مکہ: قبل از بعثتِ نبوی ﷺ

جنگ فجار( ۵۸۰ ء تا ۵۹۰ ء)

پہلی جنگ:جوبنوکنانہ اوربنوہوزان کے درمیان ہوئی جنہیں قیس عیلان بھی کہا جاتاہے۔

دوسری جنگ:جوفجارقریش اوربنوکنانہ کے درمیان ہوئی۔

تیسری جنگ:جوفجاربنوکنانہ اوربنونصر بن معاویہ کے درمیان ہوئی۔

چوتھی جنگ:عرب میں قبل ازاسلام تک جنگ وجدل کاسلسلہ جاری تھامعمولی باتوں پرجنگ شروع ہوجاتی اورختم ہونے کانام نہ لیتی،لیکن چوتھی حرب فجارسب سے زیادہ خطرناک اورمشہور جنگ تھی، یہ حرب ماہ الحرام شوال بیس عام الفیل میں قریش اورقیس عیلان جن میں قبیلہ ثقیف اورہوزان بھی شامل تھے کے درمیان ہوئی۔[104]

اس سے بیشترتین مرتبہ جنگ فجارماہ حرام میں برپا ہو چکی تھیں ،کیونکہ یہ جنگ بھی ماہ الحرام برپاہوئی تھی اورماہ حرام میں جنگ کرنافجورہے جس کی بناپر قریش نے کہا قد فجرناہم نے فجورکا ارتکاب کیاہے اس لئے اس جنگ کو قریش نے جنگ فجارکانام دیا ،اس جنگ کاسبب یہ ہواکہ عروہ الرحال نامی سردارجو بنی ہوزان میں سے تھا نے حیرا کے فرماروا نعمان بن منذرکے تجارتی قافلہ کواپنی امان میں عکاظ کے میلے میں جوماہ ذی الحجہ میں منعقدہوتاتھاجانے کے لئے راہ گزر عطا کر دی تھی اورقافلہ نے اورات نامی کنویں کے قریب پڑاؤ ڈال دیاتھا،بنی کنانہ کے ایک سرداربراص بن قیس نے کہاکیاتوکنانہ کے مقابلہ میں بھی اس کوامان دے رہاہے ، عروہ الرحال نامی سردارنے کہا ہاں اورتمام دنیاکے مقابلہ میں بھی ،یہ بات کنانی سرداربراص بن قیس کے لئے ناقابل برداشت تھی ،اس نے غصہ میں آپے سے باہرہوکرنجدکے بالائی علاقہ میں تمین کے مقام پر عروہ بن عتبہ کوجو حیرا کے فرماروا نعمان بن منذرکامال تجارت لے کرعکاظ کے بازارمیں آیاتھاقتل کردیااورپھر خیبربھاگ گیااوروہیں چھپا رہا ، خیبر میں وہ بشیربن ابی خازم اسدی شاعر سے ملا اور اسے واقعہ کی اطلاع دی اوراسے کہاکہ وہ جاکرعبد اللّٰہ بن جدعان،ہشام بن مغیرہ،حرب بن امیہ ،نوفل بن معاویہ دیلی اوربلعاء بن قیس کواس واقعہ کی خبر دے دے،اس نے عکاظ کے میلہ میں جوسب سے بڑاتجارتی میلہ تھاپہنچ کراس واقعہ کی خبرسب تک پہنچادی،خون خرابہ کے خطرے کے پیش نظریہ لوگ پناہ لینے کے لئے فوراًبیت  اللّٰہ کی طرف روانہ ہوگئے، قبیلہ قیس کواس واقعہ کی خبرشام کوہوئی،ابوبراجوقبیلہ ہوزان کاسردارتھانے کہاکہ قریش نے دھوکہ دیا چنانچہ یہ لوگ بھی بدلہ لینے کے لئے فوراًقریش کے پیچھے روانہ ہو گئے مگر ان کے پہنچتے تک قریش بیت  اللّٰہ میں داخل ہوچکے تھے،یہ دیکھ کراورم بن شعیب جوقبیلہ بنو عامر سے تھاقریش کو با بلند آوازپکارکرکہاکہ اب توتم بیت  اللّٰہ میں پناہ لے چکے ہو مگراب ہمارا تمہارامقابلہ آئندہ سال انہی عکاظ کے میلے کے دنوں میں ہوگا اورہم تم پرچڑھائی کرنے میں کوئی کمی نہیں کریں گے ،یہ کوئی معمولی واقعہ نہ تھاچنانچہ اس واقعہ کی وجہ سے اس سال عکاظ کامیلہ بھی منعقدنہ ہوسکا،اعلان جنگ کے بعد قریش نے بھی کنانہ کاساتھ دینا مناسب سمجھ کر جنگ کی تیاری شروع کردی،فریقین پورے ایک سال تک جنگی تیاریوں میں مصروف رہے ،جب وقت جنگ آگیاتوسرداران قریش عبد اللّٰہ بن جدعان ، ہشام بن مغیرہ ، حرب بن امیہ ، سعیدبن عاص ،عتبہ بن ربیعہ ،عاص بن وائل ،معمر بن حبیب جحی ،عکرمہ بن عامربن ہاشم بن عبدمناف بن عبدالدارسب اپنی اپنی کمان میں لڑنے والے افرادجمع کرکے آگئے مگران کی کوئی متفقہ کمان نہ تھی ،ایک روایت میں ہے کہ ان کی کمان حرب بن امیہ کے ہاتھ میں تھی ،ایک روایت ہے کہ عبد اللّٰہ بن جدعان کے ہاتھ میں کمان تھی ،دوسری طرف اپنی اپنی قوم کے سردار ابوبراء عامربن مالک بن جعفر،سبیع ،ربیعہ بن معاویہ نضری ،دریدبن صمہ ،مسعودبن معتب ،ابوعروہ بن مسعود،عوف بن ابی حارثہ ،عباس بن رعل سلمی اپنے جنگجووں کولے کرقیس بن عیلان کے ساتھ نکلے، روایت ہے کہ ان سب کی مشترکہ کمان ابوبراء کے ہاتھ میں تھی ،اس لئے اسی کے ہاتھ میں جنگ کاعلم تھااوراس نے جنگ کی صف بندی کی ،چونکہ قریش اس جنگ میں حق بجانب تھے قبیلہ کی عزت و ناموس اورنگ وعارکامعاملہ تھااس لئے رسول  اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی جب ان کی عمرمبارک بیس برس تھی اور آپ جنگ کی عمرکوپہنچ چکے تھے، اپنے چچاؤ ں کے ہمراہ اس جنگ میں پہلی مرتبہ حصہ لیاآپ صلی اللہ علیہ وسلم کادامن جاہلیت کی لڑائیوں سے پاک وصاف تھااس سے قبل آپ کوکسی جنگ کاتجربہ نہ تھامگردورنبوت کے غزوات میں آپ سے جوعظیم قائدانہ صلاحیتیں ظاہر ہوئیں وہ سراسر خداداد تھیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم پیشہ ورسپہ سالارنہیں بلکہ پیدائشی سپہ سالارتھے،یہ جنگ شوال۲۰ عام الفیل کوہوئی تھی،

