ہجرت نبوی کا ساتواں سال

قطع یدکے مسائل

عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ، أَنَّ رَجُلًا مِنْ مُزَیْنَةَ سَأَلَ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الثِّمَارِفَقَالَ:مَا أُخِذَ فِی أَكْمَامِهِ فَاحْتُمِلَ، فَثَمَنُهُ وَمِثْلُهُ مَعَهُ، ومَا كَانَ مِنَ الْجِرَانِ، فَفِیهِ الْقَطْعُ إِذَا بَلَغَ ذَلِكَ ثَمَنَ الْمِجَنِّ، وَإِنْ أَكَلَ وَلَمْ یَأْخُذْ، فَلَیْسَ عَلَیْهِ، قَالَ: الشَّاةُ الْحَرِیسَةُ مِنْهُنَّ یَا رَسُولَ اللهِ؟قَالَ:ثَمَنُهَا وَمِثْلُهُ مَعَهُ وَالنَّكَالُ، وَمَا كَانَ فِی الْمُرَاحِ، فَفِیهِ الْقَطْعُ، إِذَا كَانَ مَا یَأْخُذُ مِنْ ذَلِكَ ثَمَنَ الْمِجَنِّ

عبداللہ بن عمروبن العاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے قبیلہ مزینہ کے ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے درختوں پرلگی کھجوروں کے بارے میں پوچھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجوکوئی پھلوں کوان کے خوشوں میں درختوں پرسے لے جائے تواس پردوگنی قیمت ان پرلازم ہوگی، اورجوپھل خشک کرنے کے لئے جران ( کھلیان)میں ڈالے جائیں ان کے چرانے میں ہاتھ کاٹاجائے گاجب ڈھال کی قیمت (تین درہم)تک اس کی قیمت پہنچ جائے،ا اوراگرکوئی پھلوں میں سے کھالے لیکن اسے لے کرنہیں جائے تواس پرکچھ نہیں ہے (نہ ہاتھ کاٹاجائے گانہ جرمانہ دیناہوگا)وہ شخص بولااے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !اگرکوئی بکری (چراگاہ میں سے)حراست میں لی،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایادوگنی قیمت دے اورسزابھی پائے(جوامام مناسب سمجھے)اورجوکوئی بکری تھان (جہاں رات کوجانورآرام پاتے ہیں )میں سے لے جائے تواس کاہاتھ کاٹاجائے گاجب اس کی قیمت ڈھال کی قیمت کوپہنچ جائے۔[1]

ثابت ہواکہ جس چیزکوحفاظت میں لیاگیاہواگرچہ اس کے گرددیوارنہ ہواسے چرانے والے کاہاتھ کاٹا جائے گاجیساکہ غلے کے ڈھیراورجانوروں کے باڑوں سے چرانے والے کاہاتھ کاٹنے کاذکرہے۔

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللهُ عَنْهُمَا قَالَ:كَانَ ثَمَنُ الْمِجَنِّ فِی عَهْدِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یُقَوَّمُ عَشْرَةَ دَرَاهِمَ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ایک ڈھال کی قیمت دس درہم تھی۔[2]

عَنِ ابْنِ عُمَرَأَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَطَعَ فِی مِجَنٍّ ثَمَنُهُ ثَلَاثَةُ دَرَاهِمَ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ڈھال کی چوری میں ہاتھ کاٹاتھاجس کی قیمت تین درہم تھی۔[3]

عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ یَقُولُ:قَطَعَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فِی مِجَنٍّ قِیمَتُهُ خَمْسَةُ دَرَاهِمَ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ڈھال کے چرانے پرہاتھ کاٹاجس کی قیمت پانچ درہم تھی۔[4]

عَنْ أَنَسٍ قَالَ:قَطَعَ أَبُو بَكْرٍ رَضِیَ اللهُ عَنْهُ فِی مِجَنٍّ قِیمَتُهُ خَمْسَةُ دَرَاهِمَ

انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہےسیدناابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ نےایک ڈال کی چوری میں ہاتھ کاٹا جس کی قیمت پانچ درہم تھی۔[5]

 عَنْ عَائِشَةَ رَضِیَ اللهُ عَنْهَا، أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ كَانَ یَقْطَعُ فِی رُبُعِ دِینَارٍ فَصَاعِدًا

ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم چوتھائی دیناریااس سے زیادہ کی چوری میں چورکاہاتھ کاٹاکرتے تھے۔[6]

ثابت ہواکہ چور اگر کسی کے گھرکے علاوہ عام داخلے کی جگہ سے بھی چوری کرے تواس کاہاتھ کاٹاجائے گااس کے لئے بنددروازوں کوکھولنے کی ضرورت نہیں ہے ۔

اکثر علمااس بات کے قائل ہیں کہ ہاتھ کاٹنے کے لئے مسروقہ چیزکاحفاظت میں ہوناشرط ہے تاہم امام احمدبن حنبل رحمہ اللہ ،امام اسحاق اوراہل ظاہرکاکہناہے کہ یہ شرط نہیں ہے ،اس پروہ یہ دلیل دیتے ہیں ،

عَنْ صَفْوَانَ بْنِ أُمَیَّةَ، قَالَ: كُنْتُ نَائِمًا فِی الْمَسْجِدِ عَلَیَّ خَمِیصَةٌ لِی ثَمَنُ ثَلَاثِینَ دِرْهَمًا فَجَاءَ رَجُلٌ فَاخْتَلَسَهَا مِنِّی، فَأُخِذَ الرَّجُلُ،فَأُتِیَ بِهِ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَأَمَرَ بِهِ لِیُقْطَعَ، قَالَ: فَأَتَیْتُهُ، فَقُلْتُ: أَتَقْطَعُهُ مِنْ أَجْلِ ثَلَاثِینَ دِرْهَمًا، أَنَا أَبِیعُهُ وَأُنْسِئُهُ ثَمَنَهَا؟قَالَ:فَهَلَّا كَانَ هَذَا قَبْلَ أَنْ تَأْتِیَنِی بِهِ

صفوان رضی اللہ عنہ بن امیہ کہتے ہیں میں مسجدمیں سویاہواتھامجھ پرایک منقش اونی چادرتھی جس کی قیمت تیس درہم تھی،ایک آدمی آیااوراس نے چپکے سے مجھ سے بڑی جلدی سے نکال لی ، پھراس آدمی کوپکڑلیاگیااوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لایاگیاتوآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم فرمایاکہ اس کاہاتھ کاٹ دیاجائے،صفوان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضرہواورعرض کیا کہ کیابھلاصرف تیس درہم کے بدلے میں آپ اس کاہاتھ کاٹیں گے؟میں اسے اس کوفروخت کرتاہوں اورقیمت کی ادائیگی ادھارکرلیتاہوں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاتم نے اس کو میرے پاس لانے سے پہلے ایساکیوں نہ کیا۔[7]

وَأَمَّا جَعْلُ الْمَسْجِدِ حِرْزًا

لیکن یہ دلیل درست نہیں کیونکہ مسجدخودایک حفاظت کی جگہ ہے۔

خَمِیصَتَهُ تَحْتَ رَأْسِهِ

اس پرمستزادیہ کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہےوہ چادران کے سرکے نیچے تھی۔[8]

یعنی چادر حفاظت میں تھی لہذاثابت ہواکہ ہاتھ کاٹنے کے لئے کسی بھی چیزکی حفاظت میں ہوناشرط ہے۔

أَنَّهُ لَا یَجُوزُ الْقَطْعُ فِی سَرِقَةِ الثَّمَرِ وَالْكَثَرِ وَظَاهِرُهُ سَوَاءٌ كَانَ عَلَى ظَهْرِ الْمُنْبِتِ لَهُ أَوْ قَدْ جُذَّ، لَا قَطْعَ فِی طَعَامٍ وَلَا فِیمَا أَصْلُهُ مُبَاحٌ كَالصَّیْدِ وَالْحَطَبِ وَالْحَشِیشِ وَعُمْدَتُهُ فِی مَنْعِهِ الْقَطْعَ فِی الطَّعَامِ الرَّطْبِ، وَعِنْدَ الْجُمْهُورِ أَنَّهُ یُقْطَعُ فِی كُلِّ مُحَرَّزٍ سَوَاءٌ كَانَ عَلَى أَصْلِهِ بَاقِیًا وَقَدْ جُذَّ

احناف کہتے ہیں جوپھل ابھی درخت پرہوں اورترہوں وہ محفوظ جگہ میں ہوں یاغیرمحفوظ جگہ میں ان کی چوری میں ہاتھ کاٹنے کی سزانہیں ہے،پھراسی پرقیاس کرتے ہوئے انہوں نے کہاہے کہ گوشت ،دودھ ،مشروبات،روٹیاں وغیرہ جیسی کھانے کی اشیامیں بھی ہاتھ کاٹنے کی سزانہیں ہے،جمہورعلمایہ کہتے ہیں کہ ہرمحفوظ کی ہوئی چیزپرہاتھ کاٹنے کی سزاہے خواہ اسے کاٹ لیاگیا ہو یاابھی وہ درختوں پرہی موجودہو۔[9]

جمہورکاموقف برحق ہے کیونکہ گزشتہ تمام احادیث اس پرشاہدہیں ۔

وهذا المعنى یوجد بوجود ما یحرز الناس به أموالهم من الأبینة ونحوها على كل شیء بحسبه فحرز الثمرة ما یعتاده الناس فی الجرین وحرز الماشیة ما یعتاده الناس فی أعطان الإبل ومرابض الغنم ونحو ذلك،وحرز النقد والعرض ما یعتاده الناس من جعلها فی المنازل مع تغلیق أبوابها أو مع بقاء أهلها فیها وهكذا المدافن حرز لما فیها والقبور حرز لما فی داخلها إذا كانت قد أحرزت لما یعتاده الناس ولا سیما بعد ورود النص فی قطع النباش وهكذا المسجد ونحوه لجری عادة الناس بأنه حرز لما یجعل فیه من فرشه

امام شوکانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں حرزسے مرادہروہ چیز ہے جس میں مالک اپنی ملکیت کومحفوظ کرتاہے یاذخیرہ کرتاہے اوریہ ان تمام اشیاپرصادق آئے گا جنہیں لوگ عرف عام میں مختلف اشیاء کی حفاظت کے لئے استعمال کرتے ہیں مثلاًپھلوں کے لئے جرین(یعنی وہ ڈھیرجہاں غلے کوخشک کیاجاتاہے)مویشیوں کے لئے باڑے اور نقدی رقوم کے لئے خاص قفل لگی ہوئی جگہیں ،اسی طرح دفن کرنے کی جگہیں بھی ان اشیاکے لئے حرزہیں جو کچھ ان میں مدفون ہے،اورقبریں ان کے لئے حرزہیں جوان میں داخل ہیں اوراسی طرح مساجدان میں موجود صفوں ، چٹائیوں اور مختلف آلات مسجد کے لئے حرز ہیں ۔[10]

عَائِشَةَ، تُحَدِّثُ، أَنَّهَا سَمِعَتْ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَقُولُ:لَا تُقْطَعُ الْیَدُ إِلَّا فِی رُبْعِ دِینَارٍ فَمَا فَوْقَهُ

ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے میں نےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سناآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاربع دیناریااس سے زیادہ مالیت کی چیزمیں ہاتھ کاٹ دیا جائے ۔[11]

لَا تُقْطَعُ یَدُ السَّارِقِ إِلَّا فِی رُبْعِ دِینَارٍ فَصَاعِدًا

ایک روایت میں یہ لفظ ہیں چورکاہاتھ نہیں کاٹاجائے گامگر صرف ربع دینار یا اس سے زیادہ (مالیت کی چیز)میں ۔[12]

عَائِشَةَ، تَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: اقْطَعُوا فِی رُبُعِ دِینَارٍ، وَلَا تَقْطَعُوا فِیمَا هُوَ أَدْنَى مِنْ ذَلِكَ وَكَانَ رُبُعُ الدِّینَارِ یَوْمَئِذٍ ثَلَاثَةَ دَرَاهِمَ، وَالدِّینَارُ اثْنَیْ عَشَرَ دِرْهَمًا

ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاربع دینار میں ہاتھ کاٹ دو اس سے کم میں نہ کاٹو اوراس وقت ربع دینارتین درہم کے برابر تھا اور ایک دیناربارہ درہموں کے برابرتھا۔[13]

عَائِشَةَ تَقُولُ: لَا تُقْطَعُ یَدُ السَّارِقِ فِیمَا دُونَ ثَمَنِ الْمِجَنِّ ، قِیلَ لِعَائِشَةَ: مَا ثَمَنُ الْمِجَنِّ؟ قَالَتْ: رُبُعُ دِینَارٍ

ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاڈھال کی قیمت سے کم میں ہاتھ نہیں کاٹاجائے گا، ان سے پوچھا گیاڈھال کی قیمت کیاہے ؟فرمایاایک چوتھائی دینار۔[14]

عَنِ ابْنِ عُمَرَ،أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَطَعَ سَارِقًا فِی مِجَنٍّ قِیمَتُهُ ثَلَاثَةُ دَرَاهِمَ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کاہاتھ کاٹ دیااس نے ایک ڈھال چرائی تھی جس کی قیمت تین درہم تھی۔[15]

خلفائے اربعہ اورجمہورعلما کہتے ہیں تین درہم یاربع دینارکی چوری میں ہاتھ کاٹاجائے گا۔

أَنَّ النِّصَابَ الْمُوجِبَ لِلْقَطْعِ هُوَ عَشَرَةُ دَرَاهِمَ وَلَا قَطْعَ فِی أَقَلَّ مِنْ ذَلِكَ

احناف کہتے ہیں ہاتھ کاٹنے کانصاب دس درہم ہے اس سے کم میں ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا۔

اس مسئلے کے متعلق امام شوکانی رحمہ اللہ نے گیارہ مذاہب

وَقَدْ جَعَلَهَا فِی الْفَتْحِ عِشْرِینَ مَذْهَبًا

اورحافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے بیس مذاہب نقل فرمائے ہیں ۔[16]

بلاترددجمہورکاموقف گزشتہ صحیح احادیث کے موافق ہونے سے برحق ہے۔

سونے اورچاندی کے علاوہ دیگر اشیا کی قیمت ان دونوں میں سے کس کے ساتھ ملائی جائے گی اس میں اختلاف ہے ،امام مالک رحمہ اللہ کاموقف ہے کہ درہموں کے ساتھ قیمت لگائی جائے گی،جبکہ امام شافعی رحمہ اللہ کا موقف ہے کہ قیمت لگانے میں اصل سوناہے۔

xچورکاکون ساہاتھ کاٹاجائے گا۔

وإنما یقطع كف الیمنى من مفصله فإن ثنى غیر ما قطع به

امام شوکانی رحمہ اللہ کہتے ہیں صرف دایاں ہاتھ کاٹاجائے گااس کے بعددوسری مرتبہ چوری کرنے کی صورت میں نہ ہاتھ کاٹاجائے گااورنہ پاؤں ۔[17]

اتفق أهل العلم على أن السارق إذا سرق أول مرة؛ تقطع یده الیمنى، ثم إذا سرق ثانیا تقطع رجله الیسرى، واختلفوا فیما إذا سرق ثالثا بعد قطع یده ورجله؛ فذهب أكثرهم إلى أنه تقطع یده الیسرى ، ثم إذا سرق أیضا تقطع رجله الیمنى، ثم إذا سرق أیضا یعزر ویحبس ، وقال أبو حنیفة: لا تقطع یده الیسرى ورجله الیمنى؛ ولكن یعزر ویحبس

امام شافعی رحمہ اللہ کہتے ہیں اہل علم کااتفاق ہے کہ جب چورپہلی مرتبہ چوری کرے تواس کادایاں ہاتھ کاٹاجائے گاپھراگردوسری مرتبہ چوری کرے تواس کابایاں پاؤں کاٹاجائے گا پھر اگرتیسری مرتبہ چوری کرے تواکثراہل علم کے نزدیک اس کابایاں ہاتھ کاٹ دیا جائے گاپھراسی طرح اگروہ دوبارہ چوری کرتاہے تواس کادایاں پاؤں بھی کاٹ دیاجائے گااس کے بعدپھراگروہ چوری کرے تواسے سزادی جائے گی اورقیدکردیاجائے گاامام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کاموقف ہے کہ اس کابایاں ہاتھ اوردایاں پاؤں نہیں کاٹا جائے گالیکن اسے سزادی جائے گی اورقیدکردیاجائے گا۔[18]

عَنِ ابْنِ عُمَرَ: أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وأبا بكر وعمر وعثمان كانوا یقطعون من المفصل

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ،سیدناابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ ،سیدناعمرفاروق رضی اللہ عنہ اورسیدناعثمان غنی رضی اللہ عنہ چورکاہاتھ اس کے جوڑ (کلائی) سے کاٹتے تھے۔[19]

عَنْ عَدِیٍّ، أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَطَعَ یَدَ سَارِقٍ مِنَ الْمَفْصِلِ

عدی سے مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے چورکاہاتھ کلائی سے کاٹا۔[20]

ثُمَّ أَمَرَ بِقَطْعِهِ مِنَ الْمِفْصَلِ

صفوان بن امیہ رضی اللہ عنہ کے مقدمہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم فرمایاکہ چورکاہاتھ کلائی سے کاٹ دیاجائے۔[21]

عَنْ عِكْرِمَةَ:أَنَّ عُمَرَ قَطَعَ الْیَدَ مِنَ الْمَفْصِلِ

عکرمہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کلائی سے ہاتھ کاٹا۔[22]

عَنْ عَمْرِو بْنِ دِینَارٍ، قَالَ:كَانَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللهُ عَنْهُ یَقْطَعُ السَّارِقَ مِنَ الْمَفْصِلِ

عمروبن دینار رضی اللہ عنہ سے مروی ہےسیدناعمر رضی اللہ عنہ بن خطاب نے چورکاہاتھ کلائی سے کاٹا۔[23]

xحدنافذکرنے کے لئے ایک مرتبہ اقراریادوعادل آدمیوں کی گواہی کافی ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ڈھال چرانے والے شخص کودوبارہ اقرارکاحکم نہیں دیا۔[24]

اسی طرح صفوان رضی اللہ عنہ بن امیہ کی چادرچرانے والے کوبھی ایساکوئی حکم نہیں دیا۔[25]

عَنْ أَبِی أُمَیَّةَ الْمَخْزُومِیِّ،فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:مَا إِخَالُكَ سَرَقْتَ،قَالَ: بَلَى، فَأَعَادَ عَلَیْهِ مَرَّتَیْنِ أَوْ ثَلَاثًا

ابی امیہ مخزومی سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چورسے کہامیں خیال نہیں کرتاکہ تم نے چوری کی،اس نے کہاکیوں نہیں ،دومرتبہ یاتین مرتبہ، یہ تکرارہوا۔[26]

حكم الألبانی: ضعیف

وقد ذهب إلى أنه یكفی الإقرار مرة واحدة: مالك والشافعیة والحنفیة وَهُوَمَرْوِیٌّ عَنْ أَبِی یُوسُفَ إلَى أَنَّهُ یَكْفِی الْإِقْرَارُ مَرَّةً.

امام مالک رحمہ اللہ ،امام شافعی رحمہ اللہ اورامام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا موقف ہے کہ ایک مرتبہ اقرارہی کافی ہے۔امام احمدبن حنبل رحمہ اللہ اورامام ابویوسف رحمہ اللہ کاموقف ہےکم ازکم ایک مرتبہ اقرارلازم ہے۔[27]

والحق: هو الأول

لیکن پہلاقول راجح ہے۔[28]

ارشادباری تعالیٰ ہے

۔۔۔ وَّاَشْهِدُوْا ذَوَیْ عَدْلٍ مِّنْكُمْ۔۔۔۝۲ۙ [29]

ترجمہ:دوعادل شخصوں کوگواہ بنالو۔

xسزامعاف کرنے کے مجازشخص کی تلقین مستحب ہے۔

ادرءوا الحدود بالشبهات ما استطعتم

ایک روایت میں ہےشبہات پیداہوجانے کی وجہ سے حدودہٹادو۔[30]

یہ روایت ضعیف ہے۔

عَنْ أَبِی أُمَیَّةَ الْمَخْزُومِیِّ، أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، أُتِیَ بِلِصٍّ قَدِ اعْتَرَفَ اعْتِرَافًا وَلَمْ یُوجَدْ مَعَهُ مَتَاعٌ،فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: مَا إِخَالُكَ سَرَقْتَ،قَالَ: بَلَى، فَأَعَادَ عَلَیْهِ مَرَّتَیْنِ أَوْ ثَلَاثًافَأَمَرَ بِهِ فَقُطِعَ، وَجِیءَ بِهِ

ابوامیہ مخرومی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک چور لایا گیا اس نے اعتراف توکرلیالیکن اس سے کوئی سامان برآمدنہ ہوا،تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے کہا میں خیال نہیں کرتاکہ تونے چوری کی ہے،اس نے کہاکیوں نہیں دویاتین مرتبہ،پھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااس (کاہاتھ)کاٹ دوپھراسے لے کرآؤ۔[31]

قَالَ الْحَافِظُ فِی بُلُوغِ الْمَرَامِ: رِجَالُهُ ثِقَاتٌ

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں اس کے رجال ثقہ ہیں ۔[32]

عَطَاءً , یَقُولُ: كَانَ مَنْ مَضَى یُؤْتَى أَحَدُهُمْ بِالسَّارِقِ , فَیَقُولُ: أَسَرَقْتَ؟ قُلْ: لَا , أَسَرَقْتَ؟ قُلْ: لَا ،عِلْمِی أَنَّهُ سَمَّى أَبَا بَكْرٍ , وَعُمَرَ

امام عطاء رحمہ اللہ فرماتے ہیں جولوگ گزرچکے ہیں جب ان کے پاس کوئی چورلایاجاتاتووہ اسے کہتے تھے کیاتونے چوری کی ہے ؟کہہ دونہیں پھرانہوں نے سیدناابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اورسیدناعمرفاروق رضی اللہ عنہ کانام لیا۔[33]

عَنْ عِكْرِمَةَ بْنِ خَالِدٍ , قَالَ: أُتِیَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ بِرَجُلٍ فَسَأَلَهُ: أَسَرَقْتَ؟ قُلْ:لَا,فَقَالَ: لَا،فَتَرَكَهُ وَلَمْ یَقْطَعْهُ

عکرمہ بن خالد کہتے ہیں سیدناعمرفاروق رضی اللہ عنہ کے پاس ایک آدمی لایا گیا تو انہوں نے اس سے کہاکیاتونے چوری کی ہے کہہ دوکہ نہیں ،اس نے کہا نہیں تو آپ رضی اللہ عنہ نے اسے چھوڑدیا۔[34]

أَنَّ أَبَا هُرَیْرَةَ،أَنَّ أَبَا هُرَیْرَةَ، أُتِیَ بِسَارِقٍ وَهُوَ یَوْمَئِذٍ أَمِیرٌ، فَقَالَ: أَسَرَقْتَ؟ أَسَرَقْتَ؟ قُلْ: لَا قُلْ: لَا مَرَّتَیْنِ أَوْ ثَلَاثًا

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے پاس ایک چورکالایاگیااوراس دن وہ امیرتھے،آپ نے چورسے پوچھاکیاتم نے چوری کی ہے ؟کیاتم نے چوری کی ہے ؟کہہ دوکہ نہیں ،دومرتبہ یاتین مرتبہ ۔[35]

وَفِی ذَلِكَ دَلِیلٌ عَلَى أَنَّهُ یُسْتَحَبُّ تَلْقِینُ مَا یُسْقِطُ الْحَدَّ

امام شوکانی رحمہ اللہ کہتے ہیں اس میں یہ ثبوت موجودہے کہ ایسی تلقین کرناجوحدکوساقط کردے مستحب ہے۔[36]

x کاٹی ہوئی جگہ کاعلاج کیاجائے گا۔

فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: اذْهَبُوا بِهِ فَاقْطَعُوهُ ثُمَّ احْسِمُوهُ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک چورکے متعلق یہ حکم دیااسے لے جاؤاوراس کاہاتھ کاٹ کراسے داغ دو۔[37]

ضعیف روایت ہے۔

وَصَحَّحَ ابْنُ الْقَطَّانِ

امام ابن قطان رحمہ اللہ نے اسے صحیح کہاہے۔[38]

اگرچہ اس روایت میں ضعف ہے لیکن اگریہ عمل نہ کیاجائے توچورکی جان کاخطرہ ہے جسے بچاناتمام مسلمانوں کا اولین فریضہ ہے اوریہ خیرکے کام میں تعاون بھی ہے،جیسے فرمایا

۔۔۔ وَتَعَاوَنُوْا عَلَی الْبِرِّ وَالتَّقْوٰى۔۔۔ ۝۲ [39]

ترجمہ:نیکی اورتقویٰ کے کاموں میں ایک دوسرے کاتعاون کرو۔

وَأُجْرَةُ الْقَاطِعِ وَالْحَاسِمِ مِنْ بَیْتِ الْمَالِ وَقِیمَةُ الدَّوَاءِ الَّذِی یُحْسَمُ بِهِ

ہاتھ کاٹنے والے کواجرت اورداغنے والے کوادویہ وغیرہ کی قیمت بیت المال سے اداکی جائے گی۔[40]

xلوگوں کی عبرت کے لئے چورکاکاٹاہواہاتھ اس کی گردن میں لٹکادیاجائے گا۔

عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ مُحَیْرِیزٍ، قَالَ: سَأَلْنَا فَضَالَةَ بْنَ عُبَیْدٍ، عَنْ تَعْلِیقِ الْیَدِ فِی الْعُنُقِ لِلسَّارِقِ، أَمِنَ السُّنَّةِ هُوَ؟ قَالَ: أُتِیَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بِسَارِقٍ، فَقُطِعَتْ یَدُهُ، ثُمَّ أَمَرَ بِهَا، فَعُلِّقَتْ فِی عُنُقِهِ

عبدالرحمٰن بن محیریزسے مروی ہے ہم نےفضالہ بن عبید رضی اللہ عنہ سے پوچھاکہ کیاچورکاہاتھ اس کی گردن میں لٹکادیناسنت ہے؟ انہوں نے کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک چورلایاگیاتواس کاہاتھ کاٹ دیاگیا،پھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے ہاتھ کے متعلق حکم دیا اس کی گردن میں لٹکادیاگیا۔[41]

حكم الألبانی: ضعیف

فِیهِ دَلِیلٌ عَلَى مَشْرُوعِیَّةِ تَعْلِیقِ یَدِ السَّارِقِ فِی عُنُقِهِ لِأَنَّ فِی ذَلِكَ مِنْ الزَّجْرِ

اس کی مشروعیت کاسبب یہ بیان کیاگیاہے تاکہ لوگ عبرت حاصل کریں ۔[42]

عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِیهِ، أَنَّ عَلِیًّا، رَضِیَ اللهُ عَنْهُ أَنَّ عَلِیًّا رَضِیَ اللهُ عَنْهُ قَطَعَ سَارِقًا، فَمَرُّوا بِهِ وَیَدُهُ مُعَلَّقَةٌ فِی عُنُقِهِ

قاسم بن عبدالرحمٰن کہتے ہیں سیدناعلی رضی اللہ عنہ بن ابی طالب نے چورکاہاتھ کاٹاپھرجب لوگ اس کے پاس سے گزرے تواس کاہاتھ گردن میں لٹکاہواتھا۔[43]

xجس کی چوری ہوئی ہے وہ اگرحاکم کے پاس پہنچنے سے پہلے چورکومعاف کردے توحدساقط ہوجائے گی لیکن عدالت میں پہنچنے کے بعدنہیں ۔

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ،أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:تَعَافُّوا الْحُدُودَ فِیمَا بَیْنَكُمْ ، فَمَا بَلَغَنِی مِنْ حَدٍّ فَقَدْ وَجَبَ

عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاآپس میں حدودکومعاف کر دیا کرواورجومیرے پاس پہنچ جائے گی (سمجھ لو)کہ وہ واجب ہوگئی۔[44]

عَنْ صَفْوَانَ بْنِ أُمَیَّةَ، قَالَ: كُنْتُ نَائِمًا فِی الْمَسْجِدِ، وَقَالَ هَارُونُ: جَالِسًا فِی الْمَسْجِدِ عَلَى خَمِیصَةٍ ثَمَنُهَا ثَلَاثِینَ دِرْهَمًا فَجَاءَ رَجُلٌ فَاخْتَلَسَهَا مِنِّی،فَأُخِذَ الرَّجُلُ فَأُتِیَ بِهِ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ،فَأَمَرَ بِهِ لِیُقْطَعَ،فَأَتَیْتُهُ فَقُلْتُ: أَتَقْطَعُهُ مِنْ أَجْلِ ثَلَاثِینَ دِرْهَمًا؟ أَنَا أَبِیعُهُ وَأُنَسِّیهِ ثَمَنَهَا قَالَ:فَهَلَّا كَانَ قَبْلَ أَنْ تَأْتِیَنِی بِهِ

صفوان رضی اللہ عنہ بن امیہ کہتے ہیں میں مسجدمیں اپنی چادر پر سویاہواتھاجبکہ ہارون کا کہنا ہے کہ میں مسجد میں بیٹھا تھاجس کی قیمت تیس درہم تھی ایک شخص نے اسے چوری کرلیا،پھرہم نے اس شخص کوپکڑکررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش کردیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کاہاتھ کاٹنے کاحکم دے دیا،میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضرہوااور نے کہااے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم ! کیا صرف ایک چادرکی وجہ سے (اس کاہاتھ کاٹاجائے گا)جس کی قیمت تیس درہم ہے ،میں نے یہ چادراسے ہبہ کردی، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااسے میرے پاس لانے سے پہلے ایساکیوں نہ کیا۔[45]

وَرُوِیَ عَنْ أَبِی حَنِیفَةَ أَنَّهُ یَسْقُطُ الْقَطْعُ بِالْعَفْوِ مُطْلَقًا ، أَنَّ الْعَفْوَ بَعْدَ الرَّفْعِ إلَى الْإِمَامِ لَا یَسْقُطُ بِهِ الْحَدُّ

امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ سے مروی ہے کہ معاف کردینے سے حدساقط ہوجائے گی لیکن امام شوکانی رحمہ اللہ کہتے ہیں امام کے پاس معاملہ پہنچنے کے بعدمعاف کردینے سے حدساقط نہیں ہو گی ۔[46]

xپھل اورکھجورکاگوداچرانے سے ہاتھ نہیں کاٹاجائے گاجب تک مالک نے توڑکرمحفوظ جگہ میں ڈھیرنہ کرلیاہو،جب وہ اسے کھائے اورکچھ چھپاکرنہ لے جائے ورنہ چرائے ہوئے مال کی دگنی قیمت اداکرناہوگی اوراسے تادیبی سزابھی دی جائے گی۔

عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ، عَنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ سُئِلَ عَنِ الثَّمَرِ الْمُعَلَّقِ ، فَقَالَ:مَنْ أَصَابَ بِفِیهِ مِنْ ذِی حَاجَةٍ غَیْرَ مُتَّخِذٍ خُبْنَةً، فَلَا شَیْءَ عَلَیْهِ ، وَمَنْ خَرَجَ بِشَیْءٍ مِنْهُ فَعَلَیْهِ غَرَامَةُ مِثْلَیْهِ وَالْعُقُوبَةُ، وَمَنْ سَرَقَ مِنْهُ شَیْئًا بَعْدَ أَنْ یُؤْوِیَهُ الْجَرِینُ، فَبَلَغَ ثَمَنَ الْمِجَنِّ، فَعَلَیْهِ الْقَطْعُ ،وَمَنْ سَرَقَ دُونَ ذَلِكَ فَعَلَیْهِ غَرَامَةُ مِثْلَیْهِ، وَالْعُقُوبَةُ

عمروبن العاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھاگیاکہ درختوں پرلگی کھجوروں کاکیاحکم ہے؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجوضرورت منداپنے منہ سے کھالے لیکن پلومیں نہ باندھے تواس پرکچھ(سرزنش) نہیں ،اوراگرکوئی (پھلوں کو) اٹھاکرلے جائے(یعنی کپڑے وغیرہ میں باندھ کرلے جائے) اس پردوگنی قیمت اداکرنالازم ہے اورعبرت کے لئے اسے سزابھی دی جائے گی،اوراگرکوئی کھلیان میں محفوظ کردینے کے بعدچرائے اوراس کی قیمت ایک ڈھال(تین درہم) کوپہنچے تواس میں ہاتھ کاٹناہے ، اورجوکوئی اس سے کم میں چرائے تواس پرچوری شدہ کادوگناجرمانہ اورسزاہے۔ [47]

xخائن،ڈاکواورغاصب کاہاتھ نہیں کاٹاجائے گا۔

قَالَ جَابِرُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: لَیْسَ عَلَى الْمُنْتَهِبِ قَطْعٌ، وَمَنْ انْتَهَبَ نُهْبَةً مَشْهُورَةً فَلَیْسَ مِنَّا، وَقَالَ: لَیْسَ عَلَى الْخَائِنِ قَطْعٌ

جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاخائن(جوظاہراًخیرخواہ اورخفیہ مال(دھوکہ وفریب کے ذریعے)حاصل کرنے والاہو)ڈاکو(جوزبردستی غلبہ پاکرمال چھین لے ) اورغاصب(جوکسی کامال جھپٹامارکرسلب کرلے) کاہاتھ نہیں کاٹاجائے گا۔[48]

وَقَدْ ذَهَبَ إلَى أَنَّهُ لَا یُقْطَعُ الْمُخْتَلِسُ وَالْمُنْتَهِبُ وَالْخَائِنُ الْعِتْرَةُ وَالشَّافِعِیَّةُ وَالْحَنَفِیَّةُ

شافعیہ اورحنفیہ اسی کے قائل ہیں کہ غاصب ،ڈاکواورخائن کاہاتھ نہیں کاٹاجائے گا۔[49]

وَذَهَبَ أَحْمَدُ إلَى أَنَّهُ یُقْطَعُ

امام احمدبن حنبل رحمہ اللہ کاموقف ہے کہ ان سب کاہاتھ کاٹاجائے گا۔[50]

قَالَ الْقَاضِی عِیَاضٌ رضی الله عنه صان الله تعالى الْأَمْوَالُ بِإِیجَابِ الْقَطْعِ عَلَى السَّارِقِ وَلَمْ یُجْعَلْ ذلك فی غیر السرقة كالاختلاس والانتهاب والغضب

امام نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں قاضی عیاض رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ہاتھ کاٹنے کی سزاچورپرواجب کی ہے جبکہ اس کے علاوہ اختلاس، انتہاب اورغصب میں نہیں کی۔[51]

وَالرَّاجِحُ هُوَ قَوْلُ الشَّافِعِیَّةِ والحنیفة

شافعیہ اورحنفیہ کاقول راجح ہے۔[52]

xادھارلی ہوئی چیزکاانکارکرنے والے کاہاتھ کاٹاجائے گا۔

عَنِ ابْنِ عُمَرَ،أَنَّ امْرَأَةً مَخْزُومِیَّةً كَانَتْ تَسْتَعِیرُ الْمَتَاعَ فَتَجْحَدُهُ ، فَأَمَرَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بِهَا، فَقُطِعَتْ یَدُهَا

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہےایک مخزومی عورت(فاطمہ بنت الاسود) ادھارسامان لے کراس کاانکارکردیتی تھی،نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کاہاتھ کاٹنے کاحکم دے دیا۔[53]

