ہجرت نبوی کا پہلا سال

حق مہرکے مسائل

حق مہرکے لئے نونام استعمال کیے جاتے ہیں ۔

صداق،صدقہ،مہر،نحلة،فریضة،اجر،علائق،عقر،حبائ۔

قرآن مجیدکی کئی آیات میں باری تعالیٰ نے اس کی تصرح کردی ہے کہ مہراداکرناواجب ہے۔

وَاٰتُوا النِّسَاۗءَ صَدُقٰتِهِنَّ نِحْلَةٍ۔۔۔ ۝۴    [1]

ترجمہ:اورعورتوں کے مہر خوشدلی کے ساتھ (فرض جانتے ہوئے)اداکرو۔

۔۔۔فَـمَا اسْتَمْتَعْتُمْ بِهٖ مِنْھُنَّ فَاٰتُوْھُنَّ اُجُوْرَھُنَّ فَرِیْضَةً۔۔۔ ۝۲۴ [2]

ترجمہ:پھرجوازواجی زندگی کالطف تم ان سے اٹھاؤاس کے بدلے ان کے مہربطورفرض کے اداکرو۔

۔۔۔وَلَا جُنَاحَ عَلَیْكُمْ اَنْ تَنْكِحُوْهُنَّ اِذَآ اٰتَیْتُمُوْهُنَّ اُجُوْرَهُنَّ۔۔۔ ۝۱۰       [3]

ترجمہ:اوران سے نکاح کرلینے میں تم پرکوئی گناہ نہیں جب کہ تم ان کے مہران کواداکردو(یعنی ان کے کافرشوہروں کوان کے جومہرواپس کیے جائیں گے وہی ان عورتوں کے مہرشمارہوں گے )

 ۔۔۔ وَّاٰتَیْتُمْ اِحْدٰىھُنَّ قِنْطَارًا فَلَا تَاْخُذُوْا مِنْهُ شَـیْـــًٔـا ۔۔۔ ۝۲۰ [4]

ترجمہ:توخواہ تم نے اسے ڈھیرسامال ہی کیوں نہ دیاہو،اس میں سے کچھ واپس نہ لینا۔

xمہرکم ازکم اورزیادہ سے زیادہ کتنارکھناچاہیے؟

عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ السَّاعِدِیِّ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ جَاءَتْهُ امْرَأَةٌ، فَقَالَتْ: یَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّی قَدْ وَهَبْتُ نَفْسِی لَكَ، فَقَامَتْ قِیَامًا طَوِیلًا، فَقَامَ رَجُلٌ، فَقَالَ: یَا رَسُولَ اللَّهِ، زَوِّجْنِیهَا إِنْ لَمْ یَكُنْ لَكَ بِهَا حَاجَةٌ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: هَلْ عِنْدَكَ مِنْ شَیْءٍ تُصْدِقُهَا إِیَّاهُ؟، فَقَالَ: مَا عِنْدِی إِلَّا إِزَارِی هَذَا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:إِنَّكَ إِنْ أَعْطَیْتَهَا إِزَارَكَ جَلَسْتَ وَلَا إِزَارَ لَكَ فَالْتَمِسْ شَیْئًا، قَالَ: لَا أَجِدُ شَیْئًا، قَالَ:فَالْتَمِسْ وَلَوْ خَاتَمًا مِنْ حَدِیدٍ، فَالْتَمَسَ فَلَمْ یَجِدْ شَیْئًا، فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:فَهَلْ مَعَكَ مِنَ الْقُرْآنِ شَیْءٌ؟، قَالَ: نَعَمْ سُورَةُ كَذَا وَسُورَةُ كَذَا لِسُوَرٍ سَمَّاهَا، فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:قَدْ زَوَّجْتُكَهَا بِمَا مَعَكَ مِنَ الْقُرْآنِ.

سہل بن سعدالساعدی رضی اللہ عنہ سے مروی ہےایک عورت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آئی اورکہنے لگی اے اللہ کے رسول ﷺ!میں اپنے آپ کوآپ کی خدمت میں ہبہ کرتی ہوں اورپھروہ بہت دیرکھڑی رہی، تب ایک آدمی اٹھااورکہنے لگااے اللہ کے رسول ﷺ!اگرآپ کواس میں رغبت نہیں تواس کی شادی مجھ سے کردیجئے،تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکیاتمہارے پاس کچھ ہے جواسے مہرکے طورپردے سکو،کہنے لگامیرے پاس توبس یہ تہ بندہی ہے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاتم اگراپناتہ بنداس کودے دوگے توخودتہ بندکے بغیررہوگےکوئی اورچیزڈھونڈو،کہنے لگامیرے پاس توکچھ نہیں ہے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ڈھونڈو خواہ لوہے کاچھلہ ہی ہو،اس نے تلاش کیامگراسے کچھ نہ ملا،تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پوچھاکیاتمہیں قرآن سے کچھ یادہے؟کہنے لگاہاں فلاں فلاں سورتیں ،اس نے ان کے نام لئے یادہیں ، تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااس قرآن کے عوض جوتمہیں یادہے میں اس کانکاح تمہارے ساتھ کرتاہوں ۔[5]

اذْهَبْ فَقَدْ مُلِّكْتَهَا بِمَا مَعَكَ مِنَ الْقُرْآنِ

صحیح مسلم کی روایت میں ہےجامیں نے اسے تیر ا مملوک کردیا(یعنی نکاح کردیا)اس قرآن کے عوض جوتجھے یادہے۔[6]

عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ،أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَعْتَقَ صَفِیَّةَ، وَجَعَلَ عِتْقَهَا صَدَاقَهَا

انس رضی اللہ عنہ بن مالک سے مروی ہےرسول اللہ ﷺنے ام المومنین صفیہ رضی اللہ عنہا کو آزاد کیا اور ان کی آزادی کو ہی ان کامہرقراردیا۔[7]

عَنْ أَبِی سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أَنَّهُ قَالَ: سَأَلْتُ عَائِشَةَ زَوْجَ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: كَمْ كَانَ صَدَاقُ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ؟ قَالَتْ:كَانَ صَدَاقُهُ لِأَزْوَاجِهِ ثِنْتَیْ عَشْرَةَ أُوقِیَّةً وَنَشًّا

ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن کہتے ہیں میں نے ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات کاحق مہرکیاتھا،انہوں نے فرمایا آپ ﷺکی ازواج مطہرات کا مہر بارہ اوقیہ (یعنی چارسواسی درہم)اورایک نش (نصف اوقی یعنی بیس درہم)تھا(اس طرح کل پانچ سودرہم ہوئے )۔[8]

اس لحاظ سےآج کل ہمارے سکے کے لحاظ سے تقریبادس ہزارروپے بنتے ہیں حالانکہ وہ تنگی کادورتھایہ جوآج کل سوابتیس روپے کوشرعی مہرسمجھاجاتاہے یہ کس دورکاحساب ہے؟اللہ جانے!یہ انتہائی غیرمعقول مہرہے چہ جائیکہ شرعی ہو۔

عَنْ أَنَسٍ،أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ رَأَى عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ عَوْفٍ وَعَلَیْهِ رَدْعُ زَعْفَرَانٍ فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:مَهْیَمْ،فَقَالَ: یَا رَسُولَ اللهِ ، تَزَوَّجْتُ امْرَأَةً ، قَالَ:مَا أَصْدَقْتَهَا؟قَالَ: وَزْنَ نَوَاةٍ مِنْ ذَهَبٍ،قَالَ:أَوْلِمْ وَلَوْ بِشَاةٍ

انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ پرزعفران کے نشانات دیکھے تونبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھایہ کیاہے؟انہوں نے کہااے اللہ کے رسول ﷺ! میں نے ایک عورت سے شادی کرلی ہے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایامہرکتنادیاہے؟انہوں نےکہاکہ گھٹلی کے وزن کے برابرسونا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاولیمہ کرواگرچہ ایک بکری ہی ہو۔ [9]

امام ابوداود رحمہ اللہ فرماتے ہیں ایک نواة(گھٹلی)پانچ درہم کے برابرہوتی ہے اورنش بیس درہم کااوراوقیہ چالیس درہم کا۔

وَزَوَّجَ سَعِیدُ بْنُ الْمُسَیِّبِ ابْنَتَهُ بِدِرْهَمَیْنِ

سعیدبن مسیب رحمہ اللہ نے دودرہم (حق مہر)کے عوض اپنی بیٹی کی شادی کر دی۔[10]

عَامِرِ بْنِ رَبِیعَةَ، عَنْ أَبِیهِ،أَنَّ رَجُلًا مِنْ بَنِی فَزَارَةَ تَزَوَّجَ عَلَى نَعْلَیْنِ، فَأَجَازَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ نِكَاحَهُ

عامربن ربیعہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےایک شخص نے بنوفزارہ کی ایک عورت سے نعلین (جوتیوں )کے عوض نکاح کرلیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نےاس کانکاح جائز قرار دیا۔[11]

حكم الألبانی:ضعیف

شیخ البانی فرماتے ہیں یہ روایت ضعیف ہے۔

ان روایات سے معلوم ہواکہ حق مہرکی کم سے کم اورزیادہ سے زیادہ کوئی مقدارمتعین نہیں ۔

امام احمد رحمہ اللہ اورامام شافعی رحمہ اللہ اسی بات کے قائل ہیں ،سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ ، عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما ،امام حسن رحمہ اللہ ، سعیدبن مسیب رحمہ اللہ ،امام ربیعہ رحمہ اللہ ،امام اوزاعی رحمہ اللہ اورامام ثوری رحمہ اللہ کایہی موقف ہے۔

أَنَّ أَقَلَّهُ عَشَرَةُ دَرَاهِمَ أَوْ مَا یُوَازِیهَا

امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ اورامام مالک رحمہ اللہ کاموقف یہ ہےکم ازکم دس درہم یااس کے برابرقیمت کے ساتھ مہراداکیاجائے گا۔[12]

احناف کی دلیل یہ روایت ہے

عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ , قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: وَلَا مَهْرَ دُونَ عَشَرَةِ دَرَاهِمَ

جابربن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایادس درہموں سے کم حق مہرنہیں ۔[13]

وَلَكِنَّهُ لَمْ یَصِحَّ فَإِنَّ فِی إسْنَادِهِ مُبَشِّرُ بْنُ عُبَیْدٍ وَحَجَّاجُ بْنُ أَرْطَاةَ وَهُمَا ضَعِیفَانِ،وَقَدْ اشْتَهَرَ حَجَّاجٌ بِالتَّدْلِیسِ، وَمُبَشِّرٌ مَتْرُوكٌ

لیکن یہ روایت ضعیف ہے کیونکہ اس کی سندمیں دوراوی ضعیف ہیں ایک توحجاج بن ارطاة جوتدلیس کی وجہ سے مشہورہے اور دوسر ا مبشر بن عبیدجومتروک ہے ۔

أَنَّ أَقَلَّهُ مَا یَصِحُّ ثَمَنًا أَوْ أُجْرَةً

امام شوکانی رحمہ اللہ اورامام ابن قدامہ رحمہ اللہ نے امام شافعی رحمہ اللہ کے موقف کو ترجیح دی ہے کہ حق مہرکی کم سے کم اورزیادہ سے زیادہ کوئی مقدارمتعین نہیں ۔[14]

صدیق حسن خان رحمہ اللہ اسی کے قائل ہیں ۔[15]

عبدالرحمٰن مبارکپوری رحمہ اللہ بھی یہی موقف رکھتے ہیں ۔[16]

عام طورپریہ روایت مشہورہے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ بن خطاب نے اپنے اوپرایک عورت کے قرآن کی اس آیت وَّاٰتَیْتُمْ اِحْدٰىھُنَّ قِنْطَارًا کی وجہ سے اعتراض پراپنے قول عورتوں کے مہربہت قیمتی مت بناؤ،سے رجوع کرلیااورباقاعدہ منبرپراس کااعلان کیا

فَقَالَ لِلنَّاسِ: إِنِّی نَهَیْتُكُمْ أَنْ تُغَالُوا فِی صُدُقِ النِّسَاءِ أَلَا فَلْیَفْعَلْ رَجُلٌ فِی مَالِهِ مَا بَدَا لَهُ

لوگو! میں نے تمہیں خواتین کے مہر میں غیرضروری اضافہ کرنے سے منع کیا تھا اب میرا فیصلہ یہ ہے کہ تم اپنے مال کے خود ہی مختار ہو۔[17]

انتہائی ضعیف ومنکرروایت ہے۔

xمہرکوبہت زیادہ بڑھادینامکروہ ہے۔

عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ رَسُولُ اللهِ صلَّى الله عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: خَیْرُ الصَّدَاقِ أَیْسَرُهُ

عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ ﷺنے فرمایابہترین حق مہروہ ہے جسے اداکرناانتہائی آسان ہو۔[18]

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ، قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ إِلَى النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: إِنِّی تَزَوَّجْتُ امْرَأَةً مِنَ الْأَنْصَارِ، فَقَالَ لَهُ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:هَلْ نَظَرْتَ إِلَیْهَا؟فَإِنَّ فِی عُیُونِ الْأَنْصَارِ شَیْئًا، قَالَ: قَدْ نَظَرْتُ إِلَیْهَا،قَالَ:عَلَى كَمْ تَزَوَّجْتَهَا؟قَالَ: عَلَى أَرْبَعِ أَوَاقٍ،فَقَالَ لَهُ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:عَلَى أَرْبَعِ أَوَاقٍ؟كَأَنَّمَا تَنْحِتُونَ الْفِضَّةَ مِنْ عُرْضِ هَذَا الْجَبَلِ،مَا عِنْدَنَا مَا نُعْطِیكَ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ایک شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیااورکہاکہ میں نے ایک انصاری عورت سے عقد کیا ہے،آپ ﷺنے فرمایاتم نے اسے دیکھ بھی لیا؟اس لئے کہ انصارکی آنکھوں میں کچھ عیب بھی ہوتا ہے،اس نے کہامیں نے دیکھ لیا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تونے کتنامہراداکرکے شادی کی ہے ؟ تواس نے کہاچاراوقیہ(ایک سوساٹھ درہم)تونبی کریم ﷺنے اسے(سوالیہ اندازمیں ) کہا ! چار اوقیہ (تونے مہردیاہے)؟گویاتم اس پہاڑ کے دامن سے چاندی کریدتے ہو! (یعنی جب تو اتنا زیادہ مہرباندھتے ہو)ہمارے پاس کچھ نہیں ہے جوتمہیں دیں ۔[19]

عَنْ أَبِی الْعَجْفَاءِ السُّلَمِیِّ، قَالَ: خَطَبَنَا عُمَرُ رَحِمَهُ اللهُ، فَقَالَ:أَلَا لَا تُغَالُوا بِصُدُقِ النِّسَاءِ، فَإِنَّهَا لَوْ كَانَتْ مَكْرُمَةً فِی الدُّنْیَا، أَوْ تَقْوَى عِنْدَ اللهِ لَكَانَ أَوْلَاكُمْ بِهَا النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ،مَا أَصْدَقَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ امْرَأَةً مِنْ نِسَائِهِ، وَلَا أُصْدِقَتْ امْرَأَةٌ مِنْ بَنَاتِهِ أَكْثَرَ مِنْ ثِنْتَیْ عَشْرَةَ أُوقِیَّةً

ابوالحجفاءالسلمی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ بن خطاب نے ہمیں خطبہ دیااورفرمایاعورتوں کامہربہت زیادہ قیمتی مت کروکیونکہ یہ اگردنیامیں عزت اوراللہ کے ہاں تقوی کا باعث ہوتاتواللہ کے نبی ﷺاس کے تم میں سب سے زیادہ مستحق ہوتے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی کسی بیوی اوراپنی صاحبزادیوں میں سے کسی کوبارہ اوقیہ سے زیادہ مہرنہیں دیا۔[20]

راجیح بات یہ ہے کہ حسب توفیق زیادہ مہردینے میں بھی کوئی حرج نہیں جیسےقرآن کریم میں ہے

 ۔۔۔وَّاٰتَیْتُمْ اِحْدٰىھُنَّ قِنْطَارًا۔۔۔[21]

ترجمہ:خواہ تم نے اسے ڈھیرسامال ہی کیوں نہ دیاہو۔

عَنِ الزُّهْرِیِّ،أَنَّ النَّجَاشِیَّ، زَوَّجَ أُمَّ حَبِیبَةَ بِنْتَ أَبِی سُفْیَانَ مِنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عَلَى صَدَاقِ أَرْبَعَةِ آلَافِ دِرْهَمٍ، وَكَتَبَ بِذَلِكَ إِلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَقَبِلَ

اورامام زہری رحمہ اللہ نے بیان کیا نجاشی شاہ حبشہ نے ام المومنین ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کورسول اللہ ﷺکی طرف سے چارہزاردرہم مہر ادا کیااوریہ خبررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کولکھ بھیجی توآپ ﷺنے اسے قبول فرمایالیا۔[22]

حكم الألبانی: ضعیف

xجس نے کسی عورت سے شادی کی اورمہرمقررنہ کیاتواس کے بارے میں کیاحکم ہے؟

عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ، أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لِرَجُلٍ:أَتَرْضَى أَنْ أُزَوِّجَكَ فُلَانَةَ؟ قَالَ: نَعَمْ،وَقَالَ لِلْمَرْأَةِ:أَتَرْضَیْنَ أَنْ أُزَوِّجَكِ فُلَانًا؟قَالَتْ: نَعَمْ،زَوَّجَ أَحَدَهُمَا صَاحِبَهُ فَدَخَلَ بِهَا الرَّجُلُ وَلَمْ یَفْرِضْ لَهَا صَدَاقًا، وَلَمْ یُعْطِهَا شَیْئًاوَكَانَ مِمَّنْ شَهِدَ الْحُدَیْبِیَةَ وَكَانَ مَنْ شَهِدَ الْحُدَیْبِیَةَ لَهُ سَهْمٌ بِخَیْبَرَ،فَلَمَّا حَضَرَتْهُ الْوَفَاةُ قَالَ: إِنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ زَوَّجَنِی فُلَانَةَ، وَلَمْ أَفْرِضْ لَهَا صَدَاقًا، وَلَمْ أُعْطِهَا شَیْئًا، وَإِنِّی أُشْهِدُكُمْ أَنِّی أَعْطَیْتُهَا مِنْ صَدَاقِهَا سَهْمِی بِخَیْبَرَفَأَخَذَتْ سَهْمًا فَبَاعَتْهُ بِمِائَةِ أَلْفٍ

عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے منقول ہےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص سے کہاکیاتم راضی ہوکہ فلاں عورت سے تمہاری شادی کردوں ؟اس نے کہاجی ہاں ،پھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عورت سے پوچھا کیا تو راضی ہے کہ فلاں مردسے تیری شادی کردوں ؟اس نے کہاجی ہاں ،چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں کی شادی کردی اورپھراس مردنے اس سے صحبت کی مگرحق مہرمقررنہ کیااورنہ اسے کچھ دیا،اوریہ ان لوگوں میں سے تھاجوحدیبیہ میں شریک ہوچکے تھے اورشرکائے حدیبیہ کوخیبرمیں حصہ ملاتھا،جب اس کی وفات کاوقت آیاتواس نے کہاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فلاں عورت سے میری شادی کردی تھی مگرمیں نے اس کے لئے مہرمقررنہیں کیا تھااورنہ اسے کچھ دیاتھااورمیں تمہیں گواہ بناتاہوں کہ میں اسے مہرمیں اپناخیبرکاحصہ دیتاہوں ،چنانچہ اس عورت نے وہ حصہ لیا اورپھراسے ایک لاکھ میں فروخت کردیا۔[23]

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ بْنِ مَسْعُودٍ، أَنَّ عَبْدَ اللهِ بْنَ مَسْعُودٍ، أُتِیَ فِی رَجُلٍ بِهَذَا الْخَبَرِ، قَالَ: فَاخْتَلَفُوا إِلَیْهِ، شَهْرًا أَوْ قَالَ: مَرَّاتٍ ،قَالَ: فَإِنِّی أَقُولُ فِیهَا إِنَّ لَهَا صَدَاقًا كَصَدَاقِ نِسَائِهَا، لَا وَكْسَ، وَلَا شَطَطَ، وَإِنَّ لَهَا الْمِیرَاثَ وَعَلَیْهَا الْعِدَّةُ ، فَإِنْ یَكُ صَوَابًا، فَمِنَ اللهِ وَإِنْ یَكُنْ خَطَأً فَمِنِّی وَمِنَ الشَّیْطَانِ، وَاللهُ وَرَسُولُهُ بَرِیئَانِ،فَقَامَ نَاسٌ مِنْ أَشْجَعَ فِیهِمُ الْجَرَّاحُ، وَأَبُو سِنَانٍ ، فَقَالُوا: یَا ابْنَ مَسْعُودٍ نَحْنُ نَشْهَدُ أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَضَاهَا فِینَا فِی بِرْوَعَ بِنْتِ وَاشِقٍ وَإِنَّ زَوْجَهَا هِلَالُ بْنُ مُرَّةَ الْأَشْجَعِیُّ كَمَا قَضَیْتَ،قَالَ: فَفَرِحَ عَبْدُ اللهِ بْنُ مَسْعُودٍ فَرَحًا شَدِیدًا حِینَ وَافَقَ قَضَاؤُهُ قَضَاءَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ

عبداللہ بن عتبہ بن مسعود ، عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں ایک شخص کے بارے میں عبداللہ کویہی خبردی گئی(کہ کسی عورت سے نکاح کیالیکن اس کے لئے مہرمقررنہ کیااوراس ابھی ہم بستربھی نہ ہواتھاکہ فوت ہوگیا ) اورپھروہ لوگ ایک مہینہ تک ان کے پاس چکرلگاتے رہے یاکہاکئی باران کےپاس آئے توبالآخریہ کہامیری رائے اس میں یہ ہے کہ یہ عورت مہرکی حقدارہے جیسے کہ اس طرح کی عورتوں کاحق مہرہوتاہے(مہرمثل)بغیرکسی کمی بیشی کے،اوریہ میراث کی حقدارہے اوراس پرعدت(وفات)بھی لازم ہے،اگرمیری یہ بات حق اوردرست ہے تواللہ کی جانب سے ہے اوراگرغلط ہے تومیری طرف سے ہے اورشیطان کی طرف سے،اللہ اوراس کے رسول دونوں اس سے بری ہیں ، چنانچہ قبیلہ اشجع کے لوگ کھڑے ہوئے ان میں جراح اورابوسنان بھی تھے انہوں نے کہااے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ !ہم گواہی دیتے ہیں کہ یہی فیصلہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہماری ایک عورت بروع بنت واشق اوراس کے شوہرہلال بن مرہ اشجعی کے بارے میں فرمایاتھا جیسے کہ آپ رضی اللہ عنہ نے کیاہے، راوی نے بیان کیاکہ اس سےعبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کوبے حدخوشی ہوئی کہ ان کافیصلہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلے کے مطابق ہواہے۔[24]

وَالْحَدِیثُ فِیهِ دَلِیلٌ عَلَى أَنَّ الْمَرْأَةَ تَسْتَحِقُّ بِمَوْتِ زَوْجِهَا بَعْدَ الْعَقْدِ قَبْلَ فَرْضِ الصَّدَاقِ جَمِیعَ الْمَهْرِ وَإِنْ لَمْ یَقَعْ مِنْهُ دُخُولٌ وَلَا خَلْوَةٌ، وَبِهِ قَالَ ابْنُ مَسْعُودٍ وَابْنُ سِیرِینَ وَابْنُ أَبِی لَیْلَى وَأَبُو حَنِیفَةَ وَأَصْحَابُهُ وَإِسْحَاقُ وَأَحْمَدُ

اس روایت سے معلوم ہواکہ جس عورت کامہرمقررنہ کیاگیاہواسے (خاوندکی وفات پر ) مہر مثل دیاجائے گاخواہ اس سے مباشرت وہم بستری کی گئی ہویانہ کی گئی ہو۔

عبداللہ بن مسعود،امام ابن سیرین رحمہ اللہ ،امام ابن ابی لیلی رحمہ اللہ ،امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ اور اس کے ساتھی ،امام اسحاق رحمہ اللہ اورامام احمد رحمہ اللہ رحمہ اللہ اسی کے قائل ہیں ۔

أَنَّهَا لَا تَسْتَحِقُّ إلَّا الْمِیرَاثَ فَقَطْ وَلَا تَسْتَحِقُّ مَهْرًا وَلَا مُتْعَةً؛ لِأَنَّ الْمُتْعَةَ لَمْ تَرِدْ إلَّا لِلْمُطَلَّقَةِ وَالْمَهْرُ عِوَضٌ عَنْ الْوَطْءِ وَلَمْ یَقَعْ مِنْ الزَّوْجِ

امام مالک رحمہ اللہ کاموقف ہے ایسی عورت جس سے ہم بستری نہیں کی گئی صرف میراث کی مستحق ہے مہرکی نہیں کیونکہ مہروطی ومباشرت کاعوض ہے۔

ایک روایت کے مطابق امام شافعی رحمہ اللہ کابھی یہی موقف ہے۔[25]

پہلاموقف گزشتہ احادیث کے موافق ہے اوریہی راجح ہے،اورابن قدامہ رحمہ اللہ بھی اسی کے قائل ہیں ۔[26]

xہم بستری سے پہلے مہرکاکچھ حصہ اداکردینامستحب ہے۔

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: لَمَّا تَزَوَّجَ عَلِیٌّ فَاطِمَةَ قَالَ لَهُ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:أَعْطِهَا شَیْئًا،قَالَ: مَا عِنْدِی شَیْءٌ ،قَالَ:أَیْنَ دِرْعُكَ الْحُطَمِیَّةُ؟

جیسے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کی روایت میں ہے جب سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فاطمہ رضی اللہ عنہا سے شادی کی تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے فرمایاکہ وہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کوکچھ دیں ، انہوں نےکہامیرے پاس توکوئی چیزنہیں ہے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاوہ تمہاری حطمی زرہ کہاں ہے؟۔[27]

عَنْ رَجُلٍ، مِنْ أَصْحَابِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّ عَلِیًّا لَمَّا تَزَوَّجَ فَاطِمَةَ بِنْتَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَأَرَادَ أَنْ یَدْخُلَ بِهَا، فَمَنَعَهُ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى یُعْطِیَهَا شَیْئًا، فَقَالَ: یَا رَسُولَ اللهِ لَیْسَ لِی شَیْءٌ، فَقَالَ لَهُ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: أَعْطِهَا دِرْعَكَ، فَأَعْطَاهَا دِرْعَهُ، ثُمَّ دَخَلَ بِهَا

صحابہ میں سے ایک شخص سے روایت ہے سیدناعلی رضی اللہ عنہ نے جب فاطمہ رضی اللہ عنہا دختررسول ﷺسے شادی کی اوران کے ہاں جاناچاہاتورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کوروک لیاحتی کہ پہلے کوئی چیزپیش کریں ،انہوں نے کہااے اللہ کے رسولﷺ!میرے پاس کوئی چیزنہیں ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااپنی زرہ ہی دے دو،چنانچہ انہوں نے ان کواپنی زرہ دی پھراس کے ساتھ خلوت اختیارکی۔[28]

غیلان مستورکی وجہ سے یہ ضعیف روایت ہے،

حكم الألبانی: ضعیف

عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ:أَمَرَنِی رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَنْ أُدْخِلَ امْرَأَةً عَلَى زَوْجِهَا قَبْلَ أَنْ یُعْطِیَهَا شَیْئًا

علاوہ ازیں ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہےرسول اللہ ﷺنے انہیں حکم دیاکہ کسی عورت کواس کے شوہرپرپیش نہ کروں جب تک کہ وہ اس کوکوئی چیزنہ دے دے۔[29]

قَالَ أَبُو دَاوُدَ: وَخَیْثَمَةُ، لَمْ یَسْمَعْ مِنْ عَائِشَةَ

امام ابو داؤد رحمہ اللہ فرماتے ہیں خیثمہ کاسماع عائشہ رضی اللہ عنہا سے ثابت نہیں ۔

حكم الألبانی: ضعیف

عورت کواس کاحق المہراداکرناضروری ہے،

عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُمَا، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:إِنَّ أَعْظَمَ الذُّنُوبِ عِنْدَ اللهِ رَجُلٌ تَزَوَّجَ امْرَأَةً، فَلَمَّا قَضَى حَاجَتَهُ مِنْهَا، طَلَّقَهَا، وَذَهَبَ بِمَهْرِهَا

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے بڑاگناہ یہ ہے کہ ایک شخص کسی عورت سے نکاح کرے اورجب اپنی خواہش پوری کرلے تواسے طلاق دے دے اورساتھ ہی اس کامہربھی کھاجائے۔[30]

حَافِظُوا عَلَى الصَّلَوَاتِ وَالصَّلَاةِ الْوُسْطَىٰ وَقُومُوا لِلَّهِ قَانِتِینَ ‎﴿٢٣٨﴾‏ فَإِنْ خِفْتُمْ فَرِجَالًا أَوْ رُكْبَانًا ۖ فَإِذَا أَمِنتُمْ فَاذْكُرُوا اللَّهَ كَمَا عَلَّمَكُم مَّا لَمْ تَكُونُوا تَعْلَمُونَ ‎﴿٢٣٩﴾‏۹(البقرة )
ترجمہ:نمازوں کی حفاظت کرو بالخصوص درمیان والی نماز کی، اور اللہ تعالیٰ کے لیے با ادب کھڑے رہا کرو، اگر تمہیں خوف ہو تو پیدل ہی سہی یا سواری سہی، ہاں جب امن ہوجائے تو اللہ کا ذکر کرو جس طرح کے اس نے تمہیں اس بات کی تعلیم دی جسے تم نہیں جانتے تھے ۔ ‘‘

نمازمیں خاموش رہنے کاحکم

:قوانین تمدن ومعاشرت بیان کرنےکے بعدنمازکی تاکیدفرمائی کہ اپنی نمازوں کی حفاظت رکھو،انہیں اول اوقات میں خشوع وخضوع کے ساتھ اوراس کے تمام واجبات ومستحبات کے ساتھ اداکرتے رہو،

عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: سَأَلْتُ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: أَیُّ العَمَلِ أَحَبُّ إِلَى اللهِ؟قَالَ:الصَّلاَةُ عَلَى وَقْتِهَا،قَالَ: ثُمَّ أَیٌّ؟قَالَ:بِرُّ الوَالِدَیْنِ،قَالَ: ثُمَّ أَیٌّ؟قَالَ:الجِهَادُ فِی سَبِیلِ اللهِ،قَالَ: حَدَّثَنِی بِهِنَّ، وَلَوِ اسْتَزَدْتُهُ لَزَادَنِی

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے عرض کیااے اللہ کےرسول ﷺ!اللہ تعالیٰ کے نزدیک کون ساعمل سب سے زیادہ پسندیدہ ہے؟فرمایانمازکووقت پرپڑھنا،عرض کیا پھر کونسا ؟ فرمایاماں باپ سے اچھاسلوک کرنا،عرض کیاپھرکونسا؟فرمایااللہ کی راہ میں جہادکرنا،عبداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں اگرمیں کچھ اوربھی پوچھتاتوآپ اوربھی جواب دیتے رہتے۔[31]

عَنْ أُمِّ فَرْوَةَ، قَالَتْ: سُئِلَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَیُّ الْأَعْمَالِ أَفْضَلُ؟قَالَ:الصَّلَاةُ فِی أَوَّلِ وَقْتِهَا

ام فروہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہےرسول اللہ ﷺسے سوال کیاگیااعمال میں کونساعمل افضل ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایانمازکواول وقت اداکرنا۔[32]

خصوصاًایسی نمازکی جومحاسن صلوٰة کی جامع ہویعنی اعلی واشرف نمازعصر،صلوٰة وسطی(درمیان والی نماز) کے بارے میں کئی اقوال ہیں ،

عَلِیُّ بْنُ أَبِی طَالِبٍ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ:كُنَّا مَعَ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَوْمَ الخَنْدَقِ، فَقَالَ:مَلَأَ اللَّهُ قُبُورَهُمْ وَبُیُوتَهُمْ نَارًا، كَمَا شَغَلُونَا عَنْ صَلاَةِ الوُسْطَى حَتَّى غَابَتِ الشَّمْسُ وَهِیَ صَلاَةُ العَصْرِ

سیدناعلی رضی اللہ عنہ بن ابی طالب سے مروی ہے غزوہ خندق کے موقع پرہم رسول اللہ ﷺکے ساتھ تھے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااللہ ان کی قبروں اوران کے گھروں کوآگ سے بھردےانہوں نے ہمیں صلاة وسطیٰ نہیں پڑھنے دی جب تک کہ سورج غروب ہوگیااوریہ عصرکی نمازتھی۔[33]

عَنْ سَمُرَةَ بْنِ جُنْدَبٍ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ: صَلاَةُ الوُسْطَى صَلاَةُ العَصْرِ

سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ سے مروی ہےنبی کریم ﷺنے فرمایا صلاة الوسطیٰ عصرکی نمازہے۔[34]

رسول اللہ ﷺنے اس نمازکی سخت تاکیدفرمائی ہے،

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ،أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:الَّذِی تَفُوتُهُ صَلاَةُ العَصْرِ، كَأَنَّمَا وُتِرَ أَهْلَهُ وَمَالَهُ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ ﷺنے فرمایاجس سے عصرکی نمازفوت ہوجائے گویااس کاگھرانہ تباہ ہوگیااورمال واسباب برباد ہوگیا۔ [35]

عَنْ بُرَیْدَةَ، قَالَ: كُنَّا مَعَهُ فِی غَزَاةٍ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَقُولُ:بَكِّرُوا بِالصَّلَاةِ فِی الْیَوْمِ الْغَیْمِ، فَإِنَّهُ مَنْ فَاتَهُ صَلَاةُ الْعَصْرِ فَقَدْ حَبِطَ عَمَلُهُ

