ہجرت نبوی کا پہلا سال

نزول سورة الحج آیات ۲۵ تا ۷۸

إِنَّ اللَّهَ یُدَافِعُ عَنِ الَّذِینَ آمَنُوا ۗ إِنَّ اللَّهَ لَا یُحِبُّ كُلَّ خَوَّانٍ كَفُورٍ ‎﴿٣٨﴾‏أُذِنَ لِلَّذِینَ یُقَاتَلُونَ بِأَنَّهُمْ ظُلِمُوا ۚ وَإِنَّ اللَّهَ عَلَىٰ نَصْرِهِمْ لَقَدِیرٌ ‎﴿٣٩﴾‏ الَّذِینَ أُخْرِجُوا مِن دِیَارِهِم بِغَیْرِ حَقٍّ إِلَّا أَن یَقُولُوا رَبُّنَا اللَّهُ ۗ وَلَوْلَا دَفْعُ اللَّهِ النَّاسَ بَعْضَهُم بِبَعْضٍ لَّهُدِّمَتْ صَوَامِعُ وَبِیَعٌ وَصَلَوَاتٌ وَمَسَاجِدُ یُذْكَرُ فِیهَا اسْمُ اللَّهِ كَثِیرًا ۗ وَلَیَنصُرَنَّ اللَّهُ مَن یَنصُرُهُ ۗ إِنَّ اللَّهَ لَقَوِیٌّ عَزِیزٌ ‎﴿٤٠﴾‏ الَّذِینَ إِن مَّكَّنَّاهُمْ فِی الْأَرْضِ أَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ وَأَمَرُوا بِالْمَعْرُوفِ وَنَهَوْا عَنِ الْمُنكَرِ ۗ وَلِلَّهِ عَاقِبَةُ الْأُمُورِ ‎﴿٤١﴾‏ (الحج)
’’ سن رکھو ! یقیناً سچے مومنوں کے دشمنوں کو خود اللہ تعالیٰ ہٹا دیتا ہے ،کوئی خیانت کرنے والا ناشکرا اللہ تعالیٰ کو ہرگز پسند نہیں، جن (مسلمانوں) سے (کافر) جنگ کر رہے ہیں انہیں بھی مقابلے کی اجازت دی جاتی ہے کیونکہ وہ مظلوم ہیں، بیشک ان کی مدد پر اللہ قادر ہے، یہ وہ ہیں جنہیں ناحق اپنے گھروں سے نکالا گیا صرف ان کے اس قول پر کہ ہمارا پروردگار فقط اللہ ہے، اگر اللہ تعالیٰ لوگوں کو آپس میں ایک دوسرے سے نہ ہٹاتا رہتا تو عبادت خانے اور گرجے اور مسجدیں اور یہودیوں کے معبد اور وہ مسجدیں بھی ڈھا دی جاتیں جہاں اللہ کا نام باکثرت لیا جاتا ہے، جو اللہ کی مدد کرے گا اللہ بھی ضرور اس کی مدد کرے گا، بیشک اللہ تعالیٰ بڑی قوتوں والا بڑے غلبے والا ہے، یہ وہ لوگ ہیں کہ اگر ہم زمین میں ان کے پاؤں جما دیں تو یہ پوری پابندی سے نمازیں قائم کریں اور زکوٰتیں دیں اور اچھے کاموں کا حکم کریں اور برے کاموں سے منع کریں، تمام کاموں کا انجام اللہ کے اختیار میں ہے ۔‘‘

مشرکین پرسختی کی اجازت:

تیرہ سال مکہ مکرمہ میں مشرکین کے انسانیت سوزظلم وستم کے باوجود اورہجرت مدینہ منورہ کے آٹھ ماہ بعدتک مسلمان کیونکہ تعداداوروسائل کے اعتبارسے لڑنے کے قابل نہیں تھے ،اس لئے مسلمانوں کی خواہش کے باوجودانہیں قتال سے روکے رکھاگیاتھااوردوباتوں کی تاکیدکی جاتی رہی ،ایک یہ کہ کافروں کے ظالمانہ رویہ کوصبراورحوصلے سے برداشت کریں اورعفوودرگزرسے کام لیں ،دوسرے یہ کہ نماز،زکوٰة اوردیگرعبادات وتعلیمات پرعمل کااہتمام کریں تاکہ اللہ تعالیٰ سے ربط وتعلق مضبوط بنیادوں پراستوارہوجائے ، مہاجرین ابھی تازہ تازہ ہی اپنے گھربارچھوڑکربے سروساماں مدینہ میں آئے تھے ،یہاں نہ تو ان کے پاس سرچھپانے کی جگہ تھی اورنہ پیٹ بھرنے کوخوراک ،مسلمان تعدادمیں بھی کم تھے اوران کے پاس سامان جنگ کی بھی قلت تھی ،دوسری طرف مشرکین مکہ اورمنافقین مدینہ نے اپنی ریشہ دانیوں کاسلسلہ جاری کررکھاتھا،ان میں حالات میں بعض اہل ایمان چاہتے تھے کہ اس حال میں بھی کہ ہماری افرادی قوت کم ہے،وسائل کی بھی شدید کمی ہے مگر ان پرقتال فرض کردیاجائے ، تاکہ وہ اللہ کے دشمنوں سے لڑیں ،کفروشرک کاخاتمہ کرکے اللہ وحدہ لاشریک کانام بلندکردیں ،چنانچہ کفروشرک کے خلاف اپنے جذبوں سے مجبورہوکروہ بارباررسول اللہ ﷺسے پوچھتے تھے کہ ہمیں ان ظالموں سے لڑنے کاحکم کیوں نہیں دیاجاتا؟مگران حالات میں ان پرجہادفرض کیاجانامناسب نہ تھا،اس وقت ان لوگوں کے لئے مناسب یہی تھاکہ وہ توحید،نماز،زکوٰة اوراس نوع کے دیگراحکامات پرعمل کریں اورساتھ ہی اللہ کی حکمت کاتقاضاتھاکہ وہ اپنے بندوں پرشریعت کے احکام اس طرح فرض کرے کہ وہ ان پر گراں نہ گزریں ،وہ سب سے پہلے اہم ترین امرکاحکم دے پھرآسان امورسے ابتداکرکے بتدریج مشکل امورکاحکم دے ،اگراس وقت اہل ایمان پران کی قلت تعداد، قلت سامان اورکثرت اعداء کے باوجودقتال فرض کردیاجاتاتویہ چیزاسلام کومضمحل کردیتی ،اس لئے چھوٹی مصلحت کونظراندازکرکے بڑی مصلحت کی رعایت رکھی گئی اوراس میں اس قسم کی دیگرحکمتیں تھیں ،اسی طرح قتال کے حکم کاانتظارکرتے آٹھ ماہ گزرگئے ،ماہ ذلحجہ ایک ہجری کے زمانے میں مہاجرین کواپنامبارک شہراورحج کابے نظیراجتماع یاد آرہاتھا،پہلی مرتبہ وہ اس عظیم الشان اجتماع سے دوراورغریب الوطن تھے ،صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کویہ بات بری طرح کھل رہی تھی کہ مشرکین مکہ نے ان پرمسجدحرام کا راستہ تک بند کر دیا ہے ، اور بے شمارمعبودان باطل کوچھوڑکر اللہ وحدہ لاشریک کا راستہ اختیارکرنے پران کی زندگی دشوارکردی ہے،چنانچہ اب تو ان کے خلاف قتال کی اجازت مل جانی چاہیے ،وہ بے چینی سے اللہ کے فرمان کا انتظارکررہے تھے ،آیات قتال کے نزول کایہ ٹھیک نفسیاتی موقع تھا جن میں پہلے توکعبے کی تعمیر،حج کے ادارے اورقربانی کے طریقے پرمفصل گفتگو کا ذکر کرتے ہوئے یہ بتایاگیاہے کہ یہ مسجدحرام اس لئے بنائی گئی تھی اورحج کاطریقہ اس لئے شروع کیاگیاتھاکہ دنیا میں اللہ وحدہ لاشریک کی بندگی کی جائے مگر آج وہاں شرک ہو رہاہے اور اللہ وحدہ کی بندگی کرنے والوں کے لئے اس کے راستے بندکردیے گئے ہیں ،یہاں سے تقریرکارخ ایک دوسرے مضمون کی طرف پھرتاہے جس میں شعائراللہ کی تعظیم کرنے والوں کی دل جوئی وحوصلہ افزائی کے لئے یوں فرمایا۔

یادرکھو!کفروایمان کی کشمکش میں اہل ایمان یکہ وتنہانہیں ،بلکہ اللہ خودایک فریق ہے اوریہ اللہ تعالیٰ کی قدیم سنت ہے کہ وہ اپنے اطاعت گزاربندوں کوان کے ایمان کے سبب سے کفارکے ہرقسم کے شر،شیطان کے وسوسوں کے شرسے اورخودان کے اپنے نفس اوربرے اعمال کے شرسے ان کی مدافعت فرماتاہے،اور مصائب کے نزول کے وقت جن کابوجھ اٹھانے سے وہ قاصرہوتے ہیں ، اللہ تعالیٰ ان کی طرف سے یہ بوجھ اٹھاکرانتہائی حدتک ان کے بوجھ کوہلکاکردیتاہے ،اورانہیں دشمنوں سے دورفرماکربغیرلڑے بھڑے ان پرغالب کردیتاہے،جیسے چھ ہجری میں کفارنے اپنے غلبہ کی وجہ سے مسلمانوں کوعمرہ ادانہیں کرنے دیامگراللہ تعالیٰ نے محض دوسال کی قلیل مدت میں مشرکین کے اس غلبے کوختم فرماکرمسلمانوں سے ان کے دشمنوں کوہٹادیااورمسلمانوں کوان پرغالب کردیا،جیسے فرمایا

اَلَیْسَ اللهُ بِكَافٍ عَبْدَهٗ ۔۔۔ ۝۳۶ۚ     [1]

ترجمہ:کیااللہ اپنے بندے کو کافی نہیں ۔

۔۔۔وَمَنْ یَّتَوَكَّلْ عَلَی اللهِ فَهُوَحَسْبُهٗ۔۔۔۝۰۝۳ [2]

ترجمہ:جواللہ پربھروسہ رکھے اللہ آپ اسے کافی ہے۔

اللہ تعالیٰ کسی خائن کوجواللہ کے حقوق میں کوتاہی کرتا ہے اورکوئی ناشکراجواللہ کی عطاکردہ نعمتوں کی ناشکری کرتاہےکوپسندنہیں کرتابلکہ ناراض ہوتاہے اورعنقریب اسے اس کے کفراورخیانت کی سزادے گا، دوسرے لفظوں میں اللہ تعالیٰ ہرامانت دارشخص سے جواپنی امانت کی حفاظت کرتاہے اوراپنے رب کا شکر گزار ہے محبت کرتاہے اورجدوجہدکرنے والے حق پرستوں کی تائیدکرتاہے ،کیونکہ مظلومین کی مدداوران کی دادرسی نہ کی جائے توپھردنیامیں زورآورکمزوروں کواورباوسائل بے وسیلہ لوگوں کوجینے ہی نہ دیں جس سے زمین فسادسے بھرجائے،اسی طرح اعلائے کلمة اللہ کے لئے کوشش نہ کی جائے اورباطل کی سرکوبی نہ کی جائے توباطل کے غلبے سے دنیاکاامن وسکون اوراللہ کانام لینے والوں کے لئے کوئی عبادت خانہ باقی نہ رہے، اس لئے فرمایاکہ مسلمانوں نے اپنے دین کی وجہ سے ایک لمبے عرصہ تک مشرکین کابے رحمانہ ظلم وستم برداشت کیا،اپنے عقیدہ کی حفاظت کے لئے انہوں نے اپنا پیارا وطن ، اپنا گھر بار ، مال واسباب اورعزیزواقارب کوچھوڑ دیا اوریہوں انہیں قدم ٹکانے کی جگہ مل گئی جیسے فرمایا

۔۔۔یُخْرِجُوْنَ الرَّسُوْلَ وَاِیَّاكُمْ اَنْ تُؤْمِنُوْا بِاللهِ رَبِّكُمْ۔۔۔ ۝۱  [3]

ترجمہ: پیغمبر کو اورخودتمہیں بھی محض اس وجہ سے جلاوطن کرتے ہیں کہ تم اپنے رب پرایمان رکھتے ہو۔

وَمَا نَقَمُوْا مِنْهُمْ اِلَّآ اَنْ یُّؤْمِنُوْا بِاللهِ الْعَزِیْزِ الْحَمِیْدِ۝۸ۙ  [4]

ترجمہ:اور ان اہل ایمان سے ان کی دشمنی اس کے سوا کسی وجہ سے نہ تھی کہ وہ اس اللہ پر ایمان لے آئے تھے جو زبردست اور اپنی ذات میں آپ محمود ہے ۔

مگر کفارانہیں یہاں بھی ختم کرنے کے درپے ہیں چنانچہ اب طاقت کاجواب طاقت سے دیاجائے گا،اب مسلمانوں کو مظلومیت کے خاتمہ اور اعلائے کلمة اللہ (عدل وانصاف پرمبنی نظام توحید) کے لئے اپنے دشمنوں ،ظالموں کے خلاف تلواراٹھانے کی اجازت دی جاتی ہے، اللہ یقیناًاہل ایمان کی مددپرقادرہے اس لئے اہل ایمان اسی سے نصرت طلب کریں اور اسی سے مدد مانگیں ،قتال فی سبیل اللہ کے بارے میں یہ اولین آیت نازل ہوئی جس میں صرف اجازت فرمائی گئی تھی ،اس آیت کے چند مہینوں کے بعدغزوہ بدر سے کچھ پہلے رجب یا شعبان میں سورة البقرة کی وہ آیات نازل ہوئیں جن میں جنگ کاحکم دیاگیایعنی

وَقَاتِلُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللهِ الَّذِیْنَ یُقَاتِلُوْنَكُمْ وَلَا تَعْتَدُوْا۝۰ۭ اِنَّ اللهَ لَا یُحِبُّ الْمُعْتَدِیْنَ۝۱۹۰  [5]

ترجمہ: لڑواللہ کی راہ میں ان سے جوتم سے لڑتے ہیں اورزیادتی نہ کرو اللہ تعالیٰ زیادتی کرنے والوں کوپسندنہیں فرماتا۔

وَاقْتُلُوْھُمْ حَیْثُ ثَقِفْتُمُوْھُمْ وَاَخْرِجُوْھُمْ مِّنْ حَیْثُ اَخْرَجُوْكُمْ ۔۔۔۝۱۹۱      [6]

ترجمہ:انہیں ماروجہاں بھی پاؤاورانہیں نکالوجہاں سے انہوں نے تمہیں نکالاہے ۔

وَقٰتِلُوْھُمْ حَتّٰى لَا تَكُوْنَ فِتْنَةٌ وَّیَكُوْنَ الدِّیْنُ لِلهِ۔۔۔ ۝۱۹۳        [7]

ترجمہ: ان سے لڑوجب تک کہ فتنہ نہ مٹ جائے اوراللہ تعالیٰ کادین غالب نہ آجائے۔

كُتِبَ عَلَیْكُمُ الْقِتَالُ وَھُوَكُرْهٌ لَّكُمْ۔۔۔ ۝۲۱۶ۧ          [8]

ترجمہ:تم پرجہادفرض کیاگیاگووہ تمہیں دشوارمعلوم ہو۔

وَقَاتِلُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللهِ وَاعْلَمُوْٓا اَنَّ اللهَ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ۝۲۴۴      [9]

ترجمہ:اللہ کی راہ میں جہادکرواورجان لوکہ اللہ تعالیٰ سنتا،جانتاہے ۔

اورکفارکومتنبہ کیاگیاکہ اگرتم اس غرے میں مبتلاہوکہ تمہاری کثرت تعداد،بہتر مالی پوزیشن ووسائل اور سیاسی ساکھ ہے اور تمہاری پشت پردوسرے مشرک قبائل کے ساتھ یہودی بھی کھڑے ہیں ، اورتم ان قلیل التعدادمسلمانوں کوجن کی مالی پوزیشن کمزورہے ، وسائل کی قلت ہے اورجوہجرت کے بعد اپنے قدم جمانے کی کوشش کررہے ہیں آسانی سے ختم کردوگے تویادرکھوکہ تمہارامقابلہ دراصل ان مٹھی بھراوربے سروساماں مسلمانوں سے نہیں بلکہ اللہ کے ساتھ ہے ، اگرتم میں اتنی طاقت وقوت،وسائل واسباب ہیں کہ اللہ سے مقابلہ کرسکتے ہوتو پھر سامنے آجاؤ،اس برمحل آیت کے نزول سے مسلمانوں کی دھارس بندھ گئی اوروہ سارے عرب کی طاقت کے سامنے کھڑے ہونے کے لئے تیار ہوگئے ،پھراللہ تعالیٰ نے کفارکے ظلم وستم کاوصف بیان فرمایاکہ انہوں نے مسلمانوں کوناحق اذیتوں اورفتنے میں مبتلا کرکے اپنے گھروں سے نکل جانے پر مجبور کردیا گیا اور جب وہ مکہ سے نکلنے لگے تو ان پرمزیدمظالم ڈھائے گئے ،ان کی محنت ومشقت سے کمائی جمع پونجی چھین لی گئی،ماں اور دودھ پیتے بچے کوجداکردیاگیاوغیرہ صرف اس بناپرکہ وہ اللہ تعالیٰ کی توحید کا اقرار کرتے ہیں اوردین کواس کے لئے خالص کرتے ہوئے اس کی عبادت کرتے ہیں ،اگر اللہ تعالیٰ مجاہدین فی سبیل اللہ کے ذریعے سے کفارومشرکین کی ریشہ دانیوں کاسدباب نہ کرے تو راہب،سنیاسی اور تارک الدنیالوگوں کے لئے یہ بڑی بڑی مخانقاہیں ، نصاریٰ کے گرجے ،یہودیوں کی عبادت گاہیں اورمسلمانوں کی مساجدجن میں کثرت سے اللہ تعالیٰ کاذکریعنی ان عبادت گاہوں میں نمازقائم کی جاتی ہے،کتب الہیہ کی تلاوت کی جاتی ہے اورمختلف طریقوں سے اللہ کاذکرکیاجاتاہے توکفارمسلمانوں پرغالب آجائیں ،ان کی عبادت گاہوں کومسمار کر دیں اوردین کے بارے میں ان کو آزمائش میں مبتلا کر دیں جیسے فرمایا

۔۔۔وَلَوْ لَا دَفْعُ اللهِ النَّاسَ بَعْضَهُمْ بِبَعْضٍ۝۰ۙ لَّفَسَدَتِ الْاَرْضُ وَلٰكِنَّ اللهَ ذُوْ فَضْلٍ عَلَی الْعٰلَمِیْنَ۝۲۵۱ [10]

ترجمہ:اگراللہ تعالیٰ لوگوں کوایک دوسرے کے ذریعے سے نہ ہٹاتارہے توزمین میں فسادبرپاہوجائے مگراللہ جہان والوں پربڑاہی فضل کرتا ہے۔

اوراللہ اس کی بھرپورمددکرتاہے جو لوگوں کواخلاص کے ساتھ دعوت دین دیتے ہیں ،دین حق کی نصرت کے لئے کھڑاہوتاہے اوراللہ کاکلمہ بلندکرنے کے لئے جہاد کرتا ہے،حالانکہ کہ اللہ تعالیٰ کومددکی ضرورت نہیں ،وہ صمد،عنی بے نیاز ہے ،کائنات کی ہرچیزکواس کی ضرورت ہے اورہرچیزاس کی محتاج ہے لیکن وہ کسی کی مددکامحتاج نہیں جیسے فرمایا

مَنْ ذَا الَّذِیْ یُقْرِضُ اللهَ قَرْضًا حَسَـنًا فَیُضٰعِفَهٗ لَهٗٓ اَضْعَافًا كَثِیْرَةً ۔۔۔ ۝۲۴۵ [11]

ترجمہ:کون شخص ہے جواللہ تعالیٰ کواچھے طورپرقرض دے پھراللہ اس (کے ثواب)کوبڑھاکربہت زیادہ کردے ۔

اللہ پوری قوت کامالک اور غالب ہے اس کے سامنے کسی کی کوئی مجال نہیں ،وہ تمام مخلوق پرغالب ہے ،تمام جانداروں کی پیشانیاں اس کے قبضہ قدرت میں ہیں ،وہ جسے مدد دے وہ غالب جس سے اس کی مددہٹ جائے وہ مغلوب ، کوئی اس کے فیصلے میں تبدیلی نہیں کرسکتا جیسے فرمایا

وَلَقَدْ سَبَقَتْ كَلِمَتُنَا لِعِبَادِنَا الْمُرْسَلِیْنَ۝۱۷۱ۚۖاِنَّهُمْ لَهُمُ الْمَنْصُوْرُوْنَ۝۱۷۲۠وَاِنَّ جُنْدَنَا لَهُمُ الْغٰلِبُوْنَ۝۱۷۳ [12]

ترجمہ:اپنے بھیجے ہوئے بندوں سے ہم پہلے ہی وعدہ کرچکے ہیں کہ یقینا ان کی مدد کی جائے گی اور ہمارا لشکر ہی غالب ہو کر رہے گا ۔

