ہجرت نبوی کا پہلا سال

رئیس مدینہ منورہ سعدبن معاذ ؓ کاعمرہ اداکرنے کے لئے مکہ مکرمہ جانا

عَنْ سَعْدِ بْنِ مُعَاذٍ أَنَّهُ قَالَ:كَانَ صَدِیقًا لِأُمَیَّةَ بْنِ خَلَفٍ، وَكَانَ أُمَیَّةُ إِذَا مَرَّ بِالْمَدِینَةِ نَزَلَ عَلَى سَعْدٍ، وَكَانَ سَعْدٌ إِذَا مَرَّ بِمَكَّةَ نَزَلَ عَلَى أُمَیَّةَ، فَلَمَّا قَدِمَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ المَدِینَةَ انْطَلَقَ سَعْدٌ مُعْتَمِرًا، فَنَزَلَ عَلَى أُمَیَّةَ بِمَكَّةَ، فَقَالَ لِأُمَیَّةَ: انْظُرْ لِی سَاعَةَ خَلْوَةٍ لَعَلِّی أَنْ أَطُوفَ بِالْبَیْتِ،فَخَرَجَ بِهِ قَرِیبًا مِنْ نِصْفِ النَّهَارِ، فَلَقِیَهُمَا أَبُو جَهْلٍ، فَقَالَ: یَا أَبَا صَفْوَانَ، مَنْ هَذَا مَعَكَ؟ فَقَالَ هَذَا سَعْدٌ

سعدبن معاذ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے سعدبن معاذ رضی اللہ عنہ اورامیہ بن خلف آپس میں دوست تھےرئیس مدینہ سعد رضی اللہ عنہ بن معاذعمرہ ادا کرنے کے لئے مکہ مکرمہ گئے،امیہ بن خلف جب مدینہ منورہ آتاتھاتووہ سعدبن معاذ رضی اللہ عنہ کے ہاں قیام کرتاتھااورجب سعد بن معاذمکہ مکرمہ تشریف لے جاتے توامیہ بن خلف کے ہاں قیام فرماتے تھے،چنانچہ اس باربھی وہ اپنے دوست امیہ بن خلف کے مہمان بنے،سعدبن معاذ رضی اللہ عنہ نے اپنے دوست سے کہامجھے کوئی ایساوقت بتلاؤجب میں سکون سے بیت اللہ کاطواف کرسکوں ،امیہ بن خلف دوپہرکے وقت انہیں بیت اللہ کی طرف لے کرچلا،توعین بیت الحرام کے دروازے پر اس کی ملاقات ابوجہل سے ہوئی اوراس نے امیہ بن خلف سے پوچھااے ابوصفوان تمہارے ساتھ کون ہے؟امیہ بن خلف نے کہایہ سعدبن معاذ رضی اللہ عنہ ہیں

فَقَالَ لَهُ أَبُو جَهْلٍ: أَلَا أَرَاكَ تَطُوفُ بِمَكَّةَ آمِنًا، وَقَدْ أَوَیْتُمُ الصُّبَاةَ، وَزَعَمْتُمْ أَنَّكُمْ تَنْصُرُونَهُمْ وَتُعِینُونَهُمْ، أَمَا وَاللهِ لَوْلَا أَنَّكَ مَعَ أَبِی صَفْوَانَ مَا رَجَعْتَ إِلَى أَهْلِكَ سَالِمًا،فَقَالَ لَهُ سَعْدٌ وَرَفَعَ صَوْتَهُ عَلَیْهِ : أَمَا وَاللهِ لَئِنْ مَنَعْتَنِی هَذَا لَأَمْنَعَنَّكَ مَا هُوَ أَشَدُّ عَلَیْكَ مِنْهُ، طَرِیقَكَ عَلَى المَدِینَةِ،فَقَالَ لَهُ أُمَیَّةُ: لَا تَرْفَعْ صَوْتَكَ یَا سَعْدُ عَلَى أَبِی الحَكَمِ، سَیِّدِ أَهْلِ الوَادِی

یہ سن کر ابوجہل نے سعد رضی اللہ عنہ کوٹوک کر کہا تم توہمارے دین کے مرتدوں کوپناہ دواوران کی امدادواعانت کادم بھرو اورہم تمہیں اطمینان سے مکہ میں طواف کرنے دیں ؟اگرتم امیہ بن خلف کے مہمان نہ ہوتے توزندہ یہاں سے نہیں جاسکتے تھے،سعدبن معاذ رضی اللہ عنہ نے بلاخوف وخطر باآوازبلند اس سے بھی سخت جواب دیا بخدا ا گرتم نے مجھے اس چیزسے روکا تو میں تمہیں اس چیزسے روک دوں گا جوتمہارے لئے اس سے شدیدترہے (یعنی مدینہ پرسے تمہاری رہ گزر)یعنی میں تم پرمدینہ ہوکرشام جانے کا تجارتی راستہ بندکردوں گا ، امیہ بن خلف نے باربار سعدبن معاذ رضی اللہ عنہ سے کہااے سعد رضی اللہ عنہ ! اپنی آوازمکہ مکرمہ کے سردارابوالحکم کی آوازسے بلند نہ کرو،

فَقَالَ سَعْدٌ: دَعْنَا عَنْكَ یَا أُمَیَّةُ، فَوَاللَّهِ لَقَدْ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَقُولُ:إِنَّهُمْ قَاتِلُوكَ، قَالَ: بِمَكَّةَ؟ قَالَ: لاَ أَدْرِی، فَفَزِعَ لِذَلِكَ أُمَیَّةُ فَزَعًا شَدِیدًا، فَلَمَّا رَجَعَ أُمَیَّةُ إِلَى أَهْلِهِ، قَالَ: یَا أُمَّ صَفْوَانَ، أَلَمْ تَرَیْ مَا قَالَ لِی سَعْدٌ؟ قَالَتْ: وَمَا قَالَ لَكَ؟ قَالَ: زَعَمَ أَنَّ مُحَمَّدًا أَخْبَرَهُمْ أَنَّهُمْ قَاتِلِیَّ، فَقُلْتُ لَهُ: بِمَكَّةَ، قَالَ: لَا أَدْرِی، فَقَالَ أُمَیَّةُ: وَاللَّهِ لَا أَخْرُجُ مِنْ مَكَّةَ

سعدبن معاذ رضی اللہ عنہ کواس پرغصہ آگیااوراسے کہنے لگے اے امیہ رہنے دو،اللہ کی قسم ! میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوفرماتے ہوئے سناہے کہ بیشک مسلمان تجھے قتل کردیں گے امیہ بن خلف ابوجہل کوبھول گیااورپوچھنے لگاکیامجھے مسلمان قتل کریں گے،سعد رضی اللہ عنہ نے فرمایاہاں مسلمان تجھے قتل کریں گے،امیہ نے پوچھاکیامکہ مکرمہ میں آکرقتل کریں گے؟ سعد رضی اللہ عنہ نے فرمایایہ مجھے معلوم نہیں ،اپنے قتل کاسن کرامیہ بہت خوفزدہ ہوااورکہنے لگا واللہ محمد(ﷺ)!جھوٹ نہیں بولتے،پھرپلٹ کراپنی بیوی کے پاس آیاتواسے کہنے لگااے ام صفوان!تم نے سناسعد رضی اللہ عنہ نے میرے متعلق کیاکہاہے بیوی نے کہامجھے اس کی خبرنہیں ہےتم بتلاؤ انہوں نے کیاکہاہے؟امیہ نے کہاسعد رضی اللہ عنہ نے کہاہے کہ انہیں محمدﷺنے خبردی ہے کہ مسلمان مجھے قتل کریں گے،میں نے سعد رضی اللہ عنہ سے پوچھاکیامکہ مکرمہ میں آکرقتل کریں گے یاکہیں کسی دوسری جگہ پرقتل کریں گےتوانہوں نے جواب دیا کہ اس کے بارے میں مجھے معلوم نہیں ہے ،بیوی نے یہ سن کرکہاپس اللہ کی قسم ! محمدغلط بات نہیں کرتے،امیہ نے کہاواللہ میں کبھی مکہ سے باہرہی نہ جاؤں گا۔[1]

یہ گویااہل مکہ کی طرف سے اس بات کااعلان تھاکہ زیارت بیت اللہ کی راہ مسلمانوں پربندہے اور اس کا جواب اہل مدینہ کی طرف سے یہ تھاکہ شامی تجارت کاراستہ مخالفین اسلام کے لئے پرخطرہے،اورپھرمشرکین مکہ نے مسلمانوں پرباقاعدہ حملہ کی تیاریاں شروع کردیں اور ان کی چھوٹی چھوٹی ٹکڑیاں طلایہ گرددستوں کے طورپر مدینہ منورہ کے اردگردگشت کرنے لگیں تاکہ اہل مدینہ کوپریشان کیاجاسکے ،اور مقصدبدکے لئے اپنازیادہ سرمایہ شام کی تجارت میں لگادیا تاکہ اس کامنافع جنگی مصارف میں خرچ ہوسکے ،بیت اللہ کے متولی ہونے کی وجہ سے تمام عرب قریش کے زیراثرتھااس لئے ان کی مخالفت نے سارے عرب کومسلمانوں کاحریف بنادیا،

جب قریش اورمشرکین مکہ کے اچانک حملہ کے امکانات شدیدترہوگئے تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے احتیاطی تدابیر کے طور پر سفر اور حضر میں شب بیداری شروع کردی اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہ ہتھیاربندہوکرسوتے تھے۔[2]

اورچونکہ خودرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پربھی قاتلانہ حملہ کاخدشہ پیداہوگیاتھا اس لئے آپ بھی بیداررہا کرتے تھے ،

 أَنَّ عَائِشَةَ كَانَتْ تُحَدِّثُ: أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ سَهِر ذَاتَ لَیْلَةٍ، وَهِیَ إِلَى جَنْبِهِ،قَالَتْ: فقلتُ: مَا شَأْنُكَ یَا رَسُولَ اللهِ؟قَالَ: لَیْتَ رَجُلًا صَالِحًا مِنْ أَصْحَابِی یَحْرُسُنِی اللیْلَةَ؟ قَالَتْ: فَبَیْنَا أَنَا عَلَى ذَلِكَ إِذْ سَمِعْتُ صَوْتَ السِّلَاحِ فَقَالَ: مَنْ هَذَا؟ فَقَالَ: أَنَا سَعْدُ بْنُ مَالِكٍ ، فَقَالَ:مَا جَاءَ بِكَ؟ قَالَ: جِئْتُ لِأَحْرُسَكَ یَا رَسُولَ اللهِ ،فَدَعَا لَهُ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، قَالَتْ: فَسَمِعْتُ غَطِیطَ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فی نَوْمِهِ

ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےایک رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیدارتھے اورانہیں نیند نہیں آرہی تھی،میں نے پوچھااے اللہ کے رسول ﷺ!آج کیابات ہے؟ تو آپ نے فرمایا کہ کوئی نیک آدمی میرے ساتھیوں میں سے ہوتا جو رات کو میری نگہبانی کرتا،اتنے میں ہم نے ہتھیار کی آواز سنی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کون آدمی ہے؟ انہوں نے عرض کیاسعدبن مالک رضی اللہ عنہ ہوں ،فرمایاکیسے آئے ہو؟انہوں نے عرض کیااے اللہ کے رسول ﷺ!آپ کی دربانی کے لئے حاضر ہوا ہوں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں دعادی، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سو رہے، یہاں تک کہ ہم نے آپ کے خر اٹے کی آواز سنی۔[3]

عَنْ عَائِشَةَ [رَضِیَ اللَّهُ عَنْهَا] قَالَتْ: كَانَ النَّبِیُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یُحْرَس حَتَّى نَزَلَتْ هَذِهِ الْآیَةُ: {وَاللَّهُ یَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ} قَالَتْ: فَأَخْرَجَ النَّبِیُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ رأسه من القُبَّة، وقال:یأیها النَّاسُ، انْصَرِفُوا فَقَدْ عَصَمَنِی اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ.

ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےایک مرتبہ شایدآپ سفر میں تھے کہ اللہ تعالیٰ نے آیت قرآنی نازل فرمائی ’’اللہ تم کولوگوں کے شر سے بچانے والاہے،یقین رکھوکہ وہ کافروں کو(تمہارے مقابلے میں )کامیابی کی راہ ہرگزنہ دکھائے گا۔‘‘تو آپ نے خیمہ کاپردہ ہٹاکرپہرہ دینے والے صحابی رضی اللہ عنہ سے فرمایاکہ وہ چلے جائیں اورآرام کریں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے میری حفاظت کاذمہ لے لیا ہے۔[4]

پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہرہ اور حفاظت کواپنے لئے لازم نہ رکھا مگرصحابہ کرام رضی اللہ عنہ اکثراوقات اپنی مرضی سے دربانی کی سعادت سرانجام دیتے تھے۔

عبداللہ بن زبیرکی ولادت

مِنْ مَنْزِلِ أَبِی أَیُّوبَ زَیْدَ بْنَ حَارِثَةَ وَأَبَا رَافِعٍ وَأَعْطَاهُمَا بَعِیرَیْنِ وَخَمْسَمِائَةِ دِرْهَمٍ إِلَى مَكَّةَ فَقَدِمَا عَلَیْهِ بِفَاطِمَةَ وَأُمِّ كُلْثُومٍ ابْنَتِی رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَسَوْدَةَ بِنْتَ زَمْعَةَ زَوْجَتَهُ وَأُسَامَةَ بْنِ زَیْدٍ

ماہ رمضان میں رسول اللہﷺنے ابوایوب رضی اللہ عنہ ہی کے مکان سے زید رضی اللہ عنہ بن حارثہ اور ابورافع کودواونٹوں اورپانچ سودہم دے کرمکہ مکرمہ روانہ کیاتاکہ وہ ام المومنین سودہ رضی اللہ عنہا ، ام کلثوم رضی اللہ عنہا بنت محمدﷺ،فاطمہ رضی اللہ عنہا بنت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ، اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ اوران کی والدہ ام ایمن رضی اللہ عنہا کولیکرآئیں اوروہ لیکرواپس ہوئے۔[5]

وَبَعَثَ أَبُو بَكْرٍ مَعَهُمَا عَبْدَ الله بن أریقط الدیلی بِبَعِیرَیْنِ أَوْ ثَلاثَةٍ. وَكَتَبَ إِلَى عَبْدِ اللهِ بْنِ أَبِی بَكْرٍ یَأْمُرُهُ أَنْ یَحْمِلَ أَهْلَهُ أُمِّیَ أُمَّ رُومَانَ وَأَنَا وَأُخْتِیَ أَسْمَاءَ امْرَأَةَ الزُّبَیْرِ

سیدنا ابو بکر صدیق نے عبد اللہ بن اریقط کو دویاتین اونٹوں کے ساتھ روانہ کیا اور عبد اللہ بن ابی بکر کو لکھ بھیجا کہ اپنے اہل وعیال ، ام رومان اور مجھے اور زبیر کی بیوی اسماء کواپنے ساتھ لیکر آئیں ۔[6]

وَحَبَسَ أَبُو الْعَاصِ بْنُ الرَّبِیعِ امْرَأَتَهُ زَیْنَبَ بِنْتَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ،وَخَرَجَ عَبْدُ اللهِ بْنُ أَبِی بَكْرٍ مَعَهُمْ بِعِیَالِ أَبِی بَكْرٍ فِیهِمْ عَائِشَةُ

آپﷺکے دامادابوالعاص بن الربیعا رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں اتفاق سے جس اونٹ پرام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سوارتھیں وہ بھاگ نکلااوراس تیزی سے دوڑاکہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے نیچے گرنے کاخطرہ پیداہوگیا عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں میں نے ایک آوازسنی کہ اس کی رسی کوپھینک دوچنانچہ میں نے اونٹ کی رسی پھینک دی، اوروہ اسی وقت ٹھیرگیااورواپس پلٹا،ایسے معلوم ہوتاتھاجیسے کسی آدمی نے اس کوپکڑکرواپس پلٹایا ہو۔[7]

عَنْ أَسْمَاءَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهَا: أَنَّهَا حَمَلَتْ بِعَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَیْرِ، قَالَتْ:أَنَّهَا حَمَلَتْ بِعَبْدِ اللهِ بْنِ الزُّبَیْرِ بِمَكَّةَ، قَالَتْ: فَخَرَجْتُ وَأَنَا مُتِمٌّ، فَأَتَیْتُ المَدِینَةَ فَنَزَلْتُ قُبَاءً، فَوَلَدْتُ بِقُبَاءٍ،ثُمَّ أَتَیْتُ بِهِ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَوَضَعْتُهُ فِی حَجْرِهِ،ثُمَّ دَعَا بِتَمْرَةٍ فَمَضَغَهَا، ثُمَّ تَفَلَ فِی فِیهِ، فَكَانَ أَوَّلَ شَیْءٍ دَخَلَ جَوْفَهُ رِیقُ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ،ثُمَّ حَنَّكَهُ بِالتَّمْرَةِ، ثُمَّ دَعَا لَهُ فَبَرَّكَ عَلَیْهِ،ثُمَّ دَعَا لَهُ فَبَرَّكَ عَلَیْهِ،وَكَانَ أَوَّلَ مَوْلُودٍ وُلِدَ فِی الإِسْلاَمِ،فَفَرِحُوا بِهِ فَرَحًا شَدِیدًا، لِأَنَّهُمْ قِیلَ لَهُمْ: إِنَّ الیَهُودَ قَدْ سَحَرَتْكُمْ فَلاَ یُولَدُ لَكُمْ

اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہا نے بیان کیاعبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ مکہ مکرمہ میں ان کے پیٹ میں تھے،پھرمیں (جب ہجرت کے لئے)نکلی تومدت حمل پوری ہوچکی تھی چنانچہ مدینہ منورہ پہنچ کرمیں نے پہلی منزل قبامیں کی اور وہیں عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ پیداہوگئے،میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بچہ کولے کرحاضرہوئی اوراسےرسول اللہ ﷺکی گودمیں دے دیا، رسول اللہﷺنے کھجور منگوائی اوراسے چبا کربچہ کے منہ میں ڈال دی،پس رسول اللہﷺکالعاب دہن ہی وہ پہلی چیزتھا جواس بچے کی پیٹ میں گیا،پھراس چبائی ہوئی کھجورکوبچے کے تالومیں لگادیا پھراللہ تعالیٰ سے ان کے لئے برکت کی دعا فرمائی (اوربچے کانام عبداللہ رکھااوراس کے سرپرہاتھ پھیرا)یہ پہلابچہ تھاجواسلام میں ہجرت مدینہ کے بعدپیداہوا،صحابہ کرام رضی اللہ عنہ اس سے بہت خوش ہوئے کیونکہ عام تاثریہ تھاکہ یہودیوں نے مسلمانوں پرجادوکردیاہے کہ ان کے ہاں بچے پیدانہ ہوں ۔[8]

قَالَتْ أَسْمَاءُ: فَجَاءَ عَبْدُ اللهِ بَعْدَ سَبْعِ سِنِیْنَ لِیُبَایِعَ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَمَرَهُ بِذَلِكَ أَبُوْهُ الزُّبَیْرُ، فَتَبَسَّمَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ حِیْنَ رَآهُ مُقْبِلاً، ثُمَّ بَایَعَهُ

اسما رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ سات آٹھ برس کے ہوئے توایک دن زبیر رضی اللہ عنہ انہیں ساتھ لے کربارگاہ رسالت میں حاضرہوئے اورعرض کیااے اللہ کے رسول ﷺ! میرے اس بچے کوبیعت سے مشرف فرمایئے،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کمسن عبداللہ رضی اللہ عنہ کودیکھ کرمتبسم ہوئے اورپھرانہیں بڑی محبت اورشفقت کے ساتھ بیعت سے مشرف فرمایا۔[9]

وعن عَبْدِ اللهِ بنِ الزُّبَیْرِ:أن النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ احتجم،فلمَّا فَرَغَ قَالَ:یَا عَبْدَ اللهِ! اذْهَبْ بِهَذَا الدَّمِ، فَأَهْرِقْهُ حَیْثُ لاَ یَرَاكَ أَحَدٌ، فَلَمَّا بَرَزَ عَنْ رَسُوْلِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ, عَمدَ إِلَى الدَّمِ فَشَرِبَهُ، فلمَّا رَجَعَ قَالَ:مَا صَنَعْتَ بِالدَّمِ؟ قَالَ: عَمدْتُ إِلَى أَخْفَى مَوْضِعٍ عَلِمْتُ، فَجَعَلْتُهُ فِیْهِ, قَالَ:لَعَلَّكَ شَرِبْتَهُ؟ قَالَ: نَعَمْ. قَالَ: ولِمَ شَرَبْتَ الدَّمَ?، وَیْلٌ لِلنَّاسِ مِنْكَ، وَوَیْلٌ لَكَ مِنَ النَّاسِ،فَقَالَ: كَانُوا یَرَوْنَ أَنَّ القُوَّةَ الَّتِی بِهِ مِنْ ذَلِكَ الدَّمِ

عبداللہ رضی اللہ عنہ بن زبیرسے مروی ہےایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پچھنے لگوائے ،اس وقت عبداللہ بھی بارگاہ رسالت میں حاضرتھے،پچھنے لگنے سے جوخون نکلارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ عبداللہ کودے کر فرمایا اے عبداللہ! اس کوکہیں دبادو، ان کورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس قدرمحبت اورعقیدت تھی کہ یہ مقدس خون خاک میں دباناگوارانہ ہوارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نظروں سے اوجھل ہوکراس کوپی لیا،واپس آئے توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھااس خون کوکہاں پھینکا؟ انہوں نے عرض کیامیں نے اسے اسی جگہ چھپادیاہے جہاں آپ نے فرمایاتھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایامجھے معلوم ہوتاہے کہ تم نے اسے پی لیاہے،انہوں نے عرض کیاہاں اے اللہ کے رسول ﷺ!رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجس کے بدن میں میراخون جائے گااس کوجہنم کی آگ نہیں چھوسکتی البتہ ایک دن تم لوگوں کے ہاتھ سے اورلوگ تمہارے ہاتھ سے مارے جائیں گے۔[10]

كان أول مولود من الأنصار النعمان بن بشیر، ولد بعد الهجرة بأربعة عشر شهرا

اورہجرت کے چودہ ماہ بعدانصارمیں پہلابچہ جوپیداہواوہ نعمان بن بشیرتھے۔[11]

ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہےمکہ مکرمہ سے ان لوگوں کے آنے کے بعدآپ صلی اللہ علیہ وسلم ابو ایوب رضی اللہ عنہ انصاری کے گھرسے حجروں میں منتقل ہو گئے۔[12]

ام المو منین عائشہ رضی اللہ عنہا کی بیماری

عبداللہ بن ابوبکر رضی اللہ عنہ مکہ مکرمہ سے اہل خانہ کولے کرمدینہ منورہ پہنچے تو ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا بنوحارث بن خزرج کے محلہ میں اتریں توانہیں بخارچڑھ گیاجوایک ماہ تک رہا۔

فَدَخَلْتُ مَعَ أَبِی بَكْرٍ عَلَى أَهْلِهِ، فَإِذَا عَائِشَةُ ابْنَتُهُ مُضْطَجِعَةٌ قَدْ أَصَابَتْهَا حُمَّى، فَرَأَیْتُ أَبَاهَا فَقَبَّلَ خَدَّهَا وَقَالَ: كَیْفَ أَنْتِ یَا بُنَیَّةُ،وكان المرض شدیدا حتى تمرق شعرها

سیدناابوبکر رضی اللہ عنہ بیٹی کی مزاج پرسی کے لئے گھرمیں تشریف لاتے راوی البراء کہتے ہیں کہ میں بھی ان کے ساتھ تھا،تو عائشہ رضی اللہ عنہا بخارکی نقاہت کی وجہ سے لیٹی ہوتی تھیں ، سیدناابوبکر رضی اللہ عنہ پدری محبت وشفقت سے انہیں رخسارپر پیارکرتے اور پوچھتے اے بیٹی! تمہاری طبیعت کیسی ہے،شدیدبخارکے بعد وہ تندرست تو ہوگئیں مگران کے سرکے بال جھڑ چکے تھے[13]

ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی رخصتی( شوال اہجری )

سیدناابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کی صاحبزادی عائشہ رضی اللہ عنہا جن کی والدہ کانام ام رومان بنت عامربن عویمر رضی اللہ عنہ ہے ،ان کاپہلانکاح عبداللہ ازدی سے ہواتھا،عبداللہ کی وفات کے بعدوہ سیدناابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کے نکاح میں آئیں ،سیدناابوبکر رضی اللہ عنہ سے ان کی دواولادیں ہوئی ،عبدالرحمٰن رضی اللہ عنہ اورعائشہ ،بعض حضرات کاخیال ہے کہ عائشہ رضی اللہ عنہا نبوت کے چوتھے سال کی ابتدامیں پیداہوئیں اوربعض پانچویں سال کے آخرمیں ان کاپیداہونالکھتے ہیں ،مشہورروایات کے مطابق ان کی پیدائش کاسن یہی بیان کیاجاتاہے ،یہ بچپن میں ہی مشرف باسلام ہو گئیں ، آپﷺنے ہجرت سے قبل شوال کے مہینہ میں مکہ مکرمہ میں جب ان کی عمرچھ سال کی تھی عقدفرمایاتھا،پھرمدینہ منورہ میں ہجرت کے آٹھ ماہ بعدشوال کے مہینے میں سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے مکان واقع محلہ سنح میں آپ کی تقریب زفاف ہوئی ،آپ کامہرچارسودرہم مقررہوا،اس طرح رخصتی کے وقت ان کی عمرنوسال بنتی ہے،

عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ:تَزَوَّجَنِی رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ لِسِتِّ سِنِینَ، وَبَنَى بِی وَأَنَا بِنْتُ تِسْعِ سِنِینَ

ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے عقدکیاتومیں چھ برس کی تھی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم مجھ سے ہم بسترہوئے تومیں نو سال کی تھی۔[14]

آپ فصیح البیان اورصحیح عربی زبان بولنے والی تھیں ،آپ کوبہت سے قصائدیادتھے ، آپ نہایت کریم النفس وسخی تھیں اپنے پاس کچھ جمع نہ رکھتی تھیں ،اپنے ہم عصروں میں سب سے زیادہ احادیث کی حافظ تھیں

وَمَاتَ عَنْهَا وَهِیَ بِنْتُ ثَمَانَ عَشْرَةَ

رسول اللہ ﷺکی وفات کے وقت آپ کی عمراٹھارہ برس تھی۔

آپ نے سترہ رمضان المبارک شب سہ شنبہ ۶۷ہجری کوتقریباًسرسٹھ سال کی عمرمیں وفات پائی ۔

جب عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا تندرست ہوگئیں اوران کے سرپربال بھی دوبارہ ہو گئے

ثُمَّ قَالَ أَبُو بَكْرٍ: یَا رَسُولَ اللهِ مَا یَمْنَعُكَ أَنْ تَبْتَنِیَ بِأَهْلِكَ؟ قَالَ:الصَّدَاقُ،فَأَعْطَاهُ أَبُو بَكْرٍ اثْنَتَا عَشْرَةَ أُوقِیَّةً وَنَشًّافَبَعَثَ بِهَا إِلَیْنَا