 أَحْمَدُ وَإِسْحَاقُ وَزُفَرُ وَالْخَوَارِجُ وَبِهِ قَالَ أَهْلُ الظَّاهِرِ، وَانْتَصَرَ لَهُ ابْنُ حَزْمٍ. وَذَهَبَ الْجُمْهُورُ إلَى عَدَمِ وُجُوبِ الْقَطْعِ لِمَنْ جَحَدَ الْعَارِیَّةَ، وَاسْتَدَلُّوا عَلَى ذَلِكَ بِأَنَّ الْقُرْآنَ وَالسُّنَّةَ أَوْجَبَا الْقَطْعَ عَلَى السَّارِقِ، وَالْجَاحِدُ لِلْوَدِیعَةِ لَیْسَ بِسَارِقٍ

امام احمدبن حنبل رحمہ اللہ ،امام اسحاق،ابن حزم رحمہ اللہ اوراہل ظاہرکہتے ہیں ادھارلی ہوئی چیزکے انکارپرہاتھ کاٹاجائے گا،جمہورعلماکاموقف ہے کہ ہاتھ کاٹناواجب نہیں کیونکہ قرآن میں سارق کاہاتھ کاٹنے کاحکم ہے اوریہ لغوی اعتبار سے سارق نہیں ۔[54]

إذا لم یكن سارقا لغة؛ فهو سارق شرعا، والشرع مقدم على اللغة

صدیق حسن خاں رحمہ اللہ کاموقف ہےاگرچہ لغوی اعتبار سے سارق نہیں لیکن شرعی اعتبارسے توسارق ہے اورشرع کولغت پرترجیح حاصل ہے۔[55]

فَإِنَّهُ یَصْدُقُ عَلَى جَاحِدِ الْوَدِیعَةِ بِأَنَّهُ سَارِقٌ كَمَا سَلَفَ، فَالْحَقُّ قَطْعُ جَاحِدِ الْوَدِیعَةِ وَیَكُونُ ذَلِكَ مُخَصِّصًا لِلْأَدِلَّةِ الدَّالَّةِ عَلَى اعْتِبَارِ الْحِرْزِ

امام شوکانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں یہ حدیث امانت کا انکار کرنے والے پربھی صادق آتی ہے کہ بلاشبہ وہ چورہے اوربرحق بات یہی ہے کہ امانت کاانکارکرنے والے کاہاتھ کاٹاجائے گااوریہ ان دلائل سے خاص ہوگاجن میں حرز کا اعتبار ہے۔[56]

امام احمدبن حنبل رحمہ اللہ وغیرہ کاموقف ہی اقرب الی الحدیث معلوم ہوتاہے اوروہی راجح ہے۔

 یَا أَیُّهَا الرَّسُولُ لَا یَحْزُنكَ الَّذِینَ یُسَارِعُونَ فِی الْكُفْرِ مِنَ الَّذِینَ قَالُوا آمَنَّا بِأَفْوَاهِهِمْ وَلَمْ تُؤْمِن قُلُوبُهُمْ ۛ وَمِنَ الَّذِینَ هَادُوا ۛ سَمَّاعُونَ لِلْكَذِبِ سَمَّاعُونَ لِقَوْمٍ آخَرِینَ لَمْ یَأْتُوكَ ۖ یُحَرِّفُونَ الْكَلِمَ مِن بَعْدِ مَوَاضِعِهِ ۖ یَقُولُونَ إِنْ أُوتِیتُمْ هَٰذَا فَخُذُوهُ وَإِن لَّمْ تُؤْتَوْهُ فَاحْذَرُوا ۚ وَمَن یُرِدِ اللَّهُ فِتْنَتَهُ فَلَن تَمْلِكَ لَهُ مِنَ اللَّهِ شَیْئًا ۚ أُولَٰئِكَ الَّذِینَ لَمْ یُرِدِ اللَّهُ أَن یُطَهِّرَ قُلُوبَهُمْ ۚ لَهُمْ فِی الدُّنْیَا خِزْیٌ ۖ وَلَهُمْ فِی الْآخِرَةِ عَذَابٌ عَظِیمٌ ‎﴿٤١﴾‏ (المائدہ)
’’ اے رسول ! آپ ان لوگوں کے پیچھے نہ کڑھیے جو کفر میں سبقت کر رہے ہیں خواہ وہ ان (منافقوں) میں سے ہوں جو زبانی تو ایمان کا دعوا کرتے ہیں لیکن حقیقتاً ان کے دل باایمان نہیں اور یہودیوں میں سے کچھ لوگ ایسے ہیں جو غلط باتیں سننے کے عادی ہیں اور ان لوگوں کے جاسوس ہیںجو اب تک آپ کے پاس نہیں آئے، وہ کلمات کو اصلی موقعہ کو چھوڑ کر انہیں متغیر کردیا کرتے ہیں، کہتے کہ اگر تم یہ حکم دیئے جاؤ تو قبول کرلینااور اگر یہ حکم نہ دیئے جاؤ تو الگ تھلگ رہنا اور جس کا خراب کرنا اللہ کو منظور ہو تو آپ اس کے لیے خدائی ہدایت میں سے کسی چیز کے مختار نہیں، اللہ تعالیٰ کا ارادہ ان کے دلوں کو پاک کرنے کا نہیں ، ان کے لیے دنیا میں بھی بڑی ذلت اور رسوائی ہے، اور آخرت میں بھی ان کے لیے بڑی سخت سزا ہے۔‘‘

کفارومشرکین ،یہودونصاریٰ اورمنافقین محض اپنی جہالت،خودغرضی وتنگ نظری کی بناپر نظام جاہلیت کی بقا کے لئے جدوجہدکررہے تھے،دعوت اسلام کاراستہ روکنے اور شکست دینے کے لئے تمام اخلاقی بندشوں سے آزادہوکر نہایت بے باکی وجسارت کے ساتھ جھوٹ ،دغابازی اورمکروفریب کے ہتھیاروں سے لیس ہوکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مقابلہ کررہے تھے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مخلوق پربے حدشفق تھے اس لئے فطری طورپران کی ان حرکات پرنبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کوقلق اورافسوس ہوتاتھا،چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلی وتشفی کے لئے فرمایا کہ اس قسم کے لوگوں کی کارستانیوں پر آپ دل شکستہ نہ ہوں اورنہ ہمت ہاریں بلکہ صبرکے ساتھ اپناکام جاری رکھیں یہ لوگ اس دعوت کاکچھ بھی نہ بگاڑپائیں گے،چاہئے وہ منافقین ہوں جنہیں سچائی سے زیادہ جھوٹ ہی پسندہے،یایہودی ہوں جوآپ کی مجلسوں میں اس لئے آکربیٹھتے ہیں تاکہ جوباتیں سنیں ان میں غلط باتوں کی آمیزش کرکے آپ کواورمسلمانوں کوبدنام کریں ،یا اپنے سرداروں کے جاسوس بن کرآتے ہیں ،جن کاکرداریہ ہے کہ اللہ کی مخلوق کوگمراہ کرنے اورحق کوروکنے کے لئے توراةکے احکامات میں جان بوجھ کرردوبدل کرتے ہیں اورالفاظ کے معنی بدل کرمن مانے احکامات ان سے نکالتے ہیں ،اورجاہل لوگوں سے کہتے ہیں کہ جوحکم ہم بتارہے ہیں اگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم بھی یہی حکم تمہیں بتائیں تواسے قبول کرناورنہ ردکردینا،یعنی خواہشات نفس کی پیروی اورفتنہ کے سواان کاکوئی مقصدنہیں ہوتا، اے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم !ان لوگوں کے برے میلانات کے سبب اللہ تعالیٰ نے ان کوفتنہ میں ڈالنے کاارادہ کرلیاہے،اورانہیں اللہ کی گرفت سے بچانے کے لئے آپ کچھ بھی نہیں کر سکتے،جیسے فرمایا

اِنَّكَ لَا تَهْدِیْ مَنْ اَحْبَبْتَ وَلٰكِنَّ اللهَ یَهْدِیْ مَنْ یَّشَاۗءُ۝۰ۚ وَهُوَاَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِیْنَ۝۵۶ [57]

ترجمہ:اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! تم جسے چاہو اسے ہدایت نہیں دے سکتے مگر اللہ جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے اور وہ ان لوگوں کو خوب جانتا ہے جو ہدایت قبول کرنے والے ہیں ۔

اللہ تعالیٰ نے انہیں نجاستوں ، برائیوں اورظلمتوں سے نکال کرسیدھی راہ پرڈالنا چاہامگرجب یہ خودہی ظلمتوں سے نکل کرروشنی میں نہ آنا چاہ تودنیامیں یہ ذلیل ورسواہوں گے اورآخرت میں جہنم کی دردناک سزاہے۔

سَمَّاعُونَ لِلْكَذِبِ أَكَّالُونَ لِلسُّحْتِ ۚ فَإِن جَاءُوكَ فَاحْكُم بَیْنَهُمْ أَوْ أَعْرِضْ عَنْهُمْ ۖ وَإِن تُعْرِضْ عَنْهُمْ فَلَن یَضُرُّوكَ شَیْئًا ۖ وَإِنْ حَكَمْتَ فَاحْكُم بَیْنَهُم بِالْقِسْطِ ۚ إِنَّ اللَّهَ یُحِبُّ الْمُقْسِطِینَ ‎﴿٤٢﴾‏ وَكَیْفَ یُحَكِّمُونَكَ وَعِندَهُمُ التَّوْرَاةُ فِیهَا حُكْمُ اللَّهِ ثُمَّ یَتَوَلَّوْنَ مِن بَعْدِ ذَٰلِكَ ۚ وَمَا أُولَٰئِكَ بِالْمُؤْمِنِینَ ‎﴿٤٣﴾‏(المائدة)
’’ یہ کان لگا کر جھوٹ کے سننے والے اور جی بھر بھر کر حرام کے کھانے والے ہیں، اگر یہ تمہارے پاس آئیں تو تمہیں اختیار ہے خواہ ان کے آپس کا فیصلہ کرو خواہ ان کو ٹال دو ، اگر تم ان سے منہ بھی پھیرو گے تو بھی یہ تم کو ہرگز کوئی ضرر نہیں پہنچا سکتے، اور اگر تم فیصلہ کرو تو ان میں عدل و انصاف کے ساتھ فیصلہ کرو، یقیناً عدل والوں کے ساتھ اللہ محبت رکھتا ہے، (تعجب کی بات ہے کہ) وہ کیسے اپنے پاس تورات ہوتے ہوئے جس میں احکام الٰہی ہیں تم کو منصف بناتے ہیں پھر اس کے بعد بھی پھرجاتے ہیں، دراصل یہ ایمان و یقین والے ہیں ہی نہیں۔‘‘

یہودونصاریٰ کے مفتی اورقاضی جوتھوڑے سے دینوی فائدے اورنفس کی خواہشات کے مطابق جھوٹی شہادتیں اورجھوٹی رودادیں سن کر انصاف کے خلاف فیصلے صادرکرتے تھے،ان کے بارے میں فرمایاکہ یہ سچی شہادتیں سن کربے لاگ انصاف کرنے والے نہیں بلکہ جھوٹی شہادتیں سن کر اورمال حرام کھاکرانصاف کاجنازہ اٹھانے والے ہیں ، کیونکہ یہودی ابھی تک اسلامی ریاست کی باقاعدہ رعایانہیں بنے تھے،اسلامی ریاست سے ان کے تعلقات ابھی تک معاہدات پرمبنی تھے ، اندرونی معاملات میں آزادی حاصل ہونے کی وجہ سے وہ اپنے مقدمات کے فیصلے تورات کے قوانین کے مطابق اپنے قاضیوں سے کراتے تھے،جوجھوٹی شہادتیں لے کراورجھوٹی رودادیں سن کران لوگوں کے حق میں انصاف کے خلاف فیصلے کرتے تھے جن سے انہیں رشوت پہنچ جاتی تھی یاجن کے ساتھ ان کے ناجائزمفادوابستہ ہوتے تھے،لیکن یہ لوگ جن معاملات میں خوداپنے مذہبی قانون کے مطابق فیصلہ نہ کرناچاہتے تھے ان کافیصلہ کرانے کے لئے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اس امیدپرآجاتے تھے کہ شایدآپ کی شریعت میں ان کے لئے کوئی دوسراحکم ہواوروہ اپنے مذہبی قانون کی پیروی سے بچ جائیں ، اس کی شان نزول میں دوواقعات بیان کیے جاتے ہیں جن میں ایک خیبرکے معززیہودی خاندانوں میں سے دوشادی شدہ یہودی زانیوں (مردوعورت ) کامعاملہ تھا ، تورات کی روسے ان کی سزارجم (سنگسار)تھی اوراب بھی موجودہے لیکن وہ چونکہ اس سزاسے بچناچاہتے تھے اس لئے آپس میں فیصلہ کیاکہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس چلتے ہیں اگرانہوں نے ہمارے ایجادکردہ طریقے کے مطابق کوڑے مارنے اورمنہ کالاکرنے کی سزاکافیصلہ کیاتومان لیں گے اوراگررجم کافیصلہ دیا تونہیں مانیں گے ،چنانچہ یہ مقدمہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عدالت میں پیش کیاگیاتمام روائیدادسن کرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رجم کاحکم فرمادیالیکن یہودی نے اس حکم کوماننے سے انکارکردیا،

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُمَا، أَنَّهُ قَالَ: إِنَّ الیَهُودَ جَاءُوا إِلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَذَكَرُوا لَهُ أَنَّ رَجُلًا مِنْهُمْ وَامْرَأَةً زَنَیَا، فَقَالَ لَهُمْ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:مَا تَجِدُونَ فِی التَّوْرَاةِ فِی شَأْنِ الرَّجْمِ؟فَقَالُوا: نَفْضَحُهُمْ وَیُجْلَدُونَ، قَالَ عَبْدُ اللهِ بْنُ سَلاَمٍ: كَذَبْتُمْ إِنَّ فِیهَا الرَّجْمَ، فَأَتَوْا بِالتَّوْرَاةِ فَنَشَرُوهَافَوَضَعَ أَحَدُهُمْ یَدَهُ عَلَى آیَةِ الرَّجْمِ، فَقَرَأَ مَا قَبْلَهَا وَمَا بَعْدَهَا، فَقَالَ لَهُ عَبْدُ اللهِ بْنُ سَلاَمٍ: ارْفَعْ یَدَكَ فَرَفَعَ یَدَهُ فَإِذَا فِیهَا آیَةُ الرَّجْمِ، قَالُوا: صَدَقَ یَا مُحَمَّدُ فِیهَا آیَةُ الرَّجْمِ، فَأَمَرَ بِهِمَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَرُجِمَافَرَأَیْتُ الرَّجُلَ یَحْنِی عَلَى المَرْأَةِ، یَقِیهَا الحِجَارَةَ

چنانچہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں یہودی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضرہوئے اورکہاان میں سے ایک مرداورایک عورت نے زناکاری کی ہے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھاکہ تورات میں رجم کے متعلق کیا حکم ہے؟انہوں نے کہاہم انہیں رسواکرتے ہیں اورکوڑے لگاتے ہیں ، عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ (جوپہلے یہودی عالم تھے)نے کہاتم جھوٹ بولتے ہوتورات میں سنگسارکاحکم موجودہے جاؤتورات لے آؤ،چنانچہ وہ تورات لائے اورکھولا لیکن ان میں سے ایک شخص نے اپناہاتھ آیت رجم پررکھ دیااوراس سے پہلے اوربعدکاحصہ پڑھ دیا(یہودکااس طرح تحریف کرناعام معمول بن گیاتھا) عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ ان کی چالاکی سمجھ گئے انہوں نے کہاہاتھ اٹھاؤجب انہوں نے کتاب کی جگہ سے ہاتھ اٹھایاتووہاں آیت رجم تھی،بالآخرانہیں اعتراف کرناپڑاکہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم سچ کہتے ہیں ،تورات میں آیت رجم موجودہے،چنانچہ دونوں زانیوں کو سنگسار کردیاگیا،عبداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں نے دیکھاکہ وہ زانی اس عورت کوپتھروں سے بچانے کے لئے اس کے آڑے آ جاتا تھا۔[58]

فَرَأَیْتُهُ یُجَانِئُ عَلَیْهَا الحِجَارَةَ

ان دونوں کے رجم کرنے والوں میں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ بھی موجودتھے،فرماتے ہیں میں نے دیکھاکہ مردعورت کوپتھرسے بچانے کے لیے اس پرجھک رہاتھا۔[59]

عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: أَتَى نَفَرٌ مِنْ یَهُودٍ فَدَعَوْا رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ إِلَى الْقُفِّ، فَأَتَاهُمْ فِی بَیْتِ الْمِدْرَاسِ، فَقَالُوا: یَا أَبَا الْقَاسِمِ: إِنَّ رَجُلًا مِنَّا زَنَى بِامْرَأَةٍ، فَاحْكُمْ بَیْنَهُمْ، فَوَضَعُوا لِرَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وِسَادَةً فَجَلَسَ عَلَیْهَا ثُمَّ قَالَ:بِالتَّوْرَاةِ، فَأُتِیَ بِهَا فَنَزَعَ الْوِسَادَةَ مِنْ تَحْتِهِ، فَوَضَعَ التَّوْرَاةَ عَلَیْهَا ثُمَّ قَالَ:آمَنْتُ بِكِ وَبِمَنْ أَنْزَلَكِ، ثُمَّ قَالَ:ائْتُونِی بِأَعْلَمِكُمْ، فَأُتِیَ بِفَتًى شَابٍّ، ثُمَّ ذَكَرَ قِصَّةَ الرَّجْمِ

اورعبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہےیہودیوں کاایک گروہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضرہوااورانہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کومدینہ منورہ کی وادی قف میں آنے کی دعوت دی،توآپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے بیت المدارس میں تشریف لے گئے،انہوں نے عرض کی اے ابوالقاسم!ہم میں سے ایک مردنے ایک عورت کے ساتھ زناکیاہے لہذاآپ فیصلہ فرمائیں ،انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ایک تکیہ بھی رکھاتھاجس پرآپ جلوہ افروزتھے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایامیرے پاس تورات لاؤ،تورات کولایاگیاتوآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تکیہ نکال کراس کے اوپرتورات کورکھ دیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تورات سے مخاطب ہوکرکہامیں تجھ پرایمان لاتاہوں اوراس ذات گرامی پربھی جس نے تجھے نازل فرمایاہے،پھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاتم اپنے میں سے سب سے بڑے عالم کولاؤ،چنانچہ ایک نوجوان(عبداللہ بن صوریا)کوبلایاگیا باقی قصہ رجم کابیان کیاگیاہے۔[60]

فرمایاکہ اگریہ آپ کے پاس اپنے مقدمات لے کرآئیں تو آپ کواختیارہے کہ چاہیں توان کے مقدمے کافیصلہ کردیں اورنہ چاہیں تونہ کریں ، اگر آپ انکارکردیں گے تویہ آپ کاکچھ بھی نہیں بگاڑسکتے لیکن اگر فیصلہ کرناچاہیں توپھرخواہ لوگ ظالم اوردشمن ہی کیوں نہ ہوں ان کی کتاب تورات کے مطابق انصاف کے تمام تقاضوں کومدنظررکھ کرفیصلہ کریں ،اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو پسند کرتاہے جوہرطرح کے دینوی مفاداوردباؤکوخاطرمیں نہ لاکرانصاف کرتے ہیں ،اور یہودجنہوں نے عرب میں اپنی دینداری اور اپنے علم کاسکہ جما رکھاہے آپ کوکیسے منصف بناتے ہیں جبکہ ان کے پاس اللہ کی کتاب تورات موجودہے جس میں اللہ تعالیٰ کاقانون رجم واضح طورپردرج ہےاگروہ مومن ہوتے اورایمان کے تقاضوں اوراس کے موجبات پرعمل کرتے تواللہ کے اس حکم سے اعراض نہ کرتے مگریہ سزارجم سے بچنے کے لئے اس سے اعراض کر رہے ہیں ،اصل بات یہ ہے کہ یہ اپنی فطری خباثت ، بدباطنی اورسرکشی میں کسی چیز پر بھی صداقت کے ساتھ ایمان نہیں رکھتے ، ان کاایمان ویقین اپنے نفس اوراس کی خواہشات پرہے ،جس کتاب(تورات) کویہ اللہ کی طرف سے منزل مانتے ہیں ،جس کی تابعداری اورحقانیت کے خودقائل ہیں اس سے اس لئے منہ موڑرہے ہیں کہ اس کاحکم ان کے نفس کو ناگوار ہے اورجسے معاذاللہ جھوٹامدعی نبوت قراردیتے ہیں اس کے پاس صرف اس امیدپرجاتے ہیں کہ شایدوہاں کوئی ایسافیصلہ ہوجائے جوان کی خواہشات کے مطابق ہویعنی انہوں نے اپنی خواہشات نفس کو اپنامعبودبنالیاہے اوراحکام ایمان کواپنی خواہشات کے تابع کررکھاہے،جن لوگوں کے یہ اعمال ہیں وہ مومن نہیں ہیں ۔

إِنَّا أَنزَلْنَا التَّوْرَاةَ فِیهَا هُدًى وَنُورٌ ۚ یَحْكُمُ بِهَا النَّبِیُّونَ الَّذِینَ أَسْلَمُوا لِلَّذِینَ هَادُوا وَالرَّبَّانِیُّونَ وَالْأَحْبَارُ بِمَا اسْتُحْفِظُوا مِن كِتَابِ اللَّهِ وَكَانُوا عَلَیْهِ شُهَدَاءَ ۚ فَلَا تَخْشَوُا النَّاسَ وَاخْشَوْنِ وَلَا تَشْتَرُوا بِآیَاتِی ثَمَنًا قَلِیلًا ۚ وَمَن لَّمْ یَحْكُم بِمَا أَنزَلَ اللَّهُ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الْكَافِرُونَ ‎﴿٤٤﴾‏ وَكَتَبْنَا عَلَیْهِمْ فِیهَا أَنَّ النَّفْسَ بِالنَّفْسِ وَالْعَیْنَ بِالْعَیْنِ وَالْأَنفَ بِالْأَنفِ وَالْأُذُنَ بِالْأُذُنِ وَالسِّنَّ بِالسِّنِّ وَالْجُرُوحَ قِصَاصٌ ۚ فَمَن تَصَدَّقَ بِهِ فَهُوَ كَفَّارَةٌ لَّهُ ۚ وَمَن لَّمْ یَحْكُم بِمَا أَنزَلَ اللَّهُ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ ‎﴿٤٥﴾‏ (المائدہ)
’’ ہم نے تورات نازل فرمائی ہے جس میں ہدایت و نور ہے، یہودیوں میں اسی تورات کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے ماننے والے (انبیاء علیہ السلام) اور اہل اللہ اور علماء فیصلے کرتے تھے کیونکہ انہیں اللہ کی اس کتاب کی حفاظت کا حکم دیا گیا تھا اور وہ اس پر اقراری گواہ تھے، اب تمہیں چاہیے کہ لوگوں سے نہ ڈرو اور صرف میرا ڈر رکھو، میری آیتوں کو تھوڑے تھوڑے سے مول پر نہ بیچو، اور جو لوگ اللہ کی اتاری ہوئی وحی کے ساتھ فیصلے نہ کریں وہ (پورے اور پختہ) کافر ہیں،اور ہم نے یہودیوں کے ذمہ تورات میں یہ بات مقرر کردی تھی کہ جان کے بدلے جان اور آنکھ کے بدلے آنکھ اور ناک بدلے ناک اور کان کے بدلے کان اور دانت کے بدلے دانت اور خاص زخموں کا بھی بدلہ ہے، پھر جو شخص اس کو معاف کر دے تو وہ اس کے لیے کفارہ ہے، اور جو لوگ اللہ کے نازل کئے ہوئے کے مطابق نہ کریں، وہی لوگ ظالم ہیں۔‘‘

اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام پرتورات نازل فرمائی جوحق وایمان کی طرف رہنمائی کرتی اورظلم وجہالت ،شبہات وشہوات کی تاریکیوں سے نکالتی ہے، جس میں صراط مستقیم پرچلنے اور آخرت میں کامیابی کے لئے واضح ہدایات تھیں ،جیسے فرمایا

وَلَقَدْ اٰتَیْنَا مُوْسٰى وَهٰرُوْنَ الْـفُرْقَانَ وَضِیَاۗءً وَّذِكْرًا لِّـلْمُتَّـقِیْنَ۝۴۸ [61]

ترجمہ:اورہم نے موسیٰ اور ہارون کوحق وباطل میں فرق کرنے والی،روشنی عطاکرنے والی اوراہل تقویٰ کونصیحت کرنے والی کتاب عطاکی۔

موسیٰ علیہ السلام کے بعدمبعوث ہونے والے تمام انبیاء ورسل اوران سے پہلے مبعوث ہونے والے انبیاء ورسل کی طرح جواپنی اپنی قوم میں مبعوث ہوئے اسلام ہی کے پیروکارتھے،سب کی بنیادی دعوت ایک ہی تھی یعنی توحید کہ اللہ کی عبادت کرو اوراس کے ساتھ کسی کوشریک مت کرو ،جیسے فرمایا

وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا نُوْحِیْٓ اِلَیْهِ اَنَّهٗ لَآ اِلٰهَ اِلَّآ اَنَا فَاعْبُدُوْنِ۝۲۵ [62]

ترجمہ:ہم نے آپ سے پہلے جتنے رسول بھیجے سب کویہی وحی کی کہ میرے سواکوئی معبودنہیں پس تم سب میری ہی عبادت کرو۔

موسیٰ علیہ السلام کے بعدان انبیاء کو توراةکے احکامات وتعزیرات کے نفاذ کا ذمہ داربنایاگیاتھااس لئے وہ تورات کے احکامات کے مطابق ان یہودی کے جھگڑوں کا فیصلے کرتے تھے ،اوراس کے گواہ تھے ،ان کے بعد ان کے باعمل علماء اور فقہاکتاب الٰہی میں تبدیلی وتحریف سے بچے رہے اورانبیا کی روش پرچلتے ہوئے تورات کے مطابق فیصلے کرتے تھے،مگران کے بعد تم لوگوں نے کتاب میں اپنی خواہشات نفسی کے مطابق تحریفات کیں اوردینوی مفادات کے لئے غلط فیصلے کرنے لگے ، تعزیرات کوصرف کمزوروں پرنافذکرنے لگے،چنانچہ اے گروہ یہود!تم لوگوں سے ڈرنے کے بجائے اپنے خالق اورمالک یوم الدین سے قدم قدم اورلمحہ لمحہ خوف کھاؤ،جس کے قبضہ قدرت میں ہرچیزہے اوراپنی خواہشات نفسی اوردنیاکی متاع قلیل کی خاطر اللہ کی کتاب میں تحریفات مت کرو ،ان کے معنوں کومت بدلو،حق کوچھپاکرباطل کااظہارنہ کرواوربے خوف وخطر اسی کے قانون تعزیرات کے مطابق مقدمات کے فیصلے کرو، یاد رکھو جولوگ اپنی فاسداغراض کی خاطرجان بوجھ کر اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق فیصلے نہ کریں بلکہ اس کے برعکس اللہ کے قانون کوبالائے طاق رکھ کر اپنے خودساختہ قانون بنائیں اورانہیں نافذکریں وہی کافر ہیں ،

 قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: أَنْزَلَهَا اللهُ فِی الطَّائِفَتَیْنِ مِنَ الْیَهُودِ كَانَتْ إِحْدَاهُمَا قَدْ قَهَرَتِ الْأُخْرَى فِی الْجَاهِلِیَّةِ، حَتَّى ارْتَضَوْا أَوِ اصْطَلَحُوا عَلَى أَنَّ كُلَّ قَتِیلٍ قَتَلَتْهُ الْعَزِیزَةُ مِنَ الذَّلِیلَةِ فدیته خمسون وَسَقا، وَكُلُّ قَتِیلٍ قَتَلَتْهُ الذَّلِیلَةُ مِنَ الْعَزِیزَةِ فَدِیَتُهُ مِائَةُ وَسْقٍ،فَكَانُوا عَلَى ذَلِكَ حَتَّى قَدِمَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ الْمَدِینَةَ، فَذَلَّتِ الطَّائِفَتَانِ كِلْتَاهُمَا، لِمَقْدِمَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، وَیَوْمَئِذَ لَمْ یَظْهَرْ، وَلَمْ یُوَطِّئْهُمَا عَلَیْهِ، وَهُوَ فِی الصُّلْحِ، فَقَتَلَتِ الذَّلِیلَةُ مِنَ الْعَزِیزَةِ قَتِیلًا فَأَرْسَلَتِ الْعَزِیزَةُ إِلَى الذَّلِیلَةِ: أَنِ ابْعَثُوا لَنَا بِمِائَةٍ وَسْقٍ ، فَقَالَتِ الذَّلِیلَةُ: وَهَلْ كَانَ هَذَا فِی حَیَّیْنِ قَطُّ دِینُهُمَا وَاحِدٌ، وَنَسَبُهُمَا وَاحِدٌ، وَبَلَدُهُمَا وَاحِدٌ: دِیَةُ بَعْضِهِمْ نِصْفُ دِیَةِ بَعْضٍ، إِنَّمَا أَعْطَیْنَاكُمْ هَذَا ضَیْمًا مِنْكُمْ لَنَا، وفَرقًا مِنْكُمْ، فَأَمَّا إِذْ قَدِمَ مُحَمَّدٌ فَلَا نُعْطِیكُمْ ذَلِكَ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں یہودیوں کے دوگروہ تھے،ایک غالب تھااوردوسرامغلوب ،دورجاہلیت میں ان لوگوں کی آپس میں اس بات پرصلح ہوئی تھی کہ غالب،معززومحترم گروہ (قبیلہ بنونضیر)کاکوئی شخص اگرمغلوب گروہ (قبیلہ بنوقریظہ)کے کسی شخص کوقتل کرڈالے گاتوپچاس وسق دیت دے گااور مغلوب گروہ میں سے کوئی عزیزکوقتل کرڈالے توسووسق دیت دے گا، ان میں دیت کا یہی رواج چلاآرہاتھا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مدینہ تشریف لانے کے بعد ایک واقعہ رونما ہواکہ بنوقریظہ کے کسی شخص نے بنونضیر کے کسی آدمی کوقتل کردیا،بنونضیرنے رواج کے مطابق بنوقریظہ سے سووسق دیت چاہی،بنوقریظہ نے جواب دیاکہ یہ صریح ناانصافی ہے ہم دونوں ایک ہی قبیلے کے ایک ہی دین کے ایک ہی نسب کے اورایک ہی شہرکے ہیں پھرہماری دیت کم اورتمہاری دیت کیوں زیادہ ہے ؟چونکہ اب تک ہم تم سے دبے ہوئے تھے اوراس ناانصافی کوبادل ناخواستہ برداشت کرتے رہے ہیں لیکن اب جبکہ محمد( صلی اللہ علیہ وسلم )یہاں مدینہ منورہ میں آگئے ہیں ہم تمہیں اتنی ہی دیت دیں گے جتنی تم ہمیں دوگے،

فَكَادَتِ الْحَرْبُ تَهِیجُ بَیْنَهُمَا ثُمَّ ارْتَضَوْا عَلَى أَنْ یَجْعَلُوارَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بَیْنَهُمْ، ثُمَّ ذَكَرَتِ الْعَزِیزَةُ فَقَالَتْ: وَاللهِ مَا مُحَمَّدٌ بِمُعْطِیكُمْ مِنْهُمْ ضِعْفَ مَا یُعْطِیهِمْ مِنْكُمْ وَلَقَدْ صَدَقُوا، مَا أَعْطَوْنَا هَذَا إِلَّا ضَیْمًا مِنَّا وَقَهْرًا لَهُمْ، فَدَسُّوا إِلَى مُحَمَّدٍ: مَنْ یَخْبُر لَكُمْ رَأْیَهُ، إِنْ أَعْطَاكُمْ مَا تُرِیدُونَ حَكمتموه وَإِنْ لَمْ یُعْطِكُمْ حُذّرتم فَلَمْ تُحَكِّمُوهُ، فَدَسُّوا إِلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ نَاسًا مِنَ الْمُنَافِقِینَ لیَخْبُروا لَهُمْ رَأْیَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَلَمَّا جَاءُوا رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَخْبَرَ اللهُ رَسُولَهُ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بِأَمْرِهِمْ كُلِّهِ، وَمَا أَرَادُوا، فَأَنْزَلَ اللهُ تَعَالَى:یَا أَیُّهَا الرَّسُولُ لَا یَحْزُنْكَ الَّذِینَ یُسَارِعُونَ فِی الْكُفْرِ

اس جواب پردونوں طرف سے آستینیں چڑھ گئیں ،پھرآپس میں یہ بات طے ہوگئی کہ اس جھگڑے کا فیصلہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کریں گے، لیکن اونچی قوم کے لوگوں (بنونضیر)نے آپس میں مشورہ کیاتوان کے سمجھداروں نے کہادیکھواس بات سے ہاتھ دھورکھوکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوئی ناانصافی پرمبنی حکم کریں گے یہ توصریح زیادتی ہے کہ ہم توآدھی دیت دیں اورپوری دیت لیں اورفی الواقع ان لوگوں نے دب کراس کومنظورکیاتھاتم نے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوحکم اورثالت مقررکیاہے تویقیناًتمہارایہ حق ماراجائے گا،کسی نے رائے دی کہ یوں کروکہ کسی کوآپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس چپکے سے بھیج دواوروہ معلوم کرے کہ آپ کیافیصلہ فرمائیں گے ؟ اگر ہماری حمایت میں ہواتب توبہت اچھاہے اورتم چل کران سے اپناحق حاصل کرکے آؤاوراگرفیصلہ ہمارے خلاف ہواتوپھرہم الگ تھلگ ہی اچھے ہیں ،چنانچہ مدینہ کے چندمنافقوں کوانہوں نے جاسوس بناکرآپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بھیجالیکن اس سے پہلے کہ وہ یہاں پہنچیں اللہ تعالیٰ نے یہ آیتیں نازل فرماکررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوان دونوں گروہوں کے بدارادوں سے مطلع فرمادیااورسورۂ نازل فرمائی’’ اے پیغمبر ! تمہارے لیے باعث رنج نہ ہوں وہ لوگ جو کفر کی راہ میں بڑی تیزگامی دکھا رہے ہیں ۔‘‘[63]

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: {وَمَنْ لَمْ یَحْكُمْ بِمَا أَنْزَلَ اللَّهُ فَأُولَئِكَ هُمُ الْكَافِرُونَ} [64] إِلَى قَوْلِهِ: {الْفَاسِقُونَ}[65]هَؤُلَاءِ الْآیَاتِ الثَّلَاثِ نَزَلَتْ فِی الْیَهُودِ خَاصَّةً فِی قُرَیْظَةَ وَالنَّضِیرِ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں سورۂ المائدة کی تینوں آیات وَمَنْ لَمْ یَحْكُمْ ۔۔۔الْفَاسِقُونَ یہودیوں کے قبائل بالخصوص قریظہ اوربنونضیرکے متعلق نازل ہوئی تھیں ۔[66]

وَقَدْ یَكُونُ اجْتَمَعَ هَذَانِ السَّبَبَانِ فِی وَقْتٍ وَاحِدٍ، فَنَزَلَتْ هَذِهِ الْآیَاتُ فِی ذَلِكَ كُلِّهِ

حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں بہت ممکن ہے کہ ادھریہ واقعہ ہوااورادھرزناکاقصہ واقع ہواہو دونوں سبب ایک ہی وقت میں جمع ہوگئے ہوں اور ان سب کے لئے ان آیات کانزول ہواہو۔[67]

اللہ تعالیٰ نے تورات میں قصاص(یعنی فاعل کے ساتھ وہی کچھ کیاجائے جواس نے کیاتھا) کایہ حکم لکھ دیاتھاکہ جان کے بدلے جان،آنکھ کے بدلے آنکھ،ناک کے بدلے ناک ،کان کے بدلے کان،دانت کے بدلے دانت اوراسی طرح تمام زخموں کے لئے برابرکابدلہ ہوگا،البتہ جوشخص جان وعضاء اورزخموں کے قصاص میں صدقہ کی نیت سے قصاص معاف کردے تویہ نیکی اس کے بہت سے گناہوں کاکفارہ ہوجائے گی ،

أَنَّ عُبَادَةَ بْنَ الصَّامِتِ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَقُولُ:مَا مِنْ رَجُلٍ یُجْرَحُ مِنْ جسده جراحة، فیتصدق بِهَا، إِلَّا كَفَّرَ اللهُ عَنْهُ مِثْلَ مَا تَصَدَّقَ بِهِ

عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے مروی ہے میں نےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سناآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجس کے جسم میں کوئی زخم لگایا گیا اور اس نے معاف کر دیا توجس درجہ کی یہ معافی ہوگی اسی کے بقدراس کے گناہ معاف کردیئے جائیں گے۔[68]

فَقَالَ أَبُو الدَّرْدَاءِ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَقُولُ:مَا مِنْ مُسْلِمٍ یُصَابُ بِشَیْءٍ فِی جَسَدِهِ، فَیَتَصَدَّقُ بِهِ، إِلَّا رَفَعَهُ اللهُ بِهِ دَرَجَةً أَوْ حَطَّ عَنْهُ بِهَا خَطِیئَةً

ابودردداء رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سناکہ جس مسلمان کے جسم میں کوئی ایذاپہنچائی جائے اوروہ اس پرصبرکرے اوربدلہ نہ لے تواللہ تعالیٰ اس کے درجات بڑھاتاہے اوراس کی خطائیں معاف فرماتاہے۔[69]

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ: {فَمَنْ تَصَدَّقَ بِهِ فَهُوَ كَفَّارَةٌ لَهُ} قَالَ: كَفَّارَةٌ لِلْجَارِحِ، وَأَجْرٌ الْمَجْرُوحِ عَلَى اللَّهِ، عَزَّ وَجَلَّ.

