ہجرت نبوی کا ساتواں سال

قسموں کے مسائل(حصہ  دوم)

‏ إِن تُعَذِّبْهُمْ فَإِنَّهُمْ عِبَادُكَ ۖ وَإِن تَغْفِرْ لَهُمْ فَإِنَّكَ أَنتَ الْعَزِیزُ الْحَكِیمُ ‎﴿١١٨﴾‏ قَالَ اللَّهُ هَٰذَا یَوْمُ یَنفَعُ الصَّادِقِینَ صِدْقُهُمْ ۚ لَهُمْ جَنَّاتٌ تَجْرِی مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِینَ فِیهَا أَبَدًا ۚ رَّضِیَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ ۚ ذَٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِیمُ ‎﴿١١٩﴾‏ لِلَّهِ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَا فِیهِنَّ ۚ وَهُوَ عَلَىٰ كُلِّ شَیْءٍ قَدِیرٌ ‎﴿١٢٠﴾‏(المائدہ)
’’اگر تو ان کو سزا دے تو یہ تیرے بندے ہیں اور اگر تو معاف فرما دے تو تو زبردست ہے حکمت والا ہے،اللہ ارشاد فرمائے گا کہ یہ وہ دن ہے کہ جو لوگ سچے تھے ان کا سچا ہونا ان کے کام آئے گا، ان کو باغ ملیں گے جن کے نیچے نہریں جاری ہونگی جن میں وہ ہمیشہ ہمیشہ کو رہیں گے، اللہ تعالیٰ ان سے راضی اور خوش اور یہ اللہ سے راضی اور خوش ہیں، یہ بڑی بھاری کامیابی ہے،ا للہ ہی کی سلطنت آسمانوں کی اور زمین کی اور ان چیزوں کی جو ان میں موجود ہیں، اور وہ ہر شے پر پوری قدرت رکھتا ہے۔‘‘

اورعیسیٰ علیہ السلام اپنی امت کی عفوومغفرت کی التجاکرتے ہوئے عرض کریں گے اے میرے رب !توقادرمطلق اورمختارکل ہے ،ان کامعاملہ تیری مشیت کے سپردہے تو جو چاہے کرسکتا ہے،تم سے کوئی بازپرس کرنے والانہیں ہے ،جیسے فرمایا

لَا یُسْــَٔـلُ عَمَّا یَفْعَلُ وَهُمْ یُسْــَٔــلُوْنَ۝۲۳ [1]

ترجمہ:وہ اپنے کاموں کے لئے (کسی کے آگے)جواب دہ نہیں ہے اورسب جواب دہ ہیں ۔

تو چاہے تواپنے عدل وانصاف کے مطابق انہیں ان کے گناہوں کی پاداش میں دردناک عذاب میں مبتلا کر دے اورچاہے تواپنے بے بہا رحم وکرم سے انہیں معاف فرمادے،توتو زبردست ہے اورتیراکوئی کام حکمت سے خالی نہیں ہوتا،

عَنْ أَبِی ذَرٍّ، قَالَ: صَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ لَیْلَةً فَقَرَأَ بِآیَةٍ حَتَّى أَصْبَحَ، یَرْكَعُ بِهَا وَیَسْجُدُ بِهَا: {إِنْ تُعَذِّبْهُمْ فَإِنَّهُمْ عِبَادُكَ وَإِنْ تَغْفِرْ لَهُمْ فَإِنَّكَ أَنْتَ الْعَزِیزُ الْحَكِیمُ} [2]

اس عظیم الشان آیت کی عظمت کااظہارابوزر رضی اللہ عنہ کی اس روایت میں ہےایک رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پرنوافل میں اس آیت کوپڑھتے ہوئے ایسی کیفیت طاری ہوئی کہ باربارہررکعت میں رکوع اورسجودمیں اسے ہی پڑھتے رہے حتی کہ صبح ہوگئی’’اب اگر آپ انہیں سزا دیں تو وہ آپ کے بندے ہیں اور اگر معاف کردیں تو آپ غالب اور دانا ہیں ۔‘‘ [3]

 أَبَا ذَرٍّ، یَقُولُ: قَامَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ لَیْلَةً مِنَ اللیَالِی فِی صَلَاةِ الْعِشَاءِ فَصَلَّى بِالْقَوْمِ، ثُمَّ تَخَلَّفَ أَصْحَابٌ لَهُ یُصَلُّونَ، فَلَمَّا رَأَى قِیَامَهُمْ وَتَخَلُّفَهُمْ انْصَرَفَ إِلَى رَحْلِهِ، فَلَمَّا رَأَى الْقَوْمَ قَدْ أَخْلَوْا الْمَكَانَ، رَجَعَ إِلَى مَكَانِهِ فَصَلَّى، فَجِئْتُ فَقُمْتُ خَلْفَهُ، فَأَوْمَأَ إِلَیَّ بِیَمِینِهِ فَقُمْتُ عَنْ یَمِینِهِ،ثُمَّ جَاءَ ابْنُ مَسْعُودٍ فَقَامَ خَلْفِی وَخَلْفَهُ، فَأَوْمَأَ إِلَیْهِ بِشِمَالِهِ، فَقَامَ عَنْ شِمَالِهِ،فَقُمْنَا ثَلَاثَتُنَا یُصَلِّی كُلُّ رَجُلٍ مِنَّا بِنَفْسِهِ، وَیَتْلُو مِنَ الْقُرْآنِ مَا شَاءَ اللهُ أَنْ یَتْلُوَ، فَقَامَ بِآیَةٍ مِنَ الْقُرْآنِ یُرَدِّدُهَا حَتَّى صَلَّى الْغَدَاةَ

ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہےایک رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عشاء کی نمازپڑھائی ،فرضوں کے بعددیکھاکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نمازمیں مشغول ہیں توآپ اپنے خیمے کی طرف تشریف لے گئے جب جگہ خالی ہوگئی اورصحابہ رضی اللہ عنہم چلے گئے توآپ واپس تشریف لائے اورنمازمیں کھڑے ہوگئے،میں بھی آگیااورآپ کے پیچھے کھڑا ہو گیا توآپ نے اپنی دائیں طرف کھڑا ہونے کا اشارہ کیامیں دائیں جانب آگیا،پھرابن مسعود رضی اللہ عنہ آئے اوروہ آپ کے پیچھے کھڑے ہوئے توآپ نے اپنی بائیں طرف کھڑے ہونے کااشارہ کیاچنانچہ وہ آکربائیں جانب کھڑے ہوگئے، اب ہم تینوں نے اپنی اپنی نمازشروع کی ،الگ الگ تلاوت قرآن اپنی نمازمیں کررہے تھے اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک پرایک ہی آیت تھی بار بار اسی کوپڑھ رہے تھے

فَبَعْدَ أَنْ أَصْبَحْنَا أَوْمَأْتُ إِلَى عَبْدِ اللهِ بْنِ مَسْعُودٍ: أَنْ سَلْهُ مَا أَرَادَ إِلَى مَا صَنَعَ الْبَارِحَةَ؟فَقَالَ ابْنُ مَسْعُودٍ بِیَدِهِ: لَا أَسْأَلُهُ عَنْ شَیْءٍ حَتَّى یُحَدِّثَ إِلَیَّ،فَقُلْتُ: بِأَبِی أَنْتَ وَأُمِّی، قُمْتَ بِآیَةٍ مِنَ الْقُرْآنِ وَمَعَكَ الْقُرْآنُ؟ لَوْ فَعَلَ هَذَا بَعْضُنَا وَجَدْنَا عَلَیْهِ،قَالَ:دَعَوْتُ لِأُمَّتِی، قَالَ: فَمَاذَا أُجِبْتَ،أَوْ مَاذَا رُدَّ عَلَیْكَ؟قَالَ:أُجِبْتُ بِالَّذِی لَوْ اطَّلَعَ عَلَیْهِ كَثِیرٌ مِنْهُمْ طَلْعَةً تَرَكُوا الصَّلَاةَ،قَالَ: أَفَلَا أُبَشِّرُ النَّاسَ؟قَالَ: بَلَى، فَانْطَلَقْتُ مُعْنِقًا قَرِیبًا مِنْ قَذْفَةٍ بِحَجَرٍ، فَقَالَ عُمَرُ: یَا رَسُولَ اللهِ ، إِنَّكَ إِنْ تَبْعَثْ إِلَى النَّاسِ بِهَذَا نَكَلُوا عَنِ الْعِبَادَةِ، فَنَادَاهُ : أَنِ ارْجَعْ، فَرَجَعَ

جب صبح ہوئی تومیں عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما سے کہاآپ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت توکروکہ رات کوایک ہی آیت کے پڑھنے کی کیاوجہ تھی ؟انہوں نے کہااگرآپ صلی اللہ علیہ وسلم خودکچھ فرمائیں تواوربات ہے ورنہ میں توکچھ بھی نہ پوچھوں گا،اب میں نے خودہی جرات کرکے آپ سے دریافت کیاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پرمیرے ماں باپ فداہوں ساراقرآن توآپ پر اتراہے اورآپ کے سینے میں ہے پھرآپ نے ایک ہی آیت میں ساری رات کیسے گزار دی؟اگرکوئی اورایساکرتاتوہمیں توبہت ہی برامعلوم ہوتا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااپنی امت کے لئے دعا کر رہا تھا،میں نے پوچھاپھرکیاجواب ملا؟ فرمایا اتنا اچھاکہ اگرعام لوگ سن لیں توڈرہے کہ کہیں نمازبھی نہ چھوڑبیٹھیں ،میں نے کہامجھے اجازت ہے کہ لوگوں میں یہ خوشخبری پہنچادوں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اجازت فرمادی،میں ابھی کچھ ہی دورگیاہوں گاکہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہااے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم ! اگریہ خبرآپ نے عام طور پرکرادی توڈرہے کہ کہیں لوگ عبادت سے بے پرواہ نہ ہو جائیں ،توآپ نے آوازدی کہ لوٹ آؤ،چنانچہ میں لوٹ آیا اوروہ آیت’’اب اگرآپ انہیں سزادیں تووہ آپ کے بندے ہیں اوراگرمعاف کردیں توآپ غالب اورداناہیں ۔‘‘تھی۔[4]

تب اللہ تعالیٰ فرمائے گایہ وہ دن ہے جس میں ایمانداروں کوان کاایمان اورعمل صالح فائدہ دے گا یعنی مشرکین کی معافی اورمغفرت کی کوئی صورت نہیں ،

عَنِ الضَّحَّاكِ , عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ , فِی قَوْلِهِ: هَذَا یَوْمُ یَنْفَعُ الصّٰدِقِیْنَ صِدْقُهُمْ، یَقُولُ هَذَا یَوْمُ یَنْفَعُ الْمُوَحِّدِینَ تَوْحِیدُهُمْ

ضحاک رحمہ اللہ نے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے آیت کریمہ’’ یہ وہ دن ہے جس میں سچوں کوان کی سچائی نفع دیتی ہے۔‘‘کے بارے میں روایت کیاہے آج صرف موحدین کوان کی توحیدہی فائدہ دے گی۔[5]

میں نے موحدین کے لئے ایسی جنتیں تیارکررکھی ہیں جن کے نیچے انواع اقسام کی نہریں بہہ رہی ہیں جس میں وہ ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے ،اللہ ان کے غیرمتزلزل ایمان اوراطاعت رسول کے مطابق عمل صالحہ سے راضی ہوااوروہ اللہ سے بے بہاانعام حاصل کرکے راضی ہوگئے ،جیسے فرمایا

 ۔۔۔وَرِضْوَانٌ مِّنَ اللہِ اَكْبَرُ۝۰ۭ ذٰلِكَ ہُوَالْفَوْزُ الْعَظِیْمُ۝۷۲ۧ [6]

ترجمہ:اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اللہ کی خوشنودی انہیں حاصل ہوگی، یہی بڑی کامیابی ہے ۔

اورایسی ہی کامیابی کے لیے کوششیں کرنی چاہیے،جیسےفرمایا

لِــمِثْلِ ھٰذَا فَلْیَعْمَلِ الْعٰمِلُوْنَ۝۶۱ [7]

ترجمہ:ایسی ہی کامیابی کے لیے عمل کرنے والوں کو عمل کرنا چاہیے ۔

۔۔۔وَفِیْ ذٰلِكَ فَلْیَتَنَافَسِ الْمُتَنَافِسُوْنَ۝۲۶ۭ [8]

ترجمہ:جو لوگ دوسروں پر بازی لے جانا چاہتے ہوں وہ اس چیز کو حاصل کرنے میں بازی لے جانے کی کوشش کریں ۔

اگرتم سوچوتواللہ کی رضا ہی بڑی کامیابی ہے،اوراسی کے لئے عمل کرنے والوں کوعمل کی کوشش کرنی چاہے ،زمین اورآسمانوں اورتمام موجودات کی بادشاہی اللہ وحدہ لاشریک ہی کے لئے ہے ،اس کے سواکوئی معبود نہیں اور ہرچیزاس کے قبضہ قدرت میں ہےکوئی چیزاس کوعاجزنہیں کرسکتی۔

 شاہ فارس خسروپرویزکے نام خط

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک خط شاہ فارس کسریٰ(خسروپرویزبن ہرمز)کے پاس طیسفون(مدائن)میں بھیجاجس کامضمون یہ تھا۔

 بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

مِنْ مُحَمّدٍ رَسُولِ اللهِ إِلَى كِسْرَى عَظِیمِ فَارِسَ

سلام على من اتَّبَعَ الْهُدَى، وَآمَنَ بِاللهِ وَرَسُولِهِ، وَشَهِدَ أَنْ لا إِلَهَ إِلا اللهُ وَحْدَهُ لا شَرِیكَ لَهُ، وَأَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ، وَأَدْعُوكَ بِدُعَاءِ اللهِ، فَإِنِّی أَنَا رَسُولُ اللهِ إِلَى النَّاسِ كَافَّةً لأُنْذِرَ مَنْ كانَ حَیًّا وَیَحِقَّ الْقَوْلُ عَلَى الْكافِرِینَ، فَأَسْلَمَ تَسْلَمْ، فَإِنْ أَبَیْتَ، فَإِنَّ إِثْمَ الْمَجُوسِ عَلَیْكَ

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

محمدرسول اللہ کی طرف سے کسریٰ عظیم فارس کی جانب۔

اس شخص پرسلامتی ہوجوہدایت کی پیروی کرے اوراللہ اوراس کے رسول پرایمان لائے ،اورگواہی دے کہ اللہ کے سواکوئی بندگی کے لائق نہیں ،وہ اکیلاہے اس کاکوئی شریک نہیں اورمحمداس کے بندے اوررسول ہیں ۔

میں تمہیں اللہ کی طرف بلاتا ہوں کیونکہ میں اللہ کی جانب سے تمام تمام انسانوں کی طرف بھیجاگیاہوں (مستشرقین کے اس دعویٰ کی تردیدہوتی ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم صرف عرب کی طرف مبعوث ہوئے تھے)تاکہ جوشخص زندہ ہے اسے برے انجام سے ڈرادیاجائے اورکافروں پرحجت قائم ہوجائے،پس تم اسلام قبول کروسلامت رہوگے اور اگر اس سے انکارکروگے توتمام مجوسی رعایا کاگناہ بھی تمہاری گردن پرہوگا۔[9]

ایک روایت ہے کہ یہ خط لکھا۔

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

مِنْ مُحَمَّدٍ رَسُولِ اللهِ إِلَى كِسْرَى عَظِیمِ فَارِسَ

سَلَامٌ عَلَى مَنِ اتَّبع الْهُدَى، وَآمَنَ بِاللهِ وَرَسُولِهِ، وَشَهِدَ أَنْ لا إِلَهَ إِلا اللهُ وَحْدَهُ لا شَرِیكَ لَهُ، وَأَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ، وَأَدْعُوكَ بِدُعَاءِ اللهِ، فَإِنِّی أَنَا رَسُولُ اللهِ إِلَى النَّاسِ كَافَّةً لأُنْذِرَ مَنْ كانَ حَیًّا وَیَحِقَّ الْقَوْلُ عَلَى الْكافِرِینَ، فَأَسْلَمَ تَسْلَمْ، فَإِنْ أَبَیْتَ، فَإِنَّ إِثْمَ الْمَجُوسِ عَلَیْكَ

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

یہ خط محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے فارس کے فرمانرواکسریٰ کے نام بھیجاجاتاہے

اس پرسلامتی ہوجس نے راہ راست کی اتباع کی ،اللہ اوراس کے رسول پرایمان لایااورجس نے اس بات کی شہادت دی کہ اللہ کے سواکوئی الٰہ نہیں وہ واحدلاشریک ہے اورمحمداس کے بندے اوررسول ہیں ،میں تم کواللہ کاپیغام پہنچاتاہوں اوراس کے لیے دعوت دیتاہوں کیونکہ میں تمام عالم کے لیےاللہ کارسول ہوں تاکہ جوزندہ ہیں ان کومتنبہ کردوں اورجواس سے انکارکریں اس کے خلاف حجت قائم ہوجائے ،اسلام قبول کرلوبچ جاؤگے اگرتم نے نہ ماناتوپھرتمہاری تمام قوم مجوس کاوبال تمہارے ذمے ہوگا۔

اورعبداللہ بن حذافہ سہمی رضی اللہ عنہ کوجن کی وہاں بہت آمدورفت تھی یہ خط دے کرروانہ کیا،شاہ فارس خسروپرویزبڑی شان وشوکت والاحکمران تھا،عجم میں خط لکھنے کاطریقہ یہ تھاکہ عنوان میں پہلے بادشاہ کانام ہوتا تھا جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عرب دستورکے مطابق پہلے اللہ کانام اورپھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کانام لکھا تھا،جب خسرونے اپنے نام سے پہلے اللہ کانام دیکھاتواسے اپنی تحقیر سمجھا

وَقَالَ: یَكْتُبُ إِلَیَّ هَذَا وَهُوَ عَبْدِی، فَمَزَّقَ كِتَابَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ رَسُولُ الله: مُزِّقَ مُلْكُهُ! حِینَ بَلَغَهُ أَنَّهُ شَقَّ كِتَابَهُ

اور بڑے غرورسے بولامیراغلام ہوکرمجھے اس طرح لکھتاہے(یعنی اپنی اطاعت کاکہتاہے) پھرغیظ وغضب کی شدت میں آپ کے نامہ مبارک کوچاک کردیا،عبداللہ بن حذافہ سہمی رضی اللہ عنہ نے واپس آکررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوتمام واقعہ کی خبر کی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجس طرح اس نے میرے خط کوچاک کیاہےاس طرح اللہ اس کے ملک کو ٹکڑے ٹکڑے کردے گا۔[10]

دوسری طرف خسرو پرویز نے خط کوچاک کرنے پراکتفانہیں کیا

ثُمَّ كَتَبَ كِسْرَى إِلَى بَاذَانَ، وَهُوَ عَلَى الْیَمَنِ: أَنِ ابْعَثْ إِلَى هَذَا الرَّجُلِ الَّذِی بِالْحِجَازِ رَجُلَیْنِ مِنْ عِنْدِكَ جَلْدَیْنِ، فَلْیَأْتِیَانِی بِهِ، فَبَعَثَ بَاذَانَ قَهْرَمَانَهُ وَهُوَ بَابَوَیْهِ- وَكَانَ كَاتِبًا حَاسِبًا بِكِتَابِ فَارِسَ- وَبَعَثَ مَعَهُ رَجُلا مِنَ الْفُرْسِ یُقَالُ لَهُ خرخسرهُ، وَكَتَبَ معهما الى رسول الله یَأْمُرُهُ أَنْ یَنْصَرِفَ مَعَهُمَا إِلَى كِسْرَى، وَقَالَ لِبَابَوَیْهِ: ائْتِ بَلَدَ هَذَا الرَّجُلِ، وَكَلِّمْهُ وَأْتِنِی بِخَبَرِهِ

بلکہ گورنریمن باذان کوفرمان بھیجا کہ دودلاورآدمیوں کوحجازبھیجوتاکہ وہ اس مدعی نبوت کوگرفتارکرکے میرے دربارمیں پیش کرے،باذان نے تعمیل فرمان میں اپنے داروغہ بابویہ کوجوکاتب اورایرانی طریقہ حساب کاماہرتھااوراس کے ساتھ ایک دوسرے ایرانی خرخسرہ کو اسلامی ریاست مدینہ منورہ روانہ کیااوران کے ہاتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کویہ خط لکھاکہ تم ان کے ساتھ کسریٰ کی خدمت میں حاضرہوجاؤاورباذان نے بابویہ سے زبانی یہ کہاکہ تم اس شخص کے شہرمیں جاؤاوران سے گفتگوکرواورپھران کاصحیح حال مجھ سے آکربیان کرو

فَخَرَجَا حَتَّى قَدِمَا الطَّائِفَ فَوَجَدَا رِجَالا مِنْ قُرَیْشٍ بِنَخْبٍ مِنْ أَرْضِ الطَّائِفِ فَسَأَلاهُمْ عَنْهُ، فَقَالُوا: هُوَ بِالْمَدِینَةِ، وَاسْتَبْشَرُوا بِهِمَا وَفَرِحُوا، وَقَالَ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ: أَبْشِرُوا فَقَدْ نَصَبَ لَهُ كِسْرَى مَلِكُ الْمُلُوكِ، كُفِیتُمُ الرَّجُلَ! فكلمه بابویه، فقال: ان شاهانشاه مَلِكَ الْمُلُوكِ كِسْرَى، قَدْ كَتَبَ إِلَى الْمَلِكِ بَاذَانَ، یَأْمُرُهُ أَنْ یَبْعَثَ إِلَیْكَ مَنْ یَأْتِیهِ بِكَ، وَقَدْ بَعَثَنِی إِلَیْكَ لِتَنْطَلِقَ مَعِی، فَإِنْ فَعَلْتَ كَتَبَ فِیكَ إِلَى مَلِكِ الْمُلُوكِ یَنْفَعُكَ وَیَكُفُّهُ عَنْكَ، وَإِنْ أَبَیْتَ فَهُوَ مَنْ قَدْ عَلِمْتَ! فَهُوَ مُهْلِكُكَ وَمُهْلِكُ قَوْمِكَ، وَمُخَرِّبُ بِلادِكَ

یہ دونوں قاصدطائف پہنچے وہاں انہوں نے طائف کی عمدہ زمین میں قریش کے چندآدمیوں کوپایااوران سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں دریافت کیاانہوں نے کہاوہ مدینہ منورہ میں ہیں ،قریش کے وہ لوگ گورنریمن کے دونوں آدمیوں سے خوش ہوئے اورایک دوسرے کوکہنے لگے خوش ہوجاؤاب شہنشاہ فارس کسریٰ بھی ان کا دشمن ہوگیاہے اب وہ تمہاری طرف سے اس شخص کے لئے کافی ہوگیاہے،اوراسی حالت میں بابویہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے گفتگوکی اورکہا بادشاہوں کے بادشاہ شہنشاہ کسریٰ نے باذان کو لکھاہے کہ تم کسی کوان کے پاس بھیجوچنانچہ اس نے مجھے آپ کے پاس بھیجاہے تاکہ آپ ہمارے ہمراہ چلیں اگرآپ چلتے ہیں توباذان ایران کے شہنشاہ کوآپ کی سفارش لکھیں گے تاکہ وہ آپ سے درگزرکرکے معافی دے دے اوراگرتم اس کے حکم کی تعمیل نہیں کروگے توآپ اس سے خودواقف ہیں وہ آپ کواورآپ کی قوم کوہلاک کردے گا اور تمہاراملک تباہ وبرباد کر دے گا

ودخلا على رَسُولِ اللهِ وَقَدْ حَلَقَا لِحَاهُمَا، وَأَعْفَیَا شَوَارِبَهُمَا، فَكَرِهَ النَّظَرَ إلیهما،ثم أَقْبَلَ عَلَیْهِمَا فَقَالَ: وَیْلَكُمَا! مَنْ أَمَرَكُمَا بِهَذَا؟ قَالا: أَمَرَنَا بِهَذَا رَبُّنَا یَعْنِیَانِ كِسْرَى،فَقَالَ رَسُولِ اللهِ: لَكِنَّ رَبِّی قَدْ أَمَرَنِی بِإِعْفَاءِ لِحْیَتِی وَقَصِّ شَارِبِی،ثُمَّ قَالَ لَهُمَا: ارْجِعَا حَتَّى تَأْتِیَانِی غدا واتى رَسُولِ اللهِ الْخَبَرُ مِنَ السَّمَاءِ أَنَّ اللهَ قَدْ سَلَّطَ عَلَى كِسْرَى ابْنَهُ شِیرَوَیْهِ، فَقَتَلَهُ فِی شَهْرِ كَذَا وَكَذَا لَیْلَةَ كَذَا وَكَذَا مِنَ اللیْلِ، بَعْدَ مَا مَضَى مِنَ اللیْلِ، سَلَّطَ عَلَیْهِ ابْنَهُ شِیرَوَیْهِ فَقَتَلَهُ

دونوں قاصداس حال میں حاضرہوئے کہ ان کی داڑھیاں منڈی ہوئی اورمونچھیں بڑھی ہوئی تھیں ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کراہیت سے پہلے تو ان کی طرف نظراٹھاکردیکھنابھی گوارانہ کیاپھرفرمایاتم پر افسوس یہ کیاشکل ہے، کس نے تمہیں ایساکرنے کاحکم دیاہے؟ انہوں نے جواب دیاہمارے پروردگار!یعنی کسریٰ نے ہمیں ایساکرنے کوکہاہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایالیکن میرے مالک نے مجھے داڑھی بڑھانے اورمونچھیں کترانے کاحکم فرمایاہے ،

اللہ تعالیٰ نے مردکوداڑھی کے ساتھ پیدافرمایاہے اوریہ مردکاحسن وجمال ہے اورزینت ہے،شعاردین ہے ،تمام انبیائے کرام علیہ السلام کی سنت ہے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی داڑھی تھی

جَابِرَ بْنَ سَمُرَةَ، یَقُولُ:كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ كَانَ كَثِیرَ شَعْرِ اللِّحْیَةِ

جابربن سمرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ریش مبارک میں بال کثیروانبوہ تھے۔[11]

هِنْدَ بْنَ أَبِی هَالَةَ قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، كَثَّ اللِّحْیَةِ

ہندبن ابی ہالہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گھنی داڑھی والے تھے۔[12]

عن علی بن أبی طالب قال كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ كَثُّ اللِّحْیَةِ

سیدناعلی رضی اللہ عنہ بن ابوطالب فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گھنی داڑھی والے تھے۔[13]

عَنْ عَلِیِّ بْنِ أَبِی طَالِبٍ، أَنَّهُ كَانَ إِذَا وَصَفَ النَّبِیَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: عَظِیمَ اللِّحْیَةِ

سیدناعلی رضی اللہ عنہ بن ابوطالب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وصف میں فرمایاآپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ریش مطہر بڑی تھی ۔[14]

داڑھی مونڈھناحرام اوراللہ کے رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی ہے ،

عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: انْهَكُوا الشَّوَارِبَ، وَأَعْفُوا اللِّحَى

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مونچھیں خوب کتروالیاکرواورداڑھی کوچھوڑ دو۔[15]

عَنِ ابْنِ عُمَرَ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:أَحْفُوا الشَّوَارِبَ وَأَعْفُوا اللِّحَى

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایامونچھوں کو اچھی طرح کترواورداڑھیاں پوری رکھو۔(صحیح مسلم كِتَابِ الطَّهَارَةِ بَابُ خِصَالِ الْفِطْرَةِ)

عَنِ ابْنِ عُمَرَ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ:أَمَرَ بِإِحْفَاءِ الشَّوَارِبِ، وَإِعْفَاءِ اللِّحْیَةِ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہمیں مونچھوں کو جڑ سے کاٹنے اور داڑھی کو بڑھانے کا حکم دیا گیا ہے۔[16]

داڑھی مونڈنے والاانبیاء کے طریقہ سے اعراض اورمجوسیوں اورمشرکوں کے طریقہ کی اتباع کرتاہے۔

أحفوا الشوارب وأعفوا اللحى ولا تشبهوا بالیهود

انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایامونچھوں کو اچھی طرح کترو اور ڈاڑھی کو چھوڑو او یہود کے ساتھ مشابہت نہ کرو ۔[17]

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ، أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:جُزُّوا الشَّوَارِبَ، وَأَعْفُوا اللِّحَى، وَخَالِفُوا الْمَجُوسَ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مونچھیں خوب کترواواورداڑھی کولٹکاؤاورمجوسیوں کی مخالفت کرو۔[18]

عَنْ ابْنِ عُمَرَ عَنْ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ خَالِفُوا الْمُشْرِکِینَ وَفِّرُوا اللِّحَی وَأَحْفُوا الشَّوَارِبَ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاتم مشرکین کے خلاف کرو داڑھی چھوڑدواور مونچھیں کترواؤ ۔[19]

