ہجرت نبوی کا پہلا سال

اذان کی ابتدا

اسلامی عبادات ،وحدت واجتماعیت کاایک مثالی مظاہرہ ہیں ،اسی مقصدعظیم کے حصول کی خاطرنمازباجماعت کااہتمام کیاگیا،اس معاملے میں علمامیں اختلاف ہے کہ اذان (جس کے لغوی معنی ہیں بہت زیادہ تشہیرکرنا) کی ابتداایک ہجری میں ہوئی یادوہجری میں ،

أَنَّ ابْنَ عُمَرَ، كَانَ یَقُولُ: كَانَ المُسْلِمُونَ حِینَ قَدِمُوا المَدِینَةَ یَجْتَمِعُونَ فَیَتَحَیَّنُونَ الصَّلاَةَ لَیْسَ یُنَادَى لَهَا،فَتَكَلَّمُوا یَوْمًا فِی ذَلِكَ،فَقَالَ بَعْضُهُمْ: اتَّخِذُوا نَاقُوسًا مِثْلَ نَاقُوسِ النَّصَارَى، وَقَالَ بَعْضُهُمْ: بَلْ بُوقًا مِثْلَ قَرْنِ الیَهُودِفَقَالَ عُمَرُ: أَوَلاَ تَبْعَثُونَ رَجُلًا یُنَادِی بِالصَّلاَةِ،فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:یَا بِلاَلُ قُمْ فَنَادِ بِالصَّلاَةِ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں جب مسلمان مدینہ منورہ میں ہجرت کرکے آئے تووقت مقررکرکےنمازکے لئے جمع ہوجاتے تھےاس کے لئے اذان نہیں دی جاتی تھی ،ایک دن اس بارے میں مشورہ ہواکہ نمازکے لئے لوگوں کوجمع کرنے کی کیا ترکیب اختیارکی جائے،کسی نے کہانصاریٰ کی طرح ایک گھنٹہ لے لیاجائےاورکسی نےیہودیوں کی طرح نر سنگھاپھونکنے کامشورہ دیالیکن سیدنا عمرفاروق رضی اللہ عنہ نے تجویزپیش کی کہ ایک آدمی بازاروں میں جاکرنمازکے لیے جمع ہوجاؤة کی صدا لگا دیاکرے، سیدالامم صلی اللہ علیہ وسلم کوصرف یہی تجویز پسند آئی اور آپ ﷺنے اسی وقت بلال رضی اللہ عنہ کوحکم دیاکہ اٹھیں اورلوگوں میں جاکر نمازکااعلان کریں ۔[1]

کچھ عرصہ تک یہ سلسلہ جاری رہا،

عَنْ أَبِی عُمَیْرِ بْنِ أَنَسٍ، عَنْ عُمُومَةٍ لَهُ مِنَ الْأَنْصَارِ، قَالَ: اهْتَمَّ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ لِلصَّلَاةِ كَیْفَ یَجْمَعُ النَّاسَ لَهَافَقِیلَ لَهُ: انْصِبْ رَایَةً عِنْدَ حُضُورِ الصَّلَاةِ فَإِذَا رَأَوْهَا آذَنَ بَعْضُهُمْ بَعْضًافَلَمْ یُعْجِبْهُ ذَلِكَ، فَذُكِرَ لَهُ الْقُنْعُ یَعْنِی الشَّبُّورَ وَقَالَ زِیَادٌ: شَبُّورُ الْیَهُودِ فَلَمْ یُعْجِبْهُ ذَلِكَ، وَقَالَ:هُوَ مِنْ أَمْرِ الْیَهُودِ،قَالَ: فَذُكِرَ لَهُ النَّاقُوسُ، فَقَالَ:هُوَ مِنْ أَمْرِ النَّصَارَى،فَانْصَرَفَ عَبْدُ اللهِ بْنُ زَیْدِ بْنِ عَبْدِ رَبِّهِ وَهُوَ مُهْتَمٌّ لِهَمِّ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَأُرِیَ الْأَذَانَ فِی مَنَامِهِ،قَالَ: فَغَدَا عَلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَأَخْبَرَهُ، فَقَالَ لَهُ: یَا رَسُولَ اللهِ إِنِّی لَبَیْنَ نَائِمٍ وَیَقْظَانَ، إِذْ أَتَانِی آتٍ فَأَرَانِی الْأَذَانَ،

ابوعمیربن انس اپنے چچاسے روایت کرتے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فکرمندہوئے کہ کس طرح لوگوں کونمازکے لئے (بروقت)جمع کیاجائے، (چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس موضوع پرمجلس مشاورت بلائی) ہرایک نے اپنی اپنی رائے دی، کسی نے کہاکہ نمازکے وقت جھنڈابلندکردیاجائے لوگ جب اسے دیکھیں گے توایک دوسرے کو خبر کر دیا کریں گے مگرآپ کویہ رائے پسندنہ آئی،کسی نے یہودکی طرح نرسنگھاپھونکنے کامشورہ دیامگریہ رائے بھی آپ کوپسندنہ آئی اورفرمایایہ یہودیوں کاعمل ہے،کسی نے ناقوس کی رائے دی توآپ نے فرمایایہ نصاریٰ کاعمل ہے(اس طرح یہ مجلس کوئی بات طے ہوئے بغیر برخواست ہوگئی)،چنانچہ عبداللہ رضی اللہ عنہ بن زیدبن عبدربہ مجلس سے لوٹے تووہ اسی فکرمیں تھے جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تھے (اسی فکراورسوچ وبچار میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس سے اٹھ کرگھرآئے اوربستر پر درازہو گئے) توانہیں خواب میں اذان بتائی گئی چنانچہ وہ صبح کورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پہنچے اورآپ کوخبردی اورکہااے اللہ کے رسول ﷺ!میں سونے اورجاگنے کی کیفیت میں تھاکہ میرے پاس ایک آنے والاآیااورمجھے اذان بتادی،

قَالَ: وَكَانَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللهُ عَنْهُ، قَدْ رَآهُ قَبْلَ ذَلِكَ فَكَتَمَهُ عِشْرِینَ یَوْمًاقَالَ: ثُمَّ أَخْبَرَ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ لَهُ:مَا مَنَعَكَ أَنْ تُخْبِرَنِی؟فَقَالَ: سَبَقَنِی عَبْدُ اللهِ بْنُ زَیْدٍ، فَاسْتَحْیَیْتُ،فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:یَا بِلَالُ، قُمْ فَانْظُرْمَا یَأْمُرُكَ بِهِ عَبْدُ اللهِ بْنُ زَیْدٍفَافْعَلْهُ

(راوی نے کہاکہ)سیدناعمر رضی اللہ عنہ ابن خطاب بھی ان سے پہلے یہ اذان خواب میں دیکھ چکے تھے مگربیس دن تک خاموش رہے،پھرانہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کوبتایاتوآپ نے فرمایاہمیں خبردینے سے تمہیں کس چیزنے روکاتھا؟توانہوں نے کہاکہ عبداللہ بن زیدمجھ سے سبقت لے گئے تھے اس لئے مجھے حیاآئی، تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااے بلال!کھڑے ہوجاؤدیکھوجوعبداللہ بن زیدتمہیں بتائے وہ کروچنانچہ بلال نے اذان دی۔[2]

عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ زَیْدِ بْنِ عَبْدِ رَبِّهِ، قَالَ: حَدَّثَنِی أَبِی عَبْدُ اللَّهِ بْنُ زَیْدٍ، قَالَ: لَمَّا أَمَرَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بِالنَّاقُوسِ یُعْمَلُ لِیُضْرَبَ بِهِ لِلنَّاسِ لِجَمْعِ الصَّلَاةِ طَافَ بِی وَأَنَا نَائِمٌ رَجُلٌ یَحْمِلُ نَاقُوسًا فِی یَدِهِ، فَقُلْتُ: یَا عَبْدَ اللهِ أَتَبِیعُ النَّاقُوسَ؟قَالَ: وَمَا تَصْنَعُ بِهِ؟ فَقُلْتُ: نَدْعُو بِهِ إِلَى الصَّلَاةِ،قَالَ: أَفَلَا أَدُلُّكَ عَلَى مَا هُوَ خَیْرٌ مِنْ ذَلِكَ؟فَقُلْتُ لَهُ: بَلَى، قَالَ: فَقَالَ: تَقُولُ اللهُ أَكْبَرُ، اللهُ أَكْبَرُ، اللهُ أَكْبَرُ، اللهُ أَكْبَرُ، أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ، أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ،أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللهِ، أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللهِ، حَیَّ عَلَى الصَّلَاةِ، حَیَّ عَلَى الصَّلَاةِ، حَیَّ عَلَى الْفَلَاحِ، حَیَّ عَلَى الْفَلَاحِ، اللهُ أَكْبَرُ، اللهُ أَكْبَرُ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ

محمدبن عبداللہ بن زیدبن عبدربہ کہتے ہیں کہ میرے والدعبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ نے بتایا جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ناقوس بنانے کاحکم دیاتاکہ اسے بجاکرلوگوں کونمازکے لئے جمع کیاجائے تومیں نے خواب میں دیکھاکہ میرے پاس سے ایک آدمی گزررہاہے،ہاتھ میں ناقوس لیے ہوئے ہے ،میں نے اس سے کہا اے اللہ کے بندے !کیاتوناقوس بیچے گا؟اس نے کہاتم اس کاکیا کرو گے؟میں نے کہاہم اس سے لوگوں کونمازکے لئے بلائیں گے،وہ کہنے لگاکیامیں تمہیں وہ چیزنہ بتادوں جواس سے زیادہ بہترہے؟میں نے کہاکیوں نہیں ،اس نے کہااس طرح کہواللہ سب سے بڑاہے،اللہ سب سے بڑاہے،اللہ سب سے بڑاہے،اللہ سب سے بڑاہے، میں گواہی دیتاہوں کہ اللہ کے سواکوئی معبودنہیں ،میں گواہی دیتاہوں کہ اللہ کے سواکوئی معبودنہیں ،میں گواہی دیتاہوں کہ محمداللہ کے رسول ہیں ،میں گواہی دیتاہوں کہ محمداللہ کے رسول ہیں ،آؤنمازکی طرف،آؤنمازکی طرف،آؤکامیابی کی طرف،آؤکامیابی کی طرف،اللہ سب سے بڑاہے،اللہ سب سے بڑاہے،اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں ،

قَالَ: ثُمَّ اسْتَأْخَرَ عَنِّی غَیْرَ بَعِیدٍ،ثُمَّ، قَالَ: وَتَقُولُ: إِذَا أَقَمْتَ الصَّلَاةَ، اللهُ أَكْبَرُ اللهُ أَكْبَرُ، أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ،أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللهِ، حَیَّ عَلَى الصَّلَاةِ، حَیَّ عَلَى الْفَلَاحِ، قَدْ قَامَتِ الصَّلَاةُ، قَدْ قَامَتِ الصَّلَاةُ،اللهُ أَكْبَرُ اللهُ أَكْبَرُ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ

پھروہ مجھ سے کچھ پیچھے ہٹ گیااورکہاجب تم نمازکے لئے کھڑے ہوں تویوں کہو اللہ سب سے بڑاہے،اللہ سب سے بڑاہے، میں گواہی دیتاہوں کہ اللہ کے سواکوئی معبودنہیں ،میں گواہی دیتاہوں کہ محمداللہ کے رسول ہیں ،آؤنمازکی طرف، آؤکامیابی کی طرف،نمازکھڑی ہوگئی ہے، نمازکھڑی ہوگئی ہے،اللہ سب سے بڑاہے،اللہ سب سے بڑاہے،اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں

فَلَمَّا أَصْبَحْتُ، أَتَیْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَأَخْبَرْتُهُ، بِمَا رَأَیْتُ،فَقَالَ:إِنَّهَا لَرُؤْیَا حَقٌّ إِنْ شَاءَ اللهُ،فَقُمْ مَعَ بِلَالٍ فَأَلْقِ عَلَیْهِ مَا رَأَیْتَ، فَلْیُؤَذِّنْ بِهِ، فَإِنَّهُ أَنْدَى صَوْتًا مِنْكَ،فَقُمْتُ مَعَ بِلَالٍ، فَجَعَلْتُ أُلْقِیهِ عَلَیْهِ، وَیُؤَذِّنُ بِهِ،قَالَ: فَسَمِعَ ذَلِكَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ، وَهُوَ فِی بَیْتِهِ فَخَرَجَ یَجُرُّ رِدَاءَهُ، وَیَقُولُ: وَالَّذِی بَعَثَكَ بِالْحَقِّ یَا رَسُولَ اللهِ، لَقَدْ رَأَیْتُ مِثْلَ مَا رَأَى،فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:فَلِلَّهِ الْحَمْدُ

جب صبح ہوئی تومیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضرہوااورجوکچھ خواب میں دیکھاتھاآپ کوبتلایا،توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایایہ ان شاء اللہ سچاخواب ہے،تم بلال رضی اللہ عنہ کے ساتھ کھڑے ہوجاؤاوراسے وہ کلمات بتاتے جاؤجوتم نے دیکھے ہیں ،وہ اذان کہے گاکیونکہ وہ تم سے زیادہ بلندآوازہے،چنانچہ میں بلال رضی اللہ عنہ کے ساتھ کھڑاہوگیااورانہیں وہ الفاظ بتاتاگیااوروہ اذان کہتے گئے،سیدناعمر رضی اللہ عنہ اپنے گھرمیں تھےانہوں نے جب اس آواز کو سناتو(جلدی سے)اپنی چادرگھسٹتے ہوئے آئے اورکہنے اللہ کی قسم! جس نے آپ کوحق دے کربھیجاہےاے اللہ کے رسولﷺ!میں نے بھی یہی خواب دیکھاہے جیسے کہ اسے دکھایاگیاہے، تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاتعریف اللہ ہی کے لئے ہے۔[3]

عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ کوخواب میں اذان اوراقامت کے جو کلمات تلقین کئے گئے وہ دودومرتبہ ادا ہوئے تھے، ابومخذورہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں رسول اللہ ﷺنے بنفس نفیس مجھے اذان کے کلمات اس طرح سکھائے(جو اسلام کے تین بنیادی اصول توحید، رسالت اور آخرت پرمشتمل ہے) مجھ سے فرمایاکہو

اللهُ أَكْبَرُ اللهُ أَكْبَرُ(اللہ تبارک وتعالیٰ کی عظمت وکبرائی کابیان) أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ ۔ أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ (توحیدکااثبات اورشرک کی نفی) أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللهِ، أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللهِ (اثبات رسالت) حَیَّ عَلَى الصَّلَاةِ،حَیَّ عَلَى الصَّلَاةِ (سب سے افضل عبادت کی طرف پکار) حَیَّ عَلَى الْفَلَاحِ، حَیَّ عَلَى الْفَلَاحِ(جس میں دائمی فلاح ہے

)اللهُ أَكْبَرُ اللهُ أَكْبَرُلَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ(یادرکھواللہ ہی سب سے اعلی اور برتر ہے اس کے سواکوئی معبودنہیں )۔[4]

وَإِذَا أَذَّنْتَ بِالْأَوَّلِ مِنَ الصُّبْحِ فَقُلْ: الصَّلَاةُ خَیْرٌ مِنَ النَّوْمِ، الصَّلَاةُ خَیْرٌ مِنَ النَّوْمِ

بلال رضی اللہ عنہ نے صبح کی اذان میں اپنی طرف سے کلمہ’’ نمازنیندسے بہتر ہے، نمازنیندسے بہتر ہے۔‘‘ کا اضافہ کردیا جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے باقی رہنے دیا۔[5]

