مکہ: قبل از بعثتِ نبوی ﷺ

سراپااقدس

اللہ نے بچپن سے موت تک ہرطرف سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت فرمائی ،آپ کی عادات وخصائل عام بچوں سے بالکل مختلف تھے ،آپ مردانہ حسن اورجوانمردی کا بہترین نمونہ تھے سیدنا علی رضی اللہ عنہ بن ابی طالب، انس رضی اللہ عنہ ، ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ، براء رضی اللہ عنہ بن عازب ، جابر رضی اللہ عنہ بن سمرہ ، عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ ، عبداللہ رضی اللہ عنہ بن بسر، خدیجہ رضی اللہ عنہا کے پہلے شوہرکے بیٹے ہند رضی اللہ عنہ بن ہالہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا سراپا مبارک مجموعی طور پر اس طرح روایت کرتے ہیں ۔

 فَهُوَ الَّذِی فِی بَیَاضِهِ حُمْرَةٌ

سرخ وسفید رنگ ،سربڑامگرمعتدل ،سرپربال بہت سیاہ جونہ توبالکل سیدھے تھے اورنہ گھنگھریالے بس درمیانی تھے ،سر کے بال کبھی آدھے کان تک ،کبھی کان کی لوتک اورکبھی اس سے بھی نیچے تک لمبے ہوتے ،پیشانی مبارک چوڑی وکشادہ ،بھوئیں بارک اورملی ہوئی مگر دونوں بھوؤ ں میں معمولی سا فاصلہ چھوڑکر جوبڑے غورسے دیکھنے سے نظرآتا،آنکھیں بڑی بڑی اورسیاہ تھیں سفیدی کی جگہ خوب سفیداورسیاہی کی جگہ خوب سیاہ۔

 أَكْحَلُ العَیْنَیْنِ وَلَیْسَ بِأَكْحَلَ

سرمہ لگائے بغیربھی ایسامعلوم ہوتا کہ آپ نے سرمہ لگایاہواہے ، پلکیں گھنی اورلمبی،بینی مبارک کھڑی لانبی اور ستواں ، رخسارہائے مبارک چوڑے جن میں ابھار تھانہ بلندی،دہانہ معتدل حدتک کشادہ جوفصیح البیان ہونے کی علامت ہے ، دندان مبارک مضبوط اوران کے درمیان ریخیں تھیں ،ریش مبارک گھنی اورسیاہ ،آخر عمر تک سر اورداڑھی میں چندبال ہی سفیدہوئے تھے اوراس وقت نمایاں ہوتے جب آپ نے تیل نہ لگایا ہوتا ، شانہ ہائے مبارک چوڑے پرگوشت اورگداز ، سینہ مبارک چوڑا، بطن مبارک نرم ،ہتھیلیاں اور پاوں کے تلوے موٹے اورگداز ، انگشت مبارک موٹی مگرنہ چھوٹی اورنہ سخت، ہاتھوں کی کلائیاں لمبی ،پائے مبارک موٹے ،قدم مبارک کا انگوٹھا درمیانی انگلی سے بڑا ،جسم مبارک کی ہڈیاں چوڑی اور پرگوشت تھیں ، جسم مبارک ڈھیلا نہ تھابلکہ تنارہتا،قدمبارک نہ لانباتھااورنہ چھوٹامگرلمبائی کے قریب تھا،کسی مجمع میں ہوتے تونمایاں نظرآتے، بازوں اورپنڈلیوں پرہلکے ہلکے بال ، باقی جسم بالوں سے صاف تھا۔

ضَخْمَ الكَرَادِیسِ طَوِیلَ الْمَسْرُبَةِ

اورسینے پر بالوں کی ایک لکیر سی ناف تک جاتی تھی ،

آپ کے چہرے سے شخصیت کاغیر معمولی پن نمایاں تھا جن لوگوں کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے واسطہ پڑتا وہ آپ کی غیر معمولی سحر انگیز شخصیت سے متاثر ہو جاتا اور ان کے ذہنوں میں یہ بات راسخ ہوجاتی کہ آپ کوئی غیر معمولی شخصیت ہیں جوان کے درمیان پیداہوئے ہیں ۔

إِذَا مَشَى تَكَفَّأَ تَكَفُّؤًا كَأَنَّمَا یَنْحَطُّ مِنْ صَبَبٍ

قدم جماکراس طرح چلتے جیسے گہرائی میں اتررہے ہوں یاچڑھائی پر چڑھ رہے ہوں ۔[1]

آپ نے نہ کبھی ورزشیں کیں اورنہ ہی پہلوانی مگرجسمانی طاقت کایہ عالم تھاکہ ایک مرتبہ قریش کے ایک طاقتوار پہلوان رکانہ کو(جو بعدمیں مسلمان ہوگئے تھے) جسے کوئی نہیں پچھاڑسکاتھاآپ سے کشتی لڑی،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے چندلمحوں میں بے بس کرکے پچھاڑ دیا ،وہ اسے محض ایک اتفاق سمجھااس لئے دوبارہ مقابلے پراترآیاآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے دوبارہ بھی پچھاڑدیاتووہ بڑی حیرت سے کہنے لگا اے محمد!تعجب ہے تم مجھے پچھاڑ دیتے ہو۔ عبداللہ بن جدعان بڑامہمان نوازشخص تھااس نے دعوت کی جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوجہل (جوتقریباًآپ صلی اللہ علیہ وسلم کاہم عمرتھا) بھی تھا،کسی بات پر ابوجہل آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے الجھ پڑا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم بڑے تحمل مزاج اورلڑائی جھگڑے سے دوررہتے تھے مگرجب وہ الجھ ہی پڑاتوآپ نے اسے اٹھاکرنیچے پٹک دیاجس سے اس کاگھٹنازخمی ہوگیااس زخم کانشان تمام عمر اس کے گھٹنے پررہا، چنانچہ جنگ بدرمیں جب یہ غالی دشمن اسلام جہنم رسید ہوا تو

وَقَدْ قَالَ لَهُمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فِیمَا بَلَغَنِی اُنْظُرُوا، إنْ خَفِیَ عَلَیْكُمْ فِی الْقَتْلَى، إلَى أَثَرِ جُرْحٍ فِی رُكْبَتِهِ، فَإِنِّی ازْدَحَمْتُ یَوْمًا أَنَا وَهُوَ عَلَى مَأْدُبَةٍ لِعَبْدِ اللَّهِ بْنِ جُدْعَانَ، وَنَحْنُ غُلَامَانِ، وَكُنْتُ أَشَفَّ مِنْهُ بِیَسِیرٍ، فَدَفَعْتُهُ فَوَقَعَ عَلَى رُكْبَتَیْهِ، فَجُحِشَ فِی إحْدَاهُمَا جَحْشًا لَمْ یَزَلْ أَثَرُهُ بِهِ،قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْعُودٍ: فَوَجَدْتُهُ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ اگرتمہیں اس کاپتہ نہ چلے تواس کواس طرح پہچانناکہ اس کے گھٹنے پرایک زخم کانشان ہے کیونکہ عبد اللہ بن جدعان کے گھر پرمیری ابوجہل سے لڑکپن میں لڑائی ہوئی تھی اورمیں نے اس کواٹھاکرنیچے پٹک دیاجس سے اس کاگھٹنازخمی ہو گیااس زخم کانشان تمام عمر اس کے گھٹنے پررہا،عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں اسی نشان کے ساتھ میں نے اس کوپہچانا۔[2]

 امین وصادق تاجر ۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اب بیس پچیس سال کے ہوچکے تھے ،اب آپ نے سنجیدگی سے قریش کے دوسرے لوگوں کی طرح تجارت کے بارے میں سوچنا شروع کیامگرگھرمیں ابتدائی سرمایہ ہی نہ تھاتجارت کیسے شروع ہوتی ،حالت یہ تھی کہ خود بھوکے پیاسے رہ کراپنی محنت مزدوری سے کچھ بچاکر راہ اللہ ضرورت مندوں میں بانٹ دیا کرتے تھے،مگر اللّٰہ ہی مُسَبِّب الأَسْبَابُ ہے جس طرح اس نے بچپن میں آپ کو کسی کے زیراحسان نہیں رکھاتھااسی طرح اس رب نے تجارت کازریعہ بھی مہیاکردیا ، آپ کی سچائی،امانت و دیانت داری،سلیقہ شعاری ،معاملہ فہمی،سنجیدگی ودانشمندی ،حلم ووقار،عہدکی پابندی ،ایثاروقربانی،عالی حوصلگی اورحسن خلقی کا پورا مکہ ہی گواہ تھا،جس کی وجہ سے لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا غیر معمولی احترام کرتے اور آپ کو الا مین والصادق کے خطاب سے پکارتے،اہل عرب جوکسی وجہ سے خود مال تجارت لے کرنہیں جاتے تھے توان کی کوشش ہوتی کہ کوئی کھرا ، زیرک ،معاملہ فہم آدمی ان کامال لے کرجائے اور اس مال سے جومنافع حاصل ہواس میں سے اسے کچھ حصہ دے دیاجائے ، کئی لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کویہ کام سونپااور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی خوشی خوشی لوگوں کے ساتھ شرکت فرمائی ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم تجارتی معاملات میں بڑے کھرے اورسچے تھے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم دولت حاصل کرنے کے لالچ میں کسی سے دھوکادہی یا چالبازی اختیارنہ فرماتے اورنہ ہی لین دین پرکوئی جھگڑا ہی کھڑاکرتے ،بلکہ سیدھے سادھے انداز میں معاملہ طے فرماتے اوراپنامال فروخت کرنے کے لئے قسمیں نہ کھاتے،اگرمال میں کوئی نقص واقع ہوتاتواس نقص کو خریدار کے سامنے عیاں فرماتے،چنانچہ ایک شخص جس کے نام میں اختلاف ہے کوئی انہیں قیس بن السائب بن عویمر مخزومی کہتاہے۔ [3]کوئی سائب بن عبداللہ مخزومی لکھتا ہے۔[4]

عَنِ السَّائِبِ، قَالَ: أَتَیْتُ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَجَعَلُوا یُثْنُونَ عَلَیَّ وَیَذْكُرُونِّی،فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَنَا أَعْلَمُكُمْ یَعْنِی بِهِ،قُلْتُ: صَدَقْتَ بِأَبِی أَنْتَ وَأُمِّی: كُنْتَ شَرِیكِی فَنِعْمَ الشَّرِیكُ، كُنْتَ لَا تُدَارِی، وَلَا تُمَارِی

اورکوئی سائب بن ابی السائب سمجھتا ہےسے مروی ہے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضرہوامجھے دیکھ کرحاضرین مجلس میری تعریف کرنے لگے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایامیں تم لوگوں سے زیادہ انہیں جانتاہوں ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ بات سن کرمیں نے عرض کیا میرے ماں باپ آپ پرقربان آپ نے سچ فرمایاآپ میرے ساتھ تجارت میں شریک تھے ،آپ نے ہمیشہ صاف ستھرامعاملہ کیاکسی کو دھوکایافریب نہیں دیااورنہ ہی کسی سے لین دین پرجھگڑاکیا۔[5]

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِی الْحَمْسَاءِ، قَالَ: بَایَعْتُ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بِبَیْعٍ قَبْلَ أَنْ یُبْعَثَ وَبَقِیَتْ لَهُ بَقِیَّةٌ فَوَعَدْتُهُ أَنْ آتِیَهُ بِهَا فِی مَكَانِهِ،فَنَسِیتُ، ثُمَّ ذَكَرْتُ بَعْدَ ثَلَاثٍ، فَجِئْتُ فَإِذَا هُوَ فِی مَكَانِهِ،فَقَالَ:یَا فَتًى، لَقَدْ شَقَقْتَ عَلَیَّ، أَنَا هَاهُنَا مُنْذُ ثَلَاثٍ أَنْتَظِرُكَ

ایک اورروایت ہے عبداللہ بن ابی الحمساء نے زمانہ جاہلیت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مال کی خریدوفروخت کا معاملہ طے کیا کچھ معاملہ توطے ہوگیا مگر کچھ باقی رہ گیا،اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے گزارش کی کہ میں اسی جگہ پردوبارہ آپ سے آکرملوں گا اورباقی معاملہ بھی طے کرلوں گا،یہ کہہ کروہ چلے گئے اوردنیاوی مشاغل میں مصروف ہوکراپناوعدہ بھول گئے،تین دن گزرجانے کے بعداسے اپناوعدہ یاد آیا تو بھاگا ہوا اسی جگہ چلا آیا جہاں ملنے کا وعدہ تھاحسب وعدہ مطلوبہ جگہ پراس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو موجود پایا،اسے دیکھ کررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااے جوان! تم نے مجھے بڑی تکلیف پہنچائی،میں تین دن سے یہاں تمہارا انتظار کر رہاہوں ۔[6]

اہل قریش اوراردگردکے لوگ بچپن سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق وکردارکے ہرپہلوکودیکھ رہے تھے ،جس میں انہیں کوئی ہلکاسابھی دھبہ نظرنہیں آرہاتھامگرمحض اپنی ہٹ دھرمی اورجاہلیت کی بناپردین اسلام قبول کرنے سے انکارکررہے تھےاس لیےباری تعالیٰ نے انہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق وکردارکی طرف متوجہ کرتے ہوئے فرمایا

 فَقَدْ لَبِثْتُ فِیكُمْ عُمُرًا مِنْ قَبْلِهِ أَفَلَا تَعْقِلُونَ [7]

ترجمہ:بلاشبہ میں تم میں اس سے پہلے ایک عمرگزارچکاہوں ۔

مکہ مکرمہ میں قریش کی ایک حسین وجمیل مالدار معززبیوہ خاتون خدیجہ رضی اللہ عنہا تھیں جو ۵۵۶ء کوخویلدبن اسدبن عبدالعزی ٰ بن قصی کے گھرمیں فاطمہ بنت زائدبن اصم کے بطن سے پیدا ہوئیں ، ان کے والداپنے قبیلہ میں ایک نہایت اعلیٰ حیثیت کے حامل تھے ،ہرشخص ان کوعزت واحترام کی نگاہ سے دیکھتاتھا،ان کاپیشہ قریش کی طرح تجارت ہی تھا،ان کے گھرمیں مال ودولت کی کوئی کمی نہ تھی ،

وَأَنّ خُوَیْلِدًا كَانَ قَدْ هَلَكَ قَبْلَ الْفِجَارِ

خویلد جنگ فجارسے قبل انتقال کرگئے تھے۔[8]

جبکہ ایک روایت میں ہے کہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کے والدحرب الفجارمیں کام آئے ،

وَكَانَ الْفِجَارُ بَعْدَ الْفِیلِ بعشرین سنة

اورحرب الفجار عال الفیل سے بیس( ۲۰) سال بعدکاواقعہ ہے۔[9]

قال ابن سعد: كانت ذكرت لورقة ابن عمها، فلم یقدر

جب خدیجہ رضی اللہ عنہا بالغ ہوئیں توابن سعدکے مطابق باپ نے اپنی پاکیزہ اخلاق بیٹی کی صفات جمیلہ کالحاظ رکھتے ہوئے سب سے پہلے شادی کے لیے آپ کے ایک چچازادبھائی ورقہ بن نوفل کومنتخب کیالیکن پھرنامعلوم وجوہ کی بناپریہ بیل پروان نہ چڑھ سکی ۔ [10]

عَنِ الزُّهْرِیِّ قَالَ:تَزَوَّجَتْ خَدِیجَةُ بِنْتُ خُوَیْلِدِ بْنِ أَسَدٍ قَبْلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ رجلین:الأَوَّلُ مِنْهُمَا: عَتِیقُ بْنُ عَایذِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ بْنِ مَخْزُومٍ

زہری کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے ان کا پہلانکاح عقیق بن عائذبن عبداللہ مخذومی سے کردیاگیا۔[11]

جن سے ایک لڑکی ہندہ بنت عتیق تولدہوئی اسی بناپر خدیجہ رضی اللہ عنہا ام ہندکے نام سے پکاری جاتی تھیں مگریہ زیادہ عرصہ زندہ نہ رہے اورجلدہی داعی اجل کولبیک کہہ گئے،

