مکہ: قبل از بعثتِ نبوی ﷺ

عام الفیل( ۳۰ اگست ۵۷۰ ء یا ۵۷۱ ء)

ابرہہ کامکہ مکرمہ پرحملہ :

یمن کے ایک متعصب یہودی بادشاہ ذونواس نے نجران کے عیسائیوں پرحملہ کیااورلوگوں کومجبورکیاکہ وہ اپناعیسائی مذہب ترک کرکے یہودی بن جائیں ، مگر عیسائی اپنادین تبدیل کرنے پر راضی نہ ہوئے جس پراس نے ان کاقتل عام کیااورایک کثیرتعدادکو بھڑکتی آگ میں زندہ جھونک دیاجس سے عیسائیوں میں ذونواس یہودی کے خلاف جذبہ انتقام ابل پڑا،اپنے ہم مذہبوں کی دردناک موت کابدلہ لینے کے لئے رومی عیسائیوں نے حبشیوں کویمن پرحملہ کرنے کے لئے اکسایااور مدد کے لئے بحری بیڑہ بھی مہیا کیا ، حبشیوں نے اپنے امیراریاط کی سربراہی میں سترہزارلشکرکے ساتھ یمن پر حملہ کردیااورذونواس کوشکست دے کر حکومت پرقبضہ کرلیا ،امیر اریاط شاہ حبش نجاشی کے گورنرکی حیثیت سے چندماہ حکمرانی کرتارہامگر اس کے ایک ماتحت کمانڈر ابرہہ نے موقعہ پاکراسے قتل کردیااورشاہ حبش نجاشی کوراضی کرکے اقتدار پر اس کانائب مقرر ہو گیا ، مگریونانی اور سریانی مورخین کابیان ہے کہ فتح یمن کے بعدجب حبشیوں نے مزاحمت کرنے والے یمنی سرداروں کاچن چن کرقتل کرناشروع کردیا تو ان میں سے ایک سردار السمیفع اشوع( جسے یونانی مورخین Esympheeus لکھتے ہیں ) نے حبشیوں کی اطاعت قبول کرکے اورجزیہ اداکرنے کاعہدکرکے شاہ حبش سے یمن کی گورنری کاپروانہ حاصل کرلیالیکن حبشی فوج نے اس کے خلاف بغاوت کردی اورابرہہ کواس کی جگہ گورنربنادیایہ شخص حبش کی بندرگاہ ادولیس کے ایک یونانی تاجرکاغلام تھاجواپنی ہوشیاری وچالاکی سے یمن پرقبضہ کرنے والی حبشی فوج میں بڑااثرورسوخ حاصل کرگیاتھا،شاہ حبش نے اس کی سرکوبی کے لئے جوفوجیں بھیجیں وہ یاتواس سے مل گئیں یااس نے ان کو شکست دے دی ،آخرکارشاہ حبش کے مرنے کے بعداس کے جانشین نے اس کویمن پراپنانائب السلطنت تسلیم کرلیا،رفتہ رفتہ یہ شخص یمن کا خود مختار بادشاہ بن گیا مگر برائے نام شاہ حبش کی بالادستی تسلیم کررکھی تھی،اور اپنے آپ کومفوض الملک(نائب بادشاہ)لکھتاتھااس نے جواثرورسوخ حاصل کرلیاتھا، ابرہہ جو ایک نہایت متعصب عیسائی شخصٍ تھااس نے حکومت حاصل کرتے ہی سب سے پہلے قتل عام کرکے یمن سے یہودیت کابیخ وبن سے خاتمہ کرڈالا،اپنااقتدارمضبوط کرلینے کے بعد ابرہہ نے اس مقصد کے لئے کام شروع کردیاجواس مہم کی ابتداء سے رومی سلطنت اوراس کے حلیف حبشی عیسائیوں کے پیش نظرتھا،یعنی ایک طرف عرب میں عیسائیت کوفروغ دینااوردوسری طرف اس تجارت پرقبضہ کرناجوبلادمشرق اوررومی مقبوضات کے درمیان عربوں کے زریعہ ہوتی تھی ،یہ ضرورت اس بناپراوربڑھ گئی تھی کہ ایران کی ساسانی سلطنت کے ساتھ روم کی کشمکش اقتدارنے بلادمشرق سے رومی تجارت کے دوسرے تمام راستے بندکردیئے تھے،چنانچہ اس نے اہل عرب کی اس تجارتی پٹی پرقبضہ کرنے کے لئے ایک منصوبہ تیار کیا کیونکہ عرب کعبہ کواپنے باپ ابراہیم علیہ السلام کی تعمیر اوراپنا دینی ودنیاوی مرکزسمجھتے تھے جس کی وجہ سے خانہ کعبہ کی محبت عربوں میں گھلی ہوئی تھی ان کواس سے ہٹانے کی ایک ہی تدبیر ممکن تھی کہ جس بیت  اللّٰہ کی وجہ سے مکہ ایک تجارتی منڈی بناہواہے اسے ہی بنیادسے اکھیڑکرپھینک دیاجائے ، اورپھرعبادت کے لئے یمن میں ایک شاندار گرجاتیارکرکے لوگوں کارخ اس طرف پھیردیاجائے چنانچہ اس فاسدمقصدکی تکمیل کے لئے ابر ہہ نے کعبہ کوڈھانے کی منصوبہ بندی کی،

فَشَرَعَ فِی بِنَاءِ كَنِیسَةٍ هَائِلَةٍ بِصَنْعَاءَ، رَفِیعَةَ الْبِنَاءِ، عَالِیَةَ الْفِنَاءِ، مُزَخْرَفَةَ الْأَرْجَاءِ. سَمَّتْهَا الْعَرَبُ القُلَّیس؛ لِارْتِفَاعِهَا؛ لِأَنَّ النَّاظِرَ إِلَیْهَا تَكَادُ تَسْقُطُ قُلُنْسُوَتُهُ عَنْ رَأْسِهِ مِنَ ارْتِفَاعِ بِنَائِهَا

اس نے سب سے پہلے یمن میں بڑے اہتمام اورکروفرسے بہت اونچا،بہت مضبوط،بے حدخوبصورت اورمنقش ومزین کعبہ کی طرح کا چوکور گرجابنایاجواس قدربلندتھاکہ چوٹی تک نظرڈالنے والے کی ٹوپی گرپڑتی تھی ،اسی لئے عرب اسے قلیس کہتے تھے یعنی ٹوپی پھینک دینے والااوراس کانام کعبہ رکھا ۔

فَبَنَى لَهُمْ بَیْتًا عَمِلَهُ بِالرُّخَامِ الأَبْیَضِ وَالأَحْمَرِ وَالأَصْفَرِ وَالأَسْوَدِ وَحَلاهُ بِالذَّهَبِ وَالْفِضَّةِ. وَحَفَّهُ بِالْجَوْهَرِ. وَجَعَلَ لَهُ أَبْوَابًا عَلَیْهَا صَفَائِحُ الذَّهَبِ. وَمَسَامِیرُ الذَّهَبِ. وَفَصَلَ بَیْنَهَا بِالْجَوْهَرِ. وَجَعَلَ فِیهَا یَاقُوتَةً حَمْرَاءَ عَظِیمَةً وَجَعَلَ لَهُ حِجَابًا. وَكَانَ یُوقِدُ فِیهِ بِالْمَنْدَلِیِّ. وَیُلَطِّخُ جَدْرَهُ بِالْمِسْكِ فَیَسْوَدُّ حَتَّى یَغِیبَ الْجَوْهَرُوَأَمَرَ النَّاسَ فَحَجُّوهُ. فَحَجَّهُ كَثِیرٌ مِنْ قَبَائِلِ الْعَرَبِ سِنِینَ. وَمَكَثَ فِیهِ رِجَالٌ یَتَعَبَّدُونَ وَیَتَأَلَّهُونَ وَنَسَكُوا لَهُ.

ابن سعدمیں ہےابرہہ نے اہل یمن کے لیے سفیدوسرخ اورزردوسیاہ پتھروں کاایک گھربنایاجوسونے چاندی سے مجلیٰ اورجوہرسے مزین تھا،اس میں کئی دروازے تھے جن میں سونے کے پتراورزرین کل کیلیں لگی ہوئی تھیں اوربیچ بیچ میں جواہرتھے اس مکان میں ایک بڑاسالال یاقوت لگاہواتھا،پردے پڑے ہوئے تھے،عودمندلی (یعنی مقام سندل کاجوخوشبویات کے لیے مشہورتھا)وہاں لوبان ،اگر،عودسلگاتے رہتے تھے ،دیواروں پراس قدر مشک ملاجاتاتھاکہ سیاہ ہوجاتیں حتی کہ جواہربھی نظرنہ آتے، لوگوں کواس کان کے حج کرنے کاابراہہ نے حکم دیااکثرقبائل عرب کئی سال تک اس کاحج کرتے رہے ،عبادت اوراللہ کی عبادت اورزیدوپاک دامنی کے لیے بہت سے لوگ اس میں اعتکاف بھی کرتے تھے اورحج کے ارکان یہیں اداہوتے تھے۔[1]

وَأَرْسَلَ أَبَرْهَةُ یَقُولُ لِلنَّجَاشِیِّ: إِنِّی سَأَبْنِی لَكَ كَنِیسَةً بِأَرْضِ الْیَمَنِ لَمْ یُبْنَ قَبْلَهَا مِثْلُهَا

گرجاکی تعمیرسے فارغ ہوکرابراہہ نے شاہ حبش نجاشی کو نامہ لکھاکہ میں نے یمن میں آپ کے لئے ایک ایساگرجاتعمیرکرایاہے جس کی نظیر چشم فلک نے کبھی نہ دیکھی ہوگی ۔

میں نے فیصلہ کیاہے کہ عربوں کے حج کارخ بھی اسی طرف پھیر دوں ،

وَنَادَى بِذَلِكَ فِی مَمْلَكَتِهِ

ابن کثیرنے لکھاہےیمن میں اس نے علی الاعلان اپنے اس ارادے کا اظہارکیااوراس کی منادی کرادی۔[2]

وَكَانَ نُفَیْلٌ الْخَثْعَمِیُّ یُوَرِّضُ لَهُ مَا یَكْرَهُ.فَأُمْهِلَ. فَلَمَّا كَانَ لَیْلَةٌ مِنَ اللَّیَالِی لَمْ یَرَ أَحَدًا یَتَحَرَّكُ فَقَامَ فَجَاءَ بِعُذْرَةٍ فَلَطَّخَ بِهَا قِبْلَتَهُ وَجَمَعَ جِیَفًا فَأَلْقَاهَا فِیهِ فَأُخْبِرَ أَبْرَهَةُ بِذَلِكَ فَغَضِبَ غَضَبًا شَدِیدًا وَقَالَ: إِنَّمَا فَعَلَتْ هَذَا الْعَرَبُ غَضَبًا لِبَیْتِهِمْ. لأَنْقُضَنَّهُ حَجَرًا حَجَرًا!

نفیل الخشمعی نے نیت کررکھی تھی کہ اس عبادت خانے کے متعلق کوئی ناپسندیدہ حرکت کرے گااس میں ایک زمانہ گزرگیاآخرایک رات میں جب اس نے کسی کوحرکت کرتے نہ دیکھاتواٹھ کرنجاست اورغلاظت اٹھالایاصومعہ کے قبیلہ کواس سے آلودہ کردیااوربہت سی گندگی جمع کرکے اس میں ڈال دی،ابرہہ کواس کی خبرہوئی توسخت غضب ناک ہوااورکہنے لگاعرب نے فقط اپنے گھر(کعبة اللہ)کے لیے غضب میں آکریہ کاروائی کی ہے ،میں اس کاڈھادوں گااورایک ایک پتھرتوڑدوں گا۔[3]

وَأَنَّ ابْنَ ابْنَتِهِ أُكْسُومُ بْنُ الصَّبَّاحِ الْحُمَیْرِیُّ خَرَجَ حَاجًّا، فَلَمَّا انْصَرَفَ مِنْ مَكَّةَ نَزَلَ فِی كَنِیسَةٍ بِنَجْرَانَ، فَغَدَا عَلَیْهَا نَاسٌ مِنْ أَهْلِ مَكَّةَ فَأَخَذُوا مَا فِیهَا مِنَ الْحُلِیِّ، وَأَخَذُوا مَتَاعَ أُكْسُومِ، فَانْصَرَفَ إِلَى جَدِّهِ مُغْضَبًا فَبَعَثَ رَجُلًا مِنْ أَصْحَابِهِ یُقَالُ لَهُ شَهْرُ بْنُ، مَعْقُودٍ عَلَى عِشْرِینَ أَلْفًا مِنْ خَوْلانَ وَالْأَشْعَرِیِّینَ

یاعثمان بن مغیرہ بن اخنس کی روایت کے مطابق یہ کہاجائےابراہہ کا نواسااکسوم بن صباح حمیری حج کے لئے گیا،مکہ سے واپسی پروہ نجران کے ایک گرجامیں اترااہل مکہ کی ایک جماعت نے گرجے پرڈاکا ڈالا اورگرجے کے سامان کے ساتھ ساتھ اکسوم کا تمام سامان بھی لوٹ کر لے گئے ،اکسوم نے اپنے نانا ابرہہ سے اس واقعہ کی بابت فریادکی اس نے اپنے درباریوں میں سے ایک شخص شہر بن معقودکی قیادت میں بیس ہزار آدمی روانہ کئے۔[4]

مگر یہ کہناکہ کسی عرب نے اس گرجا کو رات کے وقت نجس کردیا تھا اوراس چیزکا بدلہ لینے کے لئے ابراہہ مکہ پر حملہ آورہواتھایایہ کہ اس کے نواسے کولوٹاکیاتھااوراس چیزکا بدلہ لینے کے لئے ابراہہ مکہ پر حملہ آورہواتھاایک شاندارمذاق کے علاوہ کچھ نہیں (تاکہ ابراہہ کی برہمی کاکوئی سبب پیداکیاجائے) اور اگر ایساتھابھی تو کیا ابراہہ نے مکہ مکرمہ کے اس وقت کے سردارسے اس شخص یااشخاص کو قرار واقعی سزادینے کامطالبہ کیا اور عبدالمطلب نے اسے ہاں یانہیں میں جواب دیا؟ تاریخ اورشعراء عرب میں اس بات کا کوئی تذکرہ نہیں ، چنانچہ ابرہہ قوت کے گھمنڈاوردولت کے نشہ میں چور اللّٰہ تعالیٰ کے قہروغضب کی پرواہ نہ کرتے ہوئےاتوارکے روزسترہ محرم آٹھ سوبیاسی سن رومی اسکندری ، دوسولہ سن عربی اورایرانی بادشاہ نوشیروان بن قیادکے سن چوالیس کو بیت  اللّٰہ پرچڑھ دوڑا حالانکہ یہودونصاریٰ اس عظیم الشان گھرکی عظمت سے اپنے مذہبی صحیفوں کے زریعہ سے اچھی طرح واقف اوراس کی عظمت تسلیم کرتے تھے ، یہ بھی ابراہیم علیہ السلام کواسی طرح اپنا بزرگ مانتے تھے جس طرح اہل عرب ان کواپنابزرگ مانتے تھے اس لئے ان پرتویہ فرض تھاکہ جس گھرکو ابراہیم علیہ السلام نے تعمیر فرمایا تھااس کی عزت وتکریم کرتے لیکن انہوں نے اس چیزکی کوئی پرواہ نہ کی اور خفیہ تدبیرکرتے ہوئے اس گھرکی عزت بربادکرنے کے لئے اس پرفوج لے کرچڑھ دوڑے ،  اللّٰہ جواپنے بندوں پر رحمت میں جلدی کرتاہے لیکن عذاب میں جلدی نہیں کرتا اس نے ابرہہ جیسے کج اندیش کاہاتھ جس نے بیت  اللّٰہ کی تخریب کی سازش کی تھی فوراًنہیں پکڑ لیا بلکہ اپنی خاص حکمت سے ایک مقررہ مدت تک کے لئے ڈھیل دی اوراس کے نویاتیرہ دیو پیکر ہاتھیوں ،ساٹھ ہزار سیاہ فام اوردیوہیکل حبشیوں کا سیلاب ظلمت عرب کے سپیدتپتے بے آب وگیاہ صحر میں بیت  اللّٰہ کی طرف بڑھتارہا ،ابرہہ نے اپنی مخفی چال کوپورا کرنے کے لئے مکہ مکرمہ میں اس وقت داخل ہوناچاہا جب تمام اہل عرب مراسم حج ادا کرنے میں مشغول تھے خاص طورپرقیام منیٰ کے دنوں میں حملہ کرنا چاہا کہ یا تواہل عرب قربانی میں مصروف ہوں گے یا سفرکے تھکے ہارے گھروں کوواپس آرہے ہوں گے اسے یہ بھی علم تھاکہ اہل عرب ان محترم مہینوں میں جنگ وخونریزی سے احتراز کرتے ہیں کیونکہ اہل عرب ان محترم مہینوں کی وجہ سے لڑائی وغیرہ سے اجتناب کریں گے اس طرح وہ بغیرکسی لڑائی کے مکہ معظمہ پرقابض ہو جائے گا اوربیت  اللّٰہ کوبنیادسے اکھیڑ پھینکے گا مگراس کے برعکس اہل عرب اس کے مخالف اور جنگ کے لئے آمادہ تھے،چنانچہ جب اس کا لشکرمکہ مکرمہ کی طرف نکلاتو قبائل عرب وقتاًفوقتا ًحسب استعداداس کے لشکر پر تاخت کرتے رہے، ان کی جوجھڑپیں ہورہی تھیں ان کا چرچا بھی ہرجگہ پھیلاہواتھایہاں تک کہ بعض شعراء نے اس پرفخریئے بھی لکھے ہیں ،قدیم اسلامی شاعرذوالرمہ کہتاہے۔