فَزَادَ بِلالٌ فِی الصُّبْحِ: الصَّلاةُ خَیْرٌ مِنَ النَّوْمِ

بلال رضی اللہ عنہ نے صبح کی اذان میں کلمہ’’ نمازنیندسے بہترہے۔‘‘ کااضافہ کردیا۔[6]

فجرکی اذان میں الصَّلاةُ خَیْرٌ مِنَ النَّوْمِ کہنے کی مشروعیت:

فجرکی اذان میں اورکے بعددودفعہ کہنا مسنون اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم ہے ،یہ عہدنبوت کے بعدکی ایجا دیا پیداوارنہیں ہے جیسا کہ بعض لوگ کہتے یاباورکراتے ہیں ۔

عَنْ أَنَسٍ قَالَ:مِنَ السَّنَةِ إِذَا قَالَ الْمُؤَذِّنُ فِی أَذَانِ الْفَجْرِ: حَیَّ عَلَى الْفَلَاحِ قَالَ: الصَّلَاةُ خَیْرٌ مِنَ النَّوْمِ

انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں یہ سنت ہے کہ جب مؤذن اذان فجرمیں حی علی الفلاح کہے تو(اس کے بعد)’’نمازنیند سے بہترہے۔‘‘کہے۔[7]

شرح معانی الآثار(ح۸۴۴)میں یہ حدیث ان الفاظ سے مروی ہے

كَانَ التَّثْوِیبُ فِی صَلَاةِ الْغَدَاةِ إِذَا قَالَ: الْمُؤَذِّنُ حَیَّ عَلَى الْفَلَاحِ قَالَ: الصَّلَاةُ خَیْرٌ مِنَ النَّوْمِ مَرَّتَیْنِ

صرف صبح کی نمازمیں جب مؤذن کہتا حی علی الفلاح کہتاتو’’نمازنیندسے بہترہے۔‘‘دودفعہ کہتا۔[8]

وَصَحَّحَهُ ابْنُ السَّكَنِ

امام ابن السکن رحمہ اللہ نے اسے صحیح قراردیاہے۔

دوسری دلیل:

عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ أَبِی مَحْذُورَةَ، عَنْ أَبِیهِ، عَنْ جَدِّهِ، قَالَ: قُلْتُ: یَا رَسُولَ اللهِ عَلِّمْنِی سُنَّةَ الْأَذَانِ؟قَالَ: فَمَسَحَ مُقَدَّمَ رَأْسِی، وَقَالَ: تَقُولُ: اللهُ أَكْبَرُ اللهُ أَكْبَرُ، اللهُ أَكْبَرُ اللهُ أَكْبَرُ، تَرْفَعُ بِهَا صَوْتَكَ، ثُمَّ تَقُولُ: أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ، أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ، أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللهِ، أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللهِ، تَخْفِضُ بِهَا صَوْتَكَ، ثُمَّ تَرْفَعُ صَوْتَكَ بِالشَّهَادَةِ، أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ، أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ، أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللهِ، أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللهِ، حَیَّ عَلَى الصَّلَاةِ، حَیَّ عَلَى الصَّلَاةِ، حَیَّ عَلَى الْفَلَاحِ، حَیَّ عَلَى الْفَلَاحِ، فَإِنْ كَانَ صَلَاةُ الصُّبْحِ قُلْتَ: الصَّلَاةُ خَیْرٌ مِنَ النَّوْمِ، الصَّلَاةُ خَیْرٌ مِنَ النَّوْمِ

ابومحذرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےمیں نے عرض کیااے اللہ کے رسول ﷺ!مجھے اذان کاطریقہ سکھادیں ، آپ ﷺنے میری پیشانی پر اپنا دست مبارک پھیرا اور فرمایا بلند آواز سے اللہ اکبر کہنا دو مرتبہ،اشھدان لاالٰہ الااللہ کہنا دو دو مرتبہ،اشھدان محمدرسول اللہ آہستہ آواز سے کہنا، پھر دو دو مرتبہ بلند آواز سے کہنا پھر دو دو مرتبہ حی علی الصلاة اورحی علی الفلاح کہنا(یعنی ترجیح والی اذان سکھائی)اورحدیث کے آخرمیں ہے اور جب صبح کی اذان دینا تو دو مرتبہ ’’نمازنیند سے بہترہے۔‘‘کہنااور آخر میں اللہ اکبر،اللہ اکبر،لاالٰہ الااللہ کہنا۔[9]

ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں

الصَّلَاةُ خَیْرٌ مِنَ النَّوْمِ، الصَّلَاةُ خَیْرٌ مِنَ النَّوْمِ فِی الْأُولَى مِنَ الصُّبْحِ

’’ نمازنیندسے بہترہے۔‘‘کے کلمات صبح کی پہلی اذان میں کہو۔[10]

صحیح ابن خزیمہ میں یہ الفاظ ہیں

الصَّلَاةُ خَیْرٌ مِنَ النَّوْمِ، الصَّلَاةُ خَیْرٌ مِنَ النَّوْمِ، فِی الْأَوَّلِ مِنَ الصُّبْحِ

’’نمازنیندسے بہترہے۔نمازنیند سے بہترہے۔‘‘ صبح کی پہلی اذان میں کہو۔[11]

وَكَانَ یَقُولُ فِی الْفَجْرِ:الصَّلَاةُ خَیْرٌ مِنَ النَّوْمِ

ایک اورسند سے مروی الفاظ یوں ہیں ابومحذورہ رضی اللہ عنہ اذان فجرمیں ’’ نمازنیند سے بہترہے۔‘‘ کہاکرتے تھے۔[12]

تیسری دلیل :

عَنِ ابْنِ عُمَرَ، رَضِیَ اللهُ عَنْهُمَا قَالَ: كَانَ فِی الْأَذَانِ الْأَوَّلِ بَعْدَ الْفَلَاحِ: الصَّلَاةُ خَیْرٌ مِنَ النَّوْمِ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہےپہلی اذان میں حی علی الفلاح کے بعد’’ نمازنیندسے بہترہے۔‘‘ کے الفاظ کہے جاتے تھے۔[13]

وَسَنَدُهُ حَسَنٌ

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ اس روایت کی سندکے بارے میں فرماتے ہیں اس روایت کی سند حسن ہے۔[14]

عَنِ ابْنِ عُمَرَ عَنْ عُمَرَ، أَنَّهُ قَالَ لِمُؤَذِّنِهِ:أَنَّهُ قَالَ لِمُؤَذِّنِهِ: إِذَا بَلَغْتَ حَیَّ عَلَى الْفَلَاحِ فِی الْفَجْرِ فَقُلِ: الصَّلَاةُ خَیْرٌ مِنَ النَّوْمِ الصَّلَاةُ خَیْرٌ مِنَ النَّوْمِ

اس کے علاوہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے بھی یہ منقول ہےانہوں نے اپنے مؤذن کوکہاکہ جب تم فجرکی اذان میں حی علی الفلاح پرپہنچوتو’’نمازنیندسے بہترہے۔‘‘کہو۔[15]

چوتھی دلیل:

فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:إِنَّ هَذِهِ لَرُؤْیَا حَقٌّ إِنْ شَاءَ اللهُ، ثُمَّ أَمَرَ بِالتَّأْذِینِ، فَكَانَ بِلَالٌ مَوْلَى أَبِی بَكْرٍ یُؤَذِّنُ بِذَلِكَ، وَیَدْعُو رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ إِلَى الصَّلَاةِ، قَالَ: فَجَاءَهُ فَدَعَاهُ ذَاتَ غَدَاةٍ إِلَى الْفَجْرِ، فَقِیلَ لَهُ: إِنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ نَائِمٌ، قَالَ: فَصَرَخَ بِلَالٌ بِأَعْلَى صَوْتِهِ الصَّلَاةُ خَیْرٌ مِنَ النَّوْمِ ،قَالَ سَعِیدُ بْنُ الْمُسَیِّبِ: فَأُدْخِلَتْ هَذِهِ الْكَلِمَةُ فِی التَّأْذِینِ إِلَى صَلَاةِ الْفَجْرِ

