ہجرت نبوی کا ساتواں سال

تیمم

وَشَرْعًا ،مَسْحُ الْوَجْهِ وَالْیَدَیْنِ بِتُرَابٍ طَهُورٍ عَلَى وَجْهٍ مَخْصُوصٍ

تیمم کی شرعی تعریف یہ ہے کہ مخصوص طریقے سے پاک مٹی کے ساتھ چہرے اوردونوں ہاتھوں کامسح کرنا۔[1]

عَنْ حُذَیْفَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: فُضِّلْنَا عَلَى النَّاسِ بِثَلَاثٍ، جُعِلَتْ صُفُوفُنَا كَصُفُوفِ الْمَلَائِكَةِ، وَجُعِلَتْ لَنَا الْأَرْضُ كُلُّهَا مَسْجِدًاوَجُعِلَتْ تُرْبَتُهَا لَنَا طَهُورًا، إِذَا لَمْ نَجِدِ الْمَاءَ

حذیفہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاہم لوگوں کودوسرے لوگوں پرتین باتوں کی وجہ سے فضیلت ملی،ہماری صفیں فرشتوں کی صفوں کی طرح کی گئیں ،اورہمارے لئے ساری زمین نمازکی جگہ ہے،اورزمین کی مٹی ہمارے لئے پاکیزگی کاذریعہ بنادی گئی ہے جب پانی نہ ملے۔[2]

 ۔۔۔فَلَمْ تَجِدُوْا مَاۗءً فَتَیَمَّمُوْا۔۔۔۝۴۳ [3]

ترجمہ:تم پانی نہ پاؤتوتیمم کرلو۔

۔۔۔ فَلَمْ تَجِدُوْا مَاۗءً فَتَیَمَّمُوْاْ۔۔۔۝۶ [4]

ترجمہ:تم پانی نہ پاؤتوتیمم کرلو۔

عَنْ أَبِی سَعِیدٍ الْخُدْرِیِّ قَالَ: خَرَجَ رَجُلَانِ فِی سَفَرٍ، فَحَضَرَتِ الصَّلَاةُ وَلَیْسَ مَعَهُمَا مَاءٌ ،فَتَیَمَّمَا صَعِیدًا طَیِّبًا فَصَلَّیَا ثُمَّ وَجَدَا الْمَاءَ فِی الْوَقْتِ، فَأَعَادَ أَحَدُهُمَا الصَّلَاةَ وَالْوُضُوءَ وَلَمْ یُعِدِ الْآخَرُ،ثُمَّ أَتَیَا رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَذَكَرَا ذَلِكَ لَهُ ،فَقَالَ لِلَّذِی لَمْ یُعِدْ:أَصَبْتَ السُّنَّةَ، وَأَجْزَأَتْكَ صَلَاتُكَ، وَقَالَ لِلَّذِی تَوَضَّأَ وَأَعَادَ:لَكَ الْأَجْرُ مَرَّتَیْنِ

ابوسعیدخدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہےدوشخص سفرمیں نکلےنمازکاوقت آگیالیکن دونوں کے پاس پانی نہ تھاان دونوں نے پاک مٹی کے ساتھ تیمم کرکے نمازپڑھ لی،مگرابھی نمازکا وقت باقی تھاکہ پانی مل گیاتوان میں سےایک شخص نے وضوء کرکے نمازدہرالی جبکہ دوسرے نے نمازنہ دہرائی،اس کے بعددونوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضرہوئے اوراپناواقعہ بتایا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص سے کہاجس نے نمازنہیں دہرائی تھی تونے سنت کی موافقت کی ہے اورتیری نمازتیرے لئے کافی ہوگئی ہے،اورجس نے وضوء کرکے دوبارہ نمازاداکی تھی اس سے فرمایاتجھے دوگناثواب ہے۔[5]

۔۔۔ اَوْ لٰمَسْتُمُ النِّسَاۗءَ فَلَمْ تَجِدُوْا مَاۗءً فَتَیَمَّمُوْاْ۔۔۔۝۶ [6]

ترجمہ:یاتم نے عورتوں کو ہاتھ لگایا ہو اورپانی نہ ملے توپاک مٹی سے کام لو(یعنی تیمم کرلو)

عِمْرَانُ بْنُ حُصَیْنٍ الخُزَاعِیُّ،أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ رَأَى رَجُلًا مُعْتَزِلًا لَمْ یُصَلِّ فِی القَوْمِ، فَقَالَ: یَا فُلاَنُ مَا مَنَعَكَ أَنْ تُصَلِّیَ فِی القَوْمِ؟ فَقَالَ یَا رَسُولَ اللهِ: أَصَابَتْنِی جَنَابَةٌ وَلاَ مَاءَ،قَالَ:عَلَیْكَ بِالصَّعِیدِ فَإِنَّهُ یَكْفِیكَ

عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے مروی ہےہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک سفرمیں تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کونمازپڑھائی توایک آدمی (جماعت سے)الگ تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے(اسے )کہاتمہیں کس چیزنے نمازسے روکے رکھا؟اس نے کہااے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !مجھے حالت جنابت لاحق ہے اورمزیدیہ کہ پانی بھی میسرنہیں ، توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاتم مٹی کو لازم پکڑو(یعنی تیمم کرلو) بلاشبہ یہ تمہیں کفایت کرجائے گا۔[7]

 وَاِنْ كُنْتُمْ مَّرْضٰٓى ۝۶ [8]

ترجمہ:اوراگرتم حالت مرض میں ہو۔

عَنْ جَابِرٍ قَالَ: خَرَجْنَا فِی سَفَرٍ فَأَصَابَ رَجُلًا مِنَّا حَجَرٌ فَشَجَّهُ فِی رَأْسِهِ ، ثُمَّ احْتَلَمَ،فَسَأَلَ أَصْحَابَهُ فَقَالَ: هَلْ تَجِدُونَ لِی رُخْصَةً فِی التَّیَمُّمِ؟فَقَالُوا: مَا نَجِدُ لَكَ رُخْصَةً وَأَنْتَ تَقْدِرُ عَلَى الْمَاءِ فَاغْتَسَلَ فَمَاتَ،فَلَمَّا قَدِمْنَا عَلَى النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أُخْبِرَ بِذَلِكَ،فَقَالَ:قَتَلُوهُ قَتَلَهُمُ اللهُ أَلَا سَأَلُوا إِذْ لَمْ یَعْلَمُوا فَإِنَّمَا شِفَاءُ الْعِیِّ السُّؤَالُ، إِنَّمَا كَانَ یَكْفِیهِ أَنْ یَتَیَمَّمَ وَیَعْصِرَ أَوْ یَعْصِبَ شَكَّ مُوسَى – َعلَى جُرْحِهِ خِرْقَةً، ثُمَّ یَمْسَحَ عَلَیْهَا وَیَغْسِلَ سَائِرَ جَسَدِهِ

جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہےہم ایک سفرمیں نکلے توہم میں سے ایک شخص کے سرپرپتھرلگ گیاجس سے اس کاسرزخمی ہوگیا(اسی رات)اسے احتلام ہوگیا،اس نے اپنے ساتھیوں سے دریافت کیا کہ کیاتم سمجھتے ہوکہ میرے لئے تیمم کی اجازت ہے؟انہوں نے جواب دیاہم تیرے لئے کوئی رخصت نہیں پاتے کیونکہ تم پانی (کے استعمال)پرقادرہولہذا اس نے غسل کیااوروہ فوت ہوگیا،پھرجب ہم(واپس)نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم کواس واقعہ کی اطلاع دی، توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاانہوں نے اسے قتل کردیا اللہ تعالیٰ انہیں قتل کرے،انہوں نے علم نہ ہونے پرسوال کیوں نہ کیاکیونکہ جہالت کاعلاج سوال ہی توہے،اس روایت میں مزیدیہ الفاظ بھی ہیں ،اس شخص کے لیے یہی کافی تھاکہ تیمم کرلیتااوراپنے زخم پرپٹی باندھے رہتا،موسیٰ کوشک ہواکہ یَعْصِرَکالفظ بولایا یَعْصِبَ کا(معنیٰ دونوں کاپٹی باندھناہے)پھراس پرمسح کرتااورباقی ساراجسم دھولیتا۔[9]

لیکن وہ ضعیف ہیں ۔

عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ جُبَیْرٍ الْمِصْرِیِّ، عَنْ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ قَالَ: احْتَلَمْتُ فِی لَیْلَةٍ بَارِدَةٍ فِی غَزْوَةِ ذَاتِ السُّلَاسِلِ فَأَشْفَقْتُ إِنِ اغْتَسَلْتُ أَنْ أَهْلِكَ، فَتَیَمَّمْتُ ، ثُمَّ صَلَّیْتُ بِأَصْحَابِی الصُّبْحَ، فَذَكَرُوا ذَلِكَ لِلنَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ:یَا عَمْرُو صَلَّیْتَ بِأَصْحَابِكَ وَأَنْتَ جُنُبٌ؟فَأَخْبَرْتُهُ بِالَّذِی مَنَعَنِی مِنَ الِاغْتِسَالِ وَقُلْتُ إِنِّی سَمِعْتُ اللهَ یَقُولُ:وَلَا تَقْتُلُوا أَنْفُسَكُمْ إِنَّ اللهَ كَانَ بِكُمْ رَحِیمًا،فَضَحِكَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَلَمْ یَقُلْ شَیْئًا

عبدالرحمٰن بن جبیر،عمروبن العاص رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کوجب غزوہ ذات السلاسل میں بھیجاگیاتوکہتے ہیں کہ ایک سخت سردرات کومجھے احتلام ہوگیامجھے ڈرتھاکہ اگرمیں نے غسل کیاتوکہیں ہلاک نہ ہوجاؤں ،لہذامیں نے تیمم کرلیاپھراپنے ساتھیوں کے ساتھ صبح کی نمازپڑھ لی،جب ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے تولوگوں نے اس بات کاذکرآپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے عمرو رضی اللہ عنہ !تم نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ حالت جنابت میں نمازاداکرلی؟میں نے کہامجھے اللہ تعالیٰ کایہ فرمان یادآگیا’’ اورتم اپنے نفسوں کوقتل مت کروبلاشبہ اللہ تعالیٰ تم پرنہایت مہربان ہیں ۔‘‘اس لئے میں نے تیمم کیااورپھرنمازپڑھ لی،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہنس پڑے اور کچھ نہ کہا۔[10]

وَالْحَدِیثُ یَدُلُّ عَلَى جَوَازِ الْعُدُولِ إلَى التَّیَمُّمِ لِخَشْیَةِ الضَّرَرِ

امام مالک رحمہ اللہ ،امام شافعی رحمہ اللہ اورامام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کہتے ہیں مذکورہ بالا حدیث اس چیز پر دال ہے کہ اگرپانی کے استعمال سے کسی قسم کے نقصان کااندیشہ ہوتوتیمم درست ہے۔

وَذَهَبَ أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ وَالشَّافِعِیُّ فِی أَحَدِ قَوْلَیْهِ إلَى عَدَمِ جَوَازِ التَّیَمُّمِ لِخَشْیَةِ الضَّرَرِ، قَالُوا:؛ لِأَنَّهُ وَاجِدٌ.

امام احمدبن حنبل رحمہ اللہ کہتے ہیں ایسی صورت میں تیمم درست نہیں کیونکہ ایسے شخص کوپانی میسرہے۔ایک قول کے مطابق امام شافعی رحمہ اللہ کابھی یہی مذہب ہے۔

وَالْحَدِیثُ وقَوْله تَعَالَى: {وَإِنْ كُنْتُمْ مَرْضَى} [11] الْآیَة یَرُدَّانِ عَلَیْهِمَا.

امام شوکانی رحمہ اللہ کہتے ہیں گزشتہ حدیث اوراللہ تعالیٰ کایہ فرمان’’اوراگرتم بیمارہو۔‘‘امام احمدبن حنبل رحمہ اللہ کے موقف کاردکرتے ہیں ۔[12]

وَقَدْ اسْتَدَلَّ بِهَذَا الْحَدِیثِ الثَّوْرِیُّ وَمَالِكٌ وَأَبُو حَنِیفَةَ وَابْنُ الْمُنْذِرِ أَنَّ مَنْ تَیَمَّمَ لِشِدَّةِ الْبَرْدِ وَصَلَّى لَا تَجِبُ عَلَیْهِ الْإِعَادَةُ؛ لِأَنَّ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ – لَمْ یَأْمُرْهُ بِالْإِعَادَةِ

امام مالک رحمہ اللہ ،امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ ،امام ثوری اورابن منذراس حدیث سے استدلال کرتے ہوئےکہتے ہیں کہ سخت سردی کی وجہ سے اگرکوئی شخص تیمم کرکے نمازپڑھ لے تواس پرنماز دہراناواجب نہیں ہے کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابی(عمروبن عاص رضی اللہ عنہ )کواس کاحکم نہیں دیا۔[13]

 وَقَالَ عَطَاءٌ، وَالْحَسَنُ: یَغْتَسِلُ، وَإِنْ مَاتَ

حسن رحمہ اللہ اورعطاء رحمہ اللہ کہتے ہیں جس پرغسل واجب ہے وہ غسل ہی کرے گاخواہ فوت ہوجائے۔[14]

توسعت فی ذلك السنة المطهرة فأجازته لمرض أو برد شدید

شیخ البانی رحمہ اللہ کاکہناہےسنت نبوی نے مسئلہ تیمم میں وسعت کرتے ہوئے کسی مرض یاسخت سردی کی وجہ سے اسے جائز قراردیاہے۔[15]

قَالَ ابْنُ رَسْلَانَ: لَا یَتَیَمَّمُ لِشِدَّةِ الْبَرْدِ مَنْ أَمْكَنَهُ أَنْ یُسَخِّنَ الْمَاءَ

ابن ارسلان رحمہ اللہ کاموقف ہے کہ سخت سردی میں ایسے شخص کے لئے تیمم کرنادرست نہیں جوپانی کوگرم کرکے استعمال کرنے کی طاقت رکھتاہو۔[16]

یُستباح به ما یُستباح بالوضوء والغسل لمن لا یجد الماء

راجع قول یہ ہے کہ کسی بھی عذرکی وجہ سے اگرانسان وضویاغسل نہ کرسکتاہوتواسے تیمم کفایت کرجائے گایہی جمہورعلماء کاموقف ہے۔[17]

عمر وَابْن مَسْعُود فِی تیَمّم الْجنب اضمحل عِنْدهم

البتہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ اورعبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما حالت جنابت میں پانی نہ ملنے پرتیمم درست نہیں سمجھتے تھے۔[18]

x اس کے ارکان چہرہ اوردونوں ہاتھ ہیں وہ شخص ان پرہاتھ پھیرلے،

فَقَالَ:إِنَّمَا كَانَ یَكْفِیكَ هَكَذَا. وَمَسَحَ وَجْهَهُ وَكَفَّیْهِ وَاحِدَةً

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عماربن یاسر رضی اللہ عنہ کوفرمایا تمہیں صرف اتناہی کافی تھااوراپنے چہرے اورہتھیلیوں کاایک ہی مرتبہ مسح کیا۔[19]

عَنْ عَمَّارِ بْنِ یَاسِرٍ قَالَ: سَأَلْتُ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عَنِ التَّیَمُّمِ فَأَمَرَنِی ضَرْبَةً وَاحِدَةً لِلْوَجْهِ وَالْكَفَّیْنِ

عماربن یاسر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں چہرے اوردونوں ہاتھوں کے تیمم کاحکم دیا۔[20]

عَنْ سَعِیدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبْزَى، عَنْ أَبِیهِ، قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ إِلَى عُمَرَ بْنِ الخَطَّابِ، فَقَالَ: إِنِّی أَجْنَبْتُ فَلَمْ أُصِبِ المَاءَ ،فَقَالَ عَمَّارُ بْنُ یَاسِرٍ لِعُمَرَ بْنِ الخَطَّابِ: أَمَا تَذْكُرُ أَنَّا كُنَّا فِی سَفَرٍ أَنَا وَأَنْتَ، فَأَمَّا أَنْتَ فَلَمْ تُصَلِّ، وَأَمَّا أَنَا فَتَمَعَّكْتُ فَصَلَّیْتُ، فَذَكَرْتُ لِلنَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:إِنَّمَا كَانَ یَكْفِیكَ هَكَذَا،فَضَرَبَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بِكَفَّیْهِ الأَرْضَ، وَنَفَخَ فِیهِمَا، ثُمَّ مَسَحَ بِهِمَا وَجْهَهُ وَكَفَّیْهِ

سعیدبن عبدالرحمٰن بن ابزی اپنے والدسے روایت کرتے ہیں ایک شخص سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے پاس آیااورکہنے لگا میں جنبی ہوگیااورمجھے پانی نہ مل سکا،عماربن یاسر رضی اللہ عنہ نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ بن خطاب سے کہاکہ آپ کویادہوگاکہ میں اورآپ سفرمیں تھے (ہم دونوں جنبی ہوگئے)آپ نے تونمازادانہ کی لیکن میں مٹی میں لیٹ گیااورنمازاداکرلی،پھرمیں نے اس واقعہ کاذکرنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کیاتوآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تمہیں توصرف اس طرح کرناہی کافی تھا،چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی دونوں ہتھیلیوں کوزمین پرمارااوران میں پھونکا،پھران دونوں کواپنے چہرے اورہتھیلیوں پرپھیرلیا۔

فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:إِنَّمَا كَانَ یَكْفِیكَ أَنْ تَضْرِبَ بِیَدَیْكَ الْأَرْضَ، ثُمَّ تَنْفُخَ، ثُمَّ تَمْسَحَ بِهِمَا وَجْهَكَ ، وَكَفَّیْكَ

اورصحیح مسلم کی روایت میں یہ لفظ ہیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاتجھے صرف اتناہی کافی تھاکہ تواپنی دونوں ہتھیلیاں زمین پرمارتاپھران میں پھونکتااس کے بعدان کے ساتھ اپنے چہرے اور اپنی ہتھیلیوں کامسح کرتا۔[21]

إنَّهُ یُقْتَصَرُ فِی مَسْحِ الْیَدَیْنِ عَلَى الْكَفَّیْنِ، وَإِلَیْهِ ذَهَبَ عَطَاءٌ وَمَكْحُولٌ وَالْأَوْزَاعِیُّ وَأَحْمَدُ وَإِسْحَاقُ وَابْنُ الْمُنْذِرِ وَعَامَّةُ أَصْحَابِ الْحَدِیثِ، هَكَذَا فِی شَرْحِ مُسْلِمٍ

اسحاق رحمہ اللہ اورابن منذر رحمہ اللہ ،امام عطاء رحمہ اللہ ،امام مکحول رحمہ اللہ اورامام اوزاعی رحمہ اللہ کاموقف ہے کہ تیمم کرتے ہوئے ہاتھوں کے مسح میں صرف ہتھیلیوں پرہی اکتفاکیاجائے گا۔[22]

اورامام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کاکہناہے کہ صرف ایک مرتبہ مٹی پرہاتھ مارناکافی ہے اس مٹی کوجو ہاتھوں پرلگ گئی ہے ایک ہی مرتبہ پنے دونوں ہاتھ ایک دوسرے پرپھیرلو (کہنیوں تک ضروری نہیں ) اور منہ پربھی پھیرلو

قال فِی التَّیَمُّمِ ضَرْبَةٌ لِلْوَجْهِ وَالْكَفَّیْنِ

تیمم میں چہرے اور ہتھیلیوں کے لیے صرف ایک ہی مرتبہ کافی ہے[23]

امام زہری رحمہ اللہ کہتے ہیں بغلوں تک مسح کرناواجب ہے۔

قَالَ الْخَطَّابِیِّ: لَمْ یَخْتَلِفْ أَحَدٌ مِنْ الْعُلَمَاءِ فِی أَنَّهُ لَا یَلْزَمُ مَسْحُ مَا وَرَاءَ الْمِرْفَقَیْنِ

امام خطابی رحمہ اللہ کاکہناہے کہ علماء میں سے کسی نے بھی اس بات سے اختلاف نہیں کیاکہ کہنیوں سے آگے (مزید)مسح کرنالازم نہیں ہے۔[24]

راجع یہ ہے کہ صرف ہتھیلیوں پرہی مسح کیاجائے گاجیساکہ صحیح بخاری اورصحیح مسلم کی حدیث میں كَفَّیْهِ کے لفظ موجودہیں (کیونکہ ہاتھ کااطلاق صرف گٹے تک ہے ،اگر کہنیوں تک ہاتھوں پرمسح تیمم کے لئے شرط ہوتی تواللہ تعالیٰ اس شرط سے مقیدفرما دیتا جیساکہ اللہ تعالیٰ نے وضومیں مقید فرمایا ہے )امام شوکانی رحمہ اللہ بھی اسی کے قائل ہیں اور عبدالرحمٰن مبارکپوری بھی اسی کوترجیح دیتے ہیں ۔

جن روایات میں إلَى الْمِرْفَقَیْنِ کہنیوں تک إلَى الْآبَاطِ بغلوں تک ،إلَى نِصْفِ الذِّرَاعِ آدھے بازوتک ہاتھ پھیرنے کاذکرہے وہ تمام روایات ضعیف وناقابل احتجاج ہیں یاصرف موقوف ہیں اورمرفوع وصحیح روایات میں صرف یَدَیْهِ دونوں ہاتھ یا كَفَّیْهِ دونوں ہتھیلیوں کاہی ذکرہے۔[25]

لہذااصولی قاعدہ کے مطابق مطلق یَدَیْهِ کے الفاظ کومقید كَفَّیْهِ پرمحمول کیاجائے گا ۔

xمٹی پرکتنی مرتبہ ہاتھ ماراجائے۔

عَنْ عَمَّارِ بْنِ یَاسِرٍ قَالَ: سَأَلْتُ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عَنِ التَّیَمُّمِ،فَأَمَرَنِی ضَرْبَةً وَاحِدَةً لِلْوَجْهِ وَالْكَفَّیْنِ

عماربن یاسر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے تیمم کے متعلق سوال کیا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے چہرے اوردونوں ہاتھوں کے لئے(زمین پر)ایک مرتبہ ہاتھ مارنے کا حکم دیا۔ [26]

ثُمَّ ضَرَبَ بِیَدَیْهِ الْأَرْضَ ضَرْبَةً وَاحِدَةً

عماربن یاسر رضی اللہ عنہ سے مروی روایت میں یہ لفظ ہیں پھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دونوں ہاتھوں کوایک مرتبہ زمین پرمارا۔[27]

جس روایت میں چہرے کے لئے الگ اورہاتھوں کے لئے الگ زمین پرہاتھ مارنے کاذکرہے وہ ضعیف ہے۔

عَنِ ابْنِ عُمَرَ , عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: التَّیَمُّمُ ضَرْبَتَانِ ضَرْبَةً لِلْوَجْهِ , وَضَرْبَةً لِلْیَدَیْنِ إِلَى الْمِرْفَقَیْنِ.

جیساکہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاتیمم یہ ہے کہ دومرتبہ زمین پرہاتھ ماراجائے ،ایک مرتبہ چہرے کے لئے اورایک مرتبہ کہنیوں تک دونوں ہاتھوں کے لئے۔[28]

قُلْت وَعَلِیُّ بْنُ ظَبْیَانَ ضَعَّفَهُ الْقَطَّانُ وَابْنُ مَعِینٍ

اس روایت کی سندمیں عَلِیُّ بْنُ ظَبْیَانَ راوی ہے جسے حافظ ابن حجر رحمہ اللہ ،امام ابن قطان رحمہ اللہ اورامام ابن معین رحمہ اللہ وغیرہ نے ضعیف قراردیاہے۔[29]

راجح بات یہی ہے کہ یہ حدیث موقوف ہے۔

وَصَحَّحَ اَلْأَئِمَّةُ وَقْفَه

جیساکہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ رقمطرازہیں ائمہ نے اس کے موقوف ہونے کوہی درست کہاہے۔[30]

مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ منهم علی عمار وبن عَبَّاسٍ وَغَیْرِ وَاحِدٍ مِنَ التَّابِعِینَ مِنْهُمُ الشَّعْبِیُّ وَعَطَاءٌ وَمَكْحُولٌ قَالُوا التَّیَمُّمُ ضَرْبَةٌ لِلْوَجْهِ وَالْكَفَّیْنِ وبه یقول أحمد وإسحاق، قال بن قُدَامَةَ فِی الْمُغْنِی الْمَسْنُونُ عِنْدَ أَحْمَدَ التَّیَمُّمُ بِضَرْبَةٍ وَاحِدَةٍ

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل علم اصحاب میں جن میں سیدناعلی رضی اللہ عنہ بن ابی طالب،عماربن یاسر رضی اللہ عنہ ،ابن عباس رضی اللہ عنہما ،امام عطاء رحمہ اللہ ،امام مکحول رحمہ اللہ ،امام اوزاعی رحمہ اللہ ،امام شعبی رحمہ اللہ ،امام احمدبن حنبل رحمہ اللہ اوراسحاق کاموقف ہے کہ تیمم چہرے اوردونوں ہاتھوں کے لئے ایک ہی مرتبہ زمین پرہاتھ مارنے کانام ہے،ابن قدامہ نے مغنی میں لکھاہے کہ احمدبن حنبل رحمہ اللہ کہتے ہیں مسنون یہ ہے کہ ایک بارزمین پرہاتھ مارے[31]

یتَیَمَّمَ بِضَرْبَتَیْنِ: ضَرْبَةٌ لِلْوَجْهِ،وَضَرْبَةٌ لِلْیَدَیْنِ إلَى الْمِرْفَقَیْنِ، هذا هو الصحیح عن ابن عمر وعن جابر بن عبد الله، وهو قول أكثر الْعُلَمَاءِ الْقَائِلِینَ بذلك، وهو قول مَالِك وأَبِی حَنِیفَةَ وَالشَّافِعِیُّ وغیرهم،وَذَهَبَ ابْنُ الْمُسَیِّبِ وَابْنُ سِیرِینَ إلَى أَنَّ الْوَاجِبَ ثَلَاثُ ضَرَبَاتٍ: ضَرْبَةٌ لِلْوَجْهِ، وَضَرْبَةٌ لِلْكَفَّیْنِ، وَضَرْبَةٌ لِلذِّرَاعَیْنِ

جبکہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ ، جابر رضی اللہ عنہ ، امام ابراہیم رحمہ اللہ ،امام حسن رحمہ اللہ ،امام سفیان ثوری رحمہ اللہ اور امام شافعی رحمہ اللہ کہتے ہیں تیمم یہ ہے کہ زمین پردومرتبہ ہاتھ ماراجائے ،ایک مرتبہ چہرے کے لئے اورایک مرتبہ کہنیوں تک دونوں ہاتھوں کے لئے، سعیدبن مسیب رحمہ اللہ اورابن سیرین رحمہ اللہ کہتے ہیں تین مرتبہ زمین پرہاتھ مارناواجب ہے ،ایک مرتبہ چہرے کے لئے ،ایک مرتبہ دونوں ہاتھوں کے لئے اورایک مرتبہ دونوں بازؤوں کے لئے۔[32]

جمہورکاموقف راجح ہے،امام نووی رحمہ اللہ اسی کوترجیح دیتے ہیں ۔[33]

فَالْحَقُّ الْوُقُوفُ عَلَى مَا ثَبَتَ فِی الصَّحِیحَیْنِ مِنْ حَدِیثِ عَمَّارٍ مِنْ الِاقْتِصَارِ عَلَى ضَرْبَةٍ وَاحِدَةٍ

امام شوکانی رحمہ اللہ کہتے ہیں حق بات یہ ہے کہ صحیحین میں موجودہ حدیث عماربن یاسر رضی اللہ عنہ سے ثابت ایک ضرب پرہی اکتفا کیا جائے گا۔[34]

عبدالرحمٰن مبارکپوری رحمہ اللہ بھی اسی کے قائل ہیں ۔[35]

x اگردوران نمازپانی مل جائے توکیا تیمم ٹوٹ جاتاہے یاکہ نمازمکمل کرلی جائے گی؟

حقیقت یہی ہے کہ پانی مل جانے سے تیمم ختم ہوجاتاہے جبکہ انسان اس کے استعمال پرقادرہو،لہذاحدث اصغرہوتووضوء اوراگرحدث اکبرہوتوغسل کرکے دوبارہ نمازاداکرنی چاہیے اس کی دلیل یہ حدیث ہے۔

عَنْ أَبِی ذَرٍّ قَالَ: أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: إِنَّ الصَّعِیدَ الطَّیِّبَ طَهُورُ الْمُسْلِمِ، وَإِنْ لَمْ یَجِدِ الْمَاءَ عَشْرَ سِنِینَ، فَإِذَا وَجَدَ الْمَاءَ فَلْیُمِسَّهُ بَشَرَتَهُ، فَإِنَّ ذَلِكَ خَیْرٌ

ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاپاک مٹی مسلمان کوپاک کرنے والی ہے اگرچہ دس سال اسے پانی نہ ملے، جب پانی میسرآجائے تواسے اپنے جسم پرملے کیونکہ بلاشبہ اسی میں خیروبھلائی ہے۔[36]

وَإِذَا وَجَدَ الْمُتَیَمِّمُ الْمَاءَ، وَهُوَ فِی الصَّلَاةِ، خَرَجَ فَتَوَضَّأَ، أَوْ اغْتَسَلَ إنْ كَانَ جُنُبًا، وَاسْتَقْبَلَ الصَّلَاةَ

ابن قدامہ حنبلی رحمہ اللہ کہتے ہیں جب تیمم کرنے والے شخص کوپانی مل جائے اوروہ حالت نمازمیں ہوتووہ نمازچھوڑکے وضوء کرے یااگرحالت جنابت سے ہے توغسل کرے اور پھر نمازاداکرے۔[37]

