ہجرت نبوی کا ساتواں سال

صلاة خوف

عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ:صَلَّى رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ صَلَاةَ الْخَوْفِ بِإِحْدَى الطَّائِفَتَیْنِ رَكْعَةً، وَالطَّائِفَةُ الْأُخْرَى مُوَاجِهَةُ الْعَدُوِّ، ثُمَّ انْصَرَفُوا وَقَامُوا فِی مَقَامِ أَصْحَابِهِمْ مُقْبِلِینَ عَلَى الْعَدُوِّ، وَجَاءَ أُولَئِكَ ثُمَّ صَلَّى بِهِمِ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ رَكْعَةً، ثُمَّ سَلَّمَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ قَضَى هَؤُلَاءِ رَكْعَةً، وَهَؤُلَاءِ رَكْعَةً

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ نجدکی طرف کوچ کیاجہاں دشمن سے آمناسامناہوا،پس ہم نے ان کے مقابل صف بندی کرلی بعدازاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں نمازپڑھانے کھڑے ہوئے اس طرح کہ فوج کاایک حصہ آپ کے ساتھ شریک نماز ہوادوسراحصہ دشمن کے مقابلہ میں صف آرارہا،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ساتھی مقتدیوں کے ساتھ ایک رکوع اوردوسجدے اداکیے(یعنی ایک رکعت ادا فرمائی) پھرمقتدی دوسرے حصہ کی جگہ لینے کومیدان میں واپس چلے گئے پھروہ آکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے کھڑے ہوگئے،ان کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک رکوع اور دو سجدے ادا فرمائے (یعنی دوسری رکعت ادافرمائی)پھرسلام پھیردیا، اس کے بعد مقتدیوں نے کھڑے ہوکراپنی اپنی باقی ماندہ ایک ایک رکعت پوری کرلی۔[1]

اس غزوے سے واپس آکررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شوال سات ہجری تک مدینہ میں قیام فرمایااوراس دوران کئی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کومختلف طرف روانہ کیا۔

صلوٰة الخوف کے بارے میں علامہ حافظ ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں ۔

وَكَانَ مِنْ هَدْیِهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فِی صَلَاةِ الْخَوْفِ، إِذَا كَانَ الْعَدُوُّ بَیْنَهُ وَبَیْنَ الْقِبْلَةِ، أَنْ یَصُفَّ الْمُسْلِمِینَ كُلَّهُمْ خَلْفَهُ، وَیُكَبِّرَ وَیُكَبِّرُونَ جَمِیعًا، ثُمَّ یَرْكَعُ فَیَرْكَعُونَ جَمِیعًا، ثُمَّ یَرْفَعُ وَیَرْفَعُونَ جَمِیعًا مَعَهُ، ثُمَّ یَنْحَدِرُ بِالسُّجُودِ وَالصَّفُّ الَّذِی یَلِیهِ خَاصَّةً، وَیَقُومُ الصَّفُّ الْمُؤَخَّرُ مُوَاجِهَ الْعَدُوِّ فَإِذَا فَرَغَ مِنَ الرَّكْعَةِ الْأُولَى، وَنَهَضَ إِلَى الثَّانِیَةِ، سَجَدَ الصَّفُّ الْمُؤَخَّرُ بَعْدَ قِیَامِهِ سَجْدَتَیْنِ، ثُمَّ قَامُوا، فَتَقَدَّمُوا إِلَى مَكَانِ الصَّفِّ الْأَوَّلِ، وَتَأَخَّرَ الصَّفُّ الْأَوَّلُ مَكَانَهُمْ لِتَحْصُلَ فَضِیلَةُ الصَّفِّ الْأَوَّلِ لِلطَّائِفَتَیْنِ،وَلِیُدْرِكَ الصَّفَّ الثَّانِی مَعَ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ – السَّجْدَتَیْنِ فِی الرَّكْعَةِ الثَّانِیَةِ، كَمَا أَدْرَكَ الْأَوَّلُ مَعَهُ السَّجْدَتَیْنِ فِی الْأُولَى، فَتَسْتَوِی الطَّائِفَتَانِ فِیمَا أَدْرَكُوا مَعَهُ، وَفِیمَا قَضَوْا لِأَنْفُسِهِمْ، وَذَلِكَ غَایَةُ الْعَدْلِیہ انتہائی عدل تھا فَإِذَا رَكَعَ صَنَعَ الطَّائِفَتَانِ كَمَا صَنَعُوا أَوَّلَ مَرَّةٍ، فَإِذَا جَلَسَ لِلتَّشَهُّدِ، سَجَدَ الصَّفُّ الْمُؤَخَّرُ سَجْدَتَیْنِ، وَلَحِقُوهُ فِی التَّشَهُّدِ، فَیُسَلِّمُ بِهِمْ جَمِیعًا

نمازخوف میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت طیبہ یہ تھی کہ جب دشمن آپ کے اورقبلہ کے درمیان ہوتاتوتمام مسلمان آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداء کرتے،آپ تکبیرکہتے وہ تکبیر کہتے،آپ رکوع کرتے وہ سب رکوع کرتےجب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سرمبارک اٹھاتے وہ بھی آپ کے ساتھ سراٹھالیتے،پھرجب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سجدہ میں جاتے اورجو صف آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب ترہوتی (وہ بھی سجدہ کرتی)اورآخری صف دشمن کے مقابلہ میں کھڑی رہتی،جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم پہلی رکعت سے فارغ ہوتے اوردوسری کے لئے اٹھتے توآپ کے کھڑے ہونے پردوسری صف سجدہ کرتی ، پھروہ پہلی صف کی جگہ کھڑے ہوتے اورپہلی صف موخرہوجاتی تاکہ صف اول کی فضیلت دونوں گروہوں کوحاصل ہوجائے اور صف ثانی بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ دوسری رکعت میں دوسجدوں میں شریک ہوسکے،اسی طرح اجروثواب میں دونوں گروہ برابر(کے شریک) ہو جائیں اسی طرح جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم رکوع میں تشریف لے گئے تودونوں گروہوں نے پہلے کی طرح عمل کیااورجب آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشہدکوقعدہ میں گئے تودوسری صف نے دوسجدے کیے اورپھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تشہدمیں شریک ہوگئی ،اس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سب کے ساتھ ہی سلام پھیر دیا،

وَإِنْ كَانَ الْعَدُوُّ فِی غَیْرِ جِهَةِ الْقِبْلَةِ، فَإِنَّهُ كَانَ تَارَةً یَجْعَلُهُمْ فِرْقَتَیْنِ: فِرْقَةً بِإِزَاءِ الْعَدُوِّ، وَفِرْقَةً تُصَلِّی مَعَهُ، فَتُصَلِّی مَعَهُ إِحْدَى الْفِرْقَتَیْنِ رَكْعَةً، ثُمَّ تَنْصَرِفُ فِی صَلَاتِهَا إِلَى مَكَانِ الْفِرْقَةِ الْأُخْرَى، وَتَجِیءُ الْأُخْرَى إِلَى مَكَانِ هَذِهِ فَتُصَلِّی مَعَهُ الرَّكْعَةَ الثَّانِیَةَ، ثُمَّ تُسَلِّمُ، وَتَقْضِی كُلُّ طَائِفَةٍ رَكْعَةً رَكْعَةً بَعْدَ سَلَامِ الْإِمَامِ، وَتَارَةً كَانَ یُصَلِّی بِإِحْدَى الطَّائِفَتَیْنِ رَكْعَةً، ثُمَّ یَقُومُ إِلَى الثَّانِیَةِ، وَتَقْضِی هِیَ رَكْعَةً وَهُوَ وَاقِفٌ، وَتُسَلِّمُ قَبْلَ رُكُوعِهِ، وَتَأْتِی الطَّائِفَةُ الْأُخْرَى ،فَتُصَلِّی مَعَهُ الرَّكْعَةَ الثَّانِیَةَ، فَإِذَا جَلَسَ فِی التَّشَهُّدِ قَامَتْ فَقَضَتْ رَكْعَةً وَهُوَ یَنْتَظِرُهَا فِی التَّشَهُّدِ، فَإِذَا تَشَهَّدَتْ یُسَلِّمُ بِهِمْ

اوراگردشمن قبلہ کے علاوہ کسی دوسرے رخ پرہوتااس وقت کبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم دوجماعتیں بنالیتے ایک جماعت دشمن کے مقابلہ میں کھڑی رہتی اوردوسری جماعت کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نمازپڑھتے،اس طرح کی جماعت نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک رکعت پڑھی اورپھرنمازکی حالت ہی میں وہ دوسرے گروہ کی جگہ جاکرکھڑی ہوجاتی اوردوسراگروہ اس کی جگہ آکرآپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک رکعت اداکرتاپھرسلام پھیردیاجاتااورامام کے سلام کے بعدہرگروہ ایک ایک رکعت خوداداکرتااور کبھی ایک گروہ کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک رکعت اداکرتے پھردوسرے کی طرف تشریف لے جاتے اورآپ کھڑے ہو جاتے کہ وہ گروہ اپنی رکعت ثانیہ ادا کر لیتاپھرجب آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشہدپڑھ لیتے تومل کرسلام پھیردیتے،

وَتَارَةً كَانَ یُصَلِّی بِإِحْدَى الطَّائِفَتَیْنِ رَكْعَتَیْنِ، فَتُسَلِّمُ قَبْلَهُ، وَتَأْتِی الطَّائِفَةُ الْأُخْرَى، فَیُصَلِّی بِهِمُ الرَّكْعَتَیْنِ الْأَخِیرَتَیْنِ، وَیُسَلِّمُ بِهِمْ، فَتَكُونُ لَهُ أَرْبَعًا، وَلَهُمْ رَكْعَتَیْنِ رَكْعَتَیْنِ،وَتَارَةً كَانَ یُصَلِّی بِإِحْدَى الطَّائِفَتَیْنِ رَكْعَتَیْنِ وَیُسَلِّمُ بِهِمْ، وَتَأْتِی الْأُخْرَى، فَیُصَلِّی بِهِمْ رَكْعَتَیْنِ وَیُسَلِّمُ ،فَیَكُونُ قَدْ صَلَّى بِهِمْ بِكُلِّ طَائِفَةٍ صَلَاةً. وَتَارَةً كَانَ یُصَلِّی بِإِحْدَى الطَّائِفَتَیْنِ رَكْعَةً، فَتَذْهَبُ وَلَا تَقْضِی شَیْئًا، وَتَجِیءُ الْأُخْرَى فَیُصَلِّی بِهِمْ رَكْعَةً، وَلَا تَقْضِی شَیْئًافَیَكُونُ لَهُ رَكْعَتَانِ، وَلَهُمْ رَكْعَةٌ رَكْعَةٌ، وَهَذِهِ الْأَوْجُهُ كُلُّهَا تَجُوزُ الصَّلَاةُ بِهَاقَالَ الْإِمَامُ أَحْمَدُ: كُلُّ حَدِیثٍ یُرْوَى فِی أَبْوَابِ صَلَاةِ الْخَوْفِ، فَالْعَمَلُ بِهِ جَائِزٌ

اورکبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک جماعت کے ساتھ دورکعتیں اداکرتے اوروہ گروہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے قبل سلام پھیرلیتا(اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم تشہدمیں بیٹھے رہتے)آخردوسراگروہ آتااورآپ صلی اللہ علیہ وسلم اس گروہ کودورکعتیں پڑھاتے اوران کے ساتھ سلام پھیر دیتے،اس صورت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم چاررکعتیں اداکرتے اورصحابہ کرام رضی اللہ عنہم دورکعتیں پڑھتے ،اورکبھی ایساہوتاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک گروہ کے ساتھ دورکعتیں ادافرماتے اوراس کے ساتھ ہی سلام پھیردیتے، پھر دوسرا گروہ آتاتوآپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے ساتھ بھی دورکعتیں پڑھتے اورسلام پھیردیتے،اس صورت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہرگروہ کے ساتھ ایک ایک نمازپڑھتے،اورکبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک گروہ کے ساتھ ایک رکعت پڑھتے اوروہ چلاجاتااوروہ گروہ کوئی اوررکعت نہ پڑھتاپھردوسراگروہ آجاتا آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے ساتھ ایک رکعت پڑھتے اوروہ (گروہ)مزیدکوئی رکعت نہ پڑھتااس صورت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تودورکعتیں ہوتیں لیکن (صحابہ کرام رضی اللہ عنہم )کی ایک ایک رکعت ہوتی،ان تمام مندرجہ بالاصورتوں میں نمازخوف جائزہے۔امام احمد رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نمازخوف کے متعلق جوروایت بھی آئی ہیں اس پرعمل کرناجائزہے ،انہوں نے فرمایاکہ چھ یاسات صورتیں مذکورہیں اوریہ سب جائزہیں ۔[2]

کچھ حضرات نے یہ بھی کہاہے کہ صلوة الخوف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعدمنسوخ ہوگئی مگریہ صحیح نہیں ہے جمہورعلمائے اسلام کااس کی مشروعیت پراتفاق ہے ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعدبھی صحابہ مجاہدین نے کتنی مرتبہ میدان جنگ میں یہ نمازاداکی ہے۔

فإن الصحابة أجمعوا على صلاة الخوف، فروی أن علیاً صلى صلاة الخوف لیلة الهریر وصلاها أبوموسى الأشعری بأصبهان بأصحابه، وروی أن سعید بن العاص كان أمیراً على الجیش بطبرستان، فقال: أیكم صلى مع رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ صلاة الخوف؟ فقال حذیفة: أنا، فقدمه فصلى بهم، قال الزیلعی: دلیل الجمهور وجوب الاتباع والتأسی بالنَّبِیّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ ، وقوله: وَصَلُّواكَمَا رَأَیْتُمُونِی أُصَلِّی،

شیخ الحدیث مولاناعبیداللہ صاحب مبارک پوری فرماتے ہیں صلوٰة خوف پرصحابہ رضی اللہ عنہم کااجماع ہےجیساکہ مروی ہے کہ سیدناعلی رضی اللہ عنہ نے لیلة الہریرمیں صلوٰة خوف اداکی،اورابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے اصفہان کی جنگ میں اپنے ساتھیوں کے ساتھ خوف کی نمازپڑھی،اورسعیدبن عاص رضی اللہ عنہ نے جوجنگ طبرستان میں امیرلشکرتھے فوجیوں سے کہاکہ تم میں کوئی ایسا بزرگ ہے جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ صلوٰة الخوف اداکی ہو؟چنانچہ حذیفہ رضی اللہ عنہ نے فرمایاہاں میں موجودہوں ،پس ان ہی کوآگے بڑھاکریہ نمازاداکی گئی،زیلعی نے کہاکہ صلوٰة خوف پرجمہورکی دلیل یہی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع اوراقتداء واجب ہے ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجب تم نے مجھے نمازاداکرتے دیکھاہے ویسے ہی تم بھی اداکرو،پس ان لوگوں کاقول صحیح نہیں ہے جوصلوٰة خوف کومنسوخ کہتے ہیں ۔[3]

سریہ غالب رضی اللہ عنہ بن عبد اللہ کلبی(وادی نخل کی طرف) صفریاربیع الاول سات ہجری

بَعَثَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ غَالِبَ بْنَ عَبْدِ اللهِ الْكَلْبِیَّ كَلْبَ لَیْثٍ إِلَى بَنِی الْمُلَوِّحِ،قَالَ: فَأَمْهَلْنَاهُمْ حَتَّى إِذَا رَاحَتْ رَوَائِحُهُمْ، وَاحْتَلَبُوا وَسَكَنُوا، وَذَهَبَتْ عَتَمَةُ اللیْلِ، شَنَنَّا عَلَیْهِمُ الْغَارَةَ، فَقَتَلْنَا مَنْ قَتَلْنَا، وَاسْتَقْنَا النَّعَمَ، فَوَجَّهْنَا قَافِلِینَ بِهِ وَخَرَجَ صَرِیخُهُمْ إِلَى قَوْمِهِمْتو وَخَرَجْنَا سِرَاعًا حَتَّى نَمُرَّ بالحارث بن مالك وَصَاحِبِهِ، فَانْطَلَقْنَا بِهِ مَعَنَا وَأَتَانَا صَرِیخُ النَّاسِ، فَجَاءَنَا مَا لَا قِبَلَ لَنَا بِهِ، حَتَّى إِذَا لَمْ یَكُنْ بَیْنَنَا وَبَیْنَهُمْ إِلَّا بَطْنُ الْوَادِی مِنْ قُدَیْدٍ، أَرْسَلَ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ مِنْ حَیْثُ شَاءَ سَیْلًا، لَا وَاللهِ مَا رَأَیْنَا قَبْلَ ذَلِكَ مَطَرًا فَجَاءَ بِمَا لَا یَقْدِرُ أَحَدٌ یَقْدَمُ عَلَیَّ، فَلَقَدْ رَأَیْتُهُمْ وُقُوفًا یَنْظُرُونَ إِلَیْنَا مَا یَقْدِرُ أَحَدٌ مِنْهُمْ أَنْ یَقْدَمَ عَلَیْهِ، وَنَحْنُ نَحْدُوهَافَذَهَبْنَا سِرَاعًا حَتَّى أَسْنَدْنَاهَا فِی الْمُشَلَّلِ، ثُمَّ حَدَرْنَاهَا عَنْهُ، فَأَعْجَزْنَا الْقَوْمَ بِمَا فِی أَیْدِینَاقَالَ فَقَدِمْنَا بِهَا عَلَى رَسُول الله صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ

قبیلہ بنی ملوح نے بشربن سویدکے ساتھیوں کوقتل کرڈالاتھاچنانچہ ان کی سرکوبی کے لئے صفریاربیع الاول سات ہجری کورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غالب بن عبداللہ کلبی رضی اللہ عنہ کی قیادت میں ایک دستہ اس قبیلہ کی طرف روانہ فرمایا،راوی کابیان ہےہم وہاں پہنچ کر ٹھیرے رہے حتی کہ شام ہوگئی ،قبیلہ والوں نے جانوروں کا دودھ دوہااورپھرخاموشی چھاگئی ،جب شب کاایک حصہ گزرگیاہم نے ان پراچانک حملہ کردیااورمقابلہ کرنے والےبعضوں کوقتل کردیاپھرچوپائے ہنکاتے ہوئے واپس چل پڑے ، ان کی چیخ وپکاران کی قوم تک پہنچی، مگرہم تیزی کے ساتھ وہاں سے نکل آئے،آخرہم حارث بن مالک اوراس کے ساتھی کے پاس سے گزرے انہیں بھی ساتھ لیااورتعاقب کرنے والےلوگوں کی آوازیں ہم تک پہنچنے لگیں تھیں اوروہ ہمارے قریب پہنچ رہے تھے اورتعاقب کرنے والوں کے درمیان صرف وادی قدیدکامیدان ہی رہ گیاتھا،اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنی رحمت سے جہاں چاہاپانی کاسیلاب بھیج دیا ،واقعہ یہ ہے کہ اس وادی میں اس سے قبل بارش ہوتی دیکھی ہی نہ تھی،میں نے تعاقب کرنے والوں کودیکھاکہ وہ ہماری جانب دیکھ رہے تھے اوران میں سے کوئی بھی آگے بڑھ نہیں سکتاتھا اورہم ڈھلوان پراتررہے تھے،چنانچہ ہم تیزی کے ساتھ چلے اورجوکچھ ہمارے قبضہ میں تھاانہیں اس کے حاصل کرنے سے عاجزکردیا اورہم دشمن کے جانوروں سمیت بحفاظت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچ گئے۔[4]

سریہ زید رضی اللہ عنہ بن حارثہ ( حسمٰی کی طرف  جمادی الآخر ہ سات ہجری)

أَقْبَلَ دِحْیَةُ بْنُ خَلِیفَةَ الْكَلْبِیُّ مِنْ عِنْدِ قَیْصَرَ، وَقَدْ أَجَازَهُ وَكَسَاهُ، فَلَقِیَهُ الْهنیدُ بْنُ عَارِضٍ، وَابْنُهُ عَارِضُ بْنُ الْهنیدِ فِی نَاسٍ مِنْ جُذَامٍ بِحِسْمی.فَقَطَعُوا عَلَیْهِ الطَّرِیقَ، فَلَمْ یَتْرُكُوا عَلَیْهِ إِلَّا سَمَلَ ثَوْبٍ، فَسَمِعَ بِذَلِكَ نَفَرٌ مِنْ بَنِی الضَّبِیبِ، فَنَفَرُوا إِلَیْهِمْ، فَاسْتَنْقَذُوا لِدِحْیَةَ مَتَاعَهُ، وقدم دحیة عَلَى النَّبِیّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَأَخْبَرَهُ بذلك

دحیہ بن خلیفہ رضی اللہ عنہ قیصرروم کے پاس سے واپس مدینہ آرہے تھے،قیصرنے انہیں گراں قدرانعام اورخلعت عنایت کرکے روانہ کیاتھاراستے میں حسمیٰ نامی جگہ پرہنیدبن عارض اور اس کے بیٹے عارض بن ہنیدنے بنوجذام کے لوگوں کے ساتھ مل کران پرڈاکاڈالااوران سے سب کچھ لوٹ لیاصرف ایک کپڑاچھوڑاجس کی کوئی قیمت نہ تھی، یہ خبر بنوضبیب کی ایک جماعت نے سنی جورفاعہ بن زیدجذامی کے گروہ سے متعلق تھی اورمسلمان ہوچکی تھی ان لوگوں نے ان ڈاکوؤں سے وہ تمام لوٹا ہوا سامان چھین کردحیہ کلبی رضی اللہ عنہ کو لوٹا دیا، دحیہ کلبی رضی اللہ عنہ نے مدینہ منورہ پہنچ کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کواس واقعہ کی اطلاع دی،

فَبَعَثَ زَیْدُ بْنُ حارثة فی خمسمائة رَجُلٍ وَرَدَّ مَعَهُ دِحْیَةَ،فكَانَ زَیْدٌ یَسِیرُ اللّیْلَ وَیَكْمُنُ النّهَارَ. وَمَعَهُ دَلِیلٌ لَهُ مِنْ بَنِی عُذْرَةَ، فَأَقْبَلَ بِهِمْ حَتَّى هَجَمَ بِهِمْ مَعَ الصُّبْحِ عَلَى الْقَوْمِ، فَأَغَارُوا علیهم فقتلوا فیهم فأوجعوا وَقَتَلُوا الْهُنَیْدَ وَابْنَهُ، وَأَغَارُوا عَلَى مَاشِیَتِهِمْ وَنَعَمِهِمْ وَنِسَائِهِمْ، فَأَخَذُوا مِنْ النّعَمِ أَلْفَ بَعِیرٍ، وَمِنْ الشّاءِ خَمْسَةَ آلَافِ شَاةٍ، وَمِنْ السّبْیِ مِائَةً مِنْ النّسَاءِ وَالصّبْیَان،

توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے زیدبن حارثہ رضی اللہ عنہ کو پانچ سو (۵۰۰)مجاہدین کے ساتھ روانہ فرمایادحیہ بن کلبی رضی اللہ عنہ بھی ساتھ تھے ،ان کی رہنمائی کے لیے بنی عذرہ کاایک رہبر بھی تھایہ دستہ رات میں سفرکرتااوردن میں روپوش رہ کر سفرطے کرتے رہے،رہبرمجاہدین کے اس لشکرکوان ڈاکوؤں کے سر پر لے کر صبح کے وقت پہنچا،جہاں انہوں نے اچانک دشمنوں پرحملہ کردیااوران میں سے بہت سوں کوقتل کردیا،تہ تیغ ہونے والوں میں ہنیداوراس کا بیٹابھی تھا اورانکے مویشی اونٹ اور عورتیں پکڑلیں ،مال غنیمت میں ایک ہزاراونٹ پانچ ہزاربکریاں اورقیدیوں میں ایک سوعورتیں اوربچے تھے،

فَرَحَلَ زَیْدٍ بن رِفَاعَةُالْجُذَامِیّ فِی نفر مِن قَوْمِهِ إِلَى رَسُول اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فدفع إلى رَسُول اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ كِتَابِهِ الَّذِی كَانَ كتب لَهُ وَلِقَوْمِهِ لَیَالِی قَدِمَ عَلَیْهِ، فَأَسْلَمَ، فَبَعَثَ مَعَهُمْ عَلِیًّا رَضِیَ اللهُ عَنْهُ.إِلَى زَیْدِ بْنِ حَارِثَةَ یَأْمُرُهُ أن یُخَلّی بَیْنَنَا وَبَیْن حرمِهِمْ وَأَمْوَالِهِمْ،فَرَدّ إلَى النّاسِ كُلّ مَا كَانَ أخذ لهم

پھررفاعہ بن زیدجذامی رضی اللہ عنہ اپنی قوم کے کچھ لوگوں کے ہمراہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضرہوئے اوراسلام لانے کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے اوران کی قوم کے حق میں جوتحریرلکھواکرانہیں دی تھی وہ آپ کی خدمت میں پیش کی،تحریرپڑھ کرآپ نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو زیدبن حارثہ رضی اللہ عنہ کی طرف روانہ فرمایاکہ جوکچھ اموال غنیمت ان سے چھین لئے تھے وہ انہیں واپس کردیئے جائیں ،چنانچہ زیدبن حارثہ رضی اللہ عنہ نے ان کے قیدی رہا کر دیئے اوران کے اموال واپس کردیئے۔[5]

سریہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ بن خطاب (تربہ کی طرف)   شعبان سات ہجری

شَعْبَانَ سَنَةَ سَبْعٍ،قَالَ: بَعَثَ رَسُول اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ۔ عُمَرَ رَضِیَ اللهُ عَنْهُ فِی ثَلَاثِینَ رَجُلًا إلَى عَجُزِ هَوَازِنَ بِتُرَبَةَ

شعبان سات ہجری میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا عمربن خطاب رضی اللہ عنہ کوہوزان کی سرکوبی کے لئےتیس(۳۰)آدمیوں کے ساتھ تربہ نامی جگہ کی طرف بھیجا،

(تُرْبَةُ بَیْنَهَا وَبَیْنَ مَكّةَ سِتّ لَیَالٍ،وَهِیَ بِنَاحِیَةِ الْعبلاءِ، عَلَى أَرْبَعِ لَیَالٍ مِنْ مَكَّةَ، طَرِیق صنعاء وبخران)

تربہ مکہ مکرمہ سے چھ راتوں کی مسافت پرہے،اورعبلاء کے پاس مکہ سے صنعاء کے راستے پرچاررات کی مسافت پرہے )

فَخَرَجَ عُمَرُ رَضِیَ اللهُ عَنْهُ وَمَعَهُ دَلِیلٌ مِنْ بَنِی هِلَالٍ،فَكَانُوا یَسِیرُونَ اللّیْلَ وَیَكْمُنُونَ النّهَارَوَأَتَى الْخَبَرُ هَوَازِنَ فَهَرَبُوا، وَجَاءَ عُمَرُ مُحَالّهُمْ فَلَمْ یَلْقَ مِنْهُمْ أَحَدًا. وَانْصَرَفَ رَاجِعًا إلَى الْمَدِینَةِ

سیدناعمر رضی اللہ عنہ تربہ کی طرف روانہ ہوئے ان کے ساتھ بنوھلال کاایک رہبربھی تھا، رازداری کے پیش نظریہ دستہ دن کے وقت چھپ جاتااوررات میں سفرکرتاہواتربہ کے قریب پہنچامگرہوزان کواس دستے کے بارے میں علم ہوگیااوروہ فرارہوگئے،سیدناعمر رضی اللہ عنہ ان کے علاقے میں پہنچے مگروہاں کوئی آدمی نہ ملا،وہ رضی اللہ عنہ اس دستہ کے ساتھ واپس مدینہ آگئے ۔[6]

سریہ بشیر رضی اللہ عنہ بن سعدانصاری (فدک کی طرف)شعبان سات ہجری

فِی شَعْبَانَ سَنَةَ سَبْعٍ، بشیر بن سعد الأنصاری إِلَى بَنِی مُرَّةَ بِفَدَكٍ فِی ثَلَاثِینَ رَجُلًافَخَرَجَ إِلَیْهِمْ، فَلَقِیَ رِعَاءَ الشَّاءِ، فَاسْتَاقَ الشَّاءَ وَالنَّعَمَ، وَرَجَعَ إِلَى الْمَدِینَةِ فَأَدْرَكَهُ الطَّلَبُ عِنْدَ اللیْلِ،فَبَاتُوا یَرْمُونَهُمْ بِالنَّبْلِ حَتَّى فَنِیَ نَبْلُ بَشِیرٍ وَأَصْحَابِهِ، فَوَلَّى مِنْهُمْ مَنْ وَلَّى، وَأُصِیبَ مِنْهُمْ مَنْ أُصِیبَ ، وَقَاتَلَ بَشِیرٌ قِتَالًا شَدِیدًا،حَتَّى ضُرِبَ كَعْبَاهُ وَقِیلَ: قَدْ مَاتَ، وَرَجَعَ الْقَوْمُ بِنَعَمِهِمْ وَشَائِهِمْ، وَكَانَ أَوّلَ مَنْ قَدِمَ بِخَبَرِ السّرِیّةِ وَمُصَابِهَا عُلْبَةُ بْنُ زَیْدٍ الْحَارِثِیّ، وَتَحَامَلَ بَشِیرٌ حَتَّى انْتَهَى إِلَى فَدَكٍ، فَأَقَامَ عِنْدَ یَهُودَ حَتَّى بَرِئَتْ جِرَاحُهُ، فَرَجَعَ إِلَى الْمَدِینَة

