، ثم یوجد على غیر ذلك؛ فهو اللغو

امام مالک رحمہ اللہ اوراحناف کے نزدیک کسی چیزکوسچاگمان کرتے ہوئے اس پرقسم اٹھانا لغو قسم ہے۔

وَهِیَ أَنْ یُخْبِرَ عَنْ الْمَاضِی أَوْ عَنْ الْحَالِ عَلَى الظَّنِّ أَنَّ الْمَخْبَرَ بِهِ

جمہورکے نزدیک لغوقسم یہ ہے کہ کوئی شخص گزشتہ واقعہ کی خبردیتے ہوئے کہے کہ اللہ کی قسم میں نے ایسے نہیں کیا۔[40]

فاللغو: هی ما لم یقصد؛ كقول الرجل: لا والله، وبلى والله؛ فی محاوراته من غیر قصد للیمین؛ سواء كان فی حال الیمین أم لا.فلو لم یرد فی اللغو إلا وقوعها فی القرآن مقابلة للمعقودة

راجح یہ ہے کہ لغویمین وہ ہے جو غیرارادی طور پر اٹھائی جائے کیونکہ قرآن میں لغویمین کوارادی قسم کے مقابلے میں بیان کیاگیاہے۔[41]

فَیَنْقَسِمُ بِحَسَبِهِ إلَى أَقْسَامٍ خَمْسَةٍ إمَّا أَنْ یَكُونَ مَعْلُومَ الصِّدْقِ أَوْ مَعْلُومَ الْكَذِبِ أَوْ مَظْنُونَ الصِّدْقِ أَوْ مَظْنُونَ الْكَذِبِ أَوْ مَشْكُوكًا فِیهِ

بعض حضرات معقدہ قسم کی پانچ قسمیں کرتے ہیں ۔سچی قسم اوریہ جائزہے۔جھوٹی قسم جس کاجھوٹ واضح ہواوروہ حرام ہے۔جس کی سچائی کاگمان ہویہ ناجائزہے۔جس کے جھوٹ کاگمان ہویہ حرام ہے ۔جس کے سچ اورجھوٹ میں شک ہویہ بھی حرام ہے۔[42]

أَنَّ اللغْوَ مِنْ الْأَیْمَانِ مَا لَا یَكُونُ عَنْ قَصْدِ الْحَلِفِ وَإِنَّمَا جَرَى عَلَى اللِّسَانِ مِنْ غَیْرِ إرَادَةِ الْحَلِفِ

اورجوقسم قلبی ارادے کے بغیر ہو بلکہ عادتاًزبان سے نکل جائے تواسی کو اللغْوالْیَمِین کہتے ہیں ۔[43]

لَا فَرْقَ بَیْنَ تَحْلِیلِ الْحَرَامِ وَتَحْرِیمِ الْحَلَالِ فَلَمَّا كَانَ الْأَوَّلُ بَاطِلًا فَلْیَكُنْ الثَّانِی بَاطِلًا. ثُمَّ قَوْلُهُ هِیَ حَرَامٌ إنْ أَرَادَ بِهِ الْإِنْشَاءَ، فَإِنْشَاءُ التَّحْرِیمِ لَیْسَ إلَیْهِ، وَإِنْ أَرَادَ بِهِ الْإِخْبَارَ، فَهُوَ كَذِبٌ

حرام کو حلال قراردینا اور حلال کو حرام کہنے میں کوئی فرق نہیں اگر پہلی چیز غلط ہے تو پھر دوسری چیز (حلال کو حرام کہنا) بھی غلط ہے پھر ان کا یہ کہنا کہ وہ حرام ہے اگر اس سے مراد انشائیہ کلام ہے تو انشائے حرمت کی مرجع وہ نہیں اور اگر ان کی مراد خبر دینا ہے تو یہ کذب بیانی ہے۔[44]

x مسلمان کادوسرے مسلمان پریہ حق ہے کہ اگروہ اس پرکوئی قسم ڈالے تووہ اسے پوراکرے۔

البَرَاءَ بْنَ عَازِبٍ، رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُمَا یَقُولُ: وَأَمَرَنَا بِسَبْعٍ،وَإِبْرَارِ المُقْسِمِ

براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں سات چیزوں کاحکم دیا(ان میں سے ایک یہ ہے کہ)(کسی بات پر)قسم کھالینے والے کی قسم پوری کرانا ۔[45]

x قسم توڑنے کاکفارہ وہی ہے جواللہ تعالیٰ نے اپنی مقدس کتاب میں بیان کیاہے۔

عَنْ عَائِشَةَ، أَنَّهَا قَالَتْ: أَهْدَتْ إِلَیْهَا امْرَأَةٌ تَمْرًا فِی طَبَقٍ، فَأَكَلَتْ بَعْضًا وَبَقِیَ بَعْضٌ ، فَقَالَتْ: أَقْسَمْتُ عَلَیْكِ إِلَّا أَكَلْتِ بَقِیَّتَهُ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:أَبِرِّیهَا، فَإِنَّ الْإِثْمَ عَلَى الْمُحَنِّثِ

ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہےایک عورت نے انہیں کھجورکاہدیہ دیامیں نے اس کاکچھ حصہ کھالیااورکچھ چھوڑدیا،اس نے کہامیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم پرقسم ڈالتی ہوں کہ آپ اس کاباقی حصہ بھی کھالیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااسے پوراکروکیونکہ قسم توڑنے والے پرہی گناہ ہے[46]

xکسی عذرکی وجہ سے قسم پوری نہ کرسکے تو۔

اس پرکوئی گناہ نہیں جیساکہ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کی حدیث سے یہ بات ثابت ہے۔

أَنَّ ابْنَ عَبَّاسٍ، رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُمَا، كَانَ یُحَدِّثُ:أَنَّ رَجُلًا أَتَى رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: إِنِّی رَأَیْتُ اللیْلَةَ فِی المَنَامِ ظُلَّةً تَنْطُفُ السَّمْنَ وَالعَسَلَ، فَأَرَى النَّاسَ یَتَكَفَّفُونَ مِنْهَا، فَالْمُسْتَكْثِرُ وَالمُسْتَقِلُّ، وَإِذَا سَبَبٌ وَاصِلٌ مِنَ الأَرْضِ إِلَى السَّمَاءِ، فَأَرَاكَ أَخَذْتَ بِهِ فَعَلَوْتَ،ثُمَّ أَخَذَ بِهِ رَجُلٌ آخَرُ فَعَلاَ بِهِ، ثُمَّ أَخَذَ بِهِ رَجُلٌ آخَرُ فَعَلاَ بِهِ، ثُمَّ أَخَذَ بِهِ رَجُلٌ آخَرُ فَانْقَطَعَ ثُمَّ وُصِلَ،

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہےایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! میں نے خواب میں ایک چھتری دیکھی ہے جس سے گھی اور شہد ٹپک رہے ہیں اور لوگ اس سے سمیٹ رہے ہیں کوئی زیادہ لے رہا ہے اور کوئی کم،اور ایک رسی میں نے آسمان سے زمین تک لٹکی ہوئی دیکھی میں نے دیکھا کہ آپ نے اس کو پکڑا اور چڑھ گئے ،پھر آپ کے بعد ایک دوسرے شخص نے پکڑا اور وہ بھی چڑھ گیا،پھر اس کے بعد تیسرے شخص نے پکڑا اور وہ بھی چڑھ گیا،پھر اس کو اور شخص نے پکڑا تو وہ رسی ٹوٹ گئی اور پھر جڑ گئی،

فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ: یَا رَسُولَ اللهِ، بِأَبِی أَنْتَ، وَاللهِ لَتَدَعَنِّی فَأَعْبُرَهَا فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ اعْبُرْهَا، قَالَ: أَمَّا الظُّلَّةُ فَالإِسْلاَمُ، وَأَمَّا الَّذِی یَنْطُفُ مِنَ العَسَلِ وَالسَّمْنِ فَالقُرْآنُ، حَلاَوَتُهُ تَنْطُفُ، فَالْمُسْتَكْثِرُ مِنَ القُرْآنِ وَالمُسْتَقِلُّ، وَأَمَّا السَّبَبُ الوَاصِلُ مِنَ السَّمَاءِ إِلَى الأَرْضِ فَالحَقُّ الَّذِی أَنْتَ عَلَیْهِ، تَأْخُذُ بِهِ فَیُعْلِیكَ اللهُ، ثُمَّ یَأْخُذُ بِهِ رَجُلٌ مِنْ بَعْدِكَ فَیَعْلُو بِهِ، ثُمَّ یَأْخُذُ بِهِ رَجُلٌ آخَرُ فَیَعْلُو بِهِ، ثُمَّ یَأْخُذُهُ رَجُلٌ آخَرُ فَیَنْقَطِعُ بِهِ، ثُمَّ یُوَصَّلُ لَهُ فَیَعْلُو بِهِ، فَأَخْبِرْنِی یَا رَسُولَ اللهِ، بِأَبِی أَنْتَ، أَصَبْتُ أَمْ أَخْطَأْتُ؟ قَالَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:أَصَبْتَ بَعْضًا وَأَخْطَأْتَ بَعْضًا، قَالَ: فَوَاللهِ یَا رَسُولَ اللهِ لَتُحَدِّثَنِّی بِالَّذِی أَخْطَأْتُ، قَالَ:لاَ تُقْسِمْ

سیدنا ابوبکر نے عرض کیا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! مجھے اجازت دیں میں اس کی تعبیر بیان کروں ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بیان کرو،انہوں نے کہا کہ چھتری تو اسلام ہے اور گھی شہد جو اس سے ٹپک رہے ہیں وہ قرآن کی تلاوت ہے جو اس سے ٹپک رہی ہے اور اس سے لوگ کم وبیش لے رہے ہیں ،اور وہ رسی جو آسمان سے زمین تک لٹکی ہوئی ہے وہ حق ہے جس پر آپ ہیں ، آپ کے بعد اس کو پکڑیں گے جس سے اللہ آپ کو اوپر چڑھائے گا، پھر آپ کے بعد اس کو دوسرا پکڑے گا اور چڑھے گا، پھر اس کے بعد تیسراپکڑے گا اور چڑھے گا پھر اس کو ایک شخص پکڑے گا اور وہ رسی ٹوٹ جائے گی پھر اس کو جوڑا جائے گا اور وہ اس کے ذریعے چڑھے گا،اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم میرے ماں باپ آپ پر قربان کیا میں نے صحیح کہا یا غلط؟نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کچھ صحیح کہا اور کچھ غلط،انہوں نے کہا کہ اللہ کی قسم آپ مجھے بتلادیں کے میں نے کیا غلطی کی ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ قسم مت دو۔[47]

ارشادباری تعالیٰ ہے

۔۔۔فَكَفَّارَتُهٗٓ اِطْعَامُ عَشَرَةِ مَسٰكِیْنَ مِنْ اَوْسَطِ مَا تُطْعِمُوْنَ اَهْلِیْكُمْ اَوْ كِسْوَتُهُمْ اَوْ تَحْرِیْرُ رَقَبَةٍ۝۰ۭ فَمَنْ لَّمْ یَجِدْ فَصِیَامُ ثَلٰــثَةِ اَیَّامٍ ۔۔۔ ۝۸۹ [48]

ترجمہ:(ایسی قسم توڑنے کا)کفارہ یہ ہے کہ دس مسکینوں کووہ اوسط درجہ کاکھاناکھلاؤجوتم اپنے بال بچوں کوکھلاتے ہویاانہیں کپڑے پہناؤیاایک غلام آزادکرواورجواس کی استطاعت نہ رکھتاہووہ تین دن کے روزے رکھے۔

یَا أَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا إِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَیْسِرُ وَالْأَنصَابُ وَالْأَزْلَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّیْطَانِ فَاجْتَنِبُوهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ ‎﴿٩٠﴾‏ إِنَّمَا یُرِیدُ الشَّیْطَانُ أَن یُوقِعَ بَیْنَكُمُ الْعَدَاوَةَ وَالْبَغْضَاءَ فِی الْخَمْرِ وَالْمَیْسِرِ وَیَصُدَّكُمْ عَن ذِكْرِ اللَّهِ وَعَنِ الصَّلَاةِ ۖ فَهَلْ أَنتُم مُّنتَهُونَ ‎﴿٩١﴾‏ وَأَطِیعُوا اللَّهَ وَأَطِیعُوا الرَّسُولَ وَاحْذَرُوا ۚ فَإِن تَوَلَّیْتُمْ فَاعْلَمُوا أَنَّمَا عَلَىٰ رَسُولِنَا الْبَلَاغُ الْمُبِینُ ‎﴿٩٢﴾‏ لَیْسَ عَلَى الَّذِینَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ جُنَاحٌ فِیمَا طَعِمُوا إِذَا مَا اتَّقَوا وَّآمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ ثُمَّ اتَّقَوا وَّآمَنُوا ثُمَّ اتَّقَوا وَّأَحْسَنُوا ۗ وَاللَّهُ یُحِبُّ الْمُحْسِنِینَ ‎﴿٩٣﴾‏(المائدہ)
’’ اے ایمان والو ! بات یہی ہے کہ شراب اور جوا اور تھان اور فال نکالنے کے پانسے سب گندی باتیں، شیطانی کام ہیں ان سے بالکل الگ رہو تاکہ تم فلاح یاب ہو ، شیطان تو یوں چاہتا ہے کہ شراب اور جوئے کہ ذریعے سے تمہارے آپس میں عداوت اور بغض واقع کرا دے اور اللہ تعالیٰ کی یاد سے اور نماز سے تمہیں باز رکھے سو اب بھی باز آجاؤ،اور تم اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرتے رہو اور رسول کی اطاعت کرتے رہو اور احتیاط رکھو،اگر اعراض کرو گے تو یہ جان رکھو کہ ہمارے رسول کے ذمہ صاف صاف پہنچا دینا ہے، ایسے لوگوں پر جو ایمان رکھتے ہوں اور نیک کام کرتے ہوں اس چیز میں کوئی گناہ نہیں جس کو وہ کھاتے پیتے ہوں جب کہ وہ لوگ تقویٰ رکھتے ہوں اور ایمان رکھتے ہوں اور نیک کام کرتے ہوں پھر پرہیزگاری کرتے ہوں اور خوب نیک عمل کرتے ہوں، اللہ ایسے نیکوکاروں سے محبت رکھتا ہے ۔‘‘

حرمت پانسہ بازی ،قماربازی اورشراب :شراب اورجوئے کے متعلق پہلے فرمایاگیاتھا

یَسْــَٔـلُوْنَكَ عَنِ الْخَــمْرِ وَالْمَیْسِرِ۝۰ۭ قُلْ فِیْهِمَآ اِثْمٌ كَبِیْرٌ وَّمَنَافِعُ لِلنَّاسِ ۡوَاِثْـمُهُمَآ اَكْبَرُ مِنْ نَّفْعِهِمَا ۔۔۔ ۝۲۱۹ۙ [49]

ترجمہ:پوچھتے ہیں شراب اور جوئے کاکیاحکم ہے ؟کہوان دونوں چیزوں میں بڑی خرابی ہے ،اگرچہ ان میں لوگوں کے لئے کچھ منافع بھی ہیں مگران کاگناہ ان کے فائدے سے بہت زیادہ ہے ۔

کیونکہ ممانعت نہیں تھی اس لئے لوگ اس سے لطف اندوزہوتے رہے ،ایک مرتبہ عبدالرحمٰن رضی اللہ عنہ بن عوف نے کچھ لوگوں کواپنے یہاں بلایا،وہاں انہوں نے شراب پی اورمدہوش ہوگئے ،اسی میں ایک مہاجر صحابی جومغرب کی نمازپڑھنے کھڑا ہوا تھااس نے نشے کی حالت میں یوں پڑھ دیا

قُلْ یٰٓاَیُّهَا الْكٰفِرُوْنَ۝۱ۙاَعْبُدُ مَا تَعْبُدُوْنَ۝۲

اس پربہ نسبت پہلے حکم کے زیادہ سخت دوسراحکم نازل ہوا

یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَقْرَبُوا الصَّلٰوةَ وَاَنْتُمْ سُكٰرٰى حَتّٰى تَعْلَمُوْا مَا تَقُوْلُوْنَ۔۔۔ ۝۴۳ [50]

ترجمہ:اے لوگوجوایمان لائے ہو!جب تم نشے کی حالت میں ہو تو نمازکے قریب نہ جاؤ،نمازاس وقت پڑھنی چاہیے جب تم جانوکہ کیاکہہ رہے ہو۔

اب لوگوں نے نمازوں کے وقت شراب چھوڑدی لیکن شغل برابرجاری رہا، لیکن یہاں ام الخبائث اوراس کے ساتھ قماربازی اوروہ مقامات جواللہ کے سواکسی دوسرے کی عبادت کرنے یااللہ کے سواکسی اورکے نام پرقربانی اورنذرونیازچڑھانے کے لئے مخصوص کیے گئے ہوں پرستش گاہوں یاتھانوں اورفال کے تیروں کو شیطانی کام قراردے کرصاف لفظوں میں ان سے اجتناب کاحکم دیا فرمایااے لوگوجوایمان لائے ہو! شراب اور جوا اوریہ آستانے اور پانسے یہ سب گندے شیطانی کام ہیں ،

عَنْ عَلِیِّ بْنِ أَبِی طَالِبٍ، أَنَّهُ كَانَ یَقُولُ: الشِّطْرَنْجُ مِنَ الْمَیْسِرِ

سیدناعلی رضی اللہ عنہ بن ابوطالب سے مروی ہے کہ شطرنج بھی جوا ہے۔ [51]

قَالَ عَلِیُّ بْنُ أَبِی طَلْحَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ: أَیْ سَخَط مِنْ عَمَلِ الشَّیْطَانِ

علی بن ابوطلحہ نے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کیاہے کہ یہ اعمال شیطان اللہ کوناراض کرنے والے ہیں ۔[52]

وَقَالَ زَیْدُ بْنُ أَسْلَمَ: أَیْ شَرٌّ مِنْ عَمَلِ الشَّیْطَانِ

زیدبن اسلم رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ شیطان کے اعمال میں سے بدترین ہیں ۔[53]

ان سے پرہیزکروامیدہے کہ تمہیں فلاح نصیب ہوگی،ان چیزوں کےمعاشرتی اوردینی نقصانات بیان فرمائے کہ شیطان تویہ چاہتا ہے کہ شراب اور جوئے کے ذریعہ سے تمہارے درمیان عداوت اور بغض ڈال دےاورتمہیں اللہ کے یادسے اورنمازسے روک دے پھرکیاتم ان شیطانی کاموں سے بازرہو گے؟ اللہ اوراس کے رسول کی بات مانواور باز آجاؤ، جواہل ایمان تھے وہ منشائے الٰہی کوسمجھ گئے اورکہا

فَقَالُوا: انْتَهَیْنَا رَبَّنَا

اے رب ہم بازآگئے۔[54]

قَالَ: فَقَالَ عُمَرُ انْتَهَیْنَا انْتَهَیْنَا

ایک روایت میں ہے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہاہم بازآگئے ہم بازآگئے۔[55]

لیکن اگرتم نے حکم عدولی کی توجان لوکہ ہمارے رسول پربس صاف صاف حکم پہنچادینے کی ذمہ داری تھی، چنانچہ اس واضح حکم کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اعلان کرایاکہ اب جن کے پاس شراب ہے وہ نہ اسے پی سکتے ہیں نہ بیچ سکتے ہیں بلکہ وہ اسے ضائع کردیں ،

عَنْ أَنَسٍ قَالَ: كُنْتُ أَسْقِی أَبَا عُبَیْدَةَ بْنَ الْجَرَّاحِ، وَأُبَیَّ بْنَ كَعْبٍ، وَسُهَیْلَ ابْنَ بَیْضَاءَ وَنَفَرًا مِنْ أَصْحَابِهِ عِنْدَ أَبِی طَلْحَةَ، وَأَنَا أَسْقِیهِمْ، حَتَّى كَادَ الشَّرَابُ أَنْ یَأْخُذَ فِیهِمْ، فَأَتَى آتٍ مِنَ الْمُسْلِمِینَ، فَقَالَ: أَوَمَا شَعَرْتُمْ أَنَّ الْخَمْرَ قَدْ حُرِّمَتْ، فَمَا قَالُوا: حَتَّى نَنْظُرَ وَ نَسْأَلَ ، فَقَالُوا: یَا أَنَسُ، أَكْفِئْ مَا بَقِیَ فِی إِنَائِكَ،قَالَ:فَوَاللهِ مَا عَادُوا فِیهَا وَمَا هِیَ إِلَّا التَّمْرُ وَالْبُسْرُ، وَهِیَ خَمْرُهُمْ یَوْمَئِذٍ

