ہجرت نبوی کا پہلا سال

مستحق صدقات کون ہیں

لَّیْسَ عَلَیْكَ هُدَاهُمْ وَلَٰكِنَّ اللَّهَ یَهْدِی مَن یَشَاءُ ۗ وَمَا تُنفِقُوا مِنْ خَیْرٍ فَلِأَنفُسِكُمْ ۚ وَمَا تُنفِقُونَ إِلَّا ابْتِغَاءَ وَجْهِ اللَّهِ ۚ وَمَا تُنفِقُوا مِنْ خَیْرٍ یُوَفَّ إِلَیْكُمْ وَأَنتُمْ لَا تُظْلَمُونَ ‎﴿٢٧٢﴾‏ لِلْفُقَرَاءِ الَّذِینَ أُحْصِرُوا فِی سَبِیلِ اللَّهِ لَا یَسْتَطِیعُونَ ضَرْبًا فِی الْأَرْضِ یَحْسَبُهُمُ الْجَاهِلُ أَغْنِیَاءَ مِنَ التَّعَفُّفِ تَعْرِفُهُم بِسِیمَاهُمْ لَا یَسْأَلُونَ النَّاسَ إِلْحَافًا ۗ وَمَا تُنفِقُوا مِنْ خَیْرٍ فَإِنَّ اللَّهَ بِهِ عَلِیمٌ ‎﴿٢٧٣﴾‏(البقرة(
’’انہیں ہدایت پر کھڑا کرنا تیرے ذمے نہیں بلکہ ہدایت اللہ تعالیٰ دیتا ہے جسے چاہتا ہے اور تم جو بھلی چیز اللہ کی راہ میں دو گے اس کا فائدہ خود پاؤ گے،تمہیں صرف اللہ کی رضامندی کی طلب کے لیے ہی خرچ کرنا چاہیے تم جو کچھ مال خرچ کرو گے اس کا پورا پورا بدلہ تمہیں دیا جائے گا اور تمہارا حق نہ مارا جائے گا، ان ضرورت مندوں کا حق ہے جو اللہ کی راہ میں گھر کر بیٹھ گئے ہوں کیونکہ انہیں یہ طاقت ہی نہیں رہی کہ وہ معیشت کی تلاش کرسکیں ، ناواقف آدمی دیکھے تو خیال کرے کہ انہیں کسی طرح کی احتیاج نہیں ، کیونکہ ان کی ظاہری حالت ایسی ہے تم غوروفکر ہی سے ان کی حالت جان سکتے ہو ، وہ لوگوں کے پیچھے پڑ کر کبھی سوال کرنے والے نہیں تم جو کچھ بھی نیکی کی راہ میں خرچ کرو گے اللہ اس کا علم رکھنے والا ہے ۔‘‘

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: كَانُوا لَا یَرْضَخُونَ لِأَنْسِبَائِهِمْ، وَهُمْ مُشْرِكُونَ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں مسلمان اپنے مشرک عزیزواقراباکی مالی مددکرناجائزنہیں سمجھتے تھے،وہ چاہتے تھے کہ وہ دین حق قبول کرلیں ۔[1]

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ كَانَ یَأْمُرُ بِأَلَّا یُصَّدَّقَ إِلَّا عَلَى أَهْلِ الْإِسْلَامِ، حَتَّى نَزَلَتْ هَذِهِ الْآیَةُ: {لَیْسَ عَلَیْكَ هُدَاهُمْ}[2]إِلَى آخِرِهَا، فَأَمَرَ بِالصَّدَقَةِ بَعْدَهَا عَلَى كُلِّ مَنْ سَأَلَكَ،

اورعبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ صدقہ صرف مسلمانوں کو دیا جائے حتی کہ یہ آیت نازل ہوئی ’’ لوگوں کوہدایت بخش دینے کی ذمے داری تم پرنہیں ہےہدایت تواللہ جسے چاہتاہے بخشتا ہےاورخیرات میں جومال تم خرچ کرتے ہووہ تمہارے اپنے لیے بھلاہے،آخرتم اسی لیے توخرچ کرتے ہوکہ اللہ کی رضاحاصل ہوتو جو کچھ مال تم خیرات میں خرچ کروگے اس کاپوراپورااجرتمہیں دیاجائے گااورتمہاری حق تلفی ہرگزنہ ہوگی۔‘‘توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاہرسائل کودوگوکوئی بھی مذہب ہو۔[3]

جیسے ایک مقام پرفرمایا

مَنْ عَمِلَ صَالِحًــا فَلِنَفْسِهٖ وَمَنْ اَسَاۗءَ فَعَلَیْهَا۝۰ۭ وَمَا رَبُّكَ بِظَلَّامٍ لِّـلْعَبِیْدِ۝۴۶   [4]

ترجمہ:جو کوئی نیک عمل کرے گا اپنے ہی لیے اچھا کرے گا ، جو بدی کرے گا اس کا وبال اسی پر ہوگا اور تیرا رب اپنے بندوں کے حق میں ظالم نہیں ہے۔

آخرتم اپنے پاکیزہ مال اسی لیے توخرچ کرتے ہوکہ اللہ کی رضاوخوشنودی حاصل ہوجائے،

عَنِ الْحَسَنِ، فِی قَوْلِهِ: {وَمَا تُنْفِقُونَ إِلَّا ابْتِغَاءَ وَجْهِ اللهِ} قَالَ: نَفَقَةُ الْمُؤْمِنِ لِنَفْسِهِ وَلَا یُنْفِقُ الْمُؤْمِنُ إِذَا أَنْفَقَ إِلَّا ابْتِغَاءَ وَجْهِ اللهِ

حسن بصری رحمہ اللہ آیت کریمہ ’’تمہیں صرف اللہ کی رضامندی کی طلب کے لیے ہی خرچ کرنا چاہیے۔‘‘کے بارے میں فرماتے ہیں مومن کاخرچ کرنااپنے ہی فائدے کے لیے ہوتاہے اورمومن جب بھی خرچ کرتاہے اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے حصول ہی کے لیے خرچ کرتاہے۔[5]

وَقَالَ عَطَاءٌ الْخُرَاسَانِیُّ: یَعْنِی إِذَا أَعْطَیْتَ لِوَجْهِ اللهِ، فَلَا عَلَیْكَ مَا كَانَ عملُه

عطاءخراسانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ جب تم اللہ کی رضاکے لیے دوتواس سے کوئی فرق نہیں پڑتاکہ لینے والے کاعمل کیساہے۔[6]

توجوکچھ مال تم اللہ کی راہ میں خیرات میں خرچ کروگےاللہ تعالیٰ قیامت کے دن تمہیں اس کاپوراپورااجروثواب عطافرمائے گااورتمہارے نیک اعمال میں ذرہ برابرکمی نہیں کی جائے گی،

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: قَالَ رَجُلٌ: لَأَتَصَدَّقَنَّ بِصَدَقَةٍ، فَخَرَجَ بِصَدَقَتِهِ، فَوَضَعَهَا فِی یَدِ سَارِقٍ، فَأَصْبَحُوا یَتَحَدَّثُونَ: تُصُدِّقَ عَلَى سَارِقٍ فَقَالَ: اللَّهُمَّ لَكَ الحَمْدُ، لَأَتَصَدَّقَنَّ بِصَدَقَةٍ، فَخَرَجَ بِصَدَقَتِهِ فَوَضَعَهَا فِی یَدَیْ زَانِیَةٍ، فَأَصْبَحُوا یَتَحَدَّثُونَ: تُصُدِّقَ اللَّیْلَةَ عَلَى زَانِیَةٍ، فَقَالَ: اللَّهُمَّ لَكَ الحَمْدُ، عَلَى زَانِیَةٍ؟ لَأَتَصَدَّقَنَّ بِصَدَقَةٍ، فَخَرَجَ بِصَدَقَتِهِ، فَوَضَعَهَا فِی یَدَیْ غَنِیٍّ، فَأَصْبَحُوا یَتَحَدَّثُونَ: تُصُدِّقَ عَلَى غَنِیٍّ، فَقَالَ: اللَّهُمَّ لَكَ الحَمْدُ، عَلَى سَارِقٍ وَعَلَى زَانِیَةٍ وَعَلَى غَنِیٍّ، فَأُتِیَ فَقِیلَ لَهُ: أَمَّا صَدَقَتُكَ عَلَى سَارِقٍ فَلَعَلَّهُ أَنْ یَسْتَعِفَّ عَنْ سَرِقَتِهِ، وَأَمَّا الزَّانِیَةُ فَلَعَلَّهَا أَنْ تَسْتَعِفَّ عَنْ زِنَاهَا، وَأَمَّا الغَنِیُّ فَلَعَلَّهُ یَعْتَبِرُ فَیُنْفِقُ مِمَّا أَعْطَاهُ اللَّهُ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاایک شخص نے(بنی اسرائیل میں سے) کہا مجھے (آج رات)ضرورصدقہ دیناہے،چنانچہ وہ اپناصدقہ لے کر نکلا اور (ناواقفی سے)ایک چورکے ہاتھ میں رکھ دیا،صبح ہوئی تولوگوں نے کہناشروع کیاکہ آج رات کسی نے چورکوصدقہ دے دیا،اس شخص نے کہاکہ اے اللہ!تمام تعریف تیرے ہی لئے ہے (آج رات)میں پھرضرورصدقہ کروں گا،چنانچہ وہ دوبارہ صدقہ لے کرنکلااوراس مرتبہ ایک فاحشہ کے ہاتھ میں دے آیا،جب صبح ہوئی توپھر لوگوں میں چرچاہواکہ آج رات کسی نے فاحشہ عورت کوصدقہ دے دیا،اس شخص نے کہااے اللہ!تمام تعریف تیرے ہی لئے ہے،میں زانیہ کواپناصدقہ دے آیااچھاآج رات پھرضرورصدقہ نکالوں گا،چنانچہ اپناصدقہ لئے ہوئے وہ پھرنکلااوراس مرتبہ ایک مالدارکے ہاتھ پررکھ دیا،صبح ہوئی تولوگوں کی زبان پرذکرتھاکہ ایک مالدارکوکسی نے صدقہ دے دیاہے،اس شخص نے کہاکہ اے اللہ!حمدتیرے ہی لئے ہے ،میں اپناصدقہ (لاعلمی سے)چور،فاحشہ اورمالدارکودے آیا،(اللہ تعالیٰ کی طرف سے)بتایاگیاکہ جہاں تک چورکے ہاتھ میں صدقہ چلےجانے کاسوال ہے تواس میں اس کاامکان ہے کہ وہ چوری سے رک جائے ،اسی طرح فاحشہ کوصدقہ کامال مل جانے پراس کاامکان ہے کہ وہ زناسے رک جائےاورمالدارکے ہاتھ میں صدقہ پڑجانے کایہ فائدہ ہے کہ اسے عبرت ہواورپھرجوعزوجل نے اسے عطاکیاہے وہ خرچ کرے۔ [7]

تمہارے صدقہ وخیرات کےخاص طور پرمستحق وہ مہاجرین (اصحاب صفہ) ہیں جواپناسب کچھ چھوڑکراللہ کی رضاکے لیےمکہ مکرمہ سے ہجرت کرکے مدینہ منورہ آگئے ہیں اور انہوں نے اپناوقت رضاکارانہ طورپر دین کی خدمت کے لئے وقف کردیاہے اس لئےاپنی ذاتی کسب معاش کے لیے جدوجہد نہیں کر سکتےمگران کی خودداری کایہ عالم ہے ناواقف آدمی ان کےظاہری حال اورگفتگوسے یہ گمان کرتا ہے کہ یہ خوش حال لوگ ہیں ،صاحب بصیرت ان کے چہروں سے ان کی اندرونی حالت پہچان سکتے ہیں ،جیسے ایک مقام پر فرمایا

 ۔۔۔سِیْمَاهُمْ فِیْ وُجُوْهِهِمْ مِّنْ اَثَرِ السُّجُوْدِ۔۔۔ ۝۲۹ۧ [8]

ترجمہ:سجودکے اثرات ان کے چہروں پرموجودہیں ۔

۔۔۔وَلَتَعْرِفَنَّهُمْ فِیْ لَحْنِ الْـقَوْلِ ۔۔۔ ۝۳۰          [9]

ترجمہ:مگران کے اندازکلام سے سے توتم ان کوجان ہی لوگے۔

مگروہ ایسے لوگ نہیں ہیں کہ لوگوں کے پیچھے پڑکرکچھ مانگیں ،

أَبَا هُرَیْرَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ،عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:لَیْسَ المِسْكِینُ الَّذِی تَرُدُّهُ الأُكْلَةَ وَالأُكْلَتَانِ، وَلَكِنِ المِسْكِینُ الَّذِی لَیْسَ لَهُ غِنًى، وَیَسْتَحْیِی أَوْ لاَ یَسْأَلُ النَّاسَ إِلْحَافًا

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مسکین وہ نہیں ہے جسے ایک دولقمے دردپھرائیں ، مسکین تووہ ہے جس کے پاس مال نہیں ،لیکن اسے سوال سے شرم آتی ہے اوروہ لوگوں سے چمٹ کرنہیں مانگتا [10]

أَبِی سَعِیدٍ الْخُدْرِیِّ، عَنْ أَبِیهِ، قَالَ:سَرَّحَتْنِی أُمِّی إِلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَسْأَلُهُ، فَأَتَیْتُهُ فَقَعَدْتُ، قَالَ: فَاسْتَقْبَلَنِی، فَقَالَ: مَنْ اسْتَغْنَى أَغْنَاهُ اللهُ، وَمَنْ اسْتَعَفَّ أَعَفَّهُ اللهُ، وَمَنْ اسْتَكْفَى كَفَاهُ اللهُ، وَمَنْ سَأَلَ وَلَهُ قِیمَةُ أُوقِیَّةٍ فَقَدْ أَلْحَفَ، قَالَ: فَقُلْتُ: نَاقَتِی الْیَاقُوتَةُ هِیَ خَیْرٌ مِنْ أُوقِیَّةٍ، فَرَجَعْتُ، وَلَمْ أَسْأَلْهُ

ابوسعیدخذری رضی اللہ عنہ سے مروی ہےمجھے میری والدہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں کچھ سوال کرنے کے لیے بھیجا میں آکربیٹھ گیاآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میری طرف رخ انور کیا اور فرمایاجوشخص بے نیازی اختیارکرے اللہ تعالیٰ اسے غنی کردیتاہےاور جوعفت اختیارکرتاہے اللہ تعالیٰ اسے پاکبازبنادیتاہےاور جوکفایت اختیارکرناچاہے اللہ تعالیٰ اس کے لیے کافی ہوجاتاہے اورجوشخص سوال کرے اوراس کے پاس ایک اوقیہ(چالیس درہم )کی قیمت(کی کوئی چیز)موجودہوتواس نے بھی لپٹ کرسوال کیا، ابوسعید رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے جی میں کہاکہ میری یاقوتہ اونٹنی توایک اوقیہ سے زیادہ قیمتی ہے لہذامیں واپس آگیااورمیں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال نہ کیا ۔ [11]

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ:أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:وَالَّذِی نَفْسِی بِیَدِهِ لَأَنْ یَأْخُذَ أَحَدُكُمْ حَبْلَهُ، فَیَحْتَطِبَ عَلَى ظَهْرِهِ خَیْرٌ لَهُ مِنْ أَنْ یَأْتِیَ رَجُلًا، فَیَسْأَلَهُ أَعْطَاهُ أَوْ مَنَعَهُ

اور سوال کرنے کے بجائےمحنت کرکے کمانے والے مسلمان کے بارے میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اگرکوئی شخص رسی سے لکڑیاں کابوجھ باندھ کراپنی پیٹھ پرجنگل سے اٹھالائے (پھر انہیں بازارمیں بیچ کراپنارزق حاصل کرے)تووہ اس شخص سے بہترہے جوکسی کے پاس آکرسوال کرے ،پھرجس سے سوال کیاگیاوہ اسے دے یانہ دے۔[12]

