ہجرت نبوی کا پہلا سال

عدت کے مسائل

xاگرکسی عورت کوطلاق ہوجائے تواس کی عدت کیاہے ؟

مطلقہ عورتیں اپنے آپ کوتین حیض تک روکے رکھیں ،جیسے اللہ تعالیٰ نے فرمایا

وَالْمُطَلَّقٰتُ یَتَرَبَّصْنَ بِاَنْفُسِهِنَّ ثَلٰثَةَ قُرُوْۗءٍ۝۰ۭ وَلَا یَحِلُّ لَهُنَّ اَنْ یَّكْتُمْنَ مَا خَلَقَ اللهُ فِیْٓ اَرْحَامِهِنَّ اِنْ كُنَّ یُؤْمِنَّ بِاللهِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ۔۔۔۝۰۝۲۲۸ۧ     [1]

ترجمہ:جن عورتوں کو طلاق دی گئی ہو وہ تین مرتبہ ایامِ ماہواری آنے تک اپنے آپ کو روکے رکھیں ، اور ان کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ اللہ نے ان کے رحم میں جو کچھ خلق فرمایا ہو اسے چھپائیں ، انہیں ہر گز ایسا نہ کرنا چاہیے اگر وہ اللہ اور روز آخر پر ایمان رکھتی ہیں ۔

xحاملہ عورتوں کی عدت کیاہوگی ؟

حاملہ عورتوں کی عدت وضع حمل ہے ،اللہ تعالیٰ نے فرمایا

 ۔۔۔وَاُولَاتُ الْاَحْمَالِ اَجَلُهُنَّ اَنْ یَّضَعْنَ حَمْلَهُنَّ۔۔۔ ۝۴      [2]

ترجمہ:اورحاملہ عورتوں کی عدت کی حدیہ ہے کہ ان کاوضع حمل ہوجائے۔

فَقَالَتْ: قُتِلَ زَوْجُ سُبَیْعَةَ الأَسْلَمِیَّةِ وَهِیَ حُبْلَى، فَوَضَعَتْ بَعْدَ مَوْتِهِ بِأَرْبَعِینَ لَیْلَةً،فَخُطِبَتْ فَأَنْكَحَهَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، وَكَانَ أَبُو السَّنَابِلِ فِیمَنْ خَطَبَهَا

ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے سبیعہ اسلمیہ کے شوہر(سعدبن خولہ رضی اللہ عنہ )شہیدکردیے گئے تووہ اس وقت حاملہ تھیں ،شوہرکی وفات کے چالیس دن بعدان کے ہاں بچہ پیدا ہوا پھران کے پاس نکاح کاپیغام پہنچاتورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کانکاح کرادیا،ابوالسنابل بھی ان کے پاس پیغام نکاح بھیجنے والوں میں سے تھے۔[3]

عَنِ الزُّبَیْرِ بْنِ الْعَوَّامِ، أَنَّهُ كَانَتْ عِنْدَهُ أُمُّ كُلْثُومٍ بِنْتُ عُقْبَةَ، فَقَالَتْ لَهُ وَهِیَ حَامِلٌ: طَیِّبْ نَفْسِی بِتَطْلِیقَةٍ، فَطَلَّقَهَا تَطْلِیقَةً، ثُمَّ خَرَجَ إِلَى الصَّلَاةِ، فَرَجَعَ وَقَدْ وَضَعَتْ، فَقَالَ: مَا لَهَا؟ خَدَعَتْنِی، خَدَعَهَا اللَّهُ، ثُمَّ أَتَى النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ:سَبَقَ الْكِتَابُ أَجَلَهُ، اخْطُبْهَا إِلَى نَفْسِهَا

زبیربن عوام رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ان کے نکاح میں ام کلثوم بنت عقبہ تھی ،اس نے زبیر رضی اللہ عنہ سے کہامجھے ایک طلاق دے کرمیرادل خوش کردو،انہوں نے اس کوایک طلاق دے دی،پھروہ نمازکے لیے نکلے،جب واپس لوٹے تووہ بچہ جن چکی تھی،زبیر رضی اللہ عنہ نے کہااس کوکیاہوااس نے مجھ سے مکرکیااللہ تعالیٰ اس سے مکرکرے،پھرنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااللہ کی کتاب کی میعادگزرگئی یعنی عدت پوری ہوگئی اب رجوع کااختیارنہیں رہالیکن تم اس کوپیغام نکاح دو۔[4]

حَصَلَ الِاتِّفَاقُ عَلَى انْقِضَائِهَا بِوَضْعِ الْحَمْلِ

یعنی عورت کاوضع حمل چاہے شوہرکی وفات یاطلاق کے فوراًبعدہوجائے یاچارمہینے دس دن سے زیادہ طول کھینچے بہرحال بچہ پیداہوتے ہی وہ عدت سے باہرہوجائے گی ۔

ابن قیم رحمہ اللہ کابھی یہی موقف ہے۔[5]

ابن حزم رحمہ اللہ بھی اسی کے قائل ہیں ۔

فَإِنَّ عِدَّتُهَا تَنْقَضِی بِوَضْعِ آخِرِ وَلَدٍ فِی بَطْنِهَا – وَلَوْ وَضَعَتْهُ إثْرَ مَوْتِ زَوْجِهَا – وَلَهَا أَنْ تَتَزَوَّجَ إنْ شَاءَتْ

بلکہ انہوں نے فرمایاہے کہ اگر وفات کے فوراًبعدوضع حمل ہوجائے توعورت اگرچاہے تواسی وقت نکاح کرسکتی ہے۔[6]

عبدالرحمٰن مبارکپوری فرماتے ہیں کہ یہی بات برحق ہے۔[7]

جمہوراسی کے قائل ہیں ۔

امام ترمذی رحمہ اللہ نے جمہورکے قول ہی کودرست قراردیاہے۔[8]

xحاملہ اورحائضہ کے علاوہ وہ بچی جسے حیض آناشروع ہی نہیں ہوایاایسی عمررسیدہ عورت جیسے حیض آنے کے بعدبڑھاپے کی وجہ سے حیض منقطع ہوچکاہوان کی عدت کیاہوگی۔

اللہ تعالیٰ نے فرمایا

وَاڿ یَىِٕسْنَ مِنَ الْمَحِیْضِ مِنْ نِّسَاۗىِٕكُمْ اِنِ ارْتَبْتُمْ فَعِدَّتُهُنَّ ثَلٰثَةُ اَشْهُرٍ۝۰ۙ وَّاڿ لَمْ یَحِضْنَ۔۔۔۝۰۝۴ [9]

ترجمہ:اورتمہاری عورتوں میں سے جوحیض سے مایوس ہوچکی ہوں ان کے معاملہ میں اگرتم لوگوں کوکوئی شک لاحق ہے تو(تمہیں معلوم ہوکہ)ان کی عدت تین مہینے ہے اور یہی حکم ان کاہے جنہیں ابھی حیض نہ آیاہو۔