انس رضی اللہ عنہ بن مالک سے مروی ہے میں ابوعبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ ،ابی بن کعب ،سہل بن بیضاہ اورصحابہ کرام کی ایک جماعت کو ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کے ہاں شراب پلارہاتھا، دور چل رہاتھاسب لذت اندوزہورہے تھے قریب تھاکہ نشے کاپارہ بڑھ جائے، اتنے میں کسی صحابی نے آکرخبردی کہ کیاتمہیں علم نہیں شراب توحرام ہوگئی ؟انہوں نے یہ نہیں کہا کہ ہم اس مسئلے کے متعلق تحقیق کریں گے بلکہ ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نے فوراً کہااے انس رضی اللہ عنہ !بس کروتمہارے برتن میں جوباقی بچی شراب ہے اسے انڈیل دو،اللہ کی قسم !اس کے بعدایک قطرہ بھی ان میں سے کسی کے حلق میں نہیں گیا،یہ پکی اورکچی کھجوروں کی شراب تھی اورعموماً اسی کی شراب بناکرتی تھی[56]

 مُنَادِیًا یُنَادِى أَلاَ إِنَّ الْخَمْرَ قَدْ حُرِّمَتْ ….. فَجَرَتْ فِى سِكَكِ الْمَدِینَةِ

اس اعلان کے ساتھ ہی لوگوں نے مدینہ منورہ کی گلیوں میں شراب بہادی۔[57]

بعض لوگوں نے دریافت کیاکہ ہم یہودیوں کویہ تحفتاًکیوں نہ دے دیں ؟فرمایاجس نے یہ چیزحرام کی ہے اس نے اسے تحفتاًدینے سے بھی منع فرمادیاہے۔

فَقَالَ: أَجْعَلُهُ خَلًّا؟ قَالَ: لَا،قَالَ: فَأَهْرَاقَهُ

ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نے پوچھاہم شراب کوسرکے میں کیوں نہ تبدیل کردیں ؟آپ نے اس سے بھی منع فرمایااورحکم دیا کہ نہیں اسے ضائع کردو۔[58]

أَنَّ طَارِقَ بْنَ سُوَیْدٍ الْجُعْفِیَّ سَأَلَ النَّبِیَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عَنْ الْخَمْرِ فَنَهَاهُ أَوْ كَرِهَ لَهُ أَنْ یَصْنَعَهَا فَقَالَ إِنَّمَا نَصْنَعُهَا لِلدَّوَاءِ فَقَالَ إِنَّهُ لَیْسَ بِدَوَاءٍ وَلَكِنَّهُ دَاءٌ

طارق بن سوید رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے بارگاہ نبوت میں عرض کیا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! ہم لوگ انگوروں کے علاقے میں رہتے ہیں کیا ہم انہیں نچوڑ کر (ان کی شراب) پی سکتے ہیں ؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں میں نے اپنی بات کی تکرار کی، تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر فرمایا نہیں ، میں نے عرض کیا کہ ہم مریض کو علاج کے طور پر پلاسکتے ہیں ؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس میں شفاء نہیں بلکہ یہ تو نری بیماری ہے۔[59]

وَقَالَ ابْنُ مَسْعُودٍ، فِی السَّكَرِ: إِنَّ اللهَ لَمْ یَجْعَلْ شِفَاءَكُمْ فِیمَا حَرَّمَ عَلَیْكُمْ

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما نے نشہ آورچیز کے بارے میں کہا اللہ تعالیٰ نے اس چیزمیں شفانہیں رکھی جو تم پرحرام کردی گئی ہے۔[60]

عَنْ دَیْلَمٍ الْحِمْیَرِیِّ، قَالَ: سَأَلْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَقُلْتُ: یَا رَسُولَ اللهِ، إِنَّا بِأَرْضٍ بَارِدَةٍ نُعَالِجُ فِیهَا عَمَلًا شَدِیدًا وَإِنَّا نَتَّخِذُ شَرَابًا مِنْ هَذَا الْقَمْحِ نَتَقَوَّى بِهِ عَلَى أَعْمَالِنَا وَعَلَى بَرْدِ بِلَادِنَا، قَالَ:هَلْ یُسْكِرُ؟ قُلْتُ: نَعَمْ، قَالَ: فَاجْتَنِبُوهُ،قَالَ: قُلْتُ: فَإِنَّ النَّاسَ غَیْرُ تَارِكِیهِ، قَالَ:فَإِنْ لَمْ یَتْرُكُوهُ فَقَاتِلُوهُمْ

دیلم حمیری رضی اللہ عنہ سے مروی ہےانہوں نے کہامیں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیااورکہااے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !ہم ایک ایسے علاقے کے رہنے والے ہیں جونہایت سردہے اورہمیں پرمشقت کام کرناپڑتاہے،ہم اس گندم سے ایک مشروب بناتے ہیں جس سے اپنے کام میں طاقت حاصل کرتے اور سردی سے دفاع کرتے ہیں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایاکیایہ مشروب نشہ دیتا ہے؟میں نے عرض کیاہاں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تواس سے پرہیزکرو،میں نے عرض کیا مگر ہمارے علاقے کے لوگ تواسےنہیں چھوڑیں گے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایااگروہ نہ چھوڑیں توان سے قتال کرو۔[61]

ابْنَ عُمَرَ، یَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:لَعَنَ اللهُ الْخَمْرَ، وَشَارِبَهَا، وَسَاقِیَهَا، وَبَائِعَهَا، وَمُبْتَاعَهَا، وَعَاصِرَهَا، وَمُعْتَصِرَهَا، وَحَامِلَهَا ، وَالْمَحْمُولَةَ إِلَیْهِ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااللہ تعالیٰ نے لعنت فرمائی ہے شراب پراوراس کے پینے والے پراورپلانے والے پراوربیچنے والے پراور خریدنے والے پر اورکشیدکرنے والے پراورکشیدکرانے والے پراور ڈھوکر لے جانے والے پراوراس شخص پرجس کے لئے وہ ڈھوکرلے جائی گئی ہو[62]

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو , قَالَ: إِنَّ هَذِهِ الْآیَةَ الَّتِی فِی الْقُرْآنِ: {یَا أَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا إِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَیْسِرُ وَالْأَنْصَابُ وَالْأَزْلَامُ رِجْسٌ مِنْ عَمَلِ الشَّیْطَانِ فَاجْتَنِبُوهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ}[63] قَالَ: هِیَ فِی التَّوْرَاةِ: إِنَّ اللَّهَ أَنْزَلَ الْحَقَّ لِیُذْهِبَ بِهِ وَیُبْطِلَ بِهِ اللَّعِبَ وَالْمَزَامِیرَ وَالزَّفَنَ وَالْكَنَّانَاتِ یَعْنِی الْبِرَایَةَ , وَالزَّمَّارَاتِ یَعْنِی بِهِ الدُّفَّ وَالْقَنَابِیرَ وَالشِّعْرَ وَالْخَمْرَ لِمَنْ طَعِمَهَا , أَقْسَمَ اللَّهُ بِیَمِینِهِ وَعِزِّهِ مَنْ شَرِبَهَا بَعْدَ مَا حُرِّمَتْ لَأُعَطِّشَنَّهُ یَوْمَ الْقِیَامَةِ , وَمَنْ تَرَكَهَا بَعْدَ مَا حَرَّمْتُهَا لَأَسْقِیَنَّهُ إِیَّاهَا فِی جَنَّةِ الْفِرْدَوْسِ

عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے فرماتے ہیں کہ قرآن مجیدکی یہ آیت’’ اے لوگوجوایمان لائے ہو! شراب اورجوااوریہ آستانے اورپانسے یہ سب گندے شیطانی کام ہیں ان سے پرہیز کرو امید ہے کہ تمہیں فلاح نصیب ہو گی۔‘‘تورات میں بھی ہے، اللہ تعالیٰ نے حق کونازل فرمایاہے تاکہ اس کے ساتھ باطل کوختم کردے، اوراس کے ساتھ کھیل کود،آلات موسیقی بانسری،بربط،دف،طنبورے،غلط اشعاراورشراب کوحرام قراردے دیاہے،اللہ تعالیٰ نے اپنی عزت وجلال کی قسم کھاکرفرمایاہے کہ میرے حرام قرار دینے کے بعداگرکوئی شراب پیئے گاتومیں اسے قیامت کے روزضرورپیاسارکھوں گا اورمیرے حرام قراردینے کے بعدجس نے اسے ترک کردیااسے میں ضرورجنت الفردوس سے پلاؤں گا۔[64]

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُمَا: أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: مَنْ شَرِبَ الْخَمْرَ فِی الدُّنْیَا، ثُمَّ لَمْ یَتُبْ مِنْهَا حُرمها فِی الْآخِرَةِ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجوشخص دنیامیں شراب پیئے پھراس سے توبہ نہ کرے تووہ آخرت میں اس سے محروم رہے گا۔[65]

عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:كُلُّ مُسْكِرٍ خَمْرٌ وَكُلُّ مُسْكِرٍ حَرَامٌ، وَمَنْ شَرِبَ الْخَمْرَ فِی الدُّنْیَا فَمَاتَ وَهُوَ یُدْمِنُهَا لَمْ یَتُبْ، لَمْ یَشْرَبْهَا فِی الْآخِرَةِ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاہرنشہ آورچیزشراب ہے،اورہرنشہ آورحرام ہے، جوشخص (دنیامیں )ہمیشہ شراب پیتے ہوئے مرگیااوراس نے اس سے توبہ نہ کی، تووہ اسے آخرت میں نہیں پیئے گا۔[66]

عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: مَنْ كَانَ یُؤْمِنُ بِاللهِ، وَالْیَوْمِ الْآخِرِ فَلَا یَجْلِسْ عَلَى مَائِدَةٍ یُدَارُ عَلَیْهَا الْخَمْرُ

اور جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہےنبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص اللہ تعالیٰ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو وہ ایسے دسترخوان پر نہ بیٹھے جہاں شراب پی جاتی ہو۔[67]

ابتدا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان برتنوں تک کے استعمال کومنع فرمادیاتھاجن میں شراب بنائی اور پی جاتی تھی ،بعدمیں جب شراب کی حرمت کاحکم پوری طرح نافذہوگیاتب آپ نے برتنوں پر سے یہ قید اٹھا دی،خمرکالفظ عرب میں انگوری شراب کے لئے استعمال ہوتا تھا اورمجازاًگیہوں ،جو،کشمش ،کھجوراورشہدکی شرابوں کے لئے بھی یہ لفظ بولتے تھے مگر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حرمت کے اس حکم کوتمام ان چیزوں پرعام قراردیاجونشہ پیداکرنے والی ہوں ،

عَنِ ابْنِ عُمَرَ،أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:كُلُّ مُسْكِرٍ خَمْرٌ، وَكُلُّ مُسْكِرٍ حَرَامٌ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاہرنشہ آورچیزخمرہے اورہرنشہ آورچیزحرام ہے۔ [68]

عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: سُئِلَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الْبِتْعِ ، فَقَالَ:كُلُّ شَرَابٍ أَسْكَرَ فَهُوَ حَرَامٌ

ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے شہدکی شراب کے بارے میں پوچھاگیا،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایاہروہ مشروب جونشہ پیداکرے حرام ہے۔[69]

اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک اصول بیان فرمایا۔

عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:مَا أَسْكَرَ كَثِیرُهُ، فَقَلِیلُهُ حَرَامٌ

جابربن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس چیزکی کثیر مقدارنشہ پیدا کرے اس کی قلیل مقداربھی حرام ہے۔[70]

عَنْ عَائِشَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَقُولُ:كُلُّ مُسْكِرٍ حَرَامٌ، وَمَا أَسْكَرَ مِنْهُ الْفَرْقُ فَمِلْءُ الْكَفِّ مِنْهُ حَرَامٌ

ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سناآپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے ہرنشہ آور چیزحرام ہے جس کا بڑا پیالہ نشہ آورہوتواس کاایک چلوبھی حرام ہے۔[71]

یعنی صراحت کردی گئی کہ ہرنشہ آورچیزاس کی نوعیت خواہ کچھ ہو،وہ مقدارمیں تھوڑی ہویازیادہ حرام ہی ہے ۔

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: لَمَّا حُرِّمَتِ الْخَمْرُ قَالَ أُنَاسٌ: یَا رَسُولَ اللَّهِ، أَصْحَابُنَا الَّذِینَ مَاتُوا وَهُمْ یَشْرَبُونَهَا؟ فَأَنْزَلَ اللَّهُ: {لَیْسَ عَلَى الَّذِینَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ جُنَاحٌ فِیمَا طَعِمُوا} الْآیَةَ.

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہےجب حرمت شراب کاحکم نازل ہواتو بعض صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کی اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! ہمارے کئی ساتھی (جنگوں میں شہید ہوگئے ہیں )یا فوت ہوگئے جبکہ وہ شراب پیتے رہے ہیں ان کے بارے میں کیاحکم ہے؟ چنانچہ اس آیت کریمہ میں اس شبہے کاازالہ کر دیاگیاکہ ان کاخاتمہ ایمان وتقویٰ پرہی ہوا ہےان پران چیزوں کاکچھ گناہ نہیں اورجواہل ایمان لوگ زندہ ہیں اورنیک عمل کرتے ہیں انہوں نے بھی تحریم سے پہلے جوکچھ پہلے کھایاپیاہے اس پرکوئی گرفت نہ ہوگی بشرطیکہ وہ آئندہ ان چاروں چیزیں شراب،قماربازی اوروہ مقامات جواللہ کے سواکسی دوسرے کی عبادت کرنے یااللہ کے سواکسی اورکے نام پرقربانی اورنذر ونیاز چڑھانے کے لئے مخصوص کیے گئے ہوں پرستش گاہوں یاتھانوں اورفال کے تیروں سے بچے رہیں جوحرام کی گئی ہیں اورایمان پرثابت قدم رہیں اورعمل صالحہ اختیارکریں ، پھر جس جس چیزسے روکاجائے اس سے رکیں اورجوفرمان الٰہی ہواسے مانیں ،پھر خدا ترسی کے ساتھ نیک رویہ رکھیں ،اللہ نیک کردارلوگوں کوپسندکرتاہے۔[72]

یَا أَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا لَیَبْلُوَنَّكُمُ اللَّهُ بِشَیْءٍ مِّنَ الصَّیْدِ تَنَالُهُ أَیْدِیكُمْ وَرِمَاحُكُمْ لِیَعْلَمَ اللَّهُ مَن یَخَافُهُ بِالْغَیْبِ ۚ فَمَنِ اعْتَدَىٰ بَعْدَ ذَٰلِكَ فَلَهُ عَذَابٌ أَلِیمٌ ‎﴿٩٤﴾‏ یَا أَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا لَا تَقْتُلُوا الصَّیْدَ وَأَنتُمْ حُرُمٌ ۚ وَمَن قَتَلَهُ مِنكُم مُّتَعَمِّدًا فَجَزَاءٌ مِّثْلُ مَا قَتَلَ مِنَ النَّعَمِ یَحْكُمُ بِهِ ذَوَا عَدْلٍ مِّنكُمْ هَدْیًا بَالِغَ الْكَعْبَةِ أَوْ كَفَّارَةٌ طَعَامُ مَسَاكِینَ أَوْ عَدْلُ ذَٰلِكَ صِیَامًا لِّیَذُوقَ وَبَالَ أَمْرِهِ ۗ عَفَا اللَّهُ عَمَّا سَلَفَ ۚ وَمَنْ عَادَ فَیَنتَقِمُ اللَّهُ مِنْهُ ۗ وَاللَّهُ عَزِیزٌ ذُو انتِقَامٍ ‎﴿٩٥﴾‏ أُحِلَّ لَكُمْ صَیْدُ الْبَحْرِ وَطَعَامُهُ مَتَاعًا لَّكُمْ وَلِلسَّیَّارَةِ ۖ وَحُرِّمَ عَلَیْكُمْ صَیْدُ الْبَرِّ مَا دُمْتُمْ حُرُمًا ۗ وَاتَّقُوا اللَّهَ الَّذِی إِلَیْهِ تُحْشَرُونَ ‎﴿٩٦﴾‏(المائدہ)
’’ اے ایمان والو ! اللہ تعالیٰ قدرے شکار سے تمہارا امتحان کرے گا جن تک تمہارے ہاتھ اور تمہارے نیزے پہنچ سکیں گےتاکہ اللہ تعالیٰ معلوم کرلے کون شخص اس سے بن دیکھے ڈرتا ہےسو جو شخص اس کے بعد حد سے نکلے گا اس کے واسطے دردناک عذاب ہے،اے ایمان والو ! (وحشی) شکار کو قتل مت کرو جب کہ تم حالت احرام میں ہو، اور جو شخص تم میں سے اس کو جان بوجھ کر قتل کرے گا تو اس پر فدیہ واجب ہوگا جو کہ مساوی ہوگا اس جانور کے جس کو اس نے قتل کیا ہے جس کا فیصلہ تم سے دو معتبر شخص کردیں، خواہ وہ فدیہ خاص چوپایوں میں سے ہو جو نیاز کے طور پر کعبہ تک پہنچایا جائے اور خواہ کفارہ مساکین کو دے دیا جائے، اور خواہ اس کے برابر روزے رکھ لیے جائیں تاکہ اپنے کئے کی شامت کا مزہ چکھے، اللہ تعالیٰ نے گزشتہ کو معاف کردیا اور جو شخص پھر ایسی ہی حرکت کرے گا تو اللہ انتقام لے گا اور اللہ زبردست ہے انتقام لینے والا،تمہارے لیے دریا کا شکار پکڑنا اور اس کا کھانا حلال کیا گیا ہے تمہارے فائدے کے واسطے اور مسافروں کے واسطے اور خشکی کا شکار پکڑنا تمہارے لیے حرام کیا گیا ہے جب تک کہ تم حالت احرام میں رہو اور اللہ تعالیٰ سے ڈرو جس کے پاس جمع کئے جاؤ گے۔‘‘

شکارعربوں کی معاش کاایک اہم عنصرتھااس لئے حالت احرام میں اس کی ممانعت کرکے ان کاامتحان لیاگیافرمایااے لوگوجوایمان لائے ہو!اللہ تمہیں اس شکارکے ذریعہ سے سخت آزمائش میں ڈالے گا،ان میں چھوٹے یاکمزور جانورہوں گے جوتم ہاتھوں سے پکڑسکوگے اوربڑے جانوربھی ہوں گے جو تمہارے تیروں اورنیزوں کی زدمیں ہوں گے اورتم باآسانی انہیں شکارکرسکوگے،

عَنْ مُقَاتِلِ بْنِ حَیَّانَ , فِی قَوْلِهِ: {لَیَبْلُوَنَّكُمُ اللهُ بِشَیْءٍ مِنَ الصَّیْدِ} قَالَ: أُنْزِلَتْ فِی عُمْرَةِ الْحُدَیْبِیَةِ،فَكَانَتِ الْوَحْشُ وَالطَّیْرُ وَالصَّیْدُ یَغْشَاهُمْ فِی رِحَالِهِمْ لَمْ یَرَوْا مِثْلَهُ قَطُّ فِیمَا خَلَا , فَنَهَاهُمُ اللهُ عَنْ قَتْلِهِ وَهُمْ مُحْرِمُونَ، لِیَعْلَمَ اللهُ مَنْ یَخَافُهُ بِالْغَیْبِ

مقاتل بن حیان رحمہ اللہ کہتے ہیں یہ آیت کریمہ’’اللہ تمہیں اس شکار کے ذریعہ سے سخت آزمائش میں ڈالے گا۔‘‘ عمرہ حدیبیہ کے بارے میں نازل ہوئی ہےجبکہ جنگلی جانور، پرندے اورشکاری جانوران کے پڑاؤکے پاس اس طرح کثرت سے آرہے تھے کہ انہوں نے اس سے پہلے کبھی ایسانہیں دیکھاتھاتواللہ تعالیٰ نے انہیں حالت احرام میں ان جانوروں کے شکارسے منع فرمادیا یہ دیکھنے کے لئے کہ تم میں سے کون اللہ مالک یوم الدین سے غائبانہ ڈرتاہے۔[73]

اورجولوگ غائبانہ اپنے رب سے ڈرتے ہیں ان کے لیے مغفرت اور بے حدوحساب اجرہے،

اِنَّ الَّذِیْنَ یَخْشَوْنَ رَبَّہُمْ بِالْغَیْبِ لَہُمْ مَّغْفِرَةٌ وَّاَجْرٌ كَبِیْرٌ۝۱۲ [74]

ترجمہ:جو لوگ بےدیکھے اپنے رب سے ڈرتے ہیں یقیناً ان کے لیے مغفرت اور بڑا اجر ہے۔

پھرجس نے اس تنبیہ کے بعداللہ کی مقررکی ہوئی حد سے تجاوزکیااس کے لئے دردناک عذاب ہے،اے لوگو جو ایمان لائے ہو!جب تم حج اورعمرہ کا احرام باندھ لوتواس عظیم عبادت کی تعظیم کے لئے نہ خودشکارکرواورنہ کسی کو شکار کرنے میں مدد دو دونوں حالتوں میں منع ہے،البتہ چند چیزوں کوحالت احرام میں مارنامتثنیٰ ہے،

عَنْ عَائِشَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهَا، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: خَمْسٌ فَوَاسِقُ، یُقْتَلْنَ فِی الحَرَمِ : الفَأْرَةُ، وَالعَقْرَبُ، وَالحُدَیَّا، وَالغُرَابُ، وَالكَلْبُ العَقُورُ

ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پانچ موذی جانورہیں انہیں حرم (اورحل)میں بھی ماراجا سکتا ہے چوہا، بچھو، چیل ، کوا اور باولا کتا۔[75]

عَنْ ابْنِ عُمَرَ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:خَمْسٌ لَیْسَ عَلَى الْمُحْرِمِ فِی قَتْلِهِنَّ جُنَاحٌ ،الْغُرَابُ، وَالْحِدَأَةُ، وَالْعَقْرَبُ، وَالْفَأْرَةُ، وَالْكَلْبُ الْعَقُورُ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاپانچ قسم کے جانورایسے ہیں کہ انہیں قتل کرنے کی وجہ سے محرم کوکوئی گناہ نہیں ہوتا، کوااورچیل اور بچھواورچوہیا اورباؤلاکتا۔[76]

قَالَ أَیُّوبُ، قُلْتُ لِنَافِعٍ: فَالْحَیَّةُ؟ قال: الحیة لا شك فِیهَا، وَلَا یُخْتَلَفُ فِی قَتْلِهَا وَمِنَ الْعُلَمَاءِ كَمَالِكٍ وَأَحْمَدَمَنْ أَلْحَقَ بِالْكَلْبِ الْعَقُورِ الذِّئْبَ، والسَّبْعُ، والنِّمْر، والفَهْد؛ لِأَنَّهَا أَشَدُّ ضَرَرًا مِنْه

اس روایت کو سن کرایوب نے اپنے استادنافع سے سانپ کے بارے میں سوال کیا،انہوں نے کہاسانپ کے بارے میں توکوئی شک اوراس کے قتل میں تو کوئی اختلاف ہی نہیں ہے،اور علماء میں سےامام احمدبن حنبل رحمہ اللہ اور امام مالک رحمہ اللہ اوردیگرعلمانے بھیڑیے،درندے،چیتے اورشیرکوکاٹنے والے کتے میں شامل کرکے حالت احرام میں ان کے قتل کی بھی اجازت دی ہے۔[77]

عَنْ أَبِی سَعِیدٍ الْخُدْرِیِّ، أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ سُئِلَ عَمَّا یَقْتُلُ الْمُحْرِمُ؟قَالَ: الْحَیَّةُ،وَالْعَقْرَبُ،وَالْفُوَیْسِقَةُ،وَیَرْمِی الْغُرَابَ وَلَا یَقْتُلُهُ،وَالْكَلْبُ الْعَقُورُ وَالْحِدَأَةُ، وَالسَّبُعُ الْعَادِی

ابوسعیدخدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھاگیامحرم کون سے جانوروں کوقتل کرسکتاہے؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاسانپاور بچھواورچوہیااور کوئے کوکنکرمارکراڑادے مگراسے قتل نہ کرےاور باؤلاکتااورچیل، اورچیرنے پھاڑنے والادرندہ۔[78]

اوراگرتم میں سے کوئی جان بوجھ کریابھول کرایساکرگزرے گاتوجوجانوراس نے ماراہواسی کے قدوقامت میں مساوی ایک جانور اسے مویشیوں میں سے نذردیناہوگا ، اوریہ نذرکعبہ پہنچایاجائے گااوران کی تقسیم حرم مکہ کی حدودمیں رہنے والے مساکین پرہوگی ،

عَنْ عَلِیِّ بْنِ أَبِی طَلْحَةَ , عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ: هَدْیًا بَالِغَ الْكَعْبَةِ أَوْ كَفَّارَةٌ طَعَامُ مَسَاكِینَ أَوْ عَدْلُ ذَلِكَ صِیَامًا، فَإِذَا قَتَلَ الْمُحْرِمُ شَیْئًا مِنَ الصَّیْدِ حُكِمَ عَلَیْهِ فِیهِ , فَإِنْ قَتَلَ ظَبْیًا أَوْ نَحْوَهُ فَعَلَیْهِ شَاةٌ تُذْبَحُ بِمَكَّةَ، فَإِنْ لَمْ یَجِدْ فَإِطْعَامُ سِتَّةِ مَسَاكِینَ، فَإِنْ لَمْ یَجِدْ فَصِیَامُ ثَلَاثَةِ أَیَّامٍ، فَإِنْ قَتَلَ إِبِلًا أَوْ نَحْوَهُ فَعَلَیْهِ بَقَرَةٌ ، فَإِنْ لَمْ یَجِدْ فَإِطْعَامُ عِشْرِینَ مِسْكِینًا فَإِنْ لَمْ یَجِدْ صَامَ عِشْرِینَ یَوْمًا،وَإِنْ قَتَلَ نَعَامَةً أَوْ حِمَارًا وَحْشِیًّا أَوْ نَحْوَهُ فَعَلَیْهِ بَدَنَةٌ مِنَ الْإِبِلِ ، فَإِنْ لَمْ یَجِدْ أَطْعَمَ ثَلَاثِینَ مِسْكِینًا فَإِنْ لَمْ یَجِدْ صَامَ ثَلَاثِینَ یَوْمًا

علی بن ابوطلحہ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے آیت کریمہ’’ اور یہ نذرانہ کعبہ پہنچایا جائے گا یا نہیں تو اس گناہ کے کفارہ میں چند مسکینوں کو کھانا کھلانا ہوگا یا اس کے بقدر روزے رکھنے ہونگے۔‘‘کے بارے میں روایت کرتے ہیں جب کوئی محرم شکارکرلے تواس کافیصلہ اس طرح کیاجائے گاکہ اگراس نے ہرن وغیرہ کاشکارکیاہوتواسے مکہ مکرمہ میں ایک بکری ذبح کرنی ہوگی، اوراگراس کے پاس بکری نہ ہوتووہ چھ مسکینوں کو کھانا کھلا دے،اوراگراسے اس کی استطاعت نہ ہوتوتین دن کے روزے رکھ لے،اوراگراس نے بارہ سنگاوغیرہ شکارکیاہوتواس کے بدلے میں وہ گائے ذبح کرے،اس کی استطاعت نہ ہوتوبیس مسکینوں کوکھاناکھلادے، اوراگراس کی استطاعت نہ ہوتوبیس روزے رکھے ،اوراگروہ شترمرغ یانیل گائے وغیرہ شکارکرے تواس کے بدلے میں اونٹ ذبح کرے،اگراس کی استطاعت نہ ہوتوتیس مسکینوں کوکھاناکھلادے، اوراگراس کی بھی استطاعت نہ ہوتوپھرتیس روزے رکھے۔[79]

اوراگراس جانورکی کوئی مثال موجودنہ ہوتوکیا کیا جائے۔

عَنْ عِكْرِمَةَ , قَالَ: سَأَلَ مَرْوَانُ ابْنَ عَبَّاسٍ وَنَحْنُ بِوَادِی الْأَزْرَقِ أَرَأَیْتَ مَا أَصَبْنَا مِنَ الصَّیْدِ لَا نَجِدُ لَهُ بَدَلًا مِنَ النَّعَمِ؟قَالَ: تَنْظُرُ مَا ثَمَنُهُ فَتَصَدَّقْ بِهِ عَلَى مَسَاكِینِ أَهْلِ مَكَّةَ

عکرمہ رحمہ اللہ سے روایت ہےمروان رحمہ اللہ نے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے پوچھااوراس وقت ہم وادی الازرق میں قیام پذیر تھے اور اگر شکارکیے جانے والے جانورکی پالتوجانوروں میں سے کوئی مثال موجودنہ ہو،توعبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایاہے اس کی قیمت کودیکھواوروہ رقم مکہ میں تقسیم کردی جائے۔[80]

یانہیں تواس گناہ کے کفارہ میں دوعادل آدمی فیصلہ کریں گے کہ کس جانورکے مارنے پرآدمی کتنے مسکینوں کوکھاناکھلائے یاکتنے روزے رکھے تاکہ وہ اپنے کیے کامزہ چکھے،اورزمانہ جاہلیت میں جوکچھ ہو چکااسے اللہ تعالیٰ نے معاف کردیالیکن اب حکم شرعی پہنچنے کے بعد اگرکسی نے اس حرکت کااعادہ کیاتواس سے اللہ انتقام لے گا

 قَالَ: أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَیْجٍ، قَالَ: قُلْتُ لِعَطَاءٍ: مَا {عَفَا اللهُ عَمَّا سَلَفَ}قَالَ: عَمَّا كَانَ فِی الْجَاهِلِیَّةِقَالَ: قُلْتُ: وَمَا {وَمَنْ عَادَ فَیَنْتَقِمُ اللهُ مِنْهُ }قَالَ: مَنْ عَادَ فِی الْإِسْلَامِ، فَیَنْتَقِمُ اللهُ مِنْهُ ، وَعَلَیْهِ مَعَ ذَلِكَ الْكَفَّارَةُ،قُلْتُ: هَلْ فِی الْعَوْدِ مِنْ حَدٍّ یُعْلَمُ؟قَالَ: لَا،قُلْتُ: فَتَرَى حَقًّا عَلَى الْإِمَامِ أَنْ یُعَاقِبَهُ؟قَالَ: هُوَ ذَنْبٌ أَذْنَبَهُ فِیمَا بَیْنَهُ وَبَیْنَ اللهِ، وَلَكِنْ یَفْتَدِی

ابن جریج رحمہ اللہ کہتے ہیں میں نے عطاء رحمہ اللہ سے پوچھا’’ پہلے جو کچھ ہوچکا اسے اللہ نے معاف کردیا۔‘‘کاکیامطلب ہے؟توانہوں نے فرمایاکہ اس کامطلب یہ ہے کہ جوزمانہ جاہلیت میں ہوچکااللہ نے اسے معاف فرمادیاہے،میں نے کہااور’’ لیکن اب اگر کسی نے اس حرکت کا اعادہ کیا تو اس سے اللہ بدلہ لے گا۔‘‘کاکیامطلب ہے؟انہوں نے فرمایاکہ جومسلمان ہونے کے بعدایساکام کرے گاتواللہ اس سے انتقام لے گااوراس کے ساتھ ساتھ اسے کفارہ بھی اداکرناہوگا،میں نے کہاکہ پھرایساکام کرنے کی صورت میں آپ کے علم کے مطابق کوئی حدبھی ہے؟انہوں نے فرمایانہیں ،میں نے کہاکیاامام کوچاہیے کہ اسے سزادے؟انہوں نے کہانہیں ،اس کاتعلق اللہ اوراس کے بندے سے ہے لیکن اسے اس کافدیہ دیناچاہیے۔[81]

اللہ سب پرغالب ہے اورجواس کی معصیت اورنافرمانی کرے تووہ سزادینے کی طاقت رکھتا ہے،ہاں احرام کی حالت میں تمہارے لئے سمندرکاشکاراورمردہ مچھلی وغیرہ جسے سمندریادریا باہر پھینک دے یاپانی کے اوپرآجائے اس کاکھاناحلال کردیاگیا

أَبَا هُرَیْرَةَ، یَقُولُ: سَأَلَ رَجُلٌ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: یَا رَسُولَ اللهِ إِنَّا نَرْكَبُ الْبَحْرَ، وَنَحْمِلُ مَعَنَا الْقَلِیلَ مِنَ الْمَاءِ، فَإِنْ تَوَضَّأْنَا بِهِ عَطِشْنَا، أَفَنَتَوَضَّأُ بِمَاءِ الْبَحْرِ؟فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: هُوَ الطَّهُورُ مَاؤُهُ الْحِلُّ مَیْتَتُهُ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےایک شخص نے سوال کیااے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم !ہم سمندرکے سفرکوجاتے ہیں ،ہمارے ساتھ پانی بہت کم ہوتاہے اگراسی سے وضو کرتے ہیں توپیاسے رہ جائیں توکیاہمیں سمندرکے پانی سے وضو کرلینے کی اجازت ہے ؟رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سمندر کا پانی پاک ہے اوراس کامردہ حلال ہے۔[82]

جہاں تم ٹھیرووہاں بھی اسے کھاسکتے ہواورقافلے کے لئے زادراہ بھی بناسکتے ہو،البتہ خشکی کا شکار جب تک تم احرام کی حالت میں ہوتم پرحرام کیاگیاہے پس بچواس اللہ کی نافرمانی سے جس کی بارگاہ میں تم سب کوایک مقررہ وقت پرمیدان محشرمیں فرداً فرداً اعمال کی جوابدہی کے لئے حاضرکیاجائے گا۔

جَعَلَ اللَّهُ الْكَعْبَةَ الْبَیْتَ الْحَرَامَ قِیَامًا لِّلنَّاسِ وَالشَّهْرَ الْحَرَامَ وَالْهَدْیَ وَالْقَلَائِدَ ۚ ذَٰلِكَ لِتَعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ یَعْلَمُ مَا فِی السَّمَاوَاتِ وَمَا فِی الْأَرْضِ وَأَنَّ اللَّهَ بِكُلِّ شَیْءٍ عَلِیمٌ ‎﴿٩٧﴾‏ اعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ شَدِیدُ الْعِقَابِ وَأَنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَّحِیمٌ ‎﴿٩٨﴾‏ مَّا عَلَى الرَّسُولِ إِلَّا الْبَلَاغُ ۗ وَاللَّهُ یَعْلَمُ مَا تُبْدُونَ وَمَا تَكْتُمُونَ ‎﴿٩٩﴾‏(المائدہ)
’’اللہ نے کعبہ کو جو کہ ادب کا مکان ہے لوگوں کے قائم رہنے کا سبب قراردے دیا اور عزت والے مہینہ کو بھی، اور حرم میں قربانی ہونے والے جانور کو بھی ،اور ان جانوروں کو بھی جن کے گلے میں پٹے ہوں یہ اس لیے تاکہ تم اس بات کا یقین کرلو کہ بیشک اللہ تعالیٰ تمام آسمانوں اور زمین کے اندر کی چیزوں کا علم رکھتا ہے اور بیشک اللہ سب چیزوں کو خوب جانتا ہے، تم یقین جانو کہ اللہ تعالیٰ سزا بھی سخت دینے والا ہے اور اللہ تعالیٰ بڑی مغفرت اور بڑی رحمت والا بھی ہے ،رسول کے ذمہ تو صرف پہنچانا ہے، اور اللہ تعالیٰ سب جانتا ہے جو کچھ تم ظاہر کرتے ہو اور جو کچھ پوشیدہ رکھتے ہو۔‘‘

کعبہ کی حیثیت عرب میں محض ایک مقدس عبادت گاہ کی ہی نہ تھی بلکہ اپنی مرکزیت اوراپنے تقدس کی وجہ سے وہی پورے ملک کی معاشی وتمدنی زندگی کاسہارا بناہوا تھا ، دور دورسے مختلف رنگ ونسل کے لوگ حج وعمرہ کی سعادت حاصل کرنے کے لئے اس کی طرف کھنچے چلے آتے تھے،اس عظیم اجتماع کی بدولت مختلف علاقوں اورقبیلوں کے لوگ ایک دوسرے سے متعارف ہوتے اوردینی اوردنیاوی مفادات میں ایک دوسرے سے مددلیتے ، اس کے ساتھ تجارتی لین دین سے سارے ملک کومعاشی ضروریات پوری ہوتیں ،ہرطرف پھیلی بدامنی ،قتل وغارت اورلوٹ مارسے عاجزلوگوں کو حرمت والے مہینوں (رجب،ذوالقعدہ،ذوالحجہ اورمحرم) میں امن وسکون نصیب ہوجاتاتھا ، قربانی کے جانوروں اورقلادوں کی موجودگی سے بھی نقل وحرکت میں بڑی مددملتی تھی ،جیسے فرمایا

لِّیَشْهَدُوْا مَنَافِعَ لَهُمْ وَیَذْكُرُوا اسْمَ اللهِ فِیْٓ اَیَّامٍ مَّعْلُوْمٰتٍ عَلٰی مَا رَزَقَهُمْ مِّنْۢ بَهِیْمَةِ الْاَنْعَامِ۔۔۔۝۰۝۲۸ۡ [83]

ترجمہ:تاکہ وہ فائدے دیکھیں جویہاں ان کے لئے رکھے گئے ہیں اورچندمقرردنوں میں ان جانوروں پراللہ کانام لیں جواس نے انہیں بخشے ہیں ۔

چنانچہ فرمایاکہ ہم نے یہ بندوبست اس لئے کیاہے تاکہ تمہیں معلوم ہوجائے کہ اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق کے مصالح اوران کی ضروریات کاکیسامکمل اورگہراعلم رکھتاہے ،اس لئے اللہ نے جواحکام تمہیں دیے ہیں ان کی پابندی میں تمہاری اپنی بھلائی ہے اوران میں تمہارے لئے وہ وہ مصلحتیں پوشیدہ ہیں جن کونہ تم خودسمجھ سکتے ہواورنہ اپنی تدبیروں سے پوراکرسکتے ہو ، خبردار ہو جاؤ ! اللہ تعالیٰ سے تمہارے ظاہری وباطنی اعمال مخفی نہیں ہیں اوروہ نافرمانوں کودنیاوآخرت میں سزادینے میں سخت ہے اوراس کے ساتھ توبہ کرکے اس کی اطاعت کرنے والوں پر بہت درگزراوررحم بھی کرنے والاہے ،رسول کاکام اللہ کاپیغام تم تک پہنچادیناہے ،اس کے سوادیگرمعاملات میں اسے کوئی اختیارنہیں ہے ،تم لوگ اللہ کے اس پیغام پرخلوص نیت سے ایمان لائے ہویانہیں یامحض لوگوں کے دکھلاوے کے لئے قبول کرتے ہو اوراللہ کے احکام پرکتناعمل کرتے ہواللہ تمہاراظاہروباطن کے تمام حالات کاجاننے والاہے،اسی علم کے مطابق وہ تمہیں جزاوسزادے گا ۔

قُل لَّا یَسْتَوِی الْخَبِیثُ وَالطَّیِّبُ وَلَوْ أَعْجَبَكَ كَثْرَةُ الْخَبِیثِ ۚ فَاتَّقُوا اللَّهَ یَا أُولِی الْأَلْبَابِ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ ‎﴿١٠٠﴾‏(المائدہ)
’’آپ فرما دیجئے کہ ناپاک اور پاک برابر نہیں گو آپ کو ناپاک کی کثرت بھلی لگتی ہو اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو اے عقلمندو ! تاکہ تم کامیاب ہو۔‘‘

اے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم ان سے کہہ دوایمان اورکفر،اطاعت اورمعصیت ،اہل جنت اوراہل جہنم ،اعمال خبیثہ اوراعمال صالحہ ،اورحلال وحرام کسی صورت برابرنہیں ہوسکتے ،اللہ تعالیٰ نے پاک چیزوں میں منفعت اوربرکت رکھی ہے جبکہ جس چیزمیں ناپاکی ہوگی چاہے وہ کفرہو،فسق وفجورہو،اشیاواقوال ہوں اپنی کثرت کے باوجودان چیزوں کامقابلہ نہیں کرسکتے جن میں پاکیزگی ہو،یہ دونوں کسی صورت میں برابرنہیں ہوسکتے،یعنی کثرت اورکثرت رائے معیارحق نہیں لہذاعقل مندآدمی کولازماًحلال پرقناعت کرنی چاہیے خواہ وہ ظاہرمیں کتناہی حقیروقلیل ہواورحرام کی طرف کسی حال میں بھی ہاتھ نہ بڑھاناچاہیے خواہ وہ بظاہرکتناہی کثیروشاندارہو،

عَنْ أَبِی الدَّرْدَاءِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:۔۔۔ مَا قَلَّ وَكَفَى خَیْرٌ مِمَّا كَثُرَ وَأَلْهَى

ابودرداء سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایاجوکم ہواورکفایت کرے وہ اس زیادہ سے بہترہے جوغافل کردے۔[84]

پس اے لوگوجواللہ کی نشانیوں کودیکھتے ہو!اللہ کاتقویٰ اختیارکرو،آخروی فلاح تقویٰ پرہی موقوف ہے ،اگرنافرمانی سے بچتے رہوگے توامیدہے کہ تمہیں دنیاوآخرت میں فلاح نصیب ہوگی۔

‏ یَا أَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا لَا تَسْأَلُوا عَنْ أَشْیَاءَ إِن تُبْدَ لَكُمْ تَسُؤْكُمْ وَإِن تَسْأَلُوا عَنْهَا حِینَ یُنَزَّلُ الْقُرْآنُ تُبْدَ لَكُمْ عَفَا اللَّهُ عَنْهَا ۗ وَاللَّهُ غَفُورٌ حَلِیمٌ ‎﴿١٠١﴾‏ قَدْ سَأَلَهَا قَوْمٌ مِّن قَبْلِكُمْ ثُمَّ أَصْبَحُوا بِهَا كَافِرِینَ ‎﴿١٠٢﴾‏(المائدہ)
’’اے ایمان والو ! ایسی باتیں مت پوچھو کہ اگر تم پر ظاہر کردی جائیں تو تمہیں ناگوار ہوں اور اگر تم زمانہ نزول قرآن میں ان باتوں کو پوچھو گے تو تم پر ظاہر کردی جائیں گی، سوالات گزشتہ اللہ نے معاف کردیئےاور اللہ بڑی مغفرت والا بڑے حلم والا ہے،ایسی باتیں تم سے پہلے اور لوگوں نے بھی پوچھی تھیں پھر ان باتوں کے منکر ہوگئے ۔‘‘

