ہجرت نبوی کا پہلا سال

عبداللہ بن ابی کامدینہ میں منزلت

حَدَّثَنِی عَاصِمُ بْنُ عُمَرَ بْنِ قَتَادَةَ،وَسَیِّدُ أَهْلِهَا عَبْدُ اللهِ بْنُ أُبَیٍّ (ابْنُ) سَلُولَ الْعَوْفِیُّ.ثُمَّ أَحَدُ بَنِی الْحُبْلَى، لَا یَخْتَلِفُ عَلَیْهِ فِی شَرَفِهِ (مِنْ قَوْمِهِ) اثْنَانِ، لَمْ تَجْتَمِعْ الْأَوْسُ وَالْخَزْرَجُ قَبْلَهُ وَلَا بَعْدَهُ عَلَى رَجُلٍ مِنْ أَحَدِ الْفَرِیقَیْنِ، حَتَّى جَاءَ الْإِسْلَامُ، غَیَّرَهُ، وَمَعَهُ فِی الْأَوْسِ رَجُلٌ، هُوَ فِی قَوْمِهِ مِنْ الْأَوْسِ شَرِیفٌ مُطَاعٌ، أَبُو عَامِرٍ عَبْدُ عَمْرِو بْنِ صَیْفِیِّ بْنِ النُّعْمَانِ، أَحَدُ بَنِی ضُبَیْعَةَ بْنِ زَیْدٍ، وَهُوَ أَبُو حَنْظَلَةَ، الْغَسِیلُ یَوْمَ أُحُدٍ، وَكَانَ قَدْ تَرَهَّبَ فِی الْجَاهِلِیَّةِ وَلَبِسَ الْمُسُوحَ، وَكَانَ یُقَالُ لَهُ:الرَّاهِبُ. فَشَقِیَا بِشَرَفِهِمَا وَضَرَّهُمَا،فَأَمَّا عَبْدُ اللهِ بْنُ أُبَیٍّ فَكَانَ قَوْمُهُ قَدْ نَظَمُوا لَهُ الْخَرَزَ لِیُتَوِّجُوهُ ثُمَّ یُمَلِّكُوهُ عَلَیْهِمْ ،

عاصم بن عمربن قتادہ سے مروی ہےجب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ میں تشریف لائے تویہاں کاسب سے بڑاسردارعبداللہ بن ابی بن سلول عوفی تھاجوبنی حبلی میں سے تھا،قبیلہ اوس اورقبیلہ خزرج دونوں اس کے مطیع فرمان تھےورنہ پہلے کبھی ایسااتفاق نہیں ہواکہ ان دونوں قبیلوں نے ایک شخص پراتفاق کیاہویہاں تک کہ مدینہ منورہ میں اسلام پھیل گیااوراس کے علاوہ قبیلہ اوس میں سے ایک شخص تھاجس کی یہ لوگ اطاعت کرتے تھے اوراس کوسردارمانتے تھےاس کانام ابوعامرعبدعمروبن صیفی بن نعمان تھا جو قبیلہ بنی ضبیعہ بن زیدمیں سے تھا،اوریہی حنظلہ غسیل الملائکہ کاباپ تھاجوغزوہ احدمیں شہیدہوئے،زمانہ جاہلیت میں یہ ابوعامرراہب بن گیاتھااورراہب ہی کہلاتاتھا،عبداللہ بن ابی کے واسطے اس کی قوم نے ایک تاج بنایاتھاجس میں موتی اوررنگ برنگ کی کوڑیاں لگائی تھیں تاکہ اس کااپنابادشاہ بنائیں ،

فَجَاءَهُمْ اللهُ تَعَالَى بِرَسُولِهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، وَهُمْ عَلَى ذَلِكَ، فَلَمَّا انْصَرَفَ قَوْمُهُ عَنْهُ إلَى الْإِسْلَامِ ضَغِنَ ، وَرَأَى أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَدْ اسْتَلَبَهُ مُلْكًا. فَلَمَّا رَأَى قَوْمَهُ قَدْ أَبَوْا إلَّا الْإِسْلَامِ دَخَلَ فِیهِ كَارِهًا مُصِرًّا عَلَى نِفَاقٍ وَضِغْنٍ،وَأَمَّا أَبُو عَامِرٍ فَأَبَى إلَّا الْكُفْرَ وَالْفِرَاقَ لِقَوْمِهِ حِینَ اجْتَمَعُوا عَلَى الْإِسْلَامِ، فَخَرَجَ مِنْهُمْ إلَى مَكَّةَ بِبِضْعَةَ عَشَرَ رَجُلًا مُفَارِقًا لِلْإِسْلَامِ وَلِرَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ كَمَا حَدَّثَنِی مُحَمَّدُ بْنُ أَبِی أُمَامَةَ عَنْ بَعْضِ آلِ حَنْظَلَةَ بْنِ أَبِی عَامِرٍ: لَا تَقُولُوا: الرَّاهِبَ، وَلَكِنْ قُولُوا: الْفَاسِقَ

اسی اثنامیں مدینہ منورہ میں اسلام ظاہرہوااوریہ ساری قوم اسلام کی طرف رجوع ہوگئی، عبداللہ بن ابی کورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کامدینہ منورہ میں تشریف لانااورساری قوم کااس سے برگشتہ ہوکراسلام اختیارکرنابہت ناگوارگزرااوروہ سمجھاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کے سبب سے میری سلطنت کے تیارہونے میں خلل پڑاہے،پھرجب اس نے دیکھاکہ دونوں قبائل اوس وخزرج اسلام قبول کرکے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیادت پرمتفق ہوگئے توتووہ بھی بظاہر مسلمان ہوگیامگردل میں اپنے کینہ اورنفاق کوقائم رکھا اور قریش مکہ کی سازشوں میں ان کاآلہ کاربن کر جہاں بھی اسے موقعہ ملااس نے اپنی دشمنی کااظہارکیا اورابوعامرنے اسلام اختیارنہیں کیابلکہ اپنے چندہم مشرف آدمیوں کوساتھ لے کرمدینہ منورہ سے مکہ مکرمہ چلاگیانبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اس کاذکرہواتوآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااس کوراہب نہ کہوبلکہ فاسق کہو۔[1]

وَكَانَ أَبُو عَامِرٍ یُسَمَّى فِی الْجَاهِلِیَّةِ: الرَّاهِبَ، فَسَمَّاهُ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: الْفَاسِقَ

اورابوعامردورجاہلیت میں راہب کے نام سے مشہورتھارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاابوعامر کوراہب مت کہوبلکہ فاسق کہو ۔[2]

کیونکہ یہ دونوں (ابوعامر،عبداللہ بن ابی) اپنے جاہ وعزت کی وجہ سے بدبختی کاشکارہوئے اوران کی عزت ومرتبہ نے ان کو فائدہ پہنچانے کی بجائے نقصان پہنچایا، دنیا میں دائمی لعنت اور آخرت میں ہمیشہ کے لئے جہنم ۔

 عبداللہ بن ابی کودعوت اسلام کے لئے گھرجانا:

عبداللہ بن ابی مدینہ منورہ میں ایک بااثرشخصیت تھی ، اس کے اثررسوخ کی بناپرصحابہ چاہتے تھے کہ وہ مسلمان ہوجائے ،اس طرح اس کے ساتھ جوگروہ ہے وہ بھی مسلمان ہو جائے گااور دعوت اسلام میں کوئی بڑی روکاوٹ کھڑی نہ ہوگی چنانچہ اس مقصد کے پیش نظرآپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی طرف تشریف لے گئے۔

أَنَّ أَنَسًا رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قِیلَ لِلنَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: لَوْ أَتَیْتَ عَبْدَ اللهِ بْنَ أُبَیٍّ، فَانْطَلَقَ إِلَیْهِ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَرَكِبَ حِمَارًا، فَانْطَلَقَ المُسْلِمُونَ یَمْشُونَ مَعَهُ وَهِیَ أَرْضٌ سَبِخَةٌ،فَلَمَّا أَتَاهُ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: إِلَیْكَ عَنِّی، وَاللهِ لَقَدْ آذَانِی نَتْنُ حِمَارِكَ،فَقَالَ رَجُلٌ مِنَ الأَنْصَارِ مِنْهُمْ: وَاللهِ لَحِمَارُ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَطْیَبُ رِیحًا مِنْكَ، فَغَضِبَ لِعَبْدِ اللهِ رَجُلٌ مِنْ قَوْمِهِ، فَشَتَمَهُ، فَغَضِبَ لِكُلِّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا أَصْحَابُهُ، فَكَانَ بَیْنَهُمَا ضَرْبٌ بِالْجَرِیدِ وَالأَیْدِی وَالنِّعَال فَبَلَغَنَا أَنَّهَا أُنْزِلَتْ: {وَإِنْ طَائِفَتَانِ مِنَ المُؤْمِنِینَ اقْتَتَلُوا فَأَصْلِحُوا بَیْنَهُمَا،[3]

انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی گئی کہ کاش آپ دعوت اسلام کے لئے عبداللہ بن ابی(رئیس المنافقین) کے یہاں تشریف لے چلتے توبہترتھا(رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم توہروقت اس مقصدعظیم کے لئے کمربستہ رہتے تھے،اس لئے آپ نے جانے کی تیاری فرمالی) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک گدھے پرسوارہوکرتشریف لے گئے،( چند جاں نثار)صحابہ بھی آپ کے ہمراہ پیدل چل رہے تھے ،جدھرسے آپ گزررہے تھے وہ شورذدہ زمین تھی، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے گھرپہنچے تو( دعوت اسلام سننے کے بجائے گستاخانہ طورپر) کہنے لگاتم مجھ سے دور ہی رہو تمہارے گدھے کی بونے میرادماغ پریشان کر دیاہے، (انصاری یہ بات سنناکب گوارا کرسکتے تھے)ایک انصاری نے کہااللہ کی قسم !رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا گدھاتجھ سے زیادہ خوشبودارہے، انصاری کے اتنے سخت جواب پر عبداللہ بن ابی کی قوم کے ایک شخص کوبھی غصہ آگیااوردونوں نے ایک دوسرے کوبرابھلاکہا(جب بات تلخ کلامی سے بڑھ گئی)تودونوں طرف سے دونوں کے حمایتی مشتعل ہوگئے اور ہاتھاپائی،چھڑی اور جوتے تک نوبت پہنچ گئی توآیت نازل ہوئی ’’ اگر مسلمانوں کے دوگروہ آپس میں لڑپڑیں تو ان میں صلح کرادو۔‘‘ [4]

رسول اللہﷺکے حکم سے اکثرمسلمان اپنے گھربار ،کاروباراوروالدین وعزیزواقارب کوچھوڑکر ہجرت کرکے دارالسلام پہنچ چکے تھے،مگربعض کمزورحوصلے کے لوگ بھی تھے جنہوں نے اپنے دنیاوی مفادکی خاطرمکہ مکرمہ میں ہی سکونت اختیارکیے رکھی اورہجرت کرکے مدینہ منورہ نہ گئے،اللہ تعالیٰ نے انہیں اس فعل پرتنبیہ فرمائی ۔

 یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوْٓا اٰبَاۗءَكُمْ وَاِخْوَانَكُمْ اَوْلِیَاۗءَ اِنِ اسْتَحَبُّوا الْكُفْرَ عَلَی الْاِیْمَانِ۝۰ۭ وَمَنْ یَّتَوَلَّهُمْ مِّنْكُمْ فَاُولٰۗىِٕكَ هُمُ الظّٰلِمُوْنَ۝۲۳قُلْ اِنْ كَانَ اٰبَاۗؤُكُمْ وَاَبْنَاۗؤُكُمْ وَاِخْوَانُكُمْ وَاَزْوَاجُكُمْ وَعَشِیْرَتُكُمْ وَاَمْوَالُۨ اقْتَرَفْتُمُوْهَا وَتِجَارَةٌ تَخْشَوْنَ كَسَادَهَا وَمَسٰكِنُ تَرْضَوْنَهَآ اَحَبَّ اِلَیْكُمْ مِّنَ اللهِ وَرَسُوْلِهٖ وَجِهَادٍ فِیْ سَبِیْلِهٖ فَتَرَبَّصُوْا حَتّٰی یَاْتِیَ اللهُ بِاَمْرِهٖ۝۰ۭ وَاللهُ لَا یَهْدِی الْقَوْمَ الْفٰسِقِیْنَ۝۲۴ۧ [5]

ترجمہ:اے لوگوجوایمان لائے ہو!اپنے باپوں اوربھائیوں کوبھی اپنارفیق نہ بناؤاگروہ ایمان پرکفرکوترجیح دیں ،تم میں سے جوان کورفیق بنائیں گے وہی ظالم ہوں گے ،اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! کہہ دواگرتمہارے باپ اورتمہارے بیٹے اورتمہارے بھائی اورتمہاری بیویاں اورتمہارے عزیزواقارب اورتمہارے وہ مال جوتم نے کمائے ہیں اورتمہارے وہ کاروبارجن کے ماندپڑجانے کاتم کوخوف ہے اورتمہارے وہ گھرجوتم کوپسندہیں ،تم کواللہ اوراس کے رسول اوراس کی راہ میں جہادسے عزیزہیں توانتظارکرویہاں تک کہ اللہ اپنافیصلہ تمہارے سامنے لے آئے اوراللہ فاسق لوگوں کی رہنمائی نہیں کیاکرتا۔