اوربریدہ بن حصیب رضی اللہ عنہ سے مروی ہےکہتے ہیں ہم کسی غزوہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ تھے، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کویہ فرماتے ہوئے سناہےابرآلودموسم میں عصرکی نمازجلداداکرلیاکروکیونکہ جس شخص کی نمازعصرچھوٹ جائے اس کے اعمال رائیگاں ہوگئے۔[36]

أَبُو مُحَمَّدٍ عَبْدُ الْمُؤْمِنِ بْنُ خَلَفٍ الدِّمْیَاطِیُّ فِی كِتَابِهِ الْمُسَمَّى:كَشْفُ الْمُغَطَّى، فِی تَبْیِینِ الصَّلَاةِ الْوُسْطَى: وَقَدْ نَصَرَ فِیهِ أَنَّهَا الْعَصْرُ

شرف الدین عبدالمومن بن خلف دمیاطی نے اپنی کتاب كَشْفُ الْمُغَطَّى، فِی تَبْیِینِ الصَّلَاةِ الْوُسْطَى میں لکھاہے کہ’’ درمیان والی نماز کی۔‘‘سے مراد نماز عصر ہے۔ [37]

مکہ مکرمہ میں دوران نمازباتیں کرنے کی اجازت تھی اورصحابہ ا کرام رضی اللہ عنہم بات چیت کرلیاکرتے تھے،

عَنْ أَبِی عَمْرٍو الشَّیْبَانِیِّ، قَالَ: قَالَ لِی زَیْدُ بْنُ أَرْقَمَ: إِنْ كُنَّا لَنَتَكَلَّمُ فِی الصَّلاَةِ عَلَى عَهْدِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یُكَلِّمُ أَحَدُنَا صَاحِبَهُ بِحَاجَتِهِ، حَتَّى نَزَلَتْ: {حَافِظُوا عَلَى الصَّلَوَاتِ، وَالصَّلاَةِ الوُسْطَى، وَقُومُوا لِلَّهِ قَانِتِینَ} [البقرة: 238] فَأُمِرْنَا بِالسُّكُوتِ

زیدبن ارقم رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ہم نبی کریم ﷺکے عہدمیں نمازپڑھنے میں باتیں کرلیاکرتے تھے،کوئی بھی اپنے قریب کے نمازی سے اپنی ضرورت بیان کر دیتا،پھرآیت’’نمازوں کی حفاظت کرو بالخصوص درمیان والی نماز کی، اور اللہ تعالیٰ کے لیے با ادب کھڑے رہا کرو۔‘‘ نازل ہوئی،اورہمیں (نمازمیں )خاموش رہنے کاحکم ہوا۔ [38]

مگرمدینہ منورہ میں اس رخصت کوختم کردیاگیا اور حکم فرمایاگیاجس طرح فرماں بردار غلام اپنے آقاکے سامنے ذلت ومسکینی کے ساتھ کھڑے ہوتے تم اپنی نمازوں میں اللہ کے سامنے خشوع وخضوع اورذلت وعاجزی کے ساتھ کھڑے ہوا کرو،

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: كُنَّا نُسَلِّمُ عَلَى النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ فِی الصَّلاَةِ، فَیَرُدُّ عَلَیْنَا، فَلَمَّا رَجَعْنَا مِنْ عِنْدِ النَّجَاشِیِّ سَلَّمْنَا عَلَیْهِ، فَلَمْ یَرُدَّ عَلَیْنَا، وَقَالَ:إِنَّ فِی الصَّلاَةِ شُغْلًا

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے(پہلے)نبی کریم ﷺنمازپڑھتے ہوتے اورہم سلام کرتےتوآپ اس کاجواب دیتے تھے،جب ہم نجاشی کے یہاں سے واپس ہوئے توہم نے (پہلے کی طرح نمازہی میں )سلام کیالیکن اس وقت آپ ﷺنے جواب نہیں دیابلکہ نمازسے فارغ ہوکرفرمایاکہ نمازمیں آدمی کوفرصت کہاں ۔[39]

عَنْ مُعَاوِیَةَ بْنِ الْحَكَمِ السُّلَمِیِّ، قَالَ: بَیْنَا أَنَا أُصَلِّی مَعَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، إِذْ عَطَسَ رَجُلٌ مِنَ الْقَوْمِ، فَقُلْتُ: یَرْحَمُكَ اللهُ فَرَمَانِی الْقَوْمُ بِأَبْصَارِهِمْ، فَقُلْتُ: وَاثُكْلَ أُمِّیَاهْ، مَا شَأْنُكُمْ؟ تَنْظُرُونَ إِلَیَّ، فَجَعَلُوا یَضْرِبُونَ بِأَیْدِیهِمْ عَلَى أَفْخَاذِهِمْ، فَلَمَّا رَأَیْتُهُمْ یُصَمِّتُونَنِی لَكِنِّی سَكَتُّ، فَلَمَّا صَلَّى رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَبِأَبِی هُوَ وَأُمِّی، مَا رَأَیْتُ مُعَلِّمًا قَبْلَهُ وَلَا بَعْدَهُ أَحْسَنَ تَعْلِیمًا مِنْهُ، فَوَاللهِ، مَا كَهَرَنِی وَلَا ضَرَبَنِی وَلَا شَتَمَنِی، قَالَ:إِنَّ هَذِهِ الصَّلَاةَ لَا یَصْلُحُ فِیهَا شَیْءٌ مِنْ كَلَامِ النَّاسِ، إِنَّمَا هُوَ التَّسْبِیحُ وَالتَّكْبِیرُ وَقِرَاءَةُ الْقُرْآنِ أَوْ كَمَا قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ

معاویہ بن الحکم رضی اللہ عنہ سے مروی ہےایک دن میں رسول اللہ ﷺکے ساتھ نمازپڑھ رہاتھاکہ اتنے میں ایک شخص کوچھینک آئی، میں نے (حسب دستور)’’ یَرْحَمُكَ اللهُ‘‘ کہا، لوگوں نے مجھے گھورناشروع کردیا،میں نے کہامیری ماں مجھ پرروئے تم لوگ مجھے کیوں گھوررہے ہو؟لوگوں نے اپنے ہاتھ رانوں پرمارنے شروع کردیے،جب میں نے دیکھا کہ وہ مجھ کوچپ کراناچاہتے ہیں تومیں چپ ہوگیا،جب رسول اللہ ﷺنے سلام پھیراتومیں نے کہااے اللہ کےرسول ! ﷺمیرے ماں باپ آپ پرقربان،میں نے آپ سے بہترتعلیم دینے والانہ آپ سے پہلے دیکھانہ آپ کے بعددیکھا،اللہ کی قسم! نہ آپ نے مجھے دھمکایا،نہ مارا،نہ برابھلاکہابلکہ یہ فرمایابے شک یہ نمازایسی چیزہے کہ اس میں لوگوں سے گفتگو جائزنہیں ،نمازتوبس تسبیح،تکبیراورقراة قرآن کے لئے ہے

 قُلْتُ: یَا رَسُولَ اللهِ، إِنِّی حَدِیثُ عَهْدٍ بِجَاهِلِیَّةٍ، وَقَدْ جَاءَ اللهُ بِالْإِسْلَامِ، وَإِنَّ مِنَّا رِجَالًا یَأْتُونَ الْكُهَّانَ، قَالَ:فَلَا تَأْتِهِمْ قَالَ: وَمِنَّا رِجَالٌ یَتَطَیَّرُونَ، قَالَ:ذَاكَ شَیْءٌ یَجِدُونَهُ فِی صُدُورِهِمْ، فَلَا یَصُدَّنَّهُمْ – قَالَ ابْنُ الصَّبَّاحِ: فَلَا یَصُدَّنَّكُمْ -قَالَ قُلْتُ: وَمِنَّا رِجَالٌ یَخُطُّونَ، قَالَ:كَانَ نَبِیٌّ مِنَ الْأَنْبِیَاءِ یَخُطُّ، فَمَنْ وَافَقَ خَطَّهُ فَذَاكَ

میں نے کہااے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !میں جاہلیت سے ابھی ابھی نکلاہوں اوراب اللہ نے اسلام کوقائم کردیاہے (لیکن اسلام کے احکام سے میں واقف نہیں ہوں )ہم میں سے بہت سے آدمی کاہنوں کے پاس جایاکرتے تھے(کیااب بھی ہم ان کے پاس جاسکتے ہیں )رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاان کے پاس نہ جانا،میں نے کہاہم میں سے بعض لوگ بدشگونی لیتے ہیں (اس بارے میں کیا حکم ہے)،رسول اللہ ﷺنے فرمایابدشگونی کاوہم لوگوں کے دلوں میں آجایاکرتاہے لیکن یہ وہم ان کے لئے کسی کام سے رک جانے کاسبب نہ بنے(بدشگونی کاخیال بھی آئے تواس عمل کوترک نہ کرے)میں نے کہاہم لوگوں میں بعض آدمی لکیریں کھینچتے ہیں ،رسول اللہ ﷺنے فرمایانبیوں میں ایک نبی لکیریں کھینچاکرتے تھے پس جس کی لکیریں ان کے موافق ہیں وہ ٹھیک ہے،

قَالَ: وَكَانَتْ لِی جَارِیَةٌ تَرْعَى غَنَمًا لِی قِبَلَ أُحُدٍ وَالْجَوَّانِیَّةِ، فَاطَّلَعْتُ ذَاتَ یَوْمٍ فَإِذَا الذِّیبُ قَدْ ذَهَبَ بِشَاةٍ مِنْ غَنَمِهَا، وَأَنَا رَجُلٌ مِنْ بَنِی آدَمَ، آسَفُ كَمَا یَأْسَفُونَ، لَكِنِّی صَكَكْتُهَا صَكَّةً، فَأَتَیْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَعَظَّمَ ذَلِكَ عَلَیَّ، قُلْتُ: یَا رَسُولَ اللهِ أَفَلَا أُعْتِقُهَا؟ قَالَ:ائْتِنِی بِهَا فَأَتَیْتُهُ بِهَا، فَقَالَ لَهَا:أَیْنَ اللهُ؟ قَالَتْ: فِی السَّمَاءِ، قَالَ:مَنْ أَنَا؟ قَالَتْ: أَنْتَ رَسُولُ اللهِ، قَالَ:أَعْتِقْهَا، فَإِنَّهَا مُؤْمِنَةٌ

معاویہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں میری ایک لونڈی تھی وہ احداورجوانیہ کے سامنے بکریاں چرایاکرتی تھی،ایک دن میں نے دیکھاکہ ایک بکری کوبھیڑیالے گیا،میں بھی آخرآدمی ہوں مجھے اس کاصدمہ ہواجیسے تمام آدمیوں کوہوتاہے میں نے لومڈی کے ایک طمانچہ ماردیاپھررسول اللہ ﷺکے پاس آیا(میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کاذکرکیا)آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کوبہت بڑا(گناہ)خیال کیا،میں نے کہا اے اللہ کے رسولﷺ! کیامیں اسے آزادنہ کردوں ؟رسول اللہ ﷺنے فرمایااس کومیرے پاس لے آؤ،میں اس کولے کرآیا،رسول اللہ ﷺنے اس سے پوچھااللہ کہاں ہے ؟اس نے کہا آسمان میں ،رسول اللہ ﷺنے پوچھامیں کون ہوں ؟اس نے کہاآپ اللہ کے رسول ہیں ،رسول اللہ ﷺنے فرمایااس کو آزاد کردوکیونکہ یہ مومنہ ہے ۔[40]

اوراگردشمن کاخوف ہو توخواہ پیدل چلتے ہوئےخواہ سواری پربیٹھے ہوئےجس طرح ممکن ہونمازپڑھو،

ابْنُ عُمَرَ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: وَإِنْ كَانُوا أَكْثَرَ مِنْ ذَلِكَ، فَلْیُصَلُّوا قِیَامًا وَرُكْبَانًا

عبداللہ بن عمرسے مروی ہے نبی کریم ﷺنے فرمایااگر کافربہت سارے ہوں کہ مسلمانوں کودم نہ لینے دیں توکھڑے کھڑے اورسواررہ کر(جس طورممکن ہو)اشاروں سے ہی سہی مگرنمازپڑھ لیں ۔[41]

عَنْ نَافِعٍ، أَنَّ ابْنَ عُمَرَ كَانَ إِذَا سُئِلَ عَنْ صَلَاةِ الْخَوْفِ وَصَفَهَا. ثُمَّ قَالَ: فَإِنْ كَانَ خَوْفٌ أَشَدُّ مِنْ ذَلِكَ صَلَّوْا رِجَالًا عَلَى أَقْدَامِهِمْ، أَوْ رُكْبَانَا مُسْتَقْبِلِی الْقِبْلَةِ أَوْ غَیْرَ مُسْتَقْبِلِیهَا قَالَ نَافِعٌ: لَا أَرَى ابْنَ عُمَرَ ذَكَرَ ذَلِكَ إِلَّا عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ

نافع سے مروی ہےعبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے نمازخوف کے بارے میں پوچھاجاتاتوآپ اس کے طریقے کوبیان کردیتے اورپھرفرماتے اگرخوف بہت زیادہ ہوتوپھرپیادہ ہو یاسوار،قبلہ رخ ہویانہ ہو جس طرح ممکن ہونمازپڑھ لو،نافع بیان کرتے ہیں میراخیال ہے کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما اسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے بیان کیاکرتے تھے ۔[42]

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: فَرَضَ اللهُ الصَّلَاةَ عَلَى لِسَانِ نَبِیِّكُمْ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فِی الْحَضَرِ أَرْبَعًا، وَفِی السَّفَرِ رَكْعَتَیْنِ وَفِی الْخَوْفِ رَكْعَةً

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے اللہ تعالیٰ نے تمہارے نبی کی زبانی حضرمیں نمازکی چاررکعتیں ،سفرمیں دورکعتیں اورحالت خوف میں ایک ہی رکعت فرض قراردی ہے ۔[43]

وَبِهِ قَالَ الْحَسَنُ الْبَصْرِیُّ وَقَتَادَةُ وَالضَّحَّاكُ وَغَیْرُهُمْ

امام حسن بصری رحمہ اللہ ،قتادہ رحمہ اللہ اورضحاک رحمہ اللہ وغیرہ کابھی یہی قول ہے۔

وَقَالَ الْبُخَارِیُّ: بَابُ الصَّلَاةِ عِنْدَ مُنَاهَضَةِ الْحُصُونِ وَلِقَاءِ الْعَدُوِّ ،وَقَالَ الأَوْزَاعِیُّ:إِنْ كَانَ تَهَیَّأَ الفَتْحُ وَلَمْ یَقْدِرُوا عَلَى الصَّلاَةِ صَلَّوْا إِیمَاءً كُلُّ امْرِئٍ لِنَفْسِهِ، فَإِنْ لَمْ یَقْدِرُوا عَلَى الإِیمَاءِ أَخَّرُوا الصَّلاَةَ حَتَّى یَنْكَشِفَ القِتَالُ أَوْ یَأْمَنُوا، فَیُصَلُّوا رَكْعَتَیْنِ، فَإِنْ لَمْ یَقْدِرُوا صَلَّوْا رَكْعَةً وَسَجْدَتَیْنِ، فَإِنْ لَمْ یَقْدِرُوا لاَ یُجْزِئُهُمُ التَّكْبِیرُ، وَیُؤَخِّرُوهَا حَتَّى یَأْمَنُوا وَبِهِ قَالَ مَكْحُولٌ وَقَالَ أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ:حَضَرْتُ عِنْدَ مُنَاهَضَةِ حِصْنِ تُسْتَرَ عِنْدَ إِضَاءَةِ الفَجْرِ، وَاشْتَدَّ اشْتِعَالُ القِتَالِ، فَلَمْ یَقْدِرُوا عَلَى الصَّلاَةِ، فَلَمْ نُصَلِّ إِلَّا بَعْدَ ارْتِفَاعِ النَّهَارِ، فَصَلَّیْنَاهَا وَنَحْنُ مَعَ أَبِی مُوسَى فَفُتِحَ لَنَا، وَقَالَ أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ: وَمَا یَسُرُّنِی بِتِلْكَ الصَّلاَةِ الدُّنْیَا وَمَا فِیهَا

امام بخاری رضی اللہ عنہ نے صحیح کے بَابُ الصَّلَاةِ عِنْدَ مُنَاهَضَةِ الْحُصُونِ وَلِقَاءِ الْعَدُوِّ میں لکھاہےامام اوزاعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اگرفتح قریب ہواورنمازپڑھناممکن نہ ہوتوہرشخص الگ الگ اشارے سے نماز ادا کرلے،اوراگراشارے سے بھی نمازپڑھناممکن نہ ہوتو نماز کو موخر کردیں حتی کہ جنگ ختم ہوجائےیاوہ امن کی حالت میں ہوجائیں توپھردورکعتیں پڑھ لیں ، اوراگردورکعتیں پڑھناممکن نہ ہوتوایک رکعت دوسجدوں کے ساتھ اداکرلیں ،اوراگراس کی بھی طاقت نہ ہوتوپھرمحض تکبیرکہناکافی نہ ہوگالہذانمازکوموخرکرلیں حتی کہ وہ امن کی حالت میں ہوجائیں ، مکحول کابھی یہی قول ہے،انس بن مالک فرماتے ہیں میں تسترکے قلعے کے محاصرے کے وقت موجودتھا،فجرکاوقت تھااور گھمسان کارن پڑاہواتھاحتی کہ نمازپڑھنابھی ممکن نہ تھا لہذااس نمازکوہم نے سورج بلندہونے کے بعداداکیا، ہم نے اس نمازکوابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کے ساتھ اداکیا،اللہ تعالیٰ نے ہمیں فتح سے نوازا، انس رضی اللہ عنہ فرمایاکرتے تھے کہ اس نمازسے مجھے جس قدرخوشی تھی وہ دنیاومافیہاسے حاصل نہیں ہوسکتی۔[44]

تاہم جب دشمن سے خوف کی حالت ختم ہوجائے توپورے اطمینان کے ساتھ اس طریقے سے نماز پڑھو جس طریقے سےاس نے تمہیں سکھادیاہے جس سے پہلے تم ناواقف تھے،جیسے فرمایا

۔۔۔ فَاِذَا اطْمَاْنَـنْتُمْ فَاَقِیْمُوا الصَّلٰوةَ۝۰ۚ اِنَّ الصَّلٰوةَ كَانَتْ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ كِتٰبًا مَّوْقُوْتًا۝۱۰۳

ترجمہ:اورجب اطمینان نصیب ہوجائے توپوری نمازپڑھو،نمازدرحقیقت ایسافرض ہے جوپابندی وقت کے ساتھ اہل ایمان پرلازم کیاگیاہے۔

وَالَّذِینَ یُتَوَفَّوْنَ مِنكُمْ وَیَذَرُونَ أَزْوَاجًا وَصِیَّةً لِّأَزْوَاجِهِم مَّتَاعًا إِلَى الْحَوْلِ غَیْرَ إِخْرَاجٍ ۚ فَإِنْ خَرَجْنَ فَلَا جُنَاحَ عَلَیْكُمْ فِی مَا فَعَلْنَ فِی أَنفُسِهِنَّ مِن مَّعْرُوفٍ ۗ وَاللَّهُ عَزِیزٌ حَكِیمٌ ‎﴿٢٤٠﴾‏ وَلِلْمُطَلَّقَاتِ مَتَاعٌ بِالْمَعْرُوفِ ۖ حَقًّا عَلَى الْمُتَّقِینَ ‎﴿٢٤١﴾‏ كَذَٰلِكَ یُبَیِّنُ اللَّهُ لَكُمْ آیَاتِهِ لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُونَ ‎﴿٢٤٢﴾‏ (البقرة)
’’جو لوگ تم میں سے فوت ہوجائیں اور بیویاں چھوڑ جائیں اور وہ وصیت کر جائیں ان کی بیویاں سال بھر تک فائدہ اٹھائیں انہیں کوئی نہ نکالے، ہاں اگر وہ خود نکل جائیں تو تم پر کوئی گناہ نہیں جو وہ اپنے لیے اچھائی سے کریں، اللہ تعالیٰ غالب اور حکیم ہے ،طلاق والیوں کو اچھا فائدہ دینا پرہیزگاروں پر لازم ہے اللہ تعالیٰ اسی طرح اپنی آیتیں تم پر ظاہر فرما رہا ہے تاکہ تم سمجھو۔ ‘‘

تم میں سے جولوگ وفات پائیں اورپیچھے بیویاں چھوڑرہے ہوں ،ان کوچاہے کہ اپنی بیویوں کے حق میں یہ وصیت کرجائیں کہ ایک سال تک ان کا نان ونفقہ دیاجائے اوروہ گھرسے نہ نکالی جائیں ،مگریہ آیت منسوخ ہے ،ناسخ آیت پہلے گزرچکی ہے جس میں عدت وفات چارمہینے دس دن بتلائی گئی ،اس کے علاوہ آیت مواریث نے بیویوں کا حصہ بھی مقررکردیاہے اس لئے اب خاوندکوعورت کے لئے کسی بھی قسم کی وصیت کرنے کی ضرورت نہیں رہی ،نہ رہائش کے بارے میں اورنہ نان ونفقہ کے بارے میں ،

قَالَ: ابْنُ الزُّبَیْرِ قُلْتُ: لِعُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ {وَالَّذِینَ یُتَوَفَّوْنَ مِنْكُمْ وَیَذَرُونَ أَزْوَاجًا} [45]قَالَ: قَدْ نَسَخَتْهَا الآیَةُ الأُخْرَى، فَلِمَ تَكْتُبُهَا؟ أَوْ تَدَعُهَا؟ قَالَ:یَا ابْنَ أَخِی لاَ أُغَیِّرُ شَیْئًا مِنْهُ مِنْ مَكَانِهِ

عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے کہاکہ میں نے آیت کریمہ’’تم میں سے جو لوگ وفات پائیں اور پیچھے بیویاں چھوڑ رہے ہوں ۔‘‘ کے متعلق سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ سےعرض کیا اس آیت کودوسری آیت نے منسوخ کردیاہے اس لئے آپ اسے (مصحف میں ) نہ لکھیں یا(یہ کہاکہ)نہ رہنے دیں ،اس پرسیدناعثمان رضی اللہ عنہ نے کہابیٹے!میں (قرآن کا)کوئی حرف اس کی جگہ سے نہیں ہٹاسکتا۔[46]

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، فِی قَوْلِهِ: {وَالَّذِینَ یُتَوَفَّوْنَ مِنْكُمْ وَیَذَرُونَ أَزْوَاجًا وَصِیَّةً لِأَزْوَاجِهِمْ مَتَاعًا إِلَى الْحَوْلِ غَیْرَ إِخْرَاجٍ} فَكَانَ لِلْمُتَوَفَّى عَنْهَا زَوْجُهَا نَفَقَتُهَا وَسُكْنَاهَا فِی الدَّارِ سَنَةً، فَنَسَخَتْهَا آیَةُ الْمَوَارِیثِ، فَجُعِلَ لَهُنَّ الرُّبُعُ وَالثُّمُنُ، مِمَّا تَرَكَ الزَّوْجُ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے آیت کریمہ ’’ تم میں سے جولوگ وفات پائیں اورپیچھے بیویاں چھوڑرہے ہوں ،ان کوچاہیے کہ اپنی بیویوں کے حق میں یہ وصیت کرجائیں کہ ایک سال تک ان کا نان ونفقہ دیاجائے اوروہ گھرسے نہ نکالی جائیں ۔‘‘کے بارے میں روایت ہے کہ جس عورت کاشوہرفوت ہوجاتاتوگھرہی میں رہنے کی صورت میں اسے ایک سال تک کے لیے خرچہ اوررہائش دی جاتی تھی لیکن اس حکم کوآیت میراث نے منسوخ کردیااوراس کے لیے شوہرکے ترکے سے چوتھایاآٹھواں حصہ مقررکردیا۔[47]

پھر اگر وہ عورتیں خودنکل جائیں اوراپنی ذات کے معاملے میں معروف طریقے سے وہ کچھ بھی کریں اس کی کوئی ذمہ داری تم پرنہیں ہے ،اللہ سب پر غالب اقتداررکھنے والا ورحکیم وداناہے ، مطلقہ عورت کوفائدہ دینے کے بارے میں لوگ کہتے تھے کہ اگرہم چاہیں دیں چاہیں نہ دیں ،اس پریہ آیت نازل ہوئی کہ متقی لوگوں پرواجب ہے کہ جن عورتوں کوطلاق دی گئی ہوان کی دل جوئی کے لئےانہیں مناسب طورپرکچھ نہ کچھ دے کررخصت کریں ،

قَالَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ زَیْدِ بْنِ أَسْلَمَ: لَمَّا نَزَلَ قَوْلُهُ: {مَتَاعًا بِالْمَعْرُوفِ حَقًّا عَلَى الْمُحْسِنِینَ} [48] قَالَ رَجُلٌ: إِنْ شئتُ أَحْسَنْتُ فَفَعَلْتُ وَإِنْ شئتُ لَمْ أَفْعَلْ. فَأَنْزَلَ اللَّهُ هَذِهِ الْآیَةَ: {وَلِلْمُطَلَّقَاتِ مَتَاعٌ بِالْمَعْرُوفِ حَقًّا عَلَى الْمُتَّقِینَ}

عبدالرحمٰن بن زیدبن اسلم فرماتے ہیں جب یہ آیت کریمہ ’’انہیں دستورکے مطابق کچھ نہ کچھ دے کر رخصت کیاجائےیہ حق ہے متقی لوگوں پر۔‘‘ نازل ہوئی توایک شخص نے کہاکہ میں اگرچاہوں تونیکی کروں اوراگرچاہوں تونہ کروں تواللہ تعالیٰ نے یہ آیت کریمہ’’ اسی طرح جن عورتوں کوطلاق دی گئی ہوانہیں بھی مناسب طورپرکچھ نہ کچھ دے کر رخصت کیاجائےیہ حق ہے متقی لوگوں پر۔‘‘ نازل فرمائی ۔[49]

اس طرح اللہ اپنے احکام یعنی حدود، حلال وحرام اوروہ احکام جن میں تمہارافائدہ ہےتمہیں صاف صاف بتاتا ہے تاکہ کسی قسم کاابہام اوراجمال باقی نہ رہے ،امیدہے کہ تم سمجھ بوجھ کرکام کروگے۔

أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِینَ خَرَجُوا مِن دِیَارِهِمْ وَهُمْ أُلُوفٌ حَذَرَ الْمَوْتِ فَقَالَ لَهُمُ اللَّهُ مُوتُوا ثُمَّ أَحْیَاهُمْ ۚ إِنَّ اللَّهَ لَذُو فَضْلٍ عَلَى النَّاسِ وَلَٰكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا یَشْكُرُونَ ‎﴿٢٤٣﴾‏ وَقَاتِلُوا فِی سَبِیلِ اللَّهِ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ سَمِیعٌ عَلِیمٌ ‎﴿٢٤٤﴾‏ مَّن ذَا الَّذِی یُقْرِضُ اللَّهَ قَرْضًا حَسَنًا فَیُضَاعِفَهُ لَهُ أَضْعَافًا كَثِیرَةً ۚ وَاللَّهُ یَقْبِضُ وَیَبْسُطُ وَإِلَیْهِ تُرْجَعُونَ ‎﴿٢٤٥﴾‏(البقرة)
’’کیا تم نے انہیں نہیں دیکھا جو ہزاروں کی تعداد میں تھے اور موت کے ڈر کے مارے اپنے گھروں سے نکل کھڑے ہوئے تھے، اللہ تعالیٰ نے انہیں فرمایا مرجاؤ، پھر انہیں زندہ کردیا بیشک اللہ تعالیٰ لوگوں پر بڑا فضل کرنے والا ہے لیکن اکثر لوگ ناشکرے ہیں، اللہ کی راہ میں جہاد کرو اور جان لو کہ اللہ تعالیٰ سنتا، جانتا ہے،ایسا بھی کوئی ہے جو اللہ تعالیٰ کو اچھا قرض دے پس اللہ تعالیٰ اسے بہت بڑھا چڑھا کر عطا فرمائے، اللہ ہی تنگی اور کشادگی کرتا ہے اور تم سب اسی کی طرف لوٹائے جاؤ گے۔ ‘‘

مسلمانوں کوجہادفی سبیل اللہ اورمالی قربانیوں پرابھارنے کے لئے فرمایاتم نے ان لوگوں کے حال پربھی کچھ غورکیاجوموت کے ڈرسے اپنے گھربارچھوڑکرنکلے تھے اور ہزاروں کی تعدادمیں تھے؟

رُوِیَ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّهُمْ كَانُوا أَرْبَعَةَ آلَافٍ وَعَنْهُ: كَانُوا ثَمَانِیَةَ آلَافٍ،وَقَالَ أَبُو صَالِحٍ: تِسْعَةُ آلَافٍ ،كَانُوا بِضْعَةً وثلاثین ألفًا،أَرْبَعُونَ أَلْفًا،كَانُوا أَهْلَ قَرْیَةٍ یُقَالُ لَهَا: دَاوَرْدَانَ،كَانُوا مَنْ أَهْلِ أَذَرِعَاتٍ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں یہ چارہزارلوگ تھے،ایک روایت میں ہے یہ آٹھ ہزارلوگ تھے،ابوصالح کہتے ہیں یہ نوہزارلوگ تھے،بعض کہتے ہیں تیس ہزارسے اوپرتھے، بعض کہتے ہیں یہ چالیس ہزارلوگ تھے،اسی طرح بعض کہتے ہیں یہ داوردان نامی بستی کے رہنے والے تھے،اوربعض کہتے ہیں یہ اذرعات نامی بستی کے رہائشی تھے[50]

بہرحال یہ کتنی تعدادمیں تھے،کس بستی سے تعلق رکھتے تھے اوریہ واقعہ سابقہ کس امت کاہے اس کی تفصیل کسی صحیح حدیث میں بیان نہیں کی گئی ، تفسیری روایات میں اسے بنی اسرائیل کے زمانے کاواقعہ اوراس پیغمبر کانام جس کی دعا سے انہیں اللہ تعالیٰ نے دوبارہ زندہ فرمایاحزقیل بتلایا گیاہے، عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما اورکئی دیگرصحابہ کرام سے مروی ہے کہ جب خزقیل علیہ السلام نے بنی اسرائیل سے کہاکہ فلاں دشمن سے جہادکے لئے تیاری کروتو ہزاروں لوگ جو اپنی بے راہ روی کے سبب بزدل بن چکے تھےاور دنیا کی محبت کے سبب یہ لوگ موت کے خوف میں مبتلاتھے، چنانچہ وہ دشمن سے مقابلہ کرنے کےبجائے جہاد میں قتل کے ڈر، خوف وہراس اور مایوسی سے یاوبائی بیماری طاعون کے خوف سے اپنے گھروں سے نکل کھڑے ہوئےتاکہ موت کے منہ میں جانے سے بچ جائیں لیکن اللہ تعالیٰ کی مشیت سے کوئی بھاگ نہیں سکتا،جب وہ لوگ ایک محفوظ مقام پرپہنچ گئے کہ یہاں موت نہیں پہنچ سکتی تو وہاں ڈیرے ڈال دیئے ،

عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَوْفٍ فَقَالَ:سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَقُولُ:إِذَا سَمِعْتُمْ بِهِ بِأَرْضٍ فَلاَ تَقْدَمُوا عَلَیْهِ، وَإِذَا وَقَعَ بِأَرْضٍ وَأَنْتُمْ بِهَا فَلاَ تَخْرُجُوا فِرَارًا مِنْهُ

عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ نے بیان کیا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سناکہ جب تم کسی سرزمین میں (وبا کے متعلق) سنو تو وہاں نہ جاؤاورجب ایسی جگہ وباآجائے جہاں تم خودموجودہوتووہاں سے مت نکلو۔[51]

فَقَالَ أُسَامَةُ:قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: الطَّاعُونُ رِجْزٌ أَوْ عَذَابٌ أُرْسِلَ عَلَى بَنِی إِسْرَائِیلَ أَوْ عَلَى مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ ، فَإِذَا سَمِعْتُمْ بِهِ بِأَرْضٍ، فَلَا تَقْدَمُوا عَلَیْهِ، وَإِذَا وَقَعَ بِأَرْضٍ وَأَنْتُمْ بِهَا، فَلَا تَخْرُجُوا فِرَارًا مِنْهُ

اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاطاعون ایک عذاب ہے جوبنی اسرائیل پریااگلی امت پربھیجا گیا پھرجب تم سنوکسی ملک میں طاعون ہے تو وہاں مت جاؤاورجب تمہاری ہی بستی میں طاعون نمودارہوتواس کے ڈرسے بھاگ کرمت نکلو۔[52]