فَلَمَّا بَلَغَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَرْبَعَ عَشْرَةَ سَنَةً أَوْ خَمْسَ عَشْرَةَ سَنَةً

ایک روایت ہے جب حرب فجار واقع ہوئی آپ صلی اللہ علیہ وسلم چودہ پندرہ سال کے تھے۔[105]

هَاجَتْ حَرْبُ الْفجارِ وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ ابْنُ عِشْرِینَ سَنَةً

ایک روایت ہےجب جنگ فجاربرپاہوئی آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت بیس سال کے تھے۔[106]

مگرکسی پرہاتھ نہیں اٹھایایعنی خودجنگ نہیں کی، اور صرف اپنے چچاؤ ں کوتیرنکال نکال کر دیتے رہے ،جب جنگ شروع ہوئی توابتدامیں قبیلہ قیس اورکنانہ کوقبیلہ ہوزان اوران کے رفقاء کے مقابلے میں شکست ہوئی مگر انہوں نے ہمت نہیں ہاری اورگھمسان کا رن جاری رکھاجس کانتیجہ یہ نکلاکہ دن کے آخرمیں قیس کے مقابلہ میں قریش اورکنانہ کوشکست فاش ہوئی اورقریش وکنانہ کے افراد کو بے دردی سے قتل کیاگیا،اپنی قوم کوبے دردی سے قتل ہوتادیکھ کرعتبہ بن ربیعہ جواس وقت تیس سال سے بھی کم عمرنوجوان تھے انہوں نے صلح کانعرہ لگایا،اوراس شرط پرصلح ہوگئی کہ قریش قبیلہ قیس کے مقتولین کاخون بہاادا کریں اورقریش کے مقتولین کاخون بہاادانہیں کیاجائے گا چنانچہ جنگ کاخاتمہ ہوااورفریقین واپس اپنے اپنے ٹھکانوں کی طرف لوٹ گئے، اور بالآخریہ جنگ شوال میں صلح پرختم ہوئی،

قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَذَكَرَ الْفِجَارَ فَقَالَ: قَدْ حَضَرْتُهُ مَعَ عُمُومَتِی وَرَمَیْتُ فِیهِ بَأْسَهُمٍ وَمَا أُحِبُّ أَنِّی لَمْ أَكُنْ فَعَلْتُ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں اپنے چچاؤ ں کے ہمراہ اس جنگ میں شریک تھا اورکچھ تیربھی پھینکے تھے مگرمیری دلی خواہش یہی تھی کہ ایسانہ کروں ۔[107]

حلف الفضول(پاکیزہ لوگوں کاحلف)

عرب میں ان معمولی معمولی باتوں پرطویل جنگوں نے سینکڑوں گھرانے تباہ وبربادکردیئے تھے ، جس کی وجہ سے قتل وسفاکی اورحق تلفی عربوں کے موروثی اخلاق بن گئے تھے، جنگ فجارمیں توبہت سے لوگ لقمہ اجل بن گئے ، ،ایک واقعہ کے باعث بعض سلیم الطبع اورصلح جوحضرات میں اصلاح کی تحریک پیداہوئی،

كان سببه أنرَجُلًا مِنْ زُبَیْدٍ قَدِمَ مَكَّةَ بِبِضَاعَةٍ فَاشْتَرَاهَا مِنْهُ الْعَاصُ بْنُ وَائِلٍ فَحَبَسَ عَنْهُ حَقَّهُ،فَاسْتَعْدَى عَلَیْهِ الزُّبَیْدِیُّ الْأَحْلَافَ عَبْدَ الدَّارِ وَمَخْزُومًا وجمحاً وَسَهْمًا وَعَدِیَّ بْنَ كَعْبِ فَأَبَوْا أَنْ یُعِینُوا عَلَى الْعَاصِ بْنِ وَائِلٍ وَزَبَرُوهُ – أَیِ انْتَهَرُوهُ،فَلَمَّا رَأَى الزُّبَیْدِیُّ الشَّرَّ أَوْفَى عَلَى أَبِی قُبَیْسٍ عِنْدَ طُلُوعِ الشَّمْسِ وَقُرَیْشٌ فِی أَنْدِیَتِهِمْ حَوْلَ الْكَعْبَةِ فَنَادَى بِأَعْلَى صَوْتِهِ: یَا آلَ فِهْرٍ لِمَظْلُومٍ بِضَاعَتُهُ بِبَطْنِ مَكَّةَ، فَقَامَ فِی ذَلِكَ الزُّبَیْرُ بْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ وَقَالَ: مَا لِهَذَا مُتْرَكٌ فَاجْتَمَعَتْ هَاشِمٌ وَزُهْرَةُ وَتَیْمُ بْنُ مُرَّةَ فِی دَارِعَبْدِ اللَّهِ بْنِ جُدْعَانَ فَصَنَعَ لَهُمْ طَعَامًا

واقعہ یہ پیش آیاکہ عرب کے لوگ یمن سے تجارتی مراسم رکھتے تھے وہاں کے شہرزبیدسے ایک شخص اپنامال فروخت کرنے مکہ آیااس کاسارامال عاص بن وائل نے جومکہ کاایک صاحب حیثیت اور بااقتدار رئیس تھانے خرید لیامگراپنے اقتدارکے زعم میں اس زبیدی کورقم دینے سے انکارکردیا،زبیدی نے قریش کے قبائل بنوعبدالدار،بنومخزوم ، بنوجمح،بنوسہم اوربنوعدی بن کعب سے جوایک دوسرے کے حلیف تھے عاص بن وائل سے اپناحق حاصل کرنے کے لئے مددمانگی مگرانہوں نے عاص بن وائل کے خلاف اس زبیدی کوجھڑک کراس کی مددکرنے سے انکار کردیا، جب زبیدی وہاں سے مایوس ہوگیا توصبح کے وقت جس وقت قریش بیت  اللّٰہ میں اپنی محفلیں لگائے بیٹھے تھے ، وہ مکہ کے قریبی پہاڑابوقبیس پرچڑھ گیا اور بلند آواز سے آل فہرکوپکارکراپنے مظلوم اورستم رسیدہ ہونے کے بارے میں پرسوزاندازسے کچھ شعرکہے ،بلاشبہ جنگ وقتل ،سفاکی ،ظلم وستم اورحق تلفی عربوں کے موروثی اخلاق بن چکے تھے جس کی بناپروہ درندوں جیسی زندگی گزاررہے تھے،اگرچہ وہ اپنے افعال واعمال میں ہرگزمتمدن نہیں تھے، مگران کی شرست، جبلت اورفطرت میں ان کے علاوہ کچھ اورپسندیدہ جواہرکمالات بھی چھپے ہوئے تھے مگر بے محل صرف ہورہے تھے،اس لئے ایک مظلوم کی پکارسن کرفوراًتڑپ اٹھے ، اس زبیدی کے پرسوزکلام نے رسول  اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچازبیربن عبدالمطلب کادل گرمادیاانہوں نے کہا یہ معاملہ اس طرح نہیں چھوڑاجاسکتایہ ذیقعد ہ (حرمت والامہینہ) ۲۰ عام الفیل تھا،زبیربن عبدالمطلب نے اپنے حلیف قبائل بنوہاشم ،زہرہ اور تیم بن مرہ کواس طرح کی ظلم کے خلاف غیرت دلائی ، چنانچہ تینوں قریشی قبائل ، عبد اللّٰہ بن جدعان جس کی کنیت ابوزہیرتھی اور ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کاچچا زاد بھائی تھا قبیلہ تیم سے تعلق رکھتاتھا جو بڑافیاض ، بھوکوں کوکھاناکھلانے والا،بڑامہمان نواز غلاموں کو خرید کرآزادکرنے والاتھا(صہیب رومی کوانہوں نے ہی خریدکرآزادکردیاتھا) کے گھرجمع ہوئے،عبد اللّٰہ بن جدعان نے ان کے لئے بڑی پرتکلف دعوت کااہتمام کیا ، کھانے سے فراغت کے بعدسب نے کھڑے ہوکربیک زبان یہ معاہدہ کیا ۔