ثُمَّ خَلَفَ عَلَیْهَا بَعْدَ عَتِیقٍ أَبُو هَالَةَ هِنْدُ بْنُ زُرَارَةَ بْنِ نَبَّاشِ بْنِ حَبِیبِ بْنِ صُرَدِ بْنِ سَلَامَةَ بْنِ جَرْوَةَ بْنِ أَسِیدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ تَمِیمٍ

عقیق بن عائذ کی وفات کے بعد ان کادوسرا نکاح ابوھاتہ مالک بن نباش بن زرارة تمیمی سے کردیا گیا۔[12]

جن سے دوبیٹے ہالہ بن ابی ہالہ اور طاہر اورایک بیٹی ہندہ بنت ابی ہالہ پیداہوئے مگر مزاج میں ہم آہنگی نہ ہونے کی وجہ سے طلاق حاصل کرلی اس کے بعدانہوں نے شادی کے بارے میں سوچناہی چھوڑ دیا ،یہ تینوں بچے ایمان کی دولت سے فیضیاب ہوئے ، رسول  اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم نے طاہر کو ایک ربع یمن کاحاکم مقرر فرمایا تھا اور یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال تک اسی عہدے پر فائزتھے ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعدجب ارتداد کافتنہ کھڑا ہواتوخلیفہ اول سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے فرمان پرانہوں نے قبائل عک و اشعرئین پرلشکرکشی کرکے اس فتنہ کو دبا دیا ،

وَكَانَ هِنْدُ بْنُ أَبِی هَالَةَ فَصِیحًا بَلِیغًا وَصَّافًا، وَصَفَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَأَحْسَنَ وَأَتْقَنَ

دوسر ا بیٹاھند رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پروردہ تھے اورفصاحت و بلاغت میں مسلمہ تھے اور وصاف النبی علیہ السلام کے نام سے مشہورتھے ، اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حلیہ مبارک کی صحیح تصویر کشی کیا کرتے تھے۔[13]

وكان یقول: أنا أكرم الناس أبا وأمّا وأخا وأختا: أبى:رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، وأمى: خدیجة، وأختى: فاطمة، وأخى:القاسم

آپ فرمایاکرتے تھے کہ میں باپ،ماں ،بھائی اوربہن کے لحاظ سے سب سے زیادہ عزت والاہوں کیونکہ میرے والدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اورمیری ماں خدیجہ رضی اللہ عنہا ہے اورمیری بہن فاطمہ رضی اللہ عنہا ہے اورمیرابھائی قاسم رضی اللہ عنہ ہے۔[14]

قتل هند بْن أبی هالة مَعَ عَلِیّ بْن أَبِی طَالِبٍ یوم الجمل

جنگ جمل میں سیدناعلی رضی اللہ عنہ بن ابی طالب کی طرف سے لڑتے ہوئے شہید ہوئے۔[15]

هُوَ الَّذِی مات بالبصرة فِی الطاعون،فَخَرَجُوا بِهِ بَیْنَ أَرْبَعَةٍ لِشَغْلِ النَّاسِ بِمَوْتَاهُمْ، فَصَاحَتِ امرأة وا هند ابن هِنْدَاهْ وَابْنَ رَبِیبِ رَسُولِ اللَّهِ! فَازْدَحَمَ النَّاسُ عَلَى جِنَازَتِهِ، وَتَرَكُوا مَوْتَاهُمْ

ایک روایت میں ہے وہ بصرہ میں طاعون سے فوت ہوئے،ان کے جنازہ میں اژدھام کثیرتھااورلوگ اپنے جنازوں کوچھوڑکران کے جنازہ میں شرکت کرنے کے لیے اس وجہ سے آئے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ربیب تھے۔[16]

ان کا ایک بھائی العوام تھااوراس کابیٹا زبیر رضی اللہ عنہ بن العوام اور ان کے فرزند سائب بن العوام تھے (یعنی خدیجہ رضی اللہ عنہا کے بھتیجے ) جن کواللہ نے عشرہ مبشرہ کادرجہ عنایت فرمایا اور دو بہنیں ہالہ بنت خویلد اوررقیہ تھیں ، ہالہ بنت خویلدایمان کی دولت سے بہرہ مندہوئیں ، ان کے فرزند ابوالعاص بن ربیع تھا جورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سب سے بڑی بیٹی زینب رضی اللہ عنہا سے نکاح کرکے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پہلے دامادبنے ، رقیہ اوران کی بیٹی امیمہ بنت عبد بھی صحابیہ بنیں ، ام المومنین خدیجہ رضی اللہ عنہا کے پاس والد کا چھوڑا ہواکافی مال موجود تھا،معاشی ضروریات کے لئے والد کی طرح انہوں نے بھی تجارت شروع کردی، خدیجہ رضی اللہ عنہا کواللہ نے بہت سوجھ بوجھ عطا فرمائی تھی وہ مکہ مکرمہ سے ڈھونڈ ڈھونڈ کر قابل اعتماد اورمحنتی لوگوں کواپنامال تجارت مضاربت کے اصول پرحوالے کرکے شام ویمن کی طرف روانہ کرتیں تھیں ،جویہ مال وہاں فروخت کرتے اوروہاں سے مال لیکرواپس مکہ مکرمہ میں لے آتے ،اس طرح جو منافع حاصل ہوتااس میں سے طے شدہ معاوضہ کی رقم اس شخص کو ادافرمادیتیں ،اس طرح انہوں نے اپنی فہم وفراست کو بروے کار لا کر اپنی تجارت کوخوب پھیلایااورمکہ مکرمہ کی ایک مالدارخاتون بن گئیں ، یہ بھی دوسرے لوگوں کی طرح اپنا مال تجارت جوتمام قریش کے مال تجارت کے برابر ہوتا تھا دے کرلوگوں کو تجارت کے لئے بھیجا کرتیں اور مضاربت کے اصول پرایک حصہ طے کرلیتی تھیں ، خدیجہ رضی اللہ عنہا رشتے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی چچیری بہن تھیں اورحسب نسب کے اعتبار سے اعلیٰ اور اپنے کردارواطوارسے مکہ مکرمہ میں طاہرہ اور سیدہ قریش کے لقب سے ملقب تھیں ،

قال الزّبیر بن بكّار: كانت تدعى قبل البعثة الطاهرة

زبیربن بکارکہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے قبل انہیں طاہرہ کے لقب سے پکاراجاتاتھا۔[17]

اب یہ ناممکن تھاکہ ایسے اوصاف وخوبیوں والے رشتہ داراور الصادق والامین نوجوان محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوچھوڑ دیتیں اوران کی خوبیوں سے فائدہ نہ اٹھاتیں ۔

xچنانچہ پہلی روایت یہ ہے۔

كَانَتْ خَدِیجَةُ بِنْتُ خُوَیْلِدِ بْنِ أَسَدِ بْنِ عَبْدِ الْعُزَّى بْنِ قُصَیٍّ امْرَأَةً تَاجِرَةً، ذَاتَ شَرَفٍ وَمَالٍ، تَسْتَتْجِرُ الرِّجَالَ فِی مَالِهَا، وَتُضَارِبُهُمْ إِیَّاهُ بِشَیْءٍ تَجْعَلُهُ لَهُمْ مِنْهُ، وَكَانَتْ قُرَیْشٌ قَوْمًا تُجَّارًا، فَلَمَّا بَلَغَهَا عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مَا بَلَغَهَا مِنْ صِدْقِ حَدِیثِهِ، وَعِظَمِ أَمَانَتِهِ، وَكَرَمِ أَخْلَاقِهِ، بَعَثَتْ إِلَیْهِ، فَعَرَضَتْ عَلَیْهِ أَنْ یَخْرُجَ فِی مَالِهَا إِلَى الشَّامِ تَاجِرًا، وَتُعْطِیهِ أَفْضَلَ مَا كَانَتْ تُعْطِی غَیْرَهُ مِنَ التُّجَّارِ، مَعَ غُلَامٍ لَهَا یُقَالُ لَهُ مَیْسَرَةُ

قریش کی ایک مالدارخاتون خدیجہ بنت خویلدبن اسدبن عبدالعزی بن قصی کوآپ کی امانت دیانت وصداقت کی شہرت پہنچی،جو لوگوں کوتجارت کے لئے سرمایہ فراہم کرتی تھیں لیکن بڑے کاروبارکے لئے معتمدنہیں ملتاتھا،جب ان کے کانوں تک آپ کی دیانت کی اطلاع ملی توانہوں نے ایک قاصدنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں روانہ کیا اور پیغام بھیجاکہ میں کثیرسرمایہ لگاکرمال تجارت شام روانہ کرناچاہتی ہوں اورمجھے قریش میں آپ کے سواکسی پراعتمادنہیں ہے اگرآپ گوارافرمائیں تواس مال کولے کرشام تشریف لے جائیں اوراس سے جتنامنافع مناسب سمجھیں لے لیں ،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اظہاررضامندی فرمایااور خدیجہ رضی اللہ عنہا کامال تجارت لے کرشام روانہ ہوئے ، خدیجہ رضی اللہ عنہا نے اس سفرمیں اپنے معتبراورتجربہ کارغلام میسرہ کونبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ کردیا۔[18]

xدوسری روایت نفیسہ بنت منیہ جویعلی بن منیہ کی بہن تھیں سے مروی ہے۔

قَالَتْ: لَمَّا بَلَغَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ خَمْسًا وَعِشْرِینَ سَنَةً قَالَ لَهُ أَبُو طَالِبٍ: أَنَا رَجُلٌ لا مَالَ لِی وَقَدِ اشْتَدَّ الزَّمَانُ عَلَیْنَا. وَهَذِهِ عِیرُ قَوْمِكَ وَقَدْ حَضَرَ خُرُوجُهَاإِلَى الشَّامِ وَخَدِیجَةُ بِنْتُ خُوَیْلِدٍ تَبْعَثُ رِجَالا مِنْ قَوْمِكَ فِی عِیرَاتِهَا. فَلَوْ جِئْتَهَا فَعَرَضْتَ نَفْسَكَ عَلَیْهَا لأَسْرَعَتْ إِلَیْكَ. وَبَلَغَ خَدِیجَةَ مَا كَانَ مِنْ مُحَاوَرَةِ عَمِّهِ لَهُ. فَأَرْسَلَتْ إِلَیْهِ فِی ذَلِكَ وَقَالَتْ لَهُ: أَنَا أُعْطِیكَ ضِعْفَ مَا أُعْطِی رَجُلا مِنْ قَوْمِكَ

کہتی ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب پچیس سال کے ہوگئے تو آپ کے چچاابوطالب نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہابھتیجے میں مالدارآدمی نہیں ہوں ،ہم برے حالات سے دوچارہیں اوریہ تمہاری قوم کے قافلوں کا شام کی طرف چلنے کاوقت قریب آگیاہے،اس میں خدیجہ رضی اللہ عنہا بنت خویلداپنے تجارتی قافلوں میں تمہاری قوم کے لوگوں کوبھیجاکرتی ہے اگرتم ان کے پاس جاؤ اوراپنے آپ کوان پرپیش کروتووہ تمہیں دوسروں پرترجیح دیں گی (کیونکہ انہیں تمہاری پاکیزہ سیرت کاحال معلوم ہے)یہ گفتگوجوآپ صلی اللہ علیہ وسلم اورآپ کے چچاکے درمیان ہوئی تھی، خدیجہ رضی اللہ عنہا کواس کی خبرپہنچی توانہوں نے اس بارے میں پیغام بھیجا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کوپیغام بھیجاکہ میں آپ کی قوم کوجتنادیتی ہوں (اگرآپ اس تجارتی سفرکے لئے رضامندہوجائیں تو)آپ کی خدمت میں اس کادوگناپیش کروں گی ۔[19]

xتیسری روایت عبداللہ بن عقیل سے مروی ہے۔

قَالَ أَبُو طَالِبٍ: یَا ابْنَ أَخِی قَدْ بَلَغَنِی أَنَّ خَدِیجَةَ اسْتَأْجَرَتْ فُلانًا بِبَكْرَیْنِ وَلَسْنَا نَرْضَى لَكَ بِمِثْلِ مَا أَعْطَتْهُ. فَهَلْ لَكَ أَنْ تُكَلِّمَهَا؟ قَالَ: مَا أَحْبَبْتَ! فَخَرَجَ إِلَیْهَا فَقَالَ: هَلْ لَكِ یَا خَدِیجَةُ أَنْ تَسْتَأْجِرِی مُحَمَّدًا؟ فَقَدْ بَلَغَنَا أَنَّكِ اسْتَأْجَرْتِ فُلانًا بِبَكْرَیْنِ. وَلَسْنَا نَرْضَى لِمُحَمَّدٍ دُونَ أَرْبَعِ بِكَارٍ. قَالَ: فَقَالَتْ خَدِیجَةُ: لَوْ سَأَلْتَ ذَاكَ لِبَعِیدٍ بَغِیضٍ فَعَلْنَا. فَكَیْفَ وَقَدْ سَأَلْتَ لِحَبِیبٍ قَرِیبٍ؟

ابوطالب نے کہااے میرے بھتیجے !مجھے یہ خبرملی ہے کہ خدیجہ رضی اللہ عنہا نے فلاں شخص کودوبکروں (جوان اونٹ) کے بدلے اپنااجیرمقررکیاہے،جومعاوضہ خدیجہ رضی اللہ عنہا نے اس کودیاہے ہم اس معاوضہ پرتیرے لئے توراضی نہیں مگرکیاتواس سے گفتگوکرنے پرراضی ہے؟رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجیسا آ پ چاہئیں ،یہ سن کرابوطالب خدیجہ رضی اللہ عنہا کے پاس گئے اوران سے کہااے خدیجہ رضی اللہ عنہا !کیا تم پسندکروگی کہ اپنی تجارت کے لئے کسی اورکی خدمات حاصل کرنے کے بجائے محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے معاملہ کرلوہم کوخبرملی ہے کہ تونے فلاں شخص کودوبکروں (جوان اونٹ)کے معاوضہ پراپنااجیرمقررکیاہے لیکن محمد( صلی اللہ علیہ وسلم )کے لئے توچاربکروں (جوان اونٹ) سے کم پرراضی نہ ہوں گے، خدیجہ رضی اللہ عنہا نے جواب دیااگر کسی دورکے ناپسندیدہ آدمی کے لئے بھی فرماتے تومیں مان لیتی ،چہ جائے کہ آپ توایسے شخص کے لئے کہہ رہے ہیں جو قریبی عزیز ہے۔ [20]

بہرحال خدیجہ رضی اللہ عنہا اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان معاہدہ طے پاگیاآپ صلی اللہ علیہ وسلم خدیجہ رضی اللہ عنہا کامال تجارت کے لئے شام لے گئے، (میسرہ غلام کے بارے میں نیچے بات کی گئی ہے )نیکی ، سچائی اوردیانت داری میں بڑی خیروبرکت ہوتی ہے ،چنانچہ اللہ کے فضل وکرم ، آپ کی معاملہ فہمی، محنت اورذہانت وقابلیت کی بدولت پہلے سفرمیں ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خوب منافع کمایا ، اس طرح متعددمرتبہ آپ خدیجہ رضی اللہ عنہا کا سامان تجارت لے کرشام وفلسطین گئے،

عَنْ جَابِرٍ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ:اسْتَأْجَرَتْ خَدِیجَةُ رِضْوَانُ اللَّهِ عَلَیْهَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ سَفْرَتَیْنِ إِلَى جُرَشَ كُلُّ سَفْرَةٍ بِقَلُوصٍ

جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے خدیجہ رضی اللہ عنہا نےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کودومرتبہ یمن کے ایک مشہورمقام جرش روانہ کیا۔[21]

اور بحرین جاتے رہےاورہردفعہ کسی سے کوئی دغا فریب کئے بغیر دوگنا منافع حاصل کرکے لاتے اورپوراپوراحساب پیش کردیتے ، اور خدیجہ رضی اللہ عنہا بھی اس منافع میں جتنادینے کاوعدہ فرمایا تھااس سے دوگنا ادا کردیتیں ،مگرآپ اس سرمائے کوبھی جمع کرنے کے بجائے ضرورت مندوں میں بانٹ دیتے اوررب کا شکرادا کرتے۔


