مکہ: قبل از بعثتِ نبوی ﷺ

خانہ کعبہ کی تجدید(  ۶۰۵ ء),ابراہیم علیہ السلام کی تعمیر

بیت  اللّٰہ کی تعمیر ابراہیم علیہ السلام اور اسماعیل علیہ السلام نے پتھروں کومحض ایک دوسرے کے اوپرجماکرکی تھی ان پتھروں کوجوڑنے کے لئے کوئی گارامٹی استعمال نہیں کیا گیا تھا اور نہ ہی دیواروں پرپلسترکیاگیاتھا،پھر تعمیر ہوئے بھی کافی زمانہ بیت چکاتھااوراب تک اس کی تجدیدنونہیں ہوئی تھی ،بنی جرہم اورعمالقہ کے بارے میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب ابراہیم علیہ السلام کی تعمیر کردہ عمارت کعبہ منہدم ہوگئی توپھربنوجرہم نے اسے ازسرنوتعمیرکیامگرجب وہ بھی منہدم ہوگئی توعمالقہ نے اسے بنایا۔[1]

اور قصیٰ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ قریش میں قصی پہلاآدمی ہے جسے کعبہ شریف تعمیرکرنے کی سعادت حاصل ہوئی یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اجدادمیں سے تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے تقریبا ً ایک سوتیس سال قبل اس کی حکومت قائم ہوئی تھی۔ [2]

مگرمشہورروایات کے مطابق ابراہیم علیہ السلام کی تعمیرکے بعدقریش کی تعمیرثابت ہے لیکن کسی صحیح روایت سے عمالقہ ، جرہم اور قصی کی تعمیر ثابت نہیں ہوتی ،یہ مجردخبرہے جس کی کوئی معقول دلیل موجودنہیں ہے اوراگران تعمیرات کوصحیح تسلیم کربھی لیاجائے توکسی مورخ نے کعبہ کی بلندی میں کمی یااضافہ کا ذکر نہیں کیا، چنانچہ ان وجوہات کی بناپرقریش نے بیت اللہ کی تعمیرکافیصلہ کیا ۔

xابن اسحاق سے روایت ہے کہ بیت اللہ شہرکے نشیبی علاقہ میں واقع ہونے کی وجہ سے بارش کاپانی سیلاب بن کرحرم میں داخل ہوجاتااورعہد کہنہ کی اس یادگارعمارت کو نقصان پہنچتا ، پھرکعبہ کی دیواریں بھی قدآدم کے برابراونچی تھیں اوراس کے اردگردکوئی حصاریاچاردیواری بھی نہیں تھی جوپانی کے لئے رکاوٹ بنتی،بالائی حصہ میں خزاعہ نے پہلابند تعمیرکرکے سیلاب کی روک تھام کی کوشش توکی مگروہ کارگرثابت نہ ہوئی ،بندبھی سیلاب کی نذرہوگیااور قبیلہ بنوبکرکی فارہ نامی ایک عورت جاں بحق ہوگئی اسی وجہ سے وہ سیلاب فارہ کے نام سے مشہورہوا،اس واقعہ کے بعدعندمذبنت خزاعہ نے کعبہ کی حفاظت کے لئے ایک پشتہ تعمیرکردیا مگرسیلاب کے باعث قریب تھاکہ دیواریں گرجاتیں ۔

xامتدادزمانہ اورمرورادوارکے باعث بیت اللہ کی دیواریں بے حدبوسیدہ ہوکرآثارقدیمہ کی تصویرپیش کررہی تھیں اورزبان حال سے اپنی خستہ حالی کی فریادکناں تھے۔

xاسی زمانہ میں بیت اللہ کاخزانہ جس میں سونے کاہرن ،بیش بہاقیمتی جواہرات اورموتی تھے چوری ہوگیا،

وكان الذی وجد عنده الكنز دویكا مَوْلًى لِبَنِی مُلَیْحِ بْنِ خُزَاعَةَ، فَقَطَعَتْ قُرَیْشٌ یَدَهُ من بینهم، وكان ممن اتهم فی ذلك عَامِرُ بْنُ الْحَارِثِ بْنِ نَوْفَلٍ، وَأَبُو هَارِبِ بْنُ عُزَیْزٍ، وَأَبُو لَهَبِ بْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ ، وهم الذین تزعم قریش أنهم وضعوا كنز الكعبة حین أخذوه عند دویك مولى بنی ملیح، ویقال: هم وضعوه عنده وذكروا أن قریشا حین استیقنوا بأن ذلك كان عند الحارث بن عامر ابن نوفل بن عبد مناف، ألا یدخل مكة عشر سنین، بما استحل من حرمة الكعبة

مسروقہ مال بنی ملیح کے ایک آزادکردہ غلام دویک نے چرا لیا تھا یا چوروں نے مال لے کردویک کے پاس رکھوادیاتھااوراسی کے گھرسے برآمد ہوا جس کی وجہ سے قریش نے اس کاہاتھ کاٹ دیا،اس تہمت میں حارث بن عامر بن نوفل اور ابو اھاب بن عزیز اور ابو لہب بن عبد المطلب شامل تھے اگرچہ بعدکی تحقیق وتفشیش میں اصل مجرم حارث بن عامر بن نوفل بن عبدمناف ثابت ہواجسے سزاکے طورپردس سال کے لئے شہربدرکردیاگیا۔[3]

 أَجْمَرَتِ امْرَأَةٌ الْكَعْبَةَ فَطَارَتْ شَرَارَةٌ مِنْ مِجْمَرِهَا فِی ثِیَابِ الْكَعْبَةِ فَاحْتَرَقَتْ

امام زہری رحمہ اللہ سے روایت ہےایک عورت بیت اللہ کوباخور(جوایک خوشبوہے) کی دھونی دے رہی تھی کہ ایک شرارہ اڑکربیت اللہ کے غلاف پرجاپڑاجس سے آگ بھڑک اٹھی،غلاف کعبہ جل کرخاکسترہوگیااوربیت اللہ کی دیواریں بھی جھلس گئیں ۔[4]

 وَلما بلغ رَسُول الله صلى الله عَلَیْهِ وَسلم خمْسا وَثَلَاثِینَ أَجمعت قُرَیْش لبنیان الْكَعْبَة

جب رسول  اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر۳۵ برس کی تھی توقریش کا کعبہ کی تعمیر پر اتفاق ہو،

اجَاءَ سَیْلٌ فِی الجَاهِلِیَّةِ فَكَسَا مَا بَیْنَ الجَبَلَیْنِ

اس سال خوب بارشیں ہوئیں جس کے نتیجے میں پانی سیلابی اندازمیں بیت اللہ کی طرف چلا آیا۔[5]