شعبان سات ہجری میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بشیربن سعدانصاری رضی اللہ عنہ کی قیادت میں تیس(۳۰) صحابہ کرام کاایک دستہ فدک میں بنومرہ کی سرکوبی کے لئے روانہ فرمایا،بشیر رضی اللہ عنہ نے بنومرہ کے علاقہ میں داخل ہوکران کے اونٹ ، بھیڑبکریاں پکڑلئے اورانہیں ہانک کرواپسی کی راہ لی مگرابھی راستے میں ہی تھے کہ مریوں نے رات کے وقت اس دستہ کو گھیرلیا،مسلمانوں نے دشمن کاگھیراتوڑنے کے لئے جم کرتیزاندازی کی مگرجلدہی ان کے تیرختم ہوگئے،صبح ہوگئی تومریوں نے ان پرحملہ کرکے تمام تیس مجاہدین کوشہیدکر دیا صرف ان کے سرداربشیر رضی اللہ عنہ بن سعدانصاری زخمی حالت میں زندہ بچے،دشمنوں نے ان میں زندگی معلوم کرنے کے لئے ان کے ٹخنے پرضرب لگائی مگرجب انہوں نے کوئی حرکت نہیں کی توکہنے لگے یہ مرچکاہےاوراپنے مال واسباب کے ساتھ لوٹ گئے،علبہ بن زیدالحارثی رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کواس واقعہ کی خبرکی،بشیر رضی اللہ عنہ کو اٹھاکرفدک لایا گیا اور وہ وہیں یہودیوں کے ساتھ مقیم رہے ،جب ان کے زخم ٹھیک ہوگئے تومدینہ منورہ تشریف لے آئے(انصارمیں سب سے پہلے یہی شخص تھے جنہوں نے سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی بیعت کافیصلہ کیاتھا )۔[7]

سریہ غالب رضی اللہ عنہ بن عبداللہ لیثی(وادی نخل کی طرف) رمضان سات ہجری

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوخبرملی کہ بنوعوال اوربنوعبدمیفعة کے مقام پرمسلمانوں کے خلاف جمع ہورہے ہیں ،

 (وَهِیَ وَرَاءُ بَطْنِ نَخْلٍ إِلَى النّقرةِ قَلِیلا بِنَاحِیَةِ نَجْدٍ ، وَبَیْنَهَا وَبَیْنَ الْمَدِینَةِ ثَمَانِیَةُ بُرْدٍ)

جونجدکے علاقہ میں وادی نخل کے پیچھے واقع ہے اورمدینہ سے ۹۶میل کی مسافت پرہے)

بَعَثَهُ فِی مِائَةٍ وَثَلاثِینَ رَجُلافَلَمَّا رَجَعُوا بِخَبَرِهِمْ، أَقْبَلَ حَتَّى إِذَا دَنَا مِنْهُمْ لَیْلًا وَقَدِ احْتَلَبُوا وَهَدَءُوا، قَامَ فَحَمِدَ اللهَ، وَأَثْنَى عَلَیْهِ بِمَا هُوَ أَهْلُهُ ثُمّ قَالَ: أَمّا بَعْدُ، فَإِنّی أُوصِیكُمْ بِتَقْوَى اللهِ وَحْدَهُ لَا شَرِیكَ لَهُ، وَأَنْ تُطِیعُونِی وَلَا تَعْصُونِی وَلَا تُخَالِفُوا لِی أَمْرًا، فَإِنّهُ لَا رَأْی لِمَنْ لَا یُطَاعُ, ثُمّ أَلّفَ بَیْنَهُمْ فَقَالَ: یَا فُلَانُ أَنْتَ وَفُلَانٌ، یَا فُلَانُ أَنْتَ وَفُلَانٌ لَا یُفَارِقُ كُلّ رَجُلٍ زَمِیلَهُ وَإِیّاكُمْ أَنْ یَرْجِعَ إلَیّ أَحَدُكُمْ فَأَقُولُ: أَیْنَ فُلَانٌ صَاحِبُك؟فَیَقُولُ: لَا أَدْرِی

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے غالب بن عبداللہ کوایک سوتیس مجاہدین کاایک پیدل دستہ دے کران کی سرکوبی کے لئے روانہ فرمایا،جب وہ نزدیک پہنچے تودشمن کے حالات معلوم کرنے کے لئے کچھ جاسوس بھیجے انہوں نے واپس آکرحالات بتائے توانہوں نے رات کے وقت ان پرحملہ کرنے کامنصوبہ بنایا،اس کے بعد مویشیوں کا دودھ دوھا اور مطمئن ہوگئے اورکھڑے ہوکرخطبہ دیاجس میں اللہ کی حمدوثناکے بعدکہامیں تم کواللہ وحدہ لاشریک سے ڈرتے رہنے کی وصیت کرتاہوں اوراس کے ساتھ یہ بھی وصیت کرتاہوں کہ میری فرمانبرداری کرونافرمانی نہ کرو اورنہ میرے کسی حکم کی مخالفت کروکیونکہ جس کی مخالفت کی جاتی ہے اس کی کوئی تدبیرکامیاب نہیں ہوتی ،پھرانہوں نے اپنے دستہ اس طرح ترتیب دیاکہ اے فلاں تونے فلاں کے ساتھ رہناہوگااوراے فلاں تونے فلاں کے ساتھ رہناہوگاکوئی شخص اپنے ساتھی سے جدانہ ہو،ایساہرگزنہ ہوکہ تم میں سے کوئی شخص میرے پاس آئے اورمیں اس سے پوچھوں تمہاراساتھی کہاں ہے ؟وہ کہے مجھے معلوم نہیں ،

وَإِذَا كَبّرَتْ فَكَبّرُوا. قَالَ: فَكَبّرَ وَكَبّرُوا، وَأَخْرَجُوا السّیُوفَ،قَالَ: فَأَحَطْنَا بِالْحَاضِرِ [وَفِی الْحَاضِرِ ] [نَعَمٌ وَقَدْ عَطَنُوا مَوَاشِیَهُمْ، فَخَرَجَ إلَیْنَا الرّجَالُ فَقَاتَلُوا سَاعَةً، فَوَضَعْنَا السّیُوفَ حَیْثُ شِئْنَا مِنْهُم،وَخَرَجَ أسامة فِی أَثَرِ رَجُلٍ مِنْهُمْ یُقَالُ لَهُ مرداس بن نهیك، فَلَمَّا دَنَا مِنْهُ وَلَحَمَهُ بِالسَّیْفِ، قَالَ: لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ، فَقَتَلَهُ، ثُمَّ اسْتَاقُوا الشَّاءَ وَالنَّعَمَ وَالذُّرِّیَّةَ، وَكَانَتْ سُهْمَانُهُمْ عَشَرَةَ أَبْعِرَةٍ لِكُلِّ رَجُلٍ أَوْ عِدْلَهَا مِنَ النَّعَمِ

جب میں اللہ اکبرکہوں توسب مل کرنعرہ تکبیربلندکرواورمیانوں سے تلواریں نکال کردشمن پرٹوٹ پڑو،چنانچہ مجاہدین نے ایساہی کیااورنعرہ تکبیربلندکرکے دشمن کے اجتماع کے عین وسط میں حملہ آورہوئے اور کئی افرادکوقتل کردیااوراسامہ بن زید رضی اللہ عنہ ایک آدمی کے پیچھے نکلے جس کانام نہیک بن مرداس اسلمی تھاجب اس کے قریب آئے اورتلوارسے اس پروارکیاتواس نے کلمہ لاالٰہ الااللہ پڑھ لیا مگرانہوں نے پھربھی اسے قتل کردیا،پھرانہوں نے بکریوں اورچوپایوں کوہانکایا،ہرآدمی کے حصے میں دس بکریاں یااس کے برابر چوپائے آئے،

 فَلَمَّا قَدِمُوا عَلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أُخْبِرَ بِمَا صَنَعَ أسامة، فَكَبُرَ ذَلِكَ عَلَیْهِ، وَقَالَ: أَقَتَلْتَهُ بَعْدَ مَا قَالَ: لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ؟فَقَالَ: إِنَّمَا قَالَهَا مُتَعَوِّذًا، قَالَ: فَهَلَّا شَقَقْتَ عَنْ قَلْبِهِ؟ فَتَعْلَمَ أَصَادِقٌ هُوَ أَمْ كَاذِبٌ، ثُمَّ قَالَ:مَنْ لَكَ بِلَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ یَوْمَ الْقِیَامَةِ؟فَمَا زَالَ یُكَرِّرُ ذَلِكَ عَلَیْهِ حَتَّى تَمَنَّى أَنْ یَكُونَ أَسْلَمَ یَوْمَئِذٍوَقَالَ: یَا رَسُولَ اللهِ أُعْطِی اللهَ عَهْدًا أَلَّا أَقْتُلَ رَجُلًا یَقُولُ: لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ،فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ ، بَعْدِی،فَقَالَ: أُسَامَةُ بَعْدَكَ،وَلَمْ یَأْسِرُوا أَحَدًا

جب یہ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پہنچے تولوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کواسامہ رضی اللہ عنہ کے فعل کی خبردی،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کویہ بات سخت ناگوارگزری اورفرمایاکیاتونے اس کوقتل کرڈالاجبکہ اس نے کلمہ لاالٰہ الااللہ پڑھ لیاتھا،انہوں نے عرض کیااس شخص نے خلوص نیت سے نہیں بلکہ محض جان بچانے کے لئے کلمہ پڑھاتھا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیاتونے اس کادل چیرکردیکھ لیاتھا؟وہ خلوص نیت سے کلمہ پڑھ رہاتھایاجان بچانے کے لئےجھوٹ بول رہاتھا،پھرفرمایاقیامت کے دن لاالٰہ الااللہ کے مقابلہ میں کون تیرامددگارہوگا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بارباریہی بات دہراتے رہے یہاں تک کہ اسامہ رضی اللہ عنہ نے دل میں کہاکہ کاش میں آج ہی مسلمان ہواہوتااورکہااے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !میں اللہ سے وعدہ کرتاہوں کہ کبھی اس آدمی کوقتل نہیں کروں گاجولاالٰہ الااللہ کہتاہو،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایامیرے بعد،اسامہ رضی اللہ عنہ نے عرض کیاآپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد،اس جنگ میں کسی آدمی کوقیدی نہیں بنایاگیا تھا۔[8]

أُسَامَةَ بْنَ زَیْدٍ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُمَا، یَقُولُ: بَعَثَنَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ إِلَى الحُرَقَةِ،فَصَبَّحْنَا القَوْمَ فَهَزَمْنَاهُمْ، وَلَحِقْتُ أَنَا وَرَجُلٌ مِنَ الأَنْصَارِ رَجُلًا مِنْهُمْ، فَلَمَّا غَشِینَاهُ، قَالَ: لاَ إِلَهَ إِلَّا اللهُ فَكَفَّ الأَنْصَارِیُّ فَطَعَنْتُهُ بِرُمْحِی حَتَّى قَتَلْتُه،فَلَمَّا قَدِمْنَا بَلَغَ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ:یَا أُسَامَةُ، أَقَتَلْتَهُ بَعْدَ مَا قَالَ لاَ إِلَهَ إِلَّا اللهُ،قُلْتُ: كَانَ مُتَعَوِّذًافَمَا زَالَ یُكَرِّرُهَا، حَتَّى تَمَنَّیْتُ أَنِّی لَمْ أَكُنْ أَسْلَمْتُ قَبْلَ ذَلِكَ الیَوْمِ

یہ واقعہ اس طرح ہے کہ اسامہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبیلہ حرقہ کی طرف بھیجا،ہم نے صبح سویرے ان پرحملہ کردیااوران کوشکست فاش دی،میں اور انصار کاایک آدمی ان کے ایک آدمی کے پیچھے دوڑے جب ہم اس کے قریب پہنچے تواس نے کہالاالٰہ الااللہ، انصاری تویہ کلمہ سن کررک گیالیکن میں نے اس کونیزہ مارکرقتل کر دیا،جب ہم واپس آئے اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوزیدبن حارثہ رضی اللہ عنہ کے اس واقعہ کاعلم ہواتوآپ نے اسامہ رضی اللہ عنہ سے مواخذہ فرمایاکہ اے اسامہ رضی اللہ عنہ ! تونے اس کے لاالٰہ الااللہ کہنے کے بعد قتل کردیا؟اسامہ رضی اللہ عنہ نے عرض کیااے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم ! اس نے صرف قتل سے بچنے کے لئے کلمہ پڑھ لیاتھا،مگرآپ صلی اللہ علیہ وسلم برابریہی بات فرماتے رہے حتی کہ میں نے آرزوکی کہ کاش میں آج سے پہلے مسلمان نہ ہوتا۔[9]

سریہ نجد

عَنِ ابْنِ عُمَرَ، أَنّ رَسُولَ اللهِ صلى الله علیه وسلم بَعَثَ سَرِیَّةً قِبَل نَجْدٍ وَأَنَا فِیهِمْ. فَغَنِمُوا إِبِلًا كَثِیرَةً. فَبَلَغَتْ سُهْمَانُهُمْ لِكُلِّ وَاحِدٍ اثْنَیْ عَشَرَ بَعِیرًا، ثُمَّ نُفِّلُوا بَعِیرًا بَعِیرًا

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نجدکی طرف ایک سریہ بھیجامیں بھی اس سریہ میں شریک تھا،وہ بیان کرتے ہیں کہ ہمیں غنیمت میں بارہ بارہ اونٹ ملے اورایک ایک اونٹ انعام میں دیاگیااس طرح ہم تیرہ تیرہ اونٹ لے کرواپس آئے۔[10]

سریہ عبداللہ رضی اللہ عنہ بن حذافہ سہمی

عَنْ عَلِیٍّ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: بَعَثَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ سَرِیَّةً فَاسْتَعْمَلَ رَجُلًا مِنَ الأَنْصَارِ وَأَمَرَهُمْ أَنْ یُطِیعُوهُ، فَغَضِبَ،فَقَالَ: أَلَیْسَ أَمَرَكُمُ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَنْ تُطِیعُونِی؟قَالُوا: بَلَى،قَالَ: فَاجْمَعُوا لِی حَطَبًا، فَجَمَعُوافَقَالَ: أَوْقِدُوا نَارًا، فَأَوْقَدُوهَا فَقَالَ: ادْخُلُوهَا،فَهَمُّوا وَجَعَلَ بَعْضُهُمْ یُمْسِكُ بَعْضًا، وَیَقُولُونَ: فَرَرْنَا إِلَى النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مِنَ النَّارِ، فَمَا زَالُوا حَتَّى خَمَدَتِ النَّارُفَسَكَنَ غَضَبُهُ، فَبَلَغَ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ:لَوْ دَخَلُوهَا مَا خَرَجُوا مِنْهَا إِلَى یَوْمِ القِیَامَةِ، الطَّاعَةُ فِی المَعْرُوفِ

سیدناعلی رضی اللہ عنہ بن ابی طالب سے مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انصارکے ایک آدمی کوایک سریہ کاامیربناکربھیجا(نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں اس سے معلوم ہواکہ وہ شخص عبداللہ بن حذافہ نہ تھے،اورہدی میں لکھاہے یہ امیرعبداللہ بن حذافہ سہمی رضی اللہ عنہ تھے)اوراس کے رفقاء کواس کی بات سننے اور اس کی اطاعت کرنے کا حکم دیاکسی موقعہ پرانہوں نے اس کوناراض کر دیاامیر نے اپنے ساتھیوں سے کہاکیارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمہیں میری بات سننے اوراس پر عمل کرنے کا حکم نہیں دیا؟سب مجاہدین بولے کیوں نہیں !آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں تمہاری فرمانبرداری کاحکم فرمایاہے،اس امیر نے اپنے ساتھیوں کولکڑیاں جمع کرنے کاحکم دیاانہوں نے لکڑیاں جمع کردیں ،پھرامیر نے ان کوآگ جلانے کا حکم دیا انہوں نے لکڑیوں میں آگ جلادی جب آگ خوب بھڑک اٹھی توامیر نے کہاپھرتم سب لوگ اس آگ میں کودجاؤ، فوجی کودجاناہی چاہتے تھے کہ انہی میں سے بعض نے بعض کوروکا اورکہنے لگے آگ سے بچنے کے لئے توہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم پرایمان لائے ہیں پھرآگ میں کودجائیں ؟ان باتوں میں وقت گزرگیااورآگ بھی بجھ گئی اس کے بعدامیرکاغصہ بھی ٹھنڈاہوگیا،جب یہ لوگ واپس مدینہ آئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کویہ واقعہ بیان کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااگریہ لوگ آگ میں کودجاتے تواس سے کبھی باہرنہ آتے، فرمانبرداری صرف نیکی کے کاموں میں ہے(یعنی شرع کے خلاف جوبات ہواس کوہرگزنہیں مانناچاہیے) ۔[11]

سریہ عبداللہ رضی اللہ عنہ بن رواحہ(خیبرکی طرف)شوال سات ہجری

قَالَ: بَعَثَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عَبْدَ اللهِ بْنَ رَوَاحَةَ فِی ثَلَاثِینَ رَاكِبًا فِیهِمْ عَبْدُ اللهِ بْنُ أُنَیْسٍ السُّلَمِیُّ إِلَى الْیُسَیْرِ بْنِ رِزَامٍ الْیَهُودِیِّ، حَتَّى أَتَوْهُ بِخَیْبَرَ، وَبَلَغَ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ یَجْمَعُ غَطَفَانَ لِیَغْزُوهُ بِهِمْ،فَأَتَوْهُ فَقَالُوا: أَرْسَلْنَا إِلَیْكَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ لِیَسْتَعْمِلَكَ عَلَى خَیْبَرَ فَلَمْ یَزَالُوا بِهِ حَتَّى تَبِعَهُمْ فِی ثَلَاثِینَ رَجُلًا مَعَ كُلِّ رَجُلٍ مِنْهُمْ رَدِیفٌ مِنَ الْمُسْلِمِینَ، فَلَمَّا بَلَغُوا قَرْقَرَةَ ثِبَارٍ وَهِیَ مِنْ خَیْبَرَ عَلَى سِتَّةِ أَمْیَالٍ نَدِمَ الْیُسَیْرُ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کواطلاع ملی کہ یسیربن زرام یہودی بنوغطفان کومسلمانوں پرحملہ کرنے کے لئے جمع کررہاہے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ کوتیس مجاہدین کاایک دستہ دے کر ان کی طرف روانہ فرمایااس دستہ میں عبداللہ رضی اللہ عنہ بن انیس بھی تھے،مجاہدین کایہ دستہ خیبرمیں اس کے پاس پہنچا،امیر دستہ عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ نے طمع آمیز گفتگو میں باغی گروہ کے سرغنہ یسیرکویہ امیددلائی کہ اگروہ لڑائی نہ کرے تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسے خیبرکاگورنربنادیں گےاس کے ساتھ اس کے تیس معتمد ساتھی بھی ہتھیارڈال کرمدینہ چلنے کے لئے تیار ہو گئے،عبداللہ رضی اللہ عنہ کے رفقاء میں ہرآدمی نے ایک ایک یہودی کواپنے پیچھے سوارکرلیالیکن جب یہ لوگ خیبرسے چھ میل دور قرقرہ ثبارمقام پرپہنچے تویسیرکواس طرح ان کے ساتھ آنے پرندامت ہوئی،اس نے عبداللہ بن انیس رضی اللہ عنہ کی تلوارکی طرف ہاتھ بڑھایا،

فَأَهْوَى بِیَدِهِ إِلَى سَیْفِ عَبْدِ اللهِ بْنِ أُنَیْسٍ فَفَطِنَ لَهُ عَبْدُ اللهِ فَزَجَرَ بَعِیرَهُ ثُمَّ اقْتَحَمَ یَسُوقُ بِالْقَوْمِ حَتَّى إِذَا اسْتَمْكَنَ مِنَ الْیُسَیْرِ ضَرَبَ رِجْلَهُ فَقَطَعَهَا وَاقْتَحَمَ الْیُسَیْرُ وَفِی یَدِهِ مِخْرَشٌ مِنْ شَوْحَطٍ فَضَرَبَ بِهِ وَجْهَ عَبْدِ اللهِ شَجَّةً مَأْمُومَةً،وَانْكَفَأَ كُلُّ رَجُلٍ مِنَ الْمُسْلِمِینَ عَلَى رَدِیفِهِ فَقَتَلَهُ غَیْرَ رَجُلٍ وَاحِدٍ مِنَ الْیَهُودِ أَعْجَزَهُمْ شَدًّا وَلَمْ یُصَبْ مِنَ الْمُسْلِمِینَ أَحَدٌوَقَدِمُوا عَلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَبَصَقَ فِی شَجَّةِ عَبْدِ اللهِ بْنِ أُنَیْسٍ فَلَمْ تَقْحُ وَلَمْ تُؤْذِهِ حَتَّى مَاتَ

عبداللہ رضی اللہ عنہ بن انیس اس کے ارادے کوبھانپ کراپنے اونٹ کوبھگایااوراس سے دورہوگئے پھرنیچے اترکرقافلہ کوہانکتے ہوئے موقعہ پاکرتلوارکے ایک وارسے یسیرکاپاؤں کاٹ دیا،یسیراپنے اونٹ سے کودااورایک درخت شوحط کی ایک کھونٹی سے جواس کے ہاتھ میں تھی عبداللہ رضی اللہ عنہ بن انیس کے سرپرایک گہرازخم لگایا،یہ دیکھ کرمجاہدین نے اپنے اپنے پیچھے بیٹھے ہوئے یہودیوں کو تلواروں پررکھ لیاان میں صرف ایک یہودی دوڑکربچ نکلنے میں کامیاب ہواباقی سب وہیں تہ تیغ ہوگئے مجاہدین کاکوئی نقصان نہ ہوا،جب یہ دستہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پہنچاتوآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عبداللہ بن انیس رضی اللہ عنہ کے زخم پراپنالعاب مبارک لگایاجس سے نہ تواس میں پیپ پڑی اورنہ ہی مرتے دم تک کسی قسم کادردمحسوس ہوا۔[12]

سریہ بشیربن سعد انصاری رضی اللہ عنہ (یمن وجبارکی طرف)شوال ۷ہجری

بلغ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَنَّ جَمْعًا مِنْ غَطَفَان بِالْجنابِ قَدْ وَاعَدَهُمْ عُیَیْنَة بْن حِصْنٍ الْفَزَارِیّ لِیَكُونَ مَعَهُمْ لِیُزَحِفُوا إِلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وسلم،بْعَثْ بشیر بن سعد مَعَهُ ثَلَاثَمِائَةِ رَجُلٍ، وَأَمَرَهُمْ أَنْ یَسِیرُوا اللیْلَ، وَیَكْمُنُوا النَّهَارَ،وَخَرَجَ مَعَهُمْ حسیل دَلِیلًا، فَسَارُوا اللیْلَ وَكَمَنُوا النَّهَارَ، حَتَّى أَتَوْا أَسْفَلَ خَیْبَرَ، حَتَّى دَنَوْا مِنَ الْقَوْمِ فَأَغَارُوا عَلَى سَرْحِهِمْ،وَبَلَغَ الْخَبَرُ جَمْعَهُمْ، فَتَفَرَّقُوا فَخَرَجَ بشیر فِی أَصْحَابِهِ حَتَّى أَتَى مَحَالَّهُمْ، فَیَجِدُهَا لَیْسَ بِهَا أَحَدٌ فَرَجَعَ بِالنَّعَمِ،لَقُوا عَیْنًا لعیینة، فَقَتَلُوهُ،وَتَبِعَهُمْ أَصْحَابُ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَأَصَابُوا مِنْهُمْ رَجُلَیْنِ، فَقَدِمُوا بِهِمَا عَلَى النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَأَسْلَمَا فَأَرْسَلَهُمَا

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کواطلاع ملی کہ غطفان(قبائل مضرمیں قیس عیلان کی ایک شاخ جواپنی سرکشی کے سبب ہمیشہ مسلمانوں کے درپے آزاررہےبعدمیں مسلمان ہوئے مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعدمرتدہوگئے) اورعیینہ بن حصن مل کرمدینہ طیبہ پرحملہ کرنے کاارادہ رکھتے ہیں ،چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بشیربن سعدانصاری رضی اللہ عنہ کوتین سومجاہدین دے کریمن (غطفان کاکنواں جوتیماء سے فیدجانے والے راستے پربطن قو اور رواف کے درمیان واقع ہے،یہ بھی کہا جاتا ہے کہ یہ بنی صرمہ بن مرہ کاکنواں اوراسے امن بھی بولتے ہیں ) اورجبار(قضاعہ کی شاخ بنوحمیس بن عامرکاکنواں ہے جو مدینہ منورہ اور فیدکے درمیان واقع ہے)کی جانب روانہ فرمایا اورانہیں ہدایت فرمائی کہ رازداری کے پیش نظر دن کے وقت چھپے رہیں اورانہیں رستہ بتلانے کے لئے حسیل بھی نکلے ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق یہ دستہ دن کوچھپارہتااوررات کوسفرکرتاہواخیبرکے زیریں علاقہ میں پہنچ گئے اوردشمن کے قریب ہوگئے اوران کے چوپاؤں پرہلہ بول دیا،جب غطفان کوخبرہوئی تو خائف ہوکر بالائی علاقوں کی طرف فرارہوگئے، بشیر رضی اللہ عنہ اپنے اصحاب سمیت غطفان کی بستی میں گئے اوردیکھاتووہاں کوئی بھی نہیں تھاچنانچہ یہ لوگ چوپائے لے کرواپس مدینہ منورہ واپس آگئے،بعدمیں عیینہ نے ان کاایک مخبرقتل کردیا،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب نے ان کا پیچھاکیااوران کے دوآدمیوں کو اسیر بنا لیااورمدینہ منورہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش کیا، انہوں نے اسلام قبول کر لیاتوانہیں آزاد کر دیاگیا۔[13]

سریہ ابوحدرد رضی اللہ عنہ (غابہ کی طرف) سات ہجری

امام ابن قیم رحمہ اللہ اس سریہ کوعمرة قضاسے پہلے سات ہجری میں شمارکرتے ہیں

أَنَّ رَجُلًا مِنْ جُشْمِ بْنِ مُعَاوِیَةَ یُقَالُ لَهُ:قَیْسُ بْنُ رِفَاعَةَ، أَوْرِفَاعَةُ بْنُ قَیْسٍ، أَقْبَلَ فِی عَدَدٍ كَثِیرٍ حَتَّى نَزَلُوا بِالْغَابَةِ، یُرِیدُ أَنْ یَجْمَعَ قیسا عَلَى مُحَارَبَةِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، وَكَانَ ذَا اسْمٍ وَشَرَفٍ فِی جُشْمٍ،قَالَ: فَدَعَانِی رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَرَجُلَیْنِ منَ الْمُسْلِمِینَ، فَقَالَ:اخْرُجُوا إِلَى هَذَا الرَّجُلِ حَتَّى تَأْتُوا مِنْهُ بِخَبَرٍ وَعِلْمٍ،فَقَدَّمَ إِلَیْنَا شَارِفًا عَجْفَاءَ، فَحُمِلَ عَلَیْهَا أَحَدُنَا فَوَاللهِ مَا قَامَتْ بِهِ ضَعْفًا حَتَّى دَعَمَهَا الرِّجَالُ مِنْ خَلْفِهَا بِأَیْدِیهِمْ حَتَّى اسْتَقَلَّتْ وَمَا كَادَتْ، وَقَالَ:تَبَلَّغُوا عَلَى هَذِهِ

