مکہ: قبل از بعثتِ نبوی ﷺ

انبیاء کرام کااولین فریضہ

خالق کواپنی تخلیق کی بہتری منظورہے ،اس لئے اللہ نے ا نسانوں پررحمت واحسان کرتے ہوئے ہرہربستی میں ا نبیاء مبعوث فرمائے تاکہ انسان ابلیس کے مکروفریب سے نکل کر ان کے توسط سے پھرسے ہدایت کے راستے پر چل نکلیں ،ان قوانین پرعمل کرنے سے اسی کاہی فائدہ ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاتمہارارب تم سے تمہاری ماں کی نسبت سترگناہ زیادہ محبت کرتاہے اوراسی محبت کاہی تقاضاہے کہ وہ نہیں چاہتاکہ انسان غلط راہوں پرچل کراپنانقصان کربیٹھے،پیغمبرآخرالزمان محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے سواتمام نبی ایک محدودعلاقہ یاکسی مخصوص قوم کے لئے ہی آئے کسی نبی کااس کے علاوہ اور کوئی کام نہ تھا کہ وہ لوگوں تک شرک کی تمام جلی اورخفی اقسام سے پاک خالص توحیدکاپیغام پہنچادے اورانہیں ان کے کھلے دشمن ابلیس سے چوکنا و خبردار کردے، اس وقت کی اقوام کوبھی یقیناًسیاسی ،معاشرتی ،معاشی،تمدنی اوردیگر مسائل درپیش ہوں گے مگر تمام رسولوں نے اپنی قوموں کے تمام مسائل کوبالائے طاق رکھ کر صرف توحیدکا بنیادی نکتہ جوتمام مسائل کے حل کی کنجی تھا ان کے سامنے پیش کیا اور اسی پرہی سارازورصرف کیا،چنانچہ ہرپیغمبر علیہ السلام نے یہی فرمایا۔

وَلَقَدْ اَرْسَلْنَا نُوْحًا اِلٰی قَوْمِہٖٓ۝۰ۡاِنِّىْ لَكُمْ نَذِیْرٌ مُّبِیْنٌ۝۲۵ۙاَنْ لَّا تَعْبُدُوْٓا اِلَّا اللہَ۝۰ۭ اِنِّىْٓ اَخَافُ عَلَیْكُمْ عَذَابَ یَوْمٍ اَلِیْمٍ۝۲۶ [1]

ترجمہ:(اور ایسے ہی حالات تھے جب) ہم نے نوح کو اس کی قوم کی طرف بھیجا تھا (اس نے کہا) میں تم لوگوں کو صاف صاف خبردار کرتا ہوں کہ اللہ کے سوا کسی کی بندگی نہ کرو ورنہ مجھے اندیشہ ہے کہ تم پر ایک روز دردناک عذاب آئے گا۔

 اِنَّآ اَرْسَلْنَا نُوْحًا اِلٰى قَوْمِہٖٓ اَنْ اَنْذِرْ قَوْمَكَ مِنْ قَبْلِ اَنْ یَّاْتِیَہُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ۝۱قَالَ یٰقَوْمِ اِنِّىْ لَكُمْ نَذِیْرٌ مُّبِیْنٌ۝۲ۙاَنِ اعْبُدُوا اللہَ وَاتَّقُوْہُ وَاَطِیْعُوْنِ۝۳ۙیَغْفِرْ لَكُمْ مِّنْ ذُنُوْبِكُمْ وَیُؤَخِّرْكُمْ اِلٰٓى اَجَلٍ مُّسَمًّى۝۰ۭ اِنَّ اَجَلَ اللہِ اِذَا جَاۗءَ لَا یُؤَخَّرُ۝۰ۘ لَوْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ۝۴ [2]

ترجمہ:ہم نے نوح علیہ السلام کو اس کی قوم کی طرف بھیجا (اس ہدایت کے ساتھ) کہ اپنی قوم کے لوگوں کو خبردار کر دے قبل اس کے کہ ان پر ایک دردناک عذاب آئے،اس نے کہا اے میری قوم کے لوگو!میں تمہارے لیے ایک صاف صاف خبردار کردینے والا( پیغمبر) ہوں ( تم کو آگاہ کرتا ہوں ) کہ اللہ کی بندگی کرو اور اس سے ڈرو اور میری اطاعت کرو اللہ تمہارے گناہوں سے درگزر فرمائے گا اور تمہیں ایک وقت مقرر تک باقی رکھے گا حقیقت یہ ہے کہ اللہ کا مقرر کیا ہوا وقت جب آجاتا ہے تو پھر ٹالا نہیں جاتا کاش تمہیں اس کا علم ہو۔

وَاِلٰی عَادٍ اَخَاہُمْ ہُوْدًا۝۰ۭ قَالَ یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللہَ مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰہٍ غَیْرُہٗ۝۰ۭ اِنْ اَنْتُمْ اِلَّا مُفْتَرُوْنَ۝۵۰ [3]

ترجمہ:اور عاد کی طرف ان کے بھائی ہود کو بھیجا اس نے کہا کہ اے برادران قوم!اللہ کی بندگی کرو تمہارا کوئی خدااس کے سوا نہیں ہے تم نے محض جھوٹ گھڑرکھے ہیں ۔

وَاِلٰی ثَمُوْدَ اَخَاہُمْ صٰلِحًا۝۰ۘ قَالَ یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللہَ مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰہٍ غَیْرُہٗ۝۰ۭ ہُوَاَنْشَاَكُمْ مِّنَ الْاَرْضِ وَاسْتَعْمَرَكُمْ فِیْہَا فَاسْتَغْفِرُوْہُ ثُمَّ تُوْبُوْٓا اِلَیْہِ۝۰ۭ اِنَّ رَبِّیْ قَرِیْبٌ مُّجِیْبٌ۝۶۱ [4]

ترجمہ:اور ثمود کی طرف ہم نے ان کے بھائی صالح( علیہ السلام ) کو بھیجا اس نے کہا اے میری قوم کے لوگو! اللہ کی بندگی کرو اس کے سوا تمہارا کوئی الٰہ نہیں ہے، وہی ہے جس نے تم کو زمین سے پیدا کیا اور یہاں تم کو بسایا ہے لہٰذا تم اس سے معافی چاہو اور اس کی طرف پلٹ آؤ، یقیناً میرا رب قریب ہے اور وہ دعاؤں کا جواب دینے والا ہے۔

وَاِبْرٰہِیْمَ اِذْ قَالَ لِقَوْمِہِ اعْبُدُوا اللہَ وَاتَّــقُوْہُ۝۰ۭ ذٰلِكُمْ خَیْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ۝۱۶ [5]

ترجمہ:اور ابراہیم ( علیہ السلام ) کو بھیجا جبکہ اس نے اپنی قوم سے کہا اللہ کی بندگی کرو اور اس سے ڈرویہ تمہارے لیے بہتر ہے اگر تم جانو ۔

كَذَّبَتْ قَوْمُ لُوْطِۨ الْمُرْسَلِیْنَ۝۱۶۰ۚۖاِذْ قَالَ لَہُمْ اَخُوْہُمْ لُوْطٌ اَلَا تَتَّقُوْنَ۝۱۶۱ۚاِنِّىْ لَكُمْ رَسُوْلٌ اَمِیْنٌ۝۱۶۲ۙفَاتَّــقُوااللہَ وَاَطِیْعُوْنِ۝۱۶۳ۚ [6]

ترجمہ:لوط ( علیہ السلام ) کی قوم نے رسولوں کو جھٹلایایاد کرو جبکہ ان کے بھائی لوطؑ نے ان سے کہا تھا کیا تم ڈرتے نہیں ؟میں تمہارے لیے ایک امانت دار رسول ہوں لہذا تم اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو ۔

وَاِلٰی مَدْیَنَ اَخَاہُمْ شُعَیْبًا۝۰ۭ قَالَ یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللہَ مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰہٍ غَیْرُہٗ۔۔۔ ۝۸۵ۚ [7]

ترجمہ:اور مدیَن والوں کی طرف ہم نے ان کے بھائی شعیب( علیہ السلام ) کو بھیجا اس نے کہا اے برادران قوم! اللہ کی بندگی کرو اس کے سوا تمہارا کوئی خدا نہیں ہے۔

وَاِلٰى مَدْیَنَ اَخَاہُمْ شُعَیْبًا۝۰ۙ فَقَالَ یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللہَ وَارْجُوا الْیَوْمَ الْاٰخِرَ وَلَا تَعْثَوْا فِی الْاَرْضِ مُفْسِدِیْنَ۝۳۶ [8]

ترجمہ:اور مدین کی طرف ہم نے ان کے بھائی شعیب ( علیہ السلام ) کو بھیجا اس نے کہا اے میری قوم کے لوگو!اللہ کی بندگی کرو اور روز آخر کے امیدوار رہو اور زمین میں مفسد بن کر زیادتیاں نہ کرتے پھرو ۔

وَاِذْ نَادٰی رَبُّكَ مُوْسٰٓی اَنِ ائْتِ الْقَوْمَ الظّٰلِــمِیْنَ۝۱۰قَوْمَ فِرْعَوْنَ۝۰ۭ اَلَا یَتَّقُوْنَ۝۱۱ۙ [9]

ترجمہ:انہیں اس وقت کا قصہ سناؤ جب کہ تمہارے رب نے موسی ( علیہ السلام ) کو پکارا ظالم قوم کے پاس جافرعون کی قوم کے پاس کیا وہ نہیں ڈرتے؟ ۔

ہرپیغمبر نے اپنی اپنی قوم کوان کی ہرطرح کی مخالفتوں کے باوجوداپنی انتھک کوششوں سے قوموں کواللہ سے کیا ہوا وعدہ یاددلایا اور اللّٰہ کے نازل کردہ قوانین کوسیدھے اورصاف لفظوں میں سمجھا کر ان کی پیروی کی ہدایت کی اورکفروشرک سے روکا،انہوں نے اپنی اپنی قوموں سے واضع طورپر اللہ وحدہ لاشریک کاخوبصورت طور پر تعارف کراتے ہوئے انہیں بتایا کہ یہ وسیع کائنات جو حیران کن حدسے زیادہ منظم بامقصداورمتحرک ہے،جس میں ذرا بھی کجی نظرنہیں آتی خود بخودیا کسی حادثہ کے نتیجے میں وجودمیں نہیں آئی اور نہ ہی کئی خالقوں نے مل کراسے وجود بخشاہے،اگرایساہوتاتویہ کائنات کب کی تباہ ہوچکی ہوتی، کائنات کایہ مربوط نظام صرف ایک ذی شعور اور صاحب اختیار ہستی کا قائم کیا ہواہے اور وہی ہستی اس کومنظم طورپرچلا بھی رہی ہے۔

لَوْ كَانَ فِیْہِمَآ اٰلِہَةٌ اِلَّا اللہُ لَفَسَدَتَا۝۰ۚ فَسُبْحٰنَ اللہِ رَبِّ الْعَرْشِ عَمَّا یَصِفُوْنَ۝۲۲ [10]

ترجمہ:اگر آسمان و زمین میں ایک اللہ کے سوا دوسرے الٰہ بھی ہوتے تو( زمین اور آسمان) دونوں کا نظام بگڑ جاتا پس پاک ہے اللہ رب العرش ن باتوں سے جو یہ لوگ بنا رہے ہیں ۔

قُلْ لَّوْ كَانَ مَعَہٗٓ اٰلِـہَةٌ كَـمَا یَقُوْلُوْنَ اِذًا لَّابْتَغَوْا اِلٰى ذِی الْعَرْشِ سَبِیْلًا۝۴۲سُبْحٰنَہٗ وَتَعٰلٰى عَمَّا یَقُوْلُوْنَ عُلُوًّا كَبِیْرًا۝۴۳تُـسَبِّحُ لَہُ السَّمٰوٰتُ السَّـبْعُ وَالْاَرْضُ وَمَنْ فِیْہِنَّ۝۰ۭ وَاِنْ مِّنْ شَیْءٍ اِلَّا یُسَبِّحُ بِحَمْدِہٖ وَلٰكِنْ لَّا تَفْقَہُوْنَ تَسْبِیْحَہُمْ۝۰ۭ اِنَّہٗ كَانَ حَلِــیْمًا غَفُوْرًا۝۴۴ [11]

ترجمہ:اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! ان سے کہو کہ اگر اللہ کے ساتھ دوسرے الٰہ بھی ہوتے جیسا کہ یہ لوگ کہتے ہیں تو وہ مالک عرش کے مقام پر پہنچنے کی ضرور کوشش کرتے،پاک ہے وہ اور بہت بالا و برتر ہے ان باتوں سے جو یہ لوگ کہہ رہے ہیں ،اس کی پاکی تو ساتوں آسمان اور زمین اور وہ ساری چیزیں بیان کر رہی ہیں جو آسمان و زمین میں ہیں ، کوئی چیز ایسی نہیں جو اس کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح نہ کر رہی ہو مگر تم ان کی تسبیح سمجھتے نہیں ہو ،حقیقت یہ ہے کہ وہ بڑا ہی بردبار اور درگزر کرنے والا ہے۔

صرف  اللّٰہ ہی اقتدار اعلیٰ کامالک ہے ۔

۔۔۔اِنِ الْحُكْمُ اِلَّا لِلہِ۔۔۔ ۝۴۰ [12]

ترجمہ: فرماں روائی کا اقتدار اللہ کے سوا کسی کے لیے نہیں ہے ۔

تمام قوتیں اور اختیارات اسی کے قبضہ قدرت میں ہیں ،اس قادر مطلق ہستی کے ماتحت بے شماردوسری ہستیاں ہیں جواس کائنات کی تدبیرمیں اس کے احکام کونافذکررہی ہیں ، وہ عالم الغیب ہے اور ماضی،حال اورمستقبل کا ٹھیک ٹھیک علم رکھتاہے۔

اَلَمْ یَعْلَمُوْٓا اَنَّ اللہَ یَعْلَمُ سِرَّہُمْ وَنَجْوٰىہُمْ وَاَنَّ اللہَ عَلَّامُ الْغُیُوْبِ۝۷۸ۚ [13]

ترجمہ:کیا یہ لوگ جانتے نہیں ہیں کہ اللہ کو ان کے مخفی راز اور ان کی پوشیدہ سرگوشیاں تک معلوم ہیں اور وہ تمام غیب کی باتوں سے پوری طرح باخبر ہے؟۔

وہ سمیع وبصیرہے۔

 ذٰلِكَ بِاَنَّ اللہَ یُوْلِجُ الَّیْلَ فِی النَّہَارِ وَیُوْلِجُ النَّہَارَ فِی الَّیْلِ وَاَنَّ اللہَ سَمِیْعٌۢ بَصِیْرٌ۝۶۱ [14]

ترجمہ:یہ اس لیے کہ رات سے دن اور دن سے رات نکالنے والا اللہ ہی ہے اور وہ سمیع و بصیر ہے۔

مَا خَلْقُكُمْ وَلَا بَعْثُكُمْ اِلَّا كَنَفْسٍ وَّاحِدَةٍ۝۰ۭ اِنَّ اللہَ سَمِیْعٌۢ بَصِیْرٌ۝۲۸ [15]

ترجمہ:تم سارے انسانوں کو پیدا کرنا اور پھر دوبارہ جلا اٹھانا تو (اس کے لیے ) بس ایسا ہے جیسے ایک متنفس کو (پیدا کرنا اور جلا اٹھانا) حقیقت یہ ہے کہ اللہ سب کچھ سننے اور دیکھنے والا ہے۔

قَدْسَمِعَ اللہُ قَوْلَ الَّتِیْ تُجَادِلُكَ فِیْ زَوْجِہَا وَتَشْـتَكِیْٓ اِلَى اللہِ۝۰ۤۖ وَاللہُ یَسْمَعُ تَحَاوُرَكُمَا۝۰ۭ اِنَّ اللہَ سَمِیْعٌۢ بَصِیْرٌ۝۱ [16]

ترجمہ:اللہ نے سن لی اس عورت کی بات جو اپنے شوہر کے معاملہ میں تم سے تکرار کر ہی ہے اور اللہ سے فریاد کیے جاتی ہے اللہ تم دونوں کی گفتگو سن رہا ہے، وہ سب کچھ سننے اور دیکھنے والا ہے ۔

تمہارے اوراس کے بیچ میں کوئی آڑحائل نہیں ، کوئی مغالطہ نہیں جس کاوہ شکارہو ، وہ تمہارے دلوں کے بھیداورنیتوں کے ہر گوشے سے واقف ہے۔

اِنَّ اللہَ عٰلِمُ غَیْبِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ۝۰ۭ اِنَّہٗ عَلِـیْمٌۢ بِذَاتِ الصُّدُوْرِ۝۳۸ [17]

ترجمہ:بے شک اللہ آسمانوں اور زمین کی ہر پوشیدہ چیز سے واقف ہے، وہ تو سینوں کے چھپے ہوئے راز تک جانتا ہے۔

یَعْلَمُ خَاۗىِٕنَةَ الْاَعْیُنِ وَمَا تُخْفِی الصُّدُوْرُ۝۱۹ [18]

ترجمہ:اللہ نگاہوں کی چوری تک سے واقف ہے اور راز تک جانتا ہے جو سینوں نے چھپا رکھے ہیں ۔

وہ تمہاری روزمرہ انفرادی ،اجتماعی،قومی ،بین الاقوامی ، معاشی ، سیاسی،معاشرتی،قانونی زندگی کے ایک ایک معاملے میں گہرا اورقریبی واسطہ رکھتا ہے ،اس لئے وہ تمہاری ضرورتوں کوجانتااور انہیں پورا کرنے کی قدرت رکھتاہے کیونکہ نہ تو اس پر ضعف ونقاہت کاغلبہ ہوتا ہے اورنہ ہی کام کابوجھ دوسروں پر بانتنے کی کوئی مجبوری درپیش ہوتی ہے اورنہ ہی اپنی ذمہ داریوں میں کسی دوسرے کے مشورے یاتعاون کا محتاج ہوتا ہے،یہ رب صرف صاحب قوت ہی نہیں کہ قہاروجبار بن کراپنے تخت پر براجمان ہو بلکہ وہ اس کے برعکس اپنے بندوں کے سروں پردست شفقت بھی پھیرتا ہے، وہ اپنے بندوں کارفیق ، دم سازاورولی وکارساز ہے ، ایسارفیق جو ہر برے اوربھلے لمحے کا ساتھی ہے جوبندوں کے برے حالات میں مرہم تسکین لئے موجود ہوتا ہے اور اپنے قصررحمت کے دروازے کھلے رکھتا ہے کہ ایسے ناگفتہ بہہ حالات کی آندھیوں میں مجھے پکارو میں تمہاری فریادیں التجائیں سنتاہوں اوران پر مناسب کاروائی بھی کرتاہوں ۔

وَقَالَ رَبُّكُمُ ادْعُوْنِیْٓ اَسْتَجِبْ لَكُمْ۔۔۔۝۰۝۶۰ۧ [19]

ترجمہ:تمہارا رب کہتا ہے مجھے پکارو، میں تمہاری دعائیں قبول کروں گا۔

رسولوں نے اپناتعارف کراتے ہوئے برملا کہالوگو!میں اللہ کی مخلوقات میں کوئی نرالی مخلوق نہیں بلکہ تمہاری طرح کاایک بشر ہوں اورتمہارے ہی قوم وقبیلہ سے تعلق رکھتا ہوں ۔

قَالَتْ لَہُمْ رُسُلُہُمْ اِنْ نَّحْنُ اِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ وَلٰكِنَّ اللہَ یَمُنُّ عَلٰی مَنْ یَّشَاۗءُ مِنْ عِبَادِہٖ۝۰ۭ وَمَا كَانَ لَنَآ اَنْ نَّاْتِیَكُمْ بِسُلْطٰنٍ اِلَّا بِـاِذْنِ اللہِ۝۰ۭ وَعَلَی اللہِ فَلْیَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُوْنَ۝۱۱ [20]