جس کی وجہ سے بیت اللہ کی دیواروں میں شگاف پڑگئے اورشدیدخطرہ پیداہوگیاکہ کسی وقت پتھراپنی خستگی کی وجہ سے زمین بوس نہ ہوجائیں ۔

اب قریش کے پاس اس کے سوااورکوئی چارہ نہ تھاکہ بیت اللہ کوگراکر اس کی تعمیرنو کریں ،مگرتعمیرنوکاسوچتے ہوئے ڈرتے بھی تھے کیونکہ ابرہہ اوراس کے لشکرکا(جواس مقدس گھر کو منہدم کرنے کے لئے بڑے کروفرسے آیاتھا)حال اپنی آنکھوں سے دیکھ ہی چکے تھے، اس کے علاوہ بیت اللہ صرف قریش ہی کے لئے مقدس نہیں تھاکہ جب اورجیسے چاہتے کر گزرتے بلکہ پورے قبائل عرب کامقدس مقام تھا اوراپنی مرکزیت اوراپنے تقدس کی وجہ سے پورے ملک کی معاشی وتمدنی زندگی کاسہارابناہواتھا،اورحرام مہینوں میں جب امن ہوتاتوحج اورعمرے کی غرض سے ساراملک ان کی طرف کھنچ کرچلاآتاتھاجس کی بدولت عربوں میں وحدت کا ایک رشتہ قائم ہوجاتاتھا، اس لئے سب نے مشترکہ طور پرابرہہ کا مقابلہ کیاتھا، اس لئے تمام قبائل عرب اس سنجیدہ مسئلے کے حل کے لئے دارالندوہ میں جمع ہوئے اورکافی غوروفکراور مشاورت سے بیت اللہ کی تعمیرنو کے کارخیرکی انجام دہی پرکمربستہ ہوگئے اور ساتھ ہی یہ بھی طے پایاکہ بیت اللہ کی چھت بھی بنائی جائے گی ،

فَقَالَ لَهُمُ الْوَلِیدُ بْنُ الْمُغِیرَةِ: یَا قَوْمِ، لَا تُدْخِلُوا فی عِمَارَةَ بَیْتِ رَبِّكُمْ إِلَّا مِنْ طَیِّبِ أَمْوَالِكُمْ، وَلَا تُدْخِلُوا فِیهِ مَالًا مِنْ رِبًا، وَلَا مَالًا مِنْ مَیْسِرٍ، وَلَا مَهْرَ بَغِیٍّ، وَجَنِّبُوهُ الْخَبِیثَ مِنْ أَمْوَالِكُمْ، فَإِنَّ اللَّهَ لَا یَقْبَلُ إِلَّا طَیِّبًا. فَفَعَلُوا

اس موقعہ پرآپ کے والد عبداللہ کے ماموں ابووہب بن عمرو بن عائذمخزومی نے اورایک روایت کے مطابق ولیدبن مغیرہ کھڑاہوااورکعبہ کاایک پتھرباہرنکال کردوبارہ اس کی جگہ پررکھ دیااور کھڑے ہوکرقریش کومخاطب کیااے قریش کے لوگو!اس گھرکی تعمیرمیں اپنی حلال کمائی لگاؤ ،اس میں زناکاری کی کمائی ،سودکی کمائی ،یاکسی شخص پرظلم کرکے حاصل کی ہوئی کمائی داخل نہ ہونے پائے ،بیشک اللہ پاکیزہ چیزوں کوقبول فرماتاہےلہذااس میں حلال کمائی لگاؤ ۔

فَقَالَ: یَا مَعْشَرَ قُرَیْشٍ، لَا تُدْخِلُوا فِی بِنَائِهَا مِنْ كَسْبِكُمْ إلَّا طَیِّبًا، لَا یَدْخُلُ فِیهَا مَهْرُ بِغَیٍّ، وَلَا بَیْعُ رِبًا، وَلَا مُظْلَمَةُ أَحَدٍ مِنْ النَّاسِ

ایک اورروایت یوں ہےاے گروہ قریش ! اس گھرکی تعمیرمیں کوئی ایسامال نہ لگاؤ جوتم نے غصب کرکے ،یاقطع رحمی کرکے ،یاکسی ذمہ کوجوتمہارے اورکسی دوسرے انسان کے درمیان ہوتوڑکرحاصل کیا، بلکہ صرف مال حلال سے ہی اس کی تعمیرکی جائے۔[6]

چنانچہ یہ بھی طے پایاکہ ہرقبیلہ اس کی تعمیر نو میں سودی بیوپار ،لوٹ مار ،حق تلفی وظلم وستم اورلونڈیوں کی کمائی کی رقم(زناکاری) لگانے کی بجائے صرف رزق حلال ہی خرچ کرے گا،یہ طے کرکے تعمیرکے لئے مختلف قبائل کو علاقے تقسیم کردیئے گئے۔

پھرتائیدغیبی سے کچھ ایسے واقعات رونماہوئے جس سے قریش کی ہمت اوربھی بڑگئی۔

x ہوایہ کہ بیت اللہ کے خزانے پرایک اژدھے نے پانچ سوسال سے ڈیرہ ڈال رکھاتھاجس کے خوف ودہشت سے کسی کوعمارت مسمارکرنے کی جرات نہیں ہوسکتی تھی،

إِنْ كَانَ لَكَ فِی هَدْمِهَا رِضًا فَأَتِمَّهُ وَاشْغَلْ عَنَّا هَذَا الثُّعْبَانَ. فَأَقْبَلَ طَائِرٌ مِنْ جَوِّ السَّمَاءِ كَهَیْئَةِ الْعُقَابِ فَقَالَت قُرَیْش: إِنَّا لنَرْجُو أَن یكون الله تَعَالَى، رَضِی مَا أردنَا

ایک دن حسب معمول وہ دیوارپربیٹھاتھاکہ ایک پرندے نے جھپٹامارکراسے اپنے پنجوں میں دبوچ لیااوراڑگیا،اس واقعہ سے قریش نے یہ فال نکالی کہ ہمارے پروگرام سے رب کعبہ راضی ہے اوراس کی مشیت اسی میں ہے کہ ہم یہ کام کرگزریں ۔[7]