وَبِهَذَا قَالَ الثَّوْرِیُّ، وَأَبُو حَنِیفَةَ

ابوحنیفہ رحمہ اللہ اورامام ثوری رحمہ اللہ اسی کے قائل ہیں ۔

وَقَالَ مَالِكٌ، وَالشَّافِعِیُّ، وَأَبُو ثَوْرٍ، وَابْنُ الْمُنْذِرِ: إنْ كَانَ فِی الصَّلَاةِ، مَضَى فِیهَا

امام مالک رحمہ اللہ ،امام شافعی رحمہ اللہ ،ابن منذر رحمہ اللہ کاموقف ہے کہ اگرانسان نمازمیں ہوتوپانی ملنے کے باوجودنمازمکمل کرلے۔[38]

وَإِذَا صَلَّى الْجُنُبُ بِالتَّیَمُّمِ ثُمَّ وَجَدَ الْمَاءَ وَجَبَ عَلَیْهِ الِاغْتِسَالُ بِإِجْمَاعِ الْعُلَمَاءِ

اگرکوئی جنبی تیمم کرکے نمازپڑھ رہاہواورپھراسے پانی میسرہوجائے تواس پرواجب ہے کہ وہ غسل کرے اورپھرنمازاداکرے،اس پرعلماء کااجماع ہے،اوریہی موقف ہی راجح ہے (کیونکہ اصل کی موجودگی سے نیابت ختم ہوجاتی ہے)۔[39]

وَإِذَا وَجَدَ الْمَاءَ فَلْیُمِسَّهُ بَشَرَتَهُ

البتہ گزشتہ حدیث کے عموم سے ایک صورت خاص ہے وہ یہ کہ نمازسے فراغت کے بعداگرنمازکے وقت میں ہی پانی مل جائے تووضوء کر کے دوبارہ نمازاداکرناضروری نہیں ۔

عَنْ أَبِی سَعِیدٍ الْخُدْرِیِّ قَالَ: خَرَجَ رَجُلَانِ فِی سَفَرٍ، فَحَضَرَتِ الصَّلَاةُ وَلَیْسَ مَعَهُمَا مَاءٌ، فَتَیَمَّمَا صَعِیدًا طَیِّبًا فَصَلَّیَا ، ثُمَّ وَجَدَا الْمَاءَ فِی الْوَقْتِ ،فَأَعَادَ أَحَدُهُمَا الصَّلَاةَ وَالْوُضُوءَ وَلَمْ یُعِدِ الْآخَرُ،ثُمَّ أَتَیَا رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَذَكَرَا ذَلِكَ لَهُ،فَقَالَ لِلَّذِی لَمْ یُعِدْ:أَصَبْتَ السُّنَّةَ، وَأَجْزَأَتْكَ صَلَاتُكَ،وَقَالَ لِلَّذِی تَوَضَّأَ وَأَعَادَ:لَكَ الْأَجْرُ مَرَّتَیْنِ

جیساکہ ابوسعیدخدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہےدوآدمی سفرمیں نکلے اورجب نمازکاوقت ہواتوان کے پاس پانی نہیں تھالہذاانہوں نے پاک مٹی سے تیمم کیااورنمازاداکرلی،پھرانہیں (نمازکے )وقت میں ہی پانی مل گیا،ان میں سے ایک نے تو وضو کر کے دوبارہ نمازاداکی جبکہ دوسرے نے ایسانہ کیا، پھردونوں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضرہوئے اوراس بات کاتذکرہ کیا،توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص سے کہ جس نے نماز نہیں دہرائی تھے فرمایاتم نے سنت کوحاصل کرلیااورتمہیں تمہاری نمازکافی ہوگئی، اوردوسرے شخص کے لئے فرمایا تمہارے لئے دوگنااجرہے۔[40]

x کیانمازکاوقت ختم ہونے سے تیمم ٹوٹ جاتاہے؟

وأما دعوى انتقاض التیمم بخروج الوقت فلا أصل له یرجع إلیه ولا دلیل یدل علیه

امام شوکانی رحمہ اللہ کہتے ہیں نمازکاوقت ختم ہوجانے سے تیمم ٹوٹ جانے کے دعوے کی کوئی اصل نہیں اورنہ ہی اس کی کوئی دلیل ہے۔[41]

عَنْ أَحْمَدَ، أَنَّهُ قَالَ: لَا یُصَلِّی بِالتَّیَمُّمِ إلَّا صَلَاةً وَاحِدَةً ، ثُمَّ یَتَیَمَّمُ لِلْأُخْرَى

امام احمد سے ایک قول مروی ہے کہ ایک تیمم میں صرف ایک ہی نماز ادا کرسکتے ہیں جبکہ دوسری نماز کے لیے دوسرا تیمم کرنا پڑھے گا۔[42]

x کیاتیمم صرف مٹی سے کیاجائے گا؟

ارشادباری تعالیٰ ہے

۔۔۔ فَتَیَمَّمُوا صَعِیدًا طَیِّبًا۔۔۔[43]

پاکیزہ مٹی سے تیمم کرو۔

عَنْ حُذَیْفَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: فُضِّلْنَا عَلَى النَّاسِ بِثَلَاثٍ ، جُعِلَتْ صُفُوفُنَا كَصُفُوفِ الْمَلَائِكَةِ، وَجُعِلَتْ لَنَا الْأَرْضُ كُلُّهَا مَسْجِدًا، وَجُعِلَتْ تُرْبَتُهَا لَنَا طَهُورًا إِذَا لَمْ نَجِدِ الْمَاءَ

حذیفہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاہمیں دیگرتمام لوگوں پرتین فضیلتیں حاصل ہیں ،ہماری نمازکی صفیں فرشتوں کی صفوں کی ماندہیں ،ہمارے لئے زمین مسجد بنادی گئی ہے،اورزمین کی مٹی ہمارے لئے وضوء کے قائم مقام ہے جب ہمیں (وضوء کے لئے)پانی مہیانہ ہو سکے۔ [44]

صَعِیدًا سے مرادمٹی یازمین کابالائی حصہ ،قبر،راستہ ،زمین کابلندحصہ ،زمین کا اوپروالا حصہ ہے۔

قَالَ الْأَزْهَرِیُّ؛ وَمَذْهَبُ أَكْثَرِ الْعُلَمَاءِ أَنَّ الصَّعِیدَ فِی قَوْله تَعَالَى: صَعِیدًا طَیِّبًا، هُوَ التُّرَابُ

زہری رحمہ اللہ کہتے ہیں اکثرعلماء کایہی مذہب ہے کہ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان’’پاکیزہ مٹی۔‘‘ میں صَعِیدًا سے مرادمٹی ہے۔[45]

امام شافعی رحمہ اللہ ،امام احمدبن حنبل رحمہ اللہ اورامام داود رحمہ اللہ کاموقف ہے کہ تیمم صرف مٹی سے ہی کیاجائے گا

وَقَدْ ذَهَبَ إلَى تَخْصِیصِ التَّیَمُّمِ بِالتُّرَابِ الْعِتْرَةُ وَالشَّافِعِیُّ وَأَحْمَدُ وَدَاوُد؛ وَذَهَبَ مَالِكٌ وَأَبُو حَنِیفَةَ وَعَطَاءٌ وَالْأَوْزَاعِیُّ وَالثَّوْرِیُّ إلَى أَنَّهُ یُجْزِئُ بِالْأَرْضِ وَمَا عَلَیْهَا

امام مالک رحمہ اللہ ،امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ ،امام عطاء رحمہ اللہ ،امام اوزاعی رحمہ اللہ اور امام ثوری رحمہ اللہ کہتے ہیں زمین کابالائی حصہ کچھ بھی ہواس سے تیمم درست ہے۔[46]

اورراجح بھی یہی ہے چونکہ لفظ صَعِیدً کامعنی زمین کابالائی وسطحی حصہ ہے جیساکہ گزشتہ اکثروبیشتر ائمہ لغت کے اقوال سے یہی ثابت ہوتاہے اس لئے ہراس چیزکے ساتھ تیمم درست ہوگاجوزمین کی سطح ہے اورحدیث میں موجودمٹی کاذکرقرآن کے لفظ صَعِیدًکی تخصیص نہیں کرتابلکہ اس کے ایک فردکی وضات کرتاہے یعنی جس طرح صَعِیدًمیں دیگراشیاء شامل ہیں اسی طرح مٹی بھی شامل ہے اوربالخصوص حدیث میں مٹی کاہی لفظ اس لئے بیان کیا گیاہے کیونکہ عموماًزمین کابالائی حصہ یہی ہوتی ہے لہذااسی سے تیمم کیاجائے گا لیکن جہاں ریت ہوگی وہاں ریت سے تیمم کیاجائے گا،اسی طرح جہاں زمین کی سطح کوئی اور چیزہوگی وہاں اسی سے تیمم کیاجائے۔

x نمازکاوقت ختم ہونے کااندیشہ ہوتوتیمم خواہ انسان پانی کے استعمال پرقادرہی کیوں نہ ہوکیاایسی صورت میں تیمم کیاجائے گایاکہ وضوء ہی کرناضروری ہے اگرچہ نمازکاوقت ختم ہوجائے۔

شافعیہ اورحنابلہ ایسی صورت میں تیمم جائزنہیں مانتے،

وَالْجَوَازُ بِالتَّیَمُّمِ مَعَ وُجُودِ الْمَاءِ لَنْ یَكُونَ إلَّا لِخَوْفِ الْفَوْتِ أَصْلًا كَمَا فِی صَلَاةِ الْجِنَازَةِ وَالْعِیدِوَالْكُسُوفِ وَالسُّنَنِ وَالرَّوَاتِبِ فَلَا یُشْتَرَطُ لَهَا الْعَجْزُ

نفیہ نمازجنازہ اورنمازعیدکے فوت ہونے کااندیشہ ہوتوپانی کی موجودگی میں بھی تیمم کیاجاسکتاہے، اوراسی طرح اگر نماز کسوف اورفرائض کی سنتوں کے فوت ہونے کاخطرہ ہوتب بھی تیمم کیاجاسکتاہے۔[47]

شافعیہ کاموقف راجح ہے کیونکہ تیمم کی اجازت صحت وتندرستی کی حالت میں صرف اسی وقت ہے جب پانی میسرنہ ہوجیسے ارشادباری تعالیٰ ہے

۔۔۔ فَلَمْ تَجِدُوْا مَاۗءً فَتَیَمَّمُوْا۔۔۔ [48]

ترجمہ:اورپانی نہ ملے توپاک مٹی سے کام لو۔

امام شوکانی رحمہ اللہ اور البانی رحمہ اللہ اسی کے قائل ہیں ۔

x اگرپانی میسرہولیکن ناکافی ہو؟

اس صورت میں اس شخص کوچاہیے کہ پہلے اپنے بدن اورکپڑوں سے نجاست دورکرے یااس پانی کوقضائے حاجت وغیرہ میں استعمال کرے کیونکہ شریعت نے قبل ازوضوانہی افعال کاذکرکیاہے۔

وَإِذَاأَمَرْتُكُمْ بِأَمْرٍ فَأْتُوا مِنْهُ مَا اسْتَطَعْتُمْ

حدیث نبوی ہےجب میں تمہیں کسی کام کاحکم دوں توحسب استطاعت اس پرعمل کرو۔[49]

وَقَدْ اسْتَدَلَّ بِهِ الْمُصَنِّفُ عَلَى وُجُوبِ اسْتِعْمَالِ الْمَاءِ

امام شوکانی رحمہ اللہ نے مذکورہ بالا حدیث سے استدلال کیا کہ جہاں تک ممکن ہوطہارت کے لئے پانی استعمال کرناضروری ہے(ایسانہیں کرناچاہیے کہ اگرپانی کم ہوتواسے یکسرترک کرکے محض تیمم ہی کرلیاجائے)۔[50]

xلاچاروبے بس مریض کیاکرے؟

یعنی نہ تووہ خودحرکت کرکے پانی حاصل کرسکتاہے اورنہ ہی کوئی ایساشخص اس کے قریب ہے جواسے پانی مہیاکرسکے توایسی صورت میں اس کے لئے تیمم کرلینامباح ودرست ہوگاکیونکہ وہ بعینہ ایسے شخص کی طرح ہے کہ جوکسی گہرے کنوئیں میں پانی دیکھتاہے لیکن اسے حاصل کرنے کاکوئی ذریعہ اس کے پاس نہیں ۔

 الصَّلَاةِ بِغَیْرِ مَاءٍ وَلَا تُرَابٍ عِنْدَ الضَّرُورَةِ

اگرکچھ بھی میسرنہ ہوتوکیابغیرطہارت نمازدرست ہے؟

تیمم کی اجازت نازل ہونے سے پہلے جب ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کاہارگم ہوگیاتھاتوکچھ آدمیوں کورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے تلاش کرنے کے لئے بھیجااورپھرنمازکاوقت ہوگیالیکن اس وقت ان کے پاس پانی موجودنہیں تھااورتیمم بھی مشروع نہیں تھا

فَصَلَّوْا بِغَیْرِ وُضُوءٍ

لہذاکچھ لوگوں نے بغیروضوء کے ہی نمازپڑھ لی،پھرجب واپسی پر انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بات کی شکایت کی توآیت تیمم نازل ہوئی۔[51]

وَلَوْ كَانَتِ الصَّلَاةُ حِینَئِذٍ مَمْنُوعَةً لَأَنْكَرَ عَلَیْهِمُ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَبِهَذَا

اس حدیث میں محل شاہدیہ ہے کہ اگرایسی حالت میں نمازممنوع ہوتی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی ضروروضاحت فرماتے حالانکہ ایساکچھ منقول نہیں ہے اوراس وقت پانی کانہ ہوناپانی اورتیمم کے لئے مٹی وغیرہ دونوں کے نہ ہونے کے مترادف تھاکیونکہ اس وقت طہارت کاحکم صرف پانی کے ساتھ ہی خاص تھا۔

امام شافعی رحمہ اللہ ،امام احمدبن حنبل رحمہ اللہ اورجمہورمحدثین نے ایسی حالت میں اداکی ہوئی نمازکودرست قراردیاہے

لَكِنْ اخْتَلَفُوا فِی وُجُوبِ الْإِعَادَةِ ،عَنْ الشَّافِعِیِّ وُجُوبُهَا وَصَحَّحَهُ أَكْثَرُ أَصْحَابِهِ،وَاحْتَجُّوا بِأَنَّهُ عُذْرٌ نَادِرٌ فَلَمْ یُسْقِطْ الْإِعَادَةَ

البتہ اس مسئلےمیں اختلاف کیاہے کہ کیادوبارہ نمازپڑھنالازم ہے یا نہیں ؟ امام شافعی رحمہ اللہ کہتے ہیں نمازدہراناواجب ہے اور اس مسئلہ میں جم غفیر اسی کو صحیح قرار دیتے ہیں کیونکہ یہ نادرعذرہےچنانچہ نماز کااعادہ کرے گا۔

وَالْمَشْهُورُ عَنْ أَحْمَدَ وَبِهِ قَالَ الْمُزَنِیّ وَسَحْنُونٌ وَابْنُ الْمُنْذِرِ: لَا تَجِبُ، لِأَنَّهَا لَوْ كَانَتْ وَاجِبَةً لَبَیَّنَهَا لَهُمْ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ

امام احمدبن حنبل رحمہ اللہ امام ابن منذر رحمہ اللہ کہتے ہیں واجب نہیں ہے کیونکہ اگرواجب ہوتاتورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں ضرورحکم دیتے۔

وَقَالَ مَالِكٌ وَأَبُو حَنِیفَةَ فِی الْمَشْهُورِ عَنْهُمَا: لَا یُصَلِّی،لَكِنْ قَالَ أَبُو حَنِیفَةَ وَأَصْحَابُهُ: یَجِبُ عَلَیْهِ الْقَضَاءُ،قَالَ الثَّوْرِیُّ وَالْأَوْزَاعِیُّ.وَقَالَ مَالِكٌ فِیمَا حَكَاهُ عَنْهُ الْمَدَنِیُّونَ: لَا یَجِبُ عَلَیْهِ الْقَضَاءُ،تُسْتَحَبُّ الصَّلَاةُ وَتَجِبُ الْإِعَادَةُ

امام مالک رحمہ اللہ اورامام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کہتے ہیں ایسی صورت میں وہ شخص نمازہی ادانہیں کرے گا،البتہ احناف کے نزدیک اس پرقضاء واجب ہے، جبکہ امام ثوری رحمہ اللہ ،امام اوزعی اور رحمہ اللہ امام مالک رحمہ اللہ کے کہتے ہیں اس کی قضاواجب نہیں ہے،امام نووی رحمہ اللہ کاموقف ہےایسی حالت میں نمازپڑھ لینابہترہے لیکن بعدمیں (وضوء یاتیمم کرکے)دوبارہ پڑھناواجب ہے۔[52]

امام احمدبن حنبل رحمہ اللہ کاموقف راجح ہے کہ یہ سنت کے زیادہ قریب ہے۔فی الحقیقت ایسابہت کم واقع ہوتاہے لیکن بہرحال اس کا امکان توموجودہے مثلاًاگرکوئی مسلمان مجاہدبطورجنگی قیدی دشمنوں کے ہاتھ آجائے اوراسے اس طرح جکڑاگیاہوکہ اسے پانی اورمٹی دونوں میسرنہ ہوں ،اس کے علاوہ شدید مریض جوحرکت پرقادرنہ ہواورنہ ہی کوئی دوسراشخص اس کے قریب ہوجواسے پانی یامٹی وغیرہ فراہم کرسکتاہے تویسی صورت میں انہیں کیا کرناچاہیے ؟ یقیناًحسب استطاعت عمل کاحکم ہے اس لئے بغیروضوء وتیمم کے ہی نمازاداکرلینی چاہیے۔

قُلْتُ: یَا نَبِیَّ اللَّهِ، أَخْبِرْنِی عَنِ الْوُضُوءِ، قَالَ:مَا مِنْكُمْ مِنْ أَحَدٍ یَقْرَبُ وَضُوءَهُ ثُمَّ یَتَمَضْمَضُ وَیَسْتَنْشِقُ وَیَنْتَثِرُ إِلَّا خَرَّتْ خَطَایَاهُ مِنْ فَمِهِ وَخَیَاشِیمِهِ مَعَ الْمَاءِ حِینَ یَنْتَثِرُ، ثُمَّ یَغْسِلُ وَجْهَهُ كَمَا أَمَرَهُ اللَّهُ تَعَالَى إِلَّا خَرَّتْ خَطَایَا وَجْهِهِ مِنْ أَطْرَافِ لِحْیَتِهِ مِنَ الْمَاءِ، ثُمَّ یَغْسِلُ یَدَیْهِ إِلَى الْمِرْفَقَیْنِ إِلَّا خَرَّتْ خَطَایَا یَدَیْهِ مِنْ أَطْرَافِ أَنَامِلِهِ، ثُمَّ یَمْسَحُ رَأْسَهُ إِلَّا خَرَّتْ خَطَایَا رَأْسِهِ مِنْ أَطْرَافِ شَعَرِهِ مَعَ الْمَاءِ، ثُمَّ یَغْسِلُ قَدَمَیْهِ إِلَى الْكَعْبَیْنِ كَمَا أَمَرَهُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ إِلَّا خَرَّتْ خَطَایَا قَدَمَیْهِ مِنْ أَطْرَافِ أَصَابِعِهِ مَعَ الْمَاءِ، ثُمَّ یَقُومُ فَیَحْمَدُ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ وَیُثْنِی عَلَیْهِ بِالَّذِی هُوَ لَهُ أَهْلٌ، ثُمَّ یَرْكَعُ رَكْعَتَیْنِ إِلَّا خَرَجَ مِنْ ذُنُوبِهِ كَهَیْئَتِهِ یَوْمَ وَلَدَتْهُ أُمُّهُ

عمروبن عبسہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں اے اللہ کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ! مجھے وضوکی بابت خبردیجئے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجوشخص وضوکاپانی لے کرکلی کرتاہے اورناک میں پانی دیتاہے ،اس کے منہ سے نتھنوں سے پانی کے ساتھ ہی خطائیں جھڑجاتی ہیں جبکہ وہ ناک جھاڑتاہےپھرجب وہ منہ دھوتاہے جیساکہ اللہ کاحکم ہے تواس کے منہ کی خطائیں داڑھی اورداڑھی کے بالوں سے پانی کے گرنے کے ساتھ ہی جھڑجاتی ہیں ،پھروہ اپنے دونوں ہاتھ دھوتاہے کہنیوں سمیت تواس کے ہاتھوں کے گناہ اس کی پوریوں کی طرح جھڑجاتے ہیں ،پھروہ مسح کرتا ہے تو اس کے سرکی خطائیں اس کے بالوں کے کناروں سے پانی کے ساتھ ہی جھڑجاتی ہیں ،پھرجب وہ اپنے پاؤں ٹخنوں سمیت حکم الٰہی کے مطابق دھوتاہے توانگلیوں سے پانی ٹپکنے کے ساتھ ہی اس کے پیروں کے گناہ بھی دورہوجاتے ہیں ،پھروہ کھڑاہوکراللہ عزوجل کے لائق جوحمدوثناء ہے اسے بیان کرکے دورکعت نمازجب اداکرتاہے تووہ اپنے گناہوں سے ایساپاک صاف ہوجاتاہے جیسے وہ تولدہواہو،

قَالَ أَبُو أُمَامَةَ: یَا عَمْرُو بْنَ عَبَسَةَ، انْظُرْ مَا تَقُولُ، أَسَمِعْتَ هَذَا مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ. أَیُعْطَى هَذَا الرَّجُلُ كُلَّهُ فِی مَقَامِهِ؟ قَالَ: فَقَالَ عَمْرُو بْنُ عَبَسَةَ: یَا أَبَا أُمَامَةَ، لَقَدْ كَبِرَتْ سِنِّی، وَرَقَّ عَظْمِی، وَاقْتَرَبَ أَجَلِی، وَمَا بِی مِنْ حَاجَةٍ أَنْ أَكْذِبَ عَلَى اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ وَعَلَى رَسُولِهِ، لَوْ لَمْ أَسْمَعْهُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ إِلَّا مَرَّةً أَوْ مَرَّتَیْنِ أَوْ ثَلَاثًا، لَقَدْ سَمِعْتُهُ سَبْعَ مَرَّاتٍ أَوْ أَكْثَرَ مِنْ ذَلِكَ

یہ سن کرابوامامہ رضی اللہ عنہ نے عمروبن عبسہ رضی اللہ عنہ سے کہاخوب غورکرلیں کہ آپ کیافرمارہے ہیں ؟رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے آپ نے اسی طرح سناہے؟یہ سب کچھ ایک ہی مقام میں انسان حاصل کرلیتاہے؟عمروبن عبسہ رضی اللہ عنہ نے جواب دیاکہ ابوامامہ میں بوڑھاہوگیاہوں ،میری ہڈیاں ضعیف ہوچکی ہیں ،میری موت قریب آپہنچی ہے مجھے کیا فائدہ جو میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پرجھوٹ بولوں ،ایک دفعہ نہیں دودفعہ نہیں تین دفعہ نہیں میں نے اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی سات باربلکہ اس سے بھی زیادہ سناہے۔[53]

أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:إِذَا تَوَضَّأَ الْعَبْدُ الْمُسْلِمُ أَوِ الْمُؤْمِنُ فَغَسَلَ وَجْهَهُ خَرَجَ مِنْ وَجْهِهِ كُلُّ خَطِیئَةٍ نَظَرَ إِلَیْهَا بِعَیْنَیْهِ مَعَ الْمَاءِ أَوْ مَعَ آخِرِ قَطْرِ الْمَاءِ،فَإِذَا غَسَلَ یَدَیْهِ خَرَجَ مِنْ یَدَیْهِ كُلُّ خَطِیئَةٍ كَانَ بَطَشَتْهَا یَدَاهُ مَعَ الْمَاءِ أَوْ مَعَ آخِرِ قَطْرِ الْمَاءِ،فَإِذَا غَسَلَ رِجْلَیْهِ خَرَجَتْ كُلُّ خَطِیئَةٍ مَشَتْهَا رِجْلَاهُ مَعَ الْمَاءِ أَوْ مَعَ آخِرِ قَطْرِ الْمَاءِ، حَتَّى یَخْرُجَ نَقِیًّا مِنَ الذُّنُوبِ

ایک اورروایت میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجب ایمان واسلام والا وضو کرتاہے اور منہ دھوتاہے توپانی کے ساتھ یاپانی کے آخری قطرے کے ساتھ اس کے منہ سے وہ سب گناہ (صغیرہ)جواس نے آنکھوں سے کیے جھڑجاتےہیں ، پھرجب ہاتھ دھوتاہے تواس کے ہاتھوں سے ہرایک گناہ جوہاتھ سےکیاتھاپانی کے ساتھ یاپانی کے آخری قطرہ کے ساتھ جھڑ جاتے ہیں ،پھرجب پاؤں دھوتاہے تو ہر ایک گناہ جس کواس نے پاؤں سے چل کرکیاتھاپانی کے ساتھ یاپانی کے آخری قطرہ کے ساتھ جھڑجاتے ہیں یہاں تک کہ وہ گناہوں سے بالکل پاک وصاف ہوجاتاہے۔[54]

عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ، قَالَ: كَانَتْ عَلَیْنَا رِعَایَةُ الْإِبِلِ فَجَاءَتْ نَوْبَتِی فَرَوَّحْتُهَا بِعَشِیٍّ فَأَدْرَكْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَائِمًا یُحَدِّثُ النَّاسَ فَأَدْرَكْتُ مِنْ قَوْلِهِ:مَا مِنْ مُسْلِمٍ یَتَوَضَّأُ فَیُحْسِنُ وُضُوءَهُ، ثُمَّ یَقُومُ فَیُصَلِّی رَكْعَتَیْنِ، مُقْبِلٌ عَلَیْهِمَا بِقَلْبِهِ وَوَجْهِهِ إِلَّا وَجَبَتْ لَهُ الْجَنَّةُ، قَالَ فَقُلْتُ: مَا أَجْوَدَ هَذِهِ فَإِذَا قَائِلٌ بَیْنَ یَدَیَّ یَقُولُ: الَّتِی قَبْلَهَا أَجْوَدُ ، فَنَظَرْتُ فَإِذَا عُمَرُ قَالَ: إِنِّی قَدْ رَأَیْتُكَ جِئْتَ آنِفًا، قَالَ: مَا مِنْكُمْ مِنْ أَحَدٍ یَتَوَضَّأُ فَیُبْلِغُ أَوْ فَیُسْبِغُ الْوَضُوءَ ثُمَّ یَقُولُ: أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُ اللهِ وَرَسُولُهُ إِلَّا فُتِحَتْ لَهُ أَبْوَابُ الْجَنَّةِ الثَّمَانِیَةُ یَدْخُلُ مِنْ أَیِّهَا شَاءَ

عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے مروی ہےہم لوگوں کواونٹ چرانے کاکام تھا میری باری آئی تومیں اونٹوں کوچراکرشام کوان کے رہنے کی جگہ پرلے آیاتومیں نے دیکھاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے لوگوں کو کچھ فرمارہے ہیں ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جومسلمان اچھی طرح وضوکرے،پھرکھڑاہوکردل جمعی سے دورکعت نمازاداکرےاس کے لئے جنت واجب ہوگئی،میں نے کہاکیاعمدہ بات فرمائی (جس کاثواب اس قدربڑاہے اورمحنت بہت کم ہے ) ایک شخص نے جو میرے آگے ہی بیٹھے تھے فرمایااس سے پہلے جوبات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی ہے وہ اس سے بھی زیادہ بہترتھی،میں نے جوغورسے دیکھاتووہ سیدنا عمرفاروق رضی اللہ عنہ تھے آپ مجھ سے فرمانے لگے تم ابھی آئے ہو،تمہارے آنے سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاہے کہ جوشخص عمدگی اوراچھائی سے وضوکرے پھرکہے اشھدان الاالٰہ الااللہ واشھدان محمدعبدہ ورسولہ اس کے لئے جنت کے آٹھوں دروازے کھل جاتے ہیں جس میں سے چاہے داخل ہو[55]

عَنْ أَبِی مَالِكٍ الْأَشْعَرِیِّ،أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: الطَّهور شَطْر الْإِیمَانِ، وَالْحَمْدُ لِلَّهِ تَمْلَأُ الْمِیزَانَ، وَسُبْحَانَ اللهِ وَالْحَمْدُ لِلَّهِ تَمْلَآنِ مَا بَیْنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ ،وَالصَّلَاةُ نُورٌ، وَالصَّدَقَةُ بُرهان،وَالصَّبْرُ ضِیَاءٌ،وَالْقُرْآنُ حُجَّة لَكَ أَوْ عَلَیْكَ، كُلُّ النَّاسِ یَغْدُو، فَبَائِعٌ نَفْسَهُ فَمعتِقهَا، أَوْ مُوبِقُهَا

ابومالک اشعری رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاطہارت آدھے ایمان کے برابرہے، اورالحمدللہ ترازوکوبھردے گا(یعنی اس قدر اس کاثواب عظیم ہے کہ اعمال تولنے کاترازواس کے اجرسے بھرجائے گا)اورسبحان اللہ اورالحمدللہ دونوں آسمانوں اورزمین کے درمیان کی جگہ کوبھردیں گے(اگران کاثواب اس جسم کی شکل میں فرض کیاجائے)اورنمازنورہے اور صدقہ دلیل ہے، اورصبرروشنی ہے، اورقرآن تیری دلیل ہے دوسرے پریادوسرے کی تجھ پردلیل ہے(یعنی اگر سمجھ کرپڑھے اورفائدہ اٹھائے تو تیری دلیل ہے نہیں تودوسرے کوفائدہ ہوگااورتومحروم رہے گا)ہرآدمی (بھلاہویابرا)صبح کواٹھتاہے یاپھراپنے تئیں (نیک کام کرکے اللہ کے عذاب سے) آزاد کرتا ہے یا (برے کام کرکے)اپنے آپ کوتباہ وبربادکرتاہے۔[56]