ترجمہ:ان کے رسولوں نے ان سے کہا واقعی ہم کچھ نہیں ہیں مگر تم ہی جیسے انسان، لیکن اللہ اپنے بندوں میں سے جس کو چاہتا ہے نوازتا ہے اور یہ ہمارے اختیار میں نہیں ہے کہ تمہیں کوئی سَنَد لا دیں سَنَد تو اللہ ہی کے اذن سے آسکتی ہے اور اللہ ہی پر اہل ایمان کو بھروسہ کرنا چاہیے ۔

قُلْ اِنَّمَآ اَنَا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ یُوْحٰٓى اِلَیَّ اَنَّمَآ اِلٰـــہُكُمْ اِلٰہٌ وَّاحِدٌ۝۰ۚ فَمَنْ كَانَ یَرْجُوْا لِقَاۗءَ رَبِّہٖ فَلْیَعْمَلْ عَمَلًا صَالِحًا وَّلَا یُشْرِكْ بِعِبَادَةِ رَبِّہٖٓ اَحَدًا۝۱۱۰ۧ [21]

ترجمہ:اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! کہو کہ میں تو ایک انسان ہوں تم ہی جیسا، میرے طرف وحی کی جاتی ہے کہ تمہارا خدا بس ایک ہی خدا ہے، پس جو کوئی اپنے رب کی ملاقات کا امیدوار ہو اسے چاہیے کہ نیک عمل کرے اور بندگی میں اپنے رب کے ساتھ کسی اور کو شریک نہ کرے۔

میں بھی تمہاری طرح جذبات ،احساسات اورخواہشات رکھتا ہوں ،رب العالمین،مالک ارض وسماوات نے مجھے اپنی رحمت سے منتخب فرماکر تمہاری طرف اپنا نمائندہ بنا کر بھیجا ہے تاکہ میں تمہیں ابلیس کی بظاہرخوبصورت مگرجہنم کی طرف لے جانے والی راہ سے بچاکر اس راہ کی طرف لے جاؤ ں جس میں اللہ کی رضاوخوشنودی اوررحمت و نعمتیں ہیں ، میں  اللّٰہ کی الوہیت یا اختیارات میں شامل یاحصہ دارنہیں اورنہ ہی مجھ میں خدائی کی کوئی صفات ہیں ،میں توصرف اس وحی کی پیروی کرتاہوں جومجھ پراللہ کی طرف سے نازل کی جاتی ہے ، اس لئے اللہ کے حکم کے مطابق میری اطاعت کرو۔

وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا لِیُطَاعَ بِـاِذْنِ اللهِ۔۔۔ ۝۶۴ [22]

ترجمہ :(انہیں بتاؤ کہ) ہم نے جو رسول بھی بھیجا ہے اسی لئے بھیجا ہے کہ اذن خداوندی کی بناپراس کی اطاعت کی جائے۔

انبیاء نے اپنی اپنی قوموں کو برملااورباربارباورکرایاکہ یاد رکھو میری دعوت بے لوث ہے مجھے تم سے زمین کاکوئی ٹکڑا، مال و زریامقام ومرتبہ نہیں چاہئے۔

 كَذَّبَتْ قَوْمُ نُوْحِۨ الْمُرْسَلِیْنَ۝۱۰۵ۚۖاِذْ قَالَ لَہُمْ اَخُوْہُمْ نُوْحٌ اَلَا تَتَّقُوْنَ۝۱۰۶ۚاِنِّىْ لَكُمْ رَسُوْلٌ اَمِیْنٌ۝۱۰۷ۙفَاتَّقُوا اللہَ وَاَطِیْعُوْنِ۝۱۰۸ۚوَمَآ اَسْـَٔــلُكُمْ عَلَیْہِ مِنْ اَجْرٍ۝۰ۚ اِنْ اَجْرِیَ اِلَّا عَلٰی رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ۝۱۰۹ۚفَاتَّقُوا اللہَ وَاَطِیْعُوْنِ۝۱۱۰ۭ [23]

ترجمہ:قوم نوح ( علیہ السلام ) نے رسولوں کو جھٹلایا،یاد کرو جبکہ ان کے بھائی نوح ( علیہ السلام ) نے ان سے کہا تھا کیا تم ڈرتے نہیں ہو؟ میں تمہارے لیے ایک امانت دار رسول ہوں لہذا تم اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو ،میں اس کام پر تم سے کسی اجر کا طالب نہیں ہوں میرا اجر تو رب العالمین کے ذمہ ہے،پس تم اللہ سے ڈرو اور( بے کھٹکے)میری اطاعت کرو ۔

اِذْ قَالَ لَہُمْ اَخُوْہُمْ ہُوْدٌ اَلَا تَتَّقُوْنَ۝۱۲۴اِنِّىْ لَكُمْ رَسُوْلٌ اَمِیْنٌ۝۱۲۵ۙۚفَاتَّـقُوا اللہَ وَاَطِیْعُوْنِ۝۱۲۶وَمَآ اَسْـَٔــلُكُمْ عَلَیْہِ مِنْ اَجْرٍ۝۰ۚ اِنْ اَجْرِیَ اِلَّا عَلٰی رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ۝۱۲۷ۭۚ [24]

ترجمہ:یاد کرو جبکہ ان کے بھائی ہود ( علیہ السلام ) نے ان سے کہا تھا کیا تم ڈرتے نہیں ؟میں تمہارے لیے ایک امانت دار رسول ہوں لہذا تم اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو،میں اس کام پر تم سے کسی اجر کا طالب نہیں ہوں میرا اجر تو رب العالمین کے ذمہ ہے ۔

وَاِلٰی عَادٍ اَخَاہُمْ ہُوْدًا۝۰ۭ قَالَ یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللہَ مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰہٍ غَیْرُہٗ۝۰ۭ اِنْ اَنْتُمْ اِلَّا مُفْتَرُوْنَ۝۵۰یٰقَوْمِ لَآ اَسْـــَٔـلُكُمْ عَلَیْہِ اَجْرًا۝۰ۭ اِنْ اَجْرِیَ اِلَّا عَلَی الَّذِیْ فَطَرَنِیْ۝۰ۭ اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ۝۵۱ [25]

ترجمہ:اور عاد کی طرف ہم نے ان کے بھائی ہود ( علیہ السلام )کو بھیجا اس نے کہا اے برادران قوم! اللہ کی بندگی کرو ، تمہارا کوئی الٰہ اس کے سوا نہیں ہے تم نے محض جھوٹ گھڑ رکھے ہیں ،اے برادران قوم!اس کام پر میں تم سے کوئی اجر نہیں چاہتامیرا اجر تو اس کے ذمّہ ہے جس نے مجھے پیدا کیا ہے، کیا تم عقل سے ذرا کام نہیں لیتے؟ ۔

 اِذْ قَالَ لَہُمْ اَخُوْہُمْ صٰلِحٌ اَلَا تَتَّقُوْنَ۝۱۴۲ۚ اِنِّىْ لَكُمْ رَسُوْلٌ اَمِیْنٌ۝۱۴۳فَاتَّقُوا اللہَ وَاَطِیْعُوْنِ۝۱۴۴ۚوَمَآ اَسْـَٔــلُكُمْ عَلَیْہِ مِنْ اَجْرٍ۝۰ۚ اِنْ اَجْرِیَ اِلَّا عَلٰی رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ۝۱۴۵ۭۙ [26]

ترجمہ:یاد کرو جبکہ ان کے بھائی صالح ( علیہ السلام ) نے ان سے کہا کیا تم ڈرتے نہیں ؟میں تمہارے لیے ایک امانت دار رسول ہوں لہذا تم اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو میں اس کام پر تم سے کسی اجر کا طالب نہیں ہوں میرا اجر تو رب العالمین کے ذمہ ہے۔

كَذَّبَتْ قَوْمُ لُوْطِۨ الْمُرْسَلِیْنَ۝۱۶۰اِذْ قَالَ لَہُمْ اَخُوْہُمْ لُوْطٌ اَلَا تَتَّقُوْنَ۝۱۶۱ۚۚۖاِنِّىْ لَكُمْ رَسُوْلٌ اَمِیْنٌ۝۱۶۲فَاتَّــقُوا اللہَ وَاَطِیْعُوْنِ۝۱۶۳ۚۙوَمَآ اَسْـَٔــلُكُمْ عَلَیْہِ مِنْ اَجْرٍ۝۰ۚ اِنْ اَجْرِیَ اِلَّا عَلٰی رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ۝۱۶۴ۭ [27]

ترجمہ:لوط ( علیہ السلام ) کی قوم نے رسولوں کو جھٹلایایاد کرو جبکہ ان کے بھائی لوط ( علیہ السلام ) نے ان سے کہا تھا کیا تم ڈرتے نہیں ؟میں تمہارے لیے ایک امانت دار رسول ہوں لہذا تم اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو ،میں اس کام پر تم سے کسی اجر کا طالب نہیں ہوں میرا اجر تو رب العالمین کے ذمہ ہے۔

كَذَّبَ اَصْحٰبُ لْــــَٔــیْكَةِ الْمُرْسَلِیْنَ۝۱۷۶اِذْ قَالَ لَہُمْ شُعَیْبٌ اَلَا تَتَّقُوْنَ۝۱۷۷اِنِّىْ لَكُمْ رَسُوْلٌ اَمِیْنٌ۝۱۷۸فَاتَّقُوا اللہَ وَاَطِیْعُوْنِ۝۱۷۹ۚۙۚۚۖوَمَآ اَسْـَٔــلُكُمْ عَلَیْہِ مِنْ اَجْرٍ۝۰ۚ اِنْ اَجْرِیَ اِلَّا عَلٰی رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ۝۱۸۰ۭ [28]

ترجمہ:اصحاب الایکہ نے رسولوں کو جھٹلایا،یاد کرو جبکہ شعیب ( علیہ السلام ) نے ان سے کہا تھا کیا تم ڈرتے نہیں ؟میں تمہارے لیے ایک امانت دار رسول ہوں لہذا تم اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو میں اس کام پر تم سے کسی اجر کا طالب نہیں ہوں میرا اجر تو رب العالمین کے ذمہ ہے ۔

میں تمہیں اپنی طرف سے کوئی حکم نہیں دیتا اور نہ ہی میراکوئی ادنیٰ اقدام بھی منشاء الہٰی سے ہٹاہوا ہے،اللہ نے مجھے سیدھے راستے کی بصیرت عطافرمائی ہے میں تمہاری منزل کو بالکل واضح طور پر جانتا ہوں ، جس میں ہمیشہ کی عزت وآرام اوررب کی خوشنودی ہے اس لئے اپنی منزل مقصودتک پہنچنے کے لئے میری پیروی کرواورابلیس کے ساتھی بن کر دربدر بھٹکتے نہ پھرو۔

 اِذْ قَالَ لِاَبِیْہِ یٰٓاَبَتِ لِمَ تَعْبُدُ مَا لَا یَسْمَعُ وَلَا یُبْصِرُ وَلَا یُغْنِیْ عَنْكَ شَـیْــــــًٔــا۝۴۲یٰٓاَبَتِ اِنِّىْ قَدْ جَاۗءَنِیْ مِنَ الْعِلْمِ مَا لَمْ یَاْتِكَ فَاتَّبِعْنِیْٓ اَہْدِكَ صِرَاطًا سَوِیًّا۝۴۳یٰٓاَبَتِ لَا تَعْبُدِ الشَّیْطٰنَ۝۰ۭ اِنَّ الشَّیْطٰنَ كَانَ لِلرَّحْمٰنِ عَصِیًّا۝۴۴ [29]

ترجمہ:(انہیں ذرا اس موقع کی یاد دلاؤ) جبکہ اس نے اپنے باپ سے کہا ابا جان!آپ کیوں ان چیزوں کی عبادت کرتے ہیں جو نہ سنتی ہیں نہ دیکھتی ہیں اور نہ آپ کا کوئی کام بنا سکتی ہیں ؟ابا جان! میرے پاس ایک ایسا علم آیا ہے جو آپ کے پاس نہیں آیا، آپ میرے پیچھے چلیں میں آپ کو سیدھا راستہ بتاؤں گاابا جان! آپ شیطان کی بندگی نہ کریں شیطان تو رحمان کا نافرمان ہے۔

میں اللہ کی طرف سے ایک قانون لے کر آیا ہوں اسے تسلیم کرواوراپنے بنائے ہوئے تمام سیاسی، اخلاقی ، معاشرتی اورتمدنی طریق زندگی کو چھوڑ کر صرف رب کے فرامین کی پیروی کرو،اگرتم میری دعوت قبول کرتے ہوتوپورے کے پورے دین میں داخل ہوجاو۔

 یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا ادْخُلُوْا فِی السِّلْمِ كَاۗفَّةً۝۰۠ وَّلَا تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّیْطٰنِ۝۰ۭ اِنَّہٗ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِیْنٌ۝۲۰۸ [30]

ترجمہ:اے ایمان لانے والو! تم پورے کے پورے اسلام میں آجاؤ اور شیطان کی پیروی نہ کرو کہ وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔

ایسانہیں ہوسکتاکہ دین کے کچھ حصہ کوجوتمہاری من مرضی کے مطابق ہو مانواورکچھ حصے کوجسے تم پسندنہ کرو انکارکردواس معاملے میں مصالحت کاقطعا ًکوئی امکان نہیں ،دین میں مکمل طورپرداخل ہونے میں ہی تمہاری دنیاوی سر بلندی اوراخروی نجات ہے، راندہ درگاہ ابلیس کے دھوکا سے نکل آؤ اور باطل معبودوں سے تائب ہوکر اپنے رب حقیقی کی طرف پلٹ آؤ اور اپنے گناہوں کی بخشش و مغفرت چاہو، وہ رب معاف کردینے کوپسندکرتاہے وہ تمہیں معاف کر دے گا،

فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ وَاسْتَغْفِرْهُ۝۰ۭؔ اِنَّهٗ كَانَ تَوَّابًا۝۳ۧ [31]

ترجمہ: اپنے رب کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح کرواور اس سے مغفرت کی دعا مانگو،بےشک وہ بڑا توبہ قبول کرنے والا ہے۔

قَالَتْ عَائِشَةُ: یَا نَبِیَّ اللَّهِ، أَرَأَیْتَ إِنْ وَافَقْتُ لَیْلَةَ الْقَدْرِ، مَا أَقُولُ؟ قَالَ: تَقُولِینَ: اللَّهُمَّ إِنَّكَ عَفُوٌّ تُحِبُّ الْعَفْوَ، فَاعْفُ عَنِّی

ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ نے عرض کی اے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! اگرمیں لیلة القدرکوپالوں تومیں کیامانگوں ؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاتم یہ دعامانگنااے میرے رب! تو بخشنے والا ہے بخش دینے کوپسندفرماتاہے پس میرے گناہوں کوبخش دے۔[32]

تم کوئی غیر ذمہ دار اور غیر مسؤ ول ہستی نہیں ہوکہ خود کو غیرذمہ دار اور غیرجواب دہ سمجھ کرجبروقہرکادیوتا،ظلم وجوراور شروفسادکامجسمہ بن جاوبلکہ اپنے تمام اختیاری اعمال کے لئے اپنے خالق کے سامنے جواب دہ ہو۔

۔۔۔السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤَادَ كُلُّ اُولٰۗىِٕكَ كَانَ عَنْهُ مَسْــــُٔــوْلًا۝۳۶ [33]

ترجمہ:یقینا آنکھ،کان اور دل سب ہی کی باز پرس ہونی ہے۔

روزقیامت کوئی شخص تمہاری غلطیوں اورکوتاہیوں کاکفارہ ادانہیں کرے گا۔

فَمَا لَهٗ مِنْ قُوَّةٍ وَّلَا نَاصِرٍ۝۱۰ۭ [34]

ترجمہ:اس وقت انسان کے پاس نہ خود اپنا کوئی زور ہوگا اور نہ کوئی اس کی مدد کرنے والا ہوگا۔

فَاِذَا جَاۗءَتِ الصَّاۗخَّةُ۝۳۳ۡیَوْمَ یَفِرُّ الْمَرْءُ مِنْ اَخِیْهِ۝۳۴ۙوَاُمِّهٖ وَاَبِیْهِ۝۳۵ۙوَصَاحِبَتِهٖ وَبَنِیْهِ۝۳۶ۭلِكُلِّ امْرِیٍٔ مِّنْهُمْ یَوْمَىِٕذٍ شَاْنٌ یُّغْنِیْهِ۝۳۷ۭ [35]

ترجمہ:آخرکار جب وہ کان بہرے کر دینے والی آواز بلند ہوگی،اس روز آدمی اپنے بھائی اور اپنی ماں اور اپنے باپ اور اپنی بیوی اور اپنی اولاد سے بھاگے گا،ان میں سے ہر شخص پر اس دن ایسا وقت آپڑے گا کہ اسے اپنے سوا کسی کا ہوش نہ ہوگا ۔

یَوْمَ تَكُوْنُ السَّمَاۗءُ كَالْمُهْلِ۝۸ۙوَتَكُوْنُ الْجِبَالُ كَالْعِهْنِ۝۹ۙوَلَا یَسْـَٔــلُ حَمِیْمٌ حَمِـیْمًا۝۱۰ۚۖیُّبَصَّرُوْنَهُمْ۝۰ۭ یَوَدُّ الْمُجْرِمُ لَوْ یَفْتَدِیْ مِنْ عَذَابِ یَوْمِىِٕذٍؚبِبَنِیْهِ۝۱۱ۙوَصَاحِبَتِهٖ وَاَخِیْهِ۝۱۲ۙوَفَصِیْلَتِهِ الَّتِیْ تُـــــْٔـوِیْهِ۝۱۳ۙوَمَنْ فِی الْاَرْضِ جَمِیْعًا۝۰ۙ ثُمَّ یُنْجِیْهِ۝۱۴ [36]

ترجمہ:(وہ عذاب اس روز ہوگا) جس روز آسمان پگھلی ہوئی چاندی کی طرح ہو جائے گااور پہاڑ رنگ برنگ کے دھنکے ہوئے اون جیسے ہوجائیں گے،اور کوئی جگری دوست اپنے جگری دوست کو نہ پوچھے گاحالانکہ وہ ایک دوسرے کو دکھائے جائیں گے, مجرم چاہے گا کہ اس دن کے عذاب سے بچنے کے لیے اپنی اولاد کو،اپنی بیوی کو، اپنے بھائی کو ، اپنے قریب ترین خاندان کو جو اسے پناہ دینے والا تھا،اور روئے زمین کے سب لوگوں کو فدیہ میں دے دے اور یہ تدبیر اسے نجات دلا دے۔

کائنات کایہ وسیع نظام ایک خالق کاایک تخلیقی امرہے، یہ ازلی ،ابدی،دائمی نہیں ،جیسے اس بامقصد وسیع اورحسین وجمیل کائنات کاآغازاللہ تعالیٰ کی پراز حکمت ودانش کے تحت قدرت کے لفظ کن سے ایک سیکنڈ کے کھربوں کھربوں کھربوں کھربوں حصے میں رونما ہواتھا اور تمام قوانین کاظہورہوگیاتھا،اس کے چھوٹے سے چھوٹے زرہ کے اصول اورپروگرام طے کر دیئے گئے تھے ،اس لئے کائنات کازرہ زرہ خواہ وہ مادی ہویاغیرمادی اس کاایک شعوری وجودہے،اس لئے پتھر ہوں یامٹی کے ذرات ہوں ،سورج ، چاند،کہکشاں ہوں یابجلی کی گرج چمک ہویازمین وآسمان جیسے بڑے بڑے اجسام ہوں ،نباتات یاجمادات ہوں حیوانات یادرندے ہوں بلاکسی استثناء کے اللہ کے قانون سے آگاہ ہیں ،اس کافہم وادراک رکھتے ہیں اور ان کی اتباع کرتے ہیں ، کائنات کی ہرشئے اپنے خالق کو پہچانتی،اس سے خوف کھاتی اوراپنے اپنے طریقہ سے اس کی تسبیح وتحسین میں رطب اللسان ہے،اوراپنے اپنے طریقہ سے اس کی تحمیدوتقدیس میں مشغول ہوکر اس حقیقت پرگواہی دے رہی ہے کہ جس نے ان کوپیداکیاہے اورجوان کی پروردگاری ونگہبانی کررہاہے ،اس کی ذات ہرعیب ،نقص اور کمزوری سے منزہ ہے اوروہ اس سے بالکل پاک ہے کہ کوئی اس کاشریک وسہیم ہو،اس لئے وہ اپنے خالق کی اطاعت میں جھکتا،اپنے مالک کاحکم بجالاتااور رب العالمین کے حضورسرتسلیم خم کرتاہے ۔