حیض خواہ کم سنی کی وجہ سے نہ آیاہویااس وجہ سے کہ بعض عورتوں کوبہت دیرمیں حیض آناشروع ہوتاہے اورشاذونادرایسابھی ہوتاہے کہ کسی عورت کوعمربھرنہیں آتا،بہرحال تمام صورتوں میں ایسی عورت کی عدت وہی ہے جوآئسہ عورت کی عدت ہے یعنی طلاق کے وقت سے تین مہینے۔

اورجس عورت کوکسی مرض کی وجہ سے حیض آرہاہوتواس کی عدت کے متعلق اختلاف توہے لیکن راجح قول یہی ہے کہ وہ تین ماہ عدت گزارےکیونکہ وہ ایسی عورتوں میں شامل ہے جنہیں حیض نہیں آرہا۔

xاگرکسی عورت کوشوہرسے ہم بستری سے پہلے طلاق ہوجائے توکیااس پرعدت واجب ہے ؟

ایسی عورتوں پرکوئی عدت واجب نہیں ہے جیسے اللہ تعالیٰ نے فرمایا

یٰٓاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِذَا نَكَحْتُمُ الْمُؤْمِنٰتِ ثُمَّ طَلَّقْتُمُوْهُنَّ مِنْ قَبْلِ اَنْ تَمَسُّوْهُنَّ فَمَا لَكُمْ عَلَیْهِنَّ مِنْ عِدَّةٍ تَعْتَدُّوْنَهَا۔۔۔ ۝۴۹            [10]

ترجمہ:اے لوگوجوایمان لائے ہو!جب تم مومن عورتوں سے نکاح کرواورپھرانہیں ہاتھ لگانے سے پہلے طلاق دے دو تو تمہاری طرف سے ان پرکوئی عدت لازم نہیں ہے جس کے پورے ہونے کاتم مطالبہ کرسکو۔

xلونڈی کی عدت کیاہوگی ؟

کسی صحیح مرفوع حدیث میں لونڈی اورآزادعورت کی عدت میں کوئی فرق ثابت نہیں ہے ،

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ , قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: طَلَاقُ الْأَمَةِ اثْنَتَانِ، وَعِدَّتُهَا حَیْضَتَانِ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایالونڈی کی دوطلاقیں ہیں اوراس کی عدت دوحیض ہے۔[11]

حكم الألبانی:ضعیف

شیخ البانی رحمہ اللہ کہتے ہیں ضعیف روایت ہے ،

هَذَا إِسْنَاد ضَعِیف لضعف عَطِیَّة بن سعید الْعَوْفِیّ وَعمر بن شبیب الْكُوفِی

حافظ بوصیری کہتے ہیں اس حدیث کی اسنادضعیف ہے،اس میں عطیہ بن سعیداورعمربن شبیب الکوفی ضعیف راوی ہیں ۔[12]

عمر بن شبیب [ق] المسلى الكوفی.

قال ابن معین: لیس بثقة.وقال النسائی وغیره: لیس بالقوی.وقال ابن حبان: صدوق یخطئ كثیرا على قلة روایته.

ابن معین رحمہ اللہ کہتے ہیں یہ ثقہ نہیں ہے،امام نسائی رحمہ اللہ وغیرہ کہتے ہیں یہ قوی نہیں ہے،ابن حبان کہتے ہیں یہ روایت کرتے ہوئے بہت خطاکرتاہے۔[13]

امام ابن حزم رحمہ اللہ اسی کے قائل ہیں ۔

xکیاعدت گزارنے والی عورت زیب وزینت اختیارکرسکتی ہے؟

عَنْ زَیْنَبَ بِنْتِ أُمِّ سَلَمَةَ، عَنْ أُمِّهَا، أَنَّ امْرَأَةً تُوُفِّیَ زَوْجُهَا، فَخَشُوا عَلَى عَیْنَیْهَا فَأَتَوْا رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَاسْتَأْذَنُوهُ فِی الكُحْلِ، فَقَالَ:لاَ تَكَحَّلْ،مَرَّتَیْنِ أَوْ ثَلَاثًا كُلُّ ذَلِكَ، یَقُولُ: لَا،قَدْ كَانَتْ إِحْدَاكُنَّ تَمْكُثُ فِی شَرِّ أَحْلاَسِهَا أَوْ شَرِّ بَیْتِهَا، فَإِذَا كَانَ حَوْلٌ فَمَرَّ كَلْبٌ رَمَتْ بِبَعَرَةٍ،فَلاَ حَتَّى تَمْضِیَ أَرْبَعَةُ أَشْهُرٍ وَعَشْرٌ

ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہےایک عورت کے شوہرکاانتقال ہوگیااس کے بعداس کی آنکھ میں تکلیف ہوئی، تواس کی والدہ رسول اللہﷺکی خدمت میں حاضرہوئی اور کہا اے اللہ کےرسولﷺ!میری بیٹی کاشوہرفوت ہوگیاہے اوراس کی آنکھیں دکھ رہی ہیں کیامیں اس کو سرمہ لگادوں ؟آپ ﷺنے فرمایاسرمہ (زمانہ عدت میں )نہ لگاؤ،دوتین مرتبہ اس عورت نے اپناسوال دہرایااورآپ نے یہی جواب دیاسرمہ نہ لگاؤ،آخرفرمایا(زمانہ جاہلیت میں )تمہیں بدترین کپڑے میں وقت گزارناپڑتاتھا،یا(راوی کوشک تھاکہ یہ فرمایاکہ)بدترین گھرمیں وقت (عدت)گزارناپڑتاتھا،جب اس طرح ایک سال پوراہوجاتاتواس کے پاس سے کتاگزرتااوروہ اس پرمینگنی پھینکتی (جب عدت سے باہرآتی)پس سرمہ نہ لگاؤیہاں تک کہ چارمہینے دس دن گزرجائیں ۔[14]

عَنْ أُمِّ عَطِیَّةَ، قَالَتْ:لَا تُحِدُّ الْمَرْأَةُ فَوْقَ ثَلَاثٍ إِلَّا عَلَى زَوْجٍ، فَإِنَّهَا تُحِدُّ عَلَیْهِ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا،وَلَا تَلْبَسُ ثَوْبًا مَصْبُوغًا، إِلَّا ثَوْبَ عَصْبٍ،وَلَا تَكْتَحِلُ، وَلَا تَمَسُّ طِیبًا إِلَّا أَدْنَى طُهْرَتِهَا إِذَا طَهُرَتْ مِنْ مَحِیضِهَا بِنُبْذَةٍ مِنْ قُسْطٍ، أَوْ أَظْفَارٍ