دونوں قاصدآپ کے رعب وعظمت سے کانپنے لگے،بابویہ کی گفتگوسن کرآپ مسکرائے اور دونوں قاصدوں کودعوت اسلام پیش کی، اورفرمایا اچھاآج تو جاؤ کل پھرآنا ،اس کے بعدہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوبذریعہ وحی آسمان سے خبرملی کہ کسریٰ پراس کے بیٹے شیرویہ کومسلط کردیاہے اورشیرویہ نے فلاں ماہ اورفلاں شب (دس جمادی الاولیٰ سہ شنبہ کی شب نصف شب بعد)میں اپنے باپ کسریٰ پرقابوپاکراسے قتل کر دیا ہےاورتخت پر قبضہ کر لیا ہے

فَدَعَاهُمَا فَأَخْبَرَهُمَا فَقَالا:هَلْ تَدْرِی مَا تَقُولُ!إِنَّا قَدْ نَقِمْنَا عَلَیْكَ مَا هُوَ أَیْسَرُ مِنْ هَذَا، أَفَنَكْتُبُ هَذَا عَنْكَ، وَنُخْبِرُهُ الْمَلِكَ!قَالَ: نَعَمْ، أَخْبِرَاهُ ذَلِكَ عَنِّی، وَقُولا لَهُ: إِنَّ دِینِی وَسُلْطَانِی سَیَبْلُغُ مَا بَلَغَ مُلْكُ كِسْرَى، وَیَنْتَهِی إِلَى مُنْتَهَى الْخُفِّ وَالْحَافِرِ وَقُولا لَهُ: إِنَّكَ إِنْ أَسْلَمْتَ أَعْطَیْتُكَ مَا تَحْتَ یَدَیْكَ، وَمَلَّكْتُكَ عَلَى قَوْمِكَ مِنَ الأَبْنَاءِ، ثُمَّ أَعْطَى خرخسرهَ مِنْطَقَةً فِیهَا ذَهَبٌ وَفِضَّةٌ، كَانَ أَهْدَاهَا لَهُ بَعْضُ الْمُلُوكِ

دوسرے روزآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں ایرانیوں قاصدوں کوبلاکراس واقعہ کی اطلاع دی،انہوں نے کہاجوکچھ آپ کہہ رہے ہیں اس کے مفہوم سے آپ واقف ہیں ؟ہم نے جوبات آپ سے کہی ہے وہ آپ کے اس دعویٰ کے مقابلے میں معمولی ہے کیاہم اپنے رئیس کویہ بات آپ کی طرف سے لکھ دیں ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاہاں یہ اس سے کہہ دواوریہ بھی اسے کہہ دوکہ میرادین اورمیری حکومت بہت جلد کسریٰ کی تمام سلطنت میں پھیل جائے گی اوروہاں تک پہنچے گی جہاں تک اونٹ اورگھوڑے جاتے ہیں ،اوراسے کہہ دواگرتم اسلام لے آؤتوجوملک تمہارے تحت ہے اورابناء کی جوریاست اس وقت تم کوحاصل ہے وہ بددستورتمہارے پاس رہے گی،اس کے بعدآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خرخسرہ کوایک بگلوس عطافرمایاجس میں سوناچاندی تھا،یہ بگلوس آپ کوکسی رئیس نے تحفہ میں بھیجاتھا۔

فَخَرَجَا مِنْ عِنْدِهِ حَتَّى قَدِمَا عَلَى بَاذَانَ، قَالَ بَابُوَیْهِ لِبَاذَانَ: مَا كَلَّمْتُ رَجُلا قَطُّ أَهْیَبَ عِنْدِی مِنْهُ، فَقَالَ لَهُ بَاذَانُ: هَلْ مَعَهُ شُرَطٌ؟ قَالَ: لا، فَأَخْبَرَاهُ الْخَبَرفَقَالَ: وَاللهِ مَا هَذَا بِكَلامِ مَلِكٍ، وَإِنِّی لأَرَى الرَّجُلَ نَبِیًّا كَمَا یَقُولُ، وَلْنَنْظُرَنَّ مَا قَدْ قَالَ، فَلَئِنْ كَانَ هَذَا حَقًّا مَا فِیهِ كَلامٌ، إِنَّهُ لَنَبِیٌّ مُرْسَلٌ، وَإِنْ لَمْ یَكُنْ فَسَنَرَى فِیهِ رَأْیَنَافَلَمْ یَنْشَبْ بَاذَانَ أَنْ قَدِمَ عَلَیْهِ كِتَابُ شِیرَوَیْهِ، أَمَّا بَعْدُ فَإِنِّی قَدْ قَتَلْتُ كِسْرَى، وَلَمْ أَقْتُلْهُ إِلا غَضَبًا لِفَارِسَ لِمَا كَانَ اسْتَحَلَّ مِنْ قَتْلِ أَشْرَافِهِمْ وَتَجْمِیرِهِمْ فِی ثُغُورِهِمْ، فَإِذَا جَاءَكَ كِتَابِی هَذَا فَخُذْ لِی الطَّاعَةَ مِمَّنْ قِبَلَكَ، وَانْظُرِ الرَّجُلَ الَّذِی كَانَ كِسْرَى كَتَبَ فِیهِ إِلَیْكَ فَلا تُهِجْهُ حَتَّى یَأْتِیَكَ أَمْرِی فِیهِ،فَلَمَّا انْتَهَى كِتَابُ شِیرَوَیْهِ إِلَى بَاذَانَ قَالَ: إِنَّ هَذَا الرَّجُلَ لَرَسُولٌ فَأَسْلَمَ وَأَسْلَمَتِ الأَبْنَاءُ مَعَهُ مِنْ فَارِسَ مَنْ كَانَ مِنْهُمْ بِالْیَمَنِ

یہ دونوں قاصد آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے رخصت ہوکر باذان کے پاس پہنچےتوبابویہ نے باذان سےجس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے گفتگوکی تھی کہاکہ میں نے آج تک اپنی زندگی میں کبھی اس شخص سے زیادہ رعب وہیبت رکھنے والی ہستی سے گفتگونہیں کی ،باذان نے پوچھاکیاان کے پاس پہرے دارسپاہی ہیں ؟ اس نے کہانہیں ، اورپھرتمام روائدادسنائی ،باذان نے کہااس گفتگوسے معلوم ہوتاہے کہ یہ صاحب دنیاوہ بادشاہ نہیں بلکہ نبی ہیں جیساکہ اس کے بیان سے معلوم ہوتاہے،جوکچھ انہوں نے کہاہے ہم اس کے وقوع کاانتظارکرتے ہیں اگرکسریٰ کے قتل کی خبرصحیح ہے توپھران کے نبی مرسل ہونے میں کچھ شبہ ہی نہیں اوراگریہ واقعہ صحیح ثابت نہیں ہوتا توپھرہم ان کے متعلق کوئی رائے قائم کریں گے، اس خبرکے کچھ عرصہ بعدپھر شیرویہ کافرمان باذان کے پاس پہنچاجس میں اس نے لکھاکہ چونکہ کسریٰ نے فارس کے معززین کا قتل عام کرایااوران کے ٹھکانوں کوجلادیااس لئے اہل فارس کواس پر بہت غصہ تھاجس کے پیش نظرمیں نے اسے قتل کرڈالاہے پس تم اپنے یہاں کے لوگوں سے میری اطاعت کاعہدلواورکسریٰ نے جس شخص (محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ) کے متعلق تمہارے پاس حکم بھیجاتھااس پرنظررکھواورجب تک میں تمہیں کوئی حکم دوں اس وقت تک اس کے خلاف کوئی کاروائی نہ کروچنانچہ جب اس خبرکی تصدیق ہوگئی توباذان جو اسلام کے قریب تھے ،اس پرپیغمبرانہ عظمتوں کی یہ تائیدتجربے میں آئی تو اپنے خاندان اوررفقاکے ساتھ دائرہ اسلام میں داخل ہوگیااوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کواس کی اطلاع پہنچائی۔[20]

اس طرح یمن سلطنت ایران سے کٹ کرخودبخوداسلام کی سیاسی سیادت میں آگیا،نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے باذان کوہی یمن کے علاقوں کی امارت پربرقرار رکھااور اس کامستقر صنعاء رکھاگیا جو پہلے سےتبابعہ کادارالحکومت چلاآرہاتھا،یہ اپنی وفات تک حکومت پرقائم رہے پھراس کے بیٹے مشہربن باذان کوصنعاء کے علاقہ کابادشاہ مقررفرما دیاگیا۔

قیصرروم ہرقل کے نام خط

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یونانی النسل بادشاہ ہرقل کے نام خط لکھاجوبازنطینی رومی سلطنت میں ۶۱۰ء تا۶۴۱ء تک برسراقتداررہا۔

أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، كَتَبَ إِلَى قَیْصَرَ یَدْعُوهُ إِلَى الإِسْلاَمِ، وَبَعَثَ بِكِتَابِهِ إِلَیْهِ مَعَ دِحْیَةَ الكَلْبِیِّ، وَأَمَرَهُ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَنْ یَدْفَعَهُ إِلَى عَظِیمِ بُصْرَى لِیَدْفَعَهُ إِلَى قَیْصَرَ أَنَّ هِرَقْلَ لَمَّا كَشَفَ اللهُ عَنْهُ جُنُودَ فَارِسَ مَشَى مِنْ حِمْصَ إِلَى إِیلِیَاءَ شُكْرًا لِلَّهِ،مَشَى مِنْ حِمْصَ إِلَى إِیلِیَاءَ شُكْرًا لِمَا أَبْلاَهُ اللهُ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دحیہ بن خلیفہ کلبی رضی اللہ عنہ

جونہایت حسین وجمیل شخص تھے

 وَإِنَّهُ لَفِی صُورَةِ دِحْیَةَ الْكَلْبِیِّ

اورجبرائیل علیہ السلام نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ان ہی کی شکل میں حاضرہوتے تھے ۔

کو ایک تبلیغی خط دے کرحاکم بصری حارث غسانی کے پاس روانہ فرمایااورہدایت فرمائی کہ وہ یہ خط بصری کے حاکم تک پہنچادیں تاکہ وہ اسے قیصر تک پہنچا دے ، ۶۱۱ئ میں ایران کے ساتھ جنگ چھڑی توایرانیوں نے شام ، فلسطین ،ایشائے کوچک کے خاصے علاقے اورمصرپرقبضہ کرلیا،۶۱۴ء میں یروشلم کوبری طرح تباہ کیا اورعیسائیوں کی مقدس صلیب اٹھاکرمدائن لے آئے ،اس تمام واقعہ کے متعلق سورہ روم میں ذکرکیاگیاہے ،۶۲۲ء کے بعدایرانیوں کی شکستوں کادورشروع ہوا،جب ۶۲۴ء میں رومیوں کو شام میں فتح ہوئی اس وقت مسلمان بھی مدینہ منورہ میں غزوہ بدرمیں فتح کی خوشیاں منارہے تھے،قیصر نے نذر مانی ہوئی تھی کہ اگروہ اہل فارس پرغالب آگیا اور انہیں اپنے ملک سے نکال باہر کرنے میں کامیاب ہوگیاتوشکرانے کے طورپرپیدل چل کر بیت المقدس (یروشلم) کی زیارت کوجائے گا ۔[21]

ہرقل نے ایرانیوں کوشکست دینے کے لئے بڑے زورشورسے تیاریاں کیں اللہ نے اسے فتح ونصرت سے ہمکنار فرمایا،اہل فارس نے خسروپرویزکوقتل کرنے کے بعدرومیوں سے صلح کرلی اوران کے علاقے انہیں واپس کردیئے،رومیوں کی مقدس صلیب جن کے بارے میں نصاریٰ کاعقیدہ ہے کہ اسی پرعیسیٰ علیہ السلام کوپھانسی پر لٹکایا گیاتھا چنانچہ وہ صلیب کواپنی جگہ نصب کرکے اپنی نذر پوری کرنے کے لئے ۶۲۹ء میں حمص سے پیدل چل کرایلیائ( بیت المقدس ) میں آیاہواتھا،دحیہ کلبی رضی اللہ عنہ حاکم بصریٰ کے پاس پہنچے ،اس نے عدی بن حاتم کوان کے ساتھ کردیاکہ وہ انہیں ہرقل کے پاس پہنچا دیں چنانچہ دحیہ رضی اللہ عنہ محرم سات ہجری کویروشلم پہنچے اور آپ کانامہ مبارک اسے پیش کیا۔[22]

یَاقَیْصَرُ أَرْسَلَنِی إلَیْك مَنْ هُوَ خَیْرٌ مِنْك، وَاَلّذِی أَرْسَلَهُ هُوَ خَیْرٌ مِنْهُ وَمِنْك، فَاسْمَعْ بِذُلّ ثُمّ أَجِبْ بِنُصْحٍ فَإِنّك إنْ لَمْ تَذْلِلْ لَمْ تَفْهَمْ وَإِنْ لَمْ تَنْصَحْ لَمْ تُنْصِفْ،قَالَ هَاتِ

اورایک مختصرسی تقریر کرتے ہوئے کہااے قصرروم!مجھے جس نے آپ کی طرف سفیربناکرروانہ کیاہے وہ آپ سے کہیں بہترہیں اورجس ذات نے ان کوپیغمبربناکرہماری طرف مبعوث فرمایاہے وہ سب سے اعلی وارفع ہےلہذامیں کچھ عرض کررہاہوں اسے توجہ کے ساتھ سنئے اور اخلاص کے ساتھ اس کاجواب دیں ،اگرتوجہ سے میری گزارش نہیں سنیں گے تواس خط کوکماحقہ نہیں سمجھ سکیں گے اوراگرجواب میں اخلاص نہیں ہوگاتووہ جواب عادلانہ اور منصفانہ نہ ہوگا ، قصیرروم نے کہافرمائیں میں ہمہ تن گوش ہوں ۔

قَالَ هَلْ تَعْلَمُ أَكَانَ الْمَسِیحُ یُصَلّی؟

دحیہ کلبی رضی اللہ عنہ نے کہاآپ کوعلم ہے کہ مسیح علیہ السلام ابن مریم اللہ کی بندگی کے لئے نمازپڑھاکرتے تھے۔

قَالَ نَعَمْ

قیصرروم: بیشک وہ اپنے خالق ومالک کی حق بندگی اداکرنے کے لئے نمازپڑھاکرتے تھے۔

قَالَ فَإِنّی أَدْعُوك إلَى مَنْ كَانَ الْمَسِیحُ یُصَلّی لَهُ وَأَدْعُوك إلَى مَنْ دَبّرَ خَلْقَ السّمَوَاتِ وَالْأَرْض، وَالْمَسِیحُ فِی بَطْنِ أُمّهِ،وَأَدْعُوك إلَى هَذَا النّبِیّ الْأُمّیّ الّذِی بَشّرَ بِهِ مُوسَى، وَبَشّرَ بِهِ عِیسَى ابْنُ مَرْیَمَ، فَإِنْ أَجَبْت كَانَتْ لَك الدّنْیَا وَالْآخِرَةُ وَإِلّا ذَهَبَتْ عَنْك الْآخِرَةُ وَشُورِكْت فِی الدّنْیَا وَاعْلَمْ أَنّ لَك رَبّا یَقْصِمُ الْجَبَابِرَةَ وَیُغَیّرُ النّعَمَ

دحیہ کلبی:میں آپ کواسی ذات کی طرف دعوت دیتاہوں جس کی بندگی اورخوشنودی کے لئے مسیح علیہ السلام نمازیں پڑھاکرتے تھے،اوراسی کی طرف دعوت دیتاہوں جس نے ساتوں آسمانوں اورزمین کی تخلیق فرمائی اورجس نے مسیح علیہ السلام ابن مریم کوماں کے پیٹ میں بنایااوراس کے بعدمیں آپ کواس نبی امی کی طرف دعوت دیتاہوں جس کی بشارت موسیٰ علیہ السلام اور عیسیٰ ابن مریم نے دی تھی،اگر آپ اس دعوت کوقبول فرمائیں گے تودنیاوآخرت دونوں میں آپ کے لئے بھلائی ہےاگرآپ روگردانی کرتے ہیں توآخرت توآپ کے ہاتھ سے نکل جائے گی اوردنیامیں دوسرے لوگ آپ کے شریک ہوں گےاورآپ یہ یقین جانیے کہ آپ کاایک رب ہے جو منکرین حق کوتباہ وبربادکردیتاہے اوراپنی نعمتوں کوبدلتا رہتا ہے۔[23]

قیصرروم نے خط کھول کرپڑھااورکہامیں اس بارے میں سوچ کرکل آپ کو جواب دوں گااوراپنے خدام کوحکم دیاکہ ان کی قوم کے جولوگ ہمارے ملک میں آئے ہوئے ہوں ان کومیرے دربارمیں حاضرکیاجائے تاکہ میں ان سے وہاں کے احوال معلوم کروں ،

عَنْ أَبِی سُفْیَانَ قَالَ كُنَّا قَوْمًا تُجَّارًا وَكَانَتِ الْحَرْبُ قَدْ حَصَبَتْنَا فَلَمَّا كَانَتِ الْهُدْنَةُ خَرَجْتُ تَاجِرًا إِلَى الشَّامِ مَعَ رَهْطٍ مِنْ قُرَیْشٍ ، فَقَالَ لِتَرْجُمَانِهِ: سَلْهُمْ أَیُّهُمْ أَقْرَبُ نَسَبًا إِلَى هَذَا الرَّجُلِ الَّذِی یَزْعُمُ أَنَّهُ نَبِیٌّ ،قَالَ أَبُو سُفْیَانَ: فَقُلْتُ : أَنَا أَقْرَبُهُمْ إِلَیْهِ نَسَبًاثُمَّ قَالَ لِتَرْجُمَانِهِ: قُلْ لِأَصْحَابِهِ: إِنِّی سَائِلٌ هَذَا الرَّجُلَ عَنِ الَّذِی یَزْعُمُ أَنَّهُ نَبِیٌّ، فَإِنْ كَذَبَ فَكَذِّبُوهُ، قَالَ أَبُو سُفْیَانَ: وَاللهِ لَوْلاَ الحَیَاءُ یَوْمَئِذٍ، مِنْ أَنْ یَأْثُرَ أَصْحَابِی عَنِّی الكَذِبَ، لَكَذَبْتُهُ حِینَ سَأَلَنِی عَنْهُ، وَلَكِنِّی اسْتَحْیَیْتُ أَنْ یَأْثُرُوا الكَذِبَ عَنِّی ،فَصَدَقْتُه

ابو سفیان کا بیان ہے کہ قریش تجارت پیشہ لوگ تھے ،مسلمانوں سے جنگوں کے نتیجے میں وہ تجارتی سرگرمیاں معطل کیے بیٹھے تھے جس کی وجہ سے ان کے سرمائے ختم ہوگئے تھے اب جب دس سال کے لئے جنگ بندی کامعاہدہ ہواتو ابوسفیان بے فکرہوکر تجارتی غرض سے قریش کی ایک جماعت کے ساتھ شام آیاہواتھااورتجارتی منڈی غزہ میں مقیم تھا،قیصرکے خدام نے اس کواوراس کے ساتھیوں کوغزہ سے لاکر دربارمیں پیش کر دیا،قیصر نے اپنے ترجمان سے کہاکہ ان سے پوچھوکہ جنہوں نے ان کے یہاں نبوت کادعویٰ کیاہے نسب کے اعتبارسے اس کاسب سے قریبی عزیزرشتہ دارکون ہے؟ابوسفیان نے کہاکہ میں نے آگے بڑھ کرکہامیں نسب کے اعتبارسے ان کاقریبی عزیز ہوں ، قیصرنے اپنے ترجمان سے کہاکہ اس شخص( ابوسفیان) کے پیچھے کھڑے ہوئے ساتھیوں سے کہہ دوکہ اس سے میں ان صاحب کے بارے میں دریافت کروں گاجونبی ہونے کے مدعی ہیں اگریہ ان کے بارے میں کوئی جھوٹی بات کہے تو تم لوگ فورا ًاس کی تردید کردینا،ابوسفیان کہتے ہیں اللہ کی قسم !گراس دن اس بات کی شرم نہ ہوتی کہ کہیں میرے ساتھی میری تکذیب نہ کربیٹھیں تومیں ان سوالات کے جواب میں ضرورجھوٹ بول جاتاجواس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں کئے تھے لیکن مجھے تواس کاخطرہ لگارہاکہ کہیں میرے ساتھی میری تکذیب نہ کردیں ،اس لئے میں نے جھوٹ سے اجتناب کیا۔

اورفتح الباری میں یہ لفظ ہیں

فَوَاللهِ لَوْ قَدْ كذبت مَا ردوا على وَلَكِنِّی كنت امْرَءًا سَیِّدًا أَتَكَرَّمُ عَنِ الْكَذِبِ وَعَلِمْتُ أَنَّ أَیْسَرَ مَا فِی ذَلِكَ إِنْ أَنَا كَذَبْتُهُ أَنْ یَحْفَظُوا ذَلِكَ عَنِّی ثُمَّ یَتَحَدَّثُوا بِهِ فَلَمْ أكذبه

ابوسفیان کہتے ہیں اللہ کی قسم !اگرمیں جھوٹ بولتاتومیرے ساتھی اس کی تردیدنہ کرتے لیکن چونکہ میں سردارقوم تھااوراپنے کواس بات سے بلندمرتبہ سمجھتاتھاکہ جھوٹ بولوں اوریہ میرے لئے باعث شرم تھاکیونکہ میں جانتاتھاکہ اگریہاں میں نے جھوٹ بولاتومیرے ساتھی اسے یادرکھیں گے اورمکہ مکرمہ جاکرمیرے جھوٹ کے بارے میں کہتے پھریں گے ،اس لئے میں نے جھوٹ سے اجتناب کیا۔[24]

قیصرنے کہامجھے اس شخص کے حالات بتاؤجوتم میں نمودارہوکرایک نیادعویٰ کررہاہے؟

قَالَ أَبُو سُفْیَانَ فَجَعَلْتُ أُزَهِّدُهُ فِی شَأْنِهِ وَأُصَغِّرُ أَمْرَهُ وَأَقُولُ إِنَّ شَأْنَهُ دُونَ مَا بَلَغَكَ فَجَعَلَ لَا یَلْتَفِتُ إِلَى ذَلِكَ قَوْلُهُ

ابوسفیان کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ کی شان کوقیصرکے سامنے حقیراوران کے دعویٰ کومعمولی بناکرپیش کرناشروع کیالیکن قیصران باتوں پردھیان نہیں دے رہاتھا،اوراس نے کہامیں جوکچھ تم سے سوال کروں صرف ان کاجواب دو،میں نے کہامیں حاضرہوں ۔

كَیْفَ نَسَبُ هَذَا الرَّجُلِ فِیكُمْ؟

قیصر:تم لوگوں میں اس شخص کانسب کیساسمجھاجاتاہے؟

قُلْتُ: هُوَ فِینَا ذُو نَسَبٍ،قَالَ هُوَ فِی حَسَبِ مَا لَا یَفْضُلُ عَلَیْهِ أَحَدٌ

ابوسفیان:یں نے بتایاکہ ہم میں ان کا نسب بہت عمدہ سمجھاجاتاہے ۔ان کے نسب سے بڑھ کرکسی کانسب نہیں ۔

قَالَ: فَهَلْ قَالَ هَذَا القَوْلَ مِنْكُمْ أَحَدٌ قَطُّ قَبْلَهُ؟

قیصر:کیاان کے خاندان میں کسی اورنے بھی دعویٰ نبوت کیاتھا؟

قُلْتُ: لاَ

ابوسفیان: نہیں ۔

قَالَ: فَهَلْ كَانَ مِنْ آبَائِهِ مِنْ مَلِكٍ؟

قیصر:کیاان کے آباؤاجدادمیں کوئی بادشاہ بھی گزراہے؟

قُلْتُ: لاَ

ابوسفیان نہیں ،ان کے نسب میں کوئی بادشاہ نہیں گزرا۔

قَالَ: فَهَلْ كُنْتُمْ تَتَّهِمُونَهُ بِالكَذِبِ قَبْلَ أَنْ یَقُولَ مَا

قیصر: کیاتم لوگوں نے ان کونبوت کادعویٰ کرنے سے پہلے کبھی جھوٹ بولتے پایاہے؟

قَالَ؟ قُلْتُ: لاَ

ابوسفیان: نہیں ،ہم نے انہیں کبھی جھو ٹ بولتے نہیں سنابلکہ ان کی راست گوئی اورامانت داری کے باعث انہیں صادق وامین کہاجاتاہے۔

قَالَ: فَأَشْرَافُ النَّاسِ یَتَّبِعُونَهُ أَمْ ضُعَفَاؤُهُمْ؟

قیصر:ان کے متبع کون ہیں ،وہ ضعفاء ہیں یاصاحب حیثیت ومرتبہ؟

فَقُلْتُ بَلْ ضُعَفَاؤُهُمْ

ابوسفیان:ان کے پیروکاروں میں اکثرضعفا ءومساکین،نوجوان لڑکے اورعورتیں ہیں مگران کی قوم کے معززین اورمعمرلوگوں میں سے کسی نے بھی ان کااتباع نہیں کیا۔

قَالَ: أَیَزِیدُونَ أَمْ یَنْقُصُونَ؟

قیصر:ان کی پیروکاروں کی تعداددن بدن بڑھتی جارہی ہے یاگھٹتی جا رہی ہے؟

قُلْتُ: بَلْ یَزِیدُونَ

ابوسفیان:ان کی تعدادکم ہونے کے بجائے روزبروزبڑھتی جارہی ہے۔

قَالَ: فَهَلْ یَرْتَدُّ أَحَدٌ مِنْهُمْ سَخْطَةً لِدِینِهِ بَعْدَ أَنْ یَدْخُلَ فِیهِ؟

قیصر:جوشخص ان کی اتباع اختیارکرلیتاہے کیاوہ ان سے محبت رکھتااوران سے وابستہ رہتاہے یا انہیں چھوڑکرعلیحدگی اختیارکرلیتاہے؟

قُلْتُ: لا

ابوسفیان: نہیں ،ابھی تک کوئی مسلمان اپنے دین سے پلٹ کراپنی پرانی ملت میں نہیں آیاہے۔

قَالَ: فَهَلْ یَغْدِرُ؟

قیصر :کیاوہ معاہدہ شکنی و بد عہدی بھی کرتے ہیں ؟

قُلْتُ: لاَ، وَنَحْنُ مِنْهُ فِی مُدَّةٍ لاَ نَدْرِی مَا هُوَ فَاعِلٌ فِیهَا

ابوسفیان: نہیں ، انہوں نے اپنے عہدکی کبھی عہدشکنی نہیں کی،لیکن آج کل ہمارے اوران کے مابین دس سال کے لئے صلح ہوئی ہے اس بارے میں وہ کیاطرزعمل اختیار کرتے ہیں اس کے بارے میں میں کچھ نہیں کہہ سکتا

قَالَ أَبُو سُفْیَانَ: وَلَمْ یُمْكِنِّی كَلِمَةٌ أُدْخِلُ فِیهَا شَیْئًا أَنْتَقِصُهُ بِهِ، لاَ أَخَافُ أَنْ تُؤْثَرَ عَنِّی غَیْرُهَا

ابوسفیان کہتے ہیں اس بات کے سوامجھے کہیں بات لگانے کاموقعہ نہیں ملا۔

قَالَ فَوَاللهِ مَا الْتَفَتَ إِلَیْهَا مِنِّی

ابن اسحاق کی روایت کہ ابوسفیان کہتے ہیں واللہ قیصرنے میری اس بات کی طرف جومیں نے اپنی طرف سے ملائی تھی ذرہ برابربھی التفات نہیں کیا۔

قَالَ: فَهَلْ قَاتَلْتُمُوهُ؟

قیصر:کیاتم ان سے کبھی لڑے بھی ہو؟(کیونکہ رسول قوم سے کبھی لڑائی کی ابتدانہیں کرتابلکہ پہلے اللہ کی طرف دعوت دیتاہے،اس کے جواب میں ہٹ دھرم قسم کے لوگ ان کے مقابلے پراترآتے ہیں ،تب انبیاء ان سے جہادکرتے ہیں )

قُلْتُ: نَعَمْ

ابوسفیان: ہاں !ہماری ان سے کئی لڑائیاں ہوچکی ہیں ۔

قَالَ: فَكَیْفَ كَانَ قِتَالُكُمْ إِیَّاهُ؟

قیصر:ان لڑائیوں کاانجام کیارہتاہے ؟

قُلْتُ: الحَرْبُ بَیْنَنَا وَبَیْنَهُ سِجَالٌ، یَنَالُ مِنَّا وَنَنَالُ مِنْهُ

ابوسفیان:جنگ میں ہم برابررہتے ہیں کبھی وہ ہم پرغالب رہے اورکبھی ہم ان پر۔

قَالَ: مَاذَا یَأْمُرُكُمْ؟

قیصر:وہ تمہیں کس چیزکاحکم دیتے ہیں ۔

قُلْتُ: یَقُولُ: اعْبُدُوا اللهَ وَحْدَهُ وَلاَ تُشْرِكُوا بِهِ شَیْئًا، وَاتْرُكُوا مَا یَقُولُ آبَاؤُكُمْ، وَیَأْمُرُنَا بِالصَّلاَةِ وَالزَّكَاةِ وَالصِّدْقِ وَالعَفَافِ وَالصِّلَةِ