ابراہیم علیہ السلام کی تعمیر


ابراہیم علیہ السلام نے کعبہ شریف کی جوتعمیرفرمائی اس کی پیمائش کچھ اس طرح تھی۔

مشرقی دیوار جس میں دروازہ ہے،حجرہ اسودسے رکن یمانی تک  ۵۳فٹ،۴ انچ

مغربی دیوار:رکن یمانی سے رکن عراقی تک ،۵۱فٹ،۸ انچ

رکن شامی سے رکن عراقی کی سمت والی دیوار:۳۶فٹ،۱۰ انچ

رکن یمانی اورحجراسودکے درمیان والی دیوار: ۳۳فٹ،۴ انچ

کعبہ کی بلندی: ۱۳فٹ، ۶ انچ

اور دیواروں کی چوڑائی تقریباتین فٹ تھی اورکوئی چھت یادروازہ نہیں تھا۔

قریش کی تعمیر

قریش اورقبائل عرب کی مشاورت میں تعمیربیت اللہ کے حصص کی تقسیم اس طرح کی گئی کوئی قبیلہ تعمیربیت اللہ کے شرف سے محروم نہ رہے اور تمام قبائل برابری کے درجہ میں پوری لگن اورتندہی سے ایک عظیم الشان کام سے عہدہ برآہوسکیں اورحسد،عداوت یامسابقت کے امکانات بھی باقی نہ رہیں ،

ثُمَّ إنَّ قُرَیْشًا جَزَّأَتْ الْكَعْبَةَ

چنانچہ تعمیربیت اللہ کے لئے مختلف قبائل میں حصص کویوں تقسیم کیاگیا ۔

فَكَانَ شِقُّ الْبَابِ لِبَنِی عَبْدِ مَنَافٍ وَزُهْرَةَ

حجراسودسے رکن یمانی تک دروازے تک کاحصہ بنوعبدمناف اوربنوزہرہ بنائیں ۔

وَكَانَ مَا بَیْنَ الرُّكْنِ الْأَسْوَدِ وَالرُّكْنِ الْیَمَانِی لِبَنِی مَخْزُومٍ، وَقَبَائِلُ مِنْ قُرَیْشٍ انْضَمُّوا إلَیْهِمْ

حجراسودسے رکن یمانی کادرمیانی حصہ بنومخزوم اوربنوتمیم اورقریش کے دیگرقبائل بھی ان کاساتھ دیں ۔

 وَكَانَ ظَهْرُ الْكَعْبَةِ لِبَنِی جُمَحٍ وَسَهْمٍ ، ابْنَیْ عَمْرِو بْنِ هُصَیْصِ بْنِ كَعْبِ بْنِ لُؤَیٍّ

رکن یمانی اوررکن عراقی کادرمیانی حصہ بنوجمح اوربنوسہم کوملا۔

وَكَانَ شِقُّ الْحَجَرِ لِبَنِی عَبْدِ الدَّارِ بْنِ قُصَیٍّ، وَلِبَنِی أَسَدِ بْنِ الْعُزَّى بْنِ قُصَیٍّ، وَلِبَنِی عَدِیِّ بْنِ كَعْبِ بْنِ لُؤَیٍّ، وَهُوَ الْحَطِیمُ

حطیم کی جانب والی دیواربنوعبدالداربن قصی،بنواسدبن عبدالعزٰی اوربنوعدی بن کعب کے حصہ میں آئ۔[8]

فَتَشَاغَلَتْ قُرَیْشٌ فِی هَدْمِ الْكَعْبَةِ، فَهَابُوا هَدْمَهَا، فَقَالَ لَهُمُ الْوَلِیدُ بْنُ الْمُغِیرَةِ: أَتُرِیدُونَ بِهَدْمِهَا الْإِصْلَاحَ أَمِ الْإِسَاءَةَ؟ قَالُوا بَلْ نُرِیدُ الْإِصْلَاحَ. قَالَ: فَإِنَّ اللَّهَ لَا یُهْلِكُ الْمُصْلِحِینَ. قَالُوا: مَنِ الَّذِی یَعْلُوهَا فَیَهْدِمُهَا؟ قَالَ الْوَلِیدُ بْنُ الْمُغِیرَةِ: أَنَا أَعْلُوهَا فَأَهْدِمُهَا. فَارْتَقَى الْوَلِیدُ عَلَى جَدْرِ الْبَیْتِ وَمَعَهُ الْفَأْسُ، فَقَالَ: اللَّهُمَّ إِنَّا لَا نُرِیدُ إِلَّا الْإِصْلَاحَ. ثُمَّ هَدَمَ، فَلَمَّا رَأَتْ قُرَیْشٌ مَا هَدَمَ مِنْهَا، وَلَمْ یَأْتِهِمْ مَا یَخَافُونَ مِنَ الْعَذَابِ، هَدَمُوا مَعَهُ اللَّهمّ إنَّا لَا نُرِیدُ إلَّا الْخَیْرَ

بیت اللہ کی عظمت رعب ودبدبہ اوردل میں اللہ تعالیٰ کاڈروخوف رکھتے ہوئے جب بیت اللہ کومنہدم کرنے کاوقت آیاتوکسی میں ہمت نہیں تھی کہ وہ بیت اللہ کوگرانے کے لئے دیوار پرکدال چلائے ،آخرہمت باندھ کر ولیدبن مغیرہ خانہ کعبہ کی دیوارپرچڑھ کرکھڑاہوااللہ سے دعاکی،اے اللہ ہم صرف خیر اور بھلائی کی نیت رکھتے ہیں ،معاذاللہ ہماری نیت بری نہیں ،ہم تیرے مقدس گھرکوویران کرنے کی ناپاک جسارت ہرگزنہیں کر رہے بلکہ اس کی آبادکاری تحفظ اوراستحکام چاہتے ہیں اور پھرحجراسوداوررکن یمانی کی طرف سے دیوارگرانی شروع کردی مگرکوئی اورشخص یہ ہمت نہ کرسکااورسب کہنے لگے کہ آج رات کاانتظارکروکہ کہیں ولیدبن مغیرہ پرکسی قسم کا کوئی آسمانی عذاب تونازل نہیں ہو جاتااگرولیدپرکوئی آفت نازل ہوئی توہم کچھ نہیں کرائیں گے بلکہ ولیدکے گرائے ہوئے حصے کواسی طرح اصل کے مطابق بنادیں گے بصورت دیگراس کامطلب یہ لیاجائے گاکہ اللہ تعالیٰ ہمارے کام سے راضی ہے،سب کی ساری رات بے چینی میں گزری کہ دیکھیں ولیدبن مغیرہ کے ساتھ کیاہوتاہے ،دوسری صبح ہوئی توسب نے دیکھاکہ ولیدبن مغیرہ اپناپھاء لہ لے کرصحیح سالم بیت اللہ میں داخل ہواتو لوگوں کی ہمت بندھ گئی کہ ہمارے اس عمل سے اللہ راضی ہےچنانچہ سب قبائل دل وجاں سے تقسیم شدہ حصص کے مطابق دیواروں کے پتھراتارنے لگ گئے،