وَلِلّٰهِ یَسْجُدُ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ طَوْعًا وَّكَرْهًا وَّظِلٰلُهُمْ بِالْغُدُوِّ وَالْاٰصَالِ۝۱۵ [37]

ترجمہ:وہ تو اللہ ہی ہے جس کو زمین و آسمان کی ہر چیز طوعًا و کرہًا سجدہ کر رہی ہے، اور سب چیزوں کے سائے صبح و شام اس کے آگے جھکتے ہیں ۔

اَلَمْ تَرَ اَنَّ اللهَ یَسْجُدُ لَهٗ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَمَنْ فِی الْاَرْضِ وَالشَّمْسُ وَالْقَمَرُ وَالنُّجُوْمُ وَالْجِبَالُ وَالشَّجَرُ وَالدَّوَاۗبُّ وَكَثِیْرٌ مِّنَ النَّاسِ۝۰ۭ وَكَثِیْرٌ حَقَّ عَلَیْهِ الْعَذَابُ۝۰ۭ وَمَنْ یُّهِنِ اللهُ فَمَا لَهٗ مِنْ مُّكْرِمٍ۝۰ۭ اِنَّ اللهَ یَفْعَلُ مَا یَشَاۗءُ۝۱۸ۭ۞ [38]

ترجمہ: کیا تم دیکھتے نہیں ہو کہ اللہ کے آگے سر بسجود ہیں وہ سب جو آسمانوں میں ہیں اور جو زمین میں ہیں ؟ سورج اور چاند اور تارے اور پہاڑ اور درخت اور جانور اور بہت سے انسان اور بہت سے وہ لوگ بھی جو عذاب کے مستحق ہوچکے ہیں ، اور جسے اللہ ذلیل و خوار کردے اسے پھر کوئی عزت دینے والا نہیں ہے، اللہ کرتا ہے جو کچھ چاہتا ہے۔

تُـسَبِّحُ لَهُ السَّمٰوٰتُ السَّـبْعُ وَالْاَرْضُ وَمَنْ فِیْهِنَّ۝۰ۭ وَاِنْ مِّنْ شَیْءٍ اِلَّا یُسَبِّحُ بِحَمْدِهٖ وَلٰكِنْ لَّا تَفْقَهُوْنَ تَسْبِیْحَهُمْ۝۰ۭ اِنَّهٗ كَانَ حَلِــیْمًا غَفُوْرًا۝۴۴ [39]

ترجمہ:اس کی پاکی تو ساتوں آسمان اور زمین اور وہ ساری چیزیں بیان کر رہی ہیں جو آسمان و زمین میں ہیں ، کوئی چیز ایسی نہیں جو اس کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح نہ کر رہی ہو ، مگر تم ان کی تسبیح سمجھتے نہیں ہو، حقیقت یہ ہے کہ وہ بڑا ہی بردبار اور درگزر کرنے والا ہے۔

ویسے ہی اللہ تعالیٰ کی عظیم حکمت سے کبھی نہ کبھی ایک عظیم دھماکے کے ساتھ یہ کارخانہ عالم کلی طورپرنیست ونابود ہو جائے گا،کوئی سورج ،چاند،کوئی کہکشاں کوئی دنیاباقی نہ رہے گی ،سب کچھ بھسم ہوجائے گا،اس میں بسنے والی تمام مخلوقات ختم ہوجائیں گی اورزمین ایک چٹیل بے آب وگیاہ میدان بن کررہ جائے گی(قیامت کبریٰ) یہ خالق کائنات کاقانون ہے کہ کسی بھی چیزکوبقائے دوام حاصل نہیں ۔

كُلُّ مَنْ عَلَیْهَا فَانٍ۝۲۶ۚۖوَّیَبْقٰى وَجْهُ رَبِّكَ ذُو الْجَلٰلِ وَالْاِكْرَامِ۝۲۷ۚ [40]

ترجمہ:ہرچیزجواس زمین پرہے فناہوجانے والی ہے،اورصرف تیرے رب جلیل وکریم ذات ہی باقی رہنے والی ہے۔

۔۔۔وَكُلُّ اَمْرٍ مُّسْتَقِرٌّ۝ [41]

ترجمہ: ہر مُعاملہ کو آخر کار ایک انجام پر پہنچ کر رہنا ہے۔

ہرچیزکی تقدیرکاپہلے سے فیصلہ کرلیاگیاہے اوراس کی تخلیق محدودمدت کے لئے ہے، ہرچیزجس کاآغازہواہے اس کاخاتمہ بھی ہوگا،جوپیداہواہے اسے مرناہے۔

كُلُّ نَفْسٍ ذَاۗىِٕقَةُ الْمَوْتِ۔۔۔۝۱۸۵ [42]

ترجمہ:آخرکارہرشخص کومرناہے۔

اورجوکچھ دنیامیں حاصل ہے اسے طوعا ًوکرہاچھوڑکرجاناہے ۔

مَا خَلَقْنَا السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ وَمَا بَیْنَهُمَآ اِلَّا بِالْحَـقِّ وَاَجَلٍ مُّسَمًّى۝۰ۭ وَالَّذِیْنَ كَفَرُوْا عَمَّآ اُنْذِرُوْا مُعْرِضُوْنَ۝۳ [43]

ترجمہ:ہم نے زمین اور آسمانوں کو ان ساری چیزوں کو جو ان کے درمیان ہیں برحق، اور ایک مدت خاص کے تعین کے ساتھ پیدا کیا ہے مگر یہ کافر لوگ اس حقیقت سے منہ موڑے ہوئے ہیں جس سے ان کو خبردار کیا گیا ہے ۔

لِكُلِّ نَبَاٍ مُّسْـتَقَرٌّ۝۰ۡوَّسَوْفَ تَعْلَمُوْنَ۝۶۷ [44]

ترجمہ:ہر خبر کے ظہور میں آنے کا ایک وقت مقرر ہے عنقریب تم کو خود انجام معلوم ہو جائے گا۔

اَوَلَمْ یَتَفَكَّرُوْا فِیْٓ اَنْفُسِهِمْ۝۰ۣ مَا خَلَقَ اللهُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ وَمَا بَیْنَهُمَآ اِلَّا بِالْحَقِّ وَاَجَلٍ مُّسَمًّى۝۰ۭ وَاِنَّ كَثِیْرًا مِّنَ النَّاسِ بِلِقَاۗیِٔ رَبِّهِمْ لَكٰفِرُوْنَ۝۸ [45]

ترجمہ:کیاانہوں نے کبھی اپنے آپ میں غوروفکرنہیں کیا؟اللہ نے زمین اورآسمانوں کواوران ساری چیزوں کوجوان کے درمیان ہیں برحق اورایک مدت مقرر ہی کے لئے پیداکیاہے ،مگربہت سے لوگ اپنے رب کی ملاقات کے منکرہیں ۔

عالم ظاہرکی ہرچیز زمین وآسمان ،سورج،چاندوستارے،بے شمارکہکشائیں نیست ونابودہوجائیں گی اورصرف اورصرف خالق کائنات جو قادرمطلق،حاکم اعلیٰ، بے نیاز،الحی القیوم ہے،جس کاعلم ہرچیزپرمحیط ہے۔

ۭ ۔۔۔وَسِعَ رَبِّیْ كُلَّ شَیْءٍ عِلْمًا۔۔۔۝۸۰ [46]

ترجمہ:میرے رب کا علم ہر چیز پر چھایا ہوا ہے۔

۔۔۔وَسِعَ رَبُّنَا كُلَّ شَیْءٍ عِلْمًا۔۔۔۝۸۹ۧ [47]

ترجمہ:ہمارے رب کا علم ہر چیز پر حاوی ہے۔

وَّاَنَّ اللهَ قَدْ اَحَاطَ بِكُلِّ شَیْءٍ عِلْمًا۝۱۲ [48]

ترجمہ: اور یہ کہ اللہ کا علم ہر چیز پرمحیط ہے ۔

جس کی رحمت سب پروسیع ہے ،جس کی طاقت سب پرغالب ہے ،جس کی حکمت میں کوئی نقص نہیں ،جس کے عدل میں ظلم کاشائبہ تک نہیں ،جوزندگی بخشنے اوروسائل حیات مہیاکرنے والاہے ،جونفع وضررکی ساری قوتوں کامالک ہے ،جس کی بخشش اورنگہبانی کے سب محتاج ہیں ،جس کی طرف تمام مخلوقات کی بازگشت ہے ،جوسب کاحساب لینے والااورجس کوجزاوسزاکااختیارہے،اس کی ذات بابرکت ہے ،جوعظمت والااوربزرگی والاہے، جس کی کائنات کے زرہ زرہ پرفرمانروائی ہے باقی رہے گی ۔

كُلُّ مَنْ عَلَیْهَا فَانٍ۝۲۶ۚۖوَّیَبْقٰى وَجْهُ رَبِّكَ ذُو الْجَلٰلِ وَالْاِكْرَامِ۝۲۷ۚ [49]

ترجمہ:ہر چیز جو اس زمین پر ہے فنا ہو جانے والی ہے ،اور صرف تیرے رب کی جلیل وکریم ذات ہی باقی رہنے والی ہے۔

وَلَا تَدْعُ مَعَ اللهِ اِلٰــهًا اٰخَرَ۝۰ۘ لَآ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ۝۰ۣ كُلُّ شَیْءٍ هَالِكٌ اِلَّا وَجْهَهٗ۝۰ۭ لَهُ الْحُكْمُ وَاِلَیْهِ تُرْجَعُوْنَ۝۸۸ۧ [50]

ترجمہ:اوراللہ کے ساتھ کسی دوسرے معبودکونہ پکارواس کے سواکوئی معبودنہیں ہرچیزہلاک ہونے والی ہے سوائے اس کی ذات کے،فرمانروائی اسی کی ہے اوراسی طرف تم سب پلٹائے جانے والے ہو۔

رسولوں نے اپنی قوموں کوتباہ شدہ قوموں کی مثالوں سے سمجھایاکہ قوموں کی تقدیرکاتعلق ان کی روحانی و اخلاقی اقدارپرمنحصرہے ،جوقلب اورضمیرکی نشوونماء کے لئے لازمی غذاہیں ،اعلیٰ روحانی و اخلاقی قدریں قوموں کے لئے ڈھال کاکام کرتی ہیں ،یہی وجہ ہے کہ قرآن مجیدباربارانسان کوتنبیہ کرتاہے کہ وہ اپنے اخلاق ٹھیک رکھیں تاکہ وہ اس دنیا میں بھی عذاب اورابتلاؤ ں سے بچتے رہیں اورآخرت میں بھی سرخروہوں ،جب تک قومیں قانون قدرت کے سلسلہ میں فکرمندرہیں وہ باعزت ،امن اورخوش حالی میں رہ کر کامیاب زندگی گزارتی رہیں لیکن جب وہ اللہ تعالیٰ کے قانون سے بے خوف ہوکربغاوت کرتی ہیں ،اللہ تعالیٰ کے بجائے دنیاوی ذرائع پرانحصارکرتی ہیں ، ظلم ،غلط کاریوں ، بداعمالیوں کواپنااوڑھنابچھونابنالیتی ہیں ،اخلاقی پستیوں کی حدیں پھلانگ جاتی ہیں ،ان کے دل خوف خداسے پگھلنے کے بجائے مزیدسخت ہوجاتے ہیں ،جب وہ برائی کو برائی سمجھنے سے قاصر ہوجاتی ہیں ،اخلاق وایمان کوکمزوری کی علامت کہتی ہیں توان پرتباہی وآفت ناگہانی مقررہوجاتی ہے جو تیزی کے ساتھ واردہوتی ہے ،مگراللہ جوغفورو رحیم ہے اس کے بعدبھی ان کوسدھرنے کے مواقع مہیاکرتاہے اورڈھیل دے کرتنبیہ کے طورپرجلدی جلدی اندرونی وبیرونی چھوٹے چھوٹے عذاب(بڑے پیمانے پر متعدی بیماریوں وغیرہ کاپھیلاو،اندرونی قومی انتشاراورخودغرضی وباہمی فساد،دیگراقوام کاغلبہ،غربت اورمعاشرہ میں افرتفری،بدظنی اوربدامنی،بڑے پیمانے پرقتل عام جس میں قاتل کومقتول کاعلم نہیں ہوگااورمقتول نہیں جانتاہوگاکہ اسے کیوں قتل کردیاگیاہے، حادثات، زلزلے، آتش فشانی، آندھیاں ، طوفان، طغیانیاں ، بے وقت بارشیں ، آسمانوں پرسے شہاب کاگرنااورکئی دیگرناگہانی تباہیاں شامل ہیں )بھیجتاہے ،تاکہ وہ غوروفکرکریں اور اپنے رب کی طرف پلٹ آئیں ، ان کی طرف اپنے نیک وصالح بندے بھیجتاہے جوانہیں مروجہ برائیوں کے خلاف تنبیہ کرتے ہیں ،پھران لوگوں کوخوش حالی دے کرآزماتاہے کہ شایدوہ شکرکریں اوراپنے رب کی طرف رجوع کر لیں ، یوں اللہ تعالیٰ کبھی سزااورکبھی نعمت دے کرباربارسدھرنے کاموقع دیتاہے ،جب وہ اچھائی سے خالی ہوجاتے ہیں اور متواترجب وہ ثابت کردیتے ہیں کہ اب وہ ہدایت پر آنے کے قابل نہیں رہے تواللہ تعالیٰ انکی برائیوں پرحرف آخرثبت فرمادیتاہے ،توبہ کی مہلت ختم ہوجاتی ہے پھربڑے عذاب کاکوڑابرس پڑتاہے،اوروہ ذلیل وخوار ہو کر صفحہ ہستی سے مٹادیئے جاتے ہیں ،جیسے چارمختلف طریقوں سے قوم نوح ،قوم عادوثمود،قوم فرعون پر عذاب آئے اورانہیں نشان عبرت بنادیاگیااورپھراللہ اس خلاکو پر کرنے کے لئے ان سے بہترلوگوں کاآگے لاتاہے ۔

فَكُلًّا اَخَذْنَا بِذَنْۢبِهٖ۝۰ۚ فَمِنْهُمْ مَّنْ اَرْسَلْنَا عَلَیْهِ حَاصِبًا۝۰ۚ وَمِنْهُمْ مَّنْ اَخَذَتْهُ الصَّیْحَةُ۝۰ۚ وَمِنْهُمْ مَّنْ خَسَفْنَا بِهِ الْاَرْضَ۝۰ۚ وَمِنْهُمْ مَّنْ اَغْرَقْنَا۝۰ۚ وَمَا كَانَ اللهُ لِیَظْلِمَهُمْ وَلٰكِنْ كَانُوْٓا اَنْفُسَهُمْ یَظْلِمُوْنَ۝۴۰ [51]

ترجمہ:آخرکار ہر ایک کو ہم نے اس کے گناہ میں پکڑا، پھر ان میں سے کسی پر ہم نے پتھراؤ کرنے والی ہوا بھیجی، اور کسی کو ایک زبردست دھماکے نے آلیا، اور کسی کو ہم نے زمین میں دھنسا دیا، اور کسی کو غرق کردیا، اللہ ان پر ظلم کرنے والا نہ تھا، مگر وہ خود ہی اپنے اوپر ظلم کر رہے تھے۔

وَلِكُلِّ اُمَّةٍ اَجَلٌ۝۰ۚ فَاِذَا جَاۗءَ اَجَلُهُمْ لَا یَسْـتَاْخِرُوْنَ سَاعَةً وَّلَا یَسْتَقْدِمُوْنَ۝۳۴ [52]

ترجمہ:اورہرقوم کے لئے مہلت کی ایک مدت مقررہے ،پھرجب کسی قوم کی مدت آن پوری ہوتی ہےتو ایک گھڑی بھرکی تاخیروتقدیم بھی نہیں ہوتی۔

رسولوں نے قوموں کو زندگی کی گنی چنی سانسوں کی بے ثباتی کاذکرکیاکہ  اللّٰہ تعالیٰ مقررہ چندروزہ زندگی کے بعدتمہیں موت سے ہمکنارکرے گااورتم اس دنیاسے رخصت ہوکرعالم برزخ یاعالم قبورمیں داخل ہوجاو گے،اورموت کے ساتھ ہی توبہ کادروازہ بندہوجاتاہے،

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:إِنَّ اللَّهَ یَقْبَلُ تَوْبَةَ الْعَبْدِ مَا لَمْ یُغَرْغِرْ

عبداللہ عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ مومن بندے کی توبہ اس وقت تک قبول کرتاہے جب تک کہ موت کی خرخراہٹ شروع نہ ہو۔[53]

موت کے بعدانسان کے اعمال کے مطابق بعض خوش قسمت لوگوں کے چہرے تازہ اور روشن اوربعض کی شکل خراب ہوجاتی ہے،جس سے آخرت کی ایک جھلک دکھائی دیتی ہے۔

الَّذِیْ خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَیٰوةَ لِیَبْلُوَكُمْ اَیُّكُمْ اَحْسَنُ عَمَلًا۝۰ۭ وَهُوَالْعَزِیْزُ الْغَفُوْرُ۝۲ [54]

ترجمہ:جس نے موت اور زندگی کو ایجاد کیا تاکہ تم لوگوں کو آزما کر دیکھے تم میں سے کون بہتر عمل کرنے والا ہے، اور وہ زبردست بھی ہے اور درگزر فرمانے والا بھی ۔

موت بھی زندگی کی طرح اللہ کی ایک تخلیق ہے ،جیسے پیدائش اس عالم میں داخل ہونے کاتخلیقی امرتھابالکل ایسے ہی موت کسی دوسرے عالم میں داخل ہونے کاتخلیقی امرہے ، یہ بھی ایک حقیقت ہے اوروہ بھی ایک حقیقت ہے ، موت بذات خود فنا کا نام نہیں بلکہ یہ زندگی کی ہی ایک شکل ہےجو اس دنیاکی امتحانی زندگی اورعالم برزخ کی روحانی دنیا کے درمیان ایک دروازہ کی مانندہے جوصرف اندرکی طرف کھلتاہے جوایک مرتبہ گزرگیاوہ کبھی واپس نہیں آسکتا،اس دروازہ کے پاراعمال کے بجائے نتائج کاعالم ہے ،وہ محسوسات کی دنیاہے ،جس میں تنہائی ہی تنہائی ہے ،کچھ قبروں میں جنت کے حالات ہیں اورکچھ میں دوزخ کے ،مرنے والے وہاں اپنے اپنے اعمال کے مطابق جزایاسزاکے احساس میں رہتے ہیں ، اگرزمینی حرص وہوس ،حسرتوں اورگناہوں کے بوجھ سے پاک ہوگے توقبروں میں بے انتہا کشادگی پاؤ گے اوراللہ کی جنتوں کی سیرکروگے ورنہ تمہاری قبریں تم پرتنگ ہوجائیں گی، تمہارے لئے جیل خانہ بن جائیں گی ،تمہاری حریص زندگی مختلف قسم کے خواب بن کرتمہارے نفسوں کوہروقت عذاب میں مبتلارکھیں گے ،