ابوسفیان:وہ ہمیں اس چیزکی دعوت دیتے ہیں کہ ہم ایک اللہ کی بندگی کریں اوراس کے ساتھ کسی کوشریک نہ ٹھیرائیں اورکفروشرک کے تمام مراسم جوہمارے آباؤاجداد کرتے چلے آرہے تھے انہیں ترک کردیں ،اس کے علاوہ وہ ہمیں پاکیزگی وپاک دامنی،دن میں پانچ مرتبہ نمازپڑھنے،سال میں ایک مرتبہ اپنے مالوں سے زکواة ادا کرنے ، ہمیشہ سچ بولنےاورقطع رحمی کے بجائے صلہ رحمی کی ترغیب دیتے ہیں ۔

فَقَالَ لِلتَّرْجُمَانِ: قُلْ لَهُ: سَأَلْتُكَ عَنْ نَسَبِهِ فَذَكَرْتَ أَنَّهُ فِیكُمْ ذُو نَسَبٍ، فَكَذَلِكَ الرُّسُلُ تُبْعَثُ فِی نَسَبِ قَوْمِهَا وَسَأَلْتُكَ هَلْ قَالَ أَحَدٌ مِنْكُمْ هَذَا القَوْلَ، فَذَكَرْتَ أَنْ لاَ فَقُلْتُ: لَوْ كَانَ أَحَدٌ قَالَ هَذَا القَوْلَ قَبْلَهُ، لَقُلْتُ رَجُلٌ یَأْتَسِی بِقَوْلٍ قِیلَ قَبْلَهُ،وَسَأَلْتُكَ هَلْ كَانَ مِنْ آبَائِهِ مِنْ مَلِكٍ، فَذَكَرْتَ أَنْ لاَ، قُلْتُ فَلَوْ كَانَ مِنْ آبَائِهِ مِنْ مَلِكٍ، قُلْتُ رَجُلٌ یَطْلُبُ مُلْكَ أَبِیهِ،وَسَأَلْتُكَ، هَلْ كُنْتُمْ تَتَّهِمُونَهُ بِالكَذِبِ قَبْلَ أَنْ یَقُولَ مَا قَالَ، فَذَكَرْتَ أَنْ لاَ، فَقَدْ أَعْرِفُ أَنَّهُ لَمْ یَكُنْ لِیَذَرَ الكَذِبَ عَلَى النَّاسِ وَیَكْذِبَ عَلَى اللهِ

قیصرنے اپنے ترجمان سے مخاطب ہوکرکہاان سے کہہ دوکہ میں نے سب سے پہلے ان کانسب معلوم کیا،تم نے جواب دیاکہ وہ معززاورشریف النسب ہیں بیشک اللہ تعالیٰ جب کسی کونبی بناتاہوں توایسے ہی لوگوں کوبناتاہے جواپنی قوم میں اعلی نسب رکھتے ہیں ،اور پھرمیں نے دریافت کیاکہ کیاان کے خاندان میں کسی اورنے بھی دعویٰ نبوت کیاتھاتم نے کہانہیں ،اگرکسی نے پہلے یہ دعوی ٰ کیاہوتاتومیں یہ سمجھتاکہ یہ پہلے قول کودہرارہاہے اورمیں نے دریافت کیاکہ کیاان کے خاندان میں کوئی بادشاہ بھی گزراہے؟تم نے کہا نہیں ،اگران کے خاندان میں کوئی بادشاہ گزرا ہوتا تو میں یہ سمجھتاکہ یہ اپنے طریقہ سے اپنے آباؤاجدادسے گیاہواملک حاصل کرناچاہتے ہیں ،اورمیں نے تم سے ان کی بابت دریافت کیاکہ کیاوہ کبھی جھوٹ بھی بولتے ہیں ؟تم نے اس کاانکارکیاجس سے میں یہ سمجھاکہ یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک شخص بندوں پرجھوٹ نہ بولے وہ اللہ پرکیسے جھوٹ باندھ سکتاہے

وَسَأَلْتُكَ أَشْرَافُ النَّاسِ اتَّبَعُوهُ أَمْ ضُعَفَاؤُهُمْ، فَذَكَرْتَ أَنَّ ضُعَفَاءَهُمُ اتَّبَعُوهُ، وَهُمْ أَتْبَاعُ الرُّسُلِ،وَسَأَلْتُكَ أَیَزِیدُونَ أَمْ یَنْقُصُونَ، فَذَكَرْتَ أَنَّهُمْ یَزِیدُونَ، وَكَذَلِكَ أَمْرُ الإِیمَانِ حَتَّى یَتِمَّ، وَسَأَلْتُكَ أَیَرْتَدُّ أَحَدٌ سَخْطَةً لِدِینِهِ بَعْدَ أَنْ یَدْخُلَ فِیهِ، فَذَكَرْتَ أَنْ لاَ، وَكَذَلِكَ الإِیمَانُ حِینَ تُخَالِطُ بَشَاشَتُهُ القُلُوبَ، وَسَأَلْتُكَ هَلْ یَغْدِرُ، فَذَكَرْتَ أَنْ لاَ، وَكَذَلِكَ الرُّسُلُ لاَ تَغْدِرُ،وَسَأَلْتُكَ: هَلْ قَاتَلْتُمُوهُ وَقَاتَلَكُمْ، فَزَعَمْتَ أَنْ قَدْ فَعَلَ، وَأَنَّ حَرْبَكُمْ وَحَرْبَهُ تَكُونُ دُوَلًا، وَیُدَالُ عَلَیْكُمُ المَرَّةَ وَتُدَالُونَ عَلَیْهِ الأُخْرَى، وَكَذَلِكَ الرُّسُلُ تُبْتَلَى وَتَكُونُ لَهَا العَاقِبَةُ

اورمیں نے دریافت کیاکہ ان کے پیروکارکس قسم کے لوگ ہیں ؟تم نے کہا غربا، بیشک انبیاء کے پیروکارمال ودولت میں مغرورومتکبرلوگ نہیں بلکہ اکثرضعفاء ہی ہوتے ہیں ،اورمیں نے تم سے ان کے پیروکاروں کے گھٹنے یابڑھنے کی بابت دریافت کیاتم نے کہاوہ بڑھتے ہی جاتے ہیں ،اورمیں نے دریافت کیاکہ جوشخص ان کی اتباع اختیار کرلیتاہے کیاوہ ان سے محبت رکھتااوران سے وابستہ رہتاہے یاانہیں چھوڑکرعلیحدگی اختیارکرلیتاہے تم نے کہانہیں ،واقعہ یہ ہے کہ ایمان کی شیرینی ایسی ہی ہوتی ہے کہ جب کسی دل میں اترجاتی ہے توپھراس سے نہیں نکلتی،اورمیں نے دریافت کیاکہ کیاوہ عہدشکنی کرتے ہیں ، تم نے کہانہیں ،بیشک پیغمبروں کی یہی شان ہوتی ہے وہ کبھی بدعہدی نہیں کرتے،اورمیں نے تم سے لڑائی کے متعلق دریافت کیاتم نے جواب دیاکبھی وہ غالب رہے اورکبھی ہم،بیشک انبیاء کی کیفیت یہی ہواکرتی ہے تاکہ ان کے پیروکاروں کے صدق واخلاص کاامتحان ہوجائے لیکن انجام کار فتح ونصرت انہیں کوحاصل ہوتاہے

وَسَأَلْتُكَ: بِمَاذَا یَأْمُرُكُمْ، فَزَعَمْتَ أَنَّهُ یَأْمُرُكُمْ أَنْ تَعْبُدُوا اللهَ وَلاَ تُشْرِكُوا بِهِ شَیْئًا، وَیَنْهَاكُمْ عَمَّا كَانَ یَعْبُدُ آبَاؤُكُمْ، وَیَأْمُرُكُمْ بِالصَّلاَةِ، وَالصَّدَقَةِ، وَالعَفَافِ، وَالوَفَاءِ بِالعَهْدِ، وَأَدَاءِ الأَمَانَةِ، قَالَ: وَهَذِهِ صِفَةُ النَّبِیِّ، قَدْ كُنْتُ أَعْلَمُ أَنَّهُ خَارِجٌ، وَلَكِنْ لَمْ أَظُنَّ أَنَّهُ مِنْكُمْ، وَإِنْ یَكُ مَا قُلْتَ حَقًّا، فَیُوشِكُ أَنْ یَمْلِكَ مَوْضِعَ قَدَمَیَّ هَاتَیْنِ وَلَوْ أَرْجُو أَنْ أَخْلُصَ إِلَیْهِ، لَتَجَشَّمْتُ لُقِیَّهُ، وَلَوْ كُنْتُ عِنْدَهُ لَغَسَلْتُ قَدَمَیْهِ، قَالَ أَبُو سُفْیَانَ: ثُمَّ دَعَا بِكِتَابِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَقُرِئَ، فَإِذَا فِیهِ

اورمیں نے تم سے دریافت کیاوہ تمہیں کن چیزوں کاحکم دیتے ہیں تم نے کہااللہ عزوجل کی بندگی کاحکم دیتے ہیں ،شرک اوربت پرستی سے روکتے ہیں ،نماز،زکواة،سچائی ،پاک دامنی اورصلہ رحمی کاحکم دیتے ہیں ،اگریہ تمام باتیں جوتم نے بیان کی ہیں توبلاشبہ وہ نبی ہیں ، مجھے معلوم تھاکہ ایک نبی مبعوث ہونے والے ہیں لیکن یہ گمان نہ تھاکہ وہ عربوں سے ہوں گے ،جوباتیں تم نے بتائیں اگروہ صحیح ہیں تووہ دن دورنہیں جب وہ اس جگہ پرحکمران ہوں گے جہاں اس وقت میرے دونوں قدم موجود ہیں ، اگر مجھے یقین ہوتاکہ میں اس تک پہنچ سکوں گاتومیں طویل سفرکی مشقت برداشت کرکے بھی اس کے پاس پہنچ کراس سے ملاقات کرتااوراگرمیں اس کے پاس پہنچ سکتاتواس کے پاؤں دھوتا،

ابوسفیان نے کہاکہ اس کے بعدقیصرنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کانامہ مبارک طلب کیااوروہ اس کے سامنے دربارمیں پڑھاگیا۔

بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِیمِ

مِنْ مُحَمَّدٍ عَبْدِ اللهِ وَرَسُولِهِ، إِلَى هِرَقْلَ عَظِیمِ الرُّومِ۔

 سَلاَمٌ عَلَى مَنِ اتَّبَعَ الهُدَى۔

أَمَّا بَعْدُ: فَإِنِّی أَدْعُوكَ بِدِعَایَةِ الإِسْلاَمِ، أَسْلِمْ تَسْلَمْ، وَأَسْلِمْ یُؤْتِكَ اللهُ أَجْرَكَ مَرَّتَیْنِ، فَإِنْ تَوَلَّیْتَ، فَعَلَیْكَ إِثْمُ الأَرِیسِیِّینَ وَ:یَا أَهْلَ الكِتَابِ تَعَالَوْا إِلَى كَلِمَةٍ سَوَاءٍ بَیْنَنَا وَبَیْنَكُمْ، أَلَّا نَعْبُدَ إِلَّا اللهَ وَلاَ نُشْرِكَ بِهِ شَیْئًا، وَلاَ یَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضًا أَرْبَابًا مِنْ دُونِ اللهِ، فَإِنْ تَوَلَّوْا، فَقُولُوا اشْهَدُوا بِأَنَّا مُسْلِمُونَ

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

محمدرسول اللہ کی طرف سے روم کے بادشاہ ہرقل کے نام

جس نے ہدایت کااتباع کیااس پرسلامتی ہو

امابعد!میں تمہیں اسلام کی دعوت دیتاہوں ،اسلام قبول کرلونجات پاجاؤگےحق تعالیٰ تمہیں دوہرااجرعطافرمائے گااگراسلام سے روگردانی کروگے توتمہاری رعایاکاگناہ بھی تمہاری گردن پر ہوگا ، اوراے اہل کتاب آؤایک ایسی بات کی طرف جوہمارے اورتمہارے درمیان مسلَّم ہے کہ سوائے اللہ کے کسی چیزکی عبادت نہ کریں اورنہ اللہ کے ساتھ کسی چیزکوشریک گردانیں ،اوراللہ کے سواآپس میں ایک دوسرے کواپنارب اورمعبودنہ بنائیں ،پس اگروہ اسلام قبول نہ کریں توآپ کہہ دیں کہ تم گواہ رہوکہ ہم مسلمان ہوچکے ہیں ۔[25]

قَالَ أَبُو سُفْیَانَ: فَلَمَّا أَنْ قَضَى مَقَالَتَهُ، عَلَتْ أَصْوَاتُ الَّذِینَ حَوْلَهُ مِنْ عُظَمَاءِ الرُّومِ وَكَثُرَ لَغَطُهُمْ، فَلاَ أَدْرِی مَاذَا قَالُوا وَأُمِرَ بِنَا، فَأُخْرِجْنَافَلَمَّا أَنْ خَرَجْتُ مَعَ أَصْحَابِی، وَخَلَوْتُ بِهِمْ قُلْتُ لَهُمْ: لَقَدْ أَمِرَ أَمْرُ ابْنِ أَبِی كَبْشَةَ، هَذَا مَلِكُ بَنِی الأَصْفَرِ یَخَافُهُ،قَالَ أَبُو سُفْیَانَ: وَاللهِ مَا زِلْتُ ذَلِیلًا مُسْتَیْقِنًا بِأَنَّ أَمْرَهُ سَیَظْهَرُ، حَتَّى أَدْخَلَ اللهُ قَلْبِی الإِسْلاَمَ وَأَنَا كَارِهٌ

ابوسفیان کہتے ہیں جب ہرقل اپنی بات پوری کرچکاتوروم کے سردارجواس کے اردگردجمع تھے سب ایک ساتھ چیخنے لگے اور دربارمیں ایک شوروغل برپا ہو گیامجھے کچھ پتہ نہیں چلاکہ یہ لوگ کیا کہہ رہے تھے،ابوسفیان کہتے ہیں اس وقت ہمیں حکم دیاگیااورہم سب کودربارسے باہرنکال دیاگیاجب میں اپنے ساتھیوں کے ساتھ وہاں سے چلاآیااوران کے ساتھ تنہائی ہوئی تومیں نے کہاابن ابی کبشہ (آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دادا،نانا،یاآپ صلی اللہ علیہ وسلم کے رضاعی والدحلیمہ سعدیہ کے شوہرکی کنیت ابوکبشہ تھی ،وہ بتوں کی پرستش میں قریش کے مخالف تھے اس بناپررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوان سے تشبیہ دی جاتی تھی )کامعاملہ اتنی عظمت اختیارکرچکاہے کہ بنواصفر(یعنی روم)کابادشاہ تک اپنی حکومت پراس کے غلبہ کے خیال سے خائف رہنے لگے ہیں ،ابوسفیان نے بیان کیاکہ اللہ کی قسم !مجھے اسی دن اپنی ذلت کایقین ہوگیاتھااوراس بات کابھی مجھے یقین کامل ہوگیاکہ دین اسلام ضرورغالب ہوکررہے گا،یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے اسلام قبول کرنے کی توفیق بخشی حالانکہ (پہلے) میں اسلام کوبراجانتاتھا۔[26]

حَدَّثَنِی أسقف للنصارى أدركته فِی زمان عَبْد الملك بن مروان، انه ادرك ذلك من امر رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وأمر هرقل وعقله، قَالَ: فلما قدم عَلَیْهِ كتاب رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مَعَ دحیة بْن خلیفة، أخذه هرقل، فجعله بَیْنَ فخذیه وخاصرته،ثُمَّ كتب إِلَى رجل برومیة كَانَ یقرأ من العبرانیة مَا یقرءونه، یذكر لَهُ أمره، ویصف لَهُ شأنه، ویخبره بِمَا جاء منه،فكتب إِلَیْهِ صاحب رومیة: إنه للنبی الَّذِی كُنَّا ننتظره، لا شك فِیهِ، فاتبعه وصدقه

امام زہری رحمہ اللہ فرماتے ہیں عبدالملک بن مروان رحمہ اللہ کے عہدمیں نصاریٰ کے ایک بڑے اسقف سے میری ملاقات ہوئی ،یہ اس وقت موجودتھاجب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاخط ہرقل کے پاس پہنچااس نے بیان کیاکہ دحیہ بن الخلیفة الکلبی نے وہ خط ہرقل کولاکردیااس نے اسے اپنی دونوں رانوں اورکمرکے نیچے رکھ لیا،قیصرنے اس دربارکے بعدرومہ کے ایک بڑے عالم کو(جس کانام ضغاطررومی تھا)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں خط لکھا،یہ پوپ عبرانی انجیل کوپڑھتااورسمجھتاتھا ،خط لکھوانے کے بعدبیت المقدس سے حمص کی جانب روانہ ہوا،بادشاہ حمص میں تھاکہ پوپ نے جواب میں لکھاکہ بے شک یہ شخص وہی نبی برحق ہیں جن کے ہم منتظرتھے ان کی نبوت میں کوئی شبہ نہیں تم ان کااتباع کرواوران پرایمان لاؤ ،

فأمر هرقل ببطارقة الروم، فجمعوا لَهُ فِی دسكرة، وأمر بِهَا فأشرجت أبوابها عَلَیْهِم، ثُمَّ اطلع عَلَیْهِم من علیة لَهُ، وخافهم عَلَى نَفْسه، وَقَالَ: یا معشر الروم، انى قد جمعتكم لخبر، إنه قَدْ أتانی كتاب هَذَا الرجل یدعونی إِلَى دینه، وَإِنَّهُ والله للنبی الَّذِی كُنَّا ننتظره ونجده فِی كتبنا، فهلموا فلنتبعه ونصدقه، فتسلم لنا دنیانا وآخرتنافَحَاصُوا حَیْصَةَ حُمُرِ الوَحْشِ إِلَى الأَبْوَابِ، فَوَجَدُوهَا قَدْ غُلِّقَتْ،فَلَمَّا رَأَى هِرَقْلُ نَفْرَتَهُمْ، وَأَیِسَ مِنَ الإِیمَانِ، قَالَ: رُدُّوهُمْ عَلَیَّ، وَقَالَ: إِنِّی قُلْتُ مَقَالَتِی آنِفًا أَخْتَبِرُ بِهَا شِدَّتَكُمْ عَلَى دِینِكُمْ، فَقَدْ رَأَیْتُ، فَسَجَدُوا لَهُ وَرَضُوا عَنْهُ

چنانچہ قیصرنے بطارقہ ،قسیس اوررہبان کوجمع کیاایک عظیم الشان دربار منعقدکیااورتاج شاہی پہن کرتخت پربیٹھاپھردربارکے تمام دروازے بندکردیئے چونکہ قیصرکوان کی جانب سے اپنی جان کاخوف تھااس لئےخودایک جھروکے اوربالاخانہ میں بیٹھا اوروہاں سے تمام درباریوں کومخاطب کرکے یہ کہا اے گروہ روم!میں نے تم کوایک عظیم الشان خبرکے لئے جمع کیاہے وہ یہ کہ میرے پاس ایک شخص کاخط آیاہے جس میں اس نے مجھے اپنے دین کی دعوت دی ہے ،اوراللہ کی قسم یہ وہی نبی ہیں جن کے ہم منتظرہیں اورجن کاتذکرہ ہم اپنی کتابوں میں پاتے ہیں پس اگرتمہیں اپنی ترقی وخوشحالی اورہدایت میں دلچسپی ہے اورتم اپنے ملک کوباقی رکھناچاہتے ہوتواس پیغمبرکی تصدیق اوراتباع کرو تاکہ ہماری دنیاوآخرت دونوں ہی سلامت رہیں ، بادشاہ کی یہ بات سن کرتمام معززین روم چلا اٹھے اوروحشی گدھوں کی طرح غضبناک ہوکردروازوں کی طرف بھاگے مگر دروازے بندتھے،قیصرنے ان کی نفرت کایہ عالم دیکھا اور ان کے ایمان لانے سے مایوس ہوگیاتو حکم دیاکہ ان سب کومیرے پاس واپس لاؤجب وہ واپس آگئے توانہیں تسلی دیتے ہوئے کہامیں تمہارے دین پرپابندی کی شدت کو آزماناچاہتاتھا،مجھے تمہارے دین پرپختگی دیکھ کرمجھے خوشی ہوئی ،یہ سن کرسب خوش ہوگئے اورقیصر کے سامنے سجدہ تعظیم بجا لائے۔[27]

أَنَّ هِرَقْلَ قَالَ لِدِحْیَةَ بْنِ خَلِیفَةَ حین قدم علیه بكتاب رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: وَیْحَكَ! وَاللهِ إِنِّی لأَعْلَمُ أَنَّ صَاحِبَكَ نَبِیٌّ مُرْسَلٌ، وَإِنَّهُ الَّذِی كُنَّا نَنْتَظِرُهُ وَنَجِدُهُ فِی كِتَابِنَا وَلَكِنِّی أَخَافُ الرُّومَ عَلَى نَفْسِی، وَلَوْلا ذلك لا تبعته، فاذهب الى صغاطر الأَسْقُفِ فَاذْكُرْ لَهُ أَمْرَ صَاحِبِكُمْ، فَهُوَ وَاللهِ أَعْظَمُ فِی الرُّومِ مِنِّی، وَأَجْوَزُ قَوْلا عِنْدَهُمْ منى،فانظر ما یقول لك

پھرقیصرنے دحیہ کلبی رضی اللہ عنہ کوتنہائی میں بلاکرکہااللہ کی قسم میں خوب جانتاہوں کہ تمہارے نبی ہیں برحق ہیں یہی وہ نبی ہیں جن کے ہم منتظرتھے اورجن کاذکرہماری مذہبی کتابوں میں موجودہے مگر مجھے اندیشہ ہے کہ اہل روم مجھے قتل نہ کر ڈالیں ، اگر مجھے یہ اندیشہ نہ ہوتاتوضروران کااتباع کرتا،اب مناسب یہ ہے کہ تم روم کے اسقف اعظم صغاطرکے پاس جاؤاوراس سے اپنے نبی کاحال بیان کرو،تمام رومیوں میں اس کی شان اورعزت مجھ سے زیادہ ہے اوراس کی بات کاسب پرمجھ سے کہیں زیادہ اثرہے،دیکھووہ اس معاملے میں کیاکہتاہے

قال: فجاءه دِحْیَةُ، فَأَخْبَرَهُ بِمَا جَاءَ بِهِ مِنْ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ الى هرقل، وبما یدعوه الیه ، فقال صغاطر: صَاحِبُكَ وَاللهِ نَبِیٌّ مُرْسَلٌ، نَعْرِفُهُ بِصَفَتِهِ، وَنَجِدُهُ فِی كُتُبِنَا بِاسْمِهِ، ثُمَّ دَخَلَ فَأَلْقَى ثِیَابًا كَانَتْ عَلَیْهِ سُودًا، وَلَبِسَ ثِیَابًا بِیضًا، ثُمَّ أَخَذَ عَصَاهُ، فَخَرَجَ عَلَى الرُّومِ وَهُمْ فِی الْكَنِیسَةِ، فَقَالَ: یَا مَعْشَرَ الرُّومِ، إِنَّهُ قَدْ جَاءَنَا كِتَابٌ مِنْ أَحْمَدَ، یَدْعُونَا فِیهِ إِلَى اللهِ عَزَّ وَجَلَّ، وَإِنِّی أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ، وَأَنَّ أَحْمَدَ عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ.قَالَ: فَوَثَبُوا عَلَیْهِ وَثْبَةَ رَجُلٍ وَاحِدٍ، فَضَرَبُوهُ حَتَّى قَتَلُوهُ،فَلَمَّا رَجَعَ دِحْیَةُ إِلَى هِرَقْلَ فَأَخْبَرَهُ الْخَبَرَ قَالَ: قَدْ قلت لك: انا نخافهم على أنفسنا، فصغاطر- وَاللهِ- كَانَ أَعْظَمَ عِنْدَهُمْ وَأَجْوَزَ قَوْلا مِنِّی

بادشاہ کی ہدایت پردحیہ کلبی رضی اللہ عنہ روم کے اسقف اعظم صغاطرکے پاس پہنچے اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جس غرض سے اورجس دعوت کے لیے ان کوہرقل کے پاس بھیجاتھاوہ اس سے بیان کیا، اسقف اعظم صغاطرنے کہااللہ کی قسم ! تمہارے نبی برحق ہیں ، ہم ان کی صفات آسمانی کتابوں میں لکھا ہوا پاتے ہیں ،یہ کہہ کرصغاطرایک حجرہ میں گیاوہاں اس نے اپناسیاہ لباس جوپہنے ہوئے تھا ان کواتارکرسفیدکپڑے پہن لئے اورپھراپناعصاہاتھ میں لے کررومیوں کے سامنے جوکنیسہ میں جمع تھے آیا اورسب کومخاطب کرکے کہااے گروہ روم!ہمارے پاس احمدمجتبیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے ایک خط آیاہے جس میں انہوں نے ہمیں اللہ عزوجل کی طرف دعوت دی ہے ،اورمیں گواہی دیتاہوں کہ اللہ کے سواکوئی معبودنہیں اوروہ اللہ کے بندے اوراس کے رسول ہیں ، اسقف اعظم صغاطرکی بات سن کرتمام لوگ یک جان ہوکر اس پرٹوٹ پڑے اوروہیں صغاطرکو شہید کر دیا

دحیہ کلبی رضی اللہ عنہ نے واپس آکرقیصر کوتمام روئداد سنائی ، قیصرنے کہایہی مجھے خوف ہے کہ لوگ میرے ساتھ بھی ایساہی معاملہ کریں گے صغاطر کاان پرمجھ سے کہیں زیادہ اثرتھااوروہ اس کی مجھ سے زیادہ تعظیم کرتے تھے مگرتم نے دیکھ لیاکہ اس کے ساتھ کیاہوا ۔[28]

چنانچہ اقتدار و اختیار کی ہوس میں اس نے اسلام قبول نہیں کیااوراپنی ہمیشہ کی زندگی کو برباد کر لیا ۔

قیصرنے دحیہ کلبی رضی اللہ عنہ کوانعام اورکچھ پارچہ جات سے نوازا،جب وہ راستے میں تھے کہ حسمیٰ میں قبیلہ جذان کے کچھ لوگوں نے ان پرڈاکہ ڈالااورسب کچھ لوٹ کرفرارہوگئے۔

ثُمَّ جَلَسَ عَلَى بَغْلٍ لَهُ، فَانْطَلَقَ حَتَّى إِذَا أَشْرَفَ عَلَى الدَّرْبِ اسْتَقْبَلَ أَرْضَ الشَّامِ، ثُمَّ قَالَ: السَّلامُ عَلَیْكُمْ أَرْضَ سُورِیَةَ تَسْلِیمُ الْوَدَاعِ، ثُمَّ رَكَضَ حَتَّى دخل الْقُسْطَنْطِینِیَّةَ

پھر ہرقل حمص چلاگیاجب اس نے شام کی سرزمین سے قسطنطنیہ جانے کاارادہ کیاتووہ اپنے خچر پر بیٹھا اورسفرشروع کیاحتی کہ جب وہ شام کی سرحد پر پہنچا تو شام کی طرف منہ کرکے کہنے لگااے سرزمین شام !تجھے ہمیشہ کے لئے الوداعی سلام پھروہ سفرکرتاقسطنطنیہ پہنچ گیا ۔[29]

لَوْ تَفَطَّنَ هِرَقْلُ لِقَوْلِهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فِی الْكِتَابِ الَّذِی أَرْسَلَ إِلَیْهِ أَسْلِمْ تَسْلَمْ وَحَمَلَ الْجَزَاءَ عَلَى عُمُومِهِ فِی الدُّنْیَا وَالْآخِرَةِ لَسَلِمَ لَوْ أَسْلَمَ مِنْ كُلِّ مَا یَخَافُهُ وَلَكِنَّ التَّوْفِیقَ بِیَدِ اللهِ تَعَالَى

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے فرمایااگر ہرقل خط کے ان الفاظ مسلمان ہوجاؤ،محفوظ رہوگےکے حقیقی مفہوم کوسمجھ جاتاکہ اس سے مراددنیاوآخرت دونوں کی سلامتی اورحفاظت ہے اور مسلمان ہو جاتا توہرخطرے سے محفوظ ہو جاتا لیکن ہرقسم کی توفیق اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے۔[30]