وَاذْكُرُوا نِعْمَةَ اللَّهِ عَلَیْكُمْ وَمِیثَاقَهُ الَّذِی وَاثَقَكُم بِهِ إِذْ قُلْتُمْ سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا ۖ وَاتَّقُوا اللَّهَ ۚ إِنَّ اللَّهَ عَلِیمٌ بِذَاتِ الصُّدُورِ ‎﴿٧﴾‏ یَا أَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا كُونُوا قَوَّامِینَ لِلَّهِ شُهَدَاءَ بِالْقِسْطِ ۖ وَلَا یَجْرِمَنَّكُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ عَلَىٰ أَلَّا تَعْدِلُوا ۚ اعْدِلُوا هُوَ أَقْرَبُ لِلتَّقْوَىٰ ۖ وَاتَّقُوا اللَّهَ ۚ إِنَّ اللَّهَ خَبِیرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ ‎﴿٨﴾‏ (المائدة )
’’تم پر اللہ کی نعمتیں نازل ہوئی ہیں انہیں یاد رکھو اور اس کے اس عہد کو بھی جس کا تم سے معاہدہ ہوا ہے جبکہ تم نے سنا اور مانا اور اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو، یقیناً اللہ تعالیٰ دلوں کی باتوں کو جاننے والا ہے، اے ایمان والو ! تم اللہ کی خاطر حق پر قائم ہوجاؤ، راستی اور انصاف کے ساتھ گواہی دینے والے بن جاؤ کسی قوم کی عداوت تمہیں خلاف عدل پر آمادہ نہ کر دے ، عدل کیا کرو جو پرہیزگاری کے زیادہ قریب ہے، اور اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو، یقین مانو کہ اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال سے باخبر ہے۔‘‘

اللہ نے اپنی رحمت سے تم میں سے پیغمبرآخرالزمان صلی اللہ علیہ وسلم بھیجا،اس پراپنی آخری جلیل القدر کتاب نازل فرمائی اورگھٹاگھپ اندھیروں میں شاہراہ مستقیم تمہارے لئے روشن کردی اوردنیاکی ہدایت ورہنمائی کے منصب پرتمہیں سرفرازکیاہے،چنانچہ اس بات کاخیال رکھواوریہودونصاریٰ کی طرح وعدہ خلافیاں اوردین میں نئی نئی موشگوفیاں داخل مت کرو

أَنْ بَایَعَنَا عَلَى السَّمْعِ وَالطَّاعَةِ فِی مَنْشَطِنَا وَمَكْرَهِنَا، وَعُسْرِنَا وَیُسْرِنَا، وَأَثَرَةٍ عَلَیْنَا، وَأَنْ لَا نُنَازِعَ الْأَمْرَ أَهْلَهُ

اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تم سے بیعت کرتے ہوئے جو پختہ عہدوپیمان لیاتھاکہ دین پرقائم رہوگے ،اسے دوسروں تک پہنچاؤگے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرو گے ، خواہ تمہاراجی چاہےخواہ نہ چاہے ،خواہ دوسروں کوتم پرترجیح دی جائے اورکسی لائق شخص سے ہم کسی کام کونہیں چھینیں گے۔[57]

اس وقت تمہاراقول تھاہم نے سنا اور اس کی اطاعت کی کوکبھی نہ بھولو ،اللہ تمہارے وعدوں کی بازپرس کرے گا،اوراللہ سے ہرحال میں ڈرتے رہووہ تمہارے سینوں اور دلوں میں چھپے بھیدوں کواچھی طرح جانتاہے،اے لوگوجوایمان لائے ہو!اللہ تعالیٰ جوتمہاراخالق ومالک اوررازق ہے کی خاطرانصاف کے علمبرداربنو،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک عادلانہ گواہی کی کتنی اہمیت ہے اس کااندازہ اس واقعہ سے ہوتاہے ،

النُّعْمَانَ بْنَ بَشِیرٍ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُمَا، وَهُوَ عَلَى المِنْبَرِ یَقُولُ:أَعْطَانِی أَبِی عَطِیَّةً،فَقَالَتْ عَمْرَةُ بِنْتُ رَوَاحَةَ: لاَ أَرْضَى حَتَّى تُشْهِدَ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ،فَأَتَى رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: إِنِّی أَعْطَیْتُ ابْنِی مِنْ عَمْرَةَ بِنْتِ رَوَاحَةَ عَطِیَّةً، فَأَمَرَتْنِی أَنْ أُشْهِدَكَ یَا رَسُولَ اللهِ، قَالَ:أَعْطَیْتَ سَائِرَ وَلَدِكَ مِثْلَ هَذَا؟ قَالَ: لاَ،قَالَ:فَاتَّقُوا اللهَ وَاعْدِلُوا بَیْنَ أَوْلاَدِكُمْ، قَالَ: فَرَجَعَ فَرَدَّ عَطِیَّتَهُ

نعمان بن بشر رضی اللہ عنہ نے منبرپرکھڑے ہوکرفرمایامیرے باپ نے مجھے ایک عطیہ دیا لیکن میری ماں عمروبنت رواحہ نے کہامیں تو اس وقت تک مطمئن نہیں ہونے لگی جب تک تم اس پررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوگواہ نہ بنالو، چنانچہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضرہوکرعرض کیاکہ عمرہ بنت رواحہ سے اپنے بیٹے کومیں نے ایک عطیہ دیاتوانہوں نے کہاکہ پہلے میں آپ کواس پرگواہ بنالوں ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت کیاکیاتم نےاپنی تمام اولادکوبھی ایسا ہی عطیہ دیاہے ؟انہوں نے جواب دیاکہ نہیں ، توآپ نے فرمایااللہ سے ڈرو،اپنی اولاد میں عدل کیاکرومیں کسی ظلم پرگواہ نہیں بنتا،چنانچہ میرے والدنے وہ عطیہ واپس لوٹا لیا۔[58]

اگرتمہیں کہیں گواہی دینی پڑے توتمہاری گواہی کسی ذاتی مفاد،کسی عزیزواقارب کی رضا ،حاکم کی خوشنودی یا کسی سے بغض و دشمنی کے بجائے محض اللہ کی رضاوخوشنودی کے لئے ہونی چاہیے،جیسے تم اپنے دوست کے حق میں گواہی دیتے ہواس کے خلاف بھی گواہی دواورجیسے تم اپنے دشمن کے خلاف گواہی دیتے ہوتواس کے حق میں بھی گواہی دوخواہ تمہارادشمن کافریابدعتی ہی کیوں نہ ہو،اپنے اقوال وافعال سے معاشرے میں ہرحال میں عدل کومقدم رکھو ، انصاف کرویہی تقویٰ سے زیادہ قریب ہے ،اللہ سے ڈرکرکام کرتے رہو،تم دن رات میں جوبھی چھوٹے بڑے عمل کروگے اللہ اس سے پوری طرح باخبرہے وہ دنیاوآخرت میں ہر خیر وشرکاپوراپورابدلہ دے گا۔

‏ وَعَدَ اللَّهُ الَّذِینَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ ۙ لَهُم مَّغْفِرَةٌ وَأَجْرٌ عَظِیمٌ ‎﴿٩﴾‏وَالَّذِینَ كَفَرُوا وَكَذَّبُوا بِآیَاتِنَا أُولَٰئِكَ أَصْحَابُ الْجَحِیمِ ‎﴿١٠﴾‏ یَا أَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا اذْكُرُوا نِعْمَتَ اللَّهِ عَلَیْكُمْ إِذْ هَمَّ قَوْمٌ أَن یَبْسُطُوا إِلَیْكُمْ أَیْدِیَهُمْ فَكَفَّ أَیْدِیَهُمْ عَنكُمْ ۖ وَاتَّقُوا اللَّهَ ۚ وَعَلَى اللَّهِ فَلْیَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُونَ ‎﴿١١﴾‏ (المائدة)
’’ اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے جو ایمان لائیں اور نیک کام کریں ان کے لیے وسیع مغفرت اور بہت بڑا اجر اور ثواب ہے،اورجن لوگوں نے کفر کیا اور ہمارے احکام کو جھٹلایا وہ دوزخی ہیں،اے ایمان والو ! اللہ تعالیٰ نے جو احسان تم پر کیا ہے اسے یاد کرو جب کہ ایک قوم نے تم پر دست درازی کرنی چاہی تو اللہ تعالیٰ نے ان کے ہاتھوں کو تم تک پہنچنے سے روک دیا ، اور اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو اور مومنوں کو اللہ تعالیٰ ہی پر بھروسہ کرنا چاہیے۔‘‘

جولوگ اللہ وحدہ لاشریک، اس کے رسولوں ،اس کی نازل کردہ کتابوں ،اس کے فرشتوں ،روزقیامت اوراچھی یابری تقدیرپر ایمان لائیں اوراعمال صالحہ اختیار کریں اللہ نے ان سے وعدہ کیاہے کہ ان کی خطاؤں سے درگزرفرمائے گااورانہیں بڑااجروثواب عطافرمائے گا،جیسے فرمایا

فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّآ اُخْفِیَ لَهُمْ مِّنْ قُرَّةِ اَعْیُنٍ۝۰ۚ جَزَاۗءًۢ بِمَا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ۝۱۷ [59]

ترجمہ:پھر جیسا کچھ آنکھوں کی ٹھنڈک کا سامان ان کے اعمال کی جزاء میں ان کے لیے چھپا رکھا گیا ہے اس کی کسی متنفس کو خبر نہیں ہے۔

رہے وہ لوگ جوکفرکریں اوراللہ کی آیات کوجھٹلائیں تووہ دوزخ میں جانے والے ہیں ،اے لوگوجوایمان لائے ہو!اللہ کے اس احسان کویادکروجواس نے (ابھی حال میں ) تم پرکیاہےجبکہ ایک گروہ نے تم پردست درازی کاارادہ کرلیاتھامگراللہ نے ان کے ہاتھ پراٹھنے سے روک دیے،اس سلسلہ میں کئی روایات ہیں ،

عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُمَا، أَخْبَرَهُ:أَنَّهُ غَزَا مَعَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قِبَلَ نَجْدٍ،فَلَمَّا قَفَلَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَفَلَ مَعَهُ، فَأَدْرَكَتْهُمُ القَائِلَةُ فِی وَادٍ كَثِیرِ العِضَاهِ،فَنَزَلَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَتَفَرَّقَ النَّاسُ فِی العِضَاهِ، یَسْتَظِلُّونَ بِالشَّجَرِوَنَزَلَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ تَحْتَ سَمُرَةٍ فَعَلَّقَ بِهَا سَیْفَهُ،قَالَ جَابِرٌ: فَنِمْنَا نَوْمَةً، ثُمَّ إِذَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَدْعُونَا فَجِئْنَاهُ، فَإِذَا عِنْدَهُ أَعْرَابِیٌّ جَالِسٌ،فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّ هَذَا اخْتَرَطَ سَیْفِی وَأَنَا نَائِمٌ، فَاسْتَیْقَظْتُ وَهُوَ فِی یَدِهِ صَلْتًافَقَالَ لِی: مَنْ یَمْنَعُكَ مِنِّی؟قُلْتُ: اللهُ، فَهَا هُوَ ذَا جَالِسٌ،ثُمَّ لَمْ یُعَاقِبْهُ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ

جابربن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اطراف نجدمیں غزوہ کے لئے گیاتھا،پھرجب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم واپس ہوئے تومیں بھی واپس ہوا، قیلولہ کاوقت ایک وادی میں آیاجہاں کثرت سے ببول کے درخت تھے،چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وہیں اترگئے اورصحابہ کرام رضی اللہ عنہم درختوں کے سائے کے لئے پوری وادی میں پھیل گئےاوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ایک ببول کے درخت کے نیچے قیام فرمایااوراپنی تلواراس درخت پرلٹکادی، جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں ابھی تھوڑی ہی دیرہمیں سوئے ہوئے ہوئی تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں پکاراہم جب خدمت اقدس میں حاضرہوئے تو آپ کے پاس ایک بدوی بیٹھاہواتھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااس شخص نے میری تلوار(مجھی پر)کھینچ لی تھی میں اس وقت سویا ہواتھامیری آنکھ کھلی تومیری ننگی تلواراس کے ہاتھ میں تھی، اس نے مجھ سے کہاتمہیں میرے ساتھ سے آج کون بچائے گا؟ میں نے کہااللہ !اب دیکھویہ بیٹھاہواہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے پھرکوئی سزانہیں دی (حدیث سے ثابت ہے وہ بدوی غورث بن الحارث تھا)۔[60]

وَذَكَرَ مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ بْنِ یَسار، وَمُجَاهِدٌ وعكْرِمَة، وَغَیْرُ وَاحِدٍ:أَنَّهَا نَزَلَتْ فِی شَأْنِ بَنِی النَّضیر حِینَ أَرَادُوا أَنْ یُلْقُوا عَلَى رَأْسِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ الرحَى لَمَّا جَاءَهُمْ یَسْتَعِینُهُمْ فِی دیَةِ العامرییْن، وَوَكَّلُوا عَمْرَو بْنَ جَحَّاش بْنِ كَعْبٍ بِذَلِكَ، وَأَمَرُوهُ إِنْ جَلَسَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ تَحْتَ الْجِدَارِ وَاجْتَمَعُوا عِنْدَهُ أَنْ یُلْقِیَ تِلْكَ الرَّحَى مِنْ فَوْقِهِ، فَأَطْلَعَ اللهُ رَسُولَهُ عَلَى مَا تَمَالَؤُوا عَلَیْهِ، فَرَجَعَ إِلَى الْمَدِینَةِ وَتَبِعَهُ أَصْحَابُهُ، فَأَنْزَلَ اللهُ تَعَالَى فِی ذَلِكَ: {یَا أَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا اذْكُرُوا نِعْمَةَ اللهِ عَلَیْكُمْ إِذْ هَمَّ قَوْمٌ أَنْ یَبْسُطُوا إِلَیْكُمْ أَیْدِیَهُمْ فَكَفَّ أَیْدِیَهُمْ عَنْكُمْ وَاتَّقُوا اللهَ وَعَلَى اللهِ فَلْیَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُونَ

محمدبن اسحاق بن یسار رحمہ اللہ ،مجاہد رحمہ اللہ ،عکرمہ رحمہ اللہ اورکئی ایک دیگرائمہ نے ذکرکیاہے کہ یہ آیت کریمہ بنونضیرکے بارے میں نازل ہوئی تھی، جب انہوں نے یہ ارادہ کرلیاتھاکہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سرمبارک پرپتھرگراکرآپ صلی اللہ علیہ وسلم کوشہیدکردیں ،جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس بنی عامرکے لوگوں کی دیت میں تعاون حاصل کرنے کے لیے تشریف لے گئے تھے،مگران بدبختوں نے اس ناپاک منصوبے کوعمروبن جحاش بن کعب کے سپردکردیاتھااورانہوں نے اسے یہ کہہ دیاتھاکہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم دیوارکے سائے میں بیٹھیں ، اوریہ آپ کے اردگردجمع ہوجائیں تووہ آپ کے اوپرپتھرگرادے،مگراللہ تعالیٰ نے یہودیوں کی اس شرارت وخباثت سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کومطلع فرمادیا اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی معیت میں مدینہ منورہ تشریف لے آئے، تواللہ تعالیٰ نے یہ آیت کریمہ’’ اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اللہ کے اس احسان کو یاد کرو جو اس نے (ابھی حال میں ) تم پر کیا ہےجبکہ ایک گروہ نے تم پر دست درازی کا ارادہ کرلیا تھا مگر اللہ نے ان کے ہاتھ تم پر اٹھنے سے روک دیے، اللہ سے ڈر کر کام کرتے رہو، ایمان رکھنے والوں کو اللہ ہی پر بھروسہ کرنا چاہیے۔‘‘ نازل فرمائی۔[61]

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ , قَوْلُهُ: {یَا أَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا اذْكُرُوا نِعْمَةَ اللهِ عَلَیْكُمْ} إِلَى قَوْلِهِ: {فَكَفَّ أَیْدِیَهُمْ عَنْكُمْ} وَذَلِكَ أَنَّ قَوْمًا مِنَ الْیَهُودِ صَنَعُوا لِرَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَأَصْحَابِهِ طَعَامًا لِیَقْتُلُوهُ إِذَا أَتَى الطَّعَامُ، فَأَوْحَى اللهُ إِلَیْهِ بِشَأْنِهِمْ , فَلَمْ یَأْتِ الطَّعَامُ وَأَمَرَ أَصْحَابَهُ فَأَبَوْهُ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے آیت کریمہ’’ اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اللہ کے اس احسان کو یاد کرو جو اس نے (ابھی حال میں ) تم پر کیا ہے، جبکہ ایک گروہ نے تم پر دست درازی کا ارادہ کرلیا تھا مگر اللہ نے ان کے ہاتھ تم پر اٹھنے سے روک دیے۔‘‘ کے بارے میں مروی ہے یہودیوں میں سے ایک گروہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کواورآپ کے خاص خاص صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کوکھانے کی دعوت پربلایااورخفیہ طورپریہ سازش تیارکی کہ وہ اچانک ان پرٹوٹ پڑیں گے اوراس طرح اسلام کی جان نکال دیں گے، لیکن عین وقت پراللہ تعالیٰ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کواس سازش کی خبردے دیاچنانچہ آپ دعوت پرتشریف نہ لے گئے اورصحابہ کرام رضی اللہ عنہم کوبھی وہاں جانے سے منع فرمادیا۔[62]

اوراللہ سے ڈرکرکام کرتے رہو،ایمان رکھنے والوں کو اپنی قوت اورطاقت پرنہیں بلکہ اپنے دینی اوردنیاوی مصالح کے حصول میں اللہ تعالیٰ ہی پربھروسہ کرنا چاہیے۔

۔۔۔فَلْیَتَوَكَّلِ الْمُتَوَكِّلُونَ [63]

ترجمہ: اور جس کو بھی بھروسہ کرنا ہو اسی پر کرے۔

کیونکہ جواللہ تعالیٰ پربھروسہ کرتاہے وہ اس کے لیے کافی ہوجاتاہے۔

وَلَقَدْ أَخَذَ اللَّهُ مِیثَاقَ بَنِی إِسْرَائِیلَ وَبَعَثْنَا مِنْهُمُ اثْنَیْ عَشَرَ نَقِیبًا ۖ وَقَالَ اللَّهُ إِنِّی مَعَكُمْ ۖ لَئِنْ أَقَمْتُمُ الصَّلَاةَ وَآتَیْتُمُ الزَّكَاةَ وَآمَنتُم بِرُسُلِی وَعَزَّرْتُمُوهُمْ وَأَقْرَضْتُمُ اللَّهَ قَرْضًا حَسَنًا لَّأُكَفِّرَنَّ عَنكُمْ سَیِّئَاتِكُمْ وَلَأُدْخِلَنَّكُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِی مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ ۚ فَمَن كَفَرَ بَعْدَ ذَٰلِكَ مِنكُمْ فَقَدْ ضَلَّ سَوَاءَ السَّبِیلِ ‎﴿١٢﴾‏(المائدة )
’’ اور اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل سے عہد و پیماں لیااور انہی میں سے بارہ سردار ہم نے مقرر فرمائے اور اللہ تعالیٰ نے فرمادیا کہ یقیناً میں تمہارے ساتھ ہوں، اگر تم نماز قائم رکھو گے اور زکوة دیتے رہو گے اور میرے رسولوں کو مانتے رہو گے اور ان کی مدد کرتے رہو گے اور اللہ تعالیٰ کو بہتر قرض دیتے رہو گے تو یقیناً میں تمہاری برائیاں تم سے دور رکھوں گا اور تمہیں ان جنتوں میں لے جاؤں گا جن کے نیچے چشمے بہہ رہے ہیں، اب اس عہد و پیمان کے بعد بھی تم میں سے جو انکاری ہوجائے وہ یقیناً راہ راست سے بھٹک گیا۔‘‘

اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل سے پختہ عہدلیاتھا،بنی اسرائیل کے بارہ قبیلے تھے ،جب موسیٰ علیہ السلام جبابرہ سے قتال کے لئے تیارہوئے تواللہ تعالیٰ نے ان میں سے ہرقبیلہ پر ایک ایک نقیب (نگرانی اورتفشیش کرناوالا)خوداسی قبیلہ سے مقررکیاتھاتاکہ وہ انہیں جنگ کے لئے تیاروقیادت کریں ،

وَقَدْ ذَكَرَ ابْنُ عَبَّاسٍ وَمُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ وَغَیْرُ وَاحِدٍ أَنَّ هَذَا كَانَ لَمَّا تَوَجَّهَ مُوسَى، عَلَیْهِ السَّلَامُ، لِقِتَالِ الْجَبَابِرَةِ، فَأُمِرَ بِأَنْ یُقِیمَ النُّقَبَاءَ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما ،محمدبن اسحاق رحمہ اللہ اورکئی ایک ائمہ نے ذکرکیاہے کہ یہ اس وقت کی بات ہے جب موسیٰ علیہ السلام جابروسرکش لوگوں سے جہادکے لیے متوجہ تھے توآپ کوحکم دیاگیاتھاکہ آپ ہرخاندان سے ایک ایک سردارمقررکردیں ۔[64]

اورامن کے دنوں میں انہیں بے دینی وبداخلاقی سے بچانے کی کوشش کرتے رہیں ،اسی طرح عقبہ کی رات کوجب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انصارسے بیعت لی تھی توان کے بھی بارہ نقیب تھے جن میں تین قبیلہ اوس کے اورنوقبیلہ خزرج میں سے تھے،اسی طرح مسلمانوں میں بھی بارہ خلیفہ ہوں گے(یہ ضروری نہیں کہ یہ سب پے درپے یکے بعد دیگرے ہی ہوں ) جوحق کوقائم کریں گے اورلوگوں میں عدل کریں گے،

جَابِرَ بْنَ سَمُرَةَ، قَالَ: دَخَلْتُ مَعَ أَبِی عَلَى النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَسَمِعْتُهُ یَقُولُ:إِنَّ هَذَا الْأَمْرَ لَا یَنْقَضِی حَتَّى یَمْضِیَ فِیهِمِ اثْنَا عَشَرَ خَلِیفَةً،قَالَ: ثُمَّ تَكَلَّمَ بِكَلَامٍ خَفِیَ عَلَیَّ،قَالَ: فَقُلْتُ لِأَبِی: مَا قَالَ؟ قَالَ :كُلُّهُمْ مِنْ قُرَیْشٍ

جابربن سمرة رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں اپنے باپ کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گیامیں نے سناآپ فرماتے تھے یہ خلافت تمام نہ ہوگی جب تک کہ مسلمانوں میں بارہ خلیفہ نہ ہولیں ،پھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آہستہ سے کچھ فرمایامیں نے اپنے باپ سے پوچھا کیا فرمایا؟انہوں نے جواب دیایہ فرمایاکہ یہ سب قریش سے ہوں گے۔ [65]

اورانہیں حکم دیاتھاکہ اگرتم اظہارعبدیت کے لئے نمازقائم اوراس پردوام اختیارکروگے اور اپنے پاکیزہ مالوں سے مقررکردہ زکواٰة مستحقین میں اداکرتے رہوگے اورجورسول بھی میری طرف سے آئیں (جن میں سب سے افضل اورسب سے اکمل احمدمجتبیٰ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ) ان کی دعوت پراگرتم لبیک کہوگے،تمام انبیاء ورسل کی تعظیم ،احترام اوران کی اطاعت کروگے اورحق کی حمایت میں ان کی نصرت واعانت کرتے رہوگے تومیں تمہیں اپنی تائیدوحمایت سے نوازوں گااور اللہ کی راہ میں جائزذرائع سے کمائی ہوئی دولت اللہ کے قانون کے مطابق خلوص اورحسن نیت کے ساتھ خرچ کرتے رہے تواللہ تعالیٰ اپنے فضل وکرم سے تمہاری لغزشیں اور گناہوں پر مواخذہ نہ فرمائے گا اورتم کوانواح واقسام کی لازوال نعمتوں سے بھرپورجنتوں میں داخل فرمائے گاجن کے نیچے طرح طرح کی پاک وشفاف نہریں بہہ رہی ہوں گی،اگروہ اس پختہ عہدوپیمان کے بعدپھرگئے اوراسے غیرمعروف کردیا تووہ یقیناً راہ راست سے بھٹک جائیں گے اوراسی سزاکے مستحق ہوں گے جس کے مستحق گمراہ لوگ ہوتے ہیں ،چنانچہ یہی ہوایہودیوں نے ہمیشہ کی طرح بہت جلداس پختہ میثاق توڑڈالا،اس طرح بالواسطہ مسلمانوں کوتنبیہ فرمائی کہ تم بھی کہیں بنی اسرائیل کی طرح عہدومیثاق کوپامال کرناشروع نہ کردینا۔

فَبِمَا نَقْضِهِم مِّیثَاقَهُمْ لَعَنَّاهُمْ وَجَعَلْنَا قُلُوبَهُمْ قَاسِیَةً ۖ یُحَرِّفُونَ الْكَلِمَ عَن مَّوَاضِعِهِ ۙ وَنَسُوا حَظًّا مِّمَّا ذُكِّرُوا بِهِ ۚ وَلَا تَزَالُ تَطَّلِعُ عَلَىٰ خَائِنَةٍ مِّنْهُمْ إِلَّا قَلِیلًا مِّنْهُمْ ۖ فَاعْفُ عَنْهُمْ وَاصْفَحْ ۚ إِنَّ اللَّهَ یُحِبُّ الْمُحْسِنِینَ ‎﴿١٣﴾‏(المائدة )
’’ پھر ان کی عہد شکنی کی وجہ سے ہم نے ان پر اپنی لعنت نازل فرما دی اور ان کے دل سخت کردیئے کہ وہ کلام کو اپنی جگہ سے بدل ڈالتے ہیں اور جو کچھ نصیحت انہیں کی گئی تھی اس کا بہت بڑا حصہ بھلا بیٹھے، ان کی ایک نہ ایک خیانت تجھے ملتی رہے گی ،ہاں تھوڑے سے ایسے نہیں بھی ہیں پس تو انہیں معاف کرتا جا ،اوردرگزرکرتارہ ،بیشک اللہ تعالیٰ احسان کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔‘‘

پھرجب انہوں نےاپنے عہدکوتوڑڈالاتواللہ نے ان کے نقص عہدکے سبب متعددسزائیں دیں ہم نے ان پرلعنت کی،یعنی جب انہوں نے اپنے آپ پراللہ تعالیٰ کی رحمت کے دروازے بندکرلئے تو ہم نے ان کودھتکارکراپنی رحمت سے دورکردیاجس کانتیجہ یہ ہوااوران کے دلوں کوسخت کردیا۔جیسے فرمایا

ثُمَّ قَسَتْ قُلُوْبُكُمْ مِّنْۢ بَعْدِ ذٰلِكَ فَهِىَ كَالْحِجَارَةِ اَوْ اَشَدُّ قَسْوَةً۝۰ۭ وَاِنَّ مِنَ الْحِجَارَةِ لَمَا یَتَفَجَّرُ مِنْهُ الْاَنْهٰرُ۝۰ۭ وَاِنَّ مِنْهَا لَمَا یَشَّقَّقُ فَیَخْرُجُ مِنْهُ الْمَاۗءُ۝۰ۭ وَاِنَّ مِنْهَا لَمَا یَهْبِطُ مِنْ خَشْـیَةِ اللهِ۝۰ۭ وَمَا اللهُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُوْنَ۝۷۴ [66]

ترجمہ:پھر اسکے بعد تمہارے دل سخت ہو گئے گویا کہ وہ پتھر ہیں یا ان سے بھی زیادہ سخت اور بعض پتھر تو ایسے بھی ہیں جن سے نہریں پھوٹ کر نکلتی ہیں اور بعض ایسے بھی ہیں جو پھٹتے ہیں پھر ان سے پانی نکلتا ہے اور بعض ایسے بھی ہیں جو اللہ کے ڈر سے گر پڑتے ہیں اور اللہ تمہارے کاموں سے بےخبر نہیں ۔

یعنی ہم نے ان کوپتھردل بنادیاچنانچہ دلوں کی قساوت اورسنگینی کی وجہ سے وعظ ونصیحت ان کے کسی کام آسکتے ہیں ، نہ آیات، اورنہ ہی برے انجام سے ڈرانے والے انہیں کوئی فائدہ پہنچاسکتے ہیں ،کوئی شوق انہیں ترغیب دے سکتاہے نہ کوئی خوف ان کویہ عہدپوراکرنے کے لئے بے قرارکرسکتاہےسوائے چندلوگوں کے(جن کی تعداددس سے بھی کم تھی) جنہوں نے اللہ تعالیٰ سے کیے ہوئے عہدکوپوراکیاتواللہ تعالیٰ نے ان کوتوفیق سے نوازااورسیدھے راستے کی طرف ان کی رہنمائی فرمائی ،مگرباقی لوگوں کاحال یہ ہے کہ اللہ کے کلام میں تغیروتبدل کے مرتکب ہوئے ، کلام الٰہی میں لفظی اورمعنوی دونوں طرح کی تحریف کرنے لگے ،اللہ کانام لے کروہ مسائل بیان کرنے لگے جواللہ کے بتائے ہوئے نہ تھے ، انہیں تورات کے ذریعے سے نصیحت کی گئی تھی مگراس پرعمل کرنے کی ان کوتوفیق نہ ہوئی جس کے نتیجے میں اس نصیحت کاایک بڑاحصہ وہ بھلا بیٹھے،دین کی اصل جب ان کے ہاتھوں سے چھوٹ گئی تو خیانت اور مکر ان کے کردارکا جزو بن گیا،ان کے مکروفریب کے نمونے ہروقت آپ کے سامنے آتے رہتے ہیں ،