وابرھة اصطادت صدورماحنا  جھاراوعثنون العجاجة اکدر

اورہمارے نیزوں نے علانیہ ابرہہ کاشکارکیااورفضامیں کثیف غبارکاستون قائم تھا۔

تنحیٰ لہ عمروفشک ضلوعہ، بنانذة بخلاء والخیل تصبر

عمرونے اس کی طرف لپک کرنیزے کے کاری زخم سے اس کی پسلیاں توڑدیں اورشہسوارثابت قدم رہے

ان شعروں سے صاف تصریح ہے کہ ذوالرمہ کی قوم کے ایک آدمی نے ابرہہ کونیزہ مارااوریہ واقعہ جس دن پیش آیااس دن کثیف غبارآسمان تک بلندتھا،اس کی وجہ یہ تھی کہ اسی دن اللہ تعالیٰ نے ہواکاطوفان بھیج کران پرسنگریزوں کی بارش برسائی ،الغرض اس میں کوئی شبہ نہیں کہ عربوں نے اپنے مقدس شہرکی حفاظت کی اوریہی بات ہرپہلوسے قرین عقل معلوم ہوتی ہے،تمام عرب دل سے کعبہ کی عزت کرتے تھے پھریہ کیسے ممکن ہے کہ قریش اس قدرمرعوب ہوجائیں کہ اس کی حمایت کے لیے بھی ان کے خون میں کوئی حرارت نہ پیداہوجس پران کی تمام عظمت وسیادت کی بنیادتھی ،دین ومذہب کاسوال چھوڑیں وہ اپنے آبائی شرف کی تمام کائنات جیتے جی کیسے بربادہوتے دیکھ سکتے تھے، سب سے پہلے یمن کے ایک سردار ذونفر نے عربوں کا ایک لشکرجمع کر کے ابرہہ کے مقابلے میں مزاحمت کی،مگرابراہہ کی ساٹھ ہزارتجربہ کار فوج کا مقابلہ مٹھی بھرگروہ سے کرنا بہت مشکل تھانتیجہ ظاہرہے اس نے شکست کھائی اورگرفتار ہو گیا، ابرہہ اپنے گھمنڈ میں اور آگے بڑھاتوخثعم کے علاقہ میں ایک اور عرب سردارنفیل بن حبیب خثعمی اپنے پورے قبیلہ کولے کرمقابلہ پر آگیا مگر اس کاانجام بھی پہلے سردارسے مختلف نہ ہوااس نے اپنی جان بچانے کے لئے بدرقے کی خدمات انجام دیناقبول کرلیا، جب ابرہہ طائف کے قریب پہنچاتوبنی ثقیف نے بزدلی دکھائی کہ وہ اتنی بڑی فوج کا مقابلہ نہیں کرسکتے ، ساتھ ہی انہیں ان کے دل میں یہ خیال بھی ستایاکہ کہیں ابرہہ ان کے معبود لات کامندربھی زمین بوس نہ کردے ،ایک فیصلہ کرکے ان کا سردار مسعودایک وفد کے ہمراہ ابرہہ سے ملااوراس سے اپنے معبودلات کے مندرکوبچانے کے لئے اس طرح گزارش کی کہ ہماری عبادت گاہ وہ جگہ نہیں جسے آپ ڈھانے آئے ہیں بلکہ وہ جگہ تومکہ مکرمہ میں ہے اس لئے براہ کرم ہمارے معبدکوچھوڑدیں جس کے عوض ہم آپ کومکہ مکرمہ کاراستہ بتانے کے لئے بدرقے مہیاکردیتے ہیں ، ابرہہ کواورکیاچاہئے تھا وہ مسعودکی یہ بات مان گیااور لات کی طرف کوئی تعرض نہ کیا،چنانچہ بنی ثقیف نے ابورغال نامی ایک آدمی کو ابرہہ کے ساتھ کردیا ، اللّٰہ کی قدرت جب مکہ صرف تین کوس کے فاصلہ پررہ گیاتو المغمس یا المغس نامی مقام پرپہنچ کرابورغال ثقفی مرگیا ، اپنی دیوی کوبچانے کے لئے بزدلی دکھانے اورمکہ مکرمہ کاراستہ دکھانے کے جرم میں اس کی قبر پر برابر سنگباری ہوتی رہی(اس کی قبر پر سنگسارکئے جانے کے اوراسباب بھی بیان کئے گئے ہیں )اورعرب سالہاسال تک بنی ثقیف کولات کا مندر بچانے اوربیت  اللّٰہ پرحملہ کرنے والوں سے تعاون پرطعنے دیتے رہے،چنانچہ ضراربن خطاب کاشعرہے۔

وفرت ثقیف انی لاتھا، بمنقلب الخائب الخاسر

اورثقیف ایک نامرادبھاگنے والے کی طرح اپنے معبودلات کی طرف بھاگ گئے۔

محمدبن اسحاق کی روایت ہے کہ المغمس سے ابرہہ نے(ماہ محرم میں ) اپنے مقدمتہ الجیش کوآگے بڑھایااوروہ اہل تہامہ اور قریش کے بہت سے مویشی لوٹ لے گیا جن میں عبدالمطلب کے دوسواونٹ بھی تھے ،اس کے بعداس نے اپنے ایلچی کے ذریعہ اہل مکہ کوپیغام بھیجا کہ میں تم لوگوں سے لڑنے کے لئے نہیں آیابلکہ میں صرف اس گھر(بیت  اللّٰہ ) کوڈھانے کے لئے آیاہوں اگرتم مجھ سے نہ لڑوگے تومیں بھی تمہاری جان ومال سے کسی قسم کا تعرض نہیں کروں گا، اس نے اپنے ایلچی کویہ بھی ہدایت کی تھی کہ اگراہل مکہ کوئی بات کرناچاہیں توان کے سردارکوہمارے حضورلے آنا،چنانچہ ایلچی نے مکہ کے سب سے بڑے سردارعبدالمطلب کو ابرہہ کا پیغام پہنچادیا،انہوں نے کہاہم میں ابرہہ سے لڑنے کی طاقت نہیں ،یہ بیت  اللّٰہ ہے اگروہ چاہے گاتواپنے گھرکوبچالے گا، پھر عبدالمطلب اس ایلچی کے ہمراہ ابرہہ سے ملنے کے لئے چلے گئے،

وَكَانَ عَبْدُ الْمُطَّلِبِ رَجُلًا عَظِیمًا وَسِیمًا جَسِیمًا؛ فَلَمَّا رَآهُ أَبْرَهَةُ أَجَلَّهُ وَأَكْرَمَهُ أَنْ یَجْلِسَ تَحْتَهُ، وَكَرِهَ أَنْ تَرَاهُ الْحَبَشَةُ یُجْلِسَهُ مَعَهُ عَلَى سَرِیرِ مُلْكِهِ، فَنَزَلَ أَبْرَهَةُ عَنْ سَرِیرِهِ، فَجَلَسَ عَلَى بِسَاطِهِ، فَأَجْلَسَهُ مَعَهُ عَلَیْهِ إِلَى جَنْبِهِ ثُمَّ قَالَ لِتَرْجُمَانِهِ : قُلْ لَهُ مَا حَاجَتُكَ إِلَى الْمَلِكِ؟ فَقَالَ لَهُ ذَلِكَ التَّرْجُمَانُ، فَقَالَ لَهُ عَبْدُ الْمُطَّلِبِ: حَاجَتِی إِلَى الْمَلِكِ أَنْ یَرُدَّ عَلَیَّ مِائَتَیْ بَعِیرٍ أَصَابَهَا لِی؛ فَلَمَّا قَالَ لَهُ ذَلِك، قَالَ أَبْرَهَةُ لِتَرْجُمَانِهِ: قُلْ لَهُ: قَدْ كُنْتَ أَعْجَبَتْنِی حِینَ رَأَیْتُكَ، ثُمَّ زَهِدْتُ فِیكَ حِینَ كَلَّمْتَنِی، أَتُكَلِّمُنِی فِی مِائَتَیْ بَعِیرٍ أَصَبْتُهَا لَكَ، وَتَتْرُكَ بَیْتًا هُوَ دِینُكَ وَدِینُ آبَائِكَ، قَدْ جِئْتُ لِهَدْمِهِ فَلَا تُكَلِّمُنِی فِیهِ؟قَالَ لَهُ عَبْدُ الْمُطَّلِبِ: إِنِّی أَنَا رَبُّ الْإِبِلِ، وَإِنَّ لِلْبَیْتِ رَبًّا سَیَمْنَعُهُ، قَالَ: مَا كَانَ لِیُمْنَعَ مِنِّی، قَالَ: فَأَنْتَ وَذَاكَ، ارْدُدْ إِلَیَّ إِبِلِی، وَكَانَ أَبْرَهَةَ، قَدْ رَدَّ عَلَى عَبْدِ الْمُطَّلِبِ الْإِبِلَ الَّتِی أَصَابَ لَهُ

عبدالمطلب بڑے وجیہ اورشاندار شخص تھے ابرہہ انہیں دیکھ کربہت ہی متاثر ہوااورتعظیماًاپنے پاس تخت پربٹھایا،حبشیوں کویہ اعزازدیناناگوارگزراچنانچہ اپنے تخت سے نیچے اترآیا اور فرش (قالین)پربیٹھ گیااورعبدالمطلب کوبھی اپنے ساتھ بٹھالیا،ابرہہ نے ترجمان سے کہاکہ عبدالمطلب سے ان کی درخواست کے بارے میں پوچھو؟ترجمان نے دریافت کرکے کہاکہ یہ اپنے دوسواونٹ واپس لیناچاہتاہے،ابرہہ نے ترجمان سے کہاکہ عبدالمطلب سے کہوکہ میں تمہاری اس درخواست پربہت حیران ہوں تم اپنے اونٹوں کوواپس لینے کے خواہشمندہواوراپنے مذہبی گھر(جوتیرااورتیرے آباؤ اجدادکامرکزعبادت ہے)کے بارے میں کوئی بات نہیں کرتے،اورنہ اس کوکرائے جانے سے روکنے کی سفارش کرتے ہو،عبدالمطلب نے کہاکہ مجھے اس گھرسے کوئی واسطہ نہیں ،جواس کارب ہے وہ خوداس کی حفاظت کرے گامیں تواونٹوں کامالک ہوں لہذاانہی کی واپسی کی بات کرتاہوں ،لہذامجھے میرے اونٹ واپس کردواورتم جانواوربیت اللہ کارب جانے،ابرہہ نے عبدالمطلب کے اونٹ واپس کردیئے۔[5]

ابن سعدمیں یہ روایت اس طرح ہےکہ ابرہہ تخت سے اتر کر ان کے پاس آکربیٹھ گیا۔

فَقَالَ لَهُ: حَاجَتُكَ؟ قَالَ: تَرُدُّ عَلَیَّ إِبِلِی ، قَالَ: مَا أَرَى مَا بَلَغَنِی عَنْكَ إِلا الْغُرُورُ وَقَدْ ظَنَنْتُ أَنَّكَ تُكَلِّمُنِی فِی بَیْتِكُمْ هَذَا الَّذِی هُوَ شَرَفُكُمْ!قَالَ عَبْدُ الْمُطَّلِبِ: ارْدُدْ عَلَیَّ إِبِلِی وَدُونَكَ وَالْبَیْتَ فَإِنَّ لَهُ رَبًّا سَیَمْنَعُهُ! فَأَمَرَ بِرَدِّ إِبِلِهِ عَلَیْهِ. فَلَمَّا قَبَضَهَا قَلَّدَهَا النِّعَالَ وَأَشْعَرَهَا وَجَعَلَهَا هَدْیًا وَبَثَّهَا فِی الْحَرَمِ لِكَیْ یُصَابَ مِنْهَا شَیْءٌ فَیَغْضَبَ رَبُّ الْحَرَمِ

اور پوچھاآپ کیاچاہتے ہیں ؟عبدالمطلب نے کہامیرے جو اونٹ پکڑ لئے گئے ہیں وہ مجھے واپس کردیئے جائیں ،ابرہہ نے کہامیری رائے میں تیرے متعلق جواطلاع مجھے ملی وہ محض دھوکے پرمبنی تھی،میں تواس گمان میں تھاکہ تومجھ سے اپنے اس گھر کے متعلق گفتگوکرے گاجس کے ساتھ تم سب کی عزت وشرف وابستہ ہے(اس کے بارے میں کچھ نہیں کہااس طرح آپ نے خود کومیری نظروں سے گرادیا ہے) عبدالمطلب نے کہاتومجھے میرے اونٹ واپس دے ،بیت اللہ کے ساتھ جوچاہئے کر کیونکہ واقعہ یہ ہے کہ اس گھرکاایک پروردگارہے وہ خودہی عنقریب اس کی حفاظت کرے گا،یہ کہہ کروہ ابراہہ کے پاس سے چلے آئے اور ابرہہ نے حکم دیاکہ عبدالمطلب کے اونٹ واپس کر دیئے جائیں جب اونٹ مل گئے توعبدالمطلب نے ان کے سموں پرچمڑے چڑھادیئے،ان پرنشان کردیئے اوران کوقربانی کے لئے مخصوص کرکے حرم میں چھوڑ دیا کہ انہیں پکڑیں گے توپروردگارغضب ناک ہوگا۔[6]

عبداللہ بن عباس کی روایت اس سے کچھ مختلف ہے اس میں عبدالمطلب کے اونٹوں کے مطالبے کاکوئی ذکر نہیں ، عبدبن حمید ، ابن المنذر،ابن مردویہ ،حاکم ،ابونعیم اوربیہقی نے ان سے جو روایات نقل کی ہیں ان میں ہے

جَاءَ أَصْحَابُ الْفِیلِ حَتَّى نَزَلُوا الصِّفَاحَ ، فَجَاءَهُمْ عَبْدُ الْمُطَّلِبِ فَقَالَ: إِنَّ هَذَا بَیْتُ اللهِ، تَعَالَى، لَمْ یُسَلِّطِ اللهُ عَلَیْهِ أَحَدًاقَالُوا: لَا نَرْجِعُ حَتَّى نَهْدِمَهُ

جب ابراہہ الصفاح کے مقام پرجوعرفات اورطائف کے پہاڑوں کے درمیان حدودحرم کے قریب واقع ہے پہنچا توعبدالمطلب خوداس کے پاس پہنچے اورابراہہ سے کہاآپ کویہاں آنے کی کیا ضرورت تھی اگرآپ کوکوئی چیز مطلوب تھی تو پیغام بھیجوادیتے ،ہم وہ چیزخودآپ کی خدمت میں پیش کردیتے،ابراہہ نے کہامیں نے سناہے کہ بیت  اللّٰہ امن کاگھرہے میں اس کا امن ختم کرنے آیا ہوں ،عبدالمطلب نے جواب دیایہ  اللّٰہ کاگھرہے ، ابراہیم علیہ السلام کے وقت سے آج تک اس نے کسی کو اس پرمسلط نہیں ہونے دیا ابراہہ نے کہامگرہم اسے منہدم کیے بغیرواپس نہیں جائیں گے ، عبدالمطلب نے کہاآپ جوچاہیں ہم سے لے لیں اورواپس چلے جائیں مگر ابراہہ نے انکارکردیا اور عبدالمطلب کوپیچھے چھوڑکراپنے لشکرکوآگے بڑھنے کاحکم دیا۔

محمدبن اسحاق کابیان ہے کہ ابراہہ کی لشکرگاہ سے واپس آکرعبدالمطلب نے قریش والوں سے کہا کہ اپنے اہل وعیال کو لے کرپہاڑوں میں چلے جائیں تاکہ ان کا قتل عام نہ ہو جائے،پھروہ اورقریش کے چندسردارحرم میں حاضرہوئے،خانہ کعبہ میں اس وقت ان کے ۳۶۰ معبود موجودتھے مگراس نازک گھڑی میں سب چھوٹ گئے،