شاہ بحرین منذربن ساویٰ کودعوت اسلام

بَعَثَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ الْعَلَاءَ بْنَ الْحَضْرَمِیِّ إِلَى المنذر بن ساوى،فَقَالَ لَهُ:یَا مُنْذِرُ إنّك عَظِیمُ الْعَقْلِ فِی الدّنْیَا فَلَا تَصْغُرَنّ عَنْ الْآخِرَةِ، إنّ هَذِهِ الْمَجُوسِیّةَ شَرّ دِینٍ لَیْسَ فِیهَا تَكَرّمُ الْعَرَبِ، وَلَا عِلْمُ أَهْلِ الْكِتَابِ یَنْكِحُونَ مَا یُسْتَحْیَا مِنْ نِكَاحِهِ وَیَأْكُلُونَ مَا یُتَكَرّمُ عَلَى أَكْلِهِ،وَیَعْبُدُونَ فِی الدّنْیَا نَارًا تَأْكُلُهُمْ یَوْمَ الْقِیَامَةِ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے والی بحرین منذربن ساویٰ کودعوت اسلام کاخط پہنچانے کے لئے علاء بن حضرمی رضی اللہ عنہ کوروانہ فرمایاجب ان کی ملاقات شاہ بحرین سے ہوئی توعلاء بن حضرمی رضی اللہ عنہ نے اس سے کہااے منذر!اس عارضی دنیامیں تو بڑا عقلمند اور ہوشیارہے اس لئے مرنے کے بعدہمیشہ کی زندگی کے لئے نادان نہ بن، مظاہرالفطرت جواللہ کی مخلوق ہیں سے مرعوب ہوکر آگ کی پرستش کرنابدترین مذہب ہے،کیایہ بات باعث شرم نہیں کہ اس مذہب کے پیروکارمحرم عورتوں سے نکاح کرتے ہیں اوران چیزوں کوتناول کرتے ہیں جن کے کھانے سے سلیم الفطرت لوگ نفرت کرتے ہیں اور تم آگ کومعبودمان کراس کی پرستش کرتے ہوتاکہ تمہاری نجات ہوجائے جبکہ یہی آگ قیامت والے دن تمہیں بھون دے گی،

وَلَسْت بِعَدِیمِ عَقْلٍ وَلَا رَأْیٍ فَانْظُرْ هَلْ یَنْبَغِی لِمَنْ لَا یَكْذِبُ أَنْ لَا تُصَدّقَهُ وَلِمَنْ لَا یَخُونُ أَنْ لَا تَأْمَنَهُ وَلِمَنْ لَا یُخْلِفُ أَنْ لَا تَثِقَ بِهِ فَإِنْ كَانَ هَذَا هَكَذَا فَهُوَ هَذَا النّبِیّ الْأُمّیّ الّذِی وَاَللهِ لَا یَسْتَطِیعُ ذُو عَقْلٍ أَنْ یَقُولَ لَیْتَ مَا أَمَرَ بِهِ نَهَى عَنْهُ أَوْ مَا نَهَى عَنْهُ أَمَرَ بِهِ أَوْ لَیْتَ زَادَ فِی عَفْوِهِ أَوْ نَقَصَ مِنْ عِقَابِهِ إنْ كَانَ ذَلِكَ مِنْهُ عَلَى أُمْنِیَةِ أَهْلِ الْعَقْلِ وَفِكْرِ أَهْلِ الْبَصَرِ

اے منذر!تم بڑے عقلمند اور ہوشیارہو،خوب غوروفکرکرلو ،جوذات کبھی جھوٹ نہیں بولتی،خیانت نہیں کرتی،جس کی کہی ہوئی بات ہوکررہتی ہے اس کی رسالت کی تصدیق کرنے میں تمہیں کیاتردد ہے بلاشبہ وہ اللہ کے رسول ہیں اوران کاہرحکم حق کے مطابق ہے،صاحب فراست یہ نہیں کہہ سکتا کہ نبی امی کاش پہلے حکم سے روکے یا روکے ہوئے حکم سے رجوع کر لے یا کاش معافی میں زیادتی اور سزا میں کمی کا فیصلہ کردے اگر ایسا ہوتا تو اہل فراست وبصارت کہہ دیتے کہ یہ تو صرف پرست ہے،

فَقَالَ الْمُنْذِرُ قَدْ نَظَرْت فِی هَذِهِ الْأَمْرِ الّذِی فِی یَدِی، فَوَجَدْته لِلدّنْیَا دُونَ الْآخِرَةِ وَنَظَرْت فِی دِینِكُمْ فَوَجَدْته لِلْآخِرَةِ وَالدّنْیَا، فَمَا یَمْنَعُنِی مِنْ قَبُولِ دِینٍ فِیهِ أُمْنِیَةُ الْحَیَاةِ وَرَاحَةُ الْمَوْتِ وَلَقَدْ عَجِبْت أَمْسِ مِمّنْ یَقْبَلُهُ وَعَجِبْت الْیَوْمَ مِمّنْ یَرُدّهُ وَإِنّ مِنْ إعْظَامِ مَنْ جَاءَ بِهِ أَنْ یُعَظّمَ رَسُولُهُ وَسَأَنْظُرُ

کچھ دنوں کے غوروفکرکے بعدمنذرنے جواب دیاکہ میں نے اپنے دین پربڑاغوروفکرکیااورمیں اس نتیجہ پرپہنچاکہ وہ صرف اس دنیاکی حدتک ہے جبکہ تمہارامذہب دنیاوآخرت دونوں کی کامیابی کی ضمانت دیتاہےاس لئے میں نے اسلام قبول کرنے کافیصلہ کیاہےکیونکہ اس میں فلاح دارین ہے ، کل مجھے اس کو قبول کرنے والوں سے مسرت وخوشی ہو رہی تھی جبکہ آج اس کو ٹھکرانے میں جو کچھ بھی محمد لائے ہیں وہ سارے کاسارا لائق تعظیم ہے لہذا اس مسئلہ میں سوچ کروں گا۔[31]

پھرمنذرنے اہل بحرین پرجوآتش پرست اوریہودی تھے اسلام پیش کیاتوان میں سے کچھ تورغبت سے حلقہ بگوش اسلام ہوگئے اورکچھ اپنے آبائی دین پرقائم رہےچنانچہ اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے اسلام قبول کرنے کے بارے میں تحریرکیا۔

أَمَّا بَعْدُ یَا رَسُولَ اللهِ:

فَإِنِّی قَرَأْتُ كِتَابَكَ عَلَى أَهْلِ الْبَحْرَیْنِ، فَمِنْهُمْ مَنْ أَحَبَّ الإِسْلامَ وَأَعْجَبَهُ وَدَخَلَ فِیهِ، وَمِنْهُمْ مَنْ كَرِهَهُ، وَبِأَرْضِی مَجُوسٌ وَیَهُودُ، فَأَحْدِثْ إِلَیَّ فِی ذَلِكَ أَمْرَكَ

امابعد!اے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم ! میں نے آپ کامکتوب اہل بحرین کوپڑھ کرسنایاان میں سے بعض نے اسلام کوپسندکیااوراس کے حلقہ بگوش ہوگئے اوربعض نے ناپسند کیا، میرے ملک میں یہودی اورمجوسی بھی ہیں ان کے بارے میں آپ اپناحکم صادرفرمائیں ۔

اس خط کے جواب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لکھا۔

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

مِنْ مُحَمَّدٍ رَسُولِ اللهِ إِلَى المنذر بن ساوى

سَلَامٌ عَلَیْكَ

فَإِنِّی أَحْمَدُ إِلَیْكَ اللهَ الَّذِی لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ، وَأَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ

أَمَّا بَعْدُ: فَإِنِّی أُذَكِّرُكَ اللهَ عَزَّ وَجَلَّ فَإِنَّهُ مَنْ یَنْصَحْ فَإِنَّمَا یَنْصَحُ لِنَفْسِهِ، وَإِنَّهُ مَنْ یُطِعْ رُسُلِی وَیَتَّبِعْ أَمْرَهُمْ فَقَدْ أَطَاعَنِی، وَمَنْ نَصَحَ لَهُمْ فَقَدْ نَصَحَ لِی، وَإِنَّ رُسُلِی قَدْ أَثْنَوْا عَلَیْكَ خَیْرًا، وَإِنِّی قَدْ شَفَعْتُكَ فِی قَوْمِكَ، فَاتْرُكْ لِلْمُسْلِمِینَ مَا أَسْلَمُوا عَلَیْهِ، وَعَفَوْتُ عَنْ أَهْلِ الذُّنُوبِ فَاقْبَلْ مِنْهُمْ، وَإِنَّكَ مَهْمَا تُصْلِحْ فَلَنْ نَعْزِلَكَ عَنْ عَمَلِكَ، وَمَنْ أَقَامَ عَلَى یَهُودِیَّةٍ أَوْ مَجُوسِیَّةٍ فَعَلَیْهِ الْجِزْیَةُ .

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

یہ خط محمدرسول اللہ کی جانب سے منذربن ساویٰ کے نام۔

تم پرسلامتی ہو،میں تیری طرف اللہ تعالیٰ کی حمدوثنابیان کرتاہوں جس کے سواکوئی معبود نہیں اورمیں گواہی دیتاہوں کہ محمداللہ کے رسول ہیں ۔

امابعد!میں تجھے اللہ عزوجل کی یاددلاتاہوں ،یادرکھوجوشخص اللہ کی اطاعت کرے وہ حقیقت میں اپنی ہی خیرخواہی کرتا ہے اور جس نے میرے ایلچی کی اطاعت کی ، ان کے حکم کی پیروی کی اس نے میری اطاعت کی،اورجوان کے ساتھ حسن سلوک کرے اس نے میرے ساتھ حسن سلوک کیا ،میرے قاصدوں نے تمہاری تعریف وتوصیف کی اورمیں نے تمہاری قوم کے بارے میں تمہاری سفارش قبول کرلی ہے لہذا مسلمان جس حال پر اسلام لائے ہیں انہیں اس پر چھوڑ دو ،چونکہ تم میں اہلیت ہے اس لئے تمہیں تمہارے منصب سے معزول نہیں کریں گے اورجوشخص یہودیت اورمجوسیت پرقائم رہے اس پر جزیہ (خراج) واجب ہوگا۔[32]

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منذربن ساویٰ کے نام ایک اورفرمان تحریرفرمایا۔

أَمَّا بَعْدُ فَإِنِّی قَدْ بَعَثْتُ إِلَیْكَ قُدَامَةَ وَأَبَا هُرَیْرَةَ فَادْفَعْ إِلَیْهِمَا مَا اجْتَمَعَ عِنْدَكَ مِنْ جِزْیَةِ أَرْضِكَ وَالسَّلامُ.

 وَكَتَبَ أُبَیٌّ

امابعد!میں نے تمہارے پاس قدامہ رضی اللہ عنہ اورابوہریرہ رضی اللہ عنہ کوبھیجاہے تمہارے ملک کاجوجزیہ تمہارے پاس جمع ہووہ ان دونوں کے سپردکردو ۔والسلام

اس تحریرکوابی نے لکھا۔[33]

شاہ بحرین منذربن ساویٰ کودعوت اسلام

وَكَتَبَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ إِلَى صَاحِبِ الْیَمَامَةِ هوذة بن علی، وَأَرْسَلَ بِهِ مَعَ سلیط بن عمرو العامری

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سلیط بن عمرو رضی اللہ عنہ کوجوپہلے اسلام لانے اورحبشہ کی ہجرت میں شامل تھے رئیس یمامہ ہوزہ بن علی کے پاس جوایک مسیحی قبیلہ بنوحنیفہ کاسردارتھا یہ سربمہرخط لکھ کربھیجا۔

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

مِنْ مُحَمَّدٍ رَسُولِ اللهِ إِلَى هوذة بن علی

سَلَامٌ عَلَى مَنِ اتَّبَعَ الْهُدَى،وَاعْلَمْ أَنَّ دِینِی سَیَظْهَرُ إِلَى مُنْتَهَى الْخُفِّ وَالْحَافِرِ، فَأَسْلِمْ تَسْلَمْ، وَأَجْعَلْ لَكَ مَا تَحْتَ یَدَیْكَ

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

یہ خط محمدرسول اللہ کی طرف سے ہوذہ بن علی کے نام

اس پرسلامتی ہوجوہدایت کی پیروی کرےتمہیں معلوم ہوناچاہیے کہ میرادین وہاں تک پہنچے گاجہاں تک اونٹ اورگھوڑے پہنچ سکتے ہیں ،لہذااسلام قبول کرلوسلامت رہوگے اورہم تمہیں تمہارے علاقوں پربددستورقائم رکھیں گے۔

لَمّا قَدِمَ سَلِیطُ بْنُ عَمْرٍو الْعَامِرِیّ عَلَى هَوْذَةَ، وَكَانَ كِسْرَى قَدْ تَوَجّهَ، قَالَ: یَا هَوْذَةُ إنّك سَوّدَتْك أَعْظُمٌ حَائِلَةٌ، وَأَرْوَاحٌ فِی النّارِ، وَإِنّمَا السّیّدُ مَنْ مُنّعَ بِالْإِیمَانِ ثُمّ زُوّدَ التّقْوَى، وَإِنّ قَوْمًا سَعِدُوا بِرَأْیِك فَلَا تَشْقَ بِهِ، وَإِنّی آمِرُك بِخَیْرِ مَأْمُورٍ بِهِ، وَأَنْهَاك عَنْ شَرّ مَنْهِیّ عَنْهُ، آمُرُك بِعِبَادَةِ اللهِ، وَأَنْهَاك عَنْ عِبَادَةِ الشّیْطَانِ، فَإِنّ فِی عِبَادَةِ اللهِ الْجَنّةَ وَفِی عِبَادَةِ الشیطان النار، فإن قبلت نلت مارجوت، وَأَمِنْت مَا خِفْت، وَإِنْ أَبَیْت فَبَیْنَنَا وَبَیْنَك كَشْفُ الْغِطَاءِ

سلیط بن عمرو رضی اللہ عنہ نے یمامہ پہنچ کرآپ کامکتوب مبارک ہوزہ بن علی کوپیش کیااورکہااے ہوزہ پرانی اوربوسیدہ ہڈیوں نے تجھے سرداربنادیاہے مگرحقیقت میں سرداروہ ہوتاہے جو نیک وپاکبازہو،میں تمہیں ایک بہترین چیزکاحکم کرتاہوں کہ اللہ وحدہ لاشریک کی بندگی اوراطاعت کرو اورایک بدترین چیزسے منع کرتاہوں کہ شیطان کی بندگی سے بازآ جاؤ اگرتم اس کوقبول کرلو تودنیاوآخرت دونوں جہانوں میں کامیاب ہوجاؤگےاورخوف سے محفوظ رہوگے،اوراگرتم اس دعوت کوقبول نہیں کرتے توقیامت کاہول ناک منظر ہمارے اورتمہارے درمیان سے اس پردہ کواٹھادے گا۔[34]

ہوزہ نے خط لے کرپڑھااورکہامجھے سوچنے کے لئے کچھ مہلت چاہیے،بعدمیں اس نے یہ جواب لکھوایا۔

مَا أَحْسَنَ مَا تَدْعُو إِلَیْهِ وَأَجْمَلَهُ، وَالْعَرَبُ تَهَابُ مَكَانِی، فَاجْعَلْ إِلَیَّ بَعْضَ الْأَمْرِ أَتْبَعْكَ

جس چیزکی طرف آپ دعوت دیتے ہیں وہ بہت ہی بہترہے،میرے رعب ودبدبہ سے اہل عرب ڈرتے ہیں اگرآپ مجھے کچھ اختیادے دیں تو میں آپ کی اطاعت کروں گا ۔

وَأَجَازَ سلیطا بِجَائِزَةٍ، وَكَسَاهُ أَثْوَابًا مِنْ نَسْجِ هَجَرٍ فَقَدِمَ بِذَلِكَ كُلِّهِ عَلَى النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَأَخْبَرَهُ وَقَرَأَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ كِتَابَهُ فَقَالَ: لَوْ سَأَلَنِی سَیَابَةً مِنَ الْأَرْضِ مَا فَعَلْتُ بَادَ وَبَادَ مَا فِی یَدَیْهِ

اوررخصت کے وقت سلیط بن عمرو رضی اللہ عنہ کوتحفہ کے طورپرہجرکی کپاس کے بنے ہوئے کچھ پارچہ جات پیش کیے،سلیط رضی اللہ عنہ بن عمروتمام چیزیں لے کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضرہوگئے اور ساری تفصیلات سے آگاہ کیا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہوزہ کاخط پڑھ کرفرمایا اگروہ مجھ سےایک بالشت بھرزمین بھی مانگے تواسے نہیں دوں گا،جوکچھ اس کے قبضہ میں ہے وہ جانے والاہے ،جانے والاہے۔

فَلَمَّا انْصَرَفَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مِنَ الْفَتْحِ، جَاءَهُ جِبْرِیلُ عَلَیْهِ السَّلَامُ: بِأَنَّ هوذة قَدْ مَاتَ، فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: أَمَا إِنَّ الْیَمَامَةَ سَیَخْرُجُ بِهَا كَذَّابٌ یَتَنَبَّأُ یُقْتَلُ بَعْدِی، فَقَالَ قَائِلٌ: یَا رَسُولَ اللهِ مَنْ یَقْتُلُهُ؟ فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: أَنْتَ وَأَصْحَابُكَ فَكَانَ كَذَلِكَ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب فتح مکہ سے واپس ہوئے توجبرائیل علیہ السلام حاضرہوئے اور آپ کوہوزہ کے انتقال کی خبردی، تونبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کویہ خبرسناکرفرمایاعنقریب یمامہ میں ایک کذاب ظاہر ہو گا جو نبوت کادعویٰ کرے گااورمیرے بعدقتل کردیاجائے گا،ایک صحابی نے عرض کیااے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم اسے کون قتل کرے گا؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو فرمایاتو اورتمہارے ساتھی اسے قتل کریں گے ، چنانچہ آپ کی پیشین گوئی کے مطابق ایساہی ہوا ۔[35]

حاکم دمشق حارث بن ابی شمرغسانی کودعوت اسلام

وبعث رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ شُجَاعَ بْنَ وَهْبٍ، أَخَا بَنِی أَسَدِ بْنِ خُزَیْمَةَ إِلَى الْمُنْذِرِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ أَبِی شِمْرٍ الْغَسَّانِیِّ، صَاحِبِ دِمَشْقَ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حاکم دمشق حارث بن ابی شمرکے پاس شجاع بن وہب اسدی جوقبیلہ اسدبن خزیمہ سے تعلق رکھتے تھے کو یہ خط دے کرروانہ فرمایا۔

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

مِنْ محمد رَسُولِ اللهِ إِلَى الحارث بن أبی شمر

سَلَامٌ عَلَى مَنِ اتَّبَعَ الْهُدَى وَآمَنَ بِاللهِ وَصَدَّقَ وَإِنِّی أَدْعُوكَ إِلَى أَنْ تُؤْمِنَ بِاللهِ وَحْدَهُ لَا شَرِیكَ لَهُ، یَبْقَى لَكَ مُلْكُكَ

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

محمدرسول اللہ کی طرف سے حارث بن ابی شمرکے نام

اس پرسلامتی ہوجس نے ہدایت کی راہ اختیارکی اوراللہ پرایمان لایااورتصدیق کی،پس میں تمہیں اللہ وحدہ لاشریک پرایمان لانے کی دعوت دیتاہوں ،اگرایمان لاؤگے تو تمہاری سلطنت باقی رہے گی۔[36]

قَالَ شجاع: فَانْتَهَیْتُ إِلَیْهِ وَهُوَ فِی غَوْطَةِ دِمَشْقَ، وَهُوَ مَشْغُولٌ بِتَهْیِئَةِ الْأَنْزَالِ وَالْأَلْطَافِ لقیصر، وَهُوَ جَاءٍ مِنْ حِمْصَ إِلَى إِیلِیَاءَ،فَأَقَمْتُ عَلَى بَابِهِ یَوْمَیْنِ أَوْ ثَلَاثَةً،فَقُلْتُ لِحَاجِبِهِ: إِنِّی رَسُولُ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ إِلَیْهِ، فَقَالَ: لَا تَصِلُ إِلَیْهِ حَتَّى یَخْرُجَ یَوْمَ كَذَا وَكَذَا،وَجَعَلَ حَاجِبُهُ وَكَانَ رُومِیًّا اسْمُهُ مری یَسْأَلُنِی عَنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ،وَكُنْتُ أُحَدِّثُهُ عَنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، وَمَا یَدْعُو إِلَیْهِ، فَیَرِقُّ حَتَّى یَغْلِبَ عَلَیْهِ الْبُكَاءُ،وَیَقُولُ: إِنِّی قَرَأْتُ الْإِنْجِیلَ فَأَجِدُ صِفَةَ هَذَا النَّبِیِّ بِعَیْنِهِ، فَأَنَا أُؤْمِنُ بِهِ وَأُصَدِّقُهُ فَأَخَافُ مِنَ الحارث أَنْ یَقْتُلَنِی،وَكَانَ یُكْرِمُنِی وَیُحْسِنُ ضِیَافَتِی

شجاع بن وہب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں جب میں دمشق پہنچاتومیں نے اسے قیصرکی دعوت کی تیاری میں مشغول پایاجولشکرفارس پرغلبہ کے بعداللہ کاشکراداکرنے کے لئے حمص سے بیت المقدس پہنچا تھا،میں غسانی کے ہاں دویا تین دن مہمان رہا، پھرمیں نے اس کے دربان سے کہاکہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاقاصدہوں اوربادشاہ سے ملنا چاہتا ہوں ،دربان نے کہا تمہاری اس تک رسائی ممکن نہیں جب تک کہ وہ خودباہرنہ آجائیں ،پھررومی دربان جس کانام مری تھا مجھ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حالات اورآپ کی دعوت کے متعلق دریافت کرنے لگا،میں اسے بتاتاجاتاتھااوراس پر رقت طاری ہوتی جاتی تھی یہاں تک کہ اس پرگریہ کاغلبہ ہوگیا،اوراس نے کہامیں نے انجیل میں جوکچھ پڑھاہے اس کے مطابق میں اس نبی میں بعینہ وہی اوصاف پاتاہوں پس میں ان پرایمان لاتااوران کی تصدیق کرتا ہوں لیکن مجھے اندیشہ ہے کہ حارث بن ابی شمرمجھے اس بات پرقتل کرڈالے گاپھروہ دربان میرابہت احترام اورخوب مہمان داری کرنے لگا،

وَخَرَجَ الحارث یَوْمًا فَجَلَسَ فَوَضَعَ التَّاجَ عَلَى رَأْسِهِ فَأَذِنَ لِی عَلَیْهِ، فَدَفَعْتُ إِلَیْهِ كِتَابَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ ، فَقَرَأَهُ ثُمَّ رَمَى بِهِ،قَالَ: مَنْ یَنْتَزِعُ مِنِّی مُلْكِی، وَقَالَ: أَنَا سَائِرٌ إِلَیْهِ وَلَوْ كَانَ بِالْیَمَنِ جِئْتُهُ، عَلَیَّ بِالنَّاسِ ، فَلَمْ تَزَلْ تُعْرَضُ حَتَّى قَامَ، وَأَمَرَ بِالْخُیُولِ تُنْعَلُ، ثُمَّ قَالَ: أَخْبِرْ صَاحِبَكَ بِمَا تَرَى،وَكَتَبَ إِلَى قیصر یُخْبِرُهُ خَبَرِی وَمَا عَزَمَ عَلَیْهِ، فَكَتَبَ إِلَیْهِ قیصر: أَنْ لَا تَسِرْ، وَلَا تَعْبُرْ إِلَیْهِ وَالْهُ عَنْهُ، وَوَافِنِی بِإِیلِیَاءَ

ایک روز حارث اپنے سرپرتاج رکھے باہرنکلاتومجھے اس کے سامنے پیش کیاگیامیں نے اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مکتوب مبارک پیش کیااس نے مکتوب پڑھ کرپھینک دیا اوربڑے غرورسے کہنے لگامجھ سے میرا ملک کون چھین سکتاہے میں خوداس کے مقابلہ کے لئے جاؤں گااگروہ یمن میں ہوگا تو وہاں بھی پہنچوں گا چنانچہ اس نے لشکرتیارہونے کاحکم دیاپھرشجاع رضی اللہ عنہ سے کہاجوکچھ تیاریاں یہاں تم دیکھ رہے ہواس کی اطلاع جاکراپنے صاحب کو دے دو، ادھر اس نے قیصر کو لکھ کرمیرے معاملہ کی اطلاع دے دی جواسے بیت المقدس میں ملی اس وقت دحیہ رضی اللہ عنہ اس کے پاس تھے جنہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قیصرکے پاس بھیجا تھاجب قیصرنے حارث کا خط پڑھاتواسے لکھاکہ ان کی طرف کوچ مت کرواوران کاخیال چھوڑدواورمجھ سے آکربیت المقدس میں ملو،

فَلَمَّا جَاءَهُ جَوَابُ كِتَابِهِ، دَعَانِی فَقَالَ: مَتَى تُرِیدُ أَنْ تَخْرُجَ إِلَى صَاحِبِكَ؟فَقُلْتُ: غَدًافَأَمَرَ لِی بِمِائَةِ مِثْقَالٍ ذَهَبًاوَوَصَلَنِی حَاجِبُهُ بِنَفَقَةٍ وَكُسْوَةٍ وَقَالَ: اقْرَأْ عَلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مِنِّی السَّلَامَ،فَقَدِمْتُ عَلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ ، فَأَخْبَرْتُهُ، فَقَالَ: بَادَ مُلْكُهُ، وَأَقْرَأْتُهُ مِنْ حَاجِبِهِ السَّلَامَ، وَأَخْبَرْتُهُ بِمَا قَالَ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: صَدَقَ

جب اس کے خط کا جواب ملا تو مجھے بلایا اورکہا کیا آپ کے ساتھی کی طرف نکلیں تو میں نے کہا چلو کل نکلیں گے،حارث نے دعوت اسلام قبول نہیں کی مگرجب شجاع رضی اللہ عنہ روانہ ہونے لگے تو انہیں ایک سومثقال سونا بطورہدیہ پیش کرنے کاحکم دیااوردربان نے بھی کچھ نذرانہ پیش کیااورکہارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کومیراسلام کہنا،میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضرہوااورتمام واقعہ بیان کیا تو فرمایا اس کاملک تباہ ہوگیااور دربان کی طرف سے سلام پیش کیا اور اس کا بیان کردہ واقعہ بھی پیش کیااوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےدربان کے بارے میں فرمایاسچ کہا۔[37]

شاہ عمان جیفروعبد کودعوت اسلام

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مکتوب جلندی کے دوفرزندان جیفراورعبدکے پاس بھیجاجوعمان پرحکومت کرتے تھے،خط کامتن یہ تھاجسے ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے تحریرفرمایاتھا۔

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

مِنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ اللهِ إِلَى جیفر وعبد ابنی الجلندى

سَلَامٌ عَلَى مَنِ اتَّبَعَ الْهُدَى أَمَّا بَعْدُ: فَإِنِّی أَدْعُوكُمَا بِدِعَایَةِ الْإِسْلَامِ أَسْلِمَا تَسْلَمَا، فَإِنِّی رَسُولُ اللهِ إِلَى النَّاسِ كَافَّةً؛ لِأُنْذِرَ مَنْ كَانَ حَیًّا وَیَحِقَّ الْقَوْلُ عَلَى الْكَافِرِینَ، فَإِنَّكُمَا إِنْ أَقْرَرْتُمَا بِالْإِسْلَامِ وَلَّیْتُكُمَا، وَإِنْ أَبَیْتُمَا أَنْ تُقِرَّا بِالْإِسْلَامِ، فَإِنَّ مُلْكَكُمَا زَائِلٌ عَنْكُمَا، وَخَیْلِی تَحُلُّ بِسَاحَتِكُمَا، وَتَظْهَرُ نُبُوَّتِی عَلَى مُلْكِكُمَا.