قبیلہ جشم بن معاویہ کاایک شخص جس کانام قیس بن رفاعہ یارفاعہ بن قیس تھاایک بھاری جمعیت لے کرآیااورمیدان میں اتراتاکہ قبیلہ قیس کورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مقابلہ کرنے کے لئے جمع کرےاوریہ آدمی جشم میں ناموراورمعروف تھا،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوان کے ارادوں کی خبرملی توابوحدرد رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اور دومسلمانوں کوبلایا اور فرمایا کہ اس آدمی کی طرف جاؤاوراس کی خبرلاؤ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں ایک نحیف بڑی عمرکی اونٹنی عطافرمائی ،ہم میں سے ایک آدمی اس پرسوارہواتواللہ کی قسم وہ ضعف کے باعث کھڑی نہ ہوسکی یہاں تک کہ لوگوں نے ہاتھوں کے ساتھ پیچھے سے اسے سہارادیاتب وہ چلی،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ تم اس سواری پرپہنچ جاؤگے،

فَخَرَجْنَا وَمَعَنَا سِلَاحُنَا مِنَ النَّبْلِ وَالسُّیُوفِ، حَتَّى إِذَا جِئْنَا قَرِیبًا مِنَ الْحَاضِرِ مَعَ غُرُوبِ الشَّمْسِ، فَكَمَنْتُ فِی نَاحِیَةٍ، وَأَمَرْتُ صَاحِبَیَّ، فَكَمَنَا فِی نَاحِیَةٍ أُخْرَى مِنْ حَاضِرِ الْقَوْمِ، قُلْتُ لَهُمَا: إِذَا سَمِعْتُمَانِی قَدْ كَبَّرْتُ وَشَدَدْتُ فِی نَاحِیَةِ الْعَسْكَرِ، فَكَبِّرَا وَشِدَّا مَعِی،فَوَاللهِ إِنَّا كَذَلِكَ نَنْتَظِرُ أَنْ نَرَى غِرَّةً أَوْ نَرَى شَیْئًاوَقَدْ غَشِیَنَا اللیْلُ حَتَّى ذَهَبَتْ فَحْمَةُ الْعِشَاءِ، وَقَدْ كَانَ لَهُمْ رَاعٍ قَدْ سَرَحَ فِی ذَلِكَ الْبَلَدِ، فَأَبْطَأَ عَلَیْهِمْ، حَتَّى تَخَوَّفُوا عَلَیْهِ، فَقَامَ صَاحِبُهُمْ رفاعة بن قیس، فَأَخَذَ سَیْفَهُ فَجَعَلَهُ فِی عُنُقِهِ، وَقَالَ: وَاللهِ لَأَتْبَعَنَّ أَثَرَ رَاعِینَا هَذَا، وَاللهِ لَقَدْ أَصَابَهُ شَرٌّ

ہم روانہ ہوئے اورہمارے ساتھ ہمارے تیراورتلواریں بھی تھیں ،ہم غروب آفتاب کے وقت اس بستی کے قریب پہنچے،میں ایک سمت میں چھپ گیااورساتھیوں کوبھی چھپنے کا کہا وہ بھی بستی کے دوسری جانب جاکرچھپ گئے، میں نے ان سے کہاجب تم میری تکبیرکی آوازسنوتوتم بھی تکبیرکی آوازبلندکرنا،اللہ کی قسم ! ہم اسی حالت میں تھے اور انتظارکررہے تھے کہ ذراصبح ہوجائے یاکچھ نظرآنے لگے، رات کاکافی حصہ گزرچکاتھا،شہروالوں کے کسی چرواہے نے رات کوآنے میں دیرکردی تھی یہاں تک کہ انہیں خطرہ لاحق ہوا،اس پران کاسرداررفاعہ بن قیس کھڑاہوا،اس نے اپنی تلوارلے کرگلے میں لٹکائی اورکہنے لگااللہ کی قسم !میں اس چرواہے کے نشانات پرجاؤں گا،اللہ کی قسم ! اسے ضرورنقصان پہنچاہے

فَقَالَ نَفَرٌ مِمَّنْ مَعَهُ: وَاللهِ لَا تَذْهَبُ نَحْنُ نَكْفِیكَ، فَقَالَ: وَاللهِ لَا یَذْهَبُ إِلَّا أَنَا،قَالُوا: فَنَحْنُ مَعَكَ، وَقَالَ: وَاللهِ لَا یَتْبَعُنِی مِنْكُمْ أَحَدٌ وَخَرَجَ حَتَّى یَمُرَّ بِی، فَلَمَّا أَمْكَنَنِی نَفَحْتُهُ بِسَهْمٍ فَوَضَعْتُهُ فِی فُؤَادِهِ،فَوَاللهِ مَا تَكَلَّمَ، فَوَثَبْتُ إِلَیْهِ فَاحْتَزَزْتُ رَأْسَهُ(ثُمَّ شَدَدْتُ فِی نَاحِیَةِ الْعَسْكَرِ) وَكَبَّرْتُ، وَشَدَّ صَاحِبَایَ فَكَبَّرَا،فَوَاللهِ مَا كَانَ إِلَّا النَّجَاءُ مِمَّنْ كَانَ فِیهِ: عِنْدَكَ عِنْدَكَ، بِكُلِّ مَا قَدَرُوا عَلَیْهِ مِنْ نِسَائِهِمْ وَأَبْنَائِهِمْ، وَمَا خَفَّ مَعَهُمْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ ،وَاسْتَقْنَا إِبِلًا عَظِیمَةً وَغَنَمًا كَثِیرَةً، فَجِئْنَا بِهَا إِلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَجِئْتُ بِرَأْسِهِ أَحْمِلُهُ مَعِی،فَأَعْطَانِی مِنْ تِلْكَ الْإِبِلِ ثَلَاثَةَ عَشَرَ بَعِیرًا فِی صَدَاقِی

اس کے چندساتھی کہنے لگے اللہ کے لیے ہمارے بغیرمت جاؤ،وہ کہنے لگانہیں صرف میں ہی جاؤں گا، انہوں نے جواب دیاہم بھی تیرے ساتھ چلیں گے،اس نے کہااللہ کی قسم!تم میں سے کوئی بھی میرے پیچھے نہ آئے پھروہ نکلایہاں تک کہ میرے قریب سے گزرا،جب وہ میرے تیرکی زدمیں آیاتومیں نے اسے تیرماراجواس کے دل پرلگا، اللہ کی قسم !اس نے بات تک نہ کی، میں تیزی کے ساتھ اس کی طرف جھپٹااور اس کاسرکاٹ دیا،اورپھراس کی لاش اس کے لشکرکی طرف پھینک دی،پھرمیں نے تکبیرکہی اورمیرے دونوں ساتھیوں نے بھی خوب زوردارآوازکے ساتھ تکبیرکی آوازبلندکی،اللہ کی قسم! دشمن اتنادہشت زدہ ہواکہ اپنی عورتوں ،بچوں اورہلکے پھلکے سامان کولے کر فرار ہوگیااوروہ بہت سے اونٹ اوربھیڑبکریاں ہانک کرمدینہ منورہ واپس آگئے اوراس کاسربھی میں اپنے ہمراہ اٹھاکرلے آیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے ان میں سے تیرہ اونٹ مرحمت فرمائے ،اس طرح ابوحدرد رضی اللہ عنہ کی جنگی حکمت عملی سے دشمن کوشکست فاش ہوئی۔[14]

جب قبائل غطفان نے قریش مکہ اوریہودخیبرکاحسرت ناک انجام دیکھااورخودکومجاہدین اسلام کے مقابلے میں اکیلااور عاجزپایاتو انہوں نےغزوہ ذات الرقاع کے بعد دوبارہ سراٹھانے کی جرات نہ کی،ان کے بعدچھوٹے چھوٹے چند قبائل نے اپنے علاقوں میں کچھ شورش پیداکی،جیساکہ اوپرذکرکیاجاچکاہے مگرمسلمانوں نے ان پربڑی آسانی سے قابوپالیا،قتال و جہادسے فرصت پاکرمسلمانوں کی تبلیغ کے نتیجہ میں بنوغطفان کے کئی قبائل نے اسلام کی آغوش میں پناہ حاصل کرلی جس سے پورے جزیرہ العرب میں امن وآتشی کاروردورہ ہو گیا اوربڑے بڑے شہروں اورممالک کی فتوحات کاراستہ ہموارہوناشروع ہوگیا۔

وفدطارق رضی اللہ عنہ بن عبداللہ محاربی:

طَارِقُ بْنُ عَبْدِ اللهِ، قَالَ: إِنِّی لَقَائِمٌ بِسُوقِ الْمَجَازِ إِذْ أَقْبَلَ رَجُلٌ عَلَیْهِ جُبَّةٌ لَهُ وَهُوَ یَقُولُ:یَا أَیُّهَا النَّاسُ قُولُوا: لَا إِلَهَ إِلَا اللهُ تُفْلِحُواوَرَجُلٌ یَتْبَعُهُ یَرْمِیهِ بِالْحِجَارَةِ یَقُولُ: یَا أَیُّهَا النَّاسُ! لَا تُصَدِّقُوهُ فَإِنَّهُ كَذَّابٌ،فَقُلْتُ: مَنْ هَذَا؟ فَقَالُوا: هَذَا غُلَامٌ مِنْ بَنِی هَاشِمٍ الَّذِی یَزْعُمُ أَنَّهُ رَسُولُ اللهِ، قَالَ: قُلْتُ: مَنْ هَذَا الَّذِی یَفْعَلُ بِهِ هَذَا؟ قَالُوا: هَذَا عَمُّهُ عَبْدُ الْعُزَّى

طارق بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کابیان ہےمیں مکہ مکرمہ کے سوق المجازمیں کھڑاتھااتنے میں ایک جبے میں ملبوس شخص وہاں آیا جوپکارپکارکرکہتاتھالوگو!اللہ کے سواکوئی معبود نہیں فلاح پا جاؤ گےایک دوسراشخص اس کے پیچھے آیا جو اسے کنکریاں مارتاتھااورکہتاتھا لوگو!اسے سچانہ سمجھویہ توجھوٹاہے،میں نے لوگوں سے پوچھاکہ یہ کون کون ہیں ؟لوگوں نے کہاکہ یہ بنی ہاشم کا لڑکاہےجس کادعویٰ ہے کہ وہ اللہ کارسول ہے،میں نے کہایہ کون شخص ہے جواس پرکنکریاں مارتاہے؟ لوگوں نے کہادوسرااس کاچچا عبدالعزیٰ(ابولہب)ہے،

 قَالَ: فَلَمَّا أَسْلَمَ النَّاسُ وَهَاجَرُوا، خَرَجْنَا مِنَ الرَّبَذَةِ نُرِیدُ الْمَدِینَةَ نَمْتَارُ مِنْ تَمْرِهَا، فَلَمَّا دَنَوْنَا مِنْ حِیطَانِهَا وَنَخْلِهَاقُلْنَا: لَوْ نَزَلْنَا فَلَبِسْنَا ثِیَابًا غَیْرَ هَذِهِ فَإِذَا رَجُلٌ فِی طِمْرَیْنِ لَهُ، فَسَلَّمَ وَقَالَ: مِنْ أَیْنَ أَقْبَلَ الْقَوْمُ؟ قُلْنَا: مِنَ الرَّبَذَةِ،قَالَ: وَأَیْنَ تُرِیدُونَ؟ قُلْنَا: نُرِیدُ هَذِهِ الْمَدِینَةَ،قَالَ: مَا حَاجَتُكُمْ فِیهَا؟قُلْنَا: نَمْتَارُ مِنْ تَمْرِهَا،قَالَ: وَمَعَنَا ظَعِینَةٌ لَنَا وَمَعَنَا جَمَلٌ أَحْمَرُ مَخْطُومٌ،فَقَالَ: أَتَبِیعُونَ جَمَلَكُمْ هَذَا؟ قَالُوا: نَعَمْ بِكَذَا وَكَذَا صَاعًا مِنْ تَمْرٍ

طارق رضی اللہ عنہ کہتے ہیں اس واقعہ کوکئی برس گزرگئے ،اس دوران میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت کرکے مدینہ منورہ جارہے تھے،آپ کی ہجرت مدینہ کے کچھ عرصہ بعد میں اپنی قوم کے چندلوگوں کے ساتھ ربذہ سے مدینہ طیبہ گیاتاکہ ہم وہاں سے کھجوریں خریدکر لائیں ،جب ہم مدینہ کی آبادی کے قریب پہنچ کرایک باغ میں اترنے کا ارادہ کر رہے تھے کہ اتنے میں ایک شخص آیاجس نے دوپرانی چادریں زیب تن کررکھی تھیں اس نے سلام کے بعدپوچھاکہ کدھرسے آئے ہو؟ہم نے کہا کہ ہم ربذہ سے یہیں تک آئے ہیں تاکہ کچھ کھجوریں خریدسکیں ،پھراس نے پوچھااورکہاں کاارادہ ہے؟ ہم نے کہابس اسی شہرتک جانے کاخیال ہے،پھراس نے پوچھایہاں مدینہ منورہ میں تمہاراکیاکام ہے؟ ہم نے جواب دیاہم یہاں سے کھجوریں خریدناچاہتے ہیں ،اورہم نے بتایاکہ ہمارے پاس ایک سرخ اونٹ اورہودج بھی ہے،اس شخص نے کہاکیاتم اپنایہ اونٹ بیچوگے؟ہم نے کہاہاں اس قدرکھجوروں کے بدلے میں فروخت کردیں گے،

قَالَ: فَمَا اسْتَوْضَعَنَا مِمَّا قُلْنَا شَیْئًا، فَأَخَذَ بِخِطَامِ الْجَمَلِ فَانْطَلَقَ ، فَلَمَّا تَوَارَى عَنَّا بِحِیطَانِ الْمَدِینَةِ وَنَخْلِهَا قُلْنَا: مَا صَنَعْنَا؟وَاللهِ مَا بِعْنَا جَمَلَنَا مِمَّنْ نَعْرِفُ، وَلَا أَخَذْنَا لَهُ ثَمَنًا،تَقُولُ الْمَرْأَةُ الَّتِی مَعَنَا: وَاللهِ لَقَدْ رَأَیْتُ رَجُلًا كَأَنَّ وَجْهَهُ شِقَّةُ الْقَمَرِ لَیْلَةَ الْبَدْرِ، أَنَا ضَامِنَةٌ لِثَمَنِ جَمَلِكُمْ

اس شخص نے قیمت گھٹانے کے لئے مطلق کچھ نہیں کہااوراونٹ کی مہار پکڑکرشہرکی طرف چلا،جب وہ مدینہ منورہ کی دیواروں سے اورکھجوروں سے اوجھل ہوگیا توہم نے آپس میں کہایہ ہم نے کیاکیا؟اللہ کی قسم !ہم نے ایسے آدمی کے ہاتھ اونٹ بیچ دیاجسے ہم جانتے تک نہیں ، اورنہ ہم نے اس سے اونٹ کی قیمت وصول کی ہے،ہمارے ساتھ ایک ہودج نشین(سردارقوم کی)عورت بھی تھی وہ بولی میں نے اس شخص کاچہرہ دیکھاتھاجوچودھویں رات کے چاندکی طرح چمکتاتھا اگر ایسا آدمی قیمت نہ دے تومیں اداکردوں گی۔

قَالَتِ الظَّعِینَةُ: فَلَا تَلَاوَمُوا فَلَقَدْ رَأَیْتُ وَجْهَ رَجُلٍ لَا یَغْدِرُ بِكُمْ

اورابن اسحاق میں ہے وہ عورت بولی تم گھبراؤنہیں میں نے اس شخص کاچہرہ دیکھاتھایہ چہرہ کسی جھوٹے غدارکانہیں ،اگرایساآدمی قیمت نہ دے تومیں اداکردوں گی۔

فَبَیْنَمَا هُمْ كَذَلِكَ إِذْ أَقْبَلَ رَجُلٌ فَقَالَ: أَنَا رَسُولُ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ إِلَیْكُمْ، هَذَا تَمْرُكُمْ فَكُلُوا وَاشْبَعُوا وَاكْتَالُوا وَاسْتَوْفُوا، فَأَكَلْنَا حَتَّى شَبِعْنَا وَاكْتَلْنَا وَاسْتَوْفَیْنَا، ثُمَّ دَخَلْنَا الْمَدِینَةَ فَدَخَلْنَا الْمَسْجِدَ، فَإِذَا هُوَ قَائِمٌ عَلَى الْمِنْبَرِ یَخْطُبُ النَّاسَ، فَأَدْرَكْنَا مَنْ خُطْبَتِهِ وَهُوَ یَقُولُ:تَصَدَّقُوا فَإِنَّ الصَّدَقَةَ خَیْرٌ لَكُمُ، الْیَدُ الْعُلْیَا خَیْرٌ مِنَ الْیَدِ السُّفْلَى، أُمَّكَ وَأَبَاكَ، وَأُخْتَكَ وَأَخَاكَ، وَأَدْنَاكَ أَدْنَاك

ہم یہی باتیں کررہے تھے کہ ایک شخص آیااورکہامجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھیجاہے اوراونٹ کی قیمت کی کھجوریں بھیجی ہیں اورتمہاری ضیافت کے لئے الگ کھجوریں ہیں ، کھاؤ پیو اور قیمت کی کھجوروں کوناپ کرپوراکرلو،جب ہم کھاکرسیرہوئے توکھجوروں کومانپاتوبالکل پوری پائیں ،دوسرے روزمدینہ منورہ میں داخل ہوئے،دیکھاتووہی شخص مسجدکے منبر پر (غالباًجمعہ کادن تھا)کھڑاوعظ کہہ رہاہے ہم نے یہ الفاظ سنےلوگو!خیرات دیاکروخیرات کادیاتمہارے لئے بہترہے اوپرکاہاتھ نیچے کے ہاتھ سے بہترہے ، ماں کوباپ کوبہن بھائی کوپھرقریبی اوردوسرے قریبی کو دو۔

إِذْ أَقْبَلَ رَجُلٌ مِنْ بَنِی یَرْبُوعٍ، أَوْ قَالَ: مِنَ الْأَنْصَارِ فَقَالَ: یَا رَسُولَ اللهِ، لَنَا فِی هَؤُلَاءِ دِمَاءٌ فِی الْجَاهِلِیَّةِ،فَقَالَ : إِنَّ أُمًّا لَا تَجْنِی عَلَى وَلَدٍ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ

بنویربوع یاانصارکاایک آدمی آیااورکہنے لگا اے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم !جاہلیت کے زمانہ میں ان لوگوں کے ذمہ ہمارے خون ہیں ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اب کوئی ماں اس بناپر قصورنہ کرے کہ اس کی سزااس کالڑکابھگتے گا،یہ تین مرتبہ فرمایا۔اب ہم سمجھے کہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں پس ہم سب نے آپ کے دست مبارک پراسلام قبول کرلیا۔ [15]

معاویہ رضی اللہ عنہ بن حیدت قشیری کاقبول اسلام

عَنْ بَهْزٍ قَالَ: أَخْبَرَنِی أَبِی، عَنْ جَدِّی قَالَ: أَتَیْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَقُلْتُ: یَا رَسُولَ اللهِ وَاللهِ مَا أَتَیْتُكَ حَتَّى حَلَفْتُ أَكْثَرَ مِنْ عَدَدِ أُولَاءِ، وَضَرَبَ إِحْدَى یَدَیْهِ عَلَى الْأُخْرَى أَنْ لَا آتِیَكَ، وَلَا آتِیَ دِینَكَ، وَإِنِّی قَدْ جِئْتُ امْرَأً لَا أَعْقِلُ شَیْئًا إِلَّا مَا عَلَّمَنِی اللهُ وَرَسُولُهُ، وَإِنِّی أَسْأَلُكَ بِوَجْهِ اللهِ بِمَ بَعَثَكَ رَبُّنَا إِلَیْنَا؟ قَالَ:بِالْإِسْلَامِ، قَالَ: قُلْتُ: یَا رَسُولَ اللهِ وَمَا آیَةُ الْإِسْلَامِ؟ قَالَ: أَنْ تَقُولَ أَسْلَمْتُ وَجْهِیَ لِلَّهِ وَتَخَلَّیْتُ، وَتُقِیمَ الصَّلَاةَ، وَتُؤْتِیَ الزَّكَاةَ

بہزبن حکیم اپنے دادامعاویہ رضی اللہ عنہ بن حیدت سے روایت کرتے ہیں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضرہوااورعرض کیااے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم !اللہ کی قسم!میں آپ کی خدمت میں حاضرہونے سے پہلے ان انگلیوں کی گنتی سے زیادہ مرتبہ یہ قسم کھاچکاتھاکہ نہ تومیں آپ کے پاس آکرپھٹکوں گااورنہ آپ کا دین اختیارکروں گااورمیں آپ کی خدمت میں ایک ایساشخص آیاہوں جوقطعاًبے علم اوریکسرناسمجھ ہے بس وہی جانتاہے جواللہ اوراللہ کارسول اس کوبتادے،میں اللہ کا واسطہ دے کر آپ سے پوچھتاہوں کہ ہمارے پروردگارنے آپ کوہمارے پاس کیاکیااحکام دے کربھیجاہے؟آپ نے فرمایاسب سے پہلے اسلام کاحکم دیاہے،میں نے عرض کیا اسلام کیاچیزہے؟آپ نے فرمایااسلام یہ ہے کہ تویہ اقرارکرے کہ میں اپنے آپ کواللہ کے سپردکرچکاہوں اورکفروشرک سب کو چھوڑ چکا ، نمازپڑھے،زکوٰة دے،

وَكُلُّ مُسْلِمٍ عَلَى مُسْلِمٍ مُحَرَّمٌ أَخَوَانِ نَصِیرَانِ لَا یَقْبَلُ اللهُ مِنْ مُشْرِكٍ یُشْرِكُ بَعْدَمَا أَسْلَمَ عَمَلًا، أَوْ یُفَارِقُ الْمُشْرِكِینَ إِلَى الْمُسْلِمِینَ، مَا لِی أُمْسِكُ بِحُجَزِكُمْ عَنِ النَّارِ، أَلَا إِنَّ رَبِّی دَاعِیَّ وَإِنَّهُ سَائِلِی:هَلْ بَلَّغْتَ عِبَادِی؟ وَأَنَا قَائِلٌ لَهُ: رَبِّ قَدْ بَلَّغْتُهُمْ أَلَا فَلْیُبَلِّغِ الشَّاهِدُ مِنْكُمُ الْغَائِبَ،ثُمَّ إِنَّكُمْ مَدْعُوُّونَ، وَمُفَدَّمَةٌ أَفْوَاهُكُمْ بِالْفِدَامِ وَإِنَّ أَوَّلَ مَا یُبِینُ، وَقَالَ بِوَاسِطٍ یُتَرْجِمُ، قَالَ: وَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بِیَدِهِ عَلَى فَخِذِهِ،قَالَ: قُلْتُ: یَا رَسُولَ اللهِ هَذَا دِینُنَا. قَالَ:هَذَا دِینُكُمْ وَأَیْنَمَا تُحْسِنْ یَكْفِكَ، قَالَ:هَذَا دِینُكُمْ وَأَیْنَمَا تُحْسِنْ یَكْفِكَ

ہر مسلمان دوسرے مسلمان کے لئے قابل احترام ہے،مسلمان آپس میں دوبھائی بھائی ہیں ایک کودوسرے کامددگاررہناچاہیے،جومشرک اسلام لانے کے بعدپھرشرک کرے اس کاکوئی عمل قبول نہیں ہوتا جب تک کہ وہ اس کوچھوڑکرپھرمسلمانوں کی جماعت میں شامل نہ ہوجائے،کیابات ہے کہ میں توتمہاری کمرپکڑپکڑکرتمہیں دوزخ کی آگ سے بچارہا ہوں (اورتم ایک نہیں مانتے)میرے رب نے مجھے داعی بنا کر بھیجا ہے اور وہ کل قیامت کے دن اس بارے مجھ سے باز پرس ہوگی کہ میرے احکام کی اطلاح میرے بندوں تک پہنچائی،سن لومیراپروردگار!(قیامت کے دن)مجھے بلائے گااورمجھ سے یقیناًیہ سوال کرے گاکہ تم نے میرے بندوں کوتبلیغ کردی،میں عرض کروں گا پروردگار کردی،سن لوتم میں جولوگ یہاں موجودہیں وہ میراپیغام ان کوبھی پہنچادیں جویہاں موجودنہیں ، پھرتم کوبلایاجائے گااورتمہارے منہ پرکپڑالگادیاجائے گا (تاکہ غلط بات نہ بول سکو)پھرسب سے پہلے تمہاری طرف سے جسم کاجوحصہ بولے گاوہ تمہاری ران اورتمہارے ہاتھ ہوں گے، میں نے کہااے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم ! بس ہمارادین یہ ہے اور بھلائی جہاں بھی کروں گے وہ تمہارے لیے بہتر ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاہاں یہ توتمہارادین ہے پھربھلائی جہاں بھی کروگے کافی ہو گی ۔[16]

ربیعہ رضی اللہ عنہ بن رواء کااسلام قبول کرنا

قدم عَلَى النَّبِیّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فوجده یَتَعَشَّى، فدعاه إِلَى العشاء،فأكل،فَقَالَ له النَّبِیّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: قل: أَتَشْهَدُ أَنْ لا إِلَهَ إِلا اللهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ؟فقالها،فَقَالَ: أَرَاغِبًا جِئْتَ أَمْ رَاهِبًا؟قال ربیعة: أَمَّا الرَّغْبَةُ فَوَاللهِ مَا فِی یَدَیْكَ مَالٌ، وَأَمَّا الرَّهْبَةُ فَوَاللهِ إِنَّنِی لَبِبَلَدٍ مَا تَبْلُغُهُ جُیُوشُكَ،وَلَكِنِّی خُوِّفْتُ فَخِفْتُ، وَقِیلَ لِی: آمِنْ بِاللهِ آمَنْتُ،فَقَالَ النَّبِیّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:رُبَّ خَطِیبٍ مِنْ عَنْس،فأقام یختلف إِلَى النَّبِیّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فودعه ، فَقَالَ لَهُ النَّبِیّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: إِنْ أَحْسَسْتَ شَیْئًا فَوَائِلْ إِلَى أَدْنَى قَرْیَةٍ،فَخَرَجَ فأحس حسًا فواءل إِلَى أهل قَرْیَةٍ، فَمَاتَ بها، رَحِمَهُ اللهُ

ربیعہ رضی اللہ عنہ بن رواء قبیلہ عنس سے تعلق رکھتے تھےیہ اس وقت بارگاہ رسالت میں حاضرہوئے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات کاکھاناتناول فرما رہے تھے،آپ نے انہیں بھی کھانے کے لئے بلایاچنانچہ وہ بھی کھانے میں شریک ہوگئےکھانے سے فارغ ہونے کے بعدنبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایاکہ کیاتم گواہی دیتے ہوکہ اللہ کے سواکوئی معبودنہیں اورمحمد( صلی اللہ علیہ وسلم )اللہ کے بندے اور رسول ہیں ،ربیعہ رضی اللہ عنہ بن رواء نے بلاتامل کلمہ طیبہ پڑھا اور مشرف بہ اسلام ہوگئے،پھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا رغبت کی بنا پرآئے ہویاخوف کی وجہ سے؟ربیعہ رضی اللہ عنہ نے عرض کیاجہاں تک رغبت کاتعلق ہے تواللہ کی قسم آپ کے پاس مال ہی نہیں کہ جس کی مجھے رغبت ہوتی،رہ گیاخوف تواس کی بھی کوئی وجہ نہیں کیونکہ اللہ کی قسم میں جس علاقے میں رہتاہوں وہاں آپ کالشکرنہیں پہنچ سکتا،حقیقت یہ ہے کہ مجھے خوف آخرت سے ڈرایاگیاتومیں خائف ہوگیااور مجھ سے کہاگیاکہ ایمان لے آؤتومیں ایمان لے آیا، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے مخاطب ہوکرفرمایاقبیلہ عنس میں بہت خوش بیان لوگ ہوتے ہیں ،پھرربیعہ رضی اللہ عنہ بن رواء نے کچھ عرصہ مدینہ طیبہ میں قیام کیااس دوران وہ برابرنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضرہوتے رہے، جب وہ رخصت ہونے لگے توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایاکہ اگرتم کو (اثنائے راہ میں ) اپنے آخری وقت کااحساس ہوتوکسی(قریبی)گاؤں میں چلے جانا،ربیعہ رضی اللہ عنہ بن رواء روانہ ہوئے توراستے میں بیمارہوگئے اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادکے مطابق ایک قریبی گاؤں والوں کے پاس چلے گئے اوروہیں وفات پائی ۔[17]

عمرة القضاء،عمرة القصاص (ذوالقعدہ ۷ہجری)