كَتَبَ اللهُ لَاَغْلِبَنَّ اَنَا وَرُسُلِیْ۝۰ۭ اِنَّ اللهَ قَوِیٌّ عَزِیْزٌ۝۲۱ [13]

ترجمہ:اللہ کہہ چکا ہے کہ میں اورمیرارسول غالب ہیں ،بیشک اللہ تعالیٰ قوت وعزت والاہے ۔

پس وہ تمام اسباب اختیار کرو جن کے استعمال کرنے کاتم کوحکم دیاگیاہے،پھراللہ تعالیٰ سے مدد مانگو وہ ضرورتمہاری مددکرے گا جیسے فرمایا

یٰٓاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِنْ تَنْصُرُوا اللهَ یَنْصُرْكُمْ وَیُثَبِّتْ اَقْدَامَكُمْ۝۷ [14]

ترجمہ:اے ایمان والو!اگرتم اللہ کی مددکروگے تووہ بھی تمہاری مددکرے گااورتمہیں ثابت قدم رکھے گا۔

وَعَدَ اللهُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَیَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِی الْاَرْضِ كَـمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ۝۰۠ وَلَیُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِیْنَهُمُ الَّذِی ارْتَضٰى لَهُمْ وَلَیُبَدِّلَنَّهُمْ مِّنْۢ بَعْدِ خَوْفِهِمْ اَمْنًا۝۰ۭ یَعْبُدُوْنَنِیْ لَا یُشْرِكُوْنَ بِیْ شَـیْــــًٔـا۔۔۔۝۰۝۵۵ [15]

ترجمہ:اللہ نے وعدہ فرمایا ہے تم میں سے ان لوگوں کے ساتھ جو ایمان لائیں اور نیک عمل کریں کہ وہ ان کو اسی طرح زمین میں خلیفہ بنائے گا جس طرح ان سے پہلے گزرے ہوئے لوگوں کو بنا چکا ہے، ان کے لیے ان کے اس دین کو مضبوط بنیادوں پر قائم کر دے گا جسے اللہ تعالیٰ نے ان کے حق میں پسند کیا ہے، اور ان کی (موجودہ )حالت خوف کو امن سے بدل دے گا، بس وہ میری بندگی کریں اور میرے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں ۔

پھراللہ تعالیٰ نے مددکرنے والوں کی چارصفات بیان فرمائی ۔

x اگرہم ان کوزمین پراقتداربخش دیں تووہ فسق وفجوراورکبروغرورمیں مبتلاہونے کے بجائے نمازکواس کی تمام حدود،ارکان،شرائط،جمعہ اورجماعت کے ساتھ قائم کرتے ہیں ۔

x وہ اپنی دولت عیاشیوں ،نفس پرستیوں کے بجائے محرومین ومستحقین کوزکوٰة اداکرتے ہیں ۔

x امربالمعروف کاحکم دیتے ہیں یعنی ہراس کام کوجوعقلاًاورشرعاًحقوق اللہ اورحقوق العبادکے اعتبارسے نیک ہوحکم دیتے ہیں ۔

x اورنہی المنکرکاحکم دیتے ہیں یعنی نیکیوں کودبانے اوربدیوں کوپھیلانے کے بجائے ہر برائی کوجس کی قباحت شرعا ًاورعقلاًمعروف ہوروکتے ہیں ۔

اورزمین پربسنے والوں کی قسمت کے فیصلے کرنے والے یہ مغرورلوگ نہیں بلکہ یہ اللہ کے قبضہ قدرت میں ہے اوروہ یہ جانتاہے کہ زمین کااقتدارکس وقت کس کوسونپاجائے ۔

اللہ تعالیٰ کے اس فرمان سے مسلمانوں میں کفارکے خلاف ایک جوش وجذبہ بیدارہوگیااورحدیث وسیرت کی روایات سے ثابت ہے کہ اس اجازت کے بعدفوراًہی قریش کے خلاف عملی سرگرمیاں شروع کردی گئیں اورپہلی مہم صفردوہجری میں ساحل بحراحمرکی طرف روانہ ہوئی جوغزوہ دوان یا غزوہ ابواء کے نام سے مشہور ہے۔

وَإِن یُكَذِّبُوكَ فَقَدْ كَذَّبَتْ قَبْلَهُمْ قَوْمُ نُوحٍ وَعَادٌ وَثَمُودُ ‎﴿٤٢﴾‏ وَقَوْمُ إِبْرَاهِیمَ وَقَوْمُ لُوطٍ ‎﴿٤٣﴾‏ وَأَصْحَابُ مَدْیَنَ ۖ وَكُذِّبَ مُوسَىٰ فَأَمْلَیْتُ لِلْكَافِرِینَ ثُمَّ أَخَذْتُهُمْ ۖ فَكَیْفَ كَانَ نَكِیرِ ‎﴿٤٤﴾‏ فَكَأَیِّن مِّن قَرْیَةٍ أَهْلَكْنَاهَا وَهِیَ ظَالِمَةٌ فَهِیَ خَاوِیَةٌ عَلَىٰ عُرُوشِهَا وَبِئْرٍ مُّعَطَّلَةٍ وَقَصْرٍ مَّشِیدٍ ‎﴿٤٥﴾‏ أَفَلَمْ یَسِیرُوا فِی الْأَرْضِ فَتَكُونَ لَهُمْ قُلُوبٌ یَعْقِلُونَ بِهَا أَوْ آذَانٌ یَسْمَعُونَ بِهَا ۖ فَإِنَّهَا لَا تَعْمَى الْأَبْصَارُ وَلَٰكِن تَعْمَى الْقُلُوبُ الَّتِی فِی الصُّدُورِ ‎﴿٤٦﴾‏(الحج )
’’اگر یہ لوگ آپ کو جھٹلائیں (تو کوئی تعجب کی بات نہیں) تو ان سے پہلے نوح کی قوم عاد اور ثموداور قوم ابراہیم اور قوم لوط اور مدین والے بھی اپنے اپنے نبیوں کو جھٹلا چکے ہیں،موسیٰ (علیہ السلام) بھی جھٹلائے جا چکے ہیں ،پس میں نے کافروں کو یوں ہی سی مہلت دی پھر دھر دبایا، پھر میرا عذاب کیسا ہوا؟ بہت سی بستیاں ہیں جنہیں ہم نے تہ وبالا کردیا اس لیے کہ وہ ظالم تھے ،پس وہ اپنی چھتوں کے بل اوندھی ہوئی پڑی ہیں، اور بہت سے آباد کنوئیں بیکار پڑے ہیں اور بہت سے پکے اور بلند محل ویران پڑے ہیں، کیا انہوں نے زمین میں سیرو سیاحت نہیں کی جو ان کے دل ان باتوں کے سمجھنے والے ہوتے یا کانوں سے ہی ان (واقعات) کو سن لیتے، بات یہ ہے کہ صرف آنکھیں ہی اندھی نہیں ہوتیں بلکہ دل اندھے ہوجاتے ہیں جو سینوں میں ہیں ۔‘‘

اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوتسلی دیتے ہوئے فرمایااگریہ مشرکین آپ کی تکذیب کرتے ہیں توآپ کوئی پہلے رسول نہیں ہیں جن کوجھٹلایاگیاہو،اوریہ امت بھی کوئی پہلی امت نہیں جس نے اپنے رسول کوجھٹلایاہے،بلاشبہ ان سے پہلے قوم نوح،قوم عادوثمود،قوم ابراہیم،قوم لوط،قوم شعیب ،اوراسی طرح جلیل القدرپیغمبرموسیٰ علیہ السلام کی بھی تکذیب کی گئی،حالانکہ حق کے واضح دلائل ان کے سامنے تھے مگرمنکروں نے اللہ کی دعوت حق کوتسلیم نہ کیا، اللہ نے اپنی سنت کے مطابق تکذیب کرنے والوں کوسزادینے میں جلدی نہیں کی بلکہ انہیں کافی عرصہ کے لئے ڈھیل دی تاکہ یہ اپنے انجام پراچھی طرح غوروفکرکرلیں ،مگر وہ آنکھیں بندکرکے اپنی سرکشی پرجمے رہے اورکفروشرک میں بڑھتے ہی چلے گئے،جب انصاف کے تقاضے پورے ہوچکے توپھرایک وقت مقررہ پرغالب اورقدرت رکھنے والی ہستی نے ان کواپنی گرفت میں لے لیا،پھر بد ترین عذاب دے کرانہیں اس انجام تک پہنچایا جو ان کے پیش رووں کاہوچکا تھا،ان میں سے بعض کوغرق کردیاگیا،بعض کوایک چنگھاڑنے آلیااوربعض طوفانی ہواکے ذریعے ہلاک کردیئے گئے،بعض کوزمین میں دھنسا دیا گیا اور بعض کوچھتری والے دن کے عذاب کے ذریعے سے ہلاک کیاگیا،جیسے فرمایا

فَكُلًّا اَخَذْنَا بِذَنْۢبِہٖ۝۰ۚ فَمِنْہُمْ مَّنْ اَرْسَلْنَا عَلَیْہِ حَاصِبًا۝۰ۚ وَمِنْہُمْ مَّنْ اَخَذَتْہُ الصَّیْحَةُ۝۰ۚ وَمِنْہُمْ مَّنْ خَسَفْنَا بِہِ الْاَرْضَ۝۰ۚ وَمِنْہُمْ مَّنْ اَغْرَقْنَا۔۔۔۝۴۰    [16]

ترجمہ:آخرکار ہر ایک کو ہم نے اس کے گناہ میں پکڑا پھر ان میں سے کسی پر ہم نے پتھراؤ کرنے والی ہوا بھیجی،اور کسی کو ایک زبردست دھماکے نے آلیااور کسی کو ہم نے زمین میں دھنسا دیا اور کسی کو غرق کر دیا۔

پھردیکھاکہ ہم نے ان قوموں کے کفراور تکذیب کے سبب ان کواپنی نعمتوں سے محروم کرکے عذاب وہلاکت سے دوچارکردیا ، لہذاتکذیب کرنے والوں کوان قوموں سے عبرت پکڑنی چاہیےکہیں ایسانہ ہوکہ ان کوبھی وہی عذاب آلے جوگزشتہ بدکردارقوموں پرنازل ہوا تھا،

وذكر بَعْضُ السَّلَفِ أَنَّهُ كَانَ بَیْنَ قَوْلِ فِرْعَوْنَ لقومه:أَنَا رَبُّكُمُ الأعْلَى، وَبَیْنَ إِهْلَاكِ اللهِ لَهُ أَرْبَعُونَ سَنَةً

سلف سے منقول ہے کہ فرعون کے ربانی دعوے اوراللہ کی پکڑکے درمیان چالیس سال کاعرصہ تھا۔[17]

عَنْ أَبِی مُوسَى رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّ اللَّهَ لَیُمْلِی لِلظَّالِمِ حَتَّى إِذَا أَخَذَهُ لَمْ یُفْلِتْهُ قَالَ: ثُمَّ قَرَأَ: {وَكَذَلِكَ أَخْذُ رَبِّكَ إِذَا أَخَذَ القُرَى وَهِیَ ظَالِمَةٌ إِنَّ أَخْذَهُ أَلِیمٌ شَدِیدٌ} [18]

ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ اللہ تعالیٰ ہرظالم کوڈھیل دیتاہے پھرجب پکڑتا ہے تو چھٹکارانہیں ہوتا پھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آیت’’ تیرے پروردگارکی پکڑ کا یہی طریقہ ہے جب کہ وہ بستیوں کے رہنے والے ظالموں کوپکڑتاہے بیشک اس کی پکڑدکھ دینے والی اورنہایت سخت ہے۔‘‘کی تلاوت فرمائی۔[19]

پھرفرمایاکتنی ہی خطاکاربستیاں ہیں جن کوہم نے دنیاوی رسوائی کے ساتھ سخت عذاب کے ذریعے سے ہلاک کیا،اوران کی حالت یہ تھی کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کاانکاراوررسول کی تکذیب کرکے ظلم کاارتکاب کیاتھا،اب ان کے گھرمنہدم ہوکراجڑے پڑے ہیں ،ان کے بلندوبالا محلات اورعمارتیں اپنی چھتوں پرالٹی پڑی ہیں ،کبھی یہ آبادتھیں اب ویران پڑی ہیں ،کبھی اپنے رہنے والوں کے ساتھ معمورتھیں اب وہاں وحشت ٹپکتی ہے،کتنے ہی کنوئیں جہاں کبھی پانی پینے اورمویشیوں کوپلانے کے لئے لوگوں کاازدھام ہوا کرتاتھااب ان کنوؤں کے مالک مفقود اور پانی پینے والے معدوم ہیں ،کتنے ہی محل اورقصرہیں جن کے لئے ان کے رہنے والوں نے مشقت اٹھائی ،ان کوچونے سے مضبوط کیا،ان کوبلنداورمحفوظ کیااورخوب سجایا مگر جب اللہ تعالیٰ کاحکم آگیاتونہ تویہ مضبوط وبلندوبالا عمارتیں اورنہ ہی ان کے معبودان کے کچھ کام آئے ،اوران کے محلات جن کی خوبصورتی اورپائیداری پران کو فخر و غرور تھا خالی پڑے رہ گئے اوران میں رہنے والے متکبر، مشرک اشخاص جن کواپنے معبودوں سے امیدیں وابستہ تھیں عبرت پکڑنے والوں کے لئے سامان عبرت اور فکرونظررکھنے والوں کے لئے مثال بن گئے۔

اَیْنَ مَا تَكُوْنُوْا یُدْرِكْكُّمُ الْمَوْتُ وَلَوْ كُنْتُمْ فِیْ بُرُوْجٍ مُّشَـیَّدَةٍ۔۔۔۝۰۝۷۸          [20]

ترجمہ:تم جہاں کہیں بھی ہوموت تمہیں آپکڑے گی گوتم مضبوط قلعوں میں ہو۔

کیایہ لوگ جن کونصیحت کی جارہی ہے اپنے قلب وبدن کے ساتھ زمین پرچلے پھرے نہیں کہ اللہ تعالیٰ کی آیات کوسمجھنے اورعبرت کے لئے ان میں غور و فکر کرتے کہ انسان کی فلاح کس کام میں ہے اورانسان کی بربادی کس کام میں ،

وَقَالَ ابْنُ أَبِی الدُّنْیَا: قَالَ بَعْضُ الْحُكَمَاءِ: أحْیِ قَلْبَكَ بِالْمَوَاعِظِ،ونَوِّره بالفِكْر، ومَوِّته بِالزُّهْدِ ، وقَوِّه بِالْیَقِینِ، وذَلِّلْهُ بِالْمَوْتِ، وقرِّره بِالْفَنَاءِ، وبَصِّره فَجَائِعَ الدُّنْیَا، وحَذِّره صولةَ الدَّهْرِ وَفُحْشَ تَقَلُّب الْأَیَّامِ، وَاعْرِضْ عَلَیْهِ أَخْبَارَ الْمَاضِینَ ، وَذَكِّرْهُ مَا أَصَابَ مَنْ كَانَ قَبْلَهُ، وسِرْ فِی دِیَارِهِمْ وَآثَارِهِمْ، وَانْظُرْ مَا فَعَلُوا وَأَیْنَ حَلُّوا، وعَمَّ انقَلَبُوا،أَیْ: فَانْظُرُوا مَا حَلَّ بِالْأُمَمِ الْمُكَذِّبَةِ مِنَ النِّقَمِ وَالنَّكَال

ابن ابودنیا رحمہ اللہ نے لکھاہے کہ بعض حکماءنے کہاہے کہ اپنے دل کومواعظ کے ساتھ زندہ کرو،غوروفکرکے ساتھ منورکرو، زہدکے ساتھ ماردو، یقین کے ساتھ قوت بخشو، موت کے ساتھ ذلیل کردو،فناکے ساتھ مقدرکردو،اسے دنیاکے دکھ دکھاؤ،زمانے کے حملے سے ڈراؤ،گردش ایام کاخوف دلاؤ،گزرے ہوئے لوگوں کے حالات سناؤ،پہلے لوگوں پرجوعذاب آئے وہ یاددلاؤ،ان کے گھروں کے گھنڈرات کی سیرکراؤاوردیکھوکہ انہوں نے کیاکیاکہاں رہے اورکیسے چل بسے، یعنی دیکھو کہ تکذیب کرنے والی امتوں کوکیسی کیسی سزائیں اورکیسے کیسے عذاب دیے گئے تھے۔[21]

مگریہ اپنے باطل معبودوں کی عقیدت میں عبرت پذیری کی صلاحیت بھی کھوبیٹھے ہیں ،بصارت کا اندھاتوصرف دنیاوی منفعت تک پہنچنے سے محروم ہے،لیکن دل کایہ اندھاپن کہ واضح دلائل وآثارکے باوجود نہ اس کوعبرت آتی ہے اورنہ خیر و شر میں تمیز ہوتی ہے اس کے دین کے لئے ضرررساں ہے ۔

وَیَسْتَعْجِلُونَكَ بِالْعَذَابِ وَلَن یُخْلِفَ اللَّهُ وَعْدَهُ ۚ وَإِنَّ یَوْمًا عِندَ رَبِّكَ كَأَلْفِ سَنَةٍ مِّمَّا تَعُدُّونَ ‎﴿٤٧﴾‏ وَكَأَیِّن مِّن قَرْیَةٍ أَمْلَیْتُ لَهَا وَهِیَ ظَالِمَةٌ ثُمَّ أَخَذْتُهَا وَإِلَیَّ الْمَصِیرُ ‎﴿٤٨﴾‏ (الحج)
’’اور عذاب کو آپ سے جلدی طلب کر رہے اللہ ہرگز اپنا وعدہ نہیں ٹالے گا، ہاں البتہ آپ کے رب کے نزدیک ایک دن تمہاری گنتی کے اعتبار سے ایک ہزار سال کا ہے، بہت سی ظلم کرنے والی بستیوں کو میں نے ڈھیل دی پھر آخر انہیں پکڑ لیا اور میری ہی طرف لوٹ کر آنا ہے۔‘‘

دنیاوی وآخروی عذاب کی تکذیب کرنے والے اپنی جہالت،ظلم وعناد،اللہ تعالیٰ کوعاجزسمجھتے اوراس کے رسول کی تکذیب کرتے ہوئے آپ سے جلدی عذاب نازل کرنے کا چیلنج کرتے ہیں ،کہتے ہیں کہ الٰہی !اگریہ تیری طرف سے حق ہے توہم پرآسمان سے سنگ باری کریاکسی طرح کادردناک عذاب بھیج ،جیسے فرمایا

وَاِذْ قَالُوا اللّٰہُمَّ اِنْ كَانَ ہٰذَا ہُوَالْحَقَّ مِنْ عِنْدِكَ فَاَمْطِرْ عَلَیْنَا حِجَارَةً مِّنَ السَّمَاۗءِ اَوِ ائْتِنَا بِعَذَابٍ اَلِیْمٍ۝۳۲ [22]

ترجمہ:اور وہ بات بھی یاد ہے جو انہوں نے کہی تھی کہ خدایا اگر یہ واقعی حق ہے اور تیری طرف سے ہے تو ہم پر آسمان سے پتھر برسا دے یا کوئی دردناک عذاب ہم پر لے آ ۔

اوریہ بھی کہتے ہیں کہ حساب کے دن سے پہلے ہی ہمارامعاملہ صاف کردے ،جیسے فرمایا

وَقَالُوْا رَبَّنَا عَجِّلْ لَّنَا قِطَّنَا قَبْلَ یَوْمِ الْحِسَابِ۝۱۶       [23]

ترجمہ:اور یہ کہتے ہیں کہ اے ہمارے رب، یوم الحساب سے پہلے ہی ہمارا حصہ ہمیں جلدی سے دے دے ۔

تواے نبیﷺ!آپ ان لوگوں سے فرمادیں کہ تقدیم وتاخیرسے کوئی فرق نہیں پڑتاتاہم یہ بات یقینی ہے کہ اللہ تعالیٰ اپناوعدہ ضرور پورا کر کے رہے گا ،جیسے فرمایا

فَلَا تَحْسَبَنَّ اللہَ مُخْلِفَ وَعْدِہٖ رُسُلَہٗ۔۔۔۝۴۷ۭ [24]

ترجمہ:پس اے نبی ﷺ! تم ہرگز یہ گمان نہ کرو کہ اللہ کبھی اپنے رسولوں سے کیے ہوئے وعدے کے خلاف کرے گا ۔

وَعْدَ اللہِ۝۰ۭ لَا یُخْلِفُ اللہُ وَعْدَہٗ۔۔۔ ۝۶         [25]

ترجمہ:یہ وعدہ اللہ نے کیا ہے، اللہ کبھی اپنے وعدے کی خلاف ورزی نہیں کرتا۔

کوئی روکنے والااس کوروک نہیں سکتا،جیسے فرمایا

۔۔۔وَاللہُ یَحْكُمُ لَا مُعَقِّبَ لِحُكْمِہٖ۝۰ۭ وَہُوَسَرِیْعُ الْحِسَابِ۝۴۱     [26]

ترجمہ: اللہ حکومت کر رہا ہے، کوئی اس کے فیصلوں پر نظرثانی کرنے والا نہیں ہے، اور حساب لیتے کچھ دیر نہیں لگتی ۔