وَكَتَبَ أُبَیُّ بْنُ كَعْبٍ وَخَتَمَ الْكِتَابَ

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

محمدبن عبداللہ کی جانب سے جلندی کے دونوں بیٹوں جیفراورعبدکے نام

اس شخص پرسلامتی ہوجوہدایت کی پیروی کرے ،امابعد!میں تم دونوں کواسلام قبول کرنے کی دعوت دیتاہوں ،اسلام قبول کرلونجات پاجاؤگے،میں تمام انسانوں کی طرف اللہ کارسول بن کرآیاہوں تاکہ ہرذی حیات کو اللہ کے عذاب سے ڈراؤں اورکافروں کے بارے میں اللہ کافیصلہ ثابت ونافذہوجائے ،اگرتم دونوں نے اسلام کااقرارکرلیاتومیں تمہیں بددستور حاکم رہنے دوں گا اور اگر تم نے اسلام قبول کرنے سے انکارکیاتوپھرتم دونوں کی حکومت تم سے چھن جائے گی اورمیرے سواردستے تمہارے گھرکے صحن تک پہنچیں گے اورمیری نبوت ورسالت تمہارے ملک کے تمام ادیان پرچھاکررہے گی ۔

اس خط کوابی بن کعب نے لکھااورمکتوب پرمہرنبوی لگادی۔[38]

سیدالامم صلی اللہ علیہ وسلم نے خط پراپنی مہرثبت کرنے کے بعد عمروبن عاص رضی اللہ عنہ کوان کی طرف روانہ کیا

قَالَ عمرو: فَخَرَجْتُ حَتَّى انْتَهَیْتُ إِلَى عُمَانَ فَلَمَّا قَدِمْتُهَا، عَمَدْتُ إِلَى عبد، وَكَانَ أَحْلَمَ الرَّجُلَیْنِ وَأَسْهَلَهُمَا خُلُقًا فَقُلْتُ: إِنِّی رَسُولُ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ إِلَیْكَ وَإِلَى أَخِیكَ، فَقَالَ: أَخِی الْمُقَدَّمُ عَلَیَّ بِالسِّنِّ وَالْمُلْكِ، وَأَنَا أُوصِلُكَ إِلَیْهِ حَتَّى یَقْرَأَ كِتَابَكَ

عمروبن عاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں میں مدینہ منورہ سے روانہ ہوااورعمان پہنچا اورچھوٹے بھائی عبدسے ملا جوبہت بااخلاق،نرم خو اور شائستہ مزاج تھااورانہیں کہاکہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے قاصدبن کرتمہارے اورتمہارے بھائی کی طرف آیاہوں ، عبدنے کہا جیفر میرے بڑے بھائی ہیں اس لئے حکومت میں مجھ سے مقدم ہیں ،میں آپ کوان کے پاس لے جاؤں تاکہ آپ انہیں مرسلہ پہنچادیں ۔

ثُمَّ قَالَ: وَمَا تَدْعُو إِلَیْهِ؟

پھرعمروبن عاص رضی اللہ عنہ سے پوچھا:تم کس چیزکی دعوت دینے آئے ہو؟

قُلْتُ: أَدْعُوكَ إِلَى اللهِ وَحْدَهُ لَا شَرِیكَ لَهُ، وَتَخْلَعَ مَا عُبِدَ مِنْ دُونِهِ، وَتَشْهَدُ أَنَّ محمدا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ

عمرو رضی اللہ عنہ بن عا ص نے جواب دیا:ہم اللہ وحدہ لاشریک کی طرف دعوت دیتے ہیں اوراللہ کے سواجن چیزوں کی پرستش کی جاتی ہے اس سے تائب جانے کوکہتے ہیں اوریہ گواہی دیں کہ محمداللہ کے بندے اوررسول ہیں ۔

قَالَ: یَا عمرو إِنَّكَ ابْنُ سَیِّدِ قَوْمِكَ فَكَیْفَ صَنَعَ أَبُوكُ، فَإِنَّ لَنَا فِیهِ قُدْوَةً؟

عبد:اے عمروبن العاص رضی اللہ عنہ !تم اپنی قوم کے سردارکے بیٹے ہویہ بتاؤکیاآپ کے والدنے ان کااتباع کیا؟ہم ان کی اقتداء کریں گے۔

قُلْتُ مَاتَ وَلَمْ یُؤْمِنْ بِمُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، وَوَدِدْتُ أَنَّهُ كَانَ أَسْلَمَ وَصَدَّقَ بِهِ، وَقَدْ كُنْتُ أَنَا عَلَى مِثْلِ رَأْیِهِ حَتَّى هَدَانِی اللهُ لِلْإِسْلَامِ

عمرو رضی اللہ عنہ بن عاص:نہیں وہ محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پرایمان لائے بغیرفوت ہوگئے لیکن میری شدیدتمنا تھی کہ وہ اسلام قبول کرلیتے اورآپ کی تصدیق کرتے ،میں بھی ایک عرصہ تک اپنے آبائی دین پرتھامگراللہ تعالیٰ نے مجھے اس دعوت کوقبول کرنے کی ہدایت و توفیق سے سرفرازفرمایا۔

قَالَ: فَمَتَى تَبِعْتَهُ؟

عبد:تم کب اس دین میں داخل ہوئے؟

قُلْتُ: قَرِیبًا

عمرو رضی اللہ عنہ بن عاص:مجھے اس دین میں داخل ہوئے کوئی زیادہ عرصہ نہیں گزرا۔

فَسَأَلَنِی أَیْنَ كَانَ إِسْلَامُكَ؟

عبد:تم نے کہاں پراسلام قبول کیا؟

قُلْتُ: عِنْدَ النَّجَاشِیِّ، وَأَخْبَرْتُهُ أَنَّ النَّجَاشِیَّ قَدْ أَسْلَمَ

عمرو رضی اللہ عنہ بن عاص:میں نے حبشہ میں نجاشی کے ہاتھ پر اسلام قبول کیااورنجاشی بھی ہمارے دین میں شامل ہوچکاہے۔

قَالَ: فَكَیْفَ صَنَعَ قَوْمُهُ بِمُلْكِهِ؟

عبد:پھرنجاشی کے اسلام لانے کے بعد قوم نے اس کے ساتھ کیامعاملہ کیا؟

فَقُلْتُ: أَقَرُّوهُ وَاتَّبَعُوهُ

عمرو رضی اللہ عنہ بن عاص:اس کی قوم نے اپنے بادشاہ کی پیروی کی اوراسے بادشاہت پرقائم رکھا۔

قَالَ: وَالْأَسَاقِفَةُ وَالرُّهْبَانُ تَبِعُوهُ؟

عبد:اسقفوں اورراہبوں نے کیامعاملہ کیا؟

قُلْتُ: نَعَمْ

عمرو رضی اللہ عنہ بن عاص:جی ہاں ،انہوں نے بھی بغیرچوں چرااپنے بادشاہ کی اتباع کی۔

قَالَ: انْظُرْ یَا عمرو مَا تَقُولُ إِنَّهُ لَیْسَ مِنْ خَصْلَةٍ فِی رَجُلٍ أَفْضَحَ لَهُ مِنَ الْكَذِبِ

عبدحیران ہوکربولا:اے عمروبن عاص!کیاکہہ رہے ہو،تمام بری خصلتوں سے بری خصلت جھوٹ ہے جو آدمی کوذلیل ورسواکردیتاہے۔

قُلْتُهُ: مَا كَذَبْتُ وَمَا نَسْتَحِلُّهُ فِی دِینِنَا

عمرو رضی اللہ عنہ بن عاص:جوحقیقت ہے میں وہ بیان کررہاہوں ہمارے دین اسلام میں جھوٹ بولناحرام ہے ۔

ثُمَّ قَالَ: مَا أَرَى هرقل عَلِمَ بِإِسْلَامِ النَّجَاشِیِّ

معبد:میراخیال کہ قیصرروم ہرقل کونجاشی کے اسلام قبول کرنے کاعلم نہیں ہے۔

قُلْتُ: بَلَى

عمرو رضی اللہ عنہ بن عاص: ہرقل کو علم ہے کہ نجاشی نے اسلام قبول کرلیاہے۔

قَالَ: بِأَیِّ شَیْءٍ عَلِمْتَ ذَلِكَ؟

عبد:تم یہ بات اتنے وثوق سے کیسے کہہ سکتے ہو؟

قُلْتُ: كَانَ النَّجَاشِیُّ یُخْرِجُ لَهُ خَرْجًا فَلَمَّا أَسْلَمَ وَصَدَّقَ بِمُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: لَا وَاللهِ، لَوْ سَأَلَنِی دِرْهَمًا وَاحِدًا مَا أَعْطَیْتُهُ، فَبَلَغَ هرقل قَوْلُهُ، فَقَالَ لَهُ: یَنَّاقُ أَخُوهُ: أَتَدَعُ عَبْدَكَ لَا یُخْرِجُ لَكَ خَرْجًا وَیَدِینُ دِینًا مُحْدَثًا؟قَالَ هرقل: رَجُلٌ رَغِبَ فِی دِینٍ فَاخْتَارَهُ لِنَفْسِهِ مَا أَصْنَعُ بِهِ،وَاللهِ لَوْلَا الضَّنُّ بِمُلْكِی لَصَنَعْتُ كَمَا صَنَعَ

عمرو رضی اللہ عنہ بن عاص:نجاشی شاہ حبشہ قیصرروم ہرقل کوخراج ادا کرتا تھالیکن جب اس نے اسلام قبول کرلیااوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کی تواس نے خراج دینابندکردیا،ہرقل کوجب اس کی خبرملی تواس کے بھائی نیاق نے کہاکیاتم اپنے غلام(نجاشی) سے خراج لینابندکردوگے؟جس نے تمہارے دین کے بجائے ایک نیادین اختیارکرلیاہے، ہرقل نے کہا،نجاشی کواختیارہے کہ وہ جس دین کوچاہے اختیارکرے ،اس کے بارے میں کیاکہاجا سکتا ہے، واللہ اگرمجھے اپنے اقتداراوراختیارکی حرص نہ ہوتی تومیں بھی اس دعوت کوقبول کرلیتا۔

قَالَ: انْظُرْ مَا تَقُولُ یَا عمرو

عبدحیران ہوکربولا:اے عمرو!تم ہرقل کے بارے میں ایک بڑی بات کہہ رہے ہو۔

قُلْتُ: وَاللهِ صَدَقْتُكَ

عمرو رضی اللہ عنہ بن عاص: اللہ کی قسم! میں صحیح حقیقت بیان کررہاہوں ۔

قَالَ عبد: فَأَخْبِرْنِی مَا الَّذِی یَأْمُرُ بِهِ وَیَنْهَى عَنْهُ؟

عبدنے کہا:وہ کس بات کاحکم دیتے ہیں اورکس چیزسے منع کرتے ہیں ؟

قُلْتُ: یَأْمُرُ بِطَاعَةِ اللهِ عَزَّ وَجَلَّ وَیَنْهَى عَنْ مَعْصِیَتِهِ، وَیَأْمُرُ بِالْبِرِّ وَصِلَةِ الرَّحِمِ، وَیَنْهَى عَنِ الظُّلْمِ وَالْعُدْوَانِ وَعَنِ الزِّنَى وَعَنِ الْخَمْرِ وَعَنْ عِبَادَةِ الْحَجَرِ وَالْوَثَنِ وَالصَّلِیبِ

عمرو رضی اللہ عنہ بن عاص:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ وحدہ لاشریک کی بندگی واطاعت اورنیکی وصلح رحمی کاحکم دیتے ہیں اور مظاہرفطرت ،بت وصلیب پرستی، ظلم وزیادتی،زنا،شراب نوشی وغیرہ سے منع فرماتے ہیں ۔

قَالَ: مَا أَحْسَنَ هَذَا الَّذِی یَدْعُو إِلَیْهِ لَوْ كَانَ أَخِی یُتَابِعُنِی عَلَیْهِ لَرَكِبْنَا حَتَّى نُؤْمِنَ بِمُحَمَّدٍ وَنُصَدِّقَ بِهِ، وَلَكِنْ أَخِی أَضَنُّ بِمُلْكِهِ مِنْ أَنْ یَدَعَهُ وَیَصِیرَ ذَنَبًا

عبدمتاثرہوکربولا:یہ توبہت عمدہ باتیں ہیں جس کی طرف وہ دعوت دیتے ہیں ،کاش میرا بھائی میرے ساتھ اتفاق کرے توہم دونوں ان کی خدمت میں حاضرہوکراسلام قبول کرلیتے اوران کی رسالت کی تصدیق کرتےلیکن میرابھائی اپنی حکومت اوراقتدار کازیادہ حریص ہے۔

قُلْتُ: إِنَّهُ إِنْ أَسْلَمَ، مَلَّكَهُ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عَلَى قَوْمِهِ فَأَخَذَ الصَّدَقَةَ مِنْ غَنِیِّهِمْ، فَرَدَّهَا عَلَى فَقِیرِهِمْ

عمرو رضی اللہ عنہ بن عاص:اگرآپ کابھائی اسلام قبول کرلے تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسے اپنی حکومت پربرقراررکھیں گےاوریہ حکم دیں گے کہ یہاں کے صاحب حیثیت لوگوں سے صدقہ لے کریہیں کے غریبوں ، محتاجوں ،مسکینوں ،بیواؤں میں تقسیم فرمادیں گے۔

قَالَ: إِنَّ هَذَا لَخُلُقٌ حَسَنٌ وَمَا الصَّدَقَةُ؟

عبد:یہ بھی بہت عمدہ بات ہے،اچھایہ بتاؤصدقہ کتنا اورکس طرح وصول کیے جاتے ہیں ؟

فَأَخْبَرْتُهُ بِمَا فَرَضَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مِنَ الصَّدَقَاتِ فِی الْأَمْوَالِ حَتَّى انْتَهَیْتُ إِلَى الْإِبِلِ،قَالَ یَا عمرو: وَتُؤْخَذُ مَنْ سَوَائِمِ مَوَاشِینَا الَّتِی تَرْعَى الشَّجَرَ وَتَرِدُ الْمِیَاهَ؟

عمروبن عاص رضی اللہ عنہ نے مختلف اموال سونا، چاندی ،بکریوں میں اللہ کی طرف سے مقررشدہ صدقات کی تفصیل بیان کی،جب وہ اونٹ کے بارے میں مقررہ صدقہ بتانے لگےتو عبد بولا اے عمرو رضی اللہ عنہ !کیا درختوں سے چرنے والے جانوروں میں سے بھی صدقہ وصول کیاجائے گا؟

فَقُلْتُ: نَعَمْ

عمرو رضی اللہ عنہ بن عاص:جی ہاں !یہ تمام صدقات اللہ کی طرف سے مقررکردہ ہیں ۔

فَقَالَ: وَاللهِ مَا أُرَى قَوْمِی فِی بُعْدِ دَارِهِمْ وَكَثْرَةِ عَدَدِهِمْ یُطِیعُونَ بِهَذَا

عبد:میرایہ گمان نہیں کہ میری قوم اپنے وسیع وعریض ملک اورکثرت تعدادکی بناپران صدقات کوتسلیم کرلے گی۔

قَالَ: فَمَكَثْتُ بِبَابِهِ أَیَّامًا وَهُوَ یَصِلُ إِلَى أَخِیهِ، فَیُخْبِرُهُ كُلَّ خَبَرِی،ثُمَّ إِنَّهُ دَعَانِی یَوْمًا، فَدَخَلْتُ عَلَیْهِ، فَأَخَذَ أَعْوَانُهُ بِضَبُعَیَّ، فَقَالَ: دَعُوهُ فَأُرْسِلْتُ، فَذَهَبْتُ لِأَجْلِسَ فَأَبَوْا أَنْ یَدْعُوَنِی أَجْلِسَ فَنَظَرْتُ إِلَیْهِ فَقَالَ: تَكَلَّمْ بِحَاجَتِكَ، فَدَفَعْتُ إِلَیْهِ الْكِتَابَ مَخْتُومًا فَفَضَّ خَاتَمَهُ وَقَرَأَ حَتَّى انْتَهَى إِلَى آخِرِهِ، ثُمَّ دَفَعَهُ إِلَى أَخِیهِ فَقَرَأَهُ مِثْلَ قِرَاءَتِهِ ، إِلَّا أَنِّی رَأَیْتُ أَخَاهُ أَرَقَّ مِنْهُ،قَالَ: أَلَا تُخْبِرُنِی عَنْ قُرَیْشٍ كَیْفَ صَنَعَتْ؟

عمروبن عاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں میں کچھ دن ان کے ہاں مہمان رہا ،عبددین اسلام کے بارے میں جوباتیں عمرو رضی اللہ عنہ بن عاص سے سنتاجاکراپنے بھائی کوبیان کرتارہاآخرایک دن جیفر نے مجھے دربار میں بلایا،میں اس کے پاس گیاتواس کے اعوان ،مددگاروں نے میرابازوپکڑلیا، وہ کہنے لگااسے چھوڑدولوگوں نے مجھے چھوڑدیا چنانچہ میں بیٹھنے لگاانہوں نے مجھے بیٹھنے سے روک دیامیں نے اس کی جانب دیکھا تووہ کہنے لگا کہوکیاکہناچاہتے ہو؟میں نے اس کورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کامہرزدہ مکتوب دیااس نے مہرتوڑی اوراس نامہ مبارک کوآخرتک پڑھا، اورپھراپنے بھائی عبدکے حوالے کردیااس نے بھی اس نامہ مبارک کواسی طرح پڑھاہاں البتہ میں نے یہ واضح طورپرمحسوس کیاکہ اس کابھائی اس کی نسبت زیادہ رقیق القلب تھااورکہاقریش کے بارے میں بتلاؤان کاان کے ساتھ کیارویہ ہے؟

فَقُلْتُ: تَبِعُوهُ إِمَّا رَاغِبٌ فِی الدِّینِ وَإِمَّا مَقْهُورٌ بِالسَّیْف،قَالَ وَمَنْ مَعَهُ؟قُلْتُ: النَّاسُ قَدْ رَغِبُوا فِی الْإِسْلَامِ، وَاخْتَارُوهُ عَلَى غَیْرِهِ وَعَرَفُوا بِعُقُولِهِمْ مَعَ هُدَى اللهِ إِیَّاهُمْ أَنَّهُمْ كَانُوا فِی ضَلَالٍ، فَمَا أَعْلَمُ أَحَدًا بَقِیَ غَیْرَكَ فِی هَذِهِ الْحَرَجَةِ، وَأَنْتَ إِنْ لَمْ تُسْلِمِ الْیَوْمَ وَتَتْبَعْهُ یُوطِئْكَ الْخَیْلَ، وَیُبِیدُ خَضْرَاءَكَ،فَأَسْلِمْ تَسْلَمْ، وَیَسْتَعْمِلْكَ عَلَى قَوْمِكَ، وَلَا تَدْخُلْ عَلَیْكَ الْخَیْلُ وَالرِّجَالُ

میں نے کہاانہوں نے ان کااتباع کرلیاہے یاتورغبت سے یاتلوارسے مغلوب ہوکر،اس نے پوچھااس کے ساتھ کون لوگ ہیں ؟ میں نے کہالوگوں نے اسلام رغبت سے اختیارکرلیاہے اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم کواختیارکرلیاہے اوراللہ تعالیٰ کی عطاکردہ عقل وفہم کے ساتھ پہچان لیاہے کہ(اس سے قبل)وہ گمراہی پرتھے، پس میں نہیں جانتاکہ تیرے سوا کوئی باقی رہ گیاہواوراگرتم آج اسلام قبول نہیں کروگے اوران کااتباع نہیں کروگے تو(اسلامی)لشکرتمہیں مغلوب کرلے گااورتمہارے سبزہ زاروں کوپامال کرکے رکھ دے گا پس بہتریہی ہے کہ اسلام قبول کرلوسلامتی پاؤگے اورنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تمہیں تمہاری قوم پرحاکم مقررفرمادیں گے اورتم پرسواراورپیادہ فوج کبھی حملہ بھی نہیں کرے گی،

قَالَ: دَعْنِی یَوْمِی هَذَا وَارْجِعْ إِلَیَّ غَدًا فَرَجَعْتُ إِلَى أَخِیهِ، فَقَالَ: یَا عمرو إِنِّی لَأَرْجُو أَنْ یُسْلِمَ إِنْ لَمْ یَضِنَّ بِمُلْكِهِ،حَتَّى إِذَا كَانَ الْغَدُ أَتَیْتُ إِلَیْهِ، فَأَبَى أَنْ یَأْذَنَ لِی، فَانْصَرَفْتُ إِلَى أَخِیهِ، فَأَخْبَرْتُهُ أَنِّی لَمْ أَصِلْ إِلَیْهِ، فَأَوْصَلَنِی إِلَیْهِ،فَقَالَ: إِنِّی فَكَّرْتُ فِیمَا دَعَوْتَنِی إِلَیْهِ، فَإِذَا أَنَا أَضْعَفُ الْعَرَبِ إِنْ مَلَّكْتُ رَجُلًا مَا فِی یَدِی وَهُوَ لَا تَبْلُغُ خَیْلُهُ هَاهُنَا، وَإِنْ بَلَغَتْ خَیْلُهُ أَلْفَتْ قِتَالًا لَیْسَ كَقِتَالِ مَنْ لَاقَى،قُلْتُ: وَأَنَا خَارِجٌ غَدًا،فَلَمَّا أَیْقَنَ بِمَخْرَجِی، خَلَا بِهِ أَخُوهُ، فَقَالَ: مَا نَحْنُ فِیمَا قَدْ ظَهَرَ عَلَیْهِ، وَكُلُّ مَنْ أَرْسَلَ إِلَیْهِ قَدْ أَجَابَهُ، فَأَصْبَحَ فَأَرْسَلَ إِلَیَّ فَأَجَابَ إِلَى الْإِسْلَامِ هُوَ وَأَخُوهُ جَمِیعًا وَصَدَّقَا النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَخَلَّیَا بَیْنِی وَبَیْنَ الصَّدَقَةِ وَبَیْنَ الْحُكْمِ فِیمَا بَیْنَهُمْ، وَكَانَا لِی عَوْنًا عَلَى مَنْ خَالَفَنِی

وہ کہنے لگاآج مجھے سوچ لینے دواورکل صبح میرے پاس آنا، میں اس کے بھائی کے پاس لوٹ آیااس نے کہااے عمرو رضی اللہ عنہ !مجھے امیدہے کہ اگراس نے حکومت کالالچ نہ کیاتووہ مسلمان ہوجائے گا آخرجب صبح ہوئی تومیں اس کے پاس آیا لیکن اس نے مجھے حاضرہونے کی اجازت نہ دی،میں دوبارہ اس کے بھائی کے پاس گیااوراسے خبردی کہ میں اس کے پاس نہیں پہنچ سکااس لیے مجھے وہاں پہنچادو، اس نے جواب دیامیں نے تمہاری دعوت پرغورکیاہے اورمیں عرب لوگوں میں سب سے زیادہ کمزورہوں ، اگر میں اپنے مقبوضہ ملک پرکسی کونائب مقررکردوں تواس صلی اللہ علیہ وسلم کے لشکرمجھ تک نہیں پہنچ سکیں گے اوراگرپہنچ بھی گئے توایسی جنگ سے سامناہوگاکہ اس سے قبل ایسی لڑائی دیکھی نہ گئی ہو گی ، میں نے جواب دیااچھامیں کل واپس چلاجاؤں گاجب اسے میرے جانے کایقین ہوگیا تو اس نے اپنے بھائی سے خلوت میں باتیں کیں اورکہنے لگے جن جن پروہ غالب آچکے ہیں ہم ان کے برابربھی نہیں اورجس جس کی طرف انہوں نے مکتوب مبارک بھیجے ہیں ان سب نے اتباع کرلیاہے،آخرصبح ہوئی تومجھے بلابھیجااس نے اوراس کے بھائی دونوں نے اسلام قبول کرلیااورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تصدیق کی اورمجھےصدقہ وصول کرنے اورلوگوں کے درمیان حکم(اسلامی)قوانین نافذ کرنے کی اجازت دے دی اورجس نے بھی میری مخالفت کی ان دونوں نے اس کے خلاف مجھ سے تعاون کیا۔[39]

لوگ بادشاہوں کے مذہب پر ہوتے ہیں ،جب دونوں بادشاہوں نے اسلام قبول کرلیاتوان کی رعایامیں بہت سے لوگوں نے اسلام قبول کرلیااورجنہوں نے اسلام قبول نہ کیاان پرجزیہ مقرر کر دیا گیا۔[40]

شاہ روم یاحاکم بصریٰ کی طرف نامہ مبارک

أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بَعَثَ الحارث بن عمیر الأزدی أَحَدَ بَنِی لِهْبٍ بِكِتَابِهِ إِلَى الشَّامِ، إِلَى مَلِكِ الرُّومِ أَوْ بُصْرَى، فَعَرَضَ لَهُ شرحبیل بن عمرو الغسانی، فَأَوْثَقَهُ رِبَاطًا، ثُمَّ قَدَّمَهُ فَضَرَبَ عُنُقَهُ، وَلَمْ یُقْتَلْ لِرَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ رَسُولٌ غَیْرُه

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنولہب کے ایک آدمی حارث بن عمیرازدی رضی اللہ عنہ کے ہاتھ شام کی طرف شاہ روم یاحاکم بصریٰ کی طرف ایک نامہ مبارک روانہ فرمایا،شرحبیل بن عمرو غسانی نے قاصدکوگرفتارکرلیااوراسے باندھ دیاپھرآگے بڑھ کراس کی گردن ماردی،اس قاصدکے سوارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاکوئی قاصدقتل نہیں کیاگیا[41]

بنوحمیرنے یمن پرعرصہ تک حکومت کی تھی مگررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے وقت خاندان حمیرکی مرکزی بادشاہت کاخاتمہ ہوچکاتھااورہرعلاقے کے حمیری حکمران اورروساء وامراء نے خودمختاری کادعویٰ کرکے اپنااثررسوخ قائم کرلیاتھااس طرح وہاں طوائف الموکی کی کیفیت پیداہوگئی تھی،یہ لوگ برائے نام بادشاہ(ملوک)کہلاتے تھے،عربی میں ان کالقب ذواورقیل تھا،صلح حدیبیہ کے بعدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب مختلف حکمرانوں اوررئیسوں کودعوت اسلام کے خطوط ارسال فرمائے توملوک حمیرکے نام بھی متعدد خطوط بھیجے،ان میں قابل ذکرملوک اورقبائل حمیرکے نام یہ ہیں ۔

حارث،مسروح،نعیم بن عبدکلال(ان تینوں کوایک خط تحریرکیاگیا)مالک ذی یزن،عمیرڈومران۔زرعہ بن سیف ذی یزن۔نعمان قیل ذی رعین۔بنوقہد(حمیرکی ایک شاخ) بنوعمروبن حمیر،عبدالعزیزبن سیف ذی یزن۔عریب بن عبدکلال الحمیری،حجرذی عین۔ذوالکلاع بن ناکور۔حوشب بن طنحیہ المعروف بذی ظلع۔شرجیل بن عبدکلال۔

حمیرکے حارث،مسروح،نعیم بن عبدکلال کوخط

ان میں سے جن ملوک حمیرپررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خصوصی توجہ فرمائی وہ حارث،مسروح،نعیم بن عبدکلال تھے(شایدآپ صلی اللہ علیہ وسلم کوان کی سلامت روی پرپورااطمینان تھا)

وَبَعَثَ عَیَّاشِ بْنِ أَبِی رَبِیعَةَ الْمَخْزُومِیِّ بِكِتَابٍ إِلَى الْحَارِثِ وَمَسْرُوحٍ وَنُعَیْمِ بْنِ عَبْدِ كُلالٍ مِنْ حِمْیَرَ

چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عیاش بن ابو ربیعہ مخزومی کومکتوب مبارک دے کرحمیرکےحارث،مسروح،نعیم بن عبدکلال کی طرف روانہ فرمایا۔

آپ نے ان کوجومکتوب مبارک بھیجااس کامضمون یوں تھا۔

إِلَى الْحَارِثِ وَمَسْرُوحٍ وَنُعَیْمِ بْنِ عَبْدِ كُلالٍ مِنْ حِمْیَرَ

سَلْمٌ أَنْتُمْ مَا آمَنْتُمْ بِاللهِ وَرَسُولِهِ

وَأَنَّ اللهَ وَحْدَهُ لا شَرِیكَ لَهُ بَعَثَ مُوسَى بِآیَاتِهِ وَخَلَقَ عِیسَى بِكَلِمَاتِهِ قَالَتِ الْیَهُودُ عُزَیْرٌ ابْنُ اللهِ وَقَالَتِ النَّصَارَى اللهُ ثَالِثُ ثَلاثَةٍ عِیسَى ابْنُ اللهِ

حمیرکے حارث،مسروح،نعیم بن عبدکلال کے نام۔

تم سلامت رہوجب تک تمہارااللہ اوراس کے رسول پرایمان ہو۔

اللہ وحدہ لاشریک نے موسیٰ علیہ السلام کواپنی آیات کے ساتھ مبعوث فرمایااورعیسیٰ علیہ السلام کواپنے کلمہ سے پیدافرمایا،یہودنے عزیرکواللہ کابیٹابنالیااورنصاریٰ کہنے لگے کہ اللہ تین میں کاتیسراہے اورعیسیٰ اللہ کے بیٹے ہیں ۔[42]

ان لوگوں کوجب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کانامہ مبارک موصول ہواتوانہوں نے فوراًاسلام قبول کرلیااوراس سلسلے میں ایک عہدنامہ لکھواکرمالک رضی اللہ عنہ بن مرارہ الرھادی کے ہاتھ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بھیجا

مَالِكُ بْنُ مُرَارَةَ الرَّهَاوِیُّ رَسُولُ مُلُوكِ حِمْیَرَ بِكِتَابِهِمْ وَإِسْلامِهِمْ. وَذَلِكَ فِی شَهْرِ رَمَضَانَ سَنَةَ تِسْعٍ. فَأَمَرَ بِلالا أَنْ یُنْزِلَهُ وَیُكْرِمَهُ وَیُضَیِّفَهُ

مالک رضی اللہ عنہ بن مرارہ ان لوگوں کے اسلام قبول کرنے کی اطلاع اوران کاخط لے کررمضان نوہجری میں بارگاہ رسالت میں حاضر ہوئے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کاغایت درجہ اکرام کیااوربلال رضی اللہ عنہ کوخصوصی طورپران کی ضیافت پرمامورفرمایا۔[43]

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جن دوسرے ملوک حمیرکوخطوط بھیجے تھے ان میں سے نعمان قیل ذی رعین ،معافرماہمدان اورزرعہ ذی یزن نے بھی اسلام قبول کرلیااوراپنے اسلام لانے کی اطلاع مالک رضی اللہ عنہ بن مرارہ الرھادی کے ذریعے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کوبھجوائی،آپ نے یہ اطلاع ملنے پرمعاذ رضی اللہ عنہ بن جبل انصاری کی سرکردگی میں ایک وفدیمن روانہ کیاجس کے ہاتھ ایک مکتوب گرامی بھی بھیجاجس میں جزیہ،زکوٰة اوردیگرامورکے بارے میں تفصیلی احکام تھے،اس وفدکے فرائض میں بنوحمیرکواسلام کی تعلیم دینااوران سے جزیہ وزکوٰة وصول کرناشامل تھا،اپنے نامہ گرامی میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے زرعہ بن سیف ذی یزن کوخاص طورپرتاکیدکی تھی کہ وہ جزیہ اورزکوٰة کی وصولی کے سلسلے میں آپ کے سفیروں سے پورا پورا تعاون کریں ۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کویہ خط تحریرفرمایاتھا

مِنْ مُحَمَّدٍ رَسُولِ اللهِ النَّبِیِّ، إلَى الْحَارِثِ بْنِ عَبْدِ كُلَالٍ، وَإِلَى نُعَیْمِ بْنِ عَبْدِ كُلَالٍ، وَإِلَى النُّعْمَانِ، قَیْلِ ذِی رُعَیْنٍ وَمَعَافِرَ وَهَمْدَانَ.