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کاآیت کریمہ ’’ پھر جو قصاص کا صدقہ کر دے تو وہ اس کے لیے کَفّارہ ہے۔‘‘کے بارے میں قول ہے جوشخص قصاص سے درگزرکرے اوربطورصدقے کے اپنے بدلے کومعاف کردے توزخمی کرنے والے کاکفارہ ہوگیااورجوزخمی ہوااسے ثواب ہوگاجواللہ عزوجل کے ذمہ ہے۔[70]

اورجولوگ اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ قانون سے رہنمائی حاصل کرتے ہوئے لوگوں کے تنازعات میں منصفانہ وعادلانہ فیصلے نہیں کرتے وہی فاسق ، کافراورظالم متصورہوں گے ۔

عَنْ عَلِیِّ بْنِ أَبِی طَلْحَةَ , عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ , قَوْلُهُ: {وَمَنْ لَمْ یَحْكُمْ بِمَا أَنْزَلَ اللهُ فَأُولَئِكَ هُمُ الْكَافِرُونَ} قَالَ: مَنْ جَحَدَ مَا أَنْزَلَ اللهُ فَقَدْ كَفَرَ وَمَنْ أَقَرَّ بِهِ وَلَمْ یَحْكُمْ فَهُوَ ظَالِمٌ فَاسِقٌ

علی بن ابوطلحہ نے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے آیت کریمہ ’’ اور جو لوگ اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق فیصلہ نہ کریں وہی ظالم ہیں ۔ ‘‘کے بارے میں روایت کیاہے جوشخص اللہ تعالیٰ کے نازل فرمائے ہوئے احکام کاانکارکرے تواسی نے کفرکیااورجوان کااقرارتوکرے مگران کے مطابق فیصلے نہ کرے تووہ ظالم اورفاسق ہے۔ [71]

وَقَفَّیْنَا عَلَىٰ آثَارِهِم بِعِیسَى ابْنِ مَرْیَمَ مُصَدِّقًا لِّمَا بَیْنَ یَدَیْهِ مِنَ التَّوْرَاةِ ۖ وَآتَیْنَاهُ الْإِنجِیلَ فِیهِ هُدًى وَنُورٌ وَمُصَدِّقًا لِّمَا بَیْنَ یَدَیْهِ مِنَ التَّوْرَاةِ وَهُدًى وَمَوْعِظَةً لِّلْمُتَّقِینَ ‎﴿٤٦﴾‏ وَلْیَحْكُمْ أَهْلُ الْإِنجِیلِ بِمَا أَنزَلَ اللَّهُ فِیهِ ۚ وَمَن لَّمْ یَحْكُم بِمَا أَنزَلَ اللَّهُ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ ‎﴿٤٧﴾(المائدہ)
’’اور ہم نے ان کے پیچھے عیسیٰ بن مریم کو بھیجا جو اپنے سے پہلے کی کتاب یعنی تورات کی تصدیق کرنے والے تھے اور ہم نے انہیں انجیل عطاء فرمائی جس میں نور اور ہدایت تھی اور اپنے سے پہلی کتاب تورات کی تصدیق کرتی تھی ا وروہ سرا سر ہدایت و نصیحت تھی پارسا لوگوں کے لیے ، اور انجیل والوں کو بھی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نے جو کچھ انجیل میں نازل فرمایا ہے اسی کے مطابق حکم کریں اور جو اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ سے ہی حکم نہ کریں وہ (بدکار) فاسق ہیں۔‘‘

موسیٰ علیہ السلام اوران کے بعدمیں مبعوث ہونے والے پیغمبروں کے بعدبنی اسرائیل کاآخری پیغمبر روح اللہ ،عیسٰی ابن مریم کومبعوث کیاگیا،وہ اپنے سے پہلے نازل شدہ کتاب تورات کی اصل تعلیمات میں سے جواحکامات وقانون تعزیرات ان کے زمانے میں محفوظ تھے ان تمام کی حق وصداقت کے ساتھ گواہی دینے والے،ان کی دعوت کی تائیدکرنے اور ان کی شریعت کے مطابق فیصلے کرنے والے اوراکثرامورشرعیہ میں موسیٰ علیہ السلام کی موافقت کرتے تھے ،وہ ان پربعض چیزوں کوجوان پرحرام تھیں حلال کرنے والے تھے ،جیسے فرمایا

۔۔۔وَلِاُحِلَّ لَكُمْ بَعْضَ الَّذِیْ حُرِّمَ عَلَیْكُمْ۔۔۔ ۝۵۰ [72]

ترجمہ:اورتاکہ بعض چیزیں جوتم پرحرام تھیں ان کاحلال ٹھیراؤں ۔

جواس بات کی دلیل تھی کہ عیسیٰ علیہ السلام بھی اللہ کے سچے رسول ہیں اوراسی اللہ وحدہ لاشریک کے فرستادہ ہیں جس نے تورات موسیٰ علیہ السلام پرنازل فرمائی تھی تواس کے باوجودبھی یہودیوں نے عیسیٰ علیہ السلام کی تکذیب کی بلکہ ان کی تکفیراورتنقیض واہانت کی ،اللہ تعالیٰ نے ان پرانجیل نازل فرمائی جوتورات کی تکمیل کرتی ہے، جولوگوں کوصراط مستقیم کی طرف رہنمائی اورباطل سے حق کوواضح کرتی ہے ،اللہ کی یہ کتاب بھی پہلی الہامی کتابوں کی تصدیق کرنے والی تھی اورمتقین کے لئے سراسر ہدایت اورنصیحت تھی ،دوسرے معنوں میں یوں بیان کیاجاسکتاہے کہ جس طرح تورات اپنے وقت میں لوگوں کے لئے ہدایت کاذریعہ تھی اسی طرح انجیل کے نزول کے بعداب یہی حیثیت انجیل کوحاصل ہوگئی اورپھرقرآن کریم کے نزول کے بعدتورات وانجیل اوردیگرصحائف آسمانی پرعمل منسوخ ہوگیااورہدایت ونجات کاواحدذریعہ قرآن کریم رہ گیا اور اسی پراللہ تعالیٰ نے آسمانی کتابوں کاسلسلہ ختم فرمادیا،یعنی اللہ کی طرف سے جتنے انبیاء دنیاکے کسی گوشے میں بھی آئے ہیں ان میں سے کوئی بھی پچھلے انبیاء کی تعلیمات کی تردید اور اپنا نیا مذہب چلانے کے لئے نہیں آیاتھا ،اسی طرح اللہ نے اپنی کوئی کتاب پچھلی الہامی کتابوں کی تردیدکے لئے کبھی نازل نہیں کی بلکہ اس کی ہرکتاب پہلے آئی ہوئی کتابوں کی موید اورمصدق تھی۔ اللہ کایہ حکم تھاکہ اللہ نے جواحکامات اورتعزیرات نازل فرمائی ہیں ان کے مطابق لوگوں کے مقدمات کافیصلہ کریں ،جو انسان(چاہئے وہ اہل کتاب میں سے ہو یامسلمانوں میں سے) اللہ کے حکم اوراس کے نازل کردہ قانون سے منحرف ہو کراپنایادوسرے کسی انسانوں کے بنائے ہوئے قوانین پرفیصلہ کرتاہے وہ اطاعت سے خارج ، حق کے تارک اورباطل کے عامل ہیں ۔

وَأَنزَلْنَا إِلَیْكَ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ مُصَدِّقًا لِّمَا بَیْنَ یَدَیْهِ مِنَ الْكِتَابِ وَمُهَیْمِنًا عَلَیْهِ ۖ فَاحْكُم بَیْنَهُم بِمَا أَنزَلَ اللَّهُ ۖ وَلَا تَتَّبِعْ أَهْوَاءَهُمْ عَمَّا جَاءَكَ مِنَ الْحَقِّ ۚ لِكُلٍّ جَعَلْنَا مِنكُمْ شِرْعَةً وَمِنْهَاجًا ۚ وَلَوْ شَاءَ اللَّهُ لَجَعَلَكُمْ أُمَّةً وَاحِدَةً وَلَٰكِن لِّیَبْلُوَكُمْ فِی مَا آتَاكُمْ ۖ فَاسْتَبِقُوا الْخَیْرَاتِ ۚ إِلَى اللَّهِ مَرْجِعُكُمْ جَمِیعًا فَیُنَبِّئُكُم بِمَا كُنتُمْ فِیهِ تَخْتَلِفُونَ ‎﴿٤٨﴾‏ وَأَنِ احْكُم بَیْنَهُم بِمَا أَنزَلَ اللَّهُ وَلَا تَتَّبِعْ أَهْوَاءَهُمْ وَاحْذَرْهُمْ أَن یَفْتِنُوكَ عَن بَعْضِ مَا أَنزَلَ اللَّهُ إِلَیْكَ ۖ فَإِن تَوَلَّوْا فَاعْلَمْ أَنَّمَا یُرِیدُ اللَّهُ أَن یُصِیبَهُم بِبَعْضِ ذُنُوبِهِمْ ۗ وَإِنَّ كَثِیرًا مِّنَ النَّاسِ لَفَاسِقُونَ ‎﴿٤٩﴾‏ أَفَحُكْمَ الْجَاهِلِیَّةِ یَبْغُونَ ۚ وَمَنْ أَحْسَنُ مِنَ اللَّهِ حُكْمًا لِّقَوْمٍ یُوقِنُونَ ‎﴿٥٠﴾‏(المائدہ)
’’ اور ہم نے آپ کی طرف حق کے ساتھ یہ کتاب نازل فرمائی ہے جو اپنے سے اگلی کتابوں کی تصدیق کرنے والی ہے اور ان کی محافظ ہے، اس لیے آپ ان کے آپس کے معاملات میں اسی اللہ کی اتاری ہوئی کتاب کے مطابق حکم کیجئے، اس حق سے ہٹ کر ان کی خواہشوں کے پیچھے نہ جائیے، تم میں سے ہر ایک کے لیے ہم نے ایک دستور اور راہ مقرر کردی، اگر منظور مولا ہوتا تو سب کو ایک ہی امت بنا دیتا لیکن اس کی چاہت ہے کہ جو تمہیں دیا ہے اس میں تمہیں آزمائے ، تم نیکیوں کی طرف جلدی کرو ،تم سب کا رجوع اللہ ہی کی طرف ہے، پھر وہ تمہیں ہر وہ چیز بتادے گا جس میں تم اختلاف کرتے رہتے ہو،آپ ان کے معاملات میں خدا کی نازل کردہ وحی کے مطابق ہی حکم کیا کیجئے، ان کی خواہشوں کی تابعداری نہ کیجئے اور ان سے ہوشیار رہیے کہ کہیں یہ آپ کو اللہ کے اتارے ہوئے کسی حکم سے ادھر ادھر نہ کریں، اگر یہ لوگ منہ پھیر لیں تو یقین کریں کہ اللہ کا ارادہ یہ ہے کہ انہیں ان کے بعض گناہوں کی سزا دے ہی ڈالے اور اکثر لوگ نافرمان ہی ہوتے ہیں،کیا یہ لوگ پھر سے جاہلیت کا فیصلہ چاہتے ہیں یقین رکھنے والے لوگوں کے لیے اللہ تعالیٰ سے بہتر فیصلے اور حکم کرنے والا کون ہوسکتا ہے؟ ۔‘‘

تورات وانجیل کی تعریف ومدحت کے بعدقرآن مجیدکی بزرگی بیان فرمائی ،اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم !موسیٰ علیہ السلام پرتورات ا ورعیسیٰ علیہ السلام ابن مریم پرانجیل کے بعدہم نے آپ کی طرف یہ جلیل القدر کتاب قرآن کریم حق وصداقت کے ساتھ نازل فرمائی ہے،یہ بھی اپنے سے پہلی الہامی کتابوں صحف ابراہیم ، زبور،تورات وانجیل کی تصدیق کرتی ہے اورتمام برحق تعلیمات کوجوپچھلی کتب آسمانی میں دی گئی تھیں اپنے اندرمحفوظ کردیاہے،یعنی اب قرآن ایک مستقل شریعت ہے اوران تعلیمات برحق کاکوئی حصہ اب ضائع نہ ہونے پائے گا ،کیونکہ پچھلی کتابوں میں تحریف وتغییربھی ہوئی ہے اس لئے قرآن مجید جس میں حکمت دانائی اوراحکام ہیں جس کی حفاظت کاذمہ خوداللہ نے لیاہے سب پرحاکم اورسب پر مقدم ہے ،اب اسی کافیصلہ ناطق ہوگاجیسے فرمایا

اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَاِنَّا لَهٗ لَحٰفِظُوْنَ۝۹ [73]

ترجمہ:رہا یہ ذکر ، تو اس کو ہم نے نازل کیا ہے اور ہم خود اس کے نگہبان ہیں ۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کواختیاردیاگیاتھا

فَاِنْ جَاۗءُوْكَ فَاحْكُمْ بَیْنَهُمْ اَوْ اَعْرِضْ عَنْهُمْ [74]

ترجمہ: اگر یہ تمہارے پا س( اپنے مقدمات لے کر) آئیں تو تمہیں اختیار دیا جاتا ہے کہ چاہو ان کا فیصلہ کرو ورنہ انکار کردو۔

لیکن اب حکم دیاگیاکہ آپ قرآن مجید کے مطابق لوگوں کے معاملات کے فیصلے کریں اورامت کو بھی تعلیم دی گئی کہ اللہ کی نازل کردہ کتاب سے ہٹ کرلوگوں کی خواہشات اور آرا ئ یاان کے خودساختہ مزعوت وافکارکے مطابق فیصلے کرناگمراہی ہے ،اللہ نے بہت سی مصلحتوں کے ساتھ بعض فروعی احکام مختلف قوموں ،مختلف زمانوں اورمختلف حالات میں عبادت کی صورتوں میں ،حرام وحلال کی قیودمیں ،قوانین تمدن ومعاشرت کے فروع میں مختلف انبیاء اورکتب آسمانی کی شریعتوں کے درمیان مختلف ضابطے مقررفرمائے ، لیکن دین سب کاایک یعنی توحید پر مبنی تھا،اس لحاظ سے سب کی دعوت ایک ہی تھی ،جیسے فرمایا

لِكُلِّ اُمَّةٍ جَعَلْنَا مَنْسَكًا هُمْ نَاسِكُوْهُ فَلَا یُنَازِعُنَّكَ فِی الْاَمْرِ وَادْعُ اِلٰى رَبِّكَ۝۰ۭ اِنَّكَ لَعَلٰى هُدًى مُّسْتَقِیْمٍ۝۶۷ [75]

ترجمہ:ہرامت کے لئے ہم نے عبادت کا ایک طریقہ مقررکردیاہے جسے وہ بجالانے والے ہیں ،پس انہیں اس امر میں آپ سے جھگڑانہ کرنا چاہیے،تم اپنے رب کی طرف دعوت دویقیناً تم سیدھے راستے پرہو ۔

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: وَالْأَنْبِیَاءُ إِخْوَةٌ لِعَلَّاتٍ، أُمَّهَاتُهُمْ شَتَّى وَدِینُهُمْ وَاحِدٌ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاہم سب انبیاء علاتی بھائی ہیں ہم سب کا دین ایک ہی ہے۔[76]

اگر اللہ چاہتا توتم سب کوایک ہی شریعت اوردین پرکردیتا لیکن اس طرح تمہاری آزمائش ممکن نہ ہوتی جبکہ وہ تمہاری آزمائش کرنا چاہتا ہے تاکہ تابعداروں کوجزا اور نافرمانوں کو سزا ملے لہذا زندگی کی باقی سانسوں کوغنیمت جانتے ہوئے صدقات ونیکیوں (فرائض ومستحبات،حقوق اللہ اورحقوق العباد) میں ایک دوسرے سے بڑھ جانے کی کوشش کرو، آخرایک دن سانس کی یہ ڈورٹوٹ جائے گی اورتم سب اللہ مالک یوم الدین کی عدالت میں اکیلے اکیلے حاضرکیے جاؤ گے جس میں کوئی شک وشبہ نہیں ، اس وقت اللہ تعالیٰ جن شرائع اور اعمال کے بارے میں تمہارے درمیان اختلاف تھابے نقاب کردے گااورلوگوں پرمنکشف ہوجائے گا کہ جن جھگڑوں میں وہ عمریں کھپا کردنیاسے آئے ہیں ان کی تہ میں حق کا جوہر کتنا تھا اور باطل کے حاشیے کس قدر۔

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: قَالَ كَعْبُ بْنُ أَسَدٍ، وَابْنُ صَلُوبَا، وَعَبْدُ اللهِ بْنُ صوریا، وشاس بْنُ قَیْسٍ، بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ: اذْهَبُوا بِنَا إِلَى مُحَمَّدٍ، لَعَلَّنَا نَفْتِنُهُ عَنْ دِینِهِ! فَأَتَوْهُ، فَقَالُوا: یَا مُحَمَّدُ، إِنَّكَ قَدْ عَرَفْتَ أَنَّا أَحْبَارُ یَهُودَ وَأَشْرَافُهُمْ وَسَادَاتُهُمْ،وَإِنَّا إِنِ اتَّبَعْنَاكَ اتَّبَعَنَا یَهُودُ وَلَمْ یُخَالِفُونَا وَإِنَّ بَیْنَنَا وَبَیْنَ قَوْمِنَا خُصُومَةً فَنُحَاكِمُهُمْ إِلَیْكَ، فَتَقْضِی لَنَا عَلَیْهِمْ، وَنُؤْمِنُ لَكَ، وَنُصَدِّقُكَ!فَأَبَى ذَلِكَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَأَنْزَلَ اللهُ، عَزَّ وَجَلَّ، فِیهِمْ : {وَأَنِ احْكُمْ بَیْنَهُمْ بِمَا أَنزلَ اللَّهُ وَلا تَتَّبِعْ أَهْوَاءَهُمْ وَاحْذَرْهُمْ أَنْ یَفْتِنُوكَ عَنْ بَعْضِ مَا أَنزلَ اللَّهُ إِلَیْكَ} إِلَى قَوْلِهِ: {لِقَوْمٍ یُوقِنُونَ}

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے فرماتے ہیں یہودی کے چندبڑے بڑے رئیسوں اورعالموں کعب بن اسد،ابن صلوبا،شاس بن قیس نے آپس میں ایک میٹنگ کرکے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہو کرعرض کیااے محمد( صلی اللہ علیہ وسلم )! آپ جانتے ہیں کہ ہم یہودیوں کے عالم اوران کے شرفااوران میں رئیسوں میں سے ہیں ، اگرہم آپ کومان لیں توتمام یہودآپ کی نبوت کااقرارکرلیں گے اورہم آپ کی مخالفت ترک کردینے کے لئے تیارہیں اورہم میں اورہماری قوم میں ایک جھگڑاہے اگر اس کا فیصلہ ہمارے مطابق کردیں پھرہم آپ پرایمان لے آئیں گے اورآپ کی رسالت کی تصدیق کریں گے، مگررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایساکرنے سے انکارفرمادیاجس پراللہ عزوجل نے یہ آیات’’پس اے محمد ! تم اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق ان لوگوں کے معاملات کا فیصلہ کرو اور ان کی خواہشات کی پیروی نہ کرو۔‘‘ نازل فرمائیں ۔[77]

چنانچہ اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ اللہ کی نازل کردہ پاکیزہ شریعت کے مطابق فیصلے کریں اور لوگوں کی خواہشات کی پروانہ کریں اور خبرداررہیں کہ یہ مکار اورخائن لوگ آپ کوکسی فتنہ میں مبتلاکرکے شریعت سے ذرہ برابربھی منحرف نہ کرنے پائیں ،جیسے فرمایا

وَاِنْ تُطِعْ اَكْثَرَ مَنْ فِی الْاَرْضِ یُضِلُّوْكَ عَنْ سَبِیْلِ اللهِ۝۰ۭ اِنْ یَّتَّبِعُوْنَ اِلَّا الظَّنَّ وَاِنْ هُمْ اِلَّا یَخْرُصُوْنَ۝۱۱۶ [78]

ترجمہ:اوردنیامیں زیادہ لوگ ایسے ہیں کہ اگرآپ ان کاکہناماننے لگیں تووہ آپ کواللہ کی راہ سے بے راہ کردیں وہ محض بے اصل خیالات پر چلتے ہیں اوربالکل قیاسی باتیں کرتے ہیں ۔

اوراگریہ لوگ اللہ تعالیٰ کے عادلانہ ومنصفانہ قوانین سے انحراف کرکے قیاس ،خواہش نفسانی یالوگوں کے بنائے ہوئے قوانین کی تعبداری کریں تو آپ سمجھ جائیں کہ اللہ نے ان کے بعض گناہوں کی پاداش میں ان کومصیبت میں مبتلاکرنے کافیصلہ فرما لیا ہے،اس لئے توفیق خیر ان سے چھین لی گئی ہے ،اگریہ اللہ تعالیٰ کے پاکیزہ قوانین سے بے رخی اختیارکرتے ہیں ، کفارسے دوستی طلب کرتے ہیں اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اعراض کرتے ہیں توکیایہ ادہام ، قیاس وگمان یااپنی خواہشات کے مطابق فیصلے چاہتے ہیں ،جوجہالت ،ظلم اورگمراہی پر مبنی ہیں ،

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:أَبْغَضُ النَّاسِ إِلَى اللهِ مُبْتَغٍ فِی الْإِسْلَامِ سُنَّةَ الْجَاهِلِیَّةِ، وَطَالِبُ دَمِ امْرِئٍ بِغَیْرِ حَقٍّ لِیُهَرِیقَ دَمَهُ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااللہ عزوجل کے نزدیک تمام لوگوں سے زیادہ ناپسندیدہ شخص وہ ہے جواسلام میں جاہلیت کے طریقے کاخواہش مندہو نیزوہ جوکسی انسان کاناحق خون بہائے۔[79]

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: أَبْغَضُ النَّاسِ إِلَى اللَّهِ ثَلاَثَةٌ: مُلْحِدٌ فِی الحَرَمِ، وَمُبْتَغٍ فِی الإِسْلاَمِ سُنَّةَ الجَاهِلِیَّةِ، وَمُطَّلِبُ دَمِ امْرِئٍ بِغَیْرِ حَقٍّ لِیُهَرِیقَ دَمَهُ

اور ابویمان رضی اللہ عنہ سے مروی ہےاللہ تعالیٰ کے نزدیک لوگوں میں سب سے زیادہ مبغوض تین طرح کے لوگ ہیں ،حرم میں زیادتی کرنے والااوراسلام میں جاہلیت کاطریقہ اپنانے والا اوروہ شخص جوکسی آدمی کاناحق خون کرنے کے لیے اس کے پیچھے لگے۔[80]

حالانکہ جو لوگ صاحب ایقان ہیں اللہ وحدہ لاشریک ،احکم الحاکمین پر ایمان رکھتے ہیں ،اسے ہی اپنامالک تصورکرتے ہیں ، اسے ہی اپنارزاق اورمشکل کشاجانتے ہیں ،اسے ہی مالک یوم الدین سمجھتے ہیں ان کے نزدیک اللہ سے بہتر فیصلہ کرنے والاکوئی نہیں ہے۔

یَا أَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا الْیَهُودَ وَالنَّصَارَىٰ أَوْلِیَاءَ ۘ بَعْضُهُمْ أَوْلِیَاءُ بَعْضٍ ۚ وَمَن یَتَوَلَّهُم مِّنكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ ۗ إِنَّ اللَّهَ لَا یَهْدِی الْقَوْمَ الظَّالِمِینَ ‎﴿٥١﴾‏(المائدہ)
’’ اے ایمان والو ! تم یہود و نصاریٰ کو دوست نہ بناؤیہ تو آپس میں ہی ایک دوسرے کے دوست ہیں، تم میں سے جو بھی ان میں سے کسی سے دوستی کرے وہ بیشک انہی میں سے ہے، ظالموں کو اللہ تعالیٰ ہرگز راہ راست نہیں دکھاتا۔‘‘

اسلام کے دشمنوں سے دوستی منع ہے :اے لوگوجوایمان لائے ہو!یہودونصاریٰ اسلام اورمسلمانوں کے دشمن ہیں ،ان کے دل بغض وعداوت سے بھرے ہوئے ہیں لہذاان سے موالات ومحبت کارشتہ قائم نہ کروجیسے متعدد مقامات پر فرمایا

لَا یَتَّخِذِ الْمُؤْمِنُوْنَ الْكٰفِرِیْنَ اَوْلِیَاۗءَ مِنْ دُوْنِ الْمُؤْمِنِیْنَ۔۔۔۝۰۝۲۸ [81]

ترجمہ:مومنوں کوچاہئے کہ ایمان والوں کو چھوڑ کر کافروں کواپنادوست نہ بنائیں ۔

ھٰٓاَنْتُمْ اُولَاۗءِ تُحِبُّوْنَھُمْ وَلَا یُحِبُّوْنَكُمْ وَتُؤْمِنُوْنَ بِالْكِتٰبِ كُلِّهٖ۝۰ۚ وَاِذَا لَقُوْكُمْ قَالُوْٓااٰمَنَّا۝۰ۚۤۖ وَاِذَا خَلَوْا عَضُّوْا عَلَیْكُمُ الْاَنَامِلَ مِنَ الْغَیْظ۔۔۔ ۝۰۝۱۱۹ [82]

ترجمہ:تم ان سے محبت رکھتے ہومگروہ تم سے محبت نہیں رکھتے حالانکہ تم تمام کتب آسمانی کو مانتے ہو،جب وہ تم سے ملتے ہیں توکہتے ہیں کہ ہم نے بھی(تمہارے رسول اور تمہاری کتاب کو)مان لیاہے مگرجب جدا ہوتے ہیں توتمہارے خلاف ان کے غیظ وغضب کا یہ حال ہوتاہے کہ اپنی انگلیاں چبانے لگتے ہیں ۔

اِنْ تَمْسَسْكُمْ حَسَـنَةٌ تَـسُؤْھُمْ۝۰ۡوَاِنْ تُصِبْكُمْ سَیِّئَةٌ یَّفْرَحُوْا بِھَا۔۔۔۝۰۝۱۲۰ۧ [83]

ترجمہ:جب تمہارا بھلا ہوتاہے توان کوبرامعلوم ہوتاہے اورتم پرکوئی مصیبت آتی ہے تویہ خوش ہوتے ہیں ۔

عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ انصاری اوررئیس المنافقین عبداللہ بن ابی دونوں ہی عہدجاہلیت سے یہودکے حلیف چلے آرہے تھے ،جب غزوہ بدرمیں مسلمانوں کوفتح نصیب ہوئی تو عبداللہ بن ابی نے بھی بادل نخواستہ اسلام کااظہارکیا،ادھربنوقینقاع کے یہودیوں نے تھوڑے ہی دنوں بعدفتنہ برپاکردیاجس پروہ کس لئے گئے،

عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الْوَلِیدِ بْنِ عُبَادَةَ ابْن الصَّامِتِ، قَالَ: لَمَّا حَارَبَتْ بَنُو قَیْنُقَاع رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، تَشَبَّثَ بِأَمْرِهِمْ عَبْدُ اللهِ بْنُ أُبَیٍّ، وَقَامَ دُونَهُمْ، وَمَشَى عُبَادَةُ بْنُ الصَّامِتِ إِلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ،وَكَانَ أَحَدَ بَنِی عَوْف بْنِ الْخَزْرَجِ، لَهُ مِنْ حِلْفِهِمْ مِثْلَ الَّذِی لِعَبْدِ اللهِ بْنِ أُبَیٍّ، فَجَعَلَهُمْ إِلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَتَبَرَّأَ إِلَى اللهِ وَرَسُولِهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مِنْ حِلْفِهِمْ، وَقَالَ: یَا رَسُولَ اللهِ، أَتَبَرَّأُ إِلَى اللهِ وَإِلَى رَسُولِهِ مِنْ حِلْفِهِمْ، وَأَتَوَلَّى اللهَ وَأَتَوَلَّى اللهَ وَرَسُولَهُ وَالْمُؤْمِنِینَوَرَسُولَهُ وَالْمُؤْمِنِینَ، وَأَبْرَأُ مِنْ حِلْفَ الْكُفَّارِ وَوَلَایَتِهِمْ،فَفِیهِ وَفِی عَبْدِ اللهِ بْنِ أُبَیٍّ نَزَلَتِ الْآیَاتُ یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوا الْیَھُوْدَ وَالنَّصٰرٰٓى اَوْلِیَاۗءَ بَعْضُهُمْ أَوْلِیَاءُ بَعْضٍ

عبادہ بن صامت انصاری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں جب یہودی قبیلہ بنوقینقاع نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جنگ کی اوراللہ تعالیٰ نے انہیں شکست سے دوچار کردیاتورئیس المنافقین عبداللہ بن ابی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ان کی حمایت میں کھڑاہوا،اورعبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ جوبنی خزرج سے تعلق رکھتے تھےوہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اورجیساکہ عبداللہ بن ابی یہودکاحلیف تھااسی طرح عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ بھی یہودکے حلیف تھے،انہوں نےعرض کیااے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں اللہ اوراس کے رسول اورمسلمانوں سے محبت رکھتاہوں اوریہودیوں سے جومیرے حلیف تھے اس کی بریت ظاہرکرتاہوں اوران سے بیزاری ظاہرکرتاہوں ،چنانچہ عبداللہ بن ابی اورعبادہ بن صامت کے متعلق یہ آیت’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو ! یہودیوں اور عیسائیوں کو اپنا رفیق نہ بناؤیہ آپس ہی میں ایک دوسرے کے رفیق ہیں اور اگر تم میں سے کوئی ان کو اپنا رفیق بناتا ہے تو اس کا شمار بھی پھر انہی میں ہے، یقیناً اللہ ظالموں کو اپنی راہنمائی سے محروم کردیتا ہے۔‘‘ نازل ہوئی۔[84]

عَنْ أُسَامَةَ بْنِ زَیْدٍ، قَالَ: دَخَلْتُ مَعَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عَلَى عَبْدِ اللهِ بْنِ أُبَیٍّ نَعُودُهُ، فَقَالَ لَهُ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:قَدْ كُنْتُ أَنْهَاكَ عَنْ حُبّ یَهُودَ فَقَالَ عَبْدُ اللهِ: فَقَدْ أَبْغَضَهُمْ أَسْعَدُ بْنُ زُرَارَةَ، فَمَاتَ

اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رئیس المنافقین عبداللہ بن ابی کی عیادت کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے گئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایامیں نے تجھے بارباران یہودیوں کی محبت سے روکا اس پرعبداللہ بن ابی کہنے لگاسعدبن زرارہ توان سے دشمنی رکھتا تھاوہ بھی مرگیا۔[85]

یہودونصاریٰ اگرچہ آپس میں عقائدکے لحاظ سے شدیداختلاف اورباہمی بغض وعنادرکھتے ہیں لیکن اس کے باوجود یہ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف ایک دوسرے کے معاون بازواورمحافظ ہیں ،اس لئے تم میں سے جوبھی ان بدبختوں میں سے کسی سے دوستی کرے گاوہ انہی میں شمار کیا جائے گا،

أَنَّ عُمَرَ , أَمَرَ أَبَا مُوسَى الْأَشْعَرِیَّ أَنْ یَرْفَعَ , إِلَیْهِ مَا أَخَذَ وَمَا أَعْطَى فِی أَدِیمٍ وَاحِدٍ وَكَانَ لَهُ كَاتِبٌ نَصْرَانِیٌّ، فَرَفَعَ إِلَیْهِ ذَلِكَ،فَعَجِبَ عُمَرُ وَقَالَ: إِنَّ هَذَا لَحَفِیظٌ؟ فَقَالَ إِنَّهُ لَا یَسْتَطِیعُ، قَالَ عُمَرُ: أَجُنُبٌ هُوَ؟ قَالَ: لَا بَلْ نَصْرَانِیٌّ ، قَالَ: فَانْتَهَرَنِی وَضَرَبَ فَخِذِی قَالَ: أَخْرِجُوهُ، ثُمَّ قَرَأَ: {یَا أَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا الْیَهُودَ وَالنَّصَارَى أَوْلِیَآءَ بَعْضُهُمْ أَوْلِیَآءُ بَعْضٍ وَمَنْ یَتَوَلَّهُمْ مِنْكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ

سیدناعمر رضی اللہ عنہ نے ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کوحکم دیاکہ انہوں نے جولیاہے اورجودیاہے اس کاحساب پیش کریں اور انہوں نے ایک عیسائی کوکاتب رکھاہواتھا انہوں نے سیدناعمر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حساب پیش کیا توسیدناعمر رضی اللہ عنہ نے تعجب کااظہارکرتے ہوئے فرمایاکیایہ محافظ ہے؟ هَلْ أَنْتَ قَارِئٌ لَنَا كِتَابًا فِی الْمَسْجِدِ جَاءَ مِنَ الشَّامِ؟کیایہ مسجدمیں آکرہمیں وہ خط پڑھ کرسناسکتاہے جوملک شام سے آیاہے؟ ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نے عرض کی یہ مسجدمیں داخل نہیں ہوسکتا،سیدناعمر رضی اللہ عنہ نے پوچھاکیایہ حالت جنابت میں ہے؟انہوں نے جواب دیانہیں بلکہ اس لیے کہ یہ نصرانی ہے،ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آپ نے مجھے ڈانٹااور میری ران پرمارا اورفرمایااسے نکال دو، پھرآپ نے یہ آیت کریمہ’’اے لوگوجوایمان لائے ہو!یہودیوں اورعیسائیوں کواپنارفیق نہ بناؤیہ آپس ہی میں ایک دوسرے کے رفیق ہیں ،اوراگرتم میں سے کوئی ان کواپنارفیق بناتاہے تواس کاشماربھی پھرانہی میں ہے۔‘‘ پڑھی[86]

اللہ تعالیٰ ظالموں کوہرگزصراط مستقیم نہیں دکھاتا۔

فَتَرَى الَّذِینَ فِی قُلُوبِهِم مَّرَضٌ یُسَارِعُونَ فِیهِمْ یَقُولُونَ نَخْشَىٰ أَن تُصِیبَنَا دَائِرَةٌ ۚ فَعَسَى اللَّهُ أَن یَأْتِیَ بِالْفَتْحِ أَوْ أَمْرٍ مِّنْ عِندِهِ فَیُصْبِحُوا عَلَىٰ مَا أَسَرُّوا فِی أَنفُسِهِمْ نَادِمِینَ ‎﴿٥٢﴾‏ وَیَقُولُ الَّذِینَ آمَنُوا أَهَٰؤُلَاءِ الَّذِینَ أَقْسَمُوا بِاللَّهِ جَهْدَ أَیْمَانِهِمْ ۙ إِنَّهُمْ لَمَعَكُمْ ۚ حَبِطَتْ أَعْمَالُهُمْ فَأَصْبَحُوا خَاسِرِینَ ‎﴿٥٣﴾(المائدہ)
’’ آپ دیکھیں گے کہ جن کے دلوں میں بیماری ہے وہ دوڑ دوڑ کر ان میں گھس رہے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہمیں خطرہ ہےایسا نہ ہو کہ کوئی حادثہ ہم پر پڑجائے ، بہت ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ فتح دے دے یا اپنے پاس سے کوئی اور چیز لائے پھر تو یہ اپنے دلوں میں چھپائی ہوئی باتوں پر (بےطرح) نادم ہونے لگیں گے، اور ایماندار کہیں گے کیا یہی وہ لوگ ہیں جو بڑے مبالغہ سے اللہ کی قسمیں کھا کھا کر کہتے ہیں کہ ہم تمہارے ساتھ ہیں، ان کے اعمال غارت ہوئے اور یہ ناکام ہوگئے۔‘‘

فَذَكَرَ السُّدِّی أَنَّهَا نَزَلَتْ فِی رَجُلَیْنِ، قَالَ أَحَدَهُمَا لِصَاحِبِهِ بَعْدَ وَقْعَةِ أُحُدٍ: أَمَّا أَنَا فَإِنِّی ذَاهِبٌ إِلَى ذَلِكَ الْیَهُودِیِّ، فَآوِی إِلَیْهِ وَأَتَهَوَّدُ مَعَهُ، لَعَلَّهُ یَنْفَعُنِی إِذَا وَقَعَ أَمْرٌ أَوْ حَدَثَ حَادِثٌ! وَقَالَ الْآخَرُ: وَأَمَّا أَنَا فَأَذْهَبُ إِلَى فُلَانٍ النَّصْرَانِیُّ بِالشَّامِ، فَآوِی إِلَیْهِ وَأَتَنَصَّرُ مَعَهُ،فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ {یَا أَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا الْیَهُودَ وَالنَّصَارَى أَوْلِیَاءَ} الْآیَاتِ.