فرمایاکہ اے ایمان والو! ایمان کے تقاضوں کے مطابق عمل کرو،جوایمان کے تقاضوں کوپوراکرتاہے یعنی اللہ اوراس کے رسول کی محبت کوہرشئے پرمقدم سمجھتاہے اوران کے احکام کی بجاآوری کو ہی اپنی دنیاوی وآخروی نجات کاباعث سمجھتاہے ان کے ساتھ موالات رکھو،اورجوان تقاضوں کوپورانہیں کرتاوہ چاہئے تمہارے باپ ،ماں ،بھائی بہن،بیویاں یاعزیزواقارب ہوں ان سے عداوت رکھو،اللہ کے اس حکم کے بعداگرکسی نے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی جسارت کی اوراللہ تعالیٰ کے دشمنوں سے دوستی کرے گاوہی ظالم ہوگا،جیسے فرمایا

لَا تَجِدُ قَوْمًا یُّؤْمِنُوْنَ بِاللهِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ یُوَاۗدُّوْنَ مَنْ حَاۗدَّ اللهَ وَرَسُوْلَهٗ وَلَوْ كَانُوْٓا اٰبَاۗءَهُمْ اَوْ اَبْنَاۗءَهُمْ اَوْ اِخْوَانَهُمْ اَوْ عَشِیْرَتَهُمْ۝۰ۭ اُولٰۗىِٕكَ كَتَبَ فِیْ قُلُوْبِهِمُ الْاِیْمَانَ وَاَیَّدَهُمْ بِرُوْحٍ مِّنْهُ۝۰ۭ وَیُدْخِلُهُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْهَا۝۰ۭ رَضِیَ اللهُ عَنْهُمْ وَرَضُوْا عَنْهُ۝۰ۭ اُولٰۗىِٕكَ حِزْبُ اللهِ۝۰ۭ اَلَآ اِنَّ حِزْبَ اللهِ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ۝۲۲ۧ     [6]

ترجمہ:تم کبھی یہ نہ پاؤ گے کہ جو لوگ اللہ اور آخرت پر ایمان رکھنے والے ہیں وہ ان لوگوں سے محبت کرتے ہوں جنہوں نے اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کی ہے ، خواہ وہ ان کے باپ ہوں یا ان کے بیٹے یا ان کے بھائی یا ان کے اہلِ خاندان ، یہ وہ لوگ ہیں جن کے دلوں میں اللہ نے ایمان ثبت کر دیا ہے اور اپنی طرف سے ایک رُوح عطا کر کے ان کو قوت بخشی ہے، وہ ان کو ایسی جنّتوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی اِن میں وہ ہمیشہ رہیں گے، اللہ ان سے راضی ہوا اور وہ اللہ سے راضی ہوئے، وہ اللہ کی پارٹی کے لوگ ہیں خبردار ر ہو اللہ کی پارٹی والے ہی فلاح پانے والے ہیں ۔

اورجوکافروں سے ترک موالات نہ کرے انہیں تنبیہ کرتے ہوئے فرمایااے نبی!کہہ دواگرتمہارے باپ اورتمہارے بیٹے اورتمہارے بھائی اورتمہاری بیویاں اور تمہارے عزیزواقارب اورتمہارے وہ مال جوتم نے خون پسینے سے کمائے ہیں اورتمہارے پھیلے ہوئے وہ کاروبارجن کے ماندپڑجانے کاتم کوخوف ہے اورتمہارے وہ آرام دہ اورآراستہ گھرجوتم کوپسندہیں تم کواللہ اوراس کے رسول کی اطاعت اوراللہ کی راہ میں جہادفی سبیل اللہ سے عزیزہیں توانتظارکرویہاں تک کہ اللہ اپنافیصلہ تمہارے سامنے لے آئے اوراللہ فاسق لوگوں کی رہنمائی نہیں کیاکرتا۔

حَدَّثَنِی أَبُو عَقِیلٍ زُهْرَةُ بْنُ مَعْبَدٍ، أَنَّهُ سَمِعَ جَدَّهُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ هِشَامٍ، قَالَ: كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، وَهُوَ آخِذٌ بِیَدِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ، فَقَالَ: وَاللهِ لَأَنْتَ یَا رَسُولَ اللهِ أَحَبُّ إِلَیَّ مِنْ كُلِّ شَیْءٍ إِلَّا مِنْ نَفْسِی، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:لَا یُؤْمِنُ أَحَدُكُمْ حَتَّى أَكُونَ أَحَبَّ إِلَیْهِ مِنْ نَفْسِهِ، فَقَالَ عُمَرُ: فَأَنْتَ الْآنَ وَاللهِ أَحَبُّ إِلَیَّ مِنْ نَفْسِی،فَقَالَ رَسُولُ اللهِ:الْآنَ یَا عُمَرُ

ابوعقیل زہرہ بن معبدنے بیان کیاانہوں نے اپنے داداعبداللہ بن ہشام سے سناانہوں نے بیان کیا ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ بن خطاب کاہاتھ پکڑا ہوا تھا،سیدناعمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیااے اللہ کےرسول ﷺ!سوئےاپنی جان کےآپ مجھے ہرچیزسے زیادہ عزیزہیں ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایانہیں ،اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے(ایمان اس وقت تک مکمل نہیں ہوسکتا)جب میں تمہیں تمہاری اپنی جان سے بھی زیادہ عزیزنہ ہوجاؤں ،سیدناعمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیاپھراللہ!اب آپ مجھے میری اپنی جان سے بھی زیادہ عزیزہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاہاں عمر رضی اللہ عنہ !اب تیراایمان پوراہوا۔[7]

عَنْ أَنَسٍ، قَالَ:قَالَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَالَّذِی نَفْسِی بِیَدِهِ، لَا یُؤْمِنُ أَحَدُكُمْ حَتَّى أَكُونَ أَحَبَّ إِلَیْهِ مِنْ وَالِدِهِ وَوَلَدِهِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِینَ

انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں مجھ محمد کی جان ہے تم میں سے کامل ایمان والا کوئی ہو ہی نہیں سکتا جب تک کہ وہ مجھے اپنے والد،اولاد اور پوری انسانیت سے زیادہ محبوب نہ سمجھ لے۔[8]

اللہ تعالیٰ نے سورة الحج کی آیات ۲۵تا۷۸ نازل فرمائیں ۔

إِنَّ الَّذِینَ كَفَرُوا وَیَصُدُّونَ عَن سَبِیلِ اللَّهِ وَالْمَسْجِدِ الْحَرَامِ الَّذِی جَعَلْنَاهُ لِلنَّاسِ سَوَاءً الْعَاكِفُ فِیهِ وَالْبَادِ ۚ وَمَن یُرِدْ فِیهِ بِإِلْحَادٍ بِظُلْمٍ نُّذِقْهُ مِنْ عَذَابٍ أَلِیمٍ ‎﴿٢٥﴾‏ وَإِذْ بَوَّأْنَا لِإِبْرَاهِیمَ مَكَانَ الْبَیْتِ أَن لَّا تُشْرِكْ بِی شَیْئًا وَطَهِّرْ بَیْتِیَ لِلطَّائِفِینَ وَالْقَائِمِینَ وَالرُّكَّعِ السُّجُودِ ‎﴿٢٦﴾‏ وَأَذِّن فِی النَّاسِ بِالْحَجِّ یَأْتُوكَ رِجَالًا وَعَلَىٰ كُلِّ ضَامِرٍ یَأْتِینَ مِن كُلِّ فَجٍّ عَمِیقٍ ‎﴿٢٧﴾‏ لِّیَشْهَدُوا مَنَافِعَ لَهُمْ وَیَذْكُرُوا اسْمَ اللَّهِ فِی أَیَّامٍ مَّعْلُومَاتٍ عَلَىٰ مَا رَزَقَهُم مِّن بَهِیمَةِ الْأَنْعَامِ ۖ فَكُلُوا مِنْهَا وَأَطْعِمُوا الْبَائِسَ الْفَقِیرَ ‎﴿٢٨﴾‏ ثُمَّ لْیَقْضُوا تَفَثَهُمْ وَلْیُوفُوا نُذُورَهُمْ وَلْیَطَّوَّفُوا بِالْبَیْتِ الْعَتِیقِ ‎﴿٢٩﴾‏(الحج)
جن لوگوں نے کفر کیااور اللہ کی راہ سے روکنے لگےاور اس حرمت والی مسجد سے بھی ،جسے ہم نے تمام لوگوں کے لیے مساوی کردیا ہے ،وہیں کے رہنے والے ہوں یا باہر کے ہوں جو بھی ظلم کے ساتھ وہاں الحاد ارادہ کرے ہم اسے دردناک عذاب چکھائیں گے ،اورجبکہ ہم نے ابراہیم (علیہ السلام) کے لیے کعبہ کے مکان کی جگہ مقرر کردی اس شرط پر کہ میرے ساتھ کسی کو شریک نہ کرنا اور میرے گھر کو طواف قیام رکوع سجدہ کرنے والوں کے لیے پاک صاف رکھنا، اور لوگوں میں حج کی منادی کر دے لوگ تیرے پاس پیادہ بھی آئیں گے اور دبلے پتلے اونٹوں پر بھی دور دراز کی تمام راہوں سے آئیں گے، اپنے فائدے حاصل کرنے کو آجائیں اور ان مقررہ دنوں میں اللہ کا نام یاد کریں ان چوپایوں پر جو پالتو ہیں ، پس تم آپ بھی کھاؤ اور بھوکے فقیروں کو بھی کھلاؤ پھر وہ اپنا میل کچیل دور کریں اور اپنی نذریں پوری کریں اور اللہ کے قدیم گھر کا طواف کریں ۔

جن لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت دین کوماننے سے انکارکیاہے اورجوبیت اللہ پرناجائزقابض ہوکر رحمة للعالمین محمدرسول اللہ ﷺاورآپ کے پیروؤں کوحج اورعمرہ نہیں کرنے دیتے ،جبکہ حقیقت یہ ہے کہ بیت اللہ کسی شخص یاخاندان یاقبیلے کی ملکیت نہیں کہ وہ کسی کواس کی زیارت سے روکے جسے اللہ نے تمام دنیاکے لوگوں کے لئے بنایاہے،اللہ نے یہاں پرمقیم وغیرمقیم ،ملکی اورآفاقی مقامی باشندوں کے حقوق برابررکھے ہیں ،یعنی تلاتخصیص وتفریق ہرشخص رات اوردن کے کسی بھی حصے میں عبادت کر سکتا ہے ،کسی کے لئے بھی کسی مسلمان کوعبادت سے روکنے کی اجازت نہیں ،

عَنْ قَتَادَةَ: سَوَاءٌ فِیهِ أَهْلُهُ وَغَیْرُ أَهْلِهِ

قتادہ رحمہ اللہ سے روایت ہے مسجدحرام میں اہل مکہ ودیگرسب لوگ برابرہیں ۔[9]

مکہ معظمہ کواللہ تعالیٰ نے ابتدائے آفرنیش سے حرام کیاہے ،اس میں جنگ اورخونریزی حرام ہے،صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے فتح مکہ کے موقع پرایک ساعت کے لئے حلال کیاگیاتھااس کے بعدقیامت تک کے لئے اس کی حرمت دوبارہ قائم ہوگئی،چنانچہ فتح مکہ کے دوسرے روزاپنے خطبہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

یَا أَیُّھَا النَّاسُ إِنْ مَكَّةَ حَرَّمَهَا اللهُ، وَلَمْ یُحَرِّمْهَا النَّاسُ، لاَ یَحِلُّ لِامْرِئٍ یُؤْمِنُ بِاللهِ وَالیَوْمِ الآخِرِ أَنْ یَسْفِكَ بِهَا دَمًا وَلاَ یَعْضِدَ بِهَا شَجَرًا فَإِنْ أَحَدٌ تَرَخَّصَ لِقِتَالِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فِیهَا، فَقُولُوا لَهُ: إِنَّ اللهَ أَذِنَ لِرَسُولِهِ، وَلَمْ یَأْذَنْ لَكُمْ وَإِنَّمَا أَذِنَ لِی فِیهَا سَاعَةً مِنْ نَهَارٍ، وَقَدْ عَادَتْ حُرْمَتُهَا الیَوْمَ كَحُرْمَتِهَا بِالأَمْس

لوگو!اللہ تعالیٰ نے مکے کوابتدائے آفرنیش سے حرمت والاشہرقراردیا ہے،کسی انسان نے اسے اپنی طرف سے حرمت والاقرارنہیں دیا،اس لئےکسی شخص کے لئے بھی جو اللہ اوریوم آخرپرایمان رکھتاہوجائز نہیں کہ اس میں کسی کا خون بہائے،اورنہ کوئی اس سرزمین کاکوئی درخت کاٹے، اوراگرکوئی شخص میری اس جنگ کودلیل بناکرکوئی شخص اپنے لئے یہاں خونریزی کو جائز ٹھیرائے توتم اس سے کہہ دیناکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو(تھوڑی دیرکے لیے) اس کی اجازت دی تھی تمہارے لیے بالکل اجازت نہیں ہے اورمجھےبھی اس کی اجازت دن کے تھوڑے سے حصے کے لیے ملی تھی، اورآج پھر اس کی حرمت اسی طرح قائم ہوگئی ہے جس طرح کل یہ شہرحرمت والاتھا۔[10]