 أَمَّا بَعْدُ ذَلِكُمْ، فَإِنِّی أَحْمَدُ إلَیْكُمْ اللهَ الَّذِی لَا إلَهَ إلَّا هُوَ، أَمَّا بَعْدُ، فَإِنَّهُ قد وَقع بِنَا رَسُولُكُمْ مُنْقَلَبَنَا مِنْ أَرْضِ الرُّومِ، فَلَقِیَنَا بِالْمَدِینَةِ، فَبَلَّغَ مَا أرسلتم بِهِ، وخبّرا مَا قَبْلَكُمْ، وَأَنْبَأْنَا بِإِسْلَامِكُمْ وَقَتْلِكُمْ الْمُشْرِكِینَ، وَأَنَّ اللهَ قَدْ هَدَاكُمْ بِهُدَاهُ،

 إنْ أَصْلَحْتُمْ وَأَطَعْتُمْ اللهَ وَرَسُولَهُ، وَأَقَمْتُمْ الصَّلَاةَ، وَآتَیْتُمْ الزَّكَاةَ، وَأَعْطَیْتُمْ مِنْ الْمَغَانِمِ خُمُسَ اللهِ، وَسَهْمَ الرَّسُولِ وَصَفِیَّهُ ، وَمَا كُتِبَ عَلَى الْمُؤْمِنِینَ مِنْ الصَّدَقَةِ مِنْ الْعَقَارِ ، عُشْرَ مَا سَقَتْ الْعَیْنُ وَسَقَتْ السَّمَاءُ، وَعَلَى مَا سَقَى الْغَرْبُ نِصْفُ الْعُشْرِ، وَأَنَّ فِی الْإِبِلِ الْأَرْبَعِینَ ابْنَةَ لَبُونٍ، وَفِی ثَلَاثِینَ مِنْ الْإِبِلِ ابْنُ لَبُونٍ ذَكَرٍ، وَفِی كُلِّ خُمُسٍ مِنْ الْإِبِلِ شَاةٌ، وَفِی كُلِّ عَشْرٍ مِنْ الْإِبِلِ شَاتَانِ، وَفِی كُلِّ أَرْبَعِینَ مِنْ الْبَقَرِ بَقَرَةٌ، وَفِی كُلِّ ثَلَاثِینَ مِنْ الْبَقَرِ تَبِیعٌ، جَذَعٌ أَوْ جَذَعَةٌ، وَفِی كُلِّ أَرْبَعِینَ مِنْ الْغَنَمِ سَائِمَةٌ وَحْدَهَا، شَاةٌ، وَأَنَّهَا فَرِیضَةُ اللهِ الَّتِی فَرَضَ عَلَى الْمُؤْمِنِینَ فِی الصَّدَقَةِ، فَمَنْ زَادَ خَیْرًا فَهُوَ خَیْرٌ لَهُ، وَمَنْ أَدَّى ذَلِكَ وَأَشْهَدَ عَلَى إسْلَامِهِ، وَظَاهَرَ الْمُؤْمِنِینَ عَلَى الْمُشْرِكِینَ، فَإِنَّهُ مِنْ الْمُؤْمِنِینَ، لَهُ مَا لَهُمْ، وَعَلَیْهِ مَا عَلَیْهِمْ، وَلَهُ ذِمَّةُ اللهِ وَذِمَّةُ رَسُولِهِ، وَإِنَّهُ مَنْ أَسْلَمَ مِنْ یَهُودِیٍّ أَوْ نَصْرَانِیٍّ، فَإِنَّهُ مِنْ الْمُؤْمِنِینَ، لَهُ مَا لَهُمْ، وَعَلَیْهِ مَا عَلَیْهِمْ، وَمَنْ كَانَ عَلَى یَهُودِیَّتِهِ أَوْ نَصْرَانِیَّتِهِ فَإِنَّهُ لَا یُرَدُّ عَنْهَا، وَعَلَیْهِ الْجِزْیَةُ، عَلَى كُلِّ حَالٍ ذَكَرٍ أَوْ أُنْثَى، حُرٍّ أَوْ عَبْدٍ، دِینَارٌ وَافٍ، مِنْ قِیمَةِ الْمَعَافِرِ أَوْ عِوَضُهُ ثِیَابًا، فَمَنْ أَدَّى ذَلِكَ إلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَإِنَّ لَهُ ذِمَّةُ اللهِ وَذِمَّةُ رَسُولِهِ، وَمَنْ مَنَعَهُ فَإِنَّهُ عَدُوٌّ للَّه وَلِرَسُولِهِ.

 أَمَّا بَعْدُ، فَإِنَّ رَسُولَ اللهِ مُحَمَّدًا النَّبِیَّ أَرْسَلَ إلَى زُرْعَةَ ذِی یَزَنٍ أَنْ إذَا أَتَاكُمْ رُسُلِی فَأُوصِیكُمْ بِهِمْ خَیْرًا: مُعَاذُ بْنُ جَبَلٍ، وَعَبْدُ اللهِ بْنُ زَیْدٍ، وَمَالِكُ بْنُ عُبَادَةَ، وَعُقْبَةُ بْنُ نَمِرٍ، وَمَالِكُ بن مرّة، وأصحابهم وَأَنْ اجْمَعُوا مَا عِنْدَكُمْ مِنْ الصَّدَقَةِ وَالْجِزْیَةِ مِنْ مُخَالِیفِكُمْ، وَأَبْلِغُوهَا رُسُلِی، وَأَنَّ أَمِیرَهُمْ مُعَاذُ بْنُ جَبَلٍ، فَلَا یَنْقَلِبَنَّ إلَّا رَاضِیًا، أَمَّا بَعْدُ. فَإِنَّ مُحَمَّدًا یَشْهَدُ أَنْ لَا إلَهَ إلَّا اللهُ وَأَنَّهُ عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ،

ثُمَّ إنَّ مَالِكَ بْنَ مُرَّةَ الرَّهَاوِیَّ قَدْ حَدَّثَنِی أَنَّكَ أَسْلَمْتَ مِنْ أَوَّلِ حِمْیَرَ، وَقَتَلْتَ الْمُشْرِكِینَ، فَأَبْشِرْ بِخَیْرِ وَآمُرُكَ بِحِمْیَرَ خَیْرًا، وَلَا تَخُونُوا وَلَا تَخَاذَلُوا، فَإِنَّ رَسُولَ اللهِ هُوَ وَلِیُّ غَنِیِّكُمْ وَفَقِیرِكُمْ، وَأَنَّ الصَّدَقَةَ لَا تَحِلُّ لِمُحَمَّدِ وَلَا لِأَهْلِ بَیْتِهِ، إنَّمَا هِیَ زَكَاةٌ یُزَكَّى بِهَا عَلَى فُقَرَاءِ الْمُسْلِمِینَ وَابْنِ السَّبِیلِ، وَأَنَّ مَالِكًا قَدْ بَلَّغَ الْخَبَرَ، وَحَفِظَ الْغَیْبَ، وَآمُرُكُمْ بِهِ خَیْرًا، وَإِنِّی قَدْ أَرْسَلْتُ إلَیْكُمْ مِنْ صَالِحِی أَهْلِی وَأُولِی دِینِهِمْ وَأُولِی عِلْمِهِمْ، وَآمُرُكَ بِهِمْ خَیْرًا، فَإِنَّهُمْ مَنْظُورٌ إلَیْهِمْ،

وَالسَّلَامُ عَلَیْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ.

محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم )کی جانب سے حارث بن عبدکلال،نعیم بن عبدکلال،نعمان قیل ذی رعین ،معافراورہمدان کے نام

امابعد!میں اس اللہ کی حمدوثناکرتاہوں جس کے سواکوئی معبودنہیں ،پھراس کے بعدتم کومعلوم ہوکہ تمہاراایلچی ہمارے پاس اس وقت پہنچاجب ہم رومیوں کے علاقے(تبوک)سے واپس آئے اورمدینہ منورہ میں ہماری تمہارے ایلچی سے ملاقات ہوئی اورتمہارے ناموں کوہم نے ملاحظہ کیااورتمہارے اسلام قبول کرنے اورمشرکین کوقتل کرنے کی خبرمعلوم ہوئی ،بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے اپنی خاص ہدایت تمہارے شامل حال فرمائی۔

اب تم کولازم ہے کہ اعمال صالحہ اختیارکرو اوراللہ اوراس کے رسول کی اطاعت میں سرگرم رہو،نمازقائم کرو،زکوٰة اداکرو اورجو مال غنیمت تم کوحاصل ہواس میں سے پانچواں حصہ اللہ اوررسول کانکالواورنہری اوربارانی زمینوں میں سے عشراورچاہی میں سے نصف عشراداکرواورچالیس اونٹوں میں سے ایک بنت لبون (وہ مادہ جودوسال کی عمرپوری کرکے تیسرے سال میں داخل ہوچکی ہوکیونکہ اس کی ماں دودھ دینے لگتی ہے)اورتیس میں سے ایک ابن لبون(ایسے ہی نر کوکہتے ہیں )اورپھرہرپانچ اونٹوں میں سے ایک بکری زکوٰة کی دیاکرواور ہر دس اونٹوں میں سے دو بکریاں زکوة کی دیا کرو،اورچالیس گائیوں میں سے ایک گائے اورتیس گائیوں میں سے ایک جذعہ(وہ گائے جس کی عمرچارسال ہوچکی ہواورپانچواں شروع ہوگیاہو)اداکرواورچالیس بکریوں میں سے ایک بکری اداکروبشرطیکہ یہ سب جانورجنگل میں چرتے ہوں ،یہ اللہ کافریضہ ہے جواس نے مسلمانوں پرقائم کیاہے اورجواس سے زیادہ دے گاوہ اس کے لیے بہترہے اورجوفقط اسی کواداکرے گااوراسلام پرقائم رہ کر مسلمانوں کی مشرکوں کے مقابلہ میں مددکرے گااس کے لئے وہی منافع ہیں جومومنوں کے لئے ہیں اوروہی سزائیں ہیں جوان کے لئے ہیں اوراللہ اور رسول کی اس کے لئے ذمہ داری ہے ،اورجویہودی یانصرانی مسلمان ہوگااس پربھی وہی احکام جاری ہوں گے جومسلمانوں پرجاری ہوتے ہیں اورجویہودی یا نصرانی اپنے مذہب پرقائم رہے اس پرجزیہ ہے ،ہربالغ مردوعورت اورآزادوغلام پرایک پورا دیناریااس کی قیمت کے برابرکپڑے یااورچیز،پس یہ جزیہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اداکرے گااس کے لئے اللہ اوررسول کاذمہ ہے اورجونہ دے گاوہ اللہ اوررسول کادشمن ہے۔

اورزرعہ دویزن کومعلوم ہوکہ محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بھیجے ہوئے لوگ جب تمہارے پاس پہنچیں توتم ان کے ساتھ اچھاسلوک کرنا،یہ لوگ معاذبن جبل اورعبداللہ بن زیداورمالک بن عبادہ اورعقبہ بن نمراورمالک بن مرہ اوران کے ساتھی ہیں اوراب سب کاامیرمعاذبن جبل ہیں ،جب یہ لوگ تمہارے پاس پہنچیں توتم زکوٰة اورجزیہ اپنے مخالفین سے وصول کرکے ان لوگوں کے ہاتھوں میرے پاس روانہ کردینااوران لوگوں کواپنے سے راضی رکھنا،بیشک محمد اللہ کی وحدانیت اور اپنے اللہ کے بندے اور رسول ہونے پر گواہ ہے۔

اورمالک بن مرہ رہاوی کومعلوم ہوکہ مجھ کوخبرپہنچی ہے کہ تم قوم حمیرمیں سب سے پہلے مسلمان ہوئے اورتم نے مشرکین کوقتل کیاہے پس تم کوخیروبرکت کی بشارت ہواورتمہاری قوم حمیرکے متعلق میں تم کوبھلائی کرنے کاحکم کرتاہوں ،اورتم آپس میں ایک دوسرے کی خیانت اورترک مددنہ کرنااوراللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم تمہارے غنی اورفقیرسب کے مولیٰ ہیں اوریہ جان لوکہ زکوٰة محمد صلی اللہ علیہ وسلم اوراہل بیت محمدکے لئے حلال نہیں ہے ،یہ غریب مسلمانوں اورمسافروں کاحق ہے بیشک مالک کے پاس خبر پہنچائی اور غیب کی حفاظت اور میں تمہیں ان کے ساتھ بھلائی کا حکم دیتاہوں ،اورمیں نے یہ لوگ نہایت نیک ،دین داراوراہل علم تمہارے پاس روانہ کئے ہیں تم ان کے ساتھ بھلائی اورنیکی کرنا۔

والسلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ۔[44]

سلاطین وامراء کونامہائے مبارک بھیجنے کانتیجہ

صلح حدیبیہ کے بعداورفتح مکہ سے قبل جن سلاطین وامراء کوآپ نے دعوت اسلام قبول کرنے کے مکتوب روانہ فرمائے، آپ کے اس کارنامے میں ایک عجیب قوت اورعظیم الشان بہادری کااظہارتھاکیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل مکہ سے صلح کرلی تھی لیکن مکہ ابھی فتح نہیں ہواتھااورنہ ہی دائرہ اسلام میں داخل ہوئے تھے ،ان حالات میں ان خطوط کادنیاکی ممتازشخصیتوں خاص کرقیصرروم ہرقل،شاہ ایران کسریٰ خسروپرویز اورشاہ مصر مقوقس کی طرف تبلیغی دعوت نامے روانہ فرماناکی طرف بھیجناکوئی معمولی کام نہ تھا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ کوئی اس کام کی ہمت پیدانہیں کرسکتاتھاکیونکہ تمام بادشاہ اپنے اپنے ملکوں کے بہت طاقتواربادشاہ تھے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ان کی طرف اپنے قاصدوں کو بھیجنے کاواقعہ پہلاواقعہ تھالیکن حقیقت یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے قاصدوں کے بھیجنے سے پہلے اپنے عزم صادق اورقلب ثابت سے اپنی رسالت کی قوت اوراللہ تعالیٰ کی مددپرکامل اعتمادرکھتے تھے،ان خطوط سے یہ نتائج ظاہرہوئے۔

x نبی صلی اللہ علیہ وسلم کوان ملوک وامراء کی آپ کے بارے میں سیاست اوراپنی طرف توجہ کاحال معلوم ہوسکا،اس طرح گویاان خطوط مبارک نے ان سلاطین کی اندرونی کیفیت معلوم کرنے کے لئے انکی نبضوں پرہاتھ رکھنے کاکام دیا۔

x شاہ حبشہ نجاشی نے اسلام قبول کرلیااگرچہ وہ اپنی قوم کواسلام لانے پرآمادہ نہ کرسکا۔

x حاکم یمن باذان نے اپنے ساتھیوں سمیت اسلام قبول کرلیا۔

x والی بحرین منذربن ساویٰ نے اسلام قبول کرلیا۔

x عمان کے دونوں بادشاہوں جیفروعبدپسران جلندی اوران کے ساتھ بہت سی رعایانے اسلام قبول کرلیا۔

x شاہ مصرمقوقس جومذہباًنصرانی تھا نے اگرچہ اسلام قبول نہ کیالیکن اس نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنے جوابی مکتوب میں نرم طرزعمل اختیارکرکے اورآپ کی خدمت میں تحائف بھیج کرآپ سے اپنی عقیدت ومحبت کااظہارکیا۔

x ان خطوط سے اسلام کوبہت فائدہ پہنچااوراس کی شان بلندہوگئی،عالمی حکومتوں میں اسلام کادینی وسیاسی وقاربلندہوگیا۔

x رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں کہاجاتاہے کہ آپ صرف عرب کے لئے نبی بناکربھیجے گئے تھے اہل کتاب( یہودونصاریٰ) کے لئے نہیں ،ان کایہ گمان غلط ہے کیونکہ اگر ایسا ہوتا توپھر آپ کویہودونصاریٰ اورمجوس کودعوت اسلام کیوں دیتے ،ان پرجزیہ کیوں عائدفرماتے جیساکہ نصاریٰ نجران پرجزیہ مقررفرمایا،اہل یمن جویہودی تھے کے ہر بالغ سے سالانہ ایک دینارجزیہ وصول کیا۔اورقرآن میں واضح طورپراعلان کردیاگیا

قُلْ یٰٓاَیُّھَا النَّاسُ اِنِّىْ رَسُوْلُ اللهِ اِلَیْكُمْ جَمِیْعَۨا۔۔۔۝۱۵۸ [45]

ترجمہ:اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم !آپ کہہ دیں کہ مجھے تمام عالم کے لئے رسول بناکربھیجاگیاہے ۔

اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم اہل کتاب کوعلی الاعلان اسلام کی دعوت دیتے تھے۔

قُلْ یٰٓاَھْلَ الْكِتٰبِ تَعَالَوْا اِلٰى كَلِمَةٍ سَوَاۗءٍؚبَیْنَنَا وَبَیْنَكُمْ اَلَّا نَعْبُدَ اِلَّا اللهَ وَلَا نُشْرِكَ بِهٖ شَـیْـــًٔـا وَّلَا یَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضًا اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللهِ ۔۔۔ ۝۶۴ [46]

ترجمہ:اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کہو ! اے اہل کتاب ، آؤ ایک ایسی بات کی طرف جو ہمارے اور تمہارے درمیان یکساں ہے یہ کہ ہم اللہ کے سوا کسی کی بندگی نہ کریں ، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھیرائیں اور ہم میں سے کوئی اللہ کے سوا کسی کو اپنا رب نہ بنا لے ۔

اس سے ثابت ہوتاہے کہ آپ صرف عرب کے لئے نہیں بلکہ تمام عالم کے لئے رسول اوررحمت العالمین بناکربھیجے گئے تھے۔

صلح حدیبیہ کے بعدکی فوجی سرگرمیاں  غزوہ ذی قرد(الغابہ) ربیع الاول چھ ہجری(جولائی۶۲۷ء)

 لَا یَخْتَلِفُ أَهْلُ السِّیَرِ أَنَّ غَزْوَةَ ذِی قَرَدٍ كَانَتْ قَبْلَ الْحُدَیْبِیَةِ

قرطبی رحمہ اللہ کہتے ہیں اہل سیراس پرمتفق ہیں کہ غزوہ ذی قردیاالغابہ صلح حدیبیہ سے پہلے واقع ہوا تھا ۔[47]

قَالَ الْبُخَارِیُّ رَحِمَهُ اللهُ بَعْدَ قِصَّةِ الْحُدَیْبِیَةِ وَقَبْلَ خَیْبَرَ غَزْوَةُ ذِی قَرَدٍ وَهِیَ الْغَزْوَةُ الَّتِی أَغَارُوا عَلَى لِقَاحِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَبْلَ خَیْبَرَ بِثَلَاثٍ

امام بخاری رحمہ اللہ کہتے ہیں حدیبیہ کے واقع کے بعداورغزوہ خیبرسے پہلے غزوہ ذی قردواقع ہوا،یہ وہ غزوہ ہےجونبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو غزوہ خیبرسے تین دن پہلے پیش آیاتھا۔[48]

قَبْلَ خَیْبَرَ بِثَلَاثٍ

اورصحین میں ہےیہ غزوہ خیبرسے تین دن پہلے اورغزوہ حدیبیہ کے بیس دن بعد واقع ہواتھا۔[49]

مَا فِی الصَّحِیحِ مِنَ التَّارِیخِ لِغَزْوَةِ ذِی قَرَدٍ أَصَحُّ مِمَّا ذَكَرَهُ أَهْلُ السِّیَرِ

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لکھاہےجوصحیح میں آیاہے وہ اہل سیرکے قول سے زیادہ صحیح ہے۔[50]

قَالُوا: كانت لِقَاحٌ رَسُول اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَهِیَ عِشْرُونَ لِقْحَةً ترعى بالغابة

اس غزوہ کاسبب یہ ہوارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دودھ دینے والی بیس اونٹنیاں جن کے حال ہی میں بچے پیدا ہوئے تھے احدکے اطراف غابہ (جنگل) میں چرنے کے لئے بھیج رکھے تھے۔[51]

تَرْعَى بِذِی قَرَدَ

جبکہ سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دودھ دینے والی اونٹنیاں ذات القردمیں چراکرتی تھیں ۔[52]

میرے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا غلام رباح ،اونٹوں کا چرواہابنوغفارکاایک شخص ذرابن ابی ذراوراس کی بیوی لیلیٰ اورسلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ بھی تھے ،

وَخَرَجْتُ بِفَرَسٍ لِطَلْحَةَ بْنِ عُبَیْدِ اللهِ كُنْتُ أُرِیدُ أَنْ أُنَدِّیَهُ مَعَ الإِبِلِ،فأَغَارَ عُیَیْنَةُ بْنُ حِصْنٍ الْفَزَارِیُّ لیلة الأربعاء،فِی أَرْبَعِینَ فَارِسًا فاستاقوها، وقتلوا ابن أبی ذروَاحْتَمَلُوا امْرَأَتَهُ، وَسَاقُوا لِقَاحَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ

سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ کہتے ہیں یں طلحہ رضی اللہ عنہ بن عبیداللہ کاگھوڑابھی لے گیاتھامیراارادہ تھاکہ اسے بھی اونٹوں کے ہمراہ پانی پلاؤں گا، عیینہ بن حصن نے غطفان کے چالیس سواروں کے ساتھ صبح کے وقت اچانک چراگاہ پر چھاپامارا اورابن ابی ذر کو جواونٹنیوں کی رکھوالی پرمتعین تھا قتل کر ڈالا اوراس کی بیوی کواسیرکرلیااوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ساری اونٹنیاں ہانک کرلے گیا۔[53]

فَقُلْتُ: یَا رَبَاحُ اقْعُدْ عَلَى هَذَا الْفَرَسِ فَأَلْحِقْهُ بِطَلْحَةَ،وَأَخْبِرْ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَدْ أُغِیرَ عَلَى سَرْحِهِ، قَالَ: وَقُمْتُ عَلَى تَلٍّ فَجَعَلْتُ وَجْهِی مِنْ قِبَلِ الْمَدِینَةِ ثُمَّ نَادَیْتُ ثَلاثَ مَرَّاتٍ: یَا صَبَاحَاهُ!ثُمَّ اتَّبَعْتُ الْقَوْمَ وَمَعِی سَیْفِی وَنَبْلِی،فَجَعَلْتُ أَرْمِیهِمْ وَأَعْقِرُ بِهِمْ،وَذَلِكَ حِینَ یَكْثُرُ الشَّجَرُ فَإِذَا رَجَعَ إِلَیَّ فار جَلَسْتُ لَهُ فِی أَصْلِ شَجَرَةٍ ثُمَّ رَمَیْتُ. فَلا یُقْبِلُ عَلَیَّ فَارِسٌ إِلا عَقَرْتُ بِهِ،فَجَعَلْتُ أَرْمِیهِمْ وَأَقُولُ:

سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ کہتے ہیں میں نے رباح سے کہاکہ گھوڑے پربیٹھ کراسے طلحہ رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچادواور جلدازجلداس حادثے کی خبر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پہنچا دو کہ ان کے جانورلوٹ لئے گئے ہیں ،پھرمیں ایک ٹیلے پر کھڑے ہوکرمدینہ طیبہ کی طرف چہرہ کرکے تین بار باآواز بلندپکارا ہائے صبح کاحملہ!اورپھر (بڑی شجاعت اور بہادری کامظاہرہ کرتے ہوئے) تنہاحملہ آوروں فزاریوں کے تعاقب میں چل پڑا ،میرے پاس تلواربھی تھی اورتیربھی تھے،چنانچہ تعاقب کرتے ہوئے میں ان پرتیر برساتا اورانہیں زخمی کرتا رہا ، میں ایسااس وقت کرتاجب درختوں کی کثرت ہوتی تھی جب کوئی سوارمیری طرف پلٹتاتومیں درخت کی جڑمیں بیٹھ کراسے تیرمارتاتھاجوسوارمیری طرف متوجہ ہوااسے زخمی کردیا میں انہیں تیرمارتاتھااوریہ شعر پڑھتا جاتا تھا ۔

أَنَا ابْنُ الأَكْوَعْ ،وَالیَوْمُ یَوْمُ الرُّضَّعْ

میں اکوع کابیٹاہوں ،آج معلوم ہوجائے گاکہ کس نے شریف عورت کادودھ پیاہے اورکون کمینہ ہے

فَإِذَا كُنْتُ فِی الشَّجَرَةِ أَحْدَقْتُهُمْ بِالنَّبْلِ. وَإِذَا تَضَایَقَتِ الثَّنَایَا عَلَوْتُ الْجَبَلَ فَرَمَیْتُهُمْ بِالْحِجَارَةِ فَمَا زَالَ ذَلِكَ شَأْنِی وَشَأْنَهُمْ أَتَّبِعُهُمْ وَأَرْتَجِزُ حَتَّى مَا خَلَقَ اللهُ شَیْئًا مِنْ ظَهْرِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ – إِلا خَلَّفْتُهُ وَرَاءَ ظَهْرِی وَاسْتَنْقَذْتُهُ مِنْ أَیْدِیهِم،ثُمَّ لَمْ أَزَلْ أَرْمِیهِمْ حَتَّى أَلْقَوْا أَكْثَرَ مِنْ ثَلاثِینَ رُمْحًا وَأَكْثَرَ مِنْ ثَلاثِینَ بُرْدَةً یَسْتَخِفُّونَ مِنْهَا وَلا یُلْقُونَ مِنْ ذَلِكَ شَیْئًا إِلا جَعَلْتُ عَلَیْهِ حِجَارَةً وَجَمَعْتُهُ عَلَى طَرِیقِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّم

جب میں درخت کی آڑمیں ہوتاتوانہیں تیروں سے گھیرلیتاتھامیرابرابریہی حال رہااورجب دشمن پہاڑکے ایک تنگ راستے میں داخل ہوئے تومیں پہاڑکے اوپرچڑھ گیااوروہاں سے پتھر لڑھکانے لگااوررجزپڑھتاتھاتاآنکہ میں نبی کریم کے ان جانوروں کوجنہیں اللہ نے پیداکیاتھااپنی پشت پرکرلیااوران لوگوں کے ہاتھوں سے چھڑالیا ، مگرمیں نے پھربھی ان کا پیچھانہ چھوڑااورلگاتاران پرتیراندازی کرتے رہاجس سے دشمن سراسمہ ہوگیا اور انہوں نے اپنابوجھ کم کرکے تیزرفتاری سے فرارہونے کے لئے تیس سے زیادہ یمنی چادریں اورتیس سے زیادہ نیزے پھینک دیئےمگروہ انہیں سمیٹنے کے بجائے ان پربطور نشان پتھررکھتا گیا تاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پہچان لیں کہ یہ مال غنیمت ہے،