فقال عبد المطلب، وهو آخذ حلقة باب الكعبة

عبدالمطلب نے کعبے کے دروازے کاکنڈاپکڑکراللہ سے یوں دعاکی

 لا هم إِنَّ الْمَرْءَ یَمْ ، نَعُ حِلَّهُ فَامْنَعْ حَلَالَكْ

الٰہی !بندہ اپنے گھرکی حفاظت کرتاہے توبھی اپنے گھرکی حفاظت فرما

لَا یَغْلِبَنَّ صَلِیبُهُمْ،وَمِحَالُهُمْ عدوا محالك

کل ان کی صلیب اوران کی تدبیرتیری تدبیرکے مقابلے میں غالب نہ آنے پائے

إِنْ كُنْتَ تَارِكَهُمْ وَكَعْبَتَنَا ، فأمْرٌ ما بدَالَكْ

اگرتوان کواورہمارے قبلے کواپنے حال پرچھوڑدیناچاہتاہے توجوتوچاہے کر

وَانْصُرْ عَلَى آلِ الصَّلِیبِ، وَعَابِدِیهِ الْیَوْمَ آلَكْ

صلیب کی آل اوراس کے پرستاروں کے مقابلے میں آج اپنی آل کی مددفرما

یَا رَبِّ لَا أَرْجُو لَهُمْ سِوَاكَا ، یَا رَبِّ فَامْنَعْ عَنْهُمْ حِمَاكَا

اے میرے رب!تیرے سوامیں ان کے مقابلے میں کسی سے امیدنہیں رکھتا،اے میرے رب ان سے اپنے حرم کی حفاظت فرما

إنَّ عَدُوَّ الْبَیْتِ مَنْ عادَاكا ،امْنَعْهُمُ أنْ یُخَربُوا قُرَاكا

اس گھرکادشمن تیرادشمن ہے اپنی بستی کوتباہ کرنے سے ان کوروک

تفسیرطبری میں کچھ یہ اشعاربھی ہیں ۔

وَكُنْتُ إِذَا أَتَى بَاغٍ بِسَلْمٍ ، نُرَجِّی أَنْ تَكُونَ لَنَا كَذَلِكْ

فَوَلَّوْا لَمْ یَنَالُوا غَیْرَ خِزْیٍ ،وَكَانَ الْحَیْنُ یُهْلِكُهُمْ هُنَالِكْ

وَلَمْ أَسْمَعْ بِأَرْجَسَ مِنْ رِجَالٍ ، أَرَادُوا الْعِزَّ فَانْتَهَكُوا حَرَامَكْ

جَرُّوا جُمُوعَ بِلَادِهِمْ  ، وَالْفِیلَ كَیْ یَسْبُوا عِیَالَكْ۔[7]

دعائیں مانگ کرعبدالمطلب اوران کے ساتھی بھی پہاڑوں میں چلے گئے،دوسرے روزابراہہ مکہ میں داخل ہونے کے لئے آگے بڑھامگراس کا خاص ہاتھی محمود جو سب سے آگے تھا آگے بڑھنے کے بجائے یکایک زمین پر بیٹھ گیا، اس کوکھڑاکرنے کے لئے بہت تبرمارے گئے ،آنکھوں سے کچوکے دیئے گئے ،وہ زخموں سے چورہوگیامگراپنی جگہ سے نہ ہلا،جب اسے مکہ کی مخالف سمت چلانے کی کوشش کی جاتی تودوڑنے لگتامگرجیسے ہی مکہ مکرمہ کی طرف اس کامنہ پھیراجاتاپھربیٹھ جاتااورآگے بڑھنے کے لئے تیارنہ ہوتا ،اتنے میں پرندوں کے جھنڈکے جھنڈ اپنی چونچوں اورپنجوں میں سنگریزے لئے ہوئے بحراحمرکی طرف سے آئے اورانہوں نے اس لشکر پرسنگریزوں کی بارش کر دی ، جس پربھی یہ کنکرگرتے اس کا جسم گلناشروع ہو جاتا۔

محمدبن اسحاق اورعکرمہ کی روایت ہے کہ یہ چیچک کامرض تھااوربلادعرب میں سب سے پہلے چیچک اسی سال دیکھی گئی ۔

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ جس پرکوئی کنکری گرتی اسے سخت کھجلی لاحق ہوجاتی اورکھجاتے ہی جلدپھٹتی اورگوشت جھڑناشروع ہوجاتا۔

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کی دوسری روایت میں ہے کہ گوشت اورخون پانی کی طرح بہنے لگتا اور ہڈیاں نکل آتی تھیں ،

وَأُصِیبَ أَبْرَهَةُ فِی جَسَدِهِ، وَخَرَجُوا بِهِ مَعَهُمْ تَسْقُطُ (أَنَامِلُهُ) أُنْمُلَةً أُنْمُلَةً، كُلَّمَا سَقَطَتْ أُنْمُلَةٌ أَتْبَعَتْهَا مِنْهُ مِدَّةٌ تَمُثُّ قَیْحًا وَدَمًا، حَتَّى قَدِمُوا بِهِ صَنْعَاءَ وَهُوَ مِثْلُ فَرْخِ الطَّائِرِ، فَمَا مَاتَ حَتَّى انْصَدَعَ صَدْرُهُ عَنْ قَلْبِهِ، فِیمَا یَزْعُمُون

خودابرہہ کے ساتھ بھی یہی ہوا اس کے جسم میں بیماری نمودارہوئی جس سے اس کی پوریاں تک جھڑگئیں ،اس کواسی حال میں اٹھاکرصفاء تک لے گئے ،اس وقت وقت وہ ایک زخمی پرندے کی طرح تھاآخراس کاسینہ پھٹ گیااورصفاء ہی میں جہنم واصل ہوا۔[8]

افراتفری میں ان لوگوں نے یمن کی طرف بھاگناشروع کیا،نفیل بن حبیب خثعمی کوجسے یہ لوگ بدرقہ بناکربلادخثعم سے پکڑکر لائے تھے تلاش کرکے کہاکہ وہ انہیں واپسی کا راستہ بتلائے مگراس نے کوراجواب دے دیااورکہااب بھاگنے کی جگہ کہاں ہے جبکہ اللہ تعاقب کررہاہے اور نکٹا (ابراہہ)مغلوب ہے غالب نہیں ،اس بھگدڑمیں جگہ جگہ لوگ گرگر کر مرتے رہے ۔

عطاء بن یسارکی روایت ہے کہ سب کے سب اسی وقت ہلاک نہیں ہوگئے بلکہ کچھ تووہیں ہلاک ہوئے اورکچھ بھاگتے ہوئے راستے بھرگرتے چلے گئے ،ابرہہ بھی بلاد خثعم پہنچ کرمرا،یہ واقعہ مزدلفہ اورمنیٰ کے درمیان وادی محصب کے قریب محسرکے مقام پرپیش آیا تھا۔

قارئین آپ نے روایت پڑھی جو ہرسیرت کی کتاب میں کم وبیش ایسی طرح لکھی جاتی ہے مگرابرہہ و عبدالمطلب کی گفتگوسے متعلق جوحالات وبیان کیے گئے ہیں سب یک قلم بے بنیادہیں ،مولاناامین احسن اصلاحی مجموعہ تفاسیرفراہی میں لکھتے ہیں خودواقعات کی نوعیت سے صاف پتہ چلتاہے کہ یہ تمام باتیں قصہ گویوں کی گھڑھی ہوئی ہیں ،ان میں عربی غیرت وحمیت کی علانیہ تحقیراورقریش کے غیورسردارعبدالمطلب کی بیباکانہ توہین کا پہلوبالکل نمایاں ہے ،نیز ابرہہ کے کردارکوبہت شانداردکھانے کی کوشش کی گئی ہے ، اس پوری داستان کوپڑھ کرایسامحسوس ہوتاہے کہ ذلت ودناء ت اوربے غیرتی وپست ہمتی کاکوئی ایساالزام نہیں جوعربوں پراورعموما ًقریش اوران کے سردارپرخصوصا ًنہ تھوپا گیا ہو،ان خرافات کی تردیدپرمختصراعرض ہے کہ قریش نے جنہوں نے کسی دور میں بھی اپنے الحی القیوم اللہ کادامن چھوڑ کر بالکلیہ علیحدگی اختیارنہیں کی تھی البتہ امتدادزمانہ کے بعدجب ابراہیم علیہ السلام کی تعلیمات بالکل فراموش ہوگئیں اورعرصہ دراز (۲۵۰۰ سال )سے کوئی دوسرا نبی یاددہانی کے لئے مبعوث نہیں ہواتو انہوں نے اپنی جاہلیت میں  اللّٰہ کے دربارکے لئے بہت سے خود ساختہ سفارشی ٹھہرالئے تھے، اورنصاریٰ کی طرح انہیں بیٹیوں اور بیٹوں کا درجہ دیتے تھے مگراس کے باوجودایک اچھی خاصی تعدادان میں ایسے لوگوں کی بھی تھی جودین حنیف پر قائم اور بت پرستی سے سخت متنفرتھے جولوگوں کوخیرمیں تعاون اور شر سے روکتے تھے، اہل عرب جواس مقدس گھرکے قیام کے وقت سے کبھی غلامی کی ذلت سے آشنا نہیں ہوئے تھے ان کی عزت وسیادت ورزق اس گھرسے وابستہ تھا ان کا جوہر اور تمام ترسرمایہ فخر و نازش ہمیشہ شہسواری،شمشیرزنی اور قدر اندازی تھا،یہ کہناکہ عبدالمطلب نے ابراہہ کے پاس جا کر اپنے چند اونٹوں کامطالبہ کیا اور انہیں لے کر واپس ہوئے پھر بیت  اللّٰہ کی حفاظت کرنے کے بجائے بس اس میں کھڑئے ہوکر اللّٰہ سے اس مقدس گھر کی حفاظت کی دعاکی اور بزدلوں کی طرح اپنی قوم کولے کرپہاڑوں میں جاچھپے، قریش کے ایک ذی قدر سردار پر جن میں بے غیرتی ،پست ہمتی اوربزدلی نہیں بلکہ غیرت وحمیت اور شجاعت تھی ایک کھلاتبرا ہے ،اور اگر عبدالمطلب بے ہمت اور پست حوصلہ ہوگئے تھے توکیاسارا عرب ہی ان جیسا ہوگیا تھا اوراپنے مقدس گھرکوبچانے کی بجائے اپنی جانیں بچا کر گھروں کو بھاگ گئے تھے،یہ بات عربوں کے کردار سے میل نہیں کھاتی ،صدیوں سے صحرا میں آزادزندگی گزارنے کی وجہ سے اہل عرب کسی سے مرعوب نہیں ہوتے تھے اورنہ ہی صحرا کی سختیاں ان کے لئے کوئی معنی رکھتی تھیں ، جنگ وجدل ان کا روزمرہ کا معمول تھاجس میں وہ مرتے اور مارتے تھے جس سے ان میں بزدلی یابے ہمتی کی بجائے موت سے بے خوف ہوکر سفاکی، بہادری ، پھرتی اورپلٹ پلٹ کر حملہ کرنا کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا،چنانچہ حج کے لئے آئے ہوئے اہل عرب نے عبدالمطلب کی سربراہی میں  اللّٰہ وحدہ لاشریک سے ابرہہ کے مقابل فتح ونصرت کی دعا مانگ کر اپنے آبائی شرف اور مقدس شہرکی حفاظت کے لئے اپنی اجتماعی قوت و طاقت کے ساتھ عین کعبہ کے سامنے بطن محسر میں (مزدلفہ اورمنیٰ کے درمیان لیکن منیٰ کے زیادہ قریب)جہاں ابراہہ کاہاتھی تھک کرعاجزہوگیااور اصحاب الفیل کومجبوراًیہاں روکناپڑاتھاجبکہ اس کامقدمتہ الجیش محصب میں تھا مدافعت کی اورمحسر کے پتھروں سے اسلحہ کا کام لے کر ابرہہ کے لشکرکو بیت  اللّٰہ سے دفع کرنے کی کوشش کرنے لگے، مگرابراہہ کے لشکرگراں کوپارہ پارہ کر دینا تودرکنار بے سروسامان اہل عرب کااس کوپیچھے ہٹا دینا بھی اتناآسان نہ تھا مگر اتنا ضرورہواکہ پہلے دن ابراہہ پرحجاج کی طرف سے جوسنگباری ہوئی اس سے اسکانشہ جنگ ہرن ہوگیااور ایک حدتک شکست اور پامالی اٹھاکراس کی پیش قدمی رک گئی جس سے مقدمة الجیش کے حملہ آوروں کی تعدادگھٹادی گئی مگراس معمولی نقصان سے اس کادم خم ختم نہیں ہوگیاجبکہ ابراہہ کی پیش قدمی رک جانے کی وجہ سے اہل عرب کاجوش مدافعت مزید فروزاں ہوگیااوروہ دیرتک  اللّٰہ کے حضورشکرکے طورپر نہایت تضرع کے ساتھ گڑگڑاتے رہے، دوسرے روز ابرہہ کے دل بادل نے پھرمکہ مکرمہ میں داخل ہونا چاہاتوحجاج نے جن کے حوصلے بلندہوچکے تھے آگے بڑھ کرمورچے قائم کرلئے اور لشکر پرپھر پتھروں کی بارش کردی جس سے لشکرکی پیش قدمی ایک بارپھر رک گئی ، اہل عرب نے پھر دیرتک  اللّٰہ کے حضور شکر ادا کیا اور فتح ونصرت کی دعامانگی ،اسی طرح تیسرے روزبھی ہوااس کے بعد  اللّٰہ نے جس کے دست تصرف میں تمام کائنات ہے اور یہ تمام کارخانہ اس کے حکم کے مطابق ایک خاص نظام حکمت کے تحت چل رہاہے ، جس نے اس گھرکواپنے نام کی نسبت سے مقدس کیاتھا اور اس لئے اس گھر کا محافظ ہے اس کی تلواربے نیام ہوئی اور اہل عرب کی سنگباری کے پردہ میں  اللّٰہ نے ابرہہ کے لشکر پر اپنا رعب ڈالااوراس محترم گھرکی عظمت کوبٹہ لگانے کی گستاخی کے جرم میں ان دشمنوں پر قوم لوط کی طرح آسمان سے سنگریزے برسانے والی تندوتیز آندھی بھیجی جس کا کثیف غبار آسمان تک بلندتھا اس آندھی نے اپنی زور و شدت سے زمین کی کنکریاں اور سنگریزے اٹھاکر ابرہہ اوراس کے لشکر کو سنگسارکرنا شروع کردیااس طرح  اللّٰہ نے ابرہہ اوراس کے لشکر کو قوم لوط کی طرح سخت ترین سزا رجم دے کردائمی لعنت فرمائی، جس کووہ پتھرلگااس میں چیچک نمودارہوگئی جن کے زخموں نے ان کے جسموں کوگھلا ڈالاجس سے اکثر کاتووہیں خاتمہ کردیاجن کے بھس کی طرح سے کھائے ہوئے اعضاء اور جسموں سے تمام وادی مکہ اٹی پڑی تھی، اسی دوران ذوالرمہ کی قوم کے ایک شخص نے ابرہہ کو نیزہ مارااوراسے وہیں ڈھیرکردیا، اللّٰہ کے عذاب کے بعدبغیر کمانڈرکے لشکریوں میں مزید بدحواسی پھیل گئی اوران کی جمعیت پارہ پارہ ہو کر تتربترہوگئی پھر جس کا جدھر منہ ہوااپنی جان بچانے کے لئے ادھربھاگ پڑا مگر موت سے بھاگ کر کہاں جایا جا سکتا ہے ،اللہ تعالیٰ نے مکہ کے مقتولین کی لاشوں سے صاف کرنے کے لیے چڑیاں بھیجیں ۔

اس سلسلے میں دوفریق ہیں ،ایک فریق کے بیانات ہیں کہ یہ چڑیاں شکاری قسم کی اوربڑے قدکی تھیں ۔ان کے رنگ اورصورتیں اس اس طرح کی تھیں ۔انہوں نے اصحاب فیل کی لاشوں کوکھایا۔اصحاب فیل پرہرسمت سے پتھربرسے۔پتھروں کے لگنے سے ان کوچیچک ہوگئی۔ان کی ہلاکت ایک ہی جگہ نہیں واقع ہوئی بلکہ بھاگتے ہوئے بہت سے ان میں سے راستوں میں مرے۔

دوسرے فریق کے بیانات ہیں ،چڑیاں اصحاب فیل کوپتھرمارتی تھیں ۔پتھران کی چونچوں اورچنگلوں میں ہوتے تھے۔یہ پتھرسواروں کے جسموں سے گزرکرہاتھیوں کے جسموں میں گھس گھس جاتے تھے۔جوجہاں تھے وہیں ڈھیرہوکررہ گئے۔ایک سیلاب آیاجومقتولین کی لاشوں کوبہاکرلے گیا۔