ان کی اعانت میں جوکچھ مال تم خرچ کروگے وہ اللہ سے پوشیدہ نہ رہے گااوروہ اس وقت تمہیں اس کا اجرعظیم عطا فرمائے گاجبکہ تم پورے اس کے محتاج ہوگے۔

الَّذِینَ یُنفِقُونَ أَمْوَالَهُم بِاللَّیْلِ وَالنَّهَارِ سِرًّا وَعَلَانِیَةً فَلَهُمْ أَجْرُهُمْ عِندَ رَبِّهِمْ وَلَا خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَلَا هُمْ یَحْزَنُونَ ‎﴿٢٧٤﴾‏الَّذِینَ یَأْكُلُونَ الرِّبَا لَا یَقُومُونَ إِلَّا كَمَا یَقُومُ الَّذِی یَتَخَبَّطُهُ الشَّیْطَانُ مِنَ الْمَسِّ ۚ ذَٰلِكَ بِأَنَّهُمْ قَالُوا إِنَّمَا الْبَیْعُ مِثْلُ الرِّبَا ۗ وَأَحَلَّ اللَّهُ الْبَیْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا ۚ فَمَن جَاءَهُ مَوْعِظَةٌ مِّن رَّبِّهِ فَانتَهَىٰ فَلَهُ مَا سَلَفَ وَأَمْرُهُ إِلَى اللَّهِ ۖ وَمَنْ عَادَ فَأُولَٰئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ ۖ هُمْ فِیهَا خَالِدُونَ ‎﴿٢٧٥﴾‏ یَمْحَقُ اللَّهُ الرِّبَا وَیُرْبِی الصَّدَقَاتِ ۗ وَاللَّهُ لَا یُحِبُّ كُلَّ كَفَّارٍ أَثِیمٍ ‎﴿٢٧٦﴾‏ إِنَّ الَّذِینَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ لَهُمْ أَجْرُهُمْ عِندَ رَبِّهِمْ وَلَا خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَلَا هُمْ یَحْزَنُونَ ‎﴿٢٧٧﴾‏ (البقرة)
’’جو لوگ اپنے مالوں کو رات دن چھپے کھلے خرچ کرتے ہیں ان کے لیے ان کے رب تعالیٰ کے پاس اجر ہے اور نہ انہیں خوف اور نہ غمگینی،سود خور نہ کھڑے ہوں گے مگر اسی طرح جس طرح وہ کھڑا ہوتا ہے جسے شیطان چھو کر خبطی بنا دے، یہ اس لیے کہ یہ کہا کرتے تھے کہ تجارت بھی تو سود ہی کی طرح ہے حالانکہ اللہ تعالیٰ نے تجارت کو حلال کیا اور سود کو حرام، جو شخص اللہ تعالیٰ کی نصیحت سن کر رک گیا اس کے لیے وہ ہے جو گزرا اور اس کا معاملہ اللہ تعالیٰ کی طرف ہے اور جو پھر دوبارہ (حرام کی طرف) لوٹا وہ جہنمی ہے، ایسے لوگ ہمیشہ ہی اس میں رہیں گے،اللہ تعالیٰ سود کو مٹاتا ہے اور صدقہ کو بڑھاتا ہے اور اللہ تعالیٰ کسی ناشکرے اور گناہ گار سے محبت نہیں کرتا،بیشک جو لوگ ایمان کے ساتھ (سنت کے مطابق) نیک کام کرتے ہیں نمازوں کو قائم رکھتے ہیں اور زکوة ادا کرتے ہیں ان کا اجر ان کے رب تعالیٰ کے پاس ہے ان پر نہ تو کوئی خوف ہے، نہ اداسی اور غم ۔‘‘

تجارت اورسودخوری :جولوگ اللہ کی رضاوخوشنودی کے لئے اپنے مال شب وروزعلانیہ اورچھپاکرضرورت مندوں اوررشتہ داروں پر خرچ کرتے ہیں ،حتی کہ انسان اپنے اہل وعیال پرجوخرچ کرتارہتاہے وہ بھی اس میں داخل ہے،

عَنْ سَعْدِ بْنِ أَبِی وَقَّاصٍ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: جَاءَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَعُودُنِی وَأَنَا بِمَكَّةَ ،عَادَنِی النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فِی حَجَّةِ الوَدَاعِ، وَلَسْتَ تُنْفِقُ نَفَقَةً تَبْتَغِی بِهَا وَجْهَ اللهِ إِلَّا أُجِرْتَ بِهَا، حَتَّى اللُّقْمَةَ تَجْعَلُهَا فِی فِی امْرَأَتِكَ ۔۔۔۔۔۔ إِلَّا ازْدَدْتَ بِهِ دَرَجَةً وَرِفْعَةً

سعدبن ابووقاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میری عیادت کیلئے تشریف لائے اس وقت میں مکہ میں تھااورایک روایت میں حجة الوداع کے سال عیادت فرمائی اورفرمایا۔۔۔تم اللہ تعالیٰ کی رضاکے لیے جوبھی خرچ کروگے اس سے تمہیں اجردیاجائے گاحتی کہ اس لقمے سے بھی جوتم اپنی بیوی کے منہ میں ڈالتے ہو۔۔۔اس سے تمہارے درجے اوررفعت میں اضافہ ہوگا۔[13]

عَنْ أَبِی مَسْعُودٍ، قُلْتُ: عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: إِنَّ الْمُسْلِمَ إِذَا أَنْفَقَ عَلَى أَهْلِهِ نَفَقَةً وَهُوَ یَحْتَسِبُهَا، كَانَتْ لَهُ صَدَقَةً

ابومسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایامسلمان جب اپنے اہل وعیال پرثواب کی نیت سے خرچ کرتاہے تووہ بھی اس کے لیے صدقہ ہے۔[14]

ان کااجروثواب ان کے رب کے پاس ہے اورقیامت کے روزان کے لیے کسی خوف ورنج کامقام نہیں ،مگرجولوگ سود کھاتے ہیں ،اورجولوگوں کے اموال باطل طریقوں سے مختلف حیلوں بہانوں سے کھاتے ہیں جب وہ قبرسے نکلیں گے یامیدان محشرمیں ان کی کیفیت ایسی ہوگی جیسے شیطان نے اس کو چھوکرمخبوط الحواس کردیاہو،

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ فِی قَوْلِهِ: {الَّذِینَ یَأْكُلُونَ الرِّبَا لَا یَقُومُونَ إِلَّا كَمَا یَقُومُ الَّذِی یَتَخَبَّطُهُ الشَّیْطَانُ مِنَ الْمَسِّ} قَالَ: آكِلُ الرِّبَا یُبْعَثُ یَوْمَ الْقِیَامَةِ مَجْنُونًا یُخْنَقُ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے آیت’’سود خور نہ کھڑے ہوں گے مگر اسی طرح جس طرح وہ کھڑا ہوتا ہے جسے شیطان چھو کر خبطی بنا دے۔‘‘ کی تفسیرمیں فرمایاکہ سودکھانے والے کو قیامت کے روزاس طرح اٹھایاجائے گاجیسے وہ مجنون ہواوراس کاگلاگھٹ رہاہو۔[15]

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ، قَالَ:قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:الرِّبَا سَبْعُونَ حُوبًا، أَیْسَرُهَا أَنْ یَنْكِحَ الرَّجُلُ أُمَّهُ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاسودکے ستردرجے ہیں ان میں سے سب سے کم درجے کاگناہ اس قدرہے جیسے کوئی اپنی ماں سے نکاح کرے۔[16]

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ،أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، لَعَنَ آكِلَ الرِّبَا، وَمُوكِلَهُ، وَشَاهِدِیهِ، وَكَاتِبَهُ

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاسودکھانے والے،کھلانے والے دونوں گواہی دینے والے اوراس کے لکھنے والے پراللہ تعالیٰ کی لعنت ہے ۔[17]

سَمُرَةُ بْنُ جُنْدُبٍ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مِمَّا یُكْثِرُ أَنْ یَقُولَ لِأَصْحَابِهِ: هَلْ رَأَى أَحَدٌ مِنْكُمْ مِنْ رُؤْیَا قَالَ: فَیَقُصُّ عَلَیْهِ مَنْ شَاءَ اللَّهُ أَنْ یَقُصَّ، وَإِنَّهُ قَالَ ذَاتَ غَدَاةٍ: إِنَّهُ أَتَانِی اللَّیْلَةَ آتِیَانِ، وَإِنَّهُمَا ابْتَعَثَانِی، وَإِنَّهُمَا قَالاَ لِی انْطَلِقْ، وَإِنِّی انْطَلَقْتُ مَعَهُمَا، وَإِنَّا أَتَیْنَا عَلَى رَجُلٍ مُضْطَجِعٍ، وَإِذَا آخَرُ قَائِمٌ عَلَیْهِ بِصَخْرَةٍ، وَإِذَا هُوَ یَهْوِی بِالصَّخْرَةِ لِرَأْسِهِ فَیَثْلَغُ رَأْسَهُ، فَیَتَدَهْدَهُ الحَجَرُ هَا هُنَا، فَیَتْبَعُ الحَجَرَ فَیَأْخُذُهُ، فَلاَ یَرْجِعُ إِلَیْهِ حَتَّى یَصِحَّ رَأْسُهُ كَمَا كَانَ، ثُمَّ یَعُودُ عَلَیْهِ فَیَفْعَلُ بِهِ مِثْلَ مَا فَعَلَ المَرَّةَ الأُولَى قَالَ: قُلْتُ لَهُمَا: سُبْحَانَ اللَّهِ مَا هَذَانِ؟ قَالَ: قَالاَ لِی: انْطَلِقِ انْطَلِقْ

اور سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جوباتیں صحابہ سے اکثر کیاکرتے تھے ان میں یہ بھی تھی کہ تم میں سے کسی نے کوئی خواب دیکھاہے،بیان کیاکہ پھر جو چاہتا اپناخواب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتا، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک صبح کوفرمایاکہ رات کومیرے پاس دوآنے والے آئے اورانہوں نے مجھے اٹھایااورمجھ سے کہاکہ ہمارے ساتھ چلو میں ان کے ساتھ چل دیا،پھرہم ایک لیٹے ہوئے شخص کے پاس آئے جس کے پاس ایک دوسراشخص پتھرلیے کھڑاتھااوراس کے سرپرپتھرپھینک کر مارتا تواس کاسراس سے پھٹ جاتا،پتھرلڑھک کردورچلاجاتالیکن وہ شخص پتھرکے پیچھے جاتااوراسے اٹھالاتااوراس لیٹے ہوئے شخص تک پہنچنے سے پہلے ہی اس کا سر ٹھیک ہوجاتاجیساکہ پہلے تھا،کھڑاشخص پھراسی طرح پتھراس پرمارتااوروہی صورتیں پیش آتیں جوپہلے پیش آئی تھیں ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ میں نے ان دونوں سے پوچھا سبحان اللہ یہ دونوں کون ہیں ؟فرمایاکہ مجھ سے انہوں نے کہاآگے پڑھو،آگے بڑھو

قَالَ:فَانْطَلَقْنَا، فَأَتَیْنَا عَلَى رَجُلٍ مُسْتَلْقٍ لِقَفَاهُ، وَإِذَا آخَرُ قَائِمٌ عَلَیْهِ بِكَلُّوبٍ مِنْ حَدِیدٍ، وَإِذَا هُوَ یَأْتِی أَحَدَ شِقَّیْ وَجْهِهِ فَیُشَرْشِرُ شِدْقَهُ إِلَى قَفَاهُ، وَمَنْخِرَهُ إِلَى قَفَاهُ، وَعَیْنَهُ إِلَى قَفَاهُ، – قَالَ: وَرُبَّمَا قَالَ أَبُو رَجَاءٍ: فَیَشُقُّ قَالَ:ثُمَّ یَتَحَوَّلُ إِلَى الجَانِبِ الآخَرِ فَیَفْعَلُ بِهِ مِثْلَ مَا فَعَلَ بِالْجَانِبِ الأَوَّلِ، فَمَا یَفْرُغُ مِنْ ذَلِكَ الجَانِبِ حَتَّى یَصِحَّ ذَلِكَ الجَانِبُ كَمَا كَانَ، ثُمَّ یَعُودُ عَلَیْهِ فَیَفْعَلُ مِثْلَ مَا فَعَلَ المَرَّةَ الأُولَى قَالَ: قُلْتُ: سُبْحَانَ اللَّهِ مَا هَذَانِ؟ قَالَ: قَالاَ لِی: انْطَلِقِ انْطَلِقْ،

فرمایاکہ پھر ہم آگے بڑھے اورایک ایسے شخص کے پاس پہنچے جوپیٹھ کے بل لیٹاہواتھااورایک دوسراشخص اس کے پاس لوہے کاآنکڑالیے کھڑاتھا اوریہ اس کے چہرہ کے ایک طرف آتااوراس کے ایک جبڑے کوگدی تک چیرتااوراس کی ناک کوگدی تک چیرتااوراس کی آنکھ کوگدی تک چیرتا (عوف نے )بیان کیاکہ بعض دفعہ ابورجائ(راوی حدیث)نے فَیَشُقُّ کہارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےبیان کیاکہ پھروہ دوسری جانب جاتااورادھربھی اسی طرح چیرتاجس طرح اس نے پہلی جانب کیاتھا،وہ بھی دوسری جانب سے فارغ بھی نہ ہوتاتھاکہ پہلی جانب اپنی پہلی صحیح حالت میں لوٹ آتی ، پھردوبارہ وہ اسی طرح کرتاجس طرح اس نے پہلی مرتبہ کیاتھا(اس طرح برابرہورہاتھا)فرمایا کہ میں نے کہاسبحان اللہ!یہ دونوں کون ہیں ؟انہوں نے کہاکہ آگے چلو،آگے چلو(ابھی کچھ نہ پوچھو)

فَانْطَلَقْنَا، فَأَتَیْنَا عَلَى مِثْلِ التَّنُّورِ – قَالَ: فَأَحْسِبُ أَنَّهُ كَانَ یَقُولُ – فَإِذَا فِیهِ لَغَطٌ وَأَصْوَاتٌ قَالَ:فَاطَّلَعْنَا فِیهِ، فَإِذَا فِیهِ رِجَالٌ وَنِسَاءٌ عُرَاةٌ، وَإِذَا هُمْ یَأْتِیهِمْ لَهَبٌ مِنْ أَسْفَلَ مِنْهُمْ، فَإِذَا أَتَاهُمْ ذَلِكَ اللَّهَبُ ضَوْضَوْا قَالَ: قُلْتُ لَهُمَا: مَا هَؤُلاَءِ؟ قَالَ: قَالاَ لِی: انْطَلِقِ انْطَلِقْ قَالَ:فَانْطَلَقْنَا، فَأَتَیْنَا عَلَى نَهَرٍ حَسِبْتُ أَنَّهُ كَانَ یَقُولُ أَحْمَرَ مِثْلِ الدَّمِ، وَإِذَا فِی النَّهَرِ رَجُلٌ سَابِحٌ یَسْبَحُ، وَإِذَا عَلَى شَطِّ النَّهَرِ رَجُلٌ قَدْ جَمَعَ عِنْدَهُ حِجَارَةً كَثِیرَةً، وَإِذَا ذَلِكَ السَّابِحُ یَسْبَحُ مَا یَسْبَحُ، ثُمَّ یَأْتِی ذَلِكَ الَّذِی قَدْ جَمَعَ عِنْدَهُ الحِجَارَةَ، فَیَفْغَرُ لَهُ فَاهُ فَیُلْقِمُهُ حَجَرًا فَیَنْطَلِقُ یَسْبَحُ، ثُمَّ یَرْجِعُ إِلَیْهِ كُلَّمَا رَجَعَ إِلَیْهِ فَغَرَ لَهُ فَاهُ فَأَلْقَمَهُ حَجَرًا قَالَ: قُلْتُ لَهُمَا: مَا هَذَانِ؟ قَالَ: قَالاَ لِی: انْطَلِقِ انْطَلِقْ