حَتَّى إذا امْتَدَّ الضُّحَى أَتَاهُمْ عُیَیْنَةُ بْنُ بَدْرٍ الْفَزَارِیُّ مَدَدًا لَهُمْ. وَهُمْ فِی ثَنِیَّةٍ ضَیِّقَةٍ. ثُمَّ عَلَوْتُ الْجَبَلَ فَأَنَا فَوْقَهُمْ،قَالَ عُیَیْنَةُ: مَا هَذَا الَّذِی أَرَى؟قَالُوا: لَقِینَا مِنْ هَذَا الْبَرْحِ مَا فَارَقْنَا بِسَحَرٍ حَتَّى الآنَ وَأَخَذَ كُلَّ شَیْءٍ فِی أَیْدِینَا وَجَعَلَهُ وَرَاءَ ظَهْرِهِ،فَقَالَ عُیَیْنَةَ: لَوْلا أَنَّ هَذَا یَرَى أَنَّ وَرَاءَهُ طَلَبًا لَقَدْ تَرَكَكُمْعیینہ،ثُمَّ قَالَ: لِیَقُمْ إِلَیْهِ نَفَرٌ مِنْكُمْ،فَقَامَ إِلَیَّ نَفَرٌ مِنْهُمْ أَرْبَعَةٌ فَصَعِدُوا فِی الْجَبَلِ فَلَمَّا أَسْمَعْتُهُمُ الصَّوْتَ قُلْتُ لَهُمْ: أَتَعْرِفُونَنِی؟قَالُوا: وَمَنْ أَنْتَ؟قُلْتُ: أَنَا ابْنُ الأَكْوَعِ. وَالَّذِی كَرَّمَ وَجْهَ مُحَمَّدٍلا یَطْلُبُنِی رَجُلٌ مِنْكُمْ فَیُدْرِكَنِی وَلا أَطْلُبُهُ فَیَفُوتَنِی! فَقَالَ رَجُلٌ مِنْهُمْ: إِنَّ ذَا ظَنٌّ،قَالَ: فَمَا بَرِحْتُ مَقْعَدِی ذَلِكَ حَتَّى نَظَرْتُ إِلَى فَوَارِسِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَتَخَلَّلُونَ الشَّجَرَ

جب صبح کی روشنی پھیل گئی توان کی مددکے لئے عیینہ بن بدرالفزاری آیاوہ لوگ پہاڑکی ایک تنگ گھاٹی میں تھے میں بھی ایک چوٹی پرچڑھ گیااوران لوگوں کے اوپرتھا عیینہ نے کہایہ کیاہے جومجھے نظرآرہاہے؟انہوں نے کہاکہ اسی سے ہمیں ایذاپہنچی ہے اس نے ہمیں صبح سے اس وقت تک نہیں چھوڑاجب تک وہ سب کچھ واپس نہیں لے لیاجوہمارے ہاتھ میں تھااوراسے اپنے پیچھے کرلیا، عیینہ نے کہاکہ کہیں ایسانہ ہویہ جودکھائی دیتاہے اس کے پیچھے اورکوئی جستجوکرنے والاہوجس نے تمہیں چھوڑدیاہو،پھرکہاتم میں سے ایک جماعت کواس کے مقابلے کے لئے کھڑاہوناچاہیے، چنانچہ ان میں سےچارلوگوں کی ایک جماعت میرے مقابلے کے لئے کھڑی ہوئی ،وہ پہاڑپرچڑھے ،جب وہ اتنے قریب پہنچ گئے کہ بات سن سکیں تو میں نے کہاکیا تم لوگ مجھے پہچانتے ہو؟انہوں نے کہاتوکون ہے؟میں نے کہامیں سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ ہوں جس کے چہرے کومحمد صلی اللہ علیہ وسلم نے مکرم کیااگرتم مجھ سے دوڑمیں مقابلہ کرناچاہوتونہیں کرسکتے ،میں تم میں سے ہرآدمی کوبے دھڑک پکڑلوں گامگرتم مجھے نہیں پکڑ سکو گے،ان میں سے ایک شخص نے کہاکہ اس کایہ گمان ہے،فرماتے ہیں اپنی نشست پرمیں بیٹھنے بھی نہ پایاتھاکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بھیجے ہوئے شہسواروں کودیکھ لیا جو درختوں کے درمیان سے چلے آرہے تھے۔[54]

اسی دوران چرواہے کی بیوی لیلیٰ کسی طرح دشمنوں کے چنگل سے آزادہوکررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنی عضباپرسوارہوکرنکل جانے میں کامیاب ہوگئی ،وہ اس کی تلاش میں نکلے مگروہ ان کے ہاتھ نہ لگی،خطرے کے اس وقت اس عورت نذرمانی کہ اگروہ دشمنوں کے ہاتھ سے بچ جانے میں کامیاب ہوگئی تواسی اونٹنی کو ذبح کر دے گی

وَبَلَغَ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ صِیَاحُ ابْنِ الْأَكْوَعِ، فَصَرَخَ بِالْمَدِینَةِ الْفَزَعُ الْفَزَعُ، فَتَرَامَتْ الْخُیُولُ إلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ،وَكَانَ أَوَّلَ مَنْ انْتَهَى إلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مِنْ الْفُرْسَانِ: الْمِقْدَادُ ابْن عَمْرٍو، وَهُوَ الَّذِی یُقَالُ لَهُ: الْمِقْدَادُ بْنُ الْأَسْوَدِ، حَلِیفُ بَنِی زُهْرَةَ،ثُمَّ كَانَ أَوَّلَ فَارِسٍ وَقَفَ عَلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بَعْدَ الْمِقْدَادِ مِنْ الْأَنْصَارِ، عَبَّادُ بْنُ بِشْرِ بْنِ وَقْشِ بْنِ زُغْبَةَ بْنِ زَعُورَاءَ، أَحَدُ بَنِی عَبْدِ الْأَشْهَلِ، وَسَعْدُ ابْن زَیْدٍ، أَحَدُ بَنِی كَعْبِ بْنِ عَبْدِ الْأَشْهَلِ، وَأُسَیْدُ بْنُ ظُهَیْرٍ، أَخُو بَنِی حَارِثَةَ ابْن الْحَارِثِ، یُشَكُّ فِیهِ، وَعُكَّاشَةُ بْنُ مِحْصَنٍ، أَخُو بَنِی أَسَدِ بْنِ خُزَیْمَةَ، وَمُحْرِزُ بْنُ نَضْلَةَ، أَخُو بَنِی أَسَدِ بْنِ خُزَیْمَةَ، وَأَبُو قَتَادَةَ الْحَارِثُ بْنُ رِبْعِیٍّ، أَخُو بَنِی سَلِمَةَ، وَأَبُو عَیَّاشٍ، وَهُوَ عُبَیْدُ بْنُ زَیْدِ بْنِ الصَّامِتِ، أَخُو بَنِی زُرَیْقٍ

جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ کی پکارسنی توتمام مدینہ میں اعلان کرادیا(یَا خَیْلَ اللهِ ارْكَبُوا)اے اللہ کے گروہ! دشمن کے مقابلے کے لئے چلو فوراً سوار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آنے شروع ہوگئے،سب سے پہلاشہسوار مقدادبن عمرو رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضرہواانہی کومقدادبن اسودبھی کہتے تھے جوبنوزہرہ کے حلیف تھے،پھرمقداد کے بعدعبادبن بشرجوبنی عبدالاشہل میں سے تھے ، اورسعدابن زیدجوبنی کعب بن عبدالاشہل میں سے تھے،اور اسید بن حضیر جوبنوحارثہ میں سے تھے،اورعکاشہ بن محصن جوبنی اسدبن خزیمہ میں سے تھے ،اورمحرزبن نضلہ (جن کالقب اخرم اسدی تھا)جوبنی اسدبن خزیمہ سے تھےاور ابو قتادہ الحارث بن ربعی جو بنوسلمہ سے تھے،اورابوعیاش عبیدبن زیدبن صامت جوبنی زریق سے تھے آکرآپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں جمع ہوگئے،

فَلَمَّا اجْتَمَعُوا إلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَمَّرَ عَلَیْهِمْ سَعْدَ بْنَ زَیْدٍ، فِیمَا بَلَغَنِی، ثُمَّ قَالَ: اُخْرُجْ فِی طَلَبِ الْقَوْمِ، حَتَّى أَلْحَقَكَ فِی النَّاسِ،وَقَدْ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فِیمَا بَلَغَنِی عَنْ رِجَالٍ مِنْ بَنِی زُرَیْقٍ، لِأَبِی عَیَّاشٍ: یَا أَبَا عِیَاشٍ، لَوْ أَعْطَیْتُ هَذَا الْفَرَسَ رَجُلًا، هُوَ أَفْرَسُ مِنْكَ فَلَحِقَ بِالْقَوْمِ؟قَالَ أَبُو عَیَّاشٍ: فَقُلْتُ: یَا رَسُولَ اللهِ، أَنَا أَفْرَسُ النَّاسِ، ثُمَّ ضربت الْفرس، فو الله مَا جَرَى بِی خَمْسِینَ ذِرَاعًا حَتَّى طَرَحَنِی،فَعَجِبْتُ أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَقُولُ: لَوْ أَعْطَیْتَهُ أَفْرَسَ مِنْكَ، وَأَنَا أَقُولُ: أَنَا أَفْرَسُ النَّاسِ،فَزَعَمَ رِجَالٌ مِنْ بَنِی زُرَیْقٍ أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَعْطَى فَرَسَ أَبِی عَیَّاشٍ مُعَاذَ بْنَ مَاعِصٍ، أَوْ عَائِذَ بْنَ مَاعِصِ بْنِ قَیْسِ بْنِ خَلَدَةَ، أَنَّ أَوَّلَ فَارِسٍ لَحِقَ بِالْقَوْمِ مُحْرِزُ بْنُ نَضْلَةَ، أَخُو بَنِی أَسَدِ بْنِ خُزَیْمَةَ وَكَانَ یُقَالُ لِمُحْرَزِ: الْأَخْرَمُ ، وَیُقَالُ لَهُ قُمَیْرٌ

جب یہ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جمع ہوگئے توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فوری طور پر سعیدبن زیداشہلی کوان کاسردارمقررفرمایااورحکم دیاکہ لٹیروں کی تلاش میں جاؤمیں بھی تم سے آملتاہوں ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوعیاش رضی اللہ عنہ سے فرمایااگرتم اپناگھوڑاکسی اچھے سوارکودے دوتوبہترہے وہ تم سے پہلے لٹیروں سے جاملے گا،ابوعیاش رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیااے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !میں بھی اچھاسوارہوں ،پھرمیں نے گھوڑے کوایڑلگائی بخدامیراگھوڑاپچاس قدم بھی نہ چلاتھاکہ اس نے مجھے پھینک دیا،تب مجھے اپنے قول پرتعجب ہواکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایاکہ تم اپناگھوڑاکسی اچھے سوارکودے دواورمیں یہ کہتاہوں کہ میں اچھاسوارہوں ،بنی رزیق میں سے بعض لوگوں کابیان ہے کہ ابوعیاش رضی اللہ عنہ کا گھوڑارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےمعاذبن ماعص یاعائذبن ماعص کوعنایت کیاتھا( کیونکہ شاہسواری میں یہ ان سے زیادہ ماہرتھے)ان شہسواروں میں سب سے پہلے محرزبن نضلہ جوبنی اسدبن خزیمہ میں سے تھے پہنچے جن کواخرم بھی کہتے ہیں اوربعض قمیرکہتے ہیں اوردشمن سے مقابلہ کے لئے بیتاب ہوگئے۔[55]

فَإِذَا أَوَّلُهُمُ الْأَخْرَمُ الْأَسَدِیُّ وَعَلَى أَثَرِهِ أَبُو قَتَادَةَ فَارِسُ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَعَلَى أَثَرِ أَبِی قَتَادَةَ الْمِقْدَادُ الْكِنْدِیُّ،قَالَ: فَوَلَّى الْمُشْرِكُونَ مُدْبِرِینَ،وَأَنْزِلُ مِنَ الْجَبَلِ فَأَعْرِضُ لِلْأَخْرَمِ فَآخُذُ عِنَانَ فَرَسِهِ، قُلْتُ: یَا أَخْرَمُ، انْذَرِ الْقَوْمَ یَعْنِی احْذَرْهُمْ فَإِنِّی لَا آمَنُ أَنْ یَقْتَطِعُوكَ فَاتَّئِدْ حَتَّى تَلْحَقَ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَأَصْحَابَهُ،قَالَ: یَا سَلَمَةُ، إِنْ كُنْتَ تُؤْمِنُ بِاللهِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ وَتَعْلَمُ أَنَّ الْجَنَّةَ حَقٌّ، وَالنَّارَ حَقٌّ، فَلَا تَحُلْ بَیْنِی وَبَیْنَ الشَّهَادَةِ،قَالَ: فَخَلَّیْتُ عِنَانَ فَرَسِهِ، فَیَلْحَقُ بِعَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عُیَیْنَةَ، وَیَعْطِفُ عَلَیْهِ عَبْدُ الرَّحْمَنِ فَقَتَلَهُ، وَتَحَوَّلَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ عَلَى فَرَسِ الْأَخْرَمِ فَیَلْحَقُ أَبُو قَتَادَةَ بِعَبْدِ الرَّحْمَنِ، فَاخْتَلَفَا طَعْنَتَیْنِ فَعَقَرَ بِأَبِی قَتَادَةَ وَقَتَلَهُ أَبُو قَتَادَةَ

سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ کہتے ہیں سب سے آگے محرربن نضلہ رضی اللہ عنہ اوران کے پیچھے ابوقتادہ رضی اللہ عنہ اوران کے پیچھے مقدادبن اسود رضی اللہ عنہ تھے جن کے ہاتھ میں جھنڈا لہرارہاتھا، فرماتے ہیں یہ دیکھ کر مشرکین پیٹھ پھیرکربھاگ کھڑے ہوئے،میں نے پہاڑسے اترکر اخرم کے آگے آگیااوران کے گھوڑے کی باگ پکڑکرکہااے اخرم اس جماعت سے ڈرو(یعنی ان سے بچو)مجھے اندیشہ ہے کہ وہ لی اور کہا تنہا نہ جاؤ وہ کہیں تم کوقتل نہ کرڈالیں بہتریہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اوراصحاب رضی اللہ عنہ کاانتظارکرو،مگر محرربن نضلہ رضی اللہ عنہ نے کہااے سلمہ رضی اللہ عنہ ! اگرتواللہ اوریوم آخرت پرایمان رکھتا ہے ،جنت وجہنم کو حق سمجھتا ہے تو میرے اورشہادت کے درمیان حائل نہ ہو،چنانچہ میں نے گھوڑے کی لگام چھوڑدی، محرربن نضلہ رضی اللہ عنہ آگے بڑھے اوردشمن سے مقابلہ کیا اور عبدالرحمٰن کے گھوڑے کو زخمی کردیا،عبدالرحمٰن بن عیینہ بھی ان کے گھوڑے کی طرف پلٹااور اپنانیزہ مارکرانہی شہیدکردیا،اسی اثنامیں ابوقتادہ رضی اللہ عنہ نے آگے بڑھ کر عبدالرحمٰن کوایک نیزہ مارا جس نے اس کا کام تمام کردیا۔[56]

پھرتو مجاہدین ان پرٹوٹ پڑے ،چنانچہ ابوقتادہ رضی اللہ عنہ نے دشمن کا مسعدة بن حکمہ فزاری اورعکاشہ بن محصن رضی اللہ عنہ نے ابان بن عمر کوقتل کرڈالا ،

لَتَبِعْتُهُمْ أَعْدُو عَلَى رِجْلَیَّ حَتَّى مَا أَرَى وَرَائِی مِنْ أَصْحَابِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، وَلَا غُبَارِهِمْ شَیْئًا حَتَّى یَعْدِلُوا قَبْلَ غُرُوبِ الشَّمْسِ إِلَى شِعْبٍ فِیهِ مَاءٌ یُقَالُ لَهُ: ذَو قَرَدٍ لِیَشْرَبُوا مِنْهُ وَهُمْ عِطَاشٌ، قَالَ: فَنَظَرُوا إِلَیَّ أَعْدُو وَرَاءَهُمْ، فَخَلَّیْتُهُمْ عَنْهُ – یَعْنِی أَجْلَیْتُهُمْ عَنْهُ – فَمَا ذَاقُوا مِنْهُ قَطْرَةً

دشمن صبح سے بھاگ رہاتھااورمیں (سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ )اپنے پاؤں سے دشمن کے پیچھے ایسادوڑرہاتھاکہ مجھے اپنے پیچھے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کاکوئی صحابی نہ دکھلائی دیااورنہ ان کاغبار، سورج غروب ہونے سے کچھ قبل دشمن نے اپنارخ ایک گھاٹی کی طرف موڑاجس میں ذی قردنام کاایک چشمہ تھادشمن کاپیاس سے براحال تھااوروہ اپنی پیاس بجھاناچاہتے تھے چنانچہ وہ پانی پینے کے لئے اترے ،جب انہوں نے مجھے دیکھاکہ میں ان کے پیچھے دوڑتاچلاآرہاہوں تووہ پانی پرسے ہٹ گئےاوروہ پانی کاایک قطرہ بھی حاصل نہ کر سکے ۔[57]

وَاسْتَخْلَفَ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عَلَى الْمَدِینَةِ ابْنَ أُمّ مَكْتُومٍ وخلف سَعْدُ بْنُ عُبَادَةَ فِی ثَلَاثِمِائَةٍ مِنْ قَوْمِهِ یَحْرُسُونَ الْمَدِینَةَوكان قد عَقَدَ للمِقْدَادُ بْنُ عَمْرٍو لِوَاءً فِی رُمْحِهِ

ہراول دستے کوروانہ فرماکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہا کومدینہ میں اپنا نائب مقررفرمایا، سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کو تین سومجاہدین کے دستہ کے ساتھ مدینہ کی حفاظت پر مامور فرمایااور مقدادبن عمرو رضی اللہ عنہ کوپرچم عطاہوا۔[58]

فَإِذَا نَبِیُّ اللهِ فِی خَمْسِمِائَةٍ ،فَقُلْتُ: یَا رَسُولَ اللهِ إنَّ الْقَوْمَ عِطَاشٌ، فَلَوْ بَعَثْتَنِی فِی مِائَةِ رَجُلٍ اسْتَنْقَذْتُ مَا فِی أَیْدِیهِمْ مِنَ السَّرْحِ وَأَخَذْتُ بِأَعْنَاقِ الْقَوْمِ، فَقَالَ یَا بن الْأَكْوَعِ مَلَكْتَ فَأَسْجِحْ

اوراللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پانچ سومجاہدین رضی اللہ عنہم کی ایک جمعیت کولیکر تیزی سے مسافت طے کرتے ہوئے غروب آفتاب کے بعد سلمہ بن اکوع تک پہنچ گئے،سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ نے عرض کیا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !وہ سب پیاسے ہیں اگرآپ مجھے سو آدمی دے دیں تومیں ان کے تمام گھوڑے زین سمیت چھین لوں اوران کی گردنیں بھی پکڑ کرحاضرخدمت کردوں ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے اکوع کے لڑکے!تم ان پرقابوپاگئے اب نرمی برتو۔[59]

فَقَالَ:إِنَّهُمُ الْآنَ لَیُقْرَوْنَ فِی أَرْضِ غَطَفَانَ ، قَالَ: فَجَاءَ رَجُلٌ مِنْ غَطَفَانَ ،أَقَامَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بذی قَرَدٍ یَوْمًا وَلَیْلَةً

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایادشمن پناہ کے لئے بنی غطفان کی سرحدمیں پہنچ گئے ہیں اور اس وقت بنوغطفان ان کی مہمان نوازی کررہے ہیں ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ذی قرد پر ایک دن رات مقیم رہے[60]

وَإِذَا بِلَالٌ نَحَرَ نَاقَةً مِنَ الْإِبِلِ الَّذِی اسْتَنْقَذْتُ مِنَ الْقَوْمِ، وَإِذَا هُوَ یَشْوِی لِرَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مِنْ كَبِدِهَا وَسَنَامِهَا

اوربلال رضی اللہ عنہ نے ان چھڑائے ہوئے اونٹوں میں سے جو میں نے چھینے تھے ایک اونٹ ذبح کیااورانہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے کلیجی اورکوہان بھونا۔[61]

وَأَقْبَلَتْ امْرَأَةُ الْغِفَارِیِّ عَلَى نَاقَةٍ مِنْ إبِلِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، حَتَّى قَدِمَتْ عَلَیْهِ فَأَخْبَرَتْهُ الْخَبَرَ فَلَمَّا فَرَغَتْ، قَالَتْ: یَا رَسُولَ اللهِ، إنِّی قَدْ نَذَرْتُ للَّه أَنْ أَنَحْرَهَا إنْ نَجَّانِی اللهُ عَلَیْهَا قَالَ: فَتَبَسَّمَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ قَالَ: بِئْسَ مَا جَزَیْتِهَا أَنْ حَمَلَكَ اللهُ عَلَیْهَا وَنَجَّاكَ بِهَا ثُمَّ تَنْحَرِینَهَا! إنَّهُ لَا نَذْرَ فِی مَعْصِیَةِ اللهِ وَلَا فِیمَا لَا تَمْلِكِینَ، إنَّمَا هِیَ نَاقَةٌ مِنْ إبِلِی، فَارْجِعِی إلَى أَهْلِكَ عَلَى بَرَكَةِ اللهِ

غفاری کی بیوی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اونٹوں میں سے ایک اونٹنی پرسوارہوکرآپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پہنچی اورتمام واقعہ کی خبردی،پھرکہنے لگی اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! میں نےنذرمانی تھی کہ اگراللہ تعالیٰ مجھ کواس اونٹنی پرنجات دے گاتومیں اس اونٹنی کوذبح کردوں گی،عورت کی اس بات پررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تبسم فرمایااورپھر فرمایاتم نے اس اونٹنی کو بہت براصلہ دیا اگراللہ تمہیں اس پر سوار کراکران غاصبوں سے نجات دے دے توتم اسے ہی ذبح کرڈالو ، یہ گناہ کی بات ہے اورگناہ میں نذرنہیں ہوتی اورنہ اس چیزمیں نذرہوتی ہے جس کی تومالک نہ ہو،یہ اونٹنی تومیرے اونٹوں میں سے ہے تیری ملکیت نہیں ،تم پراللہ کا بڑافضل ہوااب تم اپنے کنبے میں واپس چلی جاؤ۔[62]

قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:كَانَ خَیْرَ فُرْسَانِنَا الْیَوْمَ أَبُو قَتَادَةَ، وَخَیْرَ رَجَّالَتِنَا سَلَمَةُ ،قَالَ: ثُمَّ أَعْطَانِی رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ سَهْمَیْنِ سَهْمَ الْفَارِسِ، وَسَهْمَ الرَّاجِلِ، فَجَمَعَهُمَا لِی جَمِیعًاثُمَّ أَرْدَفَنِی رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَرَاءَهُ عَلَى الْعَضْبَاءِ رَاجِعِینَ إِلَى الْمَدِینَةِ

اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا آج ہمارے سب سے بہترین شہسوارابوقتادہ رضی اللہ عنہ ہیں اورسب سے بہترین پیادہ سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ ہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مال غنیمت میں سے مجھے دوحصے عنایت فرمائے ایک پیادہ کااورایک گھڑسوارکااوردونوں مجھ ہی کودے دیئے،اور جب مدینہ منورہ واپس ہوئے تومجھے یہ شرف بخشاکہ اپنی عضبانامی اونٹنی پراپنے پیچھے سوار فرما لیا۔[63]

وقد قَتْل أَبُو قَتَادَةَ مَسْعَدَةَ فَأَعْطَاهُ رَسُول اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَرَسَهُ وَسِلَاحَهُ

اور مقتول مسعدہ بن حکمہ فزاری کا گھوڑا اور ہتھیار ابوقتادہ رضی اللہ عنہ کو عطا فرما دیئے۔[64]

وقد غَابَ خَمْسَ لَیَالٍ

اور پانچ دن کے بعد مدینہ تشریف لے آئے۔[65]

اورذی الحجہ اورمحرم کاکچھ حصہ مدینہ منورہ میں قیام پذیررہے۔

سعید رضی اللہ عنہ بن عامرکاقبول اسلام

سیدالامم صلی اللہ علیہ وسلم نے دعوت حق کاآغازفرمایاتواس وقت سعیدبن عامر سات آٹھ سال کے لڑکے تھے،یہ ان کے کھیل کودکے دن تھے اس لیے ابتداء اسلام کی طرف متوجہ نہ ہوئے جوان ہوئے اورحق وباطل میں تمیزکرنے کاشعورپیداہواتورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت فرماکرمدینہ منورہ تشریف لے جاچکے تھے

وَأَسْلَمَ سَعِیدُ بْنُ عَامِرٍ قَبْلَ خَیْبَرَ , وَهَاجَرَ إِلَى الْمَدِینَةِ، وَشَهِدَ مَعَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیهِ وَسلَّمَ خَیْبَرَ وَمَا بَعْدَ ذَلِكَ مِنَ الْمَشَاهِدِلَمَّا مَاتَ عِیَاضُ بْنُ غَنْمٍ وَلَّى عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ سَعِیدَ بْنَ عَامِرِ بْنِ حِذْیَمٍ عَمَلَهُ، وَكَتَبَ كِتَابًا یُوصِیهِ فِیهِ بِتَقْوَى اللهِ وَالجِدِّ فِی أَمْرِ اللهِ وَالْقِیَامِ بِالْحَقِّ الَّذِی یَجِبُ عَلَیْهِ، وَیَأْمُرُهُ بِوَضْعِ الْخَرَاجِ وَالرِّفْقِ بِالرَّعِیَّةِ، فَأَجَابَهُ سَعِیدُ بْنُ عَامِرٍ عَلَى نَحْوٍ مِنْ كِتَابِهِ

تاہم سعیدالفطرت سعید رضی اللہ عنہ کواللہ تعالیٰ نے توفیق عطافرمائی اوروہ غزوہ خیبرسے پہلے مدینہ منورہ جاکرمشرف بہ اسلام ہوگئےاور انہوں نے غزوہ خیبراوربعدکے دوسرے غزوات میں بڑھ چڑھ کرحصہ لیا، جب عیاض رضی اللہ عنہ بن غنم وفات پاگئے توامیرالمومنین سیدنا عمر رضی اللہ عنہ بن خطاب نے سعید رضی اللہ عنہ کو حمص کی امارت پر مقرر فرمایا اورانہیں ایک فرمان لکھاجس میں انہیں اللہ سے ڈرنے کی اوراللہ کے کام میں کوشش کرنے کی اوراس کے حق کے اداکرنے کی جوان پر واجب ہے نصیحت کی تھی اور خراچ مقررکرنے اوررعیت کے ساتھ نرمی کرنے کاحکم فرمایاتھا، سعید رضی اللہ عنہ بن عامرنے ان کے فرمان کے طریقے پراسے قبول کیا۔[66]

أَرْسَلَ عُمَرُ إِلَى سَعِیدِ بْنِ عَامِرٍ فَقَالَ: إِنَّا مُسْتَعْمِلُوكَ عَلَى هَؤُلاءِ تَسِیرُ بِهِمْ إِلَى أَرْضِ الْعَدُوِّ فَتُجَاهِدُ بِهِمْ ، فَقَالَ: یَا عُمَرُ، لا تَفْتِنِّی، فَقَالَ عُمَرُ: وَاللهِ لا أَدَعُكُمْ، جَعَلْتُمُوهَا فِی عُنُقِی ثُمَّ تَخَلَّیْتُمْ مِنِّی،وَكَانَ إِذَا خَرَجَ عَطَاؤُهُ نَظَرَ إِلَى قُوتِ أَهْلِهِ مِنْ طَعَامِهِمْ وَكِسْوَتِهِمْ وَمَا یُصْلِحُهُمْ فَیَعْزِلُهُ، وَیَنْظُرُ إِلَى بَقِیَّتِهِ فَیَتَصَدَّقُ بِهِ، فَیَقُولُ أَهْلُهُ: أَیْنَ بَقِیَّةُ الْمَالِ؟فَیَقُولُ: أَقْرَضْتُهُ،قَالَ: فَأَتَاهُ نَفَرٌ مِنْ قَوْمِهِ، فَقَالُوا: لَوْلا أَنَّ لأَهْلِكَ عَلَیْكَ حَقًّا وَإِنَّ لأَصْهَارِكَ عَلَیْكَ حَقًّا، وَإِنَّ لِقَوْمِكَ عَلَیْكَ حَقًّافَقَالَ: مَا اسْتَأْثَرَ عَلَیْهِمْ أَنْ یَرَى لَمْعَ أَیْدِیهِمْ،فَیَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ قَبْلَ النَّاسِ بِسَبْعِینَ عَامًا