اللہ تعالیٰ نے مومن بندوں کوادب سکھایا اے لوگوجوایمان لائے ہو!تمہیں جن چیزوں کی بابت نہیں بتایاگیاہے تم ان کے بارے میں سوال نہ کرو اگر وہ تم پر ظاہر کردی جائیں توتمہیں ناگوارہوگا،

عَنْ أَنَسٍ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: خَطَبَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ خُطْبَةً مَا سَمِعْتُ مِثْلَهَا قَطُّ، قَالَ: لَوْ تَعْلَمُونَ مَا أَعْلَمُ لَضَحِكْتُمْ قَلِیلًا، وَلَبَكَیْتُمْ كَثِیرًا، قَالَ: فَغَطَّى أَصْحَابُ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وُجُوهَهُمْ لَهُمْ خَنِینٌ، فَقَالَ رَجُلٌ: مَنْ أَبِی؟ قَالَ: فُلاَنٌ، فَنَزَلَتْ هَذِهِ الآیَةُ: {لاَ تَسْأَلُوا عَنْ أَشْیَاءَ إِنْ تُبْدَ لَكُمْ تَسُؤْكُمْ} [85]

انس رضی اللہ عنہ بن مالک سے مروی ہےایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں خطبہ سنایاایسابے مثل کہ ہم نے کبھی ایساخطبہ نہ سناتھا، اسی میں فرمایاکہ اگرتم وہ جانتے جومیں جانتاہوں تو تم بہت کم ہنستے اوربہت زیادہ روتے،یہ سن کرصحابہ کرام رضی اللہ عنہم منہ ڈھانپ کررونے لگے،اسی اثنامیں ایک شخص (عبداللہ بن حذافہ)نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھاکہ میراباپ کون ہے ؟آپ نے فرمایا فلاں (حذافہ)اس پریہ آیت’’ ایسی باتیں نہ پوچھا کرو جو تم پر ظاہر کردی جائیں تو تمہیں ناگوار ہوں ۔‘‘ نازل ہوئی۔[86]

عَنْ أَنَسٍ، قَالَ: سَأَلُوا النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى أَحْفَوْهُ بِالْمَسْأَلَةِ،فَصَعِدَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ یَوْمٍ المِنْبَرَ فَقَالَ: لاَ تَسْأَلُونِی عَنْ شَیْءٍ إِلَّا بَیَّنْتُ لَكُمْ، فَأَشْفَقَ أَصْحَابُ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَنْ یَكُونَ بَیْنَ یَدَیْهِ أَمْرٌ قَدْ حَضَرَفَجَعَلْتُ أَنْظُرُ یَمِینًا وَشِمَالًا، فَإِذَا كُلُّ رَجُلٍ لاَفٌّ رَأْسَهُ فِی ثَوْبِهِ یَبْكِی،فَأَنْشَأَ رَجُلٌ، كَانَ إِذَا لاَحَى یُدْعَى إِلَى غَیْرِ أَبِیهِ، فَقَالَ: یَا نَبِیَّ اللهِ مَنْ أَبِی؟فَقَالَ:أَبُوكَ حُذَافَةُ،ثُمَّ أَنْشَأَ عُمَرُ فَقَالَ: رَضِینَا بِاللهِ رَبًّا، وَبِالإِسْلاَمِ دِینًا، وَبِمُحَمَّدٍ رَسُولًا، نَعُوذُ بِاللهِ مِنْ سُوءِ الفِتَنِ،فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:مَا رَأَیْتُ فِی الخَیْرِ وَالشَّرِّ كَالیَوْمِ قَطُّ،إِنَّهُ صُوِّرَتْ لِی الجَنَّةُ وَالنَّارُ، حَتَّى رَأَیْتُهُمَا دُونَ الحَائِطِ

انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑی کثرت سے سوال پوچھے، توایک دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اورمنبرپرجلوہ افروزہوگئے اورفرمایاآج تم مجھ سے جوبھی سوال پوچھوگے تومیں تمہیں اس کاجواب دوں گا،یہ سن کررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کےصحابہ کرام رضی اللہ عنہم ڈرگئے کہ شایدکوئی معاملہ پیش نہ آنے والاہو،میں نے دائیں بائیں دیکھاتومحسوس ہواکہ ہرشخص اپنے کپڑے میں سرچھپائے رورہاہے، ایک شخص نے عرض کی جسے اس کے غیرباپ کی طرف منسوب کیاجاتاتھااے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! میراباپ کون ہے؟فرمایاتمہاراباپ حذافہ ہے، پھرسیدناعمر رضی اللہ عنہ نے کھڑے ہوکرعرض کی ہم اللہ کے رب ہونے پر،اسلام کے دین ہونے پراورمحمد صلی اللہ علیہ وسلم کے رسول ہونے پرراضی ہیں اوربرے فتنوں سے اللہ کی پناہ چاہتے ہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجیسامنظرآج دیکھا ہے کبھی اس طرح کااچھایابرامنظرنہیں دیکھامجھے جنت اورجہنم کامنظردکھادیاگیاحتی کہ میں نے انہیں دیوار سے بھی آگے دیکھاہے۔[87]

 عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: كَانَ قَوْمٌ یَسْأَلُونَ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ اسْتِهْزَاءً، فَیَقُولُ الرَّجُلُ: مَنْ أَبِی؟ وَیَقُولُ الرَّجُلُ تَضِلُّ نَاقَتُهُ: أَیْنَ نَاقَتِی؟ فَأَنْزَلَ اللهُ فِیهِمْ هَذِهِ الآیَةَ:یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَسْــــَٔـلُوْا عَنْ اَشْـیَاۗءَ اِنْ تُبْدَ لَكُمْ تَسُؤْكُمْ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہےبعض لوگ ازروئے مذاق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنے باپ کانام اوراپنی گمشدہ اونٹنیوں کی جگہ وغیرہ دریافت کرتے تھے، جس پریہ آیت ’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو، ایسی باتیں نہ پوچھا کرو جو تم پر ظاہر کردی جائیں تو تمہیں ناگوار ہوں ۔‘‘نازل ہوئی۔[88]

لیکن اگرتم انہیں ایسے وقت پوچھوگے جب کہ قرآن نازل ہورہاہوتوممکن ہے وہ تم پرفرض قراردے دی جائیں اورآسانی سختی میں بدل جائے ،

عَنْ عَلِیٍّ، قَالَ: لَمَّا نَزَلَتْ هَذِهِ الْآیَةُ: {وَلِلَّهِ عَلَى النَّاسِ حِجُّ الْبَیْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ إِلَیْهِ سَبِیلًا} [89] ، قَالُوا: یَا رَسُولَ اللَّهِ، أَفِی كُلِّ عَامٍ؟ فَسَكَتَ، فَقَالُوا: أَفِی كُلِّ عَامٍ؟ فَسَكَتَ، قَالَ: ثُمَّ قَالُوا: أَفِی كُلِّ عَامٍ؟ فَقَالَ: لَا، وَلَوْ قُلْتُ: نَعَمْ، لَوَجَبَتْ فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى: {یَا أَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا لَا تَسْأَلُوا عَنْ أَشْیَاءَ إِنْ تُبْدَ لَكُمْ تَسُؤْكُمْ}[90] إِلَى آخِرِ الْآیَةِ

سیدناعلی رضی اللہ عنہ بن ابوطالب سے مروی ہےجب یہ آیت’’ لوگوں پر اللہ کا یہ حق ہے کہ جو اس گھر تک پہنچنے کی استطاعت رکھتا ہو وہ اس کا حج کرے اور جو کوئی اس حکم کی پیروی سے انکار کرے تو اسے معلوم ہو جانا چاہیے کہ اللہ تمام دنیا والوں سے بے نیاز ہے۔‘‘ نازل ہوئی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااللہ تعالیٰ نے تم پرحج فرض کیاہے، توایک شخص(محصن اسدی رضی اللہ عنہ یا عکاشہ بن محصن رضی اللہ عنہ ) نے سوال کیا کیا ہر سال حج فرض کیاگیاہے ؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش رہے،اس نے دوبارہ پوچھااے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! کیا ہر سال حج فرض کیاگیاہے؟آپ پھر بھی خاموش رہے، اس نے تیسری باریہی سوال دہرایاکیا ہر سال حج فرض کیاگیاہے؟ پھرفرمایانہیں ، اگر میری زبان سے ہاں نکل جائے تو ہر سال حج فرض قراردے دیاجائے گا، اس پریہ آیت’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو، ایسی باتیں نہ پوچھا کرو جو تم پر ظاہر کردی جائیں تو تمہیں ناگوار ہوں لیکن اگر تم انہیں ایسے وقت پوچھو گے جب کہ قرآن نازل ہو رہا ہو تو وہ تم پر کھول دی جائیں گی، اب تک جو کچھ تم نے کیا اسے اللہ نے معاف کردیا وہ درگزر کرنے والا اور بردبار ہے۔‘‘ نازل ہوئی۔[91]

اس لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کثرت سوالات اورہربات کی کھوج لگانے سے منع فرماتے تھے ،

عَنْ عَامِرِ بْنِ سَعْدِ بْنِ أَبِی وَقَّاصٍ، عَنْ أَبِیهِ،أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:إِنَّ أَعْظَمَ المُسْلِمِینَ جُرْمًا، مَنْ سَأَلَ عَنْ شَیْءٍ لَمْ یُحَرَّمْ، فَحُرِّمَ مِنْ أَجْلِ مَسْأَلَتِهِ

عامربن سعد رحمہ اللہ اپنے والد(سعدبن ابی وقاص رضی اللہ عنہ )سے روایت کرتے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایامسلمانوں کے حق میں سب سے بڑامجرم وہ شخص ہے جس نے کسی ایسی چیزکے متعلق سوال چھیڑاجولوگوں پرحرام نہ کی گئی تھی اورپھرمحض اس کے سوال چھیڑنے کی بدولت وہ چیزحرام ٹھیرائی گئی۔[92]

عَنْ أَبِی ثَعْلَبَةَ الْخُشَنِیِّ , قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:إِنَّ اللهَ عَزَّ وَجَلَّ فَرَضَ فَرَائِضَ فَلَا تُضَیِّعُوهَا وَحَرَّمَ حُرُمَاتٍ فَلَا تَنْتَهِكُوهَا وَحَّدَ حُدُودًا فَلَا تَعْتَدُوهَا وَسَكَتَ عَنْ أَشْیَاءَ مِنْ غَیْرِ نِسْیَانٍ فَلَا تَبْحَثُوا عَنْهَا

ابوثعلبہ خشنی رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایابلاشبہ اللہ عزوجل نے(تم پر) کچھ فرائض تم پرعائدکیے ہیں انہیں ضائع نہ کرنااوراللہ تعالیٰ نےکچھ کاموں کوحرام قراردیاہے تم ان کی حرمت کونہیں توڑنااوراللہ تعالیٰ نےکچھ حدودمقررکی ہیں تم ان سے تجاوزنہ کرنا اور چند چیزوں کے ذکرکوجان بوجھ کرچھوڑدیاہے تم ان کے بارے میں بحث نہ کرنا۔[93]

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: دَعُونِی مَا تَرَكْتُكُمْ،إِنَّمَا هَلَكَ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ بِسُؤَالِهِمْ وَاخْتِلاَفِهِمْ عَلَى أَنْبِیَائِهِمْ، فَإِذَا نَهَیْتُكُمْ عَنْ شَیْءٍ فَاجْتَنِبُوهُ، وَإِذَا أَمَرْتُكُمْ بِأَمْرٍ فَأْتُوا مِنْهُ مَا اسْتَطَعْتُمْ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایامجھے اس وقت تک چھوڑے رکھوجب تک میں تمہیں چھوڑے رکھوں ، کیونکہ تم سے پہلے لوگ کثرت سے سوال پوچھنے اوراپنے انبیاء سے اختلاف کرنے ہی کی وجہ سے ہلاک ہوئے، جب میں تمہیں کسی چیزسے منع کروں تواس سے رک جاؤ اوراگرکسی چیزکے کرنےکاحکم دوں تواپنی حسب توفیق اسے بجالاؤ۔[94]

اب تک جوکچھ تم نے حماقتیں کی ہیں اسے اللہ نے معاف کردیا،وہ درگزر کرنے والااوربردبارہے۔تم سے پہلے یہودیوں بھی تلسبیس کی خاطر اسی قسم کے غیر ضروری اور فضول سوالات کرتے تھے پھرعقائداوراحکام میں موشگافیاں کاجال تیارکیا ،پھرخودہی ان موشگافیوں میں الجھ کراعتقادی گمراہیوں اورعملی نافرمانیوں میں مبتلاہوگئے ۔

مَا جَعَلَ اللَّهُ مِن بَحِیرَةٍ وَلَا سَائِبَةٍ وَلَا وَصِیلَةٍ وَلَا حَامٍ ۙ وَلَٰكِنَّ الَّذِینَ كَفَرُوا یَفْتَرُونَ عَلَى اللَّهِ الْكَذِبَ ۖ وَأَكْثَرُهُمْ لَا یَعْقِلُونَ ‎﴿١٠٣﴾‏ وَإِذَا قِیلَ لَهُمْ تَعَالَوْا إِلَىٰ مَا أَنزَلَ اللَّهُ وَإِلَى الرَّسُولِ قَالُوا حَسْبُنَا مَا وَجَدْنَا عَلَیْهِ آبَاءَنَا ۚ أَوَلَوْ كَانَ آبَاؤُهُمْ لَا یَعْلَمُونَ شَیْئًا وَلَا یَهْتَدُونَ ‎﴿١٠٤﴾‏ یَا أَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا عَلَیْكُمْ أَنفُسَكُمْ ۖ لَا یَضُرُّكُم مَّن ضَلَّ إِذَا اهْتَدَیْتُمْ ۚ إِلَى اللَّهِ مَرْجِعُكُمْ جَمِیعًا فَیُنَبِّئُكُم بِمَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ ‎﴿١٠٥﴾(المائدہ)
’’اللہ تعالیٰ نے نہ بحیرہ کو مشروع کیا ہے اور نہ سائبہ کو اور نہ وصیلہ کو اور نہ حام کو لیکن جو لوگ کافر ہیں وہ اللہ تعالیٰ پر جھوٹ لگاتے ہیں اور اکثر کافر عقل نہیں رکھتے، اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو احکام نازل فرمائے ہیں ان کی طرف اور رسول کی طرف رجوع کرو تو کہتے ہیں کہ ہم کو وہی کافی ہے جس پر ہم نے اپنے بڑوں کو پایا، کیا اگرچہ ان کے بڑے نہ کچھ سمجھ رکھتے ہوں اور نہ ہدایت رکھتے ہوں، اے ایمان والو ! اپنی فکر کرو، جب تم راہ راست پر چل رہے ہو تو جو شخص گمراہ رہے اس سے تمہارا کوئی نقصان نہیں، اللہ ہی کے پاس تم سب کو جانا ہے پھر وہ تم سب کو بتلا دے گا جو کچھ تم سب کرتے تھے۔‘‘

جس طرح آج بھی معبودان باطل کے نام جانورچھوڑنے اورنذرونیازکاسلسلہ جاری ہے اسی طرح زمانہ جاہلیت میں اہل عرب مختلف طریقوں سے جانوروں کوپن کرکے چھوڑ دیاکرتے تھے ،جن کے الگ الگ مختلف نام تھے۔

بحیرہ: اہل عرب اس اونٹنی کوکہتے تھے جوپانچ بچے دے چکی ہواوراس نے آخری بار نربچہ جناہو،اس کے بعداس کاکان چیرکراسے آزادچھوڑ دیا جاتا تھا اب وہ کسی بھی کھیت یا کسی کی چراہ گاہ سے چرلے اورجہاں سے چاہئے پانی پی لے،اس پراب نہ کوئی سوار ہوتا،نہ ہی کوئی اورکام لیاجاتااورنہ ہی اس کادودھ پیاجاتااورنہ ہی اس کی اون کاٹی جاتی ۔

عَنْ عَلِیِّ بْنِ أَبِی طَلْحَةَ , عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ , قَوْلَهُ: {مَا جَعَلَ اللهُ مِنْۢ بَحِیْرَةٍ وَّلَا سَاۗىِٕبَةٍ } فَأَمَّا الْبَحِیرَةُ فَهِیَ النَّاقَةُ إِذَا أَنْتَجَتْ خَمْسَةَ أَبْطُنٍ نَظَرُوا إِلَى الْخَامِسِ , فَإِنْ كَانَ ذَكَرًا ذَبَحُوهُ , فَأَكَلَهُ الرِّجَالُ دُونَ النِّسَاءِ، وَإِنْ كَانَتْ أُنْثَى جَدَعُوا آذَانَهَا فَقَالُوا: هَذِهِ بَحِیرَةٌ

علی بن ابوطلحہ نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے آیت کریمہ مَا جَعَلَ اللهُ مِنْ بَحِیرَةٍ وَلَا سَائِبَةٍ کے بارے میں روایت کیاہے کہ بحیرہ سے مرادوہ اونٹنی تھی جوپانچ بچوں کوجہنم دے دیتی تھی اگرپانچواں بچہ نرہوتاتواسے ذبح کرکے صرف مردکھاتے ،عورتوں کواسے کھانے کی اجازت نہ تھی، اوراگرپانچواں بچہ مادہ ہوتاتواس کے کان کاٹ دیتے اورکہتے یہ بحیرہ ہے۔[95]

عَنْ أَبِی رَوْقٍ , فِی قَوْلِهِ: {بَحِیرَةٍ} قَالَ: إِذَا أُنْتِجَتِ النَّاقَةُ سِتَّةَ أَبْطُنٍ إِنَاثًا كُلَّهَا شُقَّتْ آذَانُهَا وَلَا یُنْتَفَعُ مِنْهَا بِشَیْءٍ , فَمَا كَانَ مِنْهَا فَلِلْأَوْثَانِ

ابوروق’’ بحیرہ۔‘‘ کے بارے میں کہتے ہیں کہ جب کوئی شخص اپنی کسی ضرورت کے لیے گھرسے باہرجاتااوراس کی ضرورت پوری ہوجاتی تووہ اپنے مال میں سے اونٹنی یاکسی اورچیزکوبتوں کے نام پروقف کردیتاتھااوراگروہ کسی بچے کوجنم دیتی تواسے بھی بتوں ہی کے نام پروقف کردیاجاتاتھا۔[96]

وصیلہ :اگربکری کاپہلابچہ نرپیداہوتاتووہ اپنے دیوتاوں کی خوشنودی کے لئے ذبح کردیاجاتالیکن اگربکری پہلابچہ مادہ جنتی تواسے ذبح نہ کیاجاتا،اگربکری دوبچے ایک ساتھ دیتی جن میں ایک نرہوتااورایک مادہ تونربچے کودیوتاوں کے نام پرذبح کرنے کے بجائے اسی ہی آزادچھوڑدیاجاتاتھا۔

عَنْ عَلِیِّ بْنِ أَبِی طَلْحَةَ , عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ , قَوْلَهُ: وَلَا وَصِیلَةٍ، قَالَ: وَأَمَّا الْوَصِیلَةُ فَالشَّاةُ إِذَا أَنْتَجَتْ سَبْعَةَ أَبْطُنٍ نَظَرُوا السَّابِعَ فَإِنْ كَانَ ذَكَرًا أَوْ أُنْثَى وَهُوَ مَنِ اشْتَرَكَ فِیهِ الرِّجَالُ دُونَ النِّسَاءِ، وَإِنْ كَانَتْ أُنْثَى اسْتَحْیَوْهَا وَإِنْ كَانَ ذَكَرًا وَأُنْثَى فِی بَطْنٍ اسْتَحْیَوْهَا وَقَالُوا: وَصَلَتْهُ أُخْتُهُ فَحَرَّمَتْهُ عَلَیْنَا

علی بن ابوطلحہ نے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے’’ وصیلہ۔‘‘ کے بارے میں روایت کیاہے اس سے مرادوہ بکری تھی جس کے بطن سے سات بچے پیداہوچکے ہوتے تھے، ساتویں بچے کودیکھتے کہ اگروہ نرہوتاتواسے مردکھاتے ،عورتیں شریک نہیں ہوتی تھیں اگروہ مادہ ہوتاتواسے زندہ رہنے دیتےاوراگربیک وقت نراورمادہ دوبچے پیداہوتے توانہیں بھی زندہ رہنے دیتے اورکہتے کہ اس کی بہن نے اسے اپنے ساتھ ملاکراس کے کھانے کوہمارے لیے حرام قراردے دیاہے۔[97]

عَنِ الزُّهْرِیِّ , عَنِ ابْنِ الْمُسَیِّبِ فِی قَوْلِهِ تَعَالَى:مَا جَعَلَ اللهُ مِنْ بَحِیرَةٍ , وَلَا سَائِبَةٍ , وَلَا وَصِیلَةٍ وَلَا حَامٍ، وَالْوَصِیلَةُ مِنَ الْإِبِلِ مَا كَانَتِ النَّاقَةُ تَبْتَكِرُ بِأُنْثَى، ثُمَّ تُثَنِّی بِأُنْثَى فَیُسَمُّونَهَا الْوَصِیلَةَ، یَقُولُونَ وَصَلَتِ اثْنَتَیْنِ لَیْسَ بَیْنَهُمَا ذَكَرٌ وَكَانُوا یَجْدَعُونَهَا لِطَوَاغِیتِهِمْ