ام عطیہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺنے فرمایاکوئی عورت میت پرتین دن سے زیادہ سوگ نہ منائے(خواہ والدین ہی کیوں نہ فوت ہوجائیں ) سوائے خاوندکے،اس پرچارماہ دس دن سوگ منائے،زمانہ سوگ میں رنگ دارلباس نہ پہنے مگروہ کپڑاجس کی بنائی ہی رنگین دھاگوں سے ہو(یمنی دھاری دارچادروغیرہ)نہ سرمہ لگائے،نہ خوشبواستعمال کرے ،مگرجب ایام حیض سے پاک ہوتب تھوڑی سی عود ہندی(ایک خوشبودار لکڑی) یااظفار (مشک) استعمال کرسکتی ہے۔[15]

سنن ابوداودکی ایک روایت میں ان الفاظ کااضافہ ہے

وَلَا تَخْتَضِبُ

مہندی بھی نہ لگائے۔[16]

اورسنن نسائی میں یہ لفظ بھی ہیں

 وَلَا تَمْتَشِطُ

اورکنگھی بھی نہ کرے۔[17]

xکیابیوہ اس گھرسے باہرجاسکتی ہے جس میں اس کاشوہرفوت ہواہو؟

أَنَّ الْفُرَیْعَةَ بِنْتَ مَالِكِ بْنِ سِنَانٍ،وَهِیَ أُخْتُ أَبِی سَعِیدٍ الْخُدْرِیِّ أَخْبَرَتْهَا، أَنَّهَا جَاءَتْ إِلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ تَسْأَلُهُ أَنْ تَرْجِعَ إِلَى أَهْلِهَا فِی بَنِی خُدْرَةَ، فَإِنَّ زَوْجَهَا خَرَجَ فِی طَلَبِ أَعْبُدٍ لَهُ أَبَقُوا، حَتَّى إِذَا كَانُوا بِطَرَفِ الْقَدُومِ لَحِقَهُمْ فَقَتَلُوهُ،فَسَأَلْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: أَنْ أَرْجِعَ إِلَى أَهْلِی، فَإِنِّی لَمْ یَتْرُكْنِی فِی مَسْكَنٍ یَمْلِكُهُ، وَلَا نَفَقَةٍ؟قَالَتْ: فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: نَعَمْ،

فریعہ رضی اللہ عنہا بنت مالک بن سنان سے مروی ہےاوریہ ابوسعیدخدری رضی اللہ عنہ کی بہن ہیں بیان کرتی ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضرہوئی کہ آپ کی اجازت لے کراپنے خاندان بنی خدرہ میں چلی جاؤں ،کیونکہ میراشوہراپنے ان غلاموں کی تلاش میں گیا تھا جو بھاگ گئے تھے،وہ مقام قدوم کے اطراف میں تھے کہ میرے شوہرنے ان کو جا لیا مگر انہوں نے اس کو قتل کرڈالا،چنانچہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت لینے کے لئے آئی تھی کہ مجھے اپنے اہل میں لوٹ جانے کی اجازت دیں کیونکہ میرے شوہرنے اپنی ملکیت میں کوئی گھرنہیں چھوڑاتھااورنہ ہی نفقہ چھوڑاتھا؟بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہﷺنے سن کر(پہلے تو)اجازت دی دی،

قَالَتْ: فَخَرَجْتُ حَتَّى إِذَا كُنْتُ فِی الْحُجْرَةِ، أَوْ فِی الْمَسْجِدِ، دَعَانِی، أَوْ أَمَرَ بِی، فَدُعِیتُ لَهُ، فَقَالَ:كَیْفَ قُلْتِ؟ فَرَدَدْتُ عَلَیْهِ الْقِصَّةَ الَّتِی ذَكَرْتُ مِنْ شَأْنِ زَوْجِی،قَالَتْ: فَقَالَ:امْكُثِی فِی بَیْتِكِ حَتَّى یَبْلُغَ الْكِتَابُ أَجَلَهُ،قَالَتْ: فَاعْتَدَدْتُ فِیهِ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا، قَالَتْ: فَلَمَّا كَانَ عُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ أَرْسَلَ إِلَیَّ فَسَأَلَنِی عَنْ ذَلِكَ، فَأَخْبَرْتُهُ فَاتَّبَعَهُ، وَقَضَى بِهِ

پس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے نکلی حتی کہ جب میں حجرے یامسجدنبوی میں تھی توآپﷺنے مجھے بلایایابلوایا اورفرمایاتونے کیسے کہا ہے ؟تومیں نے اپناقصہ یعنی شوہرکاواقعہ دوبارہ دوہرایا،توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اپنے(شوہرکے) مکان میں اقامت رکھ حتی کہ کتاب اللہ کی (بیان کی ہوئی)مدت پوری ہوجائے،کہتی ہیں پھرمیں نے اسی مکان میں اپنی عدت کی مدت چارماہ اوردس دن پوری کی،مزیدفرماتی ہیں جب سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ بن عفان کادورخلافت آیاتوانہوں نے میری طرف پیغام بھیجااورمجھ سے اس مسئلہ کی تفصیل دریافت کی اورمیں نے انہیں (تفصیل سے)خبردی،چنانچہ انہوں نے اسی پرعمل کیااوراسی کے مطابق فیصلہ کیا۔[18] ابن قیم رحمہ اللہ اسی کوترجیح دیتے ہیں ۔[19]

وَالعَمَلُ عَلَى هَذَا الحَدِیثِ عِنْدَ أَكْثَرِ أَهْلِ العِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَغَیْرِهِمْ: لَمْ یَرَوْا لِلْمُعْتَدَّةِ أَنْ تَنْتَقِلَ مِنْ بَیْتِ زَوْجِهَا حَتَّى تَنْقَضِیَ عِدَّتُهَا،وَهُوَ قَوْلُ سُفْیَانَ الثَّوْرِیِّ، وَالشَّافِعِیِّ، وَأَحْمَدَ، وَإِسْحَاقَ.وقَالَ بَعْضُ أَهْلِ العِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَغَیْرِهِمْ: لِلْمَرْأَةِ أَنْ تَعْتَدَّ حَیْثُ شَاءَتْ، وَإِنْ لَمْ تَعْتَدَّ فِی بَیْتِ زَوْجِهَا.وَالقَوْلُ الأَوَّلُ أَصَحُّ

امام ترمذی رحمہ اللہ کاکہناہےاصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور اکثراہل علم کااسی حدیث پرعمل ہے کہ عدت میں بیٹھنے والی اپنے خاوندکے گھرسےنہ نکلے جب تک کہ اس کی عدت پوری نہ ہو،اوریہی قول ہے سفیان ثوری اورامام شافعی رحمہ اللہ اورامام احمد رحمہ اللہ اوراسحاق کااوربعض علمائے صحابہ وغیرہ نے کہاکہ عورت جہاں عدت کرے اگرچہ اس کے خاوند کا گھرنہ ہو، مگرپہلا قول زیادہ صحیح ہے۔[20]

امام احمد رحمہ اللہ ،امام شافعی رحمہ اللہ اورامام ابوحنیفہ رحمہ اللہ اسی بات کے قائل ہیں ۔[21]