وَقَالَ مُجَاهِدٌ وَغَیْرُهُ: یَعْنِی بِذَلِكَ تَمَالُؤَهُمْ عَلَى الْفَتْكِ بِالنَّبِیِّ، صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ

مجاہد رحمہ اللہ وغیرہ فرماتے ہیں یہودیوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کوشہیدکرنے کی جوسازش کی تھی یہ اس کی طرف اشارہ ہے۔[67]

ان کی سب سے بڑی خیانت یہ ہے کہ انہوں نے لوگوں سے حق کو چھپایا، پس جب یہ اس حال کوپہنچ چکے ہیں توجوشرارتیں بھی یہ کریں وہ ان سے عین متوقع ہیں ،کیونکہ ابھی لڑنے کی اجازت نہیں تھی بعدمیں اس کی جگہ حکم دیاگیا

قَاتِلُوا الَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ بِاللهِ وَلَا بِالْیَوْمِ الْاٰخِرِ۔۔۔۝۲۹ۧ [68]

ترجمہ:ان لوگوں سے جنگ کروجواللہ اوریوم آخرت پرایمان نہیں رکھتے۔

اس لئے عفوودرگزرسے کام لیں ،اللہ احسان کی روش رکھنے والوں کوپسندکرتاہے۔

وَمِنَ الَّذِینَ قَالُوا إِنَّا نَصَارَىٰ أَخَذْنَا مِیثَاقَهُمْ فَنَسُوا حَظًّا مِّمَّا ذُكِّرُوا بِهِ فَأَغْرَیْنَا بَیْنَهُمُ الْعَدَاوَةَ وَالْبَغْضَاءَ إِلَىٰ یَوْمِ الْقِیَامَةِ ۚ وَسَوْفَ یُنَبِّئُهُمُ اللَّهُ بِمَا كَانُوا یَصْنَعُونَ ‎﴿١٤﴾‏ یَا أَهْلَ الْكِتَابِ قَدْ جَاءَكُمْ رَسُولُنَا یُبَیِّنُ لَكُمْ كَثِیرًا مِّمَّا كُنتُمْ تُخْفُونَ مِنَ الْكِتَابِ وَیَعْفُو عَن كَثِیرٍ ۚ قَدْ جَاءَكُم مِّنَ اللَّهِ نُورٌ وَكِتَابٌ مُّبِینٌ ‎﴿١٥﴾‏ یَهْدِی بِهِ اللَّهُ مَنِ اتَّبَعَ رِضْوَانَهُ سُبُلَ السَّلَامِ وَیُخْرِجُهُم مِّنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ بِإِذْنِهِ وَیَهْدِیهِمْ إِلَىٰ صِرَاطٍ مُّسْتَقِیمٍ ‎﴿١٦﴾‏(المائدة )
’’اورجو اپنے آپ کو نصرانی کہتے ہیں ہم نے ان سے بھی عہد و پیمان لیا، انہوں نے بھی اس کا بڑا حصہ فراموش کردیا جو انہیں نصیحت کی گئی تھی، تو ہم نے بھی ان کے آپس میں بغض اور عداوت ڈال دی جو تا قیامت رہے گی، اور جو کچھ یہ کرتے تھے عنقریب اللہ تعالیٰ انہیں سب بتادے گا، اے اہل کتاب ! یقیناً تمہارے پاس ہمارا رسول (ﷺ) آچکا جو تمہارے سامنے کتاب اللہ کی بکثرت ایسی باتیں ظاہر کر رہا ہے جنہیں تم چھپا رہے تھے اور بہت سی باتوں سے درگزر کرتا ہے، تمہارے پاس اللہ تعالیٰ کی طرف سے نور اور واضح کتاب آچکی ہے جس کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ انہیں جو رضائے رب کے درپے ہوں سلامتی کی راہ بتلاتا ہےاور اپنی توفیق سے اندھیروں سے نکال کر نور کی طرف لاتا ہے اور راہ راست کی طرف راہبری کرتا ہے۔‘‘

جب یہودیوں نے عیسیٰ علیہ السلام پرایمان لانے اور اطاعت کرنے کے بجائے ان کے خلاف سازشیں کرناشروع کردیں تواس وقت عیسیٰ علیہ السلام نے اپنے ماننے والوں سے پوچھا تھا

۔۔۔قَالَ مَنْ اَنْصَارِیْٓ اِلَى اللهِ۔۔۔ ۝۵۲ [69]

ترجمہ:اللہ کی راہ میں کون میرے مددگارہیں ۔

اس سوال کے جواب میں چند مخلص پیروکاروں نے جوانبیاء ورسل ان پرنازل شدہ کتابوں پرایمان لائے تھے نے کہاتھا

۔۔۔نَحْنُ اَنْصَارُ اللهِ۔۔۔ ۝۵۲ [70]

ہم اللہ کے کام میں مددگارہیں ۔

اللہ نے ان سے بھی یہودیوں کی طرح عہدلیاتھامگرانہوں نے بھی تعلیم کا ایک بڑاحصہ فراموش کردیا،وہ بھی نسیان علمی اورنسیان عملی کاشکارہوگئے ،اللہ تعالیٰ جو وحدہ لاشریک ہے ،نہ اسے جنم دیاگیاہے،اور نہ اس نے کسی کوجنم دیاہے اورنہ اس کا کوئی ہمسرہے

 قُلْ هُوَاللهُ اَحَدٌ۝۱ۚاَللهُ الصَّمَدُ۝۲ۚلَمْ یَلِدْ۝۰ۥۙ وَلَمْ یُوْلَدْ۝۳ۙوَلَمْ یَكُنْ لَّهٗ كُفُوًا اَحَدٌ۝۴ۧ [71]

ترجمہ: آپ کہہ دیں کہ وہ اللہ تعالیٰ ایک (ہی)ہے ، اللہ تعالیٰ بے نیازہے ،نہ اس سے کوئی پیداہوانہ وہ کسی سے پیداہوا،اورنہ کوئی اس کاہمسرہے ۔

مگرانہوں نےاللہ پرتہمتیں لگائیں ،اللہ وحدہ لاشریک پربیوی اور اولاد والاہونے کابہتان باندھااس کے نتیجے میں ان کے دل بھی اثرپذیری سے خالی اوران کے کردارکھوکھلے ہوگئے ، چنانچہ عہدالٰہی سے انحراف اوربے علمی وبے عملی کے سزاکے طور پراللہ نے قیامت تک کے لئے ان کے دلوں میں ایک دوسرے کے خلاف بغض وعنادکابیج بودیااورقیامت تک اسی طرح ایک دوسرے کے دشمن رہیں گے،چنانچہ عیسائیوں کے کئی فرقے ہیں جوایک دوسرے سے شدیدنفرت وعنادرکھتے اورایک دوسرے کی تکفیرکرتے ہیں اورایک دوسرے کے معبدمیں عبادت نہیں کرتے،ملکیہ فرقہ یعقوبیہ فرقے کواوریعقوبیہ ملکیہ کوکھلے بندوں کافرکہتے ہیں (یہی حال امت مسلمہ کابھی ہے ،اس امت نے بھی کلام الٰہی اورسنت نبوی کی واضح ہدایات کومن مانی تاویلات کاذریعہ بنالیاہے ،جس کے نتیجے میں یہ امت بھی کئی فرقوں میں بٹ گئی ہے ،ان کے درمیان شدیداختلافات اورنفرت وعنادکی دیواریں حائل ہیں ،اللہ تعالیٰ نے اپنے اٹل قانون کے تحت ان پربھی بغض وعنادکی سزامسلط کردی گئی ہے ) مگرروزمحشر اللہ انہیں بتائے گاکہ وہ دنیامیں کیاگل کھلاتے رہے ہیں اورانہیں ان کی کارستانیوں پرعذاب دے گا،یہود ونصاریٰ کے علماء کی یہ سب سے بڑی خیانت تھی کہ وہ دینوی فائدہ حاصل کرنے کے لئے کلام الٰہی کولوگوں سے چھپاتے تھے،کلام کے معنوں کوبدل کرکچھ کاکچھ بنادیتے تھے ، اسی طرح کلام الٰہی میں گناہ گاروں (مثلاًرجم )کے لئے جوسزائیں مقررتھیں وہ کمزورلوگوں پرتونافذکرتے مگرتحریف کرتے ہوئے امراء کوبچالیتے تھے ، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت پرایک قطعی دلیل کے طورپر فرمایا کہ اے اہل کتاب! تم اچھی طرح جانتے ہو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کچھ بھی لکھنااورپڑھنانہیں جانتے،انہوں نے نہ تو کسی مدرسہ میں داخلہ لیاہے اورنہ کسی معلم سے تعلیم حاصل کی ہے مگراس کے باوجودوہ موسیٰ علیہ السلام اورعیسیٰ علیہ السلام پرنازل شدہ کتاب تورات وانجیل سے بہت سی چوریوں اورعلمی بددیانتوں کوجنہیں تم اپنے دینوی فائدے کے لئے عام عوام سے چھپاتے تھے طشت ازبام کررہے ہیں ،اوربہت سی باتوں کوجن کوبیان کرناحکمت کے تقاضوں کے خلاف تھایاجن کوکھولنے کی کوئی حقیقی ضرورت نہ تھی چشم پوشی کرتاہے،

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، رَضِیَ اللهُ عَنْهُمَا قَالَ: مَنْ كَفَرَ بِالرَّجْمِ فَقَدْ كَفَرَ بِالْقُرْآنِ مِنْ حَیْثُ لَا یَحْتَسِبُ، قَوْلِهِ عَزَّ وَجَلَّ: یَا أَهْلَ الْكِتَابِ قَدْ جَاءَكُمْ رَسُولُنَا یُبَیِّنُ لَكُمْ كَثِیرًا مِمَّا كُنْتُمْ تُخْفُونَ مِنَ الْكِتَابِ، فَكَانَ الرَّجْمُ مِمَّا أَخْفَوْا

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہےجوشخص رجم کاانکارکرے تواس نے درحقیقت قرآن کااس اندازسے انکارکیاکہ اسے اس کاشعوربھی نہیں ، اللہ تعالیٰ نے اس آیت کریمہ میں جوفرمایاہے’’ اے اہل کتاب !ہمارارسول تمہارے پاس آگیاہے جوکتاب الٰہی کی بہت سی ان باتوں کوتمہارے سامنے کھول رہاہے جن پرتم نے پردہ ڈالاکرتے تھے ، اوربہت سی باتوں سے درگزربھی کرجاتاہے۔‘‘اہل کتاب نے جن باتوں کوچھپایاتھاان میں رجم بھی ہے۔[72]

اے اہل کتاب!اب آخری موقعہ کے طورپراللہ نے تمام مخلوق کی طرف اپناآخری پیغمبرمبعوث فرمایاہے ،جن کے کرداروگفتارسے تم خوب واقف ہو،اللہ نے انہیں واضح معجزے اورروشن دلیلیں عطافرمائیں ہیں اورتمام مخلوق کی ہدایت ورہنمائی کے لئے اس پرآخری کتاب قرآن مجیدنازل فرمائی ہے ،اللہ تعالیٰ اس کتاب کے ذریعے سے ان لوگوں کوجوحق کے متلاشی ہیں ،جواس کی رضامندی وخوشنودی کے جویاہیں کوجہالت کی تاریکیوں اور کفر،بدعات، معصیت اورجہالت کی غفلت کے اندھیاروں سے نکالتاہے اورانہیں ابدی سلامتی یعنی ایمان، سنت، اطاعت، علم اورذکرالٰہی کے راستوں کی طرف رہنمائی کرتاہے ۔

لَّقَدْ كَفَرَ الَّذِینَ قَالُوا إِنَّ اللَّهَ هُوَ الْمَسِیحُ ابْنُ مَرْیَمَ ۚ قُلْ فَمَن یَمْلِكُ مِنَ اللَّهِ شَیْئًا إِنْ أَرَادَ أَن یُهْلِكَ الْمَسِیحَ ابْنَ مَرْیَمَ وَأُمَّهُ وَمَن فِی الْأَرْضِ جَمِیعًا ۗ وَلِلَّهِ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَا بَیْنَهُمَا ۚ یَخْلُقُ مَا یَشَاءُ ۚ وَاللَّهُ عَلَىٰ كُلِّ شَیْءٍ قَدِیرٌ ‎﴿١٧﴾‏(المائدة)
’’ یقیناً وہ لوگ کافر ہوگئے جنہوں نے کہا اللہ ہی مسیح ابن مریم ہے، آپ ان سے کہہ دیجئے کہ اگر اللہ تعالیٰ مسیح ابن مریم اور اس کی والدہ اور روئے زمین کے سب لوگوں کو ہلاک کردینا چاہیے تو کون ہے جو اللہ پر کچھ بھی اختیار رکھتا ہو ؟ آسمانوں اور زمین دونوں کے درمیان کا کل ملک اللہ تعالیٰ ہی کا ہے، وہ جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے، اللہ ہر چیز پر قادر ہے ۔‘‘

عیسی علیہ السلام کی معجزنہ پیدائش ،ان کے اخلاقی کمالات اورمحسوس معجزات کودیکھ کرلوگ اس دھوکہ میں پڑگئے کہ مسیح علیہ السلام ہی اللہ ہےیاتین خداؤں (اللہ،مسیح اوران کی والدہ مریم علیہ السلام) میں سے ایک ہے ،چنانچہ عیسیٰ علیہ السلام کی شخصیت کو انسانیت اورالوہیت کامرکب قراردے کرعیسائیوں نے جوغلطی کی تھی اس کانتیجہ یہ ہواکہ ان کے لئے عیسیٰ علیہ السلام کی حقیقت ایک معمہ بن کررہ گئی،ان میں سے جن کے ذہن پراس مرکب شخصیت کے جزوانسانی نے غلبہ کیااس نے مسیح علیہ السلام کے اللہ کابیٹا ہونے اورتین خداؤں میں سے ایک ہونے پرزوردیا،اورجس کے ذہن پرجزوالوہیت کااثرزیادہ غالب ہوااس نے مسیح علیہ السلام کواللہ تعالیٰ کاجسمانی ظہورقراردے کرعین اللہ بنادیااوراللہ ہونے کی حیثیت ہی سے مسیح علیہ السلام کی عبادت کی،چنانچہ اللہ تعالیٰ نے یہودونصاریٰ کے نقص عہدکاذکرکرنے کے بعد عیسائیوں کے اقوال قبیحہ یعنی عقیدہ الوہیت مسیح کاردوابطال کرتے ہوئے فرمایاکہ یقینا ًانہوں نے کفرکیاجنہوں نے مسیح علیہ السلام کو بشریت ورسالت کے مقام سے اٹھا کر الوہیت کے مقام پرفائزکردیا،اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم !آپ ان سے کہہ دیں اگر اللہ تعالیٰ مسیح ابن مریم اوران کی ماں کوجنہیں تم تین میں سے دوسمجھتے ہواورتمام زمین میں بسنے والی مخلوقات کوہلاک کردے توکس کی طاقت وقوت ہے جواللہ کے خلاف لب کشائی کرسکے یااس سے بازپرس کرسکے یااس کے ارادے میں حائل ہو سکے،مسیح علیہ السلام تواللہ کے بے شمارعجائب تخلیق میں سے محض ایک نمونہ ہے جسے دیکھ کران ضعیف البصرلوگوں کی نگاہیں چوندھیا گئیں ، کیاانہوں نے اللہ کی یہ قدرت نہیں دیکھی کہ اس نے آدم علیہ السلام کوبغیرباپ اوربغیرماں کے پیداکیا،اس لحاظ سے توآدم علیہ السلام الوہیت کے سب سے زیادہ مستحق ہیں ،اسی طرح حواکوبھی بغیرعورت کے آدم علیہ السلام کی پسلی سے پیداکیاگیاتوکیاوہ الٰہ بن گئیں ،فرشتوں کوبھی بغیرماں باپ کے پیدافرمایاتوکیاوہ اللہ کی خدائی میں شامل ہوگئے، اگران کی نگاہ وسیع ہوتی تودیکھتے کہ ا للہ تعالیٰ تواس عظیم الشان کائنات کاپیداکرنے والاہے،اوروہی بلاشرکت غیرے اس کامالک اورمتصرف ہے،مسیح علیہ السلام اوران کی والدہ تودوسری مخلوقات کی طرح اللہ کی محکوم ومقدورمخلوق ہیں اوراللہ نے کسی مخلوق کوکوئی اختیارات نہیں سونپے،پھر ان کے پاس خدائی کے اختیارات کہاں سے آگئے اور یہ تودوسری مخلوقات کی طرح خوداتنے بے بس ولاچارہیں کہ اگراللہ ان کے خلاف کوئی کاروائی کرناچاہئے تویہ اپنے آپ کوہلاکت سے بچاسکتے اورنہ چھڑاسکتے ہیں ۔

اللہ جوچاہتااورجس طرح چاہتاہے پیدا کرتا ہے، اس کی قدرتوں کی کوئی انتہاء نہیں ،اس خالق کی قدرت ہرچیزپرحاوی ہے۔

وَقَالَتِ الْیَهُودُ وَالنَّصَارَىٰ نَحْنُ أَبْنَاءُ اللَّهِ وَأَحِبَّاؤُهُ ۚ قُلْ فَلِمَ یُعَذِّبُكُم بِذُنُوبِكُم ۖ بَلْ أَنتُم بَشَرٌ مِّمَّنْ خَلَقَ ۚ یَغْفِرُ لِمَن یَشَاءُ وَیُعَذِّبُ مَن یَشَاءُ ۚ وَلِلَّهِ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَا بَیْنَهُمَا ۖ وَإِلَیْهِ الْمَصِیرُ ‎﴿١٨﴾(المائدہ)
’’ یہود و نصاریٰ کہتے ہیں کہ ہم اللہ کے بیٹے اور اس کے دوست ہیں ، آپ کہہ دیجئے کہ پھر تمہیں تمہارے گناہوں کے باعث اللہ کیوں سزا دیتا ہے ، نہیں بلکہ تم بھی اس کی مخلوق میں سے ایک انسان ہو وہ جسے چاہتا ہے بخش دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے عذاب کرتا ہے، زمین و آسمان اور ان کے درمیان کی ہر چیز اللہ تعالیٰ کی ملکیت ہے اور اسی کی طرف لوٹنا ہے۔‘‘

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ , قَالَ: وَأَتَى رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ نُعْمَانُ بْنُ أَضَاءَ وَبَحْرِیُّ بْنُ عَمْرٍو، وَشَاسُ بْنُ عَدِیٍّ، فَكَلَّمُوهُ وَكَلَّمَهُمْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَدَعَاهُمْ إِلَى اللهِ وَحَذَّرَهُمْ نِقْمَتَهُ، فَقَالُوا: مَا تُخَوِّفُنَا یَا مُحَمَّدُ! نَحْنُ وَاللهِ أَبْنَاءُ اللهِ وَأَحِبَّاؤُهُ،كَقَوْلِ النَّصَارَى،فَأَنْزَلَ اللَّهُ جَلَّ وَعَزَّ فِیهِمْ: {وَقَالَتِ الْیَهُودُ وَالنَّصَارَى نَحْنُ أَبْنَاءُ اللَّهِ وَأَحِبَّاؤُهُ} [73]إِلَى آخِرِ الْآیَةِ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے نعمان بن اضاء،بحری بن عمرو،شاس بن عدی جویہودیوں کے بڑے علماء تھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں وعظ ونصیحت کی ،آخرت کے عذاب سے ڈرایا، جس پروہ کہنے لگے آپ ہمیں آخرت کے عذاب سے ڈرارہے ہیں ہم تواللہ کے بیٹے اوراس کے پیارے ہیں ،نصاریٰ بھی یہی کہتے تھے، جس پریہ آیت’’ یہود اور نصارٰی کہتے ہیں کہ ہم اللہ کے بیٹے اور اس کے چہیتے ہیں ان سے پوچھوپھر وہ تمہارے گناہوں پر تمہیں سزا کیوں دیتا ہے ؟ درحقیقت تم بھی ویسے ہی انسان ہو جیسے اور انسان خدا نے پیدا کیے ہیں وہ جسے چاہتا ہے معاف کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے سزا دیتا ہےزمین اور آسمان اور ان کی ساری موجودات اس کی ملک ہیں اور اسی کی طرف سب کو جانا ہے۔‘‘ نازل ہوئی۔[74]

فَإِنَّهُمْ قَالُوا: إِنَّ اللهَ أَوْحَى إلى إسرائیل أن وَلَدَكَ بِكْرَكَ مِنَ الْوَلَدِ فَیُدْخِلُهُمُ النَّارَ فَیَكُونُونَ فِیهَا أَرْبَعِینَ لَیْلَةً حَتَّى تُطَهِّرَهُمْ وَتَأْكُلَ خَطَایَاهُمْ، ثُمَّ یُنَادِ مُنَادٍ أَنْ أَخْرِجُوا كُلَّ مَخْتُونٍ مِنْ وَلَدِ إِسْرَائِیلَ. فَأَخْرَجُوهُمْ، فَذَلِكَ قَوْلُهُمْ: {لَنْ تَمَسَّنَا النَّارُ إِلا أَیَّامًا مَعْدُودَاتٍ} [[75]

اس کے علاوہ یہودیوں کایہ بھی دعویٰ تھاکہ اللہ تعالیٰ نے یعقوب علیہ السلام کی طرف وحی نازل فرمائی کہ تیراپہلونٹھابیٹامیری اولادمیں سے ہے،اس کی اولادچالیس دن تک جہنم میں رہے گی ،اس مدت میں آگ انہیں پاک کردے گی اوران کی خطاؤں کوکھاجائے گی، پھرایک فرشتہ منادی کرے گاکہ اسرائیل کی اولادمیں سے جوبھی ختنہ شدہ ہوں وہ نکل آئیں اوروہ جہنم سےنکل آئیں گےیعنی انہیں گنتی کے چنددن جہنم میں رہناپڑے گااورپھروہ اس سے پاک ہوکرنکل آئیں گے،اس پریہ آیت نازل ہوئی’’وہ کہتے ہیں آتشِ دوزخ تو ہمیں مس تک نہ کرے گی اور اگر دوزخ کی سزا ہم کو ملے گی بھی تو بس چند روز۔‘‘[76]

اس کے علاوہ یہودونصاری نے اللہ پرتہمت لگائی

 وَقَالَتِ الْیَهُوْدُ عُزَیْرُۨ ابْنُ اللهِ وَقَالَتِ النَّصٰرَى الْمَسِیْحُ ابْنُ اللهِ۔۔۔۝۰۝۳۰ [77]

ترجمہ:یہودی کہتے ہیں کہ عزیر علیہ السلام اللہ کا بیٹا ہے، اور عیسائی کہتے ہیں کہ مسیح اللہ کا بیٹا ہے۔

اورانہوں نےاپنے تفاخراوربے جااعتمادمیں خود کو ابناء اللہ (اللہ کے بیٹے)اوراس کامحبوب قراردے لیا،اللہ تعالیٰ نے ان کے بے بنیاددعویٰ کوواضح کردیاکہ اگرتم واقعی اللہ کے محبوب اورچہیتے ہوتوپھراللہ تعالیٰ تمہیں تمہارے کفروکذب،بہتان وافترا کی پاداش میں سزاکیوں دیتارہاہے ؟یعنی اللہ کی بارگاہ میں فیصلہ دعوؤں کی بنیادپرنہیں ہوتااورنہ قیامت والے دن ہوگابلکہ وہ توایمان وتقوی اورعمل دیکھتاہے،وہ دنیامیں بھی اسی کی روشنی میں فیصلہ فرماتاہے اورقیامت والے دن بھی اسی اصول پرفیصلہ ہوگا،اے اہل کتاب ! تم بھی دوسرے انسانوں کی طرح انسان ہو،تمہیں دوسروں پرکوئی فوقیت وفضیلت نہیں ، پھرتمہاری بابت فیصلہ دیگرانسانی مخلوق سے الگ مختلف کیوں کرہوگا؟یہ اس کی مشیت وحکمت ہے کہ وہ جسے چاہئے معاف فرمادے اورجسے چاہئے سزا دے ،جیسے متعددمقامات پرفرمایا

وَلِلهِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ۝۰ۭ یَغْفِرُ لِمَنْ یَّشَاۗءُ وَیُعَذِّبُ مَنْ یَّشَاۗءُ۝۰ۭ وَاللهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ۝۱۲۹ۧ [78]

ترجمہ:اور زمین اور آسمانوں میں جو کچھ ہے اس کا مالک اللہ ہے ، جس کو چاہے بخش دے اور جس کو چاہے عذاب دے ، وہ معاف کرنے والا اور رحیم ہے۔

وَلِلهِ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ۝۰ۭ یَغْفِرُ لِمَنْ یَّشَاۗءُ وَیُعَذِّبُ مَنْ یَّشَاۗءُ۝۰ۭ وَكَانَ اللهُ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا۝۱۴ [79]

ترجمہ:آسمانوں اور زمین کی بادشاہی کا مالک اللہ ہی ہے ، جسے چاہے معاف کرے اور جسے چاہے سزا دے اور وہ غفور و رحیم ہے۔

اوراللہ تعالیٰ کی وحدانیت کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ زمین وآسمان اوران کے درمیان جوکچھ ہے سب اس کی ملکیت ہےاوروہ اس میں جس طرح چاہتاتصرف کرتا ہے اور آخر ایک روزوہ سب جن وانس کوان کی قبروں سے زندہ کرکے اعمال کی جزاکے لئے اپنے دربارمیں حاضرکرے گااوراہل ایمان کومغفرت وبخشش اوراہل کفروفسق کو عذاب دے گا۔

‏ یَا أَهْلَ الْكِتَابِ قَدْ جَاءَكُمْ رَسُولُنَا یُبَیِّنُ لَكُمْ عَلَىٰ فَتْرَةٍ مِّنَ الرُّسُلِ أَن تَقُولُوا مَا جَاءَنَا مِن بَشِیرٍ وَلَا نَذِیرٍ ۖ فَقَدْ جَاءَكُم بَشِیرٌ وَنَذِیرٌ ۗ وَاللَّهُ عَلَىٰ كُلِّ شَیْءٍ قَدِیرٌ ‎﴿١٩﴾‏ (المائدہ)
’’اے اہل کتاب !بالیقین ہمارا رسول تمہارے پاس رسولوں کی آمد کے ایک وقفے کے بعد آپہنچا ہے،جو تمہارے لیے صاف صاف بیان کر رہا ہے تاکہ تمہاری یہ بات نہ رہ جائے کہ ہمارے پاس تو کوئی بھلائی، برائی سنانے والا آیا ہی نہیں، پس اب تو یقیناً خوشخبری سنانے والا اور آگاہ کرنے والا آپہنچا اور اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے۔‘‘

اللہ تعالیٰ نے اہل کتاب پراپنااحسان جتلایاکہ اے اہل کتاب!ہمارایہ رسول ایسے وقت تمہارے پاس آیاہے اوردین کی واضح تعلیم تمہیں دے رہاہے جبکہ نبی اسرائیل کے آخری نبی عیسیٰ علیہ السلام کوآسمان پراٹھائے ایک لمباعرصہ بیت گیاتھااوراس دوران رسولوں کی آمدکاسلسلہ بند تھا،

عَنْ سَلْمَانَ، قَالَ:فَتْرَةٌ بَیْنَ عِیسَى، وَمُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِمَا وَسَلَّمَ، سِتُّ مِائَةِ سَنَةٍ

سلمان رضی اللہ عنہ فارسی جن کی کنیت ابوعبداللہ تھی سے مروی ہے عیسیٰ علیہ السلام اورمحمد صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان میں فترت کازمانہ(یعنی جس میں کوئی پیغمبردنیامیں مبعوث نہیں ہوا)چھ سوسال سال کاعرصہ گزرا ہے۔[80]

اس کے علاوہ اوربھی بہت سے قول ہیں ۔

وَعَنْ قَتَادَةَ: خَمْسُمِائَةٍ وَسِتُّونَ سَنَةً، وَقَالَ مَعْمَر، عَنْ بَعْضِ أَصْحَابِهِ: خَمْسُمِائَةٍ وَأَرْبَعُونَ سَنَةً. وَقَالَ: الضَّحَّاكُ: أَرْبَعُمِائَةٍ وَبِضْعٌ وَثَلَاثُونَ سَنَةً،أَنَّهُ قَالَ: ومنْ رَفْعِ الْمَسِیحِ إِلَى هِجْرَةِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ تِسْعُمِائَةٍ وَثَلَاثٌ وَثَلَاثُونَ سَنَةً،وَالْمَشْهُورُ هُوَ الْأَوَّلُ، وَهُوَ أَنَّهُ سِتُّمِائَةِ سَنَةٍ وَمِنْهُمْ مَنْ یَقُولُ: سِتُّمِائَةٍ وَعِشْرُونَ سَنَةً

قتادہ کہتے ہیں پانچ سوساٹھ برس۔ معمر رحمہ اللہ کہتے ہیں پانچ سوچالیس برس۔ ضحاک رحمہ اللہ کہتے ہیں چارسوتیس سے کچھ زیادہ۔شعبی رحمہ اللہ کہتے ہیں عیسی علیہ السلام کے آسمان کی طرف اٹھائے جانے اورہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہجرت کے درمیان نوسوتینتیس برس کافاصلہ تھالیکن مشہورپہلاہی قول ہےیعنی چھ سوسال کا اوربعض کہتے ہیں چھ سوبیس سال کافاصلہ تھا۔[81]