أَنَّ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُمَا:أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: إِنَّ أَحَدَكُمْ إِذَا مَاتَ عُرِضَ عَلَیْهِ مَقْعَدُهُ بِالْغَدَاةِ وَالعَشِیِّ إِنْ كَانَ مِنْ أَهْلِ الجَنَّةِ فَمِنْ أَهْلِ الجَنَّةِ وَإِنْ كَانَ مِنْ أَهْلِ النَّارِ فَمِنْ أَهْلِ النَّارِفَیُقَالُ: هَذَا مَقْعَدُكَ حَتَّى یَبْعَثَكَ اللَّهُ یَوْمَ القِیَامَةِ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجب تم میں سے کوئی شخص مرجاتاہے تواس کا ٹھکانااسے صبح وشام دکھایاجاتاہے( جہاں حساب کتاب کے بعد اس کاٹھکاناہوگا)اگروہ جنتی ہے توجنت والوں میں اور اگردوزخی ہے تو دوزخ والوں میں (ٹھکانا ہوتا ہے ) پھراسے کہاجاتاہے یہ ہے تیراٹھکانایہاں تک کہ روزقیامت اللہ تعالیٰ تجھے اٹھائے گا۔ [55]

جیسے فرعون کوصبح وشام دوزخ کی آگ دکھائی جاتی ہے۔

فَوَقٰىهُ اللهُ سَیِّاٰتِ مَا مَكَرُوْا وَحَاقَ بِاٰلِ فِرْعَوْنَ سُوْۗءُ الْعَذَابِ۝۴۵ۚاَلنَّارُ یُعْرَضُوْنَ عَلَیْهَا غُدُوًّا وَّعَشِـیًّا۝۰ۚ وَیَوْمَ تَـقُوْمُ السَّاعَةُ۝۰ۣ اَدْخِلُوْٓا اٰلَ فِرْعَوْنَ اَشَدَّ الْعَذَابِ۝۴۶ [56]

ترجمہ: آخرکار ان لوگوں نے جو بری سے بری چالیں اس مومن کے خلاف چلیں اللہ نے ان سب سے اس کو بچا لیا اور فرعون کے ساتھی بدترین عذاب کے پھیر میں آگئے، دوزخ کی آگ ہے جس کے سامنے صبح و شام وہ پیش کیے جاتے ہیں ، اور جب قیامت کی گھڑی آجائے گی تو حکم ہوگا کہ آل فرعون کو شدید تر عذاب میں داخل کرو۔

انسان کی زمینی موت کامطلب ہمیشہ کے لئے خاتمہ نہیں بلکہ ایک بہت طویل مدت کی نیندکانام ہے، کیونکہ صرف جسم کوہی موت آتی ہے جوصرف عالم ظاہرسے رابطہ کاایک ذریعہ ہےجبکہ نفس یاروح ہمیشہ قائم رہتی ہےاس لئے زمینی موت توایک بہت بڑی نئی دنیاکے آغازکاپیش خیمہ ہے، زمینی موت تومومن کے لئے تحفہ اور آسمانی حیات کا آغازہے جہاں سب اپنی اپنی زندگی کی جدوجہدکابدلہ پائیں گے،جہاں انعام پاکرکچھ چہرے شادماں اورچمکتے دکھائی دیں گے،جیسے فرمایا

وُجُوْهٌ یَّوْمَىِٕذٍ نَّاعِمَةٌ۝۸ۙ لِّسَعْیِهَا رَاضِیَةٌ۝۹ۙ [57]

ترجمہ:کچھ چہرے اس روز بارونق ہوں گے،اپنی کار گزاری پر خوش ہوں گے۔

اِنَّ الْاَبْرَارَ لَفِیْ نَعِیْمٍ۝۲۲ۙعَلَی الْاَرَاۗىِٕكِ یَنْظُرُوْنَ۝۲۳ۙتَعْرِفُ فِیْ وُجُوْهِهِمْ نَضْرَةَ النَّعِیْمِ۝۲۴ۚ [58]

ترجمہ:بے شک نیک لوگ بڑے مزے میں ہوں گے،اونچی مسندوں پر بیٹھے نظارے کر رہے ہوں گے،ان کے چہروں پر تم خوشحالی کی رونق محسوس کرو گے۔

وُجُوْهٌ یَّوْمَىِٕذٍ مُّسْفِرَةٌ۝۳۸ۙضَاحِكَةٌ مُّسْتَبْشِرَةٌ۝۳۹ۚ [59]

ترجمہ:کچھ چہرے اس روز دمک رہے ہوں گے،ہشاش بشاش اور خوش و خرم ہوں گے۔

وُجُوْهٌ یَّوْمَىِٕذٍ نَّاضِرَةٌ۝۲۲ۙاِلٰى رَبِّهَا نَاظِرَةٌ۝۲۳ۚ [60]

ترجمہ:اس روز کچھ چہرے ترو تازہ ہونگے ،اپنے رب کی طرف دیکھ رہے ہوں گے۔

اللہ کے ان بندوں کے لئے یہ نیا شاندار آغاز ہوگاجس میں کوئی خوف کوئی رنج اورکوئی غم نہ ہوگا،وہ اطمینان کی تکمیل کادن ہوگاجب خوشی کوبھی پتہ چلے گاکہ اصل خوشی کیاہوتی ہے، اورکچھ بدقسمت سیاہ روحسرت سے ہاتھ مل رہے ہوں گے کہ انہوں نے زندگی کومواقع لہوولعب میں ضائع کردیا۔

 وَوُجُوْهٌ یَّوْمَىِٕذٍ عَلَیْهَا غَبَرَةٌ۝۴۰ۙتَرْهَقُهَا قَتَرَةٌ۝۴۱ۭ [61]

ترجمہ:اور کچھ چہروں پر اس روز خاک اڑ رہی ہوگی اور کلونس چھائی ہوئی ہوگی۔

قُلُوْبٌ یَّوْمَىِٕذٍ وَّاجِفَةٌ۝۸ۙاَبْصَارُهَا خَاشِعَةٌ۝۹ۘ [62]

ترجمہ:کچھ دل ہوں گے جو اس روز خوف سے کانپ رہے ہوں ،نگاہیں ان کی سہمی ہوئی ہوں گی۔

وَوُجُوْهٌ یَّوْمَىِٕذٍؚبَاسِرَةٌ۝۲۴ۙتَظُنُّ اَنْ یُّفْعَلَ بِهَا فَاقِرَةٌ۝۲۵ۭ [63]

ترجمہ:اور کچھ چہرے اداس ہوں گےاور سمجھ رہے ہوں گے کہ ان کے ساتھ کمر توڑ برتاؤ ہونے والا ہے۔

وَالَّذِیْنَ كَسَبُوا السَّیِّاٰتِ جَزَاۗءُ سَـیِّئَةٍؚبِمِثْلِهَا۝۰ۙ وَتَرْهَقُھُمْ ذِلَّةٌ۝۰ۭ مَا لَھُمْ مِّنَ اللهِ مِنْ عَاصِمٍ۝۰ۚ كَاَنَّمَآ اُغْشِیَتْ وُجُوْهُھُمْ قِطَعًا مِّنَ الَّیْلِ مُظْلِمًا۝۰ۭ اُولٰۗىِٕكَ اَصْحٰبُ النَّارِ۝۰ۚ ھُمْ فِیْهَا خٰلِدُوْنَ۝۲۷ [64]

ترجمہ:اور جن لوگوں نے برائیاں کمائیں ان کی برائی جیسی ہے ویسا ہی وہ بدلہ پائیں گے، ذلّت ان پر مسلّط ہوگی کوئی اللہ سے ان کو بچانے والا نہ ہوگا، ان کے چہروں پر ایسی تاریکی چھائی ہوئی ہوگی جیسے رات کے سیاہ پردے ان پر پڑے ہوئے ہوں ، وہ دوزخ کے مستحق ہیں جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے۔

مگرمعاملہ یہیں پرختم نہیں ہوگیا اللہ تعالیٰ پھرنفخہ صوراول اورنفخہ صورآخرکے درمیان ایک خاص مدت میں جسے اللہ ہی جانتاہے زمین وآسمانوں کی موجودہ ہیئت کو بدل دے گا اورایک دوسرا بڑا نظام جوزیادہ شانداراورپرشکوہ ہوگاجس میں شاید مشابہت اوراسلوب میں کچھ یک رنگی بھی ہومگریہ پرانی کائنات کی نقل نہ ہوگی بلکہ دوسرا نیاعظیم نظام نئے قوانین فطرت کے ساتھ بنائے گا،نہ اس کی زمین ہماری زمین کی طرح ہوگی اورنہ اس کے آسمان موجودہ آسمانوں کی طرح ہوں گے۔

یَوْمَ تُبَدَّلُ الْاَرْضُ غَیْرَ الْاَرْضِ وَالسَّمٰوٰتُ وَبَرَزُوْا لِلهِ الْوَاحِدِ الْقَهَّارِ۝۴۸ [65]

ترجمہ:ڈراؤ انہیں اس دن سے جبکہ زمین اور آسمان بدل کرکچھ سے کچھ کردیئے جائیں گے ،اورسب کے سب اللہ واحدقہار کے سامنے بے نقاب حاضر ہو جائیں گے ۔

مکمل تباہی کے بعدجب سب موجودمعدوم میں گم ہوچکاہوگااللہ تعالیٰ کے حکم سے اسرافیل علیہ السلام صورپھونکیں گے ،جس کی زبردست آوازہوگی جوکائنات میں ہرجگہ سنی جائے گی ، اورامرربی کے طورپرایک انتہائی تبدیلی یعنی نئی تخلیق کااعلان ہوگا،انسان کے منتشراجزااپنے نفوس سے مل جائیں گے ،اللہ تعالیٰ تخلیق آدم سے لیکرقیامت تک پیداہونے والے تمام انسانوں کو ان کی سابقہ زندگی کے ذرہ ذرہ کے اعمال کے مطابق جزاء یاسزادینے کے لئے انکی قبروں سے جسم وجان کے ساتھ دوبارہ زندہ کرے گا،تمام جن و انسان زماں ومکاں کی ہرکھوہ سے بھاگتے ہوئے میدان حشرمیں دوڑتے ہوئے پہنچ جائیں گے یوں ایک دائمی کائنات اوردائمی زندگی کا شاندار آغاز ہوگا ۔

۔۔۔كَـمَا بَدَاْنَآ اَوَّلَ خَلْقٍ نُّعِیْدُهٗ۝۰ۭ وَعْدًا عَلَیْنَا۝۰ۭ اِنَّا كُنَّا فٰعِلِیْنَ۝۱۰۴ [66]

ترجمہ: جس طرح پہلے ہم نے تخلیق کی ابتدا کی تھی اسی طرح ہم پھر اس کا اعادہ کریں گےیہ ایک وعدہ ہے ہمارے ذمے، اور یہ کام ہمیں بہرحال کرنا ہے۔

وَنُفِخَ فِی الصُّوْرِ فَاِذَا هُمْ مِّنَ الْاَجْدَاثِ اِلٰى رَبِّهِمْ یَنْسِلُوْنَ۝۵۱ [67]

ترجمہ:پھر ایک صور پھونکا جائے گا اور یکایک یہ اپنے رب کے حضور پیش ہونے کے لیے اپنی قبروں سے نکل پڑیں گے۔

یَّوْمَ یُنْفَخُ فِی الصُّوْرِ فَتَاْتُوْنَ اَفْوَاجًا۝۱۸ۙ [68]

ترجمہ:جس روز صور میں پھونک مار دی جائے گی تم فوج در فوج نکل آؤ گے۔

اس دن لوگ جواس عارضی زندگی میں بڑی لمبی زندگی گزارکرآئے ہوں گے،جنہیں بڑی مہلتیں ملیں ہوں گی ،مگرجنہوں نے اس مختصرقیام کواپنی منزل سمجھ لیاتھااوریوں پڑاوڈال کربیٹھ گئے ہوں گے گویااب یہاں سے کبھی اٹھیں گے نہیں ،اپنی کوتاہ نظری ،کمزوریاداشت سے اسی عالم ظاہر کوجوآزمائش کامختصروقت ہے ساری زندگی سمجھ کراسی پراکتفاء کرلیاتھا،اپنی داستان حیات کے چندلمحات کوپوری حیات سے تعبیرکرلیا تھا، حالانکہ حقیقت اس کے برعکس تھی اس زندگی کاقیام کل کے مقابلے میں آنکھ جھپکنے سے بھی کم عرصہ ہے ،جنہوں نے زندگی کے قیمتی لمحات کوجوعالم ارواح اورعالم آخرت کے کروڑوں سالوں پربھاری ہیں فائدہ اٹھانے کے بجائے ،محنت کرکے نفس کی بالیدگی حاصل کرنے کے بجائے بے کار کاموں میں ضائع کردیاتھا، جنہوں نے اپنے خالق کی پہچان،اس کے نازل کردہ فرامین اورعطاکردہ مقام کوبھول کرعالم ظاہر کے مختصرقیام کو شیطان کے خوبصورت جال میں پھنس کر(شیطان سے جوشرکی سب سے بڑی قوت ہے جسکی شیطانی قوتوں کے انتشارسے فضاء کاچپہ چپہ بھراپڑاہے،ان میں بھی معاشرتی اونچ نیچ اوردرجات ہیں ،ان کے ہاں بھی حکمرانی ہے اورکوئی ماتحت ہے ،ابلیس ان کامذہبی بادشاہ ہے،اس کے نیچے اس کے ماننے والوں کی درجہ بدرجہ بہت بڑی تنظیم ہے،اوریہ سب ایک مذہبی فریضہ کے طورپراپنے حریف انسانوں کونقصان پہنچانے کے لئے بڑی چالاکی سے منصوبہ بندی کرتے ہیں ،اس منصوبہ بندی میں بنیادی یونٹ فردہے ،

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ:قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:مَا مِنْكُمْ مِنْ أَحَدٍ، إِلَّا وَقَدْ وُكِّلَ بِهِ قَرِینُهُ مِنَ الْجِنِّ، قَالُوا: وَإِیَّاكَ؟ یَا رَسُولَ اللهِ ،قَالَ: وَإِیَّایَ، إِلَّا أَنَّ اللهَ أَعَانَنِی عَلَیْهِ فَأَسْلَمَ، فَلَا یَأْمُرُنِی إِلَّا بِخَیْرٍ

چنانچہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاتم میں ہرشخص کے ساتھ ایک شیطان لگاہواہے،لوگوں نے عرض کیا اے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم !آپ کے ساتھ بھی شیطان ہے؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما یا ہاں میرے ساتھ بھی ہے لیکن اللہ نے اس پرمیری مددکی ہے تومیں سلامت رہتاہوں اورمجھ کوسوائے نیکی کے اورکوئی بات نہیں بتلاتا ۔[69]

اس شیطان کاکام ہمارے نفوس میں دین کے متعلق شکوک وشہبات ڈالنا،نیکی کے بجائے برائی کوبہترکرکے پیش کرنا ، خیالات میں انتشارپیداکرنا،ایسی تجاویز دینا جو باظاہر بہت مرغوب اورطبیعت کوخوش کرنے والی ہوتی ہیں لیکن درحقیقت ہمارے قلوب کودیمک کی طرح چاٹ کررکھ دیتی ہیں وغیرہ،لیکن وہ ماسوائے ورغلانے کے کچھ نہیں کر سکتا اور کسی انسان کوبھی برائی پرمجبورنہیں کرسکتا،اگرآدمی اس کی بات مان لیتاہے ،اس کے اشارے پرکام کرنے لگتاہے تو یہ اس کا اپنا قصورہے۔

 وَقَالَ الشَّیْطٰنُ لَمَّا قُضِیَ الْاَمْرُ اِنَّ اللهَ وَعَدَكُمْ وَعْدَ الْحَقِّ وَوَعَدْتُّكُمْ فَاَخْلَفْتُكُمْ۝۰ۭ وَمَا كَانَ لِیَ عَلَیْكُمْ مِّنْ سُلْطٰنٍ اِلَّآ اَنْ دَعَوْتُكُمْ فَاسْتَجَبْتُمْ لِیْ۝۰ۚ فَلَا تَلُوْمُوْنِیْ وَلُوْمُوْٓا اَنْفُسَكُمْ۝۰ۭ مَآ اَنَا بِمُصْرِخِكُمْ وَمَآ اَنْتُمْ بِمُصْرِخِیَّ۝۰ۭ اِنِّىْ كَفَرْتُ بِمَآ اَشْرَكْتُمُوْنِ مِنْ قَبْلُ۝۰ۭ اِنَّ الظّٰلِـمِیْنَ لَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ۝۲۲ [70]

ترجمہ:اور جب فیصلہ چکا دیا جائے گا تو شیطان کہے گا حقیقت یہ ہے کہ اللہ نے جو وعدے تم سے کیے تھے وہ سب سچے تھے اور میں نے جتنے وعدے کیے ان میں سے کوئی بھی پورا نہ کیا ، میرا تم پر کوئی زور تو تھا نہیں ، میں نے اس کے سوا کچھ نہیں کیا کہ اپنے راستے کی طرف تمہیں دعوت دی اور تم نے میری دعوت پر لبّیک کہا اب مجھے ملامت نہ کرو اپنے آپ ہی کو ملامت کرو، یہاں نہ میں تمہاری فریاد رسی کرسکتا ہوں اور نہ تم میری، اس سے پہلے جو تم نے مجھے خدائی میں شریک بنا رکھا تھا میں اس سے بری الذّمہ ہوں ، ایسے ظالموں کے لیے تو دردناک سزا یقینی ہے۔

اس وعدہ خلاف سے دوستی لگاکرپرآسائش بنانے کے لئے جائزوناجائز جتن کیے ہوں گے اس وقت اپنی پرانی زندگی کے بارے میں سوچیں گے توانہیں اپنی زندگی لمحہ بھرکی معلوم ہوگی اوروہ کہیں گے کہ وہ لمحہ بھرکے لئے دنیامیں گئے تھے اوراب میدان حشرمیں جمع ہوگئے ہیں ۔

وَیَوْمَ تَــقُوْمُ السَّاعَةُ یُـقْسِمُ الْمُجْرِمُوْنَ۝۰ۥۙ مَا لَبِثُوْا غَیْرَ سَاعَةٍ۝۰ۭ كَذٰلِكَ كَانُوْا یُؤْفَكُوْنَ۝۵۵ [71]

ترجمہ:اور جب وہ ساعت برپا ہوگی تو مجرم قسمیں کھا کھا کر کہیں گے کہ ہم ایک گھڑی بھر سے زیادہ نہیں ٹھہرے ہیں ، اسی طرح وہ دنیا کی زندگی میں دھوکا کھایا کرتے تھے۔

مگروہ لوگ جنہوں نے شیطان کے بجائے اللہ کواپنادوست بنایاہوگا،جنہوں نے ہرشک وشبہ سے بالاترہوکردعوت حق کوماناہوگا،اللہ کے فرمان کے مطابق رسولوں کی پیروی کوہی اپنانصب العین بنایاہوگا،اس عارضی زندگی میں اللہ کے غیض وغضب سے ڈرتے ہوئے اوراس کی بے پایاں رحمت کی امیدسے زندگی گزاری ہوگی ان کے ذہن بالکل صاف ہوں گے ،وہ کافروں کے مقابلے میں بولیں گے کہ تم نے اپنی سرکشی میں بڑی لمبی زندگیاں گزاریں ،تمہیں باربار حیات بعدازموت،حشرنشر،حساب کتاب اور جزاوسزا کے حالات کے سلسلہ میں تنبیہ کی جاتی تھی تاکہ تم اپنے اگلے سفرکے لئے خودکوتیارکرکے وہاں کامیاب وکامران ہوسکومگراس زندگی میں تم اپنے غروروتکبرمیں آخرت کوبھول گئے ،پھرموت کے بعد اللہ نے تمہیں تمہاری قبروں میں سلائے رکھااوراب دیکھ لویہ وہی میدان حشرہے جس کے بارے میں تم شک وشبہ کے شکاررہے اوراس کے لئے کوئی تیاری نہ کرسکے۔

وَقَالَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَ وَالْاِیْمَانَ لَقَدْ لَبِثْتُمْ فِیْ كِتٰبِ اللهِ اِلٰى یَوْمِ الْبَعْثِ۝۰ۡفَھٰذَا یَوْمُ الْبَعْثِ وَلٰكِنَّكُمْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ۝۵۶ [72]