رہااس عذاب کاجلدی آناتواے محمدﷺ!یہ آپ کے اختیارمیں نہیں ،ان کے جلدی مچانے اورہمیں عاجزگرداننے پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کوہلکانہ سمجھیں ، قیامت کا ہولناک دن ان کے سامنے ہے جس میں اللہ مالک یوم الدین تمام اولین وآخرین کواکٹھاکرے گا،جیسے فرمایا

لَمَجْمُوْعُوْنَ۝۰ۥۙ اِلٰى مِیْقَاتِ یَوْمٍ مَّعْلُوْمٍ۝۵۰           [27]

ترجمہ:ایک دن ضرور جمع کیے جانے والے ہیں جس کا وقت مقرر کیا جا چکا ہے ۔

ان کوان کے اعمال کی جزادی جائے گی اوران کو دردناک عذاب میں ڈالاجائے گا ، اگر وہ عذاب کے لئے جلدی مچاتے ہیں تو(انہیں معلوم ہوناچاہیے کہ)اللہ کے فیصلے ان کی گھڑیوں اورجنتریوں کے لحاظ سے نہیں ہوتے اللہ تعالیٰ کے ہاں ایک دن شمارکے ہزاربرس کے برابرہے،پس یہ مدت خواہ یہ اس کوکتناہی لمباکیوں نہ سمجھیں ،اللہ کے عذاب کوکتناہی دورکیوں نہ سمجھیں ، اللہ تعالیٰ کفارومشرکین کواپنے حلم اوربردباری سے بہت طویل مدتوں تک مہلت عطاکرتارہتاہے ،پھرجب وہ دنیاوی زندگی میں خوب مست ہوجاتے ہیں تواچانک گرفت کرتاہے اور پھر ظالموں کوسانس لینے کی مہلت دیئے بغیراپنے عذاب کی گرفت میں لے لیتاہے ،جیسے فرمایا

فَلَمَّا نَسُوْا مَا ذُكِّرُوْا بِہٖ فَتَحْنَا عَلَیْہِمْ اَبْوَابَ كُلِّ شَیْءٍ۝۰ۭ حَتّٰٓی اِذَا فَرِحُوْا بِمَآ اُوْتُوْٓا اَخَذْنٰہُمْ بَغْتَةً فَاِذَا ہُمْ مُّبْلِسُوْنَ۝۴۴ [28]

ترجمہ:پھر جب انہوں نے اس نصیحت کو جو انہیں کی گئی تھی بھلا دیا تو ہم نے ہر طرح کی خوشحالیوں کے دروازے ان کے لیے کھول دیے، یہاں تک کہ جب وہ ان بخششوں میں جو انہیں عطا کی گئی تھیں خوب مگن ہو گئے تو اچانک ہم نے انہیں پکڑ لیا اور اب حال یہ تھا کہ وہ ہر خیر سے مایوس تھے۔

ثُمَّ بَدَّلْنَا مَكَانَ السَّیِّئَةِ الْحَسَـنَةَ حَتّٰی عَفَوْا وَّقَالُوْا قَدْ مَسَّ اٰبَاۗءَنَا الضَّرَّاۗءُ وَالسَّرَّاۗءُ فَاَخَذْنٰہُمْ بَغْتَةً وَّہُمْ لَا یَشْعُرُوْنَ۝۹۵ [29]

ترجمہ:پھر ہم نے ان کی بدحالی کو خوشحالی سے بدل دیا یہاں تک کہ وہ خوب پھلے پھولے اور کہنے لگے کہ ہمارے اسلاف پر بھی اچھے اور برے دن آتے ہی رہے ہیں ، اخرکار ہم نے انہیں اچانک پکڑ لیا اور انہیں خبر تک نہ ہوئی۔

چنانچہ یہ ظالم اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی مہلت سے فریب نہ کھائیں ،کتنی ہی بستیوں کو جو ظلم پرکمربستہ تھیں ہم نے ان کے ظلم کے باوجود ان کو ایک طویل مدت تک مہلت دی،پھرایک دقت مقررہ پران کوعذاب کی گرفت میں لے لیا،قانون مہلت کوپھربیان فرمایاکہ دنیامیں ان پرعذاب نازل کرنے کے باوجودبالآخرانہیں اللہ تعالیٰ ہی کی طرف لوٹناہے پھروہ انہیں ان کے گناہوں کی پاداش میں عذاب دے گا،

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ ,قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: یَدْخُلُ الْفُقَرَاءُ الْجَنَّةَ قَبْلَ الأَغْنِیَاءِ بِخَمْسِمِائَةِ عَامٍ نِصْفَ یَوْمٍ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا فقراء مسلمان ، مالدار مسلمانوں سے (آدھادن )یعنی پانچ سوبرس پہلے جنت میں جائیں گے۔[30]

عَنْ سَعْدِ بْنِ أَبِی وَقَّاصٍ،أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:إِنِّی لَأَرْجُو أَنْ لَا تَعْجِزَ أُمَّتِی عِنْدَ رَبِّهَا أَنْ یُؤَخِّرَهُمْ نِصْفَ یَوْم،قِیلَ لِسَعْدٍ: وَكَمْ نِصْفُ ذَلِكَ الْیَوْمِ؟قَالَ:خَمْسُ مِائَةِ سَنَةٍ

سعد رضی اللہ عنہ بن ابووقاص سے مروی ہےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایامجھے امیدہے کہ میری امت اپنے رب کے پاس اس وقت عاجزنہیں آئے گی جب وہ انہیں نصف دن کے لیے موخرکردے گا،سعد رضی اللہ عنہ سے پوچھاگیانصف دن سے کیامرادہے؟توانہوں نے جواب دیاپانچ سوسال۔[31]

قُلْ یَا أَیُّهَا النَّاسُ إِنَّمَا أَنَا لَكُمْ نَذِیرٌ مُّبِینٌ ‎﴿٤٩﴾‏ فَالَّذِینَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَهُم مَّغْفِرَةٌ وَرِزْقٌ كَرِیمٌ ‎﴿٥٠﴾‏ وَالَّذِینَ سَعَوْا فِی آیَاتِنَا مُعَاجِزِینَ أُولَٰئِكَ أَصْحَابُ الْجَحِیمِ ‎﴿٥١﴾(الحج)
’’ اعلان کردو کہ لوگو ! میں تمہیں کھلم کھلا چوکنا کرنے والا ہی ہوں ،پس جو ایمان لائے اور جنہوں نے نیک عمل کیے ہیں ان ہی کے لیے بخشش ہے اور عزت والی روزی، اور جو لوگ ہماری نشانیوں کو پست کرنے کے درپے رہتے ہیں وہی دوزخی ہیں۔‘‘

کفارومشرکین اللہ کی پکڑسے بے خوف ہوکرباربارمطالبہ عذاب کرتے تھے ،اس کے جواب میں فرمایااے نبیﷺ! قیامت تک جولوگ کفروتکذیب کارویہ اختیارکریں انہیں کہہ دو میں تمہاری قسمتوں کافیصلہ کرنے والانہیں اورنہ تمہاراحساب میرے ذمہ ہے،میراکام تواتناہے کہ شامت اعمال آنے سے پہلے تم کوصاف صاف متنبہ کر دوں ، عذاب بھیجنایانہ بھیجنااللہ کاکام ہے،وہ جلدی گرفت فرمالے یااس میں تاخیرکرے اورکس صورت میں عذاب نازل فرمائے وہ اپنی مشیت ومصلحت سے یہ کام فرماتا ہے، پھر جو ایمان لائیں گے اور نیک عمل کریں گے ان کے لیے ان کی خطاؤں اورکمزوریوں اورلغزشوں سے چشم پوشی ودرگزرکیاجائے گا اورانہیں جنت کااعلی مقام عطا کیا جائے گا،

قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ كَعْبٍ القُرَظِیّ: إِذَا سمعتَ اللهَ تَعَالَى یَقُولُ: وَرِزْقٌ كَرِیمٌ،فهی الْجَنَّةُ

محمدبن کعب قرظی رحمہ اللہ کاقول ہے اللہ تعالیٰ نے قرآن مجیدمیں جہاں بھی’’ ورزق کریم‘‘ کے الفاظ استعمال فرمائے ہیں وہاں ان سے مرادجنت ہے۔[32]

اور جولوگ بعث بعدالموت اور حساب کتاب کے منکر ہیں ،جولوگوں کواللہ کی راہ اوراطاعت رسول سے روکتے ہیں اوریہ گمان کرتے ہیں کہ اپنے مکروفریب اورجدوجہدسے اسلام کے خلاف ان کی سازش کامیاب ہو جائے گی وہ دوزخ کی بھڑکتی ہوئی آگ میں داخل ہوں گے ،جیسے فرمایا

اَلَّذِیْنَ كَفَرُوْا وَصَدُّوْا عَنْ سَبِیْلِ اللہِ زِدْنٰہُمْ عَذَابًا فَوْقَ الْعَذَابِ بِمَا كَانُوْا یُفْسِدُوْنَ۝۸۸ [33]

ترجمہ:جن لوگوں نے خود کفر کی راہ اختیار کی اور دوسروں کو اللہ کی راہ سے روکا انہیں ہم عذاب پر عذاب دیں گےاس فساد کے بدلے میں جو وہ دنیا میں برپا کرتے رہے۔

پھر ان کے عذاب میں کوئی تخفیف ہوگی نہ لمحہ بھرکے لئے یہ دردناک عذاب ان سے ہٹایاجائے گا۔

‏ وَمَا أَرْسَلْنَا مِن قَبْلِكَ مِن رَّسُولٍ وَلَا نَبِیٍّ إِلَّا إِذَا تَمَنَّىٰ أَلْقَى الشَّیْطَانُ فِی أُمْنِیَّتِهِ فَیَنسَخُ اللَّهُ مَا یُلْقِی الشَّیْطَانُ ثُمَّ یُحْكِمُ اللَّهُ آیَاتِهِ ۗ وَاللَّهُ عَلِیمٌ حَكِیمٌ ‎﴿٥٢﴾‏ لِّیَجْعَلَ مَا یُلْقِی الشَّیْطَانُ فِتْنَةً لِّلَّذِینَ فِی قُلُوبِهِم مَّرَضٌ وَالْقَاسِیَةِ قُلُوبُهُمْ ۗ وَإِنَّ الظَّالِمِینَ لَفِی شِقَاقٍ بَعِیدٍ ‎﴿٥٣﴾‏ وَلِیَعْلَمَ الَّذِینَ أُوتُوا الْعِلْمَ أَنَّهُ الْحَقُّ مِن رَّبِّكَ فَیُؤْمِنُوا بِهِ فَتُخْبِتَ لَهُ قُلُوبُهُمْ ۗ وَإِنَّ اللَّهَ لَهَادِ الَّذِینَ آمَنُوا إِلَىٰ صِرَاطٍ مُّسْتَقِیمٍ ‎﴿٥٤﴾‏(الحج)
’’ہم نے آپ سے پہلے جس رسول اور نبی کو بھیجا اس کے ساتھ یہ ہوا کہ جب وہ اپنے دل میں کوئی آرزو کرنے لگا شیطان نے اس کی آرزو میں کچھ ملا دیا، پس شیطان کی ملاوٹ کو اللہ تعالیٰ دور کردیتا ہے پھر اپنی باتیں پکی کردیتا ہے ،اللہ تعالیٰ دانا اور باحکمت ہے،یہ اس لیے کہ شیطانی ملاوٹ کو اللہ تعالیٰ ان لوگوں کی آزمائش کا ذریعہ بنا دے جن کے دلوں میں بیماری ہے اور جن کے دل سخت ہیں، بیشک ظالم لوگ گہری مخالفت میں ہیں، اور اس لیے بھی کہ جنہیں علم عطا فرمایا گیا ہے وہ یقین کرلیں کہ یہ آپ کے رب ہی کی طرف سے سراسر حق ہی ہے پھر اس پر ایمان لائیں اور ان کے دل اس کی طرف جھک جائیں، یقیناً اللہ تعالیٰ ایمان والوں کو راہ راست پر رہبری کرنے والاہی ہے۔‘‘

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت اس وقت جس مرحلے میں تھی اس کودیکھ کرتمام ظاہربین نگاہیں یہ دھوکاکھارہی تھیں کہ آپ اپنے مقصدمیں ناکام ونامرادہوگئے ہیں ،آپ کی قوم آپ پر ایمان نہیں لائی بلکہ اس کے برعکس آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے مٹھی بھرساتھیوں کے ساتھ کفارکاظلم وستم سہہ کر ہجرت پرمجبورہوگئے اوراللہ کےجس عذاب سے ڈرایاجاتاتھاوہ بھی نازل نہیں ہوا،چنانچہ پہلی آیات میں کفارکواللہ کا عذاب جلدی نہ آنے کی وجوہات بیان کی گئیں کہ مہلت کایہ زمانہ اگرصدیوں تک بھی درازہوتویہ اس بات کی دلیل نہیں کہ وہ سب وعیدیں خالی خولی دھمکیاں ہی تھیں جوپیغمبرکے جھٹلانے والوں پرعذاب آنے کے متعلق کی گئی تھیں ،ان آیات میں ان لوگوں کومخاطب کیاگیاجوکفارکے منفی پروپیگنڈے سے متاثرہورہے تھے ،جب یہ متاثرہ لوگ اللہ کے رسول کایہ فرمان سنتے کہ میں اللہ کاپیغمبرہوں اوراس کی تائیدوحمایت میرے ساتھ ہے ،دوسری طرف قرآن مجیدکے دعواؤں کوسنتے کہ نبی کو جھٹکانے والی قوم پراللہ کا عذاب آجاتاہے ،جب عذاب مانگنے کے باوجوداللہ کی حکمت ومشیت کے تحت عذاب نازل نہ ہوتاتوانہیں آپ ﷺکی رسالت اورقرآن مجیدکی صداقت مشتبہ نظرآنے لگتی تھی،انہیں باتوں کے جواب میں فرمایا کہ اے محمدﷺ!آپ سے پہلے جوبھی نبی گزراجب بھی اس نے وحی شدہ کلام کی قراء ت کی ، جس کے ذریعے سے وہ لوگوں کونصیحت کرتا،اس کومعروف کاحکم دیتااورمنکرسے روکتا،یعنی اللہ کے فرمان کے مطابق لوگوں کودعوت حق پیش کی توشیطان اس کی دعوت( قراء ت وتلاوت)کاراستہ روکنے کے لئے طرح طرح کے شہبات واعتراضات کاایک طوفان کھڑاکردیتاہے، اس دعوت کی بابت لوگوں کے دلوں میں شبہے،الجھنیں ڈالتااورمین میخ نکالتاہے ،مگرآخرکاراللہ تعالیٰ کی حکمت شیطان کے ان فتنوں کااستیصال کردیتی ہے،پھراللہ اپنی آیات کومحکم اورمتحقق کردیتاہے اوران کی حفاظت کرتاہے۔ شیطان اوراس کے چیلے اپنی جن تدبیروں سے اللہ کی آیات کونیچادکھاناچاہتے ہیں اللہ انہی کوانسانوں کے درمیان کھرے اورکھوٹے کی تمیزکاذریعہ بنادیتا ہے ،جس کے نتیجے میں دعوت حق رکاوٹوں کے باوجودفروغ پاتی ہے ،اللہ تعالیٰ کامل علم کامالک ہےاوروہ جانتاہے کہ شیطان نے کہاں کہاں اورکیاکیاخلل اندازی کی اوراس کے کیااثرات ہوئے ،یہ اس کے کمال حکمت کاحصہ ہے کہ اس نے شیاطین کوالقاء کااختیاردیاتاکہ شیطان کی ڈالی ہوئی خرابی لوگوں کے ان دوگروہوں کے لئے جن کے دل شک ،کفراورنفاق سے بھرے ہوئے ہیں اورایمان کامل سے محروم ہیں (دوسراگروہ)جن کے دل قساوت قلبی کی بناپرکوئی وعظ ونصیحت قبول نہیں کرتے،یہ ظالم لوگ اللہ کے ساتھ دشمنی،حق کے ساتھ عنادومخالفت میں سیدھے راستے سے بہت دورنکل گئے ہیں ،چنانچہ شیطان جوکچھ القاء کرتاہے وہ ان دونوں گروہوں کے لئے فتنہ بن جاتاہے ، اورتیسراگروہ جن کواللہ نے علم سے نوازرکھاہے جس کے ذریعے سے وہ حق وباطل،ہدایت وگمراہی کے درمیان امتیازکرتے ہیں ،معارضات وشہبات کے دورہونے سے ان کے ایمان میں اضافہ ہوتاہے،اوران کے دل اللہ کے سامنے رغبت سے جھک جاتے ہیں ،اللہ ان کوان کے ایمان کے سبب سے راہ راست پرگامزن کرتاہے یعنی حق کے علم اور اس کے تقاضوں پرعمل کی طرف راہ نمائی کرتاہے۔

وَلَا یَزَالُ الَّذِینَ كَفَرُوا فِی مِرْیَةٍ مِّنْهُ حَتَّىٰ تَأْتِیَهُمُ السَّاعَةُ بَغْتَةً أَوْ یَأْتِیَهُمْ عَذَابُ یَوْمٍ عَقِیمٍ ‎﴿٥٥﴾‏الْمُلْكُ یَوْمَئِذٍ لِّلَّهِ یَحْكُمُ بَیْنَهُمْ ۚ فَالَّذِینَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ فِی جَنَّاتِ النَّعِیمِ ‎﴿٥٦﴾‏ وَالَّذِینَ كَفَرُوا وَكَذَّبُوا بِآیَاتِنَا فَأُولَٰئِكَ لَهُمْ عَذَابٌ مُّهِینٌ ‎﴿٥٧﴾(الحج)
’’کافر اس وحی الٰہی میں ہمیشہ شک شبہ ہی کرتے رہیں گے حتٰی کہ اچانک ان کے سروں پر قیامت آجائے یا ان کے پاس اس دن کا عذاب آجائے جو منحوس ہے، اس دن صرف اللہ ہی کی بادشاہت ہوگی وہی ان میں فیصلے فرمائے گا، ایمان اور نیک عمل والے تو نعمتوں سے بھری جنتوں میں ہونگے،اور جن لوگوں نے کفر کیا اور ہماری آیتوں کو جھٹلایا ان کے لیے ذلیل کرنے والے عذاب ہیں۔‘‘

کافراپنے عنادواعراض کے باعث اس وحی الٰہی میں ہمیشہ شک وشبہ ہی کرتے رہیں گے یہاں تک کہ یا تو ان پر قیامت کی گھڑی اچانک آجائے ،

وَقَالَ قَتَادَةُ:حَتَّى تَأْتِیَهُمُ السَّاعَةُ بَغْتَةً، قَالَ: بَغَتَ الْقَوْمَ أَمْرُ اللهِ، وَمَا أَخَذَ اللهُ قَوْمًا قَطُّ إِلَّا عِنْدَ سَكْرَتِهِمْ وَغَرَّتِهِمْ وَنِعْمَتِهِمْ،فَلَا تَغْتَرُّوا بِاللهِ، إِنَّهُ لَا یَغْتَرُّ بِاللهِ إِلَّا الْقَوْمُ الْفَاسِقُونَ

قتادہ رحمہ اللہ کہتے ہیں ’’ یہاں تک کہ یا تو ان پر قیامت کی گھڑی اچانک آجائے۔‘‘کے معنی یہ ہیں جب کوئی قوم اللہ تعالیٰ کے حکم کوماننے سے سرکشی اختیار کرتی ہےتووہ اسے اچانک اپنے عذاب کی گرفت میں لے لیتاہےاوراللہ تعالیٰ نے ہرقوم کواس وقت پکڑاہے جب وہ نشے میں مدہوش ہواورنعمتوں کی وجہ سے غرورمیں ہو لہذااللہ تعالیٰ کے بارے میں غافل نہ ہوناکیونکہ اللہ تعالیٰ سے غافل توصرف فاسق لوگ ہی ہوتے ہیں ۔[34]

یااللہ تعالیٰ ان پر ایک منحوس دن کا عذاب نازل کردے جس میں ان کی کوئی تدبیرکارگرنہ ہوگی، روزآخرت بادشاہی اورفرماں روائی اللہ مالک یوم الدین کی ہوگی ،اسی وحدہ لاشریک کامکمل اختیاراورغلبہ ہوگا،جیسے فرمایا

 اَلْمُلْكُ یَوْمَىِٕذِۨ الْحَقُّ لِلرَّحْمٰنِ۝۰ۭ وَكَانَ یَوْمًا عَلَی الْكٰفِرِیْنَ عَسِیْرًا۝۲۶    [35]

ترجمہ: اس روز حقیقی بادشاہی صرف رحمان کی ہوگی اور وہ منکرین کے لیے بڑا سخت دن ہوگا۔

۔۔۔ لِمَنِ الْمُلْكُ الْیَوْمَ۝۰ۭ لِلهِ الْوَاحِدِ الْقَهَّارِ۝۱۶  [36]

ترجمہ:( اس روز پکار کر پوچھا جائے گا) آج بادشاہی کس کی ہے ؟ (سارا عالم پکار اٹھے گا) اللہ واحدِ قہار کی۔