خزقیل علیہ السلام نے ان کے اس عمل پران کے لئے بددعافرمائی اور اللہ تعالیٰ نے ان پرموت طاری کردی اوروہ موت کی وادیوں میں گم ہوگئے ، جب حزقیل علیہ السلام کاان پر گزر ہوا تو انہوں نے رب سے پھردعا فرمائی کہ ان لوگوں کوعذاب سے نجات دے تاکہ وہ خوداپنے لئے اورآنے والی نسلوں کے لئے باعث عبرت وبصیرت بن جائیں ،چنانچہ رب کریم نے انہیں دوبارہ زندہ فرمادیا،اللہ تعالیٰ نے انہیں مارکرایک تویہ بتلا دیا کہ اللہ کی تقدیر سے تم بچ کرکہیں نہیں جاسکتے ،دوسرایہ کہ انسانوں کی آخری جائے پناہ اللہ تعالیٰ ہی کی ذات بابرکات ہے ،تیسرایہ کہ اللہ تعالیٰ دوبارہ پیدا کرنے پرقادر ہے اور وہ تمام انسانوں کواسی طرح زندہ فرمائے گاجس طرح اللہ تعالیٰ نے ان کو مارکرزندہ کردیااوریہ کہ موت کے بعدحیات کاتعلق صرف قیامت کے ساتھ ہی نہیں بلکہ رب چاہئے تواس سے پہلے بھی ہوسکتاہے،حقیقت یہ ہے کہ اللہ انسان پربڑافضل فرمانے والاہےمگراکثرلوگ اللہ کی نعمتوں پراس کا شکرادانہیں کرتےبلکہ بعض اوقات ان نعمتوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے مزیدگناہ کرنے لگتے ہیں ،مسلمانو!اللہ کی رضاوخوشنودی کے لئےاللہ کی راہ میں جہاد کرو، اور خوب جان رکھوکہ اللہ سننے والا اورجاننے والا ہے،یعنی انسان کوئی بھی تدبیرکرلے وہ تقدیرکے لکھے کونہیں ٹال سکتااسی طرح انسان جہادفی سبیل اللہ سے فرار اور اجتناب کرکے موت کوقریب یادورنہیں کرسکتا،اللہ تعالیٰ نے ہرانسان کی عمراوراس کارزق مقررفرمادیاہے جس میں کوئی کمی بیشی نہیں ہوسکتی ،جیسے فرمایا

اَلَّذِیْنَ قَالُوْا لِاِخْوَانِھِمْ وَقَعَدُوْا لَوْ اَطَاعُوْنَا مَا قُتِلُوْا۝۰ۭ قُلْ فَادْرَءُوْا عَنْ اَنْفُسِكُمُ الْمَوْتَ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ۝۱۶۸ [53]

ترجمہ:یہ وہی لوگ ہیں جوخودتوبیٹھے رہے اوران کے جوبھائی بندلڑنے گئے اورمارے گئے ان کے متعلق انہوں نے کہہ دیاکہ اگروہ ہماری بات مان لیتے تومارے نہ جاتے ، ان سے کہواگرتم اپنے اس قول میں سچے ہوتوخودتمہاری موت جب آئے اسے ٹال کردکھادینا۔

۔۔۔۔ وَقَالُوْا رَبَّنَا لِمَ كَتَبْتَ عَلَیْنَا الْقِتَالَ۝۰ۚ لَوْلَآ اَخَّرْتَنَآ اِلٰٓى اَجَلٍ قَرِیْبٍ۝۰ۭ قُلْ مَتَاعُ الدُّنْیَا قَلِیْلٌ۝۰ۚ وَالْاٰخِرَةُ خَیْرٌ لِّمَنِ اتَّقٰى۝۰ۣ وَلَا تُظْلَمُوْنَ فَتِیْلًا۝۷۷اَیْنَ مَا تَكُوْنُوْا یُدْرِكْكُّمُ الْمَوْتُ وَلَوْ كُنْتُمْ فِیْ بُرُوْجٍ مُّشَـیَّدَةٍ۔۔۔۝۰۝۷۸ [54]

ترجمہ:کہتے ہیں خدایا!ہم پرلڑائی کاحکم کیوں لکھ دیا؟کیوں نہ ہمیں ابھی کچھ اورمہلت دی؟ان سے کہودنیاکاسرمایہ زندگی تھوڑاہے اورآخرت ایک خداترس انسان کے لیے زیادہ بہترہے اورتم پرظلم ایک شمہ برابربھی نہ کیاجائے گا،رہی موت توجہاں بھی تم ہووہ بہرحال تمہیں آکررہے گی خواہ تم کیسی ہی مضبوط عمارتوں میں ہو۔

خالد رضی اللہ عنہ بن ولیدکی مثال ہمارے سامنے ہے ،انہوں نے کتنی جنگوں میں دادشجاعت دی ،پوراجسم مختلف جنگی اسلحہ سے زخمی ہوامگرموت میدان جنگ کے بجائے بسترپرہوئی ،

أَنَّهُ قَالَ:وَهُوَ فِی سِیَاقِ الْمَوْتِ: لَقَدْ شَهِدْتُ كَذَا وَكَذَا مَوْقِفًا وَمَا مِنْ عُضْوٍ مِنْ أَعْضَائِی إِلَّا وَفِیهِ رَمْیَةٌ أَوْ طَعْنَةٌ أَوْ ضَرْبَةٌ وَهَا أَنَا ذَا أَمُوتُ عَلَى فِرَاشِی كَمَا یَمُوتُ الْعِیرُ! فَلَا نَامَتْ أَعْیُنُ الْجُبَنَاءِ یَعْنِی: أَنَّهُ یَتَأَلَّمُ لِكَوْنِهِ مَا مَاتَ قَتِیلًا فِی الْحَرْبِ وَیَتَأَسَّفُ عَلَى ذَلِكَ وَیَتَأَلَّمُ أَنْ یَمُوتَ عَلَى فِرَاشِهِ

خالد رضی اللہ عنہ بن ولیدکے بارے میں روایت ہےجب آپ موت وحیات کی کشمکش میں مبتلاتھے توآپ نے فرمایامیں نے فلاں فلاں جنگوں میں شرکت کی ،جسم کاکوئی عضوایسانہیں جس پرتیر،تلواریانیزے بھالے سے زخم نہ لگاہومگراب میں اپنے بسترپرفوت ہورہاہوں جیسے جنگلی گدھافوت ہوتاہے، بزدلوں کی آنکھیں ٹھنڈی نہ ہوں یعنی آپ کواس بات کی تکلیف تھی کہ جنگ میں شہیدنہ ہوئے اوراس بات کاآپ کوافسوس تھاکہ شہادت کی موت سے ہمکنارہونے کے بجائے اپنے بسترپرفوت ہورہے ہیں ۔[55]

چونکہ اللہ کی راہ میں جنگ کرنے کے لئے مال خرچ کرنے کی ضرورت پیش آتی ہے اس لئے مال خرچ کرنے کی ترغیب دی اوراسے قرض فرمایاچنانچہ فرمایاتم میں سے کون ہے جواللہ کوقرض حسن دے،جیسے اللہ تعالیٰ روزانہ تہجدکے وقت آوازدیتاہے،

 ابْنُ مَرْجَانَةَ، قَالَ: قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا هُرَیْرَةَ، یَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: یَنْزِلُ اللهُ فِی السَّمَاءِ الدُّنْیَا لِشَطْرِ اللیْلِ، أَوْ لِثُلُثِ اللیْلِ الْآخِرِ فَیَقُولُ: مَنْ یَدْعُونِی فَأَسْتَجِیبَ لَهُ ، أَوْ یَسْأَلُنِی فَأُعْطِیَهُ، ثُمَّ یَقُولُ: مَنْ یُقْرِضُ غَیْرَ عَدِیمٍ، وَلَا ظَلُومٍ

ابن مرجانہ کہتے ہیں میں نےابوہریرہ رضی اللہ عنہ کویہ کہتے ہوئے سنارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ آدھی رات یا رات کے آخری تہائی حصہ میں آسمان دنیا میں نزول فرماتا ہےاور فرماتا ہے کون ہے جو مجھ سے دعا کرے اور میں اس کی دعا قبول کروں ، یا وہ مجھ سے سوال کرے تو میں اسے عطا کروں ،پھر فرماتا ہے کہ کون اسے (اللہ کو) قرض دے گا جو کبھی مفلس نہ ہوگا اور نہ ہی کسی پر ظلم کرے گا۔[56]

تاکہ اللہ اسے کئی گنا بڑھا چڑھا کرواپس کرے؟یعنی نیکی کاثواب دس گناسے سات سوگناتک یااس سے بھی بہت زیادہ عطافرمائے گا

مَثَلُ الَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَھُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللهِ كَمَثَلِ حَبَّةٍ اَنْۢبَتَتْ سَـبْعَ سَـنَابِلَ فِیْ كُلِّ سُنْۢبُلَةٍ مِّائَةُ حَبَّةٍ۝۰ۭ وَاللهُ یُضٰعِفُ لِمَنْ یَّشَاۗءُ۝۰ۭ وَاللهُ وَاسِعٌ عَلِیْمٌ۝۲۶۱    [57]

ترجمہ:جو لوگ اپنے مال اللہ کی راہ میں صرف کرتے ہیں ، ان کے خرچ کی مثال ایسی ہے جیسے ایک دانہ بویا جائے اور اس سے سات بالیں نکلیں اور ہر بالی میں سو دانے ہوں اسی طرح اللہ جس کے عمل کو چاہتا ہے افزونی عطا فرماتا ہے وہ فراخ دست بھی ہے اور علیم بھی۔

اللہ جس کارزق چاہتاہے وسیع کردیتاہے اورجس کاچاہتاہے تنگ کردیتاہے،

 ۔۔۔وَاللهُ یَرْزُقُ مَنْ یَّشَاۗءُ بِغَیْرِ حِسَابٍ۝۲۱۲ [58]

ترجمہ: اور اللہ جس کو چاہتا ہے بغیر کسی حساب کے روزی دیتا ہے۔

۔۔۔اِنَّ اللهَ یَرْزُقُ مَنْ یَّشَاۗءُ بِغَیْرِ حِسَابٍ۝۳۷ [59]

ترجمہ: اللہ جسے چاہتا ہے بے حساب رزق دیتا ہے۔

۔۔۔وَاللهُ یَرْزُقُ مَنْ یَّشَاۗءُ بِغَیْرِ حِسَابٍ۝۳۸ [60]

ترجمہ:اللہ جسے چاہتا ہے بے حساب دیتا ہے۔

بچابچاکررکھنے سے رزق بڑھتانہیں اوراللہ کی راہ میں خرچ کرنے سے گھٹتانہیں ، اورایک وقت مقررہ پر(قیامت کے دن)تم سب اسی کی طرف لوٹائے جاؤگےپھروہ تمہیں تمہارے اعمال کی جزادے گا ۔

أَلَمْ تَرَ إِلَى الْمَلَإِ مِن بَنِی إِسْرَائِیلَ مِن بَعْدِ مُوسَىٰ إِذْ قَالُوا لِنَبِیٍّ لَّهُمُ ابْعَثْ لَنَا مَلِكًا نُّقَاتِلْ فِی سَبِیلِ اللَّهِ ۖ قَالَ هَلْ عَسَیْتُمْ إِن كُتِبَ عَلَیْكُمُ الْقِتَالُ أَلَّا تُقَاتِلُوا ۖ قَالُوا وَمَا لَنَا أَلَّا نُقَاتِلَ فِی سَبِیلِ اللَّهِ وَقَدْ أُخْرِجْنَا مِن دِیَارِنَا وَأَبْنَائِنَا ۖ فَلَمَّا كُتِبَ عَلَیْهِمُ الْقِتَالُ تَوَلَّوْا إِلَّا قَلِیلًا مِّنْهُمْ ۗ وَاللَّهُ عَلِیمٌ بِالظَّالِمِینَ ‎﴿٢٤٦﴾‏(البقرة)
’’کیا آپ نے(حضرت) موسیٰ کے بعد والی بنی اسرائیل کی جماعت کو نہیں دیکھا جب کہ انہوں نے اپنے پیغمبر سے کہا کہ کسی کو ہمارا بادشاہ بنا دیجئے تاکہ ہم اللہ کی راہ میں جہاد کریں، پیغمبر نے کہا کہ ممکن ہے جہاد فرض ہوجانے کے بعد تم جہاد نہ کرو، انہوں نے کہا بھلا ہم اللہ کی راہ میں جہاد کیوں نہ کریں گے ؟ ہم تو اپنے گھروں سے اجاڑے گئے ہیں اور بچوں سے دور کردیئے گئے ہیں، پھر جب ان پر جہاد فرض ہوا تو سوائے تھوڑے سے لوگوں کے سب پھرگئے اور اللہ تعالیٰ ظالموں کو خوب جانتا ہے۔ ‘‘

بنی اسرائیل کاقبائلی نظام زندگی تھاجس کے تحت ہرقبیلے کااپناسردارہوتاتھامگرمرکزی حکومت نہیں تھی جس سے طاقت ایک مرکزپرجمع ہوتی ،ایک عرصہ بعداپنی حالت زارپرغوروفکرکے نتیجے میں ان کے سرکردہ لوگوں کواحساس ہواکہ ان کی ذلت کاباعث جہادکوترک کردیناہے،ہمارے آپس میں اختلافات ہیں ،کسی مرکزی مسلمہ لیڈر کا فقدان ہے جس سے ہماری طاقت ایک مرکزپرجمع ہوتی ،گویاامیرقومی اتحاداورطاقت کی علامت ہوتاہےجس کی سیاست کامقصداللہ کے پسندیدہ دین اسلام کا نفاذ اور جہادکی کامیابی کے لئے تیاری کرتے رہناہے،اوراللہ کی راہ میں خرچ کردینے کافقدان ہے ،بالاخرلوگوں نے سچے دل سے توبہ اورجہادکی طرف پلٹ آنے کے بعد نشاط ثانیہ کے لئے کوشش شروع کیں تواللہ نے ان کوکامیاب کردیا،چنانچہ ایک ہزارقبل مسیح کے لگ بھگ بنی اسرائیل کے سرکردہ سرداروں نے اپنے نبی سے گزارش کی کہ ان کے لئے ایک بادشاہ مقررکردیں تاکہ ان کی طاقت ایک مرکزپرجمع ہوجائے اوروہ جہادفی سبیل کریں ،نبی کوان کے سابقہ کرداراورفطرت کاعلم تھااوردل میں کھٹکاتھااس لئے پوچھا تمہاری خواہش پربادشاہ تومقررہوجائے گامگرپھرایساتونہیں ہوگاکہ وہ بادشاہ تمہیں کفارکے خلاف جہادکاحکم دے اورتم حکم عدولی کرو،قوم کےسرداروں نے جواب دیاہم بھلا ایساکیوں کریں گے کہ اللہ کی راہ میں جہادنہ کریں جبکہ ہمارے ملک ہم سے چھین لئے گئے ،ہمیں ہمارے گھروں سے نکال دیاگیااورہمارے بچوں کوگرفتارکرکے ہم سے جداکردیا گیاہےکیااس پربھی ہم ایسے بے حمیت ہیں کہ مرنے مارنے سے ڈریں ،مگرجب ان کے بادشاہ نے ان کوجنگ کاحکم دیاتوحکم سنتے ہی سن ہوکررہ گئے اورسوائے ایک قلیل تعداد کے سب نے جہادفی سبیل اللہ پرجانے سے منہ موڑلیا،ان ظالموں کی یہ کوئی نئی بات نہ تھی جس کاعلم اللہ تعالیٰ کونہ ہواوراس طرح بنی اسرائیل نے اپنی کہی ہوئی بات کوخودہی جھٹلادیا۔

وَقَالَ لَهُمْ نَبِیُّهُمْ إِنَّ اللَّهَ قَدْ بَعَثَ لَكُمْ طَالُوتَ مَلِكًا ۚ قَالُوا أَنَّىٰ یَكُونُ لَهُ الْمُلْكُ عَلَیْنَا وَنَحْنُ أَحَقُّ بِالْمُلْكِ مِنْهُ وَلَمْ یُؤْتَ سَعَةً مِّنَ الْمَالِ ۚ قَالَ إِنَّ اللَّهَ اصْطَفَاهُ عَلَیْكُمْ وَزَادَهُ بَسْطَةً فِی الْعِلْمِ وَالْجِسْمِ ۖ وَاللَّهُ یُؤْتِی مُلْكَهُ مَن یَشَاءُ ۚ وَاللَّهُ وَاسِعٌ عَلِیمٌ ‎﴿٢٤٧﴾‏ وَقَالَ لَهُمْ نَبِیُّهُمْ إِنَّ آیَةَ مُلْكِهِ أَن یَأْتِیَكُمُ التَّابُوتُ فِیهِ سَكِینَةٌ مِّن رَّبِّكُمْ وَبَقِیَّةٌ مِّمَّا تَرَكَ آلُ مُوسَىٰ وَآلُ هَارُونَ تَحْمِلُهُ الْمَلَائِكَةُ ۚ إِنَّ فِی ذَٰلِكَ لَآیَةً لَّكُمْ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِینَ ‎﴿٢٤٨﴾‏(البقرة)
’’اور انہیں ان کے نبی نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے طالوت کو تمہارا بادشاہ بنادیا ہے تو کہنے لگے بھلا اس کی ہم پر حکومت کیسے ہوسکتی ہے ؟ اس سے تو ہم بہت زیادہ حقدار بادشاہت کے ہم ہیں، اس کو تو مالی کشادگی بھی نہیں دی گئی،نبی نے فرمایا سنو، اللہ تعالیٰ اسی کو تم پر برگزیدہ کیا ہے اور اسے علمی اور جسمانی برتری بھی عطا فرمائی ہے بات یہ ہے اللہ جسے چاہے اپنا ملک دے، اللہ تعالیٰ کشادگی والا اور علم والا ہے،ان کے نبی نے پھر کہا کہ اس کی بادشاہت کی ظاہری نشانی یہ ہے کہ تمہارے پاس وہ صندوق آجائے گا جس میں تمہارے رب کی طرف سے دلجمعی ہے اور آل موسیٰ اور آل ہارون کا بقیہ ترکہ ہے فرشتے اسے اٹھا کر لائیں گے، یقیناً یہ تمہارے لیے کھلی دلیل ہے اگر تم ایمان والے ہو۔ ‘‘

ان کے مطالبہ پربنی اسرائیل کے نبی نے ان سے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے(قبیلہ بنیامین کے تیس سالہ نوجوان) طالوت کو تمہارے لیے بادشاہ مقرر کردیاہے،قوم نے اللہ تعالیٰ کے اس فیصلے پرسرجھکانے کے بجائےاعتراض جڑدیاکہ وہ بادشاہت کاحقدارکیسے بن گیاوہ ایک عام لشکری ہے اورشاہی خاندان سے اس کاکوئی تعلق بھی نہیں ہےاس کے علاوہ وہ ایک مفلس شخص ہے،اس سے زیادہ بادشاہت کے حقدارتوہم ہیں ،ہمارے پاس مال ودولت بھی ہے ،پیغمبر نے انہیں سمجھایاقیادت وسیادت کے لئے مال ودولت سے زیادہ تقویٰ ،عقل وفہم اورجسمانی طاقت وقوت کی ضرورت ہوتی ہے جوایک بادشاہ کے لئے ازحدضروری ہیں ،طالوت کی بادشاہت کاتعین میں نہیں کیاکہ جس پرمیں دوبارہ غورکروں ،اس کوتواللہ جل وشانہ نے تمہاری فرمائش پرتمہارے مقابلے میں اسے بادشاہت کے لئے منتخب فرمایاہے ،اللہ تعالیٰ نے اسے علمی قابلیت Mental Fitnessاورجسمانی طاقتیں physical Fitnessفراوانی کے ساتھ عطاکررکھی ہیں ،وہ قوی اورطاقتورہونے کے ساتھ ساتھ بہادراورلڑائی کے فنون میں بڑے ہی تاک اورہوشیارہیں اور لوگواصلی اورحقیقی حاکم توبس اللہ تعالیٰ ہی ہے،بادشاہت اسی کی ہی ہے ،وہ علم وحکمت والااوروسیع فضل والاہے،اسے اختیارہے جسے چاہے اپناملک عنایت کردے اورجس سے چاہے چھین لے کس کی مجال ہے جواس سے سوال کرے،

قُلِ اللّٰهُمَّ مٰلِكَ الْمُلْكِ تُؤْتِی الْمُلْكَ مَنْ تَشَاۗءُ وَتَنْزِعُ الْمُلْكَ مِمَّنْ تَشَاۗءُ۝۰ۡوَتُعِزُّ مَنْ تَشَاۗءُ وَتُذِلُّ مَنْ تَشَاۗءُ۝۰ۭ بِیَدِكَ الْخَیْرُ۝۰ۭ اِنَّكَ عَلٰی كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ۝۲۶ [61]

ترجمہ:کہو ! خدایا ! ملک کے مالک ! تو جسے چاہےحکومت دے اور جس سے چاہےچھین لے،جسے چاہے، عزّت بخشے اور جس کو چاہےذلیل کر دے بھلائی تیرے اختیار میں ہے، بیشک تو ہر چیز پر قادر ہے ۔

وہ خوب جانتاہے کہ کون کس چیزکامستحق ہے اورکسے کس چیزکااستحقاق نہیں ،اب اس کے حکم کی بجاآوری تم پرفرض ہے ،مگران لوگوں نے اب بھی اپناسرنہیں جھکایابلکہ مزیدکسی نشانی کامطالبہ کیاتوفرمایالوگو!طالوت کی بادشاہت کی پہلی علامت یہ ہے کہ تمہاراکھویاہواتابوت سکینہ تمہیں دوبارہ واپس مل جائے گاجس میں تمہارے رب کی طرف سے تمہارے لیے سکونِ قلب کا سامان ہے ،جس میں موسیٰ علیہ السلام اورہارون علیہ السلام کے چھوڑے ہوئے تبرکات ان کی لکڑی،تورات کی تختیاں ،اون اورکچھ ان کے کپڑے اورجوتی ہیں جس کواس وقت فرشتے تھامے ہوئے ہیں وہی پہنچاکرجائیں گے ،اگرتمہیں اللہ تعالیٰ اورقیامت پریقین ہوتویہ بہت بڑی نشانی ہےاس کے ساتھ ان کے نبی نے ان کو یہی بتایا کہ اللہ کی طرف سے اس کے بادشاہ مقرر ہونے کی علامت یہ ہے کہ اس کے عہد میں وہ صندوق تمہیں واپس مل جائے گا ، جس میں آلِ موسیٰ اور آلِ ہارون کے چھوڑے ہوئے تبرکات ہیں ،

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، فِی هَذِهِ الْآیَةِ: وَبَقِیَّةٌ مِمَّا تَرَكَ آلُ مُوسَى وَآلُ هَارُونَ، قَالَ: عَصَا مُوسَى، وَرُضَاضُ الْأَلْوَاحِ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما آیت کریمہ’’ اور آل موسیٰ اور آل ہارون کا بقیہ ترکہ ہے۔‘‘ کے بارے میں فرماتے ہیں اس سے مرادموسیٰ علیہ السلام کاعصااورتختیوں کے ٹکڑے ہیں ۔[62]

وَمِنْهُمْ مَنْ یَقُولُ: الْعَصَا وَالنَّعْلَانِ

اوربعض لوگ کہتے ہیں اس سے مرادعصااوردوجوتے ہیں ۔[63]

اور جس کو اس وقت فرشتے سنبھالے ہوئے ہیں ، اگر تم مومن ہو تو یہ تمہارے لیے بہت بڑی نشانی ہے،چنانچہ اللہ کے حکم سے وہ تابوت دشمنوں نے ایک بیل گاڑی پررکھ کراپنے شہرسے ہانک دیااوریوں وہ طالوت کے انتخاب کے تھوڑی دیربعدبنی اسرائیل کے شہرمیں پہنچ گیااورفرشتوں نے اسے طالوت کے دروازے پرپہنچادیاجسے دیکھ کرلوگ بہت خوش ہوئے اوراسے طالوت کی بادشاہی کے لئے منجانب اللہ نشانی بھی سمجھا،

قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ:جَاءَتِ الْمَلَائِكَةُ بِالتَّابُوتِ تَحْمِلُهُ بَیْنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ وَهُمْ یَنْظُرُونَ إِلَیْهِ، حَتَّى وَضَعَتْهُ عِنْدَ طَالُوتَ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں فرشتے اس تابوت کوآسمان وزمین کے مابین اٹھائے ہوئے آئے حتی کہ انہوں نے اسے طالوت کے سامنے رکھ دیااورلوگ بھی اسے دیکھ رہے تھے۔[64]

عَنِ السُّدِّیِّ، قَالَ:وَأَصْبَحَ التَّابُوتُ وَمَا فِیهِ فِی دَارِ طَالُوتَ، فَآمَنُوا بِنُبُوَّةِ شمعون، وَسَلَّمُوا مُلْكَ طَالُوتَ

سدی رحمہ اللہ کہتے ہیں طابوت طالوت کے گھرمیں آگیاجسے دیکھ کربنی اسرائیل شمعون کی نبوت پرایمان لے آئے اورانہوں نے طالوت کی بھی اطاعت شروع کردی۔[65]

اوراللہ تعالیٰ نے بھی اسے ان کے لئے ایک اعجازاورفتح وسکینت کاسبب قراردیا،چنانچہ بنی اسرائیل نے طالوت کی بادشاہت کوتسلیم کرلیا ۔

فَلَمَّا فَصَلَ طَالُوتُ بِالْجُنُودِ قَالَ إِنَّ اللَّهَ مُبْتَلِیكُم بِنَهَرٍ فَمَن شَرِبَ مِنْهُ فَلَیْسَ مِنِّی وَمَن لَّمْ یَطْعَمْهُ فَإِنَّهُ مِنِّی إِلَّا مَنِ اغْتَرَفَ غُرْفَةً بِیَدِهِ ۚ فَشَرِبُوا مِنْهُ إِلَّا قَلِیلًا مِّنْهُمْ ۚ فَلَمَّا جَاوَزَهُ هُوَ وَالَّذِینَ آمَنُوا مَعَهُ قَالُوا لَا طَاقَةَ لَنَا الْیَوْمَ بِجَالُوتَ وَجُنُودِهِ ۚ قَالَ الَّذِینَ یَظُنُّونَ أَنَّهُم مُّلَاقُو اللَّهِ كَم مِّن فِئَةٍ قَلِیلَةٍ غَلَبَتْ فِئَةً كَثِیرَةً بِإِذْنِ اللَّهِ ۗ وَاللَّهُ مَعَ الصَّابِرِینَ ‎﴿٢٤٩﴾‏ (البقرة)
’’جب(حضرت) طالوت لشکروں کو لے کر نکلے تو کہا سنو اللہ تعالیٰ نے تمہیں ایک نہر سے آزمانے والا ہے، جس نے اس میں سے پانی پی لیا وہ میرا نہیں اور جو اسے نہ چکھے وہ میرا ہے، ہاں یہ اور بات ہے کہ اپنے ہاتھ سے ایک چلو بھر لے لیکن سوائے چند کے باقی سب نے وہ پانی پی لیا ،(حضرت) طالوت مومنین سمیت جب نہر سے گزر گئے تو وہ لوگ کہنے لگے آج تو ہم میں طاقت نہیں کہ جالوت اور اس کے لشکروں سے لڑیں، لیکن اللہ تعالیٰ کی ملاقات پر یقین رکھنے والوں نے کہا بسا اوقات چھوٹی اور تھوڑی سی جماعتیں بڑی اور بہت سی جماعتوں پر اللہ کے حکم سے غلبہ پا لیتی ہیں، اللہ تعالیٰ صبر والوں کے ساتھ ہے۔ ‘‘

پھرطالوت بنی اسرائیل کولے کراپنے وقت کی بڑی جنگجواوربہادرقوم عمالقہ کی فوج کاکمانڈراورسربراہ جالوت سے جہادکے لئے نکلے،

عَنِ السُّدِّیِّ، قَالَ:فَخَرَجُوا مَعَهُ، وَهُمْ ثَمَانُونَ أَلْفًا

سدی رحمہ اللہ کہتے ہیں طالوت اسی ہزارکالشکرلے کرنکلے۔[66]

طالوت کالشکرمختلف قبائل پرمشتمل تھا جو جنگ کے جوش اورجذبہ انتقام کی وجہ سے سرشاران کے ساتھ ہوگئے تھےلیکن ابھی تک ان میں ایمان نظم اورربط وضبط کافقدان تھا،اطاعت امیرہرحال میں لازم ہے اور دشمن سے معرکہ آرائی کے وقت تواس کی اہمیت دوچندہوجاتی ہے ،جنگ میں فتح حاصل کرنے کے لئے یہ بھی ازحدضروری ہے کہ فوجی اس دوران بھوک پیاس اورجنگ کے دیگرشدائدکونہایت صبراورحوصلہ مندی سے برداشت کریں ،چنانچہ ان دونوں باتوں کی تربیت اورامتحان کے لئے طالوت بادشاہ نے راستے میں بنی اسرائیل سے کہاکہ ایک نہر(دریائے اردن)پراللہ تعالیٰ کی طرف سے تمہاری آزمائش ہونے والی ہے ،میں تمہیں ہوشیاراورخبردارکرتاہوں کہ اس نہرکا پانی کوئی نہ پیئے اوراگرکسی نے اس کاپانی پی لیاتووہ میرے ہمراہ نہ چلے،ہاں اگرایک آدھ گھونٹ اگرکسی نے پی لیاتوکوئی مضائقہ نہیں ،

وَهُوَ نَهْرٌ بَیْنَ الْأُرْدُنِّ وَفِلَسْطِینَ یَعْنِی: نَهْرُ الشَّرِیعَةِ الْمَشْهُورُ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں یہ نہراردن اورفلسطین کے درمیان تھی یعنی جونہرالشریعہ کے نام سے مشہورہے۔[67]

یہ اطاعت امیر،ڈسپلن اورتکلیف میں ثابت قدمی اورصبر کا کڑا امتحان تھا،اللہ تعالیٰ کی قدرت جب وہ سفرکرتے ہوئے اس نہرپرپہنچے توصحراکی شدیدگرمی میں پیاس کی شدت سے ان کابراحال تھا،ہزاروں نافرمان اورظالم لوگوں نے اپنے امیرکی نصیحتوں اورحکم کوبالائے طاق رکھ کربے صبری سے نہرپرجھک پڑے اورخوب جی بھرکرپانی پیا،مگرایک نہایت قلیل جماعت جوحقیقی فرما ں بردارتھے ،جواپنے ایمان ویقین میں پختہ تھے ،جن کے دلوں میں رب کاڈروخوف تھا،جوجانتے تھے کہ پیاس کی شدت تورب کی آزمائش ہےجس کے بارے میں طالوت بادشاہ نے قبل ازوقت بتلادیاتھاانہوں نے ایک چلوبھرسے زیادہ پانی نہ پیااورصبروشکراوراطاعت امیرکامظاہرہ کیا،اللہ تعالیٰ کی قدرت کہ جن نافرمان لوگوں نے جی بھرکرپانی پی لیاتھاوہ آزمائش میں کامیاب نہیں ہوئے ،جی بھرپانی پینے کے باوجودان کی پیاس نہ بجھی اورنہ وہ جہادکی برکتیں اوررب کی رحمتیں حاصل کرنے کے قابل ہی رہے اورجن لوگوں نے صبروشکرکامظاہرہ کیاتھاان کی پیاس ایک چلوبھرپانی سے ہی بجھ گئی اوروہ جہادمیں شامل ہوکررب کی رضاحاصل کرنے میں کامیاب و کامران رہے،

قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ، فِی قَوْلِهِ:فَمَنْ شَرِبَ مِنْهُ فَلَیْسَ مِنِّی وَمَنْ لَمْ یَطْعَمْهُ فَإِنَّهُ مِنِّی إِلَّا مَنِ اغْتَرَفَ غُرْفَةً بِیَدِهِ، فَمَنِ اغْتَرَفَ غُرْفَةً وَأَطَاعَهُ رُوِیَ بِطَاعَتِهِ، وَمَنْ شَرِبَ فَأَكْثَرَ عَصَى فَلَمْ یُرْوَ لِمَعْصِیَتِهِ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے آیت کریمہ’’جس نے اس میں سے پانی پی لیا وہ میرا نہیں اور جو اسے نہ چکھے وہ میرا ہے، ہاں یہ اور بات ہے کہ اپنے ہاتھ سے ایک چلو بھر لے۔‘‘کے بارے میں روایت ہے جس نے چلوبھرپانی پیاوہ سیرہوگیااورجس نے خوب پانی پیاوہ سیرنہیں ہواتھا۔[68]

حَدَّثَنَا أَبُو إِسْحَاقَ، قَالَ: سَمِعْتُ البَرَاءَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، یَقُولُ: حَدَّثَنِی أَصْحَابُ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مِمَّنْ شَهِدَ بَدْرًا: أَنَّهُمْ كَانُوا عِدَّةَ أَصْحَابِ طَالُوتَ، الَّذِینَ جَازُوا مَعَهُ النَّهَرَ، بِضْعَةَ عَشَرَ وَثَلاَثَ مِائَةٍقَالَ البَرَاءُ:لاَ وَاللَّهِ مَا جَاوَزَ مَعَهُ النَّهَرَ إِلَّا مُؤْمِنٌ

ابواسحاق نے بیان کیاکہاکہ میں نے براءبن عازب رضی اللہ عنہ سے سناانہوں نے بیان کیاکہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ نے جوبدرمیں شریک تھے مجھ سے بیان کیاکہ بدرکی لڑائی میں ان کی تعداداتنی ہی تھی جتنی طالوت کے ان اصحاب کی تھی جنہوں نے ان کے ساتھ نہرفلسطین کوپارکیاتھایعنی تین سوتیرہ،براء رضی اللہ عنہ نے کہانہیں ،اللہ کی قسم!طالوت علیہ السلام کے ساتھ نہرفلسطین کوصرف وہی لوگ پارکرسکے تھے جومومن تھے۔[69]

پھر جب طالوت اور اس کے ساتھی مسلمان دریا پار کر کے آگے بڑھے اورانہوں نے دشمنوں کی تعدادکودیکھاتونافرمانوں کے حوصلے پست ہوگئے اورانہوں نے نہایت بزدلانہ پن سے دین کے ایک اہم رکن جس کے بغیردین نافذہی نہیں ہوسکتاجہادسے انکار کردیااورصاف جواب دے دیاکہ ہم توجالوت اور اس کے لشکروں کا مقابلہ کرنے کی طاقت نہیں رکھتے ،مگرجن کے دلوں میں ایمان کی حرارت اوررب پرغیرمتزلزل یقین تھا انہوں نے بزدلوں کی ہمت بندھوائی کہ جہادمیں فتح وکامرانی کسی لشکرکی قلت وکثرت یااسلحہ جات کی فراوانی پرمنحصرنہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی مشیت ،اس کے اذن پرمنحصرہے اور اللہ تعالیٰ کی تائیدونصرت اپنے مقصدمیں نیک نیتی وخلوص ،امیرکی تعبداری ،صبروبرداشت اوررب کی مددپرغیرمتزلزل بھروسہ پرہے،بارہاایساہواہے کہ مٹھی بھرلوگوں نے بڑی بڑی جماعتوں کونیچادکھایاہے،تم خودمیں عزم واستقلال پیداکرواوراللہ تعالیٰ کے وعدوں پربھروسہ کرو،اس صبرکے بدلے میں اللہ تمہاری مددفرمائے گااورانعام واکرام سے نوازے گامگرجن کی ٹانگوں میں دم نہ ہوانہیں کون کھڑاکرسکتاہے،ان کے دل نہ گرمائے اورنہ ان کی بزدلی ہی دورہوئی ۔