حَتَّى إذَا انْتَهَى الْهَدْمُ بِهِمْ إلَى الْأَسَاسِ، أَسَاسِ إبْرَاهِیمَ عَلَیْهِ السَّلَامُ، أَفْضَوْا إلَى حِجَارَةٍ خُضْرٍ كَالْأَسْنِمَةِ آخِذٌ بَعْضُهَا بَعْضًا فَحَدَّثَنِی بَعْضُ مَنْ یَرْوِی الْحَدِیثَ: أَنَّ رَجُلًا مِنْ قُرَیْشٍ،مِمَّنْ كَانَ یَهْدِمُهَا، أَدْخَلَ عَتَلَةً بَیْنَ حَجَرَیْنِ مِنْهَا لِیُقْلِعَ بِهَا أَحَدَهُمَا، فَلَمَّا تَحَرَّكَ الْحَجَرُ تَنَقَّضَتْ مَكَّةُ بِأَسْرِهَا، فَانْتَهَوْا عَنْ ذَلِكَ الْأَسَاسِ

وقت کے ساتھ ساتھ پتھر ہٹاتے ہٹاتے ابراہیم علیہ السلام کی بنیادیں نمودار ہو گئیں ،جوکہ سبزرنگ کے پتھروں پرمشتمل تھیں اوروہ پتھردندانوں کی طرح ایک دوسرے کے ساتھ پیوست تھے،ابن ہشام کہتے ہیں مجھ سے یہ بیان کرنے والوں میں سے کسی نے بتایاہے کہ ایک قریشی نے جب ان بنیادوں پراپناپہاء لہ چلایاتوایک زورداردھماکہ ہواجس سے تمام مکہ لرزاٹھا،انہوں نے اسے اللہ تعالیٰ کی طرف سے تنبیہ سمجھ کر نیچے کھدائی کاکام بندکردیااورانہی بنیادوں پرتعمیرکاکام شروع کردیا۔[9]

حسن اتفاق سے انہی دنوں ایک رومی تاجر یاقیصرشاہ روم کا مال بردار جہازایک گرجے کی تعمیرکے لئے لوہا،عمارتی لکڑی اورسنگ مرمرلے کرجارہاتھا کہ طوفان کی وجہ سے شعیبیہ (حجازکی قدیم بندرگاہ) کی بندرگاہ سے ٹکرا کر پاش پاش ہو گیا قریش نے اس موقعہ کوغنیمت جانااور ولیدبن مغیرہ کوایک وفدکے ہمراہ لکڑی حاصل کرنے کے لئے جدہ بھیج دیا ۔[10]

ثُمَّ إِنَّ سَفِینَةً لِلرُّومِ أَقْبَلَتْ، حَتَّى إِذَا كَانَتْ بِالشُّعَیْبَةِ وَهِیَ یَوْمَئِذٍ سَاحِلُ مَكَّةَ قَبْلَ جُدَّةَ، فَانْكَسَرَتْ فَسَمِعَتْ بِهَا قُرَیْشٌ، فَرَكِبُوا إِلَیْهَا وَأَخَذُوا خَشَبَهَا وَرُومِیًّا كَانَ فِیهَا یُقَالُ لَهُ بَاقُومُ نَجَّارًا بَنَّاءً، فَلَمَّا قَدِمُوا بِهِ مَكَّةَ قَالُوا: لَوْ بَنَیْنَا بَیْتَ رَبِّنَا. فَاجْتَمَعُوا لِذَلِكَ وَنَقَلُوا الْحِجَارَةَ مِنَ الضَّوَاحِی

ولید بن مغیرہ نے ٹوٹے ہوئے جہازکے تختے بیت اللہ کی چھت کے لئے حاصل کرلئے ،ولیدبن مغیرہ کو وہاں ایک رومی معمار باقوم بھی ملاجواپنے فن میں بڑاماہرتھا ،ولیدبن مغیرہ نے باقوم کومکہ معظمہ آنے اوربیت اللہ تعمیرکرنے کی پیش کش کی چنانچہ وہ ان کی درخواست پرمکہ معظمہ چلا آیا ، ولیدبن مغیرہ کی آمدسے قبل قریش نے پتھروں کی تراش خراش کرکے ذخیرہ کررکھاتھااورجدت ومضبوطی کے ساتھ تعمیرکرنے کے لئے پوری طرح مستعد تھے ،ساتھ ہی اللہ کے حکم سے مضبوط اورعمدہ قسم کی لکڑی بھی دستیاب ہوگئی تھی سب کچھ تیارتھاچنانچہ جیسے ہی باقوم رومی معمارمکہ پہنچاپہلے سے موجود بنیادوں پرہرقبیلہ نے علیحدہ علیحدہ پتھرجمع کرکے از سرے نوتعمیرشروع کردی۔[11]

جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: لَمَّا بُنِیَتِ الكَعْبَةُ ذَهَبَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَعَبَّاسٌ یَنْقُلاَنِ الحِجَارَةَ، فَقَالَ العَبَّاسُ لِلنَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: اجْعَلْ إِزَارَكَ عَلَى رَقَبَتِكَ، فَخَرَّ إِلَى الأَرْضِ، وَطَمَحَتْ عَیْنَاهُ إِلَى السَّمَاءِ، فَقَالَ: أَرِنِی إِزَارِی فَشَدَّهُ عَلَیْهِ

جابربن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ(زمانہ جاہلیت میں )جب کعبہ کی تعمیرہوئی تونبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اورعباس رضی اللہ عنہ بھی پتھراٹھاکرلارہے تھے(پتھراٹھاتے اٹھاتے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا کندھامبارک بھی پتھروں کی رگڑسے چھل گیاتھا)یہ دیکھ کر عباس رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا اپنا تہبنداتارکرکاندھے پرڈال لو( تاکہ پتھراٹھانے میں سہولت ہو) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایساکیامگر آپ کی چادرکھلنے کی دیرتھی کہ آپ بیہوش ہوکرگرزمین پرگرپڑے اورآنکھیں آسمان کی طرف لگ گئیں ( چچا عباس رضی اللہ عنہ نے فوراآپ کی سترپوشی کی ، جب آپ ہوش میں آئے تو)آپ کہنے لگے مجھے میراتہبنددے دو،پھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے مضبوط باندھ لیا۔[12] قریش نے تعمیری فنڈ کے لئے حلال مال کی کڑی شرط عائدکی تھی،

فَلَمَّا جَمَعُوا مَا أَخْرَجُوا مِنَ النَّفَقَةِ قَلَّتِ النَّفَقَةُ عَنْ أَنْ تَبْلُغَ لَهُمْ عِمَارَةَ الْبَیْتِ كُلِّهِ، فَتَشَاوَرُوا فِی ذَلِكَ، فَأَجْمَعَ رَأْیُهُمْ عَلَى أَنْ یَقْصُرُوا عَنِ الْقَوَاعِدِ، وَیَحْجُرُوا مَا یَقْدِرُونَ عَلَیْهِ مِنْ بِنَاءِ الْبَیْتِ، وَیَتْرُكُوا بَقِیَّتَهُ فِی الْحِجْرِ، عَلَیْهِ جِدَارٌ مُدَارٍ یَطُوفُ النَّاسُ مِنْ وَرَائِهِ، فَفَعَلُوا ذَلِكَ