اور اللہ تعالیٰ تمام جن وانس کے درمیان عدل وانصاف کے تمام تقاضوں کوپوراکرکے فیصلہ کر دے گا ،جولوگ اللہ وحدہ لاشریک ،اس کے رسولوں ،اس کی کتابوں ، فرشتوں ، روزآخرت اوراچھی یابری تقدیرپرایمان رکھتے اوررسول کی سنت کے مطابق عمل صالحہ اختیارکرنے والے ہوں گے وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے انواع واقسام کی لازوال نعمتوں بھری جنتوں میں داخل کردیئےجائیں گے،اور جنہوں نے اللہ اوراس کے رسولوں کاانکارکیااورحق وصواب کی طرف راہ نمائی کرنے والی ہماری آیات کی تکذیب کی،ان سے روگردانی کی یااس سے عنادرکھا انہیں انتہائی شدید،المناک اوردلوں تک اترجانے والا رسوا کن عذاب ہو گا،جیسےفرمایا

۔۔۔ اِنَّ الَّذِیْنَ یَسْتَكْبِرُوْنَ عَنْ عِبَادَتِیْ سَیَدْخُلُوْنَ جَهَنَّمَ دٰخِرِیْنَ۝۶۰ۧ   [37]

ترجمہ:جو لوگ گھمنڈ میں آ کر میری عبادت سے منہ موڑتے ہیں ، ضرور وہ ذلیل و خوار ہو کر جہنم میں داخل ہوں گے۔

‏ وَالَّذِینَ هَاجَرُوا فِی سَبِیلِ اللَّهِ ثُمَّ قُتِلُوا أَوْ مَاتُوا لَیَرْزُقَنَّهُمُ اللَّهُ رِزْقًا حَسَنًا ۚ وَإِنَّ اللَّهَ لَهُوَ خَیْرُ الرَّازِقِینَ ‎﴿٥٨﴾‏ لَیُدْخِلَنَّهُم مُّدْخَلًا یَرْضَوْنَهُ ۗ وَإِنَّ اللَّهَ لَعَلِیمٌ حَلِیمٌ ‎﴿٥٩﴾‏ ۞ ذَٰلِكَ وَمَنْ عَاقَبَ بِمِثْلِ مَا عُوقِبَ بِهِ ثُمَّ بُغِیَ عَلَیْهِ لَیَنصُرَنَّهُ اللَّهُ ۗ إِنَّ اللَّهَ لَعَفُوٌّ غَفُورٌ ‎﴿٦٠﴾‏ (الحج )
’’ اور جن لوگوں نے راہ خدا میں ترک وطن کیا پھر وہ شہید کردیئے گئے یا اپنی موت مرگئے اللہ تعالیٰ انہیں بہترین رزق عطا فرمائے گا، بیشک اللہ تعالیٰ روزی دینے والوں میں سب سے بہتر ہے ،انہیں اللہ تعالیٰ ایسی جگہ پہنچائے گا کہ وہ اس سے راضی ہوجائیں گے، بیشک اللہ تعالیٰ بردباری والا ہے، بات یہی ہے اور جس نے بدلہ لیا اسی کے برابر جو اس کے ساتھ کیا گیا تھا پھر اگر اس سے زیادتی کی جائے تو یقیناً اللہ تعالیٰ خود اس کی مدد فرمائے گا، بیشک اللہ درگزر کرنے والا بخشنے والا ہے۔‘‘

اللہ تعالیٰ کاعمدہ رزق پانے والے لوگ :وہ لوگ جنہوں نے اللہ کے دین کی سربلندی اوراللہ کی رضامندی کے لئے اپناوطن ،گھربار،اہل وعیال ، عزیزواقارب ،مال و جائیداد چھوڑیں ،پھروہ دوران سفریامیدان جہادمیں ظلم کے مقابلے میں کوئی جوابی کاروائی نہ کرسکے اور دشمنوں کے ہاتھوں قتل ہوگئے یادشمن سے لڑے بھڑے بغیرقضائے الٰہی سے وفات پاگئے ،اللہ ان مظلوموں کواپنے فضل وکرم سے عالم برزخ میں اورروزقیامت جنت میں داخل کرکے اچھے رزق سے نوازے گا،اس جنت میں آرام ، خوشبوئیں ، حسن،احسان اورقلب وبدن کی تمام نعمتیں جمع ہوں گی ،بیشک اللہ ہی رزاق ہے جواپنے بندوں کوبغیراستحقاق اوربغیرکسی سوال کے دیتا ہے ، جیسے فرمایا

وَمَنْ یُّھَاجِرْ فِیْ سَبِیْلِ اللهِ یَجِدْ فِی الْاَرْضِ مُرٰغَمًا كَثِیْرًا وَّسَعَةً۝۰ۭ وَمَنْ یَّخْرُجْ مِنْۢ بَیْتِهٖ مُھَاجِرًا اِلَى اللهِ وَرَسُوْلِهٖ ثُمَّ یُدْرِكْهُ الْمَوْتُ فَقَدْ وَقَعَ اَجْرُهٗ عَلَی اللهِ۝۰ۭ وَكَانَ اللهُ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا۝۱۰۰ۧ [38]

ترجمہ:جوکوئی اللہ کی راہ میں وطن کوچھوڑے گاوہ زمین میں بہت سی قیام کی جگہیں بھی پائے گااورکشادگی بھی،اورجوکوئی اپنے گھرسے اللہ تعالیٰ اوراس کے رسول کی طرف نکل کھڑا ہوا پھر اسے ہجرت کی حالت میں ہی موت نے اسے آپکڑاتوبھی یقیناًاس کااجراللہ تعالیٰ کے ذمہ ثابت ہوگیا اور اللہ تعالیٰ بڑابخشنے والامہربان ہے۔

وَلَا تَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ قُتِلُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللهِ اَمْوَاتًا۝۰ۭ بَلْ اَحْیَاۗءٌ عِنْدَ رَبِّھِمْ یُرْزَقُوْنَ۝۱۶۹ۙ [39]

ترجمہ:جو لوگ اللہ کی راہ میں قتل ہوئے ہیں انہیں مردہ نہ سمجھو وہ تو حقیقت میں زندہ ہیں اپنے رب کے پاس رزق پا رہے ہیں ۔

یعنی ہجرت کرنے والے کویہ وہم لاحق نہ ہوکہ جب وہ اپنے گھر بار اورمال واولادکوچھوڑکرنکلے گاتومحتاج ہوجائے گاکیونکہ اس کارازق وہ ہے جوسب سے بہتررزق عطا فرمانے والاہے،جیسے فرمایا

اِنَّ اللہَ ہُوَالرَّزَّاقُ ذُو الْقُوَّةِ الْمَتِیْنُ۝۵۸  [40]

ترجمہ:اللہ تو خود ہی رزاق ہے، بڑی قوت والا اور زبردست ۔

قُلْ اِنَّ رَبِّیْ یَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ یَّشَاۗءُ مِنْ عِبَادِہٖ وَیَقْدِرُ لَہٗ۝۰ۭ وَمَآ اَنْفَقْتُمْ مِّنْ شَیْءٍ فَہُوَیُخْلِفُہٗ۝۰ۚ وَہُوَخَیْرُ الرّٰزِقِیْنَ۝۳۹    [41]

ترجمہ:اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! ان سے کہو میرا رب اپنے بندوں میں سے جسے چاہتا ہے کھلا رزق دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے نپا تلا دیتا ہے جو کچھ تم خرچ کر دیتے ہو اس کی جگہ وہی تم کو اور دیتا ہے، وہ سب رازقوں سے بہتر رازق ہے ۔

اللہ تعالیٰ جوعلام الغیوب ہے،جودلوں کے چھپے بھید اور آنکھوں کی خیانت کوجانتاہے ،جیسے فرمایا

یَعْلَمُ خَاۗىِٕنَةَ الْاَعْیُنِ وَمَا تُخْفِی الصُّدُوْرُ۝۱۹  [42]

ترجمہ:اللہ نگاہوں کی چوری تک سے واقف ہے اور راز تک جانتا ہے جو سینوں نے چھپا رکھے ہیں ۔

وہ اچھی طرح جانتاہے کہ کس نے فی الحقیقت اسی کی راہ میں اپنے گھربار کوخیربادکہاہے اوروہ کس انعام واکرام کامستحق ہے،وہ اپنے فضل سے ایسے لوگوں کی چھوٹی چھوٹی لغزشوں اورکمزوریوں سے درگزرفرمائے گااوران کے قصورمعاف فرماکرانہیں نعمتوں بھری جنتوں میں داخل فرمادے گا ، جیسے فرمایا

فَاَمَّآ اِنْ كَانَ مِنَ الْمُقَرَّبِیْنَ۝۸۸ۙفَرَوْحٌ وَّرَیْحَانٌ۝۰ۥۙ وَّجَنَّتُ نَعِیْمٍ۝۸۹            [43]

ترجمہ:پھر وہ مرنے والا مقربین میں سے ہوتو اس کے لیے راحت اور عمدہ رزق اور نعمت بھری جنت ہے ۔

وہ ایسی نعمتیں ہوں گی جنہیں آج تک نہ کسی آنکھ نے دیکھا،نہ کسی کان نے سنا اور دیکھنا سنناتوکجاکسی انسان کے دل میں ان کاوہم وگمان بھی نہیں گزرا،

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ:قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: قَالَ اللهُ قَالَ اللهُ: أَعْدَدْتُ لِعِبَادِی الصَّالِحِینَ مَا لاَ عَیْنٌ رَأَتْ ، وَلاَ أُذُنٌ سَمِعَتْ،وَلاَ خَطَرَ عَلَى قَلْبِ بَشَرٍ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ کاارشادہے کہ میں نے اپنے نیک بندوں کے لئے وہ چیزیں تیارکررکھی ہیں جنہیں نہ آنکھوں نے دیکھانہ کانوں نے سنا اورنہ کسی انسان کے دل میں ان کاکبھی خیال گزراہے۔[44]

وہ ایسی نعمتیں ہوں گی جوکبھی نہ ختم ہوں گی نہ فنا،اللہ کے یہ بندے اللہ کی ایسی لاثانی نعمتیں پاکر خوش وخرم ہوں گے ،بیشک اللہ نیک عمل کرنے والوں کے درجات اوران کے مراتب استحقاق کوجانتاہے،اللہ کفروشرک کرنے والوں کی گستاخیوں اورنافرمانیوں کودیکھتاہے لیکن ان کافوری مواخذہ کرنے کے بجائے ڈھیل دیتا ہے ، مہاجرین سے بطور خاص شہادت یاطبعی موت پرہم نے جووعدہ کیاہے وہ ضرورپوراہوگا، اگرکسی نے کسی کے ساتھ زیادتی کی ہے توجس سے زیادتی کی گئی ہے اسے بقدر زیادتی بدلہ لینے کاحق ہے لیکن اگربدلہ لینے کے بعدجب کہ ظالم اورمظلوم دونوں برابرہوچکے ہوں ،ظالم ،مظلوم پرپھرزیادتی کرے تواللہ تعالیٰ اس مظلوم کی ضرور مدد فرماتا ہے ،اوروہ اللہ کی مددکامستحق رہتاہے،اللہ در گزر فرمانے والاہے تم بھی درگزرسے کام لیاکرو،

امام شافعی رحمہ اللہ نے فرمایاہے کہ قصاص اسی شکل میں لیاجائے گاجس شکل میں ظلم کیاگیاہو،مثلاًکسی شخص نے کسی کوڈبوکرماراہے تواسے بھی ڈبوکرماراجائے گا،کسی نے کسی کوجلا کر مارا ہے تواسے بھی جلاکرماراجائے گا،

عَنْ بِشْرِ بْنِ حَازِمٍ ,النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: مَنْ حَرَّقَ حَرَقْنَاهُ وَمَنْ غَرَّقَ غَرَّقْنَاهُ

بشیربن حازم سے مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجس نے کسی کوجلایااسے ہم جلائیں گے اورجس نے کسی کوپانی میں ڈبوکرمارااسے ہم پانی میں ڈبوکرماریں گے۔[45]

وَفِی هَذَا الْإِسْنَادِ بَعْضُ مَنْ یُجْهَلُ

امام بیہقی رحمہ اللہ فرماتے ہیں اس روایت کی سندمیں بعض مجہول راوی ہیں ۔[46]

لیکن امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کاکہناہے کہ قاتل نے قتل خواہ کسی طریقے سے کیاہواس سے قصاص ایک ہی معروف طریقے پرلیاجائے گا۔

ذَٰلِكَ بِأَنَّ اللَّهَ یُولِجُ اللَّیْلَ فِی النَّهَارِ وَیُولِجُ النَّهَارَ فِی اللَّیْلِ وَأَنَّ اللَّهَ سَمِیعٌ بَصِیرٌ ‎﴿٦١﴾‏ ذَٰلِكَ بِأَنَّ اللَّهَ هُوَ الْحَقُّ وَأَنَّ مَا یَدْعُونَ مِن دُونِهِ هُوَ الْبَاطِلُ وَأَنَّ اللَّهَ هُوَ الْعَلِیُّ الْكَبِیرُ ‎﴿٦٢﴾‏(الحج)
’’ یہ اس لیے کہ اللہ رات کو دن میں داخل کرتا ہے اور دن کو رات میں داخل کرتا ہے ،بیشک اللہ سننے والا دیکھنے والا ہے، یہ سب اس لیے کہ اللہ ہی حق ہے اور اس کے سوا جسے بھی پکارتے ہیں وہ باطل ہےاور بیشک اللہ ہی بلندی والا کبریائی والا ہے۔‘‘

اللہ خالق کائنات جس نے تمہارے لئے یہ اچھے اورانصاف پرمبنی احکام مشروع کئے، اپنی تقدیراورتدبیرمیں بہترین طریقے سے تصرف کرتاہے،جیسے فرمایا

قُلِ اللّٰهُمَّ مٰلِكَ الْمُلْكِ تُؤْتِی الْمُلْكَ مَنْ تَشَاۗءُ وَتَنْزِعُ الْمُلْكَ مِمَّنْ تَشَاۗءُ۝۰ۡوَتُعِزُّ مَنْ تَشَاۗءُ وَتُذِلُّ مَنْ تَشَاۗءُ۝۰ۭ بِیَدِكَ الْخَیْرُ۝۰ۭ اِنَّكَ عَلٰی كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ۝۲۶ [47]

ترجمہ: کہو ! خدایا ! ملک کے مالک ! تو جسے چاہےحکومت دے اور جس سے چاہےچھین لے،جسے چاہےعزّت بخشے اور جس کو چاہے ذلیل کر دے بھلائی تیرے اختیار میں ہے، بیشک تو ہر چیز پر قادر ہے ۔

جوکفروظلم کی روش اختیارکرنے والوں پرعذاب نازل کرتا،مومن وصالح بندوں کوانعام دیتا ، مظلوم اہل حق کی دادرسی کرتااورطاقت سے ظلم کامقابلہ کرنے والے اہل حق کی نصرت فرماتاہے ،جورات کودن میں اوردن کورات میں داخل کرتاہے ، جیسے فرمایا

تُوْلِجُ الَّیْلَ فِی النَّہَارِ وَتُوْلِجُ النَّہَارَ فِی الَّیْلِ۔۔۔۝۲۷            [48]

ترجمہ: رات کو دن میں پروتا ہوا لے آتا ہے اور دن کو رات میں ۔

اَلَمْ تَرَ اَنَّ اللہَ یُوْلِجُ الَّیْلَ فِی النَّہَارِ وَیُوْلِجُ النَّہَارَ فِی الَّیْلِ۔۔۔۝۲۹ [49]

ترجمہ:کیا تم دیکھتے نہیں ہو کہ اللہ رات کو دن میں پروتا ہوا لے آتا ہے اور دن کو رات میں ۔

یُوْلِجُ الَّیْلَ فِی النَّہَارِ وَیُوْلِجُ النَّہَارَ فِی الَّیْلِ۔۔۔۝۱۳ۭ           [50]

ترجمہ:وہ دن کے اندر رات اور رات کے اندر دن کو پروتا ہوا لے آتاہے ۔

یُوْلِجُ الَّیْلَ فِی النَّہَارِ وَیُوْلِجُ النَّہَارَ فِی الَّیْلِ۔۔۔۝۶   [51]

ترجمہ:وہی رات کو دن میں اور دن کو رات میں داخل کرتا ہے۔

پس وہ دن کے بعد رات کو اور رات کے بعددن کولاتاہے،جیسے فرمایا

۔۔۔یُغْشِی الَّیْلَ النَّہَارَ یَطْلُبُہٗ حَثِیْثًا۔۔۔۝۵۴       [52]

ترجمہ:جو رات کو دن پر ڈھانک دیتا ہے اور پھر دن رات کے پیچھے دوڑا چلا آتا ہے ۔

اوروہ ان دونوں میں سے ایک کوبڑھاتا اور دوسرے میں اسی حساب سے کمی کرتارہتاہے،پھراس کے برعکس پہلے میں کمی کرتاہے اور دوسرے کو بڑھاتاہے،پس دن رات کی اس کمی بیشی پرموسم مترتب ہوتے ہیں اوراسی پرشب وروزاورسورج چاندکے فوائدکاانحصارہے جو بندوں پراللہ تعالیٰ کی سب سےبڑی نعمت ہیں اوریہ مختلف مواسم ان کے لئے نہایت ضروری ہیں ،وہ اللہ جو زندے کومردے سے اورمردے کوزندے سے نکالتاہے ،

۔۔۔وَتُخْرِجُ الْـحَیَّ مِنَ الْمَیِّتِ وَتُخْرِجُ الْمَیِّتَ مِنَ الْحَیِّ۔۔۔۝۲۷        [53]

ترجمہ:جاندار میں سے بےجان کو نکالتا ہے اور بےجان میں سے جاندار کو ۔

۔۔۔یُخْرِجُ الْـحَیَّ مِنَ الْمَیِّتِ وَمُخْرِجُ الْمَیِّتِ مِنَ الْـحَیِّ۔۔۔۝۹۵        [54]

ترجمہ:وہی زندہ کو مردہ سے نکالتا ہے اور وہی مردہ کو زندہ سے خارج کرتا ہے۔

۔۔۔وَمَنْ یُّخْرِجُ الْـحَیَّ مِنَ الْمَیِّتِ وَیُخْرِجُ الْمَیِّتَ مِنَ الْـحَیِّ وَمَنْ یُّدَبِّرُ الْاَمْرَ۔۔۔۝۳۱       [55]

ترجمہ:کون بےجان میں سے جاندار کو اور جاندار میں سے بےجان کو نکالتا ہے؟کون اس نظم عالم کی تدبیرکررہاہے؟۔

یُخْرِجُ الْـحَیَّ مِنَ الْمَیِّتِ وَیُخْرِجُ الْمَیِّتَ مِنَ الْـحَیِّ وَیُـحْیِ الْاَرْضَ بَعْدَ مَوْتِہَا۔۔۔۝۱۹ۧ        [56]

ترجمہ:وہ زندہ میں سے مردے کو نکالتا ہے اور مردے میں سے زندہ کو نکال لاتا ہے اور زمین کو اس کی موت کے بعد زندگی بخشتا ہے۔

وہ اللہ جسے چاہتاہے بے حساب روزیاں پہنچاتاہے اورجسے چاہتاتنگ دست کردیتاہے ،جیسے فرمایا

اَللہُ یَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ یَّشَاۗءُ وَیَــقْدِرُ۔۔۔۝۲۶ۧ [57]

ترجمہ:اللہ جس کو چاہتا ہے رزق کی فراخی بخشتا ہے اور جسے چاہتا ہے نپا تلا رزق دیتا ہے۔

اِنَّ رَبَّكَ یَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ یَّشَاۗءُ وَیَــقْدِرُ۔۔۔۝۳۰ۧ      [58]

ترجمہ:تیرا رب جس کے لیے چاہتا ہے رزق کشادہ کرتا ہے اور جس کے لیے چاہتا ہے تنگ کر دیتا ہے۔

اَللہُ یَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ یَّشَاۗءُ مِنْ عِبَادِہٖ وَیَقْدِرُ لَہٗ۔۔۔۝۶۲    [59]

ترجمہ:اللہ ہی ہے جو اپنے بندوں میں سے جس کا چاہتا ہے رزق کشادہ کرتا ہے اور جس کا چاہتا ہے تنگ کرتا ہے۔

چنانچہ جواللہ اس طرح کام کرنے پرقادرہے وہ اس بات پربھی قادرہے کہ اس کے جن بندوں پرظلم کیاجائے اس کابدلہ وہ ظلموں سے لے ،اوراللہ اپنے بندوں کی ضرورت کوجانتا،ان کی پکارکوسنتااوران کی حاجت کو پورا کرتاہے،اس کے لئے روشنی یا تاریکی کوئی معنی نہیں رکھتی ،وہ رات کی گھورتاریکی میں ٹھوس چٹان کے نیچے سیاہ چیونٹی کوچلتے ہوئے دیکھتاہے ،جیسے فرمایا

سَوَاۗءٌ مِّنْكُمْ مَّنْ اَسَرَّ الْقَوْلَ وَمَنْ جَهَرَ بِهٖ وَمَنْ هُوَمُسْتَخْفٍؚبِالَّیْلِ وَسَارِبٌۢ بِالنَّهَارِ۝۱۰      [60]

ترجمہ:تم میں سے کوئی شخص خواہ بلندآوازسے بات کرے یاآہستہ اورکوئی رات کے اندھیروں میں چھپا ہوا ہو یا دن کے اجالے میں چل رہاہواس کے لئے سب برابرہے۔