وَلَمَّا بَرَزُوا لِجَالُوتَ وَجُنُودِهِ قَالُوا رَبَّنَا أَفْرِغْ عَلَیْنَا صَبْرًا وَثَبِّتْ أَقْدَامَنَا وَانصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكَافِرِینَ ‎﴿٢٥٠﴾‏ فَهَزَمُوهُم بِإِذْنِ اللَّهِ وَقَتَلَ دَاوُودُ جَالُوتَ وَآتَاهُ اللَّهُ الْمُلْكَ وَالْحِكْمَةَ وَعَلَّمَهُ مِمَّا یَشَاءُ ۗ وَلَوْلَا دَفْعُ اللَّهِ النَّاسَ بَعْضَهُم بِبَعْضٍ لَّفَسَدَتِ الْأَرْضُ وَلَٰكِنَّ اللَّهَ ذُو فَضْلٍ عَلَى الْعَالَمِینَ ‎﴿٢٥١﴾‏ تِلْكَ آیَاتُ اللَّهِ نَتْلُوهَا عَلَیْكَ بِالْحَقِّ ۚ وَإِنَّكَ لَمِنَ الْمُرْسَلِینَ ‎﴿٢٥٢﴾‏(البقرة)
’’جب ان کا جالوت اور اس کے لشکر سے مقابلہ ہوا تو انہوں نے دعا مانگی کہ اے پروردگار! ہمیں صبر دے ثابت قدمی دے اور قوم کفار پر ہماری مدد فرما ، چنانچہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے انہوں نے جالوتیوں کو شگست دے دی اور(حضرت) داؤد علیہ اسلام) کے ہاتھوں جالوت قتل ہوا، اور اللہ تعالیٰ نے داؤد (علیہ السلام) کو مملکت و حکمت اور جتنا کچھ چاہا علم بھی عطا فرمایا، اگر اللہ تعالیٰ بعض لوگوں کو بعض سے دفع نہ کرتا تو زمین میں فساد پھیل جاتا لیکن اللہ تعالیٰ دنیا والوں پر فضل و کرم کرنے والا ہے،یہ اللہ تعالیٰ کی آیتیں ہیں جنہیں ہم نے حقانیت کے ساتھ آپ پر پڑھتے ہیں، بالیقین آپ رسولوں میں سے ہیں۔ ‘‘

اور جب مسلمان جالوت اور اس کے لشکروں کے مقابلہ پر نکلے توعین معرکہ آرائی کے وقت بارگاہ الٰہی میں گڑگڑاکردعائیں شروع کیں اورمادی وسائل کے ساتھ ساتھ نصرت الٰہی کے بطورخاص طلبگارہوئے انہوں نے دعا کی

 رَبَّنَآ اَفْرِغْ عَلَیْنَا صَبْرًا وَّثَبِّتْ اَقْدَامَنَا وَانْصُرْنَا عَلَی الْقَوْمِ الْكٰفِرِیْنَ۝۲۵۰

اے ہمارے رب !اپنی رحمت خاص سے ہمیں صبروثبات کاپہاڑبنادے،لڑائی کے وقت ہمارے قدم جمادے ،جہادسے منہ موڑنے اورپشت دکھانے سے بچالے اوردشمنوں پرہمیں غالب کردے۔

رب کریم جودعاؤں کوسنتااورقبول فرماتاہے اس نے مسلمانوں کی قلیل تعدادکی عاجزانہ اورمخلصانہ دعائیں قبول فرمائیں اوران پرسکینت ومددنازل فرمائی جس سے اس مٹھی بھراہل ایمان نے جن کواپنے رب پرکامل امیدوبھروسہ تھا،جن کواپنی چندروزہ زندگیوں اوراس میں عیش وآرام،اپنے گھرباراورتجارت کی فکرنہیں تھی بلکہ صرف اورصرف رب کی خوشنودی مطلوب تھی ،بزدلی سے سرجھکاکرجینے کے بجائے سرفروشی عزیزتھی ،جواپنے امیرکے ہرحکم پرجان نچھاورکرنے والے تھے ،جوجنگ کے شدائدکوبڑے حوصلے اورصبرسے برداشت کرنے والے تھے جالوت کےٹڈی دل لشکرکوتہس نہس کرڈالااوراپنے وقت کی ایک بہادرقوم کوشکست سے ہمکنارکردیا اور داود علیہ السلام جومسلمانوں کے ساتھ ایک سپاہی تھے اورابھی نہ توبادشاہ بنے تھے اورنہ ہی ابھی پیغمبری ملی تھی(اسرائیلی روایت کے مطابق) انہوں نے پتھرکوفلاخن میں رکھ کرمخالفین کے سردارجالوت پرچلایااوراسی کی ضرب سے مارا گیا ، اللہ تعالیٰ نے داود علیہ السلام کوبنی اسرائیل کی سلطنت کامستقل بادشاہ بنادیااورشموئیل علیہ السلام کے بعدنبوت بھی عطافرمائی ،

جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ أَبِیهِ قَالَ:فَمَلَكَ دَاوُدُ بْنُ إِیشَا سَبْعِینَ سَنَةً

جعفرصادق رحمہ اللہ فرماتے ہیں داؤدبن ایشا علیہ السلام نے بنی اسرائیل پرستربرس حکومت کی۔[70]

اللہ تعالیٰ نے جوچاہے انہیں بہت سے مخصوص علوم سکھائے ،باری تعالیٰ یوں انسانوں کے ایک گروہ کے زریعہ سے دوسرے انسانی گروہ کے ظلم اوراقتدارکاخاتمہ فرماتا رہتا ہے ،اگروہ ایسانہ کرتااورکسی ایک ہی گروہ کوہمیشہ قوت واختیارسے بہرہ ورکیے رکھتا تورب کی زمین فتنہ اورظلم وفسادسے بھرجاتی ،اس لئے یہ قانون الٰہی دنیاکے لئے فضل الٰہی کا خاص مظہرہے

۔۔۔وَلَوْلَا دَفْعُ اللهِ النَّاسَ بَعْضَهُمْ بِبَعْضٍ لَّهُدِّمَتْ صَوَامِعُ وَبِیَعٌ وَّصَلَوٰتٌ وَّمَسٰجِدُ یُذْكَرُ فِیْهَا اسْمُ اللهِ كَثِیْرًا۔۔۔۝۰۝۴۰          [71]

ترجمہ: اگر اللہ لوگوں کو ایک دوسرے کے ذریعے دفع نہ کرتا رہے تو خانقاہیں اور گرجا اور معبد اور مسجدیں جن میں اللہ کا کثرت سے نام لیا جاتا ہے سب مسمار کر ڈالی جائیں ۔

اے نبی ﷺ!تاریخ کے یہ واقعات جوآپ ﷺپرنازل کتاب کے ذریعے دنیاکومعلوم ہو رہے ہیں ،یہ یقیناًآپ کی رسالت وصداقت کی دلیل ہیں ۔

تِلْكَ الرُّسُلُ فَضَّلْنَا بَعْضَهُمْ عَلَىٰ بَعْضٍ ۘ مِّنْهُم مَّن كَلَّمَ اللَّهُ ۖ وَرَفَعَ بَعْضَهُمْ دَرَجَاتٍ ۚ وَآتَیْنَا عِیسَى ابْنَ مَرْیَمَ الْبَیِّنَاتِ وَأَیَّدْنَاهُ بِرُوحِ الْقُدُسِ ۗ وَلَوْ شَاءَ اللَّهُ مَا اقْتَتَلَ الَّذِینَ مِن بَعْدِهِم مِّن بَعْدِ مَا جَاءَتْهُمُ الْبَیِّنَاتُ وَلَٰكِنِ اخْتَلَفُوا فَمِنْهُم مَّنْ آمَنَ وَمِنْهُم مَّن كَفَرَ ۚ وَلَوْ شَاءَ اللَّهُ مَا اقْتَتَلُوا وَلَٰكِنَّ اللَّهَ یَفْعَلُ مَا یُرِیدُ ‎﴿٢٥٣﴾(البقرة)
’’یہ رسول ہیں جن میں سے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے ان میں سے بعض وہ ہیں جن سے اللہ تعالیٰ نے بات چیت کی ہے اور بعض کے درجے بلند کئے ہیں، اور ہم نے عیسیٰ بن مریم کو معجزات عطا فرمائے اور روح القدس سے ان کی تائید کی، اگر اللہ تعالیٰ چاہتا تو ان کے بعد والے اپنے پاس دلیلیں آجانے کے بعد ہرگز آپس میں لڑائی بھڑائی نہ کرتے، لیکن ان لوگوں نے اختلاف کیا، ان میں سے بعض تو مومن ہوئے اور بعض کافر، اور اگر اللہ تعالیٰ چاہتا تو یہ آپس میں نہ لڑتے لیکن اللہ تعالیٰ جو چاہتا ہے کرتا ہے۔ ‘‘

یہ رسول جوہماری طرف سے انسانوں کی ہدایت پرمامورہوئےہم نے پہلے انہیں تمام لوگوں پرفضیلت عطافرمائی اوران کورسالت کے منصب جلیل پرفائزکیااورپھر ان کو ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کرمرتبے عطاکیے ،جیسے فرمایا

۔۔۔وَلَقَدْ فَضَّلْنَا بَعْضَ النَّـبِیّٖنَ عَلٰی بَعْضٍ۔۔۔۝۵۵           [72]

ترجمہ:ہم نے بعض نبیوں کو بعض پرفضیلت عطاکی ہے۔

ان میں کوئی ایساتھا جس سے اللہ خودہم کلام ہوایعنی موسیٰ علیہ السلام سے اللہ نے کوہ طورپرکلام کیا،اوردوسرے انبیاءکواس نے دوسری حیثیتوں سے بلند درجے دیے،اور بنی اسرائیل کے سلسلہ انبیاءکےآخرمیں عیسیٰ علیہ السلام ابن مریم کوروشن نشانیاں ،قطعی دلائل وبراہین عطاکیے اورجبرائیل امین سے ان کی تائید کی ، ایک مقام پرعیسی ٰ علیہ السلام کےمعجزات کاذکرفرمایا

۔۔۔اَنِّىْ قَدْ جِئْتُكُمْ بِاٰیَةٍ مِّنْ رَّبِّكُمْ۝۰ۙ اَنِّىْٓ اَخْلُقُ لَكُمْ مِّنَ الطِّیْنِ كَهَیْــــَٔــةِ الطَّیْرِ فَاَنْفُخُ فِیْهِ فَیَكُوْنُ طَیْرًۢا بِـاِذْنِ اللهِ۝۰ۚ وَاُبْرِیُٔ الْاَكْمَهَ وَالْاَبْرَصَ وَاُحْىِ الْمَوْتٰى بِـاِذْنِ اللهِ۝۰ۚ وَاُنَبِّئُكُمْ بِمَا تَاْكُلُوْنَ وَمَا تَدَّخِرُوْنَ۝۰ۙ فِیْ بُیُوْتِكُمْ۝۰ۭ اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیَةً لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ۝۴۹ۚ        [73]

ترجمہ: میں تمہارے رب کی طرف سے تمہارے پاس نشانی لے کر آیا ہوں میں تمہارے سامنے مٹی سے پرندے کی صورت کا ایک مجسمہ بناتا ہوں اور اس میں پھونک مارتا ہوں وہ اللہ کے حکم سے پرندہ بن جاتا ہے،میں اللہ کے حکم سے مادرزاد اندھے اور کوڑھی کو اچھا کرتا ہوں اور اس کے اِذن سے مُردے کو زندہ کرتا ہوں ، میں تمہیں بتاتا ہوں کہ تم کیا کھاتے ہو اور کیا اپنے گھروں میں ذخیرہ کر کے رکھتے ہواس میں تمہارے لیے کافی نشانی ہے اگر تم ایمان لانے والے ہو۔

اگراللہ چاہتاتو ممکن نہ تھاکہ ان رسولوں کے بعدجولوگ قطعی دلائل وبراہین دیکھ چکے تھے وہ آپس میں اختلاف کرتے بلکہ ان دلائل کی وجہ سے سب مومن اور متحد ہو جاتے مگر اللہ کی مشیت یہ نہ تھی کہ وہ لوگوں کوجبرا ًاختلاف سے روکے،اس وجہ سےانہوں نے باہم اختلاف کیا،اللہ تعالیٰ نے انسان کواعقادوعمل کی راہوں میں بطورامتحان اختیار اورارادہ کی آزادی سے نوازا،چنانچہ کوئی اس اختیارکواستعمال کرکے ایمان لے آتااورعمل صالحہ اختیارکرتاہے اورکسی اختیار وآزادی کاغلط استعمال کرکے کفروبغاوت کی راہ اختیار کرتاہے،ہاں اللہ چاہتا تووہ ہرگز نہ لڑتے مگراللہ کاارادہ غالب ہے اوروہ جو چاہتا ہے کرتاہے۔

یَا أَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا أَنفِقُوا مِمَّا رَزَقْنَاكُم مِّن قَبْلِ أَن یَأْتِیَ یَوْمٌ لَّا بَیْعٌ فِیهِ وَلَا خُلَّةٌ وَلَا شَفَاعَةٌ ۗ وَالْكَافِرُونَ هُمُ الظَّالِمُونَ ‎﴿٢٥٤﴾(البقرة)
’’ اے ایمان والو جو ہم نے تمہیں دے رکھا ہے اس میں سے خرچ کرتے رہو اس سے پہلے کہ وہ دن آئے جس میں نہ تجارت ہے نہ دوستی نہ شفاعت اور کافر ہی ظالم ہیں۔ ‘‘

اے لوگوجوایمان لائے ہو!جوکچھ مال متاع ہم نے تم کوبخشاہے اس میں سے اللہ کی خوشنودی کے لئےجہادفی سبیل اللہ ،اپنے والدین،عزیزواقارب، بیواؤں ، یتیموں ، محتاجوں ،مسافروں ،اسیروں اوردوسرے بھلائی کے کاموں پر خرچ کروتاکہ تمہارے لئے اخروی ثواب کاذریعہ ہوجائے اورتمہیں اس دن زیادہ ہوکرملے جس دن ایک ذرہ برابر نیکی کی ضرورت ہوگی تومل نہیں سکے گی،اس دن اگرانسان زمین بھرسونافدیہ میں دے کراپنی جان چھڑاناچاہئے گاتویہ پیش کش قبول نہیں کی جائے گی، قیامت کے دن نہ تو خریدوفروخت ہوگی اورنہ کسی کاحسب ونسب اورکسی کی دوستی ومحبت کچھ کام آئے گی،

فَاِذَا نُفِخَ فِی الصُّوْرِ فَلَآ اَنْسَابَ بَیْنَهُمْ یَوْمَىِٕذٍ وَّلَا یَتَسَاۗءَلُوْنَ۝۱۰۱فَمَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِیْنُهٗ فَاُولٰۗىِٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ۝۱۰۲       [74]

ترجمہ:پھر جونہی صور پھونک دیا گیا ان کے درمیان پھر کوئی رشتہ نہ رہے گا اور نہ وہ ایک دوسرے کو پوچھیں گے، اس وقت جن کے پلڑے بھاری ہوں گے وہی فلاح پائیں گے۔

اور ظالم اصل میں وہی ہیں جوکفرکی روش اختیارکرتے ہیں اوراسی حالت میں جان دیتے ہیں ، یعنی اس سے بڑھ کراورکوئی ظالم نہیں ہوسکتاجوروزقیامت اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں کافربن کرآئے،

عَنْ عَطَاءِ بْنِ دِینَارٍ، أَنَّهُ قَالَ: الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِی قَالَ: {وَالْكَافِرُونَ هُمُ الظَّالِمُونَ} وَلَمْ یَقُلِ: الظَّالِمُونَ هُمُ الْكَافِرُونَ

عطاءبن دینارسے روایت ہے انہوں نے فرمایاالحمدللہ کہ اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایاہے’’اورظالم اصل میں وہی ہیں جوکفرکی روش اختیارکرتے ہیں ۔‘‘ اوریہ نہیں فرمایاظلم کرنے والے ہی کافر ہیں ۔[75]

‏ اللَّهُ لَا إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ الْحَیُّ الْقَیُّومُ ۚ لَا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلَا نَوْمٌ ۚ لَّهُ مَا فِی السَّمَاوَاتِ وَمَا فِی الْأَرْضِ ۗ مَن ذَا الَّذِی یَشْفَعُ عِندَهُ إِلَّا بِإِذْنِهِ ۚ یَعْلَمُ مَا بَیْنَ أَیْدِیهِمْ وَمَا خَلْفَهُمْ ۖ وَلَا یُحِیطُونَ بِشَیْءٍ مِّنْ عِلْمِهِ إِلَّا بِمَا شَاءَ ۚ وَسِعَ كُرْسِیُّهُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ ۖ وَلَا یَئُودُهُ حِفْظُهُمَا ۚ وَهُوَ الْعَلِیُّ الْعَظِیمُ ‎﴿٢٥٥﴾‏(البقرة)
’’اللہ تعالیٰ ہی معبود برحق ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں جو زندہ اور سب کا تھامنے والا ہے، جسے نہ اونگھ آئے ہے نہ نیند، اس کی ملکیت میں زمین اور آسمانوں کی تمام چیزیں ہیں، کون جو اس کی اجازت کے بغیر اس کے سامنے شفاعت کرسکے، وہ جانتا ہے جو اس کے سامنے ہے جو ان کے پیچھے ہے اور وہ اس کے علم میں سے کسی چیز کا احاطہ نہیں کرسکتے مگر جتناوہ چاہے، اس کی کرسی کی وسعت نے زمین اور آسمان کو گھیر رکھا ہے اور اللہ تعالیٰ ان کی حفاظت سے نہ تھکتا ہے اور نہ اکتاتا ہے، وہ تو بہت بلند اور بہت بڑا ہے۔‘‘

یہ قرآن کریم کی سب سے افضل آیت ہے،اس کی فضیلت میں متعددروایات ہیں ،

عَنْ أُبَیٍّ: أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ سَأَلَهُ:أَیُّ آیَةٍ فِی كِتَابِ اللَّهِ أَعْظَمُ؟ قَالَ: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، فَرَدَّدَهَا مِرَارًا، ثُمَّ قَالَ أُبَیٌّ: آیَةُ الْكُرْسِیِّ، قَالَ:لِیَهْنِكَ الْعِلْمُ أَبَا الْمُنْذِرِ، وَالَّذِی نَفْسِی بِیَدِهِ إِنَّ لَهَا لِسَانًا وَشَفَتَیْنِ تُقَدِّسُ الْمَلِكَ عِنْدَ سَاقِ الْعَرْشِ

ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے مروی ہےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ ان سے پوچھا کہ قرآن کریم میں سب سے عظیم آیت کون سی ہے؟ انہوں نے کہا کہ اللہ اور اس کے رسول ہی زیادہ جانتے ہیں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سوال کئی مرتبہ دہرایا تو ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے کہہ دیا آیت الکرسی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سن کر فرمایا ابوالمنذر رضی اللہ عنہ ! تمہیں علم مبارک ہو اس ذات کی قسم جس کے دست قدرت میں میری جان ہے عرش کے پائے کے پاس یہ اللہ کی پاکیزگی بیان کرتی ہوگی اور اس کی ایک زبان اور دو ہونٹ ہوں گے۔[76]

صحیح مسلم میں وَالَّذِی نَفْسِی بِیَدِهِ إِنَّ لَهَا لِسَانًا وَشَفَتَیْنِ تُقَدِّسُ الْمَلِكَ عِنْدَ سَاقِ الْعَرْشِ کے الفاظ نہیں ہیں ۔

عَنْ أَبِی أَیُّوبَ: أَنَّهُ كَانَ فِی سَهْوَةٍ لَهُ، فَكَانَتِ الْغُولُ تَجِیءُ فَتَأْخُذُ، فَشَكَاهَا إِلَى النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: إِذَا رَأَیْتَهَا فَقُلْ: بِسْمِ اللَّهِ، أَجِیبِی رَسُولَ اللَّهِ قَالَ: فَجَاءَتْ، فَقَالَ لَهَا، فَأَخَذَهَا، فَقَالَتْ لَهُ: إِنِّی لَا أَعُودُ، فَأَرْسَلَهَا، فَجَاءَ فَقَالَ لَهُ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:مَا فَعَلَ أَسِیرُكَ؟ قَالَ: أَخَذْتُهَا، فَقَالَتْ لِی: إِنِّی لَا أَعُودُ، فَأَرْسَلْتُهَا، فَقَالَ:إِنَّهَا عَائِدَةٌ فَأَخَذْتُهَا مَرَّتَیْنِ أَوْ ثَلَاثًا، كُلَّ ذَلِكَ تَقُولُ: لَا أَعُودُ، وَیَجِیءُ إِلَى النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَیَقُولُ:مَا فَعَلَ أَسِیرُكَ؟ فَیَقُولُ: أَخَذْتُهَا، فَتَقُولُ: لَا أَعُودُ، فَیَقُولُ:إِنَّهَا عَائِدَةٌ فَأَخَذَهَا فَقَالَتْ: أَرْسِلْنِی وَأُعَلِّمُكَ شَیْئًا تَقُولُهُ فَلَا یَقْرَبُكَ شَیْءٌ: آیَةَ الْكُرْسِیِّ، فَأَتَى النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَأَخْبَرَهُ، فَقَالَ:صَدَقَتْ وَهِیَ كَذُوبٌ

ابوایوب انصاری سے مروی ہےان کی الماری تھی (انہوں نے اس میں کھجوریں رکھی ہوئی تھیں ) مگرجن آتے اوروہ انہیں لے جاتے تھےانہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کی شکایت کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اب جب تم اسے دیکھو تو یوں کہنا بسم اللہ!آؤاللہ تعالیٰ کے رسول کے پاس چلوچنانچہ اگلی مرتبہ جب وہ آئی تو انہوں نے اسے یہی کہا اور اسے پکڑ لیااس نے وعدہ کیا کہ میں آئندہ آپ کے پاس نہیں آؤں گی، انہوں نے اسے چھوڑ دیا،اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا کہ تمہارے قیدی نے کیا کیا؟ انہوں نے عرض کیا کہ میں نے اسے پکڑ لیا تھا لیکن اس نے وعدہ کیا کہ وہ آئندہ نہیں آئے گی اس لئے میں نے اسے چھوڑ دیا، آپ ﷺنے فرمایا وہ پھر آئے گی، چنانچہ میں نے اسے دو تین مرتبہ پکڑا اور وہ ہر مرتبہ یہی کہتی تھی کہ آئندہ نہیں آؤں گی،میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضرہوتاتوآپ فرماتےاپنے قیدی کاحال سناؤ؟ابوایوب رضی اللہ عنہ کہتے میں نے اسے پکڑلیاتھاپھروہ جن کہتاکہ آئندہ میں نہیں آؤں گا توآپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے یہ آئندہ بھی آئے گا،بالآخر ایک مرتبہ اس نے کہا کہ اس مرتبہ مجھے چھوڑ دو میں تمہیں ایک چیز سکھاتی ہوں تم اسے کہہ لیا کرو کوئی چیز تمہارے قریب نہیں آسکے گی اور وہ آیت الکرسی ہے، میں نبی کریم کی خدمت اقدس میں حاضرہوااورواقعہ بیان کیاتوآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس نے سچ کہا حالانکہ وہ جھوٹی ہے۔[77]

کھجوروں کی موجودگی کاذکرجامع ترمذی میں ہے۔

هَذَا حَدِیثٌ حَسَنٌ غَرِیبٌ

امام ترمذی رحمہ اللہ فرماتے ہیں یہ حدیث حسن غریب ہے۔[78]

 عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ:وَكَّلَنِی رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بِحِفْظِ زَكَاةِ رَمَضَانَ، فَأَتَانِی آتٍ فَجَعَلَ یَحْثُو مِنَ الطَّعَامِ فَأَخَذْتُهُ ، وَقُلْتُ: وَاللهِ لَأَرْفَعَنَّكَ إِلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: إِنِّی مُحْتَاجٌ، وَعَلَیَّ عِیَالٌ وَلِی حَاجَةٌ شَدِیدَةٌ، قَالَ: فَخَلَّیْتُ عَنْهُ، فَأَصْبَحْتُ، فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:یَا أَبَا هُرَیْرَةَ، مَا فَعَلَ أَسِیرُكَ البَارِحَةَ، قَالَ: قُلْتُ: یَا رَسُولَ اللهِ، شَكَا حَاجَةً شَدِیدَةً، وَعِیَالًا، فَرَحِمْتُهُ فَخَلَّیْتُ سَبِیلَهُ، قَالَ:أَمَا إِنَّهُ قَدْ كَذَبَكَ، وَسَیَعُودُ فَعَرَفْتُ أَنَّهُ سَیَعُودُ، لِقَوْلِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ إِنَّهُ سَیَعُودُ، فَرَصَدْتُهُ، فَجَاءَ یَحْثُو مِنَ الطَّعَامِ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان کی زکوٰة کی حفاظت پر مقرر فرمایا، میر ے پاس ایک شخص آیا اور لپ بھر کر اناج لینے لگا میں نے اس کو پکڑ لیا اور کہا کہ ا للہ کی قسم میں تجھ کو رسول اللہ ﷺکے پاس لے جاؤں گا،اس نے کہا کہ میں محتاج ہوں اور مجھ پر بیوی بچوں کی پرورش کی ذمہ داری ہے اور مجھے سخت ضرورت ہے، میں نے اس کو چھوڑ دیا، جب صبح ہوئی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ! تمہارے رات کے قیدی نے کیا کیا ؟میں نے عرض کیا کہ اے اللہ کےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس نے سخت ضرورت اور بال بچوں کی شکایت کی تو مجھے رحم آگیا اور میں نے اسے چھوڑدیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ جھوٹا ہے اور پھر آئے گا،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمانے کی وجہ سے مجھے یقین ہو گیا کہ وہ پھر آئےگا چنانچہ میں اس کا منتظر رہا وہ آیا اور اناج لپ بھر کر لینے لگا

 فَأَخَذْتُهُ، فَقُلْتُ: لَأَرْفَعَنَّكَ إِلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ: دَعْنِی فَإِنِّی مُحْتَاجٌ وَعَلَیَّ عِیَالٌ، لاَ أَعُودُ فَرَحِمْتُهُ، فَخَلَّیْتُ سَبِیلَهُ، فَأَصْبَحْتُ، فَقَالَ لِی رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:یَا أَبَا هُرَیْرَةَ، مَا فَعَلَ أَسِیرُكَ؟ قُلْتُ: یَا رَسُولَ اللهِ شَكَا حَاجَةً شَدِیدَةً، وَعِیَالًا فَرَحِمْتُهُ، فَخَلَّیْتُ سَبِیلَهُ، قَالَ:أَمَا إِنَّهُ قَدْ كَذَبَكَ وَسَیَعُودُ فَرَصَدْتُهُ الثَّالِثَةَ، فَجَاءَ یَحْثُو مِنَ الطَّعَامِ، فَأَخَذْتُهُ فَقُلْتُ: لَأَرْفَعَنَّكَ إِلَى رَسُولِ اللهِ ، وَهَذَا آخِرُ ثَلاَثِ مَرَّاتٍ، أَنَّكَ تَزْعُمُ لاَ تَعُودُ، ثُمَّ تَعُودُ، قَالَ: دَعْنِی أُعَلِّمْكَ كَلِمَاتٍ یَنْفَعُكَ اللهُ بِهَا، قُلْتُ: مَا هُوَ؟ قَالَ: إِذَا أَوَیْتَ إِلَى فِرَاشِكَ، فَاقْرَأْ آیَةَ الكُرْسِیِّ: {اللهُ لاَ إِلَهَ إِلَّا هُوَ الحَیُّ القَیُّومُ} حَتَّى تَخْتِمَ الآیَةَ، فَإِنَّكَ لَنْ یَزَالَ عَلَیْكَ مِنَ اللهِ حَافِظٌ، وَلاَ یَقْرَبَنَّكَ شَیْطَانٌ حَتَّى تُصْبِحَ ، فَخَلَّیْتُ سَبِیلَهُ

میں نے اسے پکڑلیااور کہا کہ میں تجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لے جاؤں گا،اس نے کہا مجھے چھوڑدو، میں محتاج ہوں اور مجھ پر بیوی بچوں کی پرورش کی ذمہ داری ہے اب میں نہیں آؤں گا چنانچہ مجھے رحم آگیا اور میں نے چھوڑدیا، جب صبح ہوئی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ! تمہارے رات کے قیدی نے کیا کیا ؟ میں نے عرض کیا کہ اے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم اس نے سخت ضروت بیان کی اور بیوی بچوں کی ذمہ داری کی شکایت کی تو مجھے اس پر رحم آگیا اور میں نے اسے چھوڑدیا،آپ نے فرمایا یاد رکھو وہ جھوٹا ہے پھر آئے گا میں تیسری رات اس کا منتظر رہا،وہ آیا اور اناج لپ بھر کر لینے لگا میں نے اسے پکڑ لیا اور کہا کہ میں تجھے رسول اللہ ﷺکے پاس ضرور لے جاؤں گا، اور یہ تیسری بار ہے تو نے ہر بار یہی کہا کہ پھر نہیں آؤں گا لیکن تو ہر بار آ جاتا ہے،اس نے کہا مجھے چھوڑدو میں تمہیں ایسے کلمات بتاؤں گا جن کے ذریعہ اللہ تعالی تم کو فائدہ پہنچائے گا،میں نے پو چھا وہ کیا ہیں ؟ اس نے کہا جب تو اپنے بستر پر جائے تو آیت الکرسی آخر آیت تک پڑھ لے اللہ کی طرف سے ایک فرشتہ تیری نگرانی کر یگا اور صبح تک شیطان تیرے پاس نہیں آئے گا چنانچہ میں نے اس کو چھوڑ دیا

فَأَصْبَحْتُ فَقَالَ لِی رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:مَا فَعَلَ أَسِیرُكَ البَارِحَةَ، قُلْتُ: یَا رَسُولَ اللهِ، زَعَمَ أَنَّهُ یُعَلِّمُنِی كَلِمَاتٍ یَنْفَعُنِی اللهُ بِهَا، فَخَلَّیْتُ سَبِیلَهُ، قَالَ: مَا هِیَ؟ قُلْتُ: قَالَ لِی: إِذَا أَوَیْتَ إِلَى فِرَاشِكَ فَاقْرَأْ آیَةَ الكُرْسِیِّ مِنْ أَوَّلِهَا حَتَّى تَخْتِمَ الآیَةَ: {اللهُ لاَ إِلَهَ إِلَّا هُوَ الحَیُّ القَیُّومُ} وَقَالَ لِی: لَنْ یَزَالَ عَلَیْكَ مِنَ اللهِ حَافِظٌ، وَلاَ یَقْرَبَكَ شَیْطَانٌ حَتَّى تُصْبِحَ، فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:أَمَا إِنَّهُ قَدْ صَدَقَكَ وَهُوَ كَذُوبٌ، تَعْلَمُ مَنْ تُخَاطِبُ مُنْذُ ثَلاَثِ لَیَالٍ یَا أَبَا هُرَیْرَةَ ؟ قَالَ: لاَ ، قَالَ: ذَاكَ شَیْطَانٌ

جب صبح ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا تیرے رات کے قیدی کا کیا ہوا ؟ میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اس نے کہا وہ مجھے ایسے کلمات سکھائے گا جس سے اللہ تعالی مجھ کو فائدہ پہنچائے گا اس لئے میں نے اس کو چھوڑدیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا وہ کلمات کیا ہیں ؟ میں نے عرض کیا کہ اس نے مجھ کو بتایا کہ جب تو اپنے بستر پر جائے تو آیت الکرسی ابتدا سے آخر تک ختم کر دے اور اس نے بیان کیا کہ اللہ کی طرف سے تیرا ایک محافظ ہوگا اور تیرے پا س صبح تک شیطان نہیں آئےگا اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہ خیر کے بہت حریص تھے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ تو اس نے ٹھیک کہا لیکن وہ بہت جھوٹا ہے،اے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ ! تم جانتے ہو کہ تین رات تم کس سے گفتگو کرتے رہے ؟ ابو ہریرہ نے جواب دیا نہیں ، آپ نے فرمایا وہ شیطان تھا۔ [79]

عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ یَزِیدَ، قَالَتْ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَقُولُ: فِی هَذَیْنِ الْآیَتَیْنِ {اللَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ الْحَیُّ الْقَیُّومُ} [80]] وَ {الم اللَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ الْحَیُّ الْقَیُّومُ} [81]إِنَّ فِیهِمَا اسْمَ اللَّهِ الْأَعْظَمَ

اسماءبنت یزیدبن سکن رضی اللہ عنہما سے مروی ہےفرماتی ہیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوبیان فرماتے ہوئے سناکہ ان دوآیتوں اللهُ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ الْحَیُّ الْقَیُّومُ اورالم اللهُ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ الْحَیُّ الْقَیُّومُ میں اللہ تعالیٰ کااسم اعظم ہے[82]