أَلَّا یُقِیمَ بَبَطْنِ مَكَّةَ ظَالِمُ أَمْرٌ عَلَیْهِ تَعَاقَدُوا وَتَوَاثَقُوا

اس روزکے بعدمکے میں کسی کاظلم برداشت نہیں کیاجائے گااورہر مظلوم کی داررسی اورظالم کوسزادی جائے گی۔[108]

فَتَعَاقَدُوا وَتَعَاهَدُوا بِاللَّهِ الْقَائِلِ: لَنَكُونَنَّ مَعَ الْمَظْلُومِ حَتَّى یُؤَدَّى إِلَیْهِ حَقُّهُ مَا بَلَّ بَحْرٌ صُوفَةً. وَفِی التَّآسِی فِی الْمَعَاش

سب نے اللہ تعالیٰ کوبیچ میں ڈال کران لفظوں میں عہدکیاجب تک دریاصوف کے بھگونے کی شان باقی ہے ہم مظلوم کاساتھ دیں گے ،یہاں تک کہ اس کاحق اداکیاجائے اورمعاش میں ہم(اس کی)خبرگیری وغم خواری بھی کریں گے۔[109]

وَتَعَاهَدُوا بِاَللهِ لَیَكُونَنّ یَدًا وَاحِدَةً مَعَ الْمَظْلُومِ عَلَى الظّالِمِ حَتّى یُؤَدّى إلَیْهِ حَقّهُ مَا بَلّ بَحْرٌ صُوفَةَ وَمَا رَسَا حِرَاءٌ وَثَبِیرٌ مَكَانَهُمَا

انہوں نے اللہ کوبیچ میں رکھ کرمعاہدہ کیاکہ جب تک دریاصوف میں بھگونے کی شان باقی ہےہم سب مظلوم کی مددکے لئے ظالم کے خلاف ایک ہاتھ کی طرح متحدرہیں گے اورجب تک ظالم سے مظلوم کاحق نہیں لیں گے چین سے نہیں بیٹھیں گے۔ [110]

 اجتمعوا فاحتلفوا لا یدعوا أحدا یظلم بمكة أحدا إلا نصروا المظلوم على الظالم وأخذوا له بحقه

ہم شہرکے کسی باشندے یاباہرسے آنے والے پرکوئی ظلم نہ ہونے دیں گے اورظالم کے مقابلے میں مظلوم کی مددکریں گےاور اس کا حق دلا کر رہیں گے۔[111]

اس جیساپاکیزہ ومقدس معاہدہ عربوں میں پہلے کبھی نہیں ہواتھاجو مکہ کے ہمسائے اورباہرسے آنے والوں کے لئے ان کی سلامتی کی ضمانت بن گیا ۔قریش نے تین اشخاص الفضیل بن حرث ،الفضیل بن وداعہ اورمفضل بن فضالہ کے ناموں پرجوجرہم اورقطوراقبیلہ تھے اس معاہدے کانام حلف الفضول رکھا ۔کچھ راویوں نے ان کے یہ نام بتلائے ہیں الفضل بن شراعہ،الفضل بن بضاعہ،الفضل بن قضاعہ۔رسول  اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی اس معاہدے میں شریک تھے ، امن بسیط اور لوگوں سے ہمدردی وتعاون کی قدرومنزلت شروع سے ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کومنظورتھی اس لئے فرمایاکرتے تھے