امام عبدالرزاق رحمہ اللہ نے معمراززہری رحمہ اللہ کی سندسے سعیدبن مسیب سے آیت کریمہ’’اللہ تعالیٰ نے نہ بحیرہ کومشروع کیاہے اورنہ سائبہ کواورنہ وصلیہ کواورنہ حام کو۔‘‘ کے بارے میں روایت کیا ہے وصلہ سے مرادوہ اونٹنی تھی جوپہلی بارمادہ بچے کوجنم دیتی، اوراس کے بعددوبارہ پھرمادہ بچے ہی کوجنم دیتی تواسے وصلہ کے نام سے موسوم کرتے اورکہتے کہ اس اونٹنی نے یکے بعددیگرے دومادہ بچوں کوجنم دیاہے درمیان میں کوئی نربچہ نہیں ہے ایسی اونٹنی کے کان کاٹ کراسے وہ بتوں کے نام پروقف کردیتے تھے[98]

قَالَ ابْنُ إِسْحَاقَ: وَالْوَصِیلَةُ مِنَ الْغَنَمِ إِذَا وَلَدَتْ عَشَرَةَ إِنَاثٍ فِی خَمْسَةِ أَبْطُنٍ تَوْءَمَیْنِ فِی كُلِّ بَطْنٍ سُمِّیَتِ الْوَصِیلَةَ وَتُرِكَتْ، فَمَا وَلَدَتْ بَعْدَ ذَلِكَ مِنْ ذَكَرٍ أَوْ أُنْثَى جُعِلَتْ لِلذُّكُورِ دُونَ الْإِنَاثِ، وَإِنْ كَانَتْ مَیْتَةً اشْتَرَكُوا فِیهَا

محمدبن اسحاق کہتے ہیں کہ وصلہ اس بکری کوکہتے تھے جس نے پانچ باردودوبچوں کوجنم دیاہوتاتھااسے وہ وصلہ کانام دے کرچھوڑدیتے تھے اوراس کے بعدجس بچے کووہ جنم دیتی تواسے صرف مردکھاتے عورتیں نہیں کھاسکتی تھیں ،اوراگروہ مردہ بچے کوجنم دیتی تواسے مردعورتیں سب مل کرکھاتے۔[99]

سائبہ:یہ وہ اونٹ یااونٹنی ہوتی جسے کسی نے اپنی کسی بیماری سے شفامندی،کسی ضرورت کے پوراہونے یاکسی بڑے خطرے سے نجات پانے کے بعداپنی نذرکوپوراکرنے کے لئے شکرانے کے طورپرآزادچھوڑدی جاتی،اسی طرح جواونٹنی لگاتار دس مادہ ہی جنتی اسے بھی کان چیرکر آزادچھوڑدیتے تھےجواس بات کی علامت ہوتی کہ اسے آزاد کر

دیاگیاہے۔

عَنْ مُجَاهِدٍ , قَوْلَهُ: {وَلَا سَائِبَةٍ} وَالسَّائِبَةُ فِی الْغَنَمِ نَحْوُ مَا فَسَّرَ مِنَ الْبَحِیرَةِ إِلَّا أَنَّهَا مَا وَلَدَتْ مِنْ وَلَدٍ بَیْنَهَا وَبَیْنَ سِتَّةِ أَوْلَادٍ كَانَتْ عَلَى هَیْئَتِهَا وَإِذَا وَلَدَتِ السَّابِعَ ذَكَرًا أَوْ ذَكَرَیْنِ ذَبَحُوهُ وَأَكَلَهُ رِجَالُهُمْ دُونَ نِسَائِهِمْ

مجاہد ا رحمہ اللہ یت’’ سائبہ ۔‘‘کے بارے میں فرماتے ہیں جس طرح اونٹوں میں سے بحیرہ تھااسی طرح ایسی بکری کوسائبہ کہتے تھے اس فرق کے ساتھ کہ بکری نے چھ بچوں کوجنم دیاہو اوراس کے بعداگرساتویں بچے کووہ نریامادہ یادونربچے جنم دیتی، تواسے ذبح کردیتے اوراسے بھی صرف مردکھاسکتے تھے عورتیں نہیں ۔[100]

قَالَ ابْنُ إِسْحَاقَ: وَالسَّائِبَةُ: النَّاقَةُ إِذَا وَلَدَتْ عَشَرَةَ إِنَاثٍ لَیْسَ بَیْنَهُنَّ ذَكَرٌ فَسُیِّبَتْ،فَلَمْ تُرْكَبْ، وَلَمْ یُجَزَّ وَبَرُهَا وَلَمْ یُجْلَبْ لَبَنُهَا إِلَّا لِضَیْفٍ،

محمدبن اسحاق’’سائبہ۔‘‘ کے بارے میں کہتے ہیں کہ سائبہ سے مرادوہ اونٹنی تھی جس نے مسلسل دس مادہ بچوں کوجنم دیاہوتاتھا اوران میں کوئی نرنہ ہوتاتھاتواسے چھوڑدیاجاتا اس پرسواری نہ کی جاتی،اس کی اون نہ کاٹی جاتی،اوراس کے دودھ کونہ دوہاجاتاالبتہ صرف مہمان کے لیے اس کے دودھ کودوہاجاتاتھا۔[101]

عَنِ السُّدِّیِّ , قَوْلَهُ:وَلَا سَائِبَةٍ، وَأَمَّا السَّائِبَةُ فَهُوَ الرَّجُلُ یُسَیِّبُ مِنْ مَالِهِ مَا شَاءَ عَلَى وَجْهِ الشُّكْرِ إِنْ كَثُرَ مَالُهُ أَوْ بَرِئَ مِنْ وَجَعٍ , أَوْ رَكِبَ نَاقَةً فَانْجَمَعَ , فَإِنَّهُ یُسَمِّی السَّائِبَةَ یُرْسِلُهَا , وَلَا یَعْرِضُ لَهَا أَحَدٌ مِنَ الْعَرَبِ إِلَّا أَصَابَتْهُ عُقُوبَةٌ فِی الدُّنْیَا

سدی آیت ’’سائبہ ۔‘‘کے بارے میں کہتے ہیں ان میں سے جب کسی شخص کی ضرورت پوری ہوجاتی یااسے مرض سے شفاحاصل ہوتی یااس کامال زیادہ ہوجاتاتوہ اپنے مال میں سے کچھ بتوں کے نام پروقف کردیتاتھااوراگرکوئی اس سے تعرض کرتاتواسے دنیامیں سزادی جاتی تھی۔[102]

حام :اگرکسی اونٹ کے نطفہ سے دس بچے ہو جاتےیاکسی اونٹ کے بچے کابچہ سواری کے قابل ہوجاتاتھاتواسے بھی آزادچھوڑدیتے تھے۔

عَنْ عَلِیِّ بْنِ أَبِی طَلْحَةَ , عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ , قَوْلَهُ:وَلَا حَامٍ، وَأَمَّا الْحَامِی فَالْفَحْلُ مِنَ الْإِبِلِ إِذَا وُلِدَ لِوَلَدِهِ قَالُوا: حَمَى هَذَا ظَهْرَهُ، فَلَا یَحْمِلُونَ عَلَیْهِ شَیْئًا وَلَا یَجُزُّونَ لَهُ وَبَرًا , وَلَا یَمْنَعُونَهُ مِنْ حِمًى وَلَا مِنْ حَوْضٍ شَرِبَ فِیهِ وَإِنْ كَانَ الْحَوْضُ لِغَیْرِ صَاحِبِهِ

علی بن ابوطلحہ نے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے’’حام۔‘‘کے بارے میں روایت کیاہے جب کسی اونٹ کے بچے کے ہاں بچہ پیداہوجاتا تولوگ کہتے کہ اب اس نے اپنی پشت کومحفوظ کرلیاہے لہذاوہ نہ اس پرکوئی چیزلادتے،اور نہ اس کی اون کاٹتے نہ اسے کسی چراگاہ میں چرنے سے منع کرتےاورنہ کسی حوض سے پانی پینے ہی سے منع کرتےخواہ وہ حوض کسی کابھی ہوتا۔[103]

وَقَالَ ابْنُ وَهْب: سَمِعْتُ مَالِكًا یَقُولُ: أَمَّا الْحَامِ فَمِنَ الْإِبِلِ كَانَ یَضْرِبُ فِی الْإِبِلِ،فَإِذَا انْقَضَى ضِرَابُهُ ،جَعَلُوا عَلَیْهِ رِیشَ الطَّوَاوِیسِ وَسَیَّبُوهُ

ابن وہب رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں نے امام مالک رحمہ اللہ کوبیان کرتے ہوئے سناکہ حام وہ اونٹ تھاجسے اونٹنیوں میں چھوڑدیاجاتاتھا اورجب اونٹنیوں کوبارآورکرنے کی تعدادمکمل ہوجاتی تووہ اس پرمورکے پرلگادیتے اوراسے بتوں کے نام پروقف کردیتے تھے۔[104]

اللہ تعالیٰ نے اس جھوٹی تہمت اوربہتان پر سرزنش فرمائی کہیہ کافراللہ پر جھوٹی تہمت لگاتے ہیں کہ بحیرہ،وصیلہ،سائبہ اورحام اللہ کامقررکردہ طریقہ ہیں ، ہرگز نہیں ، یہ نام اورچیزیں اللہ تعالیٰ کی مقررکردہ نہیں اللہ کسی حلال چیزکوحرام نہیں کرتاہے اورنہ ہی یہ طریقہ ذریعہ ثواب ہیں بلکہ ان لوگوں نے بغیردلیل اوربرہان کے اپنے آباؤاجدادکے مشرکانہ دین کی پیروی میں حلال چیزوں کو حرام قراردے کراللہ کی طرف منسوب کررکھاہے ،

وَقَالَ أَبُو هُرَیْرَةَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:رَأَیْتُ عَمْرَو بْنَ عَامِرٍ الخُزَاعِیَّ یَجُرُّ قُصْبَهُ فِی النَّارِ، كَانَ أَوَّلَ مَنْ سَیَّبَ السَّوَائِب

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایامیں نے عمروبن عامرخزاعی کودیکھاکہ وہ جہنم میں اپنی آنتیں گھسیٹ رہاہے ،اس نے سب سے پہلے یہ رسم ایجادکی تھی ۔[105]

اورجب انہیں کہاجاتاہے کہ اللہ نے تمہاری ہدایت ورہنمائی کے لئے جوکتاب نازل کی ہے اس کی طرف آؤ، رسول کی اطاعت کاحکم دیا جاتا ہے،اللہ کی بخشش ومغفرت کی دعوت دیجاتی ہے،انواع واقسام کی لازوال نعمتوں بھری جنت کی طرف بلایاجاتاہے تووہ اس سے روگردانی کرتے ہوئے جواب دیتے ہیں کہ ہم تو اپنے آباؤاجدادکے رسوم ورواج کی پیروی ہی کریں گے ،اللہ تعالیٰ نے فرمایاکیایہ اباؤاجدادکے رسوم ورواج کی اندھی تقلیدکیے چلے جائیں گے خواہ ان میں عقل وہدایت نہ ہو اورنہ انہیں معلوم ہوکہ اللہ کی بخشش اورمغفرت کاراستہ کونساہے ۔اے لوگوجوایمان لائے ہو!دوسروں کے باطل عقیدے اوربداعمالیوں کاتم پرکوئی بوجھ نہ ہوگااورنہ ان کے بارے میں تم سے بازپرس کی جائے گی خواہ وہ اجنبی ہوں یارشتہ دار ،ہاں اپنے عقیدے،اخلاق اوراعمال کی فکرکروکہ کہیں ان میں توکوئی خرابی موجود نہیں ، مگراس کامقصدیہ ہرگز نہیں کہ بس اپنی ہی نجات کا سوچتے رہو اوراللہ نے امربالمعروف اورنہی عن المنکرکا جواہم فریضہ تم پرعائدکیا ہے اسے پورانہ کرو ،

عَنْ قَیْسٍ، قَالَ: قَامَ أَبُو بَكْرٍ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ فَحَمِدَ اللَّهَ وَأَثْنَى عَلَیْهِ، ثُمَّ قَالَ: یَا أَیُّهَا النَّاسُ إِنَّكُمْ تَقْرَؤونَ هَذِهِ الْآیَةَ {یَا أَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا عَلَیْكُمْ أَنْفُسَكُمْ لَا یَضُرُّكُمْ مَنْ ضَلَّ إِذَا اهْتَدَیْتُمْ}[106] ، وَإِنَّا سَمِعْنَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَقُولُ:إِنَّ النَّاسَ إِذَا رَأَوْا الْمُنْكَرَ فَلَمْ یُغیرُوهُ أَوْشَكَ أَنْ یَعُمَّهُمُ اللَّهُ بِعِقَابِهِ

قیس (بن ابی حازم)نے بیان کیاسیدناابوبکر رضی اللہ عنہ نے(اپنے خطبے )میں اللہ عزوجل کی حمدوثناکے بعدفرمایااے لوگو!تم یہ آیت کریمہ تلاوت توکرتے ہو’’اے ایمان والو!اپنی فکرکروجب تم راہ راست پر چل رہے ہوتو جو شخص گمراہ ہواس سے تمہاراکوئی نقصان نہیں ۔‘‘اورتم اس سے غلط استدلال کرتے ہو اورہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوفرماتے سنا ہے بلا شبہ لوگ جب کسی کوظلم (فسق وفجور)کرتادیکھیں اورپھراس کے ہاتھ نہ پکڑیں توبعیدنہیں کہ اللہ ان سب کوعذاب کی لپیٹ میں لے لے۔ [107]

عَن أَبِی هُرَیرة، عَن النَّبِیّ صَلَّى اللهُ عَلَیه وَسَلَّم؛ أَنَّه قَالَ:لَتَأْمُرُنَّ بِالْمَعْرُوفِ وَلَتَنْهَوُنَّ عَنِ الْمُنْكَر، أَوْ لَیُسَلَّطَنَّ عَلَیْكُمْ شِرَارُكُمْ، فَیَدْعُو خِیَارُكُمْ فَلَا یُسْتَجَابُ لَكُمْ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاتم کولازم ہے کہ بھلائی کاحکم دواوربرائی سے روکوورنہ اللہ تم پرایسے لوگوں کومسلط کردے گاجوتم میں سب سے بدترہوں گے اوروہ تم کوسخت تکلیفیں پہنچائیں گےپھرتمہارے نیک لوگ اللہ سے دعائیں مانگیں گے مگروہ قبول نہ ہوں گی۔[108]

اس بات کوہمیشہ یادرکھوکہ ایک وقت مقررہ پرتم سب نے میدان محشرمیں اپنے اعمال کی جوابدہی کے لئے فرداًفرداً اللہ مالک یوم الدین کی بارگاہ میں پیش ہوناہےاس وقت اللہ تعالیٰ تمہیں تمہارے اعمالوں کے مطابق جزاوسزادے گا۔

یَا أَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا شَهَادَةُ بَیْنِكُمْ إِذَا حَضَرَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ حِینَ الْوَصِیَّةِ اثْنَانِ ذَوَا عَدْلٍ مِّنكُمْ أَوْ آخَرَانِ مِنْ غَیْرِكُمْ إِنْ أَنتُمْ ضَرَبْتُمْ فِی الْأَرْضِ فَأَصَابَتْكُم مُّصِیبَةُ الْمَوْتِ ۚ تَحْبِسُونَهُمَا مِن بَعْدِ الصَّلَاةِ فَیُقْسِمَانِ بِاللَّهِ إِنِ ارْتَبْتُمْ لَا نَشْتَرِی بِهِ ثَمَنًا وَلَوْ كَانَ ذَا قُرْبَىٰ ۙ وَلَا نَكْتُمُ شَهَادَةَ اللَّهِ إِنَّا إِذًا لَّمِنَ الْآثِمِینَ ‎﴿١٠٦﴾‏ فَإِنْ عُثِرَ عَلَىٰ أَنَّهُمَا اسْتَحَقَّا إِثْمًا فَآخَرَانِ یَقُومَانِ مَقَامَهُمَا مِنَ الَّذِینَ اسْتَحَقَّ عَلَیْهِمُ الْأَوْلَیَانِ فَیُقْسِمَانِ بِاللَّهِ لَشَهَادَتُنَا أَحَقُّ مِن شَهَادَتِهِمَا وَمَا اعْتَدَیْنَا إِنَّا إِذًا لَّمِنَ الظَّالِمِینَ ‎﴿١٠٧﴾‏ ذَٰلِكَ أَدْنَىٰ أَن یَأْتُوا بِالشَّهَادَةِ عَلَىٰ وَجْهِهَا أَوْ یَخَافُوا أَن تُرَدَّ أَیْمَانٌ بَعْدَ أَیْمَانِهِمْ ۗ وَاتَّقُوا اللَّهَ وَاسْمَعُوا ۗ وَاللَّهُ لَا یَهْدِی الْقَوْمَ الْفَاسِقِینَ ‎﴿١٠٨﴾‏(المائدہ)
’’اے ایمان والو ! تمہارے آپس میں دو شخص کا گواہ ہونا مناسب ہےجبکہ تم میں سے کسی کو موت آنے لگے اور وصیت کرنے کا وقت ہو، وہ دو شخص ایسے ہوں کہ دیندار ہوں خواہ تم سے ہوں یا غیر لوگوں میں سے دو شخص ہوں ،اگر تم کہیں سفر میں گئے ہو اور تمہیں موت آجائے اگر تم کو شبہ ہو تو ان دونوں کو بعد نماز روک لو پھر دونوں اللہ کی قسم کھائیں کہ ہم اس قسم کے عوض کوئی نفع نہیں لینا چاہتے اگرچہ کوئی قرابت دار بھی ہو اور اللہ تعالیٰ کی بات کو ہم پوشیدہ نہ کریں گے ہم اس حالت میں سخت گناہ گار ہوں گے،پھر اگر اس کی اطلاع ہو کہ وہ دونوں گواہ کسی گناہ کے مرتکب ہوئے ہیں تو ان لوگوں میں سے جن کے مقابلہ میں گناہ کا ارتکاب ہوا تھا اور وہ شخص جو سب میں قریب تر ہیںجہاں وہ دونوں کھڑے ہوئے تھے یہ دونوں کھڑے ہوں پھر دونوں اللہ کی قسم کھائیں کہ بالیقین ہماری یہ قسم ان دونوں کی اس قسم سے زیادہ راست ہے اور ہم نے ذرا تجاوز نہیں کیا، ہم اس حالت میں سخت ظالم ہونگے،یہ قریب ذریعہ ہے اس امر کا کہ وہ لوگ واقعہ کو ٹھیک طور پر ظاہر کریں یا اس بات سے ڈر جائیں کہ ان کے قسم لینے کے بعد قسمیں الٹی پڑجائیں گی، اور اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور سنو ! اور اللہ تعالیٰ فاسق لوگوں کو ہدایت نہیں کرتا۔‘‘

اے لوگوجوایمان لائے ہو!جب تم میں سے کسی کی موت کاوقت آجائے اوروہ وصیت کررہاہوتواس کے لئے شہادت کانصاب یہ ہے کہ تمہاری جماعت میں سے دودیندار،راست بازاورقابل اعتمادمسلمان آدمی گواہ بنائے جائیں یااگرتم سفرکی حالت میں ہواوروہاں شدیدبیمارہونے کے سبب زندہ بچنے کی امیدنہ ہو اورکوئی مسلمان گواہ بھی میسرنہ ہوسکے توغیرمسلموں ہی میں سے دوقابل اعتمادگواہ لے لیے جائیں ،پھراگرورثاکوشک پڑجائے کہ گواہوں نے مال میں خیانت یاتبدیلی کی ہے تووہ نمازعصرکے بعدلوگوں کی موجودگی میں اللہ کی قسم کھاکریہ الفاظ اداکریں کہ ہم کسی دنیاوی فائدے کی خاطرجھوٹی قسم نہیں کھائیں گے اگرچہ کوئی ہمارارشتہ دارہی کیوں نہ ہو (قرابت داری کی وجہ سے ہم اس کے ساتھ رعایت نہیں کریں گے )اورنہ اللہ واسطے کی گواہی کوہم چھپانے والے ہیں بلکہ ہم اسی طرح شہادت کواداکریں گے جس طرح ہم نے سنی ہے ، اگرہم نے گواہی میں تحریف کی یاتغیروتبدل کیا یابالکل چھپایا تویقینا ًگناہ گاروں میں شمارہوں گے،لیکن اگرایسے قرائن پائے جائیں کہ ان دونوں گواہوں نے اپنے دنیاوی مفاد یاکسی دباؤمیں آکروصیت میں تغیروتبدلی کرکے خیانت کی ہے توپھران کی جگہ میت کے دوقریبی رشتہ دار جن کی حق تلفی ہوئی ہووہ اللہ کی قسم کھاکرکہیں کہ ہماری شہادت ان کی شہادت سے زیادہ صحیح ہے اورہم نے اپنی گواہی میں کوئی ظلم و زیادتی نہیں کی ہےاگرہم نے ظلم اورزیادتی کی اورناحق گواہی دی توظالموں میں سے ہوں گے،اس طریقہ سے زیادہ توقع کی جاسکتی ہے کہ لوگ ٹھیک ٹھیک شہادت دیں گے یاکم ازکم اس بات کاخوف کریں گے کہ ان کی قسموں کے بعددوسری قسموں سے کہیں ان کی تردیدنہ ہوجائے ،یعنی انہیں خوف ہوگاکہ ان کی قسمیں قبول نہیں کی جائیں گی اوران قسموں کومیت کے اولیاء کی طرف لوٹادیاجائے گا ،اپنے تمام امورومعاملات میں اللہ سے ڈرو اوراللہ کے حکموں کوگوش ہوش سےسنواوراطاعت بجالاؤ،اللہ تعالیٰ نافرمانی کرنے والوں کواپنی رہنمائی سے محروم کردیتاہے۔

عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: خَرَجَ رَجُلٌ مِنْ بَنِی سَهْمٍ مَعَ تَمِیمٍ الدَّارِیِّ، وَعَدِیِّ بْنِ بَدَّاءٍ، فَمَاتَ السَّهْمِیُّ بِأَرْضٍ لَیْسَ بِهَا مُسْلِمٌ، فَلَمَّا قَدِمَا بِتَرِكَتِهِ، فَقَدُوا جَامًا مِنْ فِضَّةٍ مُخَوَّصًا مِنْ ذَهَبٍ، فَأَحْلَفَهُمَا رَسُولُ اللَّهِ صلّى الله علیه وسلم، ثُمَّ وُجِدَ الجَامُ بِمَكَّةَ، فَقَالُوا: ابْتَعْنَاهُ مِنْ تَمِیمٍ وَعَدِیٍّ، فَقَامَ رَجُلاَنِ مِنْ أَوْلِیَائِهِ، فَحَلَفَا لَشَهَادَتُنَا أَحَقُّ مِنْ شَهَادَتِهِمَا، وَإِنَّ الجَامَ لِصَاحِبِهِمْ، قَالَ: وَفِیهِمْ نَزَلَتْ هَذِهِ الآیَةُ: {یَا أَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا شَهَادَةُ بَیْنِكُمْ إِذَا حَضَرَ أَحَدَكُمُ المَوْتُ}[109]

اس آیت کے شان نزول کے بارے میں عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے بنی سہم کاایک شخص(بدیل بن ابی مریم) تمیم داری اورعدی بن بداء (نصرانی)کے ساتھ(تجارت کی غرض سے) سفرکونکلاوہ ایسے ملک(شام) میں جاکرمرگیاجہاں کوئی مسلمان نہ تھا،یہ دونوں شخص اس کامتروکہ مال لے کرمدینہ واپس آئے (تواس کے وارثوں نے) اس کے اسباب میں چاندی کاپیالہ گم پایاجس میں سونے سے کھجورکے پتوں کی طرح نقش ونگارکیاہواتھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں کوقسم کھانے کاحکم دیا(انہوں نے قسم کھالی)پھرایساہواکہ وہ گلاس مکہ مکرمہ میں ملا،(جن کے پاس سے ملا)انہوں نے کہاہم نے یہ گلاس تمیم اورعدی سے خریداہے،اس وقت میت کے دوعزیز(عمروبن عاص اورمطلب)کھڑے ہوئے اورانہوں نے قسم کھائی کہ یہ ہماری گواہی تمیم اورعدی کی گواہی سے زیادہ معتبرہے یہ پیالہ میت ہی کاہے، عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے کہاان ہی کے بارے میں یہ آیت’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو جب تم میں سے کسی کی موت کا وقت آجائے۔ نازل ہوئی۔[110]

یَوْمَ یَجْمَعُ اللَّهُ الرُّسُلَ فَیَقُولُ مَاذَا أُجِبْتُمْ ۖ قَالُوا لَا عِلْمَ لَنَا ۖ إِنَّكَ أَنتَ عَلَّامُ الْغُیُوبِ ‎﴿١٠٩﴾‏ إِذْ قَالَ اللَّهُ یَا عِیسَى ابْنَ مَرْیَمَ اذْكُرْ نِعْمَتِی عَلَیْكَ وَعَلَىٰ وَالِدَتِكَ إِذْ أَیَّدتُّكَ بِرُوحِ الْقُدُسِ تُكَلِّمُ النَّاسَ فِی الْمَهْدِ وَكَهْلًا ۖ وَإِذْ عَلَّمْتُكَ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَالتَّوْرَاةَ وَالْإِنجِیلَ ۖ وَإِذْ تَخْلُقُ مِنَ الطِّینِ كَهَیْئَةِ الطَّیْرِ بِإِذْنِی فَتَنفُخُ فِیهَا فَتَكُونُ طَیْرًا بِإِذْنِی ۖ وَتُبْرِئُ الْأَكْمَهَ وَالْأَبْرَصَ بِإِذْنِی ۖ وَإِذْ تُخْرِجُ الْمَوْتَىٰ بِإِذْنِی ۖ وَإِذْ كَفَفْتُ بَنِی إِسْرَائِیلَ عَنكَ إِذْ جِئْتَهُم بِالْبَیِّنَاتِ فَقَالَ الَّذِینَ كَفَرُوا مِنْهُمْ إِنْ هَٰذَا إِلَّا سِحْرٌ مُّبِینٌ ‎﴿١١٠﴾‏ وَإِذْ أَوْحَیْتُ إِلَى الْحَوَارِیِّینَ أَنْ آمِنُوا بِی وَبِرَسُولِی قَالُوا آمَنَّا وَاشْهَدْ بِأَنَّنَا مُسْلِمُونَ ‎﴿١١١﴾(المائدہ)
’’جس روز اللہ تعالیٰ تمام پیغمبروں کو جمع کرے گاپھر ارشاد فرمائے گا کہ تم کو کیا جواب ملا تھا، وہ عرض کریں گے کہ ہم کو کچھ خبر نہیں تو ہی پوشیدہ باتوں کو پورا جاننے والا ہے،جب کہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرمائے گا کہ اے عیسیٰ بن مریم ! میرا انعام یاد کرو جو تم پر اور تمہاری والدہ پر ہواہے ،جب میں نے تم کو روح القدس سے تائید دی، تم لوگوں سے کلام کرتے تھے گود میں بھی اور بڑی عمر میں بھی ،اورجب کہ میں نے تم کو کتاب اور حکمت کی باتیں اور تورات اور انجیل کی تعلیم دی، اور جب کہ تم میرے حکم سے گارے سے ایک شکل بناتے تھے جیسے پرندے کی شکل ہوتی ہے پھر تم اس کے اندر پھونک مار دیتے تھے جس سے وہ پرندہ بن جاتا تھا میرے حکم سے اور تم اچھا کردیتے تھے مادر زاد اندھے کو اور کوڑھی کو میرے حکم سے اورجب کہ تم مردوں کو نکال کر کھڑا کرلیتے تھے میرے حکم سے اور جب کہ میں نے بنی اسرائیل کو تم سے باز رکھا جب تم ان کے پاس دلیلیں لے کر آئے تھے ، پھر ان میں جو کافر تھے انہوں نے کہا کہ بجز کھلے جادو کے یہ اور کچھ بھی نہیں ، اور جبکہ میں نے حواریین کو حکم دیا کہ تم مجھ پر اور میرے رسول پر ایمان لاؤ، انہوں نے کہا ہم ایمان لائے اور آپ شاہد رہیے کہ ہم پورے فرماں بردار ہیں۔‘‘

روزقیامت انبیاء سے سوال :قبروں سے زندہ ہونے کے بعدجب لوگ میدان محشرمیں اپنے اعمال کی جوابدہی کے لئے جمع ہوں گے تواللہ مالک یوم الدین سب رسولوں کوجمع کرکے بحیثیت مجموعی پوچھے گاکہ تمہاری قوموں نے تمہاری دعوت حق کاکیاجواب دیاتھا،کیاعمل کیے تھے اورکیاکیابدعات نکالیں تھیں ؟جیسے فرمایا

فَلَنَسْــــَٔـلَنَّ الَّذِیْنَ اُرْسِلَ اِلَیْهِمْ وَلَنَسْــــَٔـلَنَّ الْمُرْسَلِیْنَ۝۶ۙ [111]

ترجمہ: ہم ان لوگوں سے بازپرس کریں جن کی طرف ہم نے پیغمبربھیجے ہیں اور پیغمبروں سے بھی پوچھیں گے (کہ انہوں نے پیغام رسانی کافرض کہاں تک انجام دیااورانہیں اس کاکیاجواب ملا)

فَوَرَبِّكَ لَنَسْــَٔـلَنَّهُمْ اَجْمَعِیْنَ۝۹۲ۙ [112]

ترجمہ:قسم ہے تیرے رب کی !ہم ضروران سے پوچھیں گے کہ تم کیاکرتے رہو۔

محشرکی ہولناکیوں اوراللہ جل جلالہ کی ہیبت وعظمت کی وجہ سے ان سے کوئی جواب نہ بن پائے گا،

عن الجواب من هول ذلك الیوم

مجاہد،حسن،بصری اورسدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ وہ اس دن کی ہولناکی کی وجہ سے یہ جواب دیں گے۔[113]

عَنْ مُجَاهِدٍ فِی قَوْلِهِ تَعَالَى: {یَوْمَ یَجْمَعُ اللهُ الرُّسُلَ فَیَقُولُ مَاذَآ أُجِبْتُمْ} فَیَفْزَعُونَ فَیَقُولُ: مَاذَآ أُجَبْتُمْ؟فَیَقُولُونَ:لَا عِلْمَ لَنَا

مجاہد رحمہ اللہ سے روایت ہے’’ جس روزاللہ سب رسولوں کوجمع کرکے پوچھے گاکہ تمہیں کیاجواب دیاگیا۔‘‘توگھبراہٹ کی وجہ سے انبیاء یہ جواب دیں گے ہمیں کچھ علم نہیں ۔[114]

 عَنْ عَلِیِّ بْنِ أَبِی طَلْحَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَوْلُهُ: یَوْمَ یَجْمَعُ اللهُ الرُّسُلَ فَیَقُولُ مَاذَآ أُجِبْتُمْ قَالُوا لَا عِلْمَ لَنَا، إِلَّا عِلْمٌ أَنْتَ أَعْلَمُ بِهِ مِنَّا

علی بن ابوطلحہ رحمہ اللہ نے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے اس آیت کریمہ’’ جس روزاللہ سب رسولوں کوجمع کرکے پوچھے گاکہ تمہیں کیاجواب دیاگیاتووہ عرض کریں گے کہ ہمیں کچھ علم نہیں ۔‘‘ کے بارے میں بیان کیاہے انبیائے کرام اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں عرض کریں گے کہ ہمیں توصرف وہی علم ہے جسے آپ ہم سے زیادہ بہتر جانتے ہیں ۔[115]

اور تمام رسول عرض کریں گے اے ہمارے رب! ہمیں حقیقی علم نہیں ،توعلام الغیوب ہے،توظاہروغائب تمام امورکوجانتاہے ، ہماری دعوت کے جواب کاصحیح علم آپ کے سواکسی کونہیں ہوسکتا ، پھرہر رسول سے الگ الگ شہادت لی جائے گی اوراللہ تعالیٰ عیسیٰ علیہ السلام سے پوچھے گااے مریم کے بیٹے عیسیٰ!یادکرو میری اس نعمت کوجومیں نے تجھے اور تیری ماں کوعطاکی تھی ، یعنی تمہیں بغیر باپ کے پیدا کر کے اپنی کمال قدرت کانشان بنایااور گہوارے میں تمہاری والدہ کی برات تمہاری زبان سے کرائی ، میں نے وحی اور جبرائیل علیہ السلام سے تجھے تقویت دی،جیسے فرمایا۔۔

وَاٰتَیْنَا عِیْسَى ابْنَ مَرْیَمَ الْبَیِّنٰتِ وَاَیَّدْنٰهُ بِرُوْحِ الْقُدُسِ۔۔۔۝۰۝۸۷ [116]

ترجمہ:آخرکارعیسیٰ ابن مریم کوروشن نشانیاں دے کربھیجااورروح پاک سے اس کی مددکی ۔

تو شیر خوارگی میں لوگوں سے کلام کرتا تھا اور نبوت سے سرفرازہونے کے بعدبھی دعوت وتبلیغ کرتاتھا ، جیسے فرمایا

قَالَ اِنِّىْ عَبْدُ اللهِ۝۰ۣۭ اٰتٰىنِیَ الْكِتٰبَ وَجَعَلَنِیْ نَبِیًّا۝۳۰ۙوَّجَعَلَنِیْ مُبٰرَكًا اَیْنَ مَا كُنْتُ۝۰۠ ‎وَاَوْصٰىنِیْ بِالصَّلٰوةِ وَالزَّكٰوةِ مَا دُمْتُ حَیًّا۝۳۱۠ۖ [117]

ترجمہ:میں اللہ کابندہ ہوں ،اس نے مجھے کتاب عطاکی اورمجھے نبی بنایااورمیں جہاں کہیں بھی ہوں مجھے بابرکت بنایا۔

میں نے تجھے کتاب ، اسرارشریعت ، تورات اورانجیل دونوں کی تعلیم دی،جیسے فرمایا

وَیُعَلِّمُهُ الْكِتٰبَ وَالْحِكْمَةَ وَالتَّوْرٰىةَ وَالْاِنْجِیْلَ۝۴۸ۚ [118]

ترجمہ:اوراللہ اسے کتاب اور حکمت کی تعلیم دے گا،تورات اورانجیل کاعلم سکھائے گا ۔

تو میرے حکم سے مٹی کاپتلاپرندے کی شکل کا بناتااوراس میں پھونک مارتا تھااوروہ میرے حکم سے پرندہ بن جاتا تھا تو مادر ذ اد اندھے اورکوڑھی کومیرے حکم سے اچھا کرتا تھا اور میرے حکم سے مردوں کوحالت موت سے نکال کرزندگی کی حالت میں لاتا تھا یعنی یہ چاروں معجزے میرے حکم سے ہی ہوتے تھے ، تمہارے اختیاروقدرت اورطاقت میں یہ نہ تھاکہ اللہ کے حکم اورمشیت کے بغیر کوئی معجزہ صادرکر کے دکھادیتا، مشرکین مکہ بھی اسلام لانے کے لئے بڑے بڑے معجزوں کامطالبہ کرتے تھے،جیسے فرمایا

وَقَالُوْا لَنْ نُّؤْمِنَ لَكَ حَتّٰى تَفْجُرَ لَنَا مِنَ الْاَرْضِ یَنْۢبُوْعًا۝۹۰ۙاَوْ تَكُوْنَ لَكَ جَنَّةٌ مِّنْ نَّخِیْلٍ وَّعِنَبٍ فَتُفَجِّرَ الْاَنْهٰرَ خِلٰلَهَا تَفْجِیْرًا۝۹۱ۙاَوْ تُسْقِطَ السَّمَاۗءَ كَـمَا زَعَمْتَ عَلَیْنَا كِسَفًا اَوْ تَاْتِیَ بِاللهِ وَالْمَلٰۗىِٕكَةِ قَبِیْلًا۝۹۲ۙاَوْ یَكُوْنَ لَكَ بَیْتٌ مِّنْ زُخْرُفٍ اَوْ تَرْقٰى فِی السَّمَاۗءِ۝۰ۭ وَلَنْ نُّؤْمِنَ لِرُقِیِّكَ حَتّٰى تُنَزِّلَ عَلَیْنَا كِتٰبًا نَّقْرَؤُهٗ۝۰ۭ قُلْ سُبْحَانَ رَبِّیْ هَلْ كُنْتُ اِلَّا بَشَرًا رَّسُوْلًا۝۹۳ۧ [119]

ترجمہ: انہوں نے کہا ہم تیری بات نہ مانیں گے جب تک کہ تو ہمارے لئے زمین کوپھاڑکرایک چشمہ جاری نہ کردے یاتیرے لئے کھجوروں اورانگوروں کا ایک باغ پیدا ہو اورتواس میں نہریں رواں کردے یاتوآسمان کے ٹکڑے کرکے ہمارے اوپرگرادے جیساکہ تیرادعویٰ ہے یااللہ اورفرشتوں کورودرروہمارے سامنے لے آئے یاتیرے لئے سونے کاایک گھربن جائے یاتوآسمان پرچڑھ جائے اور تیرے چڑھنے کابھی ہم یقین نہ کریں گے جب تک کہ توہمارے اوپرایک ایسی تحریرنہ اتار لائے جسے ہم پڑھیں ، اے نبی !ان سے کہوپاک ہے میراپروردگار!کیامیں ایک پیغام لانے والے انسان کے سوااوربھی کچھ ہوں ۔

یعنی یہ میرے رب کے قبضہ قدرت اور اختیار میں ہے کہ وہ اپنی مشیت وحکمت سے کوئی معجزہ دکھائے یانہ دکھائے ، میں تو صرف ایک بندہ اوراس کارسول ہوں میرے اندریہ معجزات دکھانے کی اپنے طورپرکوئی قدرت وطاقت نہیں ہے۔

پھرجب تودلائل وبراہین لیکراپنی امت کے پاس پہنچا تو ان لوگوں نے جنہوں نے دعوت اسلام کوقبول کرنے سے انکار کردیا کہایہ نشانیاں اللہ تعالیٰ کے عطا کردہ معجزات نہیں بلکہ شعبدہ بازی ہیں ،اورانہوں نے اپنی سرکشی میں تمہیں سولی پرچڑھانے کی جوسازش تیارکی تھی اوراس ارادے کوعملی جامہ پہنانے کی پوری کوشش کی مگر ہم نے ان کے ہاتھ روک دیے اور ان کے شرسے بچاکرآسمان پراٹھالیا اور یہ بھی ہمارے فضل اورتوفیق کانتیجہ تھاکہ بنی اسرائیل کی اتنی کثیرجمعیت میں سے چند حواری (جن کی تعداد۱۲بیان کی جاتی ہے)مجھ پراور تم پرایمان لائےاوروہ تیرے مددگار اورساتھی بن گئے اور انہوں نے کہاہم اللہ اوراس کے رسول اوراس پرنازل شدہ کتاب پر ایمان لائے اورگواہ رہوکہ ہم فرماں بردار ہیں ۔

إِذْ قَالَ الْحَوَارِیُّونَ یَا عِیسَى ابْنَ مَرْیَمَ هَلْ یَسْتَطِیعُ رَبُّكَ أَن یُنَزِّلَ عَلَیْنَا مَائِدَةً مِّنَ السَّمَاءِ ۖ قَالَ اتَّقُوا اللَّهَ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِینَ ‎﴿١١٢﴾‏ قَالُوا نُرِیدُ أَن نَّأْكُلَ مِنْهَا وَتَطْمَئِنَّ قُلُوبُنَا وَنَعْلَمَ أَن قَدْ صَدَقْتَنَا وَنَكُونَ عَلَیْهَا مِنَ الشَّاهِدِینَ ‎﴿١١٣﴾‏ قَالَ عِیسَى ابْنُ مَرْیَمَ اللَّهُمَّ رَبَّنَا أَنزِلْ عَلَیْنَا مَائِدَةً مِّنَ السَّمَاءِ تَكُونُ لَنَا عِیدًا لِّأَوَّلِنَا وَآخِرِنَا وَآیَةً مِّنكَ ۖ وَارْزُقْنَا وَأَنتَ خَیْرُ الرَّازِقِینَ ‎﴿١١٤﴾‏ قَالَ اللَّهُ إِنِّی مُنَزِّلُهَا عَلَیْكُمْ ۖ فَمَن یَكْفُرْ بَعْدُ مِنكُمْ فَإِنِّی أُعَذِّبُهُ عَذَابًا لَّا أُعَذِّبُهُ أَحَدًا مِّنَ الْعَالَمِینَ ‎﴿١١٥﴾‏(المائدہ)
’’وہ وقت یاد کے قابل ہے جب کہ حواریوں نے عرض کیا کہ اے عیسیٰ بن مریم ! کیا آپ کا رب ایسا کرسکتا ہے کہ ہم پر آسمان سے ایک خوان نازل فرما دے ؟ آپ نے فرمایا کہ اللہ سے ڈرو اگر تم ایمان والے ہو ،وہ بولے کہ ہم یہ چاہتے ہیں کہ اس میں سے کھائیں اور ہمارے دلوں کو پورا اطمینان ہوجائے اور ہمارایہ یقین اور بڑھ جائے کہ آپ نے ہم سے سچ بولا ہے اور ہم گواہی دینے والوں میں سے ہوجائیں، عیسیٰ ابن مریم نے دعا کی کہ اے اللہ اے ہمارے پروردگار ! ہم پر آسمان سے کھانا نازل فرما! کہ وہ ہمارے لیے یعنی ہم میں جو اول ہیں اور جو بعد کے ہیں سب کے لیے ایک خوشی کی بات ہوجائےاور تیری طرف سے ایک نشانی ہوجائے اور تو ہم کو رزق عطا فرما دے اور تو سب عطا کرنے والوں سے اچھا ہے، حق تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ میں وہ کھانا تم لوگوں پر نازل کرنے والا ہوں، پھر جو شخص تم میں سے اس کے بعد ناحق شناسی کرے گا تو میں اس کو ایسی سزا دوں گا کہ وہ سزا دنیا جہان والوں میں سے کسی کو نہ دوںگا۔‘‘