یہ حکم اوراحکام والی ہستی جوہمیشہ سے ہے اورہمیشہ رہے گی ، وہ اول ہے اس سے پہلے کچھ نہ تھاوہ آخرہے اس کے بعدکچھ نہیں ،جیسے فرمایا

ہُوَالْاَوَّلُ وَالْاٰخِرُ وَالظَّاہِرُ وَالْبَاطِنُ۔۔۔۝۳           [61]

ترجمہ:وہی اول بھی ہے اور آخر بھی ، اور ظاہر بھی ہے اور مخفی بھی۔

وہ کامل اسماء وصفات کامالک ہے،

۔۔۔لَہُ الْاَسْمَاۗءُ الْحُسْنٰى۔۔۔۝۲۴ۧ      [62]

ترجمہ:اس کے لیے بہترین نام ہیں ۔

اس کادین حق ہے ،وہ اپنے افعال میں حق ہے،اس کے وعدے حق ہیں ،اس سے ملاقات ہوناحق ہے ،اس کااپنے اولیاکی ان کے دشمنوں کے مقابلے میں مددکرناحق ہے اس کی عبادت حق نفع منداورہمیشہ باقی رہنے والی ہے،اوراس کے سواجن بتوں اورجمادات وحیوانات میں سے سے خودساختہ معبودوں کوپکارتے ہووہ فی نفسہ باطل ہیں اس لئے ان کی عبادت بھی باطل ہے ،ہرچیزاللہ کے ماتحت اوراس کے حکم کے تابع ہے ،اس کے سواکوئی معبودنہیں ،کسی طرح کاکوئی نفع یانقصان کسی کے ہاتھ میں نہیں ، وہ اپنی ذات اوراسماء وصفات میں بلند ہے،یہ اس کی عظمت وکبریائی ہے کہ قیامت کے روززمین اس کے قبضہ قدرت میں اورآسمان اس کے دائیں ہاتھ پر لپٹے ہوئے ہوں گے ،جیسے فرمایا

۔۔۔ وَالْاَرْضُ جَمِیْعًا قَبْضَتُہٗ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ وَالسَّمٰوٰتُ مَطْوِیّٰتٌۢ بِیَمِیْنِہٖ۔۔۔۝۶۷          [63]

ترجمہ: (اس کی قدرت کاملہ کا حال تو یہ ہے کہ) قیامت کے روز پوری زمین اس کی مٹھی میں ہوگی اور آسمان اس کے دست راست میں لپٹے ہوئے ہوں گے ۔

یہ اس کی کبریائی ہے کہ اس کی کرسی آسمانوں اور زمین پرمحیط ہے،جیسے فرمایا

۔۔۔وَسِعَ كُرْسِـیُّہُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ۔۔۔۝۲۵۵ [64]

ترجمہ:اس کی حکومت آسمانوں اور زمین پر چھائی ہوئی ہے۔

یہ اس کی کبریائی ہے کہ تمام بندوں کی پیشانیاں اس کے ہاتھ میں ہیں ،جیسے فرمایا

۔۔۔مَا مِنْ دَاۗبَّةٍ اِلَّا ہُوَاٰخِذٌۢ بِنَاصِیَتِہَا۔۔۔۝۵۶ [65]

ترجمہ:کوئی جاندار ایسا نہیں جس کی چوٹی اس کے ہاتھ میں نہ ہو ۔

وہ اس کی مشیت کے بغیر تصرف نہیں کرسکتے وہ اس کے ارادے کے بغیرحرکت کر سکتے ہیں نہ ساکن ہوسکتے ہیں ،اس کی کبریائی کی حقیقت کواس کے سواکوئی نہیں جانتا،کوئی مقرب فرشتہ جانتاہے نہ کوئی نبی مرسل،ہرصفت کمال وجلال اورعظمت وکبریائی اس کے لئے ثابت ہے،یہ اس کی کبریائی ہے کہ زمین وآسمان والوں سے صادرہونے والی عبادات کامقصدوحیداس کی تعظیم وکبریائی کااقراراوراس کے جلال واکرام کااعتراف ہے۔

أَلَمْ تَرَ أَنَّ اللَّهَ أَنزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَتُصْبِحُ الْأَرْضُ مُخْضَرَّةً ۗ إِنَّ اللَّهَ لَطِیفٌ خَبِیرٌ ‎﴿٦٣﴾‏ لَّهُ مَا فِی السَّمَاوَاتِ وَمَا فِی الْأَرْضِ ۗ وَإِنَّ اللَّهَ لَهُوَ الْغَنِیُّ الْحَمِیدُ ‎﴿٦٤﴾‏أَلَمْ تَرَ أَنَّ اللَّهَ سَخَّرَ لَكُم مَّا فِی الْأَرْضِ وَالْفُلْكَ تَجْرِی فِی الْبَحْرِ بِأَمْرِهِ وَیُمْسِكُ السَّمَاءَ أَن تَقَعَ عَلَى الْأَرْضِ إِلَّا بِإِذْنِهِ ۗ إِنَّ اللَّهَ بِالنَّاسِ لَرَءُوفٌ رَّحِیمٌ ‎﴿٦٥﴾‏ وَهُوَ الَّذِی أَحْیَاكُمْ ثُمَّ یُمِیتُكُمْ ثُمَّ یُحْیِیكُمْ ۗ إِنَّ الْإِنسَانَ لَكَفُورٌ ‎﴿٦٦﴾‏ (الحج)
’’ کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ اللہ تعالیٰ آسمان سے پانی برساتا ہے پس زمین سرسبز ہوجاتی ہے، بیشک اللہ تعالیٰ مہربان اور باخبر ہے، آسمانوں اور زمین میں جو کچھ ہے اسی کا ہے، اور یقیناً اللہ وہی ہے بےنیاز تعریفوں والا، کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ اللہ ہی نے زمین کی تمام چیزیں تمہارے لیے مسخر کردی ہیں اور اس کے فرمان سے پانی میں چلتی ہوئی کشتیاں بھی، وہی آسمان کو تھامے ہوئے ہے کہ زمین پر اس کی اجازت کے بغیر گر نہ پڑے، بیشک اللہ تعالیٰ لوگوں پر شفقت و نرمی کرنے والا اور مہربان ہے ، اسی نے تمہیں زندگی بخشی، پھر وہی تمہیں مار ڈالے گا پھر وہی تمہیں زندہ کرے گا، بیشک انسان البتہ ناشکرا ہے۔‘‘

اللہ تعالیٰ نے اپنی وحدانیت اورکمال قدرت پر تفکروتدبرکی ترغیب دی کہ کیاتم چشم بصارت اورچشم بصیرت سے نہیں دیکھا کہ اللہ آسمان سے پانی برساتا ہے اور اس کی بدولت پیاسی اورقحط زدہ زمین سرسبز وشاداب ہو جاتی ہے؟،جیسے فرمایا

وَہُوَالَّذِیْٓ اَنْزَلَ مِنَ السَّمَاۗءِ مَاۗءً۝۰ۚ فَاَخْرَجْنَا بِہٖ نَبَاتَ كُلِّ شَیْءٍ فَاَخْرَجْنَا مِنْہُ خَضِرًا نُّخْرِجُ مِنْہُ حَبًّا مُّتَرَاكِبًا۝۰ۚ وَمِنَ النَّخْلِ مِنْ طَلْعِہَا قِنْوَانٌ دَانِیَةٌ وَّجَنّٰتٍ مِّنْ اَعْنَابٍ وَّالزَّیْتُوْنَ وَالرُّمَّانَ مُشْتَبِہًا وَّغَیْرَ مُتَشَابِہٍ۔۔۔۝۹۹  [66]

ترجمہ:اور وہی ہے جس نے آسمان سے پانی برسایا، پھر اس کے ذریعہ سے ہر قسم کی نباتات اگائی، پھر اس سے ہرے ہرے کھیت اور درخت پیدا کیے، پھر ان سے تہ بر تہ چڑھے ہوئے دانے نکالے اور کھجور کے شگوفوں سے پھلوں کے گچھے کے گچھے پیدا کیے جو بوجھ کے مارے جھکے پڑتے ہیں ، اور انگور، زیتون اور انار کے باغ لگائے جن کے پھل ایک دوسرے سے ملتے جلتے بھی ہیں اور پھر ہر ایک کی خصوصیات جدا جدا بھی ہیں ۔

ہُوَالَّذِیْٓ اَنْزَلَ مِنَ السَّمَاۗءِ مَاۗءً لَّكُمْ مِّنْہُ شَرَابٌ وَّمِنْہُ شَجَـرٌ فِیْہِ تُسِیْمُوْنَ۝۱۰یُنْۢبِتُ لَكُمْ بِہِ الزَّرْعَ وَالزَّیْتُوْنَ وَالنَّخِیْلَ وَالْاَعْنَابَ وَمِنْ كُلِّ الثَّمَرٰتِ۝۰ۭ اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیَةً لِّقَوْمٍ یَّتَفَكَّرُوْنَ۝۱۱       [67]

ترجمہ:وہی ہے جس نے آسمان سے تمہارے لیے پانی برسایا جس سے تم خود بھی سیراب ہوتے ہو اور تمہارے جانوروں کے لیے بھی چارہ پیدا ہوتا ہے، وہ اس پانی کے ذریعہ سے کھیتیاں اگاتا ہے اور زیتون اور کھجور اور انگور اور طرح طرح کے دوسرے پھل پیدا کرتا ہے اس میں ایک بڑی نشانی ہے ان لوگوں کے لیے جو غور و فکر کرتے ہیں ۔

اَلَمْ تَرَ اَنَّ اللہَ اَنْزَلَ مِنَ السَّمَاۗءِ مَاۗءً فَسَلَكَہٗ یَنَابِیْعَ فِی الْاَرْضِ ثُمَّ یُخْرِجُ بِہٖ زَرْعًا مُّخْتَلِفًا اَلْوَانُہٗ ۔۔۔۝۲۱ۧ [68]

ترجمہ:کیا تم نہیں دیکھتے کہ اللہ نے آسمان سے پانی برسایا، پھر اس کو سوتوں اور چشموں اور دریاؤں کی شکل میں زمین کے اندر جاری کیا، پھر اس پانی کے ذریعہ سے وہ طرح طرح کی کھیتیاں نکالتا ہے جن کی قسمیں مختلف ہیں ۔

بلاشبہ وہ ہستی جو زمین کواس کے مردہ ہونے کے بعدزندہ کردیتا ہے،اسی طرح مردوں کوان کے زرات منتشرہونے کے بعدزندہ فرمائے گا،جیسے فرمایا

وَالَّذِیْ نَزَّلَ مِنَ السَّمَاۗءِ مَاۗءًۢ بِقَدَرٍ۝۰ۚ فَاَنْشَرْنَا بِہٖ بَلْدَةً مَّیْتًا۝۰ۚ كَذٰلِكَ تُخْـرَجُوْنَ۝۱۱ [69]

ترجمہ:جس نے ایک خاص مقدار میں آسمان سے پانی اتارا اور اس کے ذریعہ سے مردہ زمین کو جلا اٹھایا اسی طرح ایک روز تم زمین سے برآمد کیے جاؤ گے ۔

۔۔۔وَیُـحْیِ الْاَرْضَ بَعْدَ مَوْتِہَا۝۰ۭ وَكَذٰلِكَ تُخْرَجُوْنَ۝۱۹ۧ [70]

ترجمہ: اور زمین کو اس کی موت کے بعد زندگی بخشتا ہےاسی طرح تم لوگ بھی (حالت موت سے) نکال لیے جاؤ گے۔

فَانْظُرْ اِلٰٓى اٰثٰرِ رَحْمَتِ اللہِ كَیْفَ یُـحْىِ الْاَرْضَ بَعْدَ مَوْتِہَا۝۰ۭ اِنَّ ذٰلِكَ لَمُحْیِ الْمَوْتٰى۝۰ۚ وَہُوَعَلٰی كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ۝۵۰ [71]

ترجمہ:دیکھو اللہ کی رحمت کے اثرات کہ مردہ پڑی ہوئی زمین کو وہ کس طرح جلا اٹھاتا ہے ، یقینا وہ مردوں کو زندگی بخشنے والا ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے۔

وَاللہُ الَّذِیْٓ اَرْسَلَ الرِّیٰحَ فَتُـثِیْرُ سَحَابًا فَسُقْنٰہُ اِلٰى بَلَدٍ مَّیِّتٍ فَاَحْیَیْنَا بِہِ الْاَرْضَ بَعْدَ مَوْتِہَا۝۰ۭ كَذٰلِكَ النُّشُوْرُ۝۹ [72]

ترجمہ:وہ اللہ ہی تو ہے جو ہواؤں کو بھیجتا ہے، پھر وہ بادل اٹھاتی ہیں ، پھر ہم اسے ایک اجاڑ علاقے کی طرف لے جاتے ہیں اور ایسی زمین کو جلا اٹھاتے ہیں جو مری پڑی تھی، مرے ہوئے انسانوں کا جی اٹھنا بھی اسی طرح ہوگا۔

حقیقت یہ ہے کہ اللہ اپنے بندوں کورزق پہنچانے میں لطف وکرم سے کام لیتاہےاوروہ اپنے بندوں کی ضروریات وحاجات سے آگاہ ہے ،آسمانوں ، زمین اوران کے درمیان جوکچھ ہے سب اسی وحدہ لاشریک کی تخلیق اوراللہ کے بندے ہیں ،اللہ تعالیٰ اپنی قوت ،حکمت اوراقتدارکامل سے ان میں تصرف فرماتاہے،اس معاملے میں اس کے سواکسی کوکوئی اختیارنہیں ،بے شک وہ تمام مخلوقات سے بے نیاز اورسارے کمالات اوراختیارات کامنبع ہے،چنانچہ ہرحال میں تعریف کامستحق بھی وہی ہے،کیا تم نے اپنی آنکھ اوردل سے اپنے رب کی بے پایاں نعمتوں اوربے حد احسانات کو نہیں دیکھا کہ اس نے روئے زمین کی تمام موجودات کو بنی آدم کے لیے مسخر کر رکھا ہے ، اور اُسی نے کشتی کوایک قاعدے کا پابند بنایا ہے کہ وہ اس کے حکم سے سمندر میں موجوں کوکاٹتی ہوئی تمہیں اورتمہارے تجارتی سامان کواٹھاکر ادھرسے ادھرلے کر چلتی ہے اور اسی نے اپنی رحمت اورقدرت سےعالم بالا کو اس طرح تھاما ہوا ہے کہ اس کے اذن کے بغیرکوئی چیز زمین پر نہیں گر سکتی؟جیسے فرمایا

اِنَّ اللهَ یُمْسِكُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ اَنْ تَزُوْلَا۝۰ۥۚ وَلَىِٕنْ زَالَتَآ اِنْ اَمْسَكَـهُمَا مِنْ اَحَدٍ مِّنْۢ بَعْدِهٖ۔۔۔۝۴۱           [73]

ترجمہ:حقیقت یہ ہے کہ اللہ ہی ہے جو آسمانوں اور زمین کو ٹل جانے سے روکے ہوئے ہے، اور اگر وہ ٹل جائیں تو اللہ کے بعد کوئی دُوسرا انہیں تھامنے والا نہیں ہے ۔

واقعہ یہ ہے کہ اللہ لوگوں کے حق میں بڑا شفیق اور رحیم ہے ،جیسےفرمایا

۔۔۔وَاِنَّ رَبَّكَ لَذُوْ مَغْفِرَةٍ لِّلنَّاسِ عَلٰی ظُلْمِهِمْ۔۔۔ ۝۶ [74]

ترجمہ:حقیقت یہ ہے کہ تیرا رب لوگوں کی زیادتیوں کے باوجود ان کے ساتھ چشم پوشی سے کام لیتا ہے ۔

وہی ہے جس نے تمہیں زندگی بخشی ہے ، وہی تم کو موت دیتا ہے اور وہی پھر تم کو ایک وقت مقررہ پراعمال کی جوابدہی کے لئےزندہ کرے گا ،اسی مضمون کومتعددمقامات پربیان فرمایا

كَیْفَ تَكْفُرُوْنَ بِاللهِ وَكُنْتُمْ اَمْوَاتًا فَاَحْیَاكُمْ۝۰ۚ ثُمَّ یُمِیْتُكُمْ ثُمَّ یُحْیِیْكُمْ ثُمَّ اِلَیْهِ تُرْجَعُوْنَ۝۲۸     [75]

ترجمہ:تم اللہ کے ساتھ کفر کا رویہ کیسے اختیار کرتے ہو حالانکہ تم بے جان تھے اس نے تم کو زندگی عطا کی ، پھر وہی تمہاری جان سلب کرے گا ، پھر وہی تمہیں دوبارہ زندگی عطا کرے گا پھر اسی کی طرف تمہیں پلٹ کر جانا ہے۔

قُلِ اللهُ یُحْیِیْكُمْ ثُمَّ یُمِیْتُكُمْ ثُمَّ یَجْمَعُكُمْ اِلٰى یَوْمِ الْقِیٰمَةِ لَارَیْبَ فِیْهِ وَلٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَ۝۲۶ۧ [76]

ترجمہ:اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! ان سے کہو اللہ ہی تمہیں زندگی بخشتا ہے پھر وہی تمہیں موت دیتا ہے ، پھر وہی تم کو اس قیامت کے دن جمع کرے گا جس کے آنے میں کوئی شک نہیں مگر اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں ۔

مگر انسانوں کی اکثریت یہ سب کچھ دیکھتے ہوئے بھی حقیقت کاانکارکرتی ہے۔

لِّكُلِّ أُمَّةٍ جَعَلْنَا مَنسَكًا هُمْ نَاسِكُوهُ ۖ فَلَا یُنَازِعُنَّكَ فِی الْأَمْرِ ۚ وَادْعُ إِلَىٰ رَبِّكَ ۖ إِنَّكَ لَعَلَىٰ هُدًى مُّسْتَقِیمٍ ‎﴿٦٧﴾‏ وَإِن جَادَلُوكَ فَقُلِ اللَّهُ أَعْلَمُ بِمَا تَعْمَلُونَ ‎﴿٦٨﴾‏ اللَّهُ یَحْكُمُ بَیْنَكُمْ یَوْمَ الْقِیَامَةِ فِیمَا كُنتُمْ فِیهِ تَخْتَلِفُونَ ‎﴿٦٩﴾‏ أَلَمْ تَعْلَمْ أَنَّ اللَّهَ یَعْلَمُ مَا فِی السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ ۗ إِنَّ ذَٰلِكَ فِی كِتَابٍ ۚ إِنَّ ذَٰلِكَ عَلَى اللَّهِ یَسِیرٌ ‎﴿٧٠﴾‏(الحج )
’’ ہر امت کے لیے ہم نے عبادت کا ایک طریقہ مقرر کردیا ہے جسے وہ بجا لانے والے ہیں، پس انہیں اس امر میں آپ سے جھگڑا نہ کرنا چاہیے، آپ اپنے پروردگار کی طرف لوگوں کو بلائیےیقیناً آپ ٹھیک ہدایت پر ہی ہیں ،پھر بھی اگر یہ لوگ آپ سے الجھنے لگیں تو آپ کہہ دیں کہ تمہارے اعمال سے اللہ بخوبی واقف ہے، بیشک تمہارے سب کے اختلاف کا فیصلہ قیامت والے دن اللہ تعالیٰ آپ کرے گا، کیا آپ نے نہیں جانا کہ آسمان و زمین کی ہر چیز اللہ کے علم میں ہے، یہ سب لکھی ہوئی کتاب میں محفوظ ہے، اللہ تعالیٰ پر تو یہ امر بالکل آسان ہے۔‘‘

اللہ نے ہرنبی کی امت کے طریق بندگی کے لئے عبادت کاایک طریقہ مقررفرمایا ہے جوعدل وحکمت پرمتفق ہونے کے باوجودبعض امورمیں مختلف ہیں ،جس طرح تورات امت موسیٰ علیہ السلام کے لئے،انجیل امت عیسیٰ علیہ السلام کے لئے شریعت تھی اوراب قرآن امت محمدیہ کے لئے شریعت اورضابطہ حیات ہے اوروہ ان پراپنے احوال کے مطابق عمل پیراہیں ، اس لئے کسی کو ان شریعتوں میں سے کسی شریعت پراعتراض کی گنجائش نہیں جیسے فرمایا

۔۔۔لِكُلٍّ جَعَلْنَا مِنْكُمْ شِرْعَةً وَّمِنْهَاجًا۝۰ۭ وَلَوْ شَاۗءَ اللهُ لَجَعَلَكُمْ اُمَّةً وَّاحِدَةً وَّلٰكِنْ لِّیَبْلُوَكُمْ فِیْ مَآ اٰتٰىكُمْ۔۔۔۝۴۸ۙ [77]

ترجمہ:ہم نے تم میں سے ہرایک گروہ کے لئے ایک شریعت اورطریقہ مقررکیاہے اگراللہ چاہتاتوتمہیں ایک ہی امت بنا دیتامگراس نے جواحکام تمہیں دیئے ہیں وہ ان میں تمہیں آزماناچاہتاہے۔

ثُمَّ جَعَلْنٰكَ عَلٰی شَرِیْعَةٍ مِّنَ الْاَمْرِ فَاتَّبِعْهَا وَلَا تَتَّبِعْ اَهْوَاۗءَ الَّذِیْنَ لَا یَعْلَمُوْنَ۝۱۸ [78]