چنانچہ جمع شدہ فنڈتعمیری ضروریات کے لئے ناکافی ثابت ہوا چنانچہ قریش نے تعمیری خدوخال اپنی صوابدیدکے مطابق وضع کیےانہیں آثارابراہیمی کابقامقصودتھااورنہ ہی اس معاملہ میں مشیت ایزدی کے طلب گار تھے اس لئے سرداروں کی کابینہ نے فعل الحال کچھ حصہ چھوڑ کردیواریں کھڑی کرنے اور چھوڑے ہوئے حصہ کوبعدمیں شامل کرنے کا فیصلہ کیامگروہ ایسانہ کرسکے اورجوجگہ چھوڑی تھی نشان دہی کے لئے اس کے گردچھوٹی سی خمدار دیوار بنادی، اس حصہ کانام حطیم یا حجراسماعیل ہے۔[13]

اس طرح کعبہ مستطیل شکل کے بجائے تقریباًمربع شکل کابن گیا، باقوم نے کعبہ کی تعمیرمیں اپنے فن کاخوب مظاہرہ دکھایا جب دیواریں چھت تک بلندہوگئیں تواس نے دریافت کیاکہ چھت قبہ نما بنائی جائے یاہموار؟قریش نے کہااللہ کے گھرکی چھت ہموار بنائے ۔[14]باقوم نے ان حاصل شدہ تختوں سے بیت اللہ کے اوپرمضبوط اورعمدہ لکڑی کی چھت بنا دی جس کو سہارا دینے کے لئے دو قطاروں میں چھ ستون کھڑے کئے ، اوپر چھت پرچڑھنے کے لئے رکن عراقی کی جانب لکڑی کازینہ اورچھت سے برساتی پانی گرنے کے لئے لکڑی کاپرنالہ بھی بنایاجس کاپانی حطیم میں گرنے لگا ۔

تنصیب حجراسود

تمام قبائل بیت اللہ کی تعمیرکے مقدس کام کوپوری یک جہتی ،بحسن خوبی اورتیزرفتاری سے سرانجام دیتے رہے ،اس طرح بیت اللہ کی عمارت سب قبائل کے اشتراک سے بہت جلد کھڑی ہوگئی مگرجب حجراسودکی تنصیب کاوقت آیاتوقریش شدیداختلاف کاشکارہوگئے اوربڑاتنازع کھڑاہوگیاکہ حجراسودکو اپنی جگہ کون نصب کرے گاسب قبائل اس شرف وعزاز کواپنے طورپرحاصل کرناچاہتے تھے اورتمام قبائل جو ریوڑکوپانی پلانے ،گھوڑوں کے دوڑانے اوراس طرح کی معمولی باتوں پربرسوں پر محیط جنگ شروع کر دیتے تھے اپنے ارادے سے ہٹنے کوبالکل تیارنہ تھے ،یہ نزاع اس قدربڑھاکہ جنگ کی شکل اختیارکرگیاہرقبیلے نے تلواریں سونت لیں اورکٹ مرنے کو تیار ہوگئے، عرب میں یہ دستورتھاکہ جب کوئی شخص جان دینے کی قسم کھاتاتوکسی برتن میں خون بھرکراس میں انگلیاں ڈبولیتاتھا،

فَقَرَّبَتْ بَنُو عَبْدِ الدَّارِ جَفْنَةً مَمْلُوءَةً دَمًا، ثُمَّ تَعَاقَدُوا هُمْ وَبَنُو عَدِیٍّ عَلَى الْمَوْتِ، وَأَدْخَلُوا أَیْدِیَهُمْ فِی ذَلِكَ الدَّمِ فِی تِلْكَ الْجَفْنَةِ، فَسُمُّوا: لَعَقَةَ الدَّمِ، فَمَكَثَتْ قُرَیْشٌ عَلَى ذَلِكَ أَرْبَعَ لَیَالٍ أَوْ خَمْسًاثُمَّ إِنَّهُمُ اجْتَمَعُوا فِی الْمَسْجِدِ، فَتَشَاوَرُوا وَتَنَاصَفُوا فآخر الْأَمر إِن أَبَا أُمیَّة بن الْمُغیرَة بن عبد الله بن عمرَان بن مَخْزُوم كَانَ عامئذ أسن قُرَیْش كلهم، فَقَالَ: یَا معشر قُرَیْش إجعلوا بَیْنكُم فِیمَا تختلفون فِیهِ أول من یدْخل من بَاب هَذَا الْمَسْجِد یقْضِی بَیْنكُم فِیهِ ،فَكَانَ أَوَّلَ دَاخِلٍ دَخَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَلَمَّا رَأَوْهُ قَالُوا: هَذَا الْأَمِینُ رَضِینَا، هَذَا مُحَمَّدٌ.

اس موقعہ پربنی عبدالداراوربنی عدی نے برتن میں خون بھرکر اس میں ہاتھ ڈبوکرحلف اٹھایا کہ ہم سب جان تودے سکتے ہیں مگرحجراسودکسی دوسرے کونصب نہیں کرنے دیں گے ،یہ امکانی ہولناک جنگ کابننے والاتنازع چارپانچ دن تک حل طلب رہامگرکوئی تصفیہ نہ ہوسکا،آخرحالات کی سنگینی اورموقع کی نزاکت کے پیش نظراس گھتی کوسلجھانے کے لئے قریش حرم میں جمع ہوئے،اور قریش کے ایک معمر اور سن رسیدہ شخص ابوامیہ بن مغیرہ مخزومی نے قبائل کے سامنے ایک تجویز پیش کی کہ اس مسئلہ پرکسی کوحکم بنادیں وہ جیسافیصلہ کرے اس پرسب کاربند ہوجائیں ،مشورہ معقول تھا جو تسلیم کرلیاگیا اب مسئلہ یہ پیداہواکہ اتنے بڑے اوراہم کام کے لئے حکم کسے بنایاجائے ،جب ان کی سمجھ میں کچھ نہ آیاتویہ فیصلہ طے پایاکہ جوکوئی شخص صبح سب سے پہلے داخل ہو اسے حکم تسلیم کرلیا جائے ،اس تجویزکواتفاق رائے سے پذیرائی بخشی گئی چنانچہ دوسرے روزمعززین قریش موقع پرجمع ہوگئے،اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم روزانہ ہی صبح صبح بیت اللہ میں تشریف لے آتے تھے ،اللہ نے ان سے ہی یہ اہم کام لیناتھاچنانچہ اس دن بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم پہلے بیت اللہ میں داخل ہوئے،قریش مکہ کوآپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں خوب علم تھاکہ آپ کی طبیعت میں کسی قسم کے طمع ولالچ ،جذبہ حب وجاہ اورشہرت طلبی موجودنہیں ،آپ لہوولعب اورتضییع اوقات سے دوررہتے ہیں ،جھوٹ وفریب،عیاری ومکاری ، بدعہدی اوراسی قبیل کے کسی بھی کام کوپسندنہیں کرتے، اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کودیکھ کرلوگوں کے چہرے مسرت وانبساط سے پھول کی طرح کھل اٹھے اورتمام قبائل یکساں طورپرباآوازبلندپکاراٹھےبے شک یہ امین ہیں ، ہم اس کے فیصلے پررضامندہیں ،یہ محمد ہیں ۔[15]