أَنَّ أَبَا هُرَیْرَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، یَقُولُ:أَنَا أَوْلَى النَّاسِ بِابْنِ مَرْیَمَ، وَالأَنْبِیَاءُ أَوْلاَدُ عَلَّاتٍ، لَیْسَ بَیْنِی وَبَیْنَهُ نَبِیٌّ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےمیں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سناآپ صلی اللہ علیہ وسلم فرمارہے تھے کہ میں ابن مریم سے بہ نسبت اورلوگوں کے زیادہ قریب ہوں انبیاء علاتی بھائیوں کی طرح ہیں اورمیرے اورعیسی علیہ السلام کے درمیان کوئی نبی نہیں ہے۔[82]

اس فترت کے بعدجبکہ رسولوں کی تعلیم مٹ چکی ہے ،دنیاسرکشی وطغیانی میں توحیدالٰہی اوررسولوں کی تعلیمات کوبھلاکراللہ کی مخلوقات کی پرستش کررہی ہے ،عدل وانصاف بلکہ انسانیت بھی فناہوچکی ہے ،اس احتیاج کی بناپرہم نے اپنی رحمت سے خاتم الانبیاء محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ساری دنیاکی رشدوہدایت کے لئے مبعوث کیا ہے،اوروہ تمہیں نازل کردہ کتاب قرآن مجیدکے مطابق واضح تعلیم دے رہے ہیں تاکہ روزقیامت تم اپنی گمراہیوں اور بداعمالیوں کایہ عذرنہ کرسکوکہ ہمارے پاس کوئی بشارت دینے اور ڈرانے والانہیں آیاتھا،تمہارے اس عذرلنگ کودورکرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے تمہاری طرف بشارت دینے والااورآخرت کے عذاب سے ڈرانے والابھیج دیا ہے ، لہذا اپنابے جاتفاخرچھوڑکراس پرایمان لاؤاوربے چوں وچرااس کی اطاعت کرو،اگراس نصیحت سے روگردانی کرو گے تو روزقیامت ذلیل ورسواہو جاؤگے اوراس وقت سوائے پچھتاوے کے کچھ حاصل نہ ہوگا،یقینااللہ اپنے فرمانبرداروں کوثواب دینے اور نافرمانوں کوعذاب دینے پر قادرہے۔

وَإِذْ قَالَ مُوسَىٰ لِقَوْمِهِ یَا قَوْمِ اذْكُرُوا نِعْمَةَ اللَّهِ عَلَیْكُمْ إِذْ جَعَلَ فِیكُمْ أَنبِیَاءَ وَجَعَلَكُم مُّلُوكًا وَآتَاكُم مَّا لَمْ یُؤْتِ أَحَدًا مِّنَ الْعَالَمِینَ ‎﴿٢٠﴾‏ یَا قَوْمِ ادْخُلُوا الْأَرْضَ الْمُقَدَّسَةَ الَّتِی كَتَبَ اللَّهُ لَكُمْ وَلَا تَرْتَدُّوا عَلَىٰ أَدْبَارِكُمْ فَتَنقَلِبُوا خَاسِرِینَ ‎﴿٢١﴾‏ قَالُوا یَا مُوسَىٰ إِنَّ فِیهَا قَوْمًا جَبَّارِینَ وَإِنَّا لَن نَّدْخُلَهَا حَتَّىٰ یَخْرُجُوا مِنْهَا فَإِن یَخْرُجُوا مِنْهَا فَإِنَّا دَاخِلُونَ ‎﴿٢٢﴾‏ (المائدہ)
’’اور یاد کرو موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی قوم سے کہا اے میری قوم کے لوگو ! اللہ تعالیٰ کے اس احسان کا ذکرکرو کہ اس نے تم میں سے پیغمبر بنائے اور تمہیں بادشاہ بنادیا، اور تمہیں وہ دیا جو تمام عالم میں کسی کو نہیں دیا، اے میری قوم والو ! اس مقدس زمین میں داخل ہوجاؤ جو اللہ نے تمہارے نام لکھ دی ہے اور اپنی پشت کے بل روگردانی نہ کرو کہ پھر نقصان میں جا پڑو، انہوں نے جواب دیا کہ اے موسیٰ! وہاں تو زور آور سرکش لوگ ہیں اور جب تک وہ وہاں سے نکل نہ جائیں ہم تو ہرگز وہاں نہ جائیں گے ہاں اگر وہ وہاں سے نکل جائیں پھر تو ہم (بخوشی) چلے جائیں گے۔‘‘

یادکروجب موسیٰ نے اپنی قوم سے کہاتھااے میری قوم!  اللہ تعالیٰ کے احکامات کی نافرمانی نہ کرو بلکہ اس نے جونعمتیں تمہیں عطاکیں ان پراس کاشکرکرتے رہوجتنابھی تم اس رب کاشکرادا کروگے وہ اتناہی تمہیں اورزیادہ نوازے گااوربرکت ڈالے گاجیسے فرمایا

وَاِذْ تَاَذَّنَ رَبُّكُمْ لَىِٕنْ شَكَرْتُمْ لَاَزِیْدَنَّكُمْ۔۔۔ [83]

ترجمہ: اور یاد رکھو تمہارے رب نے خبردار کر دیا تھا کہ اگرشکر گزار بنو گے تو میں تم کو اور زیادہ نوازوں گا۔

اللہ تعالیٰ نے تمہیں دنیاوالوں پر فضیلت دی اور پیشوابنایا اور زرا اپنے ماضی کی طرف دیکھوکہ اس نعمت کے علاوہ  اللہ تعالیٰ نے تمہیں اور کتنی بے شمارنعمتوں سے نوازاتھااس نے ابراہیم علیہ السلام کے بعد تم میں لگاتارنبی پیداکیے جوتمہیں توحیداوراتباع کی دعوت دیتے رہے اورتمہیں بادشاہی عطاکی (بیشترپیغمبراور بادشاہ بھی بنی اسرائیل سے ہی ہوئے ، بعض نبیوں کوبھی جیسے سلیمان علیہ السلام کو بادشاہ بنایا)

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، فِی قَوْلِهِ: {وَجَعَلَكُمْ مُلُوكًا} قَالَ: الْخَادِمُ وَالْمَرْأَةُ وَالْبَیْتُ

امام عبدالرزاق نے اس جملے’’ تم کو فرماں روا بنایا۔‘‘کی تفسیرمیں عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کایہ قول روایت کیاہے کہ تم نے خدمت کے لیے خادم ،عورت اورگھرکواستعمال کیا۔[84]

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ{وَجَعَلَكُمْ مُلُوكًا} [85] قَالَ: الْمَرْأَةُ وَالْخَادِمُ

امام حاکم رحمہ اللہ نے بھی عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کاقول روایت کیاہے ’’تم کو فرماں روا بنایا۔‘‘ اس سے مرادعورت اورخادم کوخدمت کے لیے استعمال کرناہے۔[86]

وَقَالَ قَتَادَةُ: كَانُوا أَوَّلَ مَنْ مَلَكَ الْخَدَمَ

قتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں بنی اسرائیل نے سب سے پہلے خادموں کواپنی خدمت کے لیے استعمال کیاتھا۔[87]

عُبَیْدِ اللهِ بْنِ مِحْصَنٍ الخَطْمِیِّ، عَنْ أَبِیهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: مَنْ أَصْبَحَ مِنْكُمْ آمِنًا فِی سِرْبِهِ مُعَافًى فِی جَسَدِهِ عِنْدَهُ قُوتُ یَوْمِهِ فَكَأَنَّمَا حِیزَتْ لَهُ الدُّنْیَا

عبداللہ بن محصن رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاتم میں سے جوشخص اس حال میں صبح کرے کہ اہل ومال کے اعتبارسے مطمئن ہو،جسمانی طورپروہ صحت مند ہو اور اس دن کی خوراک اس کے پاس موجودہوتوگویادنیااپنی تمام ترنعمتوں کے ساتھ مل گئی۔[88]

فرعون جیسے ظالم وجابربادشاہ کی غلامی سے تمہیں نجات بخشی اورتم کومن وسلویٰ دیاجودنیامیں اورکسی کونہیں دیا، صحراکی تپتی چلچلاتی دھوپ میں جہاں کوئی جائے پناہ نہیں تھی تم پربادلوں کاسایہ کیے رکھا ، تمہارے بارہ قبیلوں کے لئے پانی کے بارہ چشمے جاری کیے تاکہ بغیرکسی روک ٹوک کے تم پانی حاصل کر سکو،جیسے فرمایا

وَلَقَدْ اٰتَیْنَا بَنِیْٓ اِسْرَاۗءِیْلَ الْكِتٰبَ وَالْحُكْمَ وَالنُّبُوَّةَ وَرَزَقْنٰهُمْ مِّنَ الطَّیِّبٰتِ وَفَضَّلْنٰهُمْ عَلَی الْعٰلَمِیْنَ۝۱۶ۚ [89]

ترجمہ:اِس سے پہلے بنی اسرائیل کو ہم نے کتاب اور حکم اور نبوت عطا کی تھی، ان کو ہم نے عمدہ سامانِ زیست سے نوازا، دنیا بھر کے لوگوں پر انہیں فضیلت عطا کی۔

بنواسرائیل کے مورث اعلیٰ یعقوب علیہ السلام کامسکن فلسطین تھالیکن یوسف علیہ السلام کے امارت مصرمیں بنی اسرائیل مع اپنے اہل وعیال بیت المقدس سے جاکر مصرمیں آبادہوگئے تھے،چنانچہ یوسف علیہ السلام کے زمانہ میں اوران کے بعدان کومصرمیں بڑااقتدارنصیب ہوا مگرایک تحریک کے نتیجے میں یہ قبطی قوم کےغلام بن گئے ،جب موسیٰ علیہ السلام انہیں فرعون مصرسے چھپ کر راتوں رات نکال کرلے گئے،بنی اسرائیل کے مصرمیں آبادہونے پر فلسطین پرایک بہادر قوم عمالقہ نے قبضہ کرلیاتھااوراب بھی انہی کی حکمرانی تھی ،چنانچہ مصرسے نکلنے کے تقریباًدوسال بعدجب موسیٰ علیہ السلام اپنی قوم کولے کردشت فاران میں خیمہ زن تھے تب انہوں نے اپنی قوم کوفتح ونصرت کی بشارت دیتے ہوئے سے کہا اے برادران قوم!اس مقدس سرزمین میں داخل ہوجاؤاوران سے جہادکرو، اللہ تعالیٰ نے یہ سرزمین تمہارے نام لکھ دی ہے (بنی اسرائیل جب مصرسے نکل آئے تواسی سرزمین کو اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے نامزدفرمایاتھا) اس لئے فتح ونصرت تمہاری ہی ہوگی ،اس فانی زندگی کی محبت میں جہادسے منہ نہ موڑوجس میں تمہاری عزت وقارپنہاں ہے، اگررب کی نعمت کی ناشکری کرتے ہوئے جہادسےمنہ موڑوگے تونقصان اٹھانے والوں میں سے ہوگے،مگربنی اسرائیل جو ایک عرصہ غلامی میں گزارنے کی وجہ سے پست ہمت ہوچکے تھے ، اپنے رسول کی زبان سے فتح ونصرت کی بشارت سننے کے باوجودقوم عمالقہ کی بہادری کی شہرت سے مرعوب ہو گئے، انہوں نے نہ ہی  اللہ تبارک و تعالیٰ کے وعدہ نصرت پر یقین کیااورنہ ہی اس کے رسول کے حکم کی کوئی پرواہ نہ کی بلکہ موت کے خوف سے پہلے مرحلے میں ہی ہمت ہارکرجہاد سے دست بردارہوگئے اورفلسطین میں داخل ہونے سے صاف انکارکردیااور جواب دیااے موسیٰ!وہاں توبڑے قوی،طاقتواراورجنگجو لوگ رہتے ہیں ہم توان سے مقابلہ نہیں کرسکتے جب تک وہ اس شہرمیں موجودہیں ہم اس میں داخل نہیں ہوں گے ہاں اگروہ اس شہر سے نکل نہ جائیں توپھرہم اس شہرمیں داخل ہوجائیں گے۔ان کے مقابلے میں غزوہ بدرکے موقع پردشمن کے مقابلے میں کم تعداداوربے سروساماں صحابہ کرام کے حالات پرنظرڈالیں ،جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے دشمن سے لڑنے کے لئے رائے طلب فرمائی تومہاجرین کے بعدانصارکے سردارسعدبن معاذ رضی اللہ عنہ نے کھڑے ہوکرجواب دیا

یَا رَسُولَ اللهِ، فَوَالَّذِی بَعَثَكَ بِالْحَقِّ لَوِ اسْتَعرضْتَ بِنَا هَذَا الْبَحْرَ فخُضْتَه لخُضناه مَعَكَ، وَمَا تخلَّف مِنَّا رَجُلٌ وَاحِدٌ وَمَا نَكْرَه أَنْ تَلْقَى بِنَا عَدُوَّنَا غَدًا۔۔۔۔إِنَّا لصُبُر فِی الْحَرْبِ، صُدُقٌ فِی اللِّقَاءِ ، لَعَلَّ اللهَ یُرِیكَ مِنَّا مَا تَقَرُّ بِهِ عَیْنُكَ

اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !جس نے آپ کوحق کے ساتھ نبی بناکربھیجاہے اگرآپ ہمیں سمندر کے کنارے کھڑاکرکے فرمائیں کہ اس میں کودجاؤتوبغیرکسی پس وپیش کے اس میں کودجائیں گے اورہماراکوئی آدمی پیچھے نہیں رہے گاہم لڑائی میں صبراورثابت قدمی دکھانے والے اوراللہ کی ملاقات کوسچ جاننے والے لوگ ہیں ،ہماری بہادری اور استقلال کودیکھ کران شاء اللہ آپ کی آنکھیں ٹھنڈی ہوں گی۔[90]

ایک روایت میں ہے انصاریوں نے عرض کیا

قَالُوا: إذًا لَا نَقُولُ لَهُ كَمَا قَالَتْ بَنُو إِسْرَائِیلَ لِمُوسَى:فَاذْهَبْ أَنْتَ وَرَبُّكَ فَقَاتِلا إِنَّا هَاهُنَا قَاعِدُونَ وَالَّذِی بَعَثَكَ بِالْحَقِّ لَوْ ضَرَبْت أَكْبَادَهَا إِلَى بَرْك الغمَاد لَاتَّبَعْنَاكَ

ہم بنی اسرائیل کی طرح نہیں جویہ کہہ دیں کہ آپ اورآپ کااللہ جاکرلڑیں ہم یہاں بیٹھے ہیں ،اللہ کی قسم ! جس نے آپ کوحق کے ساتھ مبعوث کیاہے اگرآپ ہمیں برک الغمادتک جانے کاحکم دیں گے توہم آپ کی اطاعت کریں گے۔[91]

فَقَالَ: وَاللهِ یَا رَسُولَ اللهِ لَا نَقُولُ كَمَا قَالَتْ بَنُو إِسْرَائِیلَ لِمُوسَى: فَاذْهَبْ أَنْتَ وَرَبُّكَ فَقَاتِلا إِنَّا هَاهُنَا قَاعِدُونَ وَلَكُنَّا نُقَاتِلُ عَنْ یَمِینِكَ وَعَنْ یَسَارِكَ، وَمِنْ بَیْنِ یَدَیْكَ وَمِنْ خَلْفِكَ

مقداد رضی اللہ عنہ نے کہااللہ کی قسم !اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !ہم بنی اسرائیل کی طرح یہ نہیں کہیں گے کہ تم اورتمہاراخداجاکرلڑائی کروہم تویہیں بیٹھے ہیں بلکہ آپ کے آگے پیچھے،دائیں بائیں ہم ہی ہوں گے۔[92]

قَالَ رَجُلَانِ مِنَ الَّذِینَ یَخَافُونَ أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَیْهِمَا ادْخُلُوا عَلَیْهِمُ الْبَابَ فَإِذَا دَخَلْتُمُوهُ فَإِنَّكُمْ غَالِبُونَ ۚ وَعَلَى اللَّهِ فَتَوَكَّلُوا إِن كُنتُم مُّؤْمِنِینَ ‎﴿٢٣﴾‏ قَالُوا یَا مُوسَىٰ إِنَّا لَن نَّدْخُلَهَا أَبَدًا مَّا دَامُوا فِیهَا ۖ فَاذْهَبْ أَنتَ وَرَبُّكَ فَقَاتِلَا إِنَّا هَاهُنَا قَاعِدُونَ ‎﴿٢٤﴾‏ قَالَ رَبِّ إِنِّی لَا أَمْلِكُ إِلَّا نَفْسِی وَأَخِی ۖ فَافْرُقْ بَیْنَنَا وَبَیْنَ الْقَوْمِ الْفَاسِقِینَ ‎﴿٢٥﴾‏ قَالَ فَإِنَّهَا مُحَرَّمَةٌ عَلَیْهِمْ ۛ أَرْبَعِینَ سَنَةً ۛ یَتِیهُونَ فِی الْأَرْضِ ۚ فَلَا تَأْسَ عَلَى الْقَوْمِ الْفَاسِقِینَ ‎﴿٢٦﴾‏(المائدہ)
’’دو شخصوں نے جو خدا ترس لوگوں میں سے تھے، جن پر اللہ تعالیٰ کا فضل تھا کہا کہ تم ان کے پاس دروازے میں تو پہنچ جاؤ ،دروازے پر قدم رکھتے ہی یقیناً تم غالب آجاؤ گے، اور تم اگر مومن ہو تو تمہیں اللہ تعالیٰ ہی پر بھروسہ رکھنا چاہیے ،قوم نے جواب دیا کہ اے موسیٰ ! جب تک وہ وہاں ہیں تب تک ہم ہرگز وہاں نہ جائیں گے، اس لیے تم اور تمہارا پروردگار جا کر دونوں ہی لڑ بھڑ لو، ہم یہیں بیٹھے ہوئے ہیں ،موسیٰ (علیہ السلام) کہنے لگے الٰہی! مجھے تو بجز اپنے اور میرے بھائی کے کسی اور پر کوئی اختیار نہیں، پس تو ہم میں اور ان نافرمانوں میں جدائی کر دے، ارشاد ہوا کہ اب زمین ان پر چالیس سال تک حرام کردی گئی ہے، یہ خانہ بدوش ادھر ادھر سرگرداں پھرتے رہیں گے اس لیے تم ان فاسقوں کے بارے میں غمگین نہ ہونا ۔‘‘

قوم موسٰی میں صرف دوآدمی صحیح معنوں میں ایماندارنکلے (ان میں سے ایک یوشع بن نون تھے جوموسٰی کے بعدان کے خلیفہ ہوئے اوردوسرے کالب بن یوفنا تھے جو یوشع کے دست راست بنے،چالیس برس تک بھٹکنے کے بعد جب بنی اسرائیل فلسطین میں داخل ہوئے تواس وقت موسٰی کے ساتھیوں میں سے صرف یہی دوبزرگ زندہ تھے )جنہیں نصرت الہٰی پرکامل یقین تھاانہوں نے قوم سے کہااے قوم کے لوگو!ہمت سے کام لواورقوم عمالقہ کی بہادری سے مرعوب نہ ہوجاو،اپنے رب کی نصرت پرکامل بھروسہ کرکے ان پرحملہ کردواوراپنے دلوں میں کسی خوف وخطرکوخاطرمیں نہ لاتے ہوئے اس شہرکے دروازے میں داخل ہو جاو، جن لوگوں کی بہادری کی شہرت سے تم خائف ولرزاں ہووہ تمہارےمقابلہ میں کھڑے ہی نہیں ہوسکیں گے ،جب تم حملہ کروگے توپھردیکھوگے کہ  اللہ تعالیٰ تمہیں کیسے فتح ونصرت سے نوازتاہے، لیکن اللہ تبارک وتعالیٰ کی طرف سے فتح کی کھلی بشارت اوربڑوں کے سمجھانے کے باوجود بنی اسرائیل نے بدترین بزدلی،سوء ادبی اورتمردوسرکشی کامظاہرہ کیااورکہاکہ اے موسیٰ !ہم توان بہادرجنگجوں سے نہیں لڑسکتے ہم تویہاں پر بیٹھے تمہاراانتظارکرتے ہیں تم اورتیرارب جاکران بہادر لوگوں سے لڑو جب وہ لوگ اس شہر سے نکل جائیں گے توہم پھراندرداخل ہوگے ،جہادکے اس دوٹوک انکار پرموسٰی سخت ناراض ہوئےاوراس سرکش قوم کے مقابلے میں اپنی بے بسی اوربراء ت کااعلان کیافرمایااے میرے رب! مجھے بس اپنے اور اپنے بھائی کے نفس پراختیارہے مگرسرکش قوم کے لوگوں پرکوئی اختیار نہیں توہمیں ان نافرمان لوگوں سے الگ کردے ،چنانچہ  اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کی نافرمانی ،حکم سے انحراف اوران کی پست ہمتی کی وجہ سے سزاکے طور پر فلسطین کی سرزمین ان پرچالیس برس کے لئے حرام کردی اورفرمایااے موسٰی !اب یہ چالیس سال تک اس میدان میں بھٹکتے رہیں گے تم ان کی حالت زارپرترس نہ کھانا چنانچہ یہ قوم میدان تیہ میں چالیس سال تک رب کی نافرمانی اورجہادسے اغراض کی بناپر سرگرداں رہی ۔

فَقَالَ لِقَوْمِهِ لَا یَتْبَعْنِی رَجُلٌ قَدْ مَلَکَ بُضْعَ امْرَأَةٍ وَهُوَ یُرِیدُ أَنْ یَبْنِیَ بِهَا وَلَمَّا یَبْنِ وَلَا آخَرُ قَدْ بَنَی بُنْیَانًا وَلَمَّا یَرْفَعْ سُقُفَهَا وَلَا آخَرُ قَدْ اشْتَرَی غَنَمًا أَوْ خَلِفَاتٍ وَهُوَ مُنْتَظِرٌ وِلَادَهَا قَالَ فَغَزَا فَأَدْنَی لِلْقَرْیَةِ حِینَ صَلَاةِ الْعَصْرِ أَوْ قَرِیبًا مِنْ ذَلِکَ،فَقَالَ لِلشَّمْسِ أَنْتِ مَأْمُورَةٌ وَأَنَا مَأْمُورٌ اللهُمَّ احْبِسْهَا عَلَیَّ شَیْئًا فَحُبِسَتْ عَلَیْهِ حَتَّی فَتَحَ اللهُ عَلَیْهِ

موسی علیہ السلام کے بعدیوشع بن نون اللہ کے دشمنوں ،مفسدانسانوں کے ظلم وجبراوربغاوت کومٹانے کے لیے جہادکے لیے ان ممالک کی طرف بڑھے اوربڑھنے سے قبل اپنی قوم سے فرمایا جس آدمی نے ابھی شادی کی ہو اور اس نے ابھی تک شب زفاف نہ گزاری ہو اور وہ یہ چاہتا ہو کہ اپنی بیوی کے ساتھ رات گزارے تو وہ آدمی میرے ساتھ نہ چلے(یعنی اسے پیچھے کاکوئی خیال نہ ہو) اور نہ ہی وہ آدمی میرے ساتھ چلے کہ جس نے مکان بنایا ہو اور ابھی تک اس کی چھت نہ ڈالی ہو (یعنی ابھی ادھورا ہو ) اور میرے ساتھ وہ بھی نہ جائے جس نے بکریاں اور گابھن اونٹیاں خریدی ہوں اور وہ ان کے بچہ جننے کا انتظار میں ہو (چنانچہ تابوت سکینہ کے ہمراہ اس شرط کے تحت وہ نوجوانوں کولیکردشت سیناسے نکل کرارض کنعان کی طرف روانہ ہوئے )جب دونوں گروہ آمنے سامنے ہوئے اور (اریحاشہرمیں ) جنگ چھڑگئی ،صبح کے وقت سے جنگ کرتے کرتے وہ عصر کی نماز یا اس کے قریب وقت میں ایک گاؤں کے قریب آئے یوشع علیہ السلام کاپلڑابھاری تھااگرشام کے وقت جنگ رک جاتی توامکان تھاکہ راتوں رات دشمن کسی قسم کی کوئی چال نہ چل جائے ، اس لئے انہوں نے سورج کی طرف متوجہ ہو کرکہا توبھی مامور ہے کہ  اللہ کے حکم سے مشرق سے مغرب کی طرف اپناسفرطے کرتاہے اورمیں بھی مامورہوں کہ میں  اللہ سبحان و تعالیٰ کے دشمنوں سے جہادکروں ، پھررب کریم سے دعافرمائی اے میرے رب! سورج کوہمارے اوپر روک دے ، چنانچہ  اللہ  تعالیٰ نے ان کی دعاکوقبول فرمایا اورکائنات کی تاریخ میں پہلی دفعہ اپنی قدرت کاملہ سے سورج کی گردش کو اسی جگہ روک دیا( یوشع علیہ السلام نے اسی دن لڑتے لڑتے دشمن کو شکست فاش دی اور پھر جہادکرتے ہوئے آگے بڑھتے بڑھتے پورے ارض مقدس پر جو ان کاآبائی وطن تھاقابض ہوگئے اس طرح  اللہ تعالیٰ نے انہیں فتح نصیب فرمائی)

قَالَ فَجَمَعُوا مَا غَنِمُوا فَأَقْبَلَتْ النَّارُ لِتَأْکُلَهُ فَأَبَتْ أَنْ تَطْعَمَهُ، فَقَالَ فِیکُمْ غُلُولٌ فَلْیُبَایِعْنِی مِنْ کُلِّ قَبِیلَةٍ رَجُلٌ فَبَایَعُوهُ فَلَصِقَتْ یَدُ رَجُلٍ بِیَدِهِ، فَقَالَ فِیکُمْ الْغُلُولُ فَلْتُبَایِعْنِی قَبِیلَتُکَ فَبَایَعَتْهُ قَالَ فَلَصِقَتْ بِیَدِ رَجُلَیْنِ أَوْ ثَلَاثَةٍ، فَقَالَ فِیکُمْ الْغُلُولُ أَنْتُمْ غَلَلْتُمْ قَالَ فَأَخْرَجُوا لَهُ مِثْلَ رَأْسِ بَقَرَةٍ مِنْ ذَهَبٍ، قَالَ فَوَضَعُوهُ فِی الْمَالِ وَهُوَ بِالصَّعِیدِ فَأَقْبَلَتْ النَّارُ فَأَکَلَتْهُ، فَلَمْ تَحِلَّ الْغَنَائِمُ لِأَحَدٍ مِنْ قَبْلِنَا ذَلِکَ بِأَنَّ اللهَ تَبَارَکَ وَتَعَالَی رَأَی ضَعْفَنَا وَعَجْزَنَا فَطَیَّبَهَا لَنَا

پھر سارے کیمپ سے دشمن کامال غنیمت جمع کیاگیااوراس ایک جگہ ڈھیرکردیاکہ آسمان سے آگ آئے اور اسے جلادے مگرآسمان سے آگ نہ آئی، یوشع علیہ السلام نے فرمایا تم میں سے کسی نے ضرورخیانت کی ہے اس لئے اس خائن کاتلاش کرنے کے لئے ہرقبیلہ کاایک فرد مجھ سے آکربیعت کرے ، چنانچہ سب آکربیت کرنے لگے ایک شخص کاہاتھ آپ کے ہاتھ کے ساتھ چپک گیا، یوشع علیہ السلام نے فرمایاتمہارے قبیلہ میں خیانت ہوئی ہے لہذا تمہارے قبیلہ کاہر فرد مجھ سے بیعت کرے، سب بیعت کرنے لگے اوردویاتین اشخاص کے ہاتھ آپ کے ہاتھ کے ساتھ چپک گئے، یوشع علیہ السلام نے فرمایاتم لوگوں نے خیانت کی ہے ان لوگوں نے اس کاقرارکیااورگائے کاایک سر اٹھا لائے جو سونے کابناہواتھا، فرمایا تم اسے مال غنیمت میں اونچی جگہ میں رکھ دواب جب تمام مال غنیمت جماہوگیاتو آسمان سے آگ نازل ہوئی اوراس نے مال غنیمت کو جلادیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہم سے پہلے کسی کے لئے مال غنیمت حلال نہیں تھا اللہ تعالیٰ نے ہماری کمزوری اور عاجزی دیکھی تو ہماری لئے مال غنیمت کو حلال فرما دیا۔[93]

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَوْلَهُ: {فَإِنَّهَا مُحَرَّمَةٌ عَلَیْهِمْ أَرْبَعِینَ سَنَةً یَتِیهُونَ فِی الأرْضِ} قَالَ: فَتَاهُوا أَرْبَعِینَ سَنَةً، فَهَلَكَ مُوسَى وَهَارُونُ فِی التِّیهِ وَكُلُّ مَنْ جَاوَزَ الْأَرْبَعِینَ سَنَةً، فَلَمَّا مَضَتِ الْأَرْبَعُونَ سَنَةً، نَاهَضَهُمْ یُوشَعُ بْنُ نُونٍ ، وَهُوَ الَّذِی قَامَ بِالْأَمْرِ بَعْدَ مُوسَى، وَهُوَ الَّذِی افْتَتَحَهَا