توسیدناابوبکر رضی اللہ عنہ نے بارگاہ رسالت میں حاضرہوکرعرض کیااے اللہ کے رسول ﷺ!آپ اپنی اہلیہ کواپنے گھرکیوں نہیں لے آتے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااس وقت میرے پاس مہراداکرنے کے لیے رقم نہیں ہے،سیدناابوبکر رضی اللہ عنہ نے عرض کیامیری دولت کس کام آئے گی چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بارہ اوقیہ اورایک نش(پانچ سودرہم)سیدناابوبکر رضی اللہ عنہ سے قرض لے کرعائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس بھیجوادیئے۔[15]

عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: فَأَتَتْنِی أُمُّ رُومَانَ، وَأَنَا عَلَى أُرْجُوحَةٍ، وَمَعِی صَوَاحِبِی، فَصَرَخَتْ بِی فَأَتَیْتُهَا، وَمَا أَدْرِی مَا تُرِیدُ بِی فَأَخَذَتْ بِیَدِی، فَأَوْقَفَتْنِی عَلَى الْبَاب، قُلْتُ: هَهْ هَهْ،حَتَّى ذَهَبَ نَفَسِی، فَأَدْخَلَتْنِی بَیْتًافَإِذَا نِسْوَةٌ مِنَ الْأَنْصَارِ فَقُلْنَ: عَلَى الْخَیْرِ وَالْبَرَكَةِ، وَعَلَى خَیْرِ طَائِرٍفَأَسْلَمَتْنِی إِلَیْهِنَّ، فَغَسَلْنَ رَأْسِی وَأَصْلَحْنَنِی فَلَمْ یَرُعْنِی،إِلَّا وَرَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ ضُحًى، فَأَسْلَمْنَنِی إِلَیْهِ

عائشہ رضی اللہ عنہا اپنی رخصتی کے بارے میں فرماتی ہیں میرے پاس ام رومان رضی اللہ عنہا آئیں اس وقت میں اپنی سہیلیوں کے ساتھ جھولے پرتھی،انہوں نے مجھے پکارامیں ان کے پاس آئی اورمیں نہ جانتی تھی کہ مجھے کیوں بلایا ہے ، انہوں نے میراہاتھ پکڑا اور مجھے دروازہ پر لا کھڑاکیااورمیں (سانس پھولنے کی وجہ سے)ہاہ ہاہ کررہی تھی، یہاں تک کہ میرا سانس پھولنابندہوگیاتومجھے ایک گھرمیں لے گئیں ،وہاں چند انصاری عورتیں موجود تھیں ،انہوں نے کہااللہ خیروبرکت عطاکرے اورخیروبھلائی سے حصہ عطاہو،الغرض میری والدہ نے مجھے ان کے سپردکردیاانہوں نے میراسر دھویا اور میرا سنگھار کیا اور مجھے کوئی خوف نہیں پہنچا، چاشت کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائےاورمجھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سپردکردیا۔[16]

وَلُعَبُهَا مَعَهَا

اوران کے کھلونے ان کے ساتھ تھے۔[17]

أَنَّ أَسْمَاءَ بِنْتَ یَزِیدَ بْنِ السَّكَنِ،فَقَالَتْ:إِنِّی قَیَّنْتُ عَائِشَةَ لِرَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ ثُمَّ جِئْتُهُ، فَدَعَوْتُهُ لِجِلْوَتِهَا، فَجَاءَ، فَجَلَسَ إِلَى جَنْبِهَا، فَأُتِیَ بِعُسِّ لَبَنٍ، فَشَرِبَ ثُمَّ نَاوَلَهَا النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَخَفَضَتْ رَأْسَهَا وَاسْتَحْیَتْ. قَالَتْ أَسْمَاءُ: فَانْتَهَرْتُهَا وَقُلْتُ لَهَا: خُذِی مِنْ یَدِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، قَالَتْ: فَأَخَذَتْ، فَشَرِبَتْ شَیْئًا، ثُمَّ قَالَ لَهَا النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:أَعْطِی تِرْبَكِ قَالَتْ أَسْمَاءُ: فَقُلْتُ: یَا رَسُولَ اللهِ، بَلْ خُذْهُ، فَاشْرَبْ مِنْهُ، ثُمَّ نَاوِلْنِیهِ مِنْ یَدِكَ، فَأَخَذَهُ، فَشَرِبَ مِنْهُ، ثُمَّ نَاوَلَنِیهِ، قَالَتْ: فَجَلَسْتُ، ثُمَّ وَضَعْتُهُ عَلَى رُكْبَتِی، ثُمَّ طَفِقْتُ أُدِیرُهُ، وَأَتْبَعُهُ بِشَفَتَیَّ لِأُصِیبَ مِنْهُ مَشْرَبَ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ قَالَ لِنِسْوَةٍ عِنْدِی:نَاوِلِیهِنَّ، فَقُلْنَ: لَا نَشْتَهِیهِ، فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:لَا تَجْمَعْنَ جُوعًا وَكَذِبًا

اسماء رضی اللہ عنہا بنت یزیدسے مروی ہےعائشہ صدیقہ کو تیار کرنے والی اور نبی کی خدمت میں انہیں پیش کرنے والی میں ہی تھی، میرے ساتھ کچھ اور عورتیں بھی تھیں عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کوجلوے میں بٹھاکررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کواطلاع کی ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس آکربیٹھ گئے،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس دودھ کا ایک پیالہ لایا گیا، جسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے خود نو ش فرمایا پھر عائشہ کو وہ پیالہ پکڑا دیاان کوشرم معلوم ہوئی اورسر جھکا لیا، اسماء رضی اللہ عنہا بنت یزید نے ڈانٹاکہ نبی کریم ﷺکا ہاتھ واپس نہ لوٹاؤبلکہ یہ برتن لے لو،چناچہ میں نے شرماتے ہوئے وہ پیالہ پکڑ لیا اور اس میں سے تھوڑا سا دودھ پی لیا اور پھررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوواپس کردیا،پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ مجھے دے دوپھر نبی نے دوبارہ نو ش کرکے مجھے پکڑا دیا، میں بیٹھ گئی اور پیالے کو اپنے گٹھنے پر رکھ لیا اور اسے گھمانے لگی تاکہ وہ جگہ مل جائے جہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہونٹ لگائے تھے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ اپنی سہیلیوں کو دے دو، ہم نے عرض کیا کہ ہمیں اس کی خواہش نہیں ہے،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بھوک اور جھوٹ کو اکھٹا مت کرو۔[18]

چنانچہ اس شان سادگی کے ساتھ عائشہ رضی اللہ عنہا کی رخصتی ہوئی کہ نہ کوئی رسم اداکی گئی نہ کسی شان وشوکت کااظہارکیاگیا،چنانچہ ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ اللہ کی قسم !میری رخصتی میں نہ کوئی اونٹ ذبح کیاگیااورنہ کوئی بکری،ہاں ایک کھانے کاپیالہ تھاجس کوسعدبن عبادہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بھیجاتھا۔[19]

عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ:وَبَنَى بِی وَأَنَا بِنْتُ تِسْعِ سِنِینَ

ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم مجھ سے ہم بسترہوئے تومیں نو سال کی تھی۔[20]

عَنْ عَائِشَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: كُنْتُ أَلْعَبُ بِالْبَنَاتِ عِنْدَ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، وَكَانَ لِی صَوَاحِبُ یَلْعَبْنَ مَعِی،فَكَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ إِذَا دَخَلَ یَتَقَمَّعْنَ مِنْهُ، فَیُسَرِّبُهُنَّ إِلَیَّ فَیَلْعَبْنَ مَعِی

عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں میں نبی کریم ﷺکے یہاں لڑکیوں کے ساتھ کھیلتی تھی ،میری بہت سی سہیلیاں تھیں جومیرے ساتھ کھیلا کرتی تھیں ،جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حجرے میں تشریف لاتے تووہ چھپ جاتیں (پھرجب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کہیں باہر تشریف لے جاتے) تو پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں میرے پاس بھیجتے اوروہ میرے ساتھ کھیلتی رہتی تھیں ۔[21]

سیرت کی کتابوں میں ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی عقدکے وقت عمرچھ سال لکھی گئی ہےمگرکچھ لوگ عقد کے وقت عمرچھ سال کے بجائے سولہ یاسترہ سال کاکہتے ہیں ،ان کے بقول ایسامعلوم ہوتاہے کہ راوی سے عَشْرَةَ کالفظ درج کرنارہ گیاہے،اس سلسلہ میں وہ یہ چندواقعاتی شہادتیں اور قرائن پیش کرتے ہیں جوقارئین کی معلومات کے لیے درج کی جارہی ہیں ۔

عن ابن أبی الزناد قال كانت أسماء بنت أبی بكر أكبر من عائشة بعشر سنین

ابن ابی الزنادکہتے ہیں ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی علاتی بہن اسماءبنت ابوبکر رضی اللہ عنہما عائشہ رضی اللہ عنہا سے دس سال بڑی تھیں ۔[22]

وَكَانَتْ أَسَنَّ مِنْ عَائِشَةَ بِبِضْعَ عَشْرَةَ سَنَةً

امام ذہبی رحمہ اللہ نے بھی یہی نقل کیاہے کہ اسماء رضی اللہ عنہا ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ سےتقریبا ًدس سال بڑی تھیں ۔[23]

أسماء بنت أبی بكر، وكانت أكبر من عائشة بعشر سنین أو نحوها

حافظ ابن عبد البر رحمہ اللہ لکھتے ہیں اسماءبنت ابوبکر رضی اللہ عنہما ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ سے تقریباً دس سال بڑی تھیں ۔[24]

أَسْمَاءُ بِنْتُ أَبِی بَكْرٍ الصِّدِّیقِ أُمُّ عَبْدِ اللهِ بْنِ الزُّبَیْرِ، كَانَتْ تُعْرَفُ بِذَاتِ النِّطَاقَیْنِ، كَانَتْ تَحْتَ الزُّبَیْرِ بْنِ الْعَوَّامِ فَوَلَدَتْ لَهُ عَبْدَ اللهِ، وَعُرْوَةَ، وَالْمُنْذِرَ، ثُمَّ طَلَّقَهَا، فَكَانَتْ عِنْدَ ابْنِهَا عَبْدِ اللهِ، كَانَتْ أُخْتَ عَائِشَةَ لِأَبِیهَا، وَكَانَتْ أَسَنَّ مِنْ عَائِشَةَ، وُلِدَتْ قَبْلَ التَّأْرِیخِ بِسَبْعٍ وَعِشْرِینَ سَنَةً

اسماءبنت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہما جوعبداللہ بن زبیرکی والدہ تھیں اورذات النطاقین کے لقب سے مشہورتھیں ،یہ زبیربن العوام کی زوجہ تھیں ،ان کے بطن سے عبداللہ اوربیٹی عروہ اورمنذرپیداہوئے،پھرزبیر رضی اللہ عنہ نے انہیں طلاق دے دی،عبداللہ ان کے ساتھ رہے،ان کے والدسے ان کی بہن عائشہ رضی اللہ عنہا تھیں ،یہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے بڑی تھیں اور ہجرت سے ستائیس سال قبل پیداہوئی تھیں ۔[25]

اورمورخین نے لکھاہے کہ ہجرت کے وقت اسماء رضی اللہ عنہا کی عمرستائیس برس تھی۔

ولدت قبل الهجرة بسبع وعشرین سنة

چنانچہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے ابونعیم کے حوالے سے لکھا ہےوہ ہجرت سے ستائیس سال قبل پیداہوئیں ۔[26]

وتوفیت أسماء بمكة فِی جمادى الأولى سنة ثلاث وسبعین ،وقد بلغت مائة سنة

حافظ ابن عبدالبر رحمہ اللہ نے لکھاہےان کاانتقال مکہ مکرمہ جمادی الاولیٰ ۳۷ہجری میں ہوا اورانتقال کے وقت ان کی عمرسوسال تھی۔ [27]

وُلِدَتْ قَبْلَ التَّأْرِیخِ بِسَبْعٍ وَعِشْرِینَ سَنَةً، وأسلمت بعد سبعة عشر إنسانا،ومات سنة ثلاث وسبعین

علامہ ابن اثیر رحمہ اللہ لکھتے ہیں اسماءبنت ابوبکر رضی اللہ عنہما ہجرت سے ستائیس سال قبل پیداہوئیں ، اورسترہ آدمیوں کے بعدایمان لائیں اورتہترہجری میں وفات پائی۔[28]

أسماء بنت أبی بكر أسلمت بعدإسلام سبعة عشر إنسانا، قال: وتوفیت أسماء بمكة فی جمادى الأولى سنة ثلاث وسبعین

اسماءبنت ابوبکر رضی اللہ عنہما سترہ آدمیوں کے بعدایمان لائیں ،اوراسماء رضی اللہ عنہا نے جمادی الاولی تہترہجری میں مکہ مکرمہ میں وفات پائی۔[29]

حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ نے بھی ایساہی لکھاہے۔

اب جبکہ اسماء رضی اللہ عنہا کی عمرہجرت کے وقت ستائیس سال تھی اورام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا اپنی اس بہن سے دس سال چھوٹی تھیں توہجرت کے وقت عائشہ رضی اللہ عنہا کی عمرسترہ برس کی بنتی ہے۔

ابن ہشام نے ایک بعثت نبوی میں جوحضرات ایمان لائے ان کی جوفہرست دی ہے اس میں ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کانام بھی لکھاہے،لکھتے ہیں

ثُمَّ أَسْلَمَ أَبُو عُبَیْدَةَ بْنُ الْجَرَّاحِ وَأَسْمَاءُ بِنْتُ أَبِی بَكْرٍ. وَعَائِشَةُ بِنْتُ أَبِی بَكْرٍ، وَهِیَ یَوْمئِذٍ صَغِیرَةٌ