سدی رحمہ اللہ کہتاہےیہ آیت دواشخاص کے بارے میں نازل ہوئی،غزوہ احدکے بعدایک شخص نے کہامیں اس یہودی سے دوستی کرتاہوں تاکہ کسی پیش آمدہ موقع پرمجھے نفع پہنچے ،دوسرے نے کہامیں شام میں فلاں نصرانی کے پاس جاتاہوں اس سے دوستی کرکے اس کی مددکروں گا،اس پر اللہ عزوجل نےیہ آیات’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو ! یہودیوں اور عیسائیوں کو اپنا رفیق نہ بناؤ یہ آپس ہی میں ایک دوسرے کے رفیق ہیں ۔‘‘نازل فرمائیں ۔[87]

عَنْ عَطِیَّةَ بْنِ سَعْدٍ قَالَ: جَاءَ عُبَادَةُ بْنُ الصَّامِتِ، مِنْ بَنِی الْخَزْرَجِ، إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: یَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ لِی مَوَالِی مَنْ یَهُودٍ كَثِیرٌ عَدَدُهُمْ، وَإِنِّی أَبْرَأُ إِلَى اللَّهِ وَرَسُولِهِ مِنْ وَلَایَةِ یَهُودٍ، وَأَتَوَلَّى اللَّهَ وَرَسُولَهُ. فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أُبَیٍّ: إِنِّی رَجُلٌ أَخَافُ الدَّوَائِرَ، لَا أَبْرَأُ مِنْ وِلَایَةِ مَوَالِی. فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ لِعَبْدِ اللَّهِ بْنِ أُبَیٍّ:یَا أَبَا الحُباب، مَا بَخِلْتَ بِهِ مِنْ وَلَایَةِ یَهُودَ عَلَى عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ فَهُوَ لَكَ دُونَهُ. قَالَ: قَدْ قَبِلْتُ! فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: {یَا أَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا الْیَهُودَ وَالنَّصَارَى أَوْلِیَاءَ [بَعْضُهُمْ أَوْلِیَاءُ بَعْضٍ] } إِلَى قَوْلِهِ: {فَتَرَى الَّذِینَ فِی قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ} .

عطیہ بن سعدکہتے ہیں عبادہ بن صامت انصاری رضی اللہ عنہ بھی جن کاتعلق بنوعوف بن خزرج سے تھارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اس سلسلے میں حاضرہوئے (کیونکہ وہ بھی عبداللہ بن ابی کی طرح ان کے حلیف تھے مگرانہوں نے ان کے حلیف بننے کوترک کرکے اللہ اوراس کے رسول کے دامن سے وابستگی کو اختیارکرلیاتھا)اوربارگاہ رسالت میں عرض کی اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! میری بہت سے یہودیوں سے دوستی ہے مگر میں ان سب کی دوستیاں توڑتاہوں اورمیں اللہ اوراس کے رسول کے پاس ان کاحلیف بننے سے اظہار برات کرتاہوں اور اللہ تعالیٰ ،اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اورمومنوں سے دوستی کااقرارکرتاہوں اورکافروں کی دوستی سے انکارکرتاہوں ،اس پر عبداللہ بن ابی نے کہامیں دوراندیش ہوں اوردورکی سوچنے کاعادی ہوں ،مجھ سے یہ نہیں ہوسکے گا،نہ جانے کس وقت کیاموقعہ پڑجائے، اس پررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عبداللہ بن ابی سے فرمایااے عبداللہ! توعبادہ رضی اللہ عنہ کے مقابلے میں بہت ہی گھاٹے میں رہا، جس پریہ آیات’’ اے لوگو جو ایمان لائے ہو ! یہودیوں اور عیسائیوں کو اپنا رفیق نہ بناؤ یہ آپس ہی میں ایک دوسرے کے رفیق ہیں اور اگر تم میں سے کوئی ان کو اپنا رفیق بناتا ہے تو اس کا شمار بھی پھر انہی میں ہے، یقیناً اللہ ظالموں کو اپنی راہنمائی سے محروم کردیتا ہے،تم دیکھتے ہو کہ جن کے دلوں میں نفاق کی بیماری ہے وہ انہی میں دوڑ دھوپ کرتے پھرتے ہیں کہتے ہیں ہمیں ڈر لگتا ہے کہ کہیں ہم کسی مصیبت کے چکّر میں نہ پھنس جائیں ۔‘‘ نازل ہوئیں ۔[88]

کفرواسلام کی کشمکش کا ابھی فیصلہ نہیں ہواتھااگرمجاہدین اسلام نے سرفروشی کے جھنڈے گاڑکراپنالوہامنوالیاتھا تومخالف قوتیں بھی کم نہ تھیں ان کے پاس معاشی قوت تھی ، ساراکاروبارانہی کے ہاتھوں میں تھا،عرب کے بہترین وشاداب خطے ان کے قبضہ میں تھے ،سودخواری جال ہرطرف پھیلاہواتھااس طرح پلڑادونوں طرف برابر تھااور بظاہر کسی وقت بھی یہودونصاریٰ کی طرف جھک سکتاتھاان حالات میں منافقین سیاسی اورمعاشی طورپر بڑی عجیب کشمکش میں مبتلا تھے ، وہ مسلمانوں سے بھی بگاڑ نہیں کرنا چاہتے تھے اور یہودونصاریٰ سے بھی اپنے تعلقات منقطع نہیں کرناچاہتے تھے تاکہ جس طرف فائدہ ہواسی طرف جھک جائیں ،اللہ تعالیٰ نے فرمایا منافقین جن کے دلوں میں شک،نفاق اورضعف ایمان ہے وہ تولپک لپک کرپوشیدہ طورپریہودونصاریٰ سے سازبازاورمحبت ومودت کرتے ہیں اورکہتے ہیں کہ ہمیں خطرہ ہے کہ کہیں گردش ایام یہود و نصاریٰ کے حق میں نہ ہوجائے اوراگرزمانے کی گردش ان کے حق میں ہوتوہماراان پریہ احسان انہیں اس بدلے میں ہمارے ساتھ اچھا سلوک کرنے پرآمادہ کرے گا ، اللہ تعالیٰ نے ان کی بدظنی کاردکرتے ہوئے فرمایاتمہارے خیالات کے برعکس ہوسکتاہے اللہ تعالیٰ اسلام اور مسلمانوں کویہودونصاریٰ پرصاف طورپرغالب کر دے ،مکہ مکرمہ جواس وقت کفارکی ریشہ دانیوں کا مرکز بناہواہے بھی مسلمانوں کے ہاتھوں فتح ہوجائے(اور بنوقریظہ کے قتل اوران کی اولادکے قیدی بنانے اوربنونضیرکی جلاوطنی وغیرہ کی طرف اشارہ فرمایاکہ )یایہودونصاریٰ کومغلوب کرکے انہیں ذلیل کرکے مسلمانوں کو ان سے جزیہ لینے کاحکم فرمادےجس سے ان لوگوں کویقین ہوجائے کہ آخری فیصلہ اسلام ہی کے حق میں ہوگاتو پھرمنافقین کے بھیدعیاں ہو جائیں گے،ان کی سازشوں کے وہ تمام تانے بانے جووہ بناکرتے تھے اوران کے وہ تمام ظن وگمان جو وہ اسلام کے بارے میں رکھاکرتے تھے باطل ہوجائیں گے اوران کی سب چالیں ناکام ہوجائیں گی تواس وقت اہل ایمان ان کی مکاریوں پرتعجب کریں گے اورکہیں گے یہی وہ لوگ ہیں جومبالغہ سے اللہ کی قسمیں کھاکرہمیں یقین دلاتے تھے کہ یہ ہمارے ساتھی ہیں ،ان کے نفاق کے سبب ان کے تمام ا عمال جیسے دکھاوے کی نمازیں ، روزے، زکوٰة، شرکت جہاد وغیرہ ضائع ہو گئے اورانہوں نے جونعمت اسلام پائی تھی اسے کھودیا۔

یَا أَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا مَن یَرْتَدَّ مِنكُمْ عَن دِینِهِ فَسَوْفَ یَأْتِی اللَّهُ بِقَوْمٍ یُحِبُّهُمْ وَیُحِبُّونَهُ أَذِلَّةٍ عَلَى الْمُؤْمِنِینَ أَعِزَّةٍ عَلَى الْكَافِرِینَ یُجَاهِدُونَ فِی سَبِیلِ اللَّهِ وَلَا یَخَافُونَ لَوْمَةَ لَائِمٍ ۚ ذَٰلِكَ فَضْلُ اللَّهِ یُؤْتِیهِ مَن یَشَاءُ ۚ وَاللَّهُ وَاسِعٌ عَلِیمٌ ‎﴿٥٤﴾‏ إِنَّمَا وَلِیُّكُمُ اللَّهُ وَرَسُولُهُ وَالَّذِینَ آمَنُوا الَّذِینَ یُقِیمُونَ الصَّلَاةَ وَیُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَهُمْ رَاكِعُونَ ‎﴿٥٥﴾‏ وَمَن یَتَوَلَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَالَّذِینَ آمَنُوا فَإِنَّ حِزْبَ اللَّهِ هُمُ الْغَالِبُونَ ‎﴿٥٦﴾‏(المائدہ)
’’ اے ایمان والو ! تم میں سے جو شخص اپنے دین سے پھرجائے تو اللہ تعالیٰ بہت جلد ایسی قوم کو لائے گا جو اللہ کی محبوب ہوگی اور وہ بھی اللہ سے محبت رکھتی ہوگی ، وہ نرم دل ہوں گے مسلمانوں پراور سخت اور تیز ہوں گے کفار پر، اللہ کی راہ میں جہاد کریں گے اور کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کی پرواہ بھی نہ کریں گے ، یہ ہے اللہ تعالیٰ کا فضل جسے چاہے دے، اللہ تعالیٰ بڑی وسعت والا اور زبردست علم والا ہے،(مسلمانوں) ! تمہارا دوست خود اللہ ہے اور اس کا رسول ہے اور ایمان والے ہیں جو نمازوں کی پابندی کرتے ہیں اور زکوة ادا کرتے ہیں اور رکوع (خشوع و خضوع) کرنے والے ہیں،اور جو شخص اللہ تعالیٰ سے اور اس کے رسول سے اور مسلمانوں سے دوستی کرے وہ یقین مانے کہ اللہ تعالیٰ کی جماعت ہی غالب رہے گی۔‘‘

اللہ نے اپنی بے نیازی کااظہارفرمایاکہ وہ تمام جہانوں سے بے نیازہے ،جوکوئی اس کے دین سے پھرجاتاہے(جس کاوقوع نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے فوراًبعد کچھ قبائل میں ہوا) وہ اللہ کا کوئی نقصان نہیں کرسکتابلکہ وہ اپنے آپ کوہی نقصان پہنچاتاہے ، اگرتمہیں دین نہیں چاہئے تواپنی راہ ناپو،ہمیں اس راستہ پرمخلص لوگ درکار ہیں ،پھرہم مرتدین کے بجائے دین کی امامت ان لوگوں کودیں گے جن میں یہ صفات ہوں گی ،اللہ ان سے محبت کرے گا ،بندے کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی محبت جلیل ترین نعمت ہے جس کے ساتھ اس نے اپنے بندے کونوازاہے،جب اللہ اپنے بندے سے محبت کرتاہے تووہ اس کے لئے تمام اسباب مہیاکردیتاہے ،ہرقسم کی مشکل اس پرآسان کردیتاہے ،نیک کام کرنے اور برائیوں کوترک کرنے کی توفیق عطاکرتاہے ،جیسے فرمایا

قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللهَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْكُمُ اللهُ وَیَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوْبَكُمْ۝۰ۭ وَاللهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ۝۳۱ [89]

ترجمہ:اے نبی ! لوگوں سے کہہ دو کہ اگر تم حقیقت میں اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میری پیروی اختیار کرو ، اللہ تم سے محبت کرے گا اور تمہاری خطاؤں سے درگزر فرمائے گا وہ بڑا معاف کرنے والا اور رحیم ہے۔

اوروہ اللہ سے محبت کرنے والے ہوں گے،وہ آپس میں نرم خوہوں گے،یعنی وہ اپنی طاقت ، ذہانت،ہوشیاری ، قابلیت،اثررسوخ،مال اورجسمانی زور وغیرہ الغرض کوئی بھی چیزمسلمانوں کودبانے ،ستانے اورنقصان پہنچانے کے لئے استعمال نہیں کریں گے ،ان کی قوت وبہادری کا سکہ کفاربھی محسوس کریں گے،وہ کفارپرسخت گیرہوں گے یعنی ایمان کی پختگی،دینداری کے خلوص،اصول کی مضبوطی،سیرت کی طاقت اورایمان کی فراست کی وجہ سے مخالفین اسلام کے مقابلہ میں پتھرکی چٹان کے ماندہوں گے،جیسے فرمایا

۔۔۔اَشِدَّاۗءُ عَلَی الْكُفَّارِ رُحَمَاۗءُ بَیْنَهُمْ۔۔۔۝۲۹ۧ [90]

ترجمہ:وہ کافروں کے لئے نہایت سخت اورآپس میں بہت مہربان ہیں ۔

وہ زندگی اس جدوجہدمیں گزاریں گے کہ اللہ کے دین کوسمجھنااورسمجھاناہے،اس کے دین کونہ صرف اپنے اوپر نافذ کرنا ہے بلکہ دنیاپربھی نافذکرنے کی جدوجہدکرنی ہے،عزائم کی پختگی کی وجہ سے وہ کسی ملامت گرکی ملامت کی پرواہ نہیں کریں گے،یعنی اللہ کے دین کی پیروی ،اس کے احکام پرعملدرآمدکرنے ، اورحق کوحق اور باطل کوباطل کہنے میں وہ کسی طعن وتشنیع ،نکتہ چینیوں کی نکتہ چینی ،کسی کی پھبتیوں اور آوازوں کی وہ کوئی پرواہ نہیں کریں گے ،وہ صرف اللہ کاخوف ولحاظ اوررب کی رضا کومقدم رکھیں گے اوروہ اسی راستے پرچلیں گے جسے وہ سچے دل سے حق جانتے ہیں ،

عَنْ أَبِی ذَرٍّ، قَالَ: أَمَرَنِی خَلِیلِی صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بِسَبْعٍ: أَمَرَنِی بِحُبِّ الْمَسَاكِینِ، وَالدُّنُوِّ مِنْهُمْ، وَأَمَرَنِی أَنْ أَنْظُرَ إِلَى مَنْ هُوَ دُونِی، وَلَا أَنْظُرَ إِلَى مَنْ هُوَ فَوْقِی، وَأَمَرَنِی أَنْ أَصِلَ الرَّحِمَ وَإِنْ أَدْبَرَتْ، وَأَمَرَنِی أَنْ لَا أَسْأَلَ أَحَدًا شَیْئًا، وَأَمَرَنِی أَنْ أَقُولَ بِالْحَقِّ وَإِنْ كَانَ مُرًّا، وَأَمَرَنِی أَنْ لَا أَخَافَ فِی اللَّهِ لَوْمَةَ لَائِمٍ، وَأَمَرَنِی أَنْ أُكْثِرَ مِنْ قَوْلِ: لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ، فَإِنَّهُنَّ مِنْ كَنْزٍ تَحْتَ الْعَرْشِ

ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہےمیرے دوست نبی اکریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے سات باتوں کاحکم دیاآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے حکم دیاکہ میں مسکینوں سے محبت کروں اوران کے قریب رہوں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے حکم دیاکہ میں اپنے سے کم ترکی طرف دیکھوں اوراپنے سے بالاترکی طرف نہ دیکھوں اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے حکم دیاکہ میں رشتے داروں سے صلہ رحمی کروں خواہ وہ مجھ سے قطع رحمی کریں ،اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے حکم دیاکہ میں کسی سے کوئی سوال نہ کروں ،اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے حکم دیاکہ میں حق بات کہوں خواہ وہ کڑوی ہی کیوں نہ ہواورآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے حکم دیاکہ میں اللہ کے بارے میں کسی ملامت گرکی ملامت سے نہ ڈروں ،اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے حکم دیاکہ میں کثرت سے لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللهِ پڑھتارہوں کیونکہ ان کلمات کوعرش الٰہی کے خزانے سے نازل کیاگیاہے۔[91]

عَنْ حُذَیْفَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:لَا یَنْبَغِی لِلْمُؤْمِنِ أَنْ یُذِلَّ نَفْسَهُ، قَالُوا: وَكَیْفَ یُذِلُّ نَفْسَهُ؟ قَالَ:یَتَعَرَّضُ مِنَ الْبَلَاءِ لِمَا لَا یُطِیقُهُ

اورحذیفہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایامومن کوئی بات زیب نہیں دیتی کہ وہ اپنے آپ کوذلیل کرے،انہوں نے کہااپنے آپ کوذلیل کیسے کرے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاایسی مصیبتیں اٹھالے جن کے اٹھانے کی اسے طاقت نہ ہو۔[92]

یہ اللہ کاوسیع فضل وکرم اوربے پایاں احسان ہے،جسے وہ چاہتاہے عطا فرما دیتا ہے ، اللہ وسیع ذرائع کا مالک اورسب کچھ جانتاہے،تمہارے رفیق تو حقیقت میں صرف اللہ اور اللہ کا رسول اور وہ اہل ایمان ہیں جوفرض نمازوں کوباجماعت اداکرنے کے لیے مسجدوں میں حاضرہوتے ہیں ،اپنے پاکیزہ اموال یتیموں ،مسکینوں ،بیواؤں ،مسافروں اورضرورت مندوں پرخرچ کرتے ہیں اور اللہ کے آگے خشوع وخضوع کرنے والے ہیں ،اوراللہ کی جماعت اوراس کے غلبے کی نویدسنائی کہ جو اللہ اور اس کے رسول اور اہل ایمان کو اپنا رفیق بنالے اسے معلوم ہو کہ اللہ کی جماعت ہی غالب رہنے والی ہے ۔اورحزب اللہ وہی ہے جن کے بارے میں ایک مقام پرفرمایا

لَا تَجِدُ قَوْمًا یُّؤْمِنُوْنَ بِاللہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ یُوَاۗدُّوْنَ مَنْ حَاۗدَّ اللہَ وَرَسُوْلَہٗ وَلَوْ كَانُوْٓا اٰبَاۗءَہُمْ اَوْ اَبْنَاۗءَہُمْ اَوْ اِخْوَانَہُمْ اَوْ عَشِیْرَتَہُمْ۝۰ۭ اُولٰۗىِٕكَ كَتَبَ فِیْ قُلُوْبِہِمُ الْاِیْمَانَ وَاَیَّدَہُمْ بِرُوْحٍ مِّنْہُ۝۰ۭ وَیُدْخِلُہُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِہَا الْاَنْہٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْہَا۝۰ۭ رَضِیَ اللہُ عَنْہُمْ وَرَضُوْا عَنْہُ۝۰ۭ اُولٰۗىِٕكَ حِزْبُ اللہِ۝۰ۭ اَلَآ اِنَّ حِزْبَ اللہِ ہُمُ الْمُفْلِحُوْنَ۝۲۲ۧ [93]

ترجمہ:تم کبھی یہ نہ پاؤ گے کہ جو لوگ اللہ اور آخرت پر ایمان رکھنے والے ہیں وہ ان لوگوں سے محبت کرتے ہوں جنوں نے اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کی ہے خواہ وہ ان کے باپ ہوں یا ان کے بیٹے یا ان کے بھائی یا ان کے اہل خاندان، یہ وہ لوگ ہیں جن کے دلوں میں اللہ نے ایمان ثبت کریا ہے اور اپنی طرف سے ایک روح عطا کر کے ان کو قوت بخسی ہے، وہ ان کو ایسی جنتوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی ان میں وہ ہمیشہ رہیں گے،اللہ ان سے راضی ہو اور وہ اللہ سے راضی ہوئے ،وہ اللہ کی پارٹی کے لوگ ہیں ، خبر دار رہو اللہ کی پارٹی والے ہی فلاح پانے والے ہیں ۔

‏ یَا أَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا الَّذِینَ اتَّخَذُوا دِینَكُمْ هُزُوًا وَلَعِبًا مِّنَ الَّذِینَ أُوتُوا الْكِتَابَ مِن قَبْلِكُمْ وَالْكُفَّارَ أَوْلِیَاءَ ۚ وَاتَّقُوا اللَّهَ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِینَ ‎﴿٥٧﴾ وَإِذَا نَادَیْتُمْ إِلَى الصَّلَاةِ اتَّخَذُوهَا هُزُوًا وَلَعِبًا ۚ ذَٰلِكَ بِأَنَّهُمْ قَوْمٌ لَّا یَعْقِلُونَ ‎﴿٥٨﴾‏ قُلْ یَا أَهْلَ الْكِتَابِ هَلْ تَنقِمُونَ مِنَّا إِلَّا أَنْ آمَنَّا بِاللَّهِ وَمَا أُنزِلَ إِلَیْنَا وَمَا أُنزِلَ مِن قَبْلُ وَأَنَّ أَكْثَرَكُمْ فَاسِقُونَ ‎﴿٥٩﴾‏ قُلْ هَلْ أُنَبِّئُكُم بِشَرٍّ مِّن ذَٰلِكَ مَثُوبَةً عِندَ اللَّهِ ۚ مَن لَّعَنَهُ اللَّهُ وَغَضِبَ عَلَیْهِ وَجَعَلَ مِنْهُمُ الْقِرَدَةَ وَالْخَنَازِیرَ وَعَبَدَ الطَّاغُوتَ ۚ أُولَٰئِكَ شَرٌّ مَّكَانًا وَأَضَلُّ عَن سَوَاءِ السَّبِیلِ ‎﴿٦٠﴾‏(المائدہ)‏
’’مسلمانوں ! ان لوگوں کو دوست نہ بناؤ جو تمہارے دین کو ہنسی کھیل بنائے ہوئے ہیں(خواہ) وہ ان میں سے ہوں جو تم سے پہلے کتاب دیئے گئے یا کفار ہوں، اگر تم مومن ہو تو اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو، اور جب تم نماز کے لیے پکارتے ہو تو وہ اسے ہنسی کھیل ٹھیرا لیتے ہیں ، یہ اس واسطے کہ بےعقل ہیں،آپ کہہ دیجئے اے یہودیوں اور نصرانیوں ! تم ہم میں سے صرف اس لیے دشمنیاں کر رہے ہو کہ ہم اللہ تعالیٰ پر اور جو کچھ ہماری جانب نازل کیا گیا ہے جو کچھ اس سے پہلے اتارا گیا اس پر ایمان لائے ہیں اور اس لیے بھی کہ تم میں اکثر فاسق ہیں، کہہ دیجئے کہ کیا میں تمہیں بتاؤں؟ کہ اس سے بھی زیادہ اجر پانے والا اللہ تعالیٰ کے نزدیک کون ہے ؟ وہ جس پر اللہ تعالیٰ نے لعنت کی اور اس پر وہ غصہ ہو اور ان میں سے بعض کو بندر اور سور بنادیا اور جنہوں نے معبودان باطل کی پرستش کی، یہی لوگ بدتر درجے والے ہیں اور یہی راہ راست سے بہت زیادہ بھٹکنے والے ہیں ۔‘‘

اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو اسلام اورمسلمانوں کے دشمن یہودونصاریٰ اورمشرکین کی دوستی سے نفرت دلاتے ہوئے فرمایااے لوگوجوایمان لائے ہو!تمہارے پیش رواہل کتاب میں سے جن لوگوں نے تمہارے دین وشریعت کومذاق اورتفریح کاسامان بنالیاہے ،جواللہ اوراس کے رسول کے دشمن ہیں ،انہیں اوردوسرے مشرکین اور کافروں کواپنادوست اوررفیق نہ بناؤ،اوران کی دشمنی کی وجہ صرف یہی ہے کہ تم اللہ وحدہ لاشریک پرایمان لائے ہو،جیسے فرمایا

وَمَا نَقَمُوْا مِنْهُمْ اِلَّآ اَنْ یُّؤْمِنُوْا بِاللهِ الْعَزِیْزِ الْحَمِیْدِ۝۸ۙ [94]

ترجمہ:اوران اہل ایمان سے ان کی دشمنی اس کے سواکسی وجہ سے نہ تھی کہ وہ اس اللہ پر ایمان لے آئے تھے جوزبردست اوراپنی ذات میں آپ محمودہے ۔

ایک مقام پر ان کے غصہ کی وجہ مالی فوائد فرمایا

۔۔۔وَمَا نَقَمُوْٓا اِلَّآ اَنْ اَغْنٰىهُمُ اللهُ وَرَسُوْلُهٗ مِنْ فَضْلِهٖ۔۔۔۝۷۴ [95]

ترجمہ:ان کاساراغصہ اسی بات پرہے ناکہ اللہ اوراس کے رسول نے اپنے فضل سے ان کوغنی کردیاہے ۔

اس لئے فرمایاحزب شیطان کو کبھی اپنادوست نہ سمجھو۔

لَا یَتَّخِذِ الْمُؤْمِنُوْنَ الْكٰفِرِیْنَ اَوْلِیَاۗءَ مِنْ دُوْنِ الْمُؤْمِنِیْنَ۝۰ۚ وَمَنْ یَّفْعَلْ ذٰلِكَ فَلَیْسَ مِنَ اللهِ فِیْ شَیْءٍ ۔۔۔۝۲۸ [96]

ترجمہ:مومنین اہل ایمان کو چھوڑ کر کافروں کواپنارفیق اور یارومددگارہرگزنہ بنائیں جوایساکرے گااس کااللہ سے کوئی تعلق نہیں ۔

اللہ کی گرفت سے ڈرواگرتم مومن ہو،جب تم لوگوں کونمازکے لئےجمع کرنے کے لئے اذان کی آواز بلندکرتے ہوتوشیطان کے ان پیروکاروں کوتوحیدورسالت کی یہ خالص پکاراچھی نہیں لگتی اوروہ اس کی نقلیں اتارتے ہیں ،

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ:أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: إِذَا نُودِیَ لِلصَّلاَةِ أَدْبَرَ الشَّیْطَانُ، وَلَهُ ضُرَاطٌ، حَتَّى لاَ یَسْمَعَ التَّأْذِینَ ،فَإِذَا قَضَى النِّدَاءَ أَقْبَلَ، حَتَّى إِذَا ثُوِّبَ بِالصَّلاَةِ أَدْبَرَ حَتَّى إِذَا قَضَى التَّثْوِیبَ أَقْبَلَ، حَتَّى یَخْطِرَ بَیْنَ المَرْءِ وَنَفْسِهِ، یَقُولُ: اذْكُرْ كَذَا، اذْكُرْ كَذَا، لِمَا لَمْ یَكُنْ یَذْكُرُ حَتَّى یَظَلَّ الرَّجُلُ لاَ یَدْرِی كَمْ صَلَّى

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب شیطان اذان کی آواز سنتا ہے توگوزمارتاہوابھاگ جاتاہے(تاکہ اذان کی گواہی آخرت میں نہ دینی پڑے) اوروہاں جاکرٹھیرتاہے جہاں اذان کی آوازنہ سن پائے اورجب اذان ختم ہوجاتی ہے توپھرآجاتاہے ،تکبیرکے وقت پھرپیٹھ پھیرکرچل دیتاہےاورجب تکبیرختم ہوجاتی ہے تو پھر آکر نمازیوں کے دلوں میں وسوسے پیداکرتاہے،اورنمازی کویہ بھی خبرنہیں رہتی کہ نمازکی کتنی رکعت پڑھیں ۔[97]

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:فَإِذَا وَجَدَ أَحَدُكُمْ ذَلِكَ فَلْیَسْجُدْ سَجْدَتَیْنِ وَهُوَ جَالِسٌ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایاتم میں سے کوئی جب یہ کیفیت محسوس کرے توچاہیے کہ بیٹھے ہی بیٹھے دو سجدےکرلے۔[98]

ان کی یہ حرکتیں محض بے عقلی کانتیجہ ہیں ،ورنہ مسلمانوں سے مذہبی اختلاف رکھنے کے باوجودایسی خفیف حرکات ان سے سرزدنہ ہوتیں ،ان سے کہواے اہل کتاب تم ہم سے صرف اس وجہ سے ناراض ہواور دشمنیاں کررہے ہو کہ ہم اللہ وحدہ لاشریک کی ذات وصفات پرایمان لے آئے ہیں ،جیسے فرمایا

وَمَا نَقَمُوْا مِنْہُمْ اِلَّآ اَنْ یُّؤْمِنُوْا بِاللہِ الْعَزِیْزِ الْحَمِیْدِ۝۸ۙ [99]

ترجمہ:اور ان اہل ایمان سے ان کی دشمنی اس کے سوا کسی وجہ سے نہ تھی کہ وہ اس خدا پر ایمان لے آئے تھے جو زبردست اور اپنی ذات میں آپ محمود ہے۔

۔۔۔ وَمَا نَقَمُوْٓا اِلَّآ اَنْ اَغْنٰىہُمُ اللہُ وَرَسُوْلُہٗ مِنْ فَضْلِہٖ۔۔۔۝۷۴ [100]

ترجمہ: یہ ان کا سارا غصّہ اسی بات پر ہے تاکہ اللہ اور اس کے رسول نے اپنے فضل سے ان کو غنی کر دیا ہے !۔

اوراس کے رسول سیدالانبیاء محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اورجوجلیل القدر قرآن مجیداس پرنازل ہوئی ہے اس پرایمان لے آئے ہیں ،اورجو انبیاء بنی اسرائیل میں یااس سے پہلے مبعوث ہوئے اورجوکتابیں وصحیفے ان پر نازل ہوئے ان پربھی ایمان لائے ہیں ،جوکوئی اس ایمان جیساایمان نہیں رکھتے وہ کافراورفاسق ہیں ،پھراے نبی صلی اللہ علیہ وسلم !ان سے کہوکیامیں ان لوگوں کی نشان دہی کروں جوبدترین ،گمراہ ترین ،نفرت اورمذمت کے قابل ہیں جن کاانجام اللہ کے ہاں فاسقوں کے انجام سے بھی بدترہے؟وہ لوگ جن پراللہ نے لعنت کی یعنی اپنی رحمت سے دورکردیا،جن پران کی بے حیائی ،مجرمانہ بے باکی،فسق وفجوراورانتہائی اخلاقی تنزل کے سبب باربار اللہ کاغضب ان پرٹوٹ پڑااورسبت کاقانون توڑنے پرقوم کے ایک بڑے گروہ کی صورتیں مسخ کرکے بندر اور سوربنائے گئے،جیسے فرمایا

وَلَقَدْ عَلِمْتُمُ الَّذِیْنَ اعْتَدَوْا مِنْكُمْ فِى السَّبْتِ فَقُلْنَا لَھُمْ كُوْنُوْا قِرَدَةً خٰسِـــِٕیْنَ۝۶۵ۚ [101]

ترجمہ:پھر تمہیں اپنی قوم کے ان لوگوں کا قصّہ تو معلوم ہی ہے جنہوں نے سبت کا قانون توڑا تھا ہم نے انہیں کہ دیا کہ بندر بن جاؤ اور اس حالت میں رہو کہ ہر طرف سے تم پر دھتکار پھٹکار پڑے۔

عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ قَالَ: سُئِلَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الْقِرَدَةِ وَالْخَنَازِیرِ، أَهِیَ مِمَّا مَسَخَ اللهُ تَعَالَى ؟ فَقَالَ إِنَّ اللهَ لَمْ یُهْلِكْ قَوْمًا -أَوْ قَالَ: لَمْ یَمْسَخْ قَوْمًا-فَیَجْعَلْ لَهُمْ نَسْلا وَلَا عَقِبًا وَإِنَّ الْقِرَدَةَ وَالْخَنَازِیرَ كانت قبل ذلك