لما دخل هِلَال ذی القعدة أَمَرَ رَسُول اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أصحابه أَنْ یَعْتَمِرُوا قضاءلِعُمْرَتِهِمْ الّتی صدهم الْمُشْرِكُون عَنْهَا بِالْحُدَیْبِیَةِ. وأن لَا یَتَخَلَّفُ أحد ممن شَهِدَ الْحُدَیْبِیَةِ. فلم یَتَخَلَّفُ منهم أحد إلارِجَالٌ اسْتُشْهِدُوا منهم بِخَیْبَر ورِجَال مَاتُوا،وَاسْتَخْلَفَ عَلَى المدینة أَبَا رُهْمٍ الْغِفَارِیَّ،عُوَیْفَ بْنَ الْأَضْبَطِ الدِّیلِیَّ،وساق رَسُول اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ سِتِّینَ بَدَنَةً وجَعَلَ عَلَى هَدْیِهِ نَاجِیة بْنَ جُنْدُبٍ الْأَسْلَمِیَّ،وحمل رَسُول اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ السِّلَاحَ الْبِیضَ وَالدُّرُوعِ وَالرِّمَاحِ وقاد مِائَةُ فَرَسٍ

جب ذوالقعدہ سات ہجری کاچاندطلوع ہواتوحسب شرط صلح حدیبیہ آپ نے عمرہ کی ادائیگی کے لئے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کوحکم فرمایاکہ حدیبیہ میں حاضرہونے والوں میں سے کوئی پیچھے نہ رہے اس لئے اس عمرہ میں وہی آدمی حاضرنہ ہوسکے جوخیبرمیں شہیدہوگئے تھے یاوفات پاگئے تھے،چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ منورہ پرابورہم غفاری رضی اللہ عنہ یا عویف بن اضبط دیلی رضی اللہ عنہ کو اپنا نائب مقررفرمایااور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ قربانی کے ساٹھ اونٹ تھے جن پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ناجیہ بن جندب رضی اللہ عنہ اسلمی کو نگران مقررفرمایااوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےاہل مکہ کی ممکنہ غداری کے خطرہ کے پیش نظرہتھیار زرہیں ،نیزے اورایک سوگھوڑے سوارں کوساتھ لیااورعورتوں اوربچوں کے علاوہ دوہزار مسلمانوں کے ہمراہ مکہ مکرمہ روانہ ہوئے ،ذوالحلیفہ پہنچ کر احرام باندھا اور لبیک لبیک پکارتے ہوئے روانہ ہوئے،اس موقعہ پراللہ تعالیٰ نے ہدایت نال فرمائی ۔

اَلشَّهْرُ الْحَرَامُ بِالشَّهْرِ الْحَرَامِ وَالْحُرُمٰتُ قِصَاصٌ ۭ فَمَنِ اعْتَدٰى عَلَیْكُمْ فَاعْتَدُوْا عَلَیْهِ بِمِثْلِ مَا اعْتَدٰى عَلَیْكُمْ ۠ وَاتَّقُوا اللّٰهَ وَاعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰهَ مَعَ الْمُتَّقِیْنَ [18]

ترجمہ:ماہِ حرام کا بدلہ ماہِ حرام ہی ہے اور تمام حرمتوں کا لحاظ برابری کے ساتھ ہو گا لہذا جو تم پر دست درازی کرے تم بھی اسی طرح اس پر دست درازی کرو البتہ اللہ سے ڈرتے رہو اور یہ جان رکھو کہ اللہ انہی لوگوں کے ساتھ ہے ،جو اس کی حدود توڑنے سے پرہیز کرتے ہیں ۔

ماہِ حرام کا بدلہ ماہِ حرام ہی ہے اور تمام حرمتوں کا لحاظ برابری کے ساتھ ہو گا، لہذااس مرتبہ بھی اگرکفار مکہ ماہ حرام کی حرمت کوپامال کرکے(گزشتہ سال کی طرح)تمہیں مکہ مکرمہ میں داخل ہونے سے روکیں توتم بھی اس ماہ کی حرمت کونظراندازکرکے ان کابھرپورمقابلہ کرواورانہیں عبرت ناک سبق سکھاؤ ، البتہ اللہ سے ڈرتے رہو اور یہ جان رکھو کہ دین ودنیامیں اللہ کی تائیدونصرت انہی لوگوں کے ساتھ رہتی ہے جو اس کی مقررہ حدوں کو توڑنے سے پرہیز کرتے ہیں ۔

وَنَزَلَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بمَرِّ الظَّهْرَانِ وقدم السِّلَاحَ إلى بطن یأجج حیث ینظر إلى أنصاب الحرم. وخلف عَلَیْهِ أوس بْن خولی الْأَنْصَارِیّ فِی مائة رَجُل،فلما انتهى إلى ذی الحلیفة قدم الخیل أمامه علیها مُحَمَّد بْن مُسْلِمَة،وَمَضَى مُحَمّدُ بْنُ مَسْلَمَةَ بِالْخَیْلِ إلَى مَرّ الظّهْرَانِ، فَیَجِدُ بِهَا نَفَرًا مِنْ قُرَیْشٍ فَسَأَلُوا مُحَمّدَ بْنَ مَسْلَمَةَ فَقَالَ:هَذَا رَسُولُ اللهِ، یُصْبِحُ هَذَا الْمَنْزِلَ غَدًا إنْ شَاءَ اللهُ، فَرَأَوْا سِلَاحًا كَثِیرًا مَعَ بَشِیرِ بْنِ سَعْدٍ، فَخَرَجُوا سِرَاعًا حَتّى أَتَوْا قُرَیْشًا فَأَخْبَرُوهُمْ بِاَلّذِی رَأَوْا مِنْ الْخَیْلِ وَالسّلَاحِ،وَبَعَثَتْ قُرَیْشٌ مِكْرَزَ بْنَ حَفْصِ بْنِ الْأَحْنَفِ فِی نَفَرٍ مِنْ قُرَیْشٍ حَتّى لَقَوْهُ بِبَطْنِ یَأْجَجَ

جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مَرِّ الظَّهْرَانِ کے قریب پہنچے تو اپنے جنگی ہتھیاربطن یاجج (مکہ سے آٹھ میل پرایک مقام) میں جہاں سے حرم کے بت نظر آتے ہیں جمع کردیئے اور ان کی حفاظت کے لئے اوس بن خولی رضی اللہ عنہ انصاری کوایک سوصحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ساتھ پیچھے چھوڑدیاجب آپ صلی اللہ علیہ وسلم ذوالحلیفہ پہنچے تومحمدبن مسلمہ رضی اللہ عنہ کوکچھ ہتھیاربندگھوڑے سواروں کے ساتھ آگے روانہ فرمایااورشرط و رواج کے مطابق باقی ماندہ لوگ مسافرانہ اندازمیں میان میں بندایک تلوار رکھ کران کے پیچھے چلے،محمدبن مسلمہ رضی اللہ عنہ رسالے کے ہمراہ مرالظہران تک پہنچے تووہاں قریش کے کچھ لوگ ملے ،ان لوگوں کے استفسارپرمحمدبن مسلمہ رضی اللہ عنہ نے کہاکہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کالشکرہے انشاء اللہ کل آپ صلی اللہ علیہ وسلم کواس منزل میں صبح ہوگی، جب انہوں نے بشیربن سعدکے ہمراہ بہت ساجنگی اسلحہ دیکھاتوتیزی کے ساتھ قریش کی طرف بھاگے اورانہیں اسلحہ وغیرہ کی اطلاع دی ، اس سے مشرکین کے اوسان خطاہوگئے اور مارے رعب کے ان کے کلیجے اچھلنے لگے،انہیں یہ گمان ہوا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے صلح کی شرط توڑکر پوری تیاری اورکامل سازوسامان کے ساتھ لڑائی کے ارادے سے آئے ہیں ،قریش نے مکرزبن حفص کے ساتھ قریش کے کچھ لوگوں کوبھیجاجوآپ صلی اللہ علیہ وسلم کووادی یاجج میں ملے

 مكان من مكة على ثمانیة أمیال

یہ مکہ مکرمہ کے قریب آٹھ میل کے فاصلے پرایک وادی ہے۔[19]

وَرَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فِی أَصْحَابِهِ وَالْهَدْیُ وَالسّلَاحُ، قَدْ تَلَاحَقُوا،فَقَالُوا: یَا مُحَمّدُ! وَاَللهِ مَا عَرَفْت صَغِیرًا وَلَا كَبِیرًا بِالْغَدْرِ! تَدْخُلُ بِالسّلَاحِ الْحَرَمَ عَلَى قَوْمِك، وَقَدْ شَرَطْت أَلّا تَدْخُلَ إلّا بِسِلَاحِ الْمُسَافِرِ، السیوف فی القرب!فقال رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: لَا نَدْخُلُهَا إلّا كَذَلِك، ثُمّ رَجَعَ سَرِیعًا بِأَصْحَابِهِ إلَى مَكّةَ فَقَالَ:إنّ مُحَمّدًا لَا یَدْخُلُ بِسِلَاحٍ، وَهُوَ عَلَى الشّرْطِ الّذِی شَرَطَ لَكُمْ،فَلَمّا جَاءَ مِكْرَزٌ بِخَبَرِ النّبِیّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ خَرِجَتْ قُرَیْشٌ مِنْ مَكّةَ إلَى رُءُوسِ الْجِبَالِ، وَخَلّوْا مَكّةَ ، وَقَالُوا: وَلَا نَنْظُرُ إلَیْهِ وَلَا إلَى أَصْحَابِهِ

اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ،قربانی کے جانوراوراسلحہ تھااورجانوروں کے گلے میں کلاوے پڑے ہوئے تھے،مکرزبن حفص نے کہااے محمد( صلی اللہ علیہ وسلم )!اللہ کی قسم !یہ میں کیادیکھ رہاہوں کہ تمام چھوٹے بڑے لڑائی کے لئے تیارہیں ! کیاآپ حرم میں اپنی قوم کے پاس اسلحہ لے کرجائیں گےاور حدیبیہ میں ہماری شرط یہ تھی کہ آپ مسافرانہ اسلحہ لے کرحرم میں داخل ہوں گے اورتلواریں بھی نیام میں ہوں گی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاہم حرم میں اسلحہ لے کر داخل نہیں ہوں گے بلکہ اپنی شرط کے مطابق مسافرانہ اسلحہ لے کرداخل ہوں گے اورہماری تلواریں بھی نیام میں ہوں گی، چنانچہ وہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ مکہ مکرمہ واپس چلاگیااورقریش کوبتلایاکہ محمد( صلی اللہ علیہ وسلم )اسلحہ لے کرحرم میں داخل نہیں ہوں گے اوروہ اس شرط پرقائم ہیں جو ہم نے ان پر لگائی تھی،جب مکرزبن حفص نے قریش کورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں بتلایاتوقریش بوجہ غیظ وغضب اوررنج وغم کے تین دنوں کے لئے کعبہ کے شمال میں قُعَیْقِعَانَ نامی پہاڑپرچلے گئے تاکہ اپنے دلوں میں اللہ اوراس کے رسول کی دشمنی کی وجہ سے آپ کودیکھ ہی نہ سکیں اور جو مردوعورت شہرمیں رہ گئے وہ استعجاب کی نظروں سے آپ کی آمدکانظارہ کرنے کے لئے راستوں ، کوٹھوں اور چھتوں پرچڑھ گئے

وَأَمَرَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بِالْهَدْیِ أَمَامَهُ حَتّى حُبِسَ بِذِی طُوًى، وَخَرَجَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَأَصْحَابُهُ رَحِمَهُمْ اللهُ،وَرَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ علیه وسلّم عَلَى رَاحِلَتِهِ الْقَصْوَاءِ ، وَأَصْحَابُهُ مُحْدِقُونَ بِرَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، مُتَوَشّحُو السّیُوفِ یُلَبّونَ،

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قربانی کے جانوروں کوذی طویٰ میں بھیجنے کاحکم دیا اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اورآپ کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم روانہ ہوئےاوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی سواری قصواء پرروانہ ہوئےاورمسلمانوں نے گلے میں تلواریں لٹکاکرکسی ممکنہ خطرے کے پیش نظرآپ کوچاروں طرف سے گھیراہواتھااوروہ تلبیہ پڑھتے ہوئے روانہ ہوئے،

ابْنَ أَبِی أَوْفَى، یَقُولُ لَمَّا اعْتَمَرَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ سَتَرْنَاهُ مِنْ غِلْمَانِ المُشْرِكِینَ وَمِنْهُمْ، أَنْ یُؤْذُوا رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ

ابن ابی اوفی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں اس خطرے کے پیش نظر کہ کوئی مشرک یاکوئی نادان آپ کوکوئی ایذا نہ پہنچادے ہم اس دن آپ پرچھائے ہوئے تھے۔[20]

فَلَمّا انْتَهَى إلَى ذِی طُوًى وَقَفَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عَلَى رَاحِلَتِهِ الْقَصْوَاءِ وَالْمُسْلِمُونَ حَوْلَهُ،ثُمّ دَخَلَ مِنْ الثّنِیّةِ الّتِی تَطْلُعُهُ عَلَى الْحَجُونَ عَلَى رَاحِلَتِهِ الْقَصْوَاءِ، وَابْنُ رَوَاحَةَ آخِذٌ بِزِمَامِ رَاحِلَتِهِ

جب ذی طوی پرپہنچےتو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی سواری قصواء پرسوار ہوئےاورمجاہدین اسلام نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کوگھیراہواتھا ایک گھاٹی سے (۴ ذوالقعدہ کو) اس شان سے مکہ مکرمہ میں داخلہ ہوئے کہ آپ اپنی مشہورومعروف اونٹنی قصواء پرسوارتھےاورعبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ انصاری نے اس کی نکیل تھامی ہوئی تھی۔[21]

اور لبیک لبیک پکارتے ہوئے طواف کررہے تھے۔

وَهُوَ یَقُولُ

اور عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ کی زبان پریہ اشعار تھے

بِسْمِ الَّذِی لَا دِینَ إِلَّا دِینُهُ ، بِسْمِ الَّذِی مُحَمَّدٌ رَسُولُهُ

اللہ کے پاک نام پرہمارایہ داخلہ ہے،سچادین اللہ ہی کادین ہے،اسی کے بھیجے ہوئے محمدہیں جواللہ کے سچے رسول ہیں

خَلُّوا بَنِی الْكُفَّارِ عَنْ سَبِیلِهِ،فَالْیَوْمَ نضربكم على تأویله

اے کافروں کے بچو!آپ صلی اللہ علیہ وسلم کاراستہ چھوڑدو،ورنہ ہم اللہ کے حکم کے مطابق تم پراس طرح تلوارچلائیں گے

ضَرْبًا یُزِیلُ الْهَامَ عَنْ مَقِیلِهِ ،وَیُذْهِلُ الْخَلِیلَ عَنْ خَلِیلِهِ

جوتمہاری کھوپڑیاں تمہاری گردن سے جداکردے گی،اوردوست کودوست سے غافل کردے گی

عبدالرزاق نے اس کودوسندوں سے ذکرکیاہے اوریہ الفاظ زیادہ بیان کیے ہیں ۔

قَدْ أَنْزَلَ الرَّحْمَنُ فِی تَنْزِیلِهِ،بِأَنَّ خَیْرَ الْقَتْلِ فِی سَبِیلِهِ

بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں اتاراہے،کہ بہترین قتل فی سبیل اللہ ہے

نَحْنُ قَتَلْنَاكُمْ عَلَى تَأْوِیلِهِ،كَمَا قَتَلْنَاكُمْ عَلَى تَنْزِیلِهِ

ہم تمہیں اس کے فرمان کے مطابق قتل کریں گے،جس طرح ہم نے اس کی طرف سے اجازت اترنے پرتم کوقتل کیا

طبرانی اوربیہقی نے اس کادلائل میں ذکرکیاہے اوریہ زیادہ کیاہے۔

یَا رَبِّ إِنِّی مُؤْمِنٌ بِقِیلِهْ،

الٰہی میں اس کے فرمان پرایمان لایاہوں ۔

ابن عقبہ نے قَدْ أَنْزَلَ الرَّحْمَنُ فِی تَنْزِیلِهِ کے بعدلکھاہے۔

فِی صُحُفٍ یُتْلَى عَلَى رَسُولِهِ،بِأَنَّ خَیْرَ الْقَتْلِ فِی سَبِیلِهِ

رحمان نے اپنی کتاب میں جورسول پرپڑھی جاتی ہے،یہ بات اتاری ہے کہ اس کے راستہ میں قتل ہونابہترین قتل ہے       

اورابن اسحاق نے یہ الفاظ زیادہ کیے ہیں ۔

 یَا رَبِّ إِنِّی مُؤْمِنٌ بِقِیلِهْ،إِنِّی رَأَیْتُ الْحَقَّ فِی قُبُولِهِ

الٰہی میں اس کے فرمان پرایمان لایاہوں ،اوراس کے قبول کرنے کوحق سمجھتاہوں

أن عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللَّهُ تعالى عَنْهُ قَالَ: یَا ابْنَ رَوَاحَةَ، بَیْنَ یَدِی رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَفِی حَرَمِ اللهِ تَقُولُ الشِّعْرَ، فَقَالَ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:خَلِّ عَنْهُ یَا عُمَرُ، فَلَهِیَ أَسْرَعُ فِیهِمْ مِنْ نَضْحِ النَّبْلِ

سیدناعمر رضی اللہ عنہ نے عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ سے کہااے رواحہ!تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے شعرکہتاہے(اصل کتاب میں یہ جگہ خالی ہے)دوسری روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اےعمر رضی اللہ عنہ !اس کومنع نہ کرویہ اشعارکافروں پرتیرسے بھی زیادہ ضرررساں ہیں [22]

اصحاب رسول کومدینہ کی آب وہواشروع میں کچھ ناموافق پڑی تھی اوربخارکی وجہ سے وہ کچھ لاغرہوگئے تھے جب آپ مکہ پہنچے تومشرکین مکہ نے جوحطیم کے پاس اورایک روایت کے مطابق قعیقعان کی طرف بیٹھے ہوئے آپ کے اصحاب کی حالت دیکھ رہے تھے

فَقَالَ المُشْرِكُونَ: إِنَّهُ یَقْدَمُ عَلَیْكُمْ وَفْدٌ وَهَنَهُمْ حُمَّى یَثْرِبَ

مشرکین مکہ نے کہایہ جولوگ آرہے ہیں انہیں مدینہ کے بخارنے کمزوراورسست کردیا ہے۔[23]

فَأَطْلَعَ اللهُ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عَلَى ذَلِكَ،فَأَمَرَهُمْ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَنْ یَرْمُلُوا الْأَشْوَاطَ الثَّلاثَةَ، لِیَرَى الْمُشْرِكُونَ جَلَدَهُمْ ، قَالَ: فَرَمَلُوا ثَلاثَةَ أَشْوَاطٍ وَأَمَرَهُمِ أَنْ یَمْشُوا بَیْنَ الرُّكْنَیْنِ، حَیْثُ لَا یَرَاهُمِ الْمُشْرِكُونَ

اللہ تعالیٰ نے مشرکین کے اس کلام کی خبر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کودے دی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کفارکے سامنے اپنی قوت اور چستی کامظاہرہ کرنے کے لئے اپنے اصحاب رضی اللہ عنہن کوحکم فرمایاکہ وہ(طواف کعبہ کے لئے احرام کے طریقہ کے مطابق) اپنے کندھوں سے چادریں ہٹادیں اورطواف کے پہلےتین پھیروں میں رمل کریں (تیزچلیں جس سے اظہارقوت ہواورکفارمکہ دیکھیں اوراپنے غلط خیال کوواپس لے لیں ) اورجنوب میں حجراسودسے لیکررکن یمانی تک جہاں جانے کے بعدمشرکین کی نگائیں نہیں پڑتی تھیں ہلکی چال چلیں ۔[24]

ثُمَّ قَالَ: رَحِمَ اللهُ امْرَأً أَرَاهُمْ الْیَوْمَ مِنْ نَفْسِهِ قُوَّةً

پھر فرمایااللہ اس شخص پررحم فرمائے جومشرکوں کوآج اپنی قوت دکھائے۔[25]

پھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رکن یمانی کوبوسہ دیا اورسینہ تان کرطواف شروع کیا، مسلمانوں نے آپ کی ہدایات پرعمل کرتے ہوئے قوت کا خوب مظاہرہ کیا

وَالمُشْرِكُونَ مِنْ قِبَلِ قُعَیْقِعَانَ

مشرکین جبل قعیقعان کی طرف کھڑے دیکھ رہے تھے۔[26]

فَقَالَ الْمُشْرِكُونَ: هَؤُلاءِ الَّذِینَ تَزْعُمُونَ أَنَّ الْحُمَّى وَهَنَتْهُمْ؟ هَؤُلاءِ أَقْوَى مِنْ كَذَا وَكَذَا

مشرکوں نے جب دیکھاکہ یہ توسب کے سب ہرنوں کی طرح چوکڑیاں بھرتے ہوئے طواف کررہے ہیں توآپس میں کہنے لگے کیاانہیں کے بارے میں یہ افواہ تھی کہ مدینہ کے بخار نے انہیں سست ولاغرکردیاہے ؟یہ لوگ توفلاں اورفلاں سے بھی زیادہ چشت وچالاک ہیں ۔[27]

آپ برابر لبیک کہتے رہے یہاں تک کہ آپ نے چادرکوکندھے سے ہٹاکرکھونٹی کے ساتھ حجراسودکوبوسہ دیا،پھرآپ نے صفاومروہ کے درمیان سعی بھی اونٹنی پر سوار ہو کر کی، جب ساتواں چکرلگاکرطواف ختم کیااورآپ کی سواری مروہ پرآکررکی توفرمایایہ قربانی کرنے کی جگہ ہے اورمکہ کی سب گلیوں میں قربانی کے جانورذبح ہوسکتے ہیں ،آپ نے مروہ کے پاس قربانی ذبح کی اوراسی جگہ سر منڈایا،دوسرے مسلمانوں نے بھی ایساہی کیا،فارغ ہونے کے بعدآپ نے دوسوصحابہ کرام رضی اللہ عنہم کوبطن یاجج میں ہتھیاروں کی حفاظت کے لئے بھیجا تاکہ دوسرے لوگ آکراپناعمرہ پوراکرلیں ،عمرہ سے فارغ ہونے کے بعد آپ مکہ میں تین دن رہے، بلال رضی اللہ عنہ نے کعبہ کے اوپرکھڑے ہو کر اذانیں (اللہ تعالیٰ کی توحیداوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کی پکار) کہیں اورقریش بے بسی ولاچارگی کے ساتھ یہ سب دیکھتے اوراسلام کے عظیم منثورکی پکار سنتے رہے۔

عبداللہ بن عامر رضی اللہ عنہ کاقبول اسلام

وأمه دجاجة بِنْت أسماء بْن الصَّلْت ، ویكنى أَبَا عبد الرَّحْمَن، وُلِدَ عَبْدُ اللهِ بْنُ عَامِرٍ بِمَكَّةَ بَعْدَ الْهِجْرَةِ بِأَرْبَعِ سِنِینَ، فَلَمَّاكَانَ عَامُ عُمْرَةِ الْقَضَاءِ سَنَةَ سَبْعٍ وَقَدِمَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مَكَّةَ مُعْتَمِرًا حَمَلَ إِلَیْهِ ابْنُ عَامِرٍ وَهُوَ ابْنُ ثَلَاثِ سِنِینَ، فَحَنَّكَهُ فَتَلَمَّظَ وَتَثَاءَبَ , فَتَفَلَ رَسُولُ اللهِ فِی فِیهِ , وَقَالَ:هَذَا ابْنُ السُّلَمِیَّةِ؟قَالُوا: نَعَمْ، قَالَ:هَذَا ابْنُنَا , وَهُوَ أَشْبَهُكُمْ بِنَا , وَهُوَ مُسْقًى،فأتى بِهِ رَسُول اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ صغیر

عبداللہ بن عامر رضی اللہ عنہ کے والدکانام کریزبن ربیعہ تھااوران کی والدہ کانام دجاجہ بنت اسماء بن صلت تھااور ان کی کنیت ابوعبدالرحمٰن تھی،عبداللہ بن عامر رضی اللہ عنہ مکہ مکرمہ میں ہجرت کے چارسال بعد پیدا ہوئے، عہدرسالت میں مہاجرین اورانصارنے اپنا معمول بنالیاتھاکہ اپنے نوزائیدہ بچوں کورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لاتے اوران کے لیے دعائے خیروبرکت کے متمنی ہوتے،اسی دستورکے مطابق جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سات ہجری میں عمرہ القضاء کے لیے مکہ مکرمہ تشریف لائے توعبداللہ بن عامر رضی اللہ عنہ کوجواس وقت تین سال کے تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں حصول برکت کے لیے پیش کیاگیا،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھجورچباکران کے تالومیں لگادی،انہوں نے زبان سے نکال کراسے چاٹا اور اپنامنہ کھول دیا،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بچے پرشفقت بھری نظرڈالی پھر اس کے منہ میں اپنالعاب دہن ڈال کراس کے لیے زندگی،صحت اورخوش بختی کی دعامانگی اور پوچھا یہ السلمیہ کابیٹاہے؟ انہوں نے عرض کیاجی ہاں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایایہ ہمارابیٹاہے اورتم سب سے زیادہ ہمارا مشابہ ہےیہ بچہ بڑاہوکرمسقی (سیراب کرنے والا)ہوگا(عربوں میں پانی پلانے والے یاسیراب کرنے والے کو بڑا خوش بخت اور بلندرتبہ سمجھا جاتا تھا ) جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاوصال ہوااس وقت یہ بہت چھوٹے تھے۔[28]

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ پیش گوئی عبداللہ رضی اللہ عنہ بن عامرکے حق میں یوں پوری ہوئی کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے دل میں عرب کی خشک سرزمین کے باشندوں کوزیادہ سے زیادہ پانی مہیاکرنے کابے پناہ جذبہ پیداکردیا،چنانچہ اس مقصدکے لیے انہوں نے بصرہ میں دونہریں کھدوائیں ،ان کے علاوہ نہرابلہ کی تعمیرکرائی ،میدان عرفات میں حاجیوں کوپانی کی تکلیف ہوتی تھی انہوں نے وہاں بڑے بڑے تالاب اورحوض بنواکرنہروں کاپانی ان میں ڈالا،اس کے علاوہ انہوں نے مختلف مقامات پربڑی کثرت سے کنوئیں کھدوائے اوربے آب وگیاہ زمینوں میں مختلف طریقوں سے پانی کی بہم رسانی کے انتظامات کیے

فَلَمْ یَزَلْ عَبْدُ اللهِ شَرِیفًا , وَكَانَ سَخِیًّا كَرِیمًا كَثِیرَ الْمَالِ وَالْوَلَدِ

جب عبداللہ رضی اللہ عنہ جوان ہوئے توبہت شریف النفس،بہت زیادہ سخاوت کرنے والے اوربہت مال واولادوالے تھے۔[29]

اللہ تعالیٰ نے انہیں جس قدرمال ودولت عطافرمائی تھی اسی کے مطابق ان کادل بھی کشادہ بنایاتھا،وہ اپنامال ودولت بے دریغ اللہ کی راہ میں خرچ کرتے تھے اورسینکڑوں غریبوں ،یتیموں اورحاجت مندوں کی پرورش کرتے تھے کوئی سائل ان کے درسے کبھی خالی ہاتھ نہ جاتاتھا،دونوں ہاتھوں سے مٹھیاں بھربھرکرحاجت مندوں کودیتے تھے ،ابن اثیر رحمہ اللہ نے ان کی تعریف ان الفاظ میں کی ہے۔

وكان أحد الأجواد الممدوحین

وہ عرب کے ان فیاضوں میں سے ایک فیاض تھے جن کی لوگ (شعراء )مدح کرتے تھے۔[30]

قَالَ أَبُو مُوسَى: یَأْتِیكُمْ غُلامٌ خَرَّاجٌ وَلاجٌ كَرِیمُ الْجَدَّاتِ وَالْخَالاتِ وَالْعَمَّاتِ، یُجْمَعُ لَهُ الْجُنْدَانِ

اورطبری رحمہ اللہ کابیان ہے امیرالمومنین سیدناعثمان ذوالنورین رضی اللہ عنہ نے ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کی جگہ عبداللہ رضی اللہ عنہ بن عامرکوبصرہ کاگورنرمقررکیا توابوموسیٰ اشعری نے بصرہ سے چلتے وقت اہل بصرہ سے مخاطب ہوکرفرمایاتمہارے پاس قریش کاایک معزز نوجوان آرہاہے جوتم پراس طرح(ہاتھوں سے بتاکر)روپیہ پیسہ برسائے گا۔[31]