پھرابوعبیدہ بن الجراح دولت ایمان سے مشرف ہوئے اوراسماءبنت ابوبکر رضی اللہ عنہما اور عائشہ رضی اللہ عنہا بنت ابوبکر رضی اللہ عنہما دولت ایمان سے بہرہ ورہوئیں اورعائشہ رضی اللہ عنہا ان ایام میں چھوٹی تھیں ۔[30]

وقال ابن سعد: أول امرأة أسلمت بعد خدیجة أم الفضل زوج العباس، وأسماء بنت أبى بكر، وعائشة أختها

علامہ قسطلانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں ابن سعدکہتے ہیں ام المومنین خدیجہ رضی اللہ عنہا کے ایمان لانے کے بعدسب سے پہلے ایمان لانے والی ام الفضل زوجہ عباس رضی اللہ عنہا اوراسماءبنت ابوبکر رضی اللہ عنہما اوران کی بہن عائشہ رضی اللہ عنہا تھیں ۔[31]

وأسماء بنت أبی بكر ذات النطاقین وعائشة أختها وهی صغیرة

شرح زرقانی میں بھی یہی مرقوم ہے اوراسماءبنت ابوبکرذات النطاقین اور ان کی بہن عائشہ رضی اللہ عنہا ایمان لائیں اوراس وقت وہ چھوٹی تھیں ۔[32]

یہی بات اورمورخین نے بھی لکھی ہے۔

اب جبکہ ایک بعثت نبوی میں ایمان لانے والوں میں ایک نام عائشہ رضی اللہ عنہا کابھی ہے اگرچہ یہ بھی ساتھ لکھ دیاگیاہے کہ ان دونوں وہ چھوٹی تھیں تواس سے دوامورثابت ہوئے۔

ایک بعثت نبوی میں عائشہ رضی اللہ عنہا پیداہوچکی تھیں لہذایہ کہناکہ ان کی پیدائش چاریاپانچ بعثت نبوی میں ہوئی وہ سراسرغلط ہے۔

دوسرایہ کہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی عمراس زمانے میں اتنی تھی کہ وہ ایمان لانے اورنہ لانے کے معاملہ کوبخوبی سمجھ سکتیں تھیں ،اگرایمان لانے کے وقت ان کی عمرپانچ سال تسلیم کی جائے توہجرت کے وقت ان کی عمر اٹھارہ برس بنتی ہے اورہجرت کے ایک سال بعدیعنی شوال ایک ہجری میں ان کی عمرانیس سال بنتی ہے جوکہ ایک بالغ اورشادی کے قابل عورت کی عمرہے۔

تیسری بات یہ کہ ام المومنین خدیجہ رضی اللہ عنہا بنت خویلدجیسے مونس وغم خوارکے انتقال کے بعدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اداس اورپریشان رہنے لگے ،اس پرمستزادیہ کہ تین بیٹیاں گھرمیں موجود تھیں جن کے سرپرماں کی شفقت کاسائبان نہیں تھا،

جَاءَتْ خَوْلَةُ بِنْتُ حَكِیمٍ امْرَأَةُ عُثْمَانَ بْنِ مَظْعُونٍ، قَالَتْ: یَا رَسُولَ اللهِ أَلَا تَزَوَّجُ؟قَالَ:مَنْ؟ قَالَتْ: إِنْ شِئْتَ بِكْرًا، وَإِنْ شِئْتَ ثَیِّبًا؟قَالَ: فَمَنِ الْبِكْرُ؟ قَالَتْ: ابْنَةُ أَحَبِّ خَلْقِ اللهِ عَزَّ وَجَلَّ إِلَیْكَ عَائِشَةُ بِنْتُ أَبِی بَكْرٍ، قَالَ: وَمَنِ الثَّیِّبُ؟قَالَتْ: سَوْدَةُ بِنْتُ زَمْعَةَ،قَالَ:فَاذْهَبِی فَاذْكُرِیهِمَا عَلَیَّ،فَدَخَلَتْ بَیْتَ أَبِی بَكْرٍفَقَالَتْ: یَا أُمَّ رُومَانَ مَاذَا أَدْخَلَ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ عَلَیْكُمْ مِنَ الْخَیْرِ وَالْبَرَكَةِ؟قَالَتْ: وَمَا ذَاكَ؟قَالَتْ: أَرْسَلَنِی رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَخْطُبُ عَلَیْهِ عَائِشَةَ، قَالَتْ: انْتَظِرِی أَبَا بَكْرٍ حَتَّى یَأْتِیَ،فَجَاءَ أَبُو بَكْرٍ، قَالَتْ: یَا أَبَا بَكْرٍ مَاذَا أَدْخَلَ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ عَلَیْكُمْ مِنَ الْخَیْرِ وَالْبَرَكَةِ؟

ایک روزاسی حزن وملال کے عالم میں گھرتشریف لائے توعثمان رضی اللہ عنہ بن مظعون رضی اللہ عنہ کی زوجہ خولہ بنت حکم رضی اللہ عنہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضرہوئیں اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم کوغمزدہ دیکھ کرعرض کیااے اللہ کے رسول ﷺ!آپ کب تک بغیراہلیہ کے رہیں گے ؟آپ شادی کیوں نہیں کرلیتے؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خولہ رضی اللہ عنہ کی یہ بات سن کرفرمایاکس سے نکاح کروں ؟خولہ رضی اللہ عنہ نے عرض کیااگرآپ بیوہ چاہتے ہیں تووہ بھی موجودہے اوراگرکنواری کی خواہش ہے تووہ بھی موجودہے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکنواری کون ہے؟خولہ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا سیدناابوبکر رضی اللہ عنہ کی بیٹی عائشہ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااوربیوہ کون ہے؟خولہ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا سودہ رضی اللہ عنہا بنت زمعہ ،سیدالامم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجاؤدونوں کوجاکرمیراپیغام دو،خولہ رضی اللہ عنہ فرماتی ہیں میں پہلے سیدناابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کے گھرگئی، اوران کی زوجہ سے کہااے ام رومان رضی اللہ عنہا !اللہ تعالیٰ نے تم لوگوں کے لیے کس قدربھلائی اوربہتری کاسامان بہم پہنچاہے، ام رومان رضی اللہ عنہا نے یہ سن کرکہاوہ کیا؟میں نے کہاسرورعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے لیےآپ کی بیٹی عائشہ رضی اللہ عنہا کارشتہ مانگاہے،اس وقت سیدناابوبکر رضی اللہ عنہ گھرپرموجودنہ تھے،ام رومان نے کہاخولہ رضی اللہ عنہ !تھوڑی دیرانتظارکروسیدناابوبکر رضی اللہ عنہ آتے ہی ہوں گے،چنانچہ تھوڑی دیرکےبعدسیدناابوبکر رضی اللہ عنہ گھرآگئے،میں نے کہااے سیدناابوبکر رضی اللہ عنہ !اللہ تعالیٰ نے تم لوگوں کے لیے کس قدربھلائی اوربہتری کاسامان بہم پہنچاہے،

قَالَ: وَمَا ذَاكَ؟قَالَتْ: أَرْسَلَنِی رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَخْطُبُ عَلَیْهِ عَائِشَةَ،قَالَ: وَهَلْ تَصْلُحُ لَهُ؟ إِنَّمَا هِیَ ابْنَةُ أَخِیهِ؟فَرَجَعَتْ إِلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَذَكَرَتْ ذَلِكَ لَهُ،قَالَ:ارْجِعِی إِلَیْهِ فَقُولِی لَهُ: أَنَا أَخُوكَ، وَأَنْتَ أَخِی فِی الْإِسْلَامِ، وَابْنَتُكَ تَصْلُحُ لِی،فَرَجَعَتْ فَذَكَرَتْ ذَلِكَ لَهُ،قَالَ: انْتَظِرِی وَخَرَجَ،قَالَتْ أُمُّ رُومَانَ: إِنَّ مُطْعِمَ بْنَ عَدِیٍّ قَدْ كَانَ ذَكَرَهَا عَلَى ابْنِهِ، فَوَاللهِ مَا وَعَدَ وَعْدًا قَطُّ، فَأَخْلَفَهُ لِأَبِی بَكْرٍ، فَدَخَلَ أَبُو بَكْرٍ عَلَى مُطْعِمِ بْنِ عَدِیٍّ وَعِنْدَهُ امْرَأَتُهُ أُمُّ الْفَتَى

سیدناابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہاوہ کیا ہے؟میں کہامجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کے پاس عائشہ رضی اللہ عنہا کے رشتے کے لیے بھیجا ہے، سیدناابوبکر رضی اللہ عنہ کوبات سن کرنہایت تعجب ہوااورانہوں نے نہایت حیرانی سے سوال کیاکیا عائشہ رضی اللہ عنہا کانکاح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیسے ہوسکتاہے یہ توان کی بھتیجی ہے؟سیدناابوبکر رضی اللہ عنہ کے منہ سے یہ بات سن کرمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضرہوئی اوران کوسیدناابوبکر رضی اللہ عنہ کے اس جواب سے مطلع کیا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاسیدناابوبکر رضی اللہ عنہ سے کہونسبی بھائی کی بیٹی حرام ہوتی ہے دینی بھائی کی بیٹی حرام نہیں ہے لہذاعائشہ رضی اللہ عنہا کانکاح میرے ساتھ ہوسکتاہے،میں پھرواپس سیدناابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس گئی اورانہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جواب سے مطلع کیایہ جواب سن کرسیدناابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا خولہ رضی اللہ عنہ ! ٹھیرو میں ابھی آرہاہوں ،ام رومان رضی اللہ عنہا نے کہامطعم بن عدی نے اپنے بیٹے کے لیے عائشہ رضی اللہ عنہا کارشتہ مانگاتھااوراللہ کی قسم !وہ ان سے وعدہ کرچکے ہیں اورسیدناابوبکر رضی اللہ عنہ کے لیے وعدہ خلافی ایک جرم ہے،سیدناابوبکر رضی اللہ عنہ سیدھے مطعم بن عدی کے گھرگئے ،اس وقت مطعم اوراس کی زوجہ دونوں گھرپرموجودتھے

فَقَالَتْ یَا ابْنَ أَبِی قُحَافَةَ لَعَلَّكَ مُصْبِئُ صَاحِبَنَا مُدْخِلُهُ فِی دِینِكَ الَّذِی أَنْتَ عَلَیْهِ، إِنْ تَزَوَّجَ إِلَیْكَ،قَالَ أَبُو بَكْرٍ لِلْمُطْعِمِ بْنِ عَدِیٍّ: أَقَوْلُ هَذِهِ تَقُولُ،قَالَ: إِنَّهَا تَقُولُ ذَلِكَ،فَخَرَجَ مِنْ عِنْدِهِ، فَقَالَ لِخَوْلَةَ: ادْعِی لِی رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَدَعَتْهُ فَزَوَّجَهَا إِیَّاهُ

سیدناابوبکر رضی اللہ عنہ نے مطعم سے کہاکہ مجھے اس رشتہ کے بارے میں اپنی آخری بات بتادو،سیدناابوبکر رضی اللہ عنہ نے بات سن کرمطعم کوکچھ نہ بولامگراس کی زوجہ نے سیدناابوبکر رضی اللہ عنہ کے سوال کے جواب میں کہااے ابن قحافہ رضی اللہ عنہ ! ہمیں اس بات کاخوف ہے کہ اگریہ لڑکی ہمارے گھرمیں آجائے گی توہمارالڑکابے دین ہوجائے گااس وجہ سے ہم یہ رشتہ کرنے سے ڈررہے ہیں ،مطعم کی اہلیہ کاجواب سن کرسیدناابوبکر رضی اللہ عنہ نے مطعم کومخاطب کرکے کہاتمہاری اس بارے میں کیارائے ہے ؟ مطعم نے کہامیری اہلیہ نے جوکچھ کہاہے وہ آپ نے سن لیاہے ،دوسرے معنوں میں مطعم نے بھی رشتے سے انکارکردیا،مطعم اوراس کی بیوی کوجواب سن کرسیدناابوبکر رضی اللہ عنہ ان کے گھرسے اٹھ کرچلے آئے، اورگھرآکرخولہ رضی اللہ عنہ سے کہاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جاکر کہہ دوکہ میں اس رشتہ سے راضی ہوں ،چنانچہ اس طرح عائشہ رضی اللہ عنہا کانکاح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہوگیا۔[33]

اس روایت سے یہ امورثابت ہوئے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نکاح سے پہلے عائشہ رضی اللہ عنہا کانکاح معطم بن عدی کے بیٹے سے ہوچکاتھا۔

جبیربن مطعم اس وقت ایک جواں سال آدمی تھا،اس بات کی دلیل یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت مدینہ منورہ کے وقت دارالندوہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کوقتل کرنے کی جوسازش بنائی گئی تھی اس میں یہ شریک تھا۔

وَقَدْ اجْتَمَعَ فِیهَا أَشْرَافُ قُرَیْشٍ، مِنْ بَنِی عَبْدِ شَمْسٍ: عُتْبَةُ بْنُ رَبِیعَةَ، وَشَیْبَةُ ابْن رَبِیعَةَ، وَأَبُو سُفْیَانَ بْنُ حَرْبٍ. وَمِنْ بَنِی نَوْفَلِ بْنِ عَبْدِ مَنَافٍ: طُعَیْمَةُ بْنُ عَدِیٍّ، وَجُبَیْرُ بْنُ مُطْعَمٍ، وَالْحَارِثُ بْنُ عَامِرِ بْنِ نَوْفَلٍ. وَمِنْ بَنِی عَبْدِ الدَّارِ بْنِ قُصَیٍّ: النَّضْرُ بْنُ الْحَارِثِ بْنِ كِلْدَةَ. وَمِنْ بَنِی أَسَدِ بْنِ عَبْدِ الْعُزَّى: أَبُو الْبَخْتَرِیِّ ابْن هِشَامٍ، وَزَمْعَةُ بْنُ الْأَسْوَدِ بْنِ الْمُطَّلِبِ، وَحَكِیمُ بْنُ حِزَامٍ