 شام کاایک سفراورنسطوراراہب کی داستان

 ۵۹۵ء

اب زرارسول  اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک اورسفرشام کاواقعہ بھی ملاحظہ فرمائیں جوپہلے واقعہ کے تیرہ سال بعدجب رسول  اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جوان ہوکرتجارت کاپیشہ اختیار فرمایا اور اس سلسلہ میں خدیجہ رضی اللہ عنہا کامال تجارت لے کرمتعددبارشام گئے،مدارج نبوت ،تاریخ مسلمانان عالم ۱۲۳؍۲ پرلکھاہے کہ ایک بار بصری ٰبھی گئے لیکن اب وہاں ایک نیاولی جس کانام نسطوراتھاگدی نشین تھا ۔

وَخَرَجَ مَعَهُ غُلَامُهَا مَیْسَرَةُ، حَتَّى قَدِمَا الشَّامَ، فَنَزَلَ رَسُولُ اللَّهِ ص فِی ظِلِّ شَجَرَةٍ قَرِیبًا مِنْ صَوْمَعَةِ رَاهِبٍ مِنَ الرُّهْبَانِ، فَأطْلَعَ الرَّاهِبُ رَأْسَهُ إِلَى مَیْسَرَةَ فَقَالَ: مَنْ هَذَا الرَّجُلُ الَّذِی نَزَلَ تَحْتَ هَذِهِ الشَّجَرَةِ؟ فَقَالَ لَهُ مَیْسَرَةُ: هَذَا رَجُلٌ مِنْ قُرَیْشٍ، مِنْ أَهْلِ الْحَرَمِ، فَقَالَ لَهُ الرَّاهِبُ: مَا نَزَلَ تَحْتَ هَذِهِ الشَّجَرَةِ قَطُّ الا نبى، ثم باع رسول الله ص سِلْعَتَهُ الَّتِی خَرَجَ بِهَا، وَاشْتَرَى مَا أَرَادَ أَنْ یَشْتَرِیَ

اس سفرمیں خدیجہ رضی اللہ عنہا کاغلام میسرہ بھی آپ کے ساتھ تھاقاطع مسافت کرتے ہوئے جب قافلہ شام کے قریب پہنچاتوایک منزل پرقیام کیا،یہاں ایک( نسطورا نامی ) راہب مقیم تھااوراس نے ایک عبادت خانہ تعمیرکیاتھااس صومعے کے قریب ایک درخت تھاجب قافلہ والوں نے یہاں پڑاؤ ڈالاتواس وقت وہ راہب کھڑکی سے یہ منظردیکھ رہاتھاکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سواری سے اترکراس درخت کے نیچے قیام کیا،اس وقت میسرہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کھڑاتھا،راہب نے کھڑکی سے سرباہرنکال کرمیسرہ سے دریافت کیاکہ یہ صاحب جنہوں نے درخت کے نیچے قیام کیاہے کون ہیں ؟میسرہ نے کہااہل حرم قریش کی ایک معززشخصیت ہیں ،راہب نے میسرہ سے کہااس درخت کے نیچے نبی کے سواکوئی نہیں اترا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سامان تجارت فروخت کیا جس کو وہ لیکر نکلے تھے اور جو خریدنا تھا وہ بھی خریدا۔[22]

ابن سعدمیں کچھ مزیدبھی لکھاہے۔

فَخَرَجَ مَعَ غُلامِهَا مَیْسَرَةَ حَتَّى قَدِمَا بُصْرَى مِنَ الشَّامِ. فَنَزَلا فِی سُوقِ بُصْرَى فِی ظِلِّ شَجَرَةٍ قَرِیبًا مِنْ صَوْمَعَةِ رَاهِبٍ مِنَ الرُّهْبَانِ یُقَالُ لَهُ نُسْطُورٌ. فَاطَّلَعَ الرَّاهِبُ إِلَى مَیْسَرَةَ.وَكَانَ یَعْرِفُهُ قَبْلَ ذَلِكَ. فَقَالَ: یَا مَیْسَرَةُ مَنْ هَذَا الَّذِی نَزَلَ تَحْتَ هَذِهِ الشَّجَرَةِ؟ فَقَالَ مَیْسَرَةُ: رَجُلٌ مِنْ قُرَیْشٍ مِنْ أَهْلِ الْحَرَمِ. فَقَالَ لَهُ الرَّاهِبُ: مَا نَزَلَ تَحْتَ هَذِهِ الشَّجَرَةِ قَطُّ إِلا نَبِیٌّ. ثُمَّ قَالَ: فِی عَیْنَیْهِ حُمْرَةٌ؟ قَالَ مَیْسَرَةُ: نَعَمْ لا تُفَارِقُهُ. قَالَ الرَّاهِبُ: هُوَ هُوَ آخِرُ الأَنْبِیَاءِ. یَا لَیْتَ أَنِّی أُدْرِكُهُ حِینَ یُؤْمَرُ بِالْخُرُوجِ! ثُمَّ حَضَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ سُوقَ بُصْرَى فَبَاعَ سِلْعَتَهُ الَّتِی خَرَجَ بِهَا وَاشْتَرَى غَیْرَهَا. فَكَانَ بَیْنَهُ وَبَیْنَ رَجُلٍ اخْتِلافٌ فِی شَیْءٍ. [فَقَالَ لَهُ الرَّجُلُ: احْلِفْ بِاللاتِ وَالْعُزَّى. فَقَالَ رَسُولُ الله: مَا حَلَفْتُ بِهِمَا قَطُّ وَإِنِّی لأَمُرُّ فَأُعْرِضُ عَنْهُمَا. قَالَ الرَّجُلُ: الْقَوْلُ قَوْلُكَ. ثُمَّ قَالَ لِمَیْسَرَةَ. وَخَلا بِهِ: یَا مَیْسَرَةُ هَذَا وَاللَّهِ نَبِیٌّ! وَالَّذِی نَفْسِی بِیَدِهِ إِنَّهُ لَهُوَ تَجِدُهُ أَحْبَارُنَا فِی كُتُبِهِمْ مَنْعُوتًا. فَوَعَى ذَلِكَ مَیْسَرَةُ. ثُمَّ انْصَرَفَ أَهْلُ الْعِیرِ جَمِیعًا. وَكَانَ مَیْسَرَةُ یَرَى رَسُولَ اللَّهِ – صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ – إِذَا كَانَتِ الْهَاجِرَةُ وَاشْتَدَّ الْحَرُّ یَرَى مَلَكَیْنِ یُظِلانِهِ مِنَ الشَّمْسِ وَهُوَ عَلَى بَعِیرِهِ. قَالُوا: كَأَنَّ اللَّهَ قَدْ أَلْقَى عَلَى رَسُولِهِ الْمَحَبَّةَ مِنْ مَیْسَرَةَ. فَكَانَ كَأَنَّهُ عَبْدٌ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ

آخررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خدیجہ رضی اللہ عنہا کے غلام میسرہ کے ساتھ روانہ ہوئے اورآپ کے جتنے چچاتھے سب نے اہل قافلہ کوآپ کے متعلق وصیت کی،چلتے چلتے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اورمیسرہ ملک شام کے شہربصریٰ میں پہنچے اوروہاں صومعے کے نزدیک ایک درخت کے سائے میں پڑاؤ ڈالا،نسطوراراہب نے یہ دیکھ کرکہااس درخت کے نیچے سوائے پیغمبرکے اورکوئی نہیں اترا،نسطورانے میسرہ سے پوچھایہ صاحب جواس درخت کے نیچے اترے ہیں کون ہیں ؟میسرہ نے کہایہ اہل حرم قریش کے ایک صاحب عزت شخص ہیں ،پھرنسطورا نے میسرہ سے پوچھاکیاان کی آنکھوں میں سرخی رہتی ہے،میسرہ نے کہاہاں اوریہ سرخی کبھی اس سے جدانہیں ہوتی ،نسطورا نے کہاوہ پیغمبرہے اورسب میں آخری پیغمبرہے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تجارتی مال واسباب کوفروخت کرلیاتوایک شخص سے بات بڑ ھ گئی جس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے لات وعزیٰ کی قسم اٹھانے کوکہاآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایامیں نے کبھی ان دونوں کی قسم نہیں کھائی اورمیں توگزرتے وقت ان سے منہ موڑلیاکرتاہوں ،اس شخص نے کہابات وہی ہے جوآپ نے فرمائی اورپھرمیسرہ سے کہااے میسرہ اللہ کی قسم یہ تووہی پیغمبرہے جس کی صفت ہمارے علماء کتابوں میں مذکورپاتے ہیں تویقیناًیہ آخری زمانہ کاپیغمبرہے تم کبھی اس کی رفاقت نہ چھوڑنا، میسرہ کایہ حال تھاکہ جب دوپہرہوتی اورگرمی بڑھتی تووہ دیکھتاکہ دوفرشتے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پردھوپ سے سایہ کررہے ہیں ،یہ سب کچھ اس کے دل نشین ہوگیااوراللہ نے اس کے دل میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایسی محبت ڈال دی کہ گویاوہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کاغلام بن گیا۔[23]

شرف المصطفی کے مصنف ابوسعدنے اس کے بعدیہ اضافہ کیاہے،

فأقبل علیه یقبله ویقول: أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَشْهَدُ أَنَّكَ رَسُولُ اللَّهِ النبی الأمی الذی بشر بك عیسى ابن مریم علیه السلام، فإنه قال: لا ینزل بعدی تحت هذه الشجرة إلّا النبی الأمی الهاشمی العربی المكی المدنی صاحب الحوض والشفاعة، صاحب لواء الحمد

پھرنسطور آپ کے پاس آیاآپ کاسراورآپ کے قدم چومے اورکہاکہ میں شہادت دیتاہوں کہ آپ  اللّٰہ کے رسول وہ نبی امی ہیں جن کی بشارت عیسٰی علیہ السلام نے دی تھی، اورکہاتھامیرے بعداس درخت کے نیچے نبی کے سواکوئی نہیں ٹھہرے گا جوان پڑھ ہاشمی عربی مکی مدنی صاحب حوض اورشفاعت اورصاحب لواء(جھنڈا) ہوں گے۔[24]

فَلَمَّا رَجَعُوا فَكَانُوا بِمَرِّ الظَّهْرَانِ قَالَ: یَا مُحَمَّدُ انْطَلِقْ إِلَى خَدِیجَةَ فَاسْبِقْنِی فَأَخْبِرْهَا بِمَا صَنَعَ اللَّهُ لَهَا عَلَى وَجْهِكَ. فَإِنَّهَا تَعْرِفُ ذَلِكَ لَكَ، فَتَقَدَّمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى قَدِمَ مَكَّةَ فِی سَاعَةِ الظَّهِیرَةِ وَخَدِیجَةُ فِی عُلِّیَّةٍ لَهَا مَعَهَا نِسَاءٌ فِیهِنَّ نَفِیسَةُ بِنْتُ مُنْیَةَ، فَرَأَتْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ حِینَ دَخَلَ وَهُوَ رَاكِبٌ عَلَى بَعِیرِهِ وَمَلَكَانِ یُظِلانِ عَلَیْهِ،فَأَرَتْهُ نِسَاءَهَا فَعَجَبْنَ لِذَلِكَ، وَدَخَلَ عَلَیْهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَخَبَّرَهَا بِمَا رَبِحُوا فِی وَجْهِهِمْ. فَسُرَّتْ بِذَلِكَ، فَلَمَّا دَخَلَ مَیْسَرَةُ عَلَیْهَا أَخْبَرَتْهُ بِمَا رَأَتْ، فَقَالَ مَیْسَرَةُ: قَدْ رَأَیْتُ هَذَا مُنْذُ خَرَجْنَا مِنَ الشَّامِ، وَأَخْبَرَهَا بِقَوْلِ الرَّاهِبِ نُسْطُورٍ وَمَا قَالَ الآخَرُ الَّذِی خَالَفَهُ فِی الْبَیْعِ. وَرِبَحَتْ فِی تِلْكَ الْمَرَّةِ ضِعْفَ مَا كَانَتْ تَرْبَحُ

پس جب واپس لوٹےتومقام مرالظہران میں پہنچ کرمیسرہ نے عرض کیااےمحمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !آپ خدیجہ رضی اللہ عنہا کے پاس چل دیجئے اورآپ کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے خدیجہ رضی اللہ عنہا کوجو نفع پہنچایاہے اس کی اطلاع دیجئے، خدیجہ رضی اللہ عنہا آپ کایہ حق یادرکھیں گی،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس رائے کے مطابق پہلے روانہ ہوگئے یہاں تک کہ ظہرکے وقت مکہ پہنچے،خدیجہ رضی اللہ عنہا اس وقت اپنے بالاخانے میں اپنی سہیلی نفیسہ بنت منیہ کے ساتھ بیٹھی ہوئی تھیں ، دیکھاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اونٹ پرتشریف لارہے ہیں اوردوفرشتے ادھرادھرسے سایہ کئے ہوئے ہیں ، خدیجہ رضی اللہ عنہا نے یہ منظراپنی سہیلیوں کودکھایاتووہ تعجب کرنے لگیں (کیادوپہرکی چلچلاتی دھوپ میں سہلیوں کے ساتھ چل قدمی کرتے ہوئے حالات حاضرہ پرتبصرہ فرمارہی تھیں ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اورمنافع کاحال بیان کیا تو خدیجہ رضی اللہ عنہا خوش ہوئیں ،پھرجب میسرہ ، خدیجہ رضی اللہ عنہا کے پاس آیا توانہوں نے اسے بتایا کہ میں نے یہ منظردیکھاہے،میسرہ نے کہا میں توشام سے ہی یہی دیکھتاچلاآرہاہوں ، اس کے بعد اس نے وہ باتیں بھی سنائیں جونسطورسے اس نے سنی تھیں اوروہ واقعہ بھی بیان کیا جوشام کے ایک تاجرکے ساتھ مال کی قیمت پراختلاف کے سلسلے میں پیش آیاتھا اور پہلی مرتبہ سے دوگنا منافع ہوا۔[25]

ابوسعید نیشا پوری کی کتاب شرف المصطفی کے حوالے سے حافظ ابن حجرنقل کرتے ہیں کہ بحیراسے آپ کی ملاقات دوبارہ ہوئی اوراس موقعہ پراس نے آپ کا سر اور آپ کے قدم چومے اور کہا

أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَشْهَدُ أَنَّكَ رَسُولُ اللَّهِ النبی الأمی الذی بشر بك عیسى ابن مریم علیه السلام

میں شہادت دیتا ہوں کہ  اللّٰہ کے سواکوئی معبودنہیں اورآپؑ  اللّٰہ کے رسول ہیں وہ نبی امی جن کی بشارت عیسٰی ابن مریم نے دی تھی۔[26]

اسی بنا پر ابن مندہ اورابونعیم نے بحیراکوصحابہ میں شمار کیاہے اور حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے تجریدالصحابہ میں لکھاہے کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے پہلے آپ علیہ السلام پر ایمان لایاتھا۔

قال ابن إسحق: وَكَانَتْ خَدِیجَةُ قَدْ ذَكَرَتْ لِوَرَقَةَ بْنِ نَوْفَلِ بن أسد بن عبد العزیز وكان ابن عمها وكان نصرانی قَدْ تَتَبَّعَ الْكتب، وَعَلِمَ مِنْ عِلْمِ النَّاسِ مَا ذَكَرَ لَهَا غُلامُهَا مَیْسَرَةُ مِنْ قَوْلِ الرَّاهِبِ وَمَا كَانَ یَرَى مِنْهُ إِذَا كَانَ الْمَلَكَانِ یُظِلانِهِ،فَقَالَ وَرَقَةُ: لَئِنْ كَانَ هَذَا حَقًّا یَا خَدِیجَةُ إِنَّ مُحَمَّدًا لَنَبِیُّ هَذِهِ الأُمَّةِ قَدْ عَرَفْتُ أَنَّهُ كَائِنٌ بِهَذِهِ الأُمَّةِ نَبِیٌّ یُنْتَظَرُ هَذَا زَمَانُهُ

ابن اسحٰق کہتے ہیں خدیجہ رضی اللہ عنہا نے اپنے چچازادبھائی ورقہ بن نوفل بن اسدبن عبدالعزیزجونصرانی ہوچکے تھے جوکچھ لوگوں سے سناتھاجوکچھ غلام میسرہ نے بیان کیاتھااورراہب نے جوکچھ کہاتھااورفرشتوں کاآپ پرسایہ کرنے کے بارے میں جودیکھاتھا ذکرکیا ورقہ نے کہااے خدیجہ رضی اللہ عنہا !اگریہ واقعات سچے اورصحیح ہیں توپھریقیناًمحمد( صلی اللہ علیہ وسلم )اس امت کے نبی ہیں ، اورمیں خوب جانتاہوں کہ اس امت میں ایک نبی آنے والے ہیں جن کاہم کوانتظارہے اوراس کازمانہ قریب آگیاہے۔[27]