ترجمہ:مگر جو علم اور ایمان سے بہرہ مند کیے گئے تھے وہ کہیں گے کہ خدا کے نوشتے میں تو تم روز حشر تک پڑے رہے ہو، سو یہ وہی روز حشر ہےلیکن تم جانتے نہ تھے ۔

اب پچھلی قوموں کی طرح کوئی آخرت کاانکارکرکے یہ کہے کہ اللہ صدیوں سے مرے ہوئے لوگوں کو کیسے زندہ کرے گاجب کہ ان کی ہڈیاں بھی مٹی کے ساتھ مٹی بن جائیں گئیں ،یاآگ میں جلاکرپانی میں بہادی جائیں گئیں تویہ محض جہالت کی ہی سوچ ہوسکتی ہے ،سوچنے کی بات یہ ہے کہ جواللہ اپنی قدرت کے لفظ کن سے انسان کے لئے یہ عظیم کائنات،یہ حیران کن کارخانہ قدرت تخلیق کرسکتاہے ،اس کاکجی سے پاک عظیم نظام قائم کرسکتاہے۔

 الَّذِیْ خَلَقَ سَبْعَ سَمٰوٰتٍ طِبَاقًا۝۰ۭ مَا تَرٰى فِیْ خَلْقِ الرَّحْمٰنِ مِنْ تَفٰوُتٍ۝۰ۭ فَارْجِعِ الْبَصَرَ۝۰ۙ هَلْ تَرٰى مِنْ فُطُوْرٍ۝۳ثُمَّ ارْجِعِ الْبَصَرَ كَرَّتَیْنِ یَنْقَلِبْ اِلَیْكَ الْبَصَرُ خَاسِـئًا وَّهُوَحَسِیْرٌ۝۴ [73]

ترجمہ:جس نے تہ بر تہ سات آسمان بنائے، تم رحمن کی تخلیق میں کسی قسم کی بےربطی نہ پاؤگے، پھر پلٹ کر دیکھو کہیں تمہیں کوئی خلل نظر آتا ہے؟بار بار نگاہ دوڑآؤ ، تمہای نگاہ تھک کر نامراد پلٹ آئے گی۔

توکیااللہ جوساتوں آسمانوں ،ساتوں زمینوں اورجہانوں کارب ہے جس نے انسان کوبغیرکسی نمونے کے پہلی باراپنے ہاتھوں سے تخلیق فرمایاتھا۔

قَالَ یٰٓـاِبْلِیْسُ مَا مَنَعَكَ اَنْ تَسْجُدَ لِمَا خَلَقْتُ بِیَدَیَّ۝۰ۭ اَسْتَكْبَرْتَ اَمْ كُنْتَ مِنَ الْعَالِیْنَ۝۷۵ [74]

ترجمہ: رب نے فرمایا اے ابلیس! تجھے کیا چیز اس کو سجدہ کرنے سے مانع ہوئی جسے میں نے اپنے دونوں ہاتھوں سے بنایا ہے؟ تو بڑا بن رہا ہے یا تو ہے ہی کچھ اونچے درجے کی ہستیوں میں سے ؟۔

اوراس میں روح پھونکی تھی۔

 وَاِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلٰۗىِٕكَةِ اِنِّىْ خَالِقٌۢ بَشَرًا مِّنْ صَلْصَالٍ مِّنْ حَمَاٍ مَّسْنُوْنٍ۝۲۸فَاِذَا سَوَّیْتُهٗ وَنَفَخْتُ فِیْهِ مِنْ رُّوْحِیْ فَقَعُوْا لَهٗ سٰجِدِیْنَ۝۲۹ [75]

ترجمہ:پھر یاد کرو اس موقع کو جب تمہارے رب نے فرشتوں سے کہا کہ میں سڑی ہوئی مٹی کے سوکھے گارے سے ایک بشر پیدا کر رہا ہوں جب میں اسے پورا بنا چکوں اور اس میں اپنی روح سے کچھ پھونک دوں تو تم سب اس کے آگے سجدے میں گر جانا۔

اِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلٰۗىِٕكَةِ اِنِّىْ خَالِقٌۢ بَشَرًا مِّنْ طِیْنٍ۝۷۱فَاِذَا سَوَّیْتُهٗ وَنَفَخْتُ فِیْهِ مِنْ رُّوْحِیْ فَقَعُوْا لَهٗ سٰجِدِیْنَ۝۷۲ [76]

ترجمہ:جب تیرے رب نے فرشتوں سے کہا میں مٹی سے ایک بشر بنانے والا ہوں ،پھر جب میں اسے پوری طرح بنا دوں اور اس میں اپنی روح پھونک دوں تو تم اس کے آگے سجدے میں گر جاؤ ۔

الَّذِیْٓ اَحْسَنَ كُلَّ شَیْءٍ خَلَقَهٗ وَبَدَاَ خَلْقَ الْاِنْسَانِ مِنْ طِیْنٍ۝۷ۚثُمَّ جَعَلَ نَسْلَهٗ مِنْ سُلٰلَةٍ مِّنْ مَّاۗءٍ مَّهِیْنٍ۝۸ۚثُمَّ سَوّٰىهُ وَنَفَخَ فِیْهِ مِنْ رُّوْحِهٖ وَجَعَلَ لَكُمُ السَّمْعَ وَالْاَبْصَارَ وَالْاَفْـــِٕدَةَ۝۰ۭ قَلِیْلًا مَّا تَشْكُرُوْنَ۝۹ [77]

ترجمہ:جو چیز بھی اس نے بنائی خوب ہی بنائی اس نے انسان کی تخلیق کی ابتدا گارے سے کی،پھر اس کی نسل ایک ایسے ست سے چلائی جو حقیر پانی کی طرح کا ہے ،پھر اسے نک سک سے درست کیا اور اس کے اندر اپنی روح پھونک دی ، اور تم کو کان دیے ، آنکھیں دیں اور دل دیے ، تم لوگ کم ہی شکر گزار ہوتے ہو ۔

جس نے آسمان وزمین میں لاتعدادقسم کے جاندارپھیلائے ،اوران کے رزق اوردوسری ضروریات کابندوبست فرمایا،جس نے کئی کئی پروں والے نوری ہستیاں ملائکہ تخلیق کیے۔

 اَلْحَمْدُ لِلهِ فَاطِرِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ جَاعِلِ الْمَلٰۗىِٕكَةِ رُسُلًا اُولِیْٓ اَجْنِحَةٍ مَّثْنٰى وَثُلٰثَ وَرُبٰعَ۝۰ۭ یَزِیْدُ فِی الْخَلْقِ مَا یَشَاۗءُ۝۰ۭ اِنَّ اللهَ عَلٰی كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ۝۱ [78]

ترجمہ:تعریف اللہ ہی کے لیے ہے جو آسمانوں اور زمین کا بنانے والا اور فرشتوں کو پیغام رساں مقرر کرنے والا ہے (ایسے فرشتے ) جن کے دو دو اور تین تین اور چار چار بازو ہیں ۔ وہ اپنی مخلوق کی ساخت میں جیسا چاہتا ہے اضافہ کرتاہے، یقینا اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔

انواع و اقسام کے جمادات ، نباتات ،حیوانات اوردرندے تخلیق فرمائے ،کوئی دوپاؤ ں پر کوئی چارپاوں پرچلتے ہیں اورکوئی زمین پر رینگتے ہیں تاکہ مخلوقات کے مشاہدے سے خالق پہچاناجائے۔

وَاللهُ خَلَقَ كُلَّ دَاۗبَّةٍ مِّنْ مَّاۗءٍ۝۰ۚ فَمِنْهُمْ مَّنْ یَّمْشِیْ عَلٰی بَطْنِهٖ۝۰ۚ وَمِنْهُمْ مَّنْ یَّمْشِیْ عَلٰی رِجْلَیْنِ۝۰ۚ وَمِنْهُمْ مَّنْ یَّمْشِیْ عَلٰٓی اَرْبَعٍ۝۰ۭ یَخْلُقُ اللهُ مَا یَشَاۗءُ۝۰ۭ اِنَّ اللهَ عَلٰی كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ۝۴۵ [79]

ترجمہ:اور اللہ نے ہر جاندار ایک طرح کے پانی سے پیدا کیا، کوئی پیٹ کے بل چل رہا ہے تو کوئی دو ٹانگوں پر اور کوئی چار ٹانگوں پر، جو کچھ وہ چاہتا ہے پیدا کرتا ہے وہ ہر چیز پر قادر ہے ۔

فہم وفراست اورادراک والی مخلوقات انسان وجنات کی رشدوہدایت کے لئے رسول مبعوث فرمائے ،ان پرصحیفے اورکتابیں نازل فرمائیں ،اورآخرمیں پوری کائنات کے لئے رحمت العالمین،خاتم النبیین محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر عظیم اخلاقی ضابطوں اورعلم وحکمت کے خزانوں کاسرچشمہ قرآن مجید نازل فرمایاجوذکرالعالمین ہے ،جس کاایک ایک لفظ ہمہ گیرحق وسچ ہے ، جس کااسلوب بے مثل اورموضوع میں پاکیزگی اورقطعیت ہے اوربیانات زمانی ومکانی حدودسے بلندترہیں ، جوکسی انسان کی تحقیق وتصنیف نہیں ہے ۔

وَاِنْ كُنْتُمْ فِىْ رَیْبٍ مِّـمَّا نَزَّلْنَا عَلٰی عَبْدِنَا فَاْتُوْا بِسُوْرَةٍ مِّنْ مِّثْلِهٖ۝۰۠ وَادْعُوْا شُهَدَاۗءَكُمْ مِّنْ دُوْنِ اللهِ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ۝۲۳ [80]

ترجمہ:اور اگر تمہیں اس امر میں شک ہے کہ یہ کتاب جو ہم نے اپنے بندے پر اتاری ہے یہ ہماری ہے یا نہیں تو اس کے مانند ایک ہی سورت بنا لاؤ، اپنے سارے ہم نواؤں کو بلا لو، ایک اللہ کو چھوڑ کر باقی جس جس کی چاہو مدد لے لواگر تم سچے ہو تو یہ کام کر کے دکھاؤ۔

اَمْ یَــقُوْلُوْنَ افْتَرٰىهُ۝۰ۭ قُلْ فَاْتُوْا بِسُوْرَةٍ مِّثْلِهٖ وَادْعُوْا مَنِ اسْتَــطَعْتُمْ مِّنْ دُوْنِ اللهِ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ۝۳۸ [81]

ترجمہ:کیا یہ لوگ کہتے ہیں کہ پیغمبر نے اسے خود تصنیف کرلیا ہے؟ کہو، اگر تم اپنے اس الزام میں سچے ہو تو ایک سورۂ اس جیسی تصنیف کر لاؤ اور ایک خدا کو چھوڑ کر جس جس کو بلا سکتے ہو مدد کے لیے بلا لو ۔

اَمْ یَقُوْلُوْنَ افْتَرٰىهُ۝۰ۭ قُلْ فَاْتُوْا بِعَشْرِ سُوَرٍ مِّثْلِهٖ مُفْتَرَیٰتٍ وَّادْعُوْا مَنِ اسْتَطَعْتُمْ مِّنْ دُوْنِ اللهِ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ۝۱۳ [82]

ترجمہ:کیا یہ کہتے ہیں کہ پیغمبر ( صلی اللہ علیہ وسلم ) نے یہ کتاب خود گھڑ لی ہے؟ کہو اچھا یہ بات ہے تو اس جیسی گھڑی ہوئی دس سورتیں تم بنا لاؤ اور اللہ کے سوا اور جو جو( تمہارے معبود)ہیں ان کو مدد کے لیے بلا سکتے ہو تو بلا لو اگر تم( انہیں معبود سمجھنے میں ) سچے ہو۔

جس کی صحت کے بارے میں کوئی شک وشبہ نہیں ،جوقیامت تک کے لئے انسانوں اورجنات کے لئے ہمہ گیر ضابطہ حیات ہے، جوتمام عالموں یعنی موجودہ دنیا،عالم قبر،عالم برزخ ،عالم حشر،عالم جزاوسزا،جنت ودوزخ ہرجگہ رہنمائی کرتی ہے،جس کی ہدایات نہ صرف ابدی حیات بلکہ انسان کی ارضی حیات میں بھی کامیابی کی گارنٹی دیتی ہیں ، اگر کوئی اس کی تعلیمات پرعمل پیراہوگاتویقینا ًاپنی دنیاوی اوراخروی زندگی میں خوف وغم سے آزادہوجائے گا ، یہی ہمارے خالق کامنشاہے وہ اپنے شاہکارکوغم ورنج میں نہیں دیکھنا چاہتا ،وہ ہمیں محبت سے دیکھ رہاہے ،محبت سے اپنی طرف بلارہاہے،یہ کتاب اس کی محبت کاانسان کی طرف تحفہ ہے،اس میں اس نے ہمارے فائدے کے لئے قانون دیئے ہیں ، اگر کوئی انسان ان قوانین کے برعکس عمل کرتاہے تونہ صرف اپنے آپ کوبلکہ مجموعی حیثیت سے پورے معاشرے کوبھی نقصان پہنچاتاہے ،لہذاہماری بہتری کااس دنیامیں بھی اور آخرت میں بھی انحصارصرف اللہ تعالیٰ کے احکام یعنی قرآن مجیدکے امربالمعروف ونہی عن المنکرکی پیروی میں ہے نہ کہ شیطان کی پیروی میں جس سے بڑا انسان کاکوئی دشمن نہیں ہے۔

یٰٓاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا ادْخُلُوْا فِی السِّلْمِ كَاۗفَّةً۝۰۠ وَّلَا تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّیْطٰنِ۝۰ۭ اِنَّهٗ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِیْنٌ۝۲۰۸ [83]

ترجمہ:اے ایمان لانے والو! تم پورے کے پورے اسلام میں آجا ؤ اور شیطان کی پیروی نہ کرو کہ وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔ۭ

 ۔۔۔وَنَادٰىهُمَا رَبُّهُمَآ اَلَمْ اَنْهَكُمَا عَنْ تِلْكُمَا الشَّجَرَةِ وَاَقُلْ لَّكُمَآ اِنَّ الشَّیْطٰنَ لَكُمَا عَدُوٌّ مُّبِیْنٌ۝۲۲ [84]

ترجمہ:تب ان کے رب نے انہیں پکارا کیا میں نے تمہیں اس درخت سے نہ روکا تھا اور نہ کہا تھا کہ شیطان تمہارا کھلا دشمن ہے؟۔

۔۔۔ اِنَّ الشَّیْطٰنَ لِلْاِنْسَانِ عَدُوٌّ مُّبِیْنٌ۝۵ [85]

ترجمہ:حقیقت یہ ہے کہ شیطان آدمی کا کھلا دشمن ہے۔

اَلَمْ اَعْهَدْ اِلَیْكُمْ یٰبَنِیْٓ اٰدَمَ اَنْ لَّا تَعْبُدُوا الشَّیْطٰنَ۝۰ۚ اِنَّهٗ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِیْنٌ۝۶۰ۙ [86]

ترجمہ:آدم کے بچو! کیا میں نے تم کو ہدایت نہ کی تھی کہ شیطان کی بندگی نہ کرو، وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔

اللہ کے لئے یہ مشکل نہیں کہ وہ جزاوسزاکے لئے انسان وجنات کودوبارہ زندہ کرسکے، اورنئی عظیم کائنات تخلیق فرماکرنیک وپرہیزکاروں کے لئے جنت جس کی وسعت اور نعمتوں کاتصورہی نہیں کیاجاسکتااورنافرمانوں کے لئے دوزخ جس کے عذاب کابھی تصور محال ہے تیارکرسکے۔

مَا خَلْقُكُمْ وَلَا بَعْثُكُمْ اِلَّا كَنَفْسٍ وَّاحِدَةٍ۝۰ۭ اِنَّ اللهَ سَمِیْعٌۢ بَصِیْرٌ۝۲۸ [87]

ترجمہ:تم سارے انسانوں کو پیدا کرنا اور پھر دوبارہ جلا اٹھانا تو (اس کے لیے) بس ایسا ہے جیسے ایک متنفس کو (پیدا کرنا اور جلا اٹھانا) حقیقت یہ ہے کہ اللہ سب کچھ سننے اور دیکھنے والا ہے ۔

وَیَقُوْلُ الْاِنْسَانُ ءَ اِذَا مَا مِتُّ لَسَوْفَ اُخْرَجُ حَیًّا۝۶۶اَوَلَا یَذْكُرُ الْاِنْسَانُ اَنَّا خَلَقْنٰهُ مِنْ قَبْلُ وَلَمْ یَكُ شَـیْـــــًٔـا۝۶۷ [88]

ترجمہ:انسان کہتاہے کیاواقعی جب میں مرچکوں گاتوپھرزندہ کرکے نکال لایاجاؤ ں گا؟کیاانسان کویادنہیں آتاکہ ہم پہلے اس کوپیداکرچکے ہیں جبکہ وہ کچھ بھی نہ تھا؟۔

اِلَیْهِ مَرْجِعُكُمْ جَمِیْعًا۝۰ۭ وَعْدَ اللهِ حَقًّا۝۰ۭ اِنَّهٗ یَبْدَؤُا الْخَلْقَ ثُمَّ یُعِیْدُهٗ لِیَجْزِیَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ بِالْقِسْطِ۝۰ۭ وَالَّذِیْنَ كَفَرُوْا لَھُمْ شَرَابٌ مِّنْ حَمِیْمٍ وَّعَذَابٌ اَلِیْمٌۢ بِمَا كَانُوْا یَكْفُرُوْنَ۝۴ [89]

ترجمہ:اسی کی طرف تم سب کو پلٹ کا جانا ہے یہ اللہ کا پکا وعدہ ہے ،بےشک پیدائش کی ابتداء وہی کرتا ہےپھر وہی دوبارہ پیدا کرے گا تاکہ جو لوگ ایمان لائے اور جنہوں نے نیک اعمال کیے ان کو پورے انصاف کے ساتھ جزا دے، اور جنہوں نے کفر کا طریقہ اختیار کیا وہ کھولتا ہوا پانی پئیں اور دردناک سزا بھگتیں اس انکارِحق کی پاداش میں جو وہ کرتے رہے ۔

یوم حشرکو پرانی کائنات کے تمام ذی روح ،ذی شعوراکٹھے کردیئے جائیں گے ،وہ دن ہماری موجودہ دنیاکے پچاس ہزار سالوں سے بھی زیادہ طویل ہوسکتاہے ،وہ دن ہمارے دنیاوی عارضی سفرکی انتہاء اورہمیشہ کی زندگی کی جزاوسزاکی ابتداہے ،انسان وجنات کے سامنے میدان حشرمیں جہنم اورجنت لائی جائے گی ۔

وَّجَاۗءَ رَبُّكَ وَالْمَلَكُ صَفًّا صَفًّا۝۲۲ۚوَجِایْۗءَ یَوْمَىِٕذٍؚبِجَهَنَّمَ۝۰ۥۙ یَوْمَىِٕذٍ یَّتَذَكَّرُ الْاِنْسَانُ وَاَنّٰى لَهُ الذِّكْرٰى۝۲۳ۭ [90]

ترجمہ: اور تمہارا رب جلوہ فرما ہوگا اس حال میں کہ فرشتے صف درصف کھڑے ہونگےاور جہنم اس روز سامنے لے آئی جائے گی، اس دن انسان کو سمجھ آئے گی اور اس وقت اس کے سمجھنے کا کیا حاصل ؟۔

َاِذَا الْجَــحِیْمُ سُعِّرَتْ۝۱۲۠ۙوَاِذَا الْجَنَّةُ اُزْلِفَتْ۝۱۳۠ۙعَلِمَتْ نَفْسٌ مَّآ اَحْضَرَتْ۝۱۴ [91]

ترجمہ:اور جب دوزخ دہکائی جائے گی اور جب جنت قریب لے آئی جائے گی اس وقت ہر شخص کومعلوم ہوجائے گا کہ وہ کیا لے کر آیا ہے۔