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاعادلانہ فیصلہ :

آپ کی شان رحمت للعالمین یہ کب گواراکرسکتی تھی کہ وہ اس شرف سے تنہابہرہ اندوزہوں ، اللہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کوبڑی معاملہ فہمی اورزیرکی عطافرمائی تھی آپ نے بے مثال دانشوری اورحسن تدبرسے ایساطرزعمل اختیارفرمایاجس سے تمام قبائل کی دلی آرزوبھی پوری ہوگئی اورقتل وقتال اورخوں ریزی کا عذاب بھی ٹل گیا،

فَأَمَرَ بِالرُّكْنِ فَوُضِعَ فِی ثَوْبٍ، ثُمَّ أَمَرَ سَیِّدَ كُلِّ قَبِیلَةٍ فَأَعْطَاهُ نَاحِیَةَ الثَّوْبِ، ثُمَّ ارْتَقَى وَأَمَرَهُمْ أَنْ یَرْفَعُوهُ إِلَیْهِ، فَرَفَعُوهُ إِلَیْهِ، وَكَانَ هُوَ الَّذِی وَضَعَهُ فَطَلَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالُوا: هَذَا الْأَمِینُ، قَدْ رَضِینَا بِهِ

آپ( صلی اللہ علیہ وسلم ) نے تمام دعویٰ دار قبائل کاایک ایک سردارمنتخب کیا پھر آپ نے زمین پراپنی چادرپھیلادی اوراپنے دست مبارک سے حجراسودکواٹھا کراس پررکھ دیا،پھرقبائل کے ان منتخب سرداروں سے فرمایا کہ وہ سب اس چادرکو پکڑکراٹھائیں اوردیوارپر لگانے کی مطلوبہ جگہ پرلے آئیں اس بات کوسب نے پسندکیااورسب نے مل کر چادر اٹھائی اوردیوارکی طرف چل پڑے جب حجراسوداپنی مطلوبہ جگہ پرپہنچ گیاتورسول  اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے مبارک ہاتھوں سے اسے اٹھاکراسکی جگہ پرنصب فرمادیااس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی فہم وفراست اورحسن تدبیر سے ہونے والی ایک خونخوارجنگ کاخاتمہ کردیا،آپ کی عظمت وجلالت کاسکہ بھی تمام قبائل کے دلوں پربیٹھ گیااورآپ نے نبی مقررہونے سے پانچ سال پہلے ہی قریش ودیگرقبائل سے سیادت کی شہادت حاصل کرلی، اوروہ لوگ آپ کو الامین کے مبارک لقب سے پکارنے لگےہم اسی پر راضی ہیں ۔[16]

وَكَانُوا قَدْ أَخْرَجُوا مَا كَانَ فِی الْبَیْتِ مِنْ حِلْیَةٍ وَمَالٍ وَقَرْنَیِ الْكَبْشِ، وَجَعَلُوهُ عِنْدَ أَبِی طَلْحَةَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ الْعُزَّى بْنِ عُثْمَانَ بْنِ عَبْدِ الدَّارِ بْنِ قُصَیٍّ، وَأَخْرَجُوا هُبَلَ، وَكَانَ عَلَى الْجُبِّ الَّذِی فِیهِ نَصَبَهُ عَمْرُو بْنُ لُحَیٍّ هُنَالِكَ، وَنَصَبَ عِنْدَ الْمَقَامِ، حَتَّى فَرَغُوا مِنْ بِنَاءِ الْبَیْتِ، فَرَدُّوا ذَلِكَ الْمَالَ فِی الْجُبِّ،

قریش نے تعمیرکے وقت کعبہ میں معلق زیورات،قیمتی سامان ، اسماعیل علیہ السلام کے دنبہ کے سینگ جومغربی دیوارمیں آویزاں تھے اورجن پرلوگ خوشبولگایاکرتے تھے اورکعبہ کا خزانہ یہ تمام اشیاء ابی طلحہ بن عبدالعزیٰ بن عثمان بن عبدالداربن قصیٰ کے گھرپرمحفوظ کردی تھیں ،ہبل کابت جوخزانہ کعبہ کے کنوئیں پرنصب تھااسے نکال کرمقام ابراہیم کے قریب نصب کیا،تعمیرسے فارغ ہوکریہ تمام چیزیں اپنی اپنی جگہ لوٹادی گئیں ۔[17]

جب قریش تعمیرکعبہ سے فارغ ہوگئےتوزبیربن عبدالمطلب نے یہ اشعارکہے جس میں انہوں نے اس بڑے سانپ کابھی ذکرکیاجس سے قریش ڈرتے تھے۔

عَجِبْتُ لِمَا تَصَوَّبَتْ الْعُقَابُ،إلَى الثُّعْبَانِ وَهِیَ لَهَا اضْطِرَابُ

جب عقاب سانپ کی طرف اترآیاتومجھے اس سے تعجب ہواکیونکہ عقاب توسانپ سے ڈرتاہے

وَقَدْ كَانَتْ یَكُونُ لَهَا كَشِیشٌ،وَأَحْیَانًا یَكُونُ لَهَا وِثَابُ

اوراس سانپ کی کھال سے کبھی توایک خاص قسم کی آوازنکلاکرتی تھی اورکبھی وہ حملہ ہی کردیاکرتاتھا

إذَا قُمْنَا إلَى التَّأْسِیسِ شَدَّتْ ، تُهَیِّبُنَا الْبِنَاءَ وَقَدْ تُهَابُ

جب کعبے کی تعمیرنوکے لیے ہم اٹھتے توسانپ ہمیں ڈرانے کے لیے اس عمارت پرسے حملہ کرتااورخودبھی ڈرتاتھا

فَلَمَّا أَنَّ خَشِینَا الرِّجْزَ جَاءَتْ،عُقَابٌ تَتْلَئِبُّ لَهَا انْصِبَابُ

جب ہم اس کی طرف سے تکلیف ونقصان سے ڈرگئے توایک عقاب آیاجوخاص اسی مقصدکے لیے نازل ہواتھا