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیاگیاکہ کیایہ بندراورمسخ شدہ مخلوقات ہیں ؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجس قوم پراللہ کاایساعذاب نازل ہوتاہے ان کی نسل ہی ختم کردی جاتی ہے ،ان سے پہلے بھی سور اور بندر تھے۔[102]

جنہوں نے اللہ کی نازل کردہ کتابوں کے باوجوداللہ وحدہ لاشریک کی بندگی کے بجائے طاغوت کی بندگی کی (ہروہ چیزجس کی اللہ کے سواعبادت کی جائے وہ طاغوت ہے) اے اہل کتاب !اس آئینے میں تم اپناچہرہ اورکرداردیکھ لو!کہ یہ کن لوگوں کی تاریخ ہے اوروہ کون لوگ ہیں ؟کیایہ تم لوگ نہیں ہو؟اوران کادرجہ اوربھی زیادہ براہے اوروہ سیدھی راہ سے بہت دورہیں ۔

وَإِذَا جَاءُوكُمْ قَالُوا آمَنَّا وَقَد دَّخَلُوا بِالْكُفْرِ وَهُمْ قَدْ خَرَجُوا بِهِ ۚ وَاللَّهُ أَعْلَمُ بِمَا كَانُوا یَكْتُمُونَ ‎﴿٦١﴾‏ وَتَرَىٰ كَثِیرًا مِّنْهُمْ یُسَارِعُونَ فِی الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَأَكْلِهِمُ السُّحْتَ ۚ لَبِئْسَ مَا كَانُوا یَعْمَلُونَ ‎﴿٦٢﴾‏ لَوْلَا یَنْهَاهُمُ الرَّبَّانِیُّونَ وَالْأَحْبَارُ عَن قَوْلِهِمُ الْإِثْمَ وَأَكْلِهِمُ السُّحْتَ ۚ لَبِئْسَ مَا كَانُوا یَصْنَعُونَ ‎﴿٦٣﴾‏ وَقَالَتِ الْیَهُودُ یَدُ اللَّهِ مَغْلُولَةٌ ۚ غُلَّتْ أَیْدِیهِمْ وَلُعِنُوا بِمَا قَالُوا ۘ بَلْ یَدَاهُ مَبْسُوطَتَانِ یُنفِقُ كَیْفَ یَشَاءُ ۚ وَلَیَزِیدَنَّ كَثِیرًا مِّنْهُم مَّا أُنزِلَ إِلَیْكَ مِن رَّبِّكَ طُغْیَانًا وَكُفْرًا ۚ وَأَلْقَیْنَا بَیْنَهُمُ الْعَدَاوَةَ وَالْبَغْضَاءَ إِلَىٰ یَوْمِ الْقِیَامَةِ ۚ كُلَّمَا أَوْقَدُوا نَارًا لِّلْحَرْبِ أَطْفَأَهَا اللَّهُ ۚ وَیَسْعَوْنَ فِی الْأَرْضِ فَسَادًا ۚ وَاللَّهُ لَا یُحِبُّ الْمُفْسِدِینَ ‎﴿٦٤﴾‏(المائدہ)
’’اور جب تمہارے پاس آتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم ایمان لائے حالانکہ وہ کفر لیے ہوئے ہی آئے تھے اسی کفر کے ساتھ ہی گئے بھی، اور یہ جو کچھ چھپا رہے ہیں اسے اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے ، آپ دیکھیں گے کہ ان میں سے اکثر گناہ کے کاموں کی طرف اور ظلم و زیادتی کی طرف اور مال حرام کھانے کی طرف لپک رہے ہیں جو کچھ یہ کر رہے ہیں وہ نہایت برے کام ہیں، انہیں ان کے عابد و عالم جھوٹ باتوں کے کہنے اور حرام چیزوں کے کھانے سے کیوں نہیں روکتے، بیشک برا کام ہے جو یہ کر رہے ہیں ،اور یہودیوں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں، انہی کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں اور ان کے اس قول کی وجہ سے ان پر لعنت کی گئی بلکہ اللہ تعالیٰ کے دونوں ہاتھ کھلے ہوئے ہیں جس طرح چاہتا ہے خرچ کرتا ہے، اور جو کچھ تیری طرف تیرے رب کی جانب سے اتارا جاتا ہے وہ ان میں سے اکثر کو تو سرکشی اور کفر میں اور بڑھا دیتا ہے، اور ہم نے ان میں آپس میں ہی قیامت تک کے لیے عداوت اور بغض ڈال دیا ہے،وہ جب کبھی لڑائی کی آگ کو بھڑکانا چاہتے ہیں تو اللہ تعالیٰ اسے بجھا دیتا ہے،یہ ملک بھر میں شر اور فساد مچاتے پھرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ فسادیوں سے محبت نہیں کرتا۔‘‘

منافقین کاذکرفرمایاکہ جب یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ہدایت کے حصول کے لئے نہیں بلکہ دلوں میں اپنے کفرو نفاق کوچھپائے ہوئے حاضرہوتے ہیں اورمومنوں کودھوکادینے کے لیےکہتے ہیں ہم ایمان لائے مگرآپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پاکیزہ صحبت اورآپ کے وعظ ونصیحت کاان پرکوئی اثرنہیں ہوتا ،چنانچہ جیسی حالت میں یہ آتے ہیں اسی ہی حالت میں واپس چلے جاتے ہیں ، اوریہ اپنے دلوں میں جوکچھ چھپائے ہوئے ہیں اللہ عالم الغیب والشہادة اس سے بخوبی واقف ہے،ان میں اکثر لوگوں کاکرداریہ ہے کہ گناہ کے کاموں ،ظلم وزیادتی اورمال حرام کھانے کی طرف سبقت کرتے ہیں ،جوکچھ یہ کر رہے ہیں وہ نہایت برے کام ہیں ،اہل کتاب کے علماء ومشایخ کوسرزنش کرتے ہوئے فرمایاان کے درویش،عابدوعالم اپنی ذمہ داری امربالمعروف اورنہی عن المنکرکوبجالانے کے بجائے عوام کوفسق وفجوراورحرام خوری کے ارتکاب سے منع نہیں کرتے،بیشک براکام ہے جویہ کررہے ہیں ،

عَنْ عَلِیِّ بْنِ أَبِی طَلْحَةَ , عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ , قَوْلُهُ: {لَوْلَا یَنْهَاهُمُ الرَّبَّانِیُّونَ وَالْأَحْبَارُ عَنْ قَوْلِهِمُ الْإِثْمَ وَأَكْلِهِمُ السُّحْتَ لَبِئْسَ مَا كَانُوا یَصْنَعُونَ}، [103] یَعْنِی الرَّبَّانِیِّینَ أَنَّهُمْ لَبِئْسَ مَا كَانُوا یَصْنَعُونَ

علی بن ابوطلحہ نے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے آیت کریمہ’’کیوں ان کے علماء اور مشائخ انہیں گناہ پر زبان کھولنے اور حرام کھانے سے نہیں روکتے ؟ یقیناً بہت ہی برا کارنامہ زندگی ہے جو وہ تیار کر رہے ہیں ۔‘‘کی تفسیرکے بارے میں روایت کیاہے انہیں کاموں سے منع نہ کرنے کی وجہ سے ان کے مشایخ اورعلماء بھی براکرتے تھے۔[104]

عَنْ یَحْیَى بْنِ یَعْمُرَ , قَالَ: خَطَبَ عَلِیُّ بْنُ أَبِی طَالِبٍ فَحَمِدَ اللهَ وَأَثْنَى عَلَیْهِ ثُمَّ قَالَ: أَیُّهَا النَّاسُ إِنَّمَا هَلَكَ مَنْ هَلَكَ قَبْلَكُمْ بِرُكُوبِهِمُ الْمَعَاصِیَ , وَلَمْ یَنْهَهُمُ الرَّبَّانِیُّونَ وَالْأَحْبَارُ فَلَمَّا تَمَادَوْا فِی الْمَعَاصِی وَلَمْ یَنْهَهُمُ الرَّبَّانِیُّونَ وَالْأَحْبَارُ أَخَذَتْهُمُ الْعُقُوبَاتُ، فَمُروا بِالْمَعْرُوفِ وَانْهُوا عَنِ الْمُنْكَرِ، قَبْلَ أَنْ یَنْزِلَ بِكُمْ مِثْلُ الَّذِی نَزَلَ بِهِمْ، وَاعْلَمُوا أَنَّ الْأَمْرَ بِالْمَعْرُوفِ وَالنَّهْیَ عَنِ الْمُنْكَرِ لَا یَقْطَعُ رِزْقًا وَلَا یُقَرِّبُ أَجَلًا

یحییٰ بن یعمرکہتے ہیں سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے ایک خطبہ میں اللہ تعالیٰ کی حمدوثناکے بعد فرمایا اے لوگو!تم سے اگلے لوگ اسی بناپرہلاک کردیئے گئے کہ وہ برائیاں کرتے تھے توان کے عالم اوراللہ والے خاموش رہتے تھے، جب ان میں یہ عادت پختہ ہوگئی تواللہ تعالیٰ نے انہیں طرح طرح کی سزائیں دیں ، اس سے پہلے کہ تم پربھی وہی عذاب آجائیں جوتم سے پہلے والوں پرآئےتمہیں چاہئے کہ نیکی کاحکم کرواوربرائی سے روکو، پس یقین رکھوکہ نیکی کاحکم کرنے اوربرائی سے روکنے سے نہ توتمہاری روزی گھٹ جائے گی اورنہ تمہاری موت قریب ہوجائے گی۔[105]

عَنِ الْمُنْذِرِ بْنِ جَرِیرٍ، عَنْ أَبِیهِ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:مَا مِنْ قَوْمٍ یَكُونُ بَیْنَ أَظْهُرِهِمْ مَنْ یَعْمَلُ بِالْمَعَاصِی هُمْ أَعَزُّ مِنْهُ وَأَمْنَعُ لَمْ یُغَیِّرُوا عَلَیْهِ، إِلَّا أَصَابَهُمُ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ مِنْهُ بِعِقَابٍ

منذربن جریراپنے والدسے روایت کرتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کافرمان ہے کہ جس قوم میں کوئی اللہ کی نافرمانی کرے اورلوگ روکنے کی قدرت اورغلبہ رکھنے کے باوجوداسے نہ مٹائیں تواللہ عزوجل سب پراپناعذاب نازل فرمائے گا۔[106]

عَنْ جَرِیرٍ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَقُولُ:مَا مِنْ رَجُلٍ یَكُونُ فِی قَوْمٍ یُعْمَلُ فِیهِمْ بِالْمَعَاصِی، یَقْدِرُونَ عَلَى أَنْ یُغَیِّرُوا عَلَیْهِ، فَلَا یُغَیِّرُوا، إِلَّا أَصَابَهُمُ اللَّهُ بِعَذَابٍ مِنْ قَبْلِ أَنْ یَمُوتُوا

جریر رضی اللہ عنہ سے مروی ہےمیں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سناجوکوئی ایسی قوم میں ہوکہ ان میں اللہ کی نافرمانیاں کی جارہی ہوں اوروہ لوگ ان کی اصلاح اوران کے بدلنے پرقادرہوں اس کے باوجودوہ ان کی اصلاح نہ کریں اورانہیں نہ بدلیں تواللہ تعالیٰ ان سب کوان کے مرنے سے پہلے عذاب دے گا۔[107]

چونکہ صدیوں سے(بابل کے حکمران بخت نصرکے وقت سے جس نے ان کی سازشوں کی وجہ سے ان کی سلطنت کی اینٹ سے اینٹ بجادی تھی اورانہیں غلام بناکرپورے ملک میں منتشرکردیاتھا) یہودی قوم ذلت ونکبت کی حالت میں مبتلاتھی اوراس کی گزشتہ عظمت قصہ پارینہ بن چکی تھی جس کے پھرواپس آنے کابھی کوئی امکان انہیں نظرنہیں آتاتھا،مگراللہ کی طرف رجوع کرنے کے بجائے اپنے قومی مصائب پرماتم کرتے ہوئے یہ بیہودہ اورگستاخانہ فقرہ کہتے کہ اللہ تعالیٰ بھلائی احسان اورنیکی سے بخیل ہے اوراس نے عطااوربخشش سے اپنے ہاتھ روکے ہوئے ہیں ،

وَقَالَ عَلِیُّ بْنُ أَبِی طَلْحَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَوْلُهُ: {وَقَالَتِ الْیَهُودُ یَدُ اللَّهِ مَغْلُولَةٌ} قَالَ: لَا یَعْنُونَ بِذَلِكَ أَنَّ یَدَ اللهِ مُوثَقَةٌ وَلَكِنْ یَقُولُونَ: بَخِیلٌ أَمْسَكَ مَا عِنْدَهُ، تَعَالَى اللهُ عَمَّا یَقُولُونَ عُلُوًّا كَبِیرًا

علی بن ابوطلحہ نے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کیاہے’’یہودی کہتے ہیں اللہ کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں ۔‘‘ سے ان کی یہ مرادنہیں تھی کہ اللہ کاہاتھ بندھاہواہے بلکہ اس سے ان کی مرادیہ تھی کہ اللہ بخیل ہے اوراس کے پاس جوکچھ ہے اس کواس نے روک رکھاہے۔[108]

یہودیوں کایہ بھی قول تھا

لَقَدْ سَمِعَ اللهُ قَوْلَ الَّذِیْنَ قَالُوْٓا اِنَّ اللهَ فَقِیْرٌ وَّنَحْنُ اَغْنِیَاۗءُ۔۔۔۝۰۝۱۸۱ [109]

ترجمہ:اللہ نے ان لوگوں کا قول سناجوکہتے ہیں کہ اللہ فقیرہے اورہم غنی ہیں ۔

 قَالَ عِكْرِمَةُ: {وَقَالَتِ الْیَهُودُ یَدُ اللَّهِ مَغْلُولَةٌ} [110] الْآیَةُ , نَزَلَتْ فِی فِنْحَاصٍ الْیَهُودِیِّ، عَلَیْهِ لَعْنَةُ اللهِ

عکرمہ کہتے ہیں ’’ یہودی کہتے ہیں اللہ کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں ۔‘‘یہ فقرے کہنے والافخاص نامی یہودی تھااللہ کی اس پرلعنت ہو۔[111]

اللہ تعالیٰ نے ان کے کذب وافتراء کے جواب میں فرمایاانہی کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں یعنی بخیلی توان کاشیواہے ، یہ دنیامیں اپنے بخل اورتنگ دلی کے لئے ضرب المثل بن چکے ہیں ،جیسے فرمایا

اَمْ لَھُمْ نَصِیْبٌ مِّنَ الْمُلْكِ فَاِذًا لَّا یُؤْتُوْنَ النَّاسَ نَقِیْرًا۝۵۳ۙاَمْ یَحْسُدُوْنَ النَّاسَ عَلٰی مَآ اٰتٰىھُمُ اللہُ مِنْ فَضْلِہٖ۝۰ۚ فَقَدْ اٰتَیْنَآ اٰلَ اِبْرٰہِیْمَ الْكِتٰبَ وَالْحِكْمَةَ وَاٰتَیْنٰھُمْ مُّلْكًا عَظِیْمًا۝۵۴ [112]

ترجمہ:کیا حکومت میں ان کا کوئی حصّہ ہے؟ اگر ایسا ہوتا تو یہ دوسروں کو ایک پھوٹی کوڑی تک نہ دیتے ،پھر یا یہ دوسروں سے اس لیے حسد کرتے ہیں کہ اللہ نے انہیں اپنے فضل سے نواز دیا ؟اگر یہ بات ہے تو انہیں معلوم ہو کہ ہم نے تو ابراہیم کی اولاد کو کتاب اور حکمت عطا کی اور ملک عظیم بخش دیا ۔

ان کے اس طرح کے کرداروافعال کی وجہ سے یہ اللہ کی نظر عنایت سے محروم اوراس کی رحمت سے دور ہیں ،جیسے فرمایا

۔۔۔وَضُرِبَتْ عَلَیْہِمُ الذِّلَّةُ وَالْمَسْكَنَةُ۝۰ۤ وَبَاۗءُوْ بِغَضَبٍ مِّنَ اللہِ۔۔۔ ۝۶۱ۧ [113]

ترجمہ: آخر کار نوبت یہاں تک پہنچی کہ ذلّت و خواری اور پستی و بدحالی ان پر مسلط ہو گئی اور وہ اللہ کے غضب میں گھِر گئے ۔

بیشک زمین وآسمان کے تمام خزانے اللہ ہی کے پاس ہیں ،اوروہ اپنے فضل وکرم سے اپنے بے شمار خزانوں میں سے اپنے دونوں ہاتھوں سے بندوں پرجس طرح چاہتاہے خرچ کرتاہے،کوئی اسے روکنے والانہیں ،اس کی عطاوبخشش ہروقت موسلاداربارش کی ماندہے ،

حَدَّثَنَا أَبُو هُرَیْرَةَ، قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:إِنَّ یَمِینَ اللهِ مَلأى لَا یَغِیضُها نَفَقَةٌ، سَحَّاء اللیْلِ وَالنَّهَارِ، أَرَأَیْتُمْ مَا أَنْفَقَ مُنْذُ خَلَقَ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضَ، فَإِنَّهُ لَمْ یَغِض مَا فِی یَمِینِهِ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااللہ کادایاں ہاتھ بھراہواہے ،رات دن خرچ کرتاہے ،لیکن کوئی کمی واقع نہیں ہوتی ، ذرا دیکھوتوجب سے آسمان وزمین اس نے پیدا کیے ہیں وہ خرچ کررہاہے لیکن اس کے ہاتھ کے خزانے میں کمی نہیں آئی۔ [114]

اللہ تعالیٰ جوکچھ تم پرنازل فرماتاہے اس سے کوئی مفیدسبق لینے ،اپنی غلطیوں اورغلط کاریوں پرمتنبہ ہوکران کی تلافی کرنے ،اپنی گری ہوئی حالت کے اسباب معلوم کرکے اصلاح کی طرف متوجہ ہونے کے بجائے ان کاکفر،سرکشی اورگمراہی بڑھ جاتی ہے،اوراسی پاداش میں ہم نے یہودونصاری ٰ کے دلوں میں قیامت تک کے لئے بغض وعداوت ڈال دیاہے،یہ لوگ جب کبھی آپ اوراسلام کے خلاف کوئی سازش کرتے یا لڑائی کے اسباب مہیاکرتے ہیں تواللہ ان کی ہرکوشش کوباطل کردیتاہے ،اوران کی سازش کوانہی پرالٹادیتاہے ، مگریہ ان کی عادت ثانیہ بن گئی ہے کہ ہمیشہ اللہ کی زمین میں امن وآتشی قائم کرنے کے بجائے فسادپھیلانے کی مذموم کوششیں کرتے رہتے ہیں ،دراں حالیکہ اللہ تعالیٰ مفسدین کوپسندنہیں کرتا۔

وَلَوْ أَنَّ أَهْلَ الْكِتَابِ آمَنُوا وَاتَّقَوْا لَكَفَّرْنَا عَنْهُمْ سَیِّئَاتِهِمْ وَلَأَدْخَلْنَاهُمْ جَنَّاتِ النَّعِیمِ ‎﴿٦٥﴾‏ وَلَوْ أَنَّهُمْ أَقَامُوا التَّوْرَاةَ وَالْإِنجِیلَ وَمَا أُنزِلَ إِلَیْهِم مِّن رَّبِّهِمْ لَأَكَلُوا مِن فَوْقِهِمْ وَمِن تَحْتِ أَرْجُلِهِم ۚ مِّنْهُمْ أُمَّةٌ مُّقْتَصِدَةٌ ۖ وَكَثِیرٌ مِّنْهُمْ سَاءَ مَا یَعْمَلُونَ ‎﴿٦٦﴾‏(المائدہ)
            ’’ اور اگر یہ اہل کتاب ایمان لاتے اور تقویٰ اختیار کرتے تو ہم ان کی تمام برائیاں معاف فرما دیتے اور ضرور انہیں راحت و آرام کی جنتوں میں لے جاتے ، اور اگر یہ لوگ تورات و انجیل اور ان کی جانب جو کچھ اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل فرمایا گیا ہے ان کے پورے پابند رہتے تو یہ لوگ اپنے اوپر سے اور نیچے سے روزیاں پاتے اور کھاتے، ایک جماعت تو ان میں سے درمیانہ روش کی ہے، باقی ان میں سے بہت سے لوگوں کے برے اعمال ہیں۔‘‘

اس سرکشی کے بجائے اہل کتاب اگر پیغمبرآخرالزمان محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت اورنازل شدہ کتاب قرآن مجید پربھی ایمان لے آتے اورگناہوں اورحرام کاموں کے ارتکاب سے پرہیزکرتے ، جس میں اہم ترین شرک ہے جس میں وہ مبتلا ہیں توہم ان کے تمام گناہوں کومعاف فرمادیتے اورانہیں انواع و اقسام کی لازوال نعمتوں بھری جنتوں میں داخل فرمادیتے ،اگریہ لوگ تورات ،انجیل اورتمام آسمانی کتب پرایمان لے آتے اوراس کے احکام کی پابندی کرتے ،جس میں ایک آخری نبی پرایمان لانابھی تھاتواللہ تعالیٰ انہیں کثرت سے انواع واقسام کے رزق مہیا فرماتا ، جیسے فرمایا

وَلَوْ اَنَّ اَهْلَ الْقُرٰٓی اٰمَنُوْا وَاتَّقَوْا لَفَتَحْنَا عَلَیْهِمْ بَرَكٰتٍ مِّنَ السَّمَاۗءِ وَالْاَرْضِ۔۔۔ ۝۹۶ [115]

ترجمہ:اگربستیوں کے لوگ ایمان لاتے اورتقویٰ کی روش اختیارکرتے توہم ان پر آسمان اورزمین سے برکتوں کے دروازے کھول دیتے۔

اگرچہ ان میں ایک قلیل تعدادلوگ سیدھی راہ پرگامزن ہیں ،جیسے فرمایا

وَمِنْ قَوْمِ مُوْسٰٓی اُمَّةٌ یَّهْدُوْنَ بِالْحَقِّ وَبِهٖ یَعْدِلُوْنَ۝۱۵۹ [116]

ترجمہ:موسیٰ کی قوم میں ایک گروہ ایسابھی تھاجوحق کے مطابق ہدایت کرتا اورحق ہی کے مطابق انصاف کرتاتھا۔

مگران کی اکثریت نے ایمان کا راستہ اختیارنہیں کیااوروہ اپنے کفرپر مصراور رسالت محمدی سے انکارپراڑے ہوئے ہیں ۔

یَا أَیُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا أُنزِلَ إِلَیْكَ مِن رَّبِّكَ ۖ وَإِن لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهُ ۚ وَاللَّهُ یَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ ۗ إِنَّ اللَّهَ لَا یَهْدِی الْقَوْمَ الْكَافِرِینَ ‎﴿٦٧﴾‏ قُلْ یَا أَهْلَ الْكِتَابِ لَسْتُمْ عَلَىٰ شَیْءٍ حَتَّىٰ تُقِیمُوا التَّوْرَاةَ وَالْإِنجِیلَ وَمَا أُنزِلَ إِلَیْكُم مِّن رَّبِّكُمْ ۗ وَلَیَزِیدَنَّ كَثِیرًا مِّنْهُم مَّا أُنزِلَ إِلَیْكَ مِن رَّبِّكَ طُغْیَانًا وَكُفْرًا ۖ فَلَا تَأْسَ عَلَى الْقَوْمِ الْكَافِرِینَ ‎﴿٦٨﴾‏ إِنَّ الَّذِینَ آمَنُوا وَالَّذِینَ هَادُوا وَالصَّابِئُونَ وَالنَّصَارَىٰ مَنْ آمَنَ بِاللَّهِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ وَعَمِلَ صَالِحًا فَلَا خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَلَا هُمْ یَحْزَنُونَ ‎﴿٦٩﴾(المائدہ)
’’اے رسول جو کچھ بھی آپ کی طرف آپ کے رب کی جانب سے نازل کیا گیا ہے پہنچا دیجئے، اگر آپ نے ایسا نہ کیا تو آپ نے اللہ کی رسالت ادا نہیں کی ، اور آپ کو اللہ تعالیٰ لوگوں سے بچا لے گا، بیشک اللہ تعالیٰ کافر لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا، آپ کہہ دیجئے کہ اے اہل کتاب ! تم دراصل کسی چیز پر نہیں جب تک کہ تورات و انجیل کو اور جو کچھ تمہاری طرف تمہارے رب کی طرف سے اتارا گیا قائم نہ کرو، جو کچھ آپ کی جانب آپ کے رب کی طرف سے اترا ہے وہ ان میں سے بہتوں کو شرارت اور انکار میں اور بھی بڑھائے گا ہی، تو آپ ان کافروں پر غمگین نہ ہوں،مسلمان، یہودی، ستارہ پرست اور نصرانی کوئی ہو جو بھی اللہ تعالیٰ پر اور قیامت کے دن پر ایمان لائے اور نیک عمل کرے وہ محض بےخوف رہے گا اور بالکل بےغم ہوجائے گا ۔‘‘

اے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم !جوکچھ آپ پرنازل کیاگیاہے بلاکم وکاست اوربلاخوف وخطر، کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے بے خوف ہوکر آپ لوگوں تک پہنچا دیں ،اگرآپ نے ایسانہ کیاتوآپ نے اللہ کے حکم کی فرمانبرداری نہیں کی چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنافرض پوری طرح سرانجام دیا،

عَنْ عَائِشَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ:مَنْ حَدَّثَكَ أَنَّ مُحَمَّدًا صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ كَتَمَ شَیْئًا مِمَّا أَنْزَلَ اللهُ عَلَیْهِ، فَقَدْ كَذَبَ

ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں جوشخص آپ کو یہ بتائے گاکہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ چھپالیاہے اس نے یقیناًجھوٹ کہا۔[117]

عَنْ أَبِی جُحَیْفَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قُلْتُ لِعَلِیٍّ رَضِیَ اللهُ عَنْهُ: هَلْ عِنْدَكُمْ شَیْءٌ مِنَ الوَحْیِ إِلَّا مَا فِی كِتَابِ اللهِ؟قَالَ:لاَ وَالَّذِی فَلَقَ الحَبَّةَ، وَبَرَأَ النَّسَمَةَ، مَا أَعْلَمُهُ إِلَّا فَهْمًا یُعْطِیهِ اللهُ رَجُلًا فِی القُرْآنِ، وَمَا فِی هَذِهِ الصَّحِیفَةِ، قُلْتُ: وَمَا فِی الصَّحِیفَةِ؟قَالَ:العَقْلُ، وَفَكَاكُ الأَسِیرِ، وَأَنْ لاَ یُقْتَلَ مُسْلِمٌ بِكَافِرٍ

ابوجیفہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےسیدناعلی رضی اللہ عنہ سے سوال کیاگیاکہ تمہارے پاس قرآن کے علاوہ وحی کے ذریعے سے نازل شدہ کوئی بات ہے؟توانہوں نے قسم کھاکرنفی فرمائی اور فرمایاالبتہ قرآن کافہم ہے جسے اللہ تعالیٰ کسی کوبھی عطا فرمادے اورجوکچھ اس صحیفے میں ہے،اس نے پوچھاصحیفے میں کیاہے ؟ فرمایادیت کے مسائل ،قیدیوں کوچھوڑدینے کے احکام ہیں اوریہ ہے کہ مسلمان کافرکے بدلے قصاصاًقتل نہ کیاجائے۔[118]

عَنْ هَارُونَ بْنِ عَنْتَرَةَ , عَنْ أَبِیهِ ,قَالَ: كُنْتُ عِنْدَ ابْنِ عَبَّاسٍ فَجَاءَ رَجُلٌ فَقَالَ لَهُ: إِنْ نَاسًا یَأْتُونَا فَیُخْبِرُونَا أَنَّ عِنْدَكُمْ شَیْئًا لَمْ یُبْدِهِ رسولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ لِلنَّاسِ. فَقَالَ: أَلَمْ تَعْلَمْ أَنَّ اللهَ تَعَالَى قَالَ:یٰٓاَیُّھَا الرَّسُوْلُ بَلِّــغْ مَآ اُنْزِلَ اِلَیْكَ مِنْ رَّبِّكَ وَاللهِ مَا وَرَّثَنَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ سوداءَ فِی بَیْضَاءَ

عنترہ کہتے ہیں کہ میں عبداللہ بن عباس کے پاس حاضر تھا کہ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے کسی نے کہاکہ لوگوں میں یہ چرچاہورہاہے کہ تمہیں کچھ باتیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسی بتائی ہیں جواورلوگوں سے چھپائی جاتی تھیں توآپ نے یہی آیت’’اے پیغمبر ! جو کچھ تمہارے رب کی طرف سے تم پر نازل کیا گیا ہے وہ لوگوں تک پہنچا دو اگر تم نے ایسا نہ کیا تو اس کی پیغمبری کا حق ادا نہ کیا۔ ‘‘ تلاوت کی اورکہااللہ کی قسم ! ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی ایسی مخصوص چیزکاوارث نہیں بنایا۔[119]

اورحجة الوداع کے موقع پرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ایک لاکھ یاایک لاکھ چالیس ہزارکے جم غفیرمیں فرمایا

وَأَنْتُمْ تُسْأَلُونَ عَنِّی، فَمَا أَنْتُمْ قَائِلُونَ؟قَالُوا: نَشْهَدُ أَنَّكَ قَدْ بَلَّغْتَ وَأَدَّیْتَ وَنَصَحْتَ،فَقَالَ: بِإِصْبَعِهِ السَّبَّابَةِ، یَرْفَعُهَا إِلَى السَّمَاءِ وَیَنْكُتُهَا إِلَى النَّاسِ اللهُمَّ، اشْهَدْ، اللهُمَّ، اشْهَدْ، ثَلَاثَ مَرَّاتٍ

(قیامت کے روز)تم سے سوال ہوگااور میراحال پوچھاجائے گاپھرتم میرے بارے میں کیاکہوگے؟انہوں نے کہاہم گواہی دیں گے کہ آپ نے اللہ کاپیغام پہنچادیااورحق تبلیغ ادا کر دیا اور خیرخواہی فرما دی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آسمان کی طرف انگلی کااشارہ کرتے ہوئے تین مرتبہ فرمایا اے اللہ!میں نے تیراپیغام پہنچادیا تو گواہ رہ ، تو گواہ رہ،توگواہ رہ تین باریہی فرمایا۔ [120]

قَالَتْ عَائِشَةُ لَوْ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ كَاتِمًا شَیْئًا مِمَّا أَنْزَلَ اللَّهُ عَلَیْهِ، لَكَتَمَ هَذِهِ الْآَیَةَ عَلَى نَفْسِهِ {وَإِذْ تَقُولُ لِلَّذِی أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَیْهِ، وَأَنْعَمْتَ عَلَیْهِ، أَمْسِكْ عَلَیْكَ زَوْجَكَ، وَاتَّقِ اللَّهَ، وَتُخْفِی فِی نَفْسِكَ مَا اللَّهُ مُبْدِیهِ، وَتَخْشَى النَّاسَ، وَاللَّهُ أَحَقُّ أَنْ تَخْشَاهُ} [121]

ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سےمروی ہے اگررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے کسی فرمان کوچھپانے والے ہوتے تواس آیت کو چھپا لیتے’’اس وقت تم اپنے دل میں وہ بات چھپائے ہوئے تھے جسے اللہ کھولنا چاہتا تھا ،تم لوگوں سے ڈررہے تھے ،حالاں کہ اللہ اس کازیادہ حقدارہے کہ تم اس سے ڈرو۔‘‘[122]

 وَمَنْ حَدَّثَكَ أَنَّهُ كَتَمَ فَقَدْ كَذَبَ، ثُمَّ قَرَأَتْ: {یَا أَیُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا أُنْزِلَ إِلَیْكَ مِنْ رَبِّكَ} [123] الآیَةَ

ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے تم میں سے جوشخص یہ کہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تبلیغ دین میں کوئی بات چھپائی تھی وہ بھی جھوٹاہے،پھرانہوں نے یہ آیت تلاوت کی ’’اے رسول ! پہنچادے وہ سب کچھ جوآپ کے رب کی طرف سے آپ پرنازل کیاگیاہے۔[124]

اے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !تمہاراحافظ وناصراللہ تعالیٰ ہے وہی آپ کولوگوں کے شرسے مامون ومحفوظ رکھے گااوریقین رکھو کہ وہ کافروں کو(تمہارے مقابلہ میں )کامیابی کی راہ ہرگزنہ دکھائے گا،مدینہ منورہ میں ہردم مشرکین کے کسی اقدام کاخطرہ منڈلاتارہتاتھااس لئے صحابہ کرام آپ کی حفاظت کے لئے چوکیداری کے فرائض سرانجام دیتے تھے،

أَنَّ عَائِشَةَ، قَالَتْ: سَهِرَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مَقْدَمَهُ الْمَدِینَةَ، لَیْلَةً ، فَقَالَ:لَیْتَ رَجُلًا صَالِحًا مِنْ أَصْحَابِی یَحْرُسُنِی اللیْلَةَ، قَالَتْ: فَبَیْنَا نَحْنُ كَذَلِكَ سَمِعْنَا خَشْخَشَةَ سِلَاحٍ،فَقَالَ:مَنْ هَذَا؟قَالَ: سَعْدُ بْنُ أَبِی وَقَّاصٍ!فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:مَا جَاءَ بِكَ؟ قَالَ: وَقَعَ فِی نَفْسِی خَوْفٌ عَلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَجِئْتُ أَحْرُسُهُ، فَدَعَا لَهُ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ نَامَ( حَتَّى سَمِعْتُ غَطِیطَهُ)

ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مدینہ منورہ میں تشریف لانے کے زمانے میں ایک رات آپ صلی اللہ علیہ وسلم جاگتے رہے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کاش کہ میراکوئی نیک بخت صحابی رات بھرمیری حفاظت کرے،عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں یہ بات ہوہی رہی تھی کہ میرے کانوں میں ہتھیاروں کی آواز آئی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھاکون ہے ؟ جواب ملاسعدبن ابو وقاص رضی اللہ عنہ !رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا کیسے آئے ہو؟ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !میرے دل میں آپ کی ذات اقدس کے متعلق خوف محسوس ہوااس لئےمیں آپ کاپہرہ دینے کے لئے حاضر ہوا ہوں ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لئے دعاکی اور باآرام سوگئے یہاں تک کہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خراٹوں کی آوازسنی۔[125]

خط کشیدہ الفاظ صحیح بخاری میں ہیں ۔

عَنْ عِصْمَةَ بْنِ مالك الْخَظْمی قَالَ: كُنَّا نَحْرُسُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بِاللیْلِ حَتَّى نَزَلَتْ: وَاللهُ یَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ، فَتَرَكَ الْحَرَسَ

عصمہ بن مالک الخظمی کہتے ہیں چنانچہ(دشمنوں کے ہجوم کی وجہ سے)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نگہبانی کے لئے رات کو پہرہ مقرر کیا جاتا تھا یہاں تک کہ آیت’’ اللہ تم کو لوگوں کے شر سے بچانے والا ہے۔ ‘‘ نازل ہوئی پھررات کی نگہبانی ترک کردی گئی۔[126]