جَمَاعَةُ فُقَهَاءِ الْأَمْصَارِ بِالْحِجَازِوَالشَّامِ وَالْعِرَاقِ وَمِصْرَ وَأَفْتَوْا بِهِ

امام ابن البر رحمہ اللہ کہتے ہیں حجاز، شام ، عراق اورمصروغیرہ میں فقہائے امصارکی ایک جماعت نے اسی کے مطابق فتوی دیاہے۔[22]

اس مسئلے کی تصدیق میں سیدناعمر رضی اللہ عنہ ، سیدناعثمان رضی اللہ عنہ ، عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ ، عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما ،ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا ، زیدبن ثابت رضی اللہ عنہ ،قاسم بن محمد رحمہ اللہ ،عورہ بن زبیر رضی اللہ عنہ اورابن شہاب سے بھی مختلف صحیح آثاروروایات مروی ہیں ۔[23]

عَنْ عَلِیٍّ رَضِیَ اللهُ عَنْهُ وَابْنِ عَبَّاسٍ وَعَائِشَةَ وَجَابِرٍ وَالْقَاسِمِیَّةِ أَنَّهُ یَجُوزُ لَهَاالْخُرُوجُ مِنْ مَوْضِعِ عِدَّتِهَا

تاہم بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہ مثلا سیدناعلی رضی اللہ عنہ ، عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما اورام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا وغیرہ سے اس کی مطلقااجازت بھی مروی ہے

ذَهَبَ مَالِكٌ وَأَبُو حَنِیفَةَ وَالشَّافِعِیُّ وَأَصْحَابُهُمْ وَالْأَوْزَاعِیُّ وَإِسْحَاقُ وَأَبُو عُبَیْدٍ قَالَ وَحَدِیثُ فُرَیْعَةَ لَمْ یَأْتِ مَنْ خَالَفَهُ بِمَا یَنْتَهِضُ لمعارضته فالتمسك به متعین

اورامام مالک ، ابو حنیفہ ،شافعی واصحابہ ، اوزاعی اور اسحاق اور ابو عبید سے کسی عذرکی بناپرنکلنے کی اجازت مروی ہے لیکن یہ آثاروروایات گزشتہ صحیح مرفوع روایت کے مقابلے میں قابل احتجاج نہیں ۔[24]

xکیاایام عدت میں مطلقہ عورت گھرسے باہرنکل سکتی ہے؟

اگرکوئی ضرورت پیش آجائے توباہرنکل سکتی ہے ۔

جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللهِ یَقُولُ: طُلِّقَتْ خَالَتِی، فَأَرَادَتْ أَنْ تَجُدَّ نَخْلَهَا، فَزَجَرَهَا رَجُلٌ أَنْ تَخْرُجَ،فَأَتَتِ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ:بَلَى فَجُدِّی نَخْلَكِ، فَإِنَّكِ عَسَى أَنْ تَصَدَّقِی، أَوْ تَفْعَلِی مَعْرُوفًا

جابر رضی اللہ عنہ بن عبداللہ سے مروی ہےمیری خالہ کوطلاق دے دی گئی ،انہوں نے دوران عدت ہی اپنے کھجورکے درخت سے پھل اتارنے کی غرض سے باہرجاناچاہاتوایک آدمی نے انہیں ڈانٹا،وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضرہوئیں توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاہاں تم اپنے کھجورکے درخت کاپھل توڑسکتی ہو،عین ممکن ہے کہ تم صدقہ کرویااس ذریعے سے کوئی دوسراعمل خیرتمہارے ہاتھ سے انجام پائے۔[25]

ضرورت ہوتوسوگ والی عورت گھراورکھیت میں کام کرسکتی ہے ممکن ہے کوئی اورکام کرنے والانہ ہو،شریعت لوگوں کی ضروریات اورمجبوریوں کابہت لحاظ رکھتی ہے۔

xاگرکسی عورت کاخاوندلاپتہ ہوجائے تووہ اس کاکتنی مدت تک انتظارکرے؟

اس مسئلہ میں کوئی صحیح مرفوع روایت نہیں ہے اس لئے اس میں بے حداختلاف ہے ،لیکن راجح مسلک یہ ہے کہ لاپتہ ہونے کے وقت سے چارسال گزرجانے کے بعداس کی وفات کاحکم لگایاجائے گاپھراس کی عورت چارماہ دس دن مُتَوَفَّى عَنْهَا زَوْجُهَا کی عدت گزارے گی ،اس کے بعددوسرانکاح کرسکے گی۔

أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللهُ عَنْهُ قَالَ:أَیُّمَا امْرَأَةٍ فَقَدَتْ زَوْجَهَا فَلَمْ تَدْرِ أَیْنَ هُوَ فَإِنَّهَا تَنْتَظِرُ أَرْبَعَ سِنِینَ ثُمَّ تَنْتَظِرُ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا

سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کوئی بھی عورت اپنے خاوند کو لا پتہ پائے اور نہ جانتی ہو کہ کہاں ہے تو بیوی کو چاہیے کہ چار سال انتظار کرے اور پھر چار ماہ دس دن کی عدت پوری کرکے شادی کرسکتی ہے۔[26]

عَنِ ابْنِ الْمُسَیِّبِ، أَنَّ عُمَرَ، وَعُثْمَانَ، قَضَیَا فِی الْمَفْقُودِ أَنَّ امْرَأَتَهُ تَتَرَبَّصُ أَرْبَعَ سِنِینَ وَأَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا بَعْدَ ذَلِكَ

سعیدبن مسیب رحمہ اللہ سے مروی ہےسیدناعمر رضی اللہ عنہ اور سیدناعثمان رضی اللہ عنہ دونوں خلفاء نے لاپتہ شوہرکے بارے میں یہ فیصلہ دیاکہ اس کی بیوی چارسال انتظارکرے اور پھر اس کے چارماہ دس دن بعدیعنی مُتَوَفَّى عَنْهَا زَوْجُهَا کی عدت گزارکرشادی کرلے۔ [27]

أَنَّهُ شَهِدَ ابْنَ عَبَّاسٍ وَابْنَ عُمَرَ رَضِیَ اللهُ عَنْهُمَا تَذَاكَرَا امْرَأَةَ الْمَفْقُودِ فَقَالَا: تَرَبَّصُ بِنَفْسِهَا أَرْبَعَ سِنِینَ ثُمَّ تَعْتَدُّ عِدَّةَ الْوَفَاةِ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما اور عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ لاپتہ شوہرکی بیوی چارسال انتظار کرے اور پھر مُتَوَفَّى عَنْهَا زَوْجُهَا کی عدت گزارے۔[28]

عَنِ ابْنِ الْمُسَیِّبِ قَالَ: إِذَا فُقِدَ فِی الصَّفِّ تَرَبَّصَتْ سَنَةً، وَإِذَا فُقِدَ فِی غَیْرِ الصَّفِّ فَأَرْبَعُ سِنِینَ