چنانچہ مسجدحرام میں جوشخص بھی وہ فعل سرانجام دے گاجوراستی سے ہٹاہویعنی کفروشرک سے لے کرہرقسم کے گناہ جو ظلم کی تعریف میں آتے ہوں اسے اللہ جہنم کے دردناک عذاب کامزاچکھائے گا،مثلاًجس شخص نے قتل یاکوئی ایساجرم کیاہوجس پرحدجاری ہونالازم ہواوروہ حرم میں پناہ لے لے توجب تک وہ وہاں سے باہر نہیں آجائے گااس پرہاتھ نہیں ڈالاجائے گا

 ۔۔۔وَمَنْ دَخَلَهٗ كَانَ اٰمِنًا۔۔۔۝۰۝۹۷ [11]

ترجمہ:جواس میں داخل ہوگیاوہ امن میں آگیا۔

عَنْ عَبْدِ اللهِ -یَعْنِی ابْنَ مَسْعُودٍ-فِی قَوْلِهِ:{وَمَنْ یُرِدْ فِیهِ بِإِلْحَادٍ بِظُلْمٍ} قَالَ: لَوْ أَنَّ رَجُلا أَرَادَ فِیهِ بِإِلْحَادٍ بِظُلْمٍ، وَهُوَ بعَدَن أبینَ، أَذَاقَهُ اللهُ مِنَ الْعَذَابِ الْأَلِیمِ

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کاآیت کریمہ’’ جو بھی ظلم کے ساتھ وہاں الحاد ارادہ کرے ہم اسے دردناک عذاب چکھائیں گے۔‘‘کے بارے میں قول ہےاگرکوئی شخص عدن میں ہو اور وہ حرم میں شرارت سے کج روی کے اختیارکرنے کاارادہ ہی کرلے تواللہ تعالیٰ اسے دردناک عذاب کامزہ چکھائے گا۔[12]

عَائِشَةُ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ:أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:یَغْزُو هَذَا الْبَیْتَ جَیْشٌ، حَتَّى إِذَا كَانُوا بِبَیْدَاءَ مِنَ الْأَرْضِ خُسِف بِأَوَّلِهِمْ وَآخِرِهِمْ،قَالَتْ: قُلْتُ: یَا رَسُولَ اللهِ، كَیْفَ یُخْسَفُ بِأَوَّلِهِمْ وَآخِرِهِمْ، وَفِیهِمْ أَسْوَاقُهُمْ، وَمَنْ لَیْسَ مِنْهُمْ؟ قَالَ:یُخْسَفُ بِأَوَّلِهِمْ وَآخِرِهِمْ، ثُمَّ یُبْعَثُونَ عَلَى نِیَّاتِهِمْ

ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاایک لشکربیت اللہ پرچڑھائی کے لیے آئے گا اورجب وہ مقام بیداءمیں پہنچے گاتواسی لشکرمیں شامل پہلے سے لے کرآخری انسان تک سب کوزمین میں دھنسادیاجائے گا،عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیامیں نے عرض کی اے اللہ کے رسول ﷺ!اسے شروع سے آخرتک کیوں کر دھنسایا جائے گاجب کہ وہیں ان کے بازاربھی ہوں گے اوروہ لوگ بھی ہوں گے جوان لشکریوں میں سے نہیں ہوں گے؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاہاں ،شروع سے آخرتک ان سب کو دھنسادیاجائے گاپھران کی نیتوں کے مطابق وہ اٹھائے جائیں گے۔[13]

حرم کی یہ حیثیت بانی بیت اللہ ابراہیم علیہ السلام کے وقت سے چلی آرہی ہےوہاں کے قدرتی درختوں کونہیں کاٹاجاسکتا،نہ خودروگھاس اکھاڑی جاسکتی ہے ،نہ پرندوں اور دوسرے جانوروں کا شکار کیا جا سکتاہے اور نہ شکارکی غرض سے وہاں کے جانورکو بھگایا جاسکتاہے تاکہ حرم کے باہراس کاشکارکیاجائے،اس سے صرف سانپ،بچھو اوردوسرے موذی جانورمستثنیٰ ہیں اورخودروگھاس سے اذخراورخشک گھاس مستثنیٰ کی گئی ہے،وہاں کی گری پڑی چیزاٹھاناممنوع ہے،

عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عُثْمَانَ التَّیْمِیِّ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ نَهَى عَنْ لُقَطَةِ الْحَاجِّ

عبدالرحمٰن بن عثمان تمیی رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حاجیوں کی گری پڑی چیزاٹھانے سے منع فرمادیاتھا۔[14]

وہاں جو شخص بھی حج یا عمرے کی نیت سے آئے وہ احرام کے بغیرداخل نہیں ہوسکتا۔

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کسی حال میں بلااحرام حرم میں داخل نہیں ہوسکتا،امام احمد رحمہ اللہ ،اورامام شافعی رحمہ اللہ کا ایک قول یہی ہے،

امام احمد رحمہ اللہ اورامام شافعی رحمہ اللہ کا دوسراقول ہے کہ جولوگ حرم میں باربارکسی کام سے جاتے ہوں وہ اس قیدسے مستثنیٰ ہیں ،باقی سب کواحرام بندجانا چاہیے۔

امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کاقول ہے کہ جوحدودمیقات سے باہرکارہنے والاہووہ بلااحرام حرم میں داخل نہیں ہو سکتا ۔

مسجدحرام کی عظمت وجلال اوراس کے بانی ابراہیم علیہ السلام کی عظمت کا بیان فرمایا ہم نے ابراہیم رضی اللہ عنہ کوبیت اللہ کی جگہ بتلادی اور وہاں ہم نے ذریت ابراہیم علیہ السلام کوجاٹھیرایاپس ابراہیم علیہ السلام اوراسماعیل علیہ السلام نے مل کر بیت اللہ کوتقویٰ اوراطاعت الٰہی کی اساس پراس کی بنیادوں پرتعمیرکیا

اِنَّ اَوَّلَ بَیْتٍ وُّضِــعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِیْ بِبَكَّةَ مُبٰرَكًا وَّھُدًى لِّـلْعٰلَمِیْنَ۝۹۶ۚ     [15]

ترجمہ:اللہ تعالیٰ کاپہلاگھرجولوگوں کے لئے مقرر کیا گیا وہی ہے جومکہ میں ہے ،جوتمام دنیا کے لئے برکت وہدایت والاہے۔

أَبَا ذَرٍّ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: سَأَلْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: أَیُّ مَسْجِدٍ وُضِعَ فِی الْأَرْضِ أَوَّلُ؟قَالَ:الْمَسْجِدُ الْحَرَامُ،قُلْتُ: ثُمَّ أَیٌّ؟ قَالَ:ثُمَّ الْمَسْجِدُ الْأَقْصَى، قُلْتُ: كَمْ بَیْنَهُمَا؟قَالَ:أَرْبَعُونَ سَنَةً

ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہےمیں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیااے اللہ کےرسولﷺ! زمین پرسب سے پہلے کون سی مسجدبنائی گئی ؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایامسجدحرام (خانہ کعبہ)میں نے پھرسوال کیااس کے بعدکونسی مسجدبنائی گئی ؟آپ نے فرمایابیت المقدس (مسجدالاقصیٰ)میں نے پھرسوال کیاان دونوں مسجدوں کے درمیان کس قدر مدت کا فاصلہ ہے ؟آپ نے فرمایاچالیس سال کا۔[16]

اورخانہ کعبہ کی تعمیرکی غرض وغایت بیان فرمائی کہ ہم نے ابراہیم علیہ السلام کوحکم دیاکہ اس میں صرف اللہ وحدہ لاشریک کی عبادت کی جائے، اس گھر کو کفر وشرک ،بت پرستی اور دیگر گندگیوں ونجاستوں سے پاک کرکے قیام،رکوع اورسجود(یعنی نمازپڑھنے والوں ) اور(حج وعمرہ کے لئے)طواف کرنے والوں کے لئے پاک وصاف رکھنا(یہاں صرف دوعبادات کا ذکرفرمایاکیونکہ یہ دونوں عبادات خانہ کعبہ کے ساتھ خاص ہیں ،نمازمیں اسی کی طرف رخ ہوتاہے اورطواف صرف اسی کے گرد کیا جاتاہے)مگراہل بدعت نے اب بہت سی قبروں کاطواف بھی ایجادکرلیاہے،اوربعض نمازوں کے لئے قبلہ بھی ،جیسے فرمایا

۔۔۔وَعَہِدْنَآ اِلٰٓى اِبْرٰہٖمَ وَاِسْمٰعِیْلَ اَنْ طَہِّرَا بَیْـتِىَ لِلطَّاۗىِٕفِیْنَ وَالْعٰكِفِیْنَ وَالرُّكَّعِ السُّجُوْدِ۝۱۲۵        [17]

ترجمہ: اور ابراہیم علیہ السلام اور اسماعیل علیہ السلام کو تاکید کی تھی کہ میرے اس گھر کو طواف اور اعتکاف اور رکوع اور سجدہ کرنے والوں کے لیے پاک رکھو ۔

نَادِ فِی النَّاسِ دَاعِیًا لَهُمُ إِلَى الْحَجِّ إِلَى هَذَا الْبَیْتِ الَّذِی أَمَرْنَاكَ بِبِنَائِهِ

بیت اللہ کی تعمیروبنامکمل ہوچکی تواللہ رب العزت نے ابراہیم علیہ السلام کوحکم فرمایاکہ لوگوں میں حج کااعلان کردو جس کے بنانے کاہم نے تجھے حکم دیاہے۔

دنیاکے لوگ سب سے زیادہ شرف کے حامل اس گھر کی زیارت کے لئے ہرطرف سے تیرے پاس پیادہ بھی آئیں گے اوردوردراز جگہوں سے مسلسل سفرکرتے ہوئے صحراؤں اوربیابانوں کوچیرتے ہوئے تھکاوٹ اورچارے کی قلت سے لاغروکمزوراونٹوں پر سوار ہوکربھی پہنچیں گے،

قَالَ: یَا رَبِّ، وَكَیْفَ أُبْلِغُ النَّاسَ وَصَوْتِی لَا یَنْفُذُهُمْ؟فَقِیلَ: نَادِ وَعَلَیْنَا الْبَلَاغُ، فَقَامَ عَلَى مَقَامِهِ، وَقِیلَ: عَلَى الْحَجَرِ، وَقِیلَ: عَلَى الصَّفَا، وَقِیلَ: عَلَى أَبِی قُبَیس، وَقَالَ: یَا أَیُّهَا النَّاسُ، إِنْ رَبَّكُمْ قَدِ اتَّخَذَ بَیْتًا فَحُجُّوهُ،فَیُقَالُ: إِنَّ الْجِبَالَ تَوَاضَعَتْ حَتَّى بَلَغَ الصَّوْتُ أَرْجَاءَ الْأَرْضِ، وأسمَعَ مَن فِی الْأَرْحَامِ وَالْأَصْلَابِ، وَأَجَابَهُ كُلُّ شَیْءٍ سَمِعَهُ مِنْ حَجَر ومَدَر وَشَجَرٍ وَمَنْ كَتَبَ اللهُ أَنَّهُ یَحُجُّ إِلَى یَوْمِ الْقِیَامَةِ،لَبَّیْكَ اللهُمَّ لَبَّیْكَ

ابراہیم علیہ السلام نے عرض کیا اےباری تعالیٰ!میں لوگوں تک اس بات کوکیسے پہنچاؤں جبکہ ان تک میری آوازنہیں پہنچ سکتی ؟اللہ تعالیٰ نے فرمایااے ابراہیم علیہ السلام ! آپ کے ذمہ صرف پکارناہے آوازکاکاپہنچاناہمارے ذمہ ہے، چنانچہ ابراہیم علیہ السلام نے صفا پہاڑی یاابوابیس پہاڑکی چوٹی پرچڑھ کرآوازلگائی لوگو! تمہارے رب نے اپناایک گھربنایاہے پس تم اس کاحج کرو،پہاڑجھک گئے اوراللہ نے اس نحیف آواز کو دنیاکے کونے کونے تک پہنچادیاحتی کہ ان لوگوں کوبھی سنائی دی گئی جوابھی تک رحموں اورپشتوں میں تھےاورجس جس حجر،مدراورشجرنے اس آوازکوسنااس نے جواب دیا اورقیامت تک آنے والے ہراس شخص نے بھی اس کاجواب دیاجس کے لیے اللہ تعالیٰ نے حج مقدرکررکھاتھا اورکہامیں حاضرہوں ،اے اللہ !میں حاضرہوں ۔[18]

اوراس سے پہلےابراہیم خلیل اللہ نے اللہ تعالیٰ کے حکم سے جب اسماعیل علیہ السلام اوران کی والدہ ہاجرہ کو بیت اللہ کی دبی میں بنیادوں کے پاس اس چٹیل میدان میں لا بسایاتھاتویہ دعابھی فرمائی تھی

 رَبَّنَآ اِنِّىْٓ اَسْكَنْتُ مِنْ ذُرِّیَّتِیْ بِوَادٍ غَیْرِ ذِیْ زَرْعٍ عِنْدَ بَیْتِكَ الْمُحَرَّمِ۝۰ۙ رَبَّنَا لِیُقِیْمُوا الصَّلٰوةَ فَاجْعَلْ اَفْىِٕدَةً مِّنَ النَّاسِ تَهْوِیْٓ اِلَیْهِمْ وَارْزُقْهُمْ مِّنَ الثَّمَرٰتِ لَعَلَّهُمْ یَشْكُرُوْنَ۝۳۷      [19]