وَكَانَ ابْنُ عَامِرٍ رَجُلًا سَخِیًّا , شُجَاعًا , وَصُولًا لِقَوْمِهِ وَلِقَرَابَتِهِ , مُحَبَّبًا فِیهِمْ , رَحِیمًا , رُبَّمَا غَزَا فَیَقَعُ الْحِمْلُ فِی الْعَسْكَرِ فَیَنْزِلُ فَیُصْلِحُهُ

ابن عامر رضی اللہ عنہ سخی،بہادر،اپنی قوم اورقرابت داروں کے ساتھ احسان کرنے والے ،اوران لوگوں میں محبوب اوررحیم تھے ، بسااوقات جہادکرتے ،لشکرمیں کجاوہ گرپڑتاتو اتر کر اس کی اصلاح کرتے۔[32]

انہوں نے امیرالمومنین سیدناعثمان رضی اللہ عنہ بن عفان کے عہدخلافت میں اوربعدمیں کئی مہمات میں حصہ لیااورقرن اول کے عظیم ترین مسلمان جرنیلوں کی صف میں جگہ بنالی۔

ان کے سال وفات کے بارے میں بھی اختلاف ہے ،بعض نے ۵۷ہجری لکھاہے اوربعض نے ۵۸ہجری ،ایک روایت میں ۵۹ہجری بھی لکھاہے۔

دخل زِیَادٌ الأَعْجَمُ على عَبْدُ اللهِ بْنُ عَامِرِ بْنِ كُرَیْزٍ فأنشده:

أَخٌ لَكَ لا تَرَاهُ الدَّهْرَ إِلَّا ، عَلَى الْعلاتِ مُبْتَسِمًا جَوَّادَا

أَخٌ لَكَ مَا مَوَّدَتُهُ بِمذقٍ ، إِذَا مَا عَادَ فَقْر أَخِیهِ عَادَا

سَأَلْنَاهُ الْجَزِیلَ فَمَا تلكى ، وَأَعْطَى فَوْقَ مَنِیَّتِنَا وَزَادَا

وَأَحْسَنَ ثُمَّ أَحْسَنَ ثُمَّ عُدْنَا ، فَأَحْسَنَ ثُمَّ عُدْتُ لَهُ فَعَادَا

مِرَارًا مَا رَجَعْتُ إِلَیْهِ إِلَّا ، تَبَسَّمَ ضَاحِكًا وَثَنِیَ الْوِسَادَا

جب عبداللہ رضی اللہ عنہ بن عامرفوت ہوئے تومشہورشاعرزیاداعجم ان کے جنازے پرآیااوراس نے ایک پرزورمرثیہ لکھاجس میں خصوصیت کے ساتھ ابن عامر رضی اللہ عنہ جیسے مردسخی کی وفات کے ساتھ ان کی بے نظیرفیاضی کے خاتمہ کاسخت ماتم کیا۔[33]

فلما كَانَ عند ظهر مِن الیوم الرابع أَتَاهُ سُهَیْلُ بْنُ عَمْرٍو وَحُوَیْطِبُ بْنُ عَبْدِ الْعُزَّى، وَرَسُولُ اللهِ صلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فِی مَجْلِسِ الْأَنْصَارِ یَتَحَدَّثُ مع سعد بن عبادة، فَصَاحَ حُوَیْطِب ابن عَبْدِ الْعُزَّى: نُنَاشِدُكَ اللهَ وَالْعَقْدَ لَمَا خَرَجْتَ مِنْ أَرْضِنَا فَقَدْ مَضَتِ الثَّلَاثُ،فَقَالَ سَعْدُ بْنُ عُبَادَةَ: كَذَبْتَ لَا أمَّ لَكَ لَیْسَ بِأَرْضِكَ وَلَا بِأَرْضِ آبَائِكَ وَاللهِ لَا یَخْرُجُ،ثُمَّ نَادَى رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ سهیلاً وحُوَیْطِبًا فقال: إن قدنَكَصْتَ فیكم امرأة، لا یَضُرُّكُمْ أَنْ أَمْكُثَ حَتَّى أَدْخُلَ بِهَا وَنَصْنَعَ الطَّعَامَ فَنَأْكُلُ وَتَأْكُلُونَ مَعَنَا فَقَالُوا نُنَاشِدُكَ اللهَ وَالْعَقْدَ إِلَّا خَرَجْتَ عَنَّا

جب چوتھے دن کی ظہرکاوقت ہواتوسہیل بن عمرواورحویطب بن عبدالعزیٰ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت انصارکی مجلس میں بیٹھے سعدبن عبادہ رضی اللہ عنہ سے گفتگومیں مصروف تھےحویطب بن عبدالعزیٰ نے بیٹھتے ہی کہاصلح نامے کی روسے آپ کومکہ مکرمہ میں تین روزقیام کرناتھااوراب آپ عمرہ سے بھی فارغ ہوچکے ہیں اورتین روزکی مدت بھی ختم ہوچکی ہے اب ہماراشہرخالی کردیں ، حویطب بن عبدالعزیٰ کی زبان سے یہ سن کرسعدبن عبادہ رضی اللہ عنہ نے برجستہ کہاتم جھوٹ کہتے ہو،یہ سرزمین نہ تمہاری ماں کووراثت میں ملی ہے اورنہ تمہارے باپ کو،اللہ کی قسم !ہم نہیں جائیں گے، سعدبن عبادہ رضی اللہ عنہ ابھی کچھ اوربھی کہنے والے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں خاموش کر دیااوراسی وقت بلاتاخیرمکہ مکرمہ سے روانگی کاحکم فرمایا، لیکن ساتھ ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سہیل اورحویطب کومخاطب کرکے فرمایایہاں ایک عورت مجھ سے نکاح پرراضی ہے میں چاہتاہوں کہ اس سے یہیں شادی کرلوں جس کے بعدہم اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک ساتھ کھانے میں شریک ہوں ،لیکن ان دونوں نے یک زبان ہوکرکہاہم پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ ہمیں یہاں سے آپ کی روانگی کافوری طورپرشدت سے انتظارہے۔[34]

عَنِ البَرَاءِ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: فَلَمَّا دَخَلَهَا وَمَضَى الأَجَلُ أَتَوْا عَلِیًّا، فَقَالُوا: قُلْ لِصَاحِبِكَ: اخْرُجْ عَنَّا، فَقَدْ مَضَى الأَجَلُ، فَخَرَجَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ

اوربراء بن عازب رضی اللہ عنہ سے مروی ہےآپ صلی اللہ علیہ وسلم معاہدہ کے مطابق مکہ مکرمہ میں داخل ہوئے (اورتین دن کی)مدت پوری ہوگئی توقریش سیدنا علی رضی اللہ عنہ بن ابی طالب کے پاس آکرکہنے لگے اپنے نبی ( صلی اللہ علیہ وسلم )سے کہووقت ختم ہوگیا ہے اب یہاں سے چلا جائے۔[35]

فَخَرَجَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَتَبِعَتْهُ ابْنَةُ حَمْزَةَ، تُنَادِی یَا عَمِّ یَا عَمِّ، فَتَنَاوَلَهَا عَلِیٌّ فَأَخَذَ بِیَدِهَا، وَقَالَ لِفَاطِمَةَ عَلَیْهَا السَّلاَمُ: دُونَكِ ابْنَةَ عَمِّكِ حَمَلَتْهَا، فَاخْتَصَمَ فِیهَا عَلِیٌّ وَزَیْدٌ وَجَعْفَرٌ، قَالَ عَلِیٌّ: أَنَا أَخَذْتُهَا، وَهِیَ بِنْتُ عَمِّی، وَقَالَ جَعْفَرٌ: ابْنَةُ عَمِّی وَخَالَتُهَا تَحْتِی، وَقَالَ زَیْدٌ: ابْنَةُ أَخِی. فَقَضَى بِهَا النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ لِخَالَتِهَا، وَقَالَ:الخَالَةُ بِمَنْزِلَةِ الأُمِّ وَقَالَ لِعَلِیٍّ:أَنْتَ مِنِّی وَأَنَا مِنْكَ وَقَالَ لِجَعْفَرٍ:أَشْبَهْتَ خَلْقِی وَخُلُقِی، وَقَالَ لِزَیْدٍ:أَنْتَ أَخُونَا وَمَوْلاَنَا، وَقَالَ عَلِیٌّ: أَلاَ تَتَزَوَّجُ بِنْتَ حَمْزَةَ؟ قَالَ:إِنَّهَا ابْنَةُ أَخِی مِنَ الرَّضَاعَةِ

چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فوراً مدینہ منورہ کی طرف کوچ کیاجب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مکہ مکرمہ سے نکلے توآپ کے پیچھے سید الشہدا حمزہ رضی اللہ عنہ بن عبدالمطلب کی لڑکی چچاجان چچاجان کہتی ہوئی دوڑی،سیدناعلی رضی اللہ عنہ نے انہیں لے لیااوراس کا ہاتھ پکڑکر فاطمہ رضی اللہ عنہا کے پاس لائے اورکہااپنے چچاکی لڑکی کوسنبھالومیں اسے لے آیاہوں ،فاطمہ رضی اللہ عنہا نے اس کواپنے اونٹ پرسوارکرلیااورمدینہ منورہ لے آئے،بعدمیں اس کی پرورش کے لئے جعفر رضی اللہ عنہ ،سیدنا علی رضی اللہ عنہ بن ابوطالب اورزیدبن حارثہ رضی اللہ عنہ میں جھگڑاہونے لگا سیدنا علی رضی اللہ عنہ کہنے لگے میں اسے اپنے ساتھ لایاہوں اور یہ میرے چچاکی لڑکی ہے میں اس کازیادہ حق دارہوں اورجعفر رضی اللہ عنہ نے کہایہ میرے چچا کی بیٹی ہے اوراس کی خالہ میرے نکاح میں ہے،اورزید رضی اللہ عنہ نے کہامیرے بھائی کی بیٹی ہے، لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی خالہ کے حق میں فیصلہ فرمایا(جوجعفر رضی اللہ عنہ کے نکاح میں تھیں ) اورفرمایاخالہ ماں کے درجے میں ہوتی ہے اورسیدناعلی رضی اللہ عنہ سے فرمایاتم مجھ سے ہواورمیں تم سے ہوں ، اورجعفر رضی اللہ عنہ سے فرمایاتم اپنے جسم اوراپنے اخلاق میں مجھ سے ملتے جلتے ہواورزید رضی اللہ عنہ سے کہاتم ہمارے بھائی اورہمارے آزادکردہ ہو،اوراسی لڑکی کے جوان ہونے کے بعدسیدنا علی رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی تھی آپ حمزہ رضی اللہ عنہ کی لڑکی سے شادی کرلیں توآپ نے فرمایایہ میرے رضاعی بھائی کی بیٹی ہے۔[36]

سیدالشہداء حمزہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے رضاعی بھائی اورحقیقی چچاتھے اس لیے وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے حلال نہ تھی۔

ام المومنین میمونہ رضی اللہ عنہا بنت حارث کے ساتھ شادی

ان کانام برہ بنت حارث تھا،یہ عباس رضی اللہ عنہ کی اہلیہ ام فضل کی حقیقی بہن اورسیدالشہداء حمزہ رضی اللہ عنہ بن عبدالمطلب کی اہلیہ اسماء بنت عمیس کی ماں کی طرف سے سوتیلی بہن تھیں ،یہ چھبیس (۲۶)سال یا اکاون(۵۱) سال کی ایک معمربیوہ تھیں جن کاخاوندابورہم بن عبدالعزیٰ قریشی فوت ہوچکاتھا،مسلمانوں کی پرشوکت آمداوربارعب داخلے نے مکہ کی اس نیک نفس معزز اور سردارخاتون کاانتہائی متاثرکیا،ان کادل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت سے لبریزہوگیا

وَكَانَتْ جَعَلَتْ أَمْرَهَا إلَى أُخْتِهَا أُمِّ الْفَضْلِ، وَكَانَتْ أُمُّ الْفَضْلِ تَحْتَ الْعَبَّاسِ،وَأَصْدَقَهَا الْعَبَّاسُ عَنْ رَسُولِ الله صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَربع مائَة دِرْهَمٍ،فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: وَمَا عَلَیْكُمْ لَوْ تَرَكْتُمُونِی فَأَعْرَسْتُ بَیْنَ أَظْهُرِكُمْ، وَصَنَعْنَا لَكُمْ طَعَامًا فَحَضَرْتُمُوهُ ،قَالُوا: لَا حَاجَةَ لَنَا فِی طَعَامِكَ،فَقَالُوا لَهُ: إنَّهُ قَدْ انْقَضَى أَجَلُكَ،وَرَكِبَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ حَتّى نَزَلَ سَرِفَ ، وَتَتَامّ النّاسُ، وَخَلّفَ أَبَا رَافِعٍ لِیَحْمِلَ إلَیْهِ زَوْجَتَهُ حِینَ یُمْسِی،وَأَقَامَ أَبُو رَافِعٍ حَتّى أَمْسَى فَخَرَجَ بِمَیْمُونَةَ وَمَنْ مَعَهَا

انہوں نے اپنی خواہش کااظہاراپنی سگی بہن سے کیاجوعباس رضی اللہ عنہ کی بیوی تھیں اورام فضل رضی اللہ عنہا نے وہ اختیارعباس بن عبدالمطلب کودیاوہ یہ خبرلے کررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضرہوئے اورگزارش کی کہ برہ بنت حارث نے آپ کونکاح کی پیشکش کی ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پیشکش کوقبول فرمایا اورعمرہ سے حلال ہوکرنکاح فرمایا اورعباس رضی اللہ عنہ نےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے انہیں چار سو درہم مہر اداکیا،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چاہاکہ مکہ مکرمہ ہی میں ان سے خلوت ہو لیکن مشرکین نے آپ کو اس کی مہلت ہی نہ دی ،جس پرنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے کہاکہ اگرتم مجھے اتنی مہلت دے دیتے کہ میں تمہارے درمیان شب عروسی مناؤں اور اس مناسبت سے تمہارے لئے کھانا بھی تیارکراؤں توتمہاراکیاحرج تھا؟انہوں نے جواب دیاکہ ہمیں آپ کے کھانے کی ضرورت نہیں ،تین دن ختم ہوچکے ہیں معاہدہ کے مطابق آپ ہماراشہرچھوڑدیں ،چنانچہ آپ نے مکہ مکرمہ سے روانہ ہوکرقریب ہی مقام سرف میں قیام کیااور جب سارے لوگ یہاں سے کوچ کیااوراپنے غلام ابورافع رضی اللہ عنہ کوپیچھے چھوڑاکہ وہ شام کے وقت ام المومنین میمونہ رضی اللہ عنہا کوآپ کے پاس پہنچا دیں ، چنانچہ وہ ام المومنین میمونہ رضی اللہ عنہا کولے کرمکہ مکرمہ سے روانہ ہوئے،

فَلَقَوْا عَنَاءً مِنْ سُفَهَاءِ الْمُشْرِكِینَ، آذَوْا بِأَلْسِنَتِهِمْ النّبِیّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، وَقَالَ لَهَا أَبُو رَافِعٍ- وَانْتَظَرَ أَنْ یَبْطِشَ أَحَدٌ مِنْهُمْ فَیَسْتَخْلِی بِهِ ، فَلَمْ یَفْعَلُوا أَلَا إنّی قَدْ قُلْت لَهُمْ:مَا شِئْتُمْ! هَذِهِ وَاَللهِ الْخَیْلُ وَالسّلَاحُ بِبَطْنِ یَأْجَجَ!وَإِذَا الْخَیْلُ قَدْ قَرُبَتْ فَوَقَفَتْ لَنَا هُنَالِكَ وَالسّلَاحُ، حَتَّى أَتَاهُ بِهَا بِسَرِفَ ، فَبَنَى بِهَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ هُنَالِكَ، وَكَانَ اسْمُهَا بُرَّةَ، فَسَمَّاهَا مَیْمُونَةَ، ثُمَّ أَدْلَجَ وَسَارَ حَتَّى قَدِمَ الْمَدِینَةَ

مکہ مکرمہ کے کچھ لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور میمونہ رضی اللہ عنہا کی شان میں نازیباکلمات کہے جس سے ابورافع رضی اللہ عنہ اور میمونہ رضی اللہ عنہا کوبڑی تکلیف پہنچی،ابو رافع رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ہمیں اہل مکہ کے مشرک اوباشوں کی طرف سے بڑی تکلیف پہنچی کیونکہ وہ اپنی زبانوں سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور میمونہ رضی اللہ عنہا کی شان میں دل آزارباتیں کہتے تھے ، جس سے ام المومنین میمونہ رضی اللہ عنہا کو قلبی تکلیف پہنچی،اس پرمیں نے ان لوگوں سے کہاتم کیاچاہتے ہو؟اللہ کی قسم! بطن یاجج میں ہمارے پاس گھوڑے اور ہتھیار موجود ہیں کیاتم لوگ بدعہدی کرناچاہتے ہو؟ یہ سن کروہ سر جھکائے خاموش واپس چلے گئے،بصدمشکل مکہ مکرمہ کے اوباشوں ،بیوقوفوں سے ایذا اٹھاکروہ مقام سرف پرپہنچے اوراسی مقام پر آپ نے شب عروسی منائی، اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم نےان کا نام برہ سے بدل کر میمونہ رکھ دیاپھرآپ نے یہاں سے پچھلی رات کوکوچ کیااورمدینہ منورہ تشریف لے آئے۔[37]

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُمَا، إِنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ تَزَوَّجَ میمونة، وَهُوَ مُحْرِمٌ،

صحیح بخاری میں متعددمواضع میں عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میمونہ رضی اللہ عنہا سے حالت احرام میں نکاح کیا۔[38]

وَبَنَى بِهَا وَهُوَ حَلَالٌ، فَمِمَّا اسْتُدْرِكَ عَلَیْهِ، وَعُدَّ مِنْ وَهْمِه،قَالَ سَعِیدُ بْنُ الْمُسَیِّبِ: وَوَهِمَ ابْنُ عَبَّاسٍ وَإِنْ كَانَتْ خَالَتَهُ، مَا تَزَوَّجَهَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ إِلَّا بَعْدَ مَا حَلَّ

اورشب باشی حلال ہونے کے بعدفرمائی تھی ،لیکن یہ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کاوہم سمجھاگیاہے،سعیدبن مسیب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں اگرچہ میمونہ رضی اللہ عنہا عبداللہ بن عباس کی خالہ ہیں مگرانہوں نے غلطی کی ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمرہ سے فارغ ہونے کے بعدان سے شادی کی تھی ۔

عَنْ میمونة:تَزَوَّجَنِی رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَنَحْنُ حَلَالَانِ بِسَرِفَ

اورام المومنین میمونہ رضی اللہ عنہا خودفرماتی ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے نکاح کیاجب ہم دونوں سرف میں غیرمحرم تھے۔[39]

وَقَالَ أبو رافع:تَزَوَّجَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ میمونة وَهُوَ حَلَالٌ، وَبَنَى بِهَا وَهُوَ حَلَالٌ، وَكُنْتُ الرَّسُولَ بَیْنَهُمَا

ابورافع رضی اللہ عنہ نے فرمایارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حلال ہونے کی حالت میں میمونہ رضی اللہ عنہا سے نکاح فرمایااورشب عروسی کے وقت بھی آپ حلال تھے اورمیں دونوں کے درمیان قاصد تھا ۔[40]

وَهِیَ آخِرُ مَنْ تَزَوَّجَ بِهَا وَفَاتِهَا غَیْرُ ذَلِكَ وَهِیَ آخِرُ مَنْ تَزَوَّجَ عَلَیْهِ السَّلامُ، وَقَدَّرَ اللهُ أَنْ یَكُونَ قَبْرُ میمونة بِسَرِفَ حَیْثُ بَنَى بِهَا

ابن المنذرکہتے ہیں ام المومنین میمونہ رضی اللہ عنہا سب سے آخری خاتون ہیں جن سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عقدفرمایااور انہوں نے آپ کی ازواج مطہرات میں بھی سب سے آخرمیں وفات پائی،اور تقدیر الٰہی ملاحظہ ہوکہ اسی جگہ دفن کی گئیں جہاں برسوں پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے ساتھ شب عروسی منائی تھی۔[41]

سریہ اخرم بن ابی العوجاآ سلمی رضی اللہ عنہ (بنوسلیم کی طرف) ذوالحجہ سات ہجری

بنوسلیم جونجداورحجازکے کئی سومیل وسیع رقبے میں پھیلے ہوئے تھے، قبائل مضر(عدنان)کی شاخ قیس بن عیلان بن مضرکی چوتھی نسل سلیم بن منصوربن عکرمہ بن خصفہ بن قیس سے منسوب تھے،جبکہ ہوزان بن منصوراورغطفان بن سعد بن قیس کے ہم نسل تھے،مدینے سے ہمسائیگی کے باوجودبنوسلیم اوربنوغطفان ہمیشہ مسلمانوں کے درپے آزار رہے حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پرداداہاشم کی ماں عاتکہ بنت مرہ بن ہلال بنوسلیم سے تھی،غزوہ بدرسے واپسی پررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنوسلیم کی ایک شاخ کوسزادینے کے لئے قرقرة الکدرتک کوچ فرمایاتھاجہاں ابن حزم رحمہ اللہ کے مطابق بنوسلیم اورغطفان مدینہ پرچھاپہ مارنے کی تیاریاں کررہے تھے ،تین ہجری میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم دوبارہ بحران تشریف لے گئے تھے،برمعونہ کاالمناک واقعہ بھی بنوسلیم کے علاقہ میں پیش آیاتھا،غزوہ احزاب میں شمال ومشرق سے غطفان اوربنوسلیم بھی مدینہ پرچڑھ دوڑے تھے۔

عمرة القضا سے واپس آنے کے بعدآپ صلی اللہ علیہ وسلم ذوالحجہ ،محرم اورصفر،ربیع الاول اورربیع الآخرپانچ مہینے مدینہ منورہ میں مقیم رہے

رَجَعَ فِی ذِی الْحِجَّةِ مِنْ سَنَةِ سَبْعٍ ،قَالُوا: بَعَثَ رَسُول اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ ابن أَبِی العوجاء السُّلمَی فِی خَمْسِینَ رَجُلا إِلَى بَنِی سُلَیْمٍ ،فَخرج إلیهم وتقدمها عَیْنُ لهم كَانَ معه فحذرهم فجمعوا فأتاهم ابْنُ أَبِی الْعَوْجَاءِ. وهم مُعِدُّونَ لَهُ. دَعَوْهُمْ إِلَى الْإِسْلَامِ، فقالوا: لَا حَاجَةَ لَنَاإِلَى مَا دعوتنا فَتَرَامَوْا بِالنَّبْلِ سَاعَةً، وَجَعَلَتِ الأَمْدَادُ تَأْتِی حَتَّى أَحْدَقُوا بِهِمْ مِنْ كُلِّ جَانِبٍ،فَقَاتَلَ الْقَوْمُ قِتَالًا شَدِیدًا حَتَّى قُتِلَ عَامَّتُهُمْ وَأُصِیبَ ابْنُ أَبِی الْعَوْجَاءِ جَرِیحًا مَعَ الْقَتْلَى ثُمَّ تَحَامَلَ حَتَّى بَلَغَ رَسُولَ الله صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فقدموا الْمَدِینَةَ فِی أَوَّلِ یَوْمٍ مِن صَفَرٍ سَنَةَ ثمان

اورذوالحجہ سات ہجری میں ابن ابوالعوجاء رضی اللہ عنہ کو پچاس صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا ایک دستہ دے کربنوسلیم کودعوت اسلام دینے کے لئے روانہ فرمایا، بنی سلیم کے ایک جاسوس نے جو ابن ابوالعوجاء کے ساتھ تھانے آگے بڑھ کران لوگوں کوآگاہ کردیاان لوگوں نے لڑنے کے لیے ایک جماعت تیارکرلی جب ابن ابوالعوجاء ان کے پاس پہنچے تووہ لوگ لڑنے کے لیے بالکل تیارتھے،مسلمانوں نے بنوسلیم کوبڑے اچھے طریقہ سے دعوت اسلام پیش کی، مگرانہوں نے اس کے جواب میں کہاتم ہمیں جس چیزکی دعوت دیتے ہوہمیں اس کی کوئی ضرورت نہیں ، انہوں نے تھوڑی دیرتیزاندازی کی مگرمشرکین کومددپہنچ گئی اورانہوں نے مسلمانوں کو چاروں طرف سے گھیرکرکر تیر اندازی شروع کردی، مسلمان بڑی بہادری سے لڑے اوران کے اکثرساتھی شہیدہوگئے،دستہ کے امیربھی زخموں کی وجہ سے نیم جاں ہوگئے تھے وہ انہیں مردہ سمجھ کر چھوڑگئے،بعدمیں وہ بڑی مصیبت ومشقت برداشت کرکے یکم صفرکو رسول اللہ تک پہنچے۔[42]

شان نزول سورۂ التحریم:

اس سورۂ کے شان نزول میں دوواقع بیان کیے جاتے ہیں ،پہلاواقعہ یہ ہے کہ صلح حدیبیہ کے بعدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اطراف ونواح کے بادشاہوں کودعوت اسلام کے خطوط ارسال کیے تھے ،ایساہی ایک نامہ مبارک حاطب بن ابی بلتعہ لیکررومی بطریق مقوقس کے پاس لے کرگئے تھے ،مقوقس نے اسلام کی دعوت توقبول نہیں کی مگراسلامی سفیرکے ساتھ حسن سلوک سے پیش آیا

وَكَتَبَ إِلَى النبی صَلَّى اللهُ عَلَیه وَسَلَّم : قَدْ عَلِمْتُ أَنَّ نَبِیًّا قَدْ بَقِیَ وَكُنْتُ أَظُنُّ أَنَّهُ یَخْرُجُ بِالشَّامِ. وَقَدْ أَكْرَمْتُ رَسُولَكَ. وَبَعَثْتُ إِلَیْكَ بِجَارِیَتَیْنِ لَهُمَا مَكَانٌ فِی الْقِبْطِ عَظِیمٌ

اورجواب میں لکھاکہ مجھے معلوم ہے کہ ایک نبی کا آناابھی باقی ہے لیکن میراخیال یہ ہے کہ وہ شام میں نکلے گاتاہم میں آپ کے سفیرکے ساتھ عزت واحترام کے ساتھ پیش آیاہوں اورآپ کی خدمت میں دولڑکیاں بھیج رہا ہوں جوقبطیوں میں بڑامرتبہ رکھتی ہیں ۔[43]

فعرض حاطب بن أبی بلتعة على ماریة الإسلام ورغبها فیه فأسلمت، وأسلمت أختها

ان میں ایک لڑکی کانام سیرین اوردوسری کاماریہ تھا،مصرسے واپسی پرحاطب بن ابی بلتعہ نے دونوں لڑکیوں کودعوت اسلام پیش کی جسے انہوں نے قبول کرلیا۔[44]

اهدى المقوقص الْقِبْطِیُّ إِلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیه وَسَلَّم جَارِیَتَیْنِ أُخْتَیْنِ إِحْدَاهُمَا مَارِیَّةُ أُمُّ إِبْرَاهِیمَ بن رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیه وَسَلَّم، وَالأُخْرَى وَهَبَهَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیه وَسَلَّم لِحَسَّانِ بْنِ ثَابِتٍ وَهِیَ أُمُّ عَبد الرَّحْمَنِ بْنِ ثَابِتٍ وَأَهْدَى لَهُ بَغْلَةً فَقَبِلَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیه وَسَلَّم ذَلِكَ مِنْهُ

مقوقس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہدیہ میں دو لڑکیاں دیں ،جب یہ دونوں لڑکیاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش ہوئیں توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک لڑکی سرین شاعررسول حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ کی ملک یمین میں دے دیاجن سے عبدالرحمٰن بن ثابت پیداہوئے اورام المومنین ماریہ قبطیہ رضی اللہ عنہا کوجوایک نہایت حسین وجمیل خاتون تھیں اپنے حرم میں داخل کر لیا اور خچر بھی ہدیہ میں بھیجا جس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبول فرما لیا تھاانہی کے بطن سے ذی الحجہ آٹھ ہجری میں ابراہیم پیداہوئے تھے ۔[45]

ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کاقول ہے کہ مجھے کسی عورت کاآنااس قدرناگوارنہیں ہوا جتنا ماریہ قبطیہ کاآناہواتھاکیونکہ وہ حسین وجمیل تھیں اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوبہت پسند آئی تھیں

كَانَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فِی بَیْتِ حَفْصَةَ فَزَارَتْ أَبَاهَا، فَلَمَّا رَجَعَتْ أَبْصَرَتْ مَارِیَةَ فِی بَیْتِهَا مَعَ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَلَمْ تَدْخُلْ حَتَّى خَرَجَتْ مَارِیَةُ ثُمَّ دَخَلَتْ، فَلَمَّا رَأَى النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فِی وَجْهِ حَفْصَةَ الْغَیْرَةَ وَالْكَآبَةَ قَالَ لَهَا: لَا تُخْبِرِی عَائِشَةَ وَلَكِ عَلَیَّ أَنْ لَا أَقَرَبُهَا أَبَدًا فَأَخْبَرَتْ حَفْصَةُ عَائِشَةَ

ایک روزرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ام المومنین حفصہ رضی اللہ عنہا کے حجرے میں تشریف لے گئے مگراس وقت وہ گھرپرموجودنہ تھیں ،اسی اثنامیں ام المومنین ماریہ رضی اللہ عنہا وہیں آگئیں اورتنہائی میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہیں ، اتفاق سے انہی کی موجودگی میں حفصہ رضی اللہ عنہا آگئیں ، انہیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اپنے گھرمیں خلوت میں دیکھناناگوارگزراجسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی محسوس فرمایا جس وجہ سے ام المومنین حصفہ رضی اللہ عنہا ام المومنین ماریہ رضی اللہ عنہا کی موجودگی تک اپنے حجرے میں داخل نہ ہوئیں ،جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ناگوارگی کے اثرات ام المومنین حفصہ کے چہرے پر دیکھے تو انہیں مخاطب کر کے کہا کہ ام المومنین عائشہ کو نہیں بتانا اس پرآپ نے انکی دل جوئی کے لئے ان سے یہ عہدکرلیاکہ آئندہ ام المومنین ماریہ رضی اللہ عنہا قبطیہ سے کوئی ازواجی تعلق نہیں رکھیں گےاب تم اس واقعہ کاکسی سے ذکرنہ کرنامگرام المومنین حفصہ رضی اللہ عنہا نےنے ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کواس واقعہ کی خبردے دی۔[46]

بعض روایات میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ام المومنین ماریہ قبطیہ رضی اللہ عنہا کو اپنے اوپرحرام کرلیا،بعض روایات میں ہے کہ آپ نے اس پرقسم بھی کھائی تھی ،

عَنْ أَنَسٍ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ كَانَتْ لَهُ أَمَةٌ یَطَؤُهَا، فَلَمْ تَزَلْ بِهِ عَائِشَةُ وَحَفْصَةُ حَتَّى حَرَّمَهَا فَأَنْزَلَ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ {یَا أَیُّهَا النَّبِیُّ لِمَ تُحَرِّمُ مَا أَحَلَّ اللهُ لَكَ تَبْتَغِی مَرْضَاتَ. . . .} [التحریم: 1] , إِلَى آخِرِ الْآیَةِ

انس رضی اللہ عنہ سے ایک روایت ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک لونڈی تھی جس سے آپ تمتع فرماتے تھے ، پھرام المومنین حفصہ رضی اللہ عنہا اورعائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے پڑگئیں یہاں تک کہ آپ نے اسے اپنے اوپرحرام کرلیااس پریہ آیت’’اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ، تم کیوں اس چیز کو حرام کرتے ہو جو اللہ نے تمہارے لیے حلال کی ہے (کیا اس لیے کہ ) تم اپنی بیویوں کی خوشی چاہتے ہو ؟ اللہ معاف کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے۔‘‘ نازل ہوئی۔[47]

دوسراواقعہ یوں ہے

عَنْ عَائِشَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یُحِبُّ العَسَلَ وَالحَلْوَاءَ ، وَكَانَ إِذَا انْصَرَفَ مِنَ العَصْرِ دَخَلَ عَلَى نِسَائِهِ، فَیَدْنُو مِنْ إِحْدَاهُنَّ، فَدَخَلَ عَلَى حَفْصَةَ بِنْتِ عُمَرَ، فَاحْتَبَسَ أَكْثَرَ مَا كَانَ یَحْتَبِسُ، فَغِرْتُ،فَسَأَلْتُ عَنْ ذَلِكَ، فَقِیلَ لِی: أَهْدَتْ لَهَا امْرَأَةٌ مِنْ قَوْمِهَا عُكَّةً مِنْ عَسَلٍ، فَسَقَتِ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مِنْهُ شَرْبَةً،فَقُلْتُ: أَمَا وَاللهِ لَنَحْتَالَنَّ لَهُ

ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم شہداورمیٹھی چیزیں پسندکرتے تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عصرکی نمازسے فارغ ہوکرجب واپس آتے توآپ اپنی ازواج کے پاس تشریف لے جاتے اوربعض سے قریب بھی ہوتے تھے،ایک دفعہ ایسا ہواکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ام المومنین حفصہ بنت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس تشریف لے گئے اورمعمول سے زیادہ دیران کے گھرٹھیرے رہے(صحیح مسلم میں ہے ام المومنین زینب رضی اللہ عنہا بنت جحش کے ہاں ٹھیراکرتے تھےح۳۶۷۸،اورسنن ابوداودمیں بھی زینب رضی اللہ عنہا بنت جحش کانام ہے ح۳۷۱۴) مجھے اس پرغیرت آئی، میں نے اس کے بارے میں دریافت کیاتومعلوم ہواکہ ام المومنین حفصہ رضی اللہ عنہا کوان کی قوم کی کسی خاتون نے شہدکاایک ڈبہ دیاہے اورانہوں نے اسی کاشربت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے پیش کیاہے، میں نے اپنے دل میں کہااللہ کی قسم !میں توایک حیلہ کروں گی،

فَقُلْتُ لِسَوْدَةَ بِنْتِ زَمْعَةَ: إِنَّهُ سَیَدْنُو مِنْكِ، فَإِذَا دَنَا مِنْكِ فَقُولِی: أَكَلْتَ مَغَافِیرَ فَإِنَّهُ سَیَقُولُ لَكِ: لاَ،فَقُولِی لَهُ: مَا هَذِهِ الرِّیحُ الَّتِی أَجِدُ مِنْكَ؟فَإِنَّهُ سَیَقُولُ لَكِ: سَقَتْنِی حَفْصَةُ شَرْبَةَ عَسَلٍ، فَقُولِی لَهُ: جَرَسَتْ نَحْلُهُ العُرْفُطَ، وَسَأَقُولُ ذَلِكِ، وَقُولِی أَنْتِ یَا صَفِیَّةُ ذَاكِ

پھرمیں نے ام المومنین سودہ بنت زمعہ رضی اللہ عنہا سے کہاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تمہارے پاس آئیں اورجب آئیں توکہناکہ معلوم ہوتاہے آپ نے مغافیرکھارکھاہے؟ظاہرہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے جواب میں انکارکریں گے،اس وقت کہناکہ پھریہ بوکیسی ہے جوآپ کے منہ سے معلوم کررہی ہوں ؟ اس پررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کہیں گے کہ ام المومنین حفصہ رضی اللہ عنہا نے شہدکاشربت مجھے پلایاہے، تم کہناکہ غالباًاس شہدکی مکھی نے مغافیرکے درخت کاعرق چوساہوگامیں بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہی کہوں گی،اور اے صفیہ رضی اللہ عنہا تم بھی یہی کہنا(نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بڑے لطیف مزاج اورنفاست پسندتھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کواس سے نفرت تھی کہ آپ کے جسم یاکپڑوں سے کسی قسم کی بری بوآئے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ خوشبوکوپسندفرماتے اورخوشبوکااستعمال رکھتے تھے،جدھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم گزرتے جاتے وہاں کے درودیوار معطر ہو جاتے ،ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے یہ صلاح اس لئے کی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ام المومنین حفصہ رضی اللہ عنہا یازینب رضی اللہ عنہا کے پاس جانااوروہاں ٹھہرناکم کر دیں )

قَالَتْ: تَقُولُ سَوْدَةُ: فَوَاللهِ مَا هُوَ إِلَّا أَنْ قَامَ عَلَى البَابِ، فَأَرَدْتُ أَنْ أُبَادِیَهُ بِمَا أَمَرْتِنِی بِهِ فَرَقًا مِنْكِ، فَلَمَّا دَنَا مِنْهَا قَالَتْ لَهُ سَوْدَةُ: یَا رَسُولَ اللهِ، أَكَلْتَ مَغَافِیرَ؟قَالَ:لاَ،قَالَتْ: فَمَا هَذِهِ الرِّیحُ الَّتِی أَجِدُ مِنْكَ؟قَالَ:سَقَتْنِی حَفْصَةُ شَرْبَةَ عَسَلٍ، فَقَالَتْ: جَرَسَتْ نَحْلُهُ العُرْفُطَ،فَلَمَّا دَارَ إِلَیَّ قُلْتُ لَهُ نَحْوَ ذَلِكَ، فَلَمَّا دَارَ إِلَى صَفِیَّةَ قَالَتْ لَهُ مِثْلَ ذَلِكَ

عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیاکہ سودہ رضی اللہ عنہا کہتی تھی کہ اللہ کی قسم !رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جونہی دروازے پرآکرکھڑے ہوئے توتمہارے خوف سے میں نے ارادہ کیاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے وہ بات کہوں جوتم نے مجھ سے کہی تھی (ام المومنین سودہ رضی اللہ عنہا حالانکہ عمرمیں عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہیں بڑی بلکہ بوڑھی تھیں مگرعائشہ رضی اللہ عنہا سے ڈرتی رہتی تھیں کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عنایت اور محبت عائشہ رضی اللہ عنہا پربہت تھی)چنانچہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سودہ رضی اللہ عنہا کے قریب تشریف لے گئے توانہوں نے کہااے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !کیاآپ نے مغافیرکھایاہے؟ (مغافیرایک قسم کاپھول ہوتاہے جس میں کچھ بساندہوتی ہے اوراگرشہدکی مکھی اس سے شہد حاصل کرے تو اس کے اندربھی اس بساندکااثرآجاتاہے)آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایانہیں ،انہوں نے کہاپھریہ بوکیسی ہے جوآپ کے منہ سے محسوس کرتی ہوں ؟رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاحفصہ رضی اللہ عنہا نے شہدکاشربت پلایاہے،اس پرسودہ رضی اللہ عنہا بولیں اس شہدکی مکھی نے مغافیرکے درخت کاعرق چوساہوگا، پھرجب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے یہاں تشریف لائے تومیں نے بھی یہی بات کہی، اس کے بعدجب صفیہ رضی اللہ عنہا کے یہاں تشریف لے گئے توانہوں نے بھی اسی کودہرایا

فَلَمَّا دَارَ إِلَى حَفْصَةَ قَالَتْ: یَا رَسُولَ اللهِ، أَلاَ أَسْقِیكَ مِنْهُ؟ قَالَ:لاَ حَاجَةَ لِی فِیهِ،قَالَتْ: تَقُولُ سَوْدَةُ: وَاللهِ لَقَدْ حَرَمْنَاهُ، قُلْتُ لَهَا: اسْكُتِی ،قَالَ:لاَ، وَلَكِنِّی كُنْتُ أَشْرَبُ عَسَلًا عِنْدَ زَیْنَبَ بِنْتِ جَحْشٍ، فَلَنْ أَعُودَ لَهُ، وَقَدْ حَلَفْتُ، لاَ تُخْبِرِی بِذَلِكَ أَحَدًا

اس کے بعدجب پھررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حفصہ رضی اللہ عنہا کے یہاں تشریف لے گئے توانہوں نے عرض کیااے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !وہ شہدپھرنوش فرمائیں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مجھے اس کی ضرورت نہیں ،عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیاکہ اس پرسودہ رضی اللہ عنہا بولیں اللہ کی قسم !ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوروکنے میں کامیاب ہوگئیں ، میں نےان سےکہاکہ ابھی چپ رہو،جب متعددبیویوں نے آپ سے کہاکہ آپ کے منہ سے مغافیرکی بوآتی ہے، توآپ نے فرمایانہیں ،میں نے توزینب رضی اللہ عنہا کے گھرشہدپیاہے اب قسم کھاتاہوں کہ نہ پیوں گایہ کسی سے مت کہنا۔

فَلَنْ أَعُودَ لَهُ، وَقَدْ حَلَفْتُ

ایک روایت میں ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااب میں ہرگزاسے نہ پیونگامیں نے قسم کھالی ہے۔

دوسری روایت میں صرف فَلَنْ أَعُودَ لَهُ کے الفاظ ہیں وَقَدْ حَلَفْتُ کاذکرنہیں ہے۔

واللہ لااشربہ

ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں اللہ کی قسم میں اسے نہ پیونگا۔[48]

پہلے واقعہ کو اکابراہل علم نے ناقابل اعتبارٹھیرایاہے ،امام نسائی رحمہ اللہ کہتے ہیں شہدکے معاملے میں عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث نہایت صحیح ہے اورام المومنین ماریہ رضی اللہ عنہا کوحرام کرلینے کا قصہ کسی عمدہ طریقہ سے نقل نہیں ہوا ہے ،قاضی عیاض رحمہ اللہ کہتے ہیں صحیح یہ ہے کہ یہ آیت ام المومنین ماریہ رضی اللہ عنہا کے معاملہ میں نہیں بلکہ شہدکے معاملہ میں نازل ہوئی ہے ،امام نووی رحمہ اللہ اورحافظ بدالدین عینی رحمہ اللہ بھی یہی کہتے ہیں ،حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ کہتے ہیں صحیح بات یہ ہے کہ یہ آیت شہدکواپنے اوپرحرام کرلینے کے بارے میں نازل ہوئی ہے ۔

مضامین سورةالتحریم

اس سورۂ میں مسلمانوں کوچنداہم ترین مسائل کی طرف متوجہ کیاہے۔

xاس سورۂ میں خاتم المعصومین سیدالانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں پیش آنے والے ایسے واقعہ کی طرف اشارہ ہے جوانبیائے علیہ السلام کی عصمت پرواضح دلیل ہے ، سورۂ کی پہلی آیت میں قانون بیان کیاگیاکہ حلال وحرام اورجائزوناجائزکی حدمقررکرنے کے قطعی اختیارات صرف اللہ تعالیٰ ہی کوہے،عام آدمی تودرکنار اللہ کے نبی کوبھی یہ اختیارنہیں کہ وہ اللہ کی حدود اورحلال وحرام کے احکام میں ازخودکوئی تبدیلی کرسکے۔

xانسانی معاشرے میں منصب نبوت انتہائی اہم اورنازک ہے،وہ عمل جوعام انسانی زندگی میں اہمیت کاحامل نہیں ہوتاایساعمل اگرنبی سے سرزدہوجائے تووہ قانون بن جاتا ہے ، اس لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے انبیاء کی زندگی پرایسی کڑی نگرانی رکھی گئی ہے کہ ان کاکوئی ادنیٰ اقدام بھی منشاء الٰہی سے ہٹاہوانہ ہواس لیے اگرنبی سے کوئی سہوہوجائے تو فوری طورپراس کی اصلاح کردی جاتی ہے۔

xکیونکہ نبی کی زندگی امت کے لیے نمونہ اورقابل اطاعت اسوہ ہوتی ہے،اورنبی کی عزت وتکریم ایمان کالازمی حصہ ہے ، اس لیے انبیاء کے اسوہ پر عمل کرنا اللہ تعالیٰ کی رضا اورخوشنودی کامظہر ہوتے ہیں ۔

x اللہ کادین بالکل بے لاگ ہے ،ہرمومن کاعمل ہی آخرت میں اس کے لیے جزاوسزاکاسبب بنتاہے کسی بڑی اورمعصوم ذات کے ساتھ نسبی تعلق آخرت میں مفیدثابت نہیں ہوسکتاجب تک کہ اسے ایمان اوراتباع رسول کی سندحاصل نہ ہو،اسی طرح کسی گناہ گاریابدکارآدمی کے گناہ اس کے اعزاء واقارب کے لیے نقصان دہ نہیں بشرطیکہ وہ لوگ اس کے گناہ میں اس کے ساتھ شریک یا معاون نہ ہوں ،اس کے لیے چارخواتین کے حالات بطورتمثیل کے پیش کیے گئے،نوح علیہ السلام اورلوط علیہ السلام کی ازواج کونبیوں کی بیویاں ہونے کے باوجوداس لیے جہنم کامستحق قرار دیا گیاکہ انہوں نے ایمان قبول نہیں کیاتھا،اورسرکش وباغی فرعون کی بیوی نے دعوت اسلام قبول کرکے اپنے لیے الگ راستہ منتخب کیا تو اس کوجنتی قراردیاگیا،اورمریم بنت عمران علیہاالسلام جنہوں نے ہرقسم کی آزمائش وابتلاء میں اللہ کی رضاکے سامنے سرتسلیم خم کیاتواللہ تعالیٰ نے ان کوخصوصی انعام سے نوازا اور بلندمرتبہ پرفائزفرمایا۔

xرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوکفارومشرکین کے ساتھ سختی اورشدت کامعاملہ کرنے کاحکم دیاگیا۔

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

شروع اللہ کے نام سے جو بیحد مہربان نہایت رحم والا ہے

یَا أَیُّهَا النَّبِیُّ لِمَ تُحَرِّمُ مَا أَحَلَّ اللَّهُ لَكَ ۖ تَبْتَغِی مَرْضَاتَ أَزْوَاجِكَ ۚ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَّحِیمٌ ‎﴿١﴾‏ قَدْ فَرَضَ اللَّهُ لَكُمْ تَحِلَّةَ أَیْمَانِكُمْ ۚ وَاللَّهُ مَوْلَاكُمْ ۖ وَهُوَ الْعَلِیمُ الْحَكِیمُ ‎﴿٢﴾(التحریم)
’’اے نبی ! جس چیز کو اللہ نے آپ کے لیے حلال کردیا ہے اسے آپ کیوں حرام کرتے ہیں ؟ (کیا) آپ اپنی بیویوں کی رضامندی حاصل کرنا چاہتے ہیں اور اللہ بخشنے والا اور رحم کرنے والا ہے، تحقیق کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے قسموں کو کھول ڈالنا مقرر کردیا ہے اور اللہ تمہارا کارساز ہے، وہی (پورے) علم والا، حکمت والا ہے۔‘‘

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیثیت ایک عام آدمی کی نہیں بلکہ اللہ کے رسول کی تھی اورآپ کے کسی چیزکواپنے اوپرحرام کرلینے سے یہ خطرہ پیداہوسکتاتھاکہ امت بھی اس شے کوحرام یاکم ازکم مکروہ سمجھنے لگے یاامت کے افرادیہ خیال کرنے لگیں کہ اللہ کی حلال کی ہوئی چیزکواپنے اوپرحرام کرلینے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے ، اس لئے اس فعل پر اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کومتنبہ فرمایااے نبی صلی اللہ علیہ وسلم !اللہ نے آ پ کواورآپ کی امت کوجن پاک وحلال چیزوں سے نوازا ہے اسے اپنی بیویوں کی خوشنودی اوردلداری کے لئے کیوں حرام کرتے ہو ،یہ فعل آپ کے اہم ترین ذمہ دارانہ منصب کے لحاظ سے مناسب نہیں ہے،یعنی حلال وحرام اورجائز و ناجائز کی حدمقررکرنے کااختیارصرف اللہ تعالیٰ ہی کوہے ، کسی انسان حتیٰ کہ نبی کوبھی یہ اختیارنہیں کہ وہ اللہ کی حدوداورحلال وحرام کے احکام میں ازخودکوئی تبدیلی کرسکے ،جیسے فرمایا

یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تُحَرِّمُوْا طَیِّبٰتِ مَآ اَحَلَّ اللهُ لَكُمْ وَلَا تَعْتَدُوْا۝۰ۭ اِنَّ اللهَ لَا یُحِبُّ الْمُعْتَدِیْنَ۝۸۷وَكُلُوْا مِمَّا رَزَقَكُمُ اللهُ حَلٰلًا طَیِّبًا۝۰۠ وَّاتَّقُوا اللهَ الَّذِیْٓ اَنْتُمْ بِهٖ مُؤْمِنُوْنَ۝۸۸ [49]

ترجمہ:اے لوگوجوایمان لائے ہو!جوپاکیزہ چیزیں اللہ نے تمہارے لئے حلال کی ہیں انہیں حرام نہ کرلواورحدسے تجاوزنہ کرو،اللہ کوزیادتی کرنے والے سخت ناپسند ہیں جوکچھ حلال وطیب رزق اللہ نے تم کودیاہے اسے کھاؤاوراس اللہ کی نافرمانی سے بچتے رہوجس پرتم ایمان لائے ہو۔

وَلَا تَــقُوْلُوْا لِمَا تَصِفُ اَلْسِنَتُكُمُ الْكَذِبَ ھٰذَا حَلٰلٌ وَّھٰذَا حَرَامٌ لِّتَفْتَرُوْا عَلَی اللهِ الْكَذِبَ۝۰ۭ اِنَّ الَّذِیْنَ یَفْتَرُوْنَ عَلَی اللهِ الْكَذِبَ لَا یُفْلِحُوْنَ۝۱۱۶ۭ [50]

ترجمہ:اوریہ جوتمہاری زبانیں جھوٹے احکام لگایاکرتی ہیں کہ یہ چیزحلال ہے اوروہ حرام تواس طرح کے حکم لگاکراللہ پرجھوٹ نہ باندھو،اللہ پرجھوٹے افترا باندھتے ہیں وہ ہرگزفلاح نہیں پایاکرتے ۔

اللہ تعالیٰ نے آپ کی اس لغزش کومعاف فرمادیاہے ،اللہ نے تم لوگوں کے لئے اپنی قسموں کی پابندی سے نکلنے کاطریقہ مقرر کر دیا ہےلہذا اب آپ کفارہ ادا کر کے قسم کی پابندی سے نکل جائیں ،جیسےفرمایا

لَا یُؤَاخِذُكُمُ اللهُ بِاللغْوِ فِیْٓ اَیْمَانِكُمْ وَلٰكِنْ یُّؤَاخِذُكُمْ بِمَا عَقَّدْتُّمُ الْاَیْمَانَ۝۰ۚ فَكَفَّارَتُهٗٓ اِطْعَامُ عَشَرَةِ مَسٰكِیْنَ مِنْ اَوْسَطِ مَا تُطْعِمُوْنَ اَهْلِیْكُمْ اَوْ كِسْوَتُهُمْ اَوْ تَحْرِیْرُ رَقَبَةٍ۝۰ۭ فَمَنْ لَّمْ یَجِدْ فَصِیَامُ ثَلٰــثَةِ اَیَّامٍ۝۰ۭ ذٰلِكَ كَفَّارَةُ اَیْمَانِكُمْ اِذَا حَلَفْتُمْ۝۰۝۸۹ [51]

ترجمہ:تم لوگ جو مہمل قسمیں کھالیتے ہوان پراللہ گرفت نہیں کرتامگرجوقسمیں تم جان بوجھ کر کھاتے ہوان پروہ ضرورتم سے مواخذہ کرے گا (ایسی قسم توڑنے کا)کفارہ یہ ہے کہ دس مسکینوں کووہ اوسط درجہ کاکھاناکھلاؤجوتم اپنے بال بچوں کوکھلاتے ہو،یاانہیں کپڑے پہناؤ ،یاایک غلام آزادکرواورجواس کی استطاعت نہ رکھتاہووہ تین دن کے روزے رکھے ،یہ تمہاری قسموں کا کفارہ ہے جب کہ تم قسم کھاکرتوڑدو۔

أَمَرَ اللهُ نَبِیَّهُ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَنْ یُكَفِّرَ یَمِینَهُ وَیُرَاجِعَ وَلِیدَتَهُ فَأَعْتَقَ رَقَبَةً

اللہ تعالیٰ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم فرمایا کہ اپنی قسم کا کفارہ ایک غلام آزاد کرکےرجوع کرلیں چنانچہ قسم توڑنے کے لئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کفارہ اداکیا۔[52]

اللہ ہی تمہاراآقااورتمہارے معاملات کی سرپرستی کرنے والاہے اورتمہارے دین ودنیاکے امورمیں تمہاری بہترین طریقے سے تربیت کرنے والاہے جس کے سبب سے تم سے شردورہوتاہے،اورجواحکام بھی اس نے دیے ہیں سراسرحکمت کوملحوظ رکھتے ہوئے دیے ہیں ۔

وَإِذْ أَسَرَّ النَّبِیُّ إِلَىٰ بَعْضِ أَزْوَاجِهِ حَدِیثًا فَلَمَّا نَبَّأَتْ بِهِ وَأَظْهَرَهُ اللَّهُ عَلَیْهِ عَرَّفَ بَعْضَهُ وَأَعْرَضَ عَن بَعْضٍ ۖ فَلَمَّا نَبَّأَهَا بِهِ قَالَتْ مَنْ أَنبَأَكَ هَٰذَا ۖ قَالَ نَبَّأَنِیَ الْعَلِیمُ الْخَبِیرُ ‎﴿٣﴾‏ إِن تَتُوبَا إِلَى اللَّهِ فَقَدْ صَغَتْ قُلُوبُكُمَا ۖ وَإِن تَظَاهَرَا عَلَیْهِ فَإِنَّ اللَّهَ هُوَ مَوْلَاهُ وَجِبْرِیلُ وَصَالِحُ الْمُؤْمِنِینَ ۖ وَالْمَلَائِكَةُ بَعْدَ ذَٰلِكَ ظَهِیرٌ ‎﴿٤﴾‏ عَسَىٰ رَبُّهُ إِن طَلَّقَكُنَّ أَن یُبْدِلَهُ أَزْوَاجًا خَیْرًا مِّنكُنَّ مُسْلِمَاتٍ مُّؤْمِنَاتٍ قَانِتَاتٍ تَائِبَاتٍ عَابِدَاتٍ سَائِحَاتٍ ثَیِّبَاتٍ وَأَبْكَارًا ‎﴿٥﴾‏(التحریم)
’’اور یاد کرو کہ جب نبی نے اپنی بعض عورتوں سے ایک پوشیدہ بات کہی، پس جب اس نے اس بات کی خبر کردی اور اللہ نے اپنے نبی کواس پر آگاہ کردیا تو نبی نے تھوڑی سی بات تو بتادی اور تھوڑی سی ٹال گئے، پھر جب نبی نے اپنی اس بیوی کو یہ بات بتائی تو وہ کہنے لگی اس کی خبر آپ کو کس نے دی؟ کہا سب جاننے والے پوری خبر رکھنے والے اللہ نے مجھے یہ بتلایا ہے ،(اے نبی کی دونوں بیویو ! ) اگر تم دونوں اللہ کے سامنے توبہ کرلو (تو بہت بہتر ہے) یقیناً تمہارے دل جھک پڑے ہیںاور اگر تم نبی کے خلاف ایک دوسرے کی مدد کرو گی پس یقیناً اس کا کار ساز اللہ ہے اور جبرائیل ہیںاور نیک اہل ایمان اور ان کے علاوہ فرشتے بھی مدد کرنے والے ہیں، اگر وہ (پیغمبر) تمہیں طلاق دے دیں تو بہت جلد انہیں ان کا رب ! تمہارے بدلے تم سے بہتر بیویاں عنایت فرمائے گا، جو اسلام والیاں،اللہ کے حضورجھکنے والیاں، توبہ کرنے والیاں، عبادت بجا لانے والیاں، روزے رکھنے والیاں ہوں گی، بیوہ اور کنواریاں۔‘‘

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیوی سے کوئی رازکی بات کہی مگران سے یہ غلطی ہوئی کہ اپنے شوہرکے رازکو راز رکھنے کے بجائے دوسری بیوی پرافشاکردیا ،یہ بیوی کون تھیں اور کس پر رازظاہرکیاتھا عبداللہ بن عباس کی روایت کے مطابق وہ ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا اورحفصہ رضی اللہ عنہا تھیں ،