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے’’اللہ نے جواب دیا اچھا تو وہ ملک چالیس سال تک ان پر حرام ہے، یہ زمین میں مارے مارے پھریں گے۔‘‘ کی تفسیرمیں روایت ہے کہ وہ چالیس برس تک اس جنگل میں حران وسرگرداں پھرتے رہے حتی کہ موسیٰ علیہ السلام وہارون علیہ السلام کابھی اس جنگل میں انتقال ہوگیابلکہ ہراس شخص کاانتقال ہوگیاتھاجس کی عمرچالیس سال سے زیادہ تھی، جب چالیس سال کایہ عرصہ گزرگیاتوموسیٰ علیہ السلام کے بعدان کی قیادت یوشع بن نون نے کی، اوروہ انہیں لے کربیت المقدس گئے اورانہی نے اسے فتح کیاتھا۔[94]

جب رب کریم نے بنی اسرائیل کو دشمنوں پرفتح عطا فرما دی تورب نے حکم فرمایاکہ شہرمیں غرورمیں ڈوب کرمتکبرانہ اندازمیں داخل نہ ہونابلکہ رب کاشکراداکرنے والوں کی طرح اس کی بارگاہ میں خشوع کے ساتھ جھکتے اوراستغفارکرتے ہوئے داخل ہونا کیونکہ یہ کسی مومن کی شان نہیں کہ وہ رب کی راہ میں جہادکرے اورجب رب اسے اپنی رحمت سے دشمنوں پر کامیابی عطا فرمائے تو اس رب کے حضورسجدہ شکرادا کرنے کے بجائے اس پراظہارفخروغرورکرے مگروہ بنی اسرائیل جن کی سرشت ہی احکام الہٰی کی خلاف ورزی تھی وہ یہ حکم کیا بجا لاتے وہ اس فتح پربدمست ہوگئے اور احکام الہٰی کو پس پشت ڈال کر فتح ونصرت کے دنکے بجاتے فخروغرور اور تکبرکے ساتھ شہرمیں داخل ہوئے اور اپنے اعمال بدکے باعث عذاب الہٰی کے مستحق ٹھیرے،ان پرکیساعذاب آیااس کی تفصیل معلوم نہیں لیکن ہمیں یہ سبق ضرورمل جاتاہے کہ جوقومیں رب کے احکامات کی خلاف ورزی کرتی ہیں اورابلیس کے جال میں پھنس کراپنی من مانی خواہشات کی پیروی کرتی ہیں ان پررب کااٹل قانون جزا و سزا کااطلاق جلدیابدیرضرورہوتاہے اور پھر کہیں جائے پناہ نہیں ہوتی۔

وَاتْلُ عَلَیْهِمْ نَبَأَ ابْنَیْ آدَمَ بِالْحَقِّ إِذْ قَرَّبَا قُرْبَانًا فَتُقُبِّلَ مِنْ أَحَدِهِمَا وَلَمْ یُتَقَبَّلْ مِنَ الْآخَرِ قَالَ لَأَقْتُلَنَّكَ ۖ قَالَ إِنَّمَا یَتَقَبَّلُ اللَّهُ مِنَ الْمُتَّقِینَ ‎﴿٢٧﴾‏ لَئِن بَسَطتَ إِلَیَّ یَدَكَ لِتَقْتُلَنِی مَا أَنَا بِبَاسِطٍ یَدِیَ إِلَیْكَ لِأَقْتُلَكَ ۖ إِنِّی أَخَافُ اللَّهَ رَبَّ الْعَالَمِینَ ‎﴿٢٨﴾‏ إِنِّی أُرِیدُ أَن تَبُوءَ بِإِثْمِی وَإِثْمِكَ فَتَكُونَ مِنْ أَصْحَابِ النَّارِ ۚ وَذَٰلِكَ جَزَاءُ الظَّالِمِینَ ‎﴿٢٩﴾‏ فَطَوَّعَتْ لَهُ نَفْسُهُ قَتْلَ أَخِیهِ فَقَتَلَهُ فَأَصْبَحَ مِنَ الْخَاسِرِینَ ‎﴿٣٠﴾‏ فَبَعَثَ اللَّهُ غُرَابًا یَبْحَثُ فِی الْأَرْضِ لِیُرِیَهُ كَیْفَ یُوَارِی سَوْءَةَ أَخِیهِ ۚ قَالَ یَا وَیْلَتَىٰ أَعَجَزْتُ أَنْ أَكُونَ مِثْلَ هَٰذَا الْغُرَابِ فَأُوَارِیَ سَوْءَةَ أَخِی ۖ فَأَصْبَحَ مِنَ النَّادِمِینَ ‎﴿٣١﴾‏(المائدہ)
’’ آدم (علیہ السلام) کے دونوں بیٹوں کا کھرا کھرا حال بھی انہیں سنا دو، ان دونوں نے ایک نذرانہ پیش کیا، ان میں سے ایک کی نذرتو قبول ہوگئی اور دوسرے کی مقبول نہ ہوئی تو کہنے لگا کہ میں تجھے مار ہی ڈالوں گا، اس نے کہا اللہ تعالیٰ تقویٰ والوں کا ہی عمل قبول کرتا ہےگو تو میرے قتل کے لیے دست درازی کرے لیکن میں تیرے قتل کی طرف ہرگز اپنے ہاتھ نہیں بڑھاؤں گا، میں تو اللہ تعالیٰ پروردگار عالم سے خوف کھاتا ہوں،میں تو چاہتا ہوں کہ تو میرا گناہ اپنے سر پر رکھ لے اور دوزخیوں میں شامل ہوجائے ظالموں کا یہی بدلہ ہے، پس اسے اس کے نفس نے اپنے بھائی کے قتل پر امادہ کردیا اس نے اسے قتل کر ڈالا، جس سے نقصان پانے والوں میں سے ہوگیا ،پھر اللہ تعالیٰ نے ایک کوے کو بھیجا جو زمین کھود رہا تھا تاکہ اسے دکھائے کہ وہ کس طرح اپنے بھائی کی نعش کو چھپا دے، وہ کہنے لگا ہائے افسوس! کیا میں ایسا کرنے سے بھی گیا گزرا ہوگیا کہ اس کوے کی طرح اپنے بھائی کی لاش کو دفنا دیتا، پھر تو (بڑا ہی) پشیمان اور شرمندہ ہوگیا۔‘‘

قصہ ہابیل وقابیل :آدم علیہ السلام کو  اللہ  تعالیٰ نے کثرت سے اولاد عطا فرمائی، شیطان مردود نے آدم علیہ السلام کے بعداپنے پہلاوار آدم علیہ السلام کے دو بیٹوں پر کیا،

فِی قَوْلِ الْجُمْهُورِ-وَهُمَا هَابِیلُ وَقَابِیلُ

کئی ایک ائمہ سلف وخلف کے بقول جن کے نام ہابیل اورقابیل تھے۔[95]

ابلیس نے قابیل کے دل میں کسی مسئلہ میں حسد کی آگ بھڑکا کر جھگڑا کھڑاکرڈالا، آدم علیہ السلام نے قابیل کو سمجھانے کی ازحد کوشش فرمائی مگر قابیل بغض و حسد میں باپ کی بات کوبھی نہ مانااور اپنی ضد پراڑگیا چنانچہ آدم علیہ السلام نے فیصلہ فرمایا دونوں  اللہ کی رضا معلوم کرنے کے لئے اس کے جناب میں قربانی کریں جس کی قربانی منظور ہو جائے گی وہی اپنے راہ راست پر ہوگا (اس وقت یہ دستورتھاکہ نذروقربانی کی چیزکوایک بلندمقام پر رکھ دیاجاتاتھا، ایک آگ آسمان سے آتی تھی جس کی قربانی رب منظور فرماتا اس کو جلادیتی )اس دستور کے مطابق ہابیل نے حسن نیت سے اپنے ریوڑ سے ایک بہترین دنبہ  اللہ تعالیٰ کے حضور نذرکیاجبکہ قابیل نے نیت بد سے اپنی کھیتی کے غلہ میں سے بہترین غلہ دینے کے بجائے ردی قسم کاغلہ قربانی کے لئے پیش کیا،حسب دستور آسمان سے آگ نمودار ہوئی اور اس نے ہابیل کی قربانی کوجلا دیااوربارگاہ الٰہی میں قبولیت کاشرف اس کے حصہ میں آیا ،رب کے فیصلے کومان کر سرجھکانے کے بجاے قابیل نے اس کواپنی توہین سمجھااورغیظ وغضب سے پاگل ہو گیااور ہابیل سے کہاکہ میں تجھے اپنی مراد کو نہیں پہنچنے دوں گا اورتجھے قتل کرڈالوں گا،ہابیل نے اطمینان سے نصیحت کی کہ اگرتوایساکرے گاتویہ تمہارا عمل ہوگامیں ایسی حرکت ہرگز ہرگز نہیں کروں گامیں اپناہاتھ تمہاری طرف نہیں بڑھاوں گامیراایمان و یقین اس رب پرہے اگرتومجھے قتل کر ڈالے گاتومیرے گناہ تیری گردن پرہوں گے اورمیں پاک وصاف ہو جاوں گا اورتوجہنمی بن کررہے گا اورجہنم کے ناقابل برداشت عذاب سہتے ہوئےہمیشہ موت کی تمناکرتارہے گا،ظالموں کے ظلم کایہی ٹھیک بدلہ ہے،

عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَمْرٍو , أَنَّهُ قَالَ:وَایْمُ اللهِ , إِنْ كَانَ الْمَقْتُولُ لَأَشَدَّ الرَّجُلَیْنِ , وَلَكِنْ مَنَعَهُ التَّحَرُّجُ أَنْ یَبْسُطَ إِلَى أَخِیهِ

عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ کاقول ہے کہ اللہ کی قسم !یہ شخص دونوں میں سے زیادہ بہادراورطاقت ورتھامگرتقویٰ کی وجہ سے اس نے اپنے بھائی کی طرف ہاتھ نہ بڑھایا ۔[96]

عَنِ الأَحْنَفِ بْنِ قَیْسٍ، قَالَ: فَإِنِّی سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَقُولُ:إِذَا(تَوَاجَهَ) المُسْلِمَانِ بِسَیْفَیْهِمَا فَالقَاتِلُ وَالمَقْتُولُ فِی النَّارِقَالُوا: یَا رَسُولَ اللهِ، هَذَا الْقَاتِلُ فَمَا بَالُ الْمَقْتُولِ؟قَالَ:إِنَّهُ كَانَ حَرِیصًا عَلَى قَتْلِ صَاحِبِهِ

الاحنف بن قیس رضی اللہ عنہ سے مروی ہےمیں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوفرماتے ہوئے سناہےجب دومسلمان اپنی تلواروں کے ساتھ ایک دوسرے کامقابلہ کرتے ہیں توقاتل ومقتول دونوں جہنم رسیدہوں گے، میں نے عرض کی اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !یہ توقاتل ہے مگرمقتول کا کیا قصورہے؟(کہ وہ بھی جہنم میں جائے گا)فرمایااس لیے کہ وہ بھی اپنے ساتھی کوقتل کرنے پرحریص تھا۔[97]

 أَنَّ سَعْدَ بْنَ أَبِی وَقَّاصٍ، قَالَ عِنْدَ فِتْنَةِ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ: أَشْهَدُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:إِنَّهَا سَتَكُونُ فِتْنَةٌ الْقَاعِدُ فِیهَا خَیْرٌ مِنَ القَائِمِ،وَالْقَائِمُ خَیْرٌ مِنَ المَاشِی ، وَالْمَاشِی، خَیْرٌ مِنَ السَّاعِی، قَالَ: أَفَرَأَیْتَ إِنْ دَخَلَ عَلَیَّ بَیْتِی، فَبَسَطَ یَدَهُ إِلَیَّ لِیَقْتُلَنِی؟ قَالَ:كُنْ كَابْنِ آدَمَ

سعدبن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے سیدناعثمان رضی اللہ عنہ کے دورفتنے کے موقع پرکہاتھا میں اس بات کی گواہی دیتاہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاتھابلاشک عنقریب ایک فتنہ رونماہوگاکہ جس میں بیٹھنے والاکھڑے ہونے والے سے بہترہوگا اورکھڑاہونے والاچلنے والے سے بہترہوگا اورچلنے والادوڑنے والے سے بہترہوگا،عرض کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !اگروہ میرے گھرمیں داخل ہوکرمیری طرف اپناہاتھ درازکرے تاکہ مجھے قتل کردے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااس صورت میں ابن آدم کی طرح ہوجاؤ(جس نے قتل ہونا گوارا کر لیا تھا )۔[98]

میری قربانی اس قادر مطلق نے قبول فرمائی ہے جہاں غم وغصہ ،دھمکی ،رشوت کچھ کام نہیں آسکتا اوریہ بھی ذہن نشین کر لے کہ وہ صرف نیک نیت لوگوں ہی کی قربانی اور نذر ونیاز قبول کرتاہے اس لئے اپنے اعمال ٹھیک کراور  اللہ  تعالیٰ کے فیصلے اور اپنے والد محترم کے حکم کو بغیر چوں چرا مان لے ،

عَن أبی الدَّرْدَاء قَالَ: لِأَنْ أَسْتَیْقِنَ أَنَّ اللهَ قَدْ تَقَبَّلَ مِنِّی صَلَاةً وَاحِدَةً أَحَبُّ إِلَیَّ مِنَ الدُّنْیَا وَمَا فِیهَا، إِنَّ اللهَ یَقُولُ: {إِنَّمَا یَتَقَبَّلُ اللهُ مِنَ الْمُتَّقِینَ،

ابوالدرداء کاقول ہے اگرمجھے یہ یقین ہوجائے کہ اللہ تعالیٰ نے میری ایک نمازقبول فرمالی ہے تویہ بات مجھے دنیااوردنیاکی ساری دولتوں سے زیادہ عزیزہوگی ،اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایاہے’’ اللہ تومتقیوں ہی کی نذریں قبول کرتاہے۔‘‘ [99]

قابیل پر اس نصیحت نے الٹااثر کیااور اس نے غصہ میں پاگل ہوکر ہابیل کوقتل کردیا،

فَأَتَى فَجَعَلَ لَا یَدْرِی كَیْفَ یَقْتُلُهُ , فَلَوَى بِرَقَبَتِهِ وَأَخَذَ بِرَأْسِهِ،فَنَزَلَ إِبْلِیسُ , وَأَخَذَ دَابَّةً أَوْ طَیْرًا فَوَضَعَ رَأْسَهُ عَلَى حَجَرٍثُمَّ أَخَذَ حَجَرًا آخَرَ فَرَضَخَ بِهِ رَأْسَهُ، وَابْنُ آدَمَ الْقَاتِلُ یَنْظُرُفَأَخَذَ أَخَاهُ , فَوَضَعَ رَأْسَهُ عَلَى حَجَرٍ وَأَخَذَ حَجَرًا آخَرَ فَرَضَخَ بِهِ رَأْسَهُ

جب اس نے قتل کاارادہ کیاتواپنے بھائی کی گردن کومروڑناشروع کر دیا مگر اسے سمجھ میں نہیں آرہاتھاکہ وہ اسے کس طرح قتل کرے،ابلیس ظاہرہوااور ایک جانوریاایک پرندے کوپکڑکر لے آیا اور اس نے اس کے سرکوایک پتھرپررکھ دیااورایک دوسرے پتھرسے مارمارکراس کے سرکوکچل کراسے قتل کردیا،آدم علیہ السلام کابیٹایہ منظردیکھ رہاتھاتواس نے بھی اپنے بھائی کاسر پتھر پر رکھا اور دوسرا پتھراٹھاکربھائی کے سرپرمارمارکرکچل دیا۔[100]

اوروہ ان لوگوں میں شامل ہوگیاجونقصان اٹھانے والے ہیں ،

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: نُهِیَ أَنْ تَنْكِحَ الْمَرْأَةُ أَخَاهَا تَوْأمها وَأُمِرَ أَنْ یَنْكِحَهَا غَیْرُهُ مِنْ إِخْوَتِهَا وَكَانَ یُولَدُ لَهُ فِی كُلِّ بَطْنٍ رَجُلٌ وَامْرَأَةٌ ، فَبَیْنَمَا هُمْ كَذَلِكَ وُلِدَ لَهُ امْرَأَةٌ وَضِیئَةٌ، وَوُلِدَ لَهُ أُخْرَى قَبِیحَةٌ دَمِیمَةٌ، فَقَالَ أَخُو الدَّمِیمَةِ: أَنْكِحْنِی أُخْتَكَ وَأُنْكِحُكَ أُخْتِی، قَالَ: لَا أَنَا أَحَقُّ بِأُخْتِی ، فَقَرَّبَا قُرْبَانًا فَتُقُبِّلَ مَنْ صَاحِبِ الْكَبْشِ،وَلَمْ یُتَقَبَّلْ مِنْ صَاحِبِ الزَّرْعِ فَقَتَلَهُ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ اس وقت اس بات سے منع کردیاگیاتھاکہ لڑکی کی اس کے جڑواں بھائی سے شادی کی جائے،بلکہ اس کی شادی دیگربھائیوں میں سے کسی کے ساتھ کی جاتی تھی، اورہردفعہ ایک لڑکااورایک لڑکی پیداہوتے تھےاسی طرح معاملہ رہاایک مرتبہ ایک لڑکے کے ساتھ پیداہونے والی لڑکی بدصورت اوردوسرے کے ساتھ پیداہونے والی لڑکی خوبصورت تھی،توبدصورت لڑکی کے بھائی نے کہاکہ تواپنی بہن میرے نکاح میں دے دے اورمیں اپنی بہن تیرے نکاح میں دے دیتاہوں مگراس نے انکارکرتے ہوئے کہاکہ نہیں اپنی بہن سے شادی کرنے کامیں خودزیادہ حقدارہوں اوراس کے لیے دونوں نے قربانی بھی کی،اوراس طرح بکری والے کی قربانی توقبول ہوگئی مگرکھیتی والے کی قربانی قبول نہ ہوئی، تواس نے اپنے ہی بھائی کوقتل کردیا۔[101]

مگر ہابیل کی لاش اس کے لئے ایک مسئلہ بن گئی کہ وہ اس لاش کاکیا کرے کیونکہ اس سے بیشتر کوئی شخص روئے زمین پر فوت یا قتل نہ ہوا تھا اس لئے کوئی بھی نہ جانتا تھا کہ مرنے کے بعد لاش کا کیا کرے ،آدم علیہ السلام نے بھی مردے کے بارے میں کوئی حکم الہٰی نہیں سنایاتھا،قابیل اپنے بھائی کی لاش کواٹھائے وہاں سے بھاگ کھڑاہوا، ہابیل  اللہ تعالیٰ کا مقبول بندہ تھا اللہ تعالیٰ نے اسکی لاش کی بے ہرمتی نہ ہونے دی اورنسل انسانی کی تدفین کاطریقہ بھی سمجھا دیا،  اللہ تعالیٰ نے ایک کوابھیجاجوعیاری ومکاری میں ضرب المثل ہے اور اسکو قابیل کا رہنمابنادیاجو اپنی چونچ سے ایک گڑھا کھودنے لگا اور پھر اس میں اس نے دوسرے کوے کو دبا دیا ،کوے کے اس طریقہ کو دیکھ کر قابیل نے اپنے بھائی کودفن کرنے کے لئے گڑھا کھودا اوراپنے بھائی کودفن کردیا اوراسے خود اپنی نااہلی پر کہ وہ اس کوے سے بھی گیاگزراہے،عقل کی روشنی سے کوراہے افسوس ہوا،اورندامت سے اسکا سرجھک گیا۔

انسان پر یہ حقیقت روشن رہنی چاہیے کہ وہ اپنی زندگی میں ہرگز ہرگز کسی گناہ یابدعت کی ایجاد نہ کرے، اس کی بنیاد نہ رکھےتاکہ وہ آنے والے لوگوں کے لئے کوئی حربہ نہ بن سکے اورآنے والاشخص اگروہ کام کرے گاتواس کاگناہ میں وہ بنیاد رکھنے والا برابر کاشریک رہے گااور اس کی موت کے بعد بھی اس کے نامہ اعمال میں گناہ لکھے جاتے رہیں گے،اوروہ ابدی ذلت کا مستحق ٹھیرے گا۔

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ:قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: لَا تُقْتَلُ نَفْسٌ ظُلْمًا، إِلَّا كَانَ عَلَى ابْنِ آدَمَ الْأَوَّلِ كِفْلٌ مِنْ دَمِهَا، لِأَنَّهُ كَانَ أَوَّلَ مَنْ سَنَّ الْقَتْلَ

عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما سے مروی ہے  اللہ  کے رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا دنیا میں جب بھی کوئی ظلم سے قتل ہوتا ہے تو اس کا گناہ آدم علیہ السلام کے پہلے بیٹے (قابیل )کی گردن پر ضرور ہوتا ہے اس لئے کہ وہ پہلا شخص ہے جس نے ظالمانہ قتل کی ابتدا کی۔[102]

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو , أَنَّهُ كَانَ یَقُولُ: أَنَّهُ كَانَ یَقُولُ: إِنَّ أَشْقَى أَهْلِ النَّارِ رَجُلًا ابْنُ آدَمَ الَّذِی قَتَلَ أَخَاهُ،مَا سُفِك دَمٌ فِی الْأَرْضِ مُنْذُ قَتَل أَخَاهُ إِلَى یَوْمِ الْقِیَامَةِ، إِلَّا لَحِقَ بِهِ مِنْهُ شَرٌّوَذَلِكَ أَنَّهُ أَوَّلُ مَنْ سَنّ الْقَتْلَ

عبداللہ بن عمروسے روایت ہےوہ فرماتے ہیں تمام انسانوں میں سے سب سے زیادہ بدبخت آدم علیہ السلام کاوہ بیٹاہے جس نے اپنے بھائی کوقتل کردیاتھا اس وقت سے لے کرقیامت تک زمین پرجس قدربھی خون بہایاجائے گااسے اس کاگناہ ملے گا کیونکہ یہ سب سے پہلاشخص تھاجس نے قتل کوایجاد کیاتھا۔[103]

مِنْ أَجْلِ ذَٰلِكَ كَتَبْنَا عَلَىٰ بَنِی إِسْرَائِیلَ أَنَّهُ مَن قَتَلَ نَفْسًا بِغَیْرِ نَفْسٍ أَوْ فَسَادٍ فِی الْأَرْضِ فَكَأَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِیعًا وَمَنْ أَحْیَاهَا فَكَأَنَّمَا أَحْیَا النَّاسَ جَمِیعًا ۚ وَلَقَدْ جَاءَتْهُمْ رُسُلُنَا بِالْبَیِّنَاتِ ثُمَّ إِنَّ كَثِیرًا مِّنْهُم بَعْدَ ذَٰلِكَ فِی الْأَرْضِ لَمُسْرِفُونَ ‎﴿٣٢﴾(المائدہ)
’’اسی وجہ سے ہم نے بنی اسرائیل پر یہ لکھ دیا کہ جو شخص کسی کو بغیر اس کے کہ وہ کسی کا قاتل ہو یا زمین میں فساد مچانے والا ہو، قتل کر ڈالے تو گویا اس نے تمام لوگوں کو قتل کردیا اور جو شخص کسی ایک کی جان بچائے اس نے گویا تمام لوگوں کو زندہ کردیا ،اور ان کے پاس ہمارے بہت سے رسول ظاہر دلیلیں لے کر آئے لیکن پھر اس کے بعد بھی ان میں اکثر لوگ زمین میں ظلم و زیادتی اور زبردستی کرنے والے ہی رہے ۔‘‘

ایک بے گناہ کاشخص کاقتل تمام انسانیت کاقتل :چونکہ بنی اسرائیل کے اندرانہی صفات یعنی حسدوبغض کے آثارپائے جاتے تھے جن کااظہارآدم علیہ السلام کے ظالم بیٹے قابیل نے کیا تھااس لئے اللہ تعالیٰ نے انسانی جان کی قدرو قیمت ، اہمیت وتکریم کوواضح کرنے کے لئے ان کوقتل نفس سے بازرہنے کی سخت تاکیدکی تھی اور اپنے فرمان میں یہ الفاظ لکھے تھے کہ جس نے کسی انسان کوخون کے بدلے یا زمین میں فسادپھیلانے کے سواکسی اوروجہ سے قتل کیااس نے گویاتمام انسانوں کوقتل کردیااورجس نے کسی کی جان بچائی اس نے گویاتمام انسانوں کوزندگی بخش دی ،

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ قَالَ: دَخَلْتُ عَلَى عُثْمَانَ یَوْمَ الدَّارِ فَقُلْتُ: جِئْتُ لِأَنْصُرَكَ،فَقَالَ: یَا أَبَا هُرَیْرَةَ، أَیَسُرُّكَ أَنْ تَقْتُل النَّاسَ جَمِیعًا وَإِیَّایَ مَعَهُمْ؟ قُلْتُ: لَا، قَالَ فَإِنَّكَ إِنْ قَتَلْتَ رَجُلًا وَاحِدًا فَكَأَنَّمَا قَتَلْتَ النَّاسَ جَمِیعًا فانْصَرِفْ مَأْذُونًا لَكَ، مَأْجُورًا غَیْرَ مَأْزُورٍقَالَ: فَانْصَرَفْتُ وَلَمْ أُقَاتِلْ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں جب خلیفہ سوم سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کوباغیوں نے گھیرلیاتومیں ان کے پاس گیا اور کہااے امیرالمومنین !میں آپ کی طرف داری میں آپ کے مخالفین سے لڑنے کے لئے آیاہوں ،یہ سن کرسیدناعثمان رضی اللہ عنہ نے فرمایااے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ !کیاتم اس بات پرآمادہ ہوکہ سب لوگوں کوقتل کردوجن میں ایک میں بھی ہوں ؟ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے عرض کیانہیں ، سیدناعثمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا سنو ایک انسان کوقتل کرنا ایسا برا ہے جیسے پوری انسانیت کوقتل کرنا،واپس لوٹ جاؤ،میری یہی خواہش ہے اللہ تمہیں اجردے اورگناہ نہ دے ، یہ سن کرمیں واپس چلاآیا اور باغیوں سے لڑائی نہ کی۔[104]

اوراللہ تعالیٰ نے قرآن مجیدمیں جان بوجھ کر قتل کرنے کی سزابیان فرمائی۔

 وَمَنْ یَّقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَاۗؤُهٗ جَهَنَّمُ خٰلِدًا فِیْھَا وَغَضِبَ اللهُ عَلَیْهِ وَلَعَنَهٗ وَاَعَدَّ لَهٗ عَذَابًا عَظِیْمًا۝۹۳ [105]

ترجمہ:رہاوہ شخص جوکسی مومن کوجان بوجھ کرقتل کرے تواس کی سزاجہنم ہے جس میں وہ ہمیشہ رہے گااس پراللہ کاغضب اوراس کی لعنت ہے اوراللہ نے اس کے لیے سخت عذاب مہیا کر رکھا ہے ۔

احترام وبقا انسانیت کایہ اصول صرف بنی اسرائیل ہی کے لئے نہیں تھا اسلام کی تعلیمات کے مطابق بھی یہ اصول ہمیشہ کے لئے ہے،

عَنْ سُلَیْمَانَ بْنِ عَلِیٍّ الرِّبْعِی قَالَ: قُلْتُ لِلْحَسَنِ: هَذِهِ الْآیَةُ لَنَا یَا أَبَا سَعِیدٍ، كَمَا كَانَتْ لِبَنِی إِسْرَائِیلَ؟ فَقَالَ: إِی وَالَّذِی لَا إِلَهَ غَیْرُهُ، كَمَا كَانَتْ لِبَنِی إِسْرَائِیلَ. وَمَا جُعِلَ دِمَاءُ بَنِی إِسْرَائِیلَ أَكْرَمَ عَلَى اللهِ مِنْ دِمَائِنَا

سلیمان بن ربعی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں نے حسن بصری رحمہ اللہ سے پوچھااے ابوسعید!کیایہ آیت ہمارے لئے بھی ہے جس طرح بنواسرائیل کے لئے تھی؟ انہوں نے فرمایاہاں قسم ہے اس ذات کی جس کے سوا کوئی معبود نہیں !بنواسرائیل کے خون اللہ کے ہاں ہمارے خونوں سے زیادہ قابل احترام نہیں تھے۔[106]

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کوتسلی دیتے ہوئے فرمایااللہ تعالیٰ نے ان میں واضح دلائل وبراہین اورکھلے معجزات کے ساتھ پے درپے رسول بھیجے ، داود علیہ السلام پر زبور، موسیٰ علیہ السلام پرتورات اورعیسیٰ علیہ السلام پرانجیل نازل فرمائیں جن میں احترام انسانیت، زندگی کوامن وسکون سے گزارنے اورآخرت میں کامیابی کے لئے واضح ہدایات موجود تھیں ، ان دلائل نے کسی کے پاس کوئی حجت باقی نہیں رہنے دی مگربنی اسرائیل کارویہ ہمیشہ حداعتدال سے تجاوز کرنے والاہی رہا،وہ اللہ کے احکامات اوررسولوں کی پاکیزہ سنت پر عمل کرنے کے بجائے اللہ کی زمین پرفتنہ وفسادکابازارگرم کرتے رہے،ہزاروں ،لاکھوں انسان ان کی فتنہ پردرازیوں اورمکروفریب کی بھینٹ چڑھ گئے اس لئے یہ آپ کے قتل کرنے اورنقصان پہنچانے کی جوسازشیں کرتے رہتے ہیں یہ کوئی نئی بات نہیں ہے،ان کی ساری تاریخ ہی مکروفسادسے بھری ہوئی ہے ، آپ بہرحال اللہ پر بھروسہ رکھیں جو خیرالماکرین ہے تمام سازشوں سے بہترتدبیرکرنے والاہے۔