اہل کتاب کوصاف صاف کہہ دوکہ تم کسی دین اصول پرقائم نہیں ہو ،تم قرآن مجید اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم پرایمان لائے ہونہ تم نے اپنے نبی اوراپنی کتاب کی تصدیق کی ہے ، تم نے حق کوتھاماہے نہ کسی رسول پرتمہارااعتمادہے ،جب تک تورات اور انجیل اوران دوسری کتابوں کی پیروی نہ کرواورنہیں اپنادستورزندگی نہ بنالویعنی اپنے آپ پر اور دوسروں پراللہ کے احکام نافذنہ کرلو،جوتمہارے رب کی طرف سے نازل کی گئی ہیں ،یہ فرمان جوتم پرنازل کیاگیاہے اس پر ٹھنڈے دل ودماغ سے غوروفکرکرنے اورحقیقت کوسمجھنے کے بجائے وہ تمہاری اورزیادہ شدیدمخالفت شروع کردیں گےمگرتم حق کاانکارکرنے والوں کی حالت زارپراپنی جان کو روگ نہ لگاؤ،ہدایت دینااللہ کے اختیارمیں ہے ،جیسے فرمایا

لَیْسَ عَلَیْكَ ھُدٰىھُمْ وَلٰكِنَّ اللہَ یَہْدِیْ مَنْ یَّشَاۗءُ۔۔[127]

ترجمہ:اے نبی ! لوگوں کو ہدایت بخش دینے کی ذمّے داری تم پر نہیں ہے، ہدایت تو اللہ ہی جسے چاہتا ہے بخشتا ہے ۔

اِنَّكَ لَا تَہْدِیْ مَنْ اَحْبَبْتَ وَلٰكِنَّ اللہَ یَہْدِیْ مَنْ یَّشَاۗءُ۝۰ۚ وَہُوَاَعْلَمُ بِالْمُہْتَدِیْنَ۝۵۶ [128]

ترجمہ:اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! تم جسے چاہو اسے ہدایت نہیں دے سکتےمگر اللہ جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے اور وہ ان لوگوں کو خوب جانتا ہے جو ہدایت قبول کرنے والے ہیں ۔

یہودی کاخیال تھاکہ خواہ ان کے اعمال اورعقائدکیسے بھی ہوں نجات ان کامقدرہے اس لئے وہ خودکونجات کااجارہ دارسمجھتے تھے،ان کے اس زعم باطل کی تردید میں فرمایا کہ زبورہو یاتورات ہویاانجیل ہو اورقرآن جوتمام سابقہ دینی اورآسمانی کتب کانچوڑہے ان سب کاایک ہی اصول ہے کہ اللہ کے ہاں کسی کی اجارہ داری نہیں ہے ،قیامت کے روزاللہ کے دربارمیں توفیصلہ صفات پرہوگااس لئے مسلمان ہوں یایہودی ،صابی ہوں یاعیسائی جوبھی اللہ کی ذات وصفات ،حیات بعد الموت اورروزآخرکی جزا وسزا پرایمان لائے گااوررسول کی اطاعت میں عمل صالحہ اختیارکرے گاتوبے شک اس کے لئے کوئی رنج وخوف نہ ہوگا،جیسے فرمایا

اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَالَّذِیْنَ ھَادُوْا وَالنَّصٰرٰى وَالصّٰبِـــِٕیْنَ مَنْ اٰمَنَ بِاللهِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَعَمِلَ صَالِحًا فَلَھُمْ اَجْرُھُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ۝۰ۚ۠ وَلَا خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَلَا ھُمْ یَحْزَنُوْنَ۝۶۲ [129]

ترجمہ: یقین جانوکہ نبی عربی کوماننے والے ہوں یایہودی،عیسائی ہوں یاصابی،جوبھی اللہ اور روز آخر پر ایمان لائے گااورنیک عمل کرے گااس کااجر اس کے رب کے پاس ہے اوراس کے لئے کسی خوف اوررنج کاموقع نہیں ہے۔

لَقَدْ أَخَذْنَا مِیثَاقَ بَنِی إِسْرَائِیلَ وَأَرْسَلْنَا إِلَیْهِمْ رُسُلًا ۖ كُلَّمَا جَاءَهُمْ رَسُولٌ بِمَا لَا تَهْوَىٰ أَنفُسُهُمْ فَرِیقًا كَذَّبُوا وَفَرِیقًا یَقْتُلُونَ ‎﴿٧٠﴾‏ وَحَسِبُوا أَلَّا تَكُونَ فِتْنَةٌ فَعَمُوا وَصَمُّوا ثُمَّ تَابَ اللَّهُ عَلَیْهِمْ ثُمَّ عَمُوا وَصَمُّوا كَثِیرٌ مِّنْهُمْ ۚ وَاللَّهُ بَصِیرٌ بِمَا یَعْمَلُونَ ‎﴿٧١﴾‏ لَقَدْ كَفَرَ الَّذِینَ قَالُوا إِنَّ اللَّهَ هُوَ الْمَسِیحُ ابْنُ مَرْیَمَ ۖ وَقَالَ الْمَسِیحُ یَا بَنِی إِسْرَائِیلَ اعْبُدُوا اللَّهَ رَبِّی وَرَبَّكُمْ ۖ إِنَّهُ مَن یُشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدْ حَرَّمَ اللَّهُ عَلَیْهِ الْجَنَّةَ وَمَأْوَاهُ النَّارُ ۖ وَمَا لِلظَّالِمِینَ مِنْ أَنصَارٍ ‎﴿٧٢﴾(المائدہ)
’’ ہم نے بالیقین بنو اسرائیل سے عہد و پیمان لیا اور ان کی طرف رسولوں کو بھیجا، جب کبھی رسول ان کے پاس وہ احکام لے کر آئے جو ان کی اپنے منشاء کے خلاف تھے تو انہوں نے ان کی ایک جماعت کی تکذیب کی اور ایک جماعت کو قتل کردیااور سمجھ بیٹھے کہ کوئی پکڑ نہ ہوگی پس اندھے بہرے بن بیٹھے، پھر اللہ تعالیٰ نے ان کی توبہ قبول کی، اس کے بعد بھی ان میں سے اکثر اندھے بہرے ہوگئے ، اللہ تعالیٰ ان کے اعمال کو بخوبی دیکھنے والا ہے، بیشک وہ لوگ کافر ہوگئے جن کا قول ہے کہ مسیح ابن مریم ہی اللہ ہے حالانکہ خود مسیح نے کہا تھا کہ اے بنی اسرائیل! اللہ ہی کی عبادت کرو جو میرا اور تمہارا سب کا رب ہے، یقین مانو کہ جو شخص اللہ کے ساتھ شریک کرتا ہے اللہ تعالیٰ نے اس پر جنت حرام کردی ہے، اس کا ٹھکانا جہنم ہی ہےاور گناہ گاروں کی مدد کرنے والا کوئی نہیں ہوگا۔‘‘

ہم نے بنی اسرائیل سے اللہ تعالیٰ پرایمان لانے اوراس کے احکام کوقائم کرنے کاپختہ عہدلیاتھااور ہدایت ورہنمائی کے لئے ان کی طرف پے درپے رسول مبعوث کیےجو انہیں رشدوہدایت کی طرف بلاتے تھے ،مگرانہوں نے اس سے کوئی فائدہ حاصل نہ کیابلکہ اس کے برعکس جب کبھی ان کے پاس کوئی رسول ان کی خواہشات نفس کے خلاف کچھ لے کرآیاتوانہوں نےاپنی سرکشی میں کسی کو جھٹلایا،ان کے ساتھ بدترین معاملہ کیااورکسی کے مخالف ہوکراسے ناحق قتل کردیااوراپنے نزدیک یہ سمجھے کہ ان کی نافرمانی اور تکذیب کی وجہ سے ان پرکوئی عذاب نہیں آئے گااورنہ اللہ انہیں اس جرم عظیم پرکوئی سزا دے گالیکن انہیں زبردست روحانی سزادی گئی ،پس وہ حق دیکھنے سے اندھے اورحق بولنے سے گونگے ہوگئے ،ان کی باربارکی نافرمانیوں ،لغزشوں کے باوجوداللہ نے ان کے گناہوں سے چشم پوشی کی ،مگربجائے اس کے کہ اللہ کی رحمت کا شکر ادا کرتے اور آئندہ عمل صالحہ اختیارکرتے یہ اپنی گمراہی اورسرکشی میں اورزیادہ بھٹکتے چلے گئے،اللہ ان کے اعمال سے بے خبرنہیں ہے،وہ جانتاہے کہ کون کس چیزکامستحق ہے، اس سے پہلے آیت نمبر۱۷میں عیسائیوں کے ایک فرقہ یعقوبیہ جوعیسیٰ علیہ السلام کواللہ کاجسمانی ظہورقراردے کرانہیں عین اللہ مانتے اوراللہ کی حیثیت سے اس کی عبادت کرتے ہیں ، ان کے اس عقیدہ الوہیت کی تردیدفرمائی اوراب پھرمکرر فرمایاکہ یقیناًوہ لوگ کافرہوگئے جنہوں نے یہ کہاکہ اللہ مسیح ابن مریم ہی ہے،حالانکہ مسیح ابن مریم نے اللہ کے حکم ومشیت سے ماں کی گود میں ہی اپنی بندگی اوررسالت کااظہارکرتے ہوئے کہاتھا

قَالَ اِنِّىْ عَبْدُ اللهِ۝۰ۣۭ اٰتٰىنِیَ الْكِتٰبَ وَجَعَلَنِیْ نَبِیًّا۝۳۰ۙ [130]

ترجمہ:میں اللہ کابندہ ہوں اس نے مجھے کتاب دی اورنبی بنایا ۔

اور عمر کہولت میں بھی انہوں نے یہی دعوت دی ،اے بنی اسرائیل !اللہ وحدہ لاشریک کی عبادت کروجومیرااورتمہارارب ہے ،ایک مقام پر فرمایا

اِنَّ اللهَ رَبِّیْ وَرَبُّكُمْ فَاعْبُدُوْهُ۝۰ۭ ھٰذَا صِرَاطٌ مُّسْتَقِیْمٌ۝۵۱ [131]

ترجمہ: اللہ میرارب بھی ہے اورتمہارارب بھی لہذاتم اسی کی بندگی اختیارکرویہی سیدھاراستہ ہے۔

یہی بات سورہ مریم میں بھی فرمائی

 وَاِنَّ اللهَ رَبِّیْ وَرَبُّكُمْ فَاعْبُدُوْهُ۝۰ۭ ھٰذَا صِرَاطٌ مُّسْتَقِیْمٌ۝۳۶ [132]

ترجمہ:اللہ میرا رب بھی ہے اورتمہارارب بھی لہذاتم اسی کی بندگی اختیار کرو یہی سیدھاراستہ ہے ۔

یقین مانوجواللہ کے ساتھ شریک کرتاہے(خواہ وہ عیسیٰ علیہ السلام ہوں یاکوئی اور) اللہ تعالیٰ نے اس پرجنت حرام کردی ہے ،اوراللہ تعالیٰ نے فرمایا

اِنَّ اللهَ لَا یَغْفِرُ اَنْ یُّشْرَكَ بِهٖ وَیَغْفِرُ مَا دُوْنَ ذٰلِكَ لِمَنْ یَّشَاۗءُ۝۰ۚ وَمَنْ یُّشْرِكْ بِاللهِ فَقَدِ افْتَرٰٓى اِثْمًا عَظِیْمًا۝۴۸ [133]

ترجمہ:اللہ بس شرک ہی کو(کبھی)معاف نہیں کرتا اس کے ماسوادوسرے جس قدرگناہ ہیں وہ جس کے لئے چاہتاہے معاف کردیتاہے،اللہ کے ساتھ جس نے کسی اور کو شریک ٹھیرایااس نے توبہت ہی بڑا جھوٹ تصنیف کیااوربڑے سخت گناہ کی بات کی۔

چنانچہ جہنمی جب جنتیوں سے کھانایاپانی مانگیں گے تواہل جنت کایہی جواب ہوگاکہ یہ چیزیں کفارپرحرام ہیں ،

وَنَادٰٓی اَصْحٰبُ النَّارِ اَصْحٰبَ الْجَنَّةِ اَنْ اَفِیْضُوْا عَلَیْنَا مِنَ الْمَاۗءِ اَوْ مِمَّا رَزَقَكُمُ اللهُ۝۰ۭ قَالُوْٓا اِنَّ اللهَ حَرَّمَهُمَا عَلَی الْكٰفِرِیْنَ۝۵۰ [134]

ترجمہ:اوردوزخ کے لوگ جنت والوں کوپکاریں گے کہ کچھ تھوڑاساپانی ہم پرڈال دویاجورزق اللہ نے تمہیں دیاہے اسی میں سے کچھ پھینک دو، وہ جواب دیں گے کہ اللہ نے یہ دونوں چیزیں ان منکریں حق پرحرام کردی ہیں ۔

عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:یَا ابْنَ الْخَطَّابِ، اذْهَبْ فَنَادِ فِی النَّاسِ، أَنَّهُ لَا یَدْخُلُ الْجَنَّةَ إِلَّا الْمُؤْمِنُونَ ، قَالَ: فَخَرَجْتُ فَنَادَیْتُ: أَلَا إِنَّهُ لَا یَدْخُلُ الْجَنَّةَ إِلَّا الْمُؤْمِنُونَ

سیدناعمر رضی اللہ عنہ بن خطاب سےمروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااے خطاب کے بیٹے! اٹھ اورلوگوں کوپکارکرکہہ دے کہ جنت میں فقط اہل ایمان ہی داخل ہوں گے، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہامیں نکلااورمیں نے مسلمانوں میں آوازلگائی کہ خبردارہوجاؤجنت میں فقط اہل اسلام وایمان والے ہی داخل ہوں گے۔[135]

مشرکوں کاٹھکانہ جہنم ہی ہے ، اوران کاکوئی مددگاربھی نہیں ہوگاجوانہیں جہنم کے ہولناک عذاب سے نکال لائے۔

لَّقَدْ كَفَرَ الَّذِینَ قَالُوا إِنَّ اللَّهَ ثَالِثُ ثَلَاثَةٍ ۘ وَمَا مِنْ إِلَٰهٍ إِلَّا إِلَٰهٌ وَاحِدٌ ۚ وَإِن لَّمْ یَنتَهُوا عَمَّا یَقُولُونَ لَیَمَسَّنَّ الَّذِینَ كَفَرُوا مِنْهُمْ عَذَابٌ أَلِیمٌ ‎﴿٧٣﴾‏ أَفَلَا یَتُوبُونَ إِلَى اللَّهِ وَیَسْتَغْفِرُونَهُ ۚ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَّحِیمٌ ‎﴿٧٤﴾(المائدہ)
’’وہ لوگ بھی قطعاً کافر ہوگئے جنہوں نے کہا اللہ تین میں کا تیسرا ہے ، دراصل سوااللہ تعالیٰ کے کوئی معبود نہیں، اگر یہ لوگ اپنے اس قول سے باز نہ رہے تو ان میں سے جو کفر پر رہیں گے انہیں المناک عذاب ضرور پہنچے گا،یہ لوگ کیوں اللہ تعالیٰ کی طرف نہیں جھکتے اور کیوں استغفار نہیں کرتے ؟ اللہ تعالیٰ تو بہت ہی بخشنے والا اور بڑا ہی مہربان ہے۔‘‘

عیسائیوں کے دوسرے فرقے جوتین خداؤں یعنی اللہ تعالیٰ،عیسیٰ علیہ السلام اوران کی والدہ مریم کے قائل ہیں جن کووہ اقانیم ثلاثة کہتے ہیں کی تردیدمیں فرمایایقیناًوہ لوگ بھی کفر میں مبتلاہوگئے جنہوں نے یہ کہاکہ اللہ تین میں کاایک ہے،حقیقت یہ ہے کہ اللہ کے سواکوئی معبودبرحق نہیں ،جوہرصفت کمال سے متصف اورہرنقص سے پاک ہے ، اوریہ بھی اللہ تعالیٰ نے وضاحت فرمائی کہ اس نے دنیامیں جتنے بھی رسول بھیجے وہ سب مردہی تھے توعیسیٰ علیہ السلام کی والدہ جوپیغمبرنہیں بلکہ مسیح علیہ السلام پرایمان لانے والوں اوران کی تصدیق کرنے والوں میں سے تھیں تووہ الٰہ کیسے ہوگئیں ،جسے فرمایا

وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ اِلَّا رِجَالًا نُّوْحِیْٓ اِلَیْهِمْ مِّنْ اَهْلِ الْقُرٰى۔۔۔۝۰۝۱۰۹ [136]

ترجمہ:اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم !تم سے پہلے ہم نے جوپیغمبربھیجے تھے وہ سب مردہی تھے اورانہی بستیوں کے رہنے والوں میں سے تھے اورانہی کی طرف ہم وحی بھیجتے رہے ہیں ۔

چنانچہ روز قیامت اللہ تعالیٰ عیسیٰ علیہ السلام سے پوچھے گا

 وَاِذْ قَالَ اللهُ یٰعِیْسَى ابْنَ مَرْیَمَ ءَاَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُوْنِیْ وَاُمِّیَ اِلٰــهَیْنِ مِنْ دُوْنِ اللهِ۝۰ۭ قَالَ سُبْحٰنَكَ مَا یَكُوْنُ لِیْٓ اَنْ اَقُوْلَ مَا لَیْسَ لِیْ۝۰ۤ بِحَقٍّ۝۰ۭ۬ اِنْ كُنْتُ قُلْتُهٗ فَقَدْ عَلِمْتَهٗ۝۰ۭ تَعْلَمُ مَا فِیْ نَفْسِیْ وَلَآ اَعْلَمُ مَا فِیْ نَفْسِكَ۝۰ۭ اِنَّكَ اَنْتَ عَلَّامُ الْغُیُوْبِ۝۱۱۶مَا قُلْتُ لَهُمْ اِلَّا مَآ اَمَرْتَنِیْ بِهٖٓ اَنِ اعْبُدُوا اللهَ رَبِّیْ وَرَبَّكُمْ۝۰ۚ وَكُنْتُ عَلَیْهِمْ شَهِیْدًا مَّا دُمْتُ فِیْهِمْ۝۰ۚ فَلَمَّا تَوَفَّیْتَنِیْ كُنْتَ اَنْتَ الرَّقِیْبَ عَلَیْهِمْ۝۰ۭ وَاَنْتَ عَلٰی كُلِّ شَیْءٍ شَهِیْدٌ۝۱۱۷ [137]

ترجمہ:غرض جب  اللہ فرماے گاکہ اے عیسیٰ علیہ السلام ابن مریم رحمہ اللہ کیاتونے لوگوں سے کہاتھاکہ  اللہ کے سوامجھے اورمیری ماں کوبھی الٰہ بنالوتووہ جواب میں عرض کرے گا کہ سبحان اللہ میرا یہ کام نہ تھاکہ وہ بات کہوں جس کے کہنے کامجھے حق نہ تھااگرمیں نے ایسی بات کہی ہوتی تو آپ کوضرور علم ہوتا آپ جانتے ہیں جو کچھ میرے دل میں ہے اور میں نہیں جانتاجو کچھ آپ کے دل میں ہے آپ کو ساری پوشیدہ حقیقتوں کے عالم ہیں میں نے ان سے اس کے سواکچھ نہیں کہاجس کا آپ نے حکم دیاتھا یہ کہ  اللہ کی بندگی کرو جو میرارب بھی ہے اور تمہارا رب بھی،میں اس وقت تک ان کا نگران تھاجب تک کہ میں ان کے درمیان تھا جب آپ نے مجھے واپس بلالیاتوآپ ان پرنگران تھے اور آپ توساری ہی چیزوں پر نگران ہیں ۔

اگریہ اپنے ان باطل عقائدسے تائب نہ ہوئے اوراپنے کفروشرک پر قائم رہے توان میں سے جو بھی کفرپر رہیں گے انہیں گلے میں طوق ڈال کراورسترہاتھ لمبی زنجیروں میں جکڑکرجہنم رسیدکیاجائے گا،پھراللہ تعالیٰ نےجودوکرم اور لطف ورحمت کی انتہاکرتے ہوئے انہیں اس گناہ عظیم سے توبہ کرنے کی دعوت دی کہ اس قدرسخت جرم ، کذب وافتراکے باوجوداگریہ اللہ تعالیٰ کی توحید کا اقرار اوراس حقیقت کا اعتراف کرکے کہ عیسیٰ علیہ السلام اللہ کے بندے اوراس کے رسول ہیں تسلیم کرلیں اور خلوص نیت سے اپنے گناہوں سے توبہ کرکے اپنے رب سے بخشش مانگیں تو بیشک اللہ درگزر فرمانے والااوررحم کرنے والاہے۔

مَّا الْمَسِیحُ ابْنُ مَرْیَمَ إِلَّا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِن قَبْلِهِ الرُّسُلُ وَأُمُّهُ صِدِّیقَةٌ ۖ كَانَا یَأْكُلَانِ الطَّعَامَ ۗ انظُرْ كَیْفَ نُبَیِّنُ لَهُمُ الْآیَاتِ ثُمَّ انظُرْ أَنَّىٰ یُؤْفَكُونَ ‎﴿٧٥﴾‏(المائدہ)
’’ مسیح ابن مریم سوا پیغمبر ہونے کے اور کچھ بھی نہیں، اس سے پہلے بھی بہت سے پیغمبر ہوچکے ہیں ان کی والدہ ایک راست باز عورت تھیں ، دونوں ماں بیٹا کھانا کھایا کرتے تھے، آپ دیکھیے کہ کس طرح ہم ان کے سامنے دلیلیں رکھتے ہیں پھر غور کیجئے کہ کس طرح وہ پھرے جاتے ہیں۔‘‘

مسیح ابن مریم اس کے سواکچھ نہیں تھاکہ بس ایک رسول تھا،اس سے پہلے دنیامیں اوربھی بہت سے رسول گزرچکے تھے،جیسے فرمایا

اِنْ هُوَاِلَّا عَبْدٌ اَنْعَمْنَا عَلَیْهِ وَجَعَلْنٰهُ مَثَلًا لِّبَنِیْٓ اِسْرَاۗءِیْلَ۝۵۹ۭ [138]

ترجمہ:ابن مریم اس کے سواکچھ نہ تھاکہ ایک بندہ تھاجس پرہم نے انعام کیااوربنی اسرائیل کے لئے اسے اپنی قدرت کاایک نمونہ بنادیا۔

انہیں کسی معاملے میں کوئی اختیارنہیں ،انہیں کوئی ایسی فضیلت حاصل نہیں جوانہیں بشریت سے نکال کرربوبیت کے مرتبے پرفائزکردیاجائے اوراس کی ماں ایک راستبازیعنی مومنہ عورت تھی جس نے اپنی شرمگاہ کی حفاظت کی تھی اوروہ دونوں دوسرے انسانوں کی طرح کھاناکھانے کی محتاج تھے اورفضلہ خارج بھی کرتے تھےتونصاریٰ نے کس بنا پر اللہ تعالیٰ کے ساتھ ان دونوں کوبھی الٰہ قراردء دیاہے ،کیایہ سوچتے نہیں کہ کیاالٰہ کوخوراک کی ضرورت ہوتی ہے،کیااسے بھی دکھ اورتکالیف پہنچتی ہیں اورکیااسے موت بھی آتی ہے؟الٰہ توان چیزوں سے ماورابلکہ وراء الوراء ہوتاہے ، دیکھوہم کس طرح ان کے سامنے حق کوواضح کرنے کی دلیلیں پیش کرتے ہیں پھرغورکروکس طرح وہ الٹے پھرے جاتے ہیں ،یعنی کس گمراہ مذہب کواختیارکیے ہوئے ہیں ۔

 قُلْ أَتَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللَّهِ مَا لَا یَمْلِكُ لَكُمْ ضَرًّا وَلَا نَفْعًا ۚ وَاللَّهُ هُوَ السَّمِیعُ الْعَلِیمُ ‎﴿٧٦﴾‏ قُلْ یَا أَهْلَ الْكِتَابِ لَا تَغْلُوا فِی دِینِكُمْ غَیْرَ الْحَقِّ وَلَا تَتَّبِعُوا أَهْوَاءَ قَوْمٍ قَدْ ضَلُّوا مِن قَبْلُ وَأَضَلُّوا كَثِیرًا وَضَلُّوا عَن سَوَاءِ السَّبِیلِ ‎﴿٧٧﴾‏(الانعام)
’’آپ کہہ دیجئے کہ تم اللہ کے سوا ان کی عبادت کرتے ہو جو نہ تمہارے کسی نقصان کے مالک ہیں نہ کسی نفع کے، اللہ ہی خوب سننے اور پوری طرح جاننے والا ہے ، کہہ دیجئے اے اہل کتاب ! اپنے دین میں ناحق غلو اور زیادتی نہ کرو اور ان لوگوں کی نفسانی خواہشوں کی پیروی نہ کرو جو پہلے سے بہک چکے ہیں اور بہتوں کو بہکا بھی چکے ہیںاور سیدھی راہ سے ہٹ گئے ہیں۔‘‘

معبودان باطل :اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم !ان یہودیوں ،عیسائیوں ،مجوسیوں اوردنیاکے تمام مشرکین سے کہہ دیں کیاتم اللہ کوچھوڑکرجوتمہارا خالق اورمالک ہے،جوتمہیں زمین وآسمان سے رزق بہم پہنچاتا ہے ان معبودوں کی پرستش کرتے ہوجوخود اللہ وحدہ لاشریک کی مخلوق اوراس کی رحمت کے محتاج وفقیرہیں ،جنہیں خود اپنے بارے میں کسی نفع یانقصان کا کوئی اختیارنہیں ،جنہیں نہیں معلوم کہ انہیں کب اٹھایا جائے گا،وہ تمہارے لئے نفع یا نقصان،رزق میں کمی بیشی،زندگی موت کاکیا اختیاریاقدرت رکھیں گے ؟ نفع نقصان اوررزق میں کمی بیشی کااختیار توکجاوہ توکسی کی پکارکوسننے اورکسی کاحال تک جاننے کی قدرت نہیں رکھتے،مشکلات اورپریشانیوں میں بندوں کی پکارکوسننااوران کی حاجت روائی کرنا،رزق میں میں کمی بیشی کی قدرت توصرف اللہ وحدہ لاشریک ہی کے اندرہے،اس لئے ہرطرف سے منہ موڑکرصرف اس ہی کی عبادت کرواوراپنی پریشانیوں اورمصائب میں اسی سے ہی مددمانگو،وہی مشکل کشا ہے اوروہی حاجت رواہے اوروہی تمہاری ضروریات کوپورافرمائے گا ،اے اہل کتاب !عقیدت اورمحبت میں مبتلاہوکرحق سے تجاوز کرکے باطل میں نہ پڑو اور ایسے لوگوں کی خواہشوں کے پیچھے نہ چلوجوایک نبی کوالٰہ بناکرخودبھی گمراہ ہوئے اور بہت سے لوگوں کوبھی گمراہ کیاہے یہی لوگ ائمہ ضلالت ہیں ۔

لُعِنَ الَّذِینَ كَفَرُوا مِن بَنِی إِسْرَائِیلَ عَلَىٰ لِسَانِ دَاوُودَ وَعِیسَى ابْنِ مَرْیَمَ ۚ ذَٰلِكَ بِمَا عَصَوا وَّكَانُوا یَعْتَدُونَ ‎﴿٧٨﴾‏ كَانُوا لَا یَتَنَاهَوْنَ عَن مُّنكَرٍ فَعَلُوهُ ۚ لَبِئْسَ مَا كَانُوا یَفْعَلُونَ ‎﴿٧٩﴾‏ تَرَىٰ كَثِیرًا مِّنْهُمْ یَتَوَلَّوْنَ الَّذِینَ كَفَرُوا ۚ لَبِئْسَ مَا قَدَّمَتْ لَهُمْ أَنفُسُهُمْ أَن سَخِطَ اللَّهُ عَلَیْهِمْ وَفِی الْعَذَابِ هُمْ خَالِدُونَ ‎﴿٨٠﴾‏ وَلَوْ كَانُوا یُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالنَّبِیِّ وَمَا أُنزِلَ إِلَیْهِ مَا اتَّخَذُوهُمْ أَوْلِیَاءَ وَلَٰكِنَّ كَثِیرًا مِّنْهُمْ فَاسِقُونَ ‎﴿٨١﴾‏(المائدہ)
’’بنی اسرائیل کے کافروں پر (حضرت)داؤد (علیہ السلام) اور(حضرت) عیسیٰ بن مریم (علیہ السلام) کی زبانی لعنت کی گئی، اس وجہ سے کہ وہ نافرمانیاں کرتے تھے، اور حد سے آگے بڑھ جاتے تھے ، آپس میں ایک دوسرے کو برے کاموں سے جو وہ کرتے تھے روکتے نہ تھے ، جو کچھ بھی یہ کرتے تھے یقیناً بہت برا تھا، ان میں سے بہت سے لوگوں کو آپ دیکھیں گے کہ وہ کافروں سے دوستیاں کرتے ہیں، جو کچھ انہوں نے اپنے لیے آگے بھیج رکھا ہے وہ بہت برا ہے کہ اللہ ان سے ناراض ہوا اور وہ ہمیشہ عذاب میں رہیں گے، اگر انہیں اللہ تعالیٰ پر اور نبی پر اور جو نازل کیا گیا ہے اس پر ایمان ہوتا تو یہ کفار سے دوستیاں نہ کرتے، لیکن ان میں اکژ لوگ فاسق ہیں ۔‘‘

بنی اسرائیل میں سے جن لوگوں نے کفرکی راہ اختیارکی ان پرداود علیہ السلام نے زبورمیں اورعیسیٰ علیہ السلام ابن مریم کی زبان سے انجیل میں لعنت کی گئی،

عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَبَّاسٍ , قَوْلَهُ: لُعِنَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا مِنْۢ بَنِیْٓ اِسْرَاۗءِیْلَ عَلٰی لِسَانِ دَاوٗدَ وَعِیْسَى ابْنِ مَرْیَمَ قَالَ: لُعِنُوا بِكُلِّ لِسَانٍ عَلَى عَهْدِ مُوسَى فِی التَّوْرَاةِ، وَلُعِنُوا عَلَى عَهْدِ عِیسَى فِی الْإِنْجِیلِ، وَلُعِنُوا عَلَى عَهْدِ دَاوُدَ فِی الزَّبُورِ وَلُعِنُوا عَلَى عَهْدِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فِی الْقُرْآنِ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے آیت کریمہ’’ بنی اسرائیل میں سے جن لوگوں نے کفرکی راہ اختیارکی ان پرداود علیہ السلام اورعیسیٰ ابن مریم کی زبان سے لعنت کی گئی۔‘‘ کی تفسیر میں روایت ہے کہ موسی علیہ السلام کے عہدمیں ان لوگوں پر تورات میں لعنت کی گئی،اور عیسیٰ علیہ السلام کے عہدمیں ان لوگوں پرانجیل میں لعنت کی گئی اور داود علیہ السلام کے عہد میں ان لوگوں پرزبور میں لعنت کی گئی ،اورمحمد صلی اللہ علیہ وسلم کے عہدمبارک میں قرآن مجیدمیں لعنت کی گئی۔[139]

کیونکہ وہ واجبات کوترک اورمحرمات کا ارتکاب کرنے لگے تھےاورانہوں نےدین میں غلواوربدعات ایجادکرکے دین کانقشہ ہی بگاڑ دیا تھا ، اس کے علاوہ انہوں نے غلط کارلوگوں کووعظ ونصیحت ، برائیوں پر ملامت کرنے اور انہیں روکنے کے بجائے آزادچھوڑدیاتھایہ بہت براطرزعمل تھاجوانہوں نے اختیار کیا،

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ، قَالَ:قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّ أَوَّلَ مَا دَخَلَ النَّقْصُ عَلَى بَنِی إِسْرَائِیلَ، كَانَ الرَّجُلُ یَلْقَى الرَّجُلَ، فَیَقُولُ: یَا هَذَا، اتَّقِ اللهَ وَدَعْ مَا تَصْنَعُ، فَإِنَّهُ لَا یَحِلُّ لَكَ ،ثُمَّ یَلْقَاهُ مِنَ الْغَدِ، فَلَا یَمْنَعُهُ ذَلِكَ أَنْ یَكُونَ أَكِیلَهُ وَشَرِیبَهُ وَقَعِیدَهُ،فَلَمَّا فَعَلُوا ذَلِكَ ضَرَبَ اللهُ قُلُوبَ بَعْضِهِمْ بِبَعْضٍ،ثُمَّ قَالَ:لُعِنَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا مِنْۢ بَنِیْٓ اِسْرَاۗءِیْلَ عَلٰی لِسَانِ دَاوٗدَ وَعِیْسَى ابْنِ مَرْیَمَ إِلَى قَوْلِهِ فَاسِقُونَ،قَالَ: وَكَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، مُتَّكِئًا فَجَلَسَ،ثُمَّ قَالَ:كَلَّا وَاللهِ لَتَأْمُرُنَّ بِالْمَعْرُوفِ وَلَتَنْهَوُنَّ عَنِ الْمُنْكَرِ، وَلَتَأْخُذُنَّ عَلَى یَدَیِ الظَّالِمِ، وَلَتَأْطُرُنَّهُ عَلَى الْحَقِّ أَطْرًا، وَلَتَقْصُرُنَّهُ عَلَى الْحَقِّ قَصْرًا

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاسب سے پہلانقص اورعیب جوبنی اسرائیل میں داخل ہوایہ تھاکہ ان میں سے کوئی دوسرے سے ملتاتواسے کہتاتھاارے!اللہ سے ڈرواورجو کر رہے ہواس سے بازآجاؤیہ تمہارے لیے حلال نہیں ،پھراگلے دن ملتاتواس کے لیے اس کاہم نوالہ ہم پیالہ اورہم مجلس ہونے میں اسے کوئی رکاوٹ نہ ہوتی (درآں حالیکہ ایمان کاتقاضااس سے نفرت اورترک تعلق تھا) جب ان کایہ حال ہوگیاتواللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں کوایک دوسرے پردے مارا (ان کے اندراختلاف ،تنازع اوربغض وحسد پیداہوگیااوران میں سے اتفاق واتحاداورالفت اٹھالی گئی) پھر فرمایا’’بنی اسرائیل میں سے جن لوگوں نے کفر کی راہ اختیار کی ان پر داؤد اور عیسیٰ ابن مریم کی زبان سے لعنت کی گئی کیونکہ وہ سرکش ہوگئے تھے اور زیادتیاں کرنے لگے تھے ، انہوں نے ایک دوسرے کو برے افعال کے ارتکاب سے روکنا چھوڑ دیا تھابرا طرز عمل تھا جو انہوں نے اختیار کیا،آج تم ان میں بکثرت ایسے لوگ دیکھتے ہو جو (اہل ایمان کے مقابلہ میں ) کفار کی حمایت ورفاقت کرتے ہیں یقیناً بہت برا انجام ہے جس کی تیاری ان کے نفسوں نے ان کے لیے کی ہے، اللہ ان پر غضب ناک ہوگیا ہے اور وہ دائمی عذاب میں مبتلا ہونے والے ہیں ، اگر فی الواقع یہ لوگ اللہ اور پیغمبر اور اس چیز کے ماننے والے ہوتے جو پیغمبر پر نازل ہوئی تھی تو کبھی (اہل ایمان کے مقابلہ میں ) کافروں کو اپنا رفیق نہ بناتے مگر ان میں سے تو بیشتر لوگ خدا کی اطاعت سے نکل چکے ہیں ۔‘‘ تک تلاوت کی، پھررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (تکیہ سے الگ ہوکر) سیدھے بیٹھ گئےپھر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ا للہ کی قسم! تم لوگ ضرور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرتے رہو گے اور تم ضرور ظالم کے دونوں ہاتھوں کو پکڑ لوگے اور اسے حق کی طرف مائل کرو گے اور تم اسے حق پر روکے رکھو گےجیسا کہ حق پر روکنے کا حق ہے(ورنہ تمہاراحال بھی یہی ہوگا)۔[140]