عَنْ أَبِی سَعِیدٍ الْخُدْرِیِّ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: مَنْ قَالَ حِینَ یَأْوِی إِلَى فِرَاشِهِ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ: أَسْتَغْفِرُ اللهَ الَّذِی لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ الْحَیُّ الْقَیُّومُ وَأَتُوبُ إِلَیْهِ غَفَرَ اللَّهُ لَهُ ذُنُوبَهُ، وَإِنْ كَانَتْ مِثْلَ زَبَدِ الْبَحْرِ، وَإِنْ كَانَتْ مِثْلَ رَمْلِ عَالِجٍ، وَإِنْ كَانَتْ مِثْلَ عَدَدِ وَرَقِ الشَّجَرِ

ابوسعیدخذری رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص اپنے بستر کے پاس آکر تین مرتبہ یہ کہے’’میں بخشش مانگتاہوں اللہ سے جس کے سواکوئی معبودنہیں زندہ قائم رہنے والااورمیں اس کی طرف توبہ کرتاہوں ‘‘اس کے سارے گناہ معاف ہوجائیں گے خواہ سمندر کی جھاگ کے برابرہوں خواہ ریت کے ذرات کے برابرہوں اورخواہ درختوں کے پتوں کے برابر ہی ہوں ۔ [83]

عَنْ أَبِی أُمَامَةَ،عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى الله عَلَیْهِ وَسَلَّمْ قَالَ: اسْمُ اللهِ الْأَعْظَمُ فِی ثَلَاثِ سُوَرٍ مِنَ الْقُرْآنِ: الْبَقَرَةِ، وَآلِ عِمْرَانَ، وَطه

ابوامامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااللہ تعالیٰ کاوہ اسم جس کے واسطے سے دعاکی جائے تووہ شرف قبولیت سے نوازتاہے وہ قرآن کریم کی تین سورتوں البقرہ،آل عمران اورطہ میں ہے۔[84]

 ثنا الْقَاسِمُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ،عَنْ أَبِی أُمَامَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: إِنَّ اسْمَ اللَّهِ الْأَعْظَمَ لَفِی ثَلَاثِ سُوَرٍ مِنَ الْقُرْآنِ: فِی سُورَةِ الْبَقَرَةِ، وَآلِ عِمْرَانَ، وَطَهَ فَالْتَمَسْتُهَا فَوَجَدْتُ فِی سُورَةِ الْبَقَرَةِ آیَةَ الْكُرْسِیِّ: {اللَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ الْحَیُّ الْقَیُّومُ} [85] ، وَفِی سُورَةِ آلِ عِمْرَانَ: {الم اللَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ الْحَیُّ الْقَیُّومُ} [86]، وَفِی سُورَةِ طَهَ: {وَعَنَتِ الْوُجُوهُ لِلْحَیِّ الْقَیُّومِ} [87]

ابوامامہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااسم اعظم قرآن مجیدکی تین سورتوں میں ہےسورہ البقرہ،سورہ آل عمران اورسورہ طہ میں نے تلاش کیاتواسم اعظم کو سورة البقرة اللهُ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ الْحَیُّ الْقَیُّومُ[88]اورسورة آل عمران الم اللهُ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ الْحَیُّ الْقَیُّومُ[89]اورسورة طہ وَعَنَتِ الْوُجُوهُ لِلْحَیِّ الْقَیُّومِ[90]پرپایا۔ [91]

فرمایااللہ وہ زندہ جاویدہستی ہےجواس عظیم الشان کائنات کوسنبھالے ہوئے ہے،جیسے فرمایا

وَمِنْ اٰیٰتِهٖٓ اَنْ تَــقُوْمَ السَّمَاۗءُ وَالْاَرْضُ بِاَمْرِهٖ۔۔۔ ۝۲۵ [92]

ترجمہ:اوراس کی نشانیوں میں سے یہ ہے کہ آسمان اورزمین اس کے حکم سے قائم ہیں ۔

اس کے سواکوئی معبودبرحق نہیں ہے،اس کے سواکوئی عبادت کے لائق نہیں ہے، اپنی سلطنت کے جملہ اختیارات کاوہ تنہامالک ہے،اس کے جملہ اختیارات میں ،اس کی صفات میں اس کے حقوق میں اوراس کے افعال میں کوئی شریک نہیں ،وہ ہرطرح کی کمزوریوں سے مبراہےاس کی صفت یہ ہے کہ وہ نہ سوتاہے اورنہ ہی اسے اونگھ لگتی ہے،یعنی اللہ اپنی بحروبرکی مخلوقات سے غافل نہیں ہے،

عَنْ أَبِی مُوسَى، قَالَ: قَامَ فِینَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بِخَمْسِ كَلِمَاتٍ، فَقَالَ: إِنَّ اللهَ عَزَّ وَجَلَّ لَا یَنَامُ، وَلَا یَنْبَغِی لَهُ أَنْ یَنَامَ، یَخْفِضُ الْقِسْطَ وَیَرْفَعُهُ، یُرْفَعُ إِلَیْهِ عَمَلُ اللَّیْلِ قَبْلَ عَمَلِ النَّهَارِ، وَعَمَلُ النَّهَارِ قَبْلَ عَمَلِ اللَّیْلِ، حِجَابُهُ النُّورُ – وَفِی رِوَایَةِ أَبِی بَكْرٍ: النَّارُ – لَوْ كَشَفَهُ لَأَحْرَقَتْ سُبُحَاتُ وَجْهِهِ مَا انْتَهَى إِلَیْهِ بَصَرُهُ مِنْ خَلْقِهِ

ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھڑے ہوکرہم کوپانچ باتیں فرمائیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااللہ جل جلالہ سوتانہیں اورنہ نینداس کی ذات کے لائق ہے،وہ ترازوکوجس کے لئے چاہتا جھکا تاہےاور جس کے لئے چاہتاہے اونچاکرتاہے، دن کے اعمال رات سے پہلے اوررات کے اعمال دن سے پہلے اس کی طرف لے جائے جاتے ہیں (یعنی رات میں جواس کے بندے نیک کام کرتے ہیں وہ رات گزرنے سے پہلے شام ہی کواللہ کے پاس لے جائے جاتے ہیں )اس کاپردہ نورہے،ابوبکرکی روایت میں کہ اس کاپردہ آگ ہےاگروہ اس پردہ کوکھول دے تواس کے چہرے کی تجلیاں ان تمام چیزوں کوجلادیں جن تک اس کی نگاہ پہنچے۔ [93]

زمین اورآسمانوں اوران کے درمیان میں جوکچھ ہے اسی کی تخلیق ہے،جیسے فرمایا

اِنْ كُلُّ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ اِلَّآ اٰتِی الرَّحْمٰنِ عَبْدًا۝۹۳ۭلَقَدْ اَحْصٰىهُمْ وَعَدَّهُمْ عَدًّا۝۹۴ۭوَكُلُّهُمْ اٰتِیْهِ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ فَرْدًا۝۹۵ [94]

ترجمہ:زمین اورآسمانوں کے اندرجوبھی ہیں سب اس کے حضوربندوں کی حیثیت سے پیش ہونے والے ہیں ،سب پروہ محیط ہے اوراس نے ان کوشمارکررکھاہے ،سب قیامت کے روزفرداًفردا ً اس کے سامنے حاضرہوں گے۔

اوراس کی حکومت آسمانوں اورزمینوں پر پھیلی ہوئی ہے،اس کی ملکیت میں ،اس کی تدبیرمیں ،اس کی حکمرانی میں اوراس کی رزاقیت میں کسی کاقطعاًکوئی حصہ نہیں ہے،وہ جس طرح چاہتاہے اپنی سلطنت میں تصرف فرماتا ہے ، اگرتمہاراعقیدہ یہ ہے کہ کوئی بڑے سے بڑاپیغمبر،کوئی مقرب ترین فرشتہ ،شہداوصالحین اور پیر و مرشدتمہیں اللہ مالک یوم الدین کی پکڑ سے بچالیں گے تویاد رکھواللہ کی پکڑسے چھڑاناتو درکنار اس کی بارگاہ میں کوئی اس کی اجازت کے بغیرزبان تک کھولنے کی جرات نہیں کرسکے گا،جیسے فرمایا

 وَكَمْ مِّنْ مَّلَكٍ فِی السَّمٰوٰتِ لَا تُغْـنِیْ شَفَاعَتُهُمْ شَـیْــــًٔــا اِلَّا مِنْۢ بَعْدِ اَنْ یَّاْذَنَ اللهُ لِمَنْ یَّشَاۗءُ وَیَرْضٰى۝۲۶ [95]

ترجمہ:آسمانوں میں کتنے ہی فرشتے موجود ہیں ، ان کی شفاعت کچھ بھی کام نہیں آسکتی جب تک کہ اللہ کسی ایسے شخص کے حق میں اس کی اجازت نہ دے جس کے لیے وہ کوئی عرض داشت سننا چاہے اور اس کو پسند کرے۔

۔۔۔ وَلَا یَشْفَعُوْنَ۝۰ۙ اِلَّا لِمَنِ ارْتَضٰى وَهُمْ مِّنْ خَشْیَتِهٖ مُشْفِقُوْنَ۝۲۸   [96]

ترجمہ:وہ کسی کی سفارش نہیں کرتے بجز اس کے جس کے حق میں سفارش سننے پر اللہ راضی ہواوروہ اس کی ہیبت سے لرلزاں وترساں رہتے ہیں ۔

عَنْ أَنَسٍ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ: أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:فَیَأْتُونِی، فَأَسْتَأْذِنُ عَلَى رَبِّی فِی دَارِهِ فَیُؤْذَنُ لِی عَلَیْهِ، فَإِذَا رَأَیْتُهُ وَقَعْتُ سَاجِدًا، فَیَدَعُنِی مَا شَاءَ اللهُ أَنْ یَدَعَنِی،فَیَقُولُ: ارْفَعْ مُحَمَّدُ، وَقُلْ یُسْمَعْ، وَاشْفَعْ تُشَفَّعْ، وَسَلْ تُعْطَ،قَالَ: فَأَرْفَعُ رَأْسِی، فَأُثْنِی عَلَى رَبِّی بِثَنَاءٍ وَتَحْمِیدٍ یُعَلِّمُنِیهِ،ثُمَّ أَشْفَعُ فَیَحُدُّ لِی حَدًّا، فَأَخْرُجُ فَأُدْخِلُهُمُ الجَنَّةَقَالَ قَتَادَةُ: وَسَمِعْتُهُ أَیْضًا یَقُولُ: فَأَخْرُجُ فَأُخْرِجُهُمْ مِنَ النَّارِ، وَأُدْخِلُهُمُ الجَنَّةَ،ثُمَّ أَعُودُ الثَّانِیَةَ: فَأَسْتَأْذِنُ عَلَى رَبِّی فِی دَارِهِ، فَیُؤْذَنُ لِی عَلَیْهِ، فَإِذَا رَأَیْتُهُ وَقَعْتُ سَاجِدًا، فَیَدَعُنِی مَا شَاءَ اللهُ أَنْ یَدَعَنِی

انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ ﷺنے فرمایاتمام انبیاءسے مایوس ہوکر لوگ میرے پاس آئیں گے اورمیں اپنے رب سے اس کے دردولت یعنی عرش معلی میں آنے کے لئے اجازت چاہوں گامجھے اس کی اجازت دی جائے گی، پھرمیں اللہ تعالیٰ کودیکھتے ہی سجدہ میں گرپڑوں گااوراللہ تعالیٰ مجھے جب تک چاہے گااسی حالت میں رہنے دے گا ، پھرفرمائے گا اے محمد( ﷺ) سراٹھاؤ،کہوسناجائے گا،شفاعت کروتمہاری شفاعت قبول کی جائے گی ، جومانگودیاجائے گا،پھرمیں اپناسراٹھاؤں گااوراپنے رب کی حمدوثناکروں گاجووہ مجھے سکھائے گا،پھرمیں شفاعت کروں گا،چنانچہ میرے لئے حدمقررکی جائے گی اورمیں اس کے مطابق لوگوں کودوزخ سے نکال کرجنت میں داخل کروں گاقتادہ رحمہ اللہ نے بیان کیاکہ میں نے انس رضی اللہ عنہ کویہ کہتے ہوئے سناکہ پھرمیں نکالوں گااورجہنم سے نکال کرجنت میں داخل کروں گا،پھردوسری مرتبہ اپنے رب سے اس کے دردولت کے لئے اجازت چاہوں گااورمجھے اس کی اجازت دی جائے گی ،پھرمیں اللہ رب العزت کودیکھتے ہی اس کے لئے سجدہ میں گرپڑوں گااوراللہ تعالیٰ جب تک چاہے گامجھے یوں ہی چھوڑے رکھے گا

ثُمَّ یَقُولُ: ارْفَعْ مُحَمَّدُ، وَقُلْ یُسْمَعْ، وَاشْفَعْ تُشَفَّعْ، وَسَلْ تُعْطَ،قَالَ: فَأَرْفَعُ رَأْسِی، فَأُثْنِی عَلَى رَبِّی بِثَنَاءٍ وَتَحْمِیدٍ یُعَلِّمُنِیهِ ،قَالَ: ثُمَّ أَشْفَعُ فَیَحُدُّ لِی حَدًّا، فَأَخْرُجُ، فَأُدْخِلُهُمُ الجَنَّةَ، – قَالَ قَتَادَةُ، وَسَمِعْتُهُ یَقُولُ: فَأَخْرُجُ فَأُخْرِجُهُمْ مِنَ النَّارِ وَأُدْخِلُهُمُ الجَنَّةقَالَ قَتَادَةُ، وَسَمِعْتُهُ یَقُولُ: فَأَخْرُجُ فَأُخْرِجُهُمْ مِنَ النَّارِ وَأُدْخِلُهُمُ الجَنَّةَ،حَتَّى مَا یَبْقَى فِی النَّارِ إِلَّا مَنْ حَبَسَهُ القُرْآنُ، أَیْ وَجَبَ عَلَیْهِ الخُلُودُقَالَ: ثُمَّ تَلاَ هَذِهِ الآیَةَ: {عَسَى أَنْ یَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَحْمُودًا}[97]قَالَ:وَهَذَا المَقَامُ المَحْمُودُ الَّذِی وُعِدَهُ نَبِیُّكُمْ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ

پھرفرمائے گااے محمد!سراٹھاؤ،کہوسناجائے گا،شفاعت کروقبول کی جائے گی ، مانگو دیا جائے گا،فرمایاپھرمیں اپناسراٹھاؤں گااوراپنے رب کی ایسی حمد و ثنا کروں گاجووہ مجھے سکھائے گا، پھرمیں شفاعت کروں گااورمیرے لئے حدمقررکردی جائے گی اورمیں اس کے مطابق جہنم سے لوگوں کونکال کر جنت میں داخل کروں گاقتادہ نے بیان کیاکہ میں نے انس رضی اللہ عنہ کویہ کہتے ہوئے سناکہ پھرمیں لوگوں کونکالوں گااورانہیں جہنم سے نکال کرجنت میں داخل کروں گایہاں تک کہ جہنم میں صرف وہی لوگ باقی رہ جائیں گے جنہیں قرآن نے روک رکھاہوگاپھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت تلاوت کی ’’قریب ہے کہ آپ کارب مقام محمودپرآپ کوبھیجے گا۔‘‘یہی وہ مقام محمودہے جس کے لئے اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب ﷺسے وعدہ کیاہے۔[98]

وہ علام الغیوب ہے اوراس کے علم نے تمام مخلوق کااحاطہ کیاہواہے،وہ بندوں کے گزشتہ اورآئندہ معاملات کی تفصیلات سے باخبرہے ، بندوں کوان میں کوئی اختیارحاصل نہیں جیسے ایک مقام پراللہ تعالیٰ نے ملائکہ کے بارے میں خبردیتے ہوئےفرمایا

وَمَا نَتَنَزَّلُ اِلَّا بِاَمْرِ رَبِّكَ۝۰ۚ لَهٗ مَا بَیْنَ اَیْدِیْــنَا وَمَا خَلْفَنَا وَمَا بَیْنَ ذٰلِكَ۝۰ۚ وَمَا كَانَ رَبُّكَ نَسِـیًّا۝۶۴ۚ     [99]

ترجمہ:اے نبیﷺ!ہم تمہارے رب کے حکم کے بغیرنہیں اتراکرتے ،جوکچھ ہمارے آگے ہے اورجوکچھ پیچھے ہے اورجوکچھ اس کے درمیان ہے ہرچیزکامالک وہی ہے اورتمہارارب بھولنے والانہیں ہے۔

نہ وہ ذرہ برابرمعلومات رکھتے ہیں سوائے اس کے جواللہ تعالیٰ خودبتادے،اس لئے فرمایااوراللہ کے علم میں سے کوئی چیزان کی گرفت ادراک میں نہیں آسکتی الایہ کہ کسی چیزکا علم وہ خودہی ان کودینا چاہے ، اس کی حکومت واقتدارآسمانوں اورزمین پرچھائی ہوا ہے،

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: الْكُرْسِیُّ مَوْضِعُ قَدَمَیْهِ، وَالْعَرْشُ لَا یُقْدَرُ قَدْرُهُ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کرسی اللہ تعالیٰ کے دونوں قدموں کی جگہ ہے اور عرش الٰہی کاکوئی شخص اندازہ نہیں لگاسکتا۔[100]

عَنِ الضَّحَّاكِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ: فِی قَوْلِهِ:وَسِعَ كُرْسِیُّهُ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضَ، قَالُوا: لَوْ أَنَّ السَّمَوَاتِ السَّبْعَ وَالْأَرَضِینَ السَّبْعَ بُسِطْنَ، ثُمَّ وُصِلْنَ بَعْضُهُنَّ إِلَى بَعْضٍ، مَا كَانَ فِی سِعَتِهِ یَعْنِی: الْكُرْسِیَّ – إِلَّا بِمَنْزِلَةِ الْحَلَقَةِ فِی الْمَفَازَةِ

ضحاک رحمہ اللہ نے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے آیت کریمہ’’ اس کی کرسی کی وسعت نے زمین اور آسمان کو گھیر رکھا ہے۔‘‘کے بارے میں روایت کیاہے اگرساتوں آسمانوں اورساتوں زمینوں کوپھیلا کر آپس میں ملادیاجائے توکرسی کی وسعت کے مقابلے میں یہ ایسے ہوں گے جیسے بیابان میں کوئی انگوٹھی پڑی ہو۔[101]

اوراس عظیم الشان کائنات کوسنبھالے رکھنااوراس کی نگہبانی اس کے لیے کوئی تھکادینے والاکام نہیں ہے،بس وہی ایک بلندی اورعظمت والا ہے ،جیسے فرمایا

۔۔۔الْكَبِیْرُ الْمُتَعَالِ۝۹ [102]

ترجمہ:وہ بزرگ ہے اورہرحال میں بالاتررہنے والاہے۔

لَا إِكْرَاهَ فِی الدِّینِ ۖ قَد تَّبَیَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَیِّ ۚ فَمَن یَكْفُرْ بِالطَّاغُوتِ وَیُؤْمِن بِاللَّهِ فَقَدِ اسْتَمْسَكَ بِالْعُرْوَةِ الْوُثْقَىٰ لَا انفِصَامَ لَهَا ۗ وَاللَّهُ سَمِیعٌ عَلِیمٌ ‎﴿٢٥٦﴾‏اللَّهُ وَلِیُّ الَّذِینَ آمَنُوا یُخْرِجُهُم مِّنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ ۖ وَالَّذِینَ كَفَرُوا أَوْلِیَاؤُهُمُ الطَّاغُوتُ یُخْرِجُونَهُم مِّنَ النُّورِ إِلَى الظُّلُمَاتِ ۗ أُولَٰئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ ۖ هُمْ فِیهَا خَالِدُونَ ‎﴿٢٥٧﴾(البقرہ)
’’دین کے بارے میں کوئی زبردستی نہیں، ہدایت اور دلالت سے روشن ہوچکی ہے اس لیے جو شخص اللہ تعالیٰ کے سوا دوسرے معبودوں کا انکار کر کے اللہ تعالیٰ پر ایمان لائے اس نے مضبوط کڑے کو تھام لیا جو کبھی نہ ٹوٹے گا اور اللہ تعالیٰ سننے والا اور جاننے والا ہے،ایمان لانے والوں کا کارساز اللہ تعالیٰ خود ہے، وہ انہیں اندھیروں سے روشنی کی طرف نکال لے جاتا ہے اور کافروں کے اولیا شیاطین ہیں وہ انہیں روشنی سے نکال کر اندھیروں کی طرف لے جاتے ہیں یہ لوگ جہنمی ہیں جو ہمیشہ اسی میں رہیں گے۔‘‘

انصارکے کچھ نوجوان یہودی یاعیسائی ہوگئے تھے پھرجب یہ انصارمسلمان ہوگئے اورانہوں نے اپنی نوجوان اولادکوزبردستی مسلمان بناناچاہاجس پریہ آیت نازل ہوئی کہ دین کے معاملہ میں کسی شخص پرکوئی زوریازبردستی نہیں ہے یعنی کسی کوایمان لانے پرمجبورنہیں کیاجاسکتا،

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: كَانَتِ الْمَرْأَةُ تَكُونُ مِقْلَاتًا فَتَجْعَلُ عَلَى نَفْسِهَا إِنْ عَاشَ لَهَا وَلَدٌ أَنْ تُهَوِّدَهُ، فَلَمَّا أُجْلِیَتْ بَنُو النَّضِیرِ كَانَ فِیهِمْ مِنْ أَبْنَاءِ الْأَنْصَارِ فَقَالُوا: لَا نَدَعُ أَبْنَاءَنَا، فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: {لَا إِكْرَاهَ فِی الدِّینِ قَدْ تَبَیَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الغَیِّ} [103]

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے دورجاہلیت میں مدینہ منورہ میں کسی عورت کے بچے زندہ نہ رہتے تووہ یہ نذرمانتی تھیں کہ اگرمیرابچہ زندہ رہا تووہ اسے یہودی بنادے گی ،یہودیوں سے جنگ ہوئی اوران کی اندرونی سازشوں اورفریب کاریوں سے نجات پانے کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم فرمایاکہ بنی نضیرکے یہودیوں کوجلاوطن کردیاجائے ،اس وقت انصاریوں نے اپنے نوجوان بچے جوان کے پاس تھے ان سے طلب کیے تاکہ انہیں اپنے اثرسے مسلمان بنالیں اس پریہ آیت نازل ہوئی کہ دین کے لیے جبراورزبردستی نہ کرو۔[104]

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قوله: {لَا إِكْرَاهَ فِی الدِّینِ} قَالَ: نَزَلَتْ فِی رَجُلٍ مِنَ الْأَنْصَارِ مِنْ بَنِی سَالِمِ بْنِ عَوْفٍ یُقَالُ لَهُ: الْحُصَیْنِیُّ كَانَ لَهُ ابْنَانِ نَصْرَانِیَّانِ، وَكَانَ هُوَ رَجُلًا مُسْلِمًا فَقَالَ لِلنَّبِیِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: أَلَا أَسْتَكْرِهَهُمَا فَإِنَّهُمَا قَدْ أَبَیَا إِلَّا النَّصْرَانِیَّةَ؟ فَأَنْزَلَ اللَّهُ فِیهِ ذَلِكَ.

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے آیت ’’دین کے معاملے میں کوئی زبردستی نہیں ہے۔‘‘کے بارے میں مروی ہےانصارکےقبیلے بنوسالم بن عوف کاایک شخص جس کانام حصینی رضی اللہ عنہ تھاوہ خودتومسلمان تھامگراس کے دولڑکے نصرانی تھے ،اس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کی کہ مجھے اجازت فرمائیں کہ میں ان لڑکوں کوجو عیسائیت سے ہٹتے نہیں زبردستی مسلمان بنالوں ،اس پریہ آیت نازل ہوئی ۔[105]

وَكَانَا قَدْ تَنَصَّرَا عَلَى یَدَیْ تُجَّارٍ قَدِمُوا مِنَ الشَّامِ یَحْمِلُونَ زَیْتًا فَلَمَّا عَزَمَا عَلَى الذَّهَابِ مَعَهُمْ أَرَادَ أَبُوهُمَا أَنْ یَسْتَكْرِهَهُمَا، وَطَلَبَ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَنَّ یَبْعَثَ فِی آثَارِهِمَا، فَنَزَلَتْ هذه الآیة.

ایک روایت میں اتنی زیادتی بھی ہے کہ نصرانیوں کاایک قافلہ ملک شام سے تجارت کے لئے کشمش لے کرآیاتھاجن کے ہاتھوں پردونوں لڑکے عیسائی بن گئے تھے ،جب یہ قافلہ روانہ ہونے لگاتویہ لڑکے بھی ان کے ساتھ جانے کے لئے تیارہوگئے ،ان کے والدنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بات کاذکرکیااورعرض کیاکہ اگرآپ اجازت فرمائیں تومیں انہیں اسلام لانے کے لئے کچھ تکلیف دوں اورزبردستی مسلمان بنالوں ورنہ پھرآپ کوانہیں واپس لانے کے لئے اپنے آدمی بھیجنے پڑیں گے،اس پریہ آیت نازل ہوئی ۔[106]

فرمایااللہ تعالٗی نے ہدایت اورگمراہی کے راستوں کوواضح کردیاہے

اِنَّ عَلَیْنَا لَلْهُدٰى        [107]

ترجمہ:بیشک راستہ بتانا ہمارے ذمہ ہے۔

فَاَلْهَمَهَا فُجُوْرَهَا وَتَقْوٰىهَا [108]

ترجمہ:پھر اس کی بدی اور اس کی پرہیزگاری اس پر الہام کردی ۔

وَهَدَیْنٰهُ النَّجْدَیْنِ [109]

ترجمہ:اور (نیکی اوربدی کے)دونوں نمایاں راستے اسے( نہیں ) دکھا دیے ؟ ۔

اب جوشخص بھی اسلام قبول کرناچاہے توسوچ سمجھ کرقبول کرےکیونکہ ایمان لانے کے بعداگرکوئی ارتدادکرے گاتواس کی سزاقتل ہے، چنانچہ جو شخص غیراللہ کی عبادت اورشیطان کی اطاعت کاانکارکرکے اللہ وحدہ لاشریک پر،اس کے تمام رسولوں پر،اس کی منزل تمام کتابوں پر،روزآخرت پر،جنت ودوزخ پراوراچھی بری تقدیرپرایمان لائے تواس نے پختہ دین اختیارکرلیا، اس نے اس راستہ کاانتخاب کرلیاجس میں کوئی الجھاؤنہیں بلکہ جوسیدھا لازوال نعمتوں سے بھری جنت کی طرف جاتاہے، اور اللہ تعالیٰ ہرایک کے نیک وبداعمال سے خوب واقف ہے لہذروزمحشرااس کے مطابق جزاوسزادے گا ،ایمان لانے والوں کا کارساز اللہ تعالیٰ خود ہے وہ انہیں کفر،معاصی اورجہل کے اندھیروں سے نکال کر ایمان ،نیکی اورعلم کی روشنی کی طرف نکال لے جاتا ہے جس کے نتیجے میں وہ لازوال نعمتوں اورراحت وسروروالی جنتوں میں پہنچ جاتے ہیں اور کافروں کے اولیا شیاطین ہیں جوجہالت وضلالت کو،کفروشرک کومزین کرکے انہیں ایمان اورتوحیدسے روکتے ہیں جس کے نتیجے میں وہ اعمال صالح سے محروم ہوجاتے ہیں اور حزب شیطان میں شامل ہوجاتے ہیں اس لئے یہ لوگ جہنمی ہیں جو ہمیشہ اسی میں پڑے رہیں گے۔

عَنْ أَیُّوبَ بْنِ خَالِدٍ قَالَ: یُبْعَثُ أَهْلُ الْأَهْوَاءِ أَوْ قَالَ: یُبْعَثُ أَهْلُ الْفِتَنِ-فَمَنْ كَانَ هَوَاهُ الْإِیمَانَ كَانَتْ فِتْنَتُهُ بَیْضَاءَ مُضِیئَةً، وَمَنْ كَانَ هَوَاهُ الْكُفْرَ كَانَتْ فِتْنَتُهُ سَوْدَاءَ مُظْلِمَةً، ثُمَّ قَرَأَ هَذِهِ الْآیَةَ: {اللَّهُ وَلِیُّ الَّذِینَ آمَنُوا یُخْرِجُهُمْ مِنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ وَالَّذِینَ كَفَرُوا أَوْلِیَاؤُهُمُ الطَّاغُوتُ یُخْرِجُونَهُمْ مِنَ النُّورِ إِلَى الظُّلُمَاتِ أُولَئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ هُمْ فِیهَا خَالِدُونَ}

ایوب بن خالدفرماتے ہیں اہل ہوایااہل فتنہ کھڑے کیے جائیں گے ،جس کی چاہت صرف ایمان ہی کی ہوگی وہ توروشن صاف اورنورانی ہوگااورجس کی خواہش کفرکی ہووہ سیاہ اندھیروں والاہوگا،پھرآپ نے اسی آیت کی تلاوت کی’’ جو لوگ ایمان لاتے ہیں ، ان کا حامی و مددگار اللہ ہے اور وہ ان کو تاریکیوں سے روشنی میں نکال لاتا ہے اور جو لوگ کفر کی راہ اختیار کرتے ہیں ان کے حامی و مددگار طاغوت ہیں اور وہ انہیں روشنی سے تاریکیوں کی طرف کھینچ لے جاتے ہیں یہ آگ میں جانے والے لوگ ہیں ، جہاں یہ ہمیشہ رہیں گے۔ ‘‘

‏ أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِی حَاجَّ إِبْرَاهِیمَ فِی رَبِّهِ أَنْ آتَاهُ اللَّهُ الْمُلْكَ إِذْ قَالَ إِبْرَاهِیمُ رَبِّیَ الَّذِی یُحْیِی وَیُمِیتُ قَالَ أَنَا أُحْیِی وَأُمِیتُ ۖ قَالَ إِبْرَاهِیمُ فَإِنَّ اللَّهَ یَأْتِی بِالشَّمْسِ مِنَ الْمَشْرِقِ فَأْتِ بِهَا مِنَ الْمَغْرِبِ فَبُهِتَ الَّذِی كَفَرَ ۗ وَاللَّهُ لَا یَهْدِی الْقَوْمَ الظَّالِمِینَ ‎﴿٢٥٨﴾‏ (البقرة)
’’کیا تو نے اسے نہیں دیکھا جو سلطنت پا کر ابراہیم (علیہ السلام) سے اس کے رب کے بارے میں جھگڑ رہا تھا، جب ابراہیم (علیہ السلام) نے کہا میرا رب تو وہ ہے جو جلاتا اور مارتا ہے، وہ کہنے لگا میں بھی جلاتا اور مارتا ہوں ابراہیم (علیہ السلام) نے کہا کہ اللہ تعالیٰ سورج کو مشرق کی طرف سے لے آتا ہے اور تو اسے مغرب کی جانب سے لے آ، اب تو وہ کافر بھونچکا رہ گیا، اور اللہ تعالیٰ ظالموں کو ہدایت نہیں دیتا۔ ‘‘

آیت ۲۵۷میں دعوی کیاگیاتھاکہ اہل ایمان کااللہ مددگارہوتاہے،وہ انہیں کفروشرک کی ظلمتوں سے نکال کرایمان کی روشنی میں لے آتاہے ،جبکہ کفارکے مددگاراولیاءشیطان ہوتے ہیں جوانہیں روشنی سے ظلمتوں کی طرف کھینچ لے جاتے ہیں ،اب اسی کی توضیح کے لئے تین واقعات مثال کے طورپربیان فرمائے، ابراہیم علیہ السلام کے دورمیں عراق کابادشاہ نمرودنامی شخص تھاجو سورج دیوتا کاپجاری تھااورخودکوسورج دیوتاکابیٹاکہتاتھااس لئےوہ اپنے آپ کورب سمجھتاتھا، فرعون بھی خودکورب سمجھتاتھااوراس نے بھی اپنی قوم کویہی کہاتھا

وَقَالَ فِرْعَوْنُ یَا أَیُّهَا الْمَلَأُ مَا عَلِمْتُ لَكُمْ مِنْ إِلَهٍ غَیْرِی۔۔۔[110]

ترجمہ:اورفرعون نے کہااے اہل دربار!میں تواپنے سواتمہارے کسی خداکونہیں جانتا۔

یہ عرصہ بعید سے زبردست بادشاہ چلاآرہاتھااوراللہ تعالیٰ نے اسے بڑی دنیاوی قوت وطاقت عطاکی ہوئی تھی جس کی وجہ سے دماغ میں میں سرکشی ،نخوت اور غرورو تکبر سما چکا تھا،جب ابراہیم علیہ السلام نے قوم کے بتوں کو توڑ ڈالاتواپ کے والدنے جونمرودکی سلطنت کاایک بڑاعہدہ دارتھایہ مقدمہ بادشاہ کے سامنے پیش کیا ،

عَنِ السُّدِّیِّ ، قَالَ: وَأَخْرَجُوا إِبْرَاهِیمَ یَعْنِی مِنَ النَّارِ فَأَدْخَلُوهُ عَلَى الْمَلِكِ، وَلَمْ یَكُنْ قَبْلَ ذَلِكَ دَخَلَ عَلَیْهِ، فَكَلَّمَهُ

سدی رحمہ اللہ نے ذکرکیاہے کہ ابراہیم علیہ السلام اورنمرودکے مابین یہ مناظرہ ابراہیم علیہ السلام کے اگ سے زندہ سلامت نکل آنے کے بعدہواتھااسی دن آپ کی اس بادشاہ سے ملاقات ہوئی تھی اوراسی ملاقات میں یہ مناظرہ ہواتھا۔[111]