چنانچہ ہم آگے چلے پھرہم ایک تنورجیسی چیزپرآئے،راوی نے بیان کیاکہ میراخیال ہے کہ آپ کہاکرتے تھے کہ اس میں شوروآوازتھی ،کہاکہ پھرہم نے اس میں جانکاتواس کے اندرکچھ ننگے مرداورعورتیں تھیں اوران کے نیچے سے آگ کی لپٹ آتی تھی ،جب آگ انہیں اپنی لپٹ میں لیتی تووہ چلانے لگتے،(رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے )فرمایاکہ میں نے ان سے پوچھایہ کون لوگ ہیں ؟انہوں نے کہاچلوچلو،فرمایاکہ ہم آگے بڑھے اورایک نہر پر آئے،میراخیال ہے کہ آپ نے کہاکہ وہ خون کی طرح سرخ تھی،اوراس نہرمیں ایک شخص تیررہاتھااورنہرکے کنارے ایک دوسراشخص تھاجس نے اپنے پاس بہت سے پتھرجمع کررکھے تھے ،یہ تیرنے والاجب اس شخص کے پاس پہنچتاجس نے پتھرجمع کررکھے تھے تویہ اپنامنہ کھول دیتااورکنارے والاشخص اس کے منہ میں پتھرڈال دیتاوہ پھرتیرنے لگتااورپھراس کے پاس لوٹ کرآتااورجب بھی اس کے پاس آتاتواپنامنہ پھیلادیتااوریہ اس کے منہ میں پتھرڈال دیتافرمایاکہ میں نے پوچھایہ کون ہیں ؟فرمایاکہ انہوں نے کہاکہ آگے چلو،آگے چلو،

قَالَ: فَانْطَلَقْنَا، فَأَتَیْنَا عَلَى رَجُلٍ كَرِیهِ المَرْآةِ، كَأَكْرَهِ مَا أَنْتَ رَاءٍ رَجُلًا مَرْآةً، وَإِذَا عِنْدَهُ نَارٌ یَحُشُّهَا وَیَسْعَى حَوْلَهَا قَالَ: قُلْتُ لَهُمَا: مَا هَذَا؟ قَالَ: قَالاَ لِی: انْطَلِقِ انْطَلِقْ، فَانْطَلَقْنَا، فَأَتَیْنَا عَلَى رَوْضَةٍ مُعْتَمَّةٍ، فِیهَا مِنْ كُلِّ لَوْنِ الرَّبِیعِ، وَإِذَا بَیْنَ ظَهْرَیِ الرَّوْضَةِ رَجُلٌ طَوِیلٌ، لاَ أَكَادُ أَرَى رَأْسَهُ طُولًا فِی السَّمَاءِ، وَإِذَا حَوْلَ الرَّجُلِ مِنْ أَكْثَرِ وِلْدَانٍ رَأَیْتُهُمْ قَطُّ قَالَ: قُلْتُ لَهُمَا: مَا هَذَا مَا هَؤُلاَءِ؟ قَالَ:قَالاَ لِی: انْطَلِقِ انْطَلِقْ

فرمایاکہ پھرہم آگے بڑھے اورایک نہایت بدصورت آدمی کے پاس پہنچے جتنے بدصورت تم نے دیکھے ہوں گے ان میں سب سے زیادہ بدصورت،اس کے پاس آگ جل رہی تھی اوروہ اسے جلارہاتھااوراس کے چاروں طرف دوڑتاتھا(رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے)فرمایاکہ میں نے ان سے کہاکہ یہ کیاہے؟فرمایاکہ انہوں نے مجھ سے کہاچلوچلو ، ہم آگے بڑھے اورایک ایسے باغ میں پہنچے جوہرابھراتھااوراس میں موسم بہارکے سب پھول تھے،اس باغ کے درمیان میں بہت لمبا ایک شخص تھا،اتنالمباتھاکہ میرے لئے اس کاسردیکھنادشوارتھاکہ وہ آسمان سے باتیں کرتاتھااوراس شخص کے چاروں طرف بہت سے بچے تھے کہ اتنے کبھی نہیں دیکھے تھے،(رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے)فرمایاکہ میں نے پوچھایہ کون ہے یہ بچے کون ہیں ؟ فرمایا انہوں نے مجھ سے کہاکہ چلوچلو

قَالَ:فَانْطَلَقْنَا فَانْتَهَیْنَا إِلَى رَوْضَةٍ عَظِیمَةٍ، لَمْ أَرَ رَوْضَةً قَطُّ أَعْظَمَ مِنْهَا وَلاَ أَحْسَنَ قَالَ: قَالاَ لِی: ارْقَ فِیهَا قَالَ:فَارْتَقَیْنَا فِیهَا، فَانْتَهَیْنَا إِلَى مَدِینَةٍ مَبْنِیَّةٍ بِلَبِنِ ذَهَبٍ وَلَبِنِ فِضَّةٍ، فَأَتَیْنَا بَابَ المَدِینَةِ فَاسْتَفْتَحْنَا فَفُتِحَ لَنَا فَدَخَلْنَاهَا، فَتَلَقَّانَا فِیهَا رِجَالٌ شَطْرٌ مِنْ خَلْقِهِمْ كَأَحْسَنِ مَا أَنْتَ رَاءٍ، وَشَطْرٌ كَأَقْبَحِ مَا أَنْتَ رَاءٍ قَالَ: قَالاَ لَهُمْ: اذْهَبُوا فَقَعُوا فِی ذَلِكَ النَّهَرِ قَالَ:وَإِذَا نَهَرٌ مُعْتَرِضٌ یَجْرِی كَأَنَّ مَاءَهُ المَحْضُ فِی البَیَاضِ، فَذَهَبُوا فَوَقَعُوا فِیهِ، ثُمَّ رَجَعُوا إِلَیْنَا قَدْ ذَهَبَ ذَلِكَ السُّوءُ عَنْهُمْ، فَصَارُوا فِی أَحْسَنِ صُورَةٍ قَالَ: قَالاَ لِی: هَذِهِ جَنَّةُ عَدْنٍ وَهَذَاكَ مَنْزِلُكَ،قَالَ:فَسَمَا بَصَرِی صُعُدًا فَإِذَا قَصْرٌ مِثْلُ الرَّبَابَةِ البَیْضَاءِ قَالَ: قَالاَ لِی: هَذَاكَ مَنْزِلُكَ قَالَ: قُلْتُ لَهُمَا: بَارَكَ اللَّهُ فِیكُمَا ذَرَانِی فَأَدْخُلَهُ، قَالاَ: أَمَّا الآنَ فَلاَ، وَأَنْتَ دَاخِلَهُ

فرمایاکہ پھرہم آگے بڑھے اورایک عظیم الشان باغ تک پہنچے،میں نے اتنابڑااوراتناخوبصورت باغ کبھی نہیں دیکھاتھا،ان دونوں نے کہاکہ اس پرچڑھئے ہم اس پرچڑھے توایک ایساشہردکھائی دیاجواس طرح بناتھاکہ اس کی ایک اینٹ سونے کی تھی اورایک اینٹ چاندی کی،ہم شہرکے دروازے پرآئے توہم نے اسے کھلوایا،وہ ہمارے لیے کھولاگیااورہم اس میں داخل ہوئے،ہم نے اس میں ایسے لوگوں سے ملاقات کی جس کی جسم کانصف حصہ تونہایت خوبصورت تھااوردوسرانصف نہایت بدصورت،(رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے)فرمایاکہ دونوں ساتھیوں نے ان لوگوں سے کہاجاؤاوراس نہرمیں کودجاؤ،ایک نہرسامنے بہہ رہی تھی اس کاپانی انتہائی سفیدتھاوہ لوگ گئے اور اس میں کودگئے اورپھرہمارے پاس لوٹ کرآئے توان کاپہلاعیب جاچکاتھااوراب وہ نہایت خوبصورت ہوگئے تھے،(رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے)فرمایاکہ ان دونوں نے مجھ سے کہا کہ یہ جنت عدن ہے اوریہ آپ کی منزل ہے،(رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے)فرمایاکہ میری نظراوپرکی طرف اٹھی توسفیدبادل کی طرح ایک محل اوپرنظرآیافرمایاکہ انہوں نے مجھ سے کہاکہ یہ آپ کی منزل ہے،فرمایاکہ میں نے ان سے کہااللہ تعالیٰ تمہیں برکت دے ،مجھے اس میں داخل ہونے دو،انہوں نے کہاکہ اس وقت توآپ نہیں جاسکتے لیکن ہاں آپ اس میں ضرورجائیں گے،

قَالَ: قُلْتُ لَهُمَا: فَإِنِّی قَدْ رَأَیْتُ مُنْذُ اللَّیْلَةِ عَجَبًا، فَمَا هَذَا الَّذِی رَأَیْتُ؟ قَالَ: قَالاَ لِی: أَمَا إِنَّا سَنُخْبِرُكَ، أَمَّا الرَّجُلُ الأَوَّلُ الَّذِی أَتَیْتَ عَلَیْهِ یُثْلَغُ رَأْسُهُ بِالحَجَرِ، فَإِنَّهُ الرَّجُلُ یَأْخُذُ القُرْآنَ فَیَرْفُضُهُ وَیَنَامُ عَنِ الصَّلاَةِ المَكْتُوبَةِ، وَأَمَّا الرَّجُلُ الَّذِی أَتَیْتَ عَلَیْهِ، یُشَرْشَرُ شِدْقُهُ إِلَى قَفَاهُ، وَمَنْخِرُهُ إِلَى قَفَاهُ، وَعَیْنُهُ إِلَى قَفَاهُ، فَإِنَّهُ الرَّجُلُ یَغْدُو مِنْ بَیْتِهِ، فَیَكْذِبُ الكَذْبَةَ تَبْلُغُ الآفَاقَ، وَأَمَّا الرِّجَالُ وَالنِّسَاءُ العُرَاةُ الَّذِینَ فِی مِثْلِ بِنَاءِ التَّنُّورِ، فَإِنَّهُمُ الزُّنَاةُ وَالزَّوَانِی، وَأَمَّا الرَّجُلُ الَّذِی أَتَیْتَ عَلَیْهِ یَسْبَحُ فِی النَّهَرِ وَیُلْقَمُ الحَجَرَ، فَإِنَّهُ آكِلُ الرِّبَا، وَأَمَّا الرَّجُلُ الكَرِیهُ المَرْآةِ، الَّذِی عِنْدَ النَّارِ یَحُشُّهَا وَیَسْعَى حَوْلَهَا، فَإِنَّهُ مَالِكٌ خَازِنُ جَهَنَّمَ، وَأَمَّا الرَّجُلُ الطَّوِیلُ الَّذِی فِی الرَّوْضَةِ فَإِنَّهُ إِبْرَاهِیمُ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، وَأَمَّا الوِلْدَانُ الَّذِینَ حَوْلَهُ فَكُلُّ مَوْلُودٍ مَاتَ عَلَى الفِطْرَةِ “ قَالَ: فَقَالَ بَعْضُ المُسْلِمِینَ: یَا رَسُولَ اللَّهِ، وَأَوْلاَدُ المُشْرِكِینَ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: وَأَوْلاَدُ المُشْرِكِینَ، وَأَمَّا القَوْمُ الَّذِینَ كَانُوا شَطْرٌ مِنْهُمْ حَسَنًا وَشَطْرٌ قَبِیحًا، فَإِنَّهُمْ قَوْمٌ خَلَطُوا عَمَلًا صَالِحًا وَآخَرَ سَیِّئًا، تَجَاوَزَ اللَّهُ عَنْهُم

فرمایاکہ میں نے ان سے کہاکہ آج رات میں نے عجیب وغریب چیزیں دیکھی ہیں یہ چیزیں کیاتھیں جومیں نے دیکھی ہیں ؟فرمایاکہ انہوں نے مجھ سے کہاہم آپ کوبتائیں گے،پہلاشخص جس کے پاس آپ گئے تھے اورجس کاسرپتھرسے کچلاجارہاتھایہ وہ شخص ہے جو قرآن سیکھتاتھااورپھراسے چھوڑدیتااورفرض نماز کو چھوڑکرسوجاتا،اوروہ شخص جس کے پاس آپ گئے اورجس کاجبڑا ، ناک اورآنکھ گدی تک چیری جارہی تھی یہ وہ شخص ہے جوصبح اپنے گھرسے نکلتااورجھوٹی خبرتراشتاجودنیامیں پھیل جاتی ،اوروہ ننگے مرداورعورتیں جوتنورمیں آپ نے دیکھے وہ زناکارمرداورعورتیں تھیں ،وہ شخص جس کے پاس آپ اس حال میں گئے کہ وہ نہرمیں تیررہاتھااوراس کے منہ میں پتھردیاجاتاتھا وہ سودکھانے والاہے،اوروہ شخص جوبدصورت ہے اورجہنم کی آگ بھڑکارہاہے اوراس کے چاروں طرف چل پھر رہاہے وہ جہنم کاداروغہ مالک نامی ہے، اوروہ لمباشخص جوباغ میں نظرآیاوہ ابراہیم علیہ السلام ہیں اورجوبچے ان کے چاروں طرف ہیں تووہ بچے ہیں جو(بچپن ہی میں )فطرت پرمرگئے ہیں ،بیان کیاکہ اس پربعض مسلمانوں نے کہااے اللہ کے رسول ﷺ! کیامشرکین کے بچے بھی ان میں داخل ہیں ؟رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ ہاں مشرکین کے بچے بھی(ان میں داخل ہیں )اب رہے وہ لوگ جن کا آدھا جسم خوبصورت اورآدھابدصورت تھاتویہ وہ لوگ تھے جنہوں نے اچھے عمل کے ساتھ برے عمل بھی کیے،اللہ تعالیٰ نے ان کے گناہوں کوبخش دیا۔[18]

اوراس حالت میں ان کے مبتلاہونے کی وجہ یہ ہے کہ وہ احکام الٰہی پراعتراض کرتے ہوئےکہتے ہیں تجارت بھی توآخرسودہی جیسی چیزہے پھرکیاوجہ سے کہ ایک کوحلال کہاجائے اوردوسری کوحرام حالانکہ اللہ نے واضح طورپرتجارت کو حلال اورسودکوحرام قراردیاہے، لہذا جس شخص کو اس کے رب کی طرف سے یہ نصیحت پہنچے اور آئندہ کے لیے وہ سودخوری سے بازآجائے توجوسود وہ پہلے کھاچکا اللہ تعالیٰ اپنی رحمت سے اس کومعاف فرمادے گا

 ۔۔۔عَفَا اللهُ عَمَّا سَلَفَ۔۔۔ ۝۹۵       [19]

ترجمہ: پہلے جو کچھ ہو چکا اسے اللہ نے معاف کر دیا ۔

جیساکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے دن خطبہ ارشاد فرمایاتھا

فَقَالَ: أَلَا إِنَّ كُلَّ رِبًا كَانَ فِی الْجَاهِلِیَّةِ مَوْضُوعٌ عَنْكُمْ كُلَّهُ، وَأَوَّلُ رِبًا مَوْضُوعٍ رِبَا الْعَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، مَوْضُوعٌ كُلُّهُ

اوربے شک زمانہ جاہلیت کاسودمیرے دونوں پاؤں کے نیچے رکھاہوا(ختم)ہے۔۔۔اورسب سے پہلے میں (اپنے چچا)عباس رضی اللہ عنہ بن عبدالمطلب کے سودکومعاف کرتاہوں ۔[20]