فَضَمَّتْهَا إلَیْهَا ثُمَّ خَلَّتْ،لَنَا الْبُنْیَانَ لَیْسَ لَهُ حِجَابُ

اس (عقاب)نے اسے اپنی طرف کھینچ لیاپھراس سے ہمارے لیے کعبے کی عمارت خالی ہوگئی اوراب کوئی رکاوٹ باقی نہ رہی

فَقُمْنَا حَاشِدِینَ إلَى بِنَاءٍ ، لَنَا مِنْهُ الْقَوَاعِدُ وَالتُّرَابُ

ہم سب کے متفقہ طورپرجلدتعمیرکے لیے اٹھ کھڑے ہوئے اس کی بنیادوں اورمٹی کاکام ہمارے ہی ذمے تھا

غَدَاةَ نَرْفَعُ التَّأْسِیسَ مِنْهُ ، وَلَیْسَ عَلَى مُسَوِّینَا ثِیَابُ

اس دن جبکہ ہم کعبے کی بنیاداونچی کررہے تھے اورہم میں سے کام کرنے والوں کے جسم پرکپڑے بھی نہ تھے

أَعَزَّ بِهِ الْمَلِیكُ بَنِی لُؤَیٍّ ، فَلَیْسَ لِأَصْلِهِ مِنْهُمْ ذَهَابُ

اللہ تعالیٰ نے اس (مقدس کام)کی وجہ سے بنی لوی کواعزازبخشاکہ یہ اعزازکبھی ختم نہیں ہوسکتا

وَقَدْ حَشَدَتْ هُنَاكَ بَنُو عَدِیٍّ ، وَمُرَّةُ قَدْ تَقَدَّمَهَا كِلَابُ

اس جگہ بنی عدی بھی جمع تھے جوکام میں سرگرم عمل تھے اوربنی مرہ بھی لیکن کلاب توسب سے پیش پیش تھے

فَبَوَّأَنَا الْمَلِیكُ بِذَاكَ عِزًّا، وَعِنْدَ اللَّهِ یُلْتَمَسُ الثَّوَابُ

اس مقدس کام کی وجہ سے اللہ بادشاہ نے ہمیں عزت سے سرفرازفرمایااوراجروثواب بھی اللہ تعالیٰ ہی سے طلب کیاجاتاہے۔[18]

تعمیرقریش کی خاص باتیں

x ابراہیم علیہ السلام کی تعمیرمیں دیواریں نوذراع (۱۳فٹ چھ انچ یعنی چارمیڑ ۱۱سنٹی میٹر)اونچی تھیں مگرقریش نے مزیدنوذراع کااضافہ کردیاجس سے کل بلندی ۱۸ ذراع (۳۷ فٹ یعنی نومیٹر ۲۸ سنٹی میٹر ہوگئیں ۔

x ابراہیم علیہ السلام نے بیت اللہ کومستطیل شکل میں تعمیرکیاتھا قریش نے حطیم کاحصہ چھ ذراع اورایک بالشت چھوڑکرتقریباًمربع شکل کاتعمیرکیا۔

x ابراہیم علیہ السلام نے بغیرتراشیدہ پتھروں سے بیت اللہ کی تعمیرفرمائی تھی مگرقریش نے سب سے پہلے تراشیدہ اوربنائے ہوئے پتھروں سے بیت اللہ کی تعمیرکی۔

x ابراہیم علیہ السلام نے دروازہ زمین کے برابررکھاتھامگرقریش نے اپنی بڑائی ،تکبراورنخوت کی وجہ اسے قد آدم اونچاکردیاتاکہ قریش کی مرضی ومنشااوراجازت کے بغیرکوئی شخص بیت اللہ کے اندرداخل نہ ہو سکے۔[19]

x ابراہیم علیہ السلام نے بیت اللہ میں کوئی دروازہ نہیں لگایاتھامگرقریش نے بیت اللہ کامضبوط دروازہ بنواکرتالہ چابی کاانتظام کیا۔

x ابراہیم علیہ السلام کی تعمیرمیں چاروں کونوں میں رکن تھے جن کااستلام کیاجاتاتھالیکن قریش نے دورکن کم کردیئے جس کے باعث صرف حجراسوداوررکن یمانی کااستلام باقی رہ گیا۔

xتعمیرابراہیمی میں چھت نہیں تھی مگرقریش نے لکڑی کی مضبوط اورعمدہ چھت بنواڈالی۔

xجب ابراہیم علیہ السلام نے چھت ہی نہیں بنائی تھی توپرنالہ کاکیاسوال پیداہوتاہے لیکن جب قریش نے چھت بنائی توچھت کے پانی کی نکاسی کے لئے لکڑی کا پرنالہ بھی بنایاجس سے چھت کاپانی حطیم میں گرنے لگابعد میں مختلف سلاطین نے اسے متعددبارسونے ،چاندی یاچاندی پرسونے کاملمع کرکے تبدیل کیا۔

x ابراہیم علیہ السلام نے بیت اللہ کوبغیرچھت کے بنایاتھا اس لئے چھت کوسہارادینے کے لئے ستون بھی نہیں تھے مگرقریش نے چھت بنائی اوراس کوسہارادینے کے لئے تین تین ستونوں کی دوقطاروں میں چھ ستون بنائے۔

x چھت پرچڑھنے کے لئے بیت اللہ کے اندررکن عراقی کی جانب لکڑی کازینہ بھی بنایا۔

x ابراہیم علیہ السلام نے دیواروں کی چنائی پتھروں سے کی تھیں مگرقریش نے دیواروں کی چنائی پتھراورلکڑی کی مشترکہ ردوں سے کی یعنی ایک ردہ پتھرکااورایک ردہ لکڑی کابنایا،اس طرح ردوں کی مجموعی تعداداکتیس تھی جس میں سولہ ردے پتھرکے اورپندرہ ردے لکڑی کے تھے ۔

xقریش نے ایک انتہائی قبیح جدت یہ بھی کی کہ کعبہ کے اندرونی دیواروں پر،چھت کے اندراورستونوں پرملائکہ عظام کی تصویریں اورخوبصورتی کے لئے بیل بوٹے بنائے۔ ابراہیم علیہ السلام کابت بناکراس کے ہاتھ میں تیرتھمادیئے،ان کے علاوہ عیسیٰ علیہ السلام اوران کی والدہ مریم کے بت بھی بنائے ،جن سے کعبہ کی تطہیررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے دن فرمائی تھی۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاقریش کی تعمیرپراظہارناپسندیدگی