إِنَّمَا جَزَاءُ الَّذِینَ یُحَارِبُونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَیَسْعَوْنَ فِی الْأَرْضِ فَسَادًا أَن یُقَتَّلُوا أَوْ یُصَلَّبُوا أَوْ تُقَطَّعَ أَیْدِیهِمْ وَأَرْجُلُهُم مِّنْ خِلَافٍ أَوْ یُنفَوْا مِنَ الْأَرْضِ ۚ ذَٰلِكَ لَهُمْ خِزْیٌ فِی الدُّنْیَا ۖ وَلَهُمْ فِی الْآخِرَةِ عَذَابٌ عَظِیمٌ ‎﴿٣٣﴾‏ إِلَّا الَّذِینَ تَابُوا مِن قَبْلِ أَن تَقْدِرُوا عَلَیْهِمْ ۖ فَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَّحِیمٌ ‎﴿٣٤﴾(المائدہ)
’’جو اللہ تعالیٰ سے اور اس کے رسول سے لڑیں اور زمین میں فساد کرتے پھریں ان کی سزا یہی ہے کہ وہ قتل کردیے جائیں یا سولی چڑھا دیے جائیں یا مخالف جانب سے ان کے ہاتھ پاؤں کاٹ دیئے جائیں، یا انہیں جلا وطن کردیا جائے، یہ تو ہوئی ان کی دنیاوی ذلت اور خواری، اور آخرت میں ان کے لیے بڑا بھاری عذاب ہے، ہاں جو لوگ اس سے پہلے توبہ کرلیں کہ تم ان پر قابو پالو تو یقین مانو کہ اللہ تعالیٰ بہت بڑی بخشش اور رحم و کرم والا ہے۔‘‘

فساداورقتل وغارت :

أَنَّ أَنَسًا رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، حَدَّثَهُمْ: أَنَّ رَهْطًا مِنْ عُكْلٍ، ثَمَانِیَةً، قَدِمُوا عَلَى النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَبَایَعُوهُ عَلَى الْإِسْلَامِ ،فَاسْتَوْخَمُوا الْأَرْضَ، وَسَقِمَتْ أَجْسَامُهُمْ،فَشَكَوْا ذَلِكَ إِلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ،قَالَ:مَا أَجِدُ لَكُمْ إِلَّا أَنْ تَلْحَقُوا بِالذَّوْدِ،فَانْطَلَقُوا، فَشَرِبُوا مِنْ أَبْوَالِهَا وَأَلْبَانِهَا، حَتَّى صَحُّوا وَسَمِنُوا وَقَتَلُوا الرَّاعِیَ وَاسْتَاقُوا الذَّوْدَ وَكَفَرُوا بَعْدَ إِسْلاَمِهِم، فَأَتَى الصَّرِیخُ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَبَعَثَ الطَّلَبَ، فَمَا تَرَجَّلَ النَّهَارُ حَتَّى أُتِیَ بِهِمْ،حتى أدركناهم بعد ما أَشْرَفُوا عَلَى بِلَادِ قَوْمِهِمْ، فَقَدِمْنَا بِهِمْ عَلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّم،فَقَطَّعَ أَیْدِیَهُمْ وَأَرْجُلَهُمْ، ثُمَّ أَمَرَ بِمَسَامِیرَ فَأُحْمِیَتْ فَكَحَلَهُمْ بِهَا، وَطَرَحَهُمْ بِالحَرَّةِ، یَسْتَسْقُونَ فَمَا یُسْقَوْنَ، حَتَّى مَاتُوا

انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہےقبیلہ عکل کے آٹھ آدمی کی جماعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضرہوئی اوراسلام پرآپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کی، مدینے کی آب وہواانہیں موافق نہیں آئی اوران کے بدن بیمارہوگئے، انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے آب وہواکی ناموافقت کی شکایت کی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایااگرپسندکروتوتم(صدقہ کے)اونٹوں میں چلے جاؤاوران کادودھ اورپیشاب پیوتاکہ تمہاری صحت ٹھیک ہوجائے،چنانچہ وہ لوگ چراگاہ میں چلے گئے اوران کادودھ اورپیشاب پی کرتندرست ہوگئے توانہوں نے بغیرکسی وجہ کے چرواہوں کی آنکھوں میں گرم سلائیاں پھیریں اورپھرانہیں مارڈالا اوراونٹوں کواپنے ساتھ لے کرچلتے بنےاوراسلام لانے کے بعد کفر کیا،ایک شخص نے اس واقعہ کی خبرنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کودی، توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جریر رضی اللہ عنہ کے زیرکمان بیس گھوڑوں پرسوارانصاریوں کو ان کے تعاقب میں روانہ کیا اوردوپہرسے پہلے ہی مجاہدین نے انہیں گرفتارکرلیا،وہ اس وقت گرفتارہوئے جب وہ اپنی قوم میں پہنچنے ہی والے تھےکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے انہیں گھیرلیااوراونٹوں سمیت مدینہ لاکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش کردیا،چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے قصاص میں ان کوعبرتناک سزائیں دی گئیں ، ان کے ہاتھ پاؤں کاٹ دیئے گئے ،ان کی آنکھوں میں گرم سلائیاں پھیری گئیں ،اورانہیں حرہ (مدینہ منورہ کی پتھریلی زمین) میں ڈال دیاگیا،وہ پانی مانگتے تھے لیکن انہیں نہیں دیاگیایہاں تک کہ وہ سب تڑپ تڑپ کر ہلاک ہوگئے۔[107]

قَالَ أَنَسٌ: فَلَقَدْ رَأَیْتُ أَحَدَهُمْ یَكْدِمُ الْأَرْضَ بِفِیهِ عَطَشًا حَتَّى مَاتُوا

انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں نے ان میں سے ایک کودیکھاکہ وہ پیاس کے مارے زمین چاٹ رہاتھاحتی کہ وہ (اسی حالت میں )مرگئے(ان لوگوں نے چوری بھی کی،چرواہوں کاقتل بھی کیااورایمان لانے کے بعدکفربھی کیا،ایسے مجرموں کواذیت ناک طریقے سے مارناہوتاہے اوریہ کسی ترس اوررحم کے حق دارنہیں رہتے)۔[108]

وَأَنَّ أَرْبَعَةً مِنْهُمْ كَانُوا مِنْ عُكْلٍ وَثَلَاثَةً مِنْ عُرَیْنَةَ

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں چار شخص توقبیلہ عکل کے تھے اورتین عرینہ کے تھے۔[109]

انہی کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی ۔

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ فِی قُطَّاعِ الطَّرِیقِ، إِذَا قَتَلُوا وَأَخَذُوا الْمَالَ، قُتِلُوا وَصُلِبُوا وَإِذَا قَتَلُوا وَلَمْ یَأْخُذُوا الْمَالَ ، قُتِلُوا وَلَمْ یُصْلَبُوا وَإِذَا أَخَذُوا الْمَالَ وَلَمْ یَقْتُلُواقُطِعَتْ أَیْدِیهِمْ وَأَرْجُلُهُمْ مِنْ خلاف، وإذا أخافوا السبیل ولم یأخذوا المال نُفُوا مِنَ الْأَرْضِ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کاقول ہےفرمایا جولوگ راستوں کومنقطع کردیتے ہیں ، اللہ کی زمین میں قتل اورلوٹ مارکا ارتکاب کرتے ہیں ، توان کی جزابھی یہ ہے کہ انہیں کھلے عام قتل کیاجائے یاسولی پرچڑھایاجائے تاکہ دوسرے لوگ لوٹ مار اور رہزنی سے بازآجائیں ،اگروہ لوگوں کوقتل کریں اورمال نہ لوٹیں توان کوصرف قتل کیاجائے سولی پرنہ چڑھاجائے، اگروہ صرف مال لوٹیں اورقتل کرنے سے بازرہیں تومخالف سمت سے ان کے ہاتھ پاؤں کاٹ دیئے جائیں ،اگرصرف لوگوں کوخوفزدہ کرنے اوردہشت پھیلانے کے مرتکب ہوئے ہوں اورانہوں نے کسی کامال لوٹاہونہ کسی کوقتل کیاہو توان کو جلاوطن کیا جائے گااوران کوکسی شہرمیں پناہ نہیں لینے دی جائے گی۔[110]

یہ اسلامی معاشرے میں اس صالح نظام کوسبوتاکرنے کی دنیامیں ذلت ورسوائی کی سزا ہے جبکہ آخرت میں ان کے لئے اس سے بڑاسزاہوگی ۔ اس مقام پریہ سزااورقرآن مجیدمیں مختلف مقامات پرجن تعزیرات وحدودکاذکرہے ،یہ سب اجمالی ہیں ،حالات کی مناسبت اورجرم کی نوعیت کے مطابق قاضی یاامام وقت اپنے اجتہادسے ہر مجرم کوان حدودسے زائدسزادے سکتاہے تاکہ جرائم کااستیصال کرکے پرامن اورصالح معاشرہ تشکیل دیاجاسکے ،اسی لئے قرآن مجیدنے اس کے فوری بعدتائب ہوجانے والے مجرموں کے لئے فرمایا اوراگرتمہارے قابومیں آنے سے پیشتروہ توبہ کرکے اسلامی حکومت کی اطاعت کااعلان کردیں تو اس سے جرم اورگناہ ساقط ہوجائے گایعنی سعی فسادسے بازآگئے ہوں اوران کاطرزعمل ثابت کررہاہوکہ وہ امن پسند،مطیع قانون اورنیک چلن انسان بن چکے ہیں اوراس کے بعدان کے سابق جرائم کاپتہ چلے توان سزاؤں میں سے کوئی سزاان کونہ دی جائے گی، البتہ آدمیوں کے حقوق پراگردست درازی انہوں نے کی تھی تواس کی ذمہ داری ان پرساقط نہ ہوگی مثلاًاگرکسی انسان کوانہوں نے قتل کیاتھایاکسی کامال لیاتھایاکوئی اورجرم انسانی جان ومال کے خلاف کیاتھاتواسی جرم کے بارے میں فوجداری مقدمہ ان پرقائم کیاجائے گالیکن بغاوت اورغداری اوراللہ اوراس کے رسول کے خلاف محاربہ کاکوئی مقدمہ نہ چلایاجائے گا،

عَنِ الشَّعْبِیِّ قَالَ: كَانَ حَارِثَةُ بْنُ بَدْرٍ التَّمِیمِیُّ مِنْ أَهْلِ الْبَصْرَةِ، وَكَانَ قَدْ أَفْسَدَ فِی الْأَرْضِ وَحَارَبَ، فَكَلَّمَ رِجَالًا مِنْ قُرَیْشٍ مِنْهُمُ: الْحَسَنُ بْنُ عَلِیٍّ، وَابْنُ عَبَّاسٍ، وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ جَعْفَرٍ، فَكَلَّمُوا عَلِیًّا، فَلَمْ یُؤَمِّنْهُ. فَأَتَى سَعِیدُ بْنُ قَیْسٍ الْهَمْدَانِیُّ فَخَلْفَهُ فِی دَارِهِ، ثُمَّ أَتَى عَلِیًّا فَقَالَ: یَا أَمِیرَ الْمُؤْمِنِینَ، أَرَأَیْتَ مَنْ حَارَبَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَسَعَى فِی الْأَرْضِ فَسَادًا، فَقَرَأَ حَتَّى بَلَغَ: {إِلا الَّذِینَ تَابُوا مِنْ قَبْلِ أَنْ تَقْدِرُوا عَلَیْهِمْ} قَالَ: فَكَتَبَ لَهُ أَمَانًا. قَالَ سَعِیدُ بْنُ قَیْسٍ: فَإِنَّهُ حَارِثَةُ بْنُ بَدْرٍ.

جیسے شعبی کی یہ روایت ہے کہ ایک شخص حارثہ بن بدرتمیمی اہل بصرہ میں سے تھا اس نے فتنہ وفساداورجنگ برپاکی،لیکن پھراس نے قریش کے کئی لوگوں سے اس سلسلے میں معذرت کی جن میں حسین بن علی رضی اللہ عنہ ،عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما اورعبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہ بھی تھےانہوں نے اس کے بارے میں سیدناعلی رضی اللہ عنہ سے بات کی توآپ نے اس میں معذرت کوقبول نہ کیاتویہ شخص سعیدبن قیس ہمدانی کے پاس آگیاجس نے اسے اپنے گھر میں چھپادیاپھروہ سیدناعلی رضی اللہ عنہ کے پاس آیااورعرض کی اے امیرالمومنین! جوشخص اللہ اور اس کے رسول سے جنگ کرےاورزمین میں فتنہ وفسادبرپاکرےتواس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے یہ حکم نازل فرمایاہے اس نے یہ کہہ کران آیات کوپڑھناشروع کردیاحتی کہ یہاں تک پہنچ گیا’ مگرجولوگ توبہ کرلیں قبل اس کے کہ تم ان پرقابوپاؤ،تمہیں معلوم ہوناچاہیے کہ اللہ معاف کرنے والا اور رحم فرمانے والاہے۔‘‘تویہ ارشادباری تعالیٰ سن کرسیدناعلی رضی اللہ عنہ نے بھی اس کے لیے امان لکھ دی، سعیدبن قیس کہتے ہیں کہ اس شخص کانام حارثہ بن بدرتھا۔[111]

عَنْ عَامِرٍ الشَّعْبِیِّ قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ مِنْ مُرَادِ إِلَى أَبِی مُوسَى وَهُوَ عَلَى الْكُوفَةِ فِی إِمْرَةِ عُثْمَانَ بَعْدَ مَا صَلَّى الْمَكْتُوبَةَ , فَقَالَ: یَا أَبَا مُوسَى هَذَا مَقَامَ الْعَائِذِ بِكَ , أَنَا فُلَانٌ ابْنُ فُلَانٍ الْمُرَادِیُّ , كُنْتُ حَارَبْتُ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَسَعَیْتُ فِی الْأَرْضِ , وَإِنِّی تُبْتُ مِنْ قَبْلِ أَنْ یُقْدَرَ عَلَیَّ. فَقَامَ أَبُو مُوسَى فَقَالَ: هَذَا فُلَانٌ ابْنُ فُلَانٍ , وَإِنَّهُ كَانَ حَارَبَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَسَعَى فِی الْأَرْضِ فَسَادًا , وَإِنَّهُ تَابَ قَبْلَ أَنْ یُقْدَرَ عَلَیْهِ , فَمَنْ لَقِیَهُ فَلَا یَعْرِضْ لَهُ إِلَّا بِخَیْرٍ. فَأَقَامَ الرَّجُلُ مَا شَاءَ اللَّهُ , ثُمَّ إِنَّهُ خَرَجَ , فَأَدْرَكَهُ اللَّهُ بِذُنُوبِهِ فَقَتَلَهُ

عامرشعبی کی روایت ہےخاندان مرادکاایک شخص ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ کے پاس اس وقت آیاجب وہ سیدناعثمان رضی اللہ عنہ کے دورخلافت میں کوفے کے گورنرتھے، ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ فرض نمازسے فارغ ہوئے ہی تھےوہ کہنے لگااے ابوموسیٰ!میں فلاں بن فلاں مرادی ہوں اورمیں آپ سے پناہ چاہتاہوں کیونکہ میں نے اللہ اوراس کے رسول سے جنگ کی،اورزمین میں فتنہ وفسادبرپاکیاہےاورمیں تمہارے قابومیں آنے سے پہلے ہی توبہ کررہاہوں ، یہ سن کر ابوموسیٰ کھڑے ہوئے اورکہایہ شخص فلاں بن فلاں ہےاس نے اللہ اوراس کے رسول سے جنگ کی،اورزمین میں فتنہ وفسادبرپاکیااورہمارے قابومیں آنے سے پہلے ہی اس نے توبہ کرلی ہےلہذاجوشخص بھی اس سے ملے تواس سے اچھاسلوک کرے،اگریہ سچاہواتواچھے راستے پرچلتارہے گااوراگرجھوٹاہواتوخودہی اپنے گناہوں کی لپیٹ میں آجائے گا،تویہ شخص کچھ عرصے تک توپرسکون رہا مگراس نے پھربغاوت شروع کردی تواللہ تعالیٰ نے اسے اس کے گناہوں کی سزایہ دی کہ یہ قتل ہوگیا۔[112]

لیکن گرفتاری کے بعدتوبہ سے جرائم معاف نہیں ہوں گے بلکہ مستحق سزاہوں گےتمہیں معلوم ہوناچاہیے کہ اللہ معاف کرنے والا اور رحم فرمانے والاہے،جیسے فرمایا

قُلْ یٰعِبَادِیَ الَّذِیْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰٓی اَنْفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَةِ اللهِ۝۰ۭ اِنَّ اللهَ یَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِیْعًا۝۰ۭ اِنَّهٗ هُوَالْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُ۝۵۳ [113]

ترجمہ:اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم !کہہ دو کہ اے میرے بندوجنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو جاؤ یقیناً اللہ سارے گناہ معاف کر دیتا ہے وہ تو غفورٌ رحیم ہے۔

اس ساری بات سے یہ حقیقت کھل کرسامنے آگئی کہ اسلامی حدودکااصل مقصدصالح معاشرے کی تشکیل ہے ،دور حاضرمیں ان سزاؤں کووحشیانہ کہنے والوں کویہ دیکھناچاہیے کہ معاشرے میں چنداوباش اوربدقماش لوگ کس طرح سارے نظام اورمعاشرے کاسکون غارت کرتے ہیں ۔

‏ یَا أَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَابْتَغُوا إِلَیْهِ الْوَسِیلَةَ وَجَاهِدُوا فِی سَبِیلِهِ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ ‎﴿٣٥﴾‏ إِنَّ الَّذِینَ كَفَرُوا لَوْ أَنَّ لَهُم مَّا فِی الْأَرْضِ جَمِیعًا وَمِثْلَهُ مَعَهُ لِیَفْتَدُوا بِهِ مِنْ عَذَابِ یَوْمِ الْقِیَامَةِ مَا تُقُبِّلَ مِنْهُمْ ۖ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِیمٌ ‎﴿٣٦﴾‏ یُرِیدُونَ أَن یَخْرُجُوا مِنَ النَّارِ وَمَا هُم بِخَارِجِینَ مِنْهَا ۖ وَلَهُمْ عَذَابٌ مُّقِیمٌ ‎﴿٣٧﴾(المائدہ)
’’مسلمانوں ! اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو اور اس کا قرب تلاش کرو اور اس کی راہ میں جہاد کرو تاکہ تمہارا بھلا ہو،یقین مانو کہ کافروں کے لیے اگر وہ سب کچھ ہو جو ساری زمین میں ہےبلکہ اس کی مثل اور بھی ہو اور وہ اس سب کو قیامت کے دن کے عذاب کے بدلے فدیہ میں دینا چاہیں تو بھی ناممکن ہے کہ ان کا فدیہ قبول کرلیا جائے، ان کے لیے دردناک عذاب ہی ہے ،یہ چاہیں گے کہ دوزخ میں سے نکل جائیں لیکن یہ ہرگز اس میں سے نہیں نکل سکیں گے، ان کے لیے دوامی عذاب ہیں ۔‘‘

اے لوگوجوایمان لائے ہو!ہرحال میں اللہ تعالیٰ سے ڈرتے ہوئے زندگی گزارو اورایسے اعمال صالحہ اختیارکروجس سے تم اللہ کی رضااوراس کاتقرب حاصل کرسکو،مثلاًمحبت الٰہی اوراس کاخوف ، اورفرائض میں نماز،اللہ کاذکر،کثرت سےتلاوت قرآن ،فرض اورنفلی زکوٰة اورحج اورلوگوں سے اپنے اخلاق،مال،علم،جاہ اوربدن کے ذریعے سے بھلائی سے پیش آناوغیرہ ،یہ تمام اعمال تقرب الٰہی کاذریعہ ہیں ،

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:إِنَّ اللَّهَ قَالَ: مَنْ عَادَى لِی وَلِیًّا فَقَدْ آذَنْتُهُ بِالحَرْبِ، وَمَا تَقَرَّبَ إِلَیَّ عَبْدِی بِشَیْءٍ أَحَبَّ إِلَیَّ مِمَّا افْتَرَضْتُ عَلَیْهِ، وَمَا یَزَالُ عَبْدِی یَتَقَرَّبُ إِلَیَّ بِالنَّوَافِلِ حَتَّى أُحِبَّهُ، فَإِذَا أَحْبَبْتُهُ: كُنْتُ سَمْعَهُ الَّذِی یَسْمَعُ بِهِ، وَبَصَرَهُ الَّذِی یُبْصِرُ بِهِ، وَیَدَهُ الَّتِی یَبْطِشُ بِهَا، وَرِجْلَهُ الَّتِی یَمْشِی بِهَا، وَإِنْ سَأَلَنِی لَأُعْطِیَنَّهُ، وَلَئِنِ اسْتَعَاذَنِی لَأُعِیذَنَّهُ، وَمَا تَرَدَّدْتُ عَنْ شَیْءٍ أَنَا فَاعِلُهُ تَرَدُّدِی عَنْ نَفْسِ المُؤْمِنِ، یَكْرَهُ المَوْتَ وَأَنَا أَكْرَهُ مَسَاءَتَهُ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااللہ تعالیٰ نے فرمایاجس شخص نے میرے کسی دوست سے دشمنی کی میرااس سے اعلان جنگ ہے،میں نے بندے پرجوچیزیں فرض کی ہیں ان سے زیادہ مجھے کوئی چیزمحبوب نہیں جس سے وہ میراقرب حاصل کرے (یعنی فرائض کے ذریعے سے میراقرب حاصل کرنامجھے سب سے زیادہ محبوب ہے)اوربندہ نوافل کے ذریعے سے(بھی) میراقرب حاصل کرتارہتاہے حتی کہ میں اس سے محبت کرنے لگ جاتاہوں ،اور جب میں اس سے(اس کے ذوق عبادت،فرائض کی ادائیگی اورنوافل کے اہتمام کی وجہ سے) محبت کرتاہوں تو(اس کانتیجہ یہ ہوتاہے کہ)میں اس کا کان بن جاتاہوں جن سے وہ سنتا ہے ،اس کی وہ آنکھ بن جاتاہوں جس سےوہ دیکھتاہے ،اس کاوہ ہاتھ بن جاتاہوں جس سے وہ پکڑتاہے ،اوراس کاوہ پاؤں بن جاتاہوں جس سے وہ چلتا ہے(یعنی بندے کے حواس ظاہری وباطنی سب شریعت کے تابع ہوجاتے ہیں اوروہ ہاتھ پاؤں کان آنکھ سے صرف وہی کام لیتاہے جس میں میری مرضی ہے،اس سے کوئی خلاف شریعت کام سرزدنہیں ہوتا) اوراگروہ مجھ سے کسی چیز کا سوال کرے تومیں اسے وہ ضرورعطاکرتاہوں ، اوراگروہ کسی دشمن یاشیطان سے میری پناہ کا طالب ہوتاہے تومیں اسے محفوظ رکھتاہوں ،اورمیں جوکام کرناچاہتاہوں اس میں مجھے اتناترددنہیں ہوتاجتناکہ مجھے اپنے مومن بندے کی جان نکالنے میں ہوتاہے وہ توموت کوبوجہ تکلیف جسمانی کے پسندنہیں کرتااورمجھے بھی اسے تکلیف دینابرالگتاہے۔[114]

عَنْ قَتَادَةَ , قَوْلُهُ: وَابْتَغُوا إِلَیْهِ الْوَسِیلَةَ،أَیْ تَقَرَّبُوا إِلَیْهِ بِطَاعَتِهِ وَالْعَمَلِ بِمَا یُرْضِیهِ

قتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں ’’ اور اس کی جناب میں باریابی کا ذریعہ تلاش کرو ۔‘‘ کے معنی یہ ہیں اس کی اطاعت بجالاکراوراس کی خوشنودی کے عمل سرانجام دے کراس کاقرب حاصل کرو۔[115]

أَنَّ الْوَسِیلَةَ الَّتِی هِیَ الْقُرْبَةُ تَصْدُقَ عَلَى التَّقْوَى وَعَلَى غَیْرِهَا مِنْ خِصَالِ الْخَیْرِ الَّتِی یَتَقَرَّبُ الْعِبَادُ بِهَا إِلَى رَبِّهِمْ

امام شوکانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں وسیلہ جوقربت کے معنی میں ہے تقویٰ اوردیگرخصال خیر پر صادق آتاہے جن کے ذریعے سے بندے اپنے رب کاقرب حاصل کرتے ہیں اسی طرح منہیات ومحرمات کے اجتناب سے بھی اللہ کاقرب حاصل ہوتاہے اس لئے منہیات ومحرمات کاترک بھی قرب الٰہی کاوسیلہ ہے۔[116]

لیکن جاہلوں نے اس حقیقی وسیلے کوچھوڑکرقبروں میں مدفون لوگوں کو اپنا وسیلہ سمجھ لیا ہے جس کی شریعت میں کوئی بنیادنہیں ہے البتہ حدیث میں اس مقام محمودکوبھی وسیلہ کہا گیا ہے جوجنت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوعطافرمایاجائے گا،

عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ: أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: مَنْ قَالَ حِینَ یَسْمَعُ النِّدَاءَ ،اللهُمَّ رَبَّ هَذِهِ الدَّعْوَةِ التَّامَّةِ، وَالصَّلاَةِ القَائِمَةِ، آتِ مُحَمَّدًا الوَسِیلَةَ وَالفَضِیلَةَ، وَابْعَثْهُ مَقَامًا مَحْمُودًا الَّذِی وَعَدْتَهُ، حَلَّتْ لَهُ شَفَاعَتِی یَوْمَ القِیَامَةِ

جابربن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجوشخص اذان سن کریہ کہے’’اے میرے اللہ جواس ساری پکارکارب ہے اورقائم رہنے والی نمازکابھی رب ہے،محمد صلی اللہ علیہ وسلم کوقیامت کے دن وسیلہ نصیب فرمانااوربڑے مرتبہ اورمقام محمودپران کاقیام فرماناجس کاتونے ان سے وعدہ کیاہواہے۔‘‘اسے قیامت کے دن میری شفاعت ملے گی۔[117]

عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ،أَنَّهُ سَمِعَ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَقُولُ:إِذَا سَمِعْتُمُ الْمُؤَذِّنَ، فَقُولُوا مِثْلَ مَا یَقُولُ ثُمَّ صَلُّوا عَلَیَّ، فَإِنَّهُ مَنْ صَلَّى عَلَیَّ صَلَاةً صَلَّى الله عَلَیْهِ بِهَا عَشْرًاثُمَّ سَلُوا اللهَ لِیَ الْوَسِیلَةَ،فَإِنَّهَا مَنْزِلَةٌ فِی الْجَنَّةِ لَا تَنْبَغِی إِلَّا لِعَبْدٍ مِنْ عِبَادِ اللهِ وَأَرْجُو أَنْ أَكُونَ أَنَا هُوَ فَمَنْ سَأَلَ لِی الْوَسِیلَةَ حَلَّتْ لَهُ الشَّفَاعَةُ

عبداللہ رضی اللہ عنہ بن عمروبن عاص سے مروی ہےمیں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کوفرماتے ہوئے سناہے جب تم موذن کی اذان سنوتوتم وہی کہوجوموذن کہہ رہاہو، پھرمجھ پردرودبھیجوکیونکہ جوکوئی مجھ پرایک مرتبہ درودپڑھتاہے تواللہ تعالیٰ اس پراپنی دس رحمتیں نازل فرماتاہےاس کے بعداللہ تعالیٰ سےمیرے لئے وسیلہ طلب کرو،وسیلہ دراصل جنت میں ایک مقام ہےجواللہ کے بندوں میں سے ایک بندہ کودیاجائے گا اورمجھے امیدہے کہ وہ بندہ میں ہی ہوں گا،اورجوکوئی میرے لئے وسیلہ(مقام محمود) طلب کرے گااس کے لئے میری شفاعت واجب ہوجائے گی ۔[118]

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ،أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:إِذَا صَلَّیْتُمْ عَلَیَّ، فَاسْأَلُوا اللهَ لِی الْوَسِیلَةَ، قِیلَ: یَا رَسُولَ اللهِ، وَمَا الْوَسِیلَةُ؟ قَالَ:أَعْلَى دَرَجَةٍ فِی الْجَنَّةِ، لَا یَنَالُهَا إِلَّا رَجُلٌ وَاحِدٌ، وَأَرْجُو أَنْ أَكُونَ أَنَا هُوَ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب تم مجھ پردرودپڑھوتومیرے لئے وسیلہ مانگو پوچھاگیااے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !وسیلہ کیاہے ؟فرمایا جنت کاسب سے بلنددرجہ جسے صرف ایک ہی شخص پائے گااورمجھے امید ہے کہ وہ شخص میں ہوں ۔[119]

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:سَلُوا اللهَ لِی الْوَسِیلَةَ، فَإِنَّهُ لَمْ یَسْأَلْهَا لِی عَبْدٌ فِی الدُّنْیَا إِلَّا كُنْتُ لَهُ شَهِیدًا أَوْ شَفِیعًایَوْمَ الْقِیَامَةِ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاتم اللہ سے دعاکروکہ اللہ مجھے وسیلہ (مقام محمود)عطافرمائے جوشخص دنیامیں میرے لئے یہ دعاکرے گاقیامت کے دن میں اس پرگواہ یااس کاسفارشی بن جاؤں گا۔[120]