ترجمہ: اس کے بعد اب اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ، ہم نے تم کو دین کے معاملہ میں ایک صاف شاہراہ (شریعت) پر قائم کیا ہے لہٰذا تم اسی پر چلو اور ان لوگوں کی خواہشات کا اتباع نہ کرو جو علم نہیں رکھتے۔

اس لئے آپ کی تکذیب کرنے والے اپنی فاسدعقل کی بنیادپرآپ کے ساتھ جھگڑاکریں نہ آپ کی لائی ہوئی کتاب پر اعتراض کریں ،جیسے مشرک اپنے فاسدقیاس کی بنا پر مردار کی حلت کے بارے میں آپ سے جھگڑتے ہیں ،

قَوْلُ أَهْلِ الشِّرْكِ: أَمَّا مَا ذَبَحَ اللهُ بِیَمِینِهِ فَلَا تَأْكُلُوهُ، وَأَمَّا مَا ذَبَحْتُمْ بِأَیْدِیكُمْ فَهُوَ حَلَالٌ

مشرک کہتے ہیں جسے اللہ اپنے ہاتھ سے قتل کرتا ہے اسے تم نہیں کھاتے اورجسے تم خوداپنے ہاتھوں سے ذبح کرتے ہوتووہ حلال ہےاوراسے کھالیتے ہو۔[79]

اورجیسے وہ سودکی حلت کے لئے کہتے ہیں تجارت بھی توسودہی کی مانندہے اوراس قسم کے دیگراعتراضات جن کاجواب دینالازم نہیں ،وہ درحقیقت رسالت ہی کے منکر ہیں ، کیونکہ آپ کو حقانیت پراعتماداوراپنے دین پریقین ہے لہذاآپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے جھگڑے کی پرواہ نہ کریں بلکہ لوگوں کوحکمت اوراچھی نصیحت کے ساتھ اپنے رب کی طرف دعوت دیں ، یقینا ًآپ ہی سیدھے راستے پرہیں جوسیدھامنزل مقصودتک پہنچتاہے،جیسے فرمایا

وَلَا یَصُدُّنَّكَ عَنْ اٰیٰتِ اللهِ بَعْدَ اِذْ اُنْزِلَتْ اِلَیْكَ وَادْعُ اِلٰى رَبِّكَ وَلَا تَكُوْنَنَّ مِنَ الْمُشْرِكِیْنَ۝۸۷ۚ [80]

ترجمہ: اور ایسا کبھی نہ ہونے پائے کہ اللہ کی آیات جب تم پر نازل ہوں تو کفار تمہیں ان سے باز رکھیں ، اپنے رب کی طرف دعوت دو اور ہرگز مشرکوں میں شامل نہ ہو ۔

یعنی پچھلی شریعتیں منسوخ ہوگئی ہیں جیسے فرمایا

فَتَوَكَّلْ عَلَی اللهِ۝۰ۭ اِنَّكَ عَلَی الْحَقِّ الْمُبِیْنِ۝۷۹ [81]

ترجمہ:اللہ تعالیٰ پربھروسہ کریں بے شک آپ واضح حق پرہیں ۔

اگربیان اوراظہارحجت کے بعدبھی وہ آپ سے الجھنے لگیں توآپ کہہ دیں کہ جوتم کرتے ہو اللہ تعالیٰ تمہارے مقاصداورتمہاری نیتوں کوخوب جانتاہے ،وہ تمہیں قیامت کے دن ان کی جزادے گااورتمہارے درمیان ان سب باتوں کافیصلہ کردے گاجن کے بارے میں تم آپس میں اختلاف کرتے ہو،اس وقت تمہیں معلوم ہوجائے گاکہ حق کیاہے اورباطل کیاہے،جیسے فرمایا

وَاِنْ كَذَّبُوْكَ فَقُلْ لِّیْ عَمَلِیْ وَلَكُمْ عَمَلُكُمْ۝۰ۚ اَنْتُمْ بَرِیْۗـــــُٔوْنَ مِمَّآ اَعْمَلُ وَاَنَا بَرِیْۗءٌ مِّمَّا تَعْمَلُوْنَ۝۴۱(یونس۴۱)

ترجمہ:اگر یہ تجھے جھٹلاتے ہیں تو کہہ دے کہ میرا عمل میرے لیے ہے اور تمہارا عمل تمہارے لیے، جو کچھ میں کرتا ہوں اس کی ذمہ داری سے تم بری ہو اور جو کچھ تم کر رہے ہو اس کی ذمہ داری سے میں بری ہوں ۔

اللہ تعالیٰ پرتمام معاملات کے ظاہروباطن،جلی وخفی اوراول وآخرمیں سے کچھ بھی مخفی نہیں ،زمین وآسمان کی موجودات کااحاطہ کرنے والاعلم اللہ تعالیٰ نے ایک کتاب میں درج کررکھاہے اوروہ ہے لوح محفوظ، یہ تقدیر کا مسئلہ ہے جس پرایمان رکھنا ضروری ہے ،

عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، یَقُولُ: كَتَبَ اللهُ مَقَادِیرَ الْخَلَائِقِ قَبْلَ أَنْ یَخْلُقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ بِخَمْسِینَ أَلْفَ سَنَةٍ، قَالَ: وَعَرْشُهُ عَلَى الْمَاءِ

عبداللہ بن عمروبن العاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کویہ فرماتے سنا،فرماتے تھے اللہ تعالیٰ نے آسمان وزمین کی پیدائش سے پچاس ہزار سال پہلےمخلوقات کی تقدیریں لکھ دیں تھیں ،اس وقت پروردگار کاعرش پانی پر تھا۔[82]

قَالَ عُبَادَةُ بْنُ الصَّامِتِ لِابْنِهِ:سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ ، یَقُولُ: أَوَّلُ مَا خَلَقَ اللهُ الْقَلَمُ، ثُمَّ قَالَ لَهُ: اكْتُبْ، قَالَ: وَمَا أَكْتُبُ؟ قَالَ: الْقَدَرُ قَالَ: فَكَتَبَ مَا یَكُونُ وَمَا هُوَ كَائِنٌ إِلَى أَنْ تَقُومَ السَّاعَةُ،یَا بُنَیَّ إِنِّی سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَقُولُ:مَنْ مَاتَ عَلَى غَیْرِ هَذَا فَلَیْسَ مِنِّی

عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے مروی ہے میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سناہے آپ فرماتے تھےاللہ تعالیٰ نے قلم کوپیداکیااوراسے حکم دیا لکھ ! قلم نے عرض کیا کیا لکھوں ؟فرمایا قیامت تک جوکچھ ہونے والاہے اسے لکھ،چنانچہ اس نے اللہ کے حکم سے قیامت تک جوکچھ ہونے والا تھاسب لکھ دیا،اے میرے بیٹے!بیشک میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سناہے آپ فرماتے تھے جوشخص اس کے سوا(کسی اورعقیدے)پرمرگیاوہ مجھ سے نہیں ۔[83]

عَنِ ابْنِ عُمَرَ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: الْقَدَرِیَّةُ مَجُوسُ هَذِهِ الْأُمَّةِ: إِنْ مَرِضُوا فَلَا تَعُودُوهُمْ، وَإِنْ مَاتُوا فَلَا تَشْهَدُوهُمْ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاقدریہ (تقدیر کا انکار کرنے والے)اس امت کے مجوسی ہیں (دودوالہوں کے قائل ہیں ایک خالق خیرجسے وہ یزداں کہتے ہیں اوردوسراخالق شرجسے وہ اہرمن کانام دیتے ہیں ،اسی طرح تقدیر کے منکرخیرکواللہ کی اورشرکواللہ کی خلق سمجھتے ہیں حالانکہ خلق اورایجادمیں اللہ عزوجل کاکوئی شریک وسہیم نہیں ہے،نہ کوئی اس پرغالب ہے،اس نے اپنی حکمت کے تحت شراورشیطان کوپیداکیاہے اورانسان اللہ عزوجل کی مشیت اورارادے ہی سے سب کچھ کرتاہے ، مشیت اورارادے کے معنی ہمیشہ رضامندی نہیں ہوتے اس لیے کہ مشیت اوررضامندی الگ الگ دوچیزیں ہیں ،جوکچھ بھی ہوتاہے وہ یقیناًمشیت الٰہی ہی سے ہوتاہے اس کے بغیر اچھا یابراکوئی کام بھی نہیں ہوتا،لیکن یہ ضروری نہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کاپسندیدہ بھی ہو،اللہ تعالیٰ کوتوصرف وہی کام پسندہیں جن کے کرنے کااس نے حکم دیاہے ،باقی کام ناپسند ہیں گوہوتے وہ بھی اس کی مشیت ہی سے ہیں )اگربیمارہوجائیں توان کی عیادت کومت جاؤاور اگر مر جائیں توجنازے میں شریک نہ ہو۔[84]

اگرچہ تمہارے نزدیک اس کے تصورکااحاطہ نہیں کیاجاسکتامگراللہ تعالیٰ کے لئے اشیاء کے علم کااحاطہ کرنابہت آسان ہے ،اوراس کے لئے یہ بھی بہت آسان ہے کہ آئندہ واقعات کے علم کوواقعات کے مطابق ایک کتاب میں درج کر دے۔

وَیَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللَّهِ مَا لَمْ یُنَزِّلْ بِهِ سُلْطَانًا وَمَا لَیْسَ لَهُم بِهِ عِلْمٌ ۗ وَمَا لِلظَّالِمِینَ مِن نَّصِیرٍ ‎﴿٧١﴾‏ وَإِذَا تُتْلَىٰ عَلَیْهِمْ آیَاتُنَا بَیِّنَاتٍ تَعْرِفُ فِی وُجُوهِ الَّذِینَ كَفَرُوا الْمُنكَرَ ۖ یَكَادُونَ یَسْطُونَ بِالَّذِینَ یَتْلُونَ عَلَیْهِمْ آیَاتِنَا ۗ قُلْ أَفَأُنَبِّئُكُم بِشَرٍّ مِّن ذَٰلِكُمُ ۗ النَّارُ وَعَدَهَا اللَّهُ الَّذِینَ كَفَرُوا ۖ وَبِئْسَ الْمَصِیرُ ‎﴿٧٢﴾‏(الحج)
’’اور یہ اللہ کے سوا ان کی عبادت کر رہے ہیں جس کی کوئی خدائی دلیل نازل نہیں ہوئی ،نہ وہ خود ہی اس کا کوئی علم رکھتے ہیں، ظالموں کا کوئی مددگار نہیں، جب ان کے سامنے ہمارے کلام کی کھلی ہوئی آیتوں کی تلاوت کی جاتی ہے تو آپ کافروں کے چہروں پر ناخوشی کے صاف آثار پہچان لیتے ہیں،وہ قریب ہوتے ہیں کہ ہماری آیتیں سنانے والوں پر حملہ کر بیٹھیں، کہہ دیجئے کہ کیا میں تمہیں اس سے بھی زیادہ بدتر خبر دوں، وہ آگ ہے جس کا وعدہ اللہ نے کافروں سے کر رکھا ہے، اور وہ بہت ہی بری جگہ ہے ۔‘‘

مشرکین جنہوں نے اپنے معبودحقیقی کوچھوڑکرلکڑی ،پتھراوردھاتوں کے خودساختہ معبودوں کواللہ تعالیٰ کاہمسرٹھیرارکھاہے،اوران کی صفات اوراختیارات کے متعلق قسم قسم کے عقائدتصنیف کرلئے ہیں ،ان کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے طواف اوراعتکاف کیے جاتے ہیں ،چڑھاوے اورنیازیں دی جاتی ہیں حالانکہ ان کے پاس ان افعال کی نہ کوئی نقلی دلیل ہے جسے کسی آسمانی کتاب سے یہ دکھاسکیں ،اورنہ ہی کوئی عقلی دلیل ہے جسے غیراللہ کی عبادت کے اثبات میں پیش کرسکیں ،ان لوگوں کاکہناصرف یہ ہے کہ انہوں نے یہ سب کچھ اپنے گمراہ آباؤاجدادسے حاصل کیاہے،جیسے فرمایا

وَاِذَا فَعَلُوْا فَاحِشَةً قَالُوْا وَجَدْنَا عَلَیْہَآ اٰبَاۗءَنَا وَاللہُ اَمَرَنَا بِہَا۝۰ۭ قُلْ اِنَّ اللہَ لَا یَاْمُرُ بِالْفَحْشَاۗءِ۔۔۔۝۲۸   [85]

ترجمہ:یہ لوگ جب کوئی شرمناک کام کرتے ہیں تو کہتے ہیں ہم نے اپنے باپ دادا کو اسی طریقہ پر پایا ہے اور اللہ ہی نے ہمیں ایسا کرنے کا حکم دیا ہے ۔

 قَالُوْا وَجَدْنَآ اٰبَاۗءَنَا لَہَا عٰبِدِیْنَ۝۵۳ [86]

ترجمہ:انہوں نے جواب دیا ہم نے اپنے باپ دادا کو ان کی عبادت کرتے پایا ہے۔

قَالُوْا بَلْ وَجَدْنَآ اٰبَاۗءَنَا كَذٰلِكَ یَفْعَلُوْنَ۝۷۴ [87]

ترجمہ: انہوں نے جواب دیا نہیں ، بلکہ ہم نے اپنے باپ دادا کو ایسا ہی کرتے پایا ہے۔

بَلْ قَالُـوْٓا اِنَّا وَجَدْنَآ اٰبَاۗءَنَا عَلٰٓی اُمَّةٍ وَّاِنَّا عَلٰٓی اٰثٰرِہِمْ مُّہْتَدُوْنَ۝۲۲وَكَذٰلِكَ مَآ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ فِیْ قَرْیَةٍ مِّنْ نَّذِیْرٍ اِلَّا قَالَ مُتْرَفُوْہَآ۝۰ۙ اِنَّا وَجَدْنَآ اٰبَاۗءَنَا عَلٰٓی اُمَّةٍ وَّاِنَّا عَلٰٓی اٰثٰرِہِمْ مُّقْتَدُوْنَ۝۲۳          [88]

ترجمہ:نہیں ، بلکہ یہ کہتے ہیں کہ ہم نے اپنے باپ دادا کو ایک طریقے پر پایا ہے اور ہم انہی کے نقش قدم پر چل رہے ہیں ،اسی طرح تم سے پہلے جس بستی میں بھی ہم نے کوئی نذیر بھیجا اس کے کھاتے پیتے لوگوں نے یہی کہا کہ ہم نے اپنے باپ دادا کو ایک طریقے پر پایا ہے اور ہم انہی کے نقش قدم کی پیروی کر رہے ہیں ۔

ان ظالموں کوجوحق کے ساتھ عنادرکھتے ہیں ،ان لوگوں کو جواللہ کی واضح ترین آیات،صحیح دلائل اورواضح حجتیں سننے کے لئے تیارنہیں وعیدسناتے ہوئے فرمایاان ظالموں کادنیا وآخرت میں کوئی مددگارنہ ہوگاجوان کواللہ تعالیٰ کے دردناک عذاب سے بچاسکے،جیسے فرمایا

وَمَنْ یَّدْعُ مَعَ اللهِ اِلٰــهًا اٰخَرَ۝۰ۙ لَا بُرْهَانَ لَهٗ بِهٖ۝۰ۙ فَاِنَّمَا حِسَابُهٗ عِنْدَ رَبِّهٖ۝۰ۭ اِنَّهٗ لَا یُفْلِحُ الْكٰفِرُوْنَ۝۱۱۷ [89]

ترجمہ: جوشخص اللہ کے ساتھ کسی دوسرے معبودکوپکارے جس کی کوئی دلیل اس کے پاس نہیں ،پس اس کاحساب تواس کے رب کے اوپرہی ہے ،بیشک کافرلوگ نجات سے محروم ہیں ۔

جب ان مشرکین اوراہل ضلالت کے سامنے اللہ کی توحید، رسالت اورمعادکابیان کیاجاتاہے تونہ یہ ان آیات کی طرف التفات کرتے ہیں نہ ان کودرخوراعتناء سمجھتے ہیں بلکہ اس کے برعکس حق سے بغض وکراہت کی وجہ سے ان کی تیوریوں پربل پڑنے لگتے ہیں اور لگتا ہے کہ شدت بغض اورحق کے ساتھ عنادوعداوت کی وجہ سے وہ ان آیات کی تلاوت کرنے والے کی زبان کھینچ لیں تاکہ حقانیت کا ایک لفظ بھی ادانہ ہونے پائے یامارنے کے لئے چڑھ دوڑیں تاکہ وہ آئندہ کے لئے باز آجائے یاقتل ہی کرڈالیں تاکہ یہ کانٹاہمیشہ کے لئے نکل جائے،

وَهَكَذَا تَرَى أَهْلَ الْبِدَعِ الْمُضِلَّةِ إِذَا سَمِعَ الْوَاحِدُ مِنْهُمْ مَا یَتْلُوهُ الْعَالِمُ عَلَیْهِمْ مِنْ آیَاتِ الْكِتَابِ الْعَزِیزِ، أَوْ مِنَ السُّنَّةِ الصَّحِیحَةِ، مُخَالِفًا لِمَا اعْتَقَدَهُ مِنَ الْبَاطِلِ وَالضَّلَالَةِ رَأَیْتَ فِی وَجْهِهِ مِنَ الْمُنْكَرِ

یہی حال آج کے اہل بدعت اورگمراہ فرقوں کاہے جب ان کی گمراہی قرآن وحدیث کے دلائل سے واضح کی جاتی ہے توان کارویہ بھی آیات قرآنی اوردلائل حدیثیہ کے مقابلے میں ایساہی ہوتاہے جس کی وضاحت اس آیت میں کی گئی ہے۔[90]

آپ انہیں کہہ دیں ابھی تو آیات الٰہی سن کرصرف تمہارے چہرے ہی متغیرہوتے ہیں ،مگرایک وقت آئے گااگرتم نے اپنے اس روئیے سے توبہ نہیں کی کہ اس سے کہیں زیادہ بدترحالات سے تمہیں دوچارہوناپڑے گااوروہ ہے جہنم کی ہولناک آگ میں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے جلنا، جس کاوعدہ اللہ نے اہل کفروشرک سے کررکھا ہے اوریقیناًوہ اللہ کے باغیوں کے لئے بدترین جگہ اورخوفناک مقام ہے،جیسے فرمایا

اِنَّہَا سَاۗءَتْ مُسْتَــقَرًّا وَّمُقَامًا۝۶۶      [91]

ترجمہ:وہ(دوزخ) تو بڑا ہی برا مستقر اور مقام ہے۔

یَا أَیُّهَا النَّاسُ ضُرِبَ مَثَلٌ فَاسْتَمِعُوا لَهُ ۚ إِنَّ الَّذِینَ تَدْعُونَ مِن دُونِ اللَّهِ لَن یَخْلُقُوا ذُبَابًا وَلَوِ اجْتَمَعُوا لَهُ ۖ وَإِن یَسْلُبْهُمُ الذُّبَابُ شَیْئًا لَّا یَسْتَنقِذُوهُ مِنْهُ ۚ ضَعُفَ الطَّالِبُ وَالْمَطْلُوبُ ‎﴿٧٣﴾‏ مَا قَدَرُوا اللَّهَ حَقَّ قَدْرِهِ ۗ إِنَّ اللَّهَ لَقَوِیٌّ عَزِیزٌ ‎﴿٧٤﴾(الحج)
’’ لوگو ! ایک مثال بیان کی جا رہی ہےذرا کان لگا کر سن لو !اللہ کے سوا جن جن کو تم پکارتے رہے ہو وہ ایک مکھی بھی پیدا نہیں کرسکتے گو سارے کے سارے ہی جمع ہوجائیں، بلکہ اگر مکھی ان سے کوئی چیز لے بھاگے تو یہ تو اسے بھی اس سے چھین نہیں سکتے، بڑا بودا ہے طلب کرنے والا اور بڑا بودا ہے وہ جس سے طلب کیا جا رہا ہے، انہوں نے اللہ کے مرتبہ کے مطابق اس کی قدر جانی ہی نہیں، اللہ تعالیٰ بڑا ہی زور و قوت والا اور غالب و زبردست ہے۔‘‘