پس قریش کے سردارمشاورت کے لیےدارالندوہ میں جمع ہوئے جن میں بنی عبدشمس سے عتبہ بن ربیعہ، شیبہ بن ربیعہ،ابوسفیان بن حرب،اوربنی نوفل بن عبدمناف سے طعیمہ بن عدی،اورجبیربن مطعم اورحارث بن عامربن نوفل اوربنی عبدالداربن قصی سے نضربن حارث بن کلدہ اوربنی اسدبن عبدالعزی سے ابوالبختری ابن ہشام اورزمعہ بن اسودبن مطلب اورحکیم بن حزام شامل تھے۔[34]

اب ایک جواں سال آدمی پانچ سال کی بچی سے کیسے شادی کرسکتاہے جبکہ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ عرب میں چھوٹی عمرمیں شادی کاکوئی رواج نہیں تھااورنہ ہی تاریخ میں اس کی کوئی مثال موجودہے،اسماءبنت ابوبکر رضی اللہ عنہما کی شادی ہجرت مدینہ منورہ سے کچھ پہلے زبیربن العوام رضی اللہ عنہ سے ہوئی تھی اوراس وقت وہ بالغہ تھیں کیونکہ ہجرت کے وقت ان کی عمر ستائیس سال تھی۔

ولدت قبل الهجرة بسبع وعشرین سنة

وہ ہجرت سے ستائیس سال قبل پیدا ہوئیں ۔[35]

اگریہ کہاجائے کہ نکاح نہیں صرف وعدہ کیاہواتھاتومختلف روایات میں ہے کہ نکاح ہی ہواتھاکیونکہ بعض روایات میں اعطیتھا اورفطلقھا کے الفاظ آئے ہیں جونکاح پردال ہیں ،

عَنِ ابْنِ أَبِی مُلَیْكَةَ، قَالَ:خَطَبُ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عَائِشَةَ إِلَى أَبِی بَكْرٍ وَكَانَ أَبُو بَكْرٍ قَدْ زَوَّجَهَا جُبَیْرَ بْنَ مُطْعِمٍ فَخَلَعَهَا مِنْهُ، فَزَوَّجَهَا رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ

ابن ابی ملیکة کہتے ہیں نبی کریم اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عائشہ بنت ابوبکر رضی اللہ عنہما سے نکاح کیااورسیدناابوبکر رضی اللہ عنہ نے جبیرسے مطعم سے ان کانکاح کیاہواتھاانہوں نے اس سے خلع لے لیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سےنکاح کرلیا۔[36]

ثُمَّ تَزَوَّجَهَا رَسُول اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَكَانَتِ بكرا

پھررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے نکاح فرمایاجب کہ آپ کنواری تھیں ۔[37]

اب ذراغورفرمائیں جب ام المومنین خدیجہ رضی اللہ عنہا کاانتقال ہوااس وقت سیدالامم صلی اللہ علیہ وسلم کی عمرمبارک پچاس سال کے قریب تھی ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی چاربیٹیاں تھیں جن میں سے دوکی شادی ہوچکی تھی اورباقی دوگھرمیں غیرشادی شدہ تھیں ،اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کوایک ایسے ساتھی کی ضرورت تھی جوآپ کی دلداری بھی کرے اوربچیوں کی غمگساری بھی کرے،اس ضرورت کوایک چھ سال کی بچی سے نکاح کرکے پورانہیں کیاجاسکتا،اس کے لیے ایک عاقلہ اوربالغہ عورت کی ضرورت تھی ،اس سے یہ معلوم ہوتاہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جوعائشہ رضی اللہ عنہا سے نکاح کاخیال ظاہرفرمایاوہ اسی لیے تھاکہ وہ بالغہ بھی تھیں اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس ضرورت کوپورابھی کرسکتی تھیں ۔

خولہ رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کویہ تجویزدی تھی

قَالَتْ: إِنْ شِئْتَ بِكْرًا، وَإِنْ شِئْتَ ثَیِّبًا؟قَالَ: فَمَنِ الْبِكْرُ؟ قَالَتْ: ابْنَةُ أَحَبِّ خَلْقِ اللهِ عَزَّ وَجَلَّ إِلَیْكَ عَائِشَةُ بِنْتُ أَبِی بَكْرٍ، قَالَ: وَمَنِ الثَّیِّبُ؟قَالَتْ: سَوْدَةُ بِنْتُ زَمْعَةَ

خولہ رضی اللہ عنہ نے عرض کیااگرآپ بیوہ چاہتے ہیں تووہ بھی موجودہے اوراگرکنواری کی خواہش ہے تووہ بھی موجودہے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکنواری کون ہے؟خولہ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا سیدناابوبکر رضی اللہ عنہ کی بیٹی عائشہ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااوربیوہ کون ہے؟خولہ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا سودہ رضی اللہ عنہا بنت زمعہ ۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم تقریباًروزانہ ہی سیدناابوبکر رضی اللہ عنہ کے گھرتشریف لے جاتے تھےاگرعائشہ رضی اللہ عنہا نابالغہ اورکم سن ہوتیں توآپ صلی اللہ علیہ وسلم خولہ رضی اللہ عنہ سے اسی وقت فرمادیتے کہ عائشہ رضی اللہ عنہا تو ابھی بہت چھوٹی ہیں میں اس کے ساتھ کیسے شادی کرسکتاہوں ،لیکن نہ توآپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی نے یہ فرمایااورنہ ہی خولہ رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سےکہاکہ ایک توبیوہ ہے اوردوسری چھ سال کی بچی بلکہ یہ کہاکہ ایک کنواری ہے اوردوسری بیوہ۔

سیدناابوبکر رضی اللہ عنہ نے خولہ رضی اللہ عنہ کی زبانی عائشہ رضی اللہ عنہا کے رشتہ کاسن کربھتیجی ہونے کاعذرتوکیامگریہ نہیں کہاکہ عائشہ رضی اللہ عنہا توابھی چھ سال کی بچی ہے،ابھی تووہ نکاح کی عمرمیں نہیں ، اس عمرمیں کیسے نکاح کیاجاسکتاہے ،اس سے ثابت ہواکہ عائشہ رضی اللہ عنہا اس وقت کم سن نہیں بلکہ ایک بالغہ اورشادی کے قابل لڑکی تھیں ۔

مطعم بن عدی اوراس کی بیوی نے بھی سیدناابوبکر رضی اللہ عنہ سے یہ عذرنہیں کیاکہ عائشہ توابھی توصرف چھ سال ہی کی بچی ہے جب وہ بالغ ہوجائیں گی توپھردیکھیں گے بلکہ اپنے بیٹے کے بے دین ہونے کاعذرکیا

فَقَالَتْ یَا ابْنَ أَبِی قُحَافَةَ لَعَلَّكَ مُصْبِئُ صَاحِبَنَا مُدْخِلُهُ فِی دِینِكَ الَّذِی أَنْتَ عَلَیْهِ، إِنْ تَزَوَّجَ إِلَیْكَ

اے ابن قحافہ رضی اللہ عنہ ! ہمیں اس بات کاخوف ہے کہ اگریہ لڑکی ہمارے گھرمیں آجائے گی توہمارالڑکابے دین ہوجائے گااس وجہ سے ہم یہ رشتہ کرنے سے ڈررہے ہیں ۔

اگرعائشہ رضی اللہ عنہا کی عمراس وقت چھ سال کی ہوتی تواس عذرکاکوئی جوازہی نہیں بنتاکیونکہ پانچ چھ سال کی دلہن اپنے خاوندکوکیسے بے دین کرسکتی ہے۔

چنانچہ اس بحث کاخلاصہ یہ ہواکہ ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ کی نکاح کے وقت عمرکے بارے میں روایت میں کچھ چوک ہوئی ہے اوریہ روایت کہ نکاح کے وقت ان کی عمرِچھ سال تھی اس میں راوی سے کسی وجہ سے عَشْرَةَ (دس )کالفظ رہ گیاہے،یہ روایت چونکہ بخاری میں ہے لہذاامام بخاری رحمہ اللہ کی جالت شان کی وجہ سے اسی طرح روایت ہوتا چلا آیاہے اورکسی نے اس طرف توجہ نہیں کی کہ چھ سال کی بچی سے نکاح کس لیے کیاجارہاہے جبکہ اس وقت کے معاشرہ میں کم عمرکی شادی کاکوئی رواج بھی نہ تھا،اگراس وقت کے رسم ورواج کے بالکل خلاف ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کانکاح چھ سال کی عمرمیں ہوتاتوکفارمکہ اس پرضروراعتراض کرتے جیسے انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ام المومنین زینب رضی اللہ عنہا سے نکاح پراعتراض کیاتھاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے منہ بولے بیٹے کی مطلقہ سے شادی کرلی ہے،اوراللہ تعالیٰ نے قرآن مجیدمیں اس کو جواب دیاتھا

۔۔۔فَلَمَّا قَضٰى زَیْدٌ مِّنْهَا وَطَرًا زَوَّجْنٰكَهَا لِكَیْ لَا یَكُوْنَ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ حَرَجٌ فِیْٓ اَزْوَاجِ اَدْعِیَاۗىِٕهِمْ اِذَا قَضَوْا مِنْهُنَّ وَطَرًا۝۰ۭ وَكَانَ اَمْرُ اللهِ مَفْعُوْلًا۝۳۷  [38]

ترجمہ:پھر جب زید اس سے اپنی حاجت پوری کر چکا تو ہم نے اس (مطلقہ خاتون) کا تم سے نکاح کردیا تاکہ مومنوں پر اپنے منہ بولے بیٹوں کی بیویوں کے معاملہ میں کوئی تنگی نہ رہے جبکہ وہ ان سے اپنی حاجت پوری کر چکے ہوں اور اللہ کا حکم تو عمل میں آنا ہی چاہئے تھا۔

لیکن تاریخ میں کہیں پتہ نہیں چلتاکہ داعی اسلام کی پوری مخالفت کے باوجود پورے مکہ مکرمہ میں اس نکاح کے بارے میں کوئی آوازاٹھی ہو۔

صحیح بخاری میں ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ کی عمرکے بارے میں روایت ہشام بن عروہ سے ہے

وَقَالَ یَعْقُوْبُ بنُ شَیْبَةَ: هِشَامٌ ثَبْتٌ لَمْ یُنْكَرْ عَلَیْهِ إلَّا بَعْدَ مَا صَارَ إِلَى العِرَاقِ فَإِنَّهُ انبَسَطَ فِی الرِّوَایَةِ، وَأَرْسَلَ، عَنْ أَبِیْهِ أَشْیَاءَ مِمَّا كَانَ قَدْ سَمِعَهُ مِنْ غَیْرِ أَبِیْهِ، عَنْ أَبِیْهِ

یعقوب بن شیبہ کہتے ہیں ہشام ثقہ راوی ہیں مگرعراق جانے کے بعدوہ کثرت سے روایات نقل کرتے تھے اورانہوں نے اپنے والدکی روایات میں دوسرے لوگوں کی روایات کوشامل کرکے مرسل کی شکل دے دیتے تھے (جس سے ان کے حافظہ میں وہم کااشارہ ملتاہے)۔[39]

صحیح بخاری میں ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ کی عمرکے بارے میں روایت ہشام بن عروہ سے ہے اورحافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لکھاہے کہ جب وہ عراق گئے توایک تواخیرعمرمیں ان کا حافظہ متغیرہوگیایعنی متاثرتھااوردوسرے وہ اپنے پاس سے رطب ویابس بیان کرنے لگے تھے۔[40]

اورامام مالک رحمہ اللہ فرمایاکرتے تھے۔

حَدَّثَنا عفان عن وهیب، قَالَ: سَمِعْتُ مَالِكَ بْنَ أَنَسٍ یقول هُوَ كذاب

عفان بن وہیب بیان کرتے ہیں میں نے امام مالک بن انس رحمہ اللہ کوبیان کرتے ہوئے سناہے کہ محمد ابن اسحاق کذاب ہے۔[41]

حدثنا حسین بن عروة، قَالَ: سمعت مالك بن أنس، یقول: محمد بن إسحاق كذاب

حسین بن عروہ بیان کرتے ہیں میں نے امام مالک بن انس رحمہ اللہ کوبیان کرتے ہوئے سناہے کہ محمد ابن اسحاق کذاب ہے۔[42]

حَدَّثَنا عَبد المؤمن بن علی الزعفرانی سمعت مالك بن أنس وذكر عنده مُحَمد بن إسحاق فقال دجال من الدجاجلة

عبدالمومن بن علی الزعفرانی کہتے ہیں میں نے مالک بن انس سے محمدبن اسحاق کاذکرکیاتوانہوں نے کہاوہ تودجالوں میں سے ایک دجال ہے۔[43]

وَقَال:قال مَالِك وذكره، فَقَالَ: دجال من الدجاجلة

امام مالک رحمہ اللہ سے محمدبن اسحاق کے بارے میں پوچھاگیاتوانہوں نے کہاوہ دجالوں میں سے ایک دجال ہے۔[44]

وقال النسائی مُحَمد بن إسحاق لیس بالقوی

امام نسائی رحمہ اللہ فرماتے ہیں محمدبن اسحاق قوی نہیں ہے۔[45]

قال لی مَالِك بْن أنس: هشام بْن عروة كذاب

مالک بن انس نے کہاہشام بن عروہ کذاب ہے۔[46]

اس لیے یہ بھی کہاجاسکتاہے کہ اس بارے میں جان بوجھ کرعَشْرَةَ (دس)کالفظ روایت سے نکالاگیاہے تاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوبدنام کیاجاسکے۔