چونکہ حواریوں کاذکرآگیاتھااس لئے سلسلہ کلام کوتوڑکرحواریوں ہی کے متعلق ایک واقعہ بیان فرمایاکہ جب حواریوں نے اپنے اطمنان قلب کے لئے خواہش ظاہرکی کہ اے عیسیٰ علیہ السلام ابن مریم !کیا آپ کارب ہم پر آسمان سے کھانے کابھراہواایک خوان اتار سکتاہے؟( کیاآپ کارب ،سے ثابت ہوتاہے کہ حواری عیسیٰ علیہ السلام کوایک انسان اوراللہ کا ایک بندہ ہی سمجھتے تھے،وہ عیسیٰ علیہ السلام کو اللہ یااللہ کاشریک یااللہ کی اولاد تسلیم نہیں کرتے تھے،اورعیسیٰ علیہ السلام نے بھی خودکوایک بندہ کی حیثیت سے ہی پیش کیاتھا) تو عیسیٰ علیہ السلام نے حواریوں کو ڈرایااور کہااللہ تعالیٰ کوہرطرح کی قدرت ہے وہ ایسامعجزہ کردکھائے گالیکن اگرتم اللہ اوراس کے رسول پراورروزجزاپرایمان رکھتے ہوتویہ سوال مت کروممکن ہے یہ تمہاری آزمائش یافتنہ کاسبب بن جائےاورتمہارے ایمان ڈگمگاجائیں ، انہوں نے کہا ہم بس یہ چاہتے ہیں کہ اس خوان سے کھانا کھائیں اورہمارے دل مطمئن ہوں اورجوچیز لے کرآپ مبعوث ہوئے ہیں ہم اس کی صداقت کوجان لیں اور ہم اس پر گواہ ہوں ،حواریوں کے پرزوراصرارپرعیسیٰ علیہ السلام ابن مریم رحمہ اللہ نے سرجھکاکرنہایت خشوع وخضوع سے عاجزانہ طورپر دعاکی اے ہمارے رب! ہم پرآسمان سے ایک خوان نازل کر تاکہ ہم اجتماعی طورپرتیراشکراداکریں اورتیری تعریف ،تمجیداورتکبیروتحمید بیان کریں اور تیری طرف سے ایک نشانی ہو ہم کو رزق دے اورتوبہترین رزاق ہے، اللہ نے جواب دیامیں اس کو تم پرنازل کرنے والاہوں ، خوان اتاراگیایانہیں اس بارے میں اختلاف ہے،مگراس بارے میں چندروایات ہیں ،

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ: أَنَّ عِیسَى ابْنَ مَرْیَمَ , قَالُوا لَهُ: ادْعُ اللهَ أَنْ یُنَزِّلَ عَلَیْنَا مَائِدَةً مِنَ السَّمَاءِ ، فَنَزَّلَتِ الْمَلَائِكَةُ مَائِدَةً یَحْمِلُونَهَاعَلَیْهَا سَبْعَةُ أَحْوَاتٍ وَسَبْعَةُ أَرْغِفَةٍ،فَأَكَلَ مِنْهَا آخِرُ النَّاسِ كَمَا أَكَلَ مِنْهَا أَوَّلُهُمْ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ حواریوں نے جب عیسیٰ علیہ السلام سے یہ کہا’’ آپ اللہ تعالیٰ سے دعاکریں کہ وہ آسمان سے ہم پرخوان نازل فرمادے۔‘‘ توفرشتے اس خوان کواٹھاکرنازل ہوئے اس میں سات مچھلیاں اورسات روٹیاں تھیں ، فرشتوں نے اس کھانے کولاکران کے سامنے رکھ دیا تو ان سب لوگوں نے اسے کھالیا۔[120]

عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ عَبْدِ اللهِ: أَنَّ الْمَائِدَةَ، نَزَلَتْ عَلَى عِیسَى ابْنِ مَرْیَمَ، عَلَیْهَا سَبْعَةُ أَرْغِفَةٍ وَسَبْعَةُ أَحْوَاتٍ، یَأْكُلُونَ مِنْهَا مَا شَاءُواقَالَ: فَسَرَقَ بَعْضُهُمْ مِنْهَا، وَقَالَ: لَعَلَّهَا لَا تَنْزِلُ غَدًا فَرُفِعَتْ

اسحاق بن عبداللہ سے روایت ہے کہ یہ خوان عیسیٰ ابن مریم پرنازل ہواتھا اس میں سات روٹیاں اورسات مچھلیاں تھیں ،اورحکم تھاکہ جس طرح چاہواسے کھاؤیہ کبھی ختم نہ ہوگا مگران میں سے بعض لوگوں نے اس خوف سے اس میں سے کھاناچوری کرلیاکہ شایدکل یہ نازل نہ ہوتواس کے بعداس خوان کواٹھالیاگیا۔[121]

مگر اس کے بعدتمہاری امت میں سے جو کفرکرے گا اسے میں ایسی سزا دوں گاجومیں نے کسی کونہ دی ہوگی،

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، قَالَ: إِنَّ أَشَدَّ النَّاسِ عَذَابًا ثَلَاثَةٌ: الْمُنَافِقُونَ، وَمَنْ كَفَرَ مِنْ أَصْحَابِ الْمَائِدَةِ، وَآلُ فِرْعَوْنَ

عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہےروزقیامت سب سے سخت عذاب میں تین قسم کے لوگ مبتلاہوں گے منافقین،اصحاب مائدہ میں سے کفرکرنے والے اورفرعون کے ساتھی ۔[122]

وَإِذْ قَالَ اللَّهُ یَا عِیسَى ابْنَ مَرْیَمَ أَأَنتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُونِی وَأُمِّیَ إِلَٰهَیْنِ مِن دُونِ اللَّهِ ۖ قَالَ سُبْحَانَكَ مَا یَكُونُ لِی أَنْ أَقُولَ مَا لَیْسَ لِی بِحَقٍّ ۚ إِن كُنتُ قُلْتُهُ فَقَدْ عَلِمْتَهُ ۚ تَعْلَمُ مَا فِی نَفْسِی وَلَا أَعْلَمُ مَا فِی نَفْسِكَ ۚ إِنَّكَ أَنتَ عَلَّامُ الْغُیُوبِ ‎﴿١١٦﴾‏ مَا قُلْتُ لَهُمْ إِلَّا مَا أَمَرْتَنِی بِهِ أَنِ اعْبُدُوا اللَّهَ رَبِّی وَرَبَّكُمْ ۚ وَكُنتُ عَلَیْهِمْ شَهِیدًا مَّا دُمْتُ فِیهِمْ ۖ فَلَمَّا تَوَفَّیْتَنِی كُنتَ أَنتَ الرَّقِیبَ عَلَیْهِمْ ۚ وَأَنتَ عَلَىٰ كُلِّ شَیْءٍ شَهِیدٌ ‎﴿١١٧﴾‏(المائدہ)
’’ اور وہ وقت بھی قابل ذکر ہے جب کہ اللہ تعالیٰ فرمائے گا اے عیسیٰ بن مریم ! کیا تم نے ان لوگوں سے کہہ دیا تھا کہ مجھ کو اور میری ماں کو بھی علاوہ اللہ کے معبود قرار دے لو ! عیسیٰ عرض کریں گے کہ میں تو تجھ کو منزہ سمجھتا ہوں، مجھ کو کسی طرح زیبا نہ تھا کہ میں ایسی بات کہتا جس کو کہنے کا مجھ کو کوئی حق نہیں، اگر میں نے کہا ہوگا تو تجھ کو اس کا علم ہوگا، تو تو میرے دل کے اندر کی بات بھی جانتا ہے اور میں تیرے نفس میں جو کچھ ہے اس کو نہیں جانتا، تمام غیبوں کے جاننے والا تو ہی ہے، میں نے تو ان سے اور کچھ نہیں کہا مگر صرف وہی جو تو نے مجھ سے کہنے کو فرمایا تھا کہ تم اللہ کی بندگی اختیار کرو جو میرا بھی رب ہے اور تمہارا بھی رب ہے، میں ان پر گواہ رہا جب تک ان میں رہا،پھر جب تو نے مجھ کو اٹھا لیا تو تو ہی ان پر مطلع رہا اور تو ہر چیز کی پوری خبر رکھتا ہے۔‘‘

کیونکہ نصاریٰ نے یاتومسیح کوہی الٰہ بنالیاہے اوربعض فرقوں نے اللہ کے ساتھ مسیح اوران کی والدہ کوبھی اللہ کی الوہیت میں شامل کررکھاہے چنانچہ میدان محشرمیں تمام خلقت کے سامنےیہ احسانات یاددلاکر  اللہ تعالیٰ عیسیٰ علیہ السلام سے جواب طلب فرمائے گا اے عیسیٰ علیہ السلام ابن مریم !کیاتونے لوگوں سے کہاتھاکہ  اللہ کے سوامجھے اورمیری ماں کوبھی معبود بنالو،عیسیٰ علیہ السلام بڑے ادب سےعرض کریں گے سبحان اللہ یعنی اے پروردگارتواپنی ذات وصفات اورافعال میں ہرطرح کی شرک سے پاک ہے ، میں توتیراایک رسول تھااورایسی مشرکانہ بات میں کیسے کہہ سکتاتھا جس کے کہنے کامجھے حق نہ تھا،اے میرے رب! توعلام الغیوب ہے ،ظاہروباطن کوجاننے والاہے اگرمیں نے ایسی مشرکانہ بات اپنے منہ سے نکالی ہوتی توآپ اس سے بے خبرنہیں ہوسکتے ،آپ میرے دل کے خفیہ بھیدوں کوجانتے ہیں اور میں نہیں جانتاجو کچھ آپ کے دل میں ہےیعنی میں غیب کاعلم نہیں رکھتا ،

قَالَ أَبُو هُرَیْرَةَ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: فَلَقَّاهُ اللَّهُ: {سُبْحَانَكَ مَا یَكُونُ لِی أَنْ أَقُولَ مَا لَیْسَ لِی بِحَقٍّ إِنْ كُنْتُ قُلْتُهُ فَقَدْ عَلِمْتَهُ} [123] الْآیَةَ كُلَّهَا

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےنبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااللہ تعالیٰ عیسیٰ علیہ السلام کواس سوال کاجواب بھی سکھادے گا وہ جواب میں عرض کرے گاکہ سبحان  اللہ ، میرا یہ کام نہ تھاکہ وہ بات کہوں جس کے کہنے کامجھے حق نہ تھااگرمیں نے ایسی بات کہی ہوتی توآپ کوضرور علم ہوتا آپ جانتے ہیں جوکچھ میرے دل میں ہے اور میں نہیں جانتاجو کچھ آپ کے دل میں ہے آپ کوساری پوشیدہ حقیتوں کے عالم ہیں ۔[124]

یہ صفت اللہ کے سواکسی اورکے اندرنہیں ہے جس کاعلم ازل سے ابدتک پرمحیط ہے ،

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ:أَلاَ وَإِنَّهُ یُجَاءُ بِرِجَالٍ مِنْ أُمَّتِی فَیُؤْخَذُ بِهِمْ ذَاتَ الشِّمَالِ،فَأَقُولُ: یَا رَبِّ أُصَیْحَابِی،فَیُقَالُ: إِنَّكَ لاَ تَدْرِی مَا أَحْدَثُوا بَعْدَكَ،فَأَقُولُ كَمَا قَالَ العَبْدُ الصَّالِحُ:وَكُنْتُ عَلَیْهِمْ شَهِیدًا مَا دُمْتُ فِیهِمْ، فَلَمَّا تَوَفَّیْتَنِی كُنْتَ أَنْتَ الرَّقِیبَ عَلَیْهِمْ وَأَنْتَ عَلَى كُلِّ شَیْءٍ شَهِیدٌ(فَیُقَالُ: إِنَّكَ لَا تَدْرِی مَا أَحْدَثُوا بَعْدَكَ)

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے میری امت کے کچھ لوگوں کو( میدان محشرمیں )لایاجائے گااورانہیں جہنم کی بائیں طرف لے جایاجائے گا،میں عرض کروں گامیرے رب ! یہ تومیرے امتی ہیں ؟مجھ سے کہاجائے گاآپ کونہیں معلوم ہے کہ انہوں نے آپ کے بعدنئی نئی باتیں شریعت میں نکالی تھیں (انہوں نے دین میں کیاکیابدعات ایجادکیں تھیں )اس وقت میں وہی کہوں گا جواللہ کے صالح بندےکاقول ہے’’میں اس وقت تک ان کانگران تھاجب تک کہ میں ان کے درمیان تھاجب آپ نے مجھے واپس بلالیاتوآپ ان پرنگران تھے اور آپ توساری ہی چیزوں پر نگران ہیں ۔‘‘ پھرمجھ سے فرمایا جائے گاکہ آپ کے بعدیہ تودین سے مرتدہوگئے(یعنی اسلام سے پھرگئے) ۔[125]

خط کشیدہ الفاظ صحیح مسلم میں ہیں ۔

آپ کوساری پوشیدہ حقیقتوں کے عالم ہیں میں نے ان سے عالم شیرخوارگی میں اورنبوت سے سرفرازہونے کے بعدبھی اس کے سوا کچھ نہیں کہاجس کاآپ نے حکم دیاتھا یہ کہ ہرطرح کے طاغوت سے انکارکرکے  اللہ کی بندگی کرو جومیرارب بھی ہے اور تمہارا رب بھی ،ہرطرح کے اختیارات اسی کے قبضہ قدرت میں ہیں ،میں اس وقت تک ان کا نگران تھاجب تک کہ میں ان کے درمیان تھاجب آپ نے مجھے واپس بلالیاتوآپ ان پرنگران تھے اور توہرچیزسے خبردارہے،

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: قَامَ فِینَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بِمَوْعِظَةٍ فَقَالَ: یَا أَیُّهَا النَّاسُ، إِنَّكُمْ مَحْشُورُونَ إِلَى اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ حُفَاةً عُرَاةً غُرْلًا، {كَمَا بَدَأْنَا أَوَّلَ خَلْقٍ نُعِیدُهُ} [126]الْآیَةَ، وَإِنَّ أَوَّلَ الْخَلَائِقِ یُكْسَى یَوْمَ الْقِیَامَةِ إِبْرَاهِیمُ عَلَیْهِ السَّلَامُ أَلَا وَإِنَّهُ یُجَاءُ بِرِجَالٍ مِنْ أُمَّتِی فَیُؤْخَذُ بِهِمْ ذَاتَ الشِّمَالِ فَأَقُولُ: أَصْحَابِی فَیُقَالُ: إِنَّكَ لَا تَدْرِی مَا أَحْدَثُوا بَعْدَكَ، فَأَقُولُ كَمَا قَالَ الْعَبْدُ الصَّالِحُ: {وَكُنْتُ عَلَیْهِمْ شَهِیدًا مَا دُمْتُ فِیهِمْ} [127]الْآیَةَ إِلَى آخِرِهَا، فَیُقَالُ لِی: إِنَّ هَؤُلَاءِ لَمْ یَزَالُوا مُرْتَدِّینَ عَلَى أَعْقَابِهِمْ مُنْذُ فَارَقْتَهُمْ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وعظ ونصیحت کرنے کے لیے کھڑے ہوئےفرمایااے لوگو!بے شک تم سب اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں ننگے پاؤں ، برہنہ جسم اورغیرمختون حالت میں اکٹھے کیے جاؤگے،جس طرح ہم نے (کائنات کو)پہلے پیداکیاتھااسی طرح دوبارہ پیداکرے گا اوربے شک روزقیامت سب سے پہلے ابراہیم علیہ السلام کولباس پہنایاجائے گاخبردار!آگاہ رہوکہ میری امت کے کچھ آدمیوں کولایاجائے گاتوانہیں بائیں طرف کردیاجائے گامیں کہوں گاکہ یہ تومیرے ساتھی ہیں تومجھے جواب دیاجائے گاکہ آپ کومعلوم نہیں کہ انہوں نے آپ کے بعدکیاکیانئی باتوں کوایجادکرلیاتھاتومیں بھی اسی طرح کہوں گاجس طرح عبدصالح (عیسیٰ علیہ السلام )جواب دیں گے’’ میں اس وقت تک ان کانگران تھاجب تک کہ میں ان کے درمیان تھاجب آپ نے مجھے واپس بلالیاتوآپ ان پرنگران تھے اور آپ توساری ہی چیزوں پر نگران ہیں ،اب اگرآپ انہیں سزادیں تووہ آپ کے بندے ہیں اوراگرمعاف کردیں توآپ غالب اورداناہیں ۔‘‘تومجھے جواب دیاجائے گاکہ جب سے تم نے ان کوچھوڑاہے یہ اپنی ایڑیوں پرپیچھے ہی پلٹتے رہے۔[128]

[1] سنن نسائی کتاب الایمان والنذورباب الحلف بعزة اللہ ۳۷۹۴،سنن ابوداود کتاب السنة بَابٌ فِی خَلْقِ الْجَنَّةِ وَالنَّارِ ۴۷۴۴ ،جامع ترمذی ابواب الجنة بَابُ مَا جَاءَ حُفَّتِ الجَنَّةُ بِالمَكَارِهِ وَحُفَّتِ النَّارُ بِالشَّهَوَاتِ۲۵۶۰،مستدرک حاکم۷۲، مسند احمد ۸۳۹۸

[2] الانبیاء ۵۷

[3] اللیل۱

[4] الشمس۱

[5] الفجر۱،۲

[6]التین ۱،۲

[7] النازعات۱

[8] یونس ۵۳

[9] سبا۳

[10] التغابن ۷

[11] صحیح بخاری کتاب الایمان والنذور بَابٌ كَیْفَ كَانَتْ یَمِینُ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ۶۶۲۸، سنن ابوداودکتاب الایمان والنذور بَابُ مَا جَاءَ فِی یَمِینِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مَا كَانَتْ۳۲۶۳،جامع ترمذی ابواب النذوروالایمان بَابُ مَا جَاءَ كَیْفَ كَانَ یَمِینُ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ ۱۵۴۰، سنن الدارمی ۲۳۹۵،شرح السنة للبغوی۸۶

[12] صحیح مسلم كِتَابُ الْإِیمَانَ بَابُ قَوْلِهِ یَقُولُ اللهُ لِآدَمَ أَخْرِجْ بَعْثَ النَّارِ مِنْ كُلِّ أَلْفٍ تِسْعَمِائَةٍ وَتِسَعَةٍ وَتِسْعِینَ،صحیح بخاری کتاب الایمان والنذور بَابٌ كَیْفَ كَانَتْ یَمِینُ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ۶۶۲۹

[13] الانعام ۲۳

[14] فاطر۴۲

[15] الروضة الندیة ۵۴۱؍۲

[16] صحیح بخاری کتاب الادب بَابُ مَنْ لَمْ یَرَ إِكْفَارَ مَنْ قَالَ ذَلِكَ مُتَأَوِّلًا أَوْ جَاهِلًا۶۱۰۸،صحیح مسلم کتاب الایمان بَابُ النَّهْیِ عَنِ الْحَلِفِ بِغَیْرِ اللهِ تَعَالَى ۴۲۵۷ ، سنن ابوداودکتاب الایمان والنذور بَابٌ فِی كَرَاهِیَةِ الْحَلْفِ بِالْآبَاءِ۳۲۴۹،جامع ترمذی ابواب النذور بَابُ مَا جَاءَ فِی كَرَاهِیَةِ الحَلِفِ بِغَیْرِ اللهِ ۱۵۳۴،موطاامام مالک کتاب النذورباب جامع الایمان،سنن الدارمی۲۳۸۶،السنن الکبری للبیہقی۱۹۸۲۳،مسنداحمد۶۲۸۸،شرح السنة للبغوی۲۴۳۱

[17]سننابوداودکتاب الایمان والنذور بَابٌ فِی كَرَاهِیَةِ الْحَلْفِ بِالْآبَاءِ۳۲۵۱

[18] مسند احمد ۴۹۰۴

[19] جامع ترمذی ابواب النذور بَابُ مَا جَاءَ فِی كَرَاهِیَةِ الحَلِفِ بِغَیْرِ اللهِ۱۵۳۴

[20] صحیح مسلم کتاب الایمان بَابُ بَیَانِ الصَّلَوَاتِ الَّتِی هِیَ أَحَدُ أَرْكَانِ الْإِسْلَامِ۱۰۰

[21]صحیح مسلم کتاب الایمان بَابُ بَیَانِ الصَّلَوَاتِ الَّتِی هِیَ أَحَدُ أَرْكَانِ الْإِسْلَامِ۱۰۱

[22] المغنی لابن قدامة۵۰۵؍۹،الشرح الکبیر علی متن المقنع۱۷۱؍۱۱،بدائع الصنائع ۸؍۳،الدرالمختار۳۱۳؍۳