عیدبن مسیب رحمہ اللہ سے مروی ہےجب آدمی دوران جنگ لاپتہ ہوجائے تواس کی بیوی ایک سال انتظار کرے اورجب جنگ کے علاوہ کہیں اورلاپتہ ہوجائے توچارسال انتظار کرے۔[29]

عَنِ الْمُغِیرَةِ بْنِ شُعْبَةَ , قَالَ:قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: امْرَأَةُ الْمَفْقُودِ امْرَأَتُهُ حَتَّى یَأْتِیَهَا الْخَبَرُ

مغیرہ بن شعبہ سے مروی ہےرسول اللہ ﷺنے فرمایالاپتہ شوہرکی بیوی اس وقت تک اس کی بیوی رہے گی جب تک کہ گمشدہ کے متعلق کوئی واضح اطلاع نہ موصول ہوجائے۔[30]

ضعیف ومن گھڑت روایت ہے۔

امام مالک رحمہ اللہ ،امام شافعی رحمہ اللہ ،سیدناعمر رضی اللہ عنہ کے فتوے پرعمل کے قائل ہیں ،ایک روایت کے مطابق امام احمد رحمہ اللہ بھی اسی کے قائل ہیں ۔

امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کاموقف ہے کہ لاپتہ شوہرکی بیوی اس کی زوجیت سے نہیں نکلے گی تاقتیکہ اس کی خبروفات کی صحت یاثبوت طلاق یا خاوند کے مرتدہوجانے کاثبوت نہ مل جائے ، اوراحناف کے نزدیک موت سے مرادطبعی موت کی مقدارہے جس میں پھر انہوں نے اختلاف کیاہے

فُقِدَ وَهُوَ ابْنُ سِتِّینَ سَنَةً، یُنْتَظَرُ بِهِ إلَى تَمَامِ سَبْعِینَ سَنَةً مَعَ سَنَةِ یَوْمَ فُقِدَ، أَنَّهُ یُنْتَظَرُ بِهِ تَمَامُ تِسْعِینَ سَنَةً مَعَ سَنَةِ یَوْمَ فُقِدَ، یُنْتَظَرُ بِهِ تَمَامُ مِائَةٍ وَعِشْرِینَ سَنَةً

بعض کے نزدیک یہ مدت ساٹھ سال ہے،بعض کے خیال میں سترسال،اسی طرح نوے سال،ایک سوبیس سال اورایک سوپچاس سال سے دو سو برس تک کا قول بھی بیان کیاجاتا ہے ۔[31]

ایک قول یہ بھی ہے کہ لاپتہ شخص نے اگربیوی کے لئے اخراجات وضروری سامان چھوڑاہے تواسے حاضرہی سمجھاجائے گاورنہ حاکم وقت یا عدالت (عورت کے مطالبے پر) نکاح فسخ کرادے گی،لیکن محققین نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے فتوے ہی کوترجیح دی ہے۔

وَلَا جُنَاحَ عَلَیْكُمْ فِیمَا عَرَّضْتُم بِهِ مِنْ خِطْبَةِ النِّسَاءِ أَوْ أَكْنَنتُمْ فِی أَنفُسِكُمْ ۚ عَلِمَ اللَّهُ أَنَّكُمْ سَتَذْكُرُونَهُنَّ وَلَٰكِن لَّا تُوَاعِدُوهُنَّ سِرًّا إِلَّا أَن تَقُولُوا قَوْلًا مَّعْرُوفًا ۚ وَلَا تَعْزِمُوا عُقْدَةَ النِّكَاحِ حَتَّىٰ یَبْلُغَ الْكِتَابُ أَجَلَهُ ۚ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ یَعْلَمُ مَا فِی أَنفُسِكُمْ فَاحْذَرُوهُ ۚ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ غَفُورٌ حَلِیمٌ ‎﴿٢٣٥﴾‏(البقرہ)
تم پر اس میں کوئی گناہ نہیں کہ تم اشارةًکنایةً ان عورتوں سے نکاح کی بابت کہویا اپنے دل میں پوشیدہ ارادہ کرو اللہ تعالیٰ کو علم ہے کہ تم ضرور ان کو یاد کرو گے لیکن ان سے پوشیدہ وعدے نہ کرلو ہاں یہ اور بات ہے کہ تم بھلی بات بولا کرو اور عقد نکاح جب تک عدت ختم نہ ہوجائے پختہ نہ کرو، جان رکھو کہ اللہ تعالیٰ تمہارے دلوں کی باتوں کا بھی علم رکھتا ہے، تم اس سے خوف کھاتے رہا کرو اور یہ بھی جان رکھو کہ اللہ تعالیٰ بخشش اور حلم والا ہے۔

پیغام نکاح:زمانہ عدت میں خواہ تم ان بیوہ عورتوں کے ساتھ منگنی کاارادہ اشارے کنایے میں ظاہرکردوخواہ دل میں چھپائے رکھودونوں صورتوں میں کوئی مضائقہ نہیں ،

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما اس آیت کی تفسیرمیں کہتے ہیں اگرکسی عورت کوطلاق بائنہ(تین طلاقیں ) مل چکی ہوتوایسی عورت سے اس کی عدت کے دوران صراحت کے بغیرنکاح کی چاہت کااظہارکسی اچھے طریق پرکیاجائے توگناہ نہیں

یَقُولُ: إِنِّی أُرِیدُ التَّزْوِیجَ، وَلَوَدِدْتُ أَنَّهُ تَیَسَّرَ لِی امْرَأَةٌ صَالِحَةٌ

مثلا ًیوں کہنامیں نکاح کرناچاہتاہوں ،میں کسی نیک دین دار عورت سے نکاح کرناچاہتا ہوں ۔[32]

اللہ جانتاہے کہ ان کاخیال توتمہارے دل میں آئے گاہی مگرخفیہ عہدوپیمان نہ کرو،

 عَنْ عَلِیِّ بْنِ أَبِی طَلْحَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ:لَا تُوَاعِدُوهُنَّ سِرًّایَقُولُ: لَا تَقُلْ لَهَا إِنِّی عَاشِقٌ، وَعَاهِدِینِی أَنْ لَا تَتَزَوَّجِی غَیْرِی، وَنَحْوَ هَذَا

علی بن ابوطلحہ نے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے اس آیت’’۔ مگر دیکھو ! خفیہ عہد و پیمان نہ کرنا۔ ‘‘ کے یہ معنی بیان کیے ہیں کہ تم اس سے یہ نہ کہوکہ میں تمہاراعاشق ہوں لہذاوعدہ کروکہ میرے سواکسی اورسے نکاح نہیں کروگی یااس طرح کی کوئی اوربات نہ کہو۔[33]