اس واقعہ کی اسناد:سندکے لحاظ سے یہ پہلے واقعہ بحیراراہب والے قصہ سے بھی گیاگزراہے ،یہ روایت ابن اسحاق میں بغیرسندکے ہے ،ابن سعد،ابونعیم اورابن عساکر میں اس کی سندیوں ہے کہ ان کتابوں کے مصنفین واقدی سے ،واقدی موسیٰ بن شیبہ سے ، موسیٰ بن شیبہ عمیرہ بنت عبد اللّٰہ بن کعب سے، عمیرہ بنت کعب ام سعدبنت کعب سے، ام سعد بنت کعب یعلی بن منیہ صحابی کی بہن نفیسہ بنت منیہ سے جوصحابیہ تھیں سے روایت کرتے ہیں ، اب ان راویوں پرنظردوڑائیں ،امام احمدبن حنبل رحمہ اللہ واقدی کی نسبت کہتے ہیں واقدی کذاب ہے،احادیث کوتبدیل کرتارہتاہے،زہری کے بھانجے کی روایت معمرکی جانب منسوب کر دیتاہے،امام ابوحاتم رازی کہتے ہیں یہ متروک ہے ،امام ابوحاتم رازی اورنسائی کاقول ہے کہ احادیث وضع کیاکرتاتھا،امام دارقطنی رحمہ اللہ کہتے ہیں ضعیف ہے ،آیات بینات صفحہ ۲۱۷ پر ہے کہ واقدی ان بزرگوارمصنفوں میں ہیں کہ ان کی کتابیں نہ صرف ضعیف روایتوں بلکہ موضوع اور غلط اورجھوٹی خبروں سے بھری پڑی ہیں اوران کے غیرمعتبرہونے پراکثر محققین اورعلماء کااتفاق ہے ۔امام احمد بن حنبل موسیٰ بن شیبہ کی نسبت کہتے ہیں کہ اس کی حدیثیں منکرہیں ، اورعمیرہ بنت کعب اورام سعد کا حال معلوم نہیں ۔

عقلی دلائل :اب اس واقعہ کے کچھ عقلی دلائل غورفرمائیں ،اہل عرب کے قافلے عمومارات کوسفرکیاکرتے تھے اورسورج نکلنے سے قبل ہی اپنی منزل پر پڑاوکرلیتے تھے پھر رات کو چاند کی سہانی روشنی میں سائے کی کیا ضرورت باقی رہتی ہے، اوراگرسفردن کوکرتے توبھی صبح سویرے پڑاؤ سے کوچ کرتے اورمغرب سے قبل اپنی منزل پرپہنچ جاتے ، اگر ایسا تھا تو قافلہ بصری ٰ میں بحیرا راہب ،یانسطوراراہب کی خانقاہ پر مغرب کے وقت ہی پہنچاہوگاتب بھی بادلوں کویافرشتوں کوسایہ کرنے کی ضرورت باقی نہیں رہتی ، پھر ان دونوں بحیرا اور نسطورا راہبوں نے سایہ کیسے دیکھ لیا، کیااہل قافلہ کونظرنہیں آتاتھاکہ وہ محسوس کرتے کہ اس تپتی دھوپ میں صرف ابوطالب کے بھتیجے محمد صلی اللہ علیہ وسلم پرہی سایہ کیوں ہے ؟ کیاانہوں نے بحیرا راہب کوبتایاکہ ہاں آپ سچ کہتے ہیں ہم بھی راستے میں ایساہی کچھ نظارہ دیکھتے آئے ہیں ؟فرشتے غیرنبی کونظرنہیں آتے ، جبرائیل علیہ السلام کے ذمہ  اللّٰہ تعالیٰ کی بھیجی ہوئی وحی کواس کے رسولوں تک پہنچانا ہے ،رسول  اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی نازل ہونے کا عام دستور یہ تھاکہ جبرائیل علیہ السلام ایک صحابی کی شکل میں آپ کے سامنے آتے یا پس پردہ ان کی آواز سنائی دیتی تھی ،تقریباًدس سال مکہ میں اورتیرہ سال مدینہ میں کوئی بھی صحابی جورسول  اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعدانتہائی برگزیدہ بندے تھے یہ نہیں کہہ سکتاکہ اس نے کسی فرشتے کواپنی آنکھوں سے دیکھاہے ،مگرحیرت کامقام ہے کہ میسرہ غلام جو کافرتھاشام کے لمبے سفرمیں فرشتوں کواپنی نامعلوم کون سی آنکھوں سے دیکھتارہاجبکہ اہل قافلہ کوکچھ بھی نظرنہیں آیا ،اس روایت کواگرتسلیم کرلیا جائے تواس سے یہ ثابت ہوگاکہ رسول  اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی نبوت سےاٹھائیس سال قبل ہی معلوم ہوگیاتھاکہ آپ کونبوت ملنے والی ہے ، میسرہ غلام کوبھی علم ہو چکاتھاکہ آپ نبی بننے والے ہیں ،میسرہ کی زبانی خدیجہ رضی اللہ عنہا اوران کے ساتھ بیٹھی متعدد خواتین کوبھی آپ کی نبوت کی اطلاع مل چکی تھی ، پھرتوقریش کے جس قافلے کے ساتھ آپ شام گئے تھے وہ بھی اور ان کی توسط سے اہل مکہ بھی اس بات سے بے خبرنہ رہے ہوں گے کہ فرشتے آپ پرسایہ کررہے ہیں کیونکہ جب میسرہ، خدیجہ رضی اللہ عنہا اوردوسری خواتین سایہ کرتے ان فرشتوں کو دیکھ رہی تھیں تو خودآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی فرشتوں کوسایہ کرتے دیکھاہوگااوردوسرے اہل قافلہ سے یہ منظرکیسے مخفی رہ سکتا ہے؟ پھر خدیجہ رضی اللہ عنہا اوران کی سہیلیوں نے یہ کیسے پہچانا اور یقین کر لیا کہ وہ فرشتے تھے ،کیاانہوں نے پہلے فرشتوں کودیکھاہواتھا؟کیاوہ جنات نہیں ہو سکتے تھے؟ اورکیاانہوں نے جنات کوبھی دیکھا ہوا تھا ؟حالانکہ انسان جنات کوبھی نہیں دیکھ سکتا،اللہ تعالیٰ نے فرمایا

۔۔۔ اِنَّهٗ یَرٰىكُمْ هُوَ وَقَبِیْلُهٗ مِنْ حَیْثُ لَا تَرَوْنَهُمْ۔۔۔۝۲۷ [28]

ترجمہ: وہ اور اس کا گروہ تمہیں ایسی جگہ سے دیکھتا ہے جہاں سے تم انہیں نہیں دیکھ سکتے۔

پھرکیاسب سہیلیاں یہ عجیب وغریب تماشہ دیکھ کر خاموش رہیں اور اپنے گھروں کوواپس جاکر کسی اور سے اس کا تذکرہ ہی نہیں کیا ،اورکیارسول  اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اعلان نبوت کے بعدان کی کوئی سہیلی اس واقعہ کویادکرکے رسول  اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائی ،اتنے عجیب واقعات کو دیکھ کر کیا میسرہ غلام بھی ایمان لایاجس کونسطورراہب نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کاساتھ نہ چھوڑنے کی نصیحت کی تھی، آخراس سفرشام کے بعدوہ کہاں گم ہوگیا ،رسول  اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جب غارحرامیں پہلی وحی نازل ہوئی اور آپ گھبرائے ہوئے گھرلوٹے تو اس وقت ام المومنین خدیجہ رضی اللہ عنہا نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کوتسلی وتشفی دینے کے لئے آپ کے اخلاق کریمہ صداقت ، دیانت، امانت شرافت و پاکیزگی ، غریبوں وغلاموں سے ہمدردی وغیرہ کا تو ذکرفرمایا

قَالَتْ خَدِیجَةُ: كَلَّا أَبْشِرْ فَوَاللَّهِ لاَ یُخْزِیكَ اللَّهُ أَبَدًا فَوَاللَّهِ إِنَّكَ لَتَصِلُ الرَّحِمَ وَتَصْدُقُ الحَدِیثَ، وَتَحْمِلُ الكَلَّ، وَتَكْسِبُ المَعْدُومَ، وَتَقْرِی الضَّیْفَ، وَتُعِینُ عَلَى نَوَائِبِ الحَقِّ

ام المومنین خدیجہ رضی اللہ عنہا نے کہا ہرگز نہیں ،اللہ کی قسم!اللہ تعالیٰ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کبھی بھی رسوا نہیں کرے گا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم تو صلہ رحمی کرتے ہیں ، ناتوانوں کا بوجھ اپنے اوپر لیتے ہیں ، محتاجوں کے لئے کماتے ہیں ، مہمان کی مہمان نوازی کرتے ہیں اور حق کی راہ میں مصیبتیں اٹھاتے ہیں ۔[29]

مگرکیاکوئی ایسی روایت دکھائی جا سکتی ہے کہ انہوں نے فرشتوں کوآپ پر سایہ کرتے اورمیسرہ نے نسطور ا راہب کی توسط سے آپ کی نبوت کی جو اطلاع دی تھی اس کا ذکر کیا ہو ، ہاں بھائیو! ملک الموت روح قبض کرتے وقت نظرآتے ہیں اورمنکرنکیر فرشتے بھی قبر میں ضرورنظرآئیں گے ،اورآخرت میں باری تعالیٰ کی بارگاہ میں صف باندھے کھڑے بھی نظرآئیں گے، اور اگرام المومنین خدیجہ رضی اللہ عنہا کویہ سب معلوم تھا توپھروہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کواپنے چچیرے بھائی ورقہ بن نوفل کے پاس جونصرانی عالم تھے کیوں لے کر گئیں تھیں ،چاروں انجیل کی کتابوں یا تورات کی کتاب میں دیکھ کر کوئی ایسے درخت کی نشانی بتاسکتاہے کہ بصریٰ کی خانقاہ کے اس مخصوص درخت کے نیچے صرف نبی ہی قیام کر سکتاتھااورکوئی نہیں اورنسطورا راہب کے مطابق رسول  اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آرام کے بعد کوئی اوراس درخت کے نیچے آرام نہیں کر سکتا تھا اس کی کیاوجہ ہے پھرتووہ درخت اب بھی بصریٰ میں موجودہوگااورلوگ اس کی زیارت بھی کرتے ہوں گے ، بھائیو! یہ ساری روایت ہی صریح طورپرقرآن مجیدکے خلاف ہے،جس میں  اللّٰہ تعالیٰ نے رسول  اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کرکے فرمایا۔

وَمَا كُنْتَ تَرْجُوْٓا اَنْ یُّلْقٰٓى اِلَیْكَ الْكِتٰبُ اِلَّا رَحْمَةً مِّنْ رَّبِّكَ فَلَا تَكُوْنَنَّ ظَهِیْرًا لِّـلْكٰفِرِیْنَ۝۸۶ [30]

ترجمہ : تم اس بات کے ہرگز امیدوار نہ تھے کہ تم پر کتاب نازل کی جائے گی، یہ تو محض تمہارے رب کی مہربانی سے( تم پر نازل ہوئی ہے) پس تم کافروں کے مددگار نہ بنو۔

۔۔۔ مَا كُنْتَ تَدْرِیْ مَا الْكِتٰبُ وَلَا الْاِیْمَانُ وَلٰكِنْ جَعَلْنٰهُ نُوْرًا نَّهْدِیْ بِهٖ مَنْ نَّشَاۗءُ مِنْ عِبَادِنَا۔۔۔۝۰۝۵۲ۙ [31]

ترجمہ: تمہیں کچھ پتہ نہ تھا کہ کتاب کیا ہوتی ہے اور ایمان کیا ہوتا ہے مگر اس روح کو ہم نے ایک روشنی بنادیا جس سے ہم راہ دکھاتے ہیں اپنے بندوں میں سے جسے چاہتے ہیں ۔

کیاان آیات مبارکہ سے یہ ثابت نہیں ہوتاکہ نبوت کے عظیم منصب پرسرفراز ہونے سے قبل آپ اس بات سے قطعی طورپرلاعلم تھے کہ آپ کونبی بنایاجانے والاہے،حالانکہ اگر پہلے سفرشام میں جب آپ کی عمربارہ برس کی تھی میں ہی آپ کواپنی نبوت کا علم ہوچکاہوتا اور دوسرے سفرشام میں جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمرپچیس برس کی تھی مزیدتصدیق ہوگئی ہوتی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم یقیناً اپنے اوپرکتاب کے نزول کے امیدوارہوتے ،پھرپہلی وحی کے وقت آپ پروہ کیفیت ہرگزطاری نہ ہوتی جوطاری ہوئی تھی کیونکہ یہ عین توقع کے مطابق ہی ہوتا،اورپھراگرقریش مکہ اٹھائیس سال قبل سے آپ کے نبی ہونے کے بارے میں جانتے ہوتے توآپ صلی اللہ علیہ وسلم کااعلان نبوت ان کی توقعات کے برخلاف نہ ہوتا اور اس پران کا ردعمل بھی اس سے بہت مختلف ہوتاجوبالکل ایک خلاف توقع معاملہ پیش آنے سے ہوا۔

 خدیجہ الکبریٰ رضی اللہ عنہا سے نکاح

ام المومنین خدیجہ رضی اللہ عنہا (آپ کانسب قصی پرآکررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مل جاتاہے)آپ کی چچیری بہن ہونے کے ناطے آپ کے فضائل وخصال حمیدہ سے پہلے ہی شناسا تھیں ، اب اندازتجارت وراست بازی ،حسن اخلاق اور وجاہت کو دیکھ کر خدیجہ رضی اللہ عنہا کے دل میں آپ کی قدرمنزلت اوربھی بڑھ گئی(میسرہ غلام کاتوکچھ اتاپتہ ہی نہیں کہ اس کاوالدکون تھایہ کہاں سے آیاتھااورپھراچانک کہاں چلاگیا ، قریش کے تمام لوندیوں اورغلاموں کا حال مل جاتا ہے مگران میں میسرہ کاذکراس موضوع روایت کے سوااورکہیں نہیں ،اس لئے یہ کہناکہ اس نے شام سے واپس آکرآپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حسن اخلاق ومعاملات کے بارے میں خدیجہ رضی اللہ عنہا کو بتلایاتھامحض جھوٹ ہے کیااہل مکہ آپ کوپہلے نہیں جانتاتھا ،کیاالصادق والامین کالقب اس سے بیشترآپ کونہیں مل چکاتھا،کیاآپ صلی اللہ علیہ وسلم اس سے بیشترکئی لوگوں کے ساتھ تجارت نہیں کرچکے تھے،اورلوگوں کوآپ کی دیانت وامانت،راستبازی اورمعاملہ فہمی کاحال معلوم نہیں تھا، خدیجہ رضی اللہ عنہا جو بہت زیرک خاتون تھیں انہوں نے ان تجارتی ملاقات کے دوران آپ کے کردارکا گہرے تدبرسے مطالعہ کیااورآپ کوایک کامل کردارکاشخص پایا ۔

xعرب میں عورتیں اپنی شادی بیاہ کے بارے میں خود آزادی سے گفتگوکرسکتی تھیں اس لئے خدیجہ رضی اللہ عنہا نے ایک قاصدکے ذریعہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہلایا۔

یا بن عم، انى قد رغبت فیك لقرابتك وسطتك فِی قَوْمِكَ، وَأَمَانَتِكَ وَحُسْنِ خُلُقِكَ وَصِدْقِ حَدِیثِكَ ثُمَّ عَرَضَتْ عَلَیْهِ نَفْسَهَا، وَكَانَتْ خَدِیجَةُ یَوْمَئِذٍ أَوْسَطَ نِسَاءِ قُرَیْشٍ نَسَبًا، وَأَعْظَمَهُنَّ شَرَفًا، وَأَكْثَرَهُنَّ مَالًا، كُلُّ قَوْمِهَا كَانَ حَرِیصًا عَلَى ذَلِكَ مِنْهَا