خلاصہ کلام یہ ہے کہ ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کاسیدالامم صلی اللہ علیہ وسلم سے نکاح سولہ یااٹھارہ برس کی عمرمیں ہواتھااوررخصتی شوال ایک ہجری میں انیس برس کی عمرمیں ہوئی،واللہ اعلم۔

عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ:تَزَوَّجَنِی رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فِی شَوَّالٍ، وَبَنَى بِی فِی شَوَّالٍ، فَأَیُّ نِسَاءِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ كَانَ أَحْظَى عِنْدَهُ مِنِّی؟ قَالَ:وَكَانَتْ عَائِشَةُ تَسْتَحِبُّ أَنْ تُدْخِلَ نِسَاءَهَا فِی شَوَّالٍ

ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے شوال میں نکاح کیااورشوال ہی میں مجھ سے ہم بسترہوئےاورکون سی عورت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس مجھ سے بڑھ کرپیاری تھی،اورعائشہ رضی اللہ عنہا یہ پسندفرماتی تھیں کہ شوال کے مہینہ میں ان کے قبیلہ کی عورتوں سے ہم بستری کی جائے۔[47]

وَقَالَ أَبُو عَاصِمٍ: إِنَّمَا كَرِهَ النَّاسُ أَنْ یُدْخِلُوا النِّسَاءَ فِی شَوَّالٍ لِطَاعُونٍ وَقَعَ فِی شَوَّالٍ فِی الزَّمَنِ الأَوَّلِ

ابوعاصم رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ عرب میں شوال کے مہینہ میں نکاح کرنامکروہ سمجھتے تھے کیونکہ ایک دفعہ بہت پہلے شوال کے مہینہ میں عرب میں طاعون پھیلاتھااس وقت سے عرب شوال کومنحوس سمجھتے تھے اوراس مہینہ میں نکاح کرنے کوناپسند کرتے تھے۔[48]

روایات میں ہے کہ ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے نکاح کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کوپہلے ہی بتادیاگیاتھا،

عَنْ عَائِشَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهَا، أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ لَهَا: أُرِیتُكِ فِی المَنَامِ مَرَّتَیْنِ، أَرَى أَنَّكِ فِی سَرَقَةٍ مِنْ حَرِیرٍ، وَیَقُولُ: هَذِهِ امْرَأَتُكَ، فَاكْشِفْ عَنْهَا، فَإِذَا هِیَ أَنْتِ، فَأَقُولُ: إِنْ یَكُ هَذَا مِنْ عِنْدِ اللهِ یُمْضِهِ

ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایانکاح سے قبل تومجھے دودفعہ دکھائی گئی(ایک روایت میں ہے کہ تین رات دکھائی گئی) جبریل ریشم کے ایک کپڑے میں کوئی شے لپٹی ہوئی لے کرآئے اورکہاکہ یہ آپ کی بیوی ہے، میں نے جواس کوکھولاتووہ توتھی،چنانچہ میں نے کہاکہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہونے والا ہے ۔[49]

فَقَالَ السُّهَیْلِیُّ لَیْسَ بِشَكٍّ لِأَنَّ رُؤْیَا إِلَّانْبِیَاءِ وَحْیٌ وَلَكِنْ لَّمَّا كَانَتْ الرُّؤْیَا تَارَةً تَكُوْنُ عَلَى ظَاهِرِهَا

امام سہیلی رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ انبیاءکاخواب وحی ہوتاہے گویاکہ بذریعہ وحی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کواس نکاح کے بارے میں بتادیاگیاتھا۔[50]

عَنْ عَائِشَةَ، أَنَّ جِبْرِیلَ، جَاءَ بِصُورَتِهَا فِی خِرْقَةِ حَرِیرٍ خَضْرَاءَ إِلَى النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: هَذِهِ زَوْجَتُكَ فِی الدُّنْیَا وَالآخِرَةِ

اورام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہےجبریل مجھے ایک سبزرنگ کے ریشم کے ٹکڑے میں لپیٹ کرنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لائے،اورکہایہ دنیاوآخرت میں آپ کی بیوی ہے۔[51]

قَالَتْ عَائِشَةُ: مَا تَزَوَّجَنِی رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى أَتَاهُ جِبْرِیلُ بِصُورَتِی ،فَقَالَ: هَذِهِ زَوْجَتُكَ

ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت تک مجھ سے اس وقت تک نکاح نہیں فرمایاجب تک جبریل

میری تصویرلے کرآپ کے پاس نہ آئے اورکہاکہ یہ دنیاوآخرت میں آپ کی بیوی ہے۔[52]

جبرا ئیل علیہ السلام کاام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کوسلام کہنا

اللہ تعالیٰ کے حکم سے جبرائیل علیہ السلام وحی لے کرام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کے حجرے میں تشریف لاتے تھے

أَنَّ عَائِشَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهَا زَوْجَ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، قَالَتْ:قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:یَا عَائِشَ هَذَا جِبْرِیلُ یُقْرِئُكِ السَّلاَمَ، قُلْتُ:وَعَلَیْهِ السَّلاَمُ وَرَحْمَةُ اللهِ، قَالَتْ:وَهُوَ یَرَى مَا لاَ نَرَى

ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عائشہ رضی اللہ عنہا کو مخاطب ہوکرفرمایااے عائش رضی اللہ عنہ !یہ جبرائیل علیہ السلام تشریف لائے ہیں اور تمہیں سلام کہہ رہے ہیں ، میں نے کہااوران پربھی سلام اوراللہ کی رحمت ہو، عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایاآپ صلی اللہ علیہ وسلم وہ چیزملاحظہ فرماتے ہیں جومجھ کو نظر نہیں آتی۔ [53]

رسول اللہﷺکاانتظارکرنا:

عَنْ عَائِشَةَ، أَنَّهَا قَالَتْ: وَاعَدَ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ جِبْرِیلُ عَلَیْهِ السَّلَامُ فِی سَاعَةٍ یَأْتِیهِ فِیهَا، فَجَاءَتْ تِلْكَ السَّاعَةُ وَلَمْ یَأْتِهِ، وَفِی یَدِهِ عَصًا، فَأَلْقَاهَا مِنْ یَدِهِ، وَقَالَ: مَا یُخْلِفُ اللهُ وَعْدَهُ وَلَا رُسُلُهُ، ثُمَّ الْتَفَتَ، فَإِذَا جِرْوُ كَلْبٍ تَحْتَ سَرِیرِهِ، فَقَالَ: یَا عَائِشَةُ، مَتَى دَخَلَ هَذَا الْكَلْبُ هَاهُنَا؟ فَقَالَتْ: وَاللهِ، مَا دَرَیْتُ، فَأَمَرَ بِهِ فَأُخْرِجَ ،فَجَاءَ جِبْرِیلُ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: وَاعَدْتَنِی فَجَلَسْتُ لَكَ فَلَمْ تَأْتِ، فَقَالَ: مَنَعَنِی الْكَلْبُ الَّذِی كَانَ فِی بَیْتِكَ، إِنَّا لَا نَدْخُلُ بَیْتًا فِیهِ كَلْبٌ وَلَا صُورَةٌ

ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہےایک مرتبہ جبرائیل علیہ السلام نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک مخصوص وقت پرآنے کاوعدہ فرمایامگرمقررہ وقت گزر گیااور جبرائیل علیہ السلام تشریف نہیں لائے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں ایک عصاتھاجسے آپ نے نیچے ڈال دیااورفرمایااللہ اوراس کے فرشتے وعدہ خلافی نہیں کرتے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مڑ کرجودیکھاکہ ایک کتااورایک پلاچارپائی کے نیچے بیٹھے ہیں ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے دریافت فرمایاکہ یہ کتایہاں کب آیا؟ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیااللہ کی قسم مجھے نہیں معلوم،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کتے اوراس کے پلے کوحجرے سے باہرنکالنے کاحکم فرمایاچنانچہ وہ حجرے سے باہرنکال دیاگیا، پھرجبرائیل علیہ السلام تشریف لائے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں فرمایاآپ نے مجھ سے وعدہ کیاتھالیکن آپ مقررہ وقت پرنہیں آئے اورمیں آپ کے انتظارمیں بیٹھارہا،جبرائیل علیہ السلام نے عرض کیامجھے آپ کے حجرے میں موجوداس کتے نے روک دیاہم اس گھرمیں داخل نہیں ہوتے جس میں کتایاتصویرہو۔[54]

 مدینہ کے وبائی امراض اوررسول اللہ ﷺکی دعا

مہاجرین مکہ مکرمہ کی خشک آب وہواکے عادی تھے جب یہ لوگ مدینہ منورہ پہنچے توان میں سے اکثربخارمیں مبتلاہوگئے ،یہ بخارانفلوئنزایاملیریاکی قسم کاتھا کیونکہ مدینہ کاموسم گرما مرطوب اورموسم سرمابہت سردتھااوربارش تقریباًہمیشہ رہتی تھی ،عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ تشریف لائے تویہاں بخاراوردوسری وبائی بیماریاں بہت پھیلی ہوئی تھیں ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم توان بیماریوں سے محفوظ رہے مگرآپ کے اصحاب نے بڑی تکلیف اٹھائی ، مدینہ منورہ میں سیدناابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ اوران کے دونوں آزاد کردہ غلام عامربن فہیرہ رضی اللہ عنہ اوربلال رضی اللہ عنہ ایک مکان میں رہتے تھے اورتینوں کوبھی بخار نے آگھیرا،ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا ان کی عیادت کے لئےآئیں ،دیکھاکہ تینوں کو تیز بخارہے

قَالَتْ: فَدَخَلْتُ عَلَیْهِمَا، قُلْتُ: یَا أَبَتِ كَیْفَ تَجِدُكَ؟قَالَتْ: وَكَانَ أَبُو بَكْرٍ إِذَا أَخَذَتْهُ الحُمَّى، یَقُولُ:

میں سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس آئی اورپوچھااباجان! آپ کاکیاحال ہے ؟جب سیدناابوبکر رضی اللہ عنہ کوبخار چڑھتا تو وہ (موت کویاد کرتے ہوئے حنظلہ بن لسیلوکاشعرپڑھتے ہوئے ) کہتے۔

كُلُّ امْرِئٍ مُصَبَّحٌ فِی أَهْلِهِ ، وَالمَوْتُ أَدْنَى مِنْ شِرَاكِ نَعْلِه

ہرشخص اپنے اہل وعیال میں صبح کرتاہے ، حالانکہ موت اس کی جوتی کے تسمہ سے بھی زیادہ قریب ہوتی ہے

عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں میں نے کہا میرے والدکوتوشدت بخارکی وجہ سے کچھ ہوش نہیں کہ کیاکہناہے؟پھرمیں عامر رضی اللہ عنہ بن فہیرہ کے پاس آئی اوران سے پوچھاعامر!آپ کا کیا حال ہے ؟توانہوں نے کہا۔

إِنِّی وَجَدْتُ الْمَوْتَ قَبْلَ ذَوْقِهِ ، ، إِنَّ الْجَبَانَ حَتْفُهُ مِنْ فَوْقِهِ

میں توموت کامزاچکھنے سے پہلے ہی مراہواہوں ،بلاشبہ بزدل کی موت اوپرسے آتی ہے۔

كُلُّ امْرِئٍ مُجَاهَدٌ بِطَوْقِهِ ، كَالثَّوْرِ یَحْمِی جِلْدَهُ بِرَوْقِهِ

ہرآدمی اپنی طاقت کے مطابق جہادکرتاہے ،جیسے بیل اپنے چمڑے کواپنے سینگ سے بچاتاہے۔

عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں میں نے کہاعامرکوکچھ ہوش نہیں کہ کیاکہے؟

 یَا بِلاَلُ كَیْفَ تَجِدُكَ؟وَكَانَ بِلاَلٌ إِذَا أَقْلَعَتْ عَنْهُ یَقُولُ:

اسی طرح بلال رضی اللہ عنہ سے بھی پوچھابلال رضی اللہ عنہ تمہاراکیاحال ہے،بلال رضی اللہ عنہ کوکچھ افاقہ ہوتا تو وہ گھر کے صحن میں لیٹ جاتے اوراپنی کمزوراونچی آوازسے شعر پڑھتے

أَلاَ لَیْتَ شِعْرِی هَلْ أَبِیتَنَّ لَیْلَةً ، بِوَادٍ وَحَوْلِی إِذْخِرٌ وَجَلِیلُ

کاش مجھے معلوم ہوجاتاکہ میں اب پھرکسی شب اس وادی میں رہوں گا ،جہاں میرے گرداذخراورجلیل نامی گھاسیں ہوں گی

وَهَلْ أَرِدَنْ یَوْمًا مِیَاهَ مِجَنَّةٍ ، ، وَهَلْ تَبْدُوَنْ لِی شَامَةٌ وَطَفِیلُ

اورکیامیں کبھی مجنہ نامی چشمہ پر پہنچوں گا ،اورکیامجھے شامہ اورطفیل نامی پہاڑیاں دکھائی دیں گی

قَالَتْ عَائِشَةُ: فَجِئْتُ إِلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَأَخْبَرْتُهُ ، فَقَالَ: اللهُمَّ حَبِّبْ إِلَیْنَا المَدِینَةَ كَحُبِّنَا مَكَّةَ أَوْ أَشَدَّ، اللهُمَّ وَصَحِّحْهَا، وَبَارِكْ لَنَا فِی مُدِّهَا وَصَاعِهَا، وَانْقُلْ حُمَّاهَا فَاجْعَلْهَا بِالْجُحْفَةِ

(ا ن سب افرادکی یہ کیفیت دیکھ کر)ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ نے جوکچھ سناتھااس کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کواس کی خبردی اورکہاوہ شدت بخارمیں ہذیان میں مبتلاہیں ، آپ نے یہ سن کریوں دعافرمائی اے اللہ!ہمیں مدینہ کی ایسی ہی محبت دے جیسی مکہ کی بلکہ اس سے بھی زیادہ،اوراس کی آب وہواکو اچھاکر دے اورہمارے لئے مدینہ کے صاع اور مد میں برکت عطا فرما اور یہاں کے بخارکومقام جحفہ میں منتقل کر دے۔[55]

اللہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا کو قبول فرمایا

عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ أَبِیهِ: أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: رَأَیْتُ كَأَنَّ امْرَأَةً سَوْدَاءَ ثَائِرَةَ الرَّأْسِ، خَرَجَتْ مِنَ المَدِینَةِ، حَتَّى قَامَتْ بِمَهْیَعَةَ – وَهِیَ الجُحْفَةُ – فَأَوَّلْتُ أَنَّ وَبَاءَ المَدِینَةِ نُقِلَ إِلَیْهَا

اورسالم بن عبداللہ سے مروی ہےچنددنوں بعدنبی کریم ﷺنے خواب دیکھاکہ ایک سیاہ فام عورت جس کے بال پراگندہ ہیں مدینہ سے نکل کرمہیعہ میں منتقل ہوگئی ہے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایامیں نے اس کی یہ تعبیرلی کہ مدینہ کی وبامیں منتقل ہوگئی ہے،پھرفرمایا ہی کوکہتے ہیں ۔[56]

مقداد رضی اللہ عنہ بن عمرو( الاسود)

ہجرت کے ابتدائی ایام مقداد رضی اللہ عنہ نے بڑی عسرت سے گزارے ،رحمت عالم ﷺکوخبرہوئی توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مقداد رضی اللہ عنہ اوران جیسے دواورمفلوک الحال مہاجروں کی کفالت کا بارخوداٹھالیا،

عَنِ الْمِقْدَادِ، قَالَ: أَقْبَلْتُ أَنَا وَصَاحِبَانِ لِی، وَقَدْ ذَهَبَتْ أَسْمَاعُنَا وَأَبْصَارُنَا مِنَ الْجَهْدِ، فَجَعَلْنَا نَعْرِضُ أَنْفُسَنَا عَلَى أَصْحَابِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَلَیْسَ أَحَدٌ مِنْهُمْ یَقْبَلُنَا، فَأَتَیْنَا النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَانْطَلَقَ بِنَا إِلَى أَهْلِهِ، فَإِذَا ثَلَاثَةُ أَعْنُزٍ، فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:احْتَلِبُوا هَذَا اللَّبَنَ بَیْنَنَا، قَالَ: فَكُنَّا نَحْتَلِبُ فَیَشْرَبُ كُلُّ إِنْسَانٍ مِنَّا نَصِیبَهُ، وَنَرْفَعُ لِلنَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ نَصِیبَهُ،

مقداد رضی اللہ عنہ بن عمرو( الاسود)سے مروی ہےمیں اور میرے دو ساتھی آئے اور تکلیف کی وجہ سے ہماری قوت سماعت اور قوت بصارت چلی گئی تھی ہم نے اپنے آپ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ عنہم پر پیش کیا تو اس میں سے کسی نے بھی ہمیں قبول نہیں کیا ، پھر ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں اپنے گھر کی طرف لے گئے تین (اور بروایت دیگرچار) بکریاں تھیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ان بکریوں کا دودھ پیاکروچنانچہ ہم ان بکریوں کا دودھ دوھ لیتے اور ہم میں سے ہر ایک آدمی اپنے حصے کا دودھ پیتا اور ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حصہ اٹھا کر رکھ دیتے

قَالَ: فَیَجِیءُ مِنَ اللَّیْلِ فَیُسَلِّمُ تَسْلِیمًا لَا یُوقِظُ نَائِمًا، وَیُسْمِعُ الْیَقْظَانَ، قَالَ: ثُمَّ یَأْتِی الْمَسْجِدَ فَیُصَلِّی، ثُمَّ یَأْتِی شَرَابَهُ فَیَشْرَبُ، فَأَتَانِی الشَّیْطَانُ ذَاتَ لَیْلَةٍ وَقَدْ شَرِبْتُ نَصِیبِی، فَقَالَ: مُحَمَّدٌ یَأْتِی الْأَنْصَارَ فَیُتْحِفُونَهُ، وَیُصِیبُ عِنْدَهُمْ مَا بِهِ حَاجَةٌ إِلَى هَذِهِ الْجُرْعَةِ، فَأَتَیْتُهَا فَشَرِبْتُهَا، فَلَمَّا أَنْ وَغَلَتْ فِی بَطْنِی، وَعَلِمْتُ أَنَّهُ لَیْسَ إِلَیْهَا سَبِیلٌ، قَالَ: نَدَّمَنِی الشَّیْطَانُ، فَقَالَ: وَیْحَكَ، مَا صَنَعْتَ أَشَرِبْتَ شَرَابَ مُحَمَّدٍ، فَیَجِیءُ فَلَا یَجِدُهُ فَیَدْعُو عَلَیْكَ فَتَهْلِكُ فَتَذْهَبُ دُنْیَاكَ وَآخِرَتُكَ،

راوی کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم رات کے وقت تشریف لاتے سلام کرتے کہ سونے والا بیدار نہ ہوتا اور جاگنے والا سن لیتا،پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں تشریف لاتے اور نماز پڑھتے، نمازسے فارغ ہوکر آپ تشریف لاتے اور اپنے حصے کادودھ نوش فرماتے،ایک رات شیطان آیا جبکہ میں اپنے حصے کا دودھ پی چکا تھا شیطان کہنے لگا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم انصار کے پاس آتے ہیں اور آپ ﷺکو تحفے دتیے ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جس چیز کی ضرورت ہوتی ہے وہ مل جاتی ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس ایک گھونٹ دودھ کی کیا ضرورت ہوگی ،چنانچہ یہی تصورکرکے میں سارادودھ پی گیا، جب وہ دودھ میرے پیٹ میں چلا گیا اور مجھے اس بات کا یقین ہوگیا کہ اب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دودھ ملنے کا کوئی راستہ نہیں ہے تو شیطان نے مجھے ندامت دلائی اور کہنے لگا تیری خرابی ہو تو نے یہ کیا کیا تو نے محمد ﷺکے حصے کا دودھ بھی پی لیا آپ آئیں گے اور وہ دودھ نہیں پائیں گے تو تجھے بددعا دیں گے تو تو ہلاک ہو جائے گا اور تیری دنیا وآخرت برباد ہو جائے گی

وَعَلَیَّ شَمْلَةٌ إِذَا وَضَعْتُهَا عَلَى قَدَمَیَّ خَرَجَ رَأْسِی، وَإِذَا وَضَعْتُهَا عَلَى رَأْسِی خَرَجَ قَدَمَایَ، وَجَعَلَ لَا یَجِیئُنِی النَّوْمُ، وَأَمَّا صَاحِبَایَ فَنَامَا وَلَمْ یَصْنَعَا مَا صَنَعْتُ، قَالَ: فَجَاءَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَسَلَّمَ كَمَا كَانَ یُسَلِّمُ، ثُمَّ أَتَى الْمَسْجِدَ فَصَلَّى، ثُمَّ أَتَى شَرَابَهُ فَكَشَفَ عَنْهُ، فَلَمْ یَجِدْ فِیهِ شَیْئًا، فَرَفَعَ رَأْسَهُ إِلَى السَّمَاءِ، فَقُلْتُ: الْآنَ یَدْعُو عَلَیَّ فَأَهْلِكُ، فَقَالَ:اللهُمَّ، أَطْعِمْ مَنْ أَطْعَمَنِی، وَأَسْقِ مَنْ أَسْقَانِی، قَالَ: فَعَمَدْتُ إِلَى الشَّمْلَةِ فَشَدَدْتُهَا عَلَیَّ، وَأَخَذْتُ الشَّفْرَةَ فَانْطَلَقْتُ إِلَى الْأَعْنُزِ أَیُّهَا أَسْمَنُ، فَأَذْبَحُهَا لِرَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَإِذَا هِیَ حَافِلَةٌ،

میرے پاس ایک چادر تھی جب میں اسے اپنے پاؤں پر ڈالتا تو میرا سر کھل جاتا اور جب میں اسے اپنے سر پر ڈالتا تو میرے پاؤں کھل جاتے اور مجھے نیند بھی نہیں آرہی تھی جبکہ میرے دونوں ساتھی سو رہے تھے انہوں نے وہ کام نہیں کیا جو میں نے کیا تھا،بالآخر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور نماز پڑھی پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے دودھ کی طرف آئے برتن کھولا تو اس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ بھی نہ پایا تو آپ نے اپنا سر مبارک آسمان کی طرف اٹھایا میں نے دل میں کہا اب آپ صلی اللہ علیہ وسلم میرے لئے بددعا فرمائیں گے پھر میں ہلاک ہو جاؤں گا،تو آپ ﷺنے فرمایا اے اللہ! تو اسے کھلا جو مجھے کھلائے اور تو اسے پلا جو مجھے پلائے،(میں نے یہ سن کرمیں نے) اپنی چادر مضبوط کر کے باندھ لی اور چھری پکڑ کر بکریوں کی طرف چل پڑا کہ ان بکریوں میں سے جو موٹی بکری ہو اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے ذبح کر ڈالوں اوراس کا گوشت بھون کررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کروں

وَإِذَا هُنَّ حُفَّلٌ كُلُّهُنَّ، فَعَمَدْتُ إِلَى إِنَاءٍ لِآلِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مَا كَانُوا یَطْمَعُونَ أَنْ یَحْتَلِبُوا فِیهِ، قَالَ: فَحَلَبْتُ فِیهِ حَتَّى عَلَتْهُ رَغْوَةٌ، فَجِئْتُ إِلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: أَشَرِبْتُمْ شَرَابَكُمُ اللَّیْلَةَ، قَالَ: قُلْتُ: یَا رَسُولَ اللهِ، اشْرَبْ، فَشَرِبَ، ثُمَّ نَاوَلَنِی، فَقُلْتُ: یَا رَسُولَ اللهِ، اشْرَبْ، فَشَرِبَ، ثُمَّ نَاوَلَنِی،

میں نے دیکھا کہ اس میں ایک تھن دودھ سے بھرا پڑا ہے بلکہ سب بکریوں کے تھن دودھ سے بھرے پڑے تھے پھر میں نے اس گھر کے برتنوں میں سے وہ برتن لیا کہ جس میں دودھ نہیں دوہا جاتا تھا پھر میں نے اس برتن میں دودھ نکالا یہاں تک کہ دودھ کی جھاگ اوپر تک آگئی،پھر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے مقداد رضی اللہ عنہ !کیا تم نے رات کو اپنے حصہ کا دودھ پی لیا تھا؟میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول! آپ صلی اللہ علیہ وسلم دودھ پئیں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ دودھ پی کرباقی کامجھے عنایت فرمایا میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول! آپ صلی اللہ علیہ وسلم دودھ پئیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوبارہ دودھ پیالیکن برتن میں کچھ دودھ پھربھی موجودرہاآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ مجھے عنایت فرمایا،میں نے دودھ لے لیااورپی گیا

فَلَمَّا عَرَفْتُ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَدْ رَوِیَ وَأَصَبْتُ دَعْوَتَهُ، ضَحِكْتُ حَتَّى أُلْقِیتُ إِلَى الْأَرْضِ، قَالَ: فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: إِحْدَى سَوْآتِكَ یَا مِقْدَادُ، فَقُلْتُ: یَا رَسُولَ اللهِ، كَانَ مِنْ أَمْرِی كَذَا وَكَذَا وَفَعَلْتُ كَذَا، فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:مَا هَذِهِ إِلَّا رَحْمَةٌ مِنَ اللهِ، أَفَلَا كُنْتَ آذَنْتَنِی فَنُوقِظَ صَاحِبَیْنَا فَیُصِیبَانِ مِنْهَا، قَالَ: فَقُلْتُ: وَالَّذِی بَعَثَكَ بِالْحَقِّ، مَا أُبَالِی إِذَا أَصَبْتَهَا وَأَصَبْتُهَا مَعَكَ مَنْ أَصَابَهَا مِنَ النَّاسِ

پھر جب مجھے معلوم ہوگیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سیر ہو گئے ہیں اوریہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعاکی برکت ہے کہ دودھ ختم نہیں ہوااورآپ نے اپنی دعاکی برکت میں مجھے بھی شامل کرلیاہے تو میں فرط مسرت سے بیخودہوگیا یہاں تک کہ مارے خوشی کے میں زمین پر لوٹ پوٹ ہونے لگا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے مقداد رضی اللہ عنہ ! یہ تیری ایک بری عادت ہے،میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسولﷺ! میرے ساتھ تو اس طرح کا معاملہ ہوا ہے اور میں نے اس طرح کرلیا ہے، تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس وقت کا دودھ سوائے اللہ کی رحمت کے اور کچھ نہ تھا تو نے مجھے پہلے ہی کیوں نہ بتا دیا تاکہ ہم اپنے ساتھیوں کو بھی جگا دیتے وہ بھی اس میں سے دودھ پی لیتے،میں نے عرض کیا اس ذات کی قسم جس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو حق کے ساتھ بھیجا ہے جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دودھ پی لیا ہے اور میں نے بھی یہ دودھ پی لیا ہے تو اب مجھے اور کوئی پرواہ نہیں (یعنی میں نے اللہ کی رحمت حاصل کرلی ہے تو اب مجھے کیا پرواہ (بوجہ خوشی) کہ لوگوں میں سے کوئی اور بھی یہ رحمت حاصل کرے یا نہ کرے)۔[57]