اس وقت ابراہیم علیہ السلام نے اسے دین اسلام پیش کیااوراللہ وحدہ لاشریک کا تقویٰ اختیارکرنے کوکہامگرجس رب نے اسے بغیرکسی استحقاق کے حکومت کااستحکام اورطاقت و قوت عطا فرمائی تھی وہ اس کوبھول چکاتھا،چنانچہ وہ اپنی سرکشی میں وجودباری تعالیٰ پردلیل مانگنے لگا،ابراہیم علیہ السلام نے فرمایاوہ اللہ جس نے جہانوں کی تخلیق فرمائی اوران کورہنمائی عطاکی،وہ اللہ جوبحروبرکی انواع واقسام کی مخلوق کوپیداکرکے زندگی اورپھرایک وقت مقررہ پرموت سے ہمکنار کردیتاہے،وہ اللہ جوآسمان سےبارش برساکرمردہ پڑی زمین کوزندہ کرتا ہے اوراس میں سے مختلف اقسام کی کھیتاں پیداکرتااورپھرانہیں سوکھادیتاہے،وہ اللہ جواپنی حکمت و مشیت سے جس کاچاہتاہے رزق بڑھادیتاہے اورجس کاچاہتاہے تنگ کر دیتاہے،وہ جس کوچاہتاہے حکومت عطاکرکے عزتوں سے نوازتاہے اورجس سے چاہتاچھین لیتا ہے ، کیایہ سب افعال خود بخودہورہے ہیں ،کیایہ بات اللہ کے وجودکی کھلی دلیل نہیں ہے کہ کوئی ایسی ہستی ہے جواس کائنات کے نظام کوبہترین طریقے پرچلارہی ہے؟بادشاہ نے کہامخلوقات پرتومجھے بھی اختیارہے،زندگی اورموت تومیں بھی دے سکتا ہوں ،

مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ، قَالَ: آخُذُ رَجُلَیْنِ قَدِ اسْتَوْجَبَا الْقَتْلَ فِی حُكْمِی، فَأَقْتُلُ أَحَدَهُمَا فَأَكُونُ قَدْ أَمَتُّهُ، وَأَعْفُو عَنِ الْآخَرِ فَأَتْرُكُهُ وَأَكُونُ قَدْ أَحْیَیْتُهُ

محمدبن اسحاق کہتے ہیں اس کے پاس دوآدمی لائے گئے جوقتل کے مستحق تھے تواس نے ان میں سے ایک کے بارے میں حکم دیاکہ اسےقتل کردیاجائے اوردوسرے کے بارے میں حکم دیاکہ اسے قتل نہ کیاجائے اورزندہ کرنے اورمارنے کے اس نے یہ معنی سمجھے۔[112]

کہتے ہیں دشمن کودلیل سے مارواس سے بڑاکوئی ہتھیارنہیں ہے،ابراہیم علیہ السلام نے بات کوزیادہ لمبا کرنے کے بجائے فوراً دلیل کوبدلااورایک ایسی دلیل اس کے سامنے پیش کی کہ بادشاہ اس کی مشابہت ہی نہ کرسکے،آپ نے فرمایاتمہارے کہنے کے مطابق کہ تم مخلوقات پر پوراتصرف رکھتے ہو، زندگی اورموت دینے کااختیاربھی رکھتے ہو،میرے رب نے اپنی مخلوق سورج کوحکم دے رکھاہے کہ وہ ہمیشہ مشرق سے طلوع ہوتاہے اورمغرب میں غروب ہوتاہےاگرتم اپنے دعوائے الوہیت میں سچے ہوتواس نظام کوبدل ڈالو اوراپنے حکم سے سورج کومغرب سے طلوع کرکے دکھادوجھگڑاختم ہوجائے گا،اب توبادشاہ کے پاس اس شانداردلیل کاکوئی جواب نہیں تھااس لئے ٹوٹاپھوٹاجواب بھی نہ بن پڑا اورشرمندگی سے ادھرادھردیکھنے لگا ،ابراہیم علیہ السلام نے دین حق پیش کرکے ہرحجت پوری کردی مگرجولوگ سرکشی اوربغاوت پراترآئیں اللہ بھی ایسے ظالموں کوکفروضلالت میں مبتلا رہنے دیتاہے ۔

أَوْ كَالَّذِی مَرَّ عَلَىٰ قَرْیَةٍ وَهِیَ خَاوِیَةٌ عَلَىٰ عُرُوشِهَا قَالَ أَنَّىٰ یُحْیِی هَٰذِهِ اللَّهُ بَعْدَ مَوْتِهَا ۖ فَأَمَاتَهُ اللَّهُ مِائَةَ عَامٍ ثُمَّ بَعَثَهُ ۖ قَالَ كَمْ لَبِثْتَ ۖ قَالَ لَبِثْتُ یَوْمًا أَوْ بَعْضَ یَوْمٍ ۖ قَالَ بَل لَّبِثْتَ مِائَةَ عَامٍ فَانظُرْ إِلَىٰ طَعَامِكَ وَشَرَابِكَ لَمْ یَتَسَنَّهْ ۖ وَانظُرْ إِلَىٰ حِمَارِكَ وَلِنَجْعَلَكَ آیَةً لِّلنَّاسِ ۖ وَانظُرْ إِلَى الْعِظَامِ كَیْفَ نُنشِزُهَا ثُمَّ نَكْسُوهَا لَحْمًا ۚ فَلَمَّا تَبَیَّنَ لَهُ قَالَ أَعْلَمُ أَنَّ اللَّهَ عَلَىٰ كُلِّ شَیْءٍ قَدِیرٌ ‎﴿٢٥٩﴾‏(البقرة)
’’یا اس شخص کی مانند کہ جس کا گزر اس بستی پر ہوا جو چھت کے بل اوندھی پڑی ہوئی تھی وہ کہنے لگا اس کی موت کے بعد اللہ تعالیٰ اسے کس طرح زندہ کرے گا؟ تو اللہ تعالیٰ نے اسے مار دیا سو سال کے لیے، پھر اسے اٹھایا پوچھا کتنی مدت تم پر گزری ؟ کہنے لگا ایک دن یا دن کا کچھ حصہ، فرمایا بلکہ تو سو سال تک رہا ،پھر اب تو اپنے کھانے پینے کو دیکھ کہ بالکل خراب نہیں ہوا اور اپنے گدھے کو بھی دیکھ، ہم تجھے لوگوں کے لیے ایک نشانی بناتے ہیں تو دیکھ کہ ہم ہڈیوں کو کس طرح اٹھاتے ہیں، پھر ان پر گوشت چڑھاتے ہیں، جب یہ سب ظاہر ہوچکا تو کہنے لگا میں جانتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے ۔ ‘‘

یاپھرمثال کے طورپراس شخص کودیکھوجس کاگزرایک ایسی بستی پرہوا۔یہ شخص کون تھااس بارے میں مستندبات تونہیں ملتی مگرزیادہ مشہوریہ ہے کہ یہ عزیر علیہ السلام تھے،

عَنْ عَلِیِّ بْنِ أَبِی طَالِبٍ یَعْنِی قَوْلَهُ: {أَوْ كَالَّذِی مَرَّ عَلَى قَرْیَةٍ} قَالَ: أَنَّهُ كَانَ عُزَیْرًا،وَرُوِیَ عَنِ الْحَسَنِ، وَالسُّدِّیِّ، وَابْنِ بُرَیْدَةَ، وَقَتَادَةَ:وَقَالَ مُجَاهِدٌ: رَجُلٌ مِنْ بَنِی إِسْرَائِیلَ

سیدناعلی رضی اللہ عنہ بن ابوطالب سے آیت’’یا پھر مثال کے طور پر اس شخص کو دیکھو جس کا گزر ایک ایسی بستی پر ہوا۔‘‘ کے بارے میں روایت ہے کہ اس شخص سے مراد عزیر علیہ السلام ہیں ، حسن، قتادہ،سدی اورسلیمان بن بریدہ کابھی یہی قول ہے۔مجاہد رحمہ اللہ کاقول ہے یہ واقعہ بنی اسرائیل میں سے ایک شخص کاہے۔[113]

وَأَمَّا الْقَرْیَةُ: فَالْمَشْهُورُ أَنَّهَا بَیْتُ الْمَقْدِسِ

اوربستی کے بارے میں مشہورقول یہ ہے کہ اس سے مرادبیت المقدس ہے۔[114]

حیات بعدالموت ایک ایسی حقیقت ہے جسے سمجھنا آسان نہیں ،اس پرمن وعن یقین اوراعتقادرکھناہی عقل کی بات ہے،یہ واقعہ بھی اللہ تعالیٰ کی قدرت احیائے موتی کااثبات ہے کہ جس طرح اللہ تعالیٰ نے اس شخص کو اوراس کے گدھے کوسوسال کے بعدزندہ کردیاحتی کہ اس کے کھانے پینے کی چیزوں کوبھی خراب نہیں ہونے دیا،وہی رب قیامت والے دن تمام انسانوں کودوبارہ زندہ کرے گا، جب اللہ تعالیٰ سوسال کے بعدزندہ کرسکتاہے،اصحاب کہف کوتین سوسال کے بعدزندہ کرسکتاہے توہزاروں سال کے بعدزندہ کردینااس کے لئے کوئی مشکل کام نہیں ہے ، بنی اسرائیل کےبابل کے بادشاہ بخت نصرکے اسیری کے دورمیں عزیر علیہ السلام نے یروشلم سے دورکسی جگہ بسیراکرلیا،اللہ تعالیٰ نے عزیر علیہ السلام کوفرمایاہم اس اجڑے شہریروشلم کوجونبیوں کی مقدس سرزمین رہاہے دوبارہ آبادکریں گےاس لئے وہاں جائیں اوراس ویرانہ میں جاکررہیں ،حکم ربی کے مطابق عزیر علیہ السلام اپنے گدھے پرسوارہوکروہاں پہنچ گئے ، شہر کو دیکھا جو کبھی بہت بارونق آبادبستی تھی ،جس میں لاکھوں لوگ آبادتھے مگراب وہ تباہ وبرباداورکھنڈربناپڑاتھا،اس بستی کے حالات سے متاثرہوکربڑے تعجب وحیرت سے دل میں سوچنے لگے کہ نہ معلوم اللہ تعالیٰ اس مردہ بستی کودوبارہ کیے زندہ کرے گا،اب کون سے ایسے اسباب پیداہوں گے جن کے ذریعہ رب اس مردہ بستی کوپھرسے زندگی بخشے گا، یعنی عزیر علیہ السلام حیات بعدالموت کے عقیدے پرحیران تھے،وہ یہ جانناچاہتے تھے کہ موت کے بعدزندگی کیسے ممکن ہے حالانکہ رب العالمین کوہرچیزپرقدرت حاصل ہے جب وہ پوری دنیاکوانسانوں سے بھرکرآبادکرسکتاہے تویہ توایک چھوٹی سے بستی تھی ،اللہ تعالیٰ جودلوں کے بھیدجانتاہے اس نے اس عقیدہ کوواضح کرنے کے لئے جب کہ کچھ دن چڑھا تھااپنی حکمت ومشیت سے عزیر علیہ السلام کی روح قبض کرلی اورانہیں حیات بعدالموت کے عملی تجربہ سے گزارا، تقریباً۵۳۹ قبل مسیح میں فارس کے بادشاہ سائرس نے بابل کے بادشاہ بیل شاہ زارکوجوبخت نصرکے بعدبادشاہ بناتھاشکست دے کرفارس کواس کے مظالم سے نجات دلائی اوراس نے بنی اسرائیل کوبھی آزادکیااوریروشلم اورہیکل سلیمانی کی تعمیرکی بھی اجازت فرمائی ،چنانچہ یروشلم اورہیکل سلیمانی کی تعمیرسائرس کے بعددارااورپھراردشیرکے زمانہ میں مکمل ہوئی،اس عرصہ میں یروشلم پہلے سے زیادہ خوب آباداوربارونق شہر بن گیاتواللہ تعالیٰ نے عزیر علیہ السلام کوسوسال تک مردہ حالت میں رکھ کردوبارہ زندہ کردیا،اس وقت شام نہیں ہوئی تھی ،اگرچہ انہیں مرے ہوئے سوسال بیت چکے تھے لیکن انہیں بالکل اس بات کااحساس نہیں تھاجواس بات کاثبوت ہے کہ وقت کاادراک زندگی کے ساتھ ہے ، رب جب مردوں کودوبارہ زندہ فرمائے گا توانسانوں کوایسے محسوس ہوگاجیسے یہ کل کی بات ہو،زندگی بخشنے کے بعداللہ تعالیٰ نے فرشتے کی وساطت سے عزیر علیہ السلام سے پوچھااچھایہ توبتلاؤکہ تم کتناعرصہ پڑے سوتے رہے ہو،عزیر علیہ السلام نے اپنے سونے اورجاگنے کے وقت سے اندازہ لگایاکہ یہ آج ہی کاواقعہ ہے اوردن کاکچھ حصہ گزرا ہے، عزیر علیہ السلام نے جواب عرض کیااے باری تعالیٰ ایک دن یاایک دن کاکچھ حصہ میں سوتارہاہوں ،اللہ تعالیٰ نے ارشادفرمایانہیں بلکہ تم سوسال تک موت کی آغوش میں پڑے رہے ہو،پھراللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت کامشاہدہ کرایاکہ عام حالات میں گلنے سڑنے والی چیزیں کس طرح تروتازہ رہیں ،فرمایااپنے کھانے اورپینے کے پانی کودیکھوکیااتناعرصہ گزرجانے کے باوجودان میں کوئی خرابی واقع ہوئی ہے؟انہوں نے دیکھا تو سب کھانے پینے کی چیزیں تروتازہ اورموسمی اثرات سے محفوظ تھیں ، پھراللہ تبارک وتعالیٰ نے ارشادفرمایااب دوسری جانب اپنے گدھے کوبھی دیکھوکہ اتنے عرصہ میں تمہاری سواری کاکیاہوا،انہوں نے گدھے کی طرف دیکھاتوان کاگدھاگل سڑچکاتھابلکہ اس کی ہڈیوں کاپنجرتک بوسیدہ ہوچکاتھا،ارشادفرمایاہم نے یہ سب اس لئے کیاہے تاکہ ہم تمہیں دوسروں کے لئے اپنی قدرت کامل کاایک نشان بنادیں ،جس سے اللہ کی قدرت ظاہرہوکہ وہ مردوں کوزندہ کرکے قبروں سے اٹھاسکتاہےاورتاکہ انہیں معلوم ہوجائے کہ پیغمبرنے جوخبریں دی ہیں وہ واقعی سچی ہیں ،پھراللہ تعالیٰ نے کسی چیزکے دوبارہ زندہ ہونے کاعینی مشاہدہ کرایاکہ دیکھتے ہی دیکھتے گدھے کی بوسیدہ ہڈیوں نے آپس میں ترتیب پائی ،پھران پرگوشت چڑھااورپھروہ زندہ کھڑاہوگیا،

وَقَالَ السُّدِّیُّ وَغَیْرُهُ: تَفَرَّقَتْ عِظَامُ حِمَارِهِ حَوْلَهُ یَمِینًا وَیَسَارًا فَنَظَرَ إِلَیْهَا وَهِیَ تَلُوحُ مِنْ بَیَاضِهَا، فَبَعَثَ اللهُ رِیحًا فَجَمَعَتْهَا مِنْ كُلِّ مَوْضِعٍ مِنْ تِلْكَ الْمَحِلَّةِ، ثُمَّ رَكِبَ كُلُّ عَظْمٍ فِی مَوْضِعِهِ حَتَّى صَارَ حِمَارًا قَائِمًا مِنْ عِظَامٍ لَا لَحْمَ عَلَیْهَا، ثُمَّ كَسَاهَا اللهُ لَحْمًا وَعَصَبًا وَعُرُوقًا وَجِلْدًا ، وَبَعَثَ اللهُ مَلَكًا فَنَفَخَ فِی مَنْخَرَیِ الْحِمَارِ فَنَهَقَ كُلُّهُ بِإِذْنِ اللهِ عَزَّ وَجَلَّ

سدی رحمہ اللہ وغیرہ نے لکھاہے ہ ان کے گدھے کی ہڈیاں ان کے دائیں بائیں بکھری ہوئی تھیں ،انہوں نے دیکھا تو سفید سفید ہڈیاں چمک رہی تھیں ،اللہ تعالیٰ نے ہواکوبھیجاجس نے جگہ جگہ بکھری ہوئی تمام ہڈیوں کویکجاکردیااورہرہڈی کواس کی جگہ پرجوڑدیاحتی کہ ہڈیوں سے بناہواایک ڈھانچہ کھڑا ہو گیا جوگوشت سے خالی تھی،پھراللہ تعالیٰ نے اس ڈھانچے میں گوشت،اعصاب،رگیں اورکھال پیدافرمادی، پھراللہ تعالیٰ نے ایک فرشتہ بھیجاجس نے گدھے کے دونوں نتھنوں میں پھونک ماری توگدھااللہ تعالیٰ کے حکم سے صحیح سالم بن کرہینگنے لگا۔[115]

یوں اللہ تعالیٰ نے پہلے تو عزیر علیہ السلام کوموت کی حقیقت کوتجرباتی طورپردکھایااورپھران گلی سڑی ہڈیوں میں دوبارہ جان ڈال کرحیات بعدالموت کامنظردکھایااوران کے اشتیاق اورسچائی کی جستجوکے سبب حیات بعدالموت کے تجربے سے گزارکریقین کی دولت عطافرمائی ،عزیر علیہ السلام نے عرض کیااے میرے رب!یقین توپہلے بھی تھاکہ تجھے ہرقدرت حاصل ہے لیکن ان عینی مشاہدے کے بعدمیرے یقین اورعلم میں مزیدپختگی اوراضافہ ہوگیاہے ،اوراے میرے رب! بیشک تیری قدرت کاملہ کے لئے کسی طرح کے اسباب وسائل کی حاجت نہیں توجس طرح چاہے اپنی سلطنت میں بے روک ٹوک تصرف کرے کوئی اس کے لئے مانع نہیں ہے۔

وَإِذْ قَالَ إِبْرَاهِیمُ رَبِّ أَرِنِی كَیْفَ تُحْیِی الْمَوْتَىٰ ۖ قَالَ أَوَلَمْ تُؤْمِن ۖ قَالَ بَلَىٰ وَلَٰكِن لِّیَطْمَئِنَّ قَلْبِی ۖ قَالَ فَخُذْ أَرْبَعَةً مِّنَ الطَّیْرِ فَصُرْهُنَّ إِلَیْكَ ثُمَّ اجْعَلْ عَلَىٰ كُلِّ جَبَلٍ مِّنْهُنَّ جُزْءًا ثُمَّ ادْعُهُنَّ یَأْتِینَكَ سَعْیًا ۚ وَاعْلَمْ أَنَّ اللَّهَ عَزِیزٌ حَكِیمٌ ‎﴿٢٦٠﴾(البقرة)
’’اور جب ابراہیم (علیہ السلام) نے کہا اے میرے پروردگار! مجھے دکھا تو مردوں کو کس طرح زندہ کرے گا؟( جناب باری تعالیٰ نے) فرمایا کیا تمہیں ایمان نہیں ؟ جواب دیا ایمان تو ہے لیکن میرے دل کی تسکین ہوجائے گی، فرمایا چار پرندلو،ان کے ٹکڑے کر ڈالو پھر ہر پہاڑ پر ایک ایک ٹکڑا رکھ دو پھر انہیں پکارو تمہارے پاس دوڑتے ہوئے آجائیں گے اور جان رکھو کہ اللہ تعالیٰ غالب ہے حکمتوں والا ہے۔ ‘‘

اوروہ واقعہ بھی پیش نظررہے جب ابراہیم علیہ السلام نے کہاتھاکہ میرے مالک!مجھے دکھادے تومردوں کوکیسے زندہ کرتاہے،فرمایاکیاتوایمان نہیں رکھتا؟ابراہیم علیہ السلام نے عرض کیااے میرے رب !میں دل وجاں سے اس پرایمان رکھتاہوں مگرعینی مشاہدے سےدل کی تسلی وتشفی کرناچاہتاہوں ،

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:نَحْنُ أَحَقُّ بِالشَّكِّ مِنْ إِبْرَاهِیمَ، إِذْ قَالَ:رَبِّ أَرِنِی كَیْفَ تُحْیِی المَوْتَى قَالَ أَوَلَمْ تُؤْمِنْ قَالَ بَلَى وَلَكِنْ لِیَطْمَئِنَّ قَلْبِی

اس آیت کی تفسیرمیں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایاہم ابراہیم علیہ السلام کی نسبت شک کے زیادہ حق دارہیں جب انہوں نے کہامیرے مالک!مجھے دکھادے تومردوں کوکیسے زندہ کرتاہے،اللہ تعالیٰ نے فرمایاکیاتوایمان نہیں رکھتا؟اس نے عرض کیاایمان تومیں رکھتاہوں مگردل کااطمینان درکارہے۔[116]

یعنی اس کے معنی یہ ہیں کہ یقین طلب کرنے کے ابراہیم علیہ السلام کی نسبت ہم زیادہ حق دارہیں ۔اللہ تعالیٰ نےفرمایااچھاتوچارپرندے لے اوران کواپنے سے مانوس کرلےتاکہ زندہ ہونے کے بعدان کاآسانی سے پہچان لے کہ وہی پرندے ہیں اورتمہیں کسی طرح کاشک وشبہ باقی نہ رہے،پھرجب وہ تم سے اچھی طرح مانوس ہو جائیں توانہیں ذبح کرکے اوران کے اجزاکو ٹکڑے ٹکڑے کرکے اورپھران کے اجزاکوباہم ملاکران اجزاکومختلف پہاڑوں پررکھ دے،چنانچہ ابراہیم علیہ السلام نے ایساہی کیا،

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ:{فَصُرْهُنَّ إِلَیْك}فَذَكَرُوا أَنَّهُ عَمَدَ إِلَى أَرْبَعَةٍ مِنَ الطَّیْرِ فَذَبَحَهُنَّ، ثُمَّ قَطَّعَهُنَّ وَنَتَفَ رِیشَهُنَّ، وَمَزَّقَهُنَّ وَخَلَطَ بعضهن فی ببعض، ثُمَّ جَزَّأَهُنَّ أَجْزَاءً، وَجَعَلَ عَلَى كُلِّ جَبَلٍ مِنْهُنَّ جُزْءًا، قِیلَ: أَرْبَعَةُ أَجْبُلٍ ، وَقِیلَ: سَبْعَةٌ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے آیت’’ اور ان کو اپنے سے مانوس کرلے۔‘‘ کے بارے میں روایت ہے کہ آپ نے چارپرندے لیے ،انہیں ذبح کرکے ٹکڑے ٹکڑے کردیاان کے بالوں کونوچ کرتوڑدیاپھران سب کوایک دوسرے کے ساتھ ملادیاپھران کوالگ الگ ٹکڑوں میں کردیااورہرپہاڑپرایک ایک ٹکڑاڈال دیا بیان کیاگیاہے کہ آپ نے چارپہاڑوں پران ٹکڑوں کوبکھیراتھااور یہ بھی بیان کیاجاتاہے کہ آپ نے سات پہاڑوں پران ٹکڑوں کوبکھیراتھا۔[117]

پھرتوانہیں آوازدے تووہ زندہ ہو کر تیرے پاس دوڑتے چلے آئیں گے،اللہ کے حکم سے انہوں نے پرندوں کوآوازدیں توچاروں پرندے زندہ ہوکراڑتے ہوئےان کے پاس آگئے ،جیسے فرمایا

وَكَذٰلِكَ نُرِیْٓ اِبْرٰهِیْمَ مَلَكُوْتَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَلِیَكُوْنَ مِنَ الْمُوْقِنِیْنَ۝۷۵           [118]

ترجمہ: ابراہیم کو ہم اسی طرح زمین اور آسمانوں کا نظامِ سلطنت دکھاتے تھے اور اس لیے دکھاتے تھے کہ وہ یقین کرنے والوں میں سے ہو جائے۔

اورخوب جان لے کہ اللہ عظیم قوتوں والاہے ،کوئی مخلوق اس کے حکم سے سرتابی نہیں کرسکتی ،اوروہ اسباب وسائل کامحتاج نہیں اورنہ ہی اسباب کے راستے پرچلنے کاپابندہے،وہ توبس جس کام کوکرنے کاارادہ فرماتاہے اسےاپنے قدرت کے کلمہ کن سے وجودمیں آنے کاحکم دیتاہے وہ فورا ًوجودمیں آجاتی ہے،وہ اپنے اقوال وافعال میں حکمت والا ہےاوروہ کوئی کام بے مقصدنہیں کرتا۔

‏ مَّثَلُ الَّذِینَ یُنفِقُونَ أَمْوَالَهُمْ فِی سَبِیلِ اللَّهِ كَمَثَلِ حَبَّةٍ أَنبَتَتْ سَبْعَ سَنَابِلَ فِی كُلِّ سُنبُلَةٍ مِّائَةُ حَبَّةٍ ۗ وَاللَّهُ یُضَاعِفُ لِمَن یَشَاءُ ۗ وَاللَّهُ وَاسِعٌ عَلِیمٌ ‎﴿٢٦١﴾‏ الَّذِینَ یُنفِقُونَ أَمْوَالَهُمْ فِی سَبِیلِ اللَّهِ ثُمَّ لَا یُتْبِعُونَ مَا أَنفَقُوا مَنًّا وَلَا أَذًى ۙ لَّهُمْ أَجْرُهُمْ عِندَ رَبِّهِمْ وَلَا خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَلَا هُمْ یَحْزَنُونَ ‎﴿٢٦٢﴾‏ ۞ قَوْلٌ مَّعْرُوفٌ وَمَغْفِرَةٌ خَیْرٌ مِّن صَدَقَةٍ یَتْبَعُهَا أَذًى ۗ وَاللَّهُ غَنِیٌّ حَلِیمٌ ‎﴿٢٦٣﴾‏ (البقرة(
’’جو لوگ اپنا مال اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں اس کی مثال اس دانے جیسی ہے جس میں سے سات بالیاں نکلیں اور ہر بالی میں سے سو دانے ہوں، اور اللہ تعالیٰ اسے چاہے اور بڑھاچڑھا دے، اور اللہ تعالیٰ کشادگی والا اور علم والا ہے، جو لوگ اپنا مال اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں پھر اس کے بعد نہ تو احسان جتاتے ہیں اور نہ ایذا دیتے ہیں ان کا اجر ان کے رب کے پاس ہے ان پر نہ تو کچھ خوف ہے نہ وہ اداس ہوں گے،نرم بات کہنا اور معاف کردینا اس صدقہ سے بہتر ہے جس کے بعد ایذا رسانی ہو اور اللہ تعالیٰ بےنیاز اور بردبار ہے۔ ‘‘

اس سے پہلے فرمایاتھا

مَنْ ذَا الَّذِیْ یُقْرِضُ اللهَ قَرْضًا حَسَـنًا فَیُضٰعِفَهٗ لَهٗٓ اَضْعَافًا كَثِیْرَةً۝۰ۭ وَاللهُ یَـقْبِضُ وَیَبْصُۜطُ۝۰۠ وَاِلَیْهِ تُرْجَعُوْنَ۝۲۴۵ [119]

ترجمہ:تم میں کون ہے جو اللہ کو قرضِ حسن دے تاکہ اللہ اسے کئی گنا بڑھا چڑھا کر واپس کرے؟ گھٹانا بھی اللہ کے اختیار میں ہے اور بڑھانا بھی ، اور اسی کی طرف تمہیں پلٹ کر جانا ہے ۔

یہاں انفاق فی سبیل اللہ کی فضیلت میں فرمایاجولوگ دنیاوی فائدے سے بے پرواہ ہوکر اپنے مال اللہ کاکلمہ بلندکرنے یعنی اللہ کے دین اسلام کے فروغ ونفاذکے لئے جہاد فی سبیل اللہ میں خرچ کرتے ہیں ،ان کے خرچ کی مثال ایسی ہے جیسے زمین میں ایک دانہ بویاجائے اوراس ایک دانہ سے سات بالیں نکلیں اورہربال میں سودانے ہوں ،یعنی جہادفی سبیل میں خرچ کرنے کااجروثواب سات سوگناسے بھی بڑھ کر ہے،

عَنْ أَبِی مَسْعُودٍ،أَنَّ رَجُلًا تَصَدَّقَ بِنَاقَةٍ مَخْطُومَةٍ فِی سَبِیلِ اللهِ ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:لَیَأْتِیَنَّ، أَوْ لَتَأْتِیَنَّ، بِسَبْعِ مِائَةِ نَاقَةٍ مَخْطُومَةٍ

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہےایک شخص نے مہاروالی ایک اونٹنی اللہ کی راہ میں صدقہ کی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایایقیناًیہ قیامت کے دن مہاروالی سات سواونٹنیاں (اپنے ساتھ)لائے گی۔[120]

اورصحیح مسلم میں یہ الفاظ ہیں

جَاءَ رَجُلٌ بِنَاقَةٍ مَخْطُومَةٍ، فَقَالَ: هَذِهِ فِی سَبِیلِ اللهِ ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: لَكَ بِهَا یَوْمَ الْقِیَامَةِ سَبْعُ مِائَةِ نَاقَةٍ كُلُّهَا مَخْطُومَةٌ

ایک شخص مہاروالی ایک اونٹنی لے کرآیااوراس کی عرض کی اے اللہ کے رسول ﷺ!یہ اللہ کی راہ میں ہے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاتجھے قیامت کے دن اس کے عوض میں سات سواونٹنیاں ملیں گی جوسب مہاروالی ہوں گی۔[121]

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: كُلُّ عَمَلِ ابْنِ آدَمَ یُضَاعَفُ، الْحَسَنَةُ عَشْرُ أَمْثَالِهَا إِلَى سَبْعمِائَة ضِعْفٍ ، قَالَ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ: إِلَّا الصَّوْمَ، فَإِنَّهُ لِی وَأَنَا أَجْزِی بِهِ، یَدَعُ شَهْوَتَهُ وَطَعَامَهُ، مِنْ أَجْلِی لِلصَّائِمِ فَرْحَتَانِ: فَرْحَةٌ عِنْدَ فِطْرِهِ، وَفَرْحَةٌ عِنْدَ لِقَاءِ رَبِّهِ، وَلَخُلُوفُ فِیهِ أَطْیَبُ عِنْدَ اللهِ مِنْ رِیحِ الْمِسْكِ، الصَّوْمُ جُنَّةٌ، الصَّوْمُ جُنَّةٌ

اورابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےابن آدم کے ہرعمل کواس طرح بڑھادیاجاتاہے کہ ایک نیکی کاسات سوگنایااس سے بھی زیادہ جس قدراللہ چاہے ثواب ملتاہے،لیکن اللہ تعالیٰ نے فرمایاہے مگرروزہ، وہ میرے ہی لیے ہے اورمیں خودہی اس کی جزادوں گا،وہ محض میری وجہ سے اپنے کھانے اورخواہش نفس کوچھوڑتاہے،روزے دارکے لیے دوخوشیاں ہیں ایک خوشی افطارکے وقت اوردوسری اپنے رب تعالیٰ کے دیدارکے وقت، روزے دارکے منہ کی بوقیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے ہاں کستوری کی خوشبوسے بھی بڑھ کرپاکیزہ ہوگی، روزہ ڈھال ہے،روزہ ڈھال ہے۔[122]

اگراس سے مراد تمام مصارف خیر ہوں یعنی بچوں کی خوراک،اپنے اعزہ واقربا کی خبرگیری ، محتاجوں کی اعانت،رفاہ عام کے کام ہوں تویہ فضیلت نفقات وصدقات نافلہ کی ہوگی اوردیگرنیکیاں

 ۔۔۔الْحَسَنَةُ بِعَشْرِ أَمْثَالِهَا۔۔۔[123]

ترجمہ:ایک نیکی کااجردس گنا۔

کی ذیل میں آئیں گی ، اسی طرح اللہ جس کے عمل کو چاہتاہے افزوفی عطا فرماتاہے،یعنی خرچ کرنے والے کے حال اوراس کے خلوص کے مطابق یاخرچ کی کیفیت ،منافع اوربرمحل ہونے کی مناسبت سے ثواب میں بے حساب اضافہ کردیتاہے،وہ فراخ دست بھی ہے،یعنی اللہ کافضل وسیع ہے ،اس کی عطابے حساب ہے جس میں کسی قسم کی کمی نہیں ہوتی، اورعلیم بھی ہے اسے خوب معلوم ہے کہ کون اس دگنے چوگنے اجروثواب کامستحق ہے اورکون نہیں ،لہذاوہ اجروثواب کا اضافہ وہیں کرتاہے جہاں اس کاصحیح مقام ہو، عبداللہ رضی اللہ عنہ بن زیدانصاری کواللہ تعالیٰ نے ایثارواستغناءکی دولت سے مالامال کیاتھا،ان کے پاس معمولی جائدادتھی جس سے بمشکل اپنااوراپنے اہل وعیال کاپیٹ پالتے تھے لیکن جب انہیں انفاق فی سبیل اللہ کے اجروثواب کاعلم ہواتو

أَنَّهُ تصدق بمال لم یكن له غیره، كان یعیش به هو وولده، فدفعه إِلَى رَسُول اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فجاء أبوه إِلَى رَسُول اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فقال: یا رَسُول اللهِ، إن عَبْد اللهِ بْن زید تصدق بماله وهو الذی كان یعیش فیه،فدعا رَسُول اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عَبْد اللهِ بْن زید، فقال: إن الله قد قبل منك صدقتك، وردها میراثًا عَلَى أبویك قال بشیر: فتوارثناها

انہوں نےپنی ساری کی ساری جائدادراہ حق میں صدقہ کردی،ان کے والد(زید رضی اللہ عنہ بن ثعلبہ)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضرہوئے اورعرض کیااے اللہ کے رسول ﷺ!عبداللہ بن زیدنے اپناسارامال صدقہ کردیاہے اورکچھ بھی نہیں چھوڑااوراسی پرہماراگزارہ چلتاتھا،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ کوبلابھیجا، جب وہ حاضر خدمت ہوئے توفرمایااللہ تعالیٰ نے تمہاراصدقہ قبول فرمایالیکن اب باپ کی میراث کے نام پرتم کوواپس دیتاہوں اس کوقبول کرلو۔[124]