وہ دن ایسادن ہوگاجہاں ہرنفس کواس کے ان اعمال کے مطابق بدلہ دیاجائے گا جواس نے پہلی زندگی میں کئے تھے ،یوں دنیاوی زندگی ہمیشہ کی حیات کے لئے ایک امتحان گاہ ہے ،جومطلوبہ معیارکوپہنچ گیااس کے لئے درخشاں مستقبل کی ضمانت ہے ،جومطلوبہ معیارسے گرگیاوہ جہنم کی بھٹی میں پگھلنے کے لئے ڈال دیاجائے گا،وہاں قوموں کانہیں بلکہ ہرفردکاعلیحدہ علیحدہ حساب ہوگا،جیسے فرمایا

وَّنَرِثُهٗ مَا یَقُوْلُ وَیَاْتِیْنَا فَرْدًا۝۸۰ [92]

ترجمہ:جس سروسامان اور لاؤ لشکر کا یہ ذکر کر رہا ہے وہ سب ہمارے پاس رہ جائے گا اور یہ اکیلا ہمارے سامنے حاضر ہوگا۔

وَكُلُّهُمْ آتِیهِ یَوْمَ الْقِیَامَةِ فَرْدًا۝۹۵ [93]

ترجمہ:سب قیامت کے روزفرداًفرداً اس کے سامنے حاضرہوں گے۔

انسانوں کے اعضاء اور اعمال خودان کے حق میں یامخالفت میں گواہی دیں گے،چھوٹے بڑے تمام اعمال تولے جائیں گے،اورجس نے ذرہ برابربھی نیکی یابدی کی ہوگی اسی کے مطابق صلہ پائے گا۔

فَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَیْرًا یَّرَهٗ۝۷ۭوَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرًّا یَّرَهٗ۝۸ۧ [94]

ترجمہ:پھر جس نے ذرہ برابر نیکی کی ہوگی وہ اس کو دیکھ لے گا،اور جس نے ذرہ بھر بدی کی ہے ہوگی وہ اس کو دیکھ لے گا۔

اَلْیَوْمَ نَخْتِمُ عَلٰٓی اَفْوَاهِهِمْ وَتُكَلِّمُنَآ اَیْدِیْهِمْ وَتَشْهَدُ اَرْجُلُهُمْ بِمَا كَانُوْا یَكْسِبُوْنَ۝۶۵ [95]

ترجمہ: آج ہم ان کے منہ بند کیے دیتے ہیں ، ان کے ہاتھ ہم سے بولیں گے اور ان کے پاؤں گواہی دیں گے کہ یہ دنیا میں کیا کمائی کرتے رہے ہیں ۔

جہاں کسی کے اعمال کی پوچھ گچھ نہ ہوگی،نیک سے نیک آدمی کوبھی اپنے اعمال حقیرنظرآئیں گے ،سب کی نگاہیں صرف اورصرف اللہ کے فضل وکرم اور رحمت پرہوں گی،اس لئے کہ اس دن اعمال کاکوئی اعتبارنہیں بلکہ جوبھی بخشاجائے گا صرف اللہ تعالیٰ کی رحمت سے بخشا جائے گا ،

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ، عَنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ:لَنْ یُنْجِیَ أَحَدًا مِنْكُمْ عَمَلُهُ، قَالَ رَجُلٌ: وَلَا إِیَّاكَ؟ یَا رَسُولَ اللهِ قَالَ:وَلَا إِیَّایَ، إِلَّا أَنْ یَتَغَمَّدَنِیَ اللهُ مِنْهُ بِرَحْمَةٍ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاتم میں سے کوئی اپنے عمل کی وجہ سے نجات نہیں پائے گا،ایک شخص نے عرض کی اے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم آپ بھی؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاہاں ،میں بھی نہیں مگرسوائے اس کے کہ اللہ تعالیٰ مجھے اپنی رحمت اورمغفرت میں ڈھانپ لے۔[96]

فَیَوْمَىِٕذٍ لَّا یُسْـَٔــلُ عَنْ ذَنْۢبِهٖٓ اِنْسٌ وَّلَا جَاۗنٌّ۝۳۹ۚ [97]

ترجمہ:اس روز کسی انسان اورکسی جن سے اس کا گناہ پوچھنے کی ضرورت نہ ہوگی۔

نئی وسیع کائنات میں ہرآدمی اپنی زندگی کے اعمال کواپنی آنکھوں سے ان کی اصلی حالت میں دیکھ رہاہوگا،سبھی خوفزدہ ،سرجھکائے اپنے اپنے مقام کے لئے رب العزت کے فیصلہ کے منتظرہوں گے ،نتائج کے اعلانات کے بعدانسان ایک نئے سفرپرچل نکلے گا، ہرایک کو ان کے اعمال کے نتائج اچھے ہونے کی صورت میں اپنی جنتوں میں جس کی وسعت موجودہ تمام کائنات سے زیادہ ہوگی،یعنی ایک اکیلی جنت ہی موجودہ تمام کائنات کے برابریااس سے بڑی ہے ،

عَنْ أَنَسٍ قَالَ:فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: قُومُوا إِلَى جَنَّةٍ عَرْضُهَا السَّمَاوَاتُ وَالْأَرْضُ

انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے (غزوہ بدرکے روز)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااٹھوچلو اس جنت کی طرف جس کاعرض آسمان وزمین کے برابرہے۔[98]

جنت کے صرف ایک درخت کاسایہ ہی اتنابڑاہےکہ ایک گھڑسوارسال بھربھی اس کے سایہ کے نیچے دوڑتارہے تواس درخت کاسایہ ختم نہیں ہوگا،

حَدَّثَنَا أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ،عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:إِنَّ فِی الجَنَّةِ لَشَجَرَةً یَسِیرُ الرَّاكِبُ فِی ظِلِّهَا مِائَةَ عَامٍ لاَ یَقْطَعُهَا

انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جنت میں ایک درخت ایسا ہے کہ ایک سوار اس کے سایہ میں سو سال تک چلے تو بھی طے نہ کر سکے۔ [99]

پھرایک جنت نہیں بلکہ جنت کے بھی کئی درجے ہیں لیکن اس کاادنیٰ سے ادنیٰ درجہ بھی دنیاکے اعلیٰ سے اعلیٰ تصورسے زیادہ عالی شان اورپرشکوہ ہے ،جن کی نعمتوں کاتم اندازہ ہی نہیں کرسکتے،جس کی خوشیاں انمٹ اوراس کے لمحات ابدالآبادہیں ہمیشہ کے لئے داخل کردے گا،جہاں بے انصافی ، حسد ، رقابت اوردشمنی نہ ہوگی ،وہاں ارضی دنیاکی قیمتی سے قیمتی اوراعلیٰ سے اعلیٰ چیزیں بھی انتہائی بے وقعت ہونگی ،جنت صرف حوروغلمان کی مصاحبت میں صرف عیش ہی عیش نہیں بلکہ وہ زندگی بھی نہایت بھرپوراعمال والی اور بامقصد زندگی ہوگی ، جنتیوں کامحبوب مشغلہ اپنے رب کی حمدوتقدیس اورقرآن مجیدکی تلاوت ہوگی، ہرایک کے سامنے اونچے مقاصد حاصل کرنے کی لگن ہوگی ،جہاں نفوس کی سب سے بڑی تمناء اللہ تعالیٰ کاقرب ہوگااوریہی خواہش سب کی تگ ودوڑکی محورہوگی ،اس کے علاوہ اس وسیع کائنات میں جہنم کے حصے بھی ہوں گے جس کے کئی درجے ہیں ، اورجنت وجہنم کے درمیان اعراف کامقام بھی ہے ،جہاں جنت میں دخول سے پہلے کچھ تیاری کے مراحل طے ہوتے ہیں ،اس جگہ پرلوگ جہنم کے درداورجنت کے امن دونوں حالتوں کوبیک وقت محسوس کرسکیں گے۔

وَبَیْنَهُمَا حِجَابٌ۝۰ۚ وَعَلَی الْاَعْرَافِ رِجَالٌ یَّعْرِفُوْنَ كُلًّۢابِسِیْمٰىهُمْ۝۰ۚ وَنَادَوْا اَصْحٰبَ الْجَنَّةِ اَنْ سَلٰمٌ عَلَیْكُمْ۝۰ۣ لَمْ یَدْخُلُوْهَا وَهُمْ یَطْمَعُوْنَ۝۴۶ وَاِذَا صُرِفَتْ اَبْصَارُهُمْ تِلْقَاۗءَ اَصْحٰبِ النَّارِ۝۰ۙ قَالُوْا رَبَّنَا لَا تَجْعَلْنَا مَعَ الْقَوْمِ الظّٰلِـمِیْنَ۝۴۷ۧ وَنَادٰٓی اَصْحٰبُ الْاَعْرَافِ رِجَالًا یَّعْرِفُوْنَهُمْ بِسِیْمٰىهُمْ قَالُوْا مَآ اَغْنٰى عَنْكُمْ جَمْعُكُمْ وَمَا كُنْتُمْ تَسْتَكْبِرُوْنَ۝۴۸ [100]

ترجمہ:ان دونوں گروہوں کے درمیان ایک اوٹ حائل ہوگی جس کی بلندیوں (اَعراف) پر کچھ اور لوگ ہوں گےیہ ہر ایک کو اس کے قیافہ سے پہچانیں گے اور جنّت والوں سے پکار کر کہیں گے کہ سلامتی ہو تم پر یہ لوگ جنّت میں داخل تو نہیں ہوئے مگر اس کے امیدوار ہوں گے،اور جب ان کی نگاہیں دوزخ والوں کی طرف پھریں گی تو کہیں گےاے رب! ہمیں ان ظالموں میں شامل نہ کیجیو ،پھر یہ اعراف کے لوگ دوزخ کی چند بڑی بڑی شخصیتوں کو ان کی علامتوں سے پہچان کر پکاریں گے کہ دیکھ لیا تم نے، آج نہ تمہارے جتھے تمہارے کسی کام آئے اور نہ وہ ساز و سامان جن کو تم بڑی چیز سمجھتے تھے۔

ہرجہنمی کی شدیدخواہش ہوگی کہ کاش وہ اعراف تک پہنچ جائے اورہرایک اعراف والے کی سب سے بڑی تمناہوگی کہ کاش وہ جنت میں داخل ہو جائے ،اعراف تک پہنچنے کاراستہ جہنم کے اوپرسے گزرتاہے جسے پل صراط کہاگیاہے ،جنتی اس راستے کوبجلی کی رفتارسے بھی زیادہ تیزی سے طے کرلیں گے لیکن بے شمار بدقسمت اپنے گناہوں کے بوجھ سے یہ راستہ کروڑوں سالوں میں طے کریں گے اوریوں جہنم کی آگ سے جھلستے رہیں گے،وہ جن کے سرپرگناہوں کابہت بوجھ ہوگاوہ اس بوجھ تلے جہنم میں گرجائیں گے اوراپنے وزن کے مطابق اپنے اپنے درجہ پرپہنچ کررک جائیں گے،ا س لحاظ سے نئی کائنات کی تمام تروسعت کااندازہ لگاناانسانی عقل سے باہرہے ،خاص طورپرجب یہ سوچیں کہ موجودہ نظام قدرت ہی انسانی عقل کوششدرکرنے کے لئے کافی ہے ،سائنسی علوم کے ماہرین نے اندازہ لگایاہے کہ ایک آسمان کے نیچے کروڑوں کے حساب سے کہکشائیں ہیں اورہرکہکشاں میں تقریباًکھربوں کے حساب سے ستارے ہیں ،انہی میں سے ہماری کہکشاں کی وسعت کااندازہ یہ ہے کہ روشنی اپنی ایک لاکھ ۸۶ ہزارمیل فی سیکنڈ کی لاثانی رفتار کے باوجودپندرہ ارب سال بھی چلتی رہے توپھربھی اس کادوسراکنارہ نہیں پاتی۔

وَسَارِعُوْٓا اِلٰى مَغْفِرَةٍ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَجَنَّةٍ عَرْضُھَا السَّمٰوٰتُ وَالْاَرْضُ۝۰ۙ اُعِدَّتْ لِلْمُتَّقِیْنَ۝۱۳۳ۙ [101]

ترجمہ:دوڑ کر چلو اس راہ پر جو تمہارے رب کی بخشش اور اس جنت کی طرف جاتی ہے جس کی وسعت زمین اور آسمانوں جیسی ہے، اور وہ ان خدا ترس لوگوں کے لیے مہیا کی گئی ہے ۔

سَابِقُوْٓا اِلٰى مَغْفِرَةٍ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَجَنَّةٍ عَرْضُهَا كَعَرْضِ السَّمَاۗءِ وَالْاَرْضِ۝۰ۙ اُعِدَّتْ لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِاللهِ وَرُسُلِهٖ۝۰ۭ ذٰلِكَ فَضْلُ اللهِ یُؤْتِیْهِ مَنْ یَّشَاۗءُ۝۰ۭ وَاللهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِیْمِ۝۲۱ [102]

ترجمہ:دوڑو اور ایک دوسرے سے آگے بڑھے کی کوشش کرو اپنے رب کی مغفرت اور اس جنت کی طرف جس کی وسعت آسمان و زمین جیسی ہے، جو مہیا کی گئی ہے ان لوگوں کے لئےجو اللہ اور اس کے رسولوں پر ایمان لائے ہوں ، یہ اللہ کا فضل ہے جسے چاہتا ہے عطا فرماتا ہے اور اللہ بڑے فضل والا ہے۔

اورناقابل اصلاح باغیوں ،کافروں اورمشرکوں کوان کے اپنے اعمال بدکے صلے میں ابلیس کے ساتھ جہنم میں جوجنت کے مخالف سمت کی دنیاہے داخل کرے گاجس کی ہولناکی بیان سے باہر ہے،جس کی آگ دلوں تک پہنچتی ہے ،جہنم کی وسعت اوردرجات کابھی کوئی حساب نہیں ،سزایافتہ مجرم اپنے اپنے جرم کی سنگینی کے مطابق مختلف درجات میں دھکیل دیئے جائیں گے ،سب سے نچلے درجہ میں منافقین اورمشرکین کی جگہ ہے جوانتہائی سزاکامقام ہے ،اس سے اوپرنسبتاًکم عذاب ہے لیکن جہنم کاکم سے کم عذاب بھی ایساہے کہ دنیاکے تمام عذاب بھی اس سے کم ہیں ،جہنم کاکم سے کم عذاب آگ کے جوتے ہیں ،جہاں مجرم ہمیشہ کے لئے دوزخ کاایندھن بن کرجلتے رہیں گے،

عَنِ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِیرٍ، قَالَ:سَمِعْتُ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَقُولُ:إِنَّ أَهْوَنَ أَهْلِ النَّارِ عَذَابًا یَوْمَ القِیَامَةِ رَجُلٌ، عَلَى أَخْمَصِ قَدَمَیْهِ جَمْرَتَانِ، یَغْلِی مِنْهُمَا دِمَاغُهُ كَمَا یَغْلِی المِرْجَلُ وَالقُمْقُمُ

نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ ے مروی ہےمیں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سناآپ نے فرمایاقیامت کے دن دوزخیوں میں عذاب کے اعتبارسے سب سے ہلکاعذاب پانے والاوہ شخص ہوگا جس کے دو پیروں کے نیچے دو انگارے رکھ دیئے جائیں گے جن کی وجہ سے اس کادماغ کھول رہاہوگاجس طرح ہانڈی اورکیتلی جوش کھاتی ہے۔[103]

اس وقت انسان اپنی کوتاہ بینی پرروئے گا مگراللہ تعالیٰ کے سپاہی اسے اگلے سفرکی طرف دھکیل دیں گے،اورانہیں یاددلائیں گے کہ یہی وہ جہنم ہے جس کاتم سے وعدہ کیاجاتاتھا۔

هٰذِهٖ جَهَنَّمُ الَّتِیْ یُكَذِّبُ بِهَا الْمُجْرِمُوْنَ۝۴۳ۘیَطُوْفُوْنَ بَیْنَهَا وَبَیْنَ حَمِیْمٍ اٰنٍ۝۴۴ۚ [104]

ترجمہ:( اس وقت کہا جائے گا) یہ وہی جہنم ہے جس کو مجرمین جھوٹ قرار دیا کرتے تھے،اُسی جہنم اور کھولتے ہوئے پانی کے درمیان وہ گردش کرتے رہیں گے۔

هٰذِهٖ جَهَنَّمُ الَّتِیْ كُنْتُمْ تُوْعَدُوْنَ۝۶۳اِصْلَوْهَا الْیَوْمَ بِمَا كُنْتُمْ تَكْفُرُوْنَ۝۶۴ [105]

ترجمہ:یہ وہی جہنم ہے جس سے تم کو ڈرایا جاتا رہا تھاجو کفر تم دنیا میں کرتے رہے ہو اس کی پاداش میں اب اس کا ایندھن بنو۔

اس پاکیزہ آوازحق پرتعصب سے پاک ہوکرغوروفکرکرنے کی بجائے مشرکوں نے صرف انکارپرہی بس نہ کی بلکہ اس آوازکودبانے کے لئے عملاًمخالفت ومزاحمت بھی کی ، لوگوں کواللہ کے راستہ سے روکنے کی کوشش میں ایڑی چوٹی کازورلگادیا ،شہبات پیداکیے ،بدگمانیاں پھیلائیں ،دلوں میں وسوسے ڈالے اوربدترین سازشیں اورریشہ دوانیاں کیں ، رسولوں کو سالہاسال ہر طرح کے مصائب وابتلاء میں مبتلارکھا،ان کے ساتھ تضحیک واستہزاء کارویہ اختیارکیاگیا،جاہلانہ اعتراضات کئے گئے ،لالچ دیئے گئے زدوکوب کیاگیا اورقتل تک کر دیئے گئے مگر رسول اللہ کے بھروسے پر صبروثابت قدمی اورپامردی کے ساتھ اپناکام کرتے رہے ، اللہ کی تائیدونصرت ہمیشہ حق ہی کوحاصل رہی ، رسولوں کورب کی معجزانہ مدد حاصل ہوئی اور کفر کاغرورسے تنا ہوا سرہمیشہ نیچاہو تارہا۔

اِلَّا تَنْصُرُوْهُ فَقَدْ نَــصَرَهُ اللهُ اِذْ اَخْرَجَهُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا ثَانِیَ اثْـنَیْنِ اِذْ هُمَا فِی الْغَارِ اِذْ یَقُوْلُ لِصَاحِبِهٖ لَا تَحْزَنْ اِنَّ اللهَ مَعَنَا۝۰ۚ فَاَنْزَلَ اللهُ سَكِیْـنَتَهٗ عَلَیْهِ وَاَیَّدَهٗ بِجُنُوْدٍ لَّمْ تَرَوْهَا وَجَعَلَ كَلِمَةَ الَّذِیْنَ كَفَرُوا السُّفْلٰى۝۰ۭ وَكَلِمَةُ اللهِ هِىَ الْعُلْیَا۝۰ۭ وَاللهُ عَزِیْزٌ حَكِیْمٌ۝۴۰ [106]

ترجمہ:تم نے اگر نبی کی مدد نہ کی تو کچھ پروا نہیں ، اللہ اس کی مدد اس وقت کر چکا ہے جب کافروں نے اسے نکال دیا تھا، جب وہ صرف دو میں کا دوسرا تھا ، جب وہ دونوں غار میں تھے، جب وہ اپنے ساتھی سے کہہ رہا تھا کہ غم نہ کراللہ ہمارے ساتھ ہے ، اس وقت اللہ نے اس پر اپنی طرف سے سکون قلب نازل کیا اور اس کی مدد ایسے لشکروں سے کی جو تم کو نظر نہ آتے تھے اور کافروں کا بول نیچا کردیا اور اللہ کا بول تو اونچا ہی ہے، اللہ زبر دست اور دانا و بینا ہے۔