اس کے بعدمقداد رضی اللہ عنہ نے تجارت شروع کردی اورخاصے مرفہ الحال ہوگئے،

عَنْ ضُبَاعَةَ بِنْتِ الزُّبَیْرِ، وَكَانَتْ تَحْتَ الْمِقْدَادِ بْنِ عَمْرٍو قَالَتْ:فَلَمَّا كَانَ ذَاتَ یَوْمٍ خَرَجَ الْمِقْدَادُ لِحَاجَتِهِ حَتَّى أَتَى بَقِیعَ الْغَرْقَدِ، فَدَخَلَ خَرِبَةً لِحَاجَتِهِ، فَبَیْنَمَا هُوَ جَالِسٌ إِذْ أَخْرَجَ جُرَذٌ مِنْ حُجْرٍ دِینَارًا، فَلَمْ یَزَلْ یُخْرِجُ دِینَارًا حَتَّى أَخْرَجَ سَبْعَةَ عَشَرَ دِینَارًا ثُمَّ أَخْرَجَ طَرَفَ خِرْقَةٍ حَمْرَاءَ، قَالَ الْمِقْدَادُ: فَقُمْتُ فَأَخْرَجْتُهَا فَوَجَدْتُ فِیهَا قِیمَةَ ثَمَانِیَةَ عَشَرَ فَخَرَجْتُ بِهَا حَتَّى أَتَیْتُ بِهَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَأَخْبَرْتُهُ خَبَرَهَا، فَقَالَ:هَلْ أَتْبَعْتَ یَدَكَ الْحُجْرَ؟ قُلْتُ: لَا وَالَّذِی بَعَثَكَ بِالْحَقِّ، قَالَ:لَا صَدَقَةَ فِیهَا بَارَكَ اللَّهُ لَكَ فِیهَا، قَالَتْ ضُبَاعَةُ: فَمَا فَنِیَ آخِرُهَا حَتَّى رَأَیْتُ عَدَائِرَ الْوَرِقِ فِی بَیْتِ الْمِقْدَادِ

مقداد رضی اللہ عنہ کی اہلیہ ضباعہ رضی اللہ عنہا بنت زبیر رضی اللہ عنہ بن عبدالمطلب سے مروی ہےایک دن مقداد رضی اللہ عنہ رفع حاجت کے لیے گھرسے نکلے اوربقیع غرقدکے قریب ایک ویران جگہ پررفع حاجت کے لیے بیٹھے، یکایک قریب کے ایک بل سے ایک بڑے چوہے نے ایک طلائی دینارباہرلاکران کے سامنے ڈال دیااوروہ برابراسی طرح ایک ایک دینارباہرلاکران کے سامنے ڈالتا رہا یہاں تک کہ مقداد رضی اللہ عنہ کے سامنے سترہ دینارجمع ہوگئے،انہوں نے وہ اٹھالیے اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضرہوکرساراواقعہ بیان کیاآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھاکیاتم نے چوہے کے بل میں ہاتھ ڈالاتھا؟انہوں نے عرض کیاجس نے آپ کوحق کے ساتھ مبعوث کیاہے نہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاتواس پرکوئی صدقہ نہیں ہے اللہ تجھے اس میں برکت دے، ضباعہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ان میں سے آخری دینارابھی ختم نہیں ہواتھاکہ میں نے چاندی کے ڈھیرمقداد رضی اللہ عنہ کے گھرمیں دیکھ لیے(یعنی وہ آسودہ حال ہوگئے)۔[58]

[1] صحیح بخاری کتاب المغازی بَابُ ذِكْرِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مَنْ یُقْتَلُ بِبَدْرٍ۳۹۵۰،وكِتَابُ المَنَاقِبِ بَابُ عَلاَمَاتِ النُّبُوَّةِ فِی الإِسْلاَمِ۳۶۳۲

[2] سیرت النبی ازشبلی نعمانی ۱۸۳؍۱بحوالہ نسائی

[3]صحیح بخاری کتاب الجہادبَابُ الحِرَاسَةِ فِی الغَزْوِ فِی سَبِیلِ اللهِ ۲۸۸۵،وكِتَابُ التَّمَنِّی بَابُ قَوْلِهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ لَیْتَ كَذَا وَكَذَا۷۲۳۱،صحیح مسلم كتاب فَضَائِلِ الصَّحَابَةِ رَضِیَ اللهُ تَعَالَى عَنْهُمْ بَابٌ فِی فَضْلِ سَعْدِ بْنِ أَبِی وَقَّاصٍ رَضِیَ اللهُ عَنْهُ۶۲۳۰

[4] تفسیرابن کثیر۱۵۲؍۳

[5] ابن سعد۱۸۲؍۱،البدایة والنہایة۲۰۲؍۳

[6] ابن سعد ۴۹؍۸

[7] المعجم الکبیرللطبرانی۲۹۶،مجمع الزوائد ومنبع الفوائد۱۵۲۹۰

[8] صحیح بخاری کتاب مَنَاقِبِ الأَنْصَارِ بَابُ هِجْرَةِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَأَصْحَابِهِ إِلَى المَدِینَةِ۳۹۰۹،وکتاب العقیقہ بَابُ تَسْمِیَةِ المَوْلُودِ غَدَاةَ یُولَدُ، لِمَنْ لَمْ یَعُقَّ عَنْهُ، وَتَحْنِیكِهِ ۵۴۶۹،صحیح مسلم کتاب الاداب بَابُ اسْتِحْبَابِ تَحْنِیكِ الْمَوْلُودِ عِنْدَ وِلَادَتِهِ وَحَمْلِهِ إِلَى صَالِحٍ یُحَنِّكُهُ، وَجَوَازِ تَسْمِیَتِهِ یَوْمَ وِلَادَتِهِ۵۶۱۲

[9] سیراعلام النبلاء۳۶۶؍۳

[10] سیر أعلام النبلاء۳۹۹؍۴،الإصابة فی تمییز الصحابة۸۱؍۴،تاریخ الخفاءللسیوطی بحوالہ مسندابی یعلیٰ۱۶۱؍۱

[11] تاریخ طبری۴۰۱؍۲

[12] شرح الزرقانی علی المواھب ۱۸۶؍۲

[13]صحیح بخاری کتاب مناقب الانصار بَابُ هِجْرَةِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَأَصْحَابِهِ إِلَى المَدِینَةِ ۳۹۱۸،السیرة الحلبیة۱۶۷؍۲، سیرة السیدة عائشة أم المؤمنین رضی الله عنها۵۲؍۱

[14] صحیح مسلم کتاب النکاح بَابُ تَزْوِیجِ الْأَبِ الْبِكْرَ الصَّغِیرَةَ۳۴۸۰

[15] المعجم الکبیرللطبرانی۶۰،مستدرک حاکم۶۷۱۶،مجمع الزوائد ومنبع الفوائد۱۵۲۸۹

[16] صحیح مسلم کتاب النکاح بَابُ تَزْوِیجِ الْأَبِ الْبِكْرَ الصَّغِیرَةَ ۳۴۷۹

[17] صحیح مسلم کتاب النکاح بَابُ تَزْوِیجِ الْأَبِ الْبِكْرَ الصَّغِیرَةَ۳۴۸۱

[18] مسند احمد۲۷۵۹۱،المعجم الکبیرللطبرانی ۴۳۴،سبل الهدى والرشاد فی سیرة خیر العباد۵۶؍۹،۱۶۶؍۱۱

[19] المعجم الکبیر للطبرانی ، مسنداحمد،صحیح ابن حبان

[20] صحیح مسلم کتاب النکاح بَابُ تَزْوِیجِ الْأَبِ الْبِكْرَ الصَّغِیرَةَ۳۴۸۰

[21] صحیح بخاری کتاب الادب بَابُ الِانْبِسَاطِ إِلَى النَّاسِ ۶۱۳۰

[22] تاریخ دمشق۱۰؍۶۹

[23] سیر أعلام النبلاء۵۲۰؍۳

[24] الاستیعاب فی معرفة الأصحاب۶۱۶؍۲

[25] معرفة الصحابة لابی نعیم۳۲۵۶؍۶،تاریخ دمشق ۹؍۶۹

[26]الاستیعاب فی معرفة الأصحاب۱۴؍۸

[27] الاستیعاب فی معرفة الأصحاب۱۷۸۱؍۴

[28] اسد الغابة فی معرفة الصحابة۷؍۷

[29] تهذیب الكمال فی أسماء الرجال ۷۷۸۰

[30] ابن ہشام۲۵۲؍۱،عیون الاثر۱۱۳؍۱

[31] المواهب اللدنیة بالمنح المحمدیة۱۳۴؍۱

[32]شرح الزرقانی على المواهب اللدنیة بالمنح المحمدیة۴۵۹؍۱

[33] مسنداحمد۲۵۷۶۹،المعجم الکبیر للطبرانی ۵۷، السنن الكبرى للبیہقی۱۳۷۴۸

[34] ابن ہشام۴۸۱؍۱،عیون الأثر۲۰۵؍۱

[35] الاستیعاب فی معرفة الأصحاب۱۴؍۸

[36] المعجم الکبیر للطبرانی ۶۲

[37] ابن سعد۴۶؍۸

[38] الاحزاب۳۷

[39] سیراعلام النبلائ۲۱۰؍۶

[40] تہذیب التہذیب۴۸؍۱۱

[41] الكامل فی ضعفاء الرجال ۲۵۴؍۷

[42] تاریخ بغداد۷؍۲

[43] الكامل فی ضعفاء الرجال۲۵۴؍۷

[44] تهذیب الكمال فی أسماء الرجال۴۱۴؍۲۴

[45] الكامل فی ضعفاء الرجال۲۵۷؍۷

[46] تهذیب الكمال فی أسماء الرجال ۴۱۵؍۲۴

[47] صحیح مسلم كِتَابُ النِّكَاحِ بَابُ اسْتِحْبَابِ التَّزَوُّجِ وَالتَّزْوِیجِ فِی شَوَّالٍ، وَاسْتِحْبَابِ الدُّخُولِ فِیهِ۳۴۸۳،جامع ترمذی بَابُ مَا جَاءَ فِی الأَوْقَاتِ الَّتِی یُسْتَحَبُّ فِیهَا النِّكَاحُ بَابُ مَا جَاءَ فِی الأَوْقَاتِ الَّتِی یُسْتَحَبُّ فِیهَا النِّكَاحُ۱۰۹۳،مسنداحمد۲۴۲۷۲،ابن سعد۴۷؍۸

[48] ابن سعد۴۸؍۸، شرح النووی علی مسلم۲۰۹؍۹

[49] صحیح بخاری کتاب مَنَاقِبِ الأَنْصَارِ بَابُ تَزْوِیجِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عَائِشَةَ، وَقُدُومِهَا المَدِینَةَ، وَبِنَائِهِ بِهَا۳۸۹۵،صحیح مسلم كتاب فَضَائِلِ الصَّحَابَةِ رَضِیَ اللهُ تَعَالَى عَنْهُمْ بَابٌ فِی فَضْلِ عَائِشَةَ رَضِیَ اللهُ تَعَالَى عَنْهَا۶۲۸۳،مسنداحمد۲۴۹۷۱،المعجم الکبیرللطبرانی۴۳

[50] الإجابة لما استدركت عائشة على الصحابة۲۶؍۱

[51] جامع ترمذی أَبْوَابُ الْمَنَاقِبِ بَابُ مِنْ فَضْلِ عَائِشَةَ رَضِیَ اللهُ عَنْهَا۳۸۸۰

[52] مسند أبی یعلى۴۸۲۲،مجمع الزوائد ومنبع الفوائد۱۵۲۸۷،مستدرک حاکم۶۷۲۷

[53] صحیح بخاری کتاب الاداب بَابُ مَنْ دَعَا صَاحِبَهُ فَنَقَصَ مِنَ اسْمِهِ حَرْفًا ۶۲۰۱،کتاب فَضَائِلِ أَصْحَابِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بَابُ فَضْلِ عَائِشَةَ رَضِیَ اللهُ عَنْهَا ۳۷۶۸ ، وکتاب الاستئذان بَابُ تَسْلِیمِ الرِّجَالِ عَلَى النِّسَاءِ، وَالنِّسَاءِ عَلَى الرِّجَالِ۶۲۴۹ ،وکتاب بدئ الخلق بَابُ ذِكْرِ المَلاَئِكَةِ ۳۲۱۷، سنن ابن ماجہ كِتَابُ النِّكَاحِ بَابُ مَتَى یُسْتَحَبُّ الْبِنَاءُ بِالنِّسَاءِ ۱۹۹۰،السنن الكبرى للنسائی۵۵۴۵

[54] صحیح مسلم ، کتاب اللباس والزینة ، بَابُ لَا تَدْخُلُ الْمَلَائِكَةُ بَیْتًا فِیهِ كَلْبٌ وَلَا صُورَةٌ: ۲۱۰۴

[55] صحیح بخاری کتاب المرضیٰ بَابُ عِیَادَةِ النِّسَاءِ الرِّجَالَ وعادت ۵۶۵۴،وکتاب مَنَاقِبِ الأَنْصَارِبَابُ مَقْدَمِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَأَصْحَابِهِ المَدِینَةَ ۳۹۲۶،مسنداحمد۲۴۳۶۰

[56] صحیح بخاری کت اب التعبیربَابُ إِذَا رَأَى أَنَّهُ أَخْرَجَ الشَّیْءَ مِنْ كُورَةٍ، فَأَسْكَنَهُ مَوْضِعًا آخَرَ ۷۰۳۸،مسنداحمد۵۸۴۹،المعجم الکبیرللطبرانی۱۳۱۴۷

[57] صحیح مسلم كتاب الْأَشْرِبَةِ بَابُ إِكْرَامِ الضَّیْفِ وَفَضْلِ إِیثَارِهِ۵۳۶۲، مسند احمد ۲۳۸۱۲

[58] شرف المصطفی۴۹۵؍۳،مسند ابن أبی شیبة۴۸۸،مسندالبزار۲۱۱۶، المعجم الكبیرللطبرانی۶۱۱

Related Articles