جو لوگ اپنے مال اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں اورخرچ کرکے پھرزبانی یاعملی طورپراحسان نہیں جتاتےاورنہ زبان سے ایساکلمہ تحقیراداکرتے ہیں جس سے غریب،محتاج کی عزت نفس مجروح ہواوروہ تکلیف محسوس کرے انہیں ہرخیرحاصل ہوگی اورہربرائی ان سے دورکردی جائے گی ،کسی کی مدد کر کے بعدمیں اس پراحسان جتلانا بہت اتنابڑاجرم ہے،

عَنْ أَبِی ذَرٍّ،عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:قَالَ:ثَلَاثَةٌ لَا یُكَلِّمُهُمُ اللهُ یَوْمَ الْقِیَامَةِ، وَلَا یَنْظُرُ إِلَیْهِمْ وَلَا یُزَكِّیهِمْ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِیمٌ،قَالَ: فَقَرَأَهَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ ثَلَاثَ مِرَارًا، قَالَ أَبُو ذَرٍّ: خَابُوا وَخَسِرُوا، مَنْ هُمْ یَا رَسُولَ اللهِ؟ قَالَ: الْمُسْبِلُ، وَالْمَنَّانُ، وَالْمُنَفِّقُ سِلْعَتَهُ بِالْحَلِفِ الْكَاذِبِ

ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے نبی کریم ﷺنے فرمایا’’ قیامت والے دن اللہ تعالیٰ تین آدمیوں سے نہ کلام فرمائے گااورنہ ان کی طرف رحمت کی نگاہ سے دیکھے گااورنہ گناہوں سے پاک کرے گااوران کے لئے دردناک عذاب ہے۔‘‘آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین باریہ آیت تلاوت فرمائی، توابوذر رضی اللہ عنہ نے کہااے اللہ کےرسولﷺ!بہت گھاٹے اورخسارے میں پڑے یہ لوگ کون ہوں گے؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ازار کولٹکانے والا (مرد جو ٹخنے سے نیچے کپڑالٹکائے)احسان کرکے اس کو جتلانے والااور جھوٹی قسم کھاکراپنے مال کوفروخت کرنے والا ۔[125]

سائل سے نرمی و شفقت اورچشم پوشی ،پردہ پوشی اس صدقے سے بہترہے جس کے بعداس کولوگوں میں ذلیل ورسواکرکے اسے تکلیف پہنچائی جائے ،

حَدَّثَنَا أَبُو هُرَیْرَةَ،وَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:كُلُّ سُلَامَى مِنَ النَّاسِ عَلَیْهِ صَدَقَةٌ، كُلَّ یَوْمٍ تَطْلُعُ فِیهِ الشَّمْسُ قَالَ:تَعْدِلُ بَیْنَ الِاثْنَیْنِ صَدَقَةٌ، وَتُعِینُ الرَّجُلَ فِی دَابَّتِهِ فَتَحْمِلُهُ عَلَیْهَا، أَوْ تَرْفَعُ لَهُ عَلَیْهَا مَتَاعَهُ صَدَقَةٌ قَالَ: وَالْكَلِمَةُ الطَّیِّبَةُ صَدَقَةٌ، وَكُلُّ خُطْوَةٍ تَمْشِیهَا إِلَى الصَّلَاةِ صَدَقَةٌ، وَتُمِیطُ الْأَذَى عَنِ الطَّرِیقِ صَدَقَةٌ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ ﷺنے فرمایا ہر شخص پر ہر دن میں جس میں سورج طلوع ہو صدقہ کرنا لازم قرار دیا گیا ہے اس کی صورت یہ ہے کہ دو آدمیوں کے درمیان انصاف کرناصدقہ ہے کسی آدمی کی مدد کرکے اسے سواری پر بٹھا دینا اور اس کا سامان اسے پکڑا دینا صدقہ ہے راستے سے تکلیف دہ چیز کا ہٹانا بھی صدقہ ہے اچھی بات کہنا بھی صدقہ ہے اور نماز کے لئے اٹھنے والا ہر قدم بھی صدقہ ہے۔[126]

عَنْ أَبِی ذَرٍّ، قَالَ:قَالَ لِیَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:لَا تَحْقِرَنَّ مِنَ الْمَعْرُوفِ شَیْئًاوَإِنْ لَمْ یَجِدْ فَلْیَلْقَ أَخَاهُ بِوَجْهٍ طَلْقٍ

اور ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھےفرمایااحسان اورنیکی کوحقیرمت سمجھواوریہ بھی ایک احسان ہے کہ اپنے بھائی سے ملو تو کشادہ پیشانی کے ساتھ ملو۔[127]

اللہ بے نیازہے اوربردباری اس کی صفت ہے۔

یَا أَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا لَا تُبْطِلُوا صَدَقَاتِكُم بِالْمَنِّ وَالْأَذَىٰ كَالَّذِی یُنفِقُ مَالَهُ رِئَاءَ النَّاسِ وَلَا یُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ ۖ فَمَثَلُهُ كَمَثَلِ صَفْوَانٍ عَلَیْهِ تُرَابٌ فَأَصَابَهُ وَابِلٌ فَتَرَكَهُ صَلْدًا ۖ لَّا یَقْدِرُونَ عَلَىٰ شَیْءٍ مِّمَّا كَسَبُوا ۗ وَاللَّهُ لَا یَهْدِی الْقَوْمَ الْكَافِرِینَ ‎﴿٢٦٤﴾‏وَمَثَلُ الَّذِینَ یُنفِقُونَ أَمْوَالَهُمُ ابْتِغَاءَ مَرْضَاتِ اللَّهِ وَتَثْبِیتًا مِّنْ أَنفُسِهِمْ كَمَثَلِ جَنَّةٍ بِرَبْوَةٍ أَصَابَهَا وَابِلٌ فَآتَتْ أُكُلَهَا ضِعْفَیْنِ فَإِن لَّمْ یُصِبْهَا وَابِلٌ فَطَلٌّ ۗ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِیرٌ ‎﴿٢٦٥﴾‏ أَیَوَدُّ أَحَدُكُمْ أَن تَكُونَ لَهُ جَنَّةٌ مِّن نَّخِیلٍ وَأَعْنَابٍ تَجْرِی مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ لَهُ فِیهَا مِن كُلِّ الثَّمَرَاتِ وَأَصَابَهُ الْكِبَرُ وَلَهُ ذُرِّیَّةٌ ضُعَفَاءُ فَأَصَابَهَا إِعْصَارٌ فِیهِ نَارٌ فَاحْتَرَقَتْ ۗ كَذَٰلِكَ یُبَیِّنُ اللَّهُ لَكُمُ الْآیَاتِ لَعَلَّكُمْ تَتَفَكَّرُونَ ‎﴿٢٦٦﴾‏(البقرة۲)
 ’’اے ایمان والو! اپنی خیرات کو احسان جتا کر اور ایذا پہنچا کر برباد نہ کرو! جس طرح وہ شخص جو اپنا مال لوگوں کے دکھاوے کے لیے خرچ کرے اور نہ اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھے نہ قیامت پر، اس کی مثال اس صاف پتھر کی طرح ہے جس پر تھوڑی سی مٹی ہو پھر اس پر زور دار مینہ برسے اور وہ اس کو بالکل صاف اور سخت چھوڑ دے ان ریاکاروں کو اپنی کمائی میں سے کوئی چیز ہاتھ نہیں لگتی اور اللہ تعالیٰ کافروں کی قوم کو (سیدھی) راہ نہیں دکھاتا،ان لوگوں کی مثال ہے جو اپنا مال اللہ تعالیٰ کی رضامندی کی طلب میں دل کی خوشی اور یقین کے ساتھ خرچ کرتے ہیں اس باغ جیسی ہے جو اونچی زمین پر ہو اور زور دار بارش اس پر برسے اور وہ اپنا پھل دو گنا لاوے اور اگر اس پر بارش نہ بھی پڑے تو پھوار ہی کافی ہے اور اللہ تمہارے کام دیکھ رہا ہے،کیا تم میں سے کوئی بھی یہ چاہتا ہے کہ اس کا کھجوروں اور انگوروں کا باغ ہو جس میں نہریں بہہ رہی ہوں اور ہر قسم کے پھل موجود ہوں، اس شخص کا بڑھاپا آگیا ہو اور اس کے ننھے ننھے سے بچے بھی ہوں اور اچانک باغ کو بگولہ لگ جائے جس میں آگ بھی ہو، پس وہ باغ جل جائے اس طرح اللہ تعالیٰ تمہارے لیے آیتیں بیان کرتا ہے تاکہ تم غور فکر کرو۔‘‘

اے ایمان لانے والو!اپنے صدقات وخیرات کوکسی پراحسان جتاکر،کسی کوتکلیف پہنچا کر،اپنی سخاوت ،فیاضی اورنیکی کی شہرت مدنظررکھ کراس شخص کی طرح خاک میں نہ ملا دو جواپنامال اللہ کی رضااورجنت کے حصول کے لئے نہیں محض لوگوں کے دکھاوے کے لئے خرچ کرتاہے ، وہ نہ اللہ وحدہ لاشریک پرایمان رکھتاہے اورنہ آخرت کے دن پر ، یعنی وہ اس خرچ کرنے کے اجروثواب کواللہ سے نہیں بلکہ لوگوں سے اس کااجرچاہتاہے،اس کے خرچ کرنے کی مثال ایسی ہے جیسے ایک سخت چٹان تھی جس پرمٹی کی تہہ جمی ہوئی تھی،اس پرجب زور کا مینہ برسا تو ساری مٹی بہہ گئی اورصاف چٹان کی چٹان رہ گئی،ایسے لوگ اپنے نزدیک خیرات کر کے جونیکی کماتے ہیں اس سے کچھ بھی ان کے ہاتھ نہیں آتا،یعنی جس طرح بارش اس پتھرکے لئے فائدہ مندثابت نہیں ہوتی اس طرح ریاکار کو بھی اس کے صدقہ کاکوئی فائدہ حاصل نہیں ہوتا،اوراللہ تعالیٰ منکرنعمت کوخواہ مخواہ راہ راست کی طرف رہبری نہیں کرتا ہے،بخلاف اس کے جولوگ اپنے مال خوشی ویقین کے ساتھ محض اللہ کی رضاجوئی کے لیے ساتھ خرچ کرتے ہیں ،ان کے خرچ کی مثال ایسی ہے جیسے کسی سطح مرتفع پرایک باغ ہو اگر زورکی بارش ہو جائے تودوگناپھل لائے اوراگرزورکی بارش نہ بھی ہوتوایک ہلکی پھوار اور شبنم بھی اس کے لیے کافی ہو جائے،تم جو اعمال جس نیت کے ساتھ کرتے ہو سب اللہ کی نظرمیں ہے ، کیا تم میں سے کوئی یہ پسندکرتاہے کہ اس کے پاس ایک سرسبزوشاداب باغ ہو،اسے نہروں سے سیراب کیا جاتا ہو ،اوروہ کھجوروں اور انگوروں اورہرقسم کے پھلوں سے لداہوااور وہ عین اس وقت ایک تیزبگولے کی زدمیں آکرجھلس جائے جبکہ وہ خود بوڑھا ہو اورمحنت ومشقت سے عاجز ہوچکاہواس کے کم سن بچے ابھی کسی لائق نہ ہوں ؟یعنی عمربھرکی کمائی تباہ وبربادہوگئی ،اب نہ وہ خود دوبارہ اس باغ کونئے سرے سے لگاسکتاہےاورنہ ہی اس کی اولاد اس کی کوئی مددکرسکتی ہے،قیامت کے دن یہی حال ان ریاکاری سےخرچ کرنے والوں کاہوگاکہ جب نیکیوں کی شدیدضرورت ہوگی مگراس کے نفاق وریاکاری کی وجہ سے ان کے سارے اعمال اکارت چلے جائیں گے اوردوبارہ عمل خیرکرنے کی مہلت وفرصت نہ ہوگی،

عَنْ عُبَیْدِ بْنِ عُمَیْرٍ، قَالَ: قَالَ عُمَرُ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، یَوْمًا لِأَصْحَابِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: فِیمَ تَرَوْنَ هَذِهِ الآیَةَ نَزَلَتْ: {أَیَوَدُّ أَحَدُكُمْ أَنْ تَكُونَ لَهُ جَنَّةٌ} [128]؟ قَالُوا: اللَّهُ أَعْلَمُ، فَغَضِبَ عُمَرُ فَقَالَ:قُولُوا نَعْلَمُ أَوْ لاَ نَعْلَمُ، فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: فِی نَفْسِی مِنْهَا شَیْءٌ یَا أَمِیرَ المُؤْمِنِینَ، قَالَ عُمَرُ:یَا ابْنَ أَخِی قُلْ وَلاَ تَحْقِرْ نَفْسَكَ، قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: ضُرِبَتْ مَثَلًا لِعَمَلٍ، قَالَ عُمَرُ:أَیُّ عَمَلٍ؟ قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: لِعَمَلٍ، قَالَ عُمَرُ:لِرَجُلٍ غَنِیٍّ یَعْمَلُ بِطَاعَةِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ، ثُمَّ بَعَثَ اللَّهُ لَهُ الشَّیْطَانَ، فَعَمِلَ بِالْمَعَاصِی حَتَّى أَغْرَقَ أَعْمَالَهُ

عبیدبن عمیرسے مروی ہےسیدناعمر رضی اللہ عنہ بن خطاب نے ایک دن صحابہ کرام رضی اللہ عنہ سے پوچھاکہ تمہاری رائے میں یہ آیت’’کیا تم میں سے کوئی بھی یہ چاہتا ہے کہ اس کا کھجوروں اور انگوروں کا باغ ہو۔‘‘ کس کے بارے میں نازل ہوئی ہے ؟ انہوں نے کہااللہ تعالیٰ ہی زیادہ بہترجانتاہے،اس جواب سے سیدناعمر رضی اللہ عنہ ناراض ہوئے اورانہوں نے فرمایاکہ یہ کہوکہ ہم جانتے ہیں یانہیں جانتے، عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہنے لگے کہ امیرالمومنین!اس کے بارے میں میرے دل میں ایک بات ہے، سیدناعمر رضی اللہ عنہ نے فرمایابرادرزادے!کہواوراپنے آپ کوحقیرنہ سمجھو،عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایااس آیت میں ایک عمل کی مثال بیان کی گئی ہے،سیدناعمر رضی اللہ عنہ نے فرمایاکس عمل کی؟ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایاایک عمل کی مثال بیان کی گئی ہے، پھر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے (خودہی) فرمایایہ مثال اس دولت مندشخص کے عمل کی ہے جواللہ تعالیٰ کی اطاعت کے مطابق عمل کرتاہے پھراللہ اس کے پاس شیطان کوبھیج دیتاہے تووہ گناہوں کے کام کرنے لگتاہے حتی کہ اپنے سارے اعمال کاضائع کربیٹھتاہے۔[129]

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: ضَرَبَ اللَّهُ مَثَلًا حَسَنًا وَكُلُّ أَمْثَالِهِ حَسَنٌ، قَالَ: {أَیَوَدُّ أَحَدُكُمْ أَنْ تَكُونَ لَهُ جَنَّةٌ مِنْ نَخِیلٍ وَأَعْنَابٍ تَجْرِی مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ لَهُ فِیهَا مِنْ كُلِّ الثَّمَرَاتِ} [130] یَقُولُ: صَنَعَهُ فِی شَبِیبَتِهِ، فَأَصَابَهُ الْكِبَرُ، وَوَلَدُهُ وَذُرِّیَّتُهُ ضِعَافٌ، عَنْ آخِرِ عُمْرِهِ، فَجَاءَهُ إِعْصَارٌ فِیهِ نَارٌ، فَاحْتَرَقَ بُسْتَانُهُ، فَلَمْ یَكُنْ عِنْدَهُ قُوَّةٌ أَنْ یَغْرِسَ مِثْلَهُ وَلَمْ یَكُنْ عِنْدَ نَسْلِهِ خَیْرٌ، یَعُودُونَ بِهِ عَلَیْهِ، وَكَذَلِكَ الْكَافِرُ یَوْمَ الْقِیَامَةِ إِذَا رُدَّ إِلَى اللَّهِ لَیْسَ لَهُ خَیْرٌ، فَیُسْتَعْتَبَ. كَمَا لَیْسَ لِهَذَا قُوَّةٌ فَیَغْرِسُ مِثْلَ بُسْتَانِهِ، وَلَا یَجِدُهُ قَدَّمَ لِنَفْسِهِ خَیْرًا، یَعُودُ عَلَیْهِ، كَمَا لَمْ یُغْنِ هَذَا عَنْ وَلَدِهِ، وَحُرِمَ أَجْرُهُ، عِنْدَ أَفْقَرِ مَا كَانَ إِلَیْهِ، كَمَا حُرِمَ هَذَا جَنَّةَ اللَّهِ عِنْدَ أَفْقَرِ مَا كَانَ إِلَیْهِ عِنْدَ كِبَرِهِ وَضَعْفِ ذُرِّیَّتِهِ،

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ ایک بہت خوبصورت مثال بیان فرمائی ہے اوراس کی بیان فرمودہ ساری مثالیں ہی بہت خوبصورت ہیں ارشادباری تعالیٰ ہے’’ کیاتم میں سے کوئی یہ پسندکرتاہے کہ اس کے پاس ایک ہرابھراباغ ہو،نہروں سے سیراب، کھجوروں اور انگوروں اورہرقسم کے پھلوں سے لدا ہوا۔‘‘اب اسے طاقت نہیں کہ پھرسے اس طرح کاباغ اگاسکے،اس کی اولادکے پاس بھی مال واسباب نہیں کہ وہ اس کی کوئی مددکرسکے ، روزقیامت کافرکوجب اللہ تعالیٰ کے دربارمیں پیش کیاجائے گاتواس کابھی یہی حال ہوگااس کے پاس کوئی نیکی نہیں ہوگی کہ اس کی معذرت کوقبول کرلیاجائے،جیسے کہ مثال میں بیان کیے گئے شخص کے پاس اب طاقت نہیں ہے کہ پہلاساباغ بناسکے، وہ کوئی ایسی نیکی بھی نہیں پائے گاجسے اس نے آگے بھیجاہوکہ اب وہ اس کے کام آسکے جیسے کہ باغ والے کے اس کی اولادکام نہیں آئی، یہ اس وقت اجروثواب سے محروم ہوگاجب اسے اجروثواب کی بے حدضرورت ہوگی، جیسے یہ شخص باغ سے اس وقت محروم ہواجب اسے اس کی اپنے بڑھاپے اوراولادکی کمزوری کی حالت میں شدیدضرورت تھی۔[131]

عَنْ عَائِشَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهَا،أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ كَانَ یَدْعُو:اللهُمَّ اجْعَلْ أَوْسَعَ رِزْقِكَ عَلَیَّ عِنْدَ كِبَرِ سِنِّی وَانْقِطَاعِ عُمْرِی

ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ ﷺیہ دعاکرتے تھے’’ اے اللہ!اپنی روزی کوسب سے زیادہ مجھے اس وقت عنایت فرماجب میری عمربڑی ہوجائے اورختم ہونے کوآئے۔‘‘[132]

اس طرح اللہ اپنی باتیں تمہارے سامنے بیان کرتاہے شایدکہ تم غوروفکرکرو،جیسے فرمایا

وَتِلْكَ الْاَمْثَالُ نَضْرِبُهَا لِلنَّاسِ۝۰ۚ وَمَا یَعْقِلُهَآ اِلَّا الْعٰلِمُوْنَ۝۴۳ [133]

ترجمہ:یہ مثالیں ہم لوگوں کی فہمائش کے لیے دیتے ہیں مگر ان کووہی لوگ سمجھتے ہیں جوعلم رکھنے والے ہیں ۔

‏ یَا أَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا أَنفِقُوا مِن طَیِّبَاتِ مَا كَسَبْتُمْ وَمِمَّا أَخْرَجْنَا لَكُم مِّنَ الْأَرْضِ ۖ وَلَا تَیَمَّمُوا الْخَبِیثَ مِنْهُ تُنفِقُونَ وَلَسْتُم بِآخِذِیهِ إِلَّا أَن تُغْمِضُوا فِیهِ ۚ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ غَنِیٌّ حَمِیدٌ ‎﴿٢٦٧﴾‏ الشَّیْطَانُ یَعِدُكُمُ الْفَقْرَ وَیَأْمُرُكُم بِالْفَحْشَاءِ ۖ وَاللَّهُ یَعِدُكُم مَّغْفِرَةً مِّنْهُ وَفَضْلًا ۗ وَاللَّهُ وَاسِعٌ عَلِیمٌ ‎﴿٢٦٨﴾‏ یُؤْتِی الْحِكْمَةَ مَن یَشَاءُ ۚ وَمَن یُؤْتَ الْحِكْمَةَ فَقَدْ أُوتِیَ خَیْرًا كَثِیرًا ۗ وَمَا یَذَّكَّرُ إِلَّا أُولُو الْأَلْبَابِ ‎﴿٢٦٩﴾‏(البقرة(
’’اے ایمان والو! اپنی پاکیزہ کمائی میں سے اور زمین میں سے تمہارے لیے ہماری نکالی ہوئی چیزوں میں سے خرچ کرو، ان میں سے بری چیزوں کے خرچ کرنے کا قصد نہ کرو جسے تم خود لینے والے نہیں ہو ،ہاں اگر آنکھیں بند کرلو تو، اور جان لو کہ اللہ تعالیٰ بے پرواہ اور خوبیوں والا ہے ،شیطان تمہیں فقیری سے دھمکاتا ہے اور بےحیائی کا حکم دیتا ہے اور اللہ تعالیٰ تم سے اپنی بخشش اور فضل کا وعدہ کرتا ہے اللہ تعالیٰ وسعت والا اور علم والا ہے،وہ جسے چاہے حکمت اور دانائی دیتا ہے اور جو شخص حکمت اور سمجھ دیا جائے وہ بہت ساری بھلائی دیا گیا اور نصیحت صرف عقلمند ہی حاصل کرتے ہیں۔ ‘‘

خراب اورحرام مال کی خیرات مسترد:اے لوگوجوایمان لائے ہو!جوپاکیزہ مال تم نے تجارت وصنعت سے کمائے ہیں اور ہم نے زمین سے جوسوناچاندی اور فصلوں اور باغات کی صورت میں تمہارے لیے نکالاہے اس میں سے بہترین مرغوب طبع اورپسندخاطرعمدہ چیزیں اللہ کی راہ میں خرچ کرو،

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ، قَالَ:قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:أَیُّهَا النَّاسُ، إِنَّ اللهَ طَیِّبٌ لَا یَقْبَلُ إِلَّا طَیِّبًا

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ ﷺنے فرمایااے لوگو!اللہ تعالیٰ پاک ہے اورنہیں قبول کرتامگرپاک مال کو۔[134]

عَنِ البَرَاءِ، {وَلاَ تَیَمَّمُوا الخَبِیثَ مِنْهُ تُنْفِقُونَ} قَالَ: نَزَلَتْ فِینَا مَعْشَرَ الأَنْصَارِ، كُنَّا أَصْحَابَ نَخْلٍ فَكَانَ الرَّجُلُ یَأْتِی مِنْ نَخْلِهِ عَلَى قَدْرِ كَثْرَتِهِ وَقِلَّتِهِ، وَكَانَ الرَّجُلُ یَأْتِی بِالقِنْوِ وَالقِنْوَیْنِ فَیُعَلِّقُهُ فِی الْمَسْجِدِ، وَكَانَ أَهْلُ الصُّفَّةِ لَیْسَ لَهُمْ طَعَامٌ، فَكَانَ أَحَدُهُمْ إِذَا جَاعَ أَتَى القِنْوَ فَضَرَبَهُ بِعَصَاهُ فَیَسْقُطُ مِنَ البُسْرِ وَالتَّمْرِ فَیَأْكُلُ، وَكَانَ نَاسٌ مِمَّنْ لاَ یَرْغَبُ فِی الخَیْرِ یَأْتِی الرَّجُلُ بِالقِنْوِ فِیهِ الشِّیصُ وَالحَشَفُ وَبِالقِنْوِ قَدْ انْكَسَرَ فَیُعَلِّقُهُ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَبَارَكَ تَعَالَى: {یَا أَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا أَنْفِقُوا مِنْ طَیِّبَاتِ مَا كَسَبْتُمْ وَمِمَّا أَخْرَجْنَا لَكُمْ مِنَ الأَرْضِ وَلاَ تَیَمَّمُوا الخَبِیثَ مِنْهُ تُنْفِقُونَ وَلَسْتُمْ بِآخِذِیهِ إِلاَّ أَنْ تُغْمِضُوا فِیهِ} قَالُوا: لَوْ أَنَّ أَحَدَكُمْ أُهْدِیَ إِلَیْهِ مِثْلُ مَا أَعْطَى، لَمْ یَأْخُذْهُ إِلاَّ عَلَى إِغْمَاضٍ أَوْ حَیَاءٍ. قَالَ: فَكُنَّا بَعْدَ ذَلِكَ یَأْتِی أَحَدُنَا بِصَالِحِ مَا عِنْدَهُ.

براءبن عازب رضی اللہ عنہ سے مروی ہےیہ آیت’’ ان میں سے بری چیزوں کے خرچ کرنے کا قصد نہ کرو جسے تم خود لینے والے نہیں ہو۔‘‘ ہمارے انصاربھائیوں کے لئے نازل ہوئی تھی کیونکہ ان کےکھجوروں کے باغ تھے کھجوروں کی کٹائی کے وقت بعض انصاراپنی اپنی وسعت کے مطابق(صدقہ کے طورپر) کھجوریں لاتے اوربعض ایک یادو خوشے لاکرمسجدکےستونوں کے درمیان لٹکی ہوئی رسی سے لٹکادیتےاوراہل صفہ کاکہیں سے کھانامقرر نہیں تھاچنانچہ اصحاب صفہ اورمسکین مہاجربھوک کے وقت خوشے کے پاس آتااوراس پراپنی لاٹھی مارتاجس سے پکی ہوئی چند کھجوریں گرپڑتیں جسے اٹھاکروہ کھالیتا، اوربعض لوگ جن کو صدقہ کی رغبت کم تھی وہ اس میں خراب اورنکمی کھجورکاایک خوشہ لٹکادیتےجس پراللہ تعالیٰ نےیہ آیت نازل فرمائی’’ اے لوگوجوایمان لائے ہو،جومال تم نے کمائے ہیں اورجوکچھ ہم نے زمین سے تمہارے لیے نکالاہے اس میں سے بہترحصہ راہ خدامیں خرچ کرو،ایسا نہ ہوکہ اس کی راہ میں دینے کے لیے بری سے بری چیزچھانٹنے کی کوشش کرنے لگوحالانکہ وہی چیزاگرکوئی تمہیں دے توتم ہرگزاسے لیناگورانہ کروگے الایہ کہ اس کوقبول کرنے میں تم اغماض برت جاؤ۔‘‘اس کے نازل ہونے کے بعدہم میں سے ہرشخص بہتر سے بہترچیزلاتاتھا۔[135]

عَنْ عَلِیِّ بْنِ أَبِی طَلْحَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، {وَلَسْتُمْ بِآخِذِیهِ إِلَّا أَنْ تُغْمِضُوا فِیهِ}[136] یَقُولُ: لَوْ كَانَ لَكُمْ عَلَى أَحَدٍ حَقٌّ، فَجَاءَكُمْ بِحَقٍّ دُونَ حَقِّكُمْ وَلَمْ تَأْخُذُوهُ بِحِسَابِ الْجَیِّدِ، حَتَّى تُنْقِصُوهُ قَالَ: فَذَلِكَ قَوْلُهُ {إِلَّا أَنْ تُغْمِضُوا فِیهِ} [137]

فَكَیْفَ تَرْضَوْنَ لِی مَا لَا تَرْضَوْنَ لِأَنْفُسِكُمْ وَحَقِّی عَلَیْكُمْ مِنْ أَطْیَبِ أَمْوَالِكُمْ وَأَنْفَسِهِ؟

علی بن ابوطلحہ نے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے’’ حالانکہ وہی چیز اگر کوئی تمہیں دے، تو تم ہرگز اسے لینا گوارا نہ کرو گے اِلّا یہ کہ اس کو قبول کرنے میں تم اغماض برت جاؤ۔‘‘کے بارے میں روایت کیاہے اگرتمہاراکسی پرکوئی حق ہواوروہ اس سے جتناتمہاراحق بنتاہے کم لے کرآئے توتم اسے کم سمجھتے ہوئے نہیں لوگے حتی کہ اسے ناقص قراردوگے، فرمایا’’اور اسے ناقص قراردوگے۔‘‘کے یہی معنی ہیں ، چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتاہے کہ تم میرے لیے اس چیزکوکیسے پسندکرتے ہوجسے تم اپنے لیے پسندنہیں کرتے میراتم پرحق یہ ہے کہ اپنے پاکیزہ اورعمدہ ترین مال کومیرے لیے خرچ کرو۔[138]

اوراللہ تعالیٰ نے ایک مقام پر فرمایا

لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتّٰى تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَ۔۔۔ ۝۹۲        [139]

ترجمہ:تم نیکی کو نہیں پہنچ سکتے جب تک کہ اپنی وہ چیزیں (اللہ کی راہ میں ) خرچ نہ کرو جنہیں تم عزیز رکھتے ہو۔

ایک مقام پرفرمایا

لَنْ یَّنَالَ اللهَ لُحُوْمُهَا وَلَا دِمَاۗؤُهَا وَلٰكِنْ یَّنَالُهُ التَّقْوٰی مِنْكُمْ۔۔۔۝۰ ۝۳۷ [140]

ترجمہ:نہ ان کے گوشت اللہ کوپہنچتے ہیں نہ خون،مگراسے تمہاراتقویٰ پہنچتاہے۔

تمہیں جان لیناچاہیے کہ اللہ تعالیٰ تمہارے صدقات سےبے نیازہے اوربہترین صفات سے متصف ہے ، اگراللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہوتوشیطان تمہارے دل میں وسوسے ڈالتاہے اورتمہیں مفلسی سے ڈراتاہے اورنیک کاموں سے روک کربے حیائیوں اور بدکاریوں کی رغبت دلاتاہے ،گناہوں پر، نافرمانیوں پر،حرام کاریوں پراورمخالفت حق پر اکساتا ہےاور ان برے کاموں کو سجا اورسنوارکرپیش کرتا ہے،جیسے فرمایا

 اِنَّ الشَّیْطٰنَ لَكُمْ عَدُوٌّ فَاتَّخِذُوْهُ عَدُوًّا۝۰ۭ اِنَّمَا یَدْعُوْا حِزْبَهٗ لِیَكُوْنُوْا مِنْ اَصْحٰبِ السَّعِیْرِ۝۶ۭ       [141]

ترجمہ:درحقیقت شیطان تمہارا دشمن ہے اس لیے تم بھی اسے اپنا دشمن ہی سمجھو وہ تو اپنے پیروں کو اپنی راہ پر اس لیے بلا رہا ہے کہ وہ دوزخیوں میں شامل ہو جائیں ۔

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّ لِلشَّیْطَانَ لِمَّةً بِابْنِ آدَمَ، وَلِلْمَلَائِكَةِ لِمَّةً، فَأَمَّا لِمَّةُ الشَّیْطَانِ فَإِیعَادٌ بِالشَّرِّ، وَتَكْذِیبٌ بِالْحَقِّ، وَأَمَّا لِمَّةُ الْمَلَائِكَةِ فَإِیعَادٌ بِالْخَیْرِ، وَتَصْدِیقٌ بِالْحَقِّ، فَمَنْ وَجَدَ مِنْ ذَلِكَ فَلْیَعْلَمْ أَنَّهُ مِنَ اللَّهِ فَلْیَحْمَدِ اللَّهَ، وَمَنْ وَجَدَ الْأُخْرَى فَلْیَتَعَوَّذْ بِاللَّهِ مِنَ الشَّیْطَانِ. ثُمَّ قَرَأَ: {الشَّیْطَانُ یَعِدُكُمُ الْفَقْرَ وَیَأْمُرُكُمْ بِالْفَحْشَاءِ وَاللَّهُ یَعِدُكُمْ مَغْفِرَةً مِنْهُ وَفَضْلًا} [142]

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایابے شک شیطان کی بھی ابن آدم سے قربت ہے اورفرشتے کی بھی قربت ہے، شیطان کی قربت یہ ہے کہ وہ انسان کوشرکی طرف لوٹاتاہے اوراس سے حق کی تکذیب کرواتاہے اورفرشتے کی قربت یہ ہے کہ وہ اسے نیکی کی طرف لوٹاتاہے اوراس سے حق کی تصدیق کرواتاہے، جوشخص اسے (فرشتے کی قربت)پائے تووہ جان لے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے اوراللہ تعالیٰ کی حمدوثنابیان کرے اوراگرکوئی دوسری صورت پائے تووہ شیطان سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگے، پھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کریمہ’’شیطان تمہیں فقیری سے دھمکاتا ہے اور بےحیائی کا حکم دیتا ہے اور اللہ تعالیٰ تم سے اپنی بخشش اور فضل کا وعدہ کرتا ہے اللہ تعالیٰ وسعت والا اور علم والا ہے۔‘‘ کی تلاوت فرمائی۔ [143]

مگر اللہ تمہیں گناہوں سے پاک کرنے کااورفضل کی امیددلاتاہے،جس سے دنیا اور آخرت میں تمہارابھلاہوگا،اللہ بڑافراخ دست اوردانا ہے، جس کوچاہتاہے صحیح بصیرت اورصحیح قوت فیصلہ عطا کرتاہے،