ان دونوں پہلوں کوتفسیرابن جریرسے دیکھتے ہیں ۔

xعَنْ عِكْرِمَةَ، فِی قَوْلِهِ:طَیْرًا أَبَابِیلَ: قَالَ: كَانَتْ طَیْرًا خَرَجَتْ خُضْرًا، خَرَجَتْ مِنَ الْبَحْرِ، لَهَا رُءُوسٌ كرُءُوسِ السِّبَاعِ

عکرمہ رضی اللہ عنہ سے طیراابابیل کے بارے میں روایت ہے کہ یہ چڑیاں سیاہی مائل خاکی رنگ کی تھیں ،سمندرکی سمت سے آئی تھیں ان کے سرشکاری چڑیوں کے سرکی طرح تھے۔

x عَنِ ابْنِ سِیرِینَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ:لَهَا خَرَاطِیمُ كَخَرَاطِیمِ الطَّیْرِ، وَأَكُفٌّ كَأَكُفِّ الْكِلَابِ

محمدبن سیرین سے مروی ہے کہ عباس رضی اللہ عنہ نے طیراابابیل کے بارے میں فرمایاکہ اس سے مرادچڑیاں ہیں ان کے چڑیوں کی طرح کے سونڈ(شکاری چڑیوں کی چونچیں ) اور کتے کے پنجوں کے ماندچنگل تھے۔[9]

اس میں ایک بات قابل لحاظ ہے کہ انہوں نے ان چڑیوں کی چونچوں کے لیےخرطوم(سونڈ)کالفظ استعمال کیاہے جوشکاری چڑیوں کی چونچوں کے لیے مستعمل ہے،جیسے امراؤ القیس کاشعرہے ۔

كَأنّهَا لقوةٌ طَلُوبٌ،كَأنّ خُرْطُومَهَا مِنْشَالُ

وہ اونٹنی جھپٹنے والے عقاب کی طرح ، جس کی چونچ کرچھے کی مانندہے۔[10]

x عَنْ سَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ، فِی قَوْلِهِ:طَیْرًا أَبَابِیلَ قَالَ: طَیْرٌ خُضْرٌ، لَهَا مَنَاقِیرُ صُفْرٌ، تَخْتَلِفُ عَلَیْهِمْ

سعیدبن جبیرنے طیراابابیل کے بارہ میں فرمایایہ چریاں سیاہی مائل خاکی رنگ کی تھیں (مثلاًگدھ وغیرہ) اورزردگوں چونچوں سے ان کاگوشت کھاتی تھیں ،ان روایات میں چڑیوں کے پتھر مارنے کاکوئی ذکرنہیں ہے۔

عکرمہ اورعبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کی روایت سے صاف واضح ہے کہ یہ چڑیاں بڑے قدکی شکاری چڑیوں کی قسم کی تھیں مثلاًگدھ وغیرہ،اورابن جبیرکی روایت میں تصریح ہے کہ وہ ان کی لاشوں کوکھاتی تھیں ۔

عَنْ عُبَیْدِ بْنِ عُمَیْرٍ، قَالَ:طَیْرًا سُودًا تَحْمِلُ الْحِجَارَةَ فِی أَظَافِیرِهَا وَمَنَاقِیرِهَا۔[11]

اس کے بعددوروایتیں ملتی ہیں جوقتادہ اورعبیدبن عمیرسے مروی ہیں جن میں یہ بیان کیاگیاہے کہ یہ چڑیاں چونچوں اورچنگلوں میں پتھرلئے ہوئے نمودارہوئی تھیں ،ان روایات میں چڑیوں کے شکاری ہونے کاکوئی ذکر نہیں ۔

جن لوگوں نے چڑیوں کی شکل وصورت ،ان کے رنگ ان کی چونچوں کی ذردگوئی ،ان کالاشوں پرگرناسب کچھ بیان کیاہے ظاہرہے کہ ان کابیان عینی شہادت پرمبنی ہوگا جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ یہ چڑیاں چونچوں اورچنگلوں میں پتھراٹھائے ہوئے تھیں تویاتوانہوں نے اوپرسے پتھربرستے ہوئے دیکھے اوردورسے یہ گمان کرلیاکہ یہ چڑیاں پھینک رہی ہیں ،پھراصل واقعہ کی تحقیق کیے بغیر آیت کی جوتاویل ان کے ذہین میں آئی اسی سانچہ میں انہوں نے قصہ کوبھی ڈھالیااس کے بعدجب یہ سوال سامنے آیاکہ ہاتھیوں اورمقتولین کی متعفن لاشیں جن سے تمام وادی اٹ گئی تھی کس طرح دورکی گئیں تواس کاجواب یہ دے دیاکہ  اللّٰہ تعالیٰ نے سیلاب بھیجااوروہ سب بہالے گیاحالانکہ اس جواب کے بعدیہ سوال باقی رہ جاتاہے کہ جوبے پناہ سیلاب ان تمام ہاتھیوں اوراتنی بے شمارلاشوں کوبہاکرلے گیاآخراس کی ذدسے وادی مکہ کے باشندے کیسے بچ گئے ، بہرحال یہ ایک رائے اورقیاس ہے۔اس کومشاہدہ اورذاتی واقفیت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

آگے بڑھ کران لوگوں کوایک اوراشکال بھی پیش آیاوہ یہ کہ ان چڑیوں کے چنگلوں اورچونچوں سے جوپتھرگرتے رہے ہوں گے ظاہرہے وہ سیدھے گرتے رہے ہوں گے پھران ہاتھیوں کوکیسے لگے ہوں گے جوہودجوں اورسواروں سے بالکل ڈھکے ہوئے تھے ؟اس کاجواب انہوں نے یہ دے دیاکہ یہ پتھرسواروں کے جسموں سے گزرکر ہاتھیوں کے جسموں تک پہنچ جاتے تھے،واقعہ کی اس حدتک پہنچ جانے کے بعدان کومجبورایہ بھی فرض کرلیناپڑاکہ ابرہہ کی پوری فوج عین موقع ہی پرتباہ ہوگئی اوریہ بربادی صرف پتھروں کے ذریعہ سے ہوئی ،لیکن فریق اول کے بیان میں تصریح ہے کہ جن جن کوپتھرلگے وہ چیچک میں مبتلاہوگئے اورسب فوراہی نہیں ہلاک ہوگئے بلکہ وہ نہایت بدحواسی کے ساتھ بھاگے اورراستوں میں مختلف جگہوں پرنہایت بیکسی کے عالم میں انہوں نے جانیں دیں ۔اس تفصیل سے یہ بات واضح ہوگئی کہ دوسرے فریق کی رائے تمام تراس فرض پرمبنی ہے کہ سنگباری چڑیوں کی جانب سے ہوئی ،یہ چیزایک مرتبہ فرض کرلینے کے بعدواقعہ کاپوراسلسلہ آپ سے آپ اسی سانچہ میں ڈھل گیا،یہ رائے ذاتی مشاہدہ یامشاہدہ کرنے والوں کے بیانات پرمبنی نہیں ہے۔

جولوگ موقع پرموجودتھے اورجنہوں نے تمام حالات کابچشم خودمشاہدہ کیاتھاان کے اقوال یوں ہیں ۔

اب ہم اشعارعرب سے اس بیان کی تصدیق کرتے ہیں اورچونکہ یہ لوگ واقعہ کے عینی شاہدہیں اس وجہ سے ان کے بیانات سے واقعہ کی اصلی صورت بھی سامنے آئے گی ۔

ابوقیس کہتاہے۔

وَمِنْ صُنْعِهِ یَوْم فیل الحبوش ، إذْ كُلَّمَا بَعَثُوهُ رَزَمْ

اوراہل حبشہ کے ہاتھی والے دن ،اس کے عجیب کرشموں میں سے یہ ہے کہ جتنااس کواٹھاتے تھے اتناہی وہ بیٹاجاتاتھا

مَحَاجِنُهُمْ تَحْتَ أَقْرَابِهِ، وَقَدْ شَرَّمُوا أَنْفَهُ فَانْخَرَمْ

ان کے آنکس اس کی کمراورپیٹ کے نیچے زخمی کررہے تھے اورانہوں نے اس کی سونڈزخمی کرڈالی تھی

وَقَدْ جَعَلُوا سَوْطَهُ مِغْوَلًا،إذَا یَمَّمُوهُ قَفَاهُ كُلِمْ

انہوں نے گپتی کاکوڑابنایاتھا، جس سے اس کومارتے تھےتووہ اس کے سرکوزخمی کردیتی تھی

فَأَرْسَلَ مِنْ فَوْقِهِمْ حَاصِبًا ، فَلَفَّهُمْ مِثْلَ لَفِّ الْقُزُمْ

پھراللہ تعالیٰ کی طرف سے ان پرحاصب چلی ،جوخس وخاشاک کی طرح ان کولپیٹ لیتی تھی۔[12]

صیفی بن عامریعنی ابوقیس بن اسلت جاہلی یثربی کہتاہے۔

قوموافصلواربکم وتعوذو،بارکان ھذالبیت بین الاغاشب

کھڑے ہوکراپنے رب سے دعامانگواوراس گھرکی پناہ لوجوپہاڑوں کے درمیان ہے ۔

فعندکم منہ بلاء مصدق ،غداة ابی یکسوم ھادی الکتاب

کیونکہ خداکی طرف سے تم پرایساانعام ہواہے جس سے تمام وعدوں کی تصدیق ہوگئی ابویکسوم(ابرہہ)کے دن جودستوں کی قیادت کرتاتھا۔

فلما أجازوا بطن نعمان ردهم ، جنوب ملیك بین سافٍ وحاصبِ

جونہی وہ بطن نعمان سے آگے بڑھے خداکی فوجوں نے ساف اورحاصب کے درمیان نمودارہوکران کوپسپاکردیا۔

فولَّوا سراعاً نادمینَ ولم یؤبْ،إلى أهله بالجیش غیر عصائبِ

وہ نامرادالٹے پاوں بھاگے اورفوج میں سے چندمختصرجماعت کے سواکسی کواپنے اہل وعیال سے ملنانصیب نہ ہوا۔[13]

طفیلٍ الغنوی لقوله

فیل غنوی جاہلی کہتاہے۔

ترعی مذالف وسمی اطاع لہ، بالجوع حیث عصی اصحابہ الفیل۔[14]

ابوامیہ قبیلہ ثقیف کاشاعرجوطائف کاباشندہ تھا کہتاہے۔

ان ایات ربنابینات ،لایماری بھن الاالکفور

ہمارے رب کی نشانیاں بالکل واضح ہیں صرف کافرہی ان کاانکارکرسکتے ہیں ۔

حبس الفیل بالمغمس حتی، ظل یحبوکانہ معقور

اس نے ہاتھی کومغمس میں روک دیایہاں تک کہ وہ گھٹنوں کے بل اس طرح چلتاتھاجس طرح وہ اونٹنی جس کی کوچیں کاٹ دی گئی ہوں ۔

واضعاخلفہ الحوارکماقطع،صخرمن کبکب محدور

اوراس کے پیچھے اس کابچہ تھاجیسے کوہ کہکب سے کوئی چٹان تراش لی گئی ہو۔[15]

کسی نے ابرہہ کومخاطب کرکے کہاہے۔

أیْنَ المَفَرُّ والإلَهُ الطَّالِبْ ،والأشْرَمُ المَغْلُوبُ غَیْرُ الْغَالِبْ

اب کہاں بھاگتے ہوخداتعاقب میں ہے، اشرم مغلوب ہوگاغالب نہ ہوگا۔[16]

عبدالمطلب نے کوہ حراپرچڑھ کرکہا۔

لاھم ان المرئ یمنع رحل نامنع رحالک

اے خداآدمی اپنے اہل کی حفاظت کرتاہے توبھی اپنے لوگوں کی حفاظت کر۔

لایغلبن صلیبھم، ومحالھم ابدامحالک

ان کی صلیب اورقوت تیری قوت پرغالب نہ ہو۔

 ان کنت تارکھم وقبلتنا، فامرمابدالک

اگرتوہمارے قبلہ کوان کے زیرنگیں کرناچاہتاہے تووہی کرجوتیری مرضی ہو۔[17]

وقال نفیل بن حبیب الخثعمیّ ، وهو جاهلیّ شهد الفیل وصنع الله فی ذلك الیوم

نفیل بن حبیب خثعمی جاہلی جوموقع پرموجودتھاکہتاہے۔

ألا ردی جمالك یا ردینا،نعمناكم مع الاصباح عینا

اے رونیہ اپنے اونٹوں کوواپس لا،تمہارے دیدارسے ہماری آنکھیں ٹھنڈی ہوں

فإنك لو رأیت، ولن تریه، إلى جنب المحصب ما رأینا

اگرتودیکھتی اوراب ہرگزنہیں دیکھ سکتی جومحصب کے پہلومیں ہم نے دیکھا

إذا لخشیته وفزعت منه ، ولم تأسی على ما فات عینا

ہرشخص نفیل ہی کوپوچھتاہے گویاحبشیوں کامیں نے قرض کھایاہے۔

خشیت الله لما رأیت طیرا، وقذف حجارة ترمی علینا

میں نے خداکاشکراداکیاجب چڑیوں کودیکھااورہمارے اوپرپتھروں کی بارش ہورہی تھی۔[18]

وقال المغیرة بن عبد الله المخرومیّ

مغیرہ بن عبد اللّٰہ المغزومی نے کہاہے ۔

أنت حبست الفیل بالمغمس، جستہ کانہ مکردس

تونے مغمس میں ہاتھی کوروک دیااس طرح گویاایک آدمی کوہاتھ پاوں باندھ کرڈال دیاہو۔[19]

ان اشعارکوغورسے پڑھیں یہ لوگ جوواقعہ کے عینی شاہدہیں چڑیوں اورپتھروں کاذکرساتھ ساتھ کرتے ہیں لیکن یہ کہیں نہیں کہتے کہ یہ پتھرچڑیوں نے پھینکے بلکہ اس سنگباری کوحاصب اورساف کانتیجہ قراردیتے ہیں ،اس وجہ سے اب ان دونوں لفظوں کی حقیقت دریافت کرنی چاہیے۔

عرنی میں حاصب اس تندہواکوکہتے ہیں جوکنکریاں اورسنگریزے لاکرپاٹ دیتی ہے اوراس بادل کوبھی کہتے ہیں جس سے اولوں اوربرف کی بارش ہوتی ہے قوم لوط کے عذاب کے متعلق قرآن کریم میں ہے۔

اِنَّآ اَرْسَلْنَا عَلَیْهِمْ حَاصِبًا۝۳۴ [20]

ترجمہ:ہم نے ان پرحاصب بھیجی۔

مفسرین نے حاصب کے معنی ایسی تندہواکے لیے ہیں جوزوروشدت کی وجہ سے زمین کی کنکریاں اورسنگریزے اٹھالیتی ہے،سیدناعلی رضی اللہ عنہ نے خوارج سے مخاطب ہوکرفرمایا تھا

اصابکم حاصب

تم پرحاصب چلے۔

اہل لغت نے اس کی تفسیریوں کی کہ تم پرعذاب الٰہی آئے یعنی آسمان سے تم پرسنگریزوں اورکنکریوں کی بارش ہو۔

دوسرالفظ ساف ہے ،چڑیوں کے لیے اس لفظ کااستعمال کسی طرح صحیح نہیں ہوسکتا،سافی اس ہواکوکہتے ہیں جوگردوغبار،خس وخاشاک اوردرختوں کی خشک پتیاں اڑاتی ہوئی چلتی ہے بلکہ غبارکے لیے بھی یہ لفظ مستعمل ہے اورچڑیوں کے متعلق یہ معلوم ہے کہ وہ چونچوں اورچنگلوں میں غبارنہیں اٹھاسکتیں ۔

ان شعروں میں یہ بھی تصریح ہے کہ اصحاب فیل نہایت ابتری کے ساتھ بھاگے ۔اس وجہ سے یہ کہناصحیح نہیں ہوسکتاکہ یہ پتھران کے جسموں میں گھس جاتے تھے اگر ایسا ہوتا تو پھرسب وہیں کے وہیں ڈھیرہوجاتے ،بھاگنے کی نوبت نہ آتی۔عین اس دن اس اندھی کااٹھناایک حیرت انگیزواقعہ تھااس وجہ سے تمام زبانوں پراس کاچرچا پھیل گیا۔

الغرض تمام           قرائن وحالات کی شہادت یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قوم لوط کی طرح اصحاب فیل پربھی تندہواکاآسمانی عذاب بھیجاجس نے ان پرہرطرف سے گردوغبارکے ساتھ کنکریوں اورپتھروں کی بارش کی ،یہ سب اللہ تعالیٰ کے فرشتوں یادوسرے لفظوں میں اس کی مخفی افواج کی کاروائی ہے۔