مگریہ روایت سنداًضعیف ہے ابوعبیدہ کااپنے والدسے سماع ثابت نہیں ہے ۔

حكم الألبانی: ضعیف

وَأَمَرُوا بِالْمَعْرُوفِ وَنَهَوْا عَنِ الْمُنْكَرِ

ایک روایت میں اس فریضے یعنی نیکی کاحکم کرنااوربرائی سے روکناکے ترک پریہ وعید سنائی گئی ۔

عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، یَقُولُ:مُرُوا بِالْمَعْرُوفِ، وَانْهَوْا عَنِ الْمُنْكَرِ، قَبْلَ أَنْ تَدْعُوا فَلَا یُسْتَجَابَ لَكُمْ

ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سناآپ فرماتے تھے معروف یعنی اچھی باتوں کاحکم کرواورمنکریعنی بری باتوں سے منع کرواس سے پہلے کہ تم اللہ تعالیٰ سے دعاکرواورتمہاری دعاقبول نہ کی جائے۔[141]

فَقَالَ أَبُو سَعِیدٍ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَقُولُ:مَنْ رَأَى مِنْكُمْ مُنْكَرًا فَلْیُغَیِّرْهُ بِیَدِهِ، فَإِنْ لَمْ یَسْتَطِعْ فَبِلِسَانِهِ، فَإِنْ لَمْ یَسْتَطِعْ فَبِقَلْبِهِ، وَذَلِكَ أَضْعَفُ الْإِیمَانِ

ابوسعیدخدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سناآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جوشخص تم میں سے منکر( خلاف شرع )کام کو دیکھے تو اسے اپنے ہاتھ سے مٹا دے،اگراس کی طاقت نہ رکھتاہوتوزبان سے روکےاوراگراس کی بھی طاقت نہ رکھتاہوتودل سے براجانے اوریہ بہت ہی ضعیف ایمان والاہے۔[142]

یَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وسلم یقول:إِنَّ اللهَ لَا یُعذِّب العامَّة بعَمَلِ الْخَاصَّةِ، حَتَّى یَرَوا الْمُنْكَرَ بَیْنَ ظَهْرانیْهِم، وَهُمْ قَادِرُونَ عَلَى أَنْ یُنْكِرُوهُ. فَلَا یُنْكِرُونَهُ فَإِذَا فَعَلُوا ذَلِكَ عَذَّبَ اللهُ الْعَامَّةَ وَالْخَاصَّةَ

عدی بن عیمرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےمیں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سناآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااللہ تعالیٰ خاص لوگوں کے گناہوں کی وہ سے عام لوگوں کوعذاب نہیں کرتالیکن اس وقت کہ برائیاں ان میں پھیل جائیں اوروہ باوجودقدرت کے انکارنہ کریں اس وقت عام وخاص سب کواللہ عذاب میں گھیرلیتا ہے۔[143]

عَنِ الْعُرْسِ ابْنِ عَمِیرَةَ الْكِنْدِیِّ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: إِذَا عُمِلَتِ الْخَطِیئَةُ فِی الْأَرْضِ، كَانَ مَنْ شَهِدَهَا فَكَرِهَهَا وَقَالَ مَرَّةً:أَنْكَرَهَا كَانَ كَمَنْ غَابَ عَنْهَا وَمَنْ غَابَ عَنْهَا فَرَضِیَهَا، كَانَ كَمَنْ شَهِدَهَا

عرس بن عمیرہ سے مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجب زمین میں کسی برائی کاارتکاب کیاجائےاورجووہاں موجودہووہ اسے ناپسندکرےاورایک بارآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاوہ اس کی تردیدکرےتووہ ایسے ہے جیسے اس برائی کے وقت وہ موجود ہی نہیں تھااورجوشخص وہاں موجودتونہ ہومگروہ اس برائی کوپسندکرے توایسے ہے جیسے خودوہاں موجودہو۔[144]

عَنْ أَبِی سَعِیدٍ الخُدْرِیِّ قَالَ: أَنَّ رَسُولَ اللهِ صلى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَامَ خَطِیبًا، فَكَانَ فِیمَا قَالَ:أَلَّا لَا یَمْنَعْنَ رَجُلًا هَیْبَةُ النَّاسِ أَنْ یَقُولَ الْحَقَّ إِذَا عَلِمَهُ، قَالَ: فَبَكَى أَبُو سَعِیدٍ وَقَالَ: قَدْ وَاللهِ رَأَیْنَا أَشْیَاءَ، فَهِبْنَا

ابوسعیدخدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ ارشادکرنے کے لئے کھڑے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس خطبہ میں فرمایاخبردارکسی شخص کولوگوں کی ہیبت حق بات کہنے سے نہ روک دے،اس حدیث کوبیان فرماکرابوسعید رضی اللہ عنہ روپڑے اورفرمایاافسوس!ہم نے ایسے موقعوں پرلوگوں کی ہیبت مان لی۔[145]

آپ ان میں بکثرت ایسے لوگ دیکھتے ہوجوتوحیداورشرک کی جنگ میں (اہل ایمان کے مقابلہ میں ) کفار و مشرکین کی کھلم کھلا حمایت ورفاقت کرتے ہیں ،اوربلاکسی شرم وحیاکے یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم اہل کتاب ہیں ،یقیناًبہت براانجام ہے جس کی تیاری ان کے نفسوں نے ان کے لئے کی ہے ، کفارومشرکین سے دوستی کے نتیجے میں اللہ ان پرغضب ناک ہوگیاہے اوروہ جہنم کے دائمی عذاب میں مبتلاہونے والے ہیں ، اگر فی الواقع یہ لوگ اللہ اورپیغمبراوراس چیزکے ماننے والے ہوتے جوپیغمبرپرنازل ہوئی تھی(یعنی صحیح معنوں میں اہل ایمان ہوتے) توکبھی(اہل ایمان کے مقابلہ میں )کافروں کو اپنا دوست اورہمدرد نہ بناتےمگران میں سے توبیشترلوگ اللہ کی اطاعت سے نکل چکے ہیں ۔

لَتَجِدَنَّ أَشَدَّ النَّاسِ عَدَاوَةً لِّلَّذِینَ آمَنُوا الْیَهُودَ وَالَّذِینَ أَشْرَكُوا ۖ وَلَتَجِدَنَّ أَقْرَبَهُم مَّوَدَّةً لِّلَّذِینَ آمَنُوا الَّذِینَ قَالُوا إِنَّا نَصَارَىٰ ۚ ذَٰلِكَ بِأَنَّ مِنْهُمْ قِسِّیسِینَ وَرُهْبَانًا وَأَنَّهُمْ لَا یَسْتَكْبِرُونَ ‎﴿٨٢﴾‏ وَإِذَا سَمِعُوا مَا أُنزِلَ إِلَى الرَّسُولِ تَرَىٰ أَعْیُنَهُمْ تَفِیضُ مِنَ الدَّمْعِ مِمَّا عَرَفُوا مِنَ الْحَقِّ ۖ یَقُولُونَ رَبَّنَا آمَنَّا فَاكْتُبْنَا مَعَ الشَّاهِدِینَ ‎﴿٨٣﴾‏ وَمَا لَنَا لَا نُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَمَا جَاءَنَا مِنَ الْحَقِّ وَنَطْمَعُ أَن یُدْخِلَنَا رَبُّنَا مَعَ الْقَوْمِ الصَّالِحِینَ ‎﴿٨٤﴾‏ فَأَثَابَهُمُ اللَّهُ بِمَا قَالُوا جَنَّاتٍ تَجْرِی مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِینَ فِیهَا ۚ وَذَٰلِكَ جَزَاءُ الْمُحْسِنِینَ ‎﴿٨٥﴾‏ وَالَّذِینَ كَفَرُوا وَكَذَّبُوا بِآیَاتِنَا أُولَٰئِكَ أَصْحَابُ الْجَحِیمِ ‎﴿٨٦﴾‏(المائدہ)
’’یقیناً آپ ایمان والوں کا سب سے زیادہ دشمن یہودیوں اور مشرکوں کو پائیں گے اور ایمان والوں سے سب سے زیادہ دوستی کے قریب آپ یقیناً انہیں پائیں گے جو اپنے آپ کو نصاریٰ کہتے ہیں، یہ اس لیے کہ ان میں علماء اور عبادت کے لیے گوشہ نشین افراد پائے جاتے ہیں اور اس وجہ سے کہ وہ تکبر نہیں کرتے، اور جب وہ رسول کی طرف نازل کردہ (کلام) کو سنتے ہیں تو آپ ان کی آنکھیں آنسو سے بہتی ہوئی دیکھتے ہیں اس سبب سے کہ انہوں نے حق کو پہچان لیا، وہ کہتے ہیں کہ اے ہمارے رب ! ہم ایمان لے آئے پس تو ہم کو بھی ان لوگوں کے ساتھ لکھ لے جو تصدیق کرتے ہیں،اور ہمارے پاس کونسا عذر ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ پر اور جو حق ہم پر پہنچا ہے اس پر ایمان نہ لائیں اور ہم اس بات کی امید رکھتے ہیں کہ ہمارا رب ہم کو نیک لوگوں کی رفاقت میں داخل کر دے گا ،اس لیے ان کو اللہ تعالیٰ ان کے اس قول کی وجہ سے ایسے باغ دے گا جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی، یہ ان میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے اور نیک لوگوں کا یہی بدلہ ہے، اور جن لوگوں نے کفر کیا اور ہماری آیات کو جھٹلاتے رہے وہ لوگ دوزخ والے ہیں۔‘‘

کیونکہ یہودیوں کے دلوں میں علم اورذی علم لوگوں کی کوئی وقعت نہیں اس لئے ان میں علماء کی تعدادبہت ہی کم ہے ،اس کے علاوہ یہودیوں کے اندرعنادوجحود،حق سے اعراض واستکباراوراہل علم وایمان کی تنقیص کاجذبہ بہت پایاجاتاہے یہی وجہ ہے کہ نبیوں کاقتل اوران کی تکذیب ان کاشعاررہاہے ،انہوں نے محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوبھی کئی بار قتل کرنے کاارادہ کیا،آپ پرجادوکیااورزہردیالیکن ہرباراللہ تعالیٰ نے آپ کی حفاظت فرمائی اوروہ ناکام ونامرادہی رہے ،اس لئے فرمایاکہ اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم !تم شدید بغض وحسداورعنادمیں مسلمانوں کے خلاف یہوداورمشرکین کوپاؤگے اور (یہودکے مقابلے میں )ایمان لانے والوں کے لئے دوستی میں قریب تران لوگوں کوپاؤگے جنہوں نے کہا تھاکہ ہم نصارٰی ہیں ،کیونکہ ان میں گرجاؤں میں عبادت گزارعالم اورتاریک الدنیافقیرپائے جاتے ہیں ،

عَنْ جَامِیَةَ بْنِ دِیَابٍ , قَالَ: سَمِعْتُ سَلْمَانَ , وَسُئِلَ , عَنْ قَوْلِهِ: {ذَلِكَ بِأَنَّ مِنْهُمْ قِسِّیسِینَ} [المائدة: 82] قَالَ: هُمُ الرُّهْبَانُ الَّذِینَ فِی الصَّوَامِعِ وَالْخِرَبِ فَدَعُوهُمْ فِیهَاقَالَ سَلْمَانُ: وَقَرَأْتُ عَلَى النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: {ذَلِكَ بِأَنَّ مِنْهُمْ قِسِّیسِینَ} [146]فَأَقْرَأَنِی ذَلِكَ بِأَنَّ مِنْهُمْ صِدِّیقِینَ وَرُهْبَانًا

حامیہ بن رباب سے روایت ہےمیں نے سلمان سے سناجب ان سے اس آیت’’یہ اس وجہ سے کہ ان میں عبادت گزار عالم اور تارک الدّنیا فقیر پائے جاتے ہیں ۔‘‘ کے بارے میں پوچھاگیاتوانہوں نے فرمایاکہ ان سے مرادوہ راہب لوگ ہیں جوصومعوں (خانقاہوں ) اورویرانوں میں ہوتے اوران میں عبادت کرتے رہتے ہیں ، سلمان کہتے ہیں کہ میں نے اس آیت کریمہ’’ اس وجہ سے کہ ان میں عبادت گزارعالم پائے جاتے ہیں ۔‘‘ کونبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پڑھا توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے یہ آیت اس طرح پڑھائی ’’یہ اس وجہ سے کہ ان میں صدیق اورتاریک الدنیافقیرپائے جاتے ہیں ۔ [147]

اوران میں اتباع حق کے بارے میں تکبراورسرکشی نہیں پائی جاتی بلکہ تواضع،فروتنی اورعاجزی ہے،جیسے فرمایا

۔۔۔وَجَعَلْنَا فِیْ قُلُوْبِ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْهُ رَاْفَةً وَّرَحْمَةً۔۔۔۝۰۝۲۷ [148]

ترجمہ: اورجن لوگوں نے اس کی پیروی اختیارکی ان کے دلوں میں ہم نے ترس اوررحم ڈال دیا۔

وَقَالَ سَعِیدُ بْنُ جُبَیر والسُّدِّی وَغَیْرُهُمَا: نَزَلَتْ فِی وَفْد بَعَثَهُمُ النَّجَاشِیُّ إِلَى النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ لِیَسْمَعُوا كَلَامَهُ، وَیَرَوْا صِفَاتِهِ ، فَلِمَا قَرَأَ عَلَیْهِمُ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ الْقُرْآنَ أَسْلَمُوا وبَكَوا وخَشَعوا ثُمَّ رَجَعُوا إِلَى النَّجَاشِیِّ فَأَخْبَرُوهُ

سعیدبن جبیراورسدی وغیرہ نے کہاہے کہ یہ آیات اس وفدکے بارے میں نازل ہوئی ہیں جسے نجاشی نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بھیجاتھاکہ وہ آپ کے کلام کوسنے اورآپ کی صفات کودیکھے،جب اس وفدمیں شامل لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کودیکھااورآپ نے انہیں قرآن سنایا تووہ مسلمان ہوگئے،قرآن سن کررونے لگے اوران پررقت طاری ہوگئی،پھرانہوں نے واپس جاکرنجاشی کوتمام حالات سےآگاہ کردیا۔[149]

وَقَالَ عَطاء بْنُ أَبِی رَباح: هُمْ قَوْمٌ مِنْ أَهْلِ الْحَبَشَةِ، أَسْلَمُوا حِینَ قَدِمَ عَلَیْهِمْ مُهَاجرَة الْحَبَشَةِ مِنَ الْمُسْلِمِینَ

اورعطاء بن ابورباح کاقول ہے کہ ان سے مرادحبشہ کے وہ لوگ ہیں جواس وقت مسلمان ہوگئے تھے جب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ہجرت کرکے ان کے پاس حبشہ میں گئے تھے۔[150]

علاوہ ازیں دین مسیحی میں نرمی اورعفوودرگزرکی تعلیم کو امتیازی حیثیت حاصل ہے

وَفِی كِتَابِهِمْ: مَنْ ضَرَبَكَ عَلَى خَدِّكَ الْأَیْمَنِ فَأَدِرْ لَهُ خَدَّكَ الْأَیْسَرَ

حتی کہ ان کی کتابوں میں لکھاہے کہ کوئی تمہارے دائیں رخسار پرمارے توبایاں رخساربھی اس کوپیش کردو یعنی لڑائی جھگڑامت کرو۔

جب وہ محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پرنازل اللہ کے کلام کوسنتے ہیں تووہ جان جاتے ہیں کہ یہ اللہ کا کلام ہے اوراس کے وسیع مضامین اور پر اثر تعلیمات سے متاثر ہو کر ان کے دل نرم ہوجاتے اور آشکوں سے آنسوؤں بہنے لگتے ہیں اورحق کی گواہی دینے کے لئے بول اٹھتے ہیں اے ہمارے پروردگار!ہم پہلے بھی تمام انبیاء اوران پر نازل کردہ کتابوں اورصحیفوں پرایمان رکھتے تھے اوراب جوتم نے محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل کیاہے اس پربھی ایمان لاتے ہیں ،ہمارانام اللہ تعالیٰ کی توحید،اس کے رسول کی رسالت پراورجوکچھ یہ پیغمبرآخرالزمان صلی اللہ علیہ وسلم لے کرآیاہے اس پر ایمان لانے والوں میں لکھ لے،ایک مقام پر نصاریٰ کا دوسرا وصف فرمایا

 وَاِنَّ مِنْ اَھْلِ الْكِتٰبِ لَمَنْ یُّؤْمِنُ بِاللهِ وَمَآ اُنْزِلَ اِلَیْكُمْ وَمَآ اُنْزِلَ اِلَیْھِمْ خٰشِعِیْنَ لِلهِ۔۔۔۝۰۝۱۹۹ [151]

ترجمہ:اہل کتاب میں بھی کچھ لوگ ایسے ہیں جواللہ کومانتے ہیں ،اس کتاب پرایمان لاتے ہیں جوتمہاری طرف بھیجی گئی ہے اوراس کتاب پربھی ایمان رکھتے ہیں جواس سے پہلے خودان کی طرف بھیجی گئی تھی ، اللہ کے آگے جھکے ہوئے ہیں ۔

ایک مقام پر فرمایا

اَلَّذِیْنَ اٰتَیْنٰهُمُ الْكِتٰبَ مِنْ قَبْلِهٖ هُمْ بِهٖ یُؤْمِنُوْنَ۝۵۲وَاِذَا یُتْلٰى عَلَیْهِمْ قَالُوْٓا اٰمَنَّا بِهٖٓ اِنَّهُ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّنَآ اِنَّا كُنَّا مِنْ قَبْلِهٖ مُسْلِـمِیْنَ۝۵۳ [152]

ترجمہ:جن لوگوں کواس سے پہلے ہم نے کتاب دی تھی وہ اس (قرآن) پر ایمان لاتے ہیں اورجب یہ ان کوسنایاجاتاہے تووہ کہتے ہیں کہ ہم اس پرایمان لائے یہ واقعی حق ہے ہمارے رب کی طرف سے ،ہم توپہلے ہی مسلم ہیں ۔

جب ان کو ایمان لانے پر ملامت کی گئی توانہوں نے اس کے جواب میں کہا کہ آخر کیوں نہ ہم اللہ وحدہ لاشریک پر ایمان لائیں اوراللہ نے جوحق ہماری ہدایت ورہنمائی کے لئے نازل کیاہے اسے کیوں نہ مان لیں جبکہ ہم اس بات کی خواہش مندہیں کہ ہمارا رب ہمیں صالح لوگوں کے ساتھ انواع واقسام کی لازوال نعمتوں بھری جنتوں میں داخل کرے ؟ان کا زبان سے ایمان کا اقرار اوردل سے تصدیق کی وجہ سے اللہ تعالیٰ انہیں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے انواع واقسام کی لازوال نعمتوں بھری جنتوں میں داخل فرمائے گاجن کے نیچے انواع اقسام کی نہریں بہہ رہی ہیں ،اللہ تعالیٰ نیکی کی طرف رغبت کرنے والوں کوایسی ہی جزادیتے ہیں ،اورجولوگ اللہ کی آیات کوجھٹلاتے اورایمان لانے سے انکارکرتے ہیں وہ جہنم کے حقدارہیں جس میں وہ ہمیشہ ہمیشہ عذاب میں گرفتاررہیں گے۔

یَا أَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا لَا تُحَرِّمُوا طَیِّبَاتِ مَا أَحَلَّ اللَّهُ لَكُمْ وَلَا تَعْتَدُوا ۚ إِنَّ اللَّهَ لَا یُحِبُّ الْمُعْتَدِینَ ‎﴿٨٧﴾‏ وَكُلُوا مِمَّا رَزَقَكُمُ اللَّهُ حَلَالًا طَیِّبًا ۚ وَاتَّقُوا اللَّهَ الَّذِی أَنتُم بِهِ مُؤْمِنُونَ ‎﴿٨٨﴾‏(المائدہ)
’’ اے ایمان والو ! اللہ تعالیٰ نے جو پاکیزہ چیزیں تمہارے واسطے حلال کی ہیں ان کو حرام مت کرو اور حد سے آگے مت نکلو، بیشک اللہ تعالیٰ حد سے نکلنے والوں کو پسند نہیں کرتا، اور اللہ تعالیٰ نے جو چیزیں تم کو دی ہیں ان میں سے حلال مرغوب چیزیں کھاؤ اور اللہ تعالیٰ سے ڈرو جس پر تم ایمان رکھتے ہو۔‘‘

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّ رَجُلاً أَتَى النَّبِیَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: یَا رَسُولَ اللهِ إِنِّی إِذَا أَصَبْتُ اللَّحْمَ انْتَشَرْتُ لِلنِّسَاءِ وَأَخَذَتْنِی شَهْوَتِی، فَحَرَّمْتُ عَلَیَّ اللَّحْمَ. فَأَنْزَلَ اللَّهُ {یَا أَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا لاَ تُحَرِّمُوا طَیِّبَاتِ مَا أَحَلَّ اللَّهُ لَكُمْ وَلاَ تَعْتَدُوا إِنَّ اللَّهَ لاَ یُحِبُّ الْمُعْتَدِینَ وَكُلُوا مِمَّا رَزَقَكُمُ اللَّهُ حَلاَلاً طَیِّبًا}.

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سےمروی ہےایک شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضرہوااورعرض کیااے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم !جب میں گوشت کھاتاہوں تونفسانی شہوت کا غلبہ ہوجاتاہے اورمیں عورتوں کے لئے پریشان پھرتاہوں اس لئے میں نے اپنے اوپرگوشت حرام کرلیاہے، جس پراللہ تعالیٰ نےیہ آیت نازل فرمائی’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو! جو پاک چیزیں اللہ نے تمہارے لیے حلال کی ہیں انہیں حرام نہ کرلو اور حد سے تجاوز نہ کرو اللہ کو زیادتی کرنے والے سخت ناپسند ہیں ،جو کچھ حلال و طیّب رزق اللہ نے تم کو دیا ہے اسے کھاؤ پیو۔‘‘[153]

اس آیت کے نزول کے بارے میں ایک روایت یوں ہے

أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ جَلَسَ یَوْمًا فَذَكَّرَ النَّاسَ، ثُمَّ قَامَ وَلَمْ یَزِدْهُمْ عَلَى التَّخْوِیفِ، فَقَالَ نَاسٍ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، كَانُوا عَشَرَةً مِنْهُمْ عَلِیُّ بْنُ أَبِی طَالِبٍ، وَعُثْمَانُ بْنُ مَظْعُونٍ: مَا خِفْنَا إِنْ لَمْ نُحْدِثْ عَمَلًا فَإِنَّ النَّصَارَى قَدْ حَرَّمُوا على أنفسهم، فنحن نحرم ،فحرم عْضُهُمْ أَنْ یَأْكُلَ اللحْمَ والودَك، وَأَنْ یَأْكُلَ بنَهَار وَحَرَّمَ بَعْضُهُمُ النَّوْمَ، وَحَرَّمَ بَعْضُهُمُ النِّسَاءَ

ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے سامنے وعظ فرمایاجس میں خوف اورڈرہی کابیان تھااس وعظ کوسن کردس صحابیوں نے جن میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ بن ابو طالب،عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ تھے نے آپس میں کہاکہ ہمیں تو عبادت کے کوئی بڑے بڑے طریقے اختیارکرناچاہئیں ،نصرانیوں کودیکھوکہ انہوں نے اپنے نفس پربہت سی چیزیں حرام کررکھی ہیں ، اس پرکسی نے گوشت اورچربی وغیرہ کھانااپنے اوپرحرام کیااورکسی نے دن کاکھانابھی حرام کرلیااورکسی نے رات کو نیند اپنے اوپرحرام کرلی،اور کسی نے عورتوں سے مباشرت حرام کرلی،

فَكَانَ عُثْمَانُ بْنُ مَظْعُونٍ مِمَّنْ حَرَمَ النِّسَاءَ وَكَانَ لَا یَدْنُو مِنْ أَهْلِهِ وَلَا تَدْنُو مِنْهُ، فَأَتَتِ امرأتُه عائشةَ، رَضِیَ اللهُ عَنْهَا، وَكَانَ یُقَالُ لَهَا: الْحَوْلَاءُ، فَقَالَتْ لَهَا عَائِشَةُ وَمَنْ عِنْدَهَا مِنْ أَزْوَاجِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: مَا بَالُكِ یَا حَوْلَاءُ مُتَغَیِّرَةُ اللوْنِ، لَا تَمْتَشِطِینَ، لَا تَتَطَیَّبِینَ؟ قَالَتْ: وَكَیْفَ أَمْتَشِطُ وَأَتَطَیَّبُ وَمَا وَقَعَ علیَّ زَوْجِی وَمَا رَفَعَ عَنِّی ثَوْبًا، مُنْذُ كَذَا وَكَذَاقَالَ: فَجَعَلْنَ یَضْحَكْنَ مِنْ كَلَامِهَا

عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ نے اپنی بیوی سے اسی بناپرمیل جول ترک کردیااورمیاں بیوی اپنے صحیح تعلقات سے الگ رہنے لگے،ایک دن ان کی بیوی خولہ رضی اللہ عنہا بنت حکیم،ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے پاس آئیں وہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات بھی تھیں انہیں پراگندہ حالت میں دیکھ کرسب نے پوچھاکہ تم نے اپنایہ کیاحلیہ بنارکھاہے؟نہ کنگھی نہ چوٹی کی خبرہے ،نہ لباس ٹھیک ہے اورنہ صفائی اورخوبصورتی کاخیال ہے؟خولہ رضی اللہ عنہا نے کہامجھے اب بناؤسنگھارکی ضرورت ہی کیارہی ہے؟اتنی مدت ہوئی جومیرے میاں مجھ سے ملے ہی نہیں اورنہ کبھی انہوں نے میراکپڑاہٹایاہے،یہ سن کربیویاں ہنسنے لگیں ،

فَدَخَلَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَهُنَّ یَضْحَكْنَ، فَقَالَ:مَا یُضْحِكُكُنَّ؟ قَالَتْ: یَا رَسُولَ اللهِ، إِنَّ الْحَوْلَاءَ سَأَلْتُهَا عَنْ أَمْرِهَا، فَقَالَتْ: مَا رَفَعَ عَنِّی زَوْجِی ثَوْبًا مُنْذُ كَذَا وَكَذَا، فَأَرْسَلَ إِلَیْهِ فَدَعَاهُ، فَقَالَ:مَا لَكَ یَا عُثْمَانُ؟ قَالَ: إِنِّی تَرَكْتُهُ لِلَّهِ، لِكَیْ أَتَخَلَّى لِلْعِبَادَةِ، وَقَصَّ عَلَیْهِ أَمْرَهُ، وَكَانَ عُثْمَانُ قَدْ أَرَادَ أَنْ یَجُبَّ نَفْسَهُ

اتنے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اوروہ ہنس رہی تھیں توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نےدریافت فرمایا کہ یہ ہنسی کیسی ہے؟عائشہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیااے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! اور پھر خولہ رضی اللہ عنہا کاساراواقعہ بیان کیا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی وقت آدمی بھیج کرعثمان رضی اللہ عنہ کو بلوایا اورفرمایااے عثمان رضی اللہ عنہ !یہ کیاقصہ ہے؟ عثمان رضی اللہ عنہ نے ساراواقعہ بیان کرکے عرض کیاکہ میں نے اسے اس لئے چھوڑرکھاہے کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت دلچسپی اورفارغ البالی سے کرسکوں بلکہ میراارادہ ہے کہ میں خصی ہوجاؤں تاکہ عورتوں کے قابل ہی نہ رہوں ،

 فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:أَقْسَمْتُ عَلَیْكَ إِلَّا رَجَعْتَ فَوَاقَعْتَ أَهْلَكَ ،فَقَالَ: یَا رَسُولَ اللهِ، إِنِّی صَائِمٌ ، فَقَالَ: أَفْطِرْ فَأَفْطَرَ، وَأَتَى أَهْلَهُ،فَرَجَعَتِ الْحَوْلَاءُ إِلَى عَائِشَةَ [زَوْجِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ] وَقَدِ امْتَشَطَتْ وَاكْتَحَلَتْ وَتَطَیَّبَتْ، فَضَحِكَتْ عَائِشَةُ وَقَالَتْ: مَا لَكِ یَا حَوْلَاءُ؟ فَقَالَتْ: إِنَّهُ أَتَاهَا أَمْسُ، وَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:مَا بَالُ أَقْوَامٍ حَرَّموا النِّسَاءَ وَالطَّعَامَ وَالنَّوْمَ؟ أَلَّا إِنِّی أَنَامُ وَأَقُومُ، وَأُفْطِرُ وَأَصُومُ، وَأَنْكِحُ النِّسَاءَ، فَمَنْ رَغِب عَنِّی فَلَیْسَ مِنِّی،فَنَزَلَتْ:یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تُحَرِّمُوْا طَیِّبٰتِ مَآ اَحَلَّ اللهُ لَكُمْ وَلَا تَعْتَدُوْا

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایامیں تجھے قسم دیتاہوں کہ جااوراپنی بیوی سے میل کرلے اوراس سے بات چیت کر ،انہوں نے عرض کیااے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !میں روزے سے ہوں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاروزہ توڑدے، انہوں نے حکم برداری کی ،روزہ توڑدیااوربیوی سے بھی ملے،پھر خولہ رضی اللہ عنہا عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے پاس آئیں توکنگھی چوٹی کی ہوئی تھی ،لباس بھی ٹھیک تھااورنہائی دھوئی ہوئی تھیں ،ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے ہنس کرپوچھاکہااے خولہ رضی اللہ عنہا اب کیاحال ہے؟ انہوں نے کہا اب عثمان رضی اللہ عنہ نے اپناعہدتوڑدیاہے اورکل وہ مجھ سے ملے بھی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایالوگو!یہ تمہاراکیاحال ہے کہ کوئی بیوی حرام کر رہا ہے،کوئی کھاناکوئی سوناتم نہیں دیکھتے کہ میں سوتابھی ہوں اورقیام بھی کرتاہوں ،افطاربھی کرتاہوں اورروزے سے بھی رہتاہوں ، عورتوں سے ملتابھی ہوں نکاح بھی کررکھے ہیں سنوجومیری سنت سے بےرغبتی کرے وہ مجھ سے نہیں ،اس پر یہ آیت’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو، جو پاک چیزیں اللہ نے تمہارے لیے حلال کی ہیں انہیں حرام نہ کرلو اور حد سے تجاوز نہ کرو۔‘‘ نازل ہوئی۔[154]

اس سے پہلے سورة البقرة میں قسموں کے بارے میں فرمایاگیاتھا

وَلَا تَجْعَلُوا اللهَ عُرْضَةً لِّاَیْمَانِكُمْ اَنْ تَبَرُّوْا وَتَـتَّقُوْا وَتُصْلِحُوْا بَیْنَ النَّاسِ۝۰ۭ وَاللهُ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ۝۲۲۴لَا یُؤَاخِذُكُمُ اللهُ بِاللغْوِ فِیْٓ اَیْمَانِكُمْ وَلٰكِنْ یُّؤَاخِذُكُمْ بِمَا كَسَبَتْ قُلُوْبُكُمْ۝۰ۭ وَاللهُ غَفُوْرٌ حَلِیْمٌ۝۲۲۵ [155]

ترجمہ:اللہ کے نام کوایسی قسمیں کھانے کے لئے استعمال نہ کروجن سے مقصودنیکی اورتقویٰ اوراللہ کے بندوں کی بھلائی کے کاموں سے باز رہنا ہو، اللہ تمہاری ساری باتیں سن رہاہے اورسب کچھ جانتاہے،جوبے معنی قسمیں تم بلاارادہ کھالیاکرتے ہوان پراللہ گرفت نہیں کرتامگرجوقسمیں تم تاکیداورپختگی کے لئے کھاتے ہو ان کی بازپرس وہ ضرورکرے گا،اللہ بہت درگزرکرنے والااوربردبارہے۔

مگراس میں معصیت میں کھائی قسموں کوتوڑنے اورکفارے کاکوئی ذکرنہیں فرمایا گیا تھا اب قسموں کے توڑنے اورکفارے کاقانون فرمایا اے لوگوجوایمان لائے ہو!جوپاک چیزیں اللہ نے تمہارے لئے حلال کی ہیں انہیں خودپرحرام نہ کرلو،یعنی کسی چیزکوحلال یاحرام کرنا اللہ کااختیارہے ،اگرکوئی شخص خودہی اللہ کی کسی نعمت کواپنے پرحرام کرلے تویہ کفران نعمت اوراللہ تعالیٰ پرافتراہے،

أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، یَقُولُ: جَاءَ ثَلاَثَةُ رَهْطٍ إِلَى بُیُوتِ أَزْوَاجِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، یَسْأَلُونَ عَنْ عِبَادَةِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَلَمَّا أُخْبِرُوا كَأَنَّهُمْ تَقَالُّوهَا، فَقَالُوا: وَأَیْنَ نَحْنُ مِنَ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ؟ قَدْ غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ وَمَا تَأَخَّرَ، قَالَ أَحَدُهُمْ: أَمَّا أَنَا فَإِنِّی أُصَلِّی اللَّیْلَ أَبَدًا، وَقَالَ آخَرُ: أَنَا أَصُومُ الدَّهْرَ وَلاَ أُفْطِرُ، وَقَالَ آخَرُ: أَنَا أَعْتَزِلُ النِّسَاءَ فَلاَ أَتَزَوَّجُ أَبَدًا، فَجَاءَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ إِلَیْهِمْ، فَقَالَ:أَنْتُمُ الَّذِینَ قُلْتُمْ كَذَا وَكَذَا، أَمَا وَاللَّهِ إِنِّی لَأَخْشَاكُمْ لِلَّهِ وَأَتْقَاكُمْ لَهُ، لَكِنِّی أَصُومُ وَأُفْطِرُ، وَأُصَلِّی وَأَرْقُدُ، وَأَتَزَوَّجُ النِّسَاءَ، فَمَنْ رَغِبَ عَنْ سُنَّتِی فَلَیْسَ مِنِّی

انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہےتین اصحاب (سیدنا علی رضی اللہ عنہ بن ابی طالب ، عبداللہ رضی اللہ عنہ بن عمروبن عاص اورعثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ )نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات کے گھروں کی طرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عبادت کے متعلق پوچھنے آئے،جب انہیں سیدالامم صلی اللہ علیہ وسلم کاعمل بتایاگیاتوانہوں نے اسے کم سمجھااورکہاکہ ہمارارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا مقابلہ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی توتمام اگلی پچھلی لغزشیں معاف کردی گئی ہیں ،ان میں سے ایک نے کہاکہ آج سے میں ہمیشہ رات بھرنمازپڑھاکروں گا،دوسرے نے کہاکہ میں ہمیشہ روزے سے رہوں گااورکبھی ناغہ نہیں ہونے دوں گااورتیسرے نے کہاکہ میں عورتوں سے جدائی اختیارکرلوں گااورکبھی بھی نکاح نہیں کروں گا،پھررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اوران سے پوچھاکیاتم نے ہی یہ باتیں کہیں ہیں ؟سن لواللہ کی قسم !اللہ رب العالمین سے میں تم سب سے زیادہ ڈرنے والاہوں اورمیں تم سب سے زیادہ پرہیزگارہوں لیکن میں اگرروزے رکھتاہوں توافطاربھی کرتاہوں اور(رات میں )نمازبھی پڑھتاہوں اور سوتابھی ہوں اورمیں عورتوں سے نکاح بھی کرتاہوں ،جس نے میرے طریقے سے بے رغبتی کی وہ مجھ سے نہیں ہے۔[156]