ترجمہ: پروردگار ! میں نے ایک بے آب و گیاہ وادی میں اپنی اولاد کے ایک حصے کو تیرے محترم گھر کے پاس لابسایا ہے ، پروردگار ! یہ میں نے اس لیے کیا ہے کہ یہ لوگ یہاں نماز قائم کریں لہٰذا تو لوگوں کے دلوں کو ان کا مشتاق بنا اور انہیں کھانے کو پھل دے ، شاید کہ یہ شکر گزار بنیں ۔

اللہ تعالیٰ نے ان کی اس دعاکوشرف قبولیت بخشااورلوگوں کے دلوں کواس طرف راغب کردیاچنانچہ پوری دنیاسے لوگ برضاورغبت

لَبَّیْكَ لَبَّیْكَ لَا شَرِیكَ لَكَ لَبَّیْكَ، إِنَّ الْحَمْدَ وَالنِّعْمَةَ لَكَ وَالْمُلْكَ، لَا شَرِیكَ لَكَ

پکارتے ہوئے خانہ کعبہ کی زیارت کو حاضر ہوتے ہیں تاکہ وہ یہاں نماز،بیت اللہ کاطواف اورمناسک حج وعمرہ کے ذریعے سے اللہ کی مغفرت ورضاحاصل کرسکیں اوراس کے ساتھ ساتھ تجارت اور کاروبارسے مال واسباب دنیا بھی حاصل کرسکیں ،جیسے فرمایا

 لَیْسَ عَلَیْكُمْ جُنَاحٌ اَنْ تَبْتَغُوْا فَضْلًا مِّنْ رَّبِّكُمْ۔۔۔۝۰۝۱۹۸   [20]

ترجمہ:اور اگر حج کے ساتھ ساتھ تم اپنے رب کا فضل بھی تلاش کرتے جاؤ تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں ۔

اورحکم فرمایاکہ حج کے مقررہ چنددنوں (ایام تشریق،جویوم النحردس ذی الحجہ سے تیرہ ذی الحجہ تک) میں اللہ کانام لے(اللہ اکبرکہہ) کر اونٹ،گائے بکری اوربھیڑدنبے وغیرہ کو ذبح کریں (کیونکہ مشرک قربانیوں کا گوشت نہیں کھاتے تھے،اس کے برخلاف مسلمانوں کوفرمایاکہ )پھران کے گوشت کوخودبھی کھائیں اورفقیر،درماندہ،دوست ، ہمسائے ،رشتہ دار وغیرہ کوبھی بھی کھلائیں ۔

ذی الحجہ کے پہلے عشرے کی بڑی فضیلت ہے ،

عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ،عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ:مَا العَمَلُ فِی أَیَّامٍ أَفْضَلَ مِنْهَا فِی هَذِهِ؟قَالُوا: وَلاَ الجِهَادُ؟ قَالَ:وَلاَ الجِهَادُ، إِلَّا رَجُلٌ خَرَجَ یُخَاطِرُ بِنَفْسِهِ وَمَالِهِ، فَلَمْ یَرْجِعْ بِشَیْءٍ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااللہ تعالیٰ کے نزدیک کسی دن کا عمل ان دنوں کے عمل سے افضل نہیں ،لوگوں نے عرض کیاجہادبھی نہیں ؟ فرمایاجہادبھی نہیں بجزاس مجاہدکے عمل کے جس نے اپنی جان ومال اللہ کی راہ میں قربان کر دیا ہواور کچھ بھی واپس نہ لائے۔ [21]

عَنِ ابْنِ عُمَرَ،قَالَ رَسُولُ اللهِ صلى الله علیه وسلم:ما مِنْ أَیْامٍ أَعْظَمَ عِنْدَ اللهِ وَلَا أَحَبَّ إِلَیْهِ العملُ فِیهِنَّ، مِنْ هَذِهِ الْأَیْامِ الْعَشْرِ، فَأَكْثِرُوا فِیهِمْ مِنَ التَّهْلِیلِ وَالتَّكْبِیرِ وَالتَّحْمِیدِ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااللہ تعالیٰ کے نزدیک کسی دن کاعمل ان دنوں سے بڑااورپیار ا نہیں ،پس تم ان دس دنوں میں لاالٰہ الااللہ اوراللہ اکبر اورالحمدللہ بکثرت پڑھا کرو۔[22]

عَنْ بَعْضِ، أَزْوَاجِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَتْ:كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَصُومُ تِسْعَ ذِی الْحِجَّةِ، وَیَوْمَ عَاشُورَاءَ، وَثَلَاثَةَ أَیَّامٍ مِنْ كُلِّ شَهْرٍ، أَوَّلَ اثْنَیْنِ مِنَ الشَّهْرِ وَالْخَمِیسَ

بعض ازواج مطہرات سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ذوالحجہ کے (پہلے)نودن ،عاشورہ محرم اورہرمہینے میں تین دن، اور ہرمہینے کے پہلے سوموار اورجمعرات کوروزہ رکھا کرتے تھے۔[23]

وَكَانَ ابْنُ عُمَرَ، وَأَبُو هُرَیْرَةَ یَخْرُجَانِ إِلَى السُّوقِ فِی أَیْامِ الْعَشْرِ، فَیُكَبِّرَانِ وَیُكَبِّرُ النَّاسُ بِتَكْبِیرِهِمَا

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ اورابوہریرہ رضی اللہ عنہ ان دنوں بازار میں آتے اورتکبیرپکارتے ، بازاروالے بھی آپ کے ساتھ تکبیریں پڑھنے لگتے ۔[24]

عَنْ أَبِی قَتَادَةَ الْأَنْصَارِیِّ رَضِیَ اللهُ عَنْهُ، سُئِلَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عَنْ صِیَامِ یَوْمِ عَرَفَةَ ، فَقَالَ: أَحْتَسِبُ عَلَى اللهِ أَنْ یُكَفِّرَ السَّنَةَ الَّتِی قَبْلَهُ، وَالسَّنَةَ الَّتِی بَعْدَهُ

ابوقتادہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سےیوم عرفہ کے روزے کی نسبت پوچھا گیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاگزشتہ اورآئندہ دوسال کے گناہ اس سے معاف ہوجاتے ہیں ۔[25]

جمرہ کبریٰ یاعقبہ کوکنکریاں مارنے کے بعد احرام کھول کر(بیوی سے مباشرت کے سواکیونکہ یہ اس وقت تک جائزنہیں جب تک آدمی طواف افاضہ نہ کر لے)وہ اپنے بال منڈوالیں ، ناخنوں وغیرہ کوصاف کریں ، نہائیں اورتیل وخوشبو استعمال کریں اور سلے ہوئے کپڑے پہن لیں ،اوراگراس موقع کے لئے نذرمانی ہے تواسے پوری کریں ، اوراللہ کے قدیم ، آزاد،مکرم اور معزز گھر کا طواف افاضہ (طواف زیارت) کریں (یہ حج کارکن ہے)

ابْنُ عَبَّاسٍ: {وَلْیَطَّوَّفُوا بِالْبَیْتِ الْعَتِیقِ} ،فَإِنَّ آخِرَ الْمَنَاسِكِ الطَّوَافُ بِالْبَیْتِ، فَإِنَّهُ لَمَّا رَجَعَ إِلَى مِنَى یَوْمَ النَّحْرِ بَدَأَ یَرْمِی الْجَمْرَةَ، فَرَمَاهَا بِسَبْعِ حَصَیَاتٍ، ثُمَّ نَحَرَ هَدْیَهُ، وَحَلَقَ رَأْسَهُ، ثُمَّ أَفَاضَ فَطَافَ بِالْبَیْتِ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما آیت ’’اور اللہ کے قدیم گھر کا طواف کریں ۔‘‘کے بارے میں فرماتے ہیں حج کاآخری کام طواف ہے، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دس ذی الحجہ کومنیٰ کی طرف واپس آئے توسب سے پہلے شیطانوں کو سات سات کنکریاں ماریں پھرقربانی کی ،پھر سرمنڈوایاپھرلوٹ کربیت اللہ آکرطواف بیت اللہ کیا۔

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّهُ قَالَ:أُمِرَ النَّاسُ أَنْ یَكُونَ آخِرُ عَهْدِهِمْ بِالْبَیْتِ، إِلَّا أَنَّهُ خُفِّفَ عَنِ الحَائِضِ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہےلوگوں کوحکم کیاگیاکہ ان کاآخری کام طواف بیت اللہ ہوہاں البتہ حائضہ عورتوں کورعایت کردی گئی۔[26]

ذَٰلِكَ وَمَن یُعَظِّمْ حُرُمَاتِ اللَّهِ فَهُوَ خَیْرٌ لَّهُ عِندَ رَبِّهِ ۗ وَأُحِلَّتْ لَكُمُ الْأَنْعَامُ إِلَّا مَا یُتْلَىٰ عَلَیْكُمْ ۖ فَاجْتَنِبُوا الرِّجْسَ مِنَ الْأَوْثَانِ وَاجْتَنِبُوا قَوْلَ الزُّورِ ‎﴿٣٠﴾‏حُنَفَاءَ لِلَّهِ غَیْرَ مُشْرِكِینَ بِهِ ۚ وَمَن یُشْرِكْ بِاللَّهِ فَكَأَنَّمَا خَرَّ مِنَ السَّمَاءِ فَتَخْطَفُهُ الطَّیْرُ أَوْ تَهْوِی بِهِ الرِّیحُ فِی مَكَانٍ سَحِیقٍ ‎﴿٣١﴾‏(الحج)
یہ ہے اورجو کوئی اللہ کی حرمتوں کی تعظیم کرے اس کے اپنے لیے اس کے رب کے پاس بہتری ہے، اور تمہارے لیے چوپائے جانور حلال کردیئے گئے بجز ان کے جو تمہارے سامنے بیان کیے گئے ہیں پس تمہیں بتوں کی گندگی سے بچتے رہنا چاہیے اور جھوٹی بات سے بھی پرہیز کرنا چاہیے، اللہ کی توحید کو مانتے ہوئے، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرتے ہوئے، سنو !اللہ کے ساتھ شریک کرنے والا گویا آسمان سے گرپڑا، اب یا تو اسے پرندے اچک لے جائیں گے یا ہوا کسی دور دراز کی جگہ پھینک دے گی۔

طاغوت کی بندگی سے دوررہو:اللہ تعالیٰ نے ان مقاصدکے لئے یہ گھرتعمیرکیاتھااوروہ احکام جوذکرکیے جاچکے ہیں ،ان میں اللہ تعالیٰ کی حرمات کی تعظیم ،توقیراورتکریم ہے ، حرمات سے مرادوہ امورہیں جو اللہ کے ہاں محترم ہیں اورجن کے احترام کاحکم فرمایاگیاہے ،یعنی عبادات وغیرہ مثلاًمناسک حج،حرم اوراحرام،بیت اللہ کوبھیجے گئے قربانی کے جانور اوروہ تمام عبادات جن کو قائم کرنے کابندوں کوحکم دیاگیاہے اب جوکوئی ان حرمات کوقائم کرے اوران کی خلاف ورزی کرکے ان کی حرمتوں کوپامال نہ کرے توخوداسی کے لئے ہی فائدہ مندہے،اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے پالتوجانوراور جن چیزوں کاحرام کرناتھا بیان کردیاگیاہے،یعنی

 حُرِّمَتْ عَلَیْكُمُ الْمَیْتَةُ وَالدَّمُ وَلَحْمُ الْخِنْزِیْرِ وَمَآ اُهِلَّ لِغَیْرِ اللهِ بِهٖ وَالْمُنْخَنِقَةُ وَالْمَوْقُوْذَةُ وَالْمُتَرَدِّیَةُ وَالنَّطِیْحَةُ وَمَآ اَكَلَ السَّبُعُ اِلَّا مَا ذَكَّیْتُمْ۝۰ۣ وَمَا ذُبِحَ عَلَی النُّصُبِ۔۔۔ ۝۳ [27]

ترجمہ:حرام کر دیا گیا تم پرمردار،خون ،خنزیر کا گوشت اورجس پراللہ کے سواکسی اورکانام پکاراجائے ،وہ جانورجوگلاگھٹ کرمرجائے ،جوچوٹ لگ کرمرجائے ، جو سینگ لگ کرمرجائے اورجس کودرندے پھاڑ کھائیں سوائے اس کے جس کوتم نے مرنے سے پہلے ذبح کرلواوروہ جانورجن کواستھانوں پرذبح کیاجائے۔

مَا جَعَلَ اللہُ مِنْۢ بَحِیْرَةٍ وَّلَا سَاۗىِٕبَةٍ وَّلَا وَصِیْلَةٍ وَّلَا حَامٍ۝۰ۙ وَّلٰكِنَّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا یَفْتَرُوْنَ عَلَی اللہِ الْكَذِبَ۔۔۔۝۱۰۳   [28]

ترجمہ:اللہ نے نہ کوئی بَحِیرہ مقرر کیا ہے نہ سائبَہ اور نہ وصیْلہ اور نہ حام مگر یہ کافر اللہ پر جھوٹی تہمت لگاتے ہیں ۔

اورتمہیں چاہیے کہ بت پرستی کی گندگی اورخبث سے دور رہو یعنی ہمسروں سے جن کوتم نے اللہ کے ساتھ معبودبنارکھاہے،جیسے فرمایا