ممکن ہے کسی کوشبہ ہوکہ ان شاعروں میں سے کسی نے یہ نہیں کہاکہ یہ چڑیاں ان کی لاشیں کھاتی تھیں لیکن یہ شبہ صحیح نہیں ہے کیونکہ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ اورسعیدبن جبیر رضی اللہ عنہ کی روایات میں کنایتہ وصراحتاً دونوں طرح اس بات کاذکرآچکاہے باقی رہے شعراء توان کاعام اندازکلام اجمال وکنایہ ہوتاہے ،وہ زیادہ تصریح وتفصیل نہیں کیاکرتے،بعض نے مجلاچڑیوں کے دیکھنے کاذکرکردیاہے اوراس قدربس تھاکیونکہ قتل گاہوں اورجنگ کے میدانوں میں گوشت خورچڑیوں کاجمع ہوناعربوں میں ایک معلوم ومشہوربات تھی ، وہ فوج کے ساتھ چڑیوں کے جھنڈدیکھ کرفیصلہ کرلیتے تھے کہ لڑائی ضرورہوگی ،اصحاب رجیع کے قتل کی پیشین گوئی عمربن امیہ نے اسی دلیل سے کی تھی،بعض شعراء نے فوجوں کے ذکرکے ساتھ چڑیوں کابھی ذکرکرتے ہیں کہ چڑیوں کواندازہ ہوگیاہے کہ میدان جنگ میں بے شمارلاشیں ملیں گی اس وجہ سے وہ بھی ساتھ ہولی ہیں ۔

مشہورشاعرنابغہ عمروبن حارث غسانی اوراس کی قوم کی ذکرکرتاہے۔

إِذا مَا غَزَوْا بالجَیشِ حَلَّق فَوقَهْمْ ،  عَصَائبُ طَیرٍ تَهْتَدِی بعَصَائِبِ

جب وہ فوج لے کرحملہ کرتے ہیں توچڑیوں کے جھنڈ کے جھنڈ ان کے اوپرمنڈلاتے ہیں ۔

تَرَاهُنَ خَلْفَ القَومِ خزراً عیونها  ، جُلوسُ الشُّیوخِ فِی ثیاب المرانب

قوم کے پیچھے چڑیاں بیٹھی کن آنکھوں سے دیکھ رہی ہیں جیسے پوستین اوڑھے ہوئے شیوخ بیٹھے ہوں

جَوَانِحَ قد أیقَنَّ أنَّ قَبیلَهُ ، إِذا مَا التَقَى الجیشان أولُ غَالِبِ

وہ گراچاہتی ہیں کیونکہ ان کویقین ہے کہ جب دوجماعتوں میں مڈبھیڑ ہوتی ہے توانہی کاقبیلہ غالب رہتاہے۔[21]

xچنانچہ رمی جمراہ واقعہ فیل ہی کی یادگارہے ، اسی سلسلہ میں علامہ زمخشری رحمہ اللہ لکھتے ہیں

وروى أنه هرب من إبراهیم علیه السلام عند الجمرة فرماه بسبع حصیات حتّى أخذه، فبقیت سنة فی الرمی

روایت ہے کہ ابراہیم علیہ السلام کے ہاتھ سے مینڈھا چھوٹ کربھاگاانہوں نے اس کو سات کنکریاں ماریں اورپھرپکڑلیااس کے بعدسے رمی کی سنت قائم ہوگئی۔ [22]

قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: إِنَّ إِبْرَاهِیمَ لَمَّا أُمِرَ بِالْمَنَاسِكِ عَرَضَ لَهُ الشَّیْطَانُ عِنْدَ الْمَسْعَى فَسَابَقَهُ، فَسَبَقَهُ إِبْرَاهِیمُ، ثُمَّ ذهب به جبرئیل ع إِلَى جَمْرَةِ الْعَقَبَةِ، فَعَرَضَ لَهُ الشَّیْطَانُ، فَرَمَاهُ بِسَبْعِ حَصَیَاتٍ، حَتَّى ذَهَبَ، ثُمَّ عَرَضَ لَهُ عِنْدَ الْجَمْرَةِ الْوُسْطَى، فَرَمَاهُ بِسَبْعِ حَصَیَاتٍ حَتَّى ذَهَبَ، ثُمَّ تَلَّهُ لِلْجَبِینِ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہےجب ابراہیم علیہ السلام کومناسک حج اداکرنے کاحکم دیاگیاتوسعی کی جگہ پرشیطان سے آمناسامناہواپھردونوں کادوڑمیں مقابلہ ہوا، ابراہیم علیہ السلام آگے بڑھ گئے ،پھرجبرئیل علیہ السلام آپ کوجمرہ عقبہ لے گئے وہاں بھی شیطان آیاآپ نے اسے سات کنکریاں ماریں پھرجمرہ وسطی میں لے گئے وہاں بھی شیطان کوسات کنکریاں ماریں ، پھرآپ نے اپنے بیٹے کوپیشانی کے بل لٹایا(چنانچہ رمی جمرہ کی سنت اس کی یادگارہے)[23]

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، خَرَجَ عَلَیْهِ كَبْشٌ مِنَ الْجَنَّةِ قَدْ رَعَاهَا قَبْلَ ذَلِكَ أَرْبَعِینَ خَرِیفًا، فَأَرْسَلَ إِبْرَاهِیمُ ابْنَهُ فَاتَّبَعَ الْكَبْشَ، فَأَخْرَجَهُ إِلَى الْجَمْرَةِ الأُولَى فَرَمَاهُ بِسَبْعِ حصیات،فَأَفْلَتَهُ عِنْدَهُ، فَجَاءَ الْجَمْرَةَ الْوُسْطَى، فَأَخْرَجَهُ عِنْدَهَا، فَرَمَاهُ بِسَبْعِ حَصَیَاتٍ، ثُمَّ أَفْلَتَهُ فَأَدْرَكَهُ عِنْدَ الْجَمْرَةِ الْكُبْرَى، فَرَمَاهُ بِسَبْعِ حَصَیَاتٍ، فَأَخْرَجَهُ عِنْدَهَا، ثُمَّ أَخَذَهُ فَأَتَى بِهِ الْمَنْحَرَ مِنْ مِنًى فذبحه، فو الذى نَفْسُ ابْنِ عَبَّاسٍ بِیَدِهِ، لَقَدْ كَانَ أَوَّلَ الإِسْلامِ، وَإِنَّ رَأْسَ الْكَبْشِ لَمُعَلَّقٌ بِقَرْنَیْهِ فِی مِیزَابِ الْكَعْبَةِ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہےوہاں ایک ایسامینڈھاآیاجوجنت میں چالیس سال تک چرتارہا(چونکہ مینڈھا ابراہیم علیہ السلام کے ہاتھ سے چھوٹ کرنکل بھاگاتھاچنانچہ) ابراہیم علیہ السلام نے اپنے بیٹے کے ذریعے اسے پکڑااورپھراسے جمرہ اولی لے گئے،وہاں سات کنکریاں ماریں ،پھرجمرہ وسطی میں آئے اوروہاں سات کنکریاں ماریں ،پھرجمرہ کبریٰ میں سات کنکریاں ماریں ،پھراسی جانورکولے کرمنیٰ میں گئے اوروہاں اسے ذبح کیا،اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں ابن عباس رضی اللہ عنہ کی جان ہے یہ اسلام میں سب سے پہلی قربانی تھی ،اس مینڈھے کاسر(بیت اللہ کے)پرنالہ پرلٹکادیاگیا۔[24]

عَنْ عَلِیٍّ، رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ:بِكَبْشٍ أَبْیَضَ أَعْیَنَ أَقْرَنَ، قَدْ رُبِطَ بِسَمُرَةٍ وَجَدُوهُ مَرْبُوطًا بسُمَرة فِی ثَبِیر

سیدناعلی رضی اللہ عنہ سے روایت نقل کی گئی ہے ابراہیم علیہ السلام نے مینڈھے کوثبیرمیں ایک ببول کے درخت سے بندھاہواپایا۔[25]

ایک روایت یہ بھی ہے ۔

فَأَدْرَكَهُ عِنْدَ الْجَمْرَةِ الْكُبْرَى، فَرَمَاهُ بِسَبْعِ حَصَیَاتٍ

ا براہیم علیہ السلام نے جمرہ الکبری کے پاس ابلیس کو سنگسار کیا تھا۔ [26]

بہرحال مینڈھے کے بھاگنے کی روایت بے بنیادہے اورصحیح روایات میں سنت رمی جمرہ کی اصل کاکوئی ذکرنہیں ،تمام مناسک حج ابراہیم علیہ السلام کے وقت سے چلے آتے ہیں اور بعد میں آنے والوں نے تمام مناسک حج ان سے ہی سیکھے،کلام جاہلیت میں احرام ،استلام ،طواف ،طیرحرم ،صفاومروہ ،ہدی ونحر،زیارت عرفہ،وقوف منیٰ غرض خانہ کعبہ اورحج سے متعلق ساری چیزوں کاذکرمل جاتاہے مگررمی جمرات کاکوئی ذکرنہیں ہے جس سے معلوم ہوتاہے کہ یہ بعدکی نئی چیزہے جوواقعہ فیل کے بعد وجود پذیر ہوئی،چونکہ یہ  اللّٰہ تعالیٰ کے ایک بہت بڑے احسان کی یادگاراوراس کی قدرت قاہرہ کی ایک عظیم نشانی تھی اس وجہ سے اسلام نے اس کوباقی رکھااورحج کے مراسم میں شامل ہوکراس نے تکبیروتہلیل کی ایک مخصوص سنت کی حیثیت حاصل کرلی ۔

اور ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی روایت کہ سیدالامم صلی اللہ علیہ وسلم ایام تشریق میں منیٰ میں ٹھہرے ،زوال کے بعدآپ رمی کرتے ، ہرجمرہ پرسات کنکریاں مارتے اور ہر کنکری کے ساتھ تکبیرفرماتے ،جمرہ اولی اورجمرہ ثانیہ کے پاس وقوف کرکے دیرتک دعاوتضرع فرماتے ،جمرہ ثانیہ کے پاس وقوف نہ فرماتے بھی اسی طرف اشارہ ہے، یہ بات توثابت ہے کہ رمی کی سنت(جومحصب کے ایک حصہ میں ہوتی ہےاورمحصب منیٰ میں شامل ہے،اس کومحصب اس لئے کہا جاتا ہے کہ وہاں پرکنکریاں بہت زیادہ ہیں ) وہیں اداکی جاتی ہے جہاں پراصحاب الفیل پرسنگباری ہوئی تھی ۔

دوسراقول یہ ہے کہ یہ واقعہ وادی محسرمیں پیش آیاجہاں اصحاب الفیل کاہاتھی تھک کربیٹھ گیااس وجہ سے اس کانام محسرہوا جو مزدلفہ اورمنی ٰ کے درمیان لیکن منیٰ کے قریب ہے۔

صحیح مسلم اورجامع ترمذی میں روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مزدلفہ سے نہایت وقاروسکون کے ساتھ چلے اوردوسرے لوگوں کوبھی سکون کے ساتھ چلنے کاحکم فرمایالیکن جب وادی محسرمیں پہنچے توآپ نے رفتارتیز کر دی۔ علماء نے اس کی وجہ یہ لکھی ہے کہ محسراصحاب الفیل کی عذاب کی جگہ تھی اس وجہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہاں سے جلدنکل جاناچاہاجس کی تائیدامام شافعی رحمہ اللہ کی کتاب الام وغیرہ میں اس روایت سے بھی ہوتی ہے۔

أَنَّ عُمَرَ كَانَ یُحَرِّكُ فِی بَطْنِ مُحَسِّرٍ وَیَقُولُ: إلَیْك تَعْدُو قَلِقًا وَضِینُهَا مُخَالِفًا دَیْنَ النَّصَارَى دِینُهَا

سیدنا عمر رضی اللہ عنہ بطن محسرمیں سواری کوتیزکر دیا کرتے تھے اوریہ شعرپڑھتے تھے وہ تیری طرف دوڑرہی ہے اس حالت میں کہ اس کا تنگ ڈھیلا ہوچکا ہے اس کادین نصاریٰ کے دین کے خلاف ہے۔[27]

یعنی سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا منشاء یہ ہے کہ اے پروردگار!جس طرح ایک غلام اپنے آقاکی طرف مستعدی وسرگرمی سے بڑھتاہے اسی طرح میں بھی مستعدی اور سرگرمی کے ساتھ تیرے حضور حاضرہورہاہوں تقاضائے ادب تو یہ تھاکہ نہایت وقاروسکون کے ساتھ قدم اٹھاتاجیساکہ تونے تعلیم فرمایاہے:

۔۔۔ فَاسْعَوْا إِلَى ذِكْرِ اللَّهِ۔۔۔[28]

ترجمہ: اللّٰہ کے ذکرکی طرف مستعدی سے بڑھو ۔

لیکن میں نے ناقہ کوتیز چلا دیا ہے کہ اس وادی سے جلدنکل جاوں جس میں تونے ان نصاریٰ کو برباد کیا جو تیرا گھرڈھانے کے ارادے سے آئے تھے ، یعنی سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے ناقہ کو تیز چلانے کی دووجہیں فرمائیں ،پہلی تویہ کہ یہ عذاب کی جگہ ہے اور ایسی جگہ سے جلدنکل جانا ہی قرین تقوی ٰ ہے ،دوسرے یہ کہ اصحاب الفیل کویہاں مجبوراًرکناپڑاتھااس وجہ سے یہاں سے جلدنکل جانے میں گویاان کی مخالفت ہے، وادی محسرمیں جلدی کرناسلف کا مذہب رہاہے چنانچہ وہاں ٹھہرنا جائز نہیں ،موطا میں ہے

وَالْمُزْدَلِفَةُ كُلُّهَا مَوْقِفٌ، وَارْتَفِعُوا عَنْ بَطْنِ مُحَسِّرٍ

وادی محسرکے سواتمام ٹھہرنے کی جگہ ہے۔(موطاامام مالک كِتَابُ الْحَجِّ الْوُقُوفُ بِعَرَفَةَ وَالْمُزْدَلِفَةِ)

وَلَا یَبِیتُ أَحَدٌ مِنْ الْحَاجِّ إلَّا بِمِنًى وَمِنًى مَا بَیْنَ الْعَقَبَةِ وَلَیْسَتْ الْعَقَبَةُ مِنْ مِنًى إلَى بَطْنِ مُحَسِّرٍ وَلَیْسَ بَطْنُ مُحَسِّرٍ

اسی طرح امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں حجاج کو صرف منیٰ میں شب بسرکرنی چاہی اورمنیٰ عقبہ کے پاس اورعقبہ بطن محسرتک منیٰ میں نہیں ہے اورنہ بطن محسرمنیٰ میں ہے۔[29]

صحیح مسلم میں ہے

حَتَّى دَخَلَ مُحَسِّرًا وَهُوَ مِنْ مِنًى

یہاں تک کہ محسرمیں داخل ہوئے جومنیٰ میں ہے۔[30]