عَنْ عَلِیِّ بْنِ أَبِی طَلْحَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ{وَلَكِنْ لَا تُوَاعِدُوهُنَّ سِرًّا} یَقُولُ: عَاهِدِینِی أَلَّا تَتَزَوَّجِی غَیْرِی، وَنَحْوَ هَذَا، وَرُوِیَ عَنْ مُجَاهِدٍ، وَالشَّعْبِیِّ، وَأَبِی الضُّحَى، وَالضَّحَّاكِ، وَسَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ، وَابْنِ شِهَابٍ، وَعِكْرِمَةَ، قَالُوا: لَا یَأْخُذْ مِیثَاقَهَا أَنْ لَا تَتَزَوَّجَ غَیْرَهُ

اسی طرح سعیدبن جبیر رحمہ اللہ ، شعبی رحمہ اللہ ، عکرمہ رحمہ اللہ ، ابوالضحٰی رحمہ اللہ ،ضحاک رحمہ اللہ ،زہری رحمہ اللہ ،امام مجاہد رحمہ اللہ اورامام سفیان ثوری رحمہ اللہ سے مروی ہے’’۔ مگر دیکھو ! خفیہ عہد و پیمان نہ کرنا۔ ‘‘سے مرادیہ ہے کہ اس عورت سے یہ پختہ عہدلے کہ وہ اس کے سواکسی اور سے نکاح نہیں کرے گی۔[34]

اگرکوئی بات کرنی ہے تومعروف طریقے سے کرو،

عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِیرِینَ، قَالَ: سَأَلْتُ عَبِیدَةَ عَنْ هَذِهِ الْآیَةِ:إِلَّا أَنْ تَقُولُوا، قَوْلًا مَعْرُوفًا،قَالَ: أَنْ یَقُولَ لِوَلِیِّهَا: لَا تَسْبِقْنِی بِهَا. یَعْنِی: لَا تُزَوِّجْهَا حَتَّى تُعَلِمَنِی

محمدبن سیرین رحمہ اللہ فرماتے ہیں میں نے عبیدہ سے پوچھا’’ اگر کوئی بات کرنی ہے، تو معروف طریقے سے کرو۔‘‘کے معنی کیاہیں ؟ توانہوں نے فرمایاکہ اس کے معنی یہ ہیں کہ وہ عورت کے ولی سے کہے جلدی نہ کرنایعنی مجھے بتلائے بغیراس کی شادی نہ کردینا۔[35]

اورعقدنکاح باندھنے کافیصلہ اس وقت تک نہ کروجب تک کہ عدت پوری نہ ہوجائے،

قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ، وَمُجَاهِدٌ، وَالشَّعْبِیُّ، وَقَتَادَةُ، وَالرَّبِیعُ بْنُ أَنَسٍ، وَأَبُو مَالِكٍ، وَزَیْدُ بْنُ أَسْلَمَ، وَمُقَاتِلُ بْنُ حَیَّانَ، وَالزُّهْرِیُّ، وَعَطَاءٌ الْخُرَاسَانِیُّ، وَالسُّدِّیُّ، وَالثَّوْرِیُّ، وَالضَّحَّاكُ: {حَتَّى یَبْلُغَ الْكِتَابُ أَجَلَهُ} یَعْنِی: حَتَّى تَنْقَضِیَ الْعِدَّةُ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما ، مجاہد رحمہ اللہ ، شعبی رحمہ اللہ ،قتادہ رحمہ اللہ ،ربیع بن انس رحمہ اللہ ،ابومالک رحمہ اللہ ،زیدبن اسلم رحمہ اللہ ،قاتل بن حیان رحمہ اللہ ، زہری رحمہ اللہ ،عطاءخراسانی رحمہ اللہ ،سدی رحمہ اللہ ،ثوری رحمہ اللہ اورضحاک رحمہ اللہ فرماتے ہیں ’’ جب تک کہ عدّت پوری نہ ہوجائے۔‘‘ کے معنی یہ ہیں کہ عدت پوری ہونے تک نکاح نہ کرو۔[36]

وَقَدْ أَجْمَعَ الْعُلَمَاءُ عَلَى أَنَّهُ لَا یَصِحُّ الْعَقْدُ فِی مُدَّةِ الْعِدَّةِ

علماءکااس بات پراجماع ہے کہ مدت عدت میں عقدنکاح صحیح نہیں ۔[37]

خوب سمجھ لوکہ اللہ تمہارے دلوں کی پوشیدہ باتوں کوخوب جانتاہے ،جیسے فرمایا

 وَرَبُّكَ یَعْلَمُ مَا تُكِنُّ صُدُوْرُهُمْ وَمَا یُعْلِنُوْنَ۝۶۹       [38]

ترجمہ: تیرارب جانتاہے جوکچھ یہ دلوں میں چھپائے ہوئے ہیں اورجوکچھ یہ ظاہرکرتے ہیں ۔

۔۔۔وَاَنَا اَعْلَمُ بِمَآ اَخْفَیْتُمْ وَمَآ اَعْلَنْتُمْ۔۔۔ ۝۱        [39]

ترجمہ:حالانکہ جوکچھ تم چھپاکرکرتے ہواورجوعلانیہ کرتے ہوہرچیزکومیں خوب جانتاہوں ۔

لہذااللہ علام الغیوب سے ڈروجوتمہارے دلوں کے خفیہ بھیدوں کوجانتا ہےاوریہ بھی جان لوکہ اللہ ارحم الراحمین خطاؤں کوبخشنے والااورحلم وکرم والاہے۔

لَّا جُنَاحَ عَلَیْكُمْ إِن طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ مَا لَمْ تَمَسُّوهُنَّ أَوْ تَفْرِضُوا لَهُنَّ فَرِیضَةً ۚ وَمَتِّعُوهُنَّ عَلَى الْمُوسِعِ قَدَرُهُ وَعَلَى الْمُقْتِرِ قَدَرُهُ مَتَاعًا بِالْمَعْرُوفِ ۖ حَقًّا عَلَى الْمُحْسِنِینَ ‎﴿٢٣٦﴾‏ وَإِن طَلَّقْتُمُوهُنَّ مِن قَبْلِ أَن تَمَسُّوهُنَّ وَقَدْ فَرَضْتُمْ لَهُنَّ فَرِیضَةً فَنِصْفُ مَا فَرَضْتُمْ إِلَّا أَن یَعْفُونَ أَوْ یَعْفُوَ الَّذِی بِیَدِهِ عُقْدَةُ النِّكَاحِ ۚ وَأَن تَعْفُوا أَقْرَبُ لِلتَّقْوَىٰ ۚ وَلَا تَنسَوُا الْفَضْلَ بَیْنَكُمْ ۚ إِنَّ اللَّهَ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِیرٌ ‎﴿٢٣٧﴾‏(البقرة )
’’اگر تم عورتوں کو بغیر ہاتھ لگائے اور بغیر مہر مقرر کئے طلاق دے دو تو بھی تم پر کوئی گناہ نہیں، ہاں انہیں کچھ نہ کچھ فائدہ دو خوش حال اپنے انداز سے اور تنگ دست اپنی طاقت کے مطابق دستور کے مطابق اچھا فائدہ دے بھلائی کرنے والوں پر یہ لازم ہے اور اگر تم عورتوں کو اس سے پہلے طلاق دے دو کہ تم نے انہیں ہاتھ نہیں لگایا ہو اور تم نے ان کا مہر بھی مقرر کردیا تو مقررہ مہر کا آدھا مہر دے دو یہ اور بات ہے وہ خود معاف کردیں یا وہ شخص معاف کردے جس کے ہاتھ میں نکاح کی گرہ ہے، تمہارا معاف کردینا تقویٰ سے بہت نزدیک ہے اور آپس کی فضیلت اور بزرگی کو فراموش نہ کرو یقیناً اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال کو دیکھ رہا ہے۔ ‘‘