اے میرے ابن عم!میں تمہاری قرابت،شرافت،نسب،امانت،حسن اخلاق اورراست بازی کی وجہ سے تمہاری گرویدہ ہوں میں تمہارے ساتھ شادی کرناچاہتی ہوں ، خدیجہ رضی اللہ عنہا اس زمانے میں قریش میں سب سے زیادہ نجیب شریف اوردولت مندخاتون تھیں ،ان کی تمام قوم ان وجوہ سے ان سے شادی کرنے کی متمنی تھی۔[32]

x اپنی بہن یااپنی کنیز یاسہیلی نفیسہ بنت منیہ کے توسط سے نکاح کی درخواست ۔

فَأَرْسَلَتْنِی دَسِیسًا إِلَى مُحَمَّدٍ بَعْدَ أَنْ رَجَعَ فِی عِیرِهَا مِنَ الشَّامِ. فَقُلْتُ: یَا مُحَمَّدُ مَا یَمْنَعُكَ أَنْ تَزَوَّجَ؟ فَقَالَ: مَا بِیَدِی مَا أَتَزَوَّجُ بِهِ،قُلْتُ:فَإِنْ كُفِیتَ ذَلِكَ وَدُعِیتَ إِلَى الْجَمَالِ وَالْمَالِ وَالشَّرَفِ وَالْكَفَاءَةِ أَلا تُجِیبُ؟ قَالَ: فَمَنْ هِیَ؟قُلْتُ: خَدِیجَةُ،قَالَ: وَكَیْفَ لِی بِذَلِكَ؟ قَالَتْ قُلْتُ: عَلَیَّ، قَالَ: فَأَنَا أَفْعَلُ ، فَذَهَبْتُ فَأَخْبَرْتُهَا. فَأَرْسَلَتْ إِلَیْهِ أَنِ ائْتِ لَسَاعَةِ كَذَا وَكَذَا وَأَرْسَلَتْ إِلَى عَمِّهَا عَمْرِو بْنِ أَسَدٍ لِیُزَوِّجَهَا فَحَضَرَ وَدَخَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فِی عُمُومَتِهِ. فَزَوَّجَهُ أَحَدُهُمْ

خدیجہ رضی اللہ عنہا کے تجارتی قافلے میں محمد( صلی اللہ علیہ وسلم )جب شام سے واپس آئے توخدیجہ رضی اللہ عنہا نے چپکے سے مجھے ان کے پاس بھیجااورمیں نے کہااے محمد( صلی اللہ علیہ وسلم ) آپ کو نکاح کرنے میں کیاچیزمانع ہے؟( نفیسہ نے حسب ہدایت آپ سے گفتگوکرتے ہوئے نکاح کی ترغیب تودی مگرکسی کانام نہیں بتایا)جواب میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا میرے پاس وہ سامان نہیں ہے جس سے نکاح کرسکوں ،میں نے عرض کیا اگرآپ کومصارف سے بے نیاز کردیا جائے اور آپ کی خدمت میں مال و دولت ،حسن و جمال ،عزت وشرافت اور ضروریات کی کفالت کی پیش کش کی جائے توکیا آپ اسے قبول فرمائیں گے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایاایسی کون خاتون ہیں ؟میں نے عرض کیاوہ خدیجہ رضی اللہ عنہا ہیں فرمایاوہ میرے لئے (یعنی میں ان کے ساتھ کیسے نکاح کرسکتاہوں )کیسے(یعنی میں ان کے ساتھ کیسے نکاح کرسکتاہوں )میں نے عرض کیایہ میراذمہ ہے،فرمایاپھرمجھے شادی کرنے میں انکارنہیں ،میں نے جاکرخدیجہ رضی اللہ عنہا کوخبرکی توانہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پیغام بھیجاکہ وہ فلاں وقت نکاح کے لئےتشریف لے آئیں ،بات طے ہونے کے بعد خدیجہ رضی اللہ عنہا نے اپنے چچاعمروبن اسدکوکہلا بھیجا کہ وہ وقت مقررہ پر تشریف لاکران کا عقدکرادیں چنانچہ وہ وقت مقررہ پر تشریف لے آئے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی اپنے چچاعبدمناف (ابوطالب )اوردیگرروسائے بنو ہاشم وقبیلہ مضراوراپنے دوستوں ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ، عمار بن یاسر وغیرہ کے جلومیں خدیجہ رضی اللہ عنہا کے گھر درب الحجرتشریف لے گئے۔[33]

آپ کے ایک چچا نے (آپ کاولی بن کر) خدیجہ رضی اللہ عنہا سے عقد کردیا اور اکابر قریش اس کے گواہ بنے۔

ابوطالب کا خطبہ نکاح :

وذكر أبو الحسین بن فارس وغیره أن أبا طالب خطب یومئذ فقال: الحمد لله الذی جعلنا من ذریة إبراهیم، وزرع إسمعیل، وضئضیء معدّ: أی معدنه، وعنصر مضر: أی أصله، وجعلنا حضنة بیته: أی المتكفلین بشأنه، وسوّاس حرمه: أی القائمین بخدمته، وجعله لنا بیتا محجوجا، وحرما آمنا، وجعلنا حكام الناس. ثم إن ابن أخی هذا محمد بن عبد الله لا یوزن به رجل إلا رجح به شرفا ونبلا وفضلاوعقلا،وإن كان فی المال قلّ، فإن المال ظل زائل، وأمر حائل، وعاریة مسترجعة،وَلَهُ فِی خَدِیجَةَ بِنْتِ خُوَیْلِدٍ رَغْبَةٌ وَلَهَا فِیهِ مِثْلُ ذَلِكَ،وقیل قائل ذلك ورقة بن نوفل: أی فإنه بعد أن خطب أبو طالب بما تقدم خطب ورقة، فقال الحمد لله الذی جعلنا كما ذكرت، وفضلنا على ما عددت ،فنحن سادة العرب وقادتها وأنتم أهل ذلك كله لا ینكر العرب فضلكم ولا یردّ أحد من الناس فخركم وشرفكم ورغبتنا فی الاتصال بحبلكم وشرفكم فاشهدوا علیّ معاشر قریش إنی قد زوّجت خدیجة بنت خویلد من محمد بن عبد الله

ابوالحسین بن فارس وغیرہ کہتے ہیں ابوطالب نے اس وقت یہ خطبہ نکاح پڑھا سب تعریف اللہ تعالیٰ کے لیے ہے جس نے ہمیں ابراہیم علیہ السلام کی ذریت اسماعیلؑ کی نسل ،معدکی اصل اورمضرکے عنصرسےپیدافرمایااور ہمارے لیے ایساگھرمقررکیاجس کوقصدکرکے لوگ دوردرازسے آتے ہیں اوراس کی چاردیواری کوامن والابنایااورہم کواپنے گھرکاامین اورمحافظ مقررکیا پھرہم کواورلوگوں پرحاکم بنایامحمد( صلی اللہ علیہ وسلم )وہ ہیں کہ قریش کاکوئی نوجوان بھی شرف ورفعت اورعقل وفضیلت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تولاجائے توآپ ہی بھائی رہیں گے اگرچہ آپ مال کے لحاظ سے کم ہیں لیکن مال ایک زائل ہونے والاسایہ ہے اورایک عاریت ہے جوواپس کی جانے والی ہے یہ خدیجہ رضی اللہ عنہا بنت خویلدکے نکاح کی طرف مائل ہیں اوراسی طرح خدیجہ رضی اللہ عنہا آپ سے نکاح کی طرف مائل ہے،ابوطالب کے خطبہ نکاح کے بعد خدیجہ رضی اللہ عنہا کے چچازادبھائی ورقہ بن نوفل اٹھے اوربحیثیت ولی یوں گویاہوئےسب تعریف اللہ تعالیٰ کے لیے ہے جس نے ہمیں ایساہی بنایاہے جیساکہ آپ نے بیان فرمایااورہمیں ایسی ہی فضیلتیں عطافرمائیں جیسی کہ آپ نے شمارکیں ہم عرب کے سرداراورراہ نماہیں اورآپ بھی،کوئی قبیلہ اورکوئی شخص آپ کے فضائل اورفخروشرف کاانکارنہیں کرسکتااورہمیں آپ کی شرافت ونجابت اورقومیت سے تعلق پیداکرنے کی رغبت ہوئی ہے ،پس اے قبائل قریش!گواہ رہوکہ میں نے خدیجہ رضی اللہ عنہا بنت خویلدکانکاح محمدبن عبداللہ سے کردیاہے۔[34]

فقال أبو طالب: قد أحببت أن یشركك عمها فقال عمها: اشهدوا علیّ معاشر قریش إنی قد أنكحت محمد بن عبد الله خدیجة بنت خویلد

جب ورقہ بن نوفل خاموش ہوئے توابوطالب کہنے لگے کہ بہترہوگاکہ آپ کے حقیقی چچا(عمروبن اسد)بھی اس کی توثیق کردیں ،اس پرعمروبن اسدکھڑے ہوئے اورکہااے قریش!گواہ رہوکہ میں نے خدیجہ رضی اللہ عنہا بنت خویلدکونکاح محمدبن عبداللہ کے ساتھ نکاح میں دے دیاہے۔[35]

اور خدیجہ رضی اللہ عنہا سے چھ اونٹ یا بیس اونٹوں کے حق المہرپر نکاح فرما لیا،

وَأَصْدَقَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عِشْرِینَ بَكْرَةً

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےان کا حق المہربیس اونٹ باندھا۔[36]

وَأَصْدَقَهَا اثْنَتَیْ عَشْرَةَ أُوقِیَّةً

ایک روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ساڑھے بارہ اوقیہ حق المہر باندھا۔[37]

الأوقیّة منه أربعین درهما

ایک اوقیہ چالیس درہم کا ہوتا ہے ( ا س طرح حق مہرپانچ سوطلائی درہم ہوا)۔[38]

 هَذَا الْبِضْعُ لا یُقْرَعُ أَنْفُهُ

عمروبن اسدنے اس موقع پرکہایہ وہ نکاح ہے کہ اس کی ناک نہیں ٹکرائی جاسکتی یعنی اس پرکسی قسم کی نکتہ چینی وحرف گیری ممکن نہیں ۔[39]

عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ فرماتے تھے کہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کاہم نشیں ،دوست اور بہت بے تکلف تھارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدیجہ رضی اللہ عنہا سے شادی کاحال مجھ سے زیادہ کون جانتاہے۔

یہ ابتدائے اسلام میں ہی ایمان لائے اورقریش کے ہاتھوں بڑی تکلیفیں اٹھائیں ، مشرکین کبھی انہیں آگ سے جلاتے اورکبھی پانی میں ڈبودیتے،

كَانَ عَمَّارُ بْنُ یَاسِرٍ یُعَذَّبُ حَتَّى لا یَدْرِی مَا یَقُولُ

عمار رضی اللہ عنہ بن یاسر رضی اللہ عنہ پراتناعذاب کیاجاتاتھاکہ وہ یہ بھی نہ جانتے تھے کہ وہ (بدحواسی میں )کیاکہہ رہے ہیں ۔[40]

عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ كَعْبٍ الْقُرَظِیُّ قَالَ: أَخْبَرَنِی مَنْ رَأَى عَمَّارَ بْنَ یَاسِرٍ مُتَجَرِّدًا فِی سَرَاوِیلَ قَالَ: فَنَظَرْتُ إِلَى ظَهْرِهِ فِیهِ حَبَطٌ كَثِیرٌ فَقُلْتُ: مَا هَذَا؟قَالَ: هَذَا مِمَّا كَانَتْ تُعَذِّبُنِی بِهِ قُرَیْشٌ فِی رَمْضَاءِ مَكَّةَ

محمدبن کعب قرظی کہتے ہیں ایک شخص نے مجھ سے بیان کیاجس نے عماربن یاسر رضی اللہ عنہ کوبرہنہ تن صرف چاجامہ پہنے ہوئے دیکھاتھاانہوں نے کہاکہ میں نے ان کی پیٹھ کو دیکھا تو اس میں بہت نیل کے نشانات اوربرتیں تھیں ،میں نے کہایہ کیاہے؟انہوں نے کہاقریش مکہ دوپہرکی چلچلاتی دھوپ میں جومجھے عذاب دیتے تھے یہ اس کے نشانات ہیں ۔[41]

عَنْ عَمْرِو بْنِ مَیْمُونٍ قَالَ: أَحْرَقَ الْمُشْرِكُونَ عَمَّارَ بْنَ یَاسِرٍ بِالنَّارِ قَالَ: [فَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَمُرُّ بِهِ وَیُمِرُّ یَدَهُ عَلَى رَأْسِهِ فَیَقُولُ: یَا نارُ كُونِی بَرْداً وَسَلاماً عَلى عَمَّارٍ كَمَا كُنْتِ عَلَى إِبْرَاهِیمَ

عمروبن میمون سے مروی ہےمشرکین عماربن یاسر رضی اللہ عنہ کوآگ سے جلاتے ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس سے گزرتے تواپناہاتھ مبارک ان کے سرپرپھیرتے اورفرماتے اے آگ توعمارپرسلامتی والی ہوجاجیساکہ تو ابراہیم علیہ السلام پرہوگئی تھی ۔[42]

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا پہلااور خدیجہ رضی اللہ عنہا کاتیسرانکاح تھا۔

أَوَّلُ امْرَأَةٍ تَزَوَّجَهَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ خَدِیجَةُ بِنْتُ خُوَیْلِدِ بْنِ أَسَدِ بْنِ عَبْدِ الْعُزَّى بْنِ قُصَیٍّ تَزَوَّجَهَا فِی الْجَاهِلِیَّةِ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایام جاہلیت میں سب سے پہلانکاح خدیجہ رضی اللہ عنہا بنت خویلدبن اسدبن عبدالعزی بن قصی سے فرمایا،

وهو ابْنُ خَمْسٍ وَعِشْرِینَ سَنَةً. وَخَدِیجَةُ یَوْمَئِذٍ بِنْتُ أَرْبَعِینَ سَنَةً ، وُلِدَتْ قَبْلَ الْفِیلِ بِخَمْسَ عَشْرَةَ سَنَةً

مشہورروایت کے مطابق سیرت نگارلکھتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب یہ نکاح کیاتوآپ اس وقت پچیس سال کے تھے اور خدیجہ رضی اللہ عنہا کی عمر چالیس سال تھی، واقعہ اصحاب فیل سے پندرہ سال پہلے پیداہوچکی تھیں ۔[43]

لیکن کچھ روایات میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر ۲۱، ۲۹، ۳۰ اور ۳۷سال اور خدیجہ رضی اللہ عنہا کی عمر ۲۵، ۲۸،۳۰ ، ۳۵اور۴۵ سال تک بیان کی گئی ہیں ۔

مگر۳۵یاچالیس سال کی عمرشایدتیسری یاچوتھی صدی ہجری میں وضع کی گئی ہے تاکہ یہ ثابت کیاجاسکے کہ ام المومنین خدیجہ رضی اللہ عنہا سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرزندقاسم کے علاوہ صرف ایک بیٹی فاطمہ رضی اللہ عنہا تولدہوئی تھیں اوراس کے علاوہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی اور بیٹی نہیں ہوئی حالانکہ ام المومنین خدیجہ رضی اللہ عنہا سے دوبیٹے قاسم(انہی کے نام پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی کنیت ابوقاسم تھی) اورعہداسلام میں عبداللہ جنہیں طیب اورطاہربھی کہاجاتاہےسب سے پہلے زمانہ جاہلیت میں قاسم انتقال فرماگئے،

جُبَیْرِ بْنِ مُطْعِمٍ عَنْ أَبِیهِ قال: مات القاسم وهو ابن سنتین

محمدبن جبیربن مطعم کہتے ہیں قاسم دوسال کے تھے کہ انتقال کرگئے۔[44]

اورپھرجب عبداللہ نے وفات پائی تواس موقع پرعاص بن وائل السہمی نے کہاتھا

قَدِ انْقَطَعَ وَلَدُهُ فَهُوَ أَبْتَرُ

ان کی تواولادمنقطع ہوگئی لہذااب یہ ابترہیں ۔[45]

اگرام المومنین خدیجہ رضی اللہ عنہا کی عمر چالیس سال تسلیم کی جائے تو اس عمر کے بعدچھ بچے پیداکرنامشکل ہی ہے ،