بہرحال اتناتوثابت ہے کہ بطن محسرمنیٰ سے متصل ہے، چونکہ ابرہہ کالشکرمحسرمیں تھااوروہ مکہ مکرمہ کی طرف بڑھ رہاتھاتولازماًاس کا مقدمتہ الجیش محصب میں ہوگاجہاں کنکریاں ماری جاتی ہیں اس قدرتسلیم کرلینے کے بعدیہ بات بہت لگتی ہوئی معلوم ہوتی ہے کہ یہ سنت رمیٰ عربوں کی اس سنگباری کی یادگارہے جوانہوں نے ابرہہ کے مقدمة الجیش یااس کے ہاتھیوں پرکی تھی جس کے پردے میں  اللّٰہ تعالیٰ نے آسمان سے ان پرسنگباری فرمائی۔

xیہ بات توبالاتفاق طے شدہ ہے کہ قربانی کی سنت ابراہیم علیہ السلام کی قربانی کی یادگارہے اس وجہ سے اگررمی کی اصل وہ ہوتی جوسمجھی جاتی ہے یعنی شیطان کو سنگسارکرناتو قربانی رمی سے فارغ ہونے کے بعدتیسرے یاچوتھے دن ہونی چاہیے تھی حالانکہ قربانی رمی کے پہلے ہی دن ہوتی ہے،پھرشیطان کودوسرے اورتیسرے دن کیوں سنگسار کیا جاتا ہے جبکہ ابراہیم علیہ السلام اس سے پہلے ہی شیطان کوسنگسارکرکے بیٹے کی قربانی سے فارغ اوراپنے دشمن ابلیس کے مکروفریبوں سے مامون ومحفوظ ہوچکے تھے؟ہاں اگراس کو واقعہ فیل کی یاد گار ماناجائے توتمام گتھیاں آپ سے آپ سلجھ جاتی ہیں ،ابرہہ پرپہلے روزجوسنگباری ہوئی ہوگی اس سے ایک حدتک نقصان اٹھاکروہ آگے بڑھنے سے رک گئی ہوگی اورحجاج نے منی میں واپس آکر اللّٰہ تعالیٰ کی شکرگزاری اورقربانی اورتکبیروتہلیل کے فرائض اداکیے ہوں گے لیکن ابھی دم خم باقی رہاہوگااس وجہ سے دوسرے دن ابراہہ نے پھرمکہ مکرمہ پر حملہ کرنا چاہا ہوگا لیکن حجاج نے آگے بڑھ کرپھرپتھرپھینک کر روک دیاہوگا،یہی واقعہ تیسرے روزبھی پیش آیاہوگایہاں تک کہ حجاج کی سنگباری اوردست غیب کی کارفرمائیوں نے پوری فوج کو بالکل پامال بلکہ نیست ونابود کردیا۔

xایک بات یہ بھی قابل غورہے کہ رمی کے تین دنوں میں سے پہلے دن صرف اس ستون پرکنکریاں مارتے ہیں جوعقبہ کے پاس اورتینوں ستونوں میں مکہ معظمہ سے قریب ترہے اس روز بقیہ دونوں ستونوں کوہاتھ نہیں لگاتے ،غورکریں تواس واقعہ کی فطری ترتیب کاتقاضابھی یہی معلوم ہوتاہے ،اصحاب الفیل پہلے جوش میں آکرمکہ کی طرف بڑھے ہوں گے اور مذکورہ حدتک پہنچ گئے ہوں گے لیکن جب حجاج نے پتھراؤ کرکے ان کے چہرے بگاڑدیئے ہوں گے تولازماًان کی طاقت کانشہ ہرن ہوگیاہوگاجبکہ حجاج کاجوش مدافعت اور بڑھ گیاہوگا اور حوصلہ بڑھ جانے کے سبب دوسرے دن انہوں نے اورآگے بڑھ کرمورچہ قائم کرلیاہوگا۔

xجس ستون پر پہلے روزرمی کی جاتی ہے وہ تینوں ستونوں سے بڑاہے اورفوج کے حالات کے لحاظ سے یہی ہونابھی چاہیے ،ظاہرہے کہ پہلے دن کی شکست اورپامالی نے مقدمة الجیش کے حملہ آوروں کی کافی تعدادگھٹادی ہوگی اس وجہ سے ضروری ہواکہ دوسرے ستونوں کاحجم پہلے کے مقابلہ میں کم ہوکہ واقعہ کی پوری تصویریادگارکے آئینہ میں محفوظ رہے،ان باتوں کوشیطان کے حالات سے کوئی مناسبت معلوم نہیں ہوتی،جوشیطان ابراہیم علیہ السلام کوبہکانے آیاتھااس کی یادگارمیں یہ ترتیبی تفاوت بالکل بے معنی معلوم ہوتے ہیں ۔

xپہلے اوردوسرے دن رمی کے بعدکعبہ کی طرف رخ کرکے کافی دیرتک دعاکی جاتی ہے لیکن تیسرے دن کی رمی وقوف اوردعاسے خالی ہوتی ہے ،اگریہ رمی شیطان پرہوتی تو نہ تو پہلے دودنوں میں اس درجہ اہتمام دعاکی کوئی وجہ تھی اورنہ ہی تیسرے دن بالکل ترک کرنے کی، ابراہیم علیہ السلام کے دل میں کسی قسم کاشائبہ یاتذبذب نہیں تھااگر شیطان کو سنگسار کرنے کاواقعہ سچ بھی ہے توبھی یہ بات محض لعنت اورتحقیرکے لئے ہوسکتی ہے ،ورنہ ابراہیم علیہ السلام کاقربانی کرنے کاغیرمتزلزل ارادہ تھا البتہ اگریہ رمی ابراہہ کے لشکر پر مانی جائے تو اس طویل تضرع وزاری اوراہتمام دعاکی حکمت واضح ہوجاتی ہے کیونکہ بعض روایات کے مطابق ابرہہ کی فوج تقریباًساٹھ ہزارتھی ،ایک ایسے بڑے لشکرکے مقابلہ میں  اللّٰہ تعالیٰ سے فتح ونصرت کی دعامانگنااورنہایت تضرع وزاری کے ساتھ دیرتک اس کے حضوردیرتک گڑگرانابالکل قرین عقل ہے ،اس حدتک واقعات کاسلسلہ سمجھ میں آنے کے بعدیہ بات خودبخودسامنے آجاتی ہے کہ تیسرے دن ابراہہ کی بھاری جمعیت پارہ پارہ ہوکرتتربترہوگئی توحجاج ان پربددعاکرنے سے رک گئے ہوں گے۔

xجمرہ ایسی جمعیت کوکہتے ہیں جس کواپنی شان وشوکت اورقوت پراس درجہ اعتمادہوکہ کسی دوسری جماعت سے وابستہ ہونے کی وہ ضرورت ہی محسوس نہ کرے ،اوراس کا بہترین مصداق صرف ابرہہ کالشکرہی ہوسکتاہے جوتمام قبائل سے بے نیازہوکرصرف اپنی طاقت وقوت کے بھروسہ پراہل عرب پرٹوٹ پڑاتھا اورچونکہ منی کے ستون اس کی یادگارتھے اسی وجہ سے ان کوجمرات کہاگیا۔

xابورغال جس نے ابرہہ کے لشکرگراں کوراستہ بتایاتھااس کواسی موقع پرسنگسارکیاگیاتھااوراس کے بعدبھی اہل عرب برابراس کی قبرکوسنگسارکرتے رہے مگراسلام میں ابورغال کی قبرکوسنگسارکرنابندکردیاگیاہے ،کسی مخصوص قبرکوسنگسارکرنااولاًتواسلام کی رفعت اوربلندی کے منافی ہے ،ثانیاًجب رمی جمرات واقعہ کی یادگارباقی رکھنے کے لئے کافی ہے تو پھر ابو رغال کی قبرکوسنگسارکرنے کی رسم کوباقی رکھنے کی کوئی ضرورت بھی نہیں تھی۔

الغرض  اللّٰہ نے اپنی بے شمارفوجوں سے بحرا احمرکی جانب سے بڑی بڑی زرد گوں شکاری چونچوں وا لی سیاہی مائل خاکی رنگ کی چڑیوں کے ٹڈی دل کی طرح جھنڈ کے جھنڈ کی شکل میں ایک فوج نمودار فرمائی جنہوں نے عظیم الحبثہ ہاتھیوں ، سرکش ومغرور بادشاہ ابرہہ اوراس کے لشکرکی متعفن لاشوں کاگوشت نوچ نوچ کر کھاناشروع کردیا اور اس مقدس وادی کوانسانی تعفن سے پاک کر کے  اللّٰہ کی جلال وقدرت کی ایک دوسری نشانی کامشاہدہ کرایا کیونکہ اگریہ لاشیں پڑی رہتیں توان کے تعفن کی وجہ سے مکہ ایک مدت تک کے لئے ناقابل سکونت ہوجاتا،یہ کہناکہ  اللّٰہ نے ایک بے پناہ سیلاب بھیجا جوان ہاتھیوں اورانسانی لاشوں کوبہاکر لے گیا توایسی کوئی روایت تاریخ میں نہیں ملتی اور اگر ایسا زبردست سیلاب آیابھی تھاتوکیامکہ مکرمہ کے باشندے اس کی ذد سے محفوظ رہے تھے کہ انہوں نے اس کاکوئی تذکرہ ہی نہیں کیا، اورجولشکری وادی مکہ سے بچ نکلے وہ بھی واپس اپنے گھروں کونہ پہنچ پائے بلکہ نہایت ابتری و بدحواسی میں بھاگتے ہوئے مختلف راستوں اور گھاٹوں میں بے کسی کے عالم میں گرتے اور مرتے رہے،  اللّٰہ کی طرف سے انہیں اس جنگ میں ایسی شکست فاش ہوئی کہ ان کی تمام طاقت وقوت پارہ پارہ ہو گئی ،  اللّٰہ تعالیٰ نے اس کے سرکشی اور غرورسے اٹھے ہوئے سرکو کچل ڈالا۔

قرآن مجیدنے اس واقعہ کونہایت مجمل طریقہ سے بیان کیاہے جس سے نہ تویہ معلوم ہوتاہے کہ یہ لوگ کون تھے اورکہاں سے آئے تھے ؟اورنہ ہی یہ پتہ چلتاہے کہ کعبہ کو ڈھانے کے لئے آئے تھے یاکسی اورمقصدسے آئے تھے ،اس اجمال کی وجہ یہ ہے کہ یہ نہایت مشہورواقعہ تھاحتیٰ کہ عربوں نے اسی واقعہ سے اپنی تاریخ کاآغازکیااوران کے اشعار میں بکثرت اس کاتذکرہ ہوا،ابراہہ کے ساتھ ساٹھ ہزارلشکریوں کایوں ختم ہوجاناکوئی معمولی واقعہ نہ تھااس کے بعدیمن میں ان کی طاقت بالکل ٹوٹ گئی ،اس کمزوری سے فائدہ اٹھا کرجگہ جگہ یمنی سردارعلم بغاوت لے کراٹھ کھڑے ہوئے،پھرایک یمنی سردارسیف بن ذی یزن نے ۵۷۵ء کو شاہ ایران سے فوجی مدد طلب کرلی اور ایران کی صرف ایک ہزارفوج جوچھ جہازوں کے ساتھ آئی تھی حبشی حکومت کاخاتمہ کردینے کے لئے کافی ہوگئی ،اس طرح تین چارسالوں کے اندریمن سے حبشی اقتدارکی ہمیشہ کے لیے دھجیاں اڑگئیں اوردنیامیں پہلامقدس گھرجس کی جگہ کاتعین خود اللّٰہ نے فرمایاتھا اورجو  اللّٰہ کے حکم اورکرم وتوفیق سے خشیت وتقویٰ کے ساتھ ابراہیم علیہ السلام اور اسماعیل علیہ السلام کے مقدس ہاتھوں سے  اللّٰہ کے حضورقبولیت کی نیازمندانہ اورگریہ وزاری کے ساتھ دعا کرتے ہوئے تعمیرہواتھاجوکمال اسلام کی تصویرہے ،جودین الہٰی کی اصل واساس ہے جو دنیامیں امن، توحید، خیروبرکت اور غربا پروری کا مرکز بنا  اللّٰہ کی شان وعظمت سے محفوظ رہااور قیامت تک قائم رہے گا ۔

 ولادت رحمت للعالمین

جب تک دنیانے تمدنی واجتماعی زندگی کے وہ مسائل نہیں پیداکرلئے جوساری دنیاکوایک داعی حق کی دعوت پرجمع کرنے کے لئے ضروری تھے ،اس وقت تک اللہ تعالیٰ نے الگ الگ قوموں کے اندررسولوں کابھیجناجاری رکھالیکن جب انبیاء کی تعلیم وتربیت سے قوموں کااخلاقی واجتماعی شعوراتنابیدارہوگیاکہ وہ ایک عالمگیرنظام عدل کے تحت زندگی بسرکرسکیں اوراس کے ساتھ ہی دنیاکے اجتماعی وتمدنی وسائل نے بھی اس حدتک ترقی کرلی کہ ایک ہادی کا پیغام ہدایت دنیاکے ہرگوشے میں بسہولت پہنچ سکے تواللہ تعالیٰ کی رحمت اس بات کی متقاضی ہوئی کہ وہ خاتم النبیین محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوبھیجے اوران کے ذریعہ سے لوگوں کووہ مکمل نظام زندگی عنایت فرمائے جوتمام بنی نوع انسان کے مزاج اوران کے حالات وضروریات کے بالکل مطابق ہو،چنانچہ ابراہیم علیہ السلام نے اپنی اولادکے ایک حصہ کومکہ معظمہ کی بے آب وگیاہ وادی میں جس مقصدکے لئے لابسایا تھا اورجس کے لئے خانہ کعبہ کی تعمیرکے وقت انہوں نے اور اسماعیل علیہ السلام نے رب العزت سے دعافرمائی تھی ۔

رَبَّنَا وَابْعَثْ فِیْهِمْ رَسُوْلًا مِّنْھُمْ یَتْلُوْا عَلَیْهِمْ اٰیٰـتِكَ وَیُعَلِّمُهُمُ الْكِتٰبَ وَالْحِكْمَةَ وَیُزَكِّیْهِمْ۝۰ۭ اِنَّكَ اَنْتَ الْعَزِیْزُ الْحَكِیْمُ۝۱۲۹ۧ [31]

ترجمہ:اور اے رب! ان لوگوں میں خود انہیں کی قوم سے ایک ایسا رسول اٹھائیو، جو انہیں تیری آیات سنائے، ان کو کتاب اور حکمت کی تعلیم دے اور ان کی زندگیاں سنوارے، تو بڑا مقتدر اور حکیم ہے۔

اللہ تبارک وتعالیٰ نے آپ علیہ السلام کی دعاکوقبولیت بخشااورفرمایا:

هُوَالَّذِیْ بَعَثَ فِی الْاُمِّیّٖنَ رَسُوْلًا مِّنْهُمْ یَتْلُوْا عَلَیْهِمْ اٰیٰتِهٖ وَیُزَكِّیْهِمْ وَیُعَلِّمُهُمُ الْكِتٰبَ وَالْحِكْمَةَ۝۰ۤ وَاِنْ كَانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍ۝۲ۙ [32]

ترجمہ:وہی ہے جس نے امیوں کے اندر ایک رسول خود انہی میں سے اٹھایا جو انہیں اس کی آیات سناتا ہے ان کی زندگی سنوارتا ہے، اور ان کی کتاب اور حکمت کی تعلیم دیتا ہے حالانکہ اس سے پہلے وہ کھلی گمراہی میں پڑے ہوئے تھے۔

عَنْ عِرْبَاضِ بْنِ سَارِیَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، صَاحِبِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، یَقُولُ:أَنَا دَعْوَةُ أَبِی إِبْرَاهِیمَ

عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےمیں نےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوفرماتے ہوئے سنا میں اپنے باپ ابراہیم علیہ السلام کی دعاہوں ۔[33]

اورعیسیٰ علیہ السلام نے اپنی قوم بنی اسرائیل کوچھ سوسال پہلے خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کی بشارت سنائی۔

وَاِذْ قَالَ عِیْسَى ابْنُ مَرْیَمَ یٰبَنِیْٓ اِسْرَاۗءِیْلَ اِنِّىْ رَسُوْلُ اللهِ اِلَیْكُمْ مُّصَدِّقًا لِّمَا بَیْنَ یَدَیَّ مِنَ التَّوْرٰىةِ وَمُبَشِّرًۢا بِرَسُوْلٍ یَّاْتِیْ مِنْۢ بَعْدِی اسْمُهٗٓ اَحْمَدُ۝۶ [34]

ترجمہ: اور یاد کرو عیسیٰ ابن مریم کی وہ بات جو اس نے کہی تھی کہ اے بنی اسرائیل! میں تمہاری طرف اللہ کا بھیجا ہوا رسول ہوں تصدیق کرنے والا ہوں اس توراة کی جو مجھ سے پہلے آئی ہوئی موجود ہے، اور بشارت دینے والا ہوں ایک رسول کی جو میرے بعد آئے گا جس کا نام احمد ہوگا ۔

اوریہ اہل کتاب تورات وانجیل میں اس بشارت کو لکھاہوادیکھتے ہیں ۔

اَلَّذِیْنَ یَتَّبِعُوْنَ الرَّسُوْلَ النَّبِیَّ الْاُمِّیَّ الَّذِیْ یَجِدُوْنَهٗ مَكْتُوْبًا عِنْدَهُمْ فِی التَّوْرٰىةِ وَالْاِنْجِیْلِ۝۱۵۷ۧ [35]

ترجمہ:(پس آج یہ رحمت ان لوگوں کا حصہ ہے) جو اس پیغمبر نبی امّی کی پیروی اختیار کریں جس کا ذکر انہیں اپنے ہاں تورات اور انجیل میں لکھا ہوا ملتا ہے۔