قُلْ اِنَّمَا حَرَّمَ رَبِّیَ الْفَوَاحِشَ مَا ظَہَرَ مِنْہَا وَمَا بَطَنَ وَالْاِثْمَ وَالْبَغْیَ بِغَیْرِ الْحَقِّ وَاَنْ تُشْرِكُوْا بِاللہِ مَا لَمْ یُنَزِّلْ بِہٖ سُلْطٰنًا وَّاَنْ تَقُوْلُوْا عَلَی اللہِ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ۝۳۳ [29]

ترجمہ:اے نبیﷺ! ان سے کہو کہ میرے رب نے جو چیزیں حرام کی ہیں وہ تو یہ ہیں بےشرمی کے کام خواہ کھلے ہوں یا چھپےاور گناہ اور حق کے خلاف زیادتی اور یہ کہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک کرو جس کے لیے اس نے کوئی سند نازل نہیں کی اور یہ کہ اللہ کے نام پر کوئی ایسی بات کہو جس کے متعلق تمہیں علم نہ ہو کہ وہ حقیقت میں اس نے فرمائی ہے۔

اورجھوٹی بات سے اجتناب کرو،اورسب سے بڑاجھوٹ یہ ہے کہ اللہ جن چیزوں سے پاک ہے وہ اس کی طرف منسوب کی جائیں مثلاًاللہ کی اولادہے ،جیسے فرمایا

وَقَالُوا اتَّخَذَ اللہُ وَلَدًا۝۰ۙ سُبْحٰنَہٗ۔۔۔۝۱۱۶      [30]

ترجمہ:ان کا قول ہے کہ اللہ نے کسی کو بیٹا بنایا ہے اللہ پاک ہے ان باتوں سے۔

فلاں بزرگ اللہ کے اختیارات میں شریک ہے ،یااللہ فلاں بزرگ کی موڑتانہیں یافلاں کام پراللہ کس طرح قادرہوگا،یااپنی طرف سے اللہ کی حلال کردہ چیزوں کوحرام اورحرام چیزوں کوحلال کرلینا،جیسے مشرکین بحیرہ ،سائبہ،وصیلہ اورحام جانوروں کواپنے اوپرحرام کرلیتے تھے،جیسے فرمایا

 وَلَا تَــقُوْلُوْا لِمَا تَصِفُ اَلْسِنَتُكُمُ الْكَذِبَ ھٰذَا حَلٰلٌ وَّھٰذَا حَرَامٌ لِّتَفْتَرُوْا عَلَی اللهِ الْكَذِبَ۝۰ۭ اِنَّ الَّذِیْنَ یَفْتَرُوْنَ عَلَی اللهِ الْكَذِبَ لَا یُفْلِحُوْنَ۝۱۱۶ۭ     [31]

ترجمہ: اور یہ جو تمہاری زبانیں جھوٹے احکام لگایا کرتی ہیں کہ یہ چیز حلال ہے اور وہ حرام ، تو اس طرح کے حکم لگا کر اللہ پر جھوٹ نہ باندھو جو لوگ اللہ پر جھوٹے افترا باندھتے ہیں وہ ہرگز فلاح نہیں پایا کرتے۔

جھوٹی بات کے علاوہ جھوٹی قسم بھی ہے ،شرک اورحقوق والدین کے بعدتیسرے نمبرپرکبیرہ گناہوں میں شمارکیاگیاہے ،

عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِی بَكْرَةَ، عَنْ أَبِیهِ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ:قَالَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:أَلاَ أُنَبِّئُكُمْ بِأَكْبَرِ الكَبَائِرِ؟ ثَلاَثًا قَالُوا: بَلَى یَا رَسُولَ اللهِ، قَالَ:الإِشْرَاكُ بِاللهِ، وَعُقُوقُ الوَالِدَیْنِ وَجَلَسَ وَكَانَ مُتَّكِئًا فَقَالَ – أَلاَ وَقَوْلُ الزُّورِ،قَالَ: فَمَا زَالَ یُكَرِّرُهَا حَتَّى قُلْنَا: لَیْتَهُ سَكَتَ

ابوبکرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہ سے عرض کیاکیامیں تمہیں سب سے بڑاکبیراگناہ بتاؤں ؟تین باریہ فرمایا، صحابہ کرام رضی اللہ عنہ نے عرض کیااے اللہ کے رسولﷺ! ارشاد ہو،فرمایااللہ کے ساتھ شرک کرنا،ماں باپ کی نافرمانی کرنا،پھرتکیے سے الگ ہٹ کر فرمایا اور جھوٹ بولنااورجھوٹی شہادت دینا،اسے باربارفرماتے رہے یہاں تک کہ ہم نے کہا کاش کہ آپ خاموش ہو جائیں ۔[32]

عَنْ أَیْمَنَ بْنِ خُرَیْمٍ، قَالَ: قَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ خَطِیبًا، فَقَالَ: یَا أَیُّهَا النَّاسُ، عَدَلَتْ شَهَادَةُ الزُّورِ إِشْرَاكًا بِاللَّهِ» ثَلَاثًا، ثُمَّ قَرَأَ: {فَاجْتَنِبُوا الرِّجْسَ مِنَ الْأَوْثَانِ وَاجْتَنِبُوا قَوْلَ الزُّورِ}[33]

ایمن بن خریم رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صبح کی نمازکے بعدکھڑے ہوکر اپنے خطبے میں تین بارفرمایاجھوٹی گواہی اللہ کے ساتھ شرک کرنے کے برابرکردی گئی، پھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت تلاوت فرمائی’’ پس بتوں کی گندگی سے بچو ، جھوٹی باتوں سے پرہیز کرو ،یکسو ہو کر اللہ کے بندے بنو ، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو ۔‘‘ [34]

وَقَالَ أَبُو یُوسُفَ وَمُحَمَّدٌ یُضْرَبُ وَیُسَخَّمُ وَجْهُهُ وَیُشَهَّرُ وَیُحْبَسُ

امام ابو یوسف رحمہ اللہ اورامام محمد رحمہ اللہ کافتوی ہے کہ جوشخص عدالت میں جھوٹاگواہ ثابت ہوجائے اس کوکوڑے مارے جائیں ، اس کاسرمونڈاجائے ،اس کی تشہیر کی جائے اورلمبی قیدکی سزادی جائے ۔

قَالَ فِی شَّاهِدِ الزُّورِ یُضْرَبُ ظَهْرُهُ وَیُحْلَقُ رَأْسُهُ وَیُسَخَّمُ وَجْهُهُ وَیُطَالُ حَبْسُهُ

سیدنا عمرفاروق رضی اللہ عنہ کاقول وفعل بھی یہی ہے انہوں نے فرمایا جوجھوٹی گواہی دےاس کی پیٹھ پرکوڑے مارے جائیں ، اس کاسرمونڈاجائے اورمنہ کالاکرنے اورلمبی قیدکی سزادی جائے۔[35]

اورباطل عقائد،احکام ،رسومات اورادہام پرستی سے منہ پھیرکردین حق کی طرف مائل ہوتے ہوئے صر ف اللہ وحدہ لاشریک اوراس کی عبادات پر اپنی توجہ مذکور رکھو اوراس کی ذات وصفات اورافعال میں کسی بت ،پیر،ولی،پیغمبر وغیرہ کوشریک نہ ٹھیراؤ،یہ اللہ کے غضب اورعدم رضاکاباعث ہے،اورجواللہ کے ساتھ شرک کرتاہے اس کی مثال بیان فرمائی کہ جیسے کوئی آسمان سے گر پڑے ، اور پرندے اسے نہایت سرعت سے جھپٹامارکرنوچ کھائیں یاہواہی اسے فضاکے مختلف طبقات میں لئے پھرتی رہے اور اس کے اعضاء کے چیتھڑے بناکر کسی دوردرازگڑھے میں پھینک دےاورکسی کواس کاسراغ نہ ملے ،دونوں صورتوں میں تباہی اس کامقدرہے ،یہی حال مشرک کابھی ہے جب وہ ایمان کوترک کردیتاہے توشیاطین جن وانس ہرجانب سے اسے اچک لیتے ہیں اوراس کادین ودنیادونوں تباہ وبرباد کر دیتے ہیں ۔

ذَٰلِكَ وَمَن یُعَظِّمْ شَعَائِرَ اللَّهِ فَإِنَّهَا مِن تَقْوَى الْقُلُوبِ ‎﴿٣٢﴾‏ لَكُمْ فِیهَا مَنَافِعُ إِلَىٰ أَجَلٍ مُّسَمًّى ثُمَّ مَحِلُّهَا إِلَى الْبَیْتِ الْعَتِیقِ ‎﴿٣٣﴾‏ وَلِكُلِّ أُمَّةٍ جَعَلْنَا مَنسَكًا لِّیَذْكُرُوا اسْمَ اللَّهِ عَلَىٰ مَا رَزَقَهُم مِّن بَهِیمَةِ الْأَنْعَامِ ۗ فَإِلَٰهُكُمْ إِلَٰهٌ وَاحِدٌ فَلَهُ أَسْلِمُوا ۗ وَبَشِّرِ الْمُخْبِتِینَ ‎﴿٣٤﴾‏ الَّذِینَ إِذَا ذُكِرَ اللَّهُ وَجِلَتْ قُلُوبُهُمْ وَالصَّابِرِینَ عَلَىٰ مَا أَصَابَهُمْ وَالْمُقِیمِی الصَّلَاةِ وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ یُنفِقُونَ ‎﴿٣٥﴾‏(الحج)
’’یہ سن لیا اب اور سنو ! اللہ کی نشانیوں کی جو عزت و حرمت کرے اس کے دل کی پرہیزگاری کی وجہ سے یہ ہے ،ان میں تمہارے لیے ایک مقررہ وقت تک فائدہ ہے، پھر ان کے حلال ہونے کی جگہ خانہ کعبہ ہے ،اور ہر امت کے لیے ہم نے قربانی کے طریقے مقرر فرمائے ہیں تاکہ چوپائے جانوروں پر اللہ کا نام لیں جو اللہ نے انہیں دے رکھے ہیں، سمجھ لو کہ تم سب کا معبود برحق صرف ایک ہی ہے تم اسی کے تابع فرمان ہوجاؤ عاجزی کرنے والوں کو خوشخبری سنا دیجئے ! انہیں کہ جب اللہ کا ذکر کیا جائے ان کے دل تھرا جاتے ہیں، انہیں جو برائی پہنچے اس پر صبر کرتے ہیں، نماز قائم کرنے والے ہیں اور جو کچھ ہم نے انہیں دے رکھا ہے وہ اس میں سے بھی دیتے رہتے ہیں۔‘‘

شعائر،شعیرہ کی جمع ہے جس کے معنی ہیں محسوس،ظاہری علامات۔دین اسلام کی بھی کچھ مخصوص نمایاں امتیازی علامات ہیں جیسے فرمایا

اِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَةَ مِنْ شَعَاۗىِٕرِاللّٰهِ ۔۔۔[36]

صفاومروہ شعاراللہ ہیں ۔

صفاومروہ کواس لئے شعائراللہ کہاگیاہے کہ مسلمان حج وعمرہ میں ان کے درمیان سعی کرتے ہیں ،یہاں حج کے دیگرمناسک ، خصوصا ً قربانی کے جانوروں کوشعائراللہ کہاگیاہے۔

فرمایاکہ جوباغیانہ روش اختیارکرنے کے بجائے ان شعائرکادل سے عزت و توقیر کرتا ہے اس کا دل اللہ کے خوف سے خالی نہیں کیونکہ شعائرکی تعظیم دراصل اللہ کی تعظیم وتوقیرکے تابع ہے ،

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ: تَعْظِیمُهَا: اسْتِسْمَانُهَا وَاسْتِحْسَانُهَا

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں قربانی کے جانورکے توقیر کرنے کامطلب ہے قربانی کے جانوروں کوفربہ اورعمدہ کرنااور بے عیب و خوبصورت جانورذبح کرنا۔[37]

أَبَا أُمَامَةَ بْنَ سَهْلٍ، قَالَ:كُنَّا نُسَمِّنُ الْأُضْحِیَّةَ بِالْمَدِینَةِ،وَكَانَ الْمُسْلِمُونَ یُسمّنون

ابوامامہ بن سہل سے مروی ہےہم مدینہ منورہ میں قربانی کے جانورکوموٹاکیاکرتے تھے اوردیگرتمام مسلمان بھی اپنی قربانیوں کو موٹا کیاکرتے تھے۔[38]

أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ:كَانَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یُضَحِّی بِكَبْشَیْنِ، وَأَنَا أُضَحِّی بِكَبْشَیْنِ

انس بن مالک رضی اللہ عنہ کابیان ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عید الاضحی میں دو مینڈوں کو ذبح کیا کرتے تھے اور میں بھی عید الاضحی (نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی )میں دو مینڈوں کو ذبح کروں گا۔ [39]

عَنْ أَنَسٍ:أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ انْكَفَأَ إِلَى كَبْشَیْنِ أَقْرَنَیْنِ أَمْلَحَیْنِ، فَذَبَحَهُمَا بِیَدِهِ

انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سینگ والے دوچتکبڑےمینڈھوں کی طرف متوجہ ہوئے اورانہیں اپنے ہاتھ سے ذبح کیا۔[40]

عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: ذَبَحَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَوْمَ الذَّبْحِ كَبْشَیْنِ أَقْرَنَیْنِ أَمْلَحَیْنِ مُوجَأَیْنِ، فَلَمَّا وَجَّهَهُمَا قَالَ: إِنِّی وَجَّهْتُ وَجْهِیَ لِلَّذِی فَطَرَ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضَ عَلَى مِلَّةِ إِبْرَاهِیمَ حَنِیفًا، وَمَا أَنَا مِنَ الْمُشْرِكِینَ، إِنَّ صَلَاتِی وَنُسُكِی وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِی لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِینَ لَا شَرِیكَ لَهُ، وَبِذَلِكَ أُمِرْتُ وَأَنَا مِنَ الْمُسْلِمِینَ، اللَّهُمَّ مِنْكَ وَلَكَ، وَعَنْ مُحَمَّدٍ وَأُمَّتِهِ بِاسْمِ اللَّهِ، وَاللَّهُ أَكْبَرُ ثُمَّ ذَبَحَ

اورجابربن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے عیدکے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قربانی کے دومینڈھے جوسینگوں والے،چتکبڑے اور خصی تھےاپنے ہاتھ سے ذبح کیے،جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں قبلہ رخ کیاتویہ دعاپڑھی ’’میں نے اپنارخ اس ذات کی طرف کرلیاجس نے آسمانوں اورزمین کوپیدا کیاہے ، میں ملت ابراہیم پرہوں اوریک سوہوں اورمشرکوں میں سے نہیں ہوں ، بلاشبہ میری نماز،میری قربانی،میراجینااورمیرامرنااللہ ہی کے لیے ہے جوتمام جہان والوں کاپالنے والاہے،اس کاکوئی شریک نہیں ، مجھے اسی بات کاحکم دیاگیاہے اورمیں اطاعت گزاروں میں سے ہوں ۔‘‘اے اللہ!یہ(قربانی)تیری طرف سے ہے اورتیرے ہی لیے ہے ، اسے محمداوراس کی امت کی طرف سے قبول فرما،اللہ کے نام سے اوراللہ سب سے بڑاہے،پھرآپ نے اسے ذبح کردیا ۔[41]

حكم الألبانی: ضعیف

عَنْ عَلِیٍّ، قَالَ: أَمَرَنَا رسولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ إن نَسْتَشْرِفَ الْعَیْنَ وَالْأُذُنَ، وَأَلَّا نُضَحِّیَ بمقابَلَة، وَلَا مدابَرَة، وَلَا شَرْقاء ،وَلَا خَرْقاء

سیدناعلی رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حکم دیاکہ ہم (قربانی کے جانوروں کی)آنکھ اورکان اچھی طرح دیکھ لیاکریں ،اورایسے جانوروں کی قربانی نہ کریں جن کے کان آگے سے کٹے ہوئے ہوں یاپیچھے سے یاجس کا کان لمبائی میں کٹاہواہویاجس کے کان میں سوراخ ہو۔[42]

عَنْ عُبَیْدِ بْنِ فَیْرُوزَ، قَالَ: سَأَلْتُ الْبَرَاءَ بْنَ عَازِبٍ، قُلْتُ: حَدِّثْنِی مَا نَهَى عَنْهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مِنَ الْأَضَاحِیِّ، أَوْ مَا یُكْرَهُ، قَالَ: قَامَ فِینَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، وَیَدِی أَقْصَرُ مِنْ یَدِهِ، فَقَالَ: أَرْبَعٌ لَا یَجُزْنَ: الْعَوْرَاءُ الْبَیِّنُ عَوَرُهَا، وَالْمَرِیضَةُ الْبَیِّنُ مَرَضُهَا، وَالْعَرْجَاءُ الْبَیِّنُ ظَلْعُهَا، وَالْكَسِیرُ الَّتِی لَا تُنْقِی

عبید بن فیروز رحمہ اللہ نے براء رضی اللہ عنہ بن عازب سے پوچھا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کس قسم کی جانور کی قربانی سے منع کیا ہے اور کسے مکروہ سمجھا ہے ؟ میرا ہاتھ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ سے چھوٹا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاچارقسم کے جانوروں کی قربانی جائزنہیں وہ کانا جانور جس کا کانا ہونا واضح ہو، وہ بیمار جانور جس کی بیماری واضح ہو، وہ لنگڑا جانور کی لنگراہٹ واضح ہو، اور وہ جانور جس کی ہڈی ٹوٹ کر اس کا گودا نکل گیا۔[43]

کیونکہ شعائراللہ میں ہدی کے جانوراونٹ اورگائے بھی شامل ہیں جیسے فرمایا

وَالْبُدْنَ جَعَلْنٰهَا لَكُمْ مِّنْ شَعَاۗىِٕرِ اللهِ۔۔۔۝۳۶      [44]

ترجمہ: اور ان ہدی کے اونٹوں کوہم نے تمہارے لئے شعائراللہ میں شامل کیاہے ۔

اوراہل عرب بھی ان کی تعظیم کرتے تھے چنانچہ جب وہ بیت اللہ کی طرف روانہ ہوتے تو ہدی کے جانور پرنہ سواری کرتے ،نہ سامان لادتے اورنہ اس کادودھ ہی پیتے تھے،اس غلط فہمی کودورکرنے کیلئے فرمایاکہ شعائراللہ کی تعظیم کایہ منشاہرگزنہیں کہ تم قربانی سے پہلے اس سے کوئی استفادہ حاصل نہیں کرسکتے بلکہ قربانی سے پہلے تمہیں ہدی کے جانورکوکوتل لے جانے کے بجائے اس سے استفادہ کرسکتے ہویعنی اس پرسواری کرنے،سامان لادنے،بچہ لینے ،اس کادودھ دوھنے اوراس کی اون،صوف اوربال وغیرہ لینے کی اجازت ہے،

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ: أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ رَأَى رَجُلًا یَسُوقُ بَدَنَةً ،فَقَالَ:ارْكَبْهَافَقَالَ: إِنَّهَا بَدَنَةٌ،فَقَالَ: ارْكَبْهَاقَالَ: إِنَّهَا بَدَنَةٌ،قَالَ:ارْكَبْهَا وَیْلَكَ، فِی الثَّالِثَةِ أَوْ فِی الثَّانِیَةِ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (کہ حج پرجاتے ہوئے)ایک شخص کودیکھاجوقربانی کےاونٹ کی مہار تھامے اسے ہانکتے ہوئے پیدل چلاجارہاتھااورسخت تکلیف میں مبتلاتھا، آپ ﷺنے فرمایااس پرسوارہوجا،اس شخص نے عرض کیایہ ہدی کا اونٹ ہے(یعنی میں اس پرکیسے سوارہوسکتاہوں )آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاسوارہوجا،اس نے پھروہی عرض کیایہ ہدی کااونٹ ہے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تیسری یادوسری بارفرمایاتیری خرابی ہو سوارہوجا۔[45]

أَبُو الزُّبَیْرِ، قَالَ: سَمِعْتُ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللهِ،سُئِلَ عَنْ رُكُوبِ الْهَدْیِ، فَقَالَ سَمِعْتُ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، یَقُولُ ارْكَبْهَا بِالْمَعْرُوفِ، إِذَا أُلْجِئْتَ إِلَیْهَا حَتَّى تَجِدَ ظَهْرًا

اورابوزبیرسے مروی ہے میں نے جابربن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے سنا کسی نے قربانی کے اونٹ پرسوارہونے کوپوچھا، انہوں نے کہامیں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سناآپ فرمارہے تھے جب تمہیں ضرورت ہوتوپھر دستور کے مطابق اس پرسوارہوجاؤ[46]

پھران ہدی کے جانوروں کومناسک حج کی ادائیگی کے بعد حرم کی حدودمیں اللہ کا نام لے کرقربان کردو،جیسے فرمایا

۔۔۔ هَدْیًۢا بٰلِــغَ الْكَعْبَةِ ۔۔۔[47]

ترجمہ:اور یہ نذرانہ کعبہ پہنچایا جائے گا۔

ہُمُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا وَصَدُّوْكُمْ عَنِ الْمَسْجِدِ الْحَــرَامِ وَالْہَدْیَ مَعْكُوْفًا اَنْ یَّبْلُغَ مَحِلَّہٗ۔۔۔۝۲۵  [48]

ترجمہ: وہی لوگ تو ہیں جنہوں نے کفر کیا اور تم کو مسجد حرام سے روکا اور ہدی کے اونٹوں کو ان کی قربانی کی جگہ نہ پہنچنے دیا ۔

وَقَالَ زَیْدُ بْنُ أَسْلَمَ فِی قَوْلِهِ:وَلِكُلِّ أُمَّةٍ جَعَلْنَا مَنْسَكًا، إِنَّهَا مَكَّةُ، لَمْ یَجْعَلِ اللهُ لِأُمَّةٍ قَطُّ مَنْسَكًا غَیْرَهَا

زیدبن اسلم آیت کریمہ’’اور ہر امت کے لیے ہم نے قربانی کے طریقے مقرر فرمائے ہیں ۔‘‘کے بارے میں کہتے ہیں اس سے مرادمکہ ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے کسی بھی امت کویہ حکم نہیں دیاکہ وہ مکہ مکرمہ کے علاوہ کسی اورجگہ قربانی کے جانورکولے جاکرذبح کرے۔[49]

قربانی ہمیشہ سے عبادت کاایک لازمی جزو رہا ہے،توحیدفی العبادت کے بنیادی تقاضوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ انسان نے جن جن صورتوں سے غیراللہ کی بندگی کی ہے ان سب کوغیراللہ کے لئے ممنوع کرکے صرف اللہ کے لئے مختص کردیا جائے، مثلاًانسان نے غیراللہ کے حضوررکوع وسجودکیاہے ،شرائع الٰہیہ نے اسے اللہ تعالیٰ کے لئے خاص کر دیا ، انسان نے غیراللہ کے آگے نذرانے پیش کیے ہیں ،شرائع الٰہیہ نے انہیں ممنوع کرکے زکوٰة وصدقہ اللہ کے لئے واجب کردیا ، انسان نے معبودان باطلہ کی تیرتھ یاتراکی ہے،شرائع الٰہیہ نے کسی نہ کسی مقام کومقدس یابیت اللہ قراردے کراس کی زیارت اورطواف کاحکم دے دیا،انسان نے غیراللہ کے نام کے روزے رکھے ہیں ،شرائع الٰہیہ نے انہیں بھی اللہ کے لئے مختص کردیا،ٹھیک اسی طرح انسان نے اپنے خودساختہ معبودوں کی خوشنودی کے لئے ان کے استھانوں پرقربانیاں کی ہیں ،کیونکہ رضائے الٰہی کے لئے جانورکی قربانی کرنابھی عبادت ہے اسی لئے غیراللہ کے نام پریاان کی خوشنودی کے لئے جانورذبح کرناغیراللہ کی عبادت ہے اس لئے شرائع الٰہیہ نے ان کوبھی غیرکے لئے قطعاًحرام اوراللہ کے لئے واجب کردیااورہرامت کاایک دن عیدمقررکرکے قربانی کاحکم فرمایاتاکہ وہ اس کے ذریعے سے اللہ کاقرب حاصل کرتے رہیں ،اس قاعدے کی یہ تفصیلات کہ قربانی کب کی جائے اورکہاں کی جائے اورکس طرح کی جائے،ان تفصیلات میں مختلف زمانوں اور مختلف قوموں اورملکوں کے انبیاء کی شریعتوں میں حالات کے لحاظ سے اختلافات رہے ہیں مگرسب کی روح اورسب کامقصداورحکمت ایک ہی رہاہے کہ اللہ تعالیٰ کی الوہیت،اللہ تعالیٰ اکیلے کاعبودیت کامستحق ہونا اوراس کے ساتھ شرک کاترک کردینا،پس تمہاراالٰہ ایک اللہ ہی ہے اورتم اسی کے اطاعت گزاربندے بنو،ہرطرف سے منہ موڑکرصرف اور صرف اس کے سامنے سر تسلیم خم کرکے اس کے احکامات کی پابندی کرویہی سلامتی کے گھرتک پہنچنے کاراستہ ہے ،اوراے نبیﷺ!آپ استکبار اور غرور نفس چھوڑکراللہ کے مقابلے میں عجزوانکساری اختیارکرنے والوں کو جو اللہ کی بندگی اوراس کے فیصلوں پرراضی ہیں ، اللہ کی رضاوخوشنودی اورلازول نعمتوں سے مزین جنتوں کی خوشخبری دے دیں ،جن کی صفات یہ ہیں کہ جب اللہ کے جلال وعظمت کاحال سنتے ہیں تواس کی تعظیم اورخوف سے ان کے دل کانپ جاتے ہیں اورمحرمات کوترک کردیتے ہیں ،راہ حق میں ان پرجومصیبتیں اورسختیاں واقع ہوتی ہیں اس پر واویلامچانے کے بجائے رب کی رضاکے حصول کی خاطرصبروبرداشت کرتے ہیں اوراللہ سے اجروثواب کی امیدرکھتے ہیں ، جیسے فرمایا

الَّذِیْنَ اِذَآ اَصَابَتْہُمْ مُّصِیْبَةٌ۝۰ۙ قَالُوْٓا اِنَّا لِلہِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رٰجِعُوْنَ۝۱۵۶ۭ   [50]

ترجمہ:اور جب کوئی مصیبت پڑے ، تو کہیں کہ ہم اللہ ہی کے ہیں اور اللہ ہی کی طرف پلٹ کر جانا ہے، انھیں خوشخبری دے دو ۔