عَنْ عَلِیٍّ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، فِی قَوْلِهِ: {وَمَنْ یُؤْتَ الْحِكْمَةَ فَقَدْ أُوتِیَ خَیْرًا كَثِیرًا} [144] یَعْنِی الْمَعْرِفَةَ بِالْقُرْآنِ، نَاسِخِهِ وَمَنْسُوخِهِ، وَمُحْكَمِهِ وَمُتَشَابِهِهِ، وَمُقَدَّمِهِ وَمُؤَخِّرِهِ، وَحَلَالِهِ وَحَرَامِهِ، وَأَمْثَالِهِ

علی بن ابوطلحہ نے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے آیت کریمہ’’ اور جو شخص حکمت اور سمجھ دیا جائے وہ بہت ساری بھلائی دیا گیا ۔‘‘ کے بارے میں روایت کیاہےیہاں حکمت سے مرادقرآن کریم اوراس کے ناسخ ومنسوخ،حکم ومتشابہ،مقدم وموخر،حلال وحرام اورامثال کی پہچان ہے۔[145]

اورجس کوصحیح بصیرت اورصحیح قوت فیصلہ ملی اسے حقیقت میں بڑی دولت مل گئی،

عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: سَمِعْتُ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَقُولُ: لاَ حَسَدَ إِلَّا فِی اثْنَتَیْنِ،رَجُلٍ آتَاهُ اللهُ مَالًا، فَسَلَّطَهُ عَلَى هَلَكَتِهِ فِی الحَقِّ، وَرَجُلٍ آتَاهُ اللهُ حِكْمَةً، فَهُوَ یَقْضِی بِهَا وَیُعَلِّمُهَا

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے میں نےنبی کریمﷺکو فرماتے ہوئے سنادوشخصوں پر رشک کرنا جائز ہےایک وہ جس کو اللہ نے مال دیااوروہ اسے راہ حق میں خرچ کرتاہے،دوسراوہ جسے اللہ نے حکمت ودانش اورعلم سے نوازرکھاہواور وہ اسی کے مطابق فیصلے کرتاہو اورلوگوں کواس کی تعلیم دیتا ہو۔[146]

وعظ ونصیحت سے صرف وہی لوگ سبق لیتے ہیں جواصحاب عقل ودانش ہوں ۔

وَمَا أَنفَقْتُم مِّن نَّفَقَةٍ أَوْ نَذَرْتُم مِّن نَّذْرٍ فَإِنَّ اللَّهَ یَعْلَمُهُ ۗ وَمَا لِلظَّالِمِینَ مِنْ أَنصَارٍ ‎﴿٢٧٠﴾‏ إِن تُبْدُوا الصَّدَقَاتِ فَنِعِمَّا هِیَ ۖ وَإِن تُخْفُوهَا وَتُؤْتُوهَا الْفُقَرَاءَ فَهُوَ خَیْرٌ لَّكُمْ ۚ وَیُكَفِّرُ عَنكُم مِّن سَیِّئَاتِكُمْ ۗ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِیرٌ ‎﴿٢٧١﴾‏ (البقرة(
’’تم جتنا کچھ خرچ کرو یعنی خیرات اور جو کچھ نذر مانو اسے اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہےاور ظالموں کا کوئی مددگار نہیں،اگر تم صدقے خیرات کو ظاہر کرو تو وہ بھی اچھا ہے اور اگر تم اسے پوشیدہ پوشیدہ مسکینوں کو دے دو تو یہ تمہارے حق میں بہتر ہے، اللہ تعالیٰ تمہارے گناہوں کو مٹا دے گا اور اللہ تعالیٰ تمہارے تمام اعمال کی خبر رکھنے والا ہے۔ ‘‘

تم نے جوکچھ بھی اللہ کی راہ میں خرچ کیاہویاشیطان کی راہ میں ،اورجونذربھی مانی ہوخواہ وہ اللہ کے لئے مانی ہویاغیراللہ کے لئے دونوں صورتوں میں تمہاری نیت اوراس فعل سےاللہ خوب باخبرہے ،جن لوگوں نے اللہ کی راہ میں خرچ کیاہوگایااس کی کی خاطرنذرمانی ہوگی اللہ انہیں اس کااجربڑھاچڑھاکرعطافرمائے گااورجولوگ شیطانی راہوں میں خرچ کریں گے اورغیراللہ کی خوشنودی کے لئے نذریں مانی ہوں گی ایسے ظالموں کواللہ کے دردناک عذاب سے بچانے والاکوئی نہیں ہوگا،اگرلوگوں کوترغیب دلانے کے لئےاپنے صدقات علانیہ دوتویہ بھی اچھاہے لیکن اگر حاجت مندوں کوچھپا کردوتاکہ ان کی عزت نفس مجروح نہ ہوتویہ تمہارے حق میں زیادہ بہترہے،

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:سَبْعَةٌ یُظِلُّهُمُ اللَّهُ فِی ظِلِّهِ، یَوْمَ لاَ ظِلَّ إِلَّا ظِلُّهُ: الإِمَامُ العَادِلُ، وَشَابٌّ نَشَأَ فِی عِبَادَةِ رَبِّهِ، وَرَجُلٌ قَلْبُهُ مُعَلَّقٌ فِی المَسَاجِدِ، وَرَجُلاَنِ تَحَابَّا فِی اللَّهِ اجْتَمَعَا عَلَیْهِ وَتَفَرَّقَا عَلَیْهِ، وَرَجُلٌ طَلَبَتْهُ امْرَأَةٌ ذَاتُ مَنْصِبٍ وَجَمَالٍ، فَقَالَ: إِنِّی أَخَافُ اللَّهَ، وَرَجُلٌ تَصَدَّقَ، أَخْفَى حَتَّى لاَ تَعْلَمَ شِمَالُهُ مَا تُنْفِقُ یَمِینُهُ، وَرَجُلٌ ذَكَرَ اللَّهَ خَالِیًا فَفَاضَتْ عَیْنَاهُ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاسات طرح کے آدمی ہوں گے جن کواللہ تعالیٰ اپنے سایہ میں جگہ دے گاجس دن اس کے سایہ کے سوااورکوئی سایہ نہ ہوگااول انصاف کرنے والابادشاہ،دوسرا وہ نوجوان جواپنے رب کی عبادت میں جوانی کی امنگ سے مصروف رہا،تیسراایساشخص جس کادل ہروقت مسجدمیں لگا رہتا ہے، چوتھا دوایسے شخص جواللہ کے لئے باہم محبت رکھتے ہیں اوران کے ملنے اورجداہونے کی بنیاد للٰہی محبت ہوتی ہے،پانچواں وہ شخص جسے کسی باعزت اورحسین عورت نے(برے ارادہ سے)بلایالیکن اس نے کہہ دیاکہ میں اللہ سے ڈرتاہوں ،چھٹاوہ شخص جس نے صدقہ کیامگراتنے پوشیدہ طورپرکہ بائیں ہاتھ کوبھی خبرنہیں ہوئی کہ داہنے ہاتھ نے کیاخرچ کیا اور ساتواں وہ شخص جس نے تنہائی میں اللہ کو یاد کیا اور (بے ساختہ)آنکھوں سے آنسوجاری ہوگئے۔ [147]

عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ الْجُهَنِیِّ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:الْجَاهِرُ بِالْقُرْآنِ، كَالْجَاهِرِ بِالصَّدَقَةِ، وَالْمُسِرُّ بِالْقُرْآنِ، كَالْمُسِرِّ بِالصَّدَقَةِ

عقبہ بن عامرجھنی سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاقرآن کو اونچی آوازسے پڑھنے والاایساہے جیسے کوئی دکھاکرصدقہ کرے اوردھیمی آوازسے قرآن پڑھنے والاایسے ہے جیسے کوئی مخفی طورپرصدقہ دے۔[148]

علانیہ صدقہ وخیرات کرو یاچھپاکردونوں صورتوں میں اللہ تعالیٰ تمہاری خطاؤں اوربرائیوں کو دور کردے گااورتمہارے درجات بڑھائے گا،اورجوکچھ تم کرتے ہواورجس نیت بھی کرتے ہواللہ کو بہرحال اس کی خبرہے اوراسی کے مطابق ہی ترازوعدل میں وزن ڈالے گا۔

[1] النساء ۴

[2] النساء ۲۴

[3] الممتحنة۱۰

[4] النساء ۲۰

[5] سنن ابوداودکتاب النکاح بَابٌ فِی التَّزْوِیجِ عَلَى الْعَمَلِ یَعْمَلُ۲۱۱۱،جامع ترمذی ابواب النکاح بَابُ مَا جَاءَ فِی مُهُورِ النِّسَاءِ ۱۱۱۴،سنن نسائی کتاب النکاح بَابُ التَّزْوِیجِ عَلَى سُوَرٍ مِنَ الْقُرْآنِ۳۳۴۴،سنن ابن ماجہ کتاب النکاح بَابُ صَدَاقِ النِّسَاءِ۱۸۹۰ ،صحیح ابن حبان ۴۰۹۳، سنن الکبریٰ للبیہقی۱۳۸۱۸، مسند احمد ۲۲۸۵۰

[6] صحیح مسلم کتاب النکاح بَابُ الصَّدَاقِ، وَجَوَازِ كَوْنِهِ تَعْلِیمَ قُرْآنٍ، وَخَاتَمَ حَدِیدٍ، وَغَیْرَ ذَلِكَ مِنْ قَلِیلٍ وَكَثِیرٍ، وَاسْتِحْبَابِ كَوْنِهِ خَمْسَمِائَةِ دِرْهَمٍ لِمَنْ لَا یُجْحِفُ بِهِ ۳۴۸۷

[7] صحیح بخاری کتاب النکاح بَابُ مَنْ جَعَلَ عِتْقَ الأَمَةِ صَدَاقَهَا ۵۰۸۶

[8] صحیح مسلم کتاب النکاح بَابُ الصَّدَاقِ، وَجَوَازِ كَوْنِهِ تَعْلِیمَ قُرْآنٍ، وَخَاتَمَ حَدِیدٍ، وَغَیْرَ ذَلِكَ مِنْ قَلِیلٍ وَكَثِیرٍ، وَاسْتِحْبَابِ كَوْنِهِ خَمْسَمِائَةِ دِرْهَمٍ لِمَنْ لَا یُجْحِفُ بِهِ۳۴۸۹،سنن ابوداودکتاب النکاح بَابُ الصَّدَاقِ ۲۱۰۵،سنن نسائی کتاب النکاح باب الْقِسْطُ فِی الْأَصْدِقَةِ ۳۳۴۹،سنن ابن ماجہ کتاب النکاح باب صداق النساء۱۸۸۷ ،مسنداحمد۲۴۶۲۴،سنن الدارمی ۲۲۴۵

[9] سنن ابوداودکتاب النکاح بَابُ قِلَّةِ الْمَهْرِ۲۱۰۹

[10] المغنی لابن قدامة۴۹؍۷

[11] سنن ابن ماجہ کتاب النکاح باب صداق النسائ۱۸۸۹،جامع ترمذی ابواب النکاح باب ماجاء فی مھورالنسائ۱۱۱۳، مسند احمد ۱۵۶۹۱

[12] المغنی ۲۱۱؍۷، بدائع الصنائع ۳۰۷؍۲ ، الام۲۳۵؍۷، نیل الاوطار ۱۹۹؍۶

[13] سنن الدارقطنی۳۶۰۱، السنن الکبری للبیھقی ۱۳۷۶۱

[14] نیل الاوطار۱۹۹؍۶

[15] الروضة الندیة ۳۷؍۲

[16] تحفة الاحوذی۲۱۲؍۴

[17] سنن سعید بن منصور ۵۹۸

[18] مستدرک حاکم ۲۷۴۲ ،السنن الکبری للبیہقی ۱۴۳۳۲

[19] صحیح مسلم کتاب النکاح بَابُ نَدْبِ النَّظَرِ إِلَى وَجْهِ الْمَرْأَةِ وَكَفَّیْهَا لِمَنْ یُرِیدُ تَزَوُّجَهَا۳۴۸۶

[20] سنن ابوداود کتاب النکاح بَابُ الصَّدَاقِ۲۱۰۶،سنن نسائی کتاب النکاح باب الْقِسْطُ فِی الْأَصْدِقَةِ۳۳۵۱،جامع ترمذی ابواب النکاح بَابُ مَا جَاءَ فِی مُهُورِ النِّسَاءِ ۱۱۱۴، مسنداحمد ۲۸۵، صحیح ابن حبان۴۶۲۰،سنن الدارمی ۲۲۴۶ ، مستدرک حاکم۲۷۲۵

[21] النساء۲۰

[22] سنن ابوداودکتاب النکاح بَابُ الصَّدَاقِ۲۱۰۸

[23] سنن ابوداودکتاب النکاح بَابٌ فِیمَنْ تَزَوَّجَ وَلَمْ یُسَمِّ صَدَاقًا حَتَّى مَاتَ۲۱۱۷،مستدرک حاکم۲۷۴۲

[24]صحیح ابوداودکتاب النکاح بَابٌ فِیمَنْ تَزَوَّجَ وَلَمْ یُسَمِّ صَدَاقًا حَتَّى مَاتَ ۲۱۱۶،جامع ترمذی ابواب النکاح بَابُ مَا جَاءَ فِی الرَّجُلِ یَتَزَوَّجُ الْمَرْأَةَ فَیَمُوتُ عَنْهَا قَبْلَ أَنْ یَفْرِضَ لَهَا۱۱۴۵،سنن نسائی کتاب النکاح باب إِبَاحَةُ التَّزَوُّجِ بِغَیْرِ صَدَاقٍ۳۳۵۶ ،سنن ابن ماجہ کتاب النکاح بَابُ الرَّجُلِ یَتَزَوَّجُ وَلَا یَفْرِضُ لَهَا فَیَمُوتُ عَلَى ذَلِكَ ۱۸۹۲،مصنف عبدالرزاق۱۰۸۹۸،صحیح ابن حبان ۴۱۰۰،مستدرک حاکم ۲۷۳۸،سنن الکبریٰ للبیہقی۱۴۴۱۲، مسنداحمد۴۲۷۶ ،سنن الدارمی۲۲۹۲

[25] نیل الاوطار ۲۰۵؍۶

[26] المغنی۱۷۷؍۷

[27] سنن ابوداودکتاب النکاح بَابٌ فِی الرَّجُلِ یَدْخُلُ بِامْرَأَتِهِ قَبْلَ أَنْ یَنْقُدَهَا شَیْئًا۲۱۲۵

[28] سنن ابوداودکتاب النکاح بَابٌ فِی الرَّجُلِ یَدْخُلُ بِامْرَأَتِهِ قَبْلَ أَنْ یَنْقُدَهَا شَیْئًا ۲۱۲۶

[29] سنن ابوداودکتاب النکاح بَابٌ فِی الرَّجُلِ یَدْخُلُ بِامْرَأَتِهِ قَبْلَ أَنْ یَنْقُدَهَا شَیْئًا۲۱۲۸

[30] مستدرک حاکم۲۷۴۳

[31] صحیح بخاری کتاب الادب بَابُ قَوْلِ اللهِ تَعَالَى وَوَصَّیْنَا الإِنْسَانَ بِوَالِدَیْهِ حُسْنًا۵۹۷۰،صحیح مسلم کتاب الایمان بَابُ بَیَانِ كَوْنِ الْإِیمَانِ بِاللهِ تَعَالَى أَفْضَلَ الْأَعْمَالِ ۲۵۲

[32] سنن ابوداود کتاب الصلاة بَابٌ فِی الْمُحَافَظَةِ عَلَى وَقْتِ الصَّلَوَاتِ ۴۲۶، جامع ترمذی کتاب الصلاة بَابُ مَا جَاءَ فِی الوَقْتِ الأَوَّلِ مِنَ الفَضْلِ۱۷۰،مسند احمد ۲۷۱۰۳

[33] صحیح بخاری کتاب الدعوات بَابُ الدُّعَاءِ عَلَى المُشْرِكِینَ ۶۳۹۶،صحیح مسلم كِتَابُ الْمَسَاجِدِ وَمَوَاضِعِ الصَّلَاةَبَابُ الدَّلِیلِ لِمَنْ قَالَ الصَّلَاةُ الْوُسْطَى هِیَ صَلَاةُ الْعَصْرِ۱۴۲۰

[34] جامع ترمذی کتاب الصلاة بَابُ مَا جَاءَ فِی صَلاَةِ الوُسْطَى أَنَّهَا العَصْرُ۱۸۲، مسنداحمد۶۱۷

[35] صحیح بخاری کتاب مواقیت الصلاة بَابُ إِثْمِ مَنْ فَاتَتْهُ العَصْرُ ۵۵۲،صحیح مسلم كِتَابُ الْمَسَاجِدِ وَمَوَاضِعِ الصَّلَاةَبَابُ التَّغْلِیظِ فِی تَفْوِیتِ صَلَاةِ الْعَصْرِ۱۴۱۷

[36] مسنداحمد۲۳۰۵۵،سنن ابن ماجہ كِتَابُ الصَّلَاةِ بَابُ مِیقَاتِ الصَّلَاةِ فِی الْغَیْمِ ۶۹۴

[37] تفسیرابن کثیر۶۴۸؍۱

[38] صحیح بخاری کتاب العَمَلِ فِی الصَّلاَةِ بَابُ مَا یُنْهَى عَنْهُ مِنَ الكَلاَمِ فِی الصَّلاَةِ۱۲۰۰

[39] صحیح بخاری کتاب العمل فی الصلاةبَابُ مَا یُنْهَى عَنْهُ مِنَ الكَلاَمِ فِی الصَّلاَةِ۱۱۹۹،صحیح مسلم كِتَابُ الْمَسَاجِدِ وَمَوَاضِعِ الصَّلَاةَ بَابُ تَحْرِیمِ الْكَلَامِ فِی الصَّلَاةِ، وَنَسْخِ مَا كَانَ مِنْ إِبَاحَتِهِ۱۲۰۱

[40] صحیح مسلم کتاب الصلوة بَابُ تَحْرِیمِ الْكَلَامِ فِی الصَّلَاةِ، وَنَسْخِ مَا كَانَ مِنْ إِبَاحَتِهِ عن معاویہ بن حکم۱۱۹۹،سنن ابوداودکتاب الصلاة بَابُ تَشْمِیتِ الْعَاطِسِ فِی الصَّلَاةِ ۹۳۰

[41]صحیح بخاری کتاب صلوٰة الخوف بَابُ صَلاَةِ الخَوْفِ رِجَالًا وَرُكْبَانًا رَاجِلٌ قَائِمٌ ۹۴۳،صحیح مسلم کتاب فضائل القرآن بَابُ صَلَاةِ الْخَوْفِ ۱۹۴۴

[42] موطاامام مالک صَلاَةُ الْخَوْفِ،صحیح بخاری كِتَابُ تَفْسِیرِ القُرْآنِ بَابُ قَوْلِهِ عَزَّ وَجَلَّ: فَإِنْ خِفْتُمْ فَرِجَالًا أَوْ رُكْبَانًا فَإِذَا أَمِنْتُمْ فَاذْكُرُوا اللهَ كَمَا ۴۵۳۵

[43] صحیح مسلم كِتَابُ صَلَاةِ الْمُسَافِرِینَ وَقَصْرِهَا بَابُ صَلَاةِ الْمُسَافِرِینَ وَقَصْرِهَا ۱۵۷۵،سنن ابوداودکتاب بَابُ مَنْ قَالَ: یُصَلِّی بِكُلِّ طَائِفَةٍ رَكْعَةً وَلَا یَقْضُونَ ۱۲۴۷ ،سنن نسائی كِتَابُ الصَّلَاةِ بَابُ كَیْفَ فُرِضَتِ الصَّلَاةُ۴۵۶

[44] صحیح بخاری أَبْوَابُ صَلاَةِ الخَوْفِ بَابُ الصَّلاَةِ عِنْدَ مُنَاهَضَةِ الحُصُونِ وَلِقَاءِ العَدُوِّ۹۴۵

[45] البقرة: 234

[46] صحیح بخاری کتاب التفسیرسورة البقرة بَابُ وَالَّذِینَ یُتَوَفَّوْنَ مِنْكُمْ وَیَذَرُونَ أَزْوَاجًا یَتَرَبَّصْنَ بِأَنْفُسِهِنَّ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا ۴۵۳۰،۴۵۳۱

[47] تفسیرابن ابی حاتم۴۵۱؍۲

[48] الْبَقَرَةِ:236

[49] تفسیرابن کثیر۶۶۰؍۱

[50] تفسیرابن کثیر۶۰۰؍۱

[51] صحیح بخاری کتاب الطب بَابُ مَا یُذْكَرُ فِی الطَّاعُونِ۵۷۲۹،صحیح مسلم کتاب السلام بَابُ الطَّاعُونِ وَالطِّیَرَةِ وَالْكَهَانَةِ وَنَحْوِهَا ۵۷۸۴

[52] صحیح مسلم کتاب السلام بَابُ الطَّاعُونِ وَالطِّیَرَةِ وَالْكَهَانَةِ وَنَحْوِهَا ۵۷۷۲،جامع ترمذی ابواب الجنائزبَابُ مَا جَاءَ فِی كَرَاهِیَةِ الفِرَارِ مِنَ الطَّاعُونِ ۱۰۶۵

[53] آل عمران۱۶۸

[54] النساء۷۷،۷۸

[55] تفسیرابن کثیر۶۶۲؍۱،الاستیعاب فی معرفة الأصحاب۴۳۰؍۲، تاریخ دمشق لابن عساکر۲۷۳؍۱۶

[56] صحیح مسلم كِتَابُ صَلَاةِ الْمُسَافِرِینَ وَقَصْرِهَا بَابُ التَّرْغِیبِ فِی الدُّعَاءِ وَالذِّكْرِ فِی آخِرِ اللیْلِ، وَالْإِجَابَةِ فِیهِ۱۷۷۵

[57] البقرة۲۶۱

[58] البقرة۲۱۲

[59] آل عمران۳۷

[60]النور۳۸

[61] آل عمران۲۶

[62] تفسیر طبری۲۳۱؍۵

[63] تفسیرطبری۳۳۳؍۵

[64] تفسیر طبری۳۳۵؍۵

[65] تفسیرطبری۳۳۵؍۵

[66] تفسیرطبری ۳۳۵؍۵

[67] تفسیرطبری ۳۴۰؍۵،تفسیرابن کثیر۶۶۸؍۱

[68] تفسیرطبری۳۴۵؍۵

[69] صحیح بخاری کتاب المغازی بَابُ عِدَّةِ أَصْحَابِ بَدْرٍ ۳۹۵۷

[70] مستدرک حاکم۴۱۳۵

[71] الحج۴۰

[72] بنی اسرائیل۵۵

[73] آل عمران۴۹

[74] المومنون۱۰۱،۱۰۲

[75] تفسیرابن ابی حاتم۴۸۵؍۲

[76] مسند احمد ۲۱۲۷۸،صحیح مسلم كِتَابُ صَلَاةِ الْمُسَافِرِینَ وَقَصْرِهَا بَابُ فَضْلِ سُورَةِ الْكَهْفِ، وَآیَةِ الْكُرْسِیِّ۱۸۸۵

[77] مسنداحمد۲۳۵۹۲،جامع ترمذی أَبْوَابُ فَضَائِلِ الْقُرْآنِ باب ۲۸۸۰

[78] جامع ترمذی أَبْوَابُ فَضَائِلِ الْقُرْآنِ باب۲۸۸۰

[79] صحیح بخاری كِتَاب الوَكَالَةِ بَابُ إِذَا وَكَّلَ رَجُلًا، فَتَرَكَ الوَكِیلُ شَیْئًا فَأَجَازَهُ المُوَكِّلُ فَهُوَ جَائِزٌ، وَإِنْ أَقْرَضَهُ إِلَى أَجَلٍ مُسَمًّى جَازَ۲۳۱۱،عمل الیوم واللیلة للنسائی باب ذِكْرُ مَا یَكُبُّ الْعِفْرِیتَ وَیُطْفِئُ شُعْلَتَهُ ۹۵۹

[80] البقرة: 255

[81] آل عمران: 2

[82] مسنداحمد۲۷۶۱۱،سنن ابوداود أَبْوَابِ الْوِتْرِ بَابُ الدُّعَاءِ۱۴۹۶،جامع ترمذی أَبْوَابُ الدَّعَوَاتِ باب ۳۴۷۸

[83] مسنداحمد۱۱۰۷۴

[84] سنن ابن ماجہ كِتَابُ الدُّعَاءِ بَابُ اسْمِ اللهِ الْأَعْظَمِ ۳۸۵۶، المعجم الکبیرللطبرانی۷۷۵۸،مستدرک حاکم ۱۸۶۱

[85] البقرة: 255

[86] آل عمران: 2

[87] طه: 111

[88] البقرة۲۵۵

[89] آل عمران ۲

[90] طہ۱۱۱

[91] مستدرک حاکم۱۸۶۶

[92] الروم۲۵

[93] صحیح مسلم کتاب الایمان بَابٌ فِی قَوْلِهِ عَلَیْهِ السَّلَامُ: إِنَّ اللهُ لَا یَنَامُ، وَفِی قَوْلِهِ: حِجَابُهُ النُّورُ لَوْ كَشَفَهُ لَأَحْرَقَ سُبُحَاتُ وَجْهِهِ مَا انْتَهَى إِلَیْهِ بَصَرُهُ مِنْ خَلْقِهِ۴۴۵

[94] مریم۹۳تا۹۵

[95] النجم۲۶

[96] الانبیائ۲۸

[97] الإسراء: 79

[98] صحیح بخاری کتاب التوحیدبَابُ قَوْلِ اللهِ تَعَالَى وُجُوهٌ یَوْمَئِذٍ نَاضِرَةٌ إِلَى رَبِّهَا نَاظِرَةٌ ۷۴۴۰،وکتاب الرقاق بَابُ صِفَةِ الجَنَّةِ وَالنَّارِ۶۵۶۵،صحیح مسلم کتاب الایمان بَابُ أَدْنَى أَهْلِ الْجَنَّةِ مَنْزِلَةً فِیهَا۴۷۴،مسنداحمد۱۲۱۵۳

[99] مریم۶۴

[100] مستدرک حاکم۳۱۱۶

[101] تفسیرابن ابی حاتم۴۹۱؍۲

[102] الرعد۹

[103] البقرة: 256

[104] سنن ابوداودكِتَاب الْجِهَادِ بَابٌ فِی الْأَسِیرِ یُكْرَهُ عَلَى الْإِسْلَامِ۲۶۸۲

[105] تفسیرابن کثیر۶۸۲؍۱

[106] تفسیرابن کثیر۶۸۲؍۱

[107] الیل۱۲

[108] الشمس۸

[109] البلد۱۰

[110] القصص۳۸

[111] تفسیرابن ابی حاتم ۴۹۸؍۲

[112] تفسیرطبری۴۳۷؍۵

[113] تفسیرابن ابی حاتم۵۰۰؍۲

[114] تفسیرابن کثیر۶۸۸؍۱

[115] تفسیرابن کثیر۶۸۸؍۱

[116] صحیح بخاری كِتَابُ تَفْسِیرِ القُرْآنِ بَابُ وَإِذْ قَالَ إِبْرَاهِیمُ رَبِّ أَرِنِی كَیْفَ تُحْیِی المَوْتَى ۴۵۳۷

[117] تفسیرابن کثیر۶۹۰؍۱

[118] الانعام۷۵

[119] البقرة ۲۴۵

[120] مسنداحمد۲۲۳۵۷،سنن نسائی كِتَابُ الْجِهَادِ فَضْلُ الصَّدَقَةِ فِی سَبِیلِ اللهِ عَزَّ وَجَلَّ۳۱۸۷

[121] صحیح مسلم كِتَابُ الْإِمَارَةِ بَابُ فَضْلِ الصَّدَقَةِ فِی سَبِیلِ اللهِ وَتَضْعِیفِهَا۴۸۹۷

[122] مسند احمد ۹۷۱۴،صحیح مسلم كِتَاب الصِّیَامِ بَابُ فَضْلِ الصِّیَامِ۲۷۰۴،۲۷۰۵

[123] الانعام۱۶۰

[124] اسدالغابة۳۴۸؍۲

[125] صحیح مسلم کتاب الایمان بَابُ بَیَانِ غِلَظِ تَحْرِیمِ إِسْبَالِ الْإِزَارِ، وَالْمَنِّ بِالْعَطِیَّةِ، وَتَنْفِیقِ السِّلْعَةِ بِالْحَلِفِ، وَبَیَانِ الثَّلَاثَةِ الَّذِینَ لَا یُكَلِّمُهُمُ اللهُ یَوْمَ الْقِیَامَةِ، وَلَا یَنْظُرُ إِلَیْهِمْ، وَلَا یُزَكِّیهِمْ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِیمٌ۲۹۳،سنن ابوداود کتاب اللباس بَابُ مَا جَاءَ فِی إِسْبَالِ الْإِزَارِ ۴۰۸۷، جامع ترمذی ابواب البیوع بَابُ مَا جَاءَ فِیمَنْ حَلَفَ عَلَى سِلْعَةٍ كَاذِبًا ۱۲۱۱،سنن ابن ماجہ کتاب التجارات بَابُ مَا جَاءَ فِی كَرَاهِیَةِ الْأَیْمَانِ فِی الشِّرَاءِ وَالْبَیْعِ ۲۲۰۹

[126] صحیح مسلم کتاب الزکوٰة بَابُ بَیَانِ أَنَّ اسْمَ الصَّدَقَةِ یَقَعُ عَلَى كُلِّ نَوْعٍ مِنَ الْمَعْرُوفِ۲۳۳۵

[127]صحیح مسلم كتاب الْبِرِّ وَالصِّلَةِ وَالْآدَابِ بَابُ اسْتِحْبَابِ طَلَاقَةِ الْوَجْهِ عِنْدَ اللِّقَاءِ۶۶۹۰،جامع ترمذی ابواب الاطعمة بَابُ مَا جَاءَ فِی إِكْثَارِ مَاءِ الْمَرَقَةِ ۱۸۳۳، مسند احمد ۲۱۵۱۹، شعب الایمان ۳۱۸۵،شرح السنة للبغوی ۳۵۰۴

[128] البقرة: 266

[129] صحیح بخاری كِتَابُ تَفْسِیرِ القُرْآنِ بَابُ قَوْلِهِ أَیَوَدُّ أَحَدُكُمْ أَنْ تَكُونَ لَهُ جَنَّةٌ مِنْ نَخِیلٍ وَأَعْنَابٍ ۴۵۳۸

[130] البقرة: 266

[131] تفسیرابن ابی حاتم۵۲۳؍۲

[132] مستدرک حاکم ۱۹۸۷،المعجم الاوسط ۳۶۱۱

[133] العنکبوت۴۳

[134] مسنداحمد۸۳۴۸،صحیح مسلم کتاب الایمان بَابُ قَبُولِ الصَّدَقَةِ مِنَ الْكَسْبِ الطَّیِّبِ وَتَرْبِیَتِهَا۲۳۴۶، جامع ترمذی ابواب تفسیرالقرآن بَابٌ وَمِنْ سُورَةِ البَقَرَةِ۲۹۸۹ ، مصنف عبدالرزاق ۸۸۳۹،شعب الایمان ۱۱۱۸،۵۳۵۳، معجم ابن عساکر۲۴۷

[135] جامع ترمذی ابواب تفسیرالقرآن بَابٌ وَمِنْ سُورَةِ البَقَرَةِ ۲۹۸۷،سنن ابن ماجہ کتاب الزکاة بَابُ النَّهْیِ أَنْ یُخْرِجَ فِی الصَّدَقَةِ شَرَّ مَالِهِ ۱۸۲۲

[136] البقرة: 267

[137] البقرة: 267

[138] تفسیرابن ابی حاتم۵۲۸؍۲

[139] آل عمران ۹۲

[140] الحج۳۷

[141] فاطر۶

[142] البقرة: 268

[143] تفسیرابن ابی حاتم۵۲۹؍۲

[144] البقرة: 269

[145] تفسیرطبری۵۷۶؍۵

[146] صحیح بخاری کتاب الزکوٰة بَابُ إِنْفَاقِ المَالِ فِی حَقِّهِ ۱۴۰۹،صحیح مسلم کتاب الزکوٰة بَابُ فَضْلِ مَنْ یَقُومُ بِالْقُرْآنِ، وَیُعَلِّمُهُ، وَفَضْلِ مَنْ تَعَلَّمَ حِكْمَةً مِنْ فِقْهٍ، أَوْ غَیْرِهِ فَعَمِلَ بِهَا وَعَلَّمَهَا ۱۸۹۶، سنن ابن ماجہ کتاب الزھدبَابُ الْحَسَدِ ۴۲۰۸، مسنداحمد۳۶۵۱

[147] صحیح بخاری کتاب الاذان بابُ مَنْ جَلَسَ فِی المَسْجِدِ یَنْتَظِرُ الصَّلاَةَ وَفَضْلِ المَسَاجِدِ۶۶۰،صحیح مسلم کتاب الزکوٰةبَابُ فَضْلِ إِخْفَاءِ الصَّدَقَةِ ۲۳۸۰

[148] سنن ابوداودکتاب الصلاة بَابٌ فِی رَفْعِ الصَّوْتِ بِالْقِرَاءَةِ فِی صَلَاةِ اللیْلِ۱۳۳۳،جامع ترمذی أَبْوَابُ فَضَائِلِ الْقُرْآنِ بَابُ مَا جَاءَ فِیمَنْ قَرَأَ حَرْفًا مِنَ القُرْآنِ مَالَهُ مِنَ الأَجْرِ۲۹۱۹،سنن نسائی کتاب الزکوٰة بَابُ الْمُسِرِّ بِالصَّدَقَةِ۲۵۶۲،مسنداحمد۱۷۴۴۴،صحیح ابن حبان ۷۳۴،مستدرک حاکم۲۰۳۸، السنن الکبری للبیہقی ۴۷۱۲

Related Articles