عَنِ الشَّعْبِیِّ قَالَ: جَاءَتِ امْرَأَةٌ إِلَى عُمَرَ، فَقَالَتْ: زَوْجِی خَیْرُ النَّاسِ یَقُومُ اللَّیْلَ، وَیَصُومُ النَّهَارَ، فَقَالَ عُمَرُ:لَقَدْ أَحْسَنْتِ الثَّنَاءَ عَلَى زَوْجِكَ. فَقَالَ كَعْبُ بْنُ سُورٍ لَقَدِ اشْتَكَتْ فَأَعَرَضَتِ الشَّكِیَّةَ. فَقَالَ عُمَرُ:اخْرُجْ مِمَّا قُلْتَ. قَالَ: أَرَى أَنْ تُنْزِلَهُ بِمَنْزِلَةِ رَجُلٍ لَهُ أَرْبَعُ نِسْوَةٍ لَهُ ثَلَاثَةُ أَیَّامٍ وَلَیَالِیهِنَّ، وَلَهَا یَوْمٌ وَلَیْلَةٌ

شعبی رحمہ اللہ کہتے ہیں سیدناعمر رضی اللہ عنہ کے دورخلافت میں ایک خاتون نے شکایت پیش کی کہ میرے شوہردن بھرروزہ رکھتے ہیں اوررات بھرعبادت کرتے ہیں اورمجھ سے کوئی تعلق واسطہ نہیں رکھتے، سیدناعمر رضی اللہ عنہ نے ارشاد فرمایا تو نے اپنے خاوند کی اچھی تعریف بیان کی ہے،سیدنا کعب بن سور فرماتے ہیں کہ اس عورت نے تو اپنی شکایت پیش کی ہے، سیدناعمر رضی اللہ عنہ نے کعب رضی اللہ عنہ بن سورالازدی کوان کے مقدمہ کی سماعت کے لئے مقررکیا،انہوں نے فیصلہ دیاکہ اس خاتون کے شوہرکوتین راتوں کے لئے اختیارہے کہ جتنی چاہے عبادت کرے مگرچوتھی رات لازماًان کی بیوی کاحق ہےلیکن اگر عورت عبادت کرنا چاہے تو اسے ایک دن کی اجازت کا حق ہے۔ [157]

اورحلال کوحرام یاحرام کوحلال ،حلال کی حدودسے باہرنکل کرحرام کی حدودمیں قدم رکھنااورطیب چیزوں کے استعمال میں افراط وتفریط مت کرو اللہ کویہ تینوں باتیں سخت ناپسند ہیں ،جیسے فرمایا

۔۔۔وَّكُلُوْا وَاشْرَبُوْا وَلَا تُسْرِفُوْا۝۰ۚ اِنَّہٗ لَا یُحِبُّ الْمُسْرِفِیْنَ۝۳۱ۧ [158]

ترجمہ:اور کھاؤ پیو اور حد سے تجاوز نہ کرو اللہ حد سے بڑھنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔

وَالَّذِیْنَ اِذَآ اَنْفَقُوْا لَمْ یُسْرِفُوْا وَلَمْ یَـقْتُرُوْا وَكَانَ بَیْنَ ذٰلِكَ قَوَامًا۝۶۷ [159]

ترجمہ: جو خرچ کرتے ہیں تو نہ فضول خرچی کرتے ہیں نہ بخل، بلکہ ان کا خرچ دونوں انتہاؤں کے درمیان اعتدال پر قائم رہتا ہے۔

جوکچھ حلال وطیب رزق اللہ نے تم کودیاہے اسے کھاؤپیواورتمام امورمیں اس اللہ کی نافرمانی سے بچتے رہوجس پرتم ایمان لائے ہو۔

لَا یُؤَاخِذُكُمُ اللَّهُ بِاللَّغْوِ فِی أَیْمَانِكُمْ وَلَٰكِن یُؤَاخِذُكُم بِمَا عَقَّدتُّمُ الْأَیْمَانَ ۖ فَكَفَّارَتُهُ إِطْعَامُ عَشَرَةِ مَسَاكِینَ مِنْ أَوْسَطِ مَا تُطْعِمُونَ أَهْلِیكُمْ أَوْ كِسْوَتُهُمْ أَوْ تَحْرِیرُ رَقَبَةٍ ۖ فَمَن لَّمْ یَجِدْ فَصِیَامُ ثَلَاثَةِ أَیَّامٍ ۚ ذَٰلِكَ كَفَّارَةُ أَیْمَانِكُمْ إِذَا حَلَفْتُمْ ۚ وَاحْفَظُوا أَیْمَانَكُمْ ۚ كَذَٰلِكَ یُبَیِّنُ اللَّهُ لَكُمْ آیَاتِهِ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ ‎﴿٨٩﴾‏(المائدہ)
’’ اللہ تعالیٰ تمہاری قسموں میں لغو قسم پر تم سے مواخذہ نہیں فرماتا لیکن مواخذہ اس پر فرماتا ہے کہ تم جن قسموں کو مضبوط کردو، اس کا کفارہ دس محتاجوں کو کھانا دینا ہے اوسط درجے کا جو اپنے گھر والوں کو کھلاتے ہو یا ان کو کپڑے دینا یا ایک غلام یا لونڈی کو آزاد کرناہے، اور جس کو مقدور نہ ہو تو تین دن روزے ہیں یہ تمہاری قسموں کا کفارہ ہے جب کہ تم قسم کھالو اور اپنی قسموں کا خیال رکھو ! اسی طرح اللہ تعالیٰ تمہارے واسطے اپنے احکام بیان فرماتا ہے تاکہ تم شکر کرو۔‘‘

چونکہ بعض لوگوں نے حلال چیزوں کواپنے اوپرحرام کرلینے کی قسم کھارکھی تھی اس لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایاکہ کسی شخص کی زبان سے بغیرکسی نیت اورارادے کے قسم کالفظ نکل گیاہے تو ایسی قسم پر کوئی مواخذہ نہیں ہے ،

عَنْ عَائِشَةَ أُمِّ الْمُؤْمِنِینَ؛ أَنَّهَا كَانَتْ تَقُولُ: لَغْوُ الْیَمِینِ، قَوْلُ الْإِنْسَانِ: لاَ، وَاللهِ. لاَ، وَاللهِ

ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں لغوقسم وہ ہے جو آدمی باتوں میں کہتاہے نہیں واللہ ،ہاں واللہ(یعنی عادت کے طورپرتکیہ کلام ہوجاتاہے)۔[160]

قال مالك: وعقد الیمین: أن یحلف الرجل أن لا یبیع ثوبه بعشرة دنانیر، ثم یبیعه بذلك، أو یحلف لیضربن غلامه، ثم لا یضربه، ونحو هذا؛ فهذا الذی یكفر صاحبه عن یمینه، ولیس فی اللغو كفارة.وأما الذی یحلف على الشیء – وهو یعلم أنه آثم،ویحلف على الكذب وهو یعلم ؛ لیرضی به أحدا، أو لیعتذر به إلى معتذر له، أو لیقطع به مالا؛ فهذا أعظم من أن یكون فیه كفارة .

امام مالک رحمہ اللہ فرماتے ہیں ایک قسم یہ ہے جوآئندہ کسی کام کے کرنے یانہ کرنے پر کھائے مثلاًیوں کہے اللہ کی قسم !میں اپناکپڑادس دینارکونہ بیچوں گاپھربیچ ڈالے، یااللہ کی قسم !میں اس کے غلام کوماروں گاپھراس کونہ مارے اس قسم پرکفارہ لازم آتاہے، ایک لغوقسم وہ ہے کہ آدمی ایک بات کوسچ جان کراس پرقسم کھائے پھراس کے خلاف نکلے اس قسم میں کفارہ نہیں ہوتااورتیسری قسم غموس ہے کہ آدمی ایک کام کوجانتاہے کہ ایسانہیں ہواباوجوداس کے قصداًجھوٹی قسم کھائے کہ ایساہواکسی کے خوش کرنے یاعذرقبول کرانے کے لئے یاکسی کامال مارنے کے لئے اس قسم میں اتنابڑاگناہ ہے کہ اس کاکفارہ دنیامیں نہیں ہوسکتا۔[161]

البتہ کوئی شخص تاکیداورپختگی کے لئے ارادةقسم کھائے تواس پرتمہارا مواخذہ ہوگا،اس لئے قسم کھانے والااپنی قسم توڑدے اورکفارہ اداکرے،کیونکہ جس نے معصیت کی قسم کھائی ہواسے اپنی قسم پرقائم نہ رہنا چاہے (ایسی قسم توڑنے کا) کفارہ یہ ہے کہ دس مسکینوں کووہ اوسط درجہ کاکھاناکھلاؤجوتم اپنے بال بچوں کوکھلاتے ہویاانہیں مناسب حال کپڑے پہناؤیاایک مسلمان غلام آزادکرو،

عَنْ مُعَاوِیَةَ بْنِ الْحَكَمِ السُّلَمِیِّ، قَالَ: وَكَانَتْ لِی جَارِیَةٌ تَرْعَى غَنَمًا لِی قِبَلَ أُحُدٍ وَالْجَوَّانِیَّةِ، فَاطَّلَعْتُ ذَاتَ یَوْمٍ فَإِذَا الذِّیبُ قَدْ ذَهَبَ بِشَاةٍ مِنْ غَنَمِهَا وَأَنَا رَجُلٌ مِنْ بَنِی آدَمَ، آسَفُ كَمَا یَأْسَفُونَ، لَكِنِّی صَكَكْتُهَا صَكَّةً،فَأَتَیْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَعَظَّمَ ذَلِكَ عَلَیَّ، قُلْتُ: یَا رَسُولَ اللهِ أَفَلَا أُعْتِقُهَا؟ قَالَ: ائْتِنِی بِهَا فَأَتَیْتُهُ بِهَا فَقَالَ لَهَا:أَیْنَ اللهُ؟قَالَتْ: فِی السَّمَاءِ، قَالَ: مَنْ أَنَا؟ قَالَتْ: أَنْتَ رَسُولُ اللهِ، قَالَ:أَعْتِقْهَا، فَإِنَّهَا مُؤْمِنَةٌ

معاویہ بن حکم سلمی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے میری ایک لونڈی تھی جو احد اور جوانیہ کے علاقوں میں میری بکریاں چرایا کرتی تھی، ایک دن میں وہاں گیا تو دیکھا کہ ایک بھیڑیا میری ایک بکری کو اٹھا کر لے گیا ہےآخر میں بھی بنی آدم سے ہوں مجھے بھی غصہ آتا ہے جس طرح کہ دوسرے لوگوں کو غصہ آجاتا ہے میں نے اسے ایک تھپڑ مار دیا ،پھر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آیا مجھ پر یہ بڑا گراں گزرا اور میں نے عرض کیا کیا میں اس لونڈی کو آزاد نہ کر دوں ؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اسے میرے پاس لاؤ، میں اسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے آیا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پوچھا کہ اللہ کہاں ہے ؟اس لونڈی نے کہا آسمان میں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پوچھا میں کون ہوں ؟اس لونڈی نے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس لونڈی کے مالک سے فرمایا اسے آزاد کر دے کیونکہ یہ لونڈی مومنہ ہے۔[162]

اورجواس کی استطاعت نہ رکھتاہووہ تین دن کے متواتر روزے رکھے،یہ تمہاری قسموں کاکفارہ ہے جبکہ تم قسم کھاکرتوڑدو،اپنی قسموں کی حفاظت کیاکرو،اس طرح اللہ اپنے احکام تمہارے لئے واضح کرتاہے شایدکہ تم شکراداکرو۔

[1] سنن ابوداودکتاب الحدودبَابُ مَا لَا قَطْعَ فِیهِ۴۳۹۰،السنن الکبری للنسائی ۷۴۰۴،سنن ابن ماجہ کتاب الحدود بَابُ مَنْ سَرَقَ مِنَ الْحِرْزِ۲۵۹۶،مستدرک حاکم۸۱۵۱،مسنداحمد۶۶۸۳

[2] مستدرک حاکم۸۱۴۲

[3] سنن ابوداودکتاب الحدودبَابُ مَا یُقْطَعُ فِیهِ السَّارِقُ ۴۳۸۵،سنن ابن ماجہ کتاب الحدودبَابُ حَدِّ السَّارِقِ ۲۵۸۵

[4]سنن نسائی کتاب قطع السارق باب الْقَدْرُ الَّذِی إِذَا سَرَقَهُ السَّارِقُ قُطِعَتْ یَدُهُ۴۹۱۰

[5] سنن نسائی کتاب قطع السارق باب الْقَدْرُ الَّذِی إِذَا سَرَقَهُ السَّارِقُ قُطِعَتْ یَدُهُ۴۹۱۸

[6] سنن ابوداودکتاب الحدودبَابُ مَا یُقْطَعُ فِیهِ السَّارِقُ ۴۳۸۳

[7] سنن ابوداودکتاب الحدودبَابُ مَنْ سَرَقَ مِنْ حِرْزٍ ۴۳۹۴ ، سنن ابن ماجہ کتاب الحدود بَابُ مَنْ سَرَقَ مِنَ الْحِرْزِ ۲۵۹۶،مستدرک حاکم ۸۱۴۹ ، مسند احمد۱۵۳۱۰

[8] نیل الاوطار۱۵۴؍۷

[9] سبل السلام ۴۳۳؍۲،نیل الاوطار۱۵۳؍۷

[10] السبل الجرار۸۶۳؍۱

[11] صحیح مسلم كِتَابُ الْحُدُودِ بَابُ حَدِّ السَّرِقَةِ وَنِصَابِهَا۴۴۰۱، سنن الکبری للنسائی ۷۳۸۵، مسنداحمد۲۶۱۱۶

[12] صحیح مسلم کتاب الحدود بَابُ حَدِّ السَّرِقَةِ وَنِصَابِهَا۴۴۰۰ ، سنن ابن ماجہ کتاب الحدودبَابُ حَدِّ السَّارِقِ ۲۵۸۵،سنن الدارمی ۲۳۴۶، مسنداحمد۲۴۰۷۸

[13] مسنداحمد۲۴۵۱۵

[14] سنن نسائی کتاب قطع السارق باب القدرالذی اذاسرقہ السارق قطعت یدہ ۴۹۳۹

[15] صحیح مسلم کتاب الحدود بَابُ حَدِّ السَّرِقَةِ وَنِصَابِهَا۴۴۰۶ ، صحیح بخاری کتاب الحدودبَابُ قَوْلِ اللهِ تَعَالَى وَالسَّارِقُ وَالسَّارِقَةُ فَاقْطَعُوا أَیْدِیَهُمَا۶۷۹۵،سنن ابوداودکتاب الحدود بَابُ مَا یُقْطَعُ فِیهِ السَّارِقُ ۴۳۸۵ ،السنن الکبری للنسائی ۷۳۵۳،جامع ترمذی ابواب الحدود بَابُ مَا جَاءَ فِی كَمْ تُقْطَعُ یَدُ السَّارِقِ۱۴۴۶،مسنداحمد۵۵۱۷

[16] نیل الاوطار۱۴۹؍۷،فتح الباری۱۰۳تا۱۰۷؍۱۲،الام للشافعی ۱۵۹؍۷

[17] السبل الجرار ۸۶۳؍۱

[18] الروضة الندیة۲۹۸؍۳

[19] اروائ الغلیل ۲۴۳۰،۸۱؍۸، التلخیص الحبیر۱۹۶؍۴

[20] السنن الکبری للبیہقی ۱۷۲۴۸،مصنف ابن ابی شیبة۲۸۵۹۹

[21] سنن الدارقطنی۳۴۶۶

[22] مصنف ابن ابی شیبة ۲۸۶۰۱، اروائ الغلیل ۲۴۳۰، ۸۲؍۸

[23] السنن الکبری للبیہقی۱۷۲۵۱

[24] صحیح بخاری کتاب الحدودبَابُ قَوْلِ اللهِ تَعَالَى وَالسَّارِقُ وَالسَّارِقَةُ فَاقْطَعُوا أَیْدِیَهُمَا۶۷۹۵

[25]سنن ابوداودکتاب الحدودبَابُ مَنْ سَرَقَ مِنْ حِرْزٍ۴۳۹۴

[26] سنن ابوداود کتاب الحدود بَابٌ فِی التَّلْقِینِ فِی الْحَدِّ۴۳۸۰،ارواء الغلیل ۲۴۲۶

[27] نیل الاوطار ۱۵۹؍۷

[28] الروضة الندیة۲۹۸؍۳

[29] الطلاق۲

[30] رواء الغلیل۲۳۱۶

[31] سنن ابوداودکتاب الحدود بَابٌ فِی التَّلْقِینِ فِی الْحَدِّ ۴۳۸۰ ، ارواء الغلیل۳۵۹؍۷،سنن نسائی کتاب الحدودتَلْقِینُ السَّارِقِ۴۸۸۱،سنن ابن ماجہ کتاب الحدودبَابُ تَلْقِینِ السَّارِقِ۲۵۹۸، سنن الدارمی۲۳۴۹،السنن الصغیرللبیہقی ۲۶۳۳

[32] بلوغ المرام۱۲۳۴

[33] مصنف عبدالرزاق۱۸۹۱۹،اروائ الخلیل۷۹؍۸،الروضة الندیة ۳۰۰؍۳

[34] مصنف عبدالرزاق ۱۸۹۲۰

[35] مصنف ابن ابی شیبة۲۸۵۷۶،نیل اوطار۱۵۹؍۷

[36] نیل الاوطار ۱۵۹؍۷

[37] رواء الغلیل۲۴۳۱،۸۳؍۸، سنن الدارقطنی۳۱۶۳، مستدرک حاکم۸۱۵۰،السنن الکبری للبیہقی۱۷۲۵۴، کشف الاستارعن زوائدالبزار ۱۵۶۰، ۲۲۰؍۲

[38] التلخیص الحبیر۱۷۷۶،۱۹۲؍۴

[39] المائدة۲

[40] سبل السلام۴۳۵؍۲،نیل الاوطار۱۶۱؍۷

[41] ارواء الغلیل۲۴۳۲،۸۴؍۸،سبل السلام ۴۳۵؍۲،نیل الاوطار۳۱۳۴،سنن ابوداودکتاب الحدودبَابٌ فِی تَعْلِیقِ یَدِ السَّارِقِ فِی عُنُقِهِ ۴۴۱۱،جامع ترمذی ابواب الحدود بَابُ مَا جَاءَ فِی تَعْلِیقِ یَدِ السَّارِقِ۱۴۴۷،سنن ابن ماجہ کتاب الحدود بَابُ تَعْلِیقِ الْیَدِ فِی الْعُنُقِ۲۵۸۷،سنن الدارقطنی۳۴۷۵،مسنداحمد۲۳۹۴۶،السنن الکبری للبیہقی۱۷۲۷۰

[42] نیل الاوطار۱۶۱؍۷

[43] السنن الکبری للبیہقی ۱۷۲۷۳،نیل الاوطار۱۶۰؍۷،سبل السلام۴۳۵؍۲

[44] سنن ابوداود کتاب الحدودبَابُ الْعَفْوِ عَنِ الحُدُودِ مَا لَمْ تَبْلُغِ السُّلْطَانَ ۴۳۷۶،سنن الکبری للنسائی۷۳۳۲،مستدرک حاکم۸۱۵۶

[45] سنن ابوداودکتاب الحدودبَابُ مَنْ سَرَقَ مِنْ حِرْزٍ ۴۳۹۴،سنن ابن ماجہ کتاب الحدود بَابُ مَنْ سَرَقَ مِنَ الْحِرْزِ۲۵۹۵،سنن الکبری للنسائی ۷۳۲۸، مستدرک حاکم ۸۱۴۹ ، المتنقی لابن الجارود۸۲۸، اروائ الغلیل۲۳۱۷

[46] نیل الاوطار۱۵۴،۱۵۵؍۷

[47]سنن ابوداودکتاب الحدودبَابُ مَا لَا قَطْعَ فِیهِ۴۳۹۰،جامع ترمذی ابواب الحدود بَابُ مَا جَاءَ فِی الرُّخْصَةِ فِی أَكْلِ الثَّمَرَةِ لِلْمَارِّ بِهَا۱۲۸۹،سنن ابن ماجہ کتاب الحدود بَابُ مَنْ سَرَقَ مِنَ الْحِرْزِ۲۵۹۶،السنن الکبری للنسائی ۷۴۰۴،مستدرک حاکم ۸۱۵۱، مسند احمد۶۹۳۶

[48]سنن ابوداودکتاب الحدودبَابُ الْقَطْعِ فِی الْخُلْسَةِ وَالْخِیَانَةِ ۴۳۹۱ ،سنن ابن ماجہ کتاب الحدود بَابُ الْخَائِنِ وَالْمُنْتَهِبِ وَالْمُخْتَلِسِ ۲۵۹۱،صحیح ابن حبان ۴۴۵۷،السنن الکبری للبیہقی۱۷۲۹۰،سنن الدارمی ۲۳۵۶،مسنداحمد۱۵۰۷۰

[49] تحفة الاحوذی۸؍۵،نیل الاوطار۱۵۶؍۷

[50] نیل الاوطار۱۵۶؍۷

[51] شرح نووی علی مسلم۱۸۰؍۱۱

[52] تحفة الاحوذی۸؍۵

[53] سنن ابوداودکتاب الحدودبَابٌ فِی الْقَطْعِ فِی الْعَوَرِ إِذَا جُحِدَتْ ۴۳۹۵،السنن الکبری للنسائی ۷۳۳۳،مسنداحمد۶۳۸۳

[54] نیل الاوطار۱۵۷؍۷

[55] الروضة الندیة۳۰۴؍۳

[56] نیل الاوطار۱۵۸؍۷

[57] القصص۵۶

[58] صحیح بخاری کتاب الحدودبَابُ أَحْكَامِ أَهْلِ الذِّمَّةِ وَإِحْصَانِهِمْ، إِذَا زَنَوْا وَرُفِعُوا إِلَى الإِمَامِ۶۸۴۱ ،صحیح مسلم کتاب الحدودبَابُ رَجْمِ الْیَهُودِ أَهْلِ الذِّمَّةِ فِی الزِّنَى۴۴۳۷،سنن ابوداودکتاب الحدود بَابٌ فِی رَجْمِ الْیَهُودِیَّیْنِ۴۴۴۶،السنن الکبری للنسائی۷۲۹۴،صحیح ابن حبان۴۴۳۴،السنن الصغیرللبیہقی۲۵۵۱،شرح السنة للبغوی۲۵۸۳

[59] صحیح بخاری کتاب التوحیدوالردعلی الجھمیةبَابُ مَا یَجُوزُ مِنْ تَفْسِیرِ التَّوْرَاةِ وَغَیْرِهَا مِنْ كُتُبِ اللهِ، بِالعَرَبِیَّةِ وَغَیْرِهَا ۷۵۴۳

[60] سنن ابوداودكِتَاب الْحُدُودِ بَابٌ فِی رَجْمِ الْیَهُودِیَّیْنِ۴۴۴۹

[61] الانبیاء۴۸

[62] الانبیاء۲۵

[63] مسنداحمد۲۲۱۲

[64]المائدة: 44،

[65] المائدة: 47

[66] سنن ابوداودکتاب القضائ بَابٌ فِی الْقَاضِی یُخْطِئُ ۳۵۷۶

[67] تفسیرابن کثیر۱۱۹؍۳

[68]

[69]

[70]. تفسیرطبری۳۶۸؍۱۰

[71] تفسیرطبری۳۵۷؍۱۰

[72] آل عمران۵۰

[73] الحجر۹

[74] المائدة۴۲

[75] الحج ۶۷

[76] صحیح بخاری كِتَابُ أَحَادِیثِ الأَنْبِیَاءِ بَابُ قَوْلِ اللهِ وَاذْكُرْ فِی الكِتَابِ مَرْیَمَ إِذِ انْتَبَذَتْ مِنْ أَهْلِهَا۳۴۴۳،صحیح مسلم کتاب الفضائل بَابُ فَضَائِلِ عِیسَى عَلَیْهِ السَّلَامُ ۶۱۳۲

[77] تفسیر طبری ۳۹۳؍۱۰،تفسیرابن ابی حاتم۱۱۵۴؍۴، تفسیرابن کثیر۱۳۱؍۳

[78] الانعام۱۱۶

[79] المعجم الکبیرللطبرانی۱۰۷۴۹

[80] صحیح بخاری كِتَابُ الدِّیَاتِ بَابُ مَنْ طَلَبَ دَمَ امْرِئٍ بِغَیْرِ حَقٍّ۶۸۸۲

[81] آل عمران۲۸

[82] آل عمران۱۱۹

[83] آل عمران۱۲۰

[84] ابن ہشام۴۹؍۲

[85]مسنداحمد۲۱۷۵۸

[86]۔ تفسیرابن ابی حاتم۱۱۵۶؍۴

[87] تفسیرابن کثیر۱۳۳؍۳

[88] تفسیرابن کثیر۱۳۲؍۳

[89] آل عمران۳۱

[90] الفتح ۲۹

[91] مسنداحمد۲۱۴۱۵،المعجم الاوسط للطبرانی۷۷۳۹

[92] جامع ترمذی أَبْوَابُ الْفِتَنِ باب ۲۲۵۴،سنن ابن ماجہ كِتَابُ الْفِتَنِ بَابُ قَوْلِهِ تَعَالَى یَا أَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا عَلَیْكُمْ أَنْفُسَكُمْ ۴۰۱۶،مسنداحمد۲۳۴۴۴

[93] المجادلة۲۲

[94] البروج ۸

[95] التوبة۷۴

[96] آل عمران۲۸

[97] صحیح بخاری کتاب الاذان بَابُ فَضْلِ التَّأْذِینِ۶۰۸، صحیح مسلم کتاب الصلوٰة بَابُ فَضْلِ الْأَذَانِ وَهَرَبِ الشَّیْطَانِ عِنْدَ سَمَاعِهِ۸۵۹،سنن ابوداودکتاب الصلاة بَابُ رَفْعِ الصَّوْتِ بِالْأَذَانِ ۵۱۶، مسند احمد ۸۱۳۹،سنن الدارمی۱۵۳۵

[98] صحیح بخاری ابواب العمل فی الصلاة بَابُ إِذَا لَمْ یَدْرِ كَمْ صَلَّى ثَلاَثًا أَوْ أَرْبَعًا، سَجَدَ سَجْدَتَیْنِ وَهُوَ جَالِسٌ۱۲۳۱،صحیح مسلم کتاب المساجدبَابُ السَّهْوِ فِی الصَّلَاةِ وَالسُّجُودِ لَهُ۱۲۶۵، سنن ابوداودکتاب الصلاة بَابُ مَنْ قَالَ: یُتِمُّ عَلَى أَكْبَرِ ظَنِّهِ۱۰۳۰،سنن الکبری للنسائی ۵۹۵، مسند احمد ۱۰۷۶۹،سنن الدارمی ۱۵۳۵

[99] البروج۸

[100] التوبة۷۴

[101] البقرة۶۵

[102] تفسیرابن کثیر۱۴۲؍۳

[103] المائدة: 63

[104] تفسیر طبری ۴۵۰؍۱۰

[105] تفسیرابن ابی حاتم۱۱۶۶؍۴

[106] مسنداحمد۱۹۲۱۶

[107] سنن ابوداودکتاب الملاحم بَابُ الْأَمْرِ وَالنَّهْیِ ۴۳۳۹

[108] تفسیر طبری۴۵۲؍۱۰

[109] آل عمران ۱۸۱

[110] المائدة: 64

[111] تفسیر طبری ۴۵۳؍۱۰

[112] النسائ۵۳،۵۴

[113] البقرة۶۱

[114] صحیح بخاری کتاب التوحیدبَابُ وَكَانَ عَرْشُهُ عَلَى المَاءِ ۷۴۱۹،وکتاب التفسیرسورة ھودبَابُ قَوْلِهِ وَكَانَ عَرْشُهُ عَلَى المَاءِ ۴۶۸۴،صحیح مسلم کتاب الزکوٰةبَابُ الْحَثِّ عَلَى النَّفَقَةِ وَتَبْشِیرِ الْمُنْفِقِ بِالْخَلَفِ۲۳۰۹، مسنداحمد۸۱۴۰،۱۰۵۰۰

[115] الاعراف۹۶

[116] الاعراف۱۵۹

[117] صحیح بخاری کتاب التفسیرسورہ المائدہ بَابُ یَا أَیُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا أُنْزِلَ إِلَیْكَ مِنْ رَبِّكَ ۴۶۱۲

[118] صحیح بخاری کتاب الجھادبَابُ فَكَاكِ الأَسِیرِ ۳۰۴۷، وکتاب الدیات بَابُ العَاقِلَةِ۶۹۰۳،وکتاب الدیات بَابٌ لاَ یُقْتَلُ المُسْلِمُ بِالكَافِرِ۶۹۱۵،مسنداحمد۵۹۹،سنن الدارمی۲۴۰۱

[119] تفسیرابن ابی حاتم۶۶۱۱،۱۱۷۲؍۴

[120] صحیح مسلم کتاب الحج بَابُ حَجَّةِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ۲۹۵۰،سنن ابوداودکتاب المناسک بَابُ صِفَةِ حَجَّةِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ ۱۹۰۵،سنن ابن ماجہ کتاب المناسک بَابُ حَجَّةِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ ۳۰۷۴

[121] الأحزاب: 37

[122] صحیح مسلم کتاب الایمان بَابُ مَعْنَى قَوْلِ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ وَلَقَدْ رَآهُ نَزْلَةً أُخْرَى۴۴۰، مسنداحمد۲۶۰۴۱

[123] المائدة: 67

[124] صحیح بخاری کتاب التفسیرسورہ النجم ۴۸۵۵

[125] صحیح مسلم کتاب فضائل الصحابة بَابٌ فِی فَضْلِ سَعْدِ بْنِ أَبِی وَقَّاصٍ رَضِیَ اللهُ عَنْهُ۶۲۳۱،صحیح بخاری کتاب الجھادبَابُ الحِرَاسَةِ فِی الغَزْوِ فِی سَبِیلِ اللهِ۲۸۸۵،وکتاب التمنی بَابُ قَوْلِهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ لَیْتَ كَذَا وَكَذَا ۷۲۳۱

[126] تاریخ المدینة لابن شیبة ۳۰۱؍۱،تفسیرابن کثیر۱۵۳؍۳

[127]۔البقرة۲۷۲

[128] القصص۵۶

[129] البقرة ۶۲

[130] مریم۳۰

[131] آل عمران۵۱

[132] مریم۳۶

[133] النساء۴۸

[134]الاعراف۵۰

[135] صحیح مسلم کتاب الایمان بَابُ غِلَظِ تَحْرِیمِ الْغُلُولِ، وَأَنَّهُ لَا یَدْخُلُ الْجَنَّةَ إِلَّا الْمُؤْمِنُونَ ۳۰۹، وکتاب الصیام باب تحریم صوم التشریق ۲۶۷۹،جامع ترمذی ابواب السیر بَابُ مَا جَاءَ فِی الغُلُولِ ۱۵۷۴، مسند احمد ۲۰۳،سنن الدارمی۲۵۳۲

[136] یوسف۱۰۹

[137] المائدة۱۱۶،۱۱۷

[138] الزخرف۵۹

[139] (تفسیرابن ابی حاتم۱۱۸۲؍۴)

[140] سنن ابوداودکتاب الملاحم بَابُ الْأَمْرِ وَالنَّهْیِ ۴۳۳۶،سنن ابن ماجہ کتاب الفتن بَابُ الْأَمْرِ بِالْمَعْرُوفِ وَالنَّهْیِ عَنِ الْمُنْكَرِ ۴۰۰۶

[141] سنن ابن ماجہ کتاب الفتن بَابُ الْأَمْرِ بِالْمَعْرُوفِ وَالنَّهْیِ عَنِ الْمُنْكَرِ۴۰۰۴،جامع ترمذی ابواب الفتن بَابُ مَا جَاءَ فِی الأَمْرِ بِالمَعْرُوفِ وَالنَّهْیِ عَنِ الْمُنْكَرِ۲۱۶۹ ، مسند احمد۲۳۳۲۷

[142] صحیح مسلم کتاب الایمان بَابُ بَیَانِ كَوْنِ النَّهْیِ عَنِ الْمُنْكَرِ مِنَ الْإِیمَانِ ۱۷۷،سنن ابن ماجہ کتاب الفتن بَابُ الْأَمْرِ بِالْمَعْرُوفِ وَالنَّهْیِ عَنِ الْمُنْكَرِ۴۰۱۳،مسنداحمد۱۱۰۷۲

[143] مسنداحمد۱۷۷۲۰،شرح السنة للبغوی ۴۱۵۵

[144] سنن ابوداود كِتَاب الْمَلَاحِمِ بَابُ الْأَمْرِ وَالنَّهْیِ۴۳۴۵

[145] جامع ترمذی ابواب الفتن بَابُ مَا جَاءَ مَا أَخْبَرَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَصْحَابَهُ بِمَا هُوَ كَائِنٌ إِلَى یَوْمِ القِیَامَةِ ۲۱۹۱،سنن ابن ماجہ کتاب الفتن بَابُ الْأَمْرِ بِالْمَعْرُوفِ وَالنَّهْیِ عَنِ الْمُنْكَرِ ۴۰۰۷ ،مسنداحمد۱۱۶۷۸

[146] المائدة: 82

[147] تفسیرابن ابی حاتم۱۱۸۳؍۴

[148] الحدید۲۷

[149] تفسیرابن کثیر۱۶۶؍۳

[150] تفسیرابن کثیر۱۶۶؍۳

[151] آل عمران ۱۹۹

[152] القصص۵۲،۵۳

[153] جامع ترمذی کتاب تفسیرالقرآن بَابٌ وَمِنْ سُورَةِ الْمَائِدَةِ۳۰۴۸

[154] تفسیرطبری ۱۲۳۴۵،۵۱۷؍۱۰، الدر المنثور فی تفسیربالماثور۱۴۱؍۳،تفسیرالمنار۲۱؍۷

[155] البقرة۲۲۴،۲۲۵

[156] صحیح بخاری کتاب النکاح بَابُ التَّرْغِیبِ فِی النِّكَاحِ۵۰۶۳،صحیح مسلم کتاب النکاح بَابُ اسْتِحْبَابِ النِّكَاحِ لِمَنْ تَاقَتْ نَفْسُهُ إِلَیْهِ۳۴۰۳

[157]مصنف عبدالرزاق۱۲۵۸۶

[158] الاعراف۳۱

[159] الفرقان۶۷

[160] موطاامام مالک کتاب النذوراللغْوُ فِی الْیَمِینِ۱۶

[161] الروضة الندیة۵۴۹؍۲

[162] صحیح مسلم كِتَابُ الْمَسَاجِدِ وَمَوَاضِعِ الصَّلَاةَ بَابُ تَحْرِیمِ الْكَلَامِ فِی الصَّلَاةِ، وَنَسْخِ مَا كَانَ مِنْ إِبَاحَتِهِ۱۱۹۹

Related Articles