[23] جامع ترمذی کتاب النذوروالایمان بَابُ مَا جَاءَ فِی الاِسْتِثْنَاءِ فِی الیَمِینِ ۱۵۳۲،سنن ابن ماجہ كِتَابُ الْكَفَّارَاتِ بَابُ الِاسْتِثْنَاءِ فِی الْیَمِینِ عن ابن عمر ۲۱۰۶،سنن نسائی کتاب الایمان والنذورباب مَنْ حَلَفَ فَاسْتَثْنَى عن ابن عمر ۳۷۹۳، تلخیص الحبیر ۲۰۳۹، ۴۰۷؍۴، مسنداحمد۸۰۸۸

[24] صحیح ابوداودکتاب الایمان والنذوربَابُ الِاسْتِثْنَاءِ فِی الْیَمِینِ بَعْدَ السُّكُوتِ ۳۲۸۶،السنن الصغیر للبیہقی ۳۱۶۵

[25] صحیح بخاری کتاب احادیث الانبیاء بَابُ قَوْلِ اللهِ تَعَالَى وَوَهَبْنَا لِدَاوُدَ سُلَیْمَانَ نِعْمَ العَبْدُ إِنَّهُ أَوَّابٌ ۳۴۲۴،وکتاب الایمان والنذوربَابٌ كَیْفَ كَانَتْ یَمِینُ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ ۶۶۳۹،صحیح مسلم کتاب الایمان بَابُ الِاسْتِثْنَاءِ۴۲۸۵،السنن الکبری للبیہقی۱۹۹۰۹، مسنداحمد۷۷۱۵،مسندابی یعلی۶۲۴۴

[26] تحفة الاحوذی۱۰۹؍۵

[27] صحیح بخاری کتاب الایمان والنذور باب قول اللہ تعالیٰ لایواخذکم اللہ باللضو فی ایمانکم۶۶۲۲،صحیح مسلم کتاب الایمان بَابُ نَدْبِ مَنْ حَلَفَ یَمِینًا فَرَأَى غَیْرَهَا خَیْرًا مِنْهَا، أَنْ یَأْتِیَ الَّذِی هُوَ خَیْرٌ، وَیُكَفِّرُ عَنْ یَمِینِهِ۴۲۸۱، سنن ابوداودکتاب الایمان والنذوربَابُ الرَّجُلِ یُكَفِّرُ قَبْلَ أَنْ یَحْنَثَ ۳۲۷۸،سنن نسائی کتاب الایمان والنذورباب الْكَفَّارَةُ قَبْلَ الْحِنْثِ،سنن الدارمی ۲۳۹۱،السنن الصغیرللبیہقی ۳۱۶۸، مسند احمد ۲۰۶۲۷

[28] النحل۱۰۶

[29]صحیح بخاری کتاب الوحیكَیْفَ كَانَ بَدْءُ الوَحْیِ إِلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ؟۱

[30]کتاب الایمان والنذوربَابُ النِّیَّةِ فِی الأَیْمَانِ

[31] سنن ابن ماجہ کتاب الطلاق بَابُ طَلَاقِ الْمُكْرَهِ وَالنَّاسِی۲۰۴۴،معرفة السنن والاثار۱۴۸۱۱،السنن الکبری للبیہقی ۱۵۰۹۴، سنن الدارقطنی ۴۳۵۱، مستدرک حاکم ۲۸۰۱،المعجم الکبیرللطبرانی ۱۴۳۰،مصنف ابن ابی شیبة ۱۹۰۵۱،صحیح ابن حبان۷۲۱۹

[32] فقہ السنة ۳۰؍۳،السیل الجرار۶۰۵؍۱

[33] النحل۹۴

[34] صحیح بخاری کتاب الایمان والنذوربَابُ الیَمِینِ الغَمُوسِ ۶۶۷۵،صحیح مسلم کتاب الایمان بَابُ بَیَانِ الْكَبَائِرِ وَأَكْبَرِهَا۲۵۹ ،مسنداحمد۶۸۸۴

[35] صحیح بخاری كِتَابُ اسْتِتَابَةِ المُرْتَدِّینَ وَالمُعَانِدِینَ وَقِتَالِهِمْ بَابُ إِثْمِ مَنْ أَشْرَكَ بِاللهِ، وَعُقُوبَتِهِ فِی الدُّنْیَا وَالآخِرَةِ ۶۹۲۰،صحیح ابن حبان۵۵۶۲،شعب الایمان۴۵۰۰،السنن الکبری للبیہقی۱۹۸۶۸

[36] موطاامام مالک كِتَابُ النُّذُورِباب اللغْوُ فِی الْیَمِینِ،الروضة الندیة ۵۴۱؍۲

[37] المائدة ۸۹

[38]صحیح بخاری کتاب الایمان والنذوربَابُ قَوْلِهِ لاَ یُؤَاخِذُكُمُ اللهُ بِاللغْوِ فِی أَیْمَانِكُمْ ۴۶۱۳

[39] تفسیراحسن البیان ۳۲۵

[40] بدائع الصنائع۳؍۳

[41] الروضة الندیة ۵۵۲؍۲

[42] سبل السلام ۵۵۱؍۲

[43] سبل السلام ۵۵۳؍۲

[44] سبل السلام۲۶۰؍۲

[45] صحیح بخاری کتاب اللباس بَابُ خَوَاتِیمِ الذَّهَبِ۵۸۶۳،جامع ترمذی ابواب الادب بَابُ مَا جَاءَ فِی كَرَاهِیَةِ لُبْسِ الْمُعَصْفَرِ لِلرَّجُلِ وَالقَسِّیِّ ۲۸۰۹،سنن الکبری للنسائی۲۰۷۷،مسنداحمد۱۸۶۴۹

[46] مسند احمد ۲۴۸۳۵

[47] صحیح بخاری کتاب التعبیربَابُ مَنْ لَمْ یَرَ الرُّؤْیَا لِأَوَّلِ عَابِرٍ إِذَا لَمْ یُصِبْ۷۰۴۶

[48] المائدة ۸۹

[49] البقرة ۲۱۹

[50] النساء۴۳

[51] تفسیرابن ابی حاتم۳۹۱؍۲

[52] تفسیرابن کثیر۱۷۹؍۳

[53] تفسیرابن ابی حاتم۱۱۹۹؍۴

[54] مسند احمد ۸۶۲۰

[55] مسنداحمد۳۷۸

[56] ۔مسند احمد۱۲۸۶۹، صحیح بخاری کتاب الاشربة بَابُ نَزَلَ تَحْرِیمُ الخَمْرِ وَهِیَ مِنَ البُسْرِ وَالتَّمْرِ۵۵۸۲،صحیح مسلم کتاب الاشربة بَابُ تَحْرِیمِ الْخَمْرِ۵۱۳۸

[57] فیض الباری علی صحیح البخاری ۶۱۳؍۳

[58] مسند احمد۱۳۷۳۲، صحیح مسلم کتاب الاشربة بَابُ تَحْرِیمِ تَخْلِیلِ الْخَمْرِ۵۱۴۰،سنن ابوداودکتاب الاشربةبَابُ مَا جَاءَ فِی الْخَمْرِ تُخَلَّلُ ۳۶۷۵،جامع ترمذی ابواب البیوع بَابُ النَّهْیِ أَنْ یُتَّخَذَ الخَمْرُ خَلًّا۱۲۹۴

[59]مسنداحمد۱۸۸۶۲،صحیح مسلم کتاب الاشربة بَابُ تَحْرِیمِ التَّدَاوِی بِالْخَمْرِ۵۱۴۱

[60] مصنف عبدالرزاق۱۷۰۹۷،مصنف ابن ابی شیبة۲۳۸۳۲،صحیح بخاری کتاب الاشربة بَابُ شَرَابِ الحَلْوَاءِ وَالعَسَلِ ،السنن الصغیر للبیہقی ۳۱۲۵

[61] مسنداحمد۱۸۰۳۵،سنن ابوداودکتاب الاشربة بَابُ النَّهْیِ عَنِ الْمُسْكِرِ ۳۶۸۳

[62]۔سنن ابوداودکتاب الاشربة بَابُ الْعِنَبِ یُعْصَرُ لِلْخَمْرِ۳۶۷۴،سنن ابن ماجہ کتاب الاشربة بَابُ لُعِنَتِ الْخَمْرُ عَلَى عَشَرَةِ أَوْجُهٍ ۳۳۸۰ ،مسند احمد۵۷۱۶

[63] المائدة: 90

[64] تفسیرابن ابی حاتم۱۱۹۶؍۴

[65] مسندشافعی باب وَمِنْ كِتَابِ الْأَشْرِبَةِ،صحیح بخاری كِتَابُ الأَشْرِبَةِ باب ۵۵۷۵،صحیح مسلم كتاب الْأَشْرِبَةِ بَابُ عُقُوبَةِ مَنْ شَرِبَ الْخَمْرَ إِذَا لَمْ یَتُبْ مِنْهَا بِمَنْعِهِ إِیَّاهَا فِی الْآخِرَةِ۵۲۲۳

[66] صحیح مسلم كتاب الْأَشْرِبَةِ بَابُ بَیَانِ أَنَّ كُلَّ مُسْكِرٍ خَمْرٌ وَأَنَّ كُلَّ خَمْرٍ حَرَامٌ۵۲۱۸

[67]السنن الکبری للنسائی ۶۷۰۸

[68]صحیح مسلم کتاب الاشربة بَابُ بَیَانِ أَنَّ كُلَّ مُسْكِرٍ خَمْرٌ وَأَنَّ كُلَّ خَمْرٍ حَرَامٌ۵۲۲۱

[69] مسنداحمد۲۴۰۸۲،مصنف عبدالرزاق۱۷۰۰۲، مصنف ابن ابی شیبة۲۳۷۳۹،سنن الدارمی۲۱۴۲،صحیح بخاری کتاب الوضو بَابُ لاَ یَجُوزُ الوُضُوءُ بِالنَّبِیذِ، وَلاَ المُسْكِرِ ۲۴۲،صحیح مسلم کتاب الاشربة بَابُ بَیَانِ أَنَّ كُلَّ مُسْكِرٍ خَمْرٌ وَأَنَّ كُلَّ خَمْرٍ حَرَامٌ۵۲۱۲

[70] سنن ابوداودکتاب الاشربة بَابُ النَّهْیِ عَنِ الْمُسْكِرِ ۳۶۸۱

[71] سنن ابوداودکتاب الاشربة بَابُ النَّهْیِ عَنِ الْمُسْكِرِ ۳۶۸۶ ،جامع ترمذی ابواب الاشربة بَابُ مَا جَاءَ مَا أَسْكَرَ كَثِیرُهُ فَقَلِیلُهُ حَرَامٌ ۱۸۶۶،صحیح ابن حبان ۵۳۸۳،السنن الکبری للبیہقی ۱۷۳۹۷،شعب الایمان ۵۱۸۶، مسند احمد ۲۴۹۹۲

[72] تفسیرابن کثیر۱۸۹؍۳

[73] تفسیرابن ابی حاتم۱۲۰۴؍۴

[74] الملک۱۲

[75] صحیح بخاری کتاب بدء الخلق بَابٌ خَمْسٌ مِنَ الدَّوَابِّ فَوَاسِقُ، یُقْتَلْنَ فِی الحَرَمِ۳۳۱۴،صحیح مسلم کتاب الحج بَابُ مَا یَنْدُبُ لِلْمُحْرِمِ وَغَیْرِهِ قَتْلَهُ مِنَ الدَّوَابِّ فِی الْحِلِّ وَالْحَرَمِ۲۸۶۵،سنن الدارمی ۱۸۵۸،مسنداحمد۲۴۰۵۲،مصنف عبدالرزاق۸۳۷۴،مصنف ابن ابی شیبة۱۴۸۳۷

[76] سنن نسائی كِتَابُ المناسك باب مَا یَقْتُلُ الْمُحْرِمُ مِنَ الدَّوَابِّ۲۸۲۸

[77] تفسیرابن کثیر۱۸۹،۱۹۰؍۳

[78] سنن ابوداودكِتَاب الْمَنَاسِكِ بَابُ مَا یَقْتُلُ الْمُحْرِمُ مِنَ الدَّوَابِّ ۱۸۴۸،جامع ترمذی أَبْوَابُ الحَجِّ بَابُ مَا یَقْتُلُ الْمُحْرِمُ مِنَ الدَّوَابِّ ۸۳۸،سنن ابن ماجہ كِتَابُ الْمَنَاسِكِ بَابُ مَا یَقْتُلُ الْمُحْرِمُ ۳۰۸۹

[79] تفسیرابن ابی حاتم ۱۲۲۸؍۴،تفسیرطبری۳۱؍۱۰

[80] السنن الكبرى للبیہقی۹۹۰۲

[81] تفسیرطبری۴۸؍۱۰

[82] نیل الاوطار۲۷؍۱،مسنداحمد۸۷۳۵،سنن ابوداودکتاب الطھارة بَابُ الْوُضُوءِ بِمَاءِ الْبَحْرِ۸۳،جامع ترمذی ابواب الطھارة بَابُ مَا جَاءَ فِی مَاءِ البَحْرِ أَنَّهُ طَهُورٌ۶۹،السنن الکبری للنسائی ۵۸،سنن ابن ماجہ کتاب الطھارة بَابُ الْوُضُوءِ بِمَاءِ الْبَحْرِ۳۸۶

[83]الحج ۲۸

[84] مسنداحمد۲۱۷۲۱

[85] المائدة: 101

[86] صحیح بخاری کتاب التفسیر سورة المائدہ بَابُ قَوْلِهِ لاَ تَسْأَلُوا عَنْ أَشْیَاءَ إِنْ تُبْدَ لَكُمْ تَسُؤْكُمْ۴۶۲۱،صحیح مسلم کتاب الفضائل بَابُ تَوْقِیرِهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، وَتَرْكِ إِكْثَارِ سُؤَالِهِ عَمَّا لَا ضَرُورَةَ إِلَیْهِ، أَوْ لَا یَتَعَلَّقُ بِهِ تَكْلِیفٌ وَمَا لَا یَقَعُ، وَنَحْوِ ذَلِكَ ۶۱۱۹

[87] تفسیرطبری ۱۰۰؍۱۱،صحیح بخاری كِتَابُ الفِتَنِ بَابُ التَّعَرُّبِ فِی الفِتْنَةِ۷۰۸۹،صحیح مسلم كتاب الْفَضَائِلِ بَابُ تَوْقِیرِهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، وَتَرْكِ إِكْثَارِ سُؤَالِهِ عَمَّا لَا ضَرُورَةَ إِلَیْهِ، أَوْ لَا یَتَعَلَّقُ بِهِ تَكْلِیفٌ وَمَا لَا یَقَعُ۶۱۲۳،مسنداحمد۱۳۶۶۶

[88] صحیح بخاری کتاب التفسیرسورة المائدہ بَابُ قَوْلِهِ لاَ تَسْأَلُوا عَنْ أَشْیَاءَ إِنْ تُبْدَ لَكُمْ تَسُؤْكُمْ۴۶۲۲

[89] آل عمران: 97

[90] [المائدة: 101

[91]صحیح مسلم کتاب الحج بَابُ فَرْضِ الْحَجِّ مَرَّةً فِی الْعُمُرِ۳۲۵۷،سنن ابن ماجہ کتاب المناسک بَابُ فَرْضِ الْحَجِّ۲۸۸۴ ،جامع ترمذی ابواب الحج بَابُ مَا جَاءَ كَمْ فُرِضَ الحَجُّ ۸۱۴،مسنداحمد۹۰۵،السنن الکبری للنسائی ۳۵۸۵

[92] صحیح بخاری کتاب الاعتصام بالکتاب والسنة بَابُ مَا یُكْرَهُ مِنْ كَثْرَةِ السُّؤَالِ وَتَكَلُّفِ مَا لاَ یَعْنِیهِ ۷۲۸۹،صحیح مسلم کتاب الفضائل بَابُ تَوْقِیرِهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، وَتَرْكِ إِكْثَارِ سُؤَالِهِ عَمَّا لَا ضَرُورَةَ إِلَیْهِ، أَوْ لَا یَتَعَلَّقُ بِهِ تَكْلِیفٌ وَمَا لَا یَقَعُ، وَنَحْوِ ذَلِكَ۶۱۱۶ ،سنن ابوداودکتاب السنة بَابُ لُزُومِ السُّنَّةِ ۴۶۱۰،نیل الاوطار۳۵۶۷، مسنداحمد۱۵۴۵

[93]سنن الدارقطنی۴۳۹۶، السنن الکبری للبیہقی۱۹۷۲۵،مشکاة المصابیح کتاب الایمان باب الاعتصام بالکتاب والسنة۱۹۷

[94] صحیح بخاری كِتَابُ الِاعْتِصَامِ بِالكِتَابِ وَالسُّنَّةِ بَابُ الِاقْتِدَاءِ بِسُنَنِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ ۷۲۸۸،صحیح مسلم كِتَابُ الْحَجِّ بَابُ فَرْضِ الْحَجِّ مَرَّةً فِی الْعُمُرِ۳۲۵۷،مسنداحمد۷۳۶۷،السنن الکبری للنسائی ۳۵۸۵،سنن الدارقطنی ۲۷۰۵

[95] تفسیرابن ابی حاتم۱۲۲۰؍۴

[96] تفسیرابن ابی حاتم۱۲۲۱؍۴

[97] تفسیرابن ابی حاتم۱۲۲۲؍۴

[98] تفسیر عبدالرزاق۳۰؍۲

[99] تفسیرابن ابی حاتم۱۲۲۳؍۴

[100] تفسیرطبری،تفسیرابن ابی حاتم۱۲۲۲؍۴

[101] تفسیرابن ابی حاتم۱۲۲۲؍۴

[102] تفسیرابن ابی حاتم۱۲۲۲؍۴،تفسیرطبری۱۳۰؍۱۱

[103] تفسیرابن ابی حاتم۱۲۲۳؍۴

[104] تفسیرابن ابی حاتم۱۲۲۴؍۴

[105] صحیح بخاری کتاب التفسیرسورة المائدہ بَابُ مَا جَعَلَ اللهُ مِنْ بَحِیرَةٍ وَلاَ سَائِبَةٍ، وَلاَ وَصِیلَةٍ وَلاَ حَامٍ۴۶۲۳

[106] المائدة: 105

[107] مسند احمد۲۰۸؍۱،جامع ترمذی ابواب الفتن بَابُ مَا جَاءَ فِی نُزُولِ العَذَابِ إِذَا لَمْ یُغَیَّرِ الْمُنْكَرُ ۲۱۶۸،سنن ابن ماجہ کتاب الفتن بَابُ الْأَمْرِ بِالْمَعْرُوفِ وَالنَّهْیِ عَنِ الْمُنْكَرِ ۴۰۰۵،سنن ابوداودکتاب الملاحم بَابُ الْأَمْرِ وَالنَّهْیِ۴۳۳۸

[108] مسندالبزار۸۵۱۰

[109] المائدة: 106

[110] صحیح بخاری کتاب الوصایابَابُ قَوْلِ اللهِ تَعَالَى:یَا أَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا شَهَادَةُ بَیْنِكُمْ ۲۷۸۰،سنن ابوداود کتاب القضائ بَابُ شَهَادَةِ أَهْلِ الذِّمَّةِ وَفِی الْوَصِیَّةِ فِی السَّفَرِ ۳۶۰۶، جامع ترمذی ابواب التفسیر بَابٌ وَمِنْ سُورَةِ الْمَائِدَةِ۳۰۶۰

[111] الاعراف۶

[112] الحجر۹۲

[113] تفسیر الماوردی۷۸؍۲،تفسیرطبری۲۱۰؍۱۱

[114] تفسیرعبدالرزاق۳۸؍۲،تفسیرطبری۲۱۰؍۱۱

[115] تفسیرطبری۲۱۱؍۱۱

[116] البقرة ۸۷

[117] مریم۳۰،۳۱

[118] آل عمران۴۸

[119]بنی اسرائیل۹۰تا۹۳

[120] تفسیرابن ابی حاتم۱۲۴۶؍۴

[121] تفسیرطبری۲۲۸؍۱۱

[122] تفسیرطبری۲۳۳؍۱۱

[123] المائدة: 116

[124] تفسیرابن ابی حاتم۱۲۵۳؍۴

[125] صحیح بخاری تفسیرسورة المائدہ بَابُ وَكُنْتُ عَلَیْهِمْ شَهِیدًا مَا دُمْتُ فِیهِمْ، فَلَمَّا تَوَفَّیْتَنِی كُنْتَ أَنْتَ الرَّقِیبَ عَلَیْهِمْ، وَأَنْتَ عَلَى كُلِّ شَیْءٍ شَهِیدٌ۴۶۲۵،صحیح مسلم الجنةبَابُ فَنَاءِ الدُّنْیَا وَبَیَانِ الْحَشْرِ یَوْمَ الْقِیَامَةِ۷۲۰۱، مسنداحمد۲۲۸۱

[126] الأنبیاء: 104

[127] المائدة: 117

[128]سنن ابوداود طیالسی ۲۷۶۰

Related Articles