کم عقل پجاری :اللہ تعالیٰ نے غیراللہ کی عبادت کی قباحت،ان کی عبادت کرنے والوں کی کم عقلی اوران سب کی کمزوری کوبیان کرنے کے لئے ایک عمدہ مثال بیان فرمائی ، اے لوگو!اس مثال کوغورسے سنوتاکہ شرک سے بچنے کی اصل وجہ ہرصاحب شعورکومعلوم ہوجائے،بے شک وہ لوگ جن کو(اس میں تمام ہستیاں شامل ہیں ،چاہئے وہ پتھرکی مورتیاں ہوں یااللہ کے نیک بندوں کی قبریں )تم اللہ کے سوامشکل کشا،حاجت روا،بگڑی بنانے والاسمجھ کرپکارتے ہو،ان کونفع یانقصان پہنچانے پرقادرسمجھتے ہو،انہوں نے تمہیں نفع یانقصان توکیاپہنچاناہے وہ توخوداتنے بے بس اورکمزورہیں کہ سب مل کربھی حقیرترین اورخسیس ترین مخلوق مکھی کوبھی پیداکرنے کی قدرت نہیں رکھتے،اس کے باوجودبھی تم انہی کواپناحاجت رواسمجھوتوتمہاری عقل قابل ماتم ہے اوراس سے زیادہ ان کی بے بسی ولاچارگی اورکیاہوسکتی ہے کہ پیداکرناتوکجایہ تومکھی کوپکڑکراس کے منہ سے وہ چیزبھی واپس نہیں لے سکتے جووہ ان سے کچھ چھین کرلے جائے ،جس کی اللہ تعالیٰ کے سواعبادت کی جاتی ہے اورجس سے طلب کیاجارہاہے دونوں ہی کمزور ہیں ،اوران دونوں سے سے بھی کمزور تر وہ لوگ ہیں جنہوں نے ان کورب العالمین کے مقام پرفائزکررکھاہے،یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اللہ تعالیٰ کی عظمت وجلالت،اس کی قدرت وطاقت اوراس کی بے پناہی نہ پہچانی جیساکہ پہچاننے کاحق ہے،کیونکہ انہوں نے ایک ایسی ہستی کوجوہرلحاظ سے محتاج اورعاجزہے اس کو اللہ تعالیٰ کاہم پلہ بنا دیا جو ہر اعتبارسے بے نیازاور طاقتوار ہے ،انہوں نے اس ہستی کوجوخوداپنے یاکسی دوسرے کے لئے نفع ونقصان کی مالک ہے نہ زندگی اورموت کااختیاررکھتی ہے اورنہ دوبارہ زندہ اٹھانے پرقادرہے،جیسے فرمایا

وَاتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِہٖٓ اٰلِہَةً لَّا یَخْلُقُوْنَ شَـیْـــــًٔا وَّہُمْ یُخْلَقُوْنَ وَلَا یَمْلِكُوْنَ لِاَنْفُسِہِمْ ضَرًّا وَّلَا نَفْعًا وَّلَا یَمْلِكُوْنَ مَوْتًا وَّلَا حَیٰوةً وَّلَا نُشُوْرًا۝۳ [92]

ترجمہ:لوگوں نے اسے چھوڑ کر ایسے معبود بنا لیے جو کسی چیز کو پیدا نہیں کرتے بلکہ خود پیدا کیے جاتے ہیں ،جو خود اپنے لیے بھی کسی نفع یا نقصان کا اختیار نہیں رکھتے، جو نہ مار سکتے ہیں نہ جلا سکتے ہیں ، نہ مرے ہوئے کو پھر اٹھا سکتے ہیں ۔

قُلْ مَنْ رَّبُّ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ۝۰ۭ قُلِ اللہُ۝۰ۭ قُلْ اَفَاتَّخَذْتُمْ مِّنْ دُوْنِہٖٓ اَوْلِیَاۗءَ لَا یَمْلِكُوْنَ لِاَنْفُسِہِمْ نَفْعًا وَّلَا ضَرًّا۔۔۔ ۝۱۶ [93]

ترجمہ:اِن سے پوچھو، آسمان و زمین کا رب کون ہے؟ کہو، اللہ، پھر ان سے کہو کہ جب حقیقت یہ ہے تو کیا تم نے اسے چھوڑ کر ایسے معبودوں کو اپنا کارساز ٹھیرا لیا جو خود اپنے لیے بھی کسی نفع و نقصان کا اختیار نہیں رکھتے؟۔

اس ہستی کے برابرٹھیرادیاجونفع ونقصان کی مالک ہے ،جوجیسے چاہےعطاکرتی ہے اورجیسے چاہےمحروم کرتی ہے،جیسے فرمایا

قُلِ اللّٰہُمَّ مٰلِكَ الْمُلْكِ تُؤْتِی الْمُلْكَ مَنْ تَشَاۗءُ وَتَنْزِعُ الْمُلْكَ مِمَّنْ تَشَاۗءُ۝۰ۡوَتُعِزُّ مَنْ تَشَاۗءُ وَتُذِلُّ مَنْ تَشَاۗءُ۝۰ۭ بِیَدِكَ الْخَیْرُ۝۰ۭ اِنَّكَ عَلٰی كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ۝۲۶ [94]

ترجمہ:کہو! خدایا! ملک کے مالک! تو جسے چاہےحکومت دے اور جس سے چاہےچھین لے،جسے چاہے عزّت بخشے اور جس کو چاہے، ذلیل کر دے بھلائی تیرے اختیار میں ہے بیشک تو ہر چیز پر قادر ہے۔

جواقتدارکی مالک اوراپنی بادشاہی میں ہرقسم کاتصرف کرنے کا اختیاررکھتی ہے،حدیث قدسی میں معبود ان باطلہ کی بے بسی کاتذکرہ ان الفاظ میں ہے ،

حَدَّثَنَا أَبُو زُرْعَةَ، قَالَ: دَخَلْتُ مَعَ أَبِی هُرَیْرَةَ، دَارًا بِالْمَدِینَةِ، فَرَأَى أَعْلاَهَا مُصَوِّرًا یُصَوِّرُ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَقُولُ:وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنْ ذَهَبَ یَخْلُقُ كَخَلْقِی، فَلْیَخْلُقُوا حَبَّةً، وَلْیَخْلُقُوا ذَرَّةً

ابوزرعہ نے کہامیں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ مدینہ منورہ میں (مروان بن حکم کے گھرمیں )گیاتوانہوں نے چھت پرایک مصورکودیکھاجوتصویربنارہاتھاانہوں نے کہامیں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااللہ تعالیٰ فرماتاہےاس سے زیادہ ظالم کون ہے جومیری طرح پیداکرناچاہتاہے اگر کسی میں واقعی یہ قدرت ہے تووہ ایک مچھر یاایک ذرہ پیداکرکے دکھادے۔ [95]

عَنْ أَبِی زُرْعَةَ، قَالَ:دَخَلْتُ مَعَ أَبِی هُرَیْرَةَ فِی دَارِ مَرْوَانَ فَرَأَى فِیهَا تَصَاوِیرَ فَقَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَقُولُ: قَالَ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنْ ذَهَبَ یَخْلُقُ خَلْقًا كَخَلْقِی؟ فَلْیَخْلُقُوا ذَرَّةً، أَوْ لِیَخْلُقُوا حَبَّةً أَوْ لِیَخْلُقُوا شَعِیرَةً

ابوزرعہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےمیں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ مروان کے گھر گیا وہاں میں نے تصویریں دیکھیں ، تو ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اللہ عزوجل فرماتا ہےاس سے بڑھ کر کون ظالم ہوگا جو میری مخلوق کی طرح چیز بناتے ہیں ؟ تو ان کو چاہیے کہ ایک چیونٹی ہی پیدا کر کے دکھائیں یا ایک دانہ گندم یا جو ہی پیدا کردیں ۔[96]

وہ کامل قوت اورکامل عزت کا مالک ہے،یہ اس کاکمال قوت ہے کہ وہ تمام مخلوق کواول سے لے کرآخرتک ایک چنگھاڑکے ذریعے سے دوبارہ اٹھاکرکھڑاکرے گااوریہ اس کی کمال قوت ہے کہ اس نے بڑے بڑے جابروں اورسرکش قوموں کو ایک معمولی سی چیزاوراپنے عذاب کے کوڑے سے ہلاک کرڈالا۔

اللَّهُ یَصْطَفِی مِنَ الْمَلَائِكَةِ رُسُلًا وَمِنَ النَّاسِ ۚ إِنَّ اللَّهَ سَمِیعٌ بَصِیرٌ ‎﴿٧٥﴾‏ یَعْلَمُ مَا بَیْنَ أَیْدِیهِمْ وَمَا خَلْفَهُمْ ۗ وَإِلَى اللَّهِ تُرْجَعُ الْأُمُورُ ‎﴿٧٦﴾‏ یَا أَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا ارْكَعُوا وَاسْجُدُوا وَاعْبُدُوا رَبَّكُمْ وَافْعَلُوا الْخَیْرَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ ۩ ‎﴿٧٧﴾‏ وَجَاهِدُوا فِی اللَّهِ حَقَّ جِهَادِهِ ۚ هُوَ اجْتَبَاكُمْ وَمَا جَعَلَ عَلَیْكُمْ فِی الدِّینِ مِنْ حَرَجٍ ۚ مِّلَّةَ أَبِیكُمْ إِبْرَاهِیمَ ۚ هُوَ سَمَّاكُمُ الْمُسْلِمِینَ مِن قَبْلُ وَفِی هَٰذَا لِیَكُونَ الرَّسُولُ شَهِیدًا عَلَیْكُمْ وَتَكُونُوا شُهَدَاءَ عَلَى النَّاسِ ۚ فَأَقِیمُوا الصَّلَاةَ وَآتُوا الزَّكَاةَ وَاعْتَصِمُوا بِاللَّهِ هُوَ مَوْلَاكُمْ ۖ فَنِعْمَ الْمَوْلَىٰ وَنِعْمَ النَّصِیرُ ‎﴿٧٨﴾‏(الحج )
’’ فرشتوں میں سے اور انسانوں میں سے پیغام پہنچانے والوں کو اللہ ہی چھانٹ لیتا ہے، بیشک اللہ تعالیٰ سننے والا دیکھنے والا ہے، وہ بخوبی جانتا ہے جو کچھ ان کے آگے ہے اور جو کچھ ان کے پیچھے ہے اور اللہ ہی کی طرف سب کام لوٹائے جاتے ہیں، اے ایمان والو ! رکوع سجدہ کرتے رہو اور اپنے پروردگار کی عبادت میں لگے رہو اور نیک کام کرتے رہو تاکہ تم کامیاب ہوجاؤ، اور اللہ کی راہ میں ویسا ہی جہاد کرو جیسے جہاد کا حق ہے، اسی نے تمہیں برگزیدہ بنایا ہے اور تم پر دین کے بارے میں کوئی تنگی نہیں ڈالی، دین اپنے باپ ابراہیم (علیہ السلام) کا قائم رکھو ،اس اللہ نے تمہارا نام مسلمان رکھا ہے، اس قرآن سے پہلے اور اس میں بھی تاکہ پیغمبر تم پر گواہ ہوجائے اور تم تمام لوگوں کے گواہ بن جاؤ، پس تمہیں چاہیے کہ نمازیں قائم رکھو اور زکوة ادا کرتے رہو اور اللہ کو مضبوط تھام لو، وہی تمہارا ولی اور مالک ہے، پس کیا ہی اچھا مالک ہے اور کتنا بہتر مددگار ہے۔‘‘

منصب نبوت کاحقدارکون :اس مثال کے بعداللہ رب العزت نے اپنی عبادت،جہاد،شہادت حق،اقامت صلوٰة،ایتائے زکوٰة اوراپنی ذات جل جلالہ سے ہی وابستہ رہنے کاحکم دیا،فرمایااللہ تبارک وتعالیٰ فرشتوں اورانسانوں میں سے جسے چاہتاہے رسول منتخب کرتاہے ،جیساکہ جبرائیل علیہ السلام کواپنی وحی کے لئے منتخب کیاکہ وہ رسولوں کے پاس وحی پہنچائیں یاعذاب لے کرقوموں کے پاس جائیں اورلوگوں میں سے بھی جنہیں چاہارسالت کے لئے چن لیااورانہیں لوگوں کی ہدایت ورہنمائی پرمامورفرمایاجیسے فرمایا

۔۔۔اَللهُ اَعْلَمُ حَیْثُ یَجْعَلُ رِسَالَتَهٗ۔۔۔۝۰۝۱۲۴ [97]

ترجمہ:اللہ تعالیٰ ہی بہترجانتاہے کہ وہ رسالت کسے عنایت فرمائے ۔

مشرکین نے مخلوقات میں سے جن جن ہستیوں کو معبودبنالیاہے ان میں افضل ترین مخلوق یاملائکہ ہیں یاانبیائ،اوران کی حیثیت بھی اس سے زیادہ کچھ نہیں ہے کہ وہ اللہ کے احکام پہنچانے کا ذریعہ ہیں جن کواس نے اس خدمت کے لئے چن لیاہے ،محض یہ فضیلت ان کواللہ یااللہ کاشریک تونہیں بنادیتی،ملائکہ اورانبیاء وصلحاء کوبذات خودحاجت روااورمشکل کشا سمجھ کرنہ سہی،اللہ کے ہاں سفارشی سمجھ کربھی اگرتم پوجتے ہوتویہ غلط ہے کیونکہ سب کچھ دیکھنے اورسننے والاصرف اللہ تعالیٰ ہے،ہرشخص کے ظاہراورمخفی حالات وہی جانتا ہے،اللہ نے اپنی مقرب ترین مخلوق کوبھی یہ حق نہیں دیاہے کہ وہ اس کے اذن کے بغیرجوسفارش چاہیں کربیٹھیں اوران کی سفارش قبول ہوجائے،تدبیرامربالکل اس کے اختیارمیں ہے ،کائنات کے کسی چھوڑے بڑے معاملے کامرجع کوئی دوسرانہیں ہے کہ اس کے پاس تم اپنی درخواستیں لے جاؤ،ہرمعاملہ اسی کے آگے فیصلے کے لئے پیش ہوتا ہے لہذادست طلب بڑھاناہے تواسی کی طرف بڑھاؤ،ان بے اختیارہستیوں سے کیامانگتے ہوجوخوداپنی بھی کوئی حاجت پوری کرلینے پر قادر نہیں ہیں ،اے لوگو! جو ایمان لائے ہیں اللہ تعالیٰ جوتمہاراخالق ورازق ہے،جومشکل کشاوحاجت رواہے کی اظہار بندگی کے لئے رکوع اورسجودکرتے رہویعنی ہرطرف سے منہ موڑکر صرف اسی کی عبادت کرتے رہو،اسی کے حضوراپنی پیشانیاں زمین پررکھو،اسی کے رضاکے حصول کے لئے روزے رکھو،اسی کی خوشنودی کے لئے کھلے ہاتھوں اپنی پاک وحلال کمائی خرچ کرتے رہو،اورشاہانہ اندازسے فرمایا اگریہ روش اختیارکروگے تو اس کی رحمت سے توقعات وابستہ کی جاسکتی ہیں کہ وہ تمہیں دنیامیں بھی سربلندی عطافرمائے گااورآخرت میں بھی بے بہا انعام واکرام سے نوازے گا اور اللہ کے دین کی سربلندی اور قیام کے لئے اپنے نفس،اپنے مال اورجان سے جہادکروجیساکہ انتہائی سعی وکوشش کرنے کاحق ہے،صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کی فضیلت کے لئے فرمایاتمام امتوں پرتمہیں شرافت وکرامت،عزت وبزرگی عطافرمائی ہے اوراس مقصد عظیم کے لئے اس نے تم لوگوں کوتمام نوح انسانی کے لئے منتخب کرلیاہے، جیسے فرمایا

 وَكَذٰلِكَ جَعَلْنٰكُمْ اُمَّةً وَّسَطًا۔۔۔۝۱۴۳  [98]

ترجمہ: ہم نے اسی طرح تمہیں عادل امت بنایا ہے ۔

كُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّةٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَتُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ۔۔۔[99]

ترجمہ:تم بہترین امت ہوجولوگوں کے لئے پیداکی گئی ہے کہ تم نیک باتوں کاحکم کرتے ہواوربری باتوں سے روکتے ہواوراللہ تعالیٰ پرایمان رکھتے ہو۔

اللہ نے دین اسلام میں مشقت اورتنگی نہیں رکھی بلکہ اس نے دین کوآسان اورسہل بنایاہے اور تمہاری زندگی کو ان تمام بے جاقیودسے آزادکردیاہے جوپچھلی امتوں کے فقہیوں اورفریسیوں اورپاپاؤں نے عائد کردی تھیں ،بلکہ ایک سادہ اورسہل عقیدہ وقانون تم کودیاگیاہے جس کولے کرتم جتناآگے چاہوبڑھ سکتے ہو۔

 ۔۔۔یَاْمُرُهُمْ بِالْمَعْرُوْفِ وَیَنْهٰىهُمْ عَنِ الْمُنْكَرِ وَیُحِلُّ لَهُمُ الطَّیِّبٰتِ وَیُحَرِّمُ عَلَیْهِمُ الْخَـبٰۗىِٕثَ وَیَضَعُ عَنْهُمْ اِصْرَهُمْ وَالْاَغْلٰلَ الَّتِیْ كَانَتْ عَلَیْهِمْ۔۔۔ ۝۱۵۷ۧ  [100]

ترجمہ: وہ انہیں نیکی کا حکم دیتا ہے ، بدی سے روکتا ہے ، ان کے لیے پاک چیزیں حلال اور ناپاک چیزیں حرام کرتا ہے ، اور ان پر سے وہ بوجھ اتارتا ہے جو ان پر لدھے ہوئے تھے اور وہ بندشیں کھولتا ہے جن میں وہ جکڑے ہوئے تھے۔

عَنْ سَعِیدِ بْنِ أَبِی بُرْدَةَ، عَنْ أَبِیهِ، عَنْ جَدِّهِ،أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، بَعَثَ مُعَاذًا وَأَبَا مُوسَى إِلَى الیَمَنِ قَالَ:یَسِّرَا وَلاَ تُعَسِّرَا، وَبَشِّرَا وَلاَ تُنَفِّرَا،وَتَطَاوَعَا وَلاَ تَخْتَلِفَا

ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےجب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے معاذ رضی اللہ عنہ اورابوموسیٰ رضی اللہ عنہ کویمن کا امیر بنا کر بھیجا تو فرمایاتھاآسانی کرناسختی نہ کرنااورخوشخبری سنانانفرت نہ دلانااور اطاعت کرنا مخالفت نہ کرنا۔[101]

کیونکہ اہل عرب خودکو ابراہیم علیہ السلام کی اولاد ہونے کادعویٰ کرتے تھے ،ان کی تاریخ،روایات اور متعقدات میں ابراہیم علیہ السلام کی شخصیت کااثرورسوخ بسا ہوا تھا ، اس کے علاوہ یہودی،عیسائی مسلمان،مشرکین عرب اورشرق اوسط کے صابئی سب ابراہیم علیہ السلام کی بزرگی کے قائل تھے ،اس کے علاوہ ابراہیم علیہ السلام ان سب ملتوں کی پیدائش سے پہلے گزرے ہیں اس لئے فرمایا ملت موسیٰ یاملت عیسیٰ علیہ السلام یاکسی اورملت کے بجائے ملت ابراہیم علیہ السلام کواختیارکروجوان ملتوں میں سے کسی کے پیرونہ تھے ،جیسے فرمایا

قُلْ اِنَّنِیْ ہَدٰىنِیْ رَبِّیْٓ اِلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ۝۰ۥۚ دِیْنًا قِــیَمًا مِّلَّةَ اِبْرٰہِیْمَ حَنِیْفًا۝۰ۚ وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِیْنَ۝۱۶۱ [102]

ترجمہ:اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! کہو میرے رب نے بالیقین مجھے سیدھا راستہ دکھا دیا ہے، بالکل ٹھیک دین جس میں کوئی ٹیڑھ نہیں ، ابراہیم علیہ السلام کا طریقہ جسے یکسو ہو کر اس نے اختیار کیا تھا اور وہ مشرکوں میں سے نہ تھا۔

یعنی یہ دین اسلام جسے اللہ نے تمہارے لئے پسندکیاہے تمہارے باپ ابراہیم علیہ السلام کادین ہے ،لہذااسی کی پیروی کرواورمحمدﷺتمہیں اسی ملت کی طرف دعوت دے رہے ہیں ،اورہم نے آغازتاریخ انسانی سے توحید،آخرت،رسالت اور کتب الٰہی کے ماننے والوں کانام مسلم رکھاتھایعنی اس ملت حق کے ماننے والے پہلے بھی نوحی ، ابراہیمی،موسوی،مسیحی وغیرہ نہیں کہلاتے تھے بلکہ ان کانام مسلم (اللہ کے تابع فرمان) تھااورآج بھی وہ محمدی نہیں بلکہ مسلم ہیں ،یعنی قدیم اورجدیدزمانے میں تمہیں مسلم کے نام ہی سے پکاراجاتارہاہے ،

حَدَّثَهُ أَنَّ الحَارِثَ الأَشْعَرِیَّ،قَالَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: وَمَنْ ادَّعَى دَعْوَى الجَاهِلِیَّةِ فَإِنَّهُ مِنْ جُثَا جَهَنَّم، فَقَالَ رَجُلٌ: یَا رَسُولَ اللهِ وَإِنْ صَلَّى وَصَامَ؟ فَقَالَ رَجُلٌ: یَا رَسُولَ اللهِ وَإِنْ صَلَّى وَصَامَ؟قَالَ: وَإِنْ صَلَّى وَصَامَ، فَادْعُوا بِدَعْوَى اللهِ الَّذِی سَمَّاكُمُ المُسْلِمِینَ المُؤْمِنِینَ، عِبَادَ اللهِ

حارث رضی اللہ عنہ سے مروی ہےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جوشخص جاہلیت کے دعوےکرے (یعنی باپ دادؤں پر، حسب نسب پرفخرکرے،دوسرے مسلمانوں کوکمینہ اورہلکاخیال کرے )وہ جہنم کاایندھن ہے،کسی نے پوچھااے اللہ کےرسولﷺ!اگرچہ وہ روزے رکھتاہو؟اورنمازیں بھی پڑھتا ہو ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاہاں ہاں اگرچہ وہ روزے داراورنمازی ہو،اللہ تعالیٰ نے جونام تمہارے رکھے ہیں انہی ناموں سے اپنے آپ کومنسوب کرواوردوسرے مسلمانوں کوبھی پکارا کرو۔[103]