خالص توحید اس کائنات کا سب سے زیادہ انقلاب آفرین تصور ہے اور انسانی ذہن کو دوسرے کسی تصور کے قبول کرنے میں اتنی دشواری پیش نہیں آتی جتنی اس تصور کو قبول کرنے میں ہوتی ہے مگر رسولوں کی انتھک کوششوں سے چند معاشی طورپر کمزور حیثیت مگرسلیم الفطرت لوگ جان جاتے کہ صرف اللہ وحدہ لاشریک ہی تمام طاقتوں کامالک ہے ،اس کے علاوہ کوئی صاحب اختیاراوربااثرنہیں ، کسی چھوٹے بڑے کواس کی سلطنت میں دخل نہیں ،اللہ کے سوا کوئی نفع یا نقصان پہنچانے ، مارنے اور جلانے والانہیں ہے ، عزت وطاقت ،ناموری اور حکومت بھی اللہ کے اختیارمیں ہے ،جس کی قوتیں بے پایاں ہیں ، آسمان وزمین کے بے شمار خزانوں کا مالک صرف رب ہی ہے جس کافضل وکرم بے حدوحساب ہے ، ان کے پاس جوکچھ بھی ہے  اللّٰہ کاعنایت کیاہواہے اور اللّٰہ جس طرح دینے پرقادرہے اسی طرح چھین لینے پر بھی قادر ہے ، اگروہ دیناچاہے تودنیاکی کوئی قوت اسے روک نہیں سکتی اورنہ دیناچاہے تو کوئی طاقت دلوانہیں سکتی ،

عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ كَعْبٍ الْقُرَظِیِّ،قَالَ: قَالَ مُعَاوِیَةُ عَلَى الْمِنْبَرِ:اللَّهُمَّ لَا مَانِعَ لِمَا أَعْطَیْتَ، وَلَا مُعْطِیَ لِمَا مَنَعْتَ، وَلَا یَنْفَعُ ذَا الْجَدِّ مِنْكَ الْجَدُّ،مَنْ یُرِدِ اللَّهُ بِهِ خَیْرًا یُفَقِّهُّ فِی الدِّینِ سَمِعْتُ هَؤُلَاءِ الْكَلِمَاتِ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عَلَى هَذَا الْمِنْبَرِ

محمد بن کعب القرظی رضی اللہ عنہ سے مروی ہےمعاویہ رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ منبر پر یہ کلمات کہے اے اللہ! جسے آپ دیں اس سے کوئی روک نہیں سکتا اور جس سے آپ روک لیں اسے کوئی دے نہیں سکتا اور ذی عزت کو آپ کے سامنے اس کی عزت نفع نہیں پہنچا سکتی، اللہ جس کے ساتھ خیر کا ارادہ فرما لیتا ہے ، اسے دین کی سمجھ عطاء فرما دیتا ہے،میں نے یہ کلمات اسی منبر پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنے ہیں ۔[107]

اگروہ کوئی دکھ بیماری یا تکلیف دیناچاہے تو اسے کوئی ردنہیں کرسکتا اوراگر انہیں دورکرناچاہے تو بھی کوئی روک نہیں سکتا، اس چندروزہ زندگی کے بعدیقینا ًدوسری ہمیشہ کی زندگی ہے جس میں نیکوکاروں کوجزااور بدکاروں کو سزاملے گی، اس یقین کامل کے بعد وہ چند مسلمان اپنے باطل معبودوں کو جوان کے اور رب کے درمیان واسطے اور وسیلے بن کر حائل تھے کو چھوڑ کر،اپنی تنگ نظری کوخیرباد کہہ کر ،براہ راست اللہ وحدہ لاشریک کے حضور آن کھڑے ہوتے اور رسولوں کی اطاعت میں زندگی گزارتے،ان کے فرامین پردل وجاں سے عمل کرکے اللہ کے ہاں بلند مقام ومرتبے پاتے ،مگر رسولوں کی پرخلوص کوششوں کے باوجودہمیشہ ایک بھاری اکثریت رب کی نازل کردہ واضح اور روشن تعلیمات کے باوجوداپنے غروروتکبر کی بنا پر کفرو شرک پرقائم ہی رہتی اور ان معبودوں کی عبادت کرتی رہتی جن کے بارے میں  اللّٰہ نے کوئی سند نہیں اتاری تھی اورساتھ ہی  اللّٰہ کے قہروغضب سے بے خوف ہو کر مطالبہ عذاب کر کے رب کی غیرت کوبھی للکارتے ۔

جیسے قوم نوح علیہ السلام نے کہا۔

قَالُوْا یٰنُوْحُ قَدْ جٰدَلْتَنَا فَاَكْثَرْتَ جِدَالَنَا فَاْتِنَا بِمَا تَعِدُنَآ اِنْ كُنْتَ مِنَ الصّٰدِقِیْنَ۝۳۲ [108]

ترجمہ:آ خرکار ان لوگوں نے کہا کہ اے نوح !تم نے ہم سے جھگڑا کیا اور بہت کرلیا اب تو بس وہ عذاب لے آؤ جس کی تم دھمکی دیتے ہو اگر سچے ہو۔

قوم ہود علیہ السلام نے کہا۔

قَالُوْٓا اَجِئْتَـنَا لِتَاْفِكَنَا عَنْ اٰلِهَتِنَا۝۰ۚ فَاْتِنَا بِمَا تَعِدُنَآ اِنْ كُنْتَ مِنَ الصّٰدِقِیْنَ۝۲۲ [109]

ترجمہ:انہوں نے کہا کیا تو اس لیے آیا ہے کہ ہمیں بہکاکرہمارے معبودوں سے برگشتہ کر دے ؟اچھاتولے آاپناعذاب جس سے توہمیں ڈراتا ہے اگر واقعی تو سچا ہے۔

قَالُوْٓا اَجِئْتَنَا لِنَعْبُدَ اللهَ وَحْدَهٗ وَنَذَرَ مَا كَانَ یَعْبُدُ اٰبَاۗؤُنَا۝۰ۚ فَاْتِنَا بِمَا تَعِدُنَآ اِنْ كُنْتَ مِنَ الصّٰدِقِیْنَ۝۷۰ [110]

ترجمہ:انہوں نے جواب دیا کیا تو ہمارے پاس اس لیے آیا ہے کہ ہم اکیلے اللہ ہی کی عبادت کریں اور انہیں چھوڑ دیں جن کی عبادت ہمارے باپ دادا کرتے آئے ہیں ؟ اچھا تو لے آ وہ عذاب جس کی تو ہمیں دھمکی دیتا ہے اگر تو سچا ہے ۔

صالح علیہ السلام کی قوم نے کہا۔

فَعَقَرُوا النَّاقَةَ وَعَتَوْا عَنْ اَمْرِ رَبِّهِمْ وَقَالُوْا یٰصٰلِحُ ائْتِنَا بِمَا تَعِدُنَآ اِنْ كُنْتَ مِنَ الْمُرْسَلِیْنَ۝۷۷ [111]

ترجمہ: پھر انہوں نے اس اونٹنی کو مار ڈالا اور پورے تمّرد کے ساتھ اپنے رب کے حکم کی خلاف ورزی کر گزرے ، اور صالح سے کہہ دیا کہ لے آ وہ عذاب جس کی تو ہمیں دھمکی دیتا ہے اگر تو واقعی پیغمبروں میں سے ہے۔

شعب علیہ السلام کی قوم نے کہا۔

قَالُوْٓا اِنَّمَآ اَنْتَ مِنَ الْمُسَحَّرِیْنَ۝۱۸۵ۙوَمَآ اَنْتَ اِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُنَا وَاِنْ نَّظُنُّكَ لَمِنَ الْكٰذِبِیْنَ۝۱۸۶ۚ فَاَسْقِطْ عَلَیْنَا كِسَفًا مِّنَ السَّمَاۗءِ اِنْ كُنْتَ مِنَ الصّٰدِقِیْنَ۝۱۸۷ۭ [112]

ترجمہ:انہوں نے کہا تو محض ایک سحر زدہ آدمی ہے،اور تو کچھ نہیں ہے مگر ایک انسان ہم ہی جیسا ، اور ہم تو تجھے بالکل جھوٹا سمجھتے ہیں اگر تو سچا ہے تو ہم پر آسمان کا کوئی ٹکڑا گرا دے۔

قادر مطلق اپنی مشیت کے مطابق ان چند کمزور مگراہل ایمان کو ان تباہ وبرباد ہونے والی بستیوں سے ہجرت کاحکم فرماتا اور پھر کفر و شرک میں ڈوبی بستیوں کو صفحہ ہستی سے مٹا کر اہل بصیرت کے لئے عبرت کا نشان بنادیتا رہا ،شرک بڑے ہی غیرمحسوس اندازسے انسان کے دل ودماغ پر اثر انداز ہوتا ہے جس کا اندازہ اس واقعہ سے ہو سکتا ہے کہ مشرکین امن کے دنوں میں اپنے ہتھیار بیری کے درخت پرجس کا نام ذات انواط تھا لٹکادیتے اور جب ضرورت ہوتی وہیں سے اتارکر کام میں لاتے،

عَنْ أَبِی وَاقِدٍ اللَّیْثِیِّ، قَالَ: خَرَجَنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قِبَلَ حُنَیْنٍ، فَمَرَرْنَا بِسِدْرَةٍ، فَقُلْتُ: یَا نَبِیَّ اللَّهِ، اجْعَلْ لَنَا هَذِهِ ذَاتَ أَنْوَاطٍ كَمَا لِلْكُفَّارِ ذَاتُ أَنْوَاطٍ، وَكَانَ الْكُفَّارُ یَنُوطُونَ سِلَاحَهُمْ بِسِدْرَةٍ، وَیَعْكُفُونَ حَوْلَهَا، فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: اللَّهُ أَكْبَرُ، هَذَا كَمَا قَالَتْ بَنُو إِسْرَائِیلَ لِمُوسَى: اجْعَلْ لَنَا إِلَهًا كَمَا لَهُمْ آلِهَةً} إِنَّكُمْ تَرْكَبُونَ سُنَنَ الَّذِینَ مِنْ قَبْلِكُمْ

ابوواقدللیثی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ غزوہ حنین کے طرف جاتے ہوئے ایک بیری کے درخت کے پاس سے گزرے،ان کو دیکھ کربعض لوگوں نے کہااے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم !ہمارے لئے بھی ایسا ہی ایک ذات انواط ہونا چاہئے جیساکہ مشرکین کاذات انواط ہے جس پروہ اپنے اسلحہ کولٹکاتے ہیں اوراس کے گردآرام کرتے ہیں ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مذمت کرتے ہوئے فرمایا اللّٰہ اکبر! یہ تووہی بات ہوئی کہ موسیٰ علیہ السلام کی قوم نے بت پرستوں کو بتوں کی عبادت کرتے دیکھا توکہا اے موسٰی ! ان کے بتوں کی طرح ہمارے لئے بھی ایک بت چاہیے ، یہ تواندھی تقلیدہے ، ایک وقت آئے گاکہ تم ایسے ہی ان کی اندھی تقلید کرنے لگ جاؤ گے۔[113]

چنانچہ کچھ عرصہ یہ چند اہل ایمان اور ان کی اولادیں وقت کے رسول کی تعلیمات کے مطابق زندگی گزارتے مگرشرک مختلف رنگ برنگ کے لباس پہن کر،مختلف بہروپ دھارکر انسانی ذہن کودھوکا دیتاہے اور انسانی ذہن اس میں بڑی کشش محسوس کرکے ہمیشہ اس بات کے درپے رہتا ہے کہ کسی نہ کسی طرح تاویل یاتعبیرکی آڑلے کر توحید میں شرک کی تھوڑی بہت آمیزش کر دے ، اس لئے انسانوں نے بہت جلد مختلف حیلے بہانوں سے رسولوں پر نازل کردہ کتابوں میں تحریف کرکے عقائد میں انبیاء ،اولیاء ، شہداء، صالحین ،علمااورمشائخ کی خدائی کو کسی نہ کسی طرح رونق افروز رکھا ،کسی نے تو خود پیغمبروں ہی کی پرستش شروع کردی ، کوئی اپنے پیغمبر کی شان میں غلو کر کے یہ کہنے لگا کہ خود  اللّٰہ تعالیٰ آسمانوں سے اس زمین پر انسانی شکل میں اتر آیا تھا ،کوئی اپنے پیغمبر کوابن اللہ کہنے لگا اورکسی نے اپنے پیغمبر کونورمن نوراللہ کہا،حالانکہ کسی بھی پیغمبرنے خودکوالٰہ کے طورپرپیش نہیں کیااورنہ ہی یہ دعوی کیاہے کہ وہ صاحب اختیار ہے ، قرآن مجیدمیں قوموں کے حالات پڑھ کردیکھ لیں وہ وقت کے رسولوں کوبشرہی کہتے تھے جس کی کسی پیغمبرنے نفی نہیں کی۔

قوم نوح علیہ السلام نے کہا ۔

فَقَالَ الْمَلَؤُا الَّذِیْنَ كَفَرُوْا مِنْ قَوْمِهٖ مَا ھٰذَآ اِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ۝۰ۙ یُرِیْدُ اَنْ یَّتَفَضَّلَ عَلَیْكُمْ۝۰ۭ وَلَوْ شَاۗءَ اللهُ لَاَنْزَلَ مَلٰۗىِٕكَةً۝۰ۚۖ مَّا سَمِعْنَا بِھٰذَا فِیْٓ اٰبَاۗىِٕنَا الْاَوَّلِیْنَ۝۲۴ۚ [114]

ترجمہ:اس کی قوم کے جن سرداروں نے ماننے سے انکار کیا وہ کہنے لگو کہ یہ شخص کچھ نہیں ہے مگر ایک بشر تم ہی جیسا، اس کی غرض یہ ہے کہ تم پر برتری حاصل کرے، اللہ کو اگر بھیجنا ہوتا تو فرشتے بھیجتا یہ بات تو ہم نے کبھی اپنے باپ دادا کے وقتوں میں سنی ہی نہیں ( کہ بشر رسول بن کر آئے )۔

قوم ہود علیہ السلام کہنے لگی ۔

 وَقَالَ الْمَلَاُ مِنْ قَوْمِهِ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا وَكَذَّبُوْا بِلِقَاۗءِ الْاٰخِرَةِ وَاَتْرَفْنٰهُمْ فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا۝۰ۙ مَا ھٰذَآ اِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ۝۰ۙ یَاْكُلُ مِمَّا تَاْكُلُوْنَ مِنْهُ وَیَشْرَبُ مِمَّا تَشْرَبُوْنَ۝۳۳۠ۙ [115]

ترجمہ:اس کی قوم کے جن سرداروں نے ماننے سے انکار کیا اور آخرت کی پیشی کو جھٹلایا، جن کو ہم نے دنیا کی زندگی میں آسودہ کر رکھا تھا، وہ کہنے لگےیہ شخص کچھ نہیں ہے مگر ایک بشر تم ہی جیسا جو کچھ تم کھاتے ہو وہی یہ کھاتا ہے اور جو کچھ تم پیتے ہو وہی یہ پیتا ہے۔

قوم ثمود علیہ السلام نے کہا۔

مَآ اَنْتَ اِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُنَا۝۰ۚۖ فَاْتِ بِاٰیَةٍ اِنْ كُنْتَ مِنَ الصّٰدِقِیْنَ۝۱۵۴ [116]

ترجمہ: تو ہم جیسے ایک انسان کے سوا اور کیا ہے لا کوئی نشانی اگر تو سچا ہے۔

قوم شعیب علیہ السلام نے کہا۔

وَمَآ اَنْتَ اِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُنَا وَاِنْ نَّظُنُّكَ لَمِنَ الْكٰذِبِیْنَ۝۱۸۶ۚ [117]

ترجمہ:اور توکچھ نہیں ہے مگرایک انسان ہم ہی جیسااورہم توتجھے بالکل جھوٹاسمجھتے ہیں ۔

فرعون نے کہا۔

فَقَالُوْٓا اَنُؤْمِنُ لِبَشَرَیْنِ مِثْلِنَا وَقَوْمُهُمَا لَنَا عٰبِدُوْنَ۝۴۷ۚ [118]

ترجمہ:کہنے لگے کیا ہم اپنے ہی جیسے دو آدمیوں پر ایمان لے آئیں ؟ اور آدمی بھی وہ جن کی قوم ہماری بندی ہے۔

کفارمکہ نے محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں کہا ۔

وَقَالُوْا مَالِ ھٰذَا الرَّسُوْلِ یَاْكُلُ الطَّعَامَ وَیَمْشِیْ فِی الْاَسْوَاقِ۝۰ۭ لَوْلَآ اُنْزِلَ اِلَیْهِ مَلَكٌ فَیَكُوْنَ مَعَهٗ نَذِیْرًا۝۷ [119]

ترجمہ: کہتے ہیں یہ کیسا رسول ہے جو کھانا کھاتا ہے اور بازاروں میں چلتا پھرتا ہے؟کیوں نہ اس کے پاس کوئی فرشتہ بھیجا گیا جو اس کے ساتھ رہتااور(نہ ماننے والوں کو)دھمکاتا۔

اللہ تعالیٰ نے ان کی غلط فہمیوں کودورکرنے کے لئے فرمایا۔

وَمَآ اَرْسَلْنَا قَبْلَكَ اِلَّا رِجَالًا نُّوْحِیْٓ اِلَیْهِمْ فَسْــَٔـلُوْٓا اَهْلَ الذِّكْرِ اِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ۝۷ [120]

ترجمہ:اور اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم !تم سے پہلے بھی ہم نے انسانوں ہی کو رسول بنا کر بھیجا تھا جن پر ہم وحی کیا کرتے تھے، تم لوگ اگر علم نہیں رکھتے تو اہل کتاب سے پوچھ لو۔

وَمَآ اَرْسَلْنَا قَبْلَكَ مِنَ الْمُرْسَلِیْنَ اِلَّآ اِنَّهُمْ لَیَاْكُلُوْنَ الطَّعَامَ وَیَمْشُوْنَ فِی الْاَسْوَاقِ۔۔۔۝۲۰ۧ [121]

ترجمہ:اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم !تم سے پہلے جو رسول بھی ہم نے بھیجے تھے وہ سب بھی کھانا کھانے والے اور بازاروں میں چلنے پھرنے والے لوگ ہی تھے۔

وَلَقَدْ اَرْسَلْنَا رُسُلًا مِّنْ قَبْلِكَ وَجَعَلْنَا لَهُمْ اَزْوَاجًا وَّذُرِّیَّةً۔۔۔۝۳۸ [122]

ترجمہ:تم سے پہلے بھی ہم بہت سے رسول بھیج چکے ہیں اور ان کو ہم نے بیوی بچوں والا ہی بنایا تھا۔

چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوحکم دیاگیاکہ وہ ان غلط عقائد کہ جن میں الوہیت کاکوئی ہلکاسابھی رنگ ہے واضح طورپران کااعلان تردید کردیں ۔

قُلْ اِنَّمَآ اَنَا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ یُوْحٰٓى اِلَیَّ اَنَّمَآ اِلٰـــهُكُمْ اِلٰهٌ وَّاحِدٌ۝۰ۚ فَمَنْ كَانَ یَرْجُوْا لِقَاۗءَ رَبِّهٖ فَلْیَعْمَلْ عَمَلًا صَالِحًا وَّلَا یُشْرِكْ بِعِبَادَةِ رَبِّهٖٓ اَحَدًا۝۱۱۰ۧ [123]

ترجمہ:اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم !کہوکہ میں تو ایک انسان ہوں تم ہی جیسا، میرے طرف وحی کی جاتی ہے کہ تمہارا خدا بس ایک ہی خدا ہے، پس جو کوئی اپنے رب کی ملاقات کا امیدوار ہو اسے چاہیے کہ نیک عمل کرے اور بندگی میں اپنے رب کے ساتھ کسی اور کو شریک نہ کرے۔

اللہ تعالیٰ نے اس عقیدے کی بھی تردیدفرمائی کہ کوئی پیغمبرصاحب قدرت واختیارہوسکتاہے۔