حق مہر: ایک شخص نے انصارمیں سے ایک عورت سے نکاح کیاتھااورمہربھی پختہ ٹھیراتھامگرخلوت صحیحہ سے پہلے ہی کسی وجہ سے رنجش ہونے پرطلاق دے دی ،یہ آیت اس عورت کے بارے میں نازل ہوئی تھی چنانچہ قانون بتایاگیااگرتم عورتوں کوبغیرہاتھ لگائے اوربغیرمہرمقررکئے طلاق دے دوتوبھی تم پرکوئی گناہ نہیں ،

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَوْلُهُ {لَا جُنَاحَ عَلَیْكُمْ إِنْ طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ مَا لَمْ تَمَسُّوهُنَّ}قَالَ: الْمَسُّ: النِّكَاحُ، وَرُوِیَ عَنْ إِبْرَاهِیمَ، وَطَاوُسٍ، وَالْحَسَنِ، نَحْوُ ذَلِكَ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما ، طلاؤس رحمہ اللہ ،ابراہیم رحمہ اللہ اورامام حسن بصری رحمہ اللہ آیت ’’تم پر کچھ گناہ نہیں ، اگر اپنی عورتوں کو طلاق دے دو قبل اس کے کہ ہاتھ لگانے کی نوبت آئے۔‘‘کے بارے میں فرماتے ہیں اس آیت میں ’’الْمَسُّ ‘‘سے مرادنکاح ہے۔[40]

اور اگر کسی عورت کانکاح کے وقت مہرمقررنہیں ہواتھااورخاوندنے خلوت صحیحہ سے پہلے طلاق بھی دے دی توعورت کی دلجوئی ودلداری کے لئے خوشحال اپنے اندازسے اورتنگدست اپنی طاقت کے مطابق اسے کچھ نہ کچھ مال دے کررخصت کرےتاکہ مستقبل کی متوقع خصومتوں کاسدباب ہوجائے ،اس سلسلے میں بہت سے اقوال ہیں بعض علماء نے کہا کہ خادم دیناچاہیے،کسی نے پانچ سو درہم،کسی نے ایک یاچندسوٹ دینے کاذکرکیاہے،اوراگرنکاح کے بعدجس میں حق مہرمقرر کر دیا گیا ہواورشوہرہم بستری سے قبل طلاق دے دے توخاوندکے لئے ضروری ہے کہ مطلقہ عورت کو نصف حق مہراداکرے الایہ کہ عورت نرمی برتے اور اپنایہ حق خوشی سےمعاف کردے ،اس صورت میں خاوندکوکچھ نہیں دیناہوگا،اوراگروہ مرد نرمی سے کام لےاورپورامہردے دےتویہ تقویٰ سے زیادہ مناسبت رکھتاہے،

عَنْ مُجَاهِدٍ، قَوْلُهُ {وَلَا تَنْسَوُا الْفَضْلَ بَیْنَكُمْ} إِتْمَامُ الرَّجُلِ الصَّدَاقَ، وَتَرْكُ الْمَرْأَةِ شَطْرَهَا، وَرُوِیَ عَنِ الضَّحَّاكِ، وَمُقَاتِلِ بْنِ حَیَّانَ، وَالرَّبِیعِ بْنِ أَنَسٍ نَحْوُ ذَلِكَ

امام مجاہد رحمہ اللہ ،نخفی رحمہ اللہ ،ضحاک رحمہ اللہ ،مقاتل بن حیان رحمہ اللہ ،ربیع بن انس رحمہ اللہ اورثوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہاں فضیلت کی بات یہ ہے کہ عورت اپنے مہرکوبھی معاف کردے یاشوہراسے نصف کے بجائے پورامہرہی دے دے۔[41]

انسانی تعلقات اورمیل جول کی بہتری وخوشگواری کے لئے لوگوں کاباہم فیاضانہ برتاؤضروری ہے،یہ بات ہمیشہ یادرکھوکہ اللہ تمہارے امورومعاملات کو دیکھ رہاہے اوروہ ہرعمل کرنے والے کواس کے عمل کے مطابق بدلہ دے گا ۔

[1] البقرة ۲۲۸

[2] الطلاق ۴

[3] صحیح بخاری کتاب التفسیربَابُ وَأُولاَتُ الأَحْمَالِ أَجَلُهُنَّ أَنْ یَضَعْنَ حَمْلَهُنَّ، وَمَنْ یَتَّقِ اللهَ یَجْعَلْ لَهُ مِنْ أَمْرِهِ یُسْرًا ۴۹۰۹، صحیح مسلم کتاب الطلاق بَابُ انْقِضَاءِ عِدَّةِ الْمُتَوَفَّى عَنْهَا زَوْجُهَا، وَغَیْرِهَا بِوَضْعِ الْحَمْلِ۳۷۲۲،جامع ترمذی ابواب الطلاق بَابُ مَا جَاءَ فِی الحَامِلِ الْمُتَوَفَّى عَنْهَا زَوْجُهَا تَضَعُ۱۱۹۳، موطاامام مالک کتاب الطلاق باب عِدَّةُ الْمُتَوَفَّى عَنْهَا زَوْجُهَااذاکانت حاملا۱۵۶،سنن نسائی کتاب الطلاق بَابُ عِدَّةِ الْحَامِلِ الْمُتَوَفَّى عَنْهَا زَوْجُهَا۳۵۴۱، مسند احمد ۱۸۹۱۸، صحیح ابن حبان ۴۲۴۶

[4]سنن ابن ماجہ کتاب الطلاق بَابُ الْمُطَلَّقَةِ الْحَامِلِ إِذَا وَضَعَتْ ذَا بَطْنِهَا بَانَتْ۲۰۲۷

[5] اعلام الموقعین ۵۱؍۲

[6] المحلی بالآثار۴۱؍۱۰

[7] تحفة الاحوذی۳۱۴؍۴

[8] جامع ترمذی أَبْوَابُ الطَّلاَقِ وَاللِّعَانِ بَابُ مَا جَاءَ فِی الحَامِلِ الْمُتَوَفَّى عَنْهَا زَوْجُهَا تَضَعُ ۱۱۹۳