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: كَانَتْ خَدِیجَةُ یَوْمَ تَزَوَّجَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ ابْنَةَ ثَمَانٍ وَعِشْرِینَ سَنَةً

عبداللہ بن عباس سے مروی ہےجب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خدیجہ سے شادی کی تو اس وقت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی عمر۲۸برس کی تھیں ۔[46]

ابن حزم اوربہت سے تفسیرنگاراس روایت کودرست تسلیم کرتے ہیں اورسلیمان منصورپوری نے بھی اپنی سیرت میں اسی کوتسلیم کیاہے۔

ایک ضعیف روایت :نکاح کے بارے میں واقدی کی ایک ضعیف روایت جوکئی طریق سے مروی ہے

 أَنَّ خَدِیجَةَ سَقَتْ أَبَاهَا الْخَمْرَ حَتَّى ثَمِلَ وَنَحَرَتْ بَقَرَةً وَخَلَّقَتْهُ بِخَلُوقٍ. وَأَلْبَسَتْهُ حُلَّةً حِبَرَةً ،فلما صحا قال:مَا هَذَا الْعَقِیرُ؟ وَمَا هَذَا الْعَبِیرُ؟ وَمَا هَذَا الْحَبِیرُ؟ قَالَتْ: زَوَّجْتَنِی مُحَمَّدًا قَالَ: مَا فَعَلْتُ! أَنَا أَفْعَلُ هَذَا وَقَدْ خَطَبَكِ أَكَابِرُ قُرَیْشٍ فَلِمَ أَفْعَلُ؟

خدیجہ رضی اللہ عنہا نے ایک دن اپنے والدکو بلایا اور انہیں شراب پلادی جس کے نشہ میں وہ مخمورہوگئے پھر خدیجہ رضی اللہ عنہا نے ایک گائے ذبح کرائی اور والدکوخوشبوؤ ں سے معطرکیااورانہیں ایک مخطط (دھاری دار) چادراوڑھا دی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں قاصدبھیج کرآپ کوچچاوں سمیت تشریف آوری کاپیغام کہلا بھیجا ، چنانچہ وہ حضرات وقت مقررہ پرتشریف لے آئے اورانہوں نے دونوں کاعقد کر دیا،جب خدیجہ رضی اللہ عنہا کے والد ہوش میں آئے توانہوں نے کہا یہ کیسی خوشبوہے،یہ ذبیحہ کیسا ہے اوریہ دھاری دارلباس( یمنی چادر)کیسا ہے،اس پر خدیجہ رضی اللہ عنہا نے کہاکہ آپ نے میرا عقد محمدبن عبداللہ سے کردیاہے،انہوں نے کہاکہ میں نے تونہیں کیابھلامیں یہ کیسے کر سکتا تھا جبکہ روساء قریش تک کے کئی رشتے آئے مگرمیں نے ردکردیئے ۔

قال الواقدی: وهذا غلط، والثبت عندنا المحفوظ من حدیث محمد ابن عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُسْلِمٍ، عَنْ أَبِیهِ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ جُبَیْرِ بْنِ مُطْعِمٍ وَمِنْ حَدِیثِ ابْنِ أَبِی الزِّنَادِ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِیهِ، عَنْ عَائِشَةَ وَمِنْ حَدِیثِ ابْنِ أَبِی حَبِیبَةَ، عَنْ دَاوُدَ بْنِ الْحُصَیْنِ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّ أَبَاهَا خُوَیْلِدَ بْنَ أَسَدٍ مَاتَ قَبْلَ الْفِجَارِ. وَأَنَّ عَمَّهَا عَمْرَو بْنَ أَسَدٍ زَوَّجَهَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ

واقدی کہتے ہیں کہ یہ روایت سراسرغلط ہے ،اس روایت کی تردیدمیں تین روایات ہیں ،ایک روایت محمدبن عبداللہ بن مسلم نے اپنے والدمحمدبن جبیربن مطعم سے ہے،دوسری روایت ابن ابی الزنادنے ہشام بن عروہ سے انہوں نے اپنے والدسے اورانہوں نے ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا صدیقہ سے روایت کی ہے،تیسری روایت ابن حبیبہ سے ہے جسے انہوں نے داودبن حصین سے انہوں نے عکرمہ سے اورانہوں نے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کیاہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے خدیجہ الکبریٰ کانکاح ان کے چچاعمروبن اسدنے کیاتھااور ان کے والد خویلدبن اسدجنگ فجارسے بھی پہلے فوت ہوچکے تھے۔[47]

وَقَدْ قِیلَ: إِنَّ أَخَاهَا عَمْرَو بْنَ خُوَیْلِدٍ هُوَ الَّذِی أَنْكَحَهَا مِنْهُ وَاللَّهُ أَعْلَمُ

یہ بھی کہاجاتاہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ام المومنین خدیجہ رضی اللہ عنہا کانکاح ان کے بھائی عمروبن خویلدنے کیاتھا۔[48]

 وتزوج صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ خَدِیجَةَ بعد ذلك بشهرین وخمسة وعشرین یومًا

بہرحال سفرشام سےدوماہ پچیس روزبعدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خدیجہ رضی اللہ عنہا سے شادی کرلی۔[49]

دعوت ولیمہ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس موقعہ پردعوت ولیمہ فرمائی جس میں ایک یادواونٹنیاں ذبح کرائیں اورلوگوں کوکھاناکھلایایہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پہلی شادی تھی،آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور ام المومنین خدیجہ رضی اللہ عنہا میں عمر کے فرق کے باوجودپوری موافقت اورہم آہنگی رہی اورآپ خدیجہ رضی اللہ عنہا کے لئے ایک مثالی شوہرثابت ہوئے ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ ام المومنین خدیجہ رضی اللہ عنہا کے احترام وعقیدت مندی کامحور رہے ،

فَوَلَدَتْ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَلَدَهُ كُلَّهُمْ إلَّا إبْرَاهِیمَ الْقَاسِمَ، وَبَهْ كَانَ یُكَنَّى صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، وَالطَّاهِرَ ، وَالطَّیِّبَ، وَزَیْنَبَ، وَرُقَیَّةَ، وَأُمَّ كُلْثُومٍ، وَفَاطِمَةَ، عَلَیْهِمْ السِّلَامُ

ابراہیم کے علاوہ جوماریہ قبطیہ کے بطن سے مدینہ منورہ میں پیداہوئے باقی سب اولاد خدیجہ رضی اللہ عنہا کے بطن سے مکہ مکرمہ میں ہی پیداہوئیں ،  اللّٰہ نے ان کے بطن سے پہلا بیٹاقاسم پیدا فرمایا اسی وجہ سے آپ کی کنیت ابوقاسم تھی،پھر زینب رضی اللہ عنہا ، رقیہ رضی اللہ عنہا ام کلثوم رضی اللہ عنہا ، اور فاطمہ  رضی اللہ عنہا اورایک اوربیٹاعبد اللّٰہ پیداہوئے۔[50]

فَوَلَدَتْ لِرَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ الْقَاسِمَ وَبِهِ كَانَ یُكَنَّى وَالطَّاهِرَ وَزَیْنَبَ، وَرُقَیَّةَ وَأُمَّ كُلْثُومٍ، وَفَاطِمَةَ رَضِیَ اللهُ عَنْهُمْ

اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں ایک بیٹاقاسم جنہیں طاہربھی کہاجاتاہے اورچاربیٹیاں زینب رضی اللہ عنہا ، رقیہ رضی اللہ عنہا ،ام کلثوم رضی اللہ عنہا اورفاطمہ پیدا ہوئیں ۔[51]

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ:كَانَ أَوَّلُ مَنْ وُلِدَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بِمَكَّةَ قَبْلَ النُّبُوَّةِ الْقَاسِمُ. وَبِهِ كَانَ یُكَنَّى ثُمَّ وُلِدَ لَهُ زَیْنَبُ. ثُمَّ رُقَیَّةُ. ثُمَّ فَاطِمَةُ. ثُمَّ أُمُّ كُلْثُومٍ ثُمَّ وُلِدَ لَهُ فِی الإِسْلامِ عَبْدُ اللَّهِ فَسُمِّیَ الطَّیِّبَ. وَالطَّاهِرَ وَأُمُّهُمْ جَمِیعًا خَدِیجَةُ بِنْتُ خُوَیْلِدِ بْنِ أَسَدِ بْنِ عَبْدِ الْعُزَّى بْنِ قُصَیٍّ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پہلے صاحبزادے قاسم تھے جونبوت سے پہلے مکہ مکرمہ میں پیداہوئے تھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں کے نام پرکنیت بھی کرتے تھے،بعدمیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نسل میں زینب رضی اللہ عنہا پیداہوئیں ،پھررقیہ رضی اللہ عنہا پیداہوئیں پھرفاطمہ رضی اللہ عنہا پیداہوئیں پھرام کلثوم رضی اللہ عنہا پیدا ہوئیں ،عہداسلام میں یعنی بعثت کے بعدآپ کی نسل سے عبداللہ پیداہوئے جن کاطیب وطاہرلقب پڑا،ان تمام نبی زادوں اورنبی زادیوں کی والدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا بنت خویلدبن اسدبن عبدالعزی بن قصی تھیں ۔[52]

طاہروطیب دوالگ بچے نہ تھے بلکہ عبداللہ بن محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے القاب تھے۔[53]

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ: وَلَدَتْ خَدِیجَةُ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ غُلَامَیْنِ وَأَرْبَعَ نِسْوَةٍ: الْقَاسِمَ، وَعَبْدَ اللَّهِ، وَفَاطِمَةَ، وَزَیْنَبَ، وَرُقَیَّةَ، وَأُمَّ كُلْثُومٍ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہےام المومنین خدیجہ رضی اللہ عنہا نےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھردولڑکوں اورچاربیٹیوں کوجنم دیاقاسم اورعبداللہ فاطمہ رضی اللہ عنہا ، زینب رضی اللہ عنہا ، رقیہ رضی اللہ عنہا اورام کلثوم رضی اللہ عنہا ۔[54]

زَیْنَبُ؛ أكبر بناته، تزوجها أبو العاصى ،وكان لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: رُقَیَّةُ، تزوجها عثمان بن عفان،وكان له صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أیضا: فَاطِمَةُ رضوان الله علیها، وتزوجها أمیر المؤمنین على بن أبى طالب كرم الله وجهه،وكان لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أم كلثوم، وهى أصغر بناته، كانت مملكة بعتبة بن أبى لهب فلم یدخل بها فطلقها، فتزوجها عثمان بن عفان

ایک اور روایت ہے کہ ام المومنین خدیجہ رضی اللہ عنہا کے بطن سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں چار لڑکیاں پیداہوئیں جن میں زینب رضی اللہ عنہا سب سے بڑی تھیں اوران کانکاح ابوالعاص رضی اللہ عنہ سے ہوا،پھررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں رقیہ رضی اللہ عنہا پیداہوئیں ان کانکاح سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ بن عفان سے ہوا،پھر فاطمہ رضی اللہ عنہا پیداہوئیں جن کانکاح امیرالمومنین سیدناعلی رضی اللہ عنہ بن ابوطالب سے ہوا ،اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں ام کلثوم رضی اللہ عنہا پیداہوئیں جو تمام لڑکیوں میں چھوٹی تھیں ان کانکاح ابولہب کے بیٹے سے ہوچکاتھامگرابھی رخصتی نہیں ہوئی تھی کہ طلاق ہوگئی پھران کانکاح سیدناعثمان رضی اللہ عنہ بن عفان سے ہوا ۔ [55]

أنها ولدت قبل البعثة بعشر سنین

ایک روایت ہےبعثت نبوت سے پہلے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمرمبارک تیس برس کی ہوئی تو زینب رضی اللہ عنہا پیداہوئیں ۔[56]

قال أبو عمر: كان رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ محبًا فِیهَا

ابوعمرکہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ سے بڑی محبت کیاکرتے تھے۔[57]

إلى فاطمةلأنها ولدت سنة إحدى وأربعین من مولد أبیهاصَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ

ایک روایت ہے فاطمہ رضی اللہ عنہا کی ولادت اس وقت ہوئی جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمراکتالیس سال( اور ام المومنین خدیجہ رضی اللہ عنہا کی عمرچھپن سال) کی تھی۔[58]

اگرکوئی کہتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صرف ایک ہی حقیقی بیٹی فاطمہ الزہرہ رضی اللہ عنہا تھیں اور باقی ان کی ربائب تھیں تویہ ثابت نہیں ہوتاکیونکہ تمام معتبرروایات اور اللہ تبارک وتعالیٰ قرآن مجید میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کومخاطب کر کے دو سے زیادہ بیٹیوں کے بارے میں فرماتاہے۔

یٰٓاَیُّهَا النَّبِیُّ قُلْ لِّاَزْوَاجِكَ وَبَنٰتِكَ وَنِسَاۗءِ الْمُؤْمِنِیْنَ یُدْنِیْنَ عَلَیْهِنَّ مِنْ جَلَابِیْبِهِنَّ۔۔۔۝۰۝۵۹ [59]

ترجمہ:اے نبی ( صلی اللہ علیہ وسلم ) ! اپنی بیویوں اور بیٹیوں اور اہل ایمان کی عورتوں سے کہہ دو کہ اپنے اوپر اپنی چادروں کے پلو لٹکالیا کریں ۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی چارحقیقی بیٹیوں زینب رضی اللہ عنہا ،رقیہ رضی اللہ عنہا ، ام کلثوم رضی اللہ عنہا اور فاطمہ رضی اللہ عنہا کے علاوہ بلاشبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ربائب میں چاربیٹیاں تھیں ،چار ہجری کے بعدام المومنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے نکاح کے بعد ان کے پہلے خاوند سے تین بیٹیاں درہ،زینب اورام کلثوم۔اورچھ ہجری میں ام المومنین ام حبیبہ رضی اللہ عنہا سے نکاح کے بعد ان کے پہلے خاوندکی بیٹی حبیبہ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ربائب میں آگئیں ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دونوں بیٹے قاسم اورعبد اللّٰہ بچپن ہی میں فوت ہوگئے،

وماتت زَیْنَب ورُقَیَّةُ وأمّ كلثوم بنات النبی صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فى حیاته

اور زینب رضی اللہ عنہا ، رقیہ رضی اللہ عنہا ، ام کلثوم رضی اللہ عنہا بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی زندگی میں فوت ہوگئیں تھیں ۔[60]

فاطمہ رضی اللہ عنہا بھی آپ کے وصال کے چھ ماہ بعد وفات پا گئیں ۔ اورربائب درہ،زینب،ام کلثوم اورحبیبہ وصال نبی کے بعدتک زندہ رہیں ، ام المومنین خدیجہ رضی اللہ عنہا پہلی خاتون ہیں جو سب سے پہلے بغیر کسی تردد کے آپ پر ایمان لائیں ، شادی سے قبل آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھرتنگدستی ومفلسی تھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی محنت کی کمائی میں سے زیادہ سے زیادہ یتیموں ،مسکینوں ، بیواؤ ں ، اسیروں ،حاجت مندوں وغیرہ پر خرچ کردیاکرتے تھے مگروہ بہت تھوڑے پیمانے پرتھاجس کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اوصاف پوری طرح ظاہرنہ ہوئے تھے مگرشادی کے بعد مفلسی کایہ دور گزر گیا اور اللہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خوشحالی کادورعطافرمایا، ام المومنین خدیجہ الکبریٰ رضی اللہ عنہا شادی سے قبل دوسرے لوگوں کے زریعہ تجارت کرتی تھیں جن کی اخلاقی حالت مشکوک ہی ہوتی تھی اوران سے راستبازی کی توقع نہیں کی جاسکتی تھی کہ وہ ان کے مال کوپوری لگن، دیانت اورخیرخواہی کے جذبہ سے فروخت کریں گے،اس لئے انہیں اپنے مال کاجتنامنافع ملناچاہیے تھا وہ حاصل نہ ہوتا تھا مگراب ان کی تجارت ایک صادق وامین ،معاملہ فہم اورراستباز شخص کے ہاتھ میں آگئی جو خدیجہ رضی اللہ عنہا کے شوہربھی تھے اورفطری طورپرلوگوں کے خیرخواہ اور ہمدرد بھی تھے، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی راستبازی ،معاملہ فہمی ،دیانت داری اورلگن سے ان کی تجارت کوچارچاندلگ گئے،شادی سے بیشتر آپ اخلاقی لحاظ سے قریش اور اردگرد کے لوگوں سے سربلندتوتھے ہی مگرشادی کے بعدمادی لحاظ سے بھی آپ کامرتبہ سب سے بلند ہو گیااورآپ صلی اللہ علیہ وسلم قریش کے بڑے لوگوں میں شمارہونے لگے چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔

وَوَجَدَكَ عَاۗىِٕلًا فَاَغْنٰى۝۸ۭ [61]

ترجمہ: اور تمہیں نادار پایا اور پھر مال دار کر دیا ۔

اب جب اللہ نے آپ کو فراغت بخشی توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دروازے معاشرے کے ضرورت مندلوگوں کے لئے مکمل طورپرکھول دئیے جس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مخفی اوصاف کھل کر لوگوں کے سامنے آگئے،لوگوں کے دلوں میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امانت ودیانت کاسکہ جم گیا،لوگوں کاآپ صلی اللہ علیہ وسلم پراتنااعتماد قائم ہوگیاکہ آنکھیں بندکرکے اپنی قیمتی امانتیں آپ کے پاس رکھوانے لگے اوریہ سلسلہ ہرطرح کے نامساعدحالات میں ہجرت نبوی تک جاری رہا،امانت ودیانت کایہ سلسلہ صرف چندلوگوں ہی تک محدودنہ تھا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بلنداخلاق اور پاکیزہ گفتگو کی وجہ سے لوگ آپ کے گرویدہ ہوجاتے اورساتھ چھوڑنے کوتیارنہ ہوتے،جیساکہ زیدبن حارثہ کاواقعہ اس کی شہادت دیتاہے ، زید رضی اللہ عنہ کے والد کا نام حارثہ بن شرجیل تھا جو قبیلہ کلب سے تعلق رکھتے تھے ،اور ان کی والدہ کانام سعدیٰ بنت ثعلبہ تھاجن کاتعلق قبیلہ طے کی شاخ بنی معن سے تھا،جب زید رضی اللہ عنہ آٹھ سال کے ہوئے توان کی والدہ انہیں اپنے میکے میں لے کرگئیں ،قافلوں پرلوٹ مار،قتل و غارت عام سی بات تھی ،راستے میں قبیلہ بنی قین بن جسرکے غارت گروں نے ان کے پڑاؤ پر صبح کے وقت دھارابول دیا، قافلہ کے چندلوگ مقابلہ نہ کرسکے اورمیدان بنی قین بن جسر کے لوگوں کے ہاتھ رہا،انہوں نے لوٹ مارمیں جومال ہاتھ لگاوہ تولے ہی گئے ساتھ میں کئی لوگوں کوبھی پکڑ کر لے گئے جن میں زید رضی اللہ عنہ بھی شامل تھے،یہ بھی کہاجاتاہے کہ بنوفزارہ نے قبیلہ طے پرچھاپہ مارااورمنجملہ دوسرے مال واسباب اورآدمیوں کے زید رضی اللہ عنہ کوبھی اغواکرکے لگے اوران لوگوں نے عکاظ کے میلے میں ان قیدیوں کی نیلامی لگادی ، میلے میں تمام قریش اور دوسرے قبائل موجودہوتے تھے ،وہاں خدیجہ رضی اللہ عنہا کے بھتیجے حکیم بن حزام بھی تھے انہوں نے زید رضی اللہ عنہ کو خرید لیا،

فَدَخَلَتْ عَمَّتُهُ خَدِیجَةُ بِنْتُ خُوَیْلِدٍ فَقَالَ: اخْتَارِی أَیَّ هَؤُلَاءِ الْغِلْمَانِ شِئْتِ فَهُوَ لَكِ، فَاخْتَارَتْ زَیْدًا فَأَخَذَتْهُ

جب خدیجہ رضی اللہ عنہا ان سے ملنے کے لئے گئیں توانہوں نے کہاپھوپھی جان!آپ کوان غلاموں میں سےجوغلام پسندہو لے لیجئے، خدیجہ رضی اللہ عنہا نے زید رضی اللہ عنہ کوپسندکیااورلے لیا،بچپن میں ماں باپ نے ان کی جو تربیت کی تھی سوکی تھی ، جب یہ خدیجہ رضی اللہ عنہا جو خود بہترین عادت واطوارکی مالدارخاتون تھیں انہوں نے اس بچے کی بھی اچھی تربیت کی ،اس واقعہ کے سات سال بعدجب ام المومنین خدیجہ رضی اللہ عنہا کی شادی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہوئی اس وقت زید رضی اللہ عنہ کی عمرپندرہ سال کی تھی ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے اچھے اطواردیکھ کر انہیں خدیجہ رضی اللہ عنہا سے مانگ لیا،یہ بھی کہا جاتاہے خدیجہ رضی اللہ عنہا نے خود زید رضی اللہ عنہ بن حارثہ کو ہدیتہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کردیاتھا، زید رضی اللہ عنہ کوآپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کرتے کچھ عرصہ اور گزر گیا۔

ثُمَّ قَدِمَ أَبُوهُ حَارِثَةُ لِمَوْجِدَتِهِ عَلَیْهِ وَجَزَعِهِ وَكَانَ أَبُوهُ حَارِثَةُ قَدْ جَزِعَ عَلَیْهِ جَزَعًا شَدِیدًا، وَبَكَى عَلَیْهِ حِینَ فَقَدَهُ فَقَالَ:

سات آٹھ سال کے اس تمام عرصہ میں ان کے والدین اپنے بیٹے کی تلاش میں سرگرداں رہے،ابوحارثہ اپنے یوسف گم گشتہ کے لیے سخت رنج والم میں مبتلارہااوراس کے غم میں نوحہ پڑھتاتودوست تودست دشمن بھی رودیتے تھے،اس نے یہ نوحہ کہا

بَكَیْتُ عَلَى زَیْدٍ وَلَمْ أَدْرِ مَا فَعَلْ، أَحَیٌّ فَیُرْجَى أَمْ أَتَى دونه الْأَجَل

میں زیدکے لیے رویاپیٹالیکن معلوم نہیں وہ کہاں گیا، نہ معلوم وہ زندہ ہے کہ امیدکادیاروشن رکھوں یااس نے جام اجل پی لیا

فو الله مَا أَدْرِی وَإِنِّی لَسَائِلٌ ،أَغَالَكَ بَعْدِی السَّهْلُ أَمْ غَالَكَ الْجَبَلْ

بخدامیں باربارپوچھتاہوں پھربھی نہیں جانتا ، کہ تونرم زمین کی پہنائیوں میں غرق ہوگیایاتجھے پہازڑنگل گیا

وَیَا لَیْتَ شِعْرِی هَلْ لَكَ الدَّهْرُ أَوْبَةٌ ، فَحَسْبِی مِنْ الدُّنْیَا رُجُوعُكَ لِی بَجَلْ

کاش مجھے معلوم ہوجاتاکہ تیری واپسی کبھی ممکن ہے ،(تجھے کیامعلوم کہ)تیری واپسی سے میری دنیاآبادہوجائے گی

تُذَكِّرْنِیهِ الشَّمْسُ عِنْدَ طُلُوعِهَا، وَتَعْرِضُ ذِكْرَاهُ إذَا غَرْبُهَا أَفَلْ

طلوع شمس مجھے اس کی یاددلاتاہے، اورغروب آفتاب پھراس کی یادتازہ کردیتاہے

وَإِنْ هَبَّتْ الْأَرْوَاحُ هَیَّجْنَ ذِكْرَهُ ،فَیَا طُولَ مَا حُزْنِی عَلَیْهِ وَمَا وَجَلْ

بادبہاری کے جھونکے اس کے فراق کی آگ بھڑکادیتے ہیں ،آہ میں کتنے رنج والم میں مبتلاہوں

سَأُعْمِلُ نَصَّ الْعِیسِ فِی الْأَرْضِ جَاهِدًا، وَلَا أُسْأَمُ التَّطْوَافَ أَوْ تَسْأَمُ الْإِبِلْ

اے فرزند!میں تیری تلاش میں دنیاکاکونہ کونہ چھان ماروں گا  اس جستجوسے عمربھرنہ تھکوں گایہاں تک کہ اونٹ تھک جائے

حَیَاتِی أَوْ تَأْتِی عَلَیَّ مَنِیَّتِی، فَكُلُّ امْرِئٍ فَانٍ وَإِنْ غَرَّهُ الْأَمَلُ

یامجھ پرموت واردہوجائے ، ہرانسان فانی ہے اگرچہ سراب امیدنے اسے دھوکادے رکھاہے[62]

وأوصى به عمرا وقیسا كلیهما ، وأوصى یزیدا ثم من بعده جبل

میں قیس اورعمرکووصیت کرتاہوں، پھریزید(سوتیلابھائی)کواوراس کے بعدجبل(جبلہ)( سوتیلا بھائی)کوکہ وہ زیدکی تلاش جاری رکھیں ۔[63]

فاتفق أن قوما من كلب حجوا فرأوا زید بن حارثة فعرفهم وعرفوه، فقال لهم: أبلغوا أهلی هذه الأبیات، فإنّی أعلم أنهم قد جزعوا علیّ، وهی:

اسی زمانے میں ایک سال بنوکلب کے چندآدمی حج کے لیے مکہ مکرمہ آئے ،بنوقضاعہ اوران لوگوں کی قرابت داری تھی ،ایک دن وہ حارثہ بن شراحیل کاوہ نوحہ جواس نے اپنے بیٹے کے فراق میں کہاتھابڑی پرسوزااوازمیں پڑھ رہے تھے کہ زید رضی اللہ عنہ کاادھرسے گزرہواٹھٹک کرکھڑے ہوگئے ،بنوکلب کے لوگوں کی نظربھی ان پرپڑی توانہوں نے زید رضی اللہ عنہ کوفورا ًپہچان لیاکہ حارثہ کاگم گشتہ فرزندیہی ہے،چنانچہ زیدسے ان کانام اوردوسرے حالات دریافت کیے توان کااندازہ درست ثابت ہوا،اب انہوں نے زید رضی اللہ عنہ کوان کے والدکی داستان غم سنائی اورانہیں اپنے ساتھ چلنے کوکہالیکن زید رضی اللہ عنہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میں اس مقام پرپہنچ چکے تھے جہاں ماں باپ ،عزیزواقارب سب کی محبت ان کے سامنے ہیچ تھی، زید رضی اللہ عنہ نے بنوکلب کے حاجیوں سے کہا میرے بزرگواوربھائیو!براہ کرم میرے غمزدہ خاندان کومیرایہ پیغام پہنچادینا

ألكنى إلى قومی وَإِنْ كنت نَائِیًا، فإنّی قطین الْبَیْتِ عِنْدَ الْمَشَاعِرِ

گومیں ان سے دورہوں لیکن اپنی قوم سے محبت کرتاہوں ،میں خانہ کعبہ میں مشعرحرام کے قریب رہتاہوں

فَكُفّوا مِنْ الْوَجْدِ الّذِی قَدْ شَجَاكُمْ ،وَلَا تُعْمِلُوا فِی الْأَرْضِ نَصّ الْأَبَاعِرِ

اس غم کوبھول جاؤ جس نے تمہیں رنجورکررکھاہے، اوراونٹوں کی طرح چل کردنیاکی خاک نہ چھانو

فَإِنّی بِحَمْدِ اللهِ فِی خَیْرِ أُسْرَةٍ،كِرَامِ مَعَدّ كَابِرًا بَعْدَ كَابِرِ

اللہ کاشکرہے کہ میں بنی معدکے ایک معززخاندان میں ہوں،جوپشت ہاپشت سے ذی عزت ہے

فانطلق الكلبیون فأعلموا أباه ، فخرج حارثة وكعب ابنا شراحیل لفدائه

اہل کلب کے لوگ حج کے بعدواپس اپنے علاقہ میں گئے تو زید رضی اللہ عنہ کے والدکوزیدکاپیغام پہنچایا،چنانچہ حارثہ بن شراحیل اورکعب بن شراحیل زید رضی اللہ عنہ کا فدیہ دینے کے لیے روانہ ہوئے۔[64]

وقدما مكة فسألا عن النبى صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فقیل هو فى المسجدفدخلا علیه

چنانچہ ان کے والد اورچچادونوں مکہ مکرمہ آئے اورنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کاپوچھاتوانہیں بتایاگیاکہ وہ مسجدمیں ہیں ،وہ مسجدمیں حاضرخدمت ہوئے۔[65]

فقالا:یَاا بْنَ عَبْدِ الْمُطّلِبِ بن هاشم، یَا بْنَ سَیّدِ قَوْمِهِ أَنْتُمْ أهل حرم الله وجیرانه، وَتَفُكّونَ الْعَانِیَ وَتُطْعِمُونَ الأسیر،جِئْنَاك فِی ابْنِنَا عَبْدِك، فامنن علیه وأحسن إلَیْنَا فِی فِدَائِهِ.

چنانچہ ان کے والد اورچچادونوں مکہ مکرمہ آئے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کاپوچھااورحاضرخدمت ہوئے اورعرض کیااے ابن عبدالمطلب بن ہاشم!اے قوم کے سردار!آپ اہل حرم ہیں بھوکوں کوکھاناکھلاتے ہیں اوراسیروں کو کھانا کھلاتے ہیں ،

وَتُطْعِمُونَ الْجَائِعَ

ایک روایت میں ہےحجاج کرام کوکھاناکھلاتے ہیں ۔

ہم اپنے بیٹے کے لیے آپ کے پاس حاضرہوئے ہیں جوآپ کاغلام ہے ہم پر احسان فرمائیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم جوبھی فدیہ چاہیں وہ اداکرنے کوتیارہیں مگر ان کابچہ ان کے حوالے کردیں ،

فَقَالَ:من هُوَ؟ قالوا: زید بن حارثة ،فقال رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:فهلا غیر ذلك؟ قالوا: ما هو؟قال:اُدْعُوهُ وَأُخَیّرُهُ فَإِنْ اخْتَارَكم فهو لكم، وَإِنْ اخْتَارَنِی فَوَاَللهِ مَا أَنَا بِاَلّذِی أَخْتَارُ عَلَى مَنْ اخْتَارَنِی أَحَدًاقالا: قد زدتنا على النصف وأحسنت، فدعاه فقال:هل تعرف هؤلاء؟ قال: نعم،قال: من هذا؟ قال: أبى وهذا عمى

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھاتمہارالخت جگر کون ہے؟انہوں نے کہاوہ زیدبن حارثہ ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیامیں اس سے بہتربات کہوں ؟انہوں نے کہاوہ کیابات ہے؟رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایامیں اس معاملہ کوبچے کی مرضی پر چھوڑتا ہوں ،میں اسے بلاتاہوں اگروہ آپ لوگوں کے ہمراہ جانا چاہئے گاتومیں بغیرفدیہ لئے تمہارے حوالے کردوں گالیکن اگروہ میرے ساتھ رہناپسندکرے گا تومیں ایسا شخص نہیں ہوں کہ جومیرے ساتھ رہنا چاہے میں اسے خواہ مخواہ خودسے دورکردوں ، زید رضی اللہ عنہ کے والداور چچا کویہ تجویز بہت پسندآئی کیونکہ انہیں یہ وثوق کامل تھا کہ بچہ یقیناً اپنے باپ اورچچا کودیکھ کران کے ساتھ جاناپسندکرے گا اور ساتھ میں فدیہ کی رقم بھی بچ رہی تھی،چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زید رضی اللہ عنہ بن حارثہ کو بلایا اوران سے دریافت فرمایا یہ دوآدمی جوتمہارے سامنے بیٹھے ہیں کیاتم انہیں پہچانتے ہو؟ زید رضی اللہ عنہ نے اپنے باپ اورچچاکوپہچان کرجواب دیا جی ہاں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت کیایہ دونوں کون ہیں ؟یہ میرے والدمحترم ہیں اوریہ میرے چچا جان ہیں ۔

فَقَالَ هَذَا أَبِی حَارِثَةُ بْنُ شَرَاحِیلَ وَهَذَا عَمّی: كَعْبُ بْنُ شَرَاحِیلَ

ایک روایت میں ہے زید رضی اللہ عنہ نے کہایہ میرے والدحارثہ بن شراحیل ہیں اوریہ میرے چچاکعب بن شراحیل ہیں ۔[66]