جواللہ کے ذکرکے لئے درست طریقے سے فرض اورنفل نمازقائم کرتے ہیں اوراللہ نے اپنے فضل وکرم سے ان کو جو پاک وحلال رزق عنایت فرمایاہے اس میں بے جا ،عیش وعشرت اورریاکارانہ خرچ کرنے کے بجائے اپنے اہل وعیال کی جائزضروریات پوری کرتے ہیں ،رشتہ داروں ، ہمسایوں اورضرورت مندوں کاخیال رکھتے ہیں ،غلاموں کوآزادکرتے ہیں اوراللہ کاکلمہ بلندکرنے کے لئے اپنی استطاعت کے مطابق مالی ایثارکرتے ہیں ،ایک مقام پر مومنین کی یہ صفات بیان فرمائیں

وَالْمُؤْمِنُوْنَ وَالْمُؤْمِنٰتُ بَعْضُهُمْ اَوْلِیَاۗءُ بَعْضٍ۝۰ۘ یَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَیَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَیُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوةَ وَیُؤْتُوْنَ الزَّكٰوةَ وَیُطِیْعُوْنَ اللهَ وَرَسُوْلَهٗ۝۰ۭ اُولٰۗىِٕكَ سَیَرْحَمُهُمُ اللهُ۔۔۔۝۷۱ [51]

ترجمہ:مومن مرد اور مومن عورتیں یہ سب ایک دوسرے کے رفیق ہیں بھلائی کا حکم دیتے اور بُرائی سے روکتے ہیں ، نماز قائم کرتے ہیں ، زکوٰة دیتے ہیں اور اللہ اور اس کے رسول ﷺکی اطاعت کرتے ہیں ،یہ وہ لوگ ہیں جن پر اللہ کی رحمت نازل ہو کر رہے گی ۔

 اَلتَّاۗىِٕبُوْنَ الْعٰبِدُوْنَ الْحٰمِدُوْنَ السَّاۗىِٕحُوْنَ الرّٰكِعُوْنَ السّٰجِدُوْنَ الْاٰمِرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَالنَّاهُوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَالْحٰفِظُوْنَ لِحُدُوْدِ اللهِ۝۰ۭ وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِیْنَ۝۱۱۲ [52]

ترجمہ:اللہ کی طرف بار بار پلٹنے والے ، اس کی بندگی بجا لانے والے ، اس کی تعریف کے گن گانے والے، اس کی خاطر زمین میں گردش کرنے والے ، اس کے آگے رکوع اور سجدے کرنے والے ، نیکی کا حکم دینے والے ، بدی سے روکنے والے، اور اللہ کے حدود کی حفاظت کرنے والے (اس شان کے ہوتے ہیں وہ مومن جو اللہ سے بیع کا یہ معاملہ طے کرتے ہیں ) اور اے نبی ! ان مومنوں کو خوشخبری دے دو ۔

اوراللہ اپنے وعدے کے مطابق اپنے فضل سے اس دنیامیں ان کے رزق میں اضافہ فرماتاہے اورآخرت میں کئی گنابڑھاکراس کااجروثواب عطافرمائے گا۔

وَالْبُدْنَ جَعَلْنَاهَا لَكُم مِّن شَعَائِرِ اللَّهِ لَكُمْ فِیهَا خَیْرٌ ۖ فَاذْكُرُوا اسْمَ اللَّهِ عَلَیْهَا صَوَافَّ ۖ فَإِذَا وَجَبَتْ جُنُوبُهَا فَكُلُوا مِنْهَا وَأَطْعِمُوا الْقَانِعَ وَالْمُعْتَرَّ ۚ كَذَٰلِكَ سَخَّرْنَاهَا لَكُمْ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ ‎﴿٣٦﴾‏ لَن یَنَالَ اللَّهَ لُحُومُهَا وَلَا دِمَاؤُهَا وَلَٰكِن یَنَالُهُ التَّقْوَىٰ مِنكُمْ ۚ كَذَٰلِكَ سَخَّرَهَا لَكُمْ لِتُكَبِّرُوا اللَّهَ عَلَىٰ مَا هَدَاكُمْ ۗ وَبَشِّرِ الْمُحْسِنِینَ ‎﴿٣٧﴾‏ (الحج)
 ’’قربانی کے اونٹ ہم نے تمہارے لیے اللہ تعالیٰ کی نشانیاں مقرر کردی ہیں ان میں تمہیں نفع ہے ،پس انھیں کھڑا کر کے ان پر اللہ کا نام لو، پھر جب ان کے پہلو زمین سے لگ جائیں اسے (خود بھی) کھاؤ اور مسکین سوال سے رکنے والوں اورسوال کرنے والوں کو بھی کھلاؤ، اسی طرح ہم نے چوپاؤں کو تمہارے ماتحت کردیا ہے کہ تم شکر گزاری کرو، اللہ تعالیٰ کو قربانیوں کے گوشت نہیں پہنچتے نہ ان کے خون بلکہ اسے تمہارے دل کی پرہیزگاری پہنچتی ہے، اسی طرح اللہ نے جانوروں کو تمہارا مطیع کردیا ہے کہ تم اس کی راہنمائی کے شکریئے میں اس کی بڑائیاں بیان کرو، اور نیک لوگوں کو خوشخبری سنا دیجئے۔

اوراونٹ جوقربانی کے لئے لے جائیں ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے گائے کوبھی اونٹوں کے ساتھ شامل فرمایاہے،قربانی کے ان جانوروں کوہم نے تمہارے لئے شعائراللہ(محسوس علامات،ظاہری علامات) میں شامل کیاہےیعنی اللہ کے ان احکام میں سے ہیں جومسلمانوں کے لئے خاص اوران کی علامت ہیں اورفرمایا

یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تُحِلُّوْا شَعَاۗىِٕرَ اللهِ وَلَا الشَّهْرَ الْحَرَامَ۔۔۔۝۲ [53]

ترجمہ: اے لوگو جو ایمان لائے ہو، خدا پرستی کی نشانیوں کو بےحرمت نہ کرو نہ حرام مہینوں میں سے کسی کو حلال کرلو۔

اللہ تعالیٰ نے ان جانوروں میں تمہارے لیے بھلائی رکھ دی ہے جس کی وجہ سےتم ان جانوروں سے بکثرت فائدے اٹھاتے ہو،یعنی ان پرسوارہوتے ہو،کھیتی باڑی اور باربرداری کی خدمت لیتے ہو،ان کاگوشت کھاتے ہو،ان کادودھ پیتے ہو،ان کی کھالوں سے فائدہ اٹھاتے ہووغیرہ ، پس اونٹ کو کھڑا کر کے اورایک پاؤں باندھ کر

بِاسْمِ اللهِ، وَاللهُ أَكْبَرُ

پڑھ کرنحرکرو ،

عَنْ جَابِرٍ رَضِیَ اللهُ عَنْهُ، قَالَ:فَأَمَرَنَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَنْ نَشْتَرِكَ فِی الْإِبِلِ وَالْبَقَرِ، كُلُّ سَبْعَةٍ مِنَّا فِی بَدَنَةٍ

جابربن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حکم فرمایاکہ ہم اونٹ اورگائےمیں سات آدمی شریک ہوجائیں ۔[54]

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: كُنَّا مَعَ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فِی سَفَرٍ، فَحَضَرَ الأَضْحَى، فَاشْتَرَكْنَا فِی البَقَرَةِ سَبْعَةً، وَفِی الجَزُورِ عَشَرَةً

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہےہم ایک سفرمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ تھے ،عیداضحیٰ آگئی توہم گائے کی قربانی میں سات آدمی شریک ہوئے اوراونٹ میں دس آدمی۔ [55]

اوریہ ثابت ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مفانم تقسیم کئے تواونٹوں کودس کے برابرقراردیا۔

اور جب قربانی کے بعد ان کاساراخون نکل جائے اوروہ بے روح ہو کر زمین پرگرجائے تب اسے کاٹوکیونکہ زندہ جانورکاگوشت کاٹ کرکھاناممنوع ہے ،

عَنْ أَبِی وَاقِدٍ، قَالَ:قَالَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: مَا قُطِعَ مِنَ الْبَهِیمَةِ وَهِیَ حَیَّةٌ فَهِیَ مَیْتَةٌ

ابوواقدلیثی رضی اللہ عنہ سے مروی ہےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجوگوشت زندہ جانورسے کاٹ لیاجائے تووہ مردارہے۔[56]

پھرقربانی کےاس گوشت کو خود بھی کھاؤ اور ان کو بھی کھلاؤ جو قناعت کیے بیٹھے ہیں اور ان کو بھی جو اپنی حاجت پیش کریں ،

عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ:قَالَ:فَكُلُوا وَتَصَدَّقُوا وَادَّخِرُوا

ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا صدیقہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاپس کھاؤ،کھلاؤ،صدقہ کرواورذخیرہ کرو۔[57]

اِن جانوروں کو ہم نے اس طرح تمہارے لیے مسخر کیا ہے تاکہ تم چاہوتوان پرسواری کرو،دودھ نکالواورجب چاہوذبح کرکے گوشت کھاؤاوراس عظیم الشان نعمت پر اپنے رب کے شکر گزار بندے بنو اوراس کی حمدوثنابیان کرو، جیسے فرمایا

اَوَلَمْ یَرَوْا اَنَّا خَلَقْنَا لَهُمْ مِّمَّا عَمِلَتْ اَیْدِیْنَآ اَنْعَامًا فَهُمْ لَهَا مٰلِكُوْنَ۝۷۱وَذَلَّــلْنٰهَا لَهُمْ فَمِنْهَا رَكُوْبُهُمْ وَمِنْهَا یَاْكُلُوْنَ۝۷۲وَلَهُمْ فِیْهَا مَنَافِعُ وَمَشَارِبُ۝۰ۭ اَفَلَا یَشْكُرُوْنَ۝۷۳       [58]

ترجمہ:کیا یہ لوگ دیکھتے نہیں ہیں کہ ہم نے اپنے ہاتھوں کی بنائی ہوئی چیزوں میں سے ان کے لیے مویشی پیدا کیے ہیں اور اب یہ ان کے مالک ہیں ،ہم نے انہیں اس طرح اِن کے بس میں کر دیا ہے کہ ان میں سے کسی پر یہ سوار ہوتے ہیں ، کسی کا یہ گوشت کھاتے ہیں ،اور ان کے اندر اِن کے لیے طرح طرح کے فوائد اور مشروبات ہیں ،پھر کیا یہ شکر گزار نہیں ہوتے ؟۔

وَقَدْ كَانُوا فِی جَاهِلِیَّتِهِمْ إِذَا ذَبَحُوهَا لِآلِهَتِهِمْ وَضَعُوا عَلَیْهَا مِنْ لُحُومٍ قرابتنهم، وَنَضَحُوا عَلَیْهَا مِنْ دِمَائِهَا

ایک روایت میں ہے زمانہ جاہلیت میں لوگ جب اپنے معبودوں کے لیے جانوروں کوذبح کرتے تووہ ان کے سامنے گوشت رکھ دیتے تھے اوران پران کاخون چھڑک دیا کرتے تھے۔[59]

عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ قَالَ: كَانَ أَهْلُ الْجَاهِلِیَّةِ یَنْضَحُونَ الْبَیْتَ بِلُحُومِ الْإِبِلِ وَدِمَائِهَا فَقَالَ أَصْحَابُ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وسلم: فَنَحْنُ أَحَقُّ أَنْ نَنْضَحَ،فَأَنْزَلَ اللهُ:لَنْ یَنَالَ اللهَ لُحُومُهَا وَلا دِمَاؤُهَا وَلَكِنْ یَنَالُهُ التَّقْوَى مِنْكُمْ

ابن جریج رحمہ اللہ کہتے ہیں دورجاہلیت میں دستورتھاکہ بیت اللہ کواونٹوں کے گوشت اورخون سے لتھیڑدیتے تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھیوں نے کہاکہ ہم اس بات کے زیادہ حق دارہیں کہ بیت اللہ پرقربانی کے جانوروں کے خون کے چھینٹے ماریں ، تواللہ تعالیٰ نے یہ آیت کریمہ’’اللہ تعالیٰ کو قربانیوں کے گوشت نہیں پہنچتے نہ ان کے خون بلکہ اسے تمہارے دل کی پرہیزگاری پہنچتی ہے۔‘‘ نازل فرمائی۔ [60]

ان کی اس جہالت کے بارے میں فرمایااللہ تعالیٰ کو نہ ان جانوروں کا گوشت پہنچتاہے اور نہ ہی خون ، اللہ تعالیٰ ان سب چیزوں سے بے نیازاورقابل ستائش ہے،وہ تو تمہارا تقویٰ دیکھتا ہے ،وہ توصرف بندوں کااخلاص اورصالح نیت کودیکھتاہے اوراسی کوقبول فرماتااور اسی پرصلہ عنایت فرماتا ہے،یعنی قربانی کامقصدصرف اللہ تعالیٰ کی رضاکی طلب ہو،اس کامقصدتفاخر،ریاکاری ،شہرت کی خواہش یامحض عادت نہ ہو،

أَبَا هُرَیْرَةَ، یَقُولُ:قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:إِنَّ اللهَ لَا یَنْظُرُ إِلَى أَجْسَادِكُمْ، وَلَا إِلَى صُوَرِكُمْ، وَلَكِنْ یَنْظُرُ إِلَى قُلُوبِكُمْ وَأَشَارَ بِأَصَابِعِهِ إِلَى صَدْرِهِ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ نہ تمہارے جسموں کواورنہ تمہاری صورتوں کودیکھے گابلکہ تمہارے دلوں کودیکھے گااورآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے سینے کی طرف اپنی انگلی سے اشارہ کیا۔[61]