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: لَمْ أَزَلْ حَرِیصًا عَلَى أَنْ أَسْأَلَ عُمَرَ عَنِ الْمَرْأَتَیْنِ مِنْ أَزْوَاجِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ اللتَیْنِ، قَالَ اللَّهُ تَعَالَى: {إِنْ تَتُوبَا إِلَى اللَّهِ فَقَدْ صَغَتْ قُلُوبُكُمَا}[53] حَتَّى حَجَّ عُمَرُ وَحَجَجْتُ مَعَهُ، فَلَمَّا كَانَ بِبَعْضِ الطَّرِیقِ عدَل عُمَرُ وَعَدَلْتُ مَعَهُ بِالْإِدَاوَةِ، فَتَبَرَّزَ ثُمَّ أَتَانِی، فَسَكَبْتُ عَلَى یَدَیْهِ فَتَوَضَّأَ فَقُلْتُ: یَا أَمِیرَ الْمُؤْمِنِینَ، مَنِ الْمَرْأَتَانِ مِنْ أَزْوَاجِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، اللتَانِ قَالَ اللَّهُ تَعَالَى: {إِنْ تَتُوبَا إِلَى اللَّهِ فَقَدْ صَغَتْ قُلُوبُكُمَا}[54] ؟ فَقَالَ عُمَرُ: وَاعَجَبًا لَكَ یَا ابْنَ عَبَّاسٍ،قَالَ الزُّهْرِیُّ: كَرِهَ-وَاللهِ مَا سَأَلْتُهُ عَنْهُ وَلَمْ یَكْتُمْهُ، قَالَ: هِیَ حَفْصَةُ وَعَائِشَةُ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے میں ہمیشہ اس بات کی خواہش رکھتاتھاکہ سیدناعمر رضی اللہ عنہ سے ازواج مطہرات میں سے ان دوعورتوں کی بابت پوچھوں کہ وہ کون تھیں ، جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایاہے’’ اگرتم دونوں اللہ سے توبہ کرتی ہو(تویہ تمہارے لئے بہترہے)کیونکہ تمہارے دل سیدھی راہ سے ہٹ گئے ہیں ۔‘‘حتی کہ جب سیدناعمر رضی اللہ عنہ نے حج کیاتومیں بھی آپ کے ساتھ حج کیا،جب ایک دفعہ سیدناعمر رضی اللہ عنہ رستے سے الگ چلے گئے تومیں بھی پانی کابرتن لے کرآپ کے ساتھ ہوگیا،آپ نے حاجت کو پورا کیا اور پھر میرے پاس آئے تومیں نے آپ کے ہاتھوں پرپانی ڈالا تومیں نے عرض کی اے امیرالمومنین!ازواج مطہرات میں سے وہ دوعورتیں کون تھیں جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایاہے’’ اگرتم دونوں اللہ سے توبہ کرتی ہو(تویہ تمہارے لئے بہترہے)کیونکہ تمہارے دل سیدھی راہ سے ہٹ گئے ہیں ۔‘‘ سیدناعمر رضی اللہ عنہ نے فرمایاعبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما !تم پرتعجب ہے، زہری رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ واللہ!انہوں نے اس سوال کو اگرچہ ناپسندکیامگراس کے جواب کوچھپایانہیں ، انہوں نے فرمایاکہ ان دوعورتوں سے مرادام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا وحفصہ رضی اللہ عنہا ہیں ۔[55]

اللہ تعالیٰ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کوافشائے رازکی خبر دے دی تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ام المومنین حفصہ رضی اللہ عنہا پرسخت گیری یاتشددکاطریقہ اختیار نہیں فرمایابلکہ انہیں شرمندگی سے بچانے کے لئے نرمی سے کسی حدتک بتلا دیا کہ تم نے میرارازفاش کردیاہے تاہم اپنے حلم اورکرم کی بناپرساری بات بتانے سے اعراض فرمایا ،جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں افشائے رازکی یہ بات بتائی توام المومنین حفصہ رضی اللہ عنہا نے عالم حیرت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھاکہ آپ کویہ بات کس نے بتلائی (یعنی صحابہ وصحابیت کاعقیدہ تھاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کوہربات کاعلم ازخودنہیں ہوتاجب تک کہ اللہ تعالیٰ وہ علم عطانہ فرمادے ،بالفاظ دیگررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاعلم ذاتی نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کا عطا کردہ ہے)کیونکہ انہوں نے ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے علاوہ کسی کویہ بات نہیں بتلائی تھی اورعائشہ رضی اللہ عنہا سے انہیں یہ توقع نہیں تھی کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کوبتلادیں گی کیونکہ وہ شریک معاملہ تھیں ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایامجھے اس ہستی نے خبردی ہے جوعلام الغیوب ہے ،جودلوں کے چھپے بھید اور آنکھوں کی خیانت تک جانتاہے،

یَعْلَمُ خَاۗىِٕنَةَ الْاَعْیُنِ وَمَا تُخْفِی الصُّدُوْرُ۝۱۹ [56]

ترجمہ:اللہ نگاہوں کی چوری تک سے واقف ہے اور راز تک جانتا ہے جو سینوں نے چھپا رکھے ہیں ۔

چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ازواج مطہرات کے طرزعمل کی اصلاح کے لئے فرمایاکہ تمہارے دل راہ راست سے ہٹ گئے ہیں اس لئے تم دونوں کے لئے بہتریہی ہے کہ اپنی اس غلطی پراللہ سے مخلصانہ توبہ واستغفار کرو،اللہ تمہیں معاف فرمادے گا جیسےفرمایا

فَمَنْ تَابَ مِنْۢ بَعْدِ ظُلْمِهٖ وَاَصْلَحَ فَاِنَّ اللهَ یَتُوْبُ عَلَیْهِ۝۰ۭ اِنَّ اللهَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ۝۳۹ [57]

ترجمہ:پھرجوظلم کرنے کے بعدتوبہ کرے اوراپنی اصلاح کرلے تواللہ کی نظرعنایت پھراس پرمائل ہوجائے گی۔

ا ور اگر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابلہ میں تم دونوں نے اسی طرح کی کاروائیاں اورمظاہرے کرتی رہیں تو اپنا ہی نقصان کرو گی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کاکچھ نہیں بگاڑسکوگی کیونکہ اللہ اس کامولیٰ ہے اوراس کے بعدجبریل اور تمام صالح اہل ایمان اورسب ملائکہ اس کے ساتھی اور مددگار ہیں ،اورتنبیہ کے طورپرازواج مطہرات کوفرمایابعیدنہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تم سب کوطلاق دے دیں (یعنی دوسری ازواج مطہرات بھی کچھ قصور وارتھیں )تومعاملہ ان پرتنگ نہیں ہوگااورنہ وہ تمہارے محتاج ہی ہوں گے بلکہ اللہ اسے تمہارے بدلے میں ایسی بیویاں عطافرمادے جن میں یہ قابل تعریف صفات ہوں گی جوعورت کی عظمت کی دلیل ہیں ،وہ سچے دل سے اللہ وحدہ لاشریک اوراس کے رسول اوراس کے دین پرایمان رکھتی اور عملاً اپنے اخلاق معادات ،خصائل اوربرتاؤمیں اللہ کے دین کی پیروی کرنے والی ہوں گی،وہ اللہ اور اس کے رسول کی تابع فرمان اوراپنے شوہرکی اطاعت گزارہوں گی ، وہ اپنی کمزوریوں اورلغزشوں پرنادم ہوکرتوبہ کرنے والی ہوں گی ، وہ عبادت گزار یعنی حق والوں کاحق پہچانتی اور ادا کرنے والی ہوں گی،وہ فرض روزے رکھنے کے علاوہ اللہ کی رضا وخوشنودی حاصل کرنے کے لئے کثرت سے نفلی روزے رکھنے والی ہوں گی،اوران میں بیوہ اوربعض کنواری ہوں گی۔ بلاشبہ ازواج مطہرات یہ تمام صفات رکھتی تھیں ، یہاں ازواج مطہرات کوتنبیہ کرنے کا مقصدیہ ہے کہ جوطرز عمل تم نے اختیار کیا ہوا ہےاس سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو تکلیف ہورہی ہے چنانچہ اسے ترک کردواوراپنے اندریہ پاکیزہ صفات بدرجہ اتم پیداکرو۔جیسے فرمایا

۔۔۔اِنَّمَا یُرِیْدُ اللهُ لِیُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ اَهْلَ الْبَیْتِ وَیُطَهِّرَكُمْ تَطْهِیْرًا۝۳۳ۚ [58]

ترجمہ: اللہ تویہ چاہتاہے کہ تم اہل بیت نبی سے گندگی کودورکردے اورتمہیں پوری طرح پاک کر دے۔

چنانچہ جب ازواج مطہرات نے یہ تادیب سنی تووہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رضاجوئی کے لئے جلدی سے آگے بڑھیں ۔

 عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: وَاجْتَمَعَ نِسَاءُ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فِی الغَیْرَةِ عَلَیْهِ، فَقُلْتُ لَهُنَّ:عَسٰى رَبُّهٗٓ اِنْ طَلَّقَكُنَّ اَنْ یُّبْدِلَهٗٓ اَزْوَاجًا خَیْرًا مِّنْكُنَّ ، فَنَزَلَتْ هَذِهِ الآیَةُ

ان بیویوں کاقصور کیا تھا اس سلسلہ میں انس رضی اللہ عنہ کی روایت ہےسیدناعمر رضی اللہ عنہ نے فرمایاایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویاں جوش وخروش میں آپ کی خدمت میں اتفاق کرکے کچھ مطالبات لے کرحاضرہوئیں ، اس پرمیں نے ان سے کہاکہ بعیدنہیں کہ اللہ پاک تمہیں طلاق دلادیں اورتمہارے بدلے تم سے بہترمسلمہ بیویاں اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو عطافرما دے۔[59]

 عَنْ أَنَسٍ، قَالَ: وَبَلَغَنِی مُعَاتَبَةُ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بَعْضَ نِسَائِهِ، فَدَخَلْتُ عَلَیْهِنَّ، قُلْتُ: إِنِ انْتَهَیْتُنَّ أَوْ لَیُبَدِّلَنَّ اللهُ رَسُولَهُ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ خَیْرًا مِنْكُنَّ، حَتَّى أَتَیْتُ إِحْدَى نِسَائِهِ،قَالَتْ: یَا عُمَرُ، أَمَا فِی رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مَا یَعِظُ نِسَاءَهُ، حَتَّى تَعِظَهُنَّ أَنْتَ؟فَأَخَذَتْنِی وَاللهِ أَخْذًا كَسَرَتْنِی عَنْ بَعْضِ مَا كُنْتُ أَجِدُ فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ:{عَسَى رَبُّهُ إِنْ طَلَّقَكُنَّ أَنْ یُبْدِلَهُ أَزْوَاجًا خَیْرًا مِنْكُنَّ} [60]

ایک روایت میں انس رضی اللہ عنہ کے حوالہ سے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا بیان یوں نقل ہوا ہےمجھے خبر پہنچی کہ امہات المومنین اورنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان کچھ ناچاتی ہوگئی ہے اس پرمیں ان سے ایک ایک کے پاس گیااوران سے کہاکہ تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوتنگ کرنے سے بازآجاؤ ورنہ اللہ تعالیٰ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوتم سے بہتربیویاں عطافرما دے گا یہاں تک کہ جب میں امہات المومنین میں سے آخری (صحیح بخاری کتاب التفسیرسورة البقرة بَابُ وَاتَّخِذُوا مِنْ مَقَامِ إِبْرَاهِیمَ مُصَلًّى ۴۴۸۳ ، وکتاب التفسیرسورة التحریم بَابُ تَبْتَغِی مَرْضَاةَ أَزْوَاجِكَ۴۹۱۳ کی روایت کے بموجب ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا )کے پاس گیا، تو انہوں نے مجھے جواب دیااے عمر رضی اللہ عنہ ! کیارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عورتوں کی نصیحت کے لئے کافی نہیں ہیں کہ تم انہیں نصیحت کرنے چلے ہو؟اللہ کی قسم !انہوں نے میری ایسی گرفت کی کہ میرے غصہ کوٹھنڈاکرکے رکھ دیااور اس کے بعد اللہ تعالیٰ نےیہ آیت’’ بعید نہیں کہ اگر نبی تم سب بیویوں کو طلاق دے دے تو اللہ اسے ایسی بیویاں تمہارے بدلے میں عطا فرما دے جو تم سے بہتر ہوں ، سچی مسلمان، باایمان، اطاعت گزار، توبہ گزار ، عبادت گزار، اور روزہ دار، خواہ شوہر دیدہ ہوں یا باکرہ۔‘‘ نازل ہوئی۔[61]

حَدَّثَنِی عَبْدُ اللهِ بْنُ عَبَّاسٍ، حَدَّثَنِی عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ، لَمَّا اعْتَزَلَ نَبِیُّ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ نِسَاءَهُ، قَالَ: دَخَلْتُ الْمَسْجِدَ، فَإِذَا النَّاسُ یَنْكُتُونَ بِالْحَصَى، وَیَقُولُونَ: طَلَّقَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ نِسَاءَهُ، فَقُلْتُ: یَا رَسُولَ اللهِ، مَا یَشُقُّ عَلَیْكَ مِنْ شَأْنِ النِّسَاءِ؟ فَإِنْ كُنْتَ طَلَّقْتَهُنَّ، فَإِنَّ اللهَ مَعَكَ، وَمَلَائِكَتَهُ، وَجِبْرِیلَ، وَمِیكَائِیلَ، وَأَنَا، وَأَبُو بَكْرٍ، وَالْمُؤْمِنُونَ مَعَكَ، وَقَلَّمَا تَكَلَّمْتُ وَأَحْمَدُ اللهَ بِكَلَامٍ، إِلَّا رَجَوْتُ أَنْ یَكُونَ اللهُ یُصَدِّقُ قَوْلِی الَّذِی أَقُولُ، وَنَزَلَتْ هَذِهِ الْآیَةُ آیَةُ التَّخْیِیرِ: عَسَى رَبُّهُ إِنْ طَلَّقَكُنَّ أَنْ یُبْدِلَهُ أَزْوَاجًا خَیْرًا مِنْكُنَّ ،فَقُلْتُ: یَا رَسُولَ اللهِ أَطَلَّقْتَهُنَّ؟ قَالَ:لَا،فَقُمْتُ عَلَى بَابِ الْمَسْجِدِ، فَنَادَیْتُ بِأَعْلَى صَوْتِی، لَمْ یُطَلِّقْ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ نِسَاءَهُ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما ،سیدناعمر رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیویوں سے علیحدگی اختیار فرمائی تومیں مسجدنبوی میں پہنچا،دیکھا کہ لوگ متفکربیٹھے ہوئے کنکریاں اٹھااٹھا کر گرا رہے ہیں اور آپس میں کہہ رہے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیویوں کوطلاق دے دی ہے ، اس کے بعدسیدناعمر رضی اللہ عنہ نے ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا اورام المومنین حفصہ رضی اللہ عنہا کے ہاں اپنے جانے اوران کونصیحت کرنے کاذکر کیا،پھر فرمایاکہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضرہوااورعرض کیابیویوں کے معاملہ میں آپ کیوں پریشان ہوتے ہیں ؟اگرآپ ان کوطلاق دے دیں تو اللہ آپ کے ساتھ ہے، سارے ملائکہ اورجبریل ومیکائیل آپ کے ساتھ ہیں ،اورمیں اورسیدناابوبکر ا ور سب اہل ایمان آپ کے ساتھ ہیں ، میں اللہ کاشکربجالاتاہوں کہ کم ہی ایساہواہے کہ میں نے کوئی بات کہی ہواوراللہ سے یہ امیدنہ رکھی ہوکہ وہ میرے قول کی تصدیق فرما دے گا،چنانچہ اس کے بعدسورہ تحریم کی یہ آیات’’ بعید نہیں کہ اگر نبی تم سب بیویوں کو طلاق دے دے تو اللہ اسے ایسی بیویاں تمہارے بدلے میں عطا فرما دے جو تم سے بہتر ہوں ، سچی مسلمان، باایمان، اطاعت گزار، توبہ گزار، عبادت گزار، اور روزہ دار، خواہ شوہر دیدہ ہوں یا باکرہ۔‘‘ نازل ہوگئیں ،پھرمیں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !کیا آپ نے بیویوں کوطلاق دے دی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایانہیں ،اس پرمیں نے مسجدنبوی کے دروازے پرکھڑے ہوکر باآوازبلنداعلان کیاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیویوں کو طلاق نہیں دی ہے۔[62]

لِأَن أَزوَاجه صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ كن حزبین على مَا ذكرت عَائِشَة قَالَت: أَنا وَسَوْدَة وَحَفْصَة وَصفِیَّة فِی حزب، وَزَیْنَب وَأم سَلمَة والباقیات فِی حزب

حافظ بدالدین عینی رحمہ اللہ نے ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے حوالے سے روایت نقل کی ہےازواج مطہرات کی دو پارٹیاں بن گئی تھیں ایک میں ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا ،ام المومنین سودہ رضی اللہ عنہا ،ام المومنین حفصہ رضی اللہ عنہا اورام المومنین صفیہ رضی اللہ عنہا تھیں اور دوسری میں ام المومنین زینب رضی اللہ عنہا ،ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا اورباقی ازواج شامل تھیں ۔[63]

یَا أَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا قُوا أَنفُسَكُمْ وَأَهْلِیكُمْ نَارًا وَقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ عَلَیْهَا مَلَائِكَةٌ غِلَاظٌ شِدَادٌ لَّا یَعْصُونَ اللَّهَ مَا أَمَرَهُمْ وَیَفْعَلُونَ مَا یُؤْمَرُونَ ‎﴿٦﴾‏ یَا أَیُّهَا الَّذِینَ كَفَرُوا لَا تَعْتَذِرُوا الْیَوْمَ ۖ إِنَّمَا تُجْزَوْنَ مَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ ‎﴿٧﴾‏(التحریم)
’’اے ایمان والو ! تم اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو اس آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن انسان ہیں اور پتھر، جس پر سخت دل مضبوط فرشتے مقرر ہیں جنہیں جو حکم اللہ تعالیٰ دیتا ہے اس کی نافرمانی نہیں کرتےبلکہ جو حکم دیا جائے بجا لاتے ہیں، اے کافرو ! آج تم عذر و بہانہ مت کرو،تمہیں صرف تمہارے کرتوت کا بدلہ دیا جا رہا ہے۔‘‘

گھرکے سربراہ کی ذمہ داری :اے لوگوجوایمان لائے ہو!صرف اپنے آپ کوہی حقوق اللہ اورحقوق العباداداکرکے آگ سے بچانے کی کوشش نہ کرتے رہوبلکہ یہ بھی تمہاری ذمہ داری ہے کہ جس طرح تم انہیں دنیاوی آرام وآسائش مہیاکرتے ہواسی طرح آخروی فلاح ونجات کے لیے بھی اپنے اہل وعیال کو اسلامی تعلیمات سے آراستہ کرو اور انہیں نیک اعمال کی تلقین کرو،ان سے غفلت یاچشم پوشی نہ کروتاکہ وہ جہنم کی خوفناک آگ سے بچ جائیں جس کاایندھن انسان اور پتھر ہوں گے،جیسےفرمایا

اِنَّكُمْ وَمَا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللهِ حَصَبُ جَهَنَّمَ۝۰ۭ اَنْتُمْ لَهَا وٰرِدُوْنَ۝۹۸لَوْ كَانَ هٰٓؤُلَاۗءِ اٰلِهَةً مَّا وَرَدُوْهَا۝۰ۭ وَكُلٌّ فِیْهَا خٰلِدُوْنَ۝۹۹ [64]

ترجمہ:بیشک تم اور تمہارے وہ معبودجنہیں تم اللہ کوچھوڑکرپوجتے ہوجہنم کاایندھن ہیں وہیں تم کوجانا ہے اگریہ واقعی الٰہ ہوتے تووہاں نہ جاتے ۔

عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ مَسْعُودٍ، فِی قَوْلِهِ تَعَالَى: {وَقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ} قَالَ: هِیَ حِجَارَةٌ مِنْ كِبْرِیتٍ

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما آیت کریمہ’’جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہوں گے۔‘‘کے بارے میں کہتے ہیں یہ گندھک کے پتھرہوں گے۔[65]

عَنْ مُجَاهِدٍ، {فَاتَّقُوا النَّارَ الَّتِی وَقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ} قَالَ:حِجَارَةٌ أَنْتَنُ مِنَ الْجِیفَةِ مِنْ كِبْرِیتٍ

مجاہد رحمہ اللہ آیت کریمہ’’اس آگ سے ڈروجس کاایندھن انسان اورپتھرہوں گے۔‘‘ کے بارے میں کہتے ہیں گندھک کے یہ پتھرگلی سڑی لاش سے بھی زیادہ بدبودارہوں گے۔[66]

عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ الرَّبِیعِ بْنِ سَبْرَةَ، عَنْ أَبِیهِ، عَنْ جَدِّهِ، قَالَ: قَالَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:مُرُوا الصَّبِیَّ بِالصَّلَاةِ إِذَا بَلَغَ سَبْعَ سِنِینَ، وَإِذَا بَلَغَ عَشْرَ سِنِینَ فَاضْرِبُوهُ عَلَیْهَا

عبدالملک بن ربیع سے مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ جب بچہ سات سال کی عمرکوپہنچ جائے تواسے نمازکی تلقین کرواوردس سال کی عمرکے بچوں میں تساہل دیکھوتو انہیں سرزنش کرو۔[67]

فَقَالَ ابْنُ عُمَرَ: فَإِنِّی سَمِعْتُ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَقُولُ:كُلُّ رَاعٍ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِیَّتِهِ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سناہےتم میں سے ہر ایک راعی ہے اور ہر ایک اپنی رعیت کے معاملہ میں جواب دہ ہے۔[68]

جس کے انیس( ۱۹ )دروغہ نہایت ہیبت ناک،جسیم، تندخواور سخت گیرہیں ،اوران مکرم فرشتوں کی مدح فرمائی کہ وہ کبھی اللہ تعالیٰ کے حکم کی نافرمانی نہیں کرتے بلکہ اللہ انہیں جوحکم صادر فرماتاہے اس کے سامنے سرتسلیم خم کردیتے ہیں اور بغیر کسی پس وپیش کے فوری طور پر بجالاتے ہیں ، یعنی انہیں کسی مجرم کوجوبھی سزادینے کاحکم دیاجائے گااسے جوں کاتوں اورفوری طورپر نافذ کر دیں گے اور زرا بھی رحم دلی کا مظاہرہ نہیں کریں گے ،عِیَاذًا بِاللهِ مِنْهُمْ،

جہنمی جب جہنم میں داخل ہوجائیں گے تواللہ تعالیٰ سے معذرتیں کریں گے جیسے فرمایا

رَبَّنَآ اَخْرِجْنَا مِنْهَا فَاِنْ عُدْنَا فَاِنَّا ظٰلِمُوْنَ۝۱۰۷ [69]

ترجمہ: اے پروردگار!اب ہمیں یہاں سے نکال دے پھرہم ایساقصورکریں توظالم ہوں گے۔

۔۔۔ثُمَّ لَا یُؤْذَنُ لِلَّذِیْنَ كَفَرُوْا وَلَا هُمْ یُسْتَعْتَبُوْنَ [70]

ترجمہ: پھر کافروں کونہ حجتیں پیش کرنے کاموقع دیاجائے گانہ ان سے توبہ واستغفارہی کامطالبہ کیاجائے گا ۔

اللہ تعالیٰ ان کافروں سے فرمائے گاآج معذرتیں نہ کرو،عذرپیش کرنے کا وقت چلاگیااب تواعمال کی جزاوسزاکے سواکچھ باقی نہیں ،تم نے اللہ تعالیٰ کے انکار،اس کی آیات کی تکذیب اوراس کے رسولوں کے ساتھ جنگ کے سواکچھ آگے نہیں بھیجا چنانچہ جیسا عمل تم کرتے تھے اس کے مطابق تمہیں پورا پورا بدلہ دیاجارہاہےاس میں کمی بیشی یا ناانصافی نہیں کی گئی ہے،جیسے فرمایا

 وَاَنْ لَّیْسَ لِلْاِنْسَانِ اِلَّا مَا سَعٰى۝۳۹ۙ [71]

ترجمہ:اوریہ کہ انسان کے لئے کچھ نہیں ہے مگروہ جس کی اس نے سعی کی ہے۔

۔۔۔هَلْ تُجْزَوْنَ اِلَّا مَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ۝۹۰ [72]

ترجمہ: کیا تم لوگ اس کے سوا کوئی اور جزا پا سکتے ہو کہ جیسا کرو ویسا بھرو۔

۔۔۔هَلْ تُجْزَوْنَ اِلَّا بِمَا كُنْتُمْ تَكْسِبُوْنَ۝۵۲ [73]

ترجمہ:جوکچھ تم کماتے رہے ہواس کی پاداش کے سوااورکیابدلہ تم کودیاجا سکتا ہے ۔

یَا أَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا تُوبُوا إِلَى اللَّهِ تَوْبَةً نَّصُوحًا عَسَىٰ رَبُّكُمْ أَن یُكَفِّرَ عَنكُمْ سَیِّئَاتِكُمْ وَیُدْخِلَكُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِی مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ یَوْمَ لَا یُخْزِی اللَّهُ النَّبِیَّ وَالَّذِینَ آمَنُوا مَعَهُ ۖ نُورُهُمْ یَسْعَىٰ بَیْنَ أَیْدِیهِمْ وَبِأَیْمَانِهِمْ یَقُولُونَ رَبَّنَا أَتْمِمْ لَنَا نُورَنَا وَاغْفِرْ لَنَا ۖ إِنَّكَ عَلَىٰ كُلِّ شَیْءٍ قَدِیرٌ ‎﴿٨﴾(التحریم)
’’اے ایمان والو ! تم اللہ کے سامنے سچی خالص توبہ کرو، قریب ہے کہ تمہارا رب تمہارے گناہ دور کر دے اور تمہیں ایسی جنتوں میں داخل کرے جن کے نیچے نہریں جاری ہیں،جس دن اللہ تعالیٰ نبی کو اور ایمان داروں کو جو ان کے ساتھ ہیں رسوا نہ کرے گا، ان کا نور ان کے سامنے اور ان کے دائیں دوڑ رہا ہوگا، یہ دعائیں کرتے ہوں گے اے ہمارے رب! ہمیں کامل نور عطا فرما اور ہمیں بخش دے یقیناً تو ہر چیز پر قادر ہے۔‘‘

اے لوگوجوایمان لائے ہو!اللہ تعالیٰ سے اپنے گناہوں ،لغزشوں اورکوتاہوں کی خالص توبہ کرو،یعنی جس گناہ پرتوبہ کررہے ہواسے ترک کردو،اس پراللہ کی بارگاہ میں اظہار ندامت کرو،آئندہ نہ کرنے کاعزم کرو،اوراگراس کاتعلق حقوق العبادسے ہے توجس کاحق غصب کیاہے اس کاازالہ کرو،جس کے ساتھ زیادتی کی ہے اس سے معافی مانگو، قریب ہے کہ تمہارارب تمہارے گناہوں اورخطاؤں کومعاف فرمادے اورتمہیں ایسی انواع واقسام کی لازوال نعمتوں بھری جنتوں میں داخل فرمادے جن کے نیچے دودھ ، شہداور مختلف ذائقوں والی شرابوں کی نہریں جاری ہیں ،جیسے فرمایا

مَثَلُ الْجَنَّةِ الَّتِیْ وُعِدَ الْمُتَّقُوْنَ۝۰ۭ فِیْہَآ اَنْہٰرٌ مِّنْ مَّاۗءٍ غَیْرِ اٰسِنٍ۝۰ۚ وَاَنْہٰرٌ مِّنْ لَّبَنٍ لَّمْ یَتَغَیَّرْ طَعْمُہٗ۝۰ۚ وَاَنْہٰرٌ مِّنْ خَمْرٍ لَّذَّةٍ لِّلشّٰرِبِیْنَ۝۰ۥۚ وَاَنْہٰرٌ مِّنْ عَسَلٍ مُّصَفًّى۔۔۔ [74]

ترجمہ:پرہیز گاروں کے لیے جس جنت کا وعدہ کیا گیا ہے اس کی شان تو یہ ہے کہ اس میں نہریں بہہ رہی ہوں گی نتھرے ہوئے پانی کی ، نہریں بہہ رہی ہوں گی ایسے دودھ کی جس کے مزے میں ذرا فرق نہ آیا ہوگا ، ایسی شراب کی جو پینے والوں کے لیے لذیذ ہوگی ، نہریں بہہ رہی ہوں گی صاف شفاف شہد کی ۔

اللہ مالک یوم الدین اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اوران لوگوں کوجواس کے ساتھ ایمان لائے ہیں ان کے اعمال حسنہ کا اجر ضائع نہ کرے گا، جیسے فرمایا

۔۔۔اِنَّ اللہَ لَا یُضِیْعُ اَجْرَ الْمُحْسِـنِیْنَ۝۱۲۰ۙ [75]