بلال رضی اللہ عنہ سے مروی ہے عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ نے(اذان کے متعلق) اپناخواب بیان کیاتوآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایایہ ان شاءاللہ سچاخواب ہے،پھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی طریقے سے اذان دینے کاحکم فرمایا، بلال رضی اللہ عنہ سیدناابوبکر رضی اللہ عنہ کے آزادکردہ غلام تھے یہ اذان دیاکرتے تھےاوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کونمازکی طرف بلاتے تھے، روای کابیان ہے (ایک مرتبہ) بلال رضی اللہ عنہ آئے اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم کوصبح کے وقت نمازفجرکی طرف بلایاانہیں کہاگیاکہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سوئے ہوئے ہیں ،راوی کابیان ہے تو بلال رضی اللہ عنہ نے بآواز بلند ’’نمازنیندسے بہتر ہے۔‘‘کہا،سعیدبن مسیب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں اس وقت سے یہ کلمات نمازفجرکی اذان میں داخل کرلیے گئے۔[16]

اس روایت کی سندمیں اسحاق مدلس ہیں اورعن سے بیان کرتے ہیں ۔

شیخ البانی رحمہ اللہ اس مذکورہ روایت کے متعلق فرماتے ہیں پھرمیں نے بیہقی میں بسندصحیح سعیدبن مسیب رضی اللہ عنہ سے اس کاایک دوسراطریق پالیا۔۔۔

عَنِ الزُّهْرِیِّ، قَالَ: حَدَّثَنِی سَعِیدُ بْنُ الْمُسَیِّبِ، فَذَكَرَ قِصَّةَ عَبْدِ اللهِ بْنِ زَیْدٍ وَرُؤْیَاهُ إِلَى أَنْ قَالَ: ثُمَّ زَادَ بِلَالٌ فِی التَّأْذِینِ: الصَّلَاةُ خَیْرٌ مِنَ النَّوْمِ، وَذَلِكَ أَنَّ بِلَالًا أَتَى بَعْدَمَا أَذَّنَ التَّأْذِینَةَ الْأُولَى مِنْ صَلَاةِ الْفَجْرِ لِیُؤذنَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بِالصَّلَاةِ فَقِیلَ لَهُ: إِنَّ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ نَائِمٌ،فَأَذَّنَ بِلَالٌ بِأَعْلَى صَوْتِهِ: الصَّلَاةُ خَیْرٌ مِنَ النَّوْمِ فَأُقِرَّتْ فِی التَّأْذِینِ لِصَلَاةِ الْفَجْرِ

امام زہری رحمہ اللہ فرماتے ہیں سعیدبن مسیب رضی اللہ عنہ نے عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ کاقصہ اوراس کاخواب بیان کیایہاں تک کہ انہوں نے فرمایاپھربلال رضی اللہ عنہ نے اذان میں ’’نمازنیندسے بہترہے۔‘‘ کااضافہ فرمایااوراس طرح کہ جب بلال رضی اللہ عنہ پہلی اذان دے کررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کونمازکی اطلاع دینے کے لیے آئے توانہیں کہاگیاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سورہے ہیں توبلال رضی اللہ عنہ نے باآوازبلندکی منادی کی ،لہذانمازفجرکی اذان میں یہ الفاظ مقررکردیے گئے۔[17]

ان روایات سے یہ ثابت ہوگیاکہ فجرکی اذان میں ’’نمازنیندسے بہترہے۔‘‘ کہناسنت ہے،یہ نہ بدعت ہے اورنہ غیرمشروع۔

وَالَّذِی فَسَّرَ ابْنُ الْمُبَارَكِ، وَأَحْمَدُ، أَنَّ التَّثْوِیبَ: أَنْ یَقُولَ الْمُؤَذِّنُ فِی أَذَانِ الفَجْرِ، الصَّلاَةُ خَیْرٌ مِنَ النَّوْمِ.وَهُوَ قَوْلٌ صَحِیحٌ، وَیُقَالُ لَهُ التَّثْوِیبُ أَیْضًا.وَهُوَ الَّذِی اخْتَارَهُ أَهْلُ العِلْمِ وَرَأَوْهُ

امام ترمذی رحمہ اللہ فرماتے ہیں ابن المبارک رحمہ اللہ اورامام احمد رحمہ اللہ نے جوتفسیربیان کی ہے کہ تثویب سے مرادیہ ہے کہ مؤذن فجرکی اذان میں ’’ نمازنیندسے بہترہے۔‘‘ کہے،یہی قول صحیح ہے ،اہل علم نے اسے پسندکیاہے اوریہ ان کی رائے ہے۔[18]

بعض لوگ کہتے ہیں کہ ان کلمات کاآغازدورفاروقی میں ہوااس سے قبل یہ کلمات اذان فجرمیں نہیں کہے جاتے تھے اوردلیل کے طورپرحسب ذیل اثرپیش کرتے ہیں ۔

وَحَدَّثَنِی عَنْ مَالِكٍ أَنَّهُ بَلَغَهُ أَنَّ الْمُؤَذِّنَ جَاءَ إِلَى عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ یُؤْذِنُهُ لِصَلَاةِ الصُّبْحِ، فَوَجَدَهُ نَائِمًافَقَالَ:الصَّلَاةُ خَیْرٌ مِنَ النَّوْمِ،فَأَمَرَهُ عُمَرُ أَنْ یَجْعَلَهَا فِی نِدَاءِ الصُّبْحِ

امام مالک رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ انہیں یہ خبرپہنچی کہ مؤذن آیا اورسیدناعمرفاروق رضی اللہ عنہ کوصبح کی نمازکی اطلاع دینے لگاکیونکہ وہ سوئے ہوئے تھے، تواس نے کہا نماز نیند سے بہترہے سیدناعمرفاروق رضی اللہ عنہ نے اسے حکم دیاکہ یہ کلمات صبح کی اذان میں کہاکرو۔[19]

یہ اثرامام مالک رحمہ اللہ کے بلاغات میں سے ہے،

وھوضعیف لاعضالہ اوارسالہ

شیخ البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں یہ اثرمعضل یامرسل ہونے کی وجہ سے ضعیف ہے۔[20]

اورسیدناعمرفاروق رضی اللہ عنہ سے بالفرض اگریہ بات سنداًثابت بھی ہوتوتب بھی اس کی توجیہ اوران کامقصدیہی ہے کہ ان کلمات کااصل محل صبح کی اذان ہی ہے جیساکہ احادیث سے ثابت ہے،ان الفاظ کواذان ہی میں کہاکروجبکہ دیگراوقات میں ان کلمات کااستعمال خواہ کسی کومتنبہ کرنے کے لیے ہی کیوں نہ ہو،جائزنہیں ،اسی لیے سیدناعمر رضی اللہ عنہ نے اسے بطورخاص تلقین فرمائی۔واللہ اعلم

الصَّلَاةُ خَیْرٌ مِنَ النَّوْمِ کہنے کااصل محل:

راجح بات یہ ہے کہ یہ کلمات طلوع فجرکے بعدصبح کی اذان میں دومرتبہ حی علی الفلاح کے بعدکہے جائیں ،یہ جمہورعلماءکا موقف ہے ،دلائل وقرآن کی روشنی میں یہی موقف اقرب الی الصواب ہے۔

وَإِنْ زَادَ فِی صَلَاةِ الصُّبْحِ بَعْدَ: حَیَّ عَلَى الْفَلَاحِ : الصَّلَاةُ خَیْرٌ مِنْ النَّوْمِ، الصَّلَاةُ خَیْرٌ مِنْ النَّوْمِ: فَحَسَنٌ

امام ابن حزم رحمہ اللہ کے کلام سے بھی بظاہراس کی تائیدہوتی ہے وہ فرماتے ہیں اگرمؤذن نمازفجرکی اذان میں ’’ نمازنیندسے بہترہے۔‘‘ کااضافہ کرے تویہ اچھاہے۔[21]