اورجواس حکم کے بعدپھربھی سودخوری سے باز نہ آئے تو وہ جہنمی ہے جہاں وہ ہمیشہ رہے گا،

عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَقُولُ:مَنْ لَمْ یَذَرْ الْمُخَابَرَةَ فَلْیَأْذَنْ بِحَرْبٍ مِنَ اللهِ وَرَسُولِهِ

جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سناکہ جو شخص بٹائی پرزمین دینے کو ترک نہ کرے تو وہ اللہ اور اس کے رسول سے جنگ کے لیے تیار ہوجائے۔[21]

حكم الألبانی: ضعیف

شیخ البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں یہ ضعیف روایت ہے۔

اللہ تعالیٰ سودکو مٹاتاہے اورصدقات کو نشوونما دیتا ہے،جیسے ایک مقام پرفرمایا

 وَمَآ اٰتَیْتُمْ مِّنْ رِّبًا لِّیَرْبُوَا۟ فِیْٓ اَمْوَالِ النَّاسِ فَلَا یَرْبُوْا عِنْدَ اللهِ۝۰ۚ وَمَآ اٰتَیْتُمْ مِّنْ زَكٰوةٍ تُرِیْدُوْنَ وَجْهَ اللهِ فَاُولٰۗىِٕكَ هُمُ الْمُضْعِفُوْنَ۝۳۹  [22]

ترجمہ:جو سود تم دیتے ہو تاکہ لوگوں کے اموال میں شامل ہو کر وہ بڑھ جائے اللہ کے نزدیک وہ نہیں بڑھتا اور جو زکوٰة تم اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے کے ارادے سے دیتے ہو ، اسی کے دینے والے درحقیقت اپنے مال بڑھاتے ہیں ۔

قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: {یَمْحَقُ اللَّهُ الرِّبَا} [23]قَالَ:یُنْقِصُ وَهَذَا نَظِیرُ الْخَبَرِ الَّذِی رُوِیَ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ: الرِّبَا وَإِنْ كَثُرَ فَإِلَى قُلٍّ

عبداللہ بن عباس نےآیت’’ اللہ سودکامٹھ ماردیتاہے۔‘‘کے بارے میں لکھاہے یہ آیت کریمہ اس حدیث کی طرح ہے جوعبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاسوداگرچہ زیادہ ہی ہوتاہم اس کاانجام بہرحال قلت ہی ہے۔[24]

اوراللہ تعالیٰ صدقات کونشوونما دیتاہے یعنی انہیں پروان چڑھاتاہے،ایک قول ہے کہ انہیں پالتاپوستاہے،

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ:قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:مَنْ تَصَدَّقَ بِعَدْلِ تَمْرَةٍ مِنْ كَسْبٍ طَیِّبٍ، وَلاَ یَقْبَلُ اللهُ إِلَّا الطَّیِّبَ، وَإِنَّ اللهَ یَتَقَبَّلُهَا بِیَمِینِهِ، ثُمَّ یُرَبِّیهَا لِصَاحِبِهِ، كَمَا یُرَبِّی أَحَدُكُمْ فَلُوَّهُ، حَتَّى تَكُونَ مِثْلَ الجَبَلِ

جیسےابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجوشخص حلال کمائی سے ایک کھجورکے برابرصدقہ کرے اوراللہ تعالیٰ صرف حلال کمائی کے صدقہ کوقبول کرتاہے تواللہ تعالیٰ اسے اپنے داہنے ہاتھ سے قبول کرتاہے پھرصدقہ کرنے والے کے فائدے کے لئے اس میں زیادتی کرتاہے ،بالکل اسی طرح جسے کوئی اپنے جانورکے بچے کو کھلا پلا کر بڑھاتاہے تاآنکہ اس کاصدقہ پہاڑکے برابرہوجاتاہے۔[25]

اوراللہ کسی ناشکرے اورقول وفعل کے اعتبارسے گناہ گار انسان کوپسندنہیں کرتا ،ہاں جو لوگ ہرطرف سے منہ موڑکر اللہ وحدہ لاشریک پر،اس کے رسولوں پر،اس کی منزل کتابوں پر،فرشتوں پر،اچھی بری تقدیرپر،حیات بعدالموت پراورجزاوسزاپر ایمان لے آئیں اورسیدالانبیاءمحمدرسول اللہ ﷺکی سنت کے مطابق نیک عمل کریں اوراللہ کی یادکے لئے وقت پرخشوع وخضوع کے ساتھ فرض اورنفلی نمازقائم کریں اورفرض ونفلی زکوٰة دیں ،ان کااجروثواب بے شک ان کے رب کے پاس ہے اورقیامت کے روزاللهَ رَبَّ الْعَالَمِینَ انہیں اپنے انعام واکرام سے سرفراز فرمائے ہوگا۔

یَا أَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا إِذَا تَدَایَنتُم بِدَیْنٍ إِلَىٰ أَجَلٍ مُّسَمًّى فَاكْتُبُوهُ ۚ وَلْیَكْتُب بَّیْنَكُمْ كَاتِبٌ بِالْعَدْلِ ۚ وَلَا یَأْبَ كَاتِبٌ أَن یَكْتُبَ كَمَا عَلَّمَهُ اللَّهُ ۚ فَلْیَكْتُبْ وَلْیُمْلِلِ الَّذِی عَلَیْهِ الْحَقُّ وَلْیَتَّقِ اللَّهَ رَبَّهُ وَلَا یَبْخَسْ مِنْهُ شَیْئًا ۚ فَإِن كَانَ الَّذِی عَلَیْهِ الْحَقُّ سَفِیهًا أَوْ ضَعِیفًا أَوْ لَا یَسْتَطِیعُ أَن یُمِلَّ هُوَ فَلْیُمْلِلْ وَلِیُّهُ بِالْعَدْلِ ۚ وَاسْتَشْهِدُوا شَهِیدَیْنِ مِن رِّجَالِكُمْ ۖ فَإِن لَّمْ یَكُونَا رَجُلَیْنِ فَرَجُلٌ وَامْرَأَتَانِ مِمَّن تَرْضَوْنَ مِنَ الشُّهَدَاءِ أَن تَضِلَّ إِحْدَاهُمَا فَتُذَكِّرَ إِحْدَاهُمَا الْأُخْرَىٰ ۚ وَلَا یَأْبَ الشُّهَدَاءُ إِذَا مَا دُعُوا ۚ وَلَا تَسْأَمُوا أَن تَكْتُبُوهُ صَغِیرًا أَوْ كَبِیرًا إِلَىٰ أَجَلِهِ ۚ ذَٰلِكُمْ أَقْسَطُ عِندَ اللَّهِ وَأَقْوَمُ لِلشَّهَادَةِ وَأَدْنَىٰ أَلَّا تَرْتَابُوا ۖ إِلَّا أَن تَكُونَ تِجَارَةً حَاضِرَةً تُدِیرُونَهَا بَیْنَكُمْ فَلَیْسَ عَلَیْكُمْ جُنَاحٌ أَلَّا تَكْتُبُوهَا ۗ وَأَشْهِدُوا إِذَا تَبَایَعْتُمْ ۚ وَلَا یُضَارَّ كَاتِبٌ وَلَا شَهِیدٌ ۚ وَإِن تَفْعَلُوا فَإِنَّهُ فُسُوقٌ بِكُمْ ۗ وَاتَّقُوا اللَّهَ ۖ وَیُعَلِّمُكُمُ اللَّهُ ۗ وَاللَّهُ بِكُلِّ شَیْءٍ عَلِیمٌ ‎﴿٢٨٢﴾‏(البقرة)
’’اے ایمان والو! جب تم آپس میں ایک دوسرے سے میعاد مقرہ پر قرض کا معاملہ کرو تو اسے لکھ لیا کرو، اور لکھنے والے کو چاہیے کہ تمہارا آپس کا معاملہ عدل سے لکھے، کاتب کو چاہیے کہ لکھنے سے انکار نہ کرے جیسے اللہ تعالیٰ نے اسے سکھایا ہے پس اسے بھی لکھ دینا چاہیے، جس کے ذمہ حق ہو وہ لکھوائے اور اپنے اللہ تعالیٰ سے ڈرے جو اس کا رب ہے اور حق میں سے کچھ گھٹائے نہیں، جس شخص کے ذمہ حق ہے وہ اگر نادان ہو یا کمزور ہو یا لکھوانے کی طاقت نہ رکھتا ہو تو اس کا ولی عدل کے ساتھ لکھوائے، اور اپنے میں سے دو مرد گواہ رکھ لواگر دو مرد نہ ہوں تو ایک مرد اور دو عورتیں جنہیں تم گواہوں میں پسند کرلو تاکہ ایک کی بھول چوک کو دوسری یاد دلا دے، اور گواہوں کو چاہیے کہ وہ جب بلائے جائیں تو انکار نہ کریں ،اور قرض کو جس کی مدت مقرر ہے خواہ چھوٹا ہو یا بڑا ہو لکھنے میں کاہلی نہ کرو، اللہ تعالیٰ کے نزدیک یہ بات بہت انصاف والی ہے اور گواہی کو بھی درست رکھنے والی ہےاور شک و شبہ سے بھی زیادہ بچانے والی ہے، ہاں یہ اور بات ہے کہ معاملہ نقد تجارت کی شکل میں ہو جو آپس میں تم لین دین کر رہے ہو تم پر اس کے نہ لکھنے میں کوئی گناہ نہیں، خریدو فروخت کے وقت بھی گواہ مقرر کرلیا کرو ،اور (یاد رکھو کہ) نہ لکھنے والے کو نقصان پہنچایا جائے نہ گواہ کو اور تم یہ کرو تو یہ تمہاری کھلی نافرمانی ہے، اللہ سے ڈرو اللہ تمہیں تعلیم دے رہا ہے اور اللہ تعالیٰ ہر چیز کو خوب جاننے والا ہے۔‘‘

یہ آیت (آیت دین)قرض کے مسائل والی آیت کے نام سے معروف ہے،اورقرآن کریم کی سب سے طویل آیت ہے،

حَدَّثَنِی سَعِیدُ بْنُ الْمُسَیَّبِ: أَنَّهُ بَلَغَهُ أن أحدث القرآن بالعرش آیة الدَّیْن

سعیدبن مسیب سے روایت ہے کہ انہیں یہ بات پہنچی ہے کہ عرش سے قرآن مجیدکاسب سے آخرمیں نازل ہونے والامقام آیت دین ہے۔[26]

جب سودی نظام کی سختی کے ساتھ ممانعت اورصدقات وخیرات کی تاکیدبیان کی گئی توپھرایسے معاشروں میں قرض کی بہت ضرورت ہوتی ہےاس لئے تعلیم فرمائی کہ اے لوگو جو ایمان لائے ہو!جب کسی مقررمدت کے لیے تم آپس میں قرض کالین دین کروتودستاویز تحریرکر لیاکرو،تاکہ اس سے قرض کی مقداراوراس کے اداکرنے کاوقت یادرہ سکے اورگواہ کوبھی گواہی دینے میں زیادہ سہولت رہے،

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: قَدِمَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ المَدِینَةَ وَهُمْ یُسْلِفُونَ بِالتَّمْرِ السَّنَتَیْنِ وَالثَّلاَثَ ، فَقَالَ: مَنْ أَسْلَفَ، فَلَا یُسْلِفْ، إِلَّا فِی كَیْلٍ مَعْلُومٍ، وَوَزْنٍ مَعْلُومٍ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہےجب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے تولوگ کھجورمیں دواورتین سال تک بیع سلم کرتے تھے، آپ ﷺنے انہیں ہدایت فرمائی جسے کسی چیزکی بیع سلم کرنی ہے اسے مقررہ وزن اورمقررہ مدت کے لئے ٹھیرا کر کرے۔[27]

عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ، قَوْلُهُ:یَا أَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا إِذَا تَدَایَنْتُمْ بِدَیْنٍ إِلَى أَجَلٍ مُسَمًّى فَاكْتُبُوهُ ، قَالَ:فَمَنِ ادَّانَ دَیْنًا فَلْیَكْتُبْ، وَمَنْ بَاعَ فَلْیُشْهِدْ

ابن جریج اللہ تعالیٰ کے فرمان’’اے ایمان والو! جب تم آپس میں ایک دوسرے سے میعاد مقرہ پر قرض کا معاملہ کرو تو اسے لکھ لیا کرو۔‘‘ کے بارے میں کہتے ہیں جوقرض دے وہ لکھ لے اورجوخریدے وہ گواہ بنالے۔[28]

تاہم اگرفریقین کوایک دوسرے پراعتمادہےاورلین دین کی تحریراورگواہ بھی نہ ہوں توبھی قرض دیاجاسکتاہے ،

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ ذَكَرَ: أَنَّ رَجُلًا مِنْ بَنِی إِسْرَائِیلَ سَأَلَ بَعْضَ بَنِی إِسْرَائِیلَ أَنْ یُسَلِّفَهُ أَلْفَ دِینَارٍ، قَالَ: ائْتِنِی بِشُهَدَاءَ أُشْهِدُهُمْ، قَالَ: كَفَى بِاللَّهِ شَهِیدًا، قَالَ: ائْتِنِی بِكَفِیلٍ، قَالَ: كَفَى بِاللَّهِ كَفِیلًا، قَالَ: صَدَقْتَ، فَدَفَعَهَا إِلَیْهِ إِلَى أَجَلٍ مُسَمًّى، فَخَرَجَ فِی الْبَحْرِ فَقَضَى حَاجَتَهُ، ثُمَّ الْتَمَسَ مَرْكَبًا، یَقْدَمُ عَلَیْهِ لِلْأَجَلِ الَّذِی أَجَّلَهُ، فَلَمْ یَجِدْ مَرْكَبًا، فَأَخَذَ خَشَبَةً فَنَقَرَهَا، فَأَدْخَلَ فِیهَا أَلْفَ دِینَارٍ، وَصَحِیفَةً مَعَهَا إِلَى صَاحِبِهَا، ثُمَّ زَجَّجَ مَوْضِعَهَا، ثُمَّ أَتَى بِهَا الْبَحْرَ، ثُمَّ قَالَ: اللَّهُمَّ إِنَّكَ قَدْ عَلِمْتَ أَنِّی اسْتَسْلَفْتُ فُلَانًا أَلْفَ دِینَارٍ، فَسَأَلَنِی كَفِیلًا، فَقُلْتُ: كَفَى بِاللَّهِ كَفِیلًا، فَرَضِیَ بِكَ، وَسَأَلَنِی شَهِیدًا، فَقُلْتُ: كَفَى بِاللَّهِ شَهِیدًا، فَرَضِیَ بِكَ، وَإِنِّی قَدْ جَهِدْتُ أَنْ أَجِدَ مَرْكَبًا أَبْعَثُ إِلَیْهِ بِالَّذِی أَعْطَانِی، فَلَمْ أَجِدْ مَرْكَبًا، وَإِنِّی اسْتَوْدَعْتُكَهَا، فَرَمَى بِهَا فِی الْبَحْرِ حَتَّى وَلَجَتْ فِیهِ،