اورجوقوتیں اللہ کی راہ میں مزاحم ہیں ،جوتم کواللہ کی مرضی کے مطابق چلنے سے روکتی اوراس کی راہ سے ہٹانے کی کوشش کرتی ہیں ،جوتم کوپوری طرح اللہ کابندہ بن کرنہیں رہنے دیتیں اورتمہیں اپنایاکسی غیراللہ کابندہ بننے پرمجبورکرتی ہیں ان کے خلاف اپنی تمام امکانی طاقتوں سے کشمکش اورجدوجہدکرو،اسی جدوجہدپر تمہاری فلاح وکامیابی کااوراللہ سے تمہارے تقرب کاانحصار ہےاوراچھی طرح سمجھ لوجن لوگوں نے اپنے نسلی غرور،اعلیٰ حیثیت اورمال و دولت کی بناپر اللہ اوراس کے رسول کی اطاعت کے بجائے انکاراورمخالفت کارویہ اختیار کیا ہےان کاجرم اتنابڑاہے کہ روزقیامت اگران کے قبضہ میں ساری زمین کی دولت ہواوراتنی ہی اوران کودے دی جائے اوروہ اسے بطورفدیہ دے کرگلوخلاصی چاہیں توتب بھی ان کافدیہ قبول نہیں کیاجائے گااورانہیں جہنم کی دردناک سزامل کررہے گی ،

كُلَّمَا رَفَعَهُمُ اللهَبُ فَصَارُوا فِی أَعَالِی جَهَنَّمَ،ضَرَبَتْهُمُ الزَّبَانِیَةُ بِالْمَقَامِعِ الْحَدِیدِ، فَیَرُدُّونَهُمْ إِلَى أَسْفَلِهَا

جہنمیوں کی ہرطرح کوشش ہوگی کہ کسی طرح دوزخ کی آگ سے باہرنکل جائیں مگریہ ان کے لئے ممکن نہ ہوگا، دروغہ جہنم انہیں لوہے کے ہتھوڑے مارمار کر پھر جہنم کے نچلے طبقے میں گرادیں گےجس میں یہ ہمیشہ ہمیشہ اسی میں جلتے رہیں گے۔جیسے فرمایا

كُلَّمَآ اَرَادُوْٓا اَنْ یَّخْرُجُوْا مِنْهَا مِنْ غَمٍّ اُعِیْدُوْا فِیْهَا۝۰ۤ وَذُوْقُوْا عَذَابَ الْحَرِیْقِ۝۲۲ۧ [121]

ترجمہ:جب کبھی وہ گھبرا کر جہنم سے نکلنے کی کوشش کریں گے پھر اسی میں دھکیل دیے جائیں گے کہ چکھو اب جلنے کی سزا کا مزہ ۔

حَدَّثَنَا أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ، أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:یُقَالُ لِلْكَافِرِ یَوْمَ الْقِیَامَةِ: أَرَأَیْتَ لَوْ كَانَ لَكَ مِلْءُ الْأَرْضِ ذَهَبًا، أَكُنْتَ تَفْتَدِی بِهِ؟ فَیَقُولُ: نَعَمْ، فَیُقَالُ لَهُ: قَدْ سُئِلْتَ أَیْسَرَ مِنْ ذَلِكَ

انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہےاللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایاایک جہنمی کوجہنم سے نکال کراللہ کی بارگاہ میں پیش کیاجائے گا، اللہ تعالیٰ اس سے پوچھے گاتونے اپنی آرام گاہ کیسی پائی؟وہ کہے گابدترین آرام گاہ،اللہ تعالیٰ فرمائے گاکیاتوزمین بھر سونافدیہ دے کراس سے چھٹکارہ حاصل کرناپسندکرے گا؟ وہ اثبات میں جواب دے گا، اللہ تعالیٰ اس سے فرمائے گامیں نے تودنیامیں اس سے بھی بہت کم کا تجھ سے مطالبہ کیاتھا تو نے وہاں اس کی پرواہ نہیں کی اوراسے دوبارہ جہنم میں ڈال دیاجائے گا۔[122]

جبکہ مومنوں کو بالآخر سزا کے بعدجہنم سے نکال لیاجائے گاجیساکہ احادیث سے ثابت ہے۔

وَالسَّارِقُ وَالسَّارِقَةُ فَاقْطَعُوا أَیْدِیَهُمَا جَزَاءً بِمَا كَسَبَا نَكَالًا مِّنَ اللَّهِ ۗ وَاللَّهُ عَزِیزٌ حَكِیمٌ ‎﴿٣٨﴾‏ فَمَن تَابَ مِن بَعْدِ ظُلْمِهِ وَأَصْلَحَ فَإِنَّ اللَّهَ یَتُوبُ عَلَیْهِ ۗ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَّحِیمٌ ‎﴿٣٩﴾‏ أَلَمْ تَعْلَمْ أَنَّ اللَّهَ لَهُ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ یُعَذِّبُ مَن یَشَاءُ وَیَغْفِرُ لِمَن یَشَاءُ ۗ وَاللَّهُ عَلَىٰ كُلِّ شَیْءٍ قَدِیرٌ ‎﴿٤٠﴾ (المائدہ)
’’چوری کرنے والا مرد اور عورت کے ہاتھ کاٹ دیا کرو، یہ بدلہ ہے اس کا جو انہوں نے کیا، عذاب اللہ کی طرف سے اور اللہ تعالیٰ قوت اور حکمت والا ہے، جو شخص اپنے گناہ کے بعد توبہ کرلےاور اصلاح کرلے تو اللہ تعالیٰ رحمت کے ساتھ اس کی طرف لوٹتا ہے، یقیناً اللہ تعالیٰ معاف فرمانے والا مہربانی کرنے والا ہے، کیا تجھے معلوم نہیں کہ اللہ تعالیٰ ہی اس کے لیے زمین و آسمان کی بادشاہت ہے ؟ جسے چاہے سزا دے اور جسے چاہے معاف کر دے، اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے۔‘‘

وَقَدْ كَانَ الْقَطْعُ مَعْمُولًا بِهِ فِی الْجَاهِلِیَّةِ ،وَیُقَالُ: إِنَّ أَوَّلَ مَنْ قَطَعَ الْأَیْدِیَ فِی الْجَاهِلِیَّةِ قُرَیْشٌ، قَطَعُوا رَجُلًا یُقَالُ لَهُ:دُوَیْكٌ مَوْلًى لِبَنِی مُلَیح بْنِ عَمْرٍو مِنْ خُزَاعة، كَانَ قَدْ سَرَقَ كَنْزَ الْكَعْبَةِ، وَیُقَالُ: سَرَقَهُ قَوْمٌ فَوَضَعُوهُ عِنْدَهُ

چوری کیونکہ ایک کبیرہ گناہ ہےاس لئے دورجاہلیت میں بھی معمولی چیزپرہاتھ کاٹاجاتاتھا،ایک قول ہے کہ سب سے پہلے دویک نامی ایک خزاعی شخص کے ہاتھ چوری کے الزام میں قریش نے کاٹے تھے جوقبیلہ خزاعہ کےملیح بن عمروکامولیٰ تھاجس نے کعبے کاخزانہ چرایاتھااور یہ بھی کہاجاتاہے کہ چوروں نے اس کے پاس رکھ دیاتھابہرحال برآمداسی سے ہواتھا۔

اسی طرح قسامت ،دیت فرائض کے مسائل پہلے بھی تھے لیکن غیرمنظم اورادھورے ،اسلام نے انہیں باضابطہ شکل عطاکی اورمعاشرے میں امن قائم کرنے کے لئے نافذکیا اور انتظام تمدن کے لئے اس کی سزامقررہوئی کہ جو مرد یاعورت چوری کرے اس جرم میں ان کاایک ہاتھ کاٹ دویہ اللہ کی طرف سے عبرتناک سزاہے ،

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو , قَالَ: سَرَقَتِ امْرَأَةٌ حُلیًّا فَجَاءَ الَّذِینَ سَرَقَتْهُمْ فَقَالُوا: یَا رَسُولَ اللهِ، سَرَقَتْنَا هَذِهِ الْمَرْأَةُ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: اقْطَعُوا یَدَهَا الْیُمْنَى، فَقَالَتِ الْمَرْأَةُ: هَلْ مِنْ تَوْبَةٍ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:أَنْتِ الْیَوْمَ مِنْ خَطِیئَتِكِ كَیَوْمِ وَلَدَتْكِ أُمُّكِ! قَالَ: فَأَنْزَلَ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ: {فَمَنْ تَابَ مِنْ بَعْدِ ظُلْمِهِ وَأَصْلَحَ فَإِنَّ اللَّهَ یَتُوبُ عَلَیْهِ}[123] وَقَوْلُهُ: {فَإِنَّ اللَّهَ یَتُوبُ عَلَیْهِ}[124]

عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہےایک عورت نے کچھ زیورچرالئے،ان لوگوں نے اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پیش کیااورعرض کیااے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !اس عورت نے چوری کی ہے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم فرمایاکہ اس کا داہنا ہاتھ کاٹ دیاجائے،جب اس عورت پرحدجاری ہوگئی تواس عورت نے کہااے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !کیامیری توبہ بھی ہے؟رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاتم توگناہ سےایسی پاک ہوگئی ہوکہ گویا آج ہی پیدا ہوئی ہو، اس پریہ آیت نازل ہوئی’’ پھرجوظلم کرنے کے بعد توبہ کرے اوراپنی اصلاح کرلے تواللہ کی نظرعنایت پھراس پرمائل ہوجائے گی ،اللہ بہت درگزرکرنے والااوررحم فرمانے والاہے۔‘‘[125]

یعنی اگرچوراپناہاتھ کٹنے کے بعدآئندہ کے لئے چوری سے تائب ہوجائے اوراللہ کاصالح بندہ بن جائے وہ اللہ کے غضب سے بچ جائے گااوراللہ اس کے دامن سے اس داغ کودھودے گا،لیکن اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ اسے سزانہیں دی جائے گی ،مطلب یہ ہے کہ ان جرائم میں ہاتھ نہ کاٹاجائے گامگرچورنے جس شخص کاحق لوٹاتھااسے واپس کرناپڑے گا، روایت ہے کہ ایک چورکاہاتھ جب آپ کے حکم کے مطابق کاٹاجاچکا

ثم جیء به فقال له رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:قل أَسْتَغْفِرُ اللهَ، وَأَتُوبُ إِلَیْهِ، فقال رجل: أَسْتَغْفِرُ اللهَ، وَأَتُوبُ إِلَیْهِ، فقال النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: اللهُمَّ تُبْ عَلَیْهِ

توآپ نے اسے اپنے پاس بلایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے کہاکہہ میں اللہ سے معافی چاہتاہوں اوراس سے توبہ کرتا ہوں ،اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تلقین کے مطابق یہ الفاظ کہے،اللہ!پھرنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے حق میں دعافرمائی اے اللہ!اسے معاف فرمادے[126]

[1] کشاف القناع۱۶۰؍۱،المغنی لابن قدامة۱۷۲؍۱

[2] صحیح مسلم كِتَابُ الْمَسَاجِدِ وَمَوَاضِعِ الصَّلَاةَ۱۱۶۵،سنن الدارقطنی ۶۶۹،مسنداحمد ۲۳۲۵۱،السنن الکبری للبیہقی ۱۰۲۲

[3] النساء۴۳

[4] المائدة ۶

[5] سنن ابوداودکتاب الطھارة بَابٌ فِی الْمُتَیَمِّمِ یَجِدُ الْمَاءَ بَعْدَ مَا یُصَلِّ فِی الْوَقْتِ۳۳۸،سنن الدارمی۷۷۱،مستدرک حاکم ۶۳۲،سنن الدارقطنی ۷۲۷،السنن الکبری للبیہقی۱۰۹۴

[6] المائدة۶

[7] صحیح بخاری کتاب التیمم بَابٌ التَّیَمُّمُ ضَرْبَةٌ ۳۴۸

[8] المائدہ ۶

[9] سنن ابوداودکتاب الطھارة بَابٌ فِی الْمَجْرُوحِ یَتَیَمَّمُ۳۳۶،سنن الدارقطنی ۷۲۹،السنن الکبری للبیہقی۱۰۷۵

[10]سنن ابوداودکتاب الطھارة بَابُ إِذَا خَافَ الْجُنُبُ الْبَرْدَ أَیَتَیَمَّمُ۳۳۴،صحیح ابن حبان ۱۳۱۵،مسنداحمد۱۷۸۱۲،مستدرک حاکم ۶۲۹،السنن الکبری للبیہقی۱۰۷۰،سنن الدارقطنی ۶۸۱

[11] المائدة: 6

[12] نیل الاوطار۳۲۱؍۱

[13] نیل الاوطار ۳۲۲؍۱

[14] المغنی لابن قدامة۱۹۲؍۱

[15] تمام المنة۱۳۱؍۱

[16] نیل الاطار۳۲۲؍۱

[17] الروضة الندیة۲۰۴؍۱،السیل الجرار۳۹؍۱

[18] حجة اللہ البالغة ۲۴۷؍۱

[19] صحیح بخاری کتاب التیمم بَابٌ إِذَا خَافَ الجُنُبُ عَلَى نَفْسِهِ المَرَضَ أَوِ المَوْتَ، أَوْ خَافَ العَطَشَ، تَیَمَّمَ ۳۴۶،وبَابٌ التَّیَمُّمُ ضَرْبَةٌ ۳۴۷،سنن ابوداود کتاب الطھارة بَابُ التَّیَمُّمِ۳۲۴، سنن الدارقطنی ۷۰۰،السنن الکبری للبیہقی ۱۰۱۳

[20] سنن ابوداودکتاب الطھارة بَابُ التَّیَمُّمِ۳۲۷،جامع ترمذی ابواب الطھارةبَابُ مَا جَاءَ فِی التَّیَمُّمِ ۱۴۴، مسند احمد۱۸۳۱۹، صحیح ابن خزیمة۲۶۶،سنن الدارقطنی۶۹۷

[21] صحیح بخاری کتاب التیمم بَابٌ المُتَیَمِّمُ هَلْ یَنْفُخُ فِیهِمَا؟۳۳۸،صحیح مسلم کتاب الحیض بَابُ التَّیَمُّمِ ۸۲۰،مسنداحمد ۱۸۳۳۲،سنن ابوداود کتاب الطھارة بَابُ التَّیَمُّمِ۳۲۲،سنن ابن ماجہ کتاب الطھارة بَابُ مَا جَاءَ فِی التَّیَمُّمِ ضَرْبَةً وَاحِدَةً ۵۶۹،صحیح ابن خزیمة۲۶۸،السنن الکبری للبیہقی ۱۰۰۴،سنن الدارقطنی۶۸۴،السنن الکبری للنسائی ۲۹۹

[22] نیل الاوطار۳۲۹؍۱

[23]۔مسنداحمد۱۸۳۱۹

[24] نیل الاوطار۳۳۰؍۱،الروضة الندیة۲۰۸؍۱

[25] بلوغ المرام۱۲۹

[26] سنن ابوداودکتاب الطھارة بَابُ التَّیَمُّمِ ۳۲۷

[27] صحیح مسلم کتاب الحیض بَابُ التَّیَمُّمِ۸۱۸

[28] سنن الدارقطنی۶۸۵،مستدرک حاکم۶۳۴،السنن الکبری للبیہقی ۹۹۷

[29] تلخیص الحبیر۴۰۳؍۱

[30] بلوغ المرام۱۳۰

[31]۔ تحفة الحوذی۳۷۶؍۱

[32] فتح الباری ۲۹۳؍۲،نیل الاوطار ۳۲۸؍۱

[33] المجموع شرح المہذب ۲۱۱؍۲

[34] نیل الاوطار۳۲۹؍۱

[35] تحفة الاحوذی۳۷۹؍۱

[36] سنن ابوداودكِتَاب الطَّهَارَةِ بَابُ الْجُنُبِ یَتَیَمَّمُ۳۳۲، مسنداحمد۲۱۳۷۱، جامع ترمذی ابواب اطہارة باب التیمم للجنب اذالم یجدالمائ۱۲۴،سنن الدارقطنی۷۲۴،مستدرک حاکم ۶۲۷،السنن الصغیرللبیہقی۲۳۳

[37] المغنی لابن قدامة ۱۹۷؍۱

[38] المغنی لابن قدامة۱۹۷ ؍۱

[39] نیل الاوطار۳۲۰؍۱

[40] سنن ابوداودکتاب الطھارة بَابٌ فِی الْمُتَیَمِّمِ یَجِدُ الْمَاءَ بَعْدَ مَا یُصَلِّ فِی الْوَقْتِ ۳۳۸،مستدرک حاکم۶۳۲،سنن الدارقطنی۷۲۷، السنن الکبری للبیہقی ۱۰۹۴ائمہ اربعہ اسی کے قائل ہیںنیل الاطار۳۳۱؍۱

[41] السیل الجرار۸۹؍۱

[42] المغنی لابن قدامة۱۹۴؍۱

[43] النسائ ۴۳

[44]صحیح مسلم كِتَابُ الْمَسَاجِدِ وَمَوَاضِعِ الصَّلَاةَ۱۱۶۵،مصنف ابن ابی شیبة۳۱۶۴۹،سنن الکبری للنسائی۷۹۶۸،صحیح ابن خزیمة۲۶۴،سنن الدارقطنی۶۶۹، السنن الکبری للبیہقی۱۰۲۲

[45] نیل الاوطار۳۲۵؍۱

[46] نیل الاوطار۳۲۵؍۱

[47] الدرالمختار۲۳۲؍۱،بدائع الصنائع۸۰؍۱

[48] المائدة۶

[49] صحیح بخاری كِتَابُ الِاعْتِصَامِ بِالكِتَابِ وَالسُّنَّةِ بَابُ الِاقْتِدَاءِ بِسُنَنِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ۷۲۸۸،صحیح مسلم کتاب الحج بَابُ فَرْضِ الْحَجِّ مَرَّةً فِی الْعُمُرِ۳۲۵۷ ،مسند احمد ۱۰۰۲۸، مسندابی یعلی۶۳۰۵

[50] نیل الاوطار ۳۲۶؍۱

[51] صحیح بخاری كِتَابُ فضائل اصحاب النبیﷺ بَابُ فَضْلِ عَائِشَةَ رَضِیَ اللهُ عَنْهَا۳۷۷۳، سنن ابوداودکتاب الطھارة بَابُ التَّیَمُّمِ۳۱۷ ،سنن ابن ماجہ کتاب الطھارة بَابُ مَا جَاءَ فِی السَّبَبِ ۵۶۸،سنن الکبری للنسائی۳۰۸ ، مسنداحمد۲۴۲۹۹

[52] فتح الباری۴۴۰؍۱،نیل الاوطار۳۳۳؍۱، المجموع شرح المھذب۲۸۱؍۲

[53] صحیح مسلم کتاب فضائل القرآن بَابُ إِسْلَامِ عَمْرِو بْنِ عَبَسَةَ ۱۹۳۰،مسنداحمد۱۷۰۱۹

[54] صحیح مسلم کتاب الطھارة بَابُ خُرُوجِ الْخَطَایَا مَعَ مَاءِ الْوُضُوءِ۵۷۷،جامع ترمذی ابواب الطہارةبَابُ مَا جَاءَ فِی فَضْلِ الطُّهُورِ ۲، مسنداحمد۸۰۲۰

[55]۔صحیح مسلم کتاب الطھارة بَابُ الذِّكْرِ الْمُسْتَحَبِّ عَقِبَ الْوُضُوءِ۲۳۴، سنن ابن ماجہ کتاب الطہارة بَابُ مَا یُقَالُ بَعْدَ الْوُضُوءِ ۴۷۰،مسنداحمد۱۷۳۹۳

[56] صحیح مسلم کتاب الطھارة بَابُ فَضْلِ الْوُضُوءِ ۵۳۴،مسنداحمد ۲۲۹۰۸

[57] صحیح بخاری کتاب الفتن بَابُ قَوْلِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ سَتَرَوْنَ بَعْدِی أُمُورًا تُنْكِرُونَهَا ۷۰۵۶،صحیح مسلم کتاب الامارة بَابُ وُجُوبِ طَاعَةِ الْأُمَرَاءِ فِی غَیْرِ مَعْصِیَةٍ، وَتَحْرِیمِهَا فِی الْمَعْصِیَةِ ۴۷۷۱

[58] صحیح بخاری کتاب الھبة بَابُ الإِشْهَادِ فِی الهِبَةِ ۲۵۸۷،وکتاب الشھادات بَابٌ لاَ یَشْهَدُ عَلَى شَهَادَةِ جَوْرٍ إِذَا أُشْهِدَ ۲۶۵۰، صحیح مسلم کتاب الھبات بَابُ كَرَاهَةِ تَفْضِیلِ بَعْضِ الْأَوْلَادِ فِی الْهِبَةِ ۴۱۸۱،سنن ابوداودکتاب الاجارة بَابٌ فِی الرَّجُلِ یُفَضِّلُ بَعْضَ وَلَدِهِ فِی النُّحْلِ ۳۵۴۲

[59] السجدة۱۷

[60] صحیح بخاری کتاب المغازی بَابُ غَزْوَةِ ذَاتِ الرِّقَاعِ ۴۱۳۵،صحیح مسلم کتاب الفضائل بَابُ تَوَكُّلِهِ عَلَى اللهِ تَعَالَى، وَعِصْمَةِ اللهِ تَعَالَى لَهُ مِنَ النَّاسِ ۵۹۵۰،مسنداحمد۱۴۳۳۵

[61] تفسیرطبری۱۰۱؍۱۰

[62] (تفسیرطبری۱۰۵؍۱۰)

[63] یوسف۶۷،ابراہیم۱۲

[64] تفسیرابن کثیر۶۴؍۳

[65] صحیح مسلم کتاب الامارة بَابُ النَّاسُ تَبَعٌ لِقُرَیْشٍ، وَالْخِلَافَةُ فِی قُرَیْشٍ۴۷۰۵،صحیح بخاری کتاب الاحکام بَابُ الِاسْتِخْلاَفِ ۷۲۲۲،مسنداحمد۲۰۸۶۲

[66] البقرة۷۴

[67] تفسیرابن کثیر۶۶؍۳

[68] التوبة۲۹

[69] آل عمران ۵۲

[70] آل عمران۵۲

[71]الاخلاص۱تا۴

[72] مستدرک حاکم۸۰۶۹،تفسیرطبری۱۴۱؍۱۰

[73] المائدة: 18

[74] تفسیرطبری۱۵۱؍۱۰،تفسیرابن کثیر۶۹؍۳

[75] آلِ عِمْرَانَ: 24

[76] تفسیرابن کثیر۷۰؍۳

[77] التوبة۳۰

[78] آل عمران۱۲۹

[79] الفتح۱۴

[80] صحیح بخاری کتاب مناقب الانصار بَابُ إِسْلاَمِ سَلْمَانَ الفَارِسِیِّ رَضِیَ اللهُ عَنْهُ۳۹۴۸

[81] تفسیرابن کثیر۷۰؍۳

[82] صحیح بخاری کتاب احادیث الانبیاء بَابُ قَوْلِ اللهِ وَاذْكُرْ فِی الكِتَابِ مَرْیَمَ إِذِ انْتَبَذَتْ مِنْ أَهْلِهَا ۳۴۴۲، صحیح مسلم کتاب الفضائل بَابُ فَضَائِلِ عِیسَى عَلَیْهِ السَّلَامُ ۶۱۳۰

[83] ابراہیم ۷

[84] تفسیرعبدالرزاق۱۵؍۲،تفسیرطبری۱۶۲؍۱۰

[85] المائدة: 20

[86] مستدرک حاکم ۳۲۱۴

[87] تفسیر عبد الرزاق۱۳؍۲،تفسیرطبری۱۶۳؍۱۰

[88] جامع ترمذی أَبْوَابُ الزُّهْدِ باب۲۳۴۶،صحیح ابن حبان۶۷۱عن ابی الدردائ

[89] الجاثیة۱۶

[90] ابن ہشام۶۱۵؍۱،الروض الانف ۷۲؍۵، عیون الاثر۲۸۹؍۱،البدایة والنہایة۳۲۴؍۱

[91] البدایة والنہایة۳۲۴؍۱، مسنداحمد ۱۲۹۵۴

[92] البدایة والنہایة۳۲۴؍۱،ابن سعد۱۲۰؍۳

[93] صحیح بخاری كِتَابُ فَرْضِ الخُمُسِ بَابُ قَوْلِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أُحِلَّتْ لَكُمُ الغَنَائِمُ۳۱۲۴،صحیح مسلم كِتَابُ الْجِهَادِ وَالسِّیَرِ بَابُ تَحْلِیلِ الْغَنَائِمِ لِهَذِهِ الْأُمَّةِ خَاصَّةً۴۵۵۵،مسنداحمد۸۲۳۸، مسند البزار۷۸۰۹،صحیح ابن حبان۴۸۰۸،شرح السنة للبغوی ۲۷۱۹، مصنف عبدالرزاق۹۴۹۲،السنن الکبری للبیہقی۱۲۷۰۷، الجامع الصحیح للسنن والمسانید ۲۵۷؍۱۹

[94] تفسیرابن کثیر۸۰؍۳

[95] تفسیرابن کثیر۸۱؍۳

[96] تفسیر طبری۲۱۳؍۱۰

[97]صحیح بخاری كِتَابُ الإِیمَانِ بَابُ وَإِنْ طَائِفَتَانِ مِنَ المُؤْمِنِینَ اقْتَتَلُوا فَأَصْلِحُوا بَیْنَهُمَا۳۱،صحیح مسلم كتاب الْفِتَنِ وَأَشْرَاطِ السَّاعَةِ بَابُ إِذَا تَوَاجَهَ الْمُسْلِمَانِ بِسَیْفَیْهِمَا ۷۲۵۲،سنن ابوداودكِتَاب الْفِتَنِ وَالْمَلَاحِمِ بَابٌ فِی النَّهْیِ عَنِ الْقِتَالِ فِی الْفِتْنَةِ۴۲۶۸،سنن نسائی كِتَابُ تَحْرِیمِ الدَّمِ باب تَحْرِیمُ الْقَتْلِ۴۱۲۲

[98] مسنداحمد۱۶۰۹،جامع ترمذی أَبْوَابُ الْفِتَنِ بَابُ مَا جَاءَ أَنَّهُ تَكُونُ فِتْنَةٌ القَاعِدُ فِیهَا خَیْرٌ مِنَ القَائِمِ۲۱۹۴،سنن ابوداودكِتَاب الْفِتَنِ وَالْمَلَاحِمِ بَابٌ فِی النَّهْیِ عَنِ السَّعْیِ فِی الْفِتْنَةِ۴۲۵۷

[99] الدر المنثور۵۶؍۳

[100] تفسیرطبری۲۲۲؍۱۰

[101] تفسیرابن کثیر۸۳؍۳

[102] مسند احمد ۳۶۳۰

[103] تفسیرطبری۲۱۹؍۱۰

[104] تفسیرابن کثیر۹۲؍۳

[105] النسائ۹۳

[106] تفسیرابن کثیر ۹۲؍۳،تفسیرطبری۲۳۹؍۱۰

[107] صحیح بخاری کتاب المغازی بَابُ قِصَّةِ عُكْلٍ وَعُرَیْنَةَ ۴۱۹۲،وكِتَابُ الجِهَادِ وَالسِّیَرِبَابٌ إِذَا حَرَّقَ المُشْرِكُ المُسْلِمَ هَلْ یُحَرَّقُ۳۰۱۸،صحیح مسلم کتاب القسامة بَابُ حُكْمِ الْمُحَارِبِینَ وَالْمُرْتَدِینَ ۴۳۵۴

[108] سنن ابوداودکتاب الحدودبَابُ مَا جَاءَ فِی الْمُحَارَبَةِ۴۳۶۷

[109] فتح الباری ۱۴۱؍۱۰

[110] تفسیرابن کثیر۹۱؍۳

[111] تفسیرابن کثیر۱۰۲؍۳،تفسیرطبری۲۸۰؍۱۰

[112] تفسیرطبری۲۸۲؍۱۰

[113] الزمر۵۳

[114] صحیح بخاری کتاب الرقاق بَابُ التَّوَاضُعِ۶۵۰۲ ،مشکاة المصابیح کتاب الدعوات بَابُ ذِكْرِ اللهِ عَزَّ وَجَلَّ وَالتَّقَرُّبِ إِلَیْهِ۲۲۶۶،ریاض الصالحین۹۵

[115] تفسیرطبری۲۹۱؍۱۰

[116] فتح القدیر۴۵؍۲

[117] صحیح بخاری کتاب الاذان بَابُ الدُّعَاءِ عِنْدَ النِّدَاءِ۶۱۴، مسنداحمد۱۴۸۱۷،السنن الکبری للنسائی۱۶۵۶،صحیح ابن حبان۱۶۸۹

[118] صحیح مسلم کتاب الصلوٰة بَابُ الْقَوْلِ مِثْلَ قَوْلِ الْمُؤَذِّنِ لِمَنْ سَمِعَهُ، ثُمَّ یُصَلِّی عَلَى النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ ثُمَّ یَسْأَلُ لهُ الْوَسِیلَةَ ۸۴۹،صحیح ابن خزیمة۴۱۸،مسنداحمد۶۵۶۸

[119] مسنداحمد۷۵۹۸،جامع ترمذی ابواب المناقب بَابٌ فِی فَضْلِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ ۳۶۱۲

[120] المعجم الاوسط ۶۳۳

[121] الحج۲۲

[122] صحیح مسلم کتاب صفات المنافقین بَابُ طَلَبِ الْكَافِرِ الْفِدَاءَ بِمِلْءِ الْأَرْضِ ذَهَبًا۷۰۸۳، صحیح بخاری کتاب الرقاق بَابٌ مَنْ نُوقِشَ الحِسَابَ عُذِّبَ۶۵۳۸، مسند احمد ۱۴۱۰۷

[123] المائدة: 39

[124] المائدة: 39

[125] تفسیرطبری ۲۹۹؍۱۰، تفسیرابن کثیر۱۱۱؍۳،مسنداحمد۶۶۵۷

[126] تفسیرالخازن۴۲؍۲،تفسیرالقرآنی للقرآن۱۰۹۶؍۳

Related Articles