مَا أُحِبّ أَنّ لِی بِهِ حُمْرَ النّعَمِ وَلَوْ دُعِیت إلَیْهِ فِی الْإِسْلَامِ لَأَجَبْت

اس معاہدہ کے مقابلے میں اگرمجھے سرخ اونٹ (جو بہت قیمتی ہوتے تھے) بھی دے دیئے جاتے تومیں اسے ہرگزنہ تبدیل کرتااورآج بھی کوئی مجھے اس طرح کے معاہدے کی دعوت دے تومیں حاضرہوں ۔[112]

پھر سب مل کرعاص بن وائل کے پاس گئے اوراس سے زبیدی کی واجب ادارقم لے کرزبیدی کواداکردی۔

عَنْ عَائِشَةَ قُلْتُ: یَا رَسُولَ اللهِ، ابْنُ جُدْعَانَ كَانَ فِی الْجَاهِلِیَّةِ یَصِلُ الرَّحِمَ، وَیُطْعِمُ الْمِسْكِینَ، فَهَلْ ذَاكَ نَافِعُهُ؟قَالَ: لَا یَنْفَعُهُ، إِنَّهُ لَمْ یَقُلْ یَوْمًا: رَبِّ اغْفِرْ لِی خَطِیئَتِی یَوْمَ الدِّینِ

عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے میں نے عرض کیاے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم !عبد اللّٰہ بن جدعان جاہلیت کے زمانہ میں ناتے جوڑتاتھا(یعنی ناتے والوں کے ساتھ سلوک کرتاتھا)اورمسکینوں کوکھانا کھلاتا تھا کیایہ کام اس کو(روزقیامت)فائدہ دیں گے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکچھ فائدہ نہیں دیں گے،اس نے توایک دن بھی نہیں کہاکہ اے میرے رب!قیامت کے روزمیرے گناہ معاف کردینا۔[113]

جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چونتیس سال کے ہوئے توحلف الفضول کی سعی کرنے والے زبیربن عبدالمطلب فوت ہوگئے ،جنگ وقتل ،سفاکی ،ظلم وستم عربوں کے اخلاق بن چکے تھے اوروہ درندوں جیسی زندگی گزار رہے تھے،اگرچہ وہ اپنے افعال واعمال میں ہرگزمتمدن نہیں تھے مگران کی شرشت، جبلت اورفطرت میں ان کے علاوہ کچھ اورپسندیدہ جواہر کمالات بھی چھپے ہوئے تھے مگربے محل صرف ہورہے تھے،اس لئے ایک مظلوم کی پکارسن کرفوراًتڑپ اٹھے ، انسان اپنے اعمال وافعال توبدل سکتاہے مگراپنی شرست نہیں بدل سکتااس لئے رسول  اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب انہیں ایمان لاکرعمل صالح کی تلقین فرمائی تویہی عرب جواپنے اعمال میں درندے بنے ہوئے تھے مگرشرست میں بھلائی چھپی ہوئی تھی ایمان لانے کے بعداعمال صالح اختیارکرلئے اور رب کے دین کوایک کونے سے دوسرے کونے تک پھیلانے کے لئے کمربستہ ہو گئے اوراپنے گردہربڑی حکومت کواپنی ضرب سے پاش پاش کردیا۔

[104]ابن اسحاق،ابن سعد،بلاذری اور تفسیرطبری

[105] ابن ہشام ۱۸۴؍۱

[106] ابن ہشام ۱۸۶؍۱،ابن سعد۱۰۲؍۱، الروض الانف۱۴۹؍۲

[107] ابن سعد۱۰۲؍۱

[108] البدایةوالنہایة۳۵۶؍۲

[109] ابن سعد۱۰۳؍۱

[110]الروض الانف۴۷؍۲

[111] المحبر ۱۶۷

[112] الرروض الانف ۴۹؍۲،ابن ہشام۱۳۴؍۱،البدایة والنہایة۳۵۷؍۲

[113] صحیح مسلم کتاب الایمان بَابُ الدَّلِیلِ عَلَى أَنَّ مِنْ مَاتَ عَلَى الْكُفْرِ لَا یَنْفَعُهُ عَمَلٌ۵۱۸،مسند احمد۲۴۶۲۱، صحیح ابن حبان ۳۳۱

Related Articles