عبدالرحمٰن بن سابط کہتے ہیں امیرالمومنین سیدناعمر رضی اللہ عنہ نے سعید رضی اللہ عنہ بن عامرکوبلابھیجاجب وہ تشریف لائے توسیدناعمر رضی اللہ عنہ نے فرمایامیں نے تمہیں دشمنوں کی سرزمین پرمعمورکیاہے تاکہ تم ان سےجہادجاری رکھو، سعید رضی اللہ عنہ بن عامرنے عرض کیانہیں نہیں امیرالمومنین میں اس عہدے کے قابل نہیں مجھے اس فتنے میں نہ ڈالیئے، سیدناعمر رضی اللہ عنہ نے تندوتیزلہجے میں فرمایاخوب!تم لوگو نے خلافت کی ذمہ داریوں کاقلاوہ تومیری گردن پرڈال رکھاہے اورخودکسی قسم کی ذمہ داری قبول کرنے سے گریزکرتے ہو،اللہ کی قسم میں تمہیں نہیں چھوڑسکتاتمہیں حمص کی امارت ضرورسنبھالنی ہوگئی ،سعید رضی اللہ عنہ نے باربارمعذرت کی مگرسیدناعمر رضی اللہ عنہ اپنی بات پرمصررہے ،آخربڑی ردوقدح کے بعدانہوں نے اس عہدہ کوقبول کرلیا،سیدناعمر رضی اللہ عنہ نے ان کے لیے جومقررکیاتھا(اورسیدناعمراپنے عمال کونہایت معقول مشاہرے دیتے تھے) سعید رضی اللہ عنہ اس میں سے چنددرہم کھانے پینے کے سامان پرصرف کرتے اورباقی رقم اللہ کی راہ میں لٹادیتے،جب بیوی پوچھتیں کہ تنخواہ کی باقی رقم کہاں ہے؟ توکہتے قرض دے دیاہے(قرض دینے سے ان کی مرادیہ ہوتی تھی کہ یہ رقم اللہ کی راہ میں خرچ کرڈالی ہے کیونکہ قرآن حکیم میں اسے قرض حسنہ کانام دیاگیاہے)ایک دفعہ کچھ لوگ وفدکی شکل میں سعید رضی اللہ عنہ کے پاس گئے اورکہااے امیر!آپ کوہم نے ہمیشہ ناداراورمفلس پایاہے اخرآپ کے کنبے کابھی توآپ پرکچھ حق ہے ،آپ کے عزیزوں کاآپ پرحق ہے اورآپ کے قبیلے کاآپ پرحق ہے ، آپ اپنے ہاتھ کواتناکشادہ نہ رکھیں اوراپنے اہل وعیال کابھی خیال رکھاکریں ، سعید رضی اللہ عنہ نے جواب دیایہ میرے بس کی بات نہیں مجھے توفقروغناہی پسندہے کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سناہے فقراء مومنین دوسرےلوگوں سے ستر سال پہلے جنت میں داخل ہوجائیں گے۔ [67]

اور واقعی سعید رضی اللہ عنہ کے زہدوقناعت کی یہ شان تھی کہ عام غرباء اورمساکین اورامیرحمص کے درمیان کوئی فرق نہیں رہاتھا۔

وَعَنْ خَالِدِ بْنِ مَعْدَانَ، قَالَ: اسْتَعْمَلَ عَلَیْنَا عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللهُ عَنْهُ، بِحِمْصَ سَعِیدَ بْنَ عَامِرِ بْنِ حُذَیْمٍ الْجُمَحِیَّ رَضِیَ اللهُ عَنْهُ، فَلَمَّا قَدِمَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللهُ عَنْهُ حِمْصَ، قَالَ: یَا أَهْلَ حِمْصَ، كَیْفَ وَجَدْتُمْ عَامِلَكُمْ؟ قَالَ: فَشَكَوْا أَرْبَعًا لَا یَخْرُجُ إِلَیْنَا حَتَّى یَتَعَالَى النَّهَارُقَالَ: أَعْظِمْ بِهَا، قَالَ: فَمَاذَا؟ قَالُوا: یَغْنَظُ الْغَنْظَةَ بَیْنَ الْأَیَّامِ، یَعْنِی یَأْخُذُهُ مَوْتُهُ، أَیْ: شِبْهُ الْجُنُونِ، قَالَ:فَجَمَعَ عُمَرُ بَیْنَهُمْ وَبَیْنَهُ، وَقَالَ: اللهُمَّ لَا تَقْبَلْ رَأْیِی فِیهِ الْیَوْمَ، مَا تَشْكُونَ مِنْهُ؟

خالدبن معدان کہتے ہیں امیرالمومنین سیدناعمر رضی اللہ عنہ بن خطاب نے سعید رضی اللہ عنہ بن عامرکوحمص کاوالی مقرر فرمایا ، سیدناعمر رضی اللہ عنہ اپنے عمال حکومت پربڑی کڑی نظررکھتے تھےایک بار شام کے دورے پرتشریف لے گئےحمص پہنچ کروہاں کے سربرآوردہ لوگوں سے پوچھااے اہل حمص!تم نے اپنے والی کوکیساپایاہے؟انہوں نے کہاسعید رضی اللہ عنہ سے ہمیں چارشکایات ہیں ، جب تک کافی دن نہیں نکل آتا سعید رضی اللہ عنہ گھر سے باہرنہیں نکلتے،سیدناعمر رضی اللہ عنہ نے فرمایایہ توبڑی بات ہے،فرمایااورکیاشکایت ہے؟انہیں بعض اوقات دورے پڑتے ہیں اور ہمیں گمان ہے کہ انہیں جنون لاحق ہے، سیدناعمر رضی اللہ عنہ نے سعید رضی اللہ عنہ اوراہل حمص کوایک جگہ بلایااورسیدناعمر رضی اللہ عنہ نے دعامانگی الٰہی!سعید رضی اللہ عنہ کے بارے میں میرے نیک گمان کوغلط ثابت نہ کرنا،

قَالُوا: لَا یَخْرُجُ إِلَیْنَا حَتَّى یَتَعَالَى النَّهَارُ،قَالَ: وَاللهِ إِنْ كُنْتُ لَأَكْرَهُ ذِكْرَهُ، قَالَ: لَیْسَ لِأَهْلِی خَادِمٌ، فَأَعْجِنُ عَجِینِی، ثُمَّ أَجْلِسُ حَتَّى یَخْتَمِرَ، ثُمَّ أَخْبِزُ خُبْزِی، ثُمَّ أَتَوَضَّأُ ثُمَّ أَخْرُجُ إِلَیْهِمْ،فَقَالَ: مَا تَشْكُونَ مِنْهُ؟قَالُوا: لَا یُجِیبُ أَحَدًا بِلَیْلٍ، قَالَ: مَا یَقُولُونَ، قَالَ: إِنْ كُنْتُ لَأَكْرَهُ ذِكْرَهُ، إِنِّی جَعَلْتُ النَّهَارَ لَهُمْ وَجَعَلْتُ اللیْلَ للَّهِ، قَالَ: وَمَا تَشْكُونَ مِنْهُ؟قَالُوا: إِنَّ لَهُ یَوْمًا فِی الشَّهْرِ لَا یَخْرُجُ إِلَیْنَا فِیهِ،قَالَ: مَا یَقُولُونَ،قَالَ: لَیْسَ لِی خَادِمٌ یَغْسِلُ ثِیَابِی، وَلَا لِی ثِیَابٌ أُبَدِّلُهَا، فَأَجْلِسُ حَتَّى تَجِفَّ ثُمَّ أُدْلِكُهَا ثُمَّ أَخْرُجُ إِلَیْهِمْ مِنْ آخِرِ النَّهَارِ،قَالَ: مَا تَشْكُونَ مِنْهُ؟قَالُوا: یَغْنَظُ الْغَنْظَةَ بَیْنَ الْأَیَّامِ،قَالَ: مَا یَقُولُونَ؟ قَالَ: شَهِدْتُ مَصْرَعَ خُبَیْبٍ الْأَنْصَارِیِّ بِمَكَّةَ، قَدْ بَضَعَتْ قُرَیْشٌ لَحْمَهُ ثُمَّ حَمَلُوهُ عَلَى جَذْعَةٍ، فَقَالُوا: أَتُحِبُّ أَنَّ مُحَمَّدًا مَكَانَكَ؟ فَقَالَ: وَاللهِ مَا أُحِبُّ أَنِّی فِی أَهْلِی وَأَنَّ مُحَمَّدًا شِیكَ شَوْكَةً، ثُمَّ نَادَى: یَا مُحَمَّدُ، فَمَا ذَكَرْتُ ذَلِكَ الْیَوْمَ، بِتَرْكِی نُصْرَتَهُ فِی تِلْكَ الْحَالِ وَأَنَا مُشْرِكٌ لَا أُؤْمِنُ بِاللهِ الْعَظِیمِ، إِلَّا ظَنَنْتُ أَنَّ اللهَ لَا یَغْفِرُ لِی بِذَلِكَ الذَّنْبِ أَبَدًا، قَالَ: فَیُصِیبُنِی تِلْكَ الْغَنْظَةُ،فَقَالَ عُمَرُ: الْحَمْدُ للَّهِ الَّذِی لَمْ یَقْبَلْ فِیهِ رَأْیًا

پھرپوچھااے سعید رضی اللہ عنہ ! جب تک کافی دن نہیں نکل آتاتم گھرسے باہرنہیں نکلتے،سعید رضی اللہ عنہ نے عرض کیااے امیرالمومنین!اللہ کی قسم میں ان چیزوں کاذکرکرناپسندنہیں کرتاتھالیکن اب آپ پوچھتے ہیں توحقیقت حال کااظہارکیے بغیرچارہ نہیں اس لیے عرض کرتاہوں علی الصباح میں اس لیے باہرنہیں نکلتاکہ میرے پاس کوئی خادم نہیں ہے ،اپنی اہلیہ کے ساتھ مل کرگھرکے کام سرانجام دیتاہوں وہ دوسرے کام کرتی ہیں اورمیں آٹاگوندھتاہوں پھرخمیراٹھنے کاانتظارکرتاہوں اس کے بعدروٹی پکاتاہوں اورپھران لوگوں کی خدمت کے لیے باہرنکل آتاہوں ،سعید رضی اللہ عنہ نے عرض کیاانہیں مجھ سے اورکیاشکایت ہے؟سیدناعمر رضی اللہ عنہ نے فرمایارات کوجب کوئی آوازدیتاہے توتم جواب نہیں دیتے،عرض کیارات کواس لیے جواب نہیں دیتاکہ سارادن مخلوق خداکی خدمت کرنے میں گزرجاتاہے اوراپنے رب کے حضورمیں اطمینان سے حاضرہونے کاموقع نہیں ملتااس لیے رات کاوقت میں نے اللہ کی عبادت کے لیے وقف کررکھاہے،سعید رضی اللہ عنہ نے عرض کیاانہیں مجھ سے اورکیاشکایت ہے ؟فرمایاتم مہینے میں ایک دن گھرکے اندررہتے ہواوربالکل باہرنہیں نکلتے تم اس کے بارے میں کیاکہتے ہو،عرض کیامیں مہینے میں ایک دن اس لیے باہرنہیں نکلتاکہ میرے پاس خادم نہیں ہے،میرے پاس کپڑوں کاصرف ایک ہی جوڑاہے جب یہ میلاہوجاتاہے تواسی کودھوکرپہنتاہوں ،مہینے میں ایک دفعہ ضروراپنے کپڑے دھوتاہوں جب وہ سوکھ جاتے ہیں توانہیں پہن کرباہرنکلتاہوں ،اس وقت دن کا بڑاحصہ گزرجاتاہے اس لیے لوگوں سے نہیں مل سکتا،سعید رضی اللہ عنہ نے عرض کیاانہیں مجھ سے اورکیاشکایت ہے؟فرمایاتمہیں اکثردورے پڑتے ہیں اس کے بارے میں تم کیا کہتے ہو ؟ عرض کیاجب خبیب رضی اللہ عنہ بن عدی کومصلوب کیا گیا تو میں وہاں موجودتھاجب قریش نے انہیں پھانسی کی لکڑی کے پاس کھڑاکیاتوپوچھاتھاکیاتم یہ پسندکرتے ہوکہ تمہاری جگہ یہاں محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کھڑے ہوتے؟ انہوں نے کہاتھااللہ کی قسم !میں یہ ہرگزپسندنہیں کروں گاکہ میں اپنے اہل وعیال میں بیٹھاہوں اورمحمد صلی اللہ علیہ وسلم کوایک کانٹابھی چھب جائے، پھرکہااے محمد صلی اللہ علیہ وسلم !خبیب رضی اللہ عنہ کی مظلومانہ شہادت کااحساس بعض اوقات بے چین کردیتاہے،اس وقت تک میں مشرک تھااوراللہ تعالیٰ پرایمان نہیں لایاتھااب میں گمان کرتاہوں کہ اللہ تعالیٰ میرے اس گناہ کوکبھی معاف نہیں فرمائے گااس احساس کی وجہ سےبعض اوقات میں بے چین ہو جاتا ہوں اور پھرمیں بے ہوش ہوجاتاہوں ، سعید رضی اللہ عنہ کے جوابات سن کر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کاچہرہ خوشی سے دمک اٹھااورانہوں نے فرمایااللہ تعالیٰ کاشکرہے کہ تمہارے متعلق میرانیک گمان صحیح نکلا۔

عَنْ حَسَّانِ بْنِ عَطِیَّةَ، قَالَ: أَصَابَ سَعِیدُ بْنُ عَامِرٍ حَاجَةً شَدِیدَةً، فَبَلَغَ ذَلِكَ عُمَرَ رَضِیَ اللهُ عَنْهُ، فَبَعَثَ إِلَیْهِ بِأَلْفِ دِینَارٍ فَدَخَلَ عَلَى امْرَأَتِهِ، فَقَالَ: بَعَثَ إِلَیْنَا بِمَا تَرَیْنَ، فَقَالَتْ: لَوْ أَنَّكَ اشْتَرَیْتَ لَنَا أُدْمًا، وَطَعَامًا، وَادَّخَرْتَ سَائِرَهَا، فَقَالَ لَهَا: أَوَلَا أَدُلُّكِ عَلَى أَفْضَلَ مِنْ ذَلِكَ؟ نُعْطِی هَذَا الْمَالَ مَنْ یَتَّجِرُ لَنَا فِیهِ، فَنَأْكُلُ مِنْ رِبْحِهِ وَضَمَانُهُ عَلَیْهِ؟ قَالَتْ: نَعَمْ

حسان بن عطیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں سعید رضی اللہ عنہ بن عامرشدیدتنگدستی کاشکارہوگئے، سیدناعمر رضی اللہ عنہ کوان کے بارے میں خبرہوئی توانہیں ایک ہزاردینارروانہ کیے، وہ اس رقم کولے کراپنی اہلیہ کے پاس پہنچے اورکہادنیافتوں کولے کرمیرے گھرمیں داخل ہوگئی ہے،اہلیہ نے کہاہم اس رقم سے کھانے پینے کاسامان اورکوئی لونڈی لے لیتے ہیں ،سعید رضی اللہ عنہ نے فرمایاکیامیں تمہیں اس سے بہترمشورہ نہ دوں ؟کیوں نہ ہم اس مال کوان لوگوں میں تقسیم کردیں جوہم سے زیادہ محتاج اورنادارہیں ، اہلیہ نے کہاٹھیک ہے،چونکہ انہوں نے سارامال مساکین اورضرورت مندوں میں تقسیم کردیا۔

فَبَعَثَ إِلَیْهِ أَلْفَ دِینَارٍ، وَقَالَ: اسْتَعْنِ بِهَا عَلَى أَمْرِكَ، فَقَالَتِ امْرَأَتُهُ: الْحَمْدُ للَّهِ الَّذِی أَغْنَانَا مِنْ خِدْمَتِكَ ، فَقَالَ لَهَا: فَهْلَ لَكِ فِی خَیْرٍ مِنْ ذَلِكَ؟س نَدْفَعُهَا إِلَى مَنْ یَأْتِینَا بِهَا أَحْوَجَ مَا نَكُونُ إِلَیْهَا قَالَتْ: فَنَعَمْ، فَدَعَا رَجُلًا مِنْ أَهْلِهِ یَثِقُ بِهِ فَصَرَّرَهَا صُرَرًا، ثُمَّ قَالَ: انْطَلِقْ بِهَذِهِ إِلَى أَرْمَلَةِ آلِ فُلَانٍ، وَإِلَى یَتِیم ِآلِ فُلَانٍ، وَإِلَى مِسْكِینِ آلِ فُلَانٍ، وَإِلَى مُبْتَلَى آلِ فُلَانٍ، فَبَقِیَتْ مِنْهَا ذُهَیْبَةٌ فَقَالَ: أَنْفِقِی هَذِهِ، ثُمَّ عَادَ إِلَى عَمَلِهِ، فَقَالَتْ: أَلَا تَشْتَرِی لَنَا خَادِمًا؟ مَا فَعَلَ ذَلِكَ الْمَالُ؟ قَالَ: سَیَأْتِیكِ أَحْوَجَ مَا تَكُونِینَ

ایک بارسیدناعمر رضی اللہ عنہ نے ایک ہزاردینارسعید رضی اللہ عنہ بن عامرکے پاس یہ کہہ کربھیجے کہ انہیں ذاتی تصرف میں لاؤ، سعید رضی اللہ عنہ کی اہلیہ نے ان سے کہاہمارے پاس کوئی خادم نہیں ہے بہتریہ ہے کہ اس رقم سے ایک غلام خرید لیا جائے، سعید رضی اللہ عنہ نے فرمایاکیااس سے یہ بہترنہیں ہے کہ یہ رقم ان لوگوں میں تقسیم کردی جائے جوہم سے بھی زیادہ محتاج اورنادرہیں ؟ بیوی بھی نیک بخت تھی رضامندہوگئیں ، چنانچہ سعید رضی اللہ عنہ نے یہ تمام رقم بیواؤں ،یتیموں ،بیماروں اورمسکینوں میں تقسیم کردی۔[68]

بنی جذام سے رفاعہ رضی اللہ عنہ بن زیدکاقبول اسلام

وقدم على رَسُولُ اللَّهِ فِی هُدْنَةِ الْحُدَیْبِیَةِ قَبْلَ خَیْبَرَ، رِفَاعَةُ بْنُ زَیْدٍ الْجُذَامِیُّ، وَأَهْدَى لِرَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ غُلامًا وَأَسْلَمَ فَحَسُنَ إِسْلامُهُ، وَكتب له رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ كِتَابًا إِلَى قَوْمِهِ

غزوہ خیبرسے پہلے بنوجذام سے رفاعہ بن زیدجذامی بارگاہ رسالت میں حاضر ہوئے اوراس موقع پرانہوں نے آپ کی خدمت میں ایک غلام ہدیتہ پیش کیا اور صدق دل سے اسلام قبول کرلیاآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی قوم کے نام ایک مکتوب لکھاجس کامضمون یوں تھا۔

بِسْمِ اللهِ الرّحْمَنِ الرّحِیمِ

هَذَا كِتَابٌ مِنْ مُحَمَّدٍ رَسُولِ اللهِ، لِرِفَاعَةِ بْنِ زَیْدٍ ، إِنِّی بَعَثْتُهُ إلَى قَوْمِهِ عَامَّةً

وَمَنْ دَخَلَ فِیهِمْ، یَدْعُوهُمْ إلَى اللهِ وَإِلَى رَسُولِهِ، فَمَنْ أَقْبَلَ مِنْهُمْ فَفِی حِزْبِ اللهِ وَحِزْبِ رَسُولِهِ، وَمَنْ أَدْبَرَ فَلَهُ أَمَانُ شَهْرَیْنِ

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

یہ مکتوب محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے رفاعہ بن زیدکودیاگیاہے۔

میں نے اسے اس کی تمام قوم کی طرف بھیجاہے تاکہ یہ ان کواللہ اوررسول کی طرف دعوت دیں ،پس جویہ دعوت قبول کرے وہ اللہ اوراس کے رسول کے گروہ (حزب اللہ) میں داخل ہے اور جو انکار کرے گا اس کے لئے دوماہ کی مہلت ہے۔

فَلَمَّا قَدِمَ رِفَاعَةُ عَلَى قَوْمِهِ أَجَابُوا وَأَسْلَمُواثُمَّ سَارُوا إلَى الْحَرَّةِ: حَرَّةِ الرَّجْلَاءِ، وَنَزَلُوهَا

رفاعہ رضی اللہ عنہ بن زیدیہ مکتوب لے کراپنے قبیلہ میں آئے اورانہیں دعوت اسلام پیش کی،ان کی دعوت پرتمام قبیلہ دائرہ اسلام میں داخل ہوگیااورسب نے مقام حرة الرجلاء میں اپنی بودوباش اختیارکرلی۔[69]

[1] الانبیاء۲۳

[2] المائدة: 118

[3]مسنداحمد۲۱۳۸۸،سنن الکبری للنسائی ۱۰۸۴

[4] مسنداحمد۲۱۴۹۵

[5] تفسیرابن ابی حاتم۱۲۵۶؍۴

[6] التوبة ۷۲

[7] الصافات۶۱

[8] المطففین۲۶

[9] تاریخ طبری ۶۵۴،۶۵۵؍۲

[10] تاریخ طبری ۶۵۴؍۲

[11] صحیح مسلم كتاب الْفَضَائِلِ بَابُ شَیْبِهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ

[12] شعب الایمان۱۳۶۲

[13] تاریخ دمشق لابن ابن عساکر۲۴۷؍۳

[14] صحیح ابن حبان۶۳۱۱

[15] صحیح بخاری كِتَابُ اللِّبَاسِ بَابُ تَقْلِیمِ الأَظْفَارِ۵۸۹۳

[16] صحیح مسلم كِتَابِ الطَّهَارَةِ بَابُ خِصَالِ الْفِطْرَةِ۶۰۱،سنن ابوداودكِتَاب التَّرَجُّلِ بَابٌ فِی أَخْذِ الشَّارِبِ۴۱۹۹

[17] الطحاوی

[18]مسنداحمد۸۷۸۵

[19]صحیح بخاری كِتَابُ اللِّبَاسِ بَابُ تَقْلِیمِ الأَظْفَارِ ۵۸۹۲،صحیح مسلم كِتَابِ الطَّهَارَةِ بَابُ خِصَالِ الْفِطْرَةِ۶۰۲

[20] تاریخ طبری ۶۵۴،۶۵۵؍۲،البدایة والنہایة۳۰۷؍۴، السیرة النبویة لابن کثیر ۵۱۰؍۳

[21] فتح الباری۳۴؍۱

[22] فتح الباری ۳۸؍۱

[23] الروض الانف۳۱۵؍۷

[24] فتح الباری ۳۳؍۱

[25] صحیح بخاری کتاب الجہادباب دعائ النبیﷺ الی الاسلام والنبوة۲۹۴۱،عیون الاثر۳۲۶؍۲،شرح الزرقانی علی المواھب۶؍۵،البدایة والنہایة ۳۰۲؍۴

[26] صحیح بخاری كِتَابُ الجِهَادِ وَالسِّیَرِبَابُ دُعَاءِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ النَّاسَ إِلَى الإِسْلاَمِ وَالنُّبُوَّةِ، وَأَنْ لاَ یَتَّخِذَ بَعْضُهُمْ بَعْضًا أَرْبَابًا مِنْ دُونِ اللهِ ۲۹۴۱،فتح الباری ۳۳؍۱،صحیح مسلم كِتَابُ الْجِهَادِ وَالسِّیَرِ بَابُ كِتَابِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ إِلَى هِرَقْلَ یَدْعُوهُ إِلَى الْإِسْلَامِ۴۶۰۷ ،مسنداحمد۲۳۷۰،مصنف عبدالرزاق ۹۷۲۴،البدایة والنہایة ۳۰۰؍۴،عیون الاثر۳۲۶؍۲،تاریخ طبری ۶۴۷؍۲

[27] صحیح بخاری کتاب الایمان كَیْفَ كَانَ بَدْءُ الوَحْیِ إِلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ؟ ۷،تاریخ طبری ۶۴۹؍۲

[28] تاریخ طبری ۶۴۹؍۲،البدایة والنہایة۳۰۴؍۴

[29] فتح الباری۴۳؍۱،تاریخ طبری ۶۵۱؍۲،البدایة والنہایة۳۰۵؍۴

[30] فتح الباری۳۷؍۱

[31] الروض الانف۵۱۵؍۷

[32] زاد المعاد ۶۰۴؍۳

[33] ابن سعد۲۱۱؍۱

[34] الروض الانف ۱۴۹؍۷، السیرة الحلبیة۳۵۷؍۳

[35] زادالمعاد۶۰۸؍۳

[36] زاد المعاد۶۰۸؍۳

[37] زادالمعاد۵۱۰؍۳،ابن سعد۲۰۰؍۱،عیون الاثر۳۴۰؍۲

[38] زاد المعاد۶۰۵؍۳

[39] زادالمعاد۶۰۷؍۳

[40] زادالمعاد۶۰۷؍۳،ابن سعد۲۰۱؍۱

[41]۔ زادالمعاد۳۳۶؍۳

[42] ابن سعد۲۱۶؍۱

[43] ابن سعد۲۶۷؍۱

[44] الروض الانف۴۸۵؍۷،عیون الاثر۳۰۳؍۲،تاریخ طبری۱۲۰؍۳،البدایة والنہایة۸۳؍۵،ابن ہشام۵۸۸؍۲

[45]الاعراف۱۵۸

[46]آل عمران۶۴

[47] فتح الباری۴۶۱؍۷

[48] البدایة والنہایة۱۷۳؍۴

[49] صحیح بخاری کتاب المغازی بَابُ غَزْوَةِ ذِی قَرَدَ۴۱۹۴،صحیح مسلم کتاب الجہادوالسیر باب غزوہ ذی قردوغیرہا۴۶۷۷

[50] فتح الباری۴۶۱؍۷

[51] ابن سعد۶۱؍۲

[52] صحیح بخاری کتاب المغازی بَابُ غَزْوَةِ ذِی قَرَدَ ۴۱۹۴،فتح الباری ۴۱۹۴، ۴۶۱؍۷،البدایة والنہایة ۱۷۳؍۴،دلائل النبوة للبیہقی۱۸۰؍۴

[53] ابن ہشام۲۸۱؍۲، زادالمعاد ۲۴۸؍۳،دلائل النبوة للبیہقی ۱۸۶؍۴،شرح الزرقانی علی المواھب۱۱۰؍۳

[54] ابن سعد۶۳؍۲،البدایة والنہایة۱۷۳؍۴،تاریخ طبری۵۹۷؍۲،دلائل النبوة للبیہقی۱۸۲؍۴

[55] ابن ہشام۲۸۱؍۲، الروض الانف ۷؍۷، عیون الاثر۱۲۱؍۲،تاریخ طبری۶۰۲؍۲

[56] دلائل النبوة للبیہقی۱۸۲؍۴،ابن سعد۶۳؍۲

[57] صحیح مسلم کتاب الجہادوالسیر بَابُ غَزْوَةِ ذِی قَرَدٍ وَغَیْرِهَا۴۶۷۸،فتح الباری ۴۶۲؍۷،دلائل النبوة للبیہقی۱۸۲؍۴

[58] ابن سعد۶۲؍۲،عیون الاثر۱۲۳؍۲،مغازی واقدی ۵۴۷؍۲،شرح الزرقانی علی الموھب۱۱۳؍۳

[59] صحیح بخاری کتاب المغازی بَابُ غَزْوَةِ ذِی قَرَدَ ۴۱۹۴، زادالمعاد ۲۴۹؍۳، البدایة والنہایة۱۷۳؍۴،فتح الباری۴۶۳؍۷

[60]۔مغازی واقدی۵۴۰؍۲

[61] صحیح مسلم کتاب الجہادوالسیربَابُ غَزْوَةِ ذِی قَرَدٍ وَغَیْرِهَا ۴۶۷۸ ، ابن سعد ۶۴؍۲

[62] ابن ہشام ۲۸۵؍۲، مغازی واقدی۵۴۸؍۲،الروض الانف۱۱؍۷

[63] صحیح مسلم کتاب الجہادوالسیربَابُ غَزْوَةِ ذِی قَرَدٍ وَغَیْرِهَا ۴۶۷۸،ابن سعد۶۴؍۲

[64] ابن سعد۶۲؍۲،شرح الزرقانی علی المواھب۱۱۴؍۳

[65]شرح الزرقانی علی المواھب۱۱۹؍۳،عیون الاثر۱۲۳؍۲،ابن سعد۶۲؍۲،مغازی واقدی۵۳۷؍۲

[66] ابن سعد۲۰۳؍۴

[67] المنتظم فی تاریخ الأمم والملوك ۳۰۳؍۴

[68] سیر السلف الصالحین لإسماعیل بن محمد الأصبهانی۴۳۳؍۱،المنتظم فی تاریخ الأمم والملوك ۳۰۲؍۴،تاریخ دمشق لابن عساکر۱۶۲؍۲۱،حیاة الصحابة۳۸۵؍۲، دراسة نقدیة فی المرویات الواردة فی شخصیة عمر بن الخطاب وسیاسته الإداریة رضی الله عنه ۷۴۳؍۲

[69] ابن ہشام ۵۹۶؍۲،الروض الانف ۴۹۵؍۷، ابن سعد۲۶۶؍۱،مغازی واقدی۵۵۷؍۲

Related Articles