اوربنی اسرائیل کوچھوڑکرجس میں اللہ نے پے درپے رسول بھیجے ،موسیٰ علیہ السلام کی رسالت میں فرعون کی غلامی سے نجات عطافرمائی ، صحراکی ،جھلسادینے والی دھوپ سے بچنے کے لئے ابرکاسایہ مہیا فرمایا،تپتے صحرامیں پانی کے بارہ ،چشمے عنایت کئے ،صحرامیں خوراک کے لئے من وسلویٰ اتارا،ان کی رشدوہدایات کے لئے کتاب نازل فرمائی الغرض ان پربارباراحسانات کئے تھے مگروہ اپنی باربارکی نافرمانیوں ، سرکشیوں ، حدوداللہ کوتوڑنے کے سبب اپنا مقام ومنصب کھوچکی تھی جس کے سبب اللہ تعالیٰ نے ہمیشہ کے لئے ان پر ذلت ومسکنت طاری کر دی تھی ،اوردنیاکے انسانوں پراپنی بے بہارحمت نازل کرتے ہوئے اسماعیل علیہ السلام کی بعثت کے ڈھائی ہزار سال بعد یورپ ،ایشیا اور افریقہ کے تقریباًوسط میں عرب کے ریت کے اونچے اونچے ٹیلوں کے درمیان صدیوں سے آزاد، تازہ دم اورعلوم وفنون وتہذیب وتمدن سے عاری امی قوم جو سخت جہالت ، پستی وبدحالی ،جاہلانہ توہمات، وحشت و بربریت اورسرتاپادرندگی میں ڈوبے ظلمت کدہ میں قیام پذیرتھی، اوران ظلمتوں سے نکلنے کی اس کے سوا اور کوئی صورت نہ تھی کہ اللہ تبارک وتعالیٰ ان لوگوں کے درمیان دنیا کے تمام انسانوں کے لئے ڈرانے والا اوربشارت دینے والا ایک آخری پیغمبرمبعوث فرمائے جولوگوں کوکفرکی ہرصورت کاخلاف حق اورغلط ہونا سمجھا کر صراط مستقیم کو مدلل اور واضح طریقے سے بیان کرے اور اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ کتاب کواس کی اصلی اورصحیح صورت میں جوباطل کی ہرآمیزش سے پاک ہو پیش کرے، تزکیہ نفوس کرے اورکتاب وحکمت کی تعلیم دےتاکہ وہ پہلے اس سرزمین عرب اورپھریہاں سے ساری دنیا کو ظلمتوں ،گمراہیوں سے پاک کرکے اللہ سبحانہ و تعالیٰ کابابرکت نام بلندکرے ،انسانوں کے ہرطرح کے خودساختہ قوانین کو توڑ کراللہ کے قانون کے تحت کر دے ، اللہ کی زمین سے فتنہ و فسادختم کر کے عدل و انصاف قائم کرے اور بندوں کوبندوں کی غلامی سے نجات دلواکر حقیقی مساوات قائم کرکے دنیاکی سیاہ تاریخ بدل ڈالے، تاکہ انسانوں پراللہ کااتمام حجت قائم ہو جائے اورروزقیامت انسان کوئی عذر پیش ہی نہ کرسکے کہ ہماری ہدایت کا کوئی انتظام ہی نہیں کیا گیا تھا،جہاں یہود ونصاریٰ اپنی کتابوں تورات وانجیل میں آنے والے پیغمبر کی بشارت ،اسکانام اور اوصاف واحوال واضح طورپر لکھا ہوا پاتے تھے،اس لئے ایک عرصہ سے نبی آخرالزمان کا انتظار کر رہے تھے اورکفارمکہ کوڈراتے رہتے تھے کہ عنقریب جب وہ نبی آئے گاتو ہم اس کے ساتھ مل کر تمہاراقتل عام کریں گے،جہاں اس دورکے دوکاہن شقی اورسطیح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے پہلے لوگوں کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ظہور کی خبریں دیاکرتے تھے ،جہاں ایک فلسفی اورمنجم لوگوں کو ایک رسول کے مبعوث ہونے کی خبردیا کرتا تھا،

قال: كان قَیْسُ بْنُ نُشْبَةَ یتألّه فی الجاهلیة، وینظر فی الكتب فلما سمع بالنَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ قدم علیه، فقال له: أنت رَسُولَ اللَّهِ؟قال: نعم،قال: فانتسب له، فقال: أنت شریف فی قومك، وفی بیت النّبوّة، فما تدعو إلیه؟ فعرض علیه أمور الإسلام، وعرّفه ما یأمر به وینهى عنه، فقال: ما أمرت إلّا بحسن، وما نهیت إلا عن قبیح، فأخبرنی عن كحل ما هی؟ قال:السّماء، قال: فأخبرنی عن محل ما هی؟ قال: الأرض ،قال: فلمن هما؟قال:للَّه،قال: ففی أیهما هو؟قال:هو فیهما وله الأمر من قبل ومن بعد، قال : أنت صادق، وأشهد أنك رَسُولَ اللَّهِ ، فقال قیس بن نشبة

قیس بن نشبہ جو جاہلیت میں لوگوں کو ایک رسول کے مبعوث ہونے کی خبردیا کرتا تھاجب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اعلان نبوت فرمایا توخدمت میں حاضر ہوااور پوچھاکیاآپ اللہ کے رسول ہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاہاں ،کہنے لگامیں آپ سے کچھ سوالات پوچھتاہوں ،کہنے لگاآپ اپنی قوم میں سے نسب کے حوالے سے سب سے بہترہیں اورنبوت کے گھرانہ سے ہیں ،آپ کس بات کی دعوت دیتے ہیں ؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اسلام کے امورکے بارے میں بیان فرمایااورفرمایاکہ اللہ تعالیٰ نے کس بات کاحکم فرمایاہے اورکس بات سے روکاہے،وہ کہنے لگے آپ نے صحیح بات کاحکم فرمایا ہے اوربری باتوں سے روکاہے ،آپ مجھے بتلائیں کہ کحلہ کیاچیزہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا آسمان،پھراس نے پوچھامحل کیاہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایازمین، کہنے لگا یہ دونوں کس کی ملکیت ہیں ؟ فرمایااللہ کی،کہنے لگاان میں سے اس کا اختیار کہاں چلتاہے، فرمایا دونوں میں ، اللہ ہی کا اختیار ہے پہلے بھی اور بعد میں بھی،یہ سن کروہ بولاآپ نے سچ کیامیں گواہی دیتاہوں کہ آپ اللہ کے رسول ہیں ، پھرقیس نے اپنے قبول اسلام کے متعلق کچھ اشعار کہے

تَابَعْتِ دِیْنَ مُحَمَّدٍ ورضیتُه،كلَّ الرضا لأمانتی ولِدینی

ذاك امرؤ نازعته قَوْلُ العَدُوِّ،عقدت فیه یمینه بیمینی

قد كنت آمله وانظر دهره  ، فاللَّه قدّر أنّه یهدینی

أعنی ابن آمنة الأمین ومن به،  أرجو السّلامة من عذاب الهون ۔[36]

جہاں یہودیوں کاایک بڑا عالم عبداللہ رضی اللہ عنہ بن سلام بن حارث بھی تھاوہ جب مدینہ منورہ میں ایمان لے آئے تو انہوں نے بیان کیا

لَمَّا سَمِعْتُ بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عَرَفْتُ صِفَتَهُ وَاسْمَهُ وَزَمَانَهُ الّذی كنّا تتوكّف لَهُ، فَكُنْتُ مُسِرًّا لِذَلِكَ، صَامِتًا عَلَیْهِ، حَتَّى قَدِمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ الْمَدِینَةَ

میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ظہورکا سنااور میں اس سے قبل آپ کے اوصاف، اسم مبارک اور ظہور کے زمانہ کوجس کاہم انتظارکررہے تھے بخوبی جانتا تھا،مجھے آپ کے ظہورکی خبرسے بہت مسرت ہوئی لیکن میں اس مسئلہ پر خاموش رہتاتھا یہاں تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ ہجرت فرماکر آ گئے۔ [37]جہاں بہت سے لوگ حق کی تلاش میں سرگرداں تھے مگرحق ڈھونڈنے سے نہیں مل رہاتھا

أَنَّهُ كَانَ نَصْرَانِیًّا مِنْ أَهْلِ مَرِیسٍ. وَكَانَ یَقْرَأُ الإِنْجِیلَ. فَذَكَرَ أَنَّ صِفَةَ النَّبِیِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فِی الإِنْجِیلِ. وَهُوَ مِنْ ذُرِّیَّةِ إِسْمَاعِیلَ اسْمُهُ أَحْمَدُ

جہاں لوگ یہود و نصاریٰ اور اپنے کاہنوں سے اکثر سنا کرتے تھے کہ ملک عرب میں عنقریب ایک نبی صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث ہونے والا ہے جوبنی اسماعیل میں سے ہوگا جس کااسم مبارک احمد ہوگا ۔[38]

عَنْ سَعِیدِ بْنِ الْمُسَیِّبِ قَالَ: كَانَتِ الْعَرَبُ تَسْمَعُ مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ وَمِنَ الْكُهَّانِ أَنَّ نَبِیًّا یُبْعَثُ مِنَ الْعَرَبِ اسْمُهُ مُحَمَّدٌ. فَسَمَّى مَنْ بَلَغَهُ ذَلِكَ مِنَ الْعَرَبِ وَلَدَهُ مُحَمَّدًا طَمَعًا فِی النُّبُوَّةِ

سعیدبن مسیب سے مروی ہےاہل عرب اہل کتاب یہودونصاریٰ اورکہانوں سے سنتے تھے کہ عرب میں ایک نبی مبعوث ہوگاجس کااسم مبارک محمدہوگاجب اہل عرب نے یہ سنا تو نبوت کے لالچ میں اپنے بچوں کانام محمدرکھنے لگے۔[39]

مَا سَمِعُوا مِنَ الْكُهَّانِ وَالْأَحْبَارِ أَنَّ نَبِیًّا سَیُبْعَثُ فِی ذَلِكَ الزَّمَانِ یُسَمَّى مُحَمَّدًا فَرَجَوْا أَنْ یَكُونُوا هُمْ فَسَمَّوْا أَبْنَاءَهُمْ

جب لوگوں نے یہودیوں اورعیسائیوں کے علماء سے سناکہ نبی آخرالزماں مبعوث ہونے والے ہیں جن کانام محمدہوگاتو جس کویہ خبرپہنچی نبوت کے لالچ میں اپنے نومولود بچوں کے نام محمدرکھنے لگے تھے۔[40]

سَأَلْتُ مُحَمَّدَ بْنَ عَدِیِّ بْنِ رَبِیعَةَ كَیْفَ سَمَّاكَ أَبُوكَ فِی الْجَاهِلِیَّةِ مُحَمَّدًا،قَالَ سَأَلْتُ أَبِی عَمَّا سَأَلْتَنِی،فَقَالَ خَرَجْتُ رَابِعَ أَرْبَعَةٍ مِنْ بَنِی تَمِیمٍ أَنَا أَحَدُهُمْ وَسُفْیَانُ بْنُ مُجَاشِعٍ وَیَزِیدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ رَبِیعَةَ وَأُسَامَةُ بْنُ مَالِكِ بْنِ حَبِیبِ بْنِ الْعَنْبَرِ نُرِیدُ بن جَفْنَةَ الْغَسَّانِیَّ بِالشَّامِ فَنَزَلْنَا عَلَى غَدِیرٍ عِنْدَ دَیْرٍ فَأَشْرَفَ عَلَیْنَا الدَّیْرَانِیُّ ، فَقَالَ لَنَا إِنَّهُ یُبْعَثُ مِنْكُمْ وَشِیكًا نَبِیٌّ فَسَارِعُوا إِلَیْهِ،فَقُلْنَا مَا اسْمُهُ، قَالَ مُحَمَّدٌ،فَلَمَّا انْصَرَفْنَا وُلِدَ لِكُلٍّ مِنَّا وَلَدٌ فَسَمَّاهُ مُحَمَّدًا

محمدبن عدی بن ربیعہ سے پوچھاگیاکہ زمانہ جاہلیت میں آپ کے والدنے آپ کانام محمدکیسے رکھا، کہتے ہیں میں نے بھی اپنے والد سے یہی پوچھاتھاجوآپ نے پوچھاہے انہوں نے کہاہم بنی تمیم کے چارلوگ شام کے سفرمیں ایک دیر(عیسائی خانقاہ )پرپہنچے،صاحب دیر نے ہم سے کہاتمہاری قوم میں ایک آخری نبی مبعوث ہونے والاہے اس کی طرف دوڑو، ہم نے پوچھااس کانام کیاہوگا،اس نے کہامحمد،اس کے بعدہمارے ہاں جولڑکاپیداہوااس کانام محمدرکھاگیا۔[41]

 قَالَ وَهُمْ سِتَّةٌ

کچھ لوگوں نے ایسے بچوں کی تعدادجن کانام محمد تھاچھ بیان کی ہے۔ (قاضی عیاض)

بعض نے چار بیان کی ہے (عبدان المروزی)

وَقَالَ السُّهَیْلِیُّ فِی الرَّوْضِ لَا یُعْرَفُ فِی الْعَرَبِ مَنْ تَسَمَّى مُحَمَّدًا قَبْلَ النَّبِیِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ إِلَّا ثَلَاثَةٌ مُحَمَّدُ بْنُ سُفْیَانَ بْنِ مُجَاشِعٍ وَمُحَمَّدُ بْنُ أُحَیْحَةَ بْنِ الْجُلَاحِ وَمُحَمَّدُ بْنُ حُمْرَانَ بْنِ رَبِیعَةَ

سہیلی اپنی کتاب روض الانف میں لکھتے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش سے پہلے اہل عرب محمدنام نہیں رکھتے تھے مگرتین اشخاص کے نام ملتے ہیں ،محمدبن سفیان بن مجاشع،محمدبن احیحہ بن الجلاح اورمحمدبن حمران بن ربیعہ ۔

 بعض نے پندرہ اشخاص کی فہرست لکھی ہے۔[42]

أَنَّ مُحَمَّدَ بْنَ أُحَیْحَةَ بْنِ الْجُلَاحِ أَوَّلُ مَنْ تَسَمَّى فِی الْجَاهِلِیَّةِ مُحَمَّدًا

محمدبن احیحہ بن الجلاح پہلاآدمی ہے جس کاجاہلیت میں محمدنام رکھاگیا۔

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نےفتح الباری میں یہ نام بیان کیے ہیں ۔

مُحَمَّدُ بْنُ خُزَاعِیِّ بْنِ عَلْقَمَةَ      محمدبن خزاعی بن علقمہ ۔یہ نصرانی تھااورجب ابرہہ مکہ میں داخل ہواتویہ ان کے ساتھ تھا حتی کہ اس کاانتقال ہوگیا۔

مُحَمَّدُ بْنُ سُفْیَانَ بْنِ مُجَاشِعٍ

محمدبن سفیان بن مجاشع ،یہ پادری تھا۔

مُحَمَّدُ بْنُ أُحَیْحَةَ بْنِ الْجُلَاحِ

محمدبن احیحہ بن الجلاح

مُحَمَّدُ بْنُ حُمْرَانَ بْنِ رَبِیعَةَ

محمدبن حمران بن ربیعہ

مُحَمَّدُ بْنُ عَدِیِّ بْنِ رَبِیعَةَ

محمدبن عدی بن ربیعہ

مُحَمَّدَ بْنَ عَدِیِّ

محمدبن عدی

مُحَمَّدَ بْنَ عُتْوَارَةَ

محمدبن عتورہ

مُحَمَّدُ بْنُ الْیَحْمَدَ الْأَزْدِیُّ

محمدبن الیحمدالازدی

مُحَمّد بن خولی الْهَمدَانِی

  محمدبن خولی ہمدانی

مُحَمَّدُ بْنُ حِرْمَازَ بْنِ مَالِكٍ الْیَعْمُرِیُّ

محمدبن حرمازبن مالک یعمری

مُحَمَّدُ بْنُ حُمْرَانَ بْنِ أَبِی حُمْرَانَ

محمدبن حمران بن ابی حمران

مُحَمَّدَ بْنَ عُقْبَةَ بْنِ أُحَیْحَةَ

محمدبن عقبہ بن احیحہ

محمدجشعی

محمداسدی

محمدفقیمی

جہاں اس مبارک گھڑی کے آنے سے تھوڑی مدت پہلے ابرہہ ساٹھ ہزارفوج لیکراپنی تقدیرسے لڑنے آیاتھامگروہ ساٹھ ہزارنہیں ساٹھ لاکھ فوج بھی لاتاتواس کاوہی عبرت ناک انجام ہوتاجوہوا،جہاں اللہ تعالیٰ کااتنابڑامنصوبہ کام کررہاہوکہ اس مقام پروہ ہستی وجودمیں لائی جائے جودنیاکی تاریخ بدل ڈالنے والی تھی ،جوتمام نبوتوں کی آخری اور سب سے بڑی نبوت تھی اورجس کے لئے ڈھائی ہزاربرس پہلے سے تیاری کی جارہی تھی ،وہاں کوئی بڑی سے بڑی انسانی طاقت بھی اللہ کی طاقت سے ٹکراکرپاش پاش ہوئے بغیر نہیں رہ سکتی تھی،بنی اسماعیل کے سب سے بلندمرتبہ خاندان بنوہاشم میں ، علامہ سید محمدسلیمان منصور پوری اورمحمودپاشافلکی کی تحقیق کے مطابق موسم بہارمیں اصحاب الفیل کے بیت اللہ پرحملہ کے پچاس دن بعد بروز سوموار فجرکے وقت نو ربیع الاول، عام الفیل ۱ ، بمطابق بائیس اپریل۵۷۱ء کومکہ مکرمہ میں مقام سوق اللیل کے اس مکان میں جو حجاج بن یوسف کے بھائی محمدبن یوسف ثقفی کا مکان کہلاتا تھا ایک خورشیدتاباں پیدافرمایا،