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایابنی اسرائیل میں سے ایک شخص نے دوسرے شخص سے ایک ہزاردینار بطورقرض طلب کیےاس نے کہاگواہوں کولاؤ تاکہ میں ان کو گواہ بناؤں ، قرض مانگنے والے نے کہا اللہ گواہ کافی ہے، قرض دینے والے نے کہاکوئی ضامن لاؤ،قرض مانگنے والے نے کہا اللہ ضامن کافی ہے، قرض دینے والے نے کہاتم نے سچ کہا، الغرض اس نے ایک ہزار دینار ایک وقت مقررتک کے لیے قرض مانگنے والے کے حوالہ کردیے،وہ شخص ایک ہزار دینارلیکرسمندر پار کے سفرکے لیے نکلا، اس نے اپنی ضرورت پوری کی پھرسواری تلاش کی تاکہ وقت مقررہ پر قرض خواہ کے پاس پہنچ جائے لیکن کوئی سواری نہیں ملی،اس نے ایک لکڑی لی اسے کھوکھلاکیااوراسمیں ایک ہزاردینارڈال دیے اور قرض خواہ کے نام ایک خط بھی رکھ دیا،پھرکھودی ہوئی جگہ کو برابر کردیا،پھر وہ اس لکڑی کو لیکرسمندر کے ساحل پر آیااوراس طرح دعاکی،اے اللہ !تو جانتا ہے کہ میں نے فلاں شخص سے ایک ہزار دینار قرض مانگے تھے اس نے مجھ سے ضامن طلب کیامیں نے کہااللہ ضامن کافی ہے وہ تجھے ضامن بنانے پرراضی ہوگیااس نے گواہ طلب کیا میں نے کہااللہ گواہ کافی ہے وہ تجھے گواہ بنانے پرراضی ہوگیامیں نے بہت کوشش کی کہ کوئی سواری مل جاے تاکہ اسکی رقم اس کے حوالہ کر دوں ، لیکن میں سواری پرقادر نہیں ہوسکا اوراب میں یہ رقم تیرے سپردکرتاہوں ،یہ کہہ کراس نے لکڑی کو سمندر میں پھینک دیاوہ لکڑی پانی میں داخل ہوگئی،

ثُمَّ انْصَرَفَ، وَهُوَ فِی ذَلِكَ یَطْلُبُ مَرْكَبًا یَخْرُجُ إِلَى بَلَدِهِ، فَخَرَجَ الرَّجُلُ الَّذِی كَانَ أَسْلَفَهُ یَنْظُرُ لَعَلَّ مَرْكَبًا یَجِیئُهُ بِمَالِهِ، فَإِذَا بِالْخَشَبَةِ الَّتِی فِیهَا الْمَالُ، فَأَخَذَهَا لِأَهْلِهِ حَطَبًا، فَلَمَّا كَسَرَهَا وَجَدَ الْمَالَ، وَالصَّحِیفَةَ، ثُمَّ قَدِمَ الرَّجُلُ الَّذِی كَانَ تَسَلَّفَ مِنْهُ، فَأَتَاهُ بِأَلْفِ دِینَارٍ، وَقَالَ: وَاللَّهِ مَا زِلْتُ جَاهِدًا فِی طَلَبِ مَرْكَبٍ لِآتِیَكَ بِمَالِكَ، فَمَا وَجَدْتُ مَرْكَبًا قَبْلَ الَّذِی أَتَیْتُ فِیهِ، قَالَ: هَلْ كُنْتَ بَعَثْتَ إِلَیَّ بِشَیْءٍ؟ قَالَ: أَلَمْ أُخْبِرْكَ أَنِّی لَمْ أَجِدْ مَرْكَبًا قَبْلَ هَذَا الَّذِی جِئْتُ فِیهِ، قَالَ: فَإِنَّ اللَّهَ قَدْ أَدَّى عَنْكَ الَّذِی بَعَثْتَ بِهِ فِی الْخَشَبَةِ، فَانْصَرِفْ بِأَلْفِكَ رَاشِدًا

پھروہ شخص لوٹ آیالیکن وہ برابر سواری کی تلاش میں رہاتاکہ وہ اپنے شہر پہنچ جائے، وہ قرض خواہ وقت مقررہ پر سمندر کے ساحل پر پہنچا یہ دیکھنے کے لیے کہ کوئی سواری(پرآنے والا) اسکا مال لیکرآیاہے(یانہیں )اس کواتفاق سے وہ لکڑی دکھائی دی جسمیں اسکا مال تھااس نے اسکوایندھن کے لیے اٹھا لیاجب اس نے اسے چیراتواس نے اپنامال پایااس لکڑی سے اسے ایک خط بھی ملا،پھروہ قرضدار بھی ایک ہزار دینار لیکراسکے پاس پہنچ گیا،اس نے قرض خواہ سے کہا اللہ کی قسم میں برابر سواری تلاش کرتارہاتاکہ تمہارا مال تمہیں پہنچادوں لیکن مجھے اس سے قبل کوئی سواری نہیں ملی،قرض خواہ نے کہاکیاتم نے مجھے اس سے پہلے کوئی چیزبھیجی تھی؟ قرض دار نے کہامیں نے تم سے کہاتوہے کہ اس سے پہلے مجھے کوئی سواری نہیں ملی(بھیجتا کیسے) قرض خواہ نے کہااللہ نے تمہاری طرف سے لکڑی کے ذریعہ جوتم نے بھیجی تھی میری رقم ادا کردی اب تم خوشی خوشی ایک ہزاردینار کے ساتھ لوٹ جاؤ۔[29]

اورفرمایااللہ نے جسے لکھنے پڑھنے کی قابلیت بخشی ہووہ فریقین کے درمیان کسی کمی بیشی کے بغیر انصاف کے ساتھ دستاویز تحریر کرے ،اورجس طرح اللہ تعالیٰ نے اس پراحسان فرمایاکہ اسے لکھناسکھایااسی طرح اس کواللہ کے ان بندوں پراحسان کرناچاہیے جواس سے لکھوانے کے محتاج ہیں ،کیونکہ کسی کاہاتھ بٹادینابھی صدقہ ہے،

عَنْ أَبِی ذَرٍّ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: سَأَلْتُ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَیُّ العَمَلِ أَفْضَلُ؟قَالَ:إِیمَانٌ بِاللهِ، وَجِهَادٌ فِی سَبِیلِهِ،قُلْتُ: فَأَیُّ الرِّقَابِ أَفْضَلُ؟قَالَ:أَعْلاَهَا ثَمَنًا، وَأَنْفَسُهَا عِنْدَ أَهْلِهَا،قُلْتُ: فَإِنْ لَمْ أَفْعَلْ؟قَالَ:تُعِینُ ضَایِعًا، أَوْ تَصْنَعُ لِأَخْرَقَ، قَالَ: فَإِنْ لَمْ أَفْعَلْ؟قَالَ:تَدَعُ النَّاسَ مِنَ الشَّرِّ، فَإِنَّهَا صَدَقَةٌ تَصَدَّقُ بِهَا عَلَى نَفْسِكَ

ابوذرغفاری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے میں نےرسول اللہﷺسے پوچھاکون ساعمل افضل ہے؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ اللہ پرایمان لانااوراس کی راہ میں جہادکرنا،میں نے پوچھااورکس طرح کاغلام آزادکرناافضل ہے؟آپ ﷺنے فرمایاجوسب سے زیادہ قیمتی ہواورمالک کی نظرمیں جوبہت پسندہو،میں نے عرض کیاکہ اگرمجھ سے یہ نہ ہو سکا ؟آپ ﷺنے فرمایاکہ پھرکسی مسلمان کاریگرکی مددکریاکسی بے ہنرکی،میں نے کہااگرمیں یہ بھی نہ کرسکا؟اس پرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ پھرلوگوں کواپنے شرسے محفوظ کردے کہ یہ بھی ایک صدقہ ہے جسے تم خوداپنے اوپرکروگے۔[30]

قرض لینے والاشخص املا کرائے اوریہ شخص اس کو ضبط تحریرمیں لائےاورلکھنے والے کواللہ ، اپنے رب سے ڈرناچاہئے کہ جومعاملہ فریقین کے درمیان طے ہوا ہو اس میں اپنی طرف سے کوئی کمی بیشی نہ کرے،لیکن اگرقرض لینے والاخودنادان یاضعیف ہو یامضمون لکھوانے کی قابلیت نہ رکھتاہوتواس کاولی انصاف کے ساتھ مضمون لکھوائےتاکہ صاحب حق یعنی قرض دینے والے کونقصان نہ پہنچے، اورمعاملے کوپختہ کرنے کے لیے فرمایاپھرمسلمان مردوں میں سے دوآدمیوں کی اس پرگواہی کرا لو ، اور اگر دو مردنہ ہوں توایک مرد اور دو عورتیں ہوں تاکہ ایک بھول جائے تو دوسری اسے یاد دلا دے،دوعورتوں کوایک مرد کے قائم مقام کرناعورت کی عقل کے نقصان کے سبب ہے،

عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عُمَرَ،عَنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ:یَا مَعْشَرَ النِّسَاءِ تَصَدَّقْنَ وَأَكْثِرْنَ، فَإِنِّی رَأَیْتُكُنَّ أَكْثَرَ أَهْلِ النَّارِ ، فَقَالَتِ امْرَأَةٌ مِنْ سِطَّةِ النِّسَاءِ سَفْعَاءُ الْخَدَّیْنِ: لِمَ یَا رَسُولَ اللهِ؟قَالَ:لِكَثْرَةِ اللعْنِ وَكُفْرِ الْعَشِیرِ، مَا رَأَیْتُ مِنْ نَاقِصَاتِ عَقْلٍ وَدِینٍ، أَغْلَبَ لِذِی لُبٍّ مِنْكُنَّ،قَالَتْ: یَا رَسُولَ اللهِ، وَمَا نُقْصَانُ الْعَقْلِ وَالدِّینِ؟قَالَ: أَمَّا نُقْصَانُ الْعَقْلِ وَالدِّینِ: فَشَهَادَةُ امْرَأَتَیْنِ تَعْدِلُ شَهَادَةَ رَجُلٍ فَهَذَا نُقْصَانُ الْعَقْلِ، وَتَمْكُثُ اللیَالِیَ لَا تُصَلِّی وَتُفْطِرُ فِی رَمَضَانَ فَهَذَا نُقْصَانُ الدِّینِ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااے عورتوں کی جماعت!تم صدقہ دواوراستغفارکروکیونکہ میں نے جہنم میں اکثرعورتیں دیکھی ہیں ،ایک عقل مندعورت بولی اے اللہ کےرسولﷺ!اس کاکیاسبب ہے کہ عورتیں زیادہ جہنم میں ہیں ؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاوہ لعنت بہت کرتی ہیں اور خاوندکی ناشکری کرتی ہیں ، میں نے عقل اوردین میں کم اورعقل مندکوبے عقل کرنے والی تم سے زیادہ کسی کو نہیں دیکھا،وہ عورت بولی ہماری عقل اوردین میں کیاکمی ہے؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاعقل کی کمی تواس سے معلوم ہوتی ہے کہ دوعورتوں کی گواہی ایک مردکی گواہی کے برابرہے اوردین میں کمی یہ ہے کہ عورت کئی دن تک(ہرمہینے میں )نمازنہیں پڑھتی (حیض کی وجہ سے)اوررمضان کے روزے نہیں رکھتی۔[31]

اوریہ گواہ اپنے اخلاق ویانت کے لحاظ سے بالعموم لوگوں کے درمیان قابل اعتمادسمجھے جاتے ہوں ،اورگواہوں کوجب گواہی کے لیے طلب جائے توانہیں گواہی دینے سےانکارنہ کرناچاہئے،

وَقَالَ مُجَاهِدٌ وَأَبُو مِجْلَز، وَغَیْرُ وَاحِدٍ: إِذَا دُعِیتَ لِتَشْهَدَ فَأَنْتِ بِالْخِیَارِ، وَإِذَا شَهِدْتَ فَدُعِیتَ فَأَجِبْ

مجاہد رحمہ اللہ ،ابومجلز رحمہ اللہ اوردیگرکئی ائمہ تفسیرفرماتے ہیں کہ جب آپ کوگواہی کے لیے بلایاجائے توآپ کواختیارہے لیکن جب آپ گواہ بن جائیں اورآپ کوگواہی کے لیے بلایاجائے توپھرگواہی کے لیے ضرورآئیں ۔[32]

قرض خواہ تھوڑا ہو یا زیادہ میعادکی تعیین کے ساتھ اس کی دستاویزلکھوالینے میں تساہل نہ کرو،اللہ کے نزدیک یہ طریقہ تمہارے لیے زیادہ مبنی برانصاف ہے،اس سے شہادت قائم ہونے میں زیادہ سہولت ہوتی ہے اورتمہارے شکوک وشبہات میں مبتلا ہونے کاامکان کم رہ جاتاہے،ہاں جوتجارتی لین دین دست بدست تم لوگ آپس میں کرتے ہواس کونہ لکھاجائے توکوئی حرج نہیں ،مگرتجارتی معاملے طے کرتے وقت گواہ کرلیاکرو، کاتب اورگواہ کوستایانہ جائےایساکروگے توگناہ کاارتکاب کروگے،اللہ کے غضب سے بچووہ تم کوصحیح طریق عمل کی تعلیم دیتاہے اوراسے ہرچیزکاعلم ہے۔

وَإِن كُنتُمْ عَلَىٰ سَفَرٍ وَلَمْ تَجِدُوا كَاتِبًا فَرِهَانٌ مَّقْبُوضَةٌ ۖ فَإِنْ أَمِنَ بَعْضُكُم بَعْضًا فَلْیُؤَدِّ الَّذِی اؤْتُمِنَ أَمَانَتَهُ وَلْیَتَّقِ اللَّهَ رَبَّهُ ۗ وَلَا تَكْتُمُوا الشَّهَادَةَ ۚ وَمَن یَكْتُمْهَا فَإِنَّهُ آثِمٌ قَلْبُهُ ۗ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ عَلِیمٌ ‎﴿٢٨٣﴾‏(البقرة)
’’اور اگر تم سفر میں ہو اور لکھنے والا نہ پاؤ تو رہن قبضہ میں رکھ لیا کرو ہاں آپس میں ایک دوسرے سے مطمئن ہو تو جسے امانت دی گئی ہے وہ اسے ادا کر دے اور اللہ تعالیٰ سے ڈرتا رہے جو اس کا رب ہے، اور گواہی کو نہ چھپاؤ اور جو اسے چھپالے وہ گناہ گار دل والا ہے، اور جو کچھ تم کرتے ہو اسے اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے۔‘‘

عَنْ أَنَسٍ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ:أَنَّهُ مَشَى إِلَى النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بِخُبْزِ شَعِیرٍ، وَإِهَالَةٍ سَنِخَةٍ، وَلَقَدْرَهَنَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ دِرْعًا لَهُ بِالْمَدِینَةِ عِنْدَ یَهُودِیٍّ، وَأَخَذَ مِنْهُ شَعِیرًا لِأَهْلِهِ،وَلَقَدْ سَمِعْتُهُ یَقُولُ: مَا أَمْسَى عِنْدَ آلِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ صَاعُ بُرٍّ، وَلاَ صَاعُ حَبٍّ، وَإِنَّ عِنْدَهُ لَتِسْعَ نِسْوَةٍ

انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں جوکی روٹی اوربدبودارچربی (سالن کے طورپر)لے گئے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت اپنی زرہ مدینے کے ایک یہودی( الوالشحم) کے پاس( تیس وسق جوکے بدلے )گروی تھی،اوراس سے اپنے گھروالوں کے لئے جوقرض لیاتھا،میں نے خودآپ صلی اللہ علیہ وسلم کوفرماتے سناکہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے گھرانے میں کوئی شام ایسی نہیں آئی جس میں ان کے پاس ایک صاع گیہوں یاایک صاع کوئی غلہ موجودرہاہوحالانکہ آپ کی گھروالیوں کی تعدادنوتھی۔[33]

اورقرض لینے والے کوچاہیے کہ اللہ،اپنے رب سے ڈرے اور قرض کو صحیح طریقے سے اداکرے ،کیونکہ حق کادارومدارگواہی پرہے اوراس کے بغیرحق ثابت نہیں ہوتااس لئے فرمایاکہ اگرتمہیں کسی بات کاعلم ہے تو شہادت دینے سے گریزنہ کرو اور شہادت دیتے وقت صحیح واقعات کو ہرگزنہ چھپاؤ،

قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ وَغَیْرُهُ: شَهَادَةُ الزُّورِ مِنْ أَكْبَرِ الْكَبَائِرِ، وَكِتْمَانُهَا كَذَلِكَ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما وغیرہ فرماتے ہیں کہ جھوٹی گواہی بھی کبیرہ گناہوں میں سے ہے ،نیزاس کاچھپانابھی اسی طرح کبیرہ گناہ ہے۔[34]

جوشہادت چھپاتاہے اس کادل گناہ میں آلودہ ہے،

قَالَ السُّدِّیُّ: یَعْنِی: فَاجْرٌ قَلْبُهُ

سدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں اس کادل گناہ گارہوجائے گا۔

جیسے ایک اورمقام پراللہ تعالیٰ نےفرمایا

۔۔۔ وَلَا نَكْتُمُ شَهَادَةَ۝۰ۙ اللهِ اِنَّآ اِذًا لَّمِنَ الْاٰثِمِیْنَ۝۱۰۶ [35]

ترجمہ:اور نہ خدا واسطے کی گواہی کو ہم چھپانے والے ہیں اگر ہم نے ایسا کیا تو گناہ گاروں میں شمار ہوں گے۔

یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا كُوْنُوْا قَوّٰمِیْنَ بِالْقِسْطِ شُهَدَاۗءَ لِلهِ وَلَوْ عَلٰٓی اَنْفُسِكُمْ اَوِ الْوَالِدَیْنِ وَالْاَقْرَبِیْنَ۝۰ۚ اِنْ یَّكُنْ غَنِیًّا اَوْ فَقِیْرًا فَاللهُ اَوْلٰى بِهِمَا۝۰ۣ فَلَا تَتَّبِعُوا الْهَوٰٓى اَنْ تَعْدِلُوْا۝۰ۚ وَاِنْ تَلْوٗٓا اَوْ تُعْرِضُوْا فَاِنَّ اللهَ كَانَ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرًا۝۱۳۵    [36]

ترجمہ:اے لوگو! جو ایمان لائے ہو ! انصاف کے علم بردار اور خدا واسطے گواہ بنو ،اگرچہ تمہارے انصاف اور تمہاری گواہی کی زد خود تمہاری اپنی ذات پر یا تمہارے والدین اور رشتہ داروں پر ہی کیوں نہ پڑتی ہو ،فریقِ معاملہ خواہ مال دار ہو یا غریب ، اللہ تم سے زیادہ ان کا خیر خواہ ہے، لہٰذا اپنی خواہشِ نفس کی پیروی میں عدل سے باز نہ رہو اور اگر تم نے لگی لپٹی بات کہی یا سچائی سے پہلو بچایا تو جان رکھو کہ جو کچھ تم کرتے ہو اللہ کو اس کی خبر ہے۔

اورہمیشہ یادرکھواللہ تمہارے اعمال سے بے خبرنہیں ہے۔

لِّلَّهِ مَا فِی السَّمَاوَاتِ وَمَا فِی الْأَرْضِ ۗ وَإِن تُبْدُوا مَا فِی أَنفُسِكُمْ أَوْ تُخْفُوهُ یُحَاسِبْكُم بِهِ اللَّهُ ۖ فَیَغْفِرُ لِمَن یَشَاءُ وَیُعَذِّبُ مَن یَشَاءُ ۗ وَاللَّهُ عَلَىٰ كُلِّ شَیْءٍ قَدِیرٌ ‎﴿٢٨٤﴾‏(البقرة)
’’آسمانوں اور زمین کی ہر چیز اللہ تعالیٰ ہی کی ملکیت ہے،تمہارے دلوں میں جو کچھ ہے اسے تم ظاہر کرو یا چھپاؤ اللہ تعالیٰ اس کا حساب تم سے لے گا ،پھر جسے چاہے بخشے جسے چاہے سزا دے اور اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے۔‘‘

سورة کاآغازدین کی بنیادی تعلیمات سے کیاگیاتھااوراسی طرح سورت کاختم کرتے ہوئے بھی ان تمام اصولی امورکوبیان فرمایاجن پردین اسلام کی اساس قائم ہے ،فرمایا آسمانوں اورزمین اوران کے درمیان جوکچھ ہے سب اللہ کی ملکیت ہے،تمام مخلوقات اس کے عاجزغلام ہیں ،جواپنی ذات کے لئے نفع کااختیاررکھتے ہیں نہ نقصان کا،نہ موت کانہ حیات کا،اورنہ مرکرجینے کا،اوراللہ تعالیٰ اپنی حکمت ومشیت کے مطابق جیسے چاہتاہے ان میں تصرف کرتاہے،تم اپنے دل کی باتیں خواہ ظاہرکرویاچھپاؤ اللہ تعالیٰ جوتمہارے دلوں کے چھپے ارادے اورخیالات سے خوب باخبرہے وہ تم سب سے فرداًفرداً ان کاحساب لے لے گا

قُلْ اِنْ تُخْفُوْا مَا فِیْ صُدُوْرِكُمْ اَوْ تُبْدُوْهُ یَعْلَمْهُ اللهُ۝۰ۭ وَیَعْلَمُ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ۝۰ۭ وَاللهُ عَلٰی كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ۝۲۹    [37]

ترجمہ:اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! لوگوں کو خبردار کر دو کہ تمہارے دلوں میں جو کچھ ہے اُسے خواہ تم چھپاؤ یا ظاہر کرو ، اللہ بہرحال اُسے جانتا ہے ، زمین و آسمان کی ہر کوئی چیز اس کے علم سے باہر نہیں ہے اور اس کا اقتدار ہر چیز پر حاوی ہے۔

۔۔۔ فَاِنَّهٗ یَعْلَمُ السِّرَّ وَاَخْفٰی۝۷ [38]

ترجمہ:وہ توچپکے سے کہی ہوئی بات بلکہ اس سے مخفی تربات بھی جانتاہے۔

اللہ ہی ظاہروپوشیدہ کاجاننے والا،قادرمطلق ،مالک ومختار اور سزاوجزا کے سارے اختیارات کامالک ہے، چنانچہ وہ جسے چاہے معاف کردے اورجسے چاہے سزادےکوئی چیزاس کے بس سے باہرنہیں بلکہ تمام مخلوقات اس کے غلبہ ،مشیت ، تقدیراورجزاوسزاکے قوانین کے ماتحت ہیں ،

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ، قَالَ: لَمَّا نَزَلَ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: {لِلَّهِ مَا فِی السَّماَوَاتِ وَمَا فِی الْأَرْضِ وَإِنْ تُبْدُوا مَا فِی أَنْفُسِكُمْ أَوْ تُخْفُوهُ یُحَاسِبْكُمْ بِهِ اللَّهُ فَیَغْفِرُ لِمَنْ یَشَاءُ وَیُعَذِّبُ مَنْ یَشَاءُ وَاللَّهُ عَلَى كُلِّ شَیْءٍ قَدِیرٌ،[39] ، فَاشْتَدَّ ذَلِكَ عَلَى صَحَابَةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَأَتَوْا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ جَثَوْا عَلَى الرُّكَبِ، فَقَالُوا: یَا رَسُولَ اللَّهِ، كُلِّفْنَا مِنَ الْأَعْمَالِ مَا نُطِیقُ: الصَّلَاةَ، وَالصِّیَامَ، وَالْجِهَادَ، وَالصَّدَقَةَ، وَقَدْ أُنْزِلَ عَلَیْكَ هَذِهِ الْآیَةُ، وَلَا نُطِیقُهَا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: أَتُرِیدُونَ أَنْ تَقُولُوا كَمَا قَالَ أَهْلُ الْكِتَابَیْنِ مِنْ قَبْلِكُمْ: سَمِعْنَا وَعَصَیْنَا، بَلْ قُولُوا: سَمِعْنَا، وَأَطَعْنَا، غُفْرَانَكَ رَبَّنَا وَإِلَیْكَ الْمَصِیرُ ، فَقَالُوا: سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا، غُفْرَانَكَ رَبَّنَا وَإِلَیْكَ الْمَصِیرُ،

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےجب یہ آیت’’آسمانوں اور زمین کی ہر چیز اللہ تعالیٰ ہی کی ملکیت ہے،تمہارے دلوں میں جو کچھ ہے اسے تم ظاہر کرو یا چھپاؤ اللہ تعالیٰ اس کا حساب تم سے لے گا ،پھر جسے چاہے بخشے جسے چاہے سزا دے اور اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے۔‘‘ نازل ہوئی تواس پرصحابہ کرام رضی اللہ عنہم بڑے پریشان ہوئے،وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضرہوئے اورگھٹنوں کے بل بیٹھ گئے اورانہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا اے اللہ کےرسولﷺ!نماز،روزہ،جہاداورصدقہ وغیرہ یہ سارے اعمال جن کاہمیں حکم دیاگیاہے ہم بجالاتے ہیں کیونکہ یہ ہماری طاقت سے بالانہیں ہیں ،لیکن دل میں پیدا ہونے والے خیالات اوروسوسوں پرتوہماراکوئی اختیارہی نہیں ہے اوراللہ تعالیٰ نے ان پربھی محاسبہ کا اعلان فرمایاہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکیاتم یہودونصاریٰ کی طرح یہ کہناچاہتے ہوکہ ہم نے سنااورنہیں مانا،تمہیں چاہیے کہ یوں کہو’’ اے اللہ !ہم نے سنااورمان لیاہم تیری بخشش چاہتے ہیں ،ہمارے رب !ہمیں توتیری ہی طرف لوٹناہے،اس کے بعدہی یہ آیت نازل ہوئی، ہم فرشتوں اور اس کی منزل کتابوں اور اس کے رسولوں کو مانتے ہیں اور ان کا قول یہ ہے کہ ہم اللہ کے رسولوں کو ایک دوسرے سے الگ نہیں کرتے(جیسے یہودونصاریٰ نے کیا) ہم نے حکم سنا اور اطاعت قبول کی، مالک! ہم تجھ سے خطا بخشی کے طالب ہیں اور ہمیں تیری ہی طرف پلٹنا ہے۔‘‘

فَلَمَّا أَقَرَّ بِهَا الْقَوْمُ، وَذَلَّتْ بِهَا أَلْسِنَتُهُمْ، أَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ فِی إِثْرِهَا: {آمَنَ الرَّسُولُ بِمَا أُنْزِلَ إِلَیْهِ مِنْ رَبِّهِ وَالْمُؤْمِنُونَ كُلٌّ آمَنَ بِاللَّهِ وَمَلَائِكَتِهِ وَكُتُبِهِ وَرُسُلِهِ لَا نُفَرِّقُ بَیْنَ أَحَدٍ مِنْ رُسُلِهِ} [40]– قَالَ عَفَّانُ: قَرَأَهَا سَلَّامٌ أَبُو الْمُنْذِرِ: یُفَرِّقُ – فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ {وَقَالُوا سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا غُفْرَانَكَ رَبَّنَا وَإِلَیْكَ الْمَصِیرُ} [41] ، فَلَمَّا فَعَلُوا ذَلِكَ نَسَخَهَا اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ بِقَوْلِهِ: {لَا یُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا لَهَا مَا كَسَبَتْ وَعَلَیْهَا مَا اكْتَسَبَتْ} [42] ، فَصَارَ لَهُ مَا كَسَبَ مِنْ خَیْرٍ، وَعَلَیْهِ مَا اكْتَسَبَ مِنْ شَرٍّ، فَسَّرَ الْعَلَاءُ هَذَا: {رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذْنَا إِنْ نَسِینَا أَوْ أَخْطَأْنَا}[43] ، قَالَ: نَعَمْ، {رَبَّنَا وَلَا تَحْمِلْ عَلَیْنَا إِصْرًا كَمَا حَمَلْتَهُ عَلَى الَّذِینَ مِنْ قَبْلِنَا} [44] ، قَالَ: نَعَمْ، {رَبَّنَا وَلَا تُحَمِّلْنَا مَا لَا طَاقَةَ لَنَا بِهِ}[45] ، قَالَ: نَعَمْ، {وَاعْفُ عَنَّا وَاغْفِرْ لَنَا وَارْحَمْنَا أَنْتَ مَوْلَانَا فَانْصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكَافِرِینَ} [46]

جب صحابہ کرام کی زبانوں پریہ کلمات جاری ہوگئےتواللہ تعالیٰ نے(اپنے فضل وکرم سے) اس آیت کویعنی وَاِنْ تُبْدُوْا مَا فِیْٓ اَنْفُسِكُمْ کو منسوخ کردیااوریہ آیت نازل فرمائی’’ اللہ کسی متنفس پر اس کی مقدرت سے بڑھ کر ذمہ داری کا بوجھ نہیں ڈالتاہر شخص نے جو نیکی کمائی ہے اس کا پھل اسی کے لیے ہے اور جو بدی سمیٹی ہے اس کا وبال اسی پر ہے۔‘‘’’(ایمان لانے والو! تم یوں دعا کیا کرو) اے ہمارے رب!ہم سے بھول چوک میں جو قصور ہو جائیں ان پر گرفت نہ کر۔‘‘مالک نے فرمایا اچھا’’اے ہمارے مالک! ہم پر وہ بوجھ نہ ڈال جو تو نے ہم سے پہلے لوگوں پر ڈالے تھے(یہودپرپھران سے نہ ہوسکا،انہوں نے نافرمانی کی)۔‘‘مالک نے فرمایااچھا’’ پروردگار ! جس بار کو اٹھانے کی طاقت ہم میں نہیں ہے وہ ہم پر نہ رکھ ہمارے ساتھ نرمی کر ، ہم سے در گزر فرما ، ہم پر رحم کر ، تو ہمارا مولیٰ ہے کافروں کے مقابلے میں ہماری مدد کر۔‘‘پروردگارنے فرمایااچھا(میں نے قبول فرمالیا)۔[47]

عَنْ مُجَاهِدٍ، قَالَ: دَخَلْتُ عَلَى ابْنِ عَبَّاسٍ، فَقُلْتُ: یَا أَبَا عَبَّاسٍ، كُنْتُ عِنْدَ ابْنِ عُمَرَ، فَقَرَأَ هَذِهِ الْآیَةَ فَبَكَى. قَالَ: أَیَّةُ آیَةٍ؟ قُلْتُ: {إِنْ تُبْدُوا مَا فِی أَنْفُسِكُمْ أَوْ تُخْفُوهُ یُحَاسِبْكُمْ بِهِ اللَّهُ} [48] . قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: إِنَّ هَذِهِ الْآیَةَ حِینَ أُنْزِلَتْ، غَمَّتْ أَصْحَابَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ غَمًّا شَدِیدًا، وَغَاظَتْهُمْ غَیْظًا شَدِیدًا، یَعْنِی، وَقَالُوا: یَا رَسُولَ اللَّهِ ، هَلَكْنَا، إِنْ كُنَّا نُؤَاخَذُ بِمَا تَكَلَّمْنَا، وَبِمَا نَعْمَلُ، فَأَمَّا قُلُوبُنَا فَلَیْسَتْ بِأَیْدِینَا. فَقَالَ لَهُمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: قُولُوا: سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا قَالُوا: سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا، قَالَ: فَنَسَخَتْهَا هَذِهِ الْآیَةُ: {آمَنَ الرَّسُولُ بِمَا أُنْزِلَ إِلَیْهِ مِنْ رَبِّهِ وَالْمُؤْمِنُونَ} [49]إِلَى {لَا یُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْسًا إِلا وُسْعَهَا لَهَا مَا كَسَبَتْ وَعَلَیْهَا مَا اكْتَسَبَتْ} [50] ، فَتُجُوِّزَ لَهُمْ عَنْ حَدِیثِ النَّفْسِ، وَأُخِذُوا بِالْأَعْمَالِ

مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں میں عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے پاس گیا تومیں نے عرض کی اےابوعباس رضی اللہ عنہ (عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کی کنیت ہے)!میں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے پاس تھاانہوں نے اس آیت کوپڑھاتوروپڑے،انہوں نے پوچھاکون سی آیت؟میں نے جواب دیا’’تم اپنے دل کی باتیں خواہ ظاہرکرویاچھپاؤاللہ بہرحال ان کاحساب تم سے لے لے گا۔‘‘ توعبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایاجب یہ آیت نازل ہوئی توصحابہ کرام رضی اللہ عنہم بہت شدیدغم میں مبتلاہوگئےاورانہوں نے عرض کی اے اللہ کے رسولﷺ!ہم توتباہ وبربادہوگئے،ہمارے قول وعمل کاتومواخذہ ہوتاتھامگر(اب دلوں کابھی مواخذہ بھی شروع ہوگیاہے اور)دل توہمارے ہاتھوں میں نہیں ہیں ، تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایاتم کہہ دوہم نے (حکم)سنااوراطاعت کی، ہم نے (حکم)سنااوراطاعت کی،عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں تواسے اس آیت’’رسول اس ہدایت پر ایمان لایا ہے جو اس کے رب کی طرف سے اس پر نازل ہوئی ہے۔ ‘‘ نے منسوخ کردیاچنانچہ اللہ تعالیٰ نے دل میں آنے والے خیالات کومعاف فرمادیااوراعمال کے مواخذے کوباقی رکھا۔[51]

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ:قَالَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:إِنَّ اللهَ تَجَاوَزَ لِی عَنْ أُمَّتِی مَا وَسْوَسَتْ بِهِ صُدُورُهَا، مَا لَمْ تَعْمَلْ أَوْ تَكَلَّمْ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااللہ تعالیٰ نے میری امت کے دلوں میں پیداہونے والے وسوسوں کومعاف کردیاہے جب تک وہ انہیں عمل یازبان پرنہ لائیں ۔[52]

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ: أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:یَقُولُ اللهُ: إِذَا أَرَادَ عَبْدِی أَنْ یَعْمَلَ سَیِّئَةً، فَلاَ تَكْتُبُوهَا عَلَیْهِ حَتَّى یَعْمَلَهَا فَإِنْ عَمِلَهَا فَاكْتُبُوهَا بِمِثْلِهَا، وَإِنْ تَرَكَهَا مِنْ أَجْلِی فَاكْتُبُوهَا لَهُ حَسَنَةً، وَإِذَا أَرَادَ أَنْ یَعْمَلَ حَسَنَةً فَلَمْ یَعْمَلْهَا فَاكْتُبُوهَا لَهُ حَسَنَةً، فَإِنْ عَمِلَهَا فَاكْتُبُوهَا لَهُ بِعَشْرِ أَمْثَالِهَا

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااللہ تعالیٰ فرماتاہے کہ جب میرابندہ کسی برائی کاارادہ کرے تواسے نہ لکھویہاں تک کہ اسے کرنہ لے،جب اس کوکرلے پھراسے اس کے برابر لکھو،اور اگر اس برائی کووہ میرے خوف سے چھوڑدے تواس کے حق میں ایک نیکی لکھواوراگربندہ کوئی نیکی کرنے کا ادراہ کرتاہے تواس کے ارادہ ہی پرایک نیکی لکھ لواوراگروہ اس نیکی کوکربھی لے تواس جیسی دس نیکیاں اس کے لئے لکھو۔[53]

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ، عَنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: قَالَ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ: إِذَا هَمَّ عَبْدِی بِحَسَنَةٍ وَلَمْ یَعْمَلْهَا، كَتَبْتُهَا لَهُ حَسَنَةً، فَإِنْ عَمِلَهَا كَتَبْتُهَا عَشْرَ حَسَنَاتٍ إِلَى سَبْعِ مِائَةِ ضِعْفٍ، وَإِذَا هَمَّ بِسَیِّئَةٍ وَلَمْ یَعْمَلْهَا، لَمْ أَكْتُبْهَا عَلَیْهِ، فَإِنْ عَمِلَهَا كَتَبْتُهَا سَیِّئَةً وَاحِدَةً

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سےایک روایت میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ جل جلالہ نے فرمایاجب میرابندہ نیکی کرنے کاقصدکرتاہے لیکن نہیں کرتااس کے لئے میں ایک نیکی لکھتاہوں اورجواس نیکی کوکرگزرتاہے تواس کے بدلے دس سے سات سونیکیوں تک لکھتاہوں اورجو برائی کا قصدکرتاہے لیکن اس کو کرتانہیں تووہ برائی میں نہیں لکھتا، اور اگر کر گزرتاہے توایک برائی ہی لکھتاہوں ۔[54]

أَبُو هُرَیْرَةَ،قَالَ:قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: قَالَ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ: قَالَ اللهُ: إِذَا تَحَدَّثَ عَبْدِی بِأَنْ یَعْمَلَ حَسَنَةً، فَأَنَا أَكْتُبُهَا لَهُ حَسَنَةً مَا لَمْ یَعْمَلْ، فَإِذَا عَمِلَهَا فَأَنَا أَكْتُبُهَا بِعَشْرِ أَمْثَالِهَا وَإِذَا تَحَدَّثَ بِأَنْ یَعْمَلَ سَیِّئَةً فَأَنَا أَغْفِرُهَا لَهُ، مَا لَمْ یَعْمَلْهَا، فَإِنْ عَمِلَهَا فَأَنَا أَكْتُبُهَا لَهُ بِمِثْلِهَ،وَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:قَالَتِ الْمَلَائِكَةُ: رَبِّ، وَإِنَّ عَبْدَكَ یُرِیدُ أَنْ یَعْمَلَ سَیِّئَةًوَهُوَ أَبْصَرُ بِهِ فَقَالَ: ارقُبوه، فَإِنْ عَمِلَهَا فَاكْتُبُوهَا لَهُ بِمِثْلِهَا، وَإِنْ تَرْكَهَا فَاكْتُبُوهَا لَهُ حَسَنَةً، وَإِنَّمَا تَرَكَهَا مِنْ جَرای،وَقَالَ رسولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:إذا أَحْسَنَ أَحَدٌ إِسْلَامَهُ، فَكُلُّ حَسَنَةٍ یَعْمَلُهَا تُكْتَبُ بِعَشْرِ أَمْثَالِهَا إِلَى سَبْعِمِائَةِ ضِعْفٍ، وَكُلُّ سَیِّئَةٍ تُكْتَبُ بِمِثْلِهَا حَتَّى یَلْقَى اللهَ عَزَّ وَجَلَّ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے ایک اورروایت مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااللہ جل جلالہ نے فرمایاجب میرابندہ دل میں نیک کام کرنے کی نیت کرتاہے توجب تک اس نے وہ نیکی نہیں کی اس کے لئے میں ایک نیکی لکھ لیتاہوں ،پھراگروہ اس نیکی کوکرلیتاہے تومیں اس کے لئے دس نیکیاں (ایک کے بدلے) لکھتاہوں ،اورجب وہ دل میں برائی کی نیت کرتاہے توجب تک وہ برائی نہ کرےمیں اس کوبخش دیتاہوں اوراگربرائی کرتاہے توایک ہی برائی لکھتاہوں ،اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایافرشتے کہتے ہیں اے پروردگار!تیرایہ بندہ برائی کرناچاہتاہے ،حالانکہ پروردگاران سے زیادہ اپنے بندے کودیکھ رہاہے،اللہ تعالیٰ فرماتاہے اس کودیکھتے رہواگروہ برائی کرے توایک برائی ویسی ہی لکھ لواوراگراپنے ارادے سے بازآئے تواس کے لئے ایک نیکی لکھوکیوں کہ اس نے میرے ڈرسے برائی کوچھوڑدیا،اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجب تم میں سے کسی کااسلام بہترہوتاہے پھروہ نیکی کرتاہے ،اس کے لئے ایک کے بدلے دس نیکیاں سات سوتک لکھی جاتی ہیں اور جو برائی کرتاہے توایک ہی برائی لکھی جاتی ہے یہاں تک کہ مل جاتاہے اللہ جل جلالہ سے۔[55]

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:مَنْ هَمَّ بِحَسَنَةٍ فَلَمْ یَعْمَلْهَا كُتِبَتْ لَهُ حَسَنَةً، وَمَنْ هَمَّ بِحَسَنَةٍ فَعَمِلَهَا كُتِبَتْ لَهُ عَشْرًا إِلَى سَبْعِمِائَةِ ضِعْفٍ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سےیک روایت میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایاجوکوئی نیکی کاارادہ کرتاہے لیکن اس پر عمل نہیں کرسکا تو اس کے لیے ایک نیکی لکھ دی جاتی ہے اور جو نیکی کا ارادہ کرتاہے اوراس پرعمل بھی کرگزرتاہے تواس کی نیکیاں سات سوسے بھی زیادہ بڑھادی جاتی ہیں ۔[56]

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُمَا، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فِیمَا یَرْوِی عَنْ رَبِّهِ عَزَّ وَجَلَّ قَالَ: قَالَ:إِنَّ اللهَ كَتَبَ الْحَسَنَاتِ وَالسَّیِّئَاتِ، ثُمَّ بَیَّنَ ذَلِكَ،فَمَنْ هَمّ بِحَسَنَةٍ فَلَمْ یَعْمَلْهَا كَتَبها اللهُ عِنْدَهُ حَسَنَةً كَامِلَةً، وَإِنْ هَمَّ بِهَا فَعَمِلَهَا كَتَبَهَا اللهُ عِنْدَهُ عَشْرَ حَسَنَاتٍ إِلَى سَبْعِمِائَةِ ضِعْفٍ، إِلَى أَضْعَافٍ كَثِیرَةٍ،وَإِنْ هَمَّ بسیئة فلم یَعْمَلْهَا كَتَبَهَا اللهُ عِنْدَهُ حَسَنَةً كَامِلَةً، وَإِنْ هَمَّ بِهَا فَعَمِلَهَا كَتَبَهَا اللهُ سَیِّئَةً وَاحِدَةً

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک حدیث قدسی میں فرمایااللہ تعالیٰ نے نیکیاں اوربرائیاں مقدرکردی ہیں اورپھرانہیں صاف صاف بیان کردیاہے پس جس نے کسی نیکی کا ارادہ کیالیکن اس پرعمل نہ کرسکاتواللہ تعالیٰ اس کے لئے ایک مکمل نیکی کابدلہ لکھاہےاوراگراس نے ارادہ کے بعداس پرعمل بھی کرلیاتواللہ تعالیٰ نے اس کے لئے اپنے یہاں دس گنے سے سات سوگنے تک نیکیاں لکھی ہیں اور اس سے بڑھاکر، اورجس نے کسی برائی کاارادہ کیااورپھراس پرعمل نہیں کیاتواللہ تعالیٰ نے اس کے لئے اپنے یہاں ایک نیکی لکھی ہے اوراگراس نے ارادہ کے بعداس پرعمل بھی کرلیاتواپنے یہاں اس کے لئے ایک برائی لکھی ہے۔[57]

آمَنَ الرَّسُولُ بِمَا أُنزِلَ إِلَیْهِ مِن رَّبِّهِ وَالْمُؤْمِنُونَ ۚ كُلٌّ آمَنَ بِاللَّهِ وَمَلَائِكَتِهِ وَكُتُبِهِ وَرُسُلِهِ لَا نُفَرِّقُ بَیْنَ أَحَدٍ مِّن رُّسُلِهِ ۚ وَقَالُوا سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا ۖ غُفْرَانَكَ رَبَّنَا وَإِلَیْكَ الْمَصِیرُ ‎﴿٢٨٥﴾‏(البقرة)
’’رسول ایمان لایا اس چیز پر جو اس کی طرف اللہ تعالیٰ کی جانب سے اترے اور مومن بھی ایمان لائے یہ سب اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتوں پر اور اس کی کتابوں پر اور اس کے رسولوں پر ایمان لائے، اس کے رسولوں میں سے کسی میں ہم تفریق نہیں کرتے، انہوں نے کہہ دیا کہ ہم نے سنا اور اطاعت کی، ہم تیری بخشش طلب کرتے ہیں اے ہمارے رب اور ہمیں تیری ہی طرف لوٹنا ہے۔ ‘‘

اسلام کے بنیادی عقائد کاخلاصہ بیان فرمایاکہ رسول اس ہدایت پرایمان لایاہے جواس کے رب کی طرف سے اس پرنازل ہوئی ہے،اورجولوگ اس رسول کے ماننے والے ہیں انہوں نے بھی اس ہدایت کوبسروچشم تسلیم کرلیاہے،یہ سب اللہ اوراس کے فرشتوں اورانبیاءپرمنزل کتابوں اوراس کے تمام انبیاءکی تصدیق کرتے ہیں اوران کاقول یہ ہے کہ ہم اللہ کے رسولوں میں فرق نہیں سمجھتے کہ کسی رسول کومانیں اورکسی کونہ مانیں بلکہ ہم تمام انبیاءورسل پرایمان رکھتے ہیں ،جونیکوکار،ہدایت یافتہ اورنیکی کے راستوں کی طرف رہنمائی فرمانے والے تھے،وہ یہ اقرارکرتے ہیں کہ ہم نے اللہ کاپاکیزہ کلام سنااوراحکام الٰہی کی اطاعت قبول کرتے ہیں ،وہ ان لوگوں میں شامل نہیں ہوئے جنہوں نے کہاتھا

۔۔۔قَالُوْا سَمِعْنَا وَعَصَیْنَا۔۔۔۝۹۳ [58]

ترجمہ:انہوں نے کہا ہم نے سن لیا اور مانیں گے نہیں ۔

کیونکہ بندے سے اللہ کے حقوق کی ادائیگی میں کوتاہی اوربشری تقاضوں سے گناہ سرزدہوہی جاتے ہیں اس لئے ان کی عاجزانہ دعا کرتے ہیں کہ اے ہمارے مالک!ہم سے جوکوتاہیاں ،خطائیں اورلغزشیں ہوجائیں ہم اس پرشرمسارہیں اور تجھ سے بخشش ومغفرت کے طالب ہیں اورایک وقت مقررہ پرہمیں اپنے اعمال کی جوابدہی کے لئے تیری ہی طرف پلٹناہے،پھرتوہمیں ہمارے اعمال کی جزادے گا۔

لَا یُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا ۚ لَهَا مَا كَسَبَتْ وَعَلَیْهَا مَا اكْتَسَبَتْ ۗ رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذْنَا إِن نَّسِینَا أَوْ أَخْطَأْنَا ۚ رَبَّنَا وَلَا تَحْمِلْ عَلَیْنَا إِصْرًا كَمَا حَمَلْتَهُ عَلَى الَّذِینَ مِن قَبْلِنَا ۚ رَبَّنَا وَلَا تُحَمِّلْنَا مَا لَا طَاقَةَ لَنَا بِهِ ۖ وَاعْفُ عَنَّا وَاغْفِرْ لَنَا وَارْحَمْنَا ۚ أَنتَ مَوْلَانَا فَانصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكَافِرِینَ ‎﴿٢٨٦﴾‏(البقرة)
’’اللہ تعالیٰ کسی جان کو اس کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا، جو نیکی وہ کرے وہ اس کے لیے اور جو برائی وہ کرے وہ اس پر ہے، اے ہمارے رب !اگر ہم بھول گئے ہوں یا خطا کی ہو تو ہمیں نہ پکڑنا، اے ہمارے رب! ہم پر وہ بوجھ نہ ڈال جو ہم سے پہلے لوگوں پر ڈالا تھا، اے ہمارے رب! ہم پر وہ بوجھ نہ ڈال جس کی ہمیں طاقت نہ ہو اور ہم سے درگزر فرما! اور ہمیں بخش دے اور ہم پر رحم کر! تو ہی ہمارا مالک ہے، ہمیں کافروں کی قوم پر غلبہ عطا فرما۔ ‘‘