قریش کی تعمیرکے وقت اگرچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی فہم وفراست میں کافی شہرت کے مالک تھے مگرقریش نے دارلندوہ میں جمع ہوکر تعمیری منصوبہ قبائلی سرداروں کی کابینہ میں منظور کیا تھا جس سے روگردانی اورانحراف ناممکنات میں سے تھا،وہ نہ توکسی کی تنقیدگوارہ کرتے تھے اورنہ ہی ان کے منظورشدہ پروگرام میں تبدیلی کی جرات کرسکتاتھا،قریش نے بیت اللہ کے تعمیری خدوخال(بلندی،چھت،دروازے وغیرہ) اپنی صوابدید کے مطابق وضع کئے تھے ، چنانچہ اس واقعہ کے پانچ سال بعد جب رسول اکرم محمد صلی اللہ علیہ وسلم خلعت نبوت سے نوازے گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حساس دل میں ابراہیمی بنیادوں میں تبدیلی اورقریش کی من چاہی جدت کانٹے کی طرح کھٹکنے لگی،جس کا اظہار وہ گاہے گاہے اپنی چہیتی بیوی ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے فرمایاکرتے۔

عَنْ عَائِشَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: قَالَ لِی رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: لَوْلاَ أَنَّ قَوْمَكِ حَدِیثُ عَهْدٍ بِجَاهِلِیَّةٍ لَأَمَرْتُ بِالْبَیْتِ، فَهُدِمَ، فَأَدْخَلْتُ فِیهِ مَا أُخْرِجَ مِنْهُ، وَأَلْزَقْتُهُ بِالأَرْضِ، وَجَعَلْتُ لَهُ بَابَیْنِ، بَابًا شَرْقِیًّا، وَبَابًا غَرْبِیًّا، فَبَلَغْتُ بِهِ أَسَاسَ إِبْرَاهِیمَ،لَأَنْفَقْتُ كَنْزَ الْكَعْبَةِ فِی سَبِیلِ اللهِ

ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے رسول االلہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سےارشادفرمایااگرتیری قوم کازمانہ جاہلیت قریب نہ ہوتاتومیں بیت اللہ کوگرانے کاحکم دے دیتاتاکہ (نئی تعمیرمیں ) اس حصہ کوبھی بیت  اللّٰہ میں داخل کردوں جواس سے باہررہ گیاہےاوراس کی کرسی زمین کے برابرکردوں اور اس کے دو دروازے بنادوں ایک مشرق میں اور ایک مغرب میں اورکعبہ کاخزانہ اللہ کی راہ میں خرچ کردیتا۔[20]

عَنْ عَائِشَةَ زَوْجِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:أَلَمْ تَرَیْ أَنَّ قَوْمَكِ حِینَ بَنَوْا الْكَعْبَةَ اقْتَصَرُوا عَنْ قَوَاعِدِ إِبْرَاهِیمَ، قَالَتْ: فَقُلْتُ: یَا رَسُولَ اللهِ، أَفَلَا تَرُدُّهَا عَلَى قَوَاعِدِ إِبْرَاهِیمَ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:لَوْلَا حِدْثَانُ قَوْمِكِ بِالْكُفْرِ لَفَعَلْتُ

ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تو دیکھتی نہیں کہ جب تیری قوم نے بیت اللہ تعمیر کیا تواسے قواعد ابراہیمی سے گھٹادیا، میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم آپ اسے ابراہیم علیہ السلام کی بنیادوں پرکیوں نہیں پھیردیتے؟رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اگر تیری قوم کاایمان تازہ اورزمانہ کفرقریب نہ ہوتاتومیں ایسا کر گزرتا۔[21]

لیکن نامساعدحالات ،مذہبی،ملکی ، سیاسی اور اقتصادی امورکی طرف توجہ آپ کی اس خواہش کی تکمیل میں حائل رہی اور ابراہیمی بنیادوں کی تبدیلی کادرددل میں لئے بیت اللہ کو اپنی ہئیت کذابہ پرچھوڑکردنیاسے تشریف لے گئے بعد میں زبیر رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خواہش کو پورا کر دیاتھا ۔[22]

[1] اعلام الاعلام ۴۲

[2] تاریخ القویم ۱۲۹؍۳

[3] تاریخ طبری ۲۸۶؍۲، الکامل فی التاریخ ۶۴۴؍۱

[4]  فتح الباری ۴۴۱؍۳،عمدة القاری ۲۱۷؍۹

[5] عمدة القاری ۲۱۷؍۹

[6] سیرة ابن اسحاق ۱۰۴؍۱،ابن ہشام ۱۹۴؍۱،الروض الانف ۱۷۰؍۲،أعلام النبوة للماوردی ۲۱۳؍۱

[7] عمدةالقاری ۲۱۷؍۹،اخبارمکہ ۱۶۲

[8] ابن ہشام۱۹۵؍۱،الروض الانف۱۷۱؍۲،سبل الهدى والرشاد، فی سیرة خیر العباد۱۷۰؍۲،تاریخ الخمیس فی أحوال أنفس النفیس۱۱۴؍۱

[9] ابن ہشام ۱۹۶؍۱

[10] اخبارمکة ۱۵۸

[11] اخبارمکة ۱۵۷

[12] صحیح بخاری کتاب الحج بَابُ فَضْلِ مَكَّةَ وَبُنْیَانِهَا۱۵۸۲

[13] اخبارمکہ بناء قریش ۱۶۳

[14] تاریخ القویم ۴۰۱؍۳

[15] ابن ہشام ۱۹۷؍۱، الروض الانف۱۸۳؍۲،عیون الاثر۶۶؍۱،تاریخ طبری۲۹۰؍۲

[16] فتح الباری ۱۴۶؍۷، اخبار مکة ۱۵۷

[17] اخبارمکہ ۱۶۶

[18] ابن ہشام۱۹۸؍۱

[19] صحیح بخاری کتاب الحج بَابُ فَضْلِ مَكَّةَ وَبُنْیَانِهَا۱۵۸۴ ،صحیح مسلم کتاب الحج بَابُ جَدْرِ الْكَعْبَةِ وَبَابِهَا۳۲۴۹،سنن ابن ماجہ کتاب المناسک بَابُ فَضْلِ الطَّوَافِ۲۹۵۶

[20] صحیح بخاری کتاب الحج بَابُ فَضْلِ مَكَّةَ وَبُنْیَانِهَا ۱۵۸۵،صحیح مسلم کتاب الحج باب نقض الکعبة وبنائھا ۳۲۴۳، ۳۲۴۴

[21] صحیح مسلم کتاب الحج بَابُ نَقْضِ الْكَعْبَةِ وَبِنَائِهَا۳۲۴۲،۳۲۴۵

[22]صحیح مسلم کتاب الحج بَابُ نَقْضِ الْكَعْبَةِ وَبِنَائِهَا۳۲۴۵

Related Articles