عَنْ أَبِی جَعْفَرٍ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِیٍّ قَالَ:وُلِدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یوم الاثْنَیْنِ لِعَشْرِ لَیَالٍ خَلَوْنَ مِنْ شَهْرِ رَبِیعٍ الأَوَّلِ وَكَانَ قُدُومُ أَصْحَابِ الْفِیلِ قَبْلَ ذَلِكَ لِلنِّصْفِ مِنَ الْمُحَرَّمِ. فَبَیْنَ الْفِیلِ وَبَیْنَ مَوْلِدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ خَمْسٌ وَخَمْسُونَ لَیْلَةً

ابوجعفرمحمدبن علی فرماتے ہیں ماہ ربیع الاول کی دس راتیں گزریں تھیں کہ پیرکے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پیداہوئے،اصحاب فیل اس سے دس ماہ پہلے محرم میں آچکے تھے لہذارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت اورواقعہ فیل کے درمیان پچپن راتیں گزرچکی تھیں ۔

قَالَ: وَأَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُمَرَ قَالَ: كَانَ أَبُو مَعْشَرٍ نَجِیحٌ الْمَدَنِیُّ یقول: ولدرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یوم الاثْنَیْنِ للیلتین خلتا مِنْ شَهْرِ رَبِیعٍ الأَوَّلِ

محمدبن عمرکہتے ہیں ابومعثرنجیح المدنی کہا کرتے تھے ماہ ربیع الاول کی دوراتیں گزری تھیں کہ پیرکے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پیداہوئے۔[43]

قَالَ ابْنُ إسْحَاقَ: وُلِدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَوْمَ الِاثْنَیْنِ، لِاثْنَتَیْ عَشْرَةَ لَیْلَةً خَلَتْ مِنْ شَهْرِ رَبِیعٍ الْأَوَّلِ، عَامَ الْفِیلِ

محمدبن اسحاق کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پیرکے روزبارہویں ربیع الاول کوپیداہوئےجس سال اصحاب فیل نے مکہ معظمہ پرلشکرکشی کی تھی۔[44]

فَیَزْعُمُونَ أَنَّ عَبْدَ الْمُطَّلِبِ أَخَذَهُ، فَدَخَلَ بِهِ الْكَعْبَةَ، فَقَامَ یَدْعُو اللَّهَ، وَیَشْكُرُ لَهُ مَا أَعْطَاهُ

جب آپ کی پیدائش کاوقت ہوا تو عبدالمطلب جنہوں نے خود یتیمی میں زندگی بسر کی تھی ساری رات طواف بیت  اللّٰہ میں مشغول رہے، صبح کے وقت جب ان کواپنے مرحوم اورپیارے بیٹے عبداللہ کی نسل جاری ہونے کی خوشخبری ملی تواسی لمحے خوشی خوشی گھر بھاگے چلے آئے ، گھرآکریتیم پوتے کودونوں ہاتھوں پر اٹھاکر بیت  اللّٰہ میں لے گئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے دعائے خیراور فتنہ وفساد اورہر طرح کے شرسے بچاؤ کی دعا مانگی اوراللہ تعالیٰ نے جو عطا فرمایااس کے لیے شکراداکیا۔[45]

ثویبة التی أعتقها عمه أبو لهب حین بشرته به كانت ثُوَیْبَةُ الأسْلَمِیَّة مَوْلَاةُ أَبِی لَهَبٍ فأَعْتَقَهَا

آپ کی پیدائش کی خوشخبری آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچاعبدالعزیٰ( ابولہب )تک ان کی لونڈی ثویبہ نے پہنچائی ، بھتیجے کی پیدائش پر وہ بہت خوش ہوا اوراسی خوشی میں اسے آزاد کردیا۔[46]

أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وُلِدَ یَوْمَ الِاثْنَیْنِ وَكَانَتْ ثُوَیْبَةُ بَشَّرَتْ أَبَا لَهَبٍ بِمَوْلِدِهِ فَأَعْتَقَهَا

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سوموار کے روزپیداہوئے ،ثویبہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش کی خوشخبری ابولہب تک پہنچائی تواس نے اسے آزادکردیا۔[47]

اختلف فی إسلامها

ان کے اسلام قبول کرنے یانہ کرنے میں اختلاف ہے۔

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُمَا: أَنَّ عَبْدَ الْمُطَّلِبِ خَتَنَ النَّبِیَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَوْمَ سَابِعِهِ، وَصَنَعَ لَهُ مَأْدُبَةً وَسَمَّاهُ مُحَمَّدًا

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہےساتویں دن دادا عبدالمطلب نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عقیقہ میں ایک دنبہ ذبح کیا آپ کاختنہ کیا (جو بقایائے ابراہیمی میں سے تھااورزمانہ جاہلیت میں عربوں میں رائج تھا)اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کانام محمدؑ رکھا۔[48]

جو عربوں میں آشناتوتھامگر معروف نہ تھا، قریش نے تعجب سے کہاآپ نے مشہورخاندانی نام چھوڑکریہ جداگانہ نام کیوں رکھا؟توانہوں نے جواب دیامیری تمناہے اللہ تعالیٰ آسمانوں میں اورساری مخلوق زمین میں اس کی تعریف وستائش کرے۔[49]

ایک روایت میں ہےقریش نے تعجب سے کہایہ آپ نے کیسانام رکھاہے ایسا نام توآپ کے آباء واجدادمیں کسی کانہیں تھاتو عبدالمطلب نے جواب دیامجھے امیدہے کہ میرے پوتے کی مدح وثناساری دنیاکرے گی۔

کئی ایک احادیث میں مذکورہے کہ والدہ محترمہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کانام احمدرکھا،

علی بن أبی طالب. ع. یقول:قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:سُمِّیتُ أَحْمَدَ

ابن سعدنے حسن سندکے ساتھ سیدناعلیٰ سے روایت کیاہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میرانام احمدرکھاگیاتھا۔[50]

قرآن مجیدمیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کااسم گرامی محمد چارمرتبہ ذکرکیاگیاہے۔

وَمَا مُحَمَّدٌ اِلَّا رَسُوْلٌ۝۰ۚ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ۔۔۔۝۰۝۱۴۴ [51]

ترجمہ:محمد اس کے سوا کچھ نہیں کہ بس ایک رسول ہیں ، ان سے پہلے اور رسول بھی گزر چکے ہیں ۔

مَا كَانَ مُحَمَّدٌ اَبَآ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِكُمْ وَلٰكِنْ رَّسُوْلَ اللهِ وَخَاتَمَ النَّـبِیّٖنَ۔۔۔۝۰۝۴۰ۧ [52]

ترجمہ:(لوگو) محمد صلی اللہ علیہ وسلم تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں مگر وہ اللہ کے رسول اور خاتم النبیین ہیں ۔

مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللهِ۝۰ۭ وَالَّذِیْنَ مَعَهٗٓ اَشِدَّاۗءُ عَلَی الْكُفَّارِ رُحَمَاۗءُ بَیْنَهُمْ تَرٰىهُمْ رُكَّعًا سُجَّدًا یَّبْتَغُوْنَ فَضْلًا مِّنَ اللهِ وَرِضْوَانًا۝۰ ۡ سِیْمَاهُمْ فِیْ وُجُوْهِهِمْ مِّنْ اَثَرِ السُّجُوْدِ۔۔۔ ۝۲۹ۧ [53]

ترجمہ:محمد اللہ کے رسول ہیں ، اور جو لوگ ان کے ساتھ ہیں وہ کفار پر سخت اور آپس میں رحیم ہیں ، تم جب دیکھو گے انہیں رکوع و سُجود ، اور اللہ کے فضل اور اس کی خوشنودی کی طلب میں مشغول پاؤ گے، سُجود کے اثرات ان کے چہروں پر موجود ہیں جن سے وہ الگ پہچانے جاتے ہیں ۔

وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَاٰمَنُوْا بِمَا نُزِّلَ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّهُوَالْحَقُّ مِنْ رَّبِّهِمْ۝۰ۙ كَفَّرَ عَنْهُمْ سَـیِّاٰتِهِمْ وَاَصْلَحَ بَالَهُمْ۝۲ [54]

ترجمہ:اورجولوگ ایمان لائے اور انہوں نے نیک عمل کیے اوراس چیزکومان لیا جو محمد پر نازل ہوئی ہےاورہے وہ سراسرحق ان کے رب کی طرف سے، اللہ ان کی برائیاں ان سے دورکردیں اور ان کا حال درست کردیا۔

اوراسم احمدایک مرتبہ بیان کیاگیاہے۔

وَاِذْ قَالَ عِیْسَى ابْنُ مَرْیَمَ یٰبَنِیْٓ اِسْرَاۗءِیْلَ اِنِّىْ رَسُوْلُ اللهِ اِلَیْكُمْ مُّصَدِّقًا لِّمَا بَیْنَ یَدَیَّ مِنَ التَّوْرٰىةِ وَمُبَشِّرًۢا بِرَسُوْلٍ یَّاْتِیْ مِنْۢ بَعْدِی اسْمُهٗٓ اَحْمَدُ۝۰ۭ فَلَمَّا جَاۗءَهُمْ بِالْبَیِّنٰتِ قَالُوْا هٰذَا سِحْــرٌ مُّبِیْنٌ۝۶ [55]

ترجمہ:جب عیسیٰ ابن مریم نے کہااے بنی اسرائیل!بلاشبہ میں تمہاری طرف اللہ کارسول ہوں ،اس کی تصدیق کرنے والاہوں جومجھ سے پہلے تورات کی صورت میں ہے اورایک رسول کی بشارت دینے والاہوں جومیرے بعدآئے گااس کانام احمد(بہت زیادہ حمدکرنے والا)ہے ،پھرجب وہ ان کے پاس واضح نشانیاں لے کرآیاتوانہوں نے کہایہ کھلاجادوہے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کےاس کے علاوہ دیگرناموں سے بھی معروف تھے۔

حَدَّثَنِی مُحَمَّدُ بْنُ جُبَیْرِ بْنِ مُطْعِمٍ، عَنْ أَبِیهِ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، یَقُولُ: إِنَّ لِی خَمْسَةَ أَسْمَاءَ: أَنَا مُحَمَّدٌ، وَأَنَا أَحْمَدُ، وَأَنَا الْمَاحِی الَّذِی یَمْحُو اللهُ بِیَ الْكُفَّارَ، وَأَنَا الْحَاشِرُ الَّذِی یُحْشَرُ النَّاسُ عَلَى قَدَمَیَّ، وَأَنَا الْعَاقِبُ

جبربن مطعم رضی اللہ عنہ اپنے والدسے روایت کرتے ہیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوفرماتے ہوئے سنامیرے پانچ نام ہیں میں محمدہوں ،احمد ہوں ، ماہی ہوں جس کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ کفرکومٹائے گا،میں حاشرہوں جس کے قدموں (کے نشانات)پرلوگوں کواکٹھاکیاجائے گا،میں عاقب (آخری نبی)ہوں ،

وَالْعَاقِبُ لَیْسَ بَعْدَهُ نَبِیٌّ

راوی حدیث زہری رحمہ اللہ کہتے ہیں عاقب سے مراد یہ ہے کہ آپ کے بعدکوئی نبی نہیں آئے گا۔[56]

ابن سعدکی حدیث میں ایک اورنام خاتم کااضافہ ہے،

 عَنْ جَابِرٍ قَالَ:سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَقُولُ: إِنِّی خَاتَمُ

جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنامیں خاتم الانبیاء ہوں [57]

امام مسلم رحمہ اللہ نے دواورنام بھی روایت کیے ہیں ،

عَنْ أَبِی مُوسَى الْأَشْعَرِیِّ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یُسَمِّی لَنَا نَفْسَهُ أَسْمَاءً، فَقَالَ:أَنَا مُحَمَّدٌ، وَأَحْمَدُ، وَالْمُقَفِّی، وَالْحَاشِرُ، وَنَبِیُّ التَّوْبَةِ، وَنَبِیُّ الرَّحْمَةِ

ابوموسی اشعری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے کئی نام ہم سے بیان فرماتے تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایامیں محمدہوں ،میں احمدہوں ،میں مقفی (یعنی عاقب)ہوں اورمیں حاشرہوں اورنبی التوبةہو ں اورنبی الرحمة ہوں ۔ [58]

امام ترمذی رحمہ اللہ نے نبی الملاحم کااضافہ کیا ہے،

عَنْ حُذَیْفَةَ، فقال:أَنَا مُحَمَّدٌ، وَأَحْمَدُ ، وَنَبِیُّ الرَّحْمَةِ، وَنَبِیُّ التَّوْبَةِ، وَالْحَاشِرُ، وَالْمُقَفِّی، وَنَبِیُّ الْمَلَاحِمِ

حذیفہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایامیں محمدہوں ،اورمیں احمدہوں اورمیں نبی الرحمة ہوں اورنبی التوبةہوں اورمیں المقفی ہوں اورمیں حاشرہوں اورنبی الملاحم ہوں ۔[59]

[1] ابن سعد۷۳؍۱

[2] تفسیرابن کثیر ۴۸۳؍۸

[3] ابن سعد۷۳؍۱

[4] المفصل فى تاریخ العرب قبل الإسلام۲۰۰؍۶،تفسیرابن ابی حاتم ۱۹۴۸۱، الدرالمنثورفی التفسیر بالماثور۶۲۷؍۸

[5] تاریخ طبری۱۳۶؍۲

[6] ابن سعد۷۴؍۱

[7] تفسیرطبری۶۱۳؍۲۴

[8] ابن ہشام۵۳؍۱

[9] تفسیرابن کثیر ۴۸۸؍۸

[10] دیوان امرِئ القیس۱۴۹؍۱

[11] تفسیرابن کثیر ۴۸۸؍۸

[12] الحیوان۱۱۸؍۷

[13] معالم مكة التأریخیة والأثریة۳۰۵؍۱

[14] الحیوان۱۱۹؍۷

[15] الحیوان۱۱۹؍۷

[16] تفسیرطبری۶۱۴؍۲۴

[17] الحیوان۱۱۹؍۷

[18] الحیوان۱۱۹؍۷

[19] الحیوان۱۱۹؍۷

[20] القمر۳۴

[21] الحیوان۴۸۴؍۶

[22]تفسیرالزمحشری الكشاف عن حقائق غوامض التنزیل۵۵؍۴

[23]تاریخ طبری۲۷۶؍۱

[24]تاریخ طبری۲۷۶؍۱

[25] تفسیرابن کثیر ۳۱؍۷

[26]تفسیرابن کثیر ۲۹؍۷

[27] الام للشافعی ۲۳۴؍۲

[28] الجمعة۹

[29] الام للشافعی ۲۳۶؍۲

[30] صحیح مسلم كِتَابُ الْحَجِّ بَابُ اسْتِحْبَابِ إِدَامَةِ الْحَاجِّ التَّلْبِیَةَ حَتَّى یَشْرَعَ فِی رَمْیِ جَمْرَةِ الْعَقَبَةِ یَوْمَ النَّحْرِ۳۰۸۹

[31] البقرة ۱۲۹

[32] الجمعة۲

[33] مستدرک حاکم ۳۵۶۶،الخصائص الکبری ۱۶؍۱،تاریخ طبری ۱۶۱؍۲،ابن ہشام ۱۶۶؍۱،الروض الانف ۱۰۸؍۲،عیون الآثر۴۳؍۱،ابن سعد۱۱۹؍۱،البدایة والنھایة۳۳۵؍۲

[34] الصف۶

[35] الاعراف۱۵۷

[36] الإصابة فی تمییز الصحابة۳۸۲؍۵

[37] ابن ہشام۵۱۶؍۱،روض الانف ۲۰۳؍۴

[38] ابن سعد۸۳؍۱

[39] ابن سعد۱۳۴؍۱

[40] فتح الباری۵۵۶؍۶

[41] فتح الباری۵۵۶؍۶

[42] فتح الباری۵۵۶؍۶

[43] ابن سعد۷۹؍۱

[44] ابن ہشام۱۵۵؍۱

[45] ابن ہشام۱۵۸؍۱

[46] التحفة اللطیفة فی تاریخ المدینة الشریفة۸؍۱

[47] فتح الباری ۱۴۵؍۹

[48] السیرة النبویة وأخبار الخلفاء لابن حبان۵۸؍۱،تاریخ الإسلام ووفیات المشاهیر والأعلام۲۷؍۱

[49] فتح الباری ۱۵؍۳

[50] ابن سعد۸۳؍۱

[51] آل عمران۱۴۴

[52] الاحزاب۴۰

[53] الفتح ۲۹

[54]محمد ۲

[55] الصف۶

[56] شعب الایمان۱۳۳۴

[57] ابن سعد۱۵۱؍۱،صحیح مسلم كتاب الْفَضَائِلِ بَابٌ فِی أَسْمَائِهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ ۶۱۰۵

[58] صحیح مسلم كتاب الْفَضَائِلِ بَابٌ فِی أَسْمَائِهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ ۶۱۰۸

[59] الشمائل المحمدیة للترمذی۳۶۱،مسنداحمد۲۳۴۴۵،شرح السنة للبغوی۳۶۳۱

Related Articles