اس روایت کی سندمیں علی بن زیدضعیف راوی ہے۔

تاکہ رسول تمہارے اچھے اوربرے اعمال کی گواہی دیں اور تم انبیاء ورسل کے حق میں ان کی امتوں کے خلاف گواہی دوگے،جیسے فرمایا

 فَكَیْفَ اِذَا جِئْنَا مِنْ كُلِّ اُمَّةٍؚبِشَہِیْدٍ وَّجِئْنَا بِكَ عَلٰی ہٰٓؤُلَاۗءِ شَہِیْدًا۝۴۱ۭ۬            [104]

ترجمہ:پھر سوچو کہ اس وقت یہ کیا کریں گے جب ہم ہر امت میں سے ایک گواہ لائیں گے اور ان لوگوں پر تمہیں (یعنی محمد ﷺ) کو گواہ کی حیثیت سے کھڑا کریں گے۔

وَیَوْمَ نَبْعَثُ فِیْ كُلِّ اُمَّةٍ شَہِیْدًا عَلَیْہِمْ مِّنْ اَنْفُسِہِمْ وَجِئْنَا بِكَ شَہِیْدًا عَلٰی ہٰٓؤُلَاۗءِ۔۔۔۝۸۹ۧ      [105]

ترجمہ:(اے نبی ﷺ! انہیں اس دن سے خبردار کر دو) جب کہ ہم ہر امت میں خود اسی کے اندر سے ایک گواہ اٹھا کھڑا کریں گے جو اس کے مقابلہ میں شہادت دے گا، اور ان لوگوں کے مقابلے میں شہادت دینے کے لیے ہم تمہیں لائیں گے ۔

چنانچہ اللہ کادامن مضبوطی کے ساتھ تھام لو،قانون زندگی بھی اسی سے لو،اطاعت بھی اسی کی کرو،اسی سے خوف وطمع رکھو،اسی سے اپنی امیدیں وابستہ رکھو،اپنی مشکلات اورپریشانیوں میں اسی کے حضوراپنے ہاتھ پھیلاؤ،اوراپنے توکل واعتمادکاسہارابھی اسی کی ذات کوبناؤ،وہی تمہارے تمام امورکی دیکھ بھال کرنے والاہے،اللہ تعالیٰ جس کی سرپرستی کرتاہے تووہ بہترین سرپرست ہے۔

وَیَقُوْلُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَوْلَا نُزِّلَتْ سُوْرَةٌ۝۰ۚ فَاِذَآ اُنْزِلَتْ سُوْرَةٌ مُّحْكَمَةٌ وَّذُكِرَ فِیْهَا الْقِتَالُ۝۰ۙ رَاَیْتَ الَّذِیْنَ فِیْ قُلُوْبِهِمْ مَّرَضٌ یَّنْظُرُوْنَ اِلَیْكَ نَظَرَ الْمَغْشِیِّ عَلَیْهِ مِنَ الْمَوْتِ۝۰ۭ فَاَوْلٰى لَهُمْ۝۲۰ۚ        [106]

ترجمہ:جولوگ ایمان لائے وہ کہہ رہے تھے کہ کوئی سورت کیوں نازل نہیں کی جاتی (جس میں جنگ کاحکم دیاجائے )مگرجب ایک محکم سورت نازل کردی گئی جس میں جنگ کاذکرتھاتوتم نے دیکھاکہ جن کے دلوں میں بیماری تھی وہ تمہاری طرف اس طرح دیکھ رہے ہیں جیسے کسی پرموت چھاگئی ہو۔

منافقین کاکردار:مگرجولوگ منافقت کے ساتھ مسلمانوں کے گروہ میں شامل ہوگئے تھے ان کاحال مومنوں کے حال سے بالکل مختلف تھا،وہ اپنی جان ومال کواللہ اوراس کے دین سے عزیزتررکھتے تھے اوراس کے لئے کوئی خطرہ مول لینے کوتیارنہ تھے،جنگ کاحکم نے آتے ہی ان کواورسچے اہل ایمان کوایک دوسرے سے چھانٹ کرالگ کردیا،جب تک یہ حکم نہ آیاتھاان میں اورعام اہل ایمان میں بظاہرکوئی فرق وامتیازنہ پایاجاتاتھا،نمازوہ بھی پڑھتے تھے اوریہ بھی،روزے رکھنے میں بھی انہیں تامل نہ تھا،ٹھنڈاٹھنڈااسلام انہیں قبول تھا مگرجب اسلام کے لئے جان کی بازی لگانے کاوقت آیاتوان کے نفاق کاحال کھل گیااورنمائشی ایمان کاوہ لبادہ اترگیاجوانہوں نے اوپرسے اوڑھ رکھاتھا،اورجان کے خوف ،ایمان کی کمزوری اورنفاق کی بزدلی کی وجہ سے ان کے چہروں پرموت کی زردی چھاگئی ۔

اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِیْنَ قِیْلَ لَھُمْ كُفُّوْٓا اَیْدِیَكُمْ وَاَقِیْمُوا الصَّلٰوةَ وَاٰتُوا الزَّكٰوةَ۝۰ۚ فَلَمَّا كُتِبَ عَلَیْهِمُ الْقِتَالُ اِذَا فَرِیْقٌ مِّنْھُمْ یَخْشَوْنَ النَّاسَ كَخَشْـیَةِ اللهِ اَوْ اَشَدَّ خَشْـیَةً۝۰ۚ وَقَالُوْا رَبَّنَا لِمَ كَتَبْتَ عَلَیْنَا الْقِتَالَ۝۰ۚ لَوْلَآ اَخَّرْتَنَآ اِلٰٓى اَجَلٍ قَرِیْبٍ۝۰ۭ قُلْ مَتَاعُ الدُّنْیَا قَلِیْلٌ۝۰ۚ وَالْاٰخِرَةُ خَیْرٌ لِّمَنِ اتَّقٰى۝۰ۣ وَلَا تُظْلَمُوْنَ فَتِیْلًا۝۷۷اَیْنَ مَا تَكُوْنُوْا یُدْرِكْكُّمُ الْمَوْتُ وَلَوْ كُنْتُمْ فِیْ بُرُوْجٍ مُّشَـیَّدَةٍ۝۰ۭ وَاِنْ تُصِبْھُمْ حَسَـنَةٌ یَّقُوْلُوْا هٰذِهٖ مِنْ عِنْدِ اللهِ۝۰ۚ وَاِنْ تُصِبْھُمْ سَیِّئَةٌ یَّقُوْلُوْا هٰذِهٖ مِنْ عِنْدِكَ۝۰ۭ قُلْ كُلٌّ مِّنْ عِنْدِ اللهِ۝۰ۭ فَمَالِ هٰٓؤُلَاۗءِ الْقَوْمِ لَا یَكَادُوْنَ یَفْقَهُوْنَ حَدِیْثًا۝۷۸      [107]

ترجمہ:تم نے ان لوگوں کوبھی دیکھاجن سے کہاگیاتھاکہ اپنے ہاتھ روکے رکھواورنمازقائم کرواورزکوٰة دو؟اب جوانہیں لڑائی کاحکم دیاگیاتوان میں سے ایک فریق کاحال یہ ہے کہ لوگوں سے ایساڈررہے ہیں جیسااللہ سے ڈرناچاہیے یاکچھ اس سے بھی بڑھ کر،کہتے ہیں اللہ یہ ہم پرلڑائی کاحکم کیوں لکھ دیا؟کیوں نہ ہمیں ابھی کچھ اورمہلت دیتا؟ان سے کہودنیاکاسرمایہ زندگی تھوڑاہے اورآخرت ایک خداترس انسان کے لئے زیادہ بہترہےاورتم پرظلم کاایک شمہ برابربھی نہ کیاجائے گا،رہی موت توجہاں بھی تم ہووہ بہرحال تمہیں آکررہے گی خواہ تم کیسی ہی مضبوط عمارتوں میں ہو،اگرانہیں کوئی فائدہ پہنچتاہے توکہتے ہیں یہ اللہ کی طرف سے ہے اوراگرکوئی نقصان پہنچتاہے توکہتے ہیں کہ اے نبی ! یہ آپ کی بدولت ہے کہوسب کچھ اللہ ہی کی طرف سے ہے ،آخران لوگوں کوکیاہوگیاہے کہ کوئی بات ان کی سمجھ میں نہیں آتی۔

جب مدینہ میں مسلمانوں کو قتال کی اجازت دے دی گئی تومنافقین نے کمزوری اورپست ہمتی کااظہارکیا،اللہ تعالیٰ نے اس پر ان کی آرزویاددلاکرفرمایا کہ جب یہ حکم جہادخودان کی اپنی خواہش کے عین مطابق ہے تو اب یہ مسلمان حکم جہادسن کرخوف زدہ کیوں ہورہے ہیں ،اورکہتے ہیں اے اللہ! تونے قتال کی فرضیت کچھ عرصہ اورموخرکیوں نہ کر دی،اللہ تعالیٰ نے فرمایانادانوں !تم فانی دنیاکی لذتوں اورراحتوں پرریجھ گئے حالانکہ دنیاکی لذت اورراحت سے فائدہ اٹھانابہت ہی کم عرصہ کے لئے ہے آخرکارانہوں نے ختم ہو جاناہے ،اگرتم ان دنیاوی لذات کامقابلہ آخرت کی نعمتوں سے کرو جوہمیشہ رہنے والی ہیں توان کی توکوئی نسبت ہی نہیں بنتی،اس لئے غوروفکرکروکہ کون ساگھرترجیح کامستحق ہے ،کس کے لئے کوشش کرنی چاہیے اورکس کی طلب میں جدوجہدکرنی چاہیے،اے لوگو!اگرتم اللہ کے دین کی خدمت بجالاؤگے اوراس کی راہ میں جانفشانی دکھاؤگے تویہ ممکن نہیں ہے کہ اللہ کے ہاں تمہارااجرضائع ہوجائےاورموت کے خوف سے تم جہادفی سبیل اللہ کرویانہ کروموت توبہرحال اپنے وقت مقررہ پرتم پرآجائے گی ،چاہئے اس سے بچنے کے لئے تم مضبوط قلعوں اوربرجوں میں ہی کیوں نہ پناہ لے لو،جب موت سے تم بچ ہی نہیں سکتے توپھرموت سے ڈرناکیسا،اس لئے تمہیں موت اس حالت میں آنی چاہیے کہ تم اللہ کی راہ میں ،اللہ کے دین کی سربلندی کے لئے کام کرتے ہوئے آئے،ان منافقین نے بھی سابقہ ا مت کے منکرین کی طرح کہاکہ خوش حالی ،غلے کی پیداوار، مال واولادکی فراوانی وغیرہ اللہ کی طرف سے ہے اوربارش کانہ ہونا،قحط سالی،فصلوں اورپھلوں میں کمی اور مال واولاد کاکم ہوناوغیرہ تیرے دین کواختیارکرنے کے نتیجے میں آئی ہے (یعنی نعوذباللہ تیری نحوست کانتیجہ ہے) حالانکہ بھلائی اوربرائی دونوں اللہ ہی کی طرف سے ہیں لیکن یہ لوگ قلت فہم وعلم اورکثرت جہل وظلم کی وجہ سے اس بات کوسمجھ نہیں پاتے۔

 وَیَقُوْلُوْنَ طَاعَةٌ۝۰ۡفَاِذَا بَرَزُوْا مِنْ عِنْدِكَ بَیَّتَ طَاۗىِٕفَةٌ مِّنْھُمْ غَیْرَ الَّذِیْ تَقُوْلُ۝۰ۭ وَاللهُ یَكْتُبُ مَا یُبَیِّتُوْنَ۝۰ۚ فَاَعْرِضْ عَنْھُمْ وَتَوَكَّلْ عَلَی اللهِ۝۰ۭ وَكَفٰى بِاللهِ وَكِیْلًا۝۸      [108]

ترجمہ:وہ منہ پرکہتے ہیں کہ ہم مطیع فرمان ہیں مگرجب تمہارے پاس سے نکلتے ہیں توان میں سے ایک گروہ راتوں کوجمع ہوکرتمہاری باتوں کے خلاف مشورے کرتاہے ،اللہ ان کی یہ ساری سرگوشیاں لکھ رہاہے ،تم ان کی پرواہ نہ کرواوراللہ پربھروسہ رکھووہی بھروسہ کے لئے کافی ہے۔

چنانچہ یہ منافقین دن کی روشنی میں تودوسرے راسخ العقیدہ مسلمانوں کے ساتھ اپنی اطاعت کامظاہرہ کرتے،بظاہرارکان اسلام کی پابندی کرتے مگر راتوں کی تنھائیوں میں کہیں جمع ہوتے اورسرگوشیوں میں اسلام دشمن قوتوں کے ساتھ مل کررسول اللہﷺاوردین اسلام کوزک پہنچانے کی منصوبہ بندی کرتے رہتے،مگریہ بھول جاتے کہ ایک ہستی جو علام الغیوب ہے ان کودیکھ رہی ہے اوران کی ہرحرکت کوقلم بندکررہی ہے۔

فَقَاتِلْ فِیْ سَبِیْلِ اللهِ۝۰ۚ لَا تُكَلَّفُ اِلَّا نَفْسَكَ وَحَرِّضِ الْمُؤْمِنِیْنَ۝۰ۚ عَسَى اللهُ اَنْ یَّكُفَّ بَاْسَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا۝۰ۭ وَاللهُ اَشَدُّ بَاْسًا وَّاَشَدُّ تَنْكِیْلًا         [109]

ترجمہ:پس اے نبیﷺ!تم اللہ کی راہ میں لڑو،تم اپنی ذات کے سواکسی اورکے لئے ذمہ دارنہیں ہو،البتہ اہل ایمان کولڑنے کے لئے اکساؤبعیدنہیں کہ اللہ کافروں کا زور توڑدے،اللہ کازورسب سے زیادہ زبردست اوراس کی سزاسب سے زیادہ سخت ہے۔

اللہ سبحان وتعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوتسلی فرمائی کہ آپ ان لوگوں کی پرواہ نہ کریں اورہدایت فرمائی کہ جوراسخ العقیدہ مسلمان ہیں انہیں جہادکے لئے تیارکریں ،ان شاءاللہ ،اللہ ان کی جمعیت اوران کازوروطاقت خاک میں ملادے گا۔

اسی سال مشرکین مکہ کے دوسردار ولیدبن مغیرہ اور عمروبن العاص رضی اللہ عنہ فاتح مصرکے والدعاص بن وائل بھی انتقال کرگئے۔

[1] الزمر۳۶

[2] الطلاق۳

[3] الممتحنة۱

[4] البروج۸

[5]البقرة۱۹۰

[6] البقرة۱۹۱

[7] البقرة۱۹۳

[8] البقرة۲۱۶

[9] البقرة۲۴۴

[10] البقرة ۲۵۱

[11] البقرة ۲۴۵

[12]الصافات ۱۷۱ تا ۱۷۳

[13] المجادلة۲۱

[14] محمد۷

[15] النور۵۵

[16] العنکبوت۴۰

[17] تفسیرابن کثیر ۳۸۴؍۵

[18] هود: 102

[19] صحیح بخاری كِتَابُ تَفْسِیرِ القُرْآنِ بَابُ قَوْلِهِ وَكَذَلِكَ أَخْذُ رَبِّكَ إِذَا أَخَذَ القُرَى وَهِیَ ظَالِمَةٌ إِنَّ أَخْذَهُ أَلِیمٌ شَدِیدٌ۴۶۸۶،صحیح مسلم كتاب الْبِرِّ وَالصِّلَةِ وَالْآدَابِ بَابُ تَحْرِیمِ الظُّلْمِ۶۵۸۱،جامع ترمذی أَبْوَابُ تَفْسِیرِ الْقُرْآنِ بَابٌ وَمِنْ سُورَةِ هُودٍ۳۱۱۰،سنن ابن ماجہ كِتَابُ الْفِتَنِ بَابُ الْعُقُوبَاتِ۴۰۱۸

[20] النسائ۷۸

[21] التفکروالاعتبار

[22] الانفال۳۲

[23] ص۱۶

[24] ابراہیم۴۷

[25] الروم۶

[26] الرعد۴۱

[27] الواقعة۵۰

[28] الانعام۴۴

[29] الاعراف۹۵

[30] شعب الایمان۹۸۹۷،جامع ترمذی أَبْوَابُ الزُّهْدِبَابُ مَا جَاءَ أَنَّ فُقَرَاءَ الْمُهَاجِرِینَ یَدْخُلُونَ الجَنَّةَ قَبْلَ أَغْنِیَائِهِمْ ۲۳۵۱

[31] سنن ابوداودكِتَاب الْمَلَاحِمِ بَابُ قِیَامِ السَّاعَةِ۴۳۵۰، مسند احمد۱۴۶۵

[32] تفسیرابن ابی حاتم ۲۴۹۹؍۸

[33] النحل۸۸

[34] الدر المنثور۵۰۵؍۳

[35] الفرقان۲۶

[36] المومن۱۶

[37] المومن۶۰

[38] النساء ۱۰۰

[39] آل عمران۱۶۹

[40] الذاریات۵۸

[41] سبا۳۹

[42] المومن۱۹

[43] الواقعة۸۸،۸۹

[44] صحیح بخاری کتاب بدئ الخلق بَابُ مَا جَاءَ فِی صِفَةِ الجَنَّةِ وَأَنَّهَا مَخْلُوقَةٌ ۳۲۴۴،صحیح مسلم كتاب الْجَنَّةِ وَصِفَةِ نَعِیمِهَا وَأَهْلِهَاباب صفة الجنة۷۱۳۳

[45] معرفة السنن والآثار۱۷۱۸۵

[46] معرفة السنن والآثار۱۷۱۸۶

[47] آل عمران ۲۶

[48] آل عمران۲۷

[49] لقمان۲۹

[50] فاطر۱۳

[51] الحدید۶

[52] الاعراف۵۴

[53] آل عمران۲۷

[54] الانعام۹۵

[55] یونس۳۱

[56] الروم۱۹

[57] الرعد۲۶

[58] بنی اسرائیل۳۰

[59] العنکبوت۶۲

[60] الرعد۱۰

[61] الحدید۳

[62] الحشر۲۴

[63] الزمر۶۷

[64] البقرة۲۵۵

[65] ھود۵۶

[66] الانعام۹۹

[67] النحل۱۰،۱۱

[68] الزمر۲۱

[69] الزخرف۱۱

[70] الروم۱۹

[71] الروم۵۰

[72] فاطر۹

[73] فاطر۴۱

[74] الرعد۶

[75] البقرة۲۸

[76] الجاثیة۲۶

[77] المائدة۴۸

[78] الجاثیة ۱۸

[79] فتح القدیر ۵۵۴؍۳

[80] القصص۸۷

[81] النمل۷۹

[82] صحیح مسلم کتاب القدربَابُ حِجَاجِ آدَمَ وَمُوسَى عَلَیْهِمَا السَّلَامُ۶۷۴۸

[83] سنن ابوداودکتاب السنة بَابٌ فِی الْقَدَرِ۴۷۰۰،جامع ترمذی ابواب تفسیر القرآن بَاب وَمِنْ سُورَةِ ن والقلم۳۳۱۹، وكِتَاب السُّنَّةِبَابٌ فِی الْقَدَرِ۴۷۰۰، مسنداحمد۲۲۷۰۷

[84] سنن ابوداودکتاب السنة بَابٌ فِی الْقَدَرِ۴۶۹۱

[85] الاعراف۲۸

[86] الانبیائ۵۳

[87] الشعرائ۷۴

[88] الزخرف۲۲،۲۳

[89] المومنون۱۱۷

[90] فتح القدیر۴۵۴؍۳

[91] الفرقان۶۶

[92] الفرقان۳

[93] الرعد۱۶

[94] آل عمران۲۶

[95]صحیح بخاری کتاب اللباس بَابُ نَقْضِ الصُّوَرِ۵۹۵۳ ، مسند احمد ۱۰۸۱۹

[96] صحیح مسلم كتاب اللِّبَاسِ وَالزِّینَةِ باب تحریم تصویرصورة الحیوان۵۵۴۳،، مسنداحمد۷۱۶۶

[97] الانعام۱۲۴

[98] البقرة۱۴۳

[99] آل عمران۱۱۰

[100] الاعراف ۱۵۷

[101] صحیح بخاری کتاب الجہادبَابُ مَا یُكْرَهُ مِنَ التَّنَازُعِ وَالِاخْتِلاَفِ فِی الحَرْبِ، وَعُقُوبَةِ مَنْ عَصَى إِمَامَهُ۳۰۳۸،صحیح مسلم کتاب الجہاد بَابٌ فِی الْأَمْرِ بِالتَّیْسِیرِ، وَتَرْكِ التَّنْفِیرِ۴۵۲۶

[102] الانعام۱۶۱

[103]جامع ترمذی کتاب الامثال بَابُ مَا جَاءَ فِی مَثَلِ الصَّلاَةِ وَالصِّیَامِ وَالصَّدَقَةِ ۲۸۶۳

[104] النسائ۴۱

[105] النحل۸۹

[106] محمد۲۰

[107] النسائ۷۷،۷۸

[108] النسائ۸۱

[109]النسائ۸۴

Related Articles