اللہ کسی متنفس پراس کی مقدرت سے بڑھ کرذمہ داری کابوجھ نہیں ڈالتا،جیسے فرمایا

۔۔۔هُوَ اجْتَبَاكُمْ وَمَا جَعَلَ عَلَیْكُمْ فِی الدِّیْنِ مِنْ حَرَجٍ… [59]

ترجمہ:اس نے تمہیں اپنے کام کے لیے چن لیا ہے اور دین میں تم پر کوئی تنگی نہیں رکھی ۔

ہرشخص نے جونیکی کی ہےاس کاکی جزااس کوہی ملے گی اورجوجس قصورکامرتب ہواہے اس کی سزا اسی کوملے گی کسی کے قصورکی سزادوسرے کونہیں دی جائے گی ،ایمان لانے والو!تم یوں دعاکیاکرواے ہمارے رب!اگربھول کرہم نے کوئی فرض ترک کردیاہویابھول کرکسی فعل حرام کاارتکاب کرلیاہویاازراہ جہالت ہم کسی کام کوشریعت کے مقررکردہ طریقے کے مطابق سرانجام نہ دے سکے ہوں توان پرمواخذہ نہ کرنا،

عَنْ أَبِی ذَرٍّ الْغِفَارِیِّ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:إِنَّ اللهَ قَدْ تَجَاوَزَ عَنْ أُمَّتِی الْخَطَأَ، وَالنِّسْیَانَ، وَمَا اسْتُكْرِهُوا عَلَیْهِ

ابوذرغفاری رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااللہ تعالیٰ نے میری امت کوبھول چوک اورجس پرزبردستی کی جائے معاف کردیاہے۔[60]

مالک!ہم پر وہ بوجھ یعنی مشکل احکام نہ ڈال جوتونے ہم سے پہلے لوگوں پرڈالے تھے، پروردگار!وہ تکلیفیں بلائیں اورمشقتیں ہم پرنہ ڈال جس کو اٹھانے کی طاقت ہم میں نہیں ہے،

 عَنْ مَكْحُولٍ، فِی قَوْلِهِ: {وَلَا تُحَمِّلْنَا مَا لَا طَاقَةَ لَنَا بِهِ} قَالَ: الْغُرْبَةُ وَالْغُلْمَة

مکحول رحمہ اللہ فرماتے ہیں آیت ’’ ہم پر وہ بوجھ نہ ڈال جس کی ہمیں طاقت نہ ہو۔‘‘ اس سے مرادغربت(وطن سے دوری)اورشدت شہوت ہے۔[61]

ہماری تقصیروں کومعاف فرمایا،ہمارے گناہوں کوبخش ،ہماری عملی کوتاہیوں اوربداعمالیوں کی پردہ پوشی فرما،ہم پررحم کرتاکہ ہم سے تیری نافرمانیوں کاکوئی کام نہ ہو ، تو ہی ہماراولی و ناصرہے،تجھی پرہمارابھروسہ ہے،تجھی سے ہم مددطلب کرتے ہیں کہ جوتیری وحدانیت اورتیرے دین کے منکرہیں ،جو تیرے نبی کی رسالت پرایمان نہیں لاتے، جو تیرے ساتھ غیراللہ کی عبادت کرتے ہیں ،اے اللہ توہمیں ان پرغالب کراوردین میں ہم ہی ان پرفاتح رہیں ۔ (آمِّینَ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِینَ )

ان دوآیتوں کی فضیلت:

عَنْ أَبِی مَسْعُودٍ،قَالَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:مَنْ قَرَأَ بِالْآیَتَیْنِ مِنْ آخِرِ سُورَةِ البَقَرَةِ فِی لَیْلَةٍ كَفَتَاهُ

ابومسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجوشخص رات کوسورة البقرة کی آخری دوآیتیں پڑھ لے تووہ اس کے لیے کافی ہوں گی۔[62]

[1] تفسیرابن ابی حاتم۵۳۷؍۲

[2] البقرة: 272

[3] تفسیرابن ابی حاتم۲۸۵۳

[4] حم السجدة۴۶

[5] تفسیرابن ابی حاتم۵۳۹؍۲

[6] تفسیرابن ابی حاتم۵۳۹؍۲

[7] صحیح بخاری کتاب الزکاة بَابُ إِذَا تَصَدَّقَ عَلَى غَنِیٍّ وَهُوَ لاَ یَعْلَمُ۱۴۲۱،صحیح مسلم کتاب الزکاة بَابُ ثُبُوتِ أَجْرِ الْمُتَصَدِّقِ، وَإِنْ وَقَعَتِ الصَّدَقَةُ فِی یَدِ غَیْرِ أَهْلِهَا۲۳۶۲

[8] الفتح۲۹

[9] محمد۳۰

[10]۔صحیح بخاری کتاب الزکاة بَابُ قَوْلِ اللهِ تَعَالَى لاَ یَسْأَلُونَ النَّاسَ إِلْحَافًا۱۴۷۶،صحیح مسلم کتاب الزکاة بَابُ الْمِسْكِینِ الَّذِی لَا یَجِدُ غِنًى، وَلَا یُفْطَنُ لَهُ فَیُتَصَدَّقُ عَلَیْهِ۲۳۹۴

[11] مسنداحمد۱۱۰۶۰

[12]صحیح بخاری کتاب الزکاة بَابُ الِاسْتِعْفَافِ عَنِ المَسْأَلَةِ۱۴۷۰

[13]صحیح بخاری كِتَابُ الوَصَایَا بَابُ أَنْ یَتْرُكَ وَرَثَتَهُ أَغْنِیَاءَ خَیْرٌ مِنْ أَنْ یَتَكَفَّفُوا النَّاسَ ۲۷۴۲،صحیح مسلم كِتَابُ الْوَصِیَّةِ بَابُ الْوَصِیَّةِ بِالثُّلُثِ۴۲۰۹

[14] مسنداحمد ۱۷۰۸۲،صحیح بخاری كِتَابُ النَّفَقَاتِ بَابُ فَضْلِ النَّفَقَةِ عَلَى الأَهْلِ۵۳۵۱،صحیح مسلم كِتَاب الزَّكَاةِ بَابُ فَضْلِ النَّفَقَةِ وَالصَّدَقَةِ عَلَى الْأَقْرَبِینَ وَالزَّوْجِ وَالْأَوْلَادِ، وَالْوَالِدَیْنِ وَلَوْ كَانُوا مُشْرِكِینَ ۲۳۲۲

[15] تفسیرابن ابی حاتم۵۴۴؍۲

[16] سنن ابن ماجہ كِتَابُ التِّجَارَاتِ بَابُ التَّغْلِیظِ فِی الرِّبَا۲۲۷۴،مستدرک حاکم ۲۲۵۹

[17] سنن ابن ماجہ كِتَابُ التِّجَارَاتِ بَابُ التَّغْلِیظِ فِی الرِّبَا۲۲۷۷،مسنداحمد۳۷۳۷،صحیح مسلم كِتَابُ التِّجَارَاتِ بَابُ لَعْنِ آكِلِ الرِّبَا وَمُؤْكِلِهِ۴۰۹۳

[18] صحیح بخاری کتاب التعبیربَابُ تَعْبِیرِ الرُّؤْیَا بَعْدَ صَلاَةِ الصُّبْحِ ۷۰۴۷

[19] المائدة۹۵

[20] تفسیرابن ابی حاتم ۵۵۱؍۲

[21] سنن ابوداودكِتَاب الْبُیُوعِ بَابٌ فِی الْمُخَابَرَةِ ۳۴۰۶،مستدرک حاکم ۳۱۲۹

[22] الروم۳۹1

[23] البقرة: 276

[24] تفسیرطبری۱۵؍۶،مسنداحمد۳۷۵۴

[25] صحیح بخاری کتاب الزکاة بَابُ الصَّدَقَةِ مِنْ كَسْبٍ طَیِّبٍ لِقَوْلِهِ وَیُرْبِی الصَّدَقَاتِ۱۴۱۰،صحیح مسلم کتاب الزکاة بَابُ قَبُولِ الصَّدَقَةِ مِنَ الْكَسْبِ الطَّیِّبِ وَتَرْبِیَتِهَا۲۳۴۲، مسند احمد ۸۳۸۱، مسند البزار ۸۹۸۰،السنن الصغیر للبیہقی ۱۲۴۹،السنن الکبری للبیہقی ۷۷۴۹، ۷۸۳۸

[26] تفسیرطبری۴۱؍۶

[27] صحیح بخاری کتاب البیوع بَابُ السَّلَمِ فِی وَزْنٍ مَعْلُومٍ۲۲۴۰،صحیح مسلم کتاب المساقاة بَابُ السَّلَمِ۴۱۱۸،سنن ابوداودکتاب الاجارةبَابٌ فِی السَّلَفِ ۳۴۶۳،جامع ترمذی ابواب البیوع بَابُ مَا جَاءَ فِی السَّلَفِ فِی الطَّعَامِ وَالتَّمْرِ ۱۳۱۱،سنن ابن ماجہ کتاب التجارات بَابُ السَّلَفِ فِی كَیْلٍ مَعْلُومٍ، وَوَزْنٍ مَعْلُومٍ إِلَى أَجَلٍ مَعْلُومٍ۲۲۸۱،مسنداحمد۲۵۴۸،صحیح ابن حبان۴۹۲۵

[28] تفسیرطبری۴۷؍۶

[29] مسنداحمد۸۵۸۷،صحیح بخاری کتاب الزکوٰة بَابُ مَا یُسْتَخْرَجُ مِنَ البَحْرِ ۱۴۹۸

[30] صحیح بخاری کتاب العتق بَابٌ أَیُّ الرِّقَابِ أَفْضَلُ۲۵۱۸،صحیح مسلم کتاب الایمان بَابُ بَیَانِ كَوْنِ الْإِیمَانِ بِاللهِ تَعَالَى أَفْضَلَ الْأَعْمَالِ۲۵۰

[31] صحیح مسلم کتاب الایمان بَابُ بَیَانِ نُقْصَانِ الْإِیمَانِ بِنَقْصِ الطَّاعَاتِ، وَبَیَانِ إِطْلَاقِ لَفْظِ الْكُفْرِ عَلَى غَیْرِ الْكُفْرِ بِاللهِ، كَكُفْرِ النِّعْمَةِ وَالْحُقُوقِ۲۴۱،سنن ابن ماجہ کتاب الفتن بَابُ فِتْنَةِ النِّسَاءِ ۴۰۰۳،مسنداحمد۵۳۴۳،صحیح ابن خزیمة۱۴۶۰

[32] تفسیرابن کثیر۷۲۵؍۱

[33] صحیح بخاری کتاب البیوع بَابُ شِرَاءِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بِالنَّسِیئَةِ۲۰۶۹،شرح السنة للبغوی۴۰۷۸ ،مسندالبزار۷۱۸۰

[34] تفسیرابن کثیر۷۲۸؍۱

[35] المائدة ۱۰۶

[36] النسائ۱۳۵

[37] آل عمران۲۹

[38] طہ۷

[39]البقرة: 284

[40] البقرة: 285

[41] البقرة: 285

[42] البقرة: 286

[43] البقرة: 286

[44] البقرة: 286

[45] البقرة: 286

[46] البقرة: 286

[47] مسنداحمد۹۳۴۴،صحیح مسلم کتاب الایمان بَابُ تَجَاوُزِ اللهِ عَنْ حَدِیثِ النَّفْسِ وَالْخَوَاطِرِ بِالْقَلْبِ، إِذَا لَمْ تَسْتَقِرَّ۳۲۹

[48] البقرة: 284

[49] البقرة: 285

[50] البقرة: 286

[51] مسنداحمد۳۰۷۰

[52] صحیح بخاری کتاب العتق بَابُ الخَطَإِ وَالنِّسْیَانِ فِی العَتَاقَةِ وَالطَّلاَقِ وَنَحْوِهِ، وَلاَ عَتَاقَةَ إِلَّا لِوَجْهِ اللهِ۲۵۲۸،صحیح مسلم کتاب الایمان بَابُ تَجَاوُزِ اللهِ عَنْ حَدِیثِ النَّفْسِ وَالْخَوَاطِرِ بِالْقَلْبِ، إِذَا لَمْ تَسْتَقِرَّ ۳۳۱

[53] صحیح بخاری کتاب التوحیدبَابُ قَوْلِ اللهِ تَعَالَى یُرِیدُونَ أَنْ یُبَدِّلُوا كَلاَمَ اللهِ۷۵۰۱،صحیح مسلم کتاب الایمان بَابُ إِذَا هَمَّ الْعَبْدُ بِحَسَنَةٍ كُتِبَتْ، وَإِذَا هَمَّ بِسَیِّئَةٍ لَمْ تُكْتَبْ۳۳۴،جامع ترمذی ابواب تفسیرالقرآن بَابٌ: وَمِنْ سُورَةِ الأَنْعَامِ ۳۰۷۳،مسنداحمد۷۲۹۶

[54] صحیح مسلم کتاب الایمان باب اذاھم العبدبحسنة۳۳۵

[55]صحیح بخاری کتاب الایمان بَابُ حُسْنِ إِسْلاَمِ المَرْءِ ۴۲،صحیح مسلم کتاب الایمان بَابُ إِذَا هَمَّ الْعَبْدُ بِحَسَنَةٍ كُتِبَتْ، وَإِذَا هَمَّ بِسَیِّئَةٍ لَمْ تُكْتَبْ۳۳۶

[56] صحیح مسلم کتاب الایمان بَابُ إِذَا هَمَّ الْعَبْدُ بِحَسَنَةٍ كُتِبَتْ، وَإِذَا هَمَّ بِسَیِّئَةٍ لَمْ تُكْتَبْ۳۳۷

[57] صحیح بخاری کتاب الرقاق بَابُ مَنْ هَمَّ بِحَسَنَةٍ أَوْ بِسَیِّئَةٍ۶۴۹۱،صحیح مسلم کتاب الایمان بَابُ إِذَا هَمَّ الْعَبْدُ بِحَسَنَةٍ كُتِبَتْ، وَإِذَا هَمَّ بِسَیِّئَةٍ لَمْ تُكْتَبْ۳۳۸

[58] البقرة۹۳

[59] الحج۷۸

[60]سنن ابن ماجہ کتاب الطلاق بَابُ طَلَاقِ الْمُكْرَهِ وَالنَّاسِی۲۰۴۳

[61] تفسیرابن ابی حاتم۵۸۱؍۲

[62] صحیح بخاری كِتَابُ فَضَائِلِ القُرْآنِ بَابُ فَضْلِ سُورَةِ البَقَرَةِ ۵۰۰۹،صحیح مسلم کتاب باب،سنن ابن ماجہ كِتَابُ إِقَامَةِ الصَّلَاةِ، وَالسُّنَّةُ فِیهَا بَابُ مَا جَاءَ فِیمَا یُرْجَى أَنْ یَكْفِیَ مِنْ قِیَامِ اللیْلِ۱۳۶۹،سنن ابوداودأَبْوَابُ قِرَاءَةِ الْقُرْآنِ وَتَحْزِیبِهِ وَتَرْتِیلِهِ بَابُ تَحْزِیبِ الْقُرْآنِ۱۳۹۷،جامع ترمذی أَبْوَابُ فَضَائِلِ الْقُرْآنِ بَابُ مَا جَاءَ فِی آخِرِ سُورَةِ البَقَرَةِ۲۸۸۱،مسنداحمد۱۷۰۶۸

Related Articles