فَهَذَا ابْنُ عُمَرَ رَضِیَ اللهُ عَنْهُمَا وَأَنَسٌ رَضِیَ اللهُ عَنْهُ یُخْبِرُ أَنَّ ذَلِكَ مِمَّا كَانَ الْمُؤَذِّنُ یُؤَذِّنُ بِهِ فِی أَذَانِ الصُّبْحِ. فَثَبَتَ بِذَلِكَ مَا ذَكَرْنَا , وَهُوَ قَوْلُ أَبِی حَنِیفَةَ , وَأَبِی یُوسُفَ , وَمُحَمَّدٍ رَحِمَهُمُ اللهُ تَعَالَى

فجرکی اذان میں کی مشروعیت وسنئیت کااثبات کرتے ہوئے امام طحاوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ اورانس رضی اللہ عنہ خبردیتے ہیں کہ ان کلمات کے ساتھ مؤذن صبح کی اذان دیاکرتاتھالہذااس سے جوہم نے مدعاذکرکیاہے ثابت ہوگیا(یعنی اس کی مشروعیت)یہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ ،امام ابویوسف رحمہ اللہ اورامام محمد رحمہ اللہ کاقول ہے۔[22]

فَقَدْ ثَبَتَ بِمَا قُلْنَا وُجُوبُ اسْتِعْمَالِ: الصَّلَاةٌ خَیْرٌ مِنَ النَّوْمِ، عَلَى مَا فِی هَذِهِ الْآثَارِ فِی أَذَانِ الصُّبْحِ

شرح مشکل الآثارمیں فرماتے ہیں ’’نمازنیندسے بہترہے۔‘‘ کے الفاظ صبح کی اذان میں کہنے کاوجوب ثابت ہوگیاجس طرح ہم نے کہاہے جیساکہ ان آثاروروایات میں ہے ۔[23]

قَدْ ذَكَرْنَا أَنَّ مَذْهَبَنَا أَنَّهُ سُنَّةٌ فِی أَذَانِ الصُّبْحِ

امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں ہم ذکرکرچکے ہیں ’’نمازنیندسے بہترہے۔‘‘ کہناصبح کی اذان میں مسنون ہے۔[24]

وَیَقُولُ فِی أَذَانِ الصُّبْحِ: الصَّلَاةُ خَیْرٌ مِنْ النَّوْمِ. مَرَّتَیْنِ

امام ابن قدامہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں مؤذن کوصبح کی اذان میں ’’نمازنیندسے بہترہے۔‘‘ دومرتبہ کہناچاہیے۔[25]

وھذالان الصبح مظنة نوم الناس فی وقتھافاستحب زیادة ذلک فیھابخلاف سائرالصلوات ،وسواءاذن مغلسااومسفرا،لانہ مظنة فی الجملة

اس قول کی شرح میں امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں یہ اس لیے کہ صبح کاوقت لوگوں کی نیندکاوقت ہوتاہے تو(شارع کی طرف سے ) اس وقت ان کلمات کااضافہ مستحب سمجھا گیا ، دیگرنمازوں کے برخلاف مؤذن خواہ اندھیرے میں اذان دے یاروشنی ہونے پربرابرہے کیونکہ فی الجملہ اس وقت نیندکاگمان ہوتاہے۔[26]

أقول: قد رویت فیه أحادیث منها ما هو صحیح ومنها حسن ومنها ما هو ضعیف فلا وجه للقول بأنه بدعة وهو مختص بصلاة الفجر۔۔۔

امام شوکانی رحمہ اللہ ان کلمات کی مشروعیت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں اس کے متعلق مختلف احادیث مروی ہیں کچھ صحیح ،کچھ حسن درجے کی اورکچھ ضعیف ،اس لیے اسے بدعت کہنے کی کوئی صورت نہیں اوریہ نمازفجرکے ساتھ خاص ہے۔[27]

 عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: ذَكَرُوا أَنْ یُعْلِمُوا وَقْتَ الصَّلَاةِ بِشَیْءٍ یَعْرِفُونَهُ فَذَكَرُوا أَنْ یُنَوِّرُوا نَارًا، أَوْ یَضْرِبُوا نَاقُوسًا فَأُمِرَ بِلَالٌ أَنْ یَشْفَعَ الْأَذَانَ وَیُوتِرَ الْإِقَامَةَ

انس رضی اللہ عنہ بن مالک سے مروی ہے صحابہ کرام رضی اللہ عنہ نے لوگوں کونمازکے وقت اطلاع دینے کے لئے مشورہ کیاکہ جس چیزسے نمازکے وقت کاعلم ہوجائے ،بعض نے کہاکہ آگ روشن کردی جائے یاناقوس بجایا جائے،چنانچہ بلال رضی اللہ عنہ کوحکم دیاگیاکہ وہ اذان کے کلمات دودومرتبہ اوراقامت کے کلمات ایک مرتبہ کہیں ۔[28]

کیونکہ اذان میں دین کے شعارکا اظہار اورقواعدوکلیات اسلام کااعلان ہے جوکہ شیطان کے لئے سب سے زیادہ تکلیف کاباعث ہے اس لئے جب اذان دی جاتی ہے تو جہاں تک آواز پہنچتی ہے شیطان اس سے دور بھاگ جاتاہے ۔

 عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ:أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: إِذَا نُودِیَ لِلصَّلَاةِ أَدْبَرَ الشَّیْطَانُ لَهُ ضُرَاطٌ، حَتَّى لَا یَسْمَعَ التَّأْذِینَ،فَإِذَا قُضِیَ التَّأْذِینُ أَقْبَلَ حَتَّى إِذَا ثُوِّبَ بِالصَّلَاةِ أَدْبَرَ حَتَّى إِذَا قُضِیَ التَّثْوِیبُ أَقْبَلَ حَتَّى یَخْطُرَ بَیْنَ الْمَرْءِ وَنَفْسِهِ، یَقُولُ لَهُ: اذْكُرْ كَذَا وَاذْكُرْ كَذَا لِمَا لَمْ یَكُنْ یَذْكُرُ مِنْ قَبْلُ حَتَّى یَظَلَّ الرَّجُلُ مَا یَدْرِی كَمْ صَلَّى

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجب نمازکے لئے اذان دی جاتی ہے توشیطان گوزمارتاہواپیٹھ پھیرکربھاگ جاتا ہے یہاں تک کہ اذان سنائی نہ دے ،جب اذان پوری ہوجاتی ہے توواپس آجاتاہے اورجب نمازکے لئے اقامت کہی جاتی ہے توبھاگ جاتاہے اورجب اقامت پوری ہوجاتی ہے تو آ جاتاہے یہاں تک کہ لوگوں کے دلوں میں خیالات ڈالتاہے اس کوکہتاہے کہ فلاں بات یادکر،فلاں بات یادکرحالانکہ اس کووہ باتیں پہلے یادہی نہیں تھیں یہاں تک کہ آدمی بھول جاتاہے اوروہ نہیں جانتاکہ اس نے کتنی نمازپڑھی۔[29]

اذا ن کاجواب :

اذان سن کراس کاجواب دینا چاہیے جوبڑاہی مختصرعمل ہے مگررسول اللہ ﷺنے اس کی بڑی بڑی فضیلت بیان کی گئی ہے ۔

عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ:قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: الدُّعَاءُ لاَ یُرَدُّ بَیْنَ الأَذَانِ وَالإِقَامَةِ، قَالُوا: فَمَاذَا نَقُولُ یَا رَسُولَ اللهِ؟ قَالَ: سَلُوا اللهَ العَافِیَةَ فِی الدُّنْیَا وَالآخِرَةِ

انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااذان اوراقامت کے مابین کی دعاردنہیں ہوتی،صحابہ کرام رضی اللہ عنہ نے دریافت کیااے اللہ کے رسول ﷺ! ہم اس وقت میں کیادعاکریں ،آپ ﷺنے فرمایاکہ اللہ تعالیٰ سے دنیااورآخرت میں عافیت کاسوال کرو۔[30]

 عَنْ سَعْدِ بْنِ أَبِی وَقَّاصٍ،عَنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ:مَنْ قَالَ حِینَ یَسْمَعُ الْمُؤَذِّنَ أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ لَا شَرِیكَ لَهُ، وَأَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ، رَضِیتُ بِاللهِ رَبًّا وَبِمُحَمَّدٍ رَسُولًا، وَبِالْإِسْلَامِ دِینًا غُفِرَ لَهُ ذَنْبُهُ،قَالَ ابْنُ رُمْحٍ فِی رِوَایَتِهِ مَنْ قَالَ حِینَ یَسْمَعُ الْمُؤَذِّنَ: وَأَنَا أَشْهَدُ وَلَمْ یَذْكُرْ قُتَیْبَةُ قَوْلَهُ: وَأَنَا

سعدبن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ ﷺنے ارشادفرمایاکہ موذن کی اذان سن کرجس نے یہ کہامیں اس بات کی گواہی دیتاہوں کہ اللہ کے سواکوئی دوسرامعبودنہیں ،اللہ تعالیٰ یکتاہے اوراس کاکوئی شریک نہیں اورمحمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے بندے اوررسول ہیں ،میں اللہ کی ربوبیت اورمحمدﷺکی رسالت سے مسروروخوش ہوں اورمیں نے مذہب اسلام کوقبول کرلیاہے تواس کے گناہ بخش دیئے جائیں گے،ابن رمح کی روایت میں اشھد کی بجائے وانااشھد ہے معنی ومفہوم ایک ہی ہے۔[31]

عَنْ أَبِی سَعِیدٍ الْخُدْرِیِّ،أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:إِذَا سَمِعْتُمُ النِّدَاءَ، فَقُولُوا مِثْلَ مَا یَقُولُ المُؤَذِّنُ

ابوسعیدخدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ ﷺنے فرمایاجب تم اذان سنوتوجس طرح موذن کہتاہے اسی طرح تم کہو۔[32]

یعنی اذان کاجواب یہ ہے کہ جیسے موذن کہتاجائے سننے والاویسے ہی کہے أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللهِ کے جواب میں أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللهِ ہی کہے اورمزید ﷺبھی کہے، انگوٹھے چوم کرآنکھوں پرلگاناضعیف روایت ہے ،کیونکہ اذان کے کلمات ذکرہیں اور حَیَّ عَلَى الصَّلَاةِ اورحَیَّ عَلَى الْفَلَاحِ نمازکی دعوت ہے اس لئے سننے والے کے لئے آپ ﷺنے یہ مسنون قراردیاہے کہ اس دعوت کوسن کروہ اعانت کے کلمہ لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللهِ الْعَلِیِّ الْعَظِیمِ سے استعانت چاہیے ، اور اسی طرح اقامت کے جواب میں بھی پوری اقامت کا جواب دیا جائے نہ کہ صرف أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللهِ کا ، آخرمیں درودپڑھ کردعائے وسیلہ پڑھی جائے ، لیکن یادرہے کہ اذان کے بعدکی یہ دعایاکوئی اوردعاہاتھ اٹھاکرمانگنا کسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں ہے۔

 عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ:أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: مَنْ قَالَ حِینَ یَسْمَعُ النِّدَاءَ: اللهُمَّ رَبَّ هَذِهِ الدَّعْوَةِ التَّامَّةِ، وَالصَّلاَةِ القَائِمَةِ آتِ مُحَمَّدًا الوَسِیلَةَ وَالفَضِیلَةَ، وَابْعَثْهُ مَقَامًا مَحْمُودًا الَّذِی وَعَدْتَهُ ،حَلَّتْ لَهُ شَفَاعَتِی یَوْمَ القِیَامَةِ

جابربن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ ﷺنے فرمایاجوشخص اذان سن کریہ کہے’’اے اللہ مکمل پکاراورہمیشہ قائم رہنے والی نمازکے پروردگار! تومحمد صلی اللہ علیہ وسلم کو وسیلہ اور بزرگی دے اورآپ کومقام محمود پر پہنچا دےجس کاتونے وعدہ فرمایاہے۔‘‘اسے قیامت کے دن میری شفاعت ملے گی۔[33]

 عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ، أَنَّهُ سَمِعَ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَقُولُ:إِذَا سَمِعْتُمُ الْمُؤَذِّنَ، فَقُولُوا مِثْلَ مَا یَقُولُ، ثُمَّ صَلُّوا عَلَیَّ،فَإِنَّهُ مَنْ صَلَّى عَلَیَّ صَلَاةً صَلَّى الله عَلَیْهِ بِهَا عَشْرًا،ثُمَّ سَلُوا اللهَ لِیَ الْوَسِیلَةَ، فَإِنَّهَا مَنْزِلَةٌ فِی الْجَنَّةِ، لَا تَنْبَغِی إِلَّا لِعَبْدٍ مِنْ عِبَادِ اللهِ، وَأَرْجُو أَنْ أَكُونَ أَنَا هُوَ،فَمَنْ سَأَلَ لِی الْوَسِیلَةَ حَلَّتْ لَهُ الشَّفَاعَةُ

عبداللہ بن عمروبن عاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہےمیں نے نبی کریم ﷺکوفرماتے سناکہ جب تم موذن سے اذان سنوتوجیسے وہ کہتا ہے تم بھی کہوپھرمجھ پر (مسنون ) درودابراہیمی بھیجو جو مجھ پردرودبھیجتاہے اللہ اس پردس دس رحمتیں نازل کرتاہے، پھراللہ سے میرے لئے وسیلہ مانگو کیونکہ وہ جنت کاایک درجہ ہے،اللہ کے بندوں میں سے صرف ایک بندہ کوملے گا اورمجھے امیدہے کہ وہ میں ہی ہوں گاجواللہ سے میرے لئے وسیلہ کی دعاکرے گااس کے لئے میری شفاعت واجب ہوجائے گی۔[34]

 عَنْ أَنَسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:إِنَّ الدُّعَاءَ لَا یُرَدُّ بَیْنَ الْأَذَانِ وَالْإِقَامَةِ، فَادْعُوا

انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایابلاشک اذان اوراقامت کے دوران دعامستردنہیں ہوتی،پس تم (اس وقت)دعاکرو۔[35]

امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ نے اس حدیث کودرج ذیل عنوان والے باب میں روایت کیاہے

 بَابُ اسْتِحْبَابِ الدُّعَاءِ بَیْنَ الْأَذَانِ وَالْإِقَامَةِ رَجَاءَ أَنْ تَكُونَ الدَّعْوَةُ غَیْرَ مَرْدُودَةٍ بَیْنَهُمَا

اس امیدکے ساتھ اذان واقامت کے درمیان دعاکرنے کامستحب ہوناکہ وہ ردنہ کی جائے۔

اذ ان کے لئے ایک جگہ متعین نہیں تھی بلکہ متعدد مقامات پر اذان دی جاتی رہی۔

عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَیْرِ عَنِ امْرَأَةٍ مِنْ بَنِی النَّجَّارِ قَالَتْ: كَانَ بَیْتِی مِنْ أَطْوَلِ بَیْتٍ حَوْلَ الْمَسْجِدِفَكَانَ بِلَالٌ یُؤَذِّنُ عَلَیْهِ الْفَجْرَ فَیَأْتِی بِسَحَرٍ فَیَجْلِسُ عَلَى الْبَیْتِ ثُمَّ یَنْظُرُ إِلَى الْفَجْرِ فَإِذَا رَآهُ تَمَطَّى

عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں بنی نجارکی ایک معزز خاتون کاکہناہے کہ مسجدنبوی کے گردوپیش واقع تمام مکانات میں میرامکان زیادہ بلندتھا اس لئے بلال رضی اللہ عنہ صبح وہیں آجاتے اورطلوع فجر کا انتظارکرتے ،جب صبح طلوع ہوتی تواسی مکان کے اوپر اذان دیتے تھے ان کاروزمرہ کومعمول تھا جسے کبھی ترک نہیں کیاتھا[36]

ذكر أهل السیر: أن بلالاً كان یؤذن على أسطوانة فی قبلة المسجد یرقى إلیها بأقتاب، وهی قائمة إلى الیوم فی منزل عبد الله بن عبد الله بن عمر بن الخطاب رضی الله عنه

سیرت نگارکہتے ہیں بلال رضی اللہ عنہ مسجدنبوی کے قبلہ سمت واقع ایک ستون پرسیڑھی کے ذریعہ چڑھتے اوراس پرکھڑے ہوکر اذان کہتے تھے، مذکورہ سیڑھی عبداللہ بن عبداللہ بن عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے مکان میں ابھی تک موجودتھی ۔[37]

وروى نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قال:كَانَ بِلَالٌ یُؤَذِّنُ عَلَى مَنَارَةِ فِی دَار حَفْصَة بنت عمر الَّتِی تَلِی الْمَسْجِدَ

نافع رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا ارشاد ہے بلال رضی اللہ عنہ مسجدنبوی کے متصل ام المومنین حفصہ رضی اللہ عنہا کے مکان میں واقع مینارپر چڑھ کراذان کہتے تھے۔[38]

كان فی دار عبد الله بن عمر أسطوانة فِی قِبْلَةِ الْمَسْجِدِ یؤذن علیها بلال یرقى إلیها بأقتاب

اسی طرح روایت ہےمسجد کے مغرب میں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کامکان جسے دَار الْعشْرَةکہاجاتاتھامیں واقع ایک ستون پر بلال رضی اللہ عنہ آذان کہتے تھے ،جس پر سیڑھی کے زریعہ چڑھتے تھے۔[39]

بہرحال خلیفہ ولیدبن عبدالملک کے عہدمیں عمربن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے مسجدنبوی کے چاروں کونوں میں اذان کے لئے میناربنوائے ،باب السلام کے قریب والامینارجس سے دار مروان کی بے پردگی ہوتی تھی سلیمان بن عبدالملک نے منہدم کرادیاتھا،بعدمیں ۷۰۶ہجری میں سلطان محمدقلاووں نے اسے تعمیر کرایا۔ [40]

اذ ان جمعہ

پانچوں نمازوں کے اول وقت میں اذان دی جانے لگی تھی مگرجمعہ کی اذان کاطریقہ پانچ وقت نمازسے مختلف تھااوردنوں میں اذان نمازسے کچھ پہلے دی جاتی تھی لیکن جمعہ کی اذان اس وقت ہوتی تھی جب نبی کریم ﷺخطبہ ارشادفرمانے کے لئے آکربیٹھ جاتے تھے اوراس کے فوراًبعدنمازشروع کردی جاتی ۔

 عَنِ السَّائِبِ بْنِ یَزِیدَ، قَالَ:كَانَ النِّدَاءُ یَوْمَ الجُمُعَةِ أَوَّلُهُ إِذَا جَلَسَ الإِمَامُ عَلَى المِنْبَرِ عَلَى عَهْدِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، وَأَبِی بَكْرٍ، وَعُمَرَ رَضِیَ اللهُ عَنْهُمَافَلَمَّا كَانَ عُثْمَانُ رَضِیَ اللهُ عَنْهُ، وَكَثُرَ النَّاسُ زَادَ النِّدَاءَ الثَّالِثَ عَلَى الزَّوْرَاءِ، قَالَ أَبُو عَبْدِ اللهِ: الزَّوْرَاءُ: مَوْضِعٌ بِالسُّوقِ بِالْمَدِینَةِ

سائب رضی اللہ عنہا بن یزید سے مروی ہےنبی کریم ﷺاورسیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ اورسیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں جمعہ کی پہلی اذان اس وقت دی جاتی تھی جب امام منبرپرخطبہ کے لئے بیٹھتے لیکن سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں جب مسلمانوں کی کثرت ہوگئی تووہ مقام زوراء سے ایک اوراذان دلوانے لگے، امام بخاری فرماتے ہیں کہ زوراء مدینہ کے بازار میں ایک جگہ ہے۔[41]

اذان کے (فوراً)بعد(خودساختہ)درودوسلام کااضافہ

وَأَمَّا رَفْعُ الصَّوْتِ بِالصَّلَاةِ أَوْ الرِّضَى الَّذِی یَفْعَلُهُ بَعْضُ الْمُؤَذِّنِینَ قُدَّامَ بَعْضِ الْخُطَبَاءِ فِی الْجَمْعِ فَهَذَا مَكْرُوهٌ أَوْ مُحَرَّمٌ بِاتِّفَاقِ الْأُمَّةِ لَكِنْ مِنْهُمْ مَنْ یَقُولُ: یُصَلِّی عَلَیْهِ سِرًّا وَمِنْهُمْ مَنْ یَقُولُ: یَسْكُتُ

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں بعض مقامات پرجمعہ کے خطبہ سے پہلے بعض اذان دینے والے درود و سلام کا جو (باآوازبلند)اضافہ کرتے ہیں وہ آئمہ کے اتفاق سے مکروہ یاحرام ہے ،بعض علماء یہ کہتے ہیں کہ (مسنون)دروددل میں پڑھے یاخاموش رہے۔[42]

بے شمار(بلکہ متواتر)سندوں سے یہی ثابت ہے کہ بلال رضی اللہ عنہ اورابومخذورہ رضی اللہ عنہ کی اذان لاالٰہ الااللہ پرختم ہوجاتی تھی ،اس بارے میں کوئی حدیث مروی نہیں کہ اذان کے ساتھ ملاکر(بلندآوازسے)درودپڑھنامستحب ہے،درودوسلام کے اذان میں ملانے کی بدعت کی ایجاد محتسب مصرصلاح الدین البرسی نے جمعہ کی رات میں کی تھی مورخ المقریزی نے کہاکہ پھرنجم الدین ارطنبذی جوایک گنداآدمی اور رشوت خور تھانے اسے تمام نمازوں پرپھیلادیا ،شیخ علی محفوظ نے علامہ ابن حجر رحمہ اللہ کی کتاب الفتاوٰ ی الکبری سے نقل کیاہے کہ ہمارے استادوں سے مروجہ درو د وسلام کے بارے میں پوچھاگیاتوانہوں نے کہاکہ اصل ومسنون درود، اذان سے جدا،جہرکے بغیرسنت ہے اور یہ مروجہ کیفیت بدعت ہے،مزیدکہتے ہیں خلاصہ یہ کہ اذان مسلمانوں کا شعارہے جوکتب حدیث اورکتب فقہ میں تواترکے ساتھے منقول ہے اسی پراہل سنت والجماعت کااجماع ہے رہامروجہ درودوسلام تو یہ بہت بعدوالے بدعتی موذنین کا اضافہ(اوربدعت)ہے،یہاں پریادرہے کہ علماء کایہ قول کہ اصل سنت ہے اورکیفیت بدعت ہے ،اس کامطلب یہ ہے کہ اذان کے بعد (مسنون) درود پڑھنا تو سنت ہے لیکن اسے اونچی آواز(بلکہ خودساختہ الفاظ کے اضافے)کے ساتھ پڑھنا بری بدعت ہے،بعض لوگ اذان سے پہلے

 وَقُلِ الْحَمْدُ لِلهِ الَّذِیْ لَمْ یَتَّخِذْ وَلَدًا۔۔۔۝۱۱۱ۧ    [43]

ترجمہ:اور کہو تعریف ہے اس اللہ کے لیے جس نے نہ کسی کو بیٹا بنایا۔

پڑھتے ہیں اور بعض یاکریم یارب کے نعرے لگاتے ہیں ،

قول المؤذن قبل الأذان وَقُلِ الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِی لَمْ یَتَّخِذْ وَلَداً من المحدثات