اللہ نے ان جانوروں کو تمہارے لیے اس طرح مسخر کیا ہے تاکہ اس کی بخشی ہوئی ہدایت پر اس کی عظمت وکبریائی بیان کرو ، اور اے نبیﷺ!اللہ کاتقویٰ اختیارکرنے والوں کواللہ کی خوشنودی اور انواع واقسام کی لازوال نعمتوں سے بھری جنتوں کی بشارت دو ۔

[1] ابن ہشام۵۸۴؍۱

[2] ابن ہشام ۶۷؍۲،عیون الآثر۱۵؍۲،سیرة ابن اسحاق۳۲۷؍۱،دلائل النبوة للبیہقی۲۵۷؍۵، السیرة النبویة لابن کثیر۳۲؍۳

[3]الحجرات: 9

[4]صحیح بخاری کتاب الصلحبَابُ مَا جَاءَ فِی الإِصْلاَحِ بَیْنَ النَّاسِ إِذَا تَفَاسَدُوا۲۶۹۱

[5] التوبة ۲۳،۲۴

[6] المجادلة۲۲

[7] صحیح بخاری کتاب الایمان والنذوربَابٌ كَیْفَ كَانَتْ یَمِینُ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ۶۶۳۲،مسنداحمد۱۸۹۶۱

[8] صحیح بخاری کتاب الایمان بَابٌ حُبُّ الرَّسُولِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مِنَ الإِیمَانِ۱۵،صحیح مسلم کتاب الایمان بَابُ وُجُوبِ مَحَبَّةِ رَسُولِ اللهِ صلَّى الله عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَكْثَرَ مِنَ الْأَهْلِ وَالْوَلَدِ، وَالْوَالِدِ والنَّاسِ أجْمَعِینَ، وَإِطْلَاقِ عَدَمِ الْإِیمَانِ عَلَى مَنْ لمْ یُحِبَّهُ هَذِهِ الْمَحَبَّةَ۱۶۸ ،سنن ابن ماجہ کتاب السنة بَابٌ فِی الْإِیمَانِ ۶۷،سنن نسائی كِتَابُ الْإِیمَانِ وَشَرَائِعِهِ باب عَلَامَةُ الْإِیمَانِ۵۰۱۶

[9] تفسیرطبری۵۹۶؍۱۸

[10] صحیح بخاری کتاب المغازی بَابُ مَنْزِلِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَوْمَ الفَتْحِ۴۲۹۵

[11]آل عمران۹۷

[12] تفسیرابن ابی حاتم۲۴۸۳؍۸

[13] صحیح بخاری كِتَابُ البُیُوعِ بَابُ مَا ذُكِرَ فِی الأَسْوَاقِ۲۱۱۸،صحیح مسلم كتاب الْفِتَنِ وَأَشْرَاطِ السَّاعَةِ بَابُ الْخَسْفِ بِالْجَیْشِ الَّذِی یَؤُمُّ الْبَیْتَ۷۲۴۲،صحیح ابن حبان۶۷۵۵

[14]سنن ابوداودکتاب اللقطة بَابُ التَّعْرِیفِ بِاللُّقَطَةِ ۱۷۱۹ ،صحیح مسلم کتاب اللقطة بَابٌ فِی لُقَطَةِ الْحَاجِّ۴۵۰۹

[15] آل عمران ۹۶

[16] صحیح بخاری كِتَابُ أَحَادِیثِ الأَنْبِیَاءِ بَابُ قَوْلِ اللهِ تَعَالَى وَاتَّخَذَ اللهُ إِبْرَاهِیمَ خَلِیلًا۳۳۶۶، صحیح مسلم كِتَابُ الْمَسَاجِدِ وَمَوَاضِعِ الصَّلَاةَ باب الْمَسَاجِدِ وَمَوَاضِعِ الصَّلَاةَ ۱۱۶۱،مسند احمد۲۱۳۳۳

[17] البقرة۱۲۵

[18] تفسیرابن کثیر۴۱۴؍۵

[19] ابراہیم۳۷

[20] البقرة۱۹۸

[21]صحیح بخاری کتاب العیدین بَابُ فَضْلِ العَمَلِ فِی أَیَّامِ التَّشْرِیقِ۹۶۹

[22] مسند احمد۵۴۴۶

[23] سنن ابوداودکتاب الصیام بَابٌ فِی صَوْمِ الْعَشْرِ۲۴۳۷،سنن نسائی کتاب الصیام باب كَیْفَ یَصُومُ ثَلَاثَةَ أَیَّامٍ مِنْ كُلِّ شَهْر۲۴۲۰،السنن الکبری للبیہقی۸۳۹۳

[24] صحیح بخاری کتاب العیدین بَابُ فَضْلِ العَمَلِ فِی أَیَّامِ التَّشْرِیقِ

[25] صحیح مسلم کتاب الصیام بَابُ اسْتِحْبَابِ صِیَامِ ثَلَاثَةِ أَیَّامٍ مِنْ كُلِّ شَهْرٍ وَصَوْمِ یَوْمِ عَرَفَةَ وَعَاشُورَاءَ وَالِاثْنَیْنِ وَالْخَمِیسِ ۲۷۴۶

[26] صحیح بخاری کتاب الحج بَابُ طَوَافِ الوَدَاعِ ۱۷۵۵،وبَابُ إِذَا حَاضَتِ المَرْأَةُ بَعْدَ مَا أَفَاضَتْ ۱۷۶۰، وکتاب الحیض بَابُ المَرْأَةِ تَحِیضُ بَعْدَ الإِفَاضَةِ ۳۲۹،صحیح مسلم کتاب الحج بابُ وُجُوبِ طَوَافِ الْوَدَاعِ وَسُقُوطِهِ عَنِ الْحَائِضِ ۳۲۲۰

[27] المائدة۳

[28] المائدة۱۰۳

[29] الاعراف۳۳

[30] البقرة۱۱۶

[31] النحل۱۱۶

[32] صحیح بخاری کتاب الشھادات بَابُ مَا قِیلَ فِی شَهَادَةِ الزُّورِ۲۶۵۴،صحیح مسلم کتاب الایمان بَابُ بَیَانِ الْكَبَائِرِ وَأَكْبَرِهَا۲۵۹

[33] الحج: 30

[34] مسنداحمد۱۷۶۰۳،سنن ابوداود كِتَاب الْأَقْضِیَةِ بَابٌ فِی شَهَادَةِ الزُّورِ۳۵۹۹،جامع ترمذی کتاب الشھادات بَابُ مَا جَاءَ فِی شَهَادَةِ الزُّورِ ۲۳۰۱

[35]أحكام القرآن للجصاص۷۸؍۵، إرواء الغلیل فی تخریج أحادیث منار السبیل۵۸؍۸،الإنصاف فی معرفة الراجح من الخلاف۲۴۸؍۱۰

[36] البقرة۱۵۸

[37] تفسیرطبری۶۲۱؍۱۸

[38] صحیح بخاری كِتَابُ الأَضَاحِیِّ بَابٌ فِی أُضْحِیَّةِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بِكَبْشَیْنِ أَقْرَنَیْنِ، وَیُذْكَرُ سَمِینَیْنِ،قبل الحدیث۵۵۵۳

[39]صحیح بخاری کتاب الاضحیة بَابٌ فِی أُضْحِیَّةِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بِكَبْشَیْنِ أَقْرَنَیْنِ، وَیُذْكَرُ سَمِینَیْنِ۵۵۵۳

[40] صحیح بخاری الاضحیة بَابٌ فِی أُضْحِیَّةِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بِكَبْشَیْنِ أَقْرَنَیْنِ، وَیُذْكَرُ سَمِینَیْنِ ۵۵۵۴،مسندابی یعلی ۲۸۰۶،السنن الکبری للبیہقی ۱۹۰۸۵

[41] سنن ابوداودکتاب الضحایابَابُ مَا یُسْتَحَبُّ مِنَ الضَّحَایَا۲۷۹۵

[42] مسنداحمد۸۵۱،سنن ابوداودكِتَاب الضَّحَایَا بَابُ مَا یُكْرَهُ مِنَ الضَّحَایَا ۲۸۰۴،جامع ترمذی أَبْوَابُ الأَضَاحِیِّ بَابُ مَا یُكْرَهُ مِنَ الأَضَاحِیِّ ۱۴۹۸،سنن ابن ماجہ كِتَابُ الْأَضَاحِیِّ بَابُ مَا یُكْرَهُ، أَنْ یُضَحَّى بِهِ۳۱۴۲،۳۲۴۳،السنن الکبری للنسائی۴۴۴۷

[43] مسنداحمد۱۸۵۴۲،سنن ابوداودكِتَاب الضَّحَایَا بَابُ مَا یُكْرَهُ مِنَ الضَّحَایَا۲۸۰۲،جامع ترمذی أَبْوَابُ الأَضَاحِیِّ بَابُ مَا لاَ یَجُوزُ مِنَ الأَضَاحِیِّ۱۹۹۷،سنن ابن ماجہ كِتَابُ الْأَضَاحِیِّ بَابُ مَا یُكْرَهُ، أَنْ یُضَحَّى بِهِ۳۱۴۴

[44] الحج۳۶

[45] صحیح بخاری کتاب الحج بَابُ رُكُوبِ البُدْنِ۱۶۸۹،وكِتَابُ الوَصَایَا بَابٌ هَلْ یَنْتَفِعُ الوَاقِفُ بِوَقْفِهِ؟۲۷۵۵،وكِتَابُ الأَدَبِ بَابُ مَا جَاءَ فِی قَوْلِ الرَّجُلِ وَیْلَكَ۶۱۶۰،صحیح مسلم کتاب الحج بَابُ جَوَازِ رُكُوبِ الْبَدَنَةِ الْمُهْدَاةِ لِمَنِ احْتَاجَ إِلَیْهَا۳۲۰۸ ،سنن ابوداودكِتَاب الْمَنَاسِكِ بَابٌ فِی رُكُوبِ الْبُدْنِ ۱۷۶۰،سنن نسائی كِتَابُ مَنَاسِكِ الْحَجِّ باب رُكُوبُ الْبَدَنَةِ۲۸۰۱

[46]۔صحیح مسلم کتاب الحج بَابُ جَوَازِ رُكُوبِ الْبَدَنَةِ الْمُهْدَاةِ لِمَنِ احْتَاجَ إِلَیْهَا۳۲۱۴،سنن ابوداودكِتَاب الْمَنَاسِكِ بَابٌ فِی رُكُوبِ الْبُدْنِ۱۷۶۱،السنن الکبری للنسائی ۳۷۷۰، مسنداحمد۱۴۴۱۳

[47] المائدة۹۵

[48] الفتح۲۵

[49] تفسیرابن ابی حاتم۲۴۹۲؍۸

[50] البقرة۱۵۶

[51]التوبة۷۱

[52] التوبة۱۱۲

[53] المائدة۲

[54] صحیح مسلم کتاب الحج بَابُ بَیَانِ وُجُوهِ الْإِحْرَامِ، وَأَنَّهُ یَجُوزُ إِفْرَادُ الْحَجِّ وَالتَّمَتُّعِ وَالْقِرَانِ، وَجَوَازِ إِدْخَالِ الْحَجِّ عَلَى الْعُمْرَةِ، وَمَتَى یَحِلُّ الْقَارِنُ مِنْ نُسُكِهِ۲۹۴۰

[55] مسنداحمد۲۴۸۴،مستدرک حاکم ۷۵۶۰

[56] سنن ابوداودکتاب الصیدبَابٌ فِی صَیْدٍ قُطِعَ مِنْهُ قِطْعَةٌ ۲۸۵۸،جامع ترمذی ابواب الصید بَابُ مَا قُطِعَ مِنَ الحَیِّ فَهُوَ مَیِّتٌ ۱۴۸۰،سنن ابن ماجہ کتاب الصیدبَابُ مَا قُطِعَ مِنَ الْبَهِیمَةِ، وَهِیَ حَیَّةٌ۳۲۱۶

[57] صحیح بخاری کتاب الاضحیةبَابُ مَا یُؤْكَلُ مِنْ لُحُومِ الأَضَاحِیِّ وَمَا یُتَزَوَّدُ مِنْهَا عن سلمہ بن الاکوع ۵۵۶۹،صحیح مسلم کتاب الاضاحی بَابُ بَیَانِ مَا كَانَ مِنَ النَّهْیِ عَنْ أَكْلِ لُحُومِ الْأَضَاحِیِّ بَعْدَ ثَلَاثٍ فِی أَوَّلِ الْإِسْلَامِ، وَبَیَانِ نَسْخِهِ وَإِبَاحَتِهِ إِلَى مَتَى شَاءَ عن عبداللہ بن واقد۵۱۰۳،سنن ابوداودکتاب الضحایابَابٌ فِی حَبْسِ لُحُومِ الْأَضَاحِیِّ۲۸۱۲

[58] یٰسین۷۱تا۷۳

[59]

تفسیرابن کثیر۴۳۱؍۵

[60]تفسیرابن ابی حاتم۲۴۹۵؍۸

[61]صحیح مسلم كتاب الْبِرِّ وَالصِّلَةِ وَالْآدَابِ بَابُ تَحْرِیمِ ظُلْمِ الْمُسْلِمِ، وَخَذْلِهِ، وَاحْتِقَارِهِ وَدَمِهِ، وَعِرْضِهِ، وَمَالِهِ ۶۵۴۲

Related Articles