ترجمہ:یقیناً اللہ کے ہاں محسنوں کا حق الخدمت مارا نہیں جاتا ہے ۔

اللہ تعالیٰ اہل ایمان کومیدان حشرسے پل صراط پرجانے سے پہلے جہاں ہرطرف گھپ اندھیرا ہوگا اپنی رحمت سےنورعطافرمائے گاجوان کے آگے آگے اوردائیں جانب دوڑ رہاہوگاجس کی تیزروشنی میں وہ اپنا راستہ سکون ووقارکے ساتھ طے کررہے ہوں گے مگرمنافقین کوجوروشنی ملی تھی عین ضرورت کے وقت ان سے چھین لی جائے گی اوروہ اندھیروں میں ٹھوکریں کھا رہے ہوں گے ،جب اہل ایمان منافقین کایہ حشردیکھیں گے تواپنے قصوروں اور اپنی کوتاہیوں کا احساس کرکے انہیں اندیشہ لاحق ہوگاکہ کہیں منافقین کی طرح ہمارانوربھی نہ چھین لیا جائے اورہم بھی ٹھوکریں کھاتے رہ جائیں اس لئے وہ اللہ تعالیٰ سے دعاکریں گے کہ اے ہمارے رب ! ہمارے قصور معاف فرمادے اورہمارے نورکو جنت میں پہنچنے تک باقی رکھ اوراس کااتمام فرما توہرچیزپرقدرت رکھتاہے،

عَنْ رَجُلٍ، مِنْ بَنِی كِنَانَةَ قَالَ: صَلَّیْتُ خَلْفَ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عَامَ الْفَتْحِ فَسَمِعْتُهُ، یَقُولُ:اللهُمَّ لَا تُخْزِنِی یَوْمَ الْقِیَامَةِ

بنوکنانہ کے ایک شخص سے مروی ہے میں نے فتح مکہ کے سال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے نمازاداکی تومیں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کویہ دعاکرتے ہوئے سنا’’اے اللہ !مجھے روزقیامت رسوانہ کرنا۔‘‘[76]

اللہ تعالیٰ ان کی دعاقبول فرمائے گااوران کے پاس جونوراوریقین ہوگا اس کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ انہیں انواع واقسام کی لازوال نعمتوں سے بھری جنتوں میں پہنچادے گا۔

یَا أَیُّهَا النَّبِیُّ جَاهِدِ الْكُفَّارَ وَالْمُنَافِقِینَ وَاغْلُظْ عَلَیْهِمْ ۚ وَمَأْوَاهُمْ جَهَنَّمُ ۖ وَبِئْسَ الْمَصِیرُ ‎﴿٩﴾‏ ضَرَبَ اللَّهُ مَثَلًا لِّلَّذِینَ كَفَرُوا امْرَأَتَ نُوحٍ وَامْرَأَتَ لُوطٍ ۖ كَانَتَا تَحْتَ عَبْدَیْنِ مِنْ عِبَادِنَا صَالِحَیْنِ فَخَانَتَاهُمَا فَلَمْ یُغْنِیَا عَنْهُمَا مِنَ اللَّهِ شَیْئًا وَقِیلَ ادْخُلَا النَّارَ مَعَ الدَّاخِلِینَ ‎﴿١٠﴾‏ وَضَرَبَ اللَّهُ مَثَلًا لِّلَّذِینَ آمَنُوا امْرَأَتَ فِرْعَوْنَ إِذْ قَالَتْ رَبِّ ابْنِ لِی عِندَكَ بَیْتًا فِی الْجَنَّةِ وَنَجِّنِی مِن فِرْعَوْنَ وَعَمَلِهِ وَنَجِّنِی مِنَ الْقَوْمِ الظَّالِمِینَ ‎﴿١١﴾‏ وَمَرْیَمَ ابْنَتَ عِمْرَانَ الَّتِی أَحْصَنَتْ فَرْجَهَا فَنَفَخْنَا فِیهِ مِن رُّوحِنَا وَصَدَّقَتْ بِكَلِمَاتِ رَبِّهَا وَكُتُبِهِ وَكَانَتْ مِنَ الْقَانِتِینَ ‎﴿١٢﴾‏(التحریم)
’’اے نبی ! کافروں اور منافقوں سے جہاد کرو اور ان پر سختی کروان کا ٹھکانا جہنم ہے اور وہ بہت بری جگہ ہے،اللہ تعالیٰ نے کافروں کے لیے نوح کی اور لوط کی بیوی کی مثال بیان فرمائی یہ دونوں ہمارے بندوں میں دو (شائستہ اور) نیک بندوں کے گھر میں تھیں، پھر ان کی انہوں نے خیانت کی پس دونوں (نیک بندے) ان سے اللہ کے (کسی عذاب کو) نہ روک سکے اور حکم دیا گیا (اے عورتوں) دوزخ میں جانے والوں کے ساتھ تم دونوں بھی چلی جاؤ، اور اللہ تعالیٰ نے ایمان والوں کے لیے فرعون کی بیوی کی مثال بیان فرمائی جبکہ اس نے دعا کی اے میرے رب ! میرے لیے اپنے پاس جنت میں مکان بنا اور مجھے فرعون سے اور اس کے عمل سے بچا اور مجھے ظالم لوگوں سے خلاصی دے، اور (مثال بیان فرمائی) مریم بنت عمران کی جس نے اپنے ناموس کی حفاظت کی پھر ہم نے اپنی طرف سے اس میں جان پھونک دی اور (مریم) اس نے اپنے رب کی باتوں اور اس کی کتابوں کی تصدیق کی اور عبادت گزاروں میں تھی۔‘‘

اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! کفاراورمنافقین جب ایسے کام کریں جوموجب حدہوں تو ان پرحدودالٰہی قائم کرو،یہ لاتوں کے بھوت ہیں اس لئے دعوت وتبلیغ میں ان کے ساتھ سختی اور احکام شریعت میں درشتی اختیارکریں ،کافروں اورمنافقوں کاابدی ٹھکانہ جہنم ہے جوبہت ہی براٹھکاناہے،ان کافروں کے حال کے لئے اللہ تعالیٰ نے ایک مثال بیان فرمائی ہے جونوح علیہ السلام اورلوط علیہ السلام کی بیوی کی ہے،یہ دونوں عورتیں ہمارے دونبیوں کے گھرمیں تھیں مگریہ دونوں عورتیں اپنے خاوندوں کے پاکیزہ کرداروعمل کا مشاہدہ کرنے کے باوجود ان پرایمان نہیں لائیں اوران کی ہمددیاں دشمنان دین کے ساتھ رہیں

أَمَّا امْرَأَةُ نُوحٍ فَكَانَتْ تُخْبِرُ أَنَّهُ مَجْنُونٌ،فَإِذَا آمَنَ مَعَ نُوحٍ أَحَدٌ أَخْبَرَتِ الْجَبَابِرَةَ مَنْ قَوْمِ نُوحٍ بِهِ، وَأَمَّا امْرَأَةُ لُوطٍ فَكَانَتْ إِذَا أَضَافَ لُوطٌ أَحَدًا أَخْبَرَتْ بِهِ أَهْلَ الْمَدِینَةِ مِمَّنْ یَعْمَلُ السُّوءَ

نوح علیہ السلام کی بیوی اپنے شوہرکے بارے میں اپنی قوم کے ہم نواہوکرکہتی کہ یہ مجنون (دیوانہ)ہے، اوراپنی قوم کے جباروں کورازداری اورپوشیدہ طورپرایمان لانے والوں کی خبریں پہنچایاکرتی تھی،اورلوط علیہ السلام کی بیوی اپنی قوم کے بداعمال لوگوں کوگھرمیں آنے والے مہمانوں کی اطلاع پہنچاتی تھی،بعض کہتے ہیں کہ وہ دونوں اپنی قوم کے لوگوں سے اپنے خاوندوں کی چغلیاں کھاتی تھیں ۔[77]

چنانچہ جب ایک وقت مقررہ پر ان کی قوموں پراللہ کاعذاب نازل ہواتو یہ دونوں پیغمبراپنی بیویوں کواللہ کے عذاب سے نہیں بچاسکے اورروزقیامت ان سے کہاجائے گاجہنم میں میں داخل ہونے والوں کے ساتھ تم بھی داخل ہوجاؤیعنی ازواج مطہرات کوتنبیہ کی گئی کہ وہ بے شک اس رسول کے حرم کی زینت ہیں جوتمام مخلوق میں سب سے بہترہے،لیکن انہیں یاد رکھنا چاہیے کہ اگرانہوں نے رسول کی مخالفت کی یاانہیں تکلیف پہنچائی تووہ بھی اللہ کی گرفت میں آسکتی ہیں اوراگرایساہوگیاتوپھرکوئی ان کابچانے والانہیں ہوگا،اوراللہ تعالیٰ نے ایمان والوں کے لئے فرعون کی بیوی آسیہ بنت مزاحم کی مثال بیان فرمائی جواپنے وقت کے سب سے بڑے کافرکے تحت تھی مگروہ اپنی بیوی کوایمان کی دولت حاصل کرنے سے نہ روک سکا،اس جرم میں اس نازک عورت پروحشانہ تشددہوامگراس نے شدائدپر صبرکیا اور ہر طرح کی ترغیب اورتشددپراستقامت فی الدین کا مظاہرہ کیا،کفرکی صولت وشوکت اس کاکچھ بھی نہ بگاڑ سکا،

قَالَ: قَتَادَةُ كَانَ فِرْعَوْنُ أَعْتَى أَهْلِ الْأَرْضِ وَأَبْعَدَهُ فَوَاللهِ مَا ضَرَّ امْرَأَتَهُ كُفر زَوْجِهَا حِینَ أَطَاعَتْ رَبَّهَا لِتَعْلَمُوا أَنَّ اللهَ حَكَمٌ عَدْلٌ، لَا یُؤَاخِذُ أَحَدًا إِلَّا بِذَنْبِهِ

قتادہ رحمہ اللہ کہتے ہیں فرعون تمام اہل زمین سے بڑاسرکش وکافرتھالیکن اس کی بیوی نے جب اللہ تعالیٰ کی اطاعت اختیارکرلی تواسے اس کے شوہرکے کفرنے کوئی نقصان نہ پہنچایاتاکہ لوگوں کویہ بات معلوم ہوجائے کہ اللہ تعالیٰ عادل حاکم ہے وہ ہرایک سے صرف اس کے گناہوں کامواخذہ کرتاہے کسی دوسرے کے گناہوں کامواخذہ نہیں کرتا۔[78]

عَنْ سَلْمَانَ، قَالَ: كَانَتِ امْرَأَةُ فِرْعَوْنَ تُعَذَّبُ بِالشَّمْسِ، فَإِذَا انْصَرَفَ عَنْهَا أَظَلَّتْهَا الْمَلَائِكَةُ بِأَجْنِحَتِهَاوَكَانَتْ تَرَى بَیْتَهَا فِی الْجَنَّةِ

سلمان سے روایت ہے کہ فرعون کی بیوی کودھوپ میں کھڑاکرکے ایذادی جاتی مگرجب فرعون انہیں دھوپ میں کھڑاکرکے چلاجاتاتوفرشتے اپنے پروں سے ان پرسایہ کر دیتے اوروہ جنت میں اپنے گھرکودیکھاکرتی تھیں ۔[79]

جب ظلم وستم حدسے بڑ گیاتووہ اپنے رب کی بارگاہ میں گڑگڑائیں کہ اے میرے رب !میرے لئے اپنے پاس جنت میں مکان بنادےاور فرعون جوبرے اعمال کرہاہے ان کے انجام بدمیں مجھے شریک نہ کر اور مجھے ظالم لوگوں کے فتنہ سے خلاصی دے ،چنانچہ اللہ نے ان کی دعاقبول فرمائی اورفرعون اپنے تمام ظلم وستم کے باوجودانہیں دین اسلام سے برگشتہ نہ کرسکا،اور اللہ نے مریم بنت عمران کی مثال بیان فرمائی جو ایک بگڑی ہوئی قوم کے درمیان رہتی تھی ، مگراس نے اپنی کامل دیانت،عفت اورپاکیزگی کی بناپرہرفحش کام سے اپنی شرم گاہ کی حفاظت کی ،یعنی اللہ تعالیٰ نے یہودیوں کے اس الزام کی تردیدفرمائی کہ ان کے بطن سے عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش (معاذاللہ) کسی گناہ کانتیجہ تھی،جیساکہ یہودیوں کے بہتان کے بارے میں فرمایا

وَّبِكُفْرِهِمْ وَقَوْلِـهِمْ عَلٰی مَرْیَمَ بُهْتَانًا عَظِیْمًا۝۱۵۶ۙ [80]

ترجمہ:پھراپنے کفرمیں یہ اتنے بڑھے کہ مریم پرسخت بہتان لگایا۔

پھراللہ تعالیٰ نے بغیراس کے کہ اس کاکسی مردسے تعلق ہوتامریم کے رحم میں اپنی طرف سے ایک جان ڈال دی اورمریم رب کے کلام اوراس کی کتابوں کی تصدیق کرنے والی اور خشیت اورخشوع کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی اطاعت پرمداومت کرنے والوں میں سے تھیں ،چنانچہ اللہ نے انہیں دنیاوآخرت میں شرف وکرامت سے سرفرازفرمایا،

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: أَفْضَلُ نِسَاءِ أَهْلِ الْجَنَّةِ: خَدِیجَةُ بِنْتُ خُوَیْلِدٍ، وَفَاطِمَةُ بِنْتُ مُحَمَّدٍ، وَآسِیَةُ بِنْتُ مُزَاحِمٍ امْرَأَةُ فِرْعَوْنَ، وَمَرْیَمُ ابْنَةُ عِمْرَانَ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جنتی عورتوں میں سب سے افضل ام المومنین خدیجہ رضی اللہ عنہا بنت خویلد،فاطمہ رضی اللہ عنہا بنت محمد،مریم بنت عمران اورفرعون کی بیوی آسیہ بنت مزاحم ہیں ۔[81]

عَنْ أَبِی مُوسَى رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:كَمَلَ مِنَ الرِّجَالِ كَثِیرٌ، وَلَمْ یَكْمُلْ مِنَ النِّسَاءِ إِلَّا مَرْیَمُ بِنْتُ عِمْرَانَ، وَآسِیَةُ امْرَأَةُ فِرْعَوْنَ ، وَفَضْلُ عَائِشَةَ عَلَى النِّسَاءِ كَفَضْلِ الثَّرِیدِ عَلَى سَائِرِ الطَّعَامِ

ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ اشعری سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مردوں میں تو کامل بہت ہوئے ہیں مگرعورتوں میں کامل صرف فرعون کی بیوی آسیہ ،مریم بنت عمران ہیں اور ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی فضیلت عورتوں پر ایسے ہے جیسے ثریدکوتمام کھانوں پرفضیلت حاصل ہے۔[82]

ان مثالوں سے یہ بات واضح ہوئی کہ ہرمومن کاعمل ہی آخرت میں اس کے لئے جزاو سزاکاسبب بنے گا،کسی بڑی اورمعصوم ذات کے ساتھ نسبی تعلق آخرت میں مفیدثابت نہیں ہوسکتاجب تک اسے ایمان اور اتباع رسول کی سندحاصل نہ ہو،اسی طرح کسی گناہ گاریابدکارآدمی کے گناہ اس کے اعزاء و اقارب کے لئے نقصان دہ نہیں بشرطیکہ وہ لوگ اس کے گناہ میں اس کے ساتھ شریک یامعاون نہ ہوں ۔

 

[1] صحیح مسلم کتاب فضائل القرآن بَابُ صَلَاةِ الْخَوْفِ۱۹۴۲،صحیح بخاری کتاب المغازی بَابُ غَزْوَةِ ذَاتِ الرِّقَاعِ۴۱۳۳،سنن ابوداودکتاب صلاة السفر بَابُ مَنْ قَالَ یُصَلِّی بِكُلِّ طَائِفَةٍ رَكْعَةً، ثُمَّ یُسَلِّمُ فَیَقُومُ كُلُّ صَفٍّ فَیُصَلُّونَ لِأَنْفُسِهِمْ رَكْعَةً ۱۲۴۳،جامع ترمذی ابواب السفربَابُ مَا جَاءَ فِی صَلاَةِ الخَوْفِ۵۶۴،صحیح ابن خزیمة۱۳۵۴،سنن الدارقطنی۱۷۷۵، المعجم الکبیرللطبرانی۱۳۱۱۴

[2] زادالمعاد۵۱۰؍۱

[3] مرعاة المفاتیح شرح مشكاة المصابیح۲؍۵

[4] زادالمعاد۳۲۱؍۳،شرح الزرقانی علی المواھب ۳۳۳؍۳، دلائل النبوة للبیہقی ۲۹۸؍۴،الروض الانف۵۲۲؍۷،عیون الاثر۱۹۴؍۲، تاریخ طبری۲۸؍۳،البدایة والنہایة۲۵۳؍۴،ابن سعد۹۵؍۲،السیرة النبویة لابن کثیر ۴۲۱؍۳

[5] ابن سعد۶۷؍۲،عیون الاثر۱۴۶؍۲

[6] زادالمعاد۳۱۸؍۳،واقدی مغازی۷۲۲؍۲، دلائل النبوة للبیہقی۲۹۲؍۴،عیون الاثر۱۸۸؍۲،البدایة والنہایة۲۵۱؍۴،شرح الزرقانی علی المواھب۳۰۴؍۳،ابن سعد ۸۹؍۲، السیرة النبویة لابن کثیر۴۱۸؍۳

[7] زادالمعاد۳۱۹؍۳،مغازی واقدی۷۲۳؍۲،دلائل النبوة للبیہقی۲۹۵؍۴،عیون الاثر۱۸۹؍۲،شرح الزرقانی علی المواھب ۳۰۵؍۳،ابن سعد۹۱؍۲

[8] زادالمعاد۳۱۹؍۳،مغازی واقدی ۷۲۴؍۲،دلائل النبوة للبیہقی۲۹۶؍۴،عیون الاثر۱۹۰؍۲

[9] صحیح بخاری کتاب المغازی بَابُ بَعْثِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أُسَامَةَ بْنَ زَیْدٍ إِلَى الحُرُقَاتِ مِنْ جُهَیْنَةَ ۴۲۶۹،دلائل النبوة للبیہقی۲۹۷؍۴

[10] تاریخ الإسلام ووفیات المشاهیر والأعلام۴۷۷؍۲

[11] صحیح بخاری کتاب المغازی بابُ سَرِیَّةِ عَبْدِ اللهِ بْنِ حُذَافَةَ السَّهْمِیِّ، وَعَلْقَمَةَ بْنِ مُجَزِّزٍ المُدْلِجِیِّ وَیُقَالُ إِنَّهَا سَرِیَّةُ الأَنْصَارِ۴۳۴۰، صحیح مسلم كِتَابُ الْإِمَارَةِ بَابُ وُجُوبِ طَاعَةِ الْأُمَرَاءِ فِی غَیْرِ مَعْصِیَةٍ، وَتَحْرِیمِهَا فِی الْمَعْصِیَةِ۴۷۶۶،مسنداحمد۱۰۱۸،زادالمعاد۳۲۵؍۳،البدایة والنہایة۲۵۸؍۴،دلائل النبوة للبیہقی۳۱۱؍۴،شرح الزرقانی علی المواھب۴۵؍۴

[12] دلائل النبوة للبیہقی۲۹۳؍۴،زادالمعاد۳۱۹؍۳، البدایة والنہایة۲۵۲؍۴

[13] ابن سعد۹۲؍۲، زاد المعاد۳۲۱؍۳،عیون الاثر۱۹۱؍۲،مغازی واقدی۷۲۸؍۲

[14] زادالمعاد ۳۲۱؍۳، دلائل النبوة للبیہقی۳۰۳؍۴،الروض الانف۵۴۳؍۷، عیون الاثر۲۱۰؍۲، البدایة والنہایة۲۵۵؍۴

[15]زادالمعاد۵۶۷؍۳،دلائل النبوة للبیہقی۳۸۰؍۵،البدایة والنہایة۱۰۰؍۵،

[16] مسنداحمد۲۰۰۳۷، مستدرک حاکم۸۷۷۴

[17] ابن سعد ۳۴۳؍۱، اسدالغابة۲۶۲؍۲

[18] البقرة۱۹۴

[19] معجم البلدان۴۲۴؍۵

[20] صحیح بخاری کتاب المغازی بَابُ عُمْرَةِ القَضَاءِ ۴۲۵۵

[21] ابن ہشام۳۷۰؍۲، ابن سعد۹۲؍۲،البدایة والنہایة۲۶۳؍۴،مغازی واقدی ۷۳۴؍۲

[22]۔ الشمائل المحمدیہ للترمذی ۲۰۳؍۱ ، السیرة الحلبیة ۹۴؍۳

[23] صحیح بخاری کتاب المغازی بَابُ عُمْرَةِ القَضَاءِ ۴۲۵۶

[24] مسنداحمد۲۶۸۶

[25] البدایة والنھایة۲۵۹؍۴،ابن ہشام ۳۷۱؍۲، الروض الانف۱۵۸؍۷،تاریخ طبری۲۴؍۳

[26] صحیح بخاری کتاب المغازی بَابُ عُمْرَةِ القَضَاءِ ۴۲۵۶

[27] مسنداحمد۲۶۳۹،صحیح مسلم کتاب الحج باب استعجاب استلام الرکتین الیمانین فی الطواف ۳۰۵۹،سنن ابوداودکتاب المناسک بَابٌ فِی الرَّمَلِ ۱۸۸۶

[28] الاستیعاب فی معرفة الاصحاب۹۳۱؍۳

[29] ابن سعد۳۳؍۵

[30]اسدالغابة۲۸۹؍۳

[31] تاریخ طبری۲۶۶؍۴

[32] ابن سعد ۳۳؍۵

[33] الاستیعاب فی معرفة اصحاب۹۳۳؍۳،تاریخ دمشق لابن عساکر۱۴۹؍۱۹،بغیة الطالب فی تاریخ حلب۳۹۲۱؍۹، تھذیب الکمال فی اسمائ الرجال۴۷۸؍۹،عیون الاثر۳۶۵؍۲

[34]البدایة والنہایة۲۶۱؍۴

[35] صحیح بخاری کتاب المغازی بَابُ عُمْرَةِ القَضَاءِ۴۲۵۱

[36] صحیح بخاری کتاب المغازی بَابُ عُمْرَةِ القَضَاءِ۴۲۵۱

[37] مغازی واقدی ۷۴۰؍۲، الروض الانف ۱۶۲؍۷،تاریخ طبری۲۵؍۳،ابن ہشام۶۴۶؍۲،عیون الاثر۳۷۵؍۲

[38] صحیح بخاری کتاب جَزَاءِ الصَّیْدِ بَابُ تَزْوِیجِ المُحْرِمِ۱۸۳۷

[39] زادالمعاد۳۲۹؍۳

[40] زادالمعاد۳۲۹؍۳

[41] زادالمعاد۳۲۸؍۳،دلائل النبوة للبیہقی ۳۱۴؍۴، البدایة والنہایة ۲۶۱؍۴

[42] ا بن سعد۹۴؍۲، البدایة والنہایة۲۶۸؍۴

[43] ابن سعد۲۰۰؍۱

[44] الاصابة فی تمیزالصحابة۳۱۱؍۸،ابن سعد۱۷۱؍۸

[45] مسندالبزار۴۴۲۳، الاستیعاب۳۱۴؍۱

[46] فتح القدیر۲۹۷؍۵

[47]السنن الکبری للنسائی۱۱۵۴۳

[48] صحیح بخاری کتاب التفسیرسورة تحریم بَابُ یَا أَیُّهَا النَّبِیُّ لِمَ تُحَرِّمُ مَا أَحَلَّ اللهُ لَكَ تَبْتَغِی مَرْضَاةَ أَزْوَاجِكَ وَاللهُ غَفُورٌ رَحِیمٌ۴۹۱۲ ،و کتاب الایمان والنذوربَابُ إِذَا حَرَّمَ طَعَامَهُ۶۶۹۱،وکتاب الطلاق بَابُ لِمَ تُحَرِّمُ مَا أَحَلَّ اللهُ لَكَ ۵۲۶۸،صحیح مسلم کتاب الطلاق بَابُ وُجُوبِ الْكَفَّارَةِ عَلَى مَنْ حَرَّمَ امْرَأَتَهُ، وَلَمْ یَنْوِ الطَّلَاقَ۳۶۷۹ ، سنن ابوداودکتاب الاشربة بَابٌ فِی شَرَابِ الْعَسَلِ۳۷۱۴

[49] المائدة۸۷،۸۸

[50] النحل۱۱۶

[51] المائدة۸۹

[52] فتح القدیر۲۹۸؍۵

[53] التحریم: 4

[54] التحریم: 4

[55] مسند احمد ۲۲۲،صحیح بخاری كِتَابُ النِّكَاحِ بَابُ مَوْعِظَةِ الرَّجُلِ ابْنَتَهُ لِحَالِ زَوْجِهَا۵۱۹۱، صحیح مسلم كِتَابُ الطَّلَاقِ بَابٌ فِی الْإِیلَاءِ، وَاعْتِزَالِ النِّسَاءِ، وَتَخْیِیرِهِنَّ وَقَوْلِهِ تَعَالَى: وَإِنْ تَظَاهَرَا عَلَیْهِ۳۶۹۵،جامع ترمذی أَبْوَابُ تَفْسِیرِ الْقُرْآنِ بَاب وَمِنْ سُورَةِ التَّحْرِیمِ ۳۳۱۸،السنن الکبری للنسائی۹۱۱۲

[56] المومن۱۹

[57] المائدة ۳۹

[58] الاحزاب۳۳

[59] صحیح بخاری کتاب الصلاة بَابُ مَا جَاءَ فِی القِبْلَةِ، وَمَنْ لَمْ یَرَ الإِعَادَةَ عَلَى مَنْ سَهَا، فَصَلَّى إِلَى غَیْرِ القِبْلَةِ ۴۰۲

[60] التحریم: 5

[61] تفسیرطبری۴۸۸؍۲۳

[62] صحیح بخاری کتاب التفسیرسورة التحریم بَابُ {تَبْتَغِی مَرْضَاةَ أَزْوَاجِكَ ۴۹۱۳، صحیح مسلم کتاب الطلاق بَابٌ فِی الْإِیلَاءِ، وَاعْتِزَالِ النِّسَاءِ، وَتَخْیِیرِهِنَّ وَقَوْلِهِ تَعَالَى وَإِنْ تَظَاهَرَا عَلَیْهِ۳۶۹۱

[63] عمدة القاری ۲۴۹؍۱۹

[64] الانبیاء ۹۸،۹۹

[65] تفسیرطبری۳۸۱؍۱،تفسیرابن ابی حاتم۶۴؍۱

[66] تفسیرابن ابی حاتم۶۴؍۱

[67] سنن ابو داود کتاب الصلاة بَابُ مَتَى یُؤْمَرُ الْغُلَامُ بِالصَّلَاةِ۴۹۴،جامع ترمذی کتاب الصلوٰة بَابُ مَا جَاءَ مَتَى یُؤْمَرُ الصَّبِیُّ بِالصَّلَاةِ ۴۰۷،المعجم الکبیر للطبرانی۶۵۴۷، معرفة السنن والآثار۵۷۲۲، مصنف ابن ابی شیبة۳۴۸۱،سنن الدارمی۱۴۷۱

[68] مسنداحمد ۵۸۶۹، السنن الکبری للنسائی ۹۱۲۸، المعجم الصغیرللطبرانی۶۶۹، المعجم الکبیرللطبرانی۱۳۲۸۴،شعب الایمان۱۰۵۵۲

[69] المومنون۱۰۷

[70] النحل۸۴

[71]النجم۳۹

[72] النمل۹۰

[73] یونس۵۲

[74]محمد۱۵

[75] التوبة۱۲۰

[76] مسنداحمد۱۸۰۵۶

[77] تفسیرابن کثیر۱۷۱؍۸

[78] تفسیرطبری۵۰۰؍۲۳

[79] تفسیر طبری ۵۰۰؍۲۳

[80] النسائ۱۵۶

[81] مسند احمد۲۶۶۸،السنن الکبری للنسائی ۸۲۹۷،صحیح ابن حبان۷۰۱۰،المعجم الکبیرللطبرانی۱۱۹۲۸، البدایة والنہایة۷۲؍۲

[82] صحیح بخاری کتاب بدء الخلق بَابُ قَوْلِ اللهِ تَعَالَى وَضَرَبَ اللهُ مَثَلًا لِلَّذِینَ آمَنُوا امْرَأَةَ فِرْعَوْنَ۳۴۱۱،وکتاب فضائل اصحاب النبیﷺبَابُ فَضْلِ عَائِشَةَ رَضِیَ اللهُ عَنْهَا۳۷۶۹،صحیح مسلم کتاب الفضائل الصحابة بَابُ فَضَائِلِ خَدِیجَةَ أُمِّ الْمُؤْمِنِینَ رَضِیَ اللهُ تَعَالَى عَنْهَا۶۲۷۲، مصنف ابن ابی شیبة۳۲۲۷۶، مسند احمد ۱۹۵۲۳

Related Articles