علماء نجد رحمہ اللہ فرماتے ہیں موذن کااذان سے قبل’’اور کہو تعریف ہے اس اللہ کے لیے جس نے نہ کسی کو بیٹا بنایا۔‘‘ پڑھنابدعت ہے۔[44]

[1] صحیح بخاری کتاب الاذان بَابُ بَدْءِ الأَذَانِ۶۰۴ ، صحیح مسلم کتاب الصلوٰة بَابُ بدْءِ الْأَذَانِ۸۳۷،جامع ترمذی ابواب الصلوٰة بَابُ مَا جَاءَ فِی بَدْءِ الأَذَانِ ۱۹۰،سنن نسائی کتاب الاذان باب بَدْءُ الْأَذَانِ۶۲۷،مصنف عبدالرزاق۱۷۷۶

[2] سنن ابوداودکتاب الصلاة بَابُ بَدْءِ الْأَذَانِ ۴۹۸

[3] سنن ابوداودکتاب الصلاة بَابُ كَیْفَ الْأَذَانُ۴۹۹، مصنف عبدالرزاق۱۷۷۴ ،السنن الکبری للبیہقی ۱۸۳۵

[4] صحیح مسلم کتاب الصلوٰة بَابُ صِفَةِ الْأَذَانِ ۸۴۲، جامع ترمذی کتاب الصلوٰة بَابُ مَا جَاءَ فِی التَّرْجِیعِ فِی الأَذَانِ ۱۹۱،۱۹۲،سنن ابن ماجہ کتاب الاذان بَابُ التَّرْجِیعِ فِی الْأَذَانِ ۷۰۹،سنن نسائی کتاب الاذان باب تَثْنِیَةُ الْأَذَانِ۶۲۹

[5] مسنداحمد۱۵۳۷۶

[6] ابن سعد۱۹۱؍۱

[7] صحیح ابن خزیمة ۳۸۶،سنن الدارقطنی۹۴۴،السنن الکبری للبیہقی۱۹۸۴

[8] التلخیص الحبیر۵۰۱؍۱

[9] سنن ابوداودكِتَاب الصَّلَاةِ بَابُ كَیْفَ الْأَذَانُ۵۰۰،مسنداحمد۱۵۳۷۹، السنن الکبری للبیہقی۱۸۴۸

[10] سنن ابوداودكِتَاب الصَّلَاةِ بَابُ كَیْفَ الْأَذَانُ۵۰۱

[11]صحیح ابن خزیمة۳۸۵،السنن الکبری للبیہقی۱۹۷۰

[12] سنن ابوداودكِتَاب الصَّلَاةِ بَابُ كَیْفَ الْأَذَانُ۵۰۴

[13] شرح معانی الآثار۸۴۲،شرح مشکل الآثار ۶۰۸۲، السنن الکبری للبیہقی۱۹۸۶

[14] التلخیص الحبیر ۵۰۲؍۱

[15] السنن الکبری للبیہقی۱۹۸۷،سنن الدارقطنی۹۴۶

[16] مسنداحمد۱۶۴۷۷

[17] السنن الکبری للبیہقی۱۹۸۳

[18]جامع ترمذی کتاب الصلاة بَابُ مَا جَاءَ فِی التَّثْوِیبِ فِی الفَجْرِ۱۹۸

[19] موطاامام مالک كِتَابُ الصَّلَاةِ بَابُ مَا جَاءَ فِی النِّدَاءِ لِلصَّلَاةِ

[20] تحقیق ھدایة الرواة۳۱۳؍۱

[21] المحلی بالآثار۱۸۶؍۲

[22] شرح معانی الآثار۸۴۴

[23] شرح مشکل الآثار۶۰۸۵،۳۶۵؍۱۵

[24] المجموع شرح المھذب۹۴؍۳

[25] المغنی۲۹۶؍۱

[26] شرح العمدة لشیخ الاسلام۱۰۹؍۲

[27] السیل الجرار۱۲۶؍۱

[28] صحیح مسلم کتاب الصلوٰة بَابُ الْأَمْرِ بِشَفْعِ الْأَذَانِ وَإِیتَارِ الْإِقَامَةِ۸۳۹،صحیح بخاری کتاب الاذان بَابُ بَدْءِ الأَذَانِ ۶۰۳،جامع ترمذی ابواب الصلوٰة بَابُ مَا جَاءَ فِی إِفْرَادِ الإِقَامَةِ ۱۹۳،سنن ابن ماجہ کتاب الاذان بَابُ إِفْرَادِ الْإِقَامَةِ ۷۲۹،سنن نسائی کتاب الاذان باب تَثْنِیَةُ الْأَذَانِ ۶۲۸

[29] صحیح بخاری کتاب الاذان باب فضل التاذین۶۰۸ ،صحیح مسلم کتاب الصلوٰة باب فضل الاذان وھرب الشیطٰن عندسماعہ ۸۵۹،مصنف عبدالرزاق۳۴۶۲،مسنداحمد۹۹۳۱،سنن الدارمی۱۵۳۵،صحیح ابن حبان۱۶۶۳

[30] جامع ترمذی أَبْوَابُ الدَّعَوَاتِ بَابٌ فِی العَفْوِ وَالعَافِیَةِ۳۵۹۴

[31]صحیح مسلم کتاب الصلوٰة بَابُ الْقَوْلِ مِثْلَ قَوْلِ الْمُؤَذِّنِ لِمَنْ سَمِعَهُ، ثُمَّ یُصَلِّی عَلَى النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ ثُمَّ یَسْأَلُ لهُ الْوَسِیلَةَ۸۵۰

[32] صحیح مسلم کتاب الصلوٰة بَابُ الْقَوْلِ مِثْلَ قَوْلِ الْمُؤَذِّنِ لِمَنْ سَمِعَهُ، ثُمَّ یُصَلِّی عَلَى النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ ثُمَّ یَسْأَلُ لهُ الْوَسِیلَةَ۸۴۸

[33]صحیح بخاری کتاب الاذان بَابُ الدُّعَاءِ عِنْدَ النِّدَاءِ۶۱۴

[34] صحیح مسلم کتاب الصلوٰة بَابُ الْقَوْلِ مِثْلَ قَوْلِ الْمُؤَذِّنِ لِمَنْ سَمِعَهُ، ثُمَّ یُصَلِّی عَلَى النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ ثُمَّ یَسْأَلُ لهُ الْوَسِیلَةَ۸۴۹ ،سنن ابوداودکتاب الصلاة بَابُ مَا یَقُولُ إِذَا سَمِعَ الْمُؤَذِّنَ ۵۲۳،جامع ترمذی بَابٌ فِی فَضْلِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بَابٌ فِی فَضْلِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ۳۶۱۵،سنن نسائی کتاب الاذان باب الصَّلَاةُ عَلَى النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بَعْدَ الْأَذَانِ۶۷۹

[35] مسنداحمد ۱۲۵۸۴، صحیح ابن خزیمة۴۲۵،صحیح ابن حبان۱۶۹۶

[36]۔السنن الکبری للبیہقی۱۹۹۵،شفاء الغرام بأخبار البلد الحرام۴۲۸؍۲

[37] اخبارمدینة ۱۰۲؍۱

[38] شفاء الغرام بأخبار البلد الحرام۴۲۸؍۲،اخبار مدینة ۱۰۲؍۱

[39] خلاصة الوفا بأخبار دار المصطفى۱۱۶؍۲

[40] مراة الحرمین ۴۵

[41] صحیح بخاری کتاب الجمعة بَابُ الأَذَانِ یَوْمَ الجُمُعَةِ۹۱۲

[42] مجموع الفتاوی لابن تیمیة۴۷۰؍۲۲

[43] بنی اسرائیل۱۱۱

[44]الدرر السنیة فی الأجوبة النجدیة ۱۰۵؍۸

Related Articles