[9] الطلاق ۴

[10] الاحزاب۴۹

[11] سنن ابن ماجہ کتاب الطلاق بَابٌ فِی طَلَاقِ الْأَمَةِ وَعِدَّتِهَا ۲۰۸۰، سنن الدارقطنی۳۹۹۴،سنن الکبریٰ للبیہقی۱۵۱۶۶

[12] مصباح الزجاجة ۱۳۱؍۲

[13] میزان الاعتدال ۲۰۴؍۳

[14] صحیح بخاری کتاب الطلاق بَابُ الكُحْلِ لِلْحَادَّةِ ۵۳۳۸،صحیح مسلم کتاب الطلاق بَابُ وُجُوبِ الْإِحْدَادِ فِی عِدَّةِ الْوَفَاةِ، وَتَحْرِیمِهِ فِی غَیْرِ ذَلِكَ إِلَّا ثَلَاثَةَ أَیَّامٍ۳۷۲۷، موطاامام مالک کتاب الطلاق باب مَا جَاءَ فِی الْإِحْدَادِ۱۷۸،سنن ابوداودکتاب الطلاق بَابُ إِحْدَادِ الْمُتَوَفَّى عَنْهَا زَوْجُهَا۲۲۹۹،جامع ترمذی ابواب الطلاق بَابُ مَا جَاءَ فِی عِدَّةِ الْمُتَوَفَّى عَنْهَا زَوْجُهَا۱۱۹۵تا۱۱۹۷

[15] صحیح بخاری کتاب الطلاق بَابُ القُسْطِ لِلْحَادَّةِ عِنْدَ الطُّهْرِ۵۳۴۱،صحیح مسلم کتاب الطلاق بَابُ وُجُوبِ الْإِحْدَادِ فِی عِدَّةِ الْوَفَاةِ، وَتَحْرِیمِهِ فِی غَیْرِ ذَلِكَ إِلَّا ثَلَاثَةَ أَیَّامٍ۳۷۴۰،سنن نسائی کتاب الطلاق مَا تَجْتَنِبُ الْحَادَّةُ مِنَ الثِّیَابِ الْمُصَبَّغَةِ۳۵۶۴ ، سنن الکبریٰ للبیہقی۱۵۵۳۰

[16] سنن ابوداودکتاب الطلاق بَابٌ فِیمَا تَجْتَنِبُهُ الْمُعْتَدَّةُ فِی عِدَّتِهَا۲۳۰۲

[17] سنن نسائی کتاب الطلاق مَا تَجْتَنِبُ الْحَادَّةُ مِنَ الثِّیَابِ الْمُصَبَّغَةِ۳۵۶۴

[18] سنن ابوداودکتاب الطلاق بَابٌ فِی الْمُتَوَفَّى عَنْهَا تَنْتَقِلُ ۲۳۰۰ ،جامع ترمذی ابواب الطلاق بَابُ مَا جَاءَ أَیْنَ تَعْتَدُّ الْمُتَوَفَّى عَنْهَا زَوْجُهَا؟۱۲۰۴،سنن نسائی کتاب الطلاق باب عِدَّةُ الْمُتَوَفَّى عَنْهَا زَوْجُهَا مِنْ یَوْمِ یَأْتِیهَا الْخَبَرُ ۳۵۶۲، موطاامام مالک کتاب الطلاق باب مُقَامُ الْمُتَوَفَّى عَنْهَا زَوْجُهَا، فِی بَیْتِهَا، حَتَّى تَحِلَّ۱۶۱،مستدرک حاکم۲۸۳۲،مسنداحمد۲۷۰۸۷،سنن الدارمی ۲۳۳۳، صحیح ابن حبان۴۲۹۲

[19] زادالمعاد۶۰۳؍۵

[20] جامع ترمذی کتاب الطلاق واللعان بَابُ مَا جَاءَ أَیْنَ تَعْتَدُّ الْمُتَوَفَّى عَنْهَا زَوْجُهَا؟۱۲۰۴

[21] نیل الاوطار۳۵۶؍۶

[22] الاستذکار۲۱۶؍۶

[23]مصنف عبدالرزاق۱۲۰۳۹

[24] تحفة الاحوذی ۳۳۰؍۴،نیل الاوطار۳۵۵؍۶،مصنف عبدالرزاق۱۲۰۶۴

[25] صحیح مسلم کتاب الطلاق بَابُ جَوَازِ خُرُوجِ الْمُعْتَدَّةِ الْبَائِنِ، وَالْمُتَوَفَّى عَنْهَا زَوْجُهَا فِی النَّهَارِ لِحَاجَتِهَا۳۷۲۱ ،سنن ابوداودکتاب الطلاق بَابٌ فِی الْمَبْتُوتَةِ تَخْرُجُ بِالنَّهَارِ۲۲۹۷،سنن نسائی کتاب الطلاق بَابُ خُرُوجِ الْمُتَوَفَّى عَنْهَا بِالنَّهَارِ۳۵۸۰،سنن ابن ماجہ کتاب الطلاق باب ھل تخرج المراة فی عدتھا۲۰۳۵ ،مسند احمد۱۴۴۴۴،سنن دارمی ۲۳۲۴،مستدرک حاکم۲۸۳۱

[26] موطاامام مالک کتاب الطلاق باب مَا جَاءَ فِی عِدَّةِ الَّتِی تَفْقِدُ زَوْجَهَا۱۰۲، السنن الکبری للبیہقی ۱۵۵۶۶

[27] مصنف عبدالرزاق۱۲۳۱۷

[28] السنن الکبری للبیھقی ۷۳۲؍۷

[29] مصنف عبدالرزاق ۱۲۳۲۶

[30] سنن الدارقطنی۳۸۴۹

[31] المھذب ۶۸؍۱۶، الشرح الصغیر۷۱۷؍۴، المغنی ۳۸۹و۳۹۰؍۶، الروضة الندیة۵۵؍۲

[32] صحیح بخاری کتاب النکاح بَابُ قَوْلِ اللهِ جَلَّ وَعَزَّوَلاَ جُنَاحَ عَلَیْكُمْ فِیمَا عَرَّضْتُمْ بِهِ مِنْ خِطْبَةِ النِّسَاءِ، أَوْ أَكْنَنْتُمْ فِی أَنْفُسِكُمْ عَلِمَ اللهُ۵۱۲۴

[33] تفسیرطبری۱۰۷؍۵

[34] تفسیرابن ابی حاتم۴۳۹؍۲

[35] تفسیرابن ابی حاتم۴۴۱؍۲

[36] تفسیرابن ابی حاتم ۴۴۱؍۲

[37] تفسیرابن کثیر ۶۴۰؍۱

[38] القصص۶۹

[39] الممتحنة۱

[40] تفسیرابن ابی حاتم۴۴۲؍۲

[41] تفسیرابن ابی حاتم۴۴۶؍۲

Related Articles