قُلْ لَّآ اَمْلِكُ لِنَفْسِیْ ضَرًّا وَّلَا نَفْعًا اِلَّا مَا شَاۗءَ اللهُ۔۔۔ ۝۴۹ [124]

ترجمہ:کہو میرے اختیار میں خود اپنا نفع و ضرر بھی نہیں ، سب کچھ اللہ کی مشیّت پر موقوف ہے ۔

اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس چیزکی بھی تردیدفرمائی کہ کسی رسول کوعلم الغیب یا کوئی ماورائی قوتیں حاصل ہوتی ہیں ۔

قُلْ لَّآ اَقُوْلُ لَكُمْ عِنْدِیْ خَزَاۗىِٕنُ اللهِ وَلَآ اَعْلَمُ الْغَیْبَ وَلَآ اَقُوْلُ لَكُمْ اِنِّىْ مَلَكٌ۝۰ۚ اِنْ اَتَّبِـــعُ اِلَّا مَا یُوْحٰٓى اِلَیَّ۔۔۔۝۰۝۵۰ۧ [125]

ترجمہ:اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم !ان سے کہو کہ میں تم سے یہ نہیں کہتا کہ میرے پاس اللہ کے خزانے ہیں ، اور نہ ہی میں غیب جانتا ہوں ، اور نہ ہی میں تم سے یہ کہتا ہوں کہ میں فرشتہ ہوں ، میں تو صرف پیروی کرتا ہوں اس وحی کی جو میری طرف بھیجی جاتی ہے۔

قُلْ لَّآ اَمْلِكُ لِنَفْسِیْ نَفْعًا وَّلَا ضَرًّا اِلَّا مَا شَاۗءَ اللهُ۝۰ۭ وَلَوْ كُنْتُ اَعْلَمُ الْغَیْبَ لَاسْـتَكْثَرْتُ مِنَ الْخَیْرِ۝۰ۚۖۛ وَمَا مَسَّنِیَ السُّوْۗءُ۝۰ۚۛ اِنْ اَنَا اِلَّا نَذِیْرٌ وَّبَشِیْرٌ لِّقَوْمٍ یُّؤْمِنُوْنَ۝۱۸۸ۧ [126]

ترجمہ:اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم !ان سےکہومیں اپنی ذات کے لیے کسی نفع اور نقصان کا اختیار نہیں رکھتا، اللہ ہی جو کچھ چاہتا ہے وہی ہوتا ہے اور اگر مجھے غیب کا علم ہوتا تو میں بہت سے فائدے اپنے لیے حاصل کرلیتا اور مجھے کبھی کوئی نقصان نہ پہنچتا، میں تو محض ایک خبردار کرنے والا اور خوشخبری سنانے والا ہوں ان لوگوں کے لیے جو میری بات مانیں ؏ ۔

اللہ تبارک وتعالیٰ نے واضح طورپرفرمایاکہ کسی کوراہ ہدایت پرپھیردیناہماراکام ہے رسول کاکام نہیں ،رسول کاکام صرف صحیح راستے کی نشان دہی ہی ہے ۔

اِنَّكَ لَا تَهْدِیْ مَنْ اَحْبَبْتَ وَلٰكِنَّ اللهَ یَهْدِیْ مَنْ یَّشَاۗءُ۝۰ۚ وَهُوَاَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِیْنَ۝۵۶ [127]

ترجمہ:اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم !تم جسے چاہو اسے ہدایت نہیں دے سکتے، مگر اللہ جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے اور وہ ان لوگوں کو خوب جانتا ہے جو ہدایت قبول کرنے والے ہیں ۔

 اِنَّ اللهَ یُسْمِعُ مَنْ یَّشَاۗءُ۝۰ۚ وَمَآ اَنْتَ بِمُسْمِعٍ مَّنْ فِی الْقُبُوْرِ۝۲۲ [128]

ترجمہ:اللہ جسے چاہتا ہے سنواتا ہے ، مگر (اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم )تم ان لوگوں کو نہیں سناسکتے جو قبروں میں مدفون ہیں ۔

اِنَّكَ لَا تُسْمِعُ الْمَوْتٰى وَلَا تُسْمِـــعُ الصُّمَّ الدُّعَاۗءَ اِذَا وَلَّوْا مُدْبِرِیْنَ۝۸۰وَمَآ اَنْتَ بِهٰدِی الْعُمْىِ عَنْ ضَلٰلَتِهِمْ۝۰ۭ اِنْ تُسْمِعُ اِلَّا مَنْ یُّؤْمِنُ بِاٰیٰتِنَا فَهُمْ مُّسْلِمُوْنَ۝۸۱ [129]

ترجمہ:تم مردوں کو نہیں سنا سکتے اور نہ بہروں تک اپنی پکار سنا سکتے ہو جو پیٹھ پھیر کر بھاگے جارہے ہوں ، اور نہ اندھوں کو راستہ بتاکربھٹکنے سے بچاسکتے ہوتم تو اپنی بات انہی لوگوں کو سنا سکتے ہو جو ہماری آیات پر ایمان لاتے ہیں اورپھر فرمانبردار بن جاتے ہیں ۔

اللہ تعالیٰ نے اس بات کی بھی تردیدفرمائی کہ رسول کواس کی نازل کردہ شریعت میں کسی قسم کاردوبدل کرنے کااختیارہے۔

۔۔۔ قُلْ مَا یَكُوْنُ لِیْٓ اَنْ اُبَدِّلَهٗ مِنْ تِلْقَاۗیِ نَفْسِیْ۔۔۔۝۰۝۱۵ [130]

ترجمہ:اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم !ان سے کہو میرا یہ کام نہیں ہے کہ اپنی طرف سے اس میں کوئی تغیر و تبدل کر لوں ۔

جب صحابہ کرام اللہ کے دین کوتھام کرباہرنکلے اور دین اسلام عرب سے باہر پھیلا تولوگ ایمان لانے کے ساتھ آبائی مشرکانہ رسم و رواج کے نام بدل کر اپنے ہمراہ لائے اور انہیں کسی نہ کسی طرح ساتھ لے کرچلتے رہے ، جومحض نفس کادھوکا اور ابلیس کی راہ تھی جس کایہ نتیجہ ہے کہ آج مسلمانوں کی معاشرتی زندگی ایسے رسم ورواج کا مجموعہ بن چکی ہے جو اسلام کی روح سے براہ راست ٹکراتے ہیں اس طرح انسان نے سچائی کوچھوڑ کر جھوٹ کی راہ اختیار کی ،جیسے  اللّٰہ تعالیٰ نے فرمایا۔

ذٰلِكَ بِاَنَّ اللهَ هُوَالْحَقُّ وَاَنَّ مَا یَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِهٖ هُوَالْبَاطِلُ وَاَنَّ اللهَ هُوَالْعَلِیُّ الْكَبِیْرُ۝۶۲ [131]

ترجمہ :یہ اس لیے کہ حق اللہ ہی کی ہستی ہے اور جنہیں اس کے سوا پکارتے ہیں باطل ہیں اور بیشک اللہ ہی بلند مرتبہ بڑائی والا ہے۔

اگرمشرکین مکہ سے ان مشرکانہ رسم ورواج کی کوئی دلیل مانگی جاتی تو مشرکین ہمیشہ لاجواب ہوکراپنے مذہب کے حق ہونے کی انبیاء ورسل کو یہ دلیل دیتے چلے آئے ہیں کہ ہمارے معبودوں کے یہ مراسم عبودیت توایک زمانہ سے ہمارے بزرگوں سے چلے آرہے ہیں اورہم ان کی عبادت تونہیں کرتے بلکہ ان کی خوشنودی حاصل کر کے رب تک پہنچنا چاہتے ہیں لہٰذایہ سچ ہے اور(نَعُوذُ بِاللَّهِ)  اللّٰہ کی نازل کردہ بات جھوٹ ہے، حالانکہ اگربزرگوں ہی کی تقلید کرنی تھی توپھران کے اپنے بزرگ ابراہیم علیہ السلام واسماعیل علیہ السلام جن کی وجہ سے ان کو دوسرے عربوں پرفخروامتیازتھا کی تقلیدکرنی چاہئے تھی یاپھر تقدیر کابہانہ کرتے کہ اگر  اللّٰہ نہ چاہتا تو ہم ان بتوں کی پرستش کیسے کرسکتے تھے ،یعنی اللہ کی مشیت ہی ہے کہ ہم شرک کریں ،کیونکہ اگراللہ نہ چاہتاتویہ افعال ہم سے کیسے صادرہوتے ، اس طرح وہ اپنے جرم کاسزاوار اللّٰہ کوٹھہراتے۔

سَیَقُوْلُ الَّذِیْنَ اَشْرَكُوْا لَوْ شَاۗءَ اللهُ مَآ اَشْرَكْنَا وَلَآ اٰبَاۗؤُنَا وَلَا حَرَّمْنَا مِنْ شَیْءٍ۝۰ۭ كَذٰلِكَ كَذَّبَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ حَتّٰی ذَاقُوْا بَاْسَـنَا۔۔۔۝۰۝۱۴۸ [132]

ترجمہ: یہ مشرک لوگ( تمہاری ان باتوں کے جواب میں )ضرور کہیں گے کہ اگر اللہ چاہتا تو نہ ہم شرک کرتے اور نہ ہمارے باپ دادا، اور نہ ہم کسی چیز کو حرام ٹھیراتے ، ایسی ہی باتیں بنا بنا کر ان سے پہلے کے لوگوں نے بھی حق کو جھٹلایا تھا یہاں تک کہ آخر کار ہمارے عذاب کا مزا انہوں نے چکھ لیا۔

وَقَالَ الَّذِیْنَ اَشْرَكُوْا لَوْ شَاۗءَ اللهُ مَا عَبَدْنَا مِنْ دُوْنِهٖ مِنْ شَیْءٍ نَّحْنُ وَلَآ اٰبَاۗؤُنَا وَلَا حَرَّمْنَا مِنْ دُوْنِهٖ مِنْ شَیْءٍ۝۰ۭ كَذٰلِكَ فَعَلَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ ۝۳۵ [133]

ترجمہ:یہ مشرکین کہتے ہیں اگر اللہ چاہتا تو نہ ہم اور نہ ہمارے باپ دادا اس کے سوا کسی اور کی عبادت کرتے اور نہ اس کے حکم کے بغیر کسی چیز کو حرام ٹھہراتے ، ایسے ہی بہانے ان سے پہلے کے لوگ بھی بناتے رہے ہیں ۔

اورانہیں یہ کہا جاتاکہ کیاان بتوں کی عبادت کی تلقین اللہ تعالیٰ کی کسی نازل شدہ کتاب تورات وانجیل وزبور میں کی گئی ہے توجواب میں کسی کتاب کا حوالہ دینے کے بجائے عیسیٰ علیہ السلام اورعزیر علیہ السلام کے پیروکاروں کوبطوردلیل پیش کرتے وہ اپنے (نَعُوذُ بِاللَّهِ ) عیسٰی علیہ السلام کو  اللّٰہ کابیٹااوراس کی والدہ مریم کو اللّٰہ کی اہلیہ مان کراس کی پرستش کرتے ہیں اور یہودی عزیر علیہ السلام کو  اللّٰہ کا بیٹامانتے ہیں ، حالانکہ یہ سوال یہ نہ تھاکہ یہودونصایٰ، مجوسی،کوکب پرست وغیرہ کیا کررہے ہیں سوال تویہ تھاکہ کیا اللّٰہ نے اپنی کسی کتاب میں یاکسی رسول نے اس طرح کا کوئی حکم فرمایاہے ، بہر حال پیغمبروں کی تمام کوششیں رائیگاں ہی نہیں چلی گئیں ،ابلیس کی انسانوں کوبہکانے کی ہرقسم کی کوششوں کے باوجود دین اسلام کی اصل صداقت ، اللّٰہ اور آخرت کی زندگی کاتصور کسی نہ کسی طورپر تمام قوموں میں باقی رہا جس کی وجہ سے سچائی واخلاق کے چنداصول دنیامیں تسلیم کرلئے گئے۔

[1] ھود۲۵،۲۶

[2] نوح۱تا۴

[3] ھود۵۰

[4] ھود۶۱

[5]العنکبوت۱۶

[6] الشعراء۱۶۰تا۱۶۳

[7] الاعراف۸۵

[8] العنکبوت۳۶

[9] الشعراء۱۰،۱۱

[10] الانبیاء۲۲

[11] بنی اسرائیل۴۲تا۴۴

[12] یوسف۴۰

[13] التوبة۷۸

[14] الحج۶۱

[15] لقمان۲۸

[16] المجادلة۱

[17] فاطر۳۸

[18] المومن۱۹

[19] المومن۶۰

[20] ابراہیم ۱۱

[21]الکہف۱۱۰

[22]لنساء ۶۴

[23] الشعراء۱۰۵تا۱۱۰

[24] الشعراء۱۲۴تا۱۲۷

[25] ھود۵۰،۵۱

[26] الشعراء۱۴۲تا۱۴۵

[27] الشعراء۱۶۰تا۱۶۴

[28] الشعراء۱۷۶تا۱۸۰

[29] مریم۴۲تا۴۴

[30] البقرة۲۰۸

[31] النصر۳

[32] مسند احمد ۲۵۳۸۴،سنن ابن ماجہ كِتَابُ الدُّعَاءِ بَابُ الدُّعَاءِ بِالْعَفْوِ وَالْعَافِیَةِ ۳۸۵۰،جامع ترمذی أَبْوَابُ الدَّعَوَاتِ باب۳۵۱۳

[33] بنی اسرائیل ۳۶

[34] الطارق۱۰

[35] عبس۳۳تا۳۷

[36] معارج۸تا۱۴

[37] الرعد۱۵

[38] الحج ۱۸

[39] بنی اسرائیل۴۴

[40] الرحمٰن ۲۶،۲۷

[41] القمر۳

[42] آل عمران۱۸۵

[43] الاحقاف ۳

[44] الانعام۶۷

[45] الروم ۸

[46] الانعام۸۰

[47] الاعراف۸۹

[48] الطلاق۱۲

[49] الرحمٰن ۲۶،۲۷

[50] القصص ۸۸

[51] العنکبوت ۴۰

[52] الاعراف ۳۴

[53] سنن ابن ماجہ كِتَابُ الزُّهْدِ بَابُ ذِكْرِ التَّوْبَةِ ۴۲۵۳،مسنداحمد۶۱۶۰

[54] الملک ۲

[55]صحیح بخاری کتاب الجنائزبَابُ المَیِّتِ یُعْرَضُ عَلَیْهِ مَقْعَدُهُ بِالْغَدَاةِ وَالعَشِیِّ ۱۳۷۹، صحیح مسلم كتاب الْجَنَّةِ وَصِفَةِ نَعِیمِهَا وَأَهْلِهَا بَابُ عَرْضِ مَقْعَدِ الْمَیِّتِ مِنَ الْجَنَّةِ أَوِ النَّارِ عَلَیْهِ، وَإِثْبَاتِ عَذَابِ الْقَبْرِ وَالتَّعَوُّذِ مِنْهُ۷۲۱۱ ،جامع ترمذی ابواب الجنائز بَابُ مَا جَاءَ فِی عَذَابِ القَبْرِ۱۰۷۲،سنن نسائی کتاب الجنائز باب وَضْعُ الْجَرِیدَةِ عَلَى الْقَبْر۲۰۷۲،سنن ابن ماجہ کتاب الزھدبَابُ ذِكْرِ الْقَبْرِ وَالْبِلَى ۴۲۷۰،مسنداحمد۵۹۲۶

[56] المومن۴۵ ،۴۶

[57] الغاشیة۸،۹

[58] المطففین۲۲تا۲۴

[59] عبس۳۸،۳۹

[60] القیامة۲۲،۲۳

[61] عبس۴۰،۴۱

[62] النازعات۸،۹

[63] القیامة۲۴،۲۵

[64] یونس۲۷

[65] ابراہیم ۴۸

[66] الانبیاء ۱۰۴

[67] یٰسین۵۱

[68] النبا۱۸

[69] صحیح مسلم كِتَابُ صِفَاتِ الْمُنَافِقِینَ وَأَحْكَامِهِمْ المنافقین بَابُ تَحْرِیشِ الشَّیْطَانِ وَبَعْثِهِ سَرَایَاهُ لِفِتْنَةِ النَّاسِ وَأَنَّ مَعَ كُلِّ إِنْسَانٍ قَرِینًا۷۱۰۸،مسند احمد۴۳۹۲

[70] ابراہیم۲۲

[71] الروم ۵۵

[72] الروم ۵۶

[73] الملک۳،۴

[74] ص۷۵

[75] الحجر۲۸تا۲۹

[76] ص۷۱تا۷۲

[77] السجدة۷تا۹

[78] فاطر۱

[79] النور۴۵

[80] البقرة۲۳

[81]ونس۳۸

[82] ھود۱۳

[83] البقرة۲۰۸

[84] الاعراف۲۲

[85] یوسف۵

[86] یٰسین۶۰

[87] لقمان ۲۸

[88]مریم ۶۶،۶۷

[89] یونس۴

[90] الفجر۲۲،۲۳

[91] التکویر۱۲تا۱۴

[92] مریم۸۰

[93] مریم۹۵

[94] الزلزال ۷،۸

[95]یٰسین ۶۵

[96] صحیح مسلم کتاب صفات المنافقین بَابُ لَنْ یَدْخُلَ أَحَدٌ الْجَنَّةَ بِعَمَلِهِ بَلْ بِرَحْمَةِ اللهِ تَعَالَى۷۱۱۱

[97] الرحمٰن ۳۹

[98] مسنداحمد۱۲۳۹۸

[99] صحیح بخاری كِتَابُ بَدْءِ الخَلْقِ بَابُ مَا جَاءَ فِی صِفَةِ الجَنَّةِ وَأَنَّهَا مَخْلُوقَةٌ۳۲۵۱ ،صحیح مسلم كتاب الْجَنَّةِ وَصِفَةِ نَعِیمِهَا وَأَهْلِهَا بَابُ إِنَّ فِی الْجَنَّةِ شَجَرَةً یَسِیرُ الرَّاكِبُ فِی ظِلِّهَا مِائَةَ عَامٍ لَا یَقْطَعُهَا۷۱۳۸ عن سہل بن سعد t،مسنداحمد۱۲۰۷۰

[100] الاعراف۴۶تا۴۸

[101] آل عمران ۱۳۳

[102] الحدید ۲۱

[103] صحیح بخاری کتاب الرقاق بَابُ صِفَةِ الجَنَّةِ وَالنَّارِ۶۵۶۲،صحیح مسلم کتاب الایمان بَابُ أَهْوَنِ أَهْلِ النَّارِ عَذَابًا ۵۱۷،جامع ترمذی ابواب الجہنم باب۱۵۴۷ ، ح۲۶۰۴، مسند احمد ۱۸۴۱۳،مستدرک حاکم۸۷۳۳،شرح السنة للبغوی۴۴۰۱،الترغیب والترھیب للمنذری ۵۶۰۴

[104] الرحمٰن ۴۳،۴۴

[105] یٰسین ۶۳،۶۴

[106] التوبة۴۰

[107] مسنداحمد۱۶۸۳۹

[108] ھود۳۲

[109] الاحقاف۲۲

[110] الاعراف۷۰

[111] الاعراف۷۷

[112] الشعراء۱۸۵تا۱۸۷

[113] مسنداحمد۲۱۹۰۰

[114] المومنون ۲۴

[115] المومنون ۳۳

[116] الشعراء ۱۵۴

[117] الشعراء ۱۸۶

[118] المومنون ۴۷

[119] الفرقان ۷

[120] الانبیاء ۷

[121] الفرقان ۲۰

[122] الرعد ۳۸

[123] الکہف ۱۱۰

[124] یونس ۴۹

[125] الانعام۰ ۵

[126] الاعراف ۱۸۸

[127] القصص ۵۶

[128]فاطر۲۲

[129] النمل ۸۱،۸۰

[130] یونس ۱۵

[131]الحج ۶۲

[132] الانعام ۱۴۸

[133] النحل ۳۵

Related Articles