قال:فأنا من قد علمت ورأیت صحبتى لك فاخترنى أو اخترهما قال زید: ما أنا بالذى اختار علیك أحدا، أنت منى مكان الأب والعم! فَقَالَ لَهُ أَبُوهُ یَا زَیْدُ أَتَخْتَارُ الْعُبُودِیّةَ عَلَى الْحُرّیّةِ وَ عَلَى أَبِیك وَأُمّك وَبَلَدِك وَقَوْمِك؟ فقال ابن الكریم.قال: نعم، قد رأیت من هذا الرجل شیئا ما أنا بالذى أختار علیه أحدا أبدا فلما رأى ذلك رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أخرجه إلى الحجر فقال:یا من حضر، اشهدوا أن زیدا ابنى یرثنى وأرثه، فلما رأى ذلك أبوه وعمه طابت نفوسهما، فانصرفوافدعى: زید بن محمد

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاتم انہیں اچھی طرح جانتے اورمجھے بھی جانتے ہوتم فیصلہ کرنے میں مکمل طورپرآزادہو کہ ان کے ساتھ اپنے گھر جاناپسندکرتے ہویامیرے ساتھ رہنا چاہوگے،اس وقت تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کونبوت کامنصب نہیں ملاتھامگراس مختصر عرصہ میں زیدبن حارثہ رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کرتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے عادات و اطواراور پاکیزہ گفتگوسے بہت متاثر ہو چکا تھااس لئے بغیرکسی تامل کے جواب دیامیں آپ کو چھوڑ کرکسی کے پاس نہیں جانا چاہتا، زید رضی اللہ عنہ کے باپ اورچچاکے لئے یہ انہونی بات تھی کہ ان کا بیٹا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی میں رہنا چاہتاہے، اس لئے بڑی حیرت سے زید رضی اللہ عنہ سے کہنے لگے اے زید رضی اللہ عنہ !کیاتواپنی آزادی کوان کی غلامی پرترجیح دیتاہے اوراپنے ماں ، باپ، قبیلہ، کنبہ کوچھوڑ کر غیروں کے پاس رہنا چاہتا ہے، زید رضی اللہ عنہ نے بڑی متانت سے عرض کیااے میرے باپ ! ہاں میں نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے جوبہترین اوصاف دیکھے ہیں ان کاتجربہ کرلینے کے بعدمیں پوری دنیامیں سے کسی کوبھی کبھی ان پرترجیح نہیں دے سکتا، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زیدبن حارثہ رضی اللہ عنہ کا یہ محبت بھراانداز دیکھا تو بہت خوش ہوئے اورن بزرگوں کی موجودگی میں ہی زید رضی اللہ عنہ کو آزاد کر دیا پھر جلدی سے زیدبن حارثہ رضی اللہ عنہ کاہاتھ پکڑکر حرم میں تشریف لے گئے اوروہاں پربیٹھے قریش کے سامنے اعلان کردیاکہ آج سے زید رضی اللہ عنہ میرے بیٹے ہیں ،یہ مجھ سے وراثت پائے گااورمیں اس سے، یہ اعلان سن کرزیدبن حارثہ رضی اللہ عنہ کے بزرگ شاداں وفرحاں واپس چلے گئے،اس دن سے زید رضی اللہ عنہ بن حارثہ گھرکے ایک فردبن گئے اور زید رضی اللہ عنہ بن محمدپکارے جانے لگے۔[67]

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کانکاح ام ایمن سے کردیاتھا،جن کے بطن سے ان کابیٹااسامہ رضی اللہ عنہ بن زید رضی اللہ عنہ پیداہوے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم زید رضی اللہ عنہ کو بہت پسندکرتے تھے ، جب انہیں کسی کام سے روانہ کرتے توان کے لئے دعاکرتے اورجب وہ واپس آجاتے تو خوشی کااظہار فرماتے ،اس لئے صحابہ کرام انہیں حبیب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اوران کے فرزندکوفرزندحبیب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کہتے تھے ، جب قرآن مجیدمیں یہ حکم نازل ہوا۔

مَا كَانَ مُحَمَّدٌ اَبَآ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِكُمْ وَلٰكِنْ رَّسُوْلَ اللهِ وَخَاتَمَ النَّـبِیّٖنَ۔۔۔۝۰۝۴۰ۧ [68]

ترجمہ:لوگو! محمد تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں ، مگر وہ اللہ کے رسول اور خاتم النبین ہیں ۔

اُدْعُوْهُمْ لِاٰبَاۗىِٕهِمْ هُوَاَقْسَطُ عِنْدَ اللهِ۝۰ۚ فَاِنْ لَّمْ تَعْلَمُوْٓا اٰبَاۗءَهُمْ فَاِخْوَانُكُمْ فِی الدِّیْنِ وَمَوَالِیْكُمْ۔۔۔۝۰۝۵ [69]

ترجمہ:منہ بولے بیٹوں کو ان کے باپوں کی نسبت سے پکارو یہ اللہ کے نزدیک زیادہ منصفانہ بات ہے ، اور اگر تمہیں معلوم نہ ہو کہ ان کے باپ کون ہیں تو وہ تمہارے دینی بھائی اور رفیق ہیں ۔

اس کے بعدلوگ انہیں زیدبن حارثہ کہنے لگے، زیدبن حارثہ ایک لاکھ سے زائدصحابہ میں صرف ایک ہی خوش قسمت ہیں جن کااسم گرامی ناموس اکبرکی زبان سے ادا ہو کر قرآن مجیدکے صفحات میں جگہ حاصل کرسکا ان کے علاوہ کسی دوسرے صحابی کانام قرآن مجیدمیں مذکورنہیں ۔

۔۔۔ فَلَمَّا قَضٰى زَیْدٌ مِّنْهَا وَطَرًا زَوَّجْنٰكَهَا لِكَیْ لَا یَكُوْنَ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ حَرَجٌ فِیْٓ اَزْوَاجِ اَدْعِیَاۗىِٕهِمْ اِذَا قَضَوْا مِنْهُنَّ وَطَرًا۔۔۔ [70]

ترجمہ:پھر جب زید اس سے حاجت پوری کر چکا تو ہم نے تجھ سے اس کا نکاح کر دیا تاکہ مسلمانوں پر ان کے منہ بولے بیٹوں کی بیویوں کے بارے میں کوئی گناہ نہ ہو جب کہ وہ ان سے حاجت پوری کر لیں ۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کارویہ اپنے غلاموں کے ساتھ اس قدرمثالی تھاکہ آزادی کاموقع ملنے کے باوجودغلام آزادہوناپسندنہیں کرتے تھے ،زیدبن حارثہ رضی اللہ عنہ کے بعددوسری مثال ثوبان بن لجدکی ہے جن کی کنیت ابوعبداللہ تھی،انہیں ابوعبدالکریم اورعبدالرحمٰن بھی کہاجاتاہے،یہ السراة کے باشندے تھے جوکہ مکہ اوریمن کے مابین ایک مقام ہے،بعض مورخین کاخیال ہے کہ ان کاتعلق بنوحمیرسے تھا،عہدجاہلیت میں انہیں قیدی بنالیاگیاتھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں خریدکر آزادکردیااورانہیں اختیاردیاکہ وہ اگراپنی قوم میں واپس جاناچاہیں توجاسکتے ہیں اوراگرچاہیں تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہیں ،ثوبان نے آزادی کے بجائے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہناپسندکیااورآپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کرتے رہےاورسفروحضرمیں کبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کاساتھ نہیں چھوڑا۔سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے عہدخلافت میں یہ فتح مصر میں شریک رہے،اورمعاویہ رضی اللہ عنہ کے عہدخلافت میں ۵۴ہجری میں حمص میں وفات پائی،

ابن قتیبہ کابیان ہے کہ حمص میں ان کاقائم کردہ دارالصدقہ (محتاج خانہ)تھا۔[71]

سیدناعلی رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی کفالت میں

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمرمبارک تقریباً۳۵ سال کی ہوچکی تھی،

أَنَّ قُرَیْشًا أَصَابَتْهُمْ أَزْمَةٌ شَدِیدَةٌ، وَكَانَ أَبُو طَالِبٍ ذَا عِیَالٍ كَثِیرٍفَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ لِلْعَبَّاسِ عَمِّهِ، وَكَانَ مِنْ أَیْسَرِ بَنِی هَاشِمٍ، یَا عَبَّاسُ: إنَّ أَخَاكَ أَبَا طَالِبٍ كَثِیرُ الْعِیَالِ، وَقَدْ أَصَابَ النَّاسَ مَا تَرَى مِنْ هَذِهِ الْأَزْمَةِ ، فَانْطَلِقْ بِنَا إلَیْهِ، فَلْنُخَفِّفْ عَنْهُ مِنْ عِیَالِهِ، آخُذُ مِنْ بَنِیهِ رَجُلًا، وَتَأْخُذُ أَنْتَ رَجُلًا، فَنَكِلُهُمَا عَنْهُ، فَقَالَ الْعَبَّاسُ: نَعَمْ. فَانْطَلَقَا حَتَّى أَتَیَا أَبَا طَالِبٍ، فَقَالَا لَهُ: إنَّا نُرِیدُ أَنْ نُخَفِّفَ عَنْكَ مِنْ عِیَالِكَ حَتَّى یَنْكَشِفَ عَنْ النَّاسِ مَا هُمْ فِیهِ، فَقَالَ لَهُمَا أَبُو طَالِبٍ: إذَا تَرَكْتُمَا لِی عَقِیلًا فَاصْنَعَا مَا شِئْتُمَافَأَخَذَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عَلِیًّا، فَضَمَّهُ إلَیْهِ، وَأَخَذَ الْعَبَّاسُ جَعْفَرًا فَضَمَّهُ إلَیْهِ

اس وقت مکہ معظمہ اوراس کے اردگردشدیدقحط پھیلاہواتھا اورقریش سخت تنگی میں گرفتارتھے اورابوطالب کثیرالعیال شخص تھے،ان حالات میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیال فرمایاکہ ان کے چچا ابو طالب جو ایک عیال دارآدمی ہیں اوران کی مالی حالت بھی بہترنہیں لہذاان کی مددکرنی چاہیے،یہ سوچ کرآپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے دوسرے چچا عباس رضی اللہ عنہ بن عبدالمطلب جوایک مالدارآدمی تھے کے پاس گئے اوران سے کہاکہ اے چچا!جیساکہ آپ جانتے ہیں آپ کے بھائی ابوطالب کثیرالعیال ہیں اوران کی مالی پوزیشن پہلے ہی اچھی نہیں ہے اس پر قحط نے ان کی حالت اور بھی پتلی کر دی ہے،ان کی کوئی اعانت اورامدادکرنی چاہیے جس سے ان کابوجھ کچھ ہلکاہو،آپ میرے ہمراہ چلیں ان کی بعض اولادکے آپ کفیل ہوجائیں اور بعض اولاد کا میں کفیل ہو جاتا ہوں ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تجویزسن کر عباس رضی اللہ عنہ راضی ہوگئے اورچچابھتیجے دونوں مل کرابوطالب کے پاس گئے اورکہاہم تمہارے پاس اس لئے آئے ہیں تاکہ تمہارے عیال کابارتم پرسے ہلکاکریں یہاں تک کہ تنگی کازمانہ جاتارہے، ابو طالب نے راضی ہوکر کہاعقیل کومیرے لئے چھوڑدو اورباقی بچوں میں سے جس کوجواپنی کفالت میں لیناچاہے لے لے،چنانچہ عباس رضی اللہ عنہ نے اپنے بھتیجے جعفر رضی اللہ عنہ کوجوتقریباًچودہ پندرہ سال کے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدناعلی رضی اللہ عنہ کو جو تقریباًچارپانچ سال کے تھے اورسب سے چھوٹے تھے اپنی کفالت میں لے لیا۔[72]

جنہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم اورخدیجہ الکبریٰ رقیہ رضی اللہ عنہا نے اولاد ہی کی طرح پالاپوسا۔مگرصحیح روایات سے معلوم ہوتاہے کہ جعفر رضی اللہ عنہ تقریبا ً دس سال کے تھےاورسیدناعلیٰ رضی اللہ عنہ چندماہ کے تھے، اگر اس وقت جعفر رضی اللہ عنہ چودہ پندرہ سال کے جوان تھے تو پھرانہیں کفالت کی ضرورت ہی نہ تھی ۔

[1]صحیح بخاری،صحیح مسلم ، سنن نسائی ، جامع ترمذی ابواب المناقب ۳۶۳۷ ،مسنداحمد۹۴۴، سنن الکبری للبیہقی ،مستدرک حاکم۴۱۹۴،سنن الدارقطنی وغیرہ

[2] ابن ہشام۶۳۵؍۱ ،الروض الانف۹۸؍۵،عیون الاثر ۳۰۴؍۱، البدایة والنہایة۳۵۱؍۳،السیرة النبویة لابن کثیر۴۴۱؍۲

[3] استیعاب۱۲۸۸؍۳

[4] مسنداحمد۱۵۵۰۲

[5] سنن ابوداودكِتَاب الْأَدَبِ بَابٌ فِی كَرَاهِیَةِ الْمِرَاءِ۴۸۳۶

[6]سنن ابوداودكِتَاب الْأَدَبِ بَابٌ فِی الْعِدَةِ۴۹۹۶

[7] یونس۱۶

[8] الروض الانف۱۵۵؍۲

[9] ابن سعد۱۰۳؍۱

[10] الإصابة فی تمییز الصحابة۱۰۰؍۸

[11] عیون الاثر۶۴؍۱

[12] المعجم الكبیرللطبرانی۱۰۸۶،مجمع الزوائد۵؍۱۰،عیون الأثر۶۵؍۱

[13] الاستیعاب فی معرفة الأصحاب۱۵۴۵؍۴

[14] المعارف۱۳۳؍۱

[15] الاستیعاب فی معرفة الأصحاب۱۵۴۴؍۴،الإصابة فی تمییز الصحابة ۴۳۷؍۶

[16] الاستیعاب فی معرفة الأصحاب ۱۵۴۵؍۴، الإصابة فی تمییز الصحابة۴۳۷؍۶

[17] الإصابة فی تمییز الصحابة۹۹؍۸،فقه السیرة النبویة۱۱۴؍۱

[18] ابن اسحاق۸۱؍۱،تاریخ طبری۲۸۰؍۲،البدایة والنہایة۳۵۸؍۲

[19] ابن سعد۱۰۴،۱۰۵؍۱،اسواق الاعرب فی الجاھلیة والسلام۱۳۳؍۱

[20] ابن سعد۱۰۵؍۱

[21] مستدرک حاکم۴۸۳۴

[22] ابن اسحاق۸۱؍۱،تاریخ طبری۲۸۰؍۲، البدایة والنہایة۳۵۸؍۲،الروض الانف۱۵۲؍۲

[23] ابن سعد۱۲۴؍۱

[24] شرف المصطفیٰ۴۰۹؍۱

[25]ابن سعد۱۲۴؍۱

[26] الاصابة فی تمییز الصحابة ۴۷۶؍۱، شرف مصطفیٰ۴۰۹؍۱

[27] عیون الاثر۶۵؍۱،ابن ہشام۱۹۰؍۱

[28] الاعراف۲۷

[29] صحیح بخاری كِتَابُ تَفْسِیرِ القُرْآنِ باب سُورَةُ اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِی خَلَقَ۴۹۵۳

[30] القصص ۸۶

[31] الشوریٰ ۵۲

[32] ابن اسحاق ۸۲؍۱،تاریخ طبری۲۸۰؍۲،الروض الانف۱۵۳؍۲،عیون الاثر۶۳؍۱،البدایة النہایة۳۵۸؍۲،السیرة النبویة لابن کثیر۲۶۳؍۱

[33] ابن سعد۱۰۴؍۱،عیون الاثر۶۳؍۱

[34] السیرةالحلبیة۲۰۱؍۱

[35] السیرة الحلبیة۲۰۱؍۱، تاریخ الخمیس فی أحوال أنفس النفیس ۲۶۴؍۱

[36] ابن ہشام۱۹۰؍۱،الروض الانف ۱۵۶؍۲

[37] البدایة النہایة۱۰۳؍۴

[38]تاریخ ابن خلدون ۳۲۵؍۱

[39] ابن سعد۱۰۵؍۱

[40] ابن سعد ۱۸۸؍۳

[41] ابن سعد۱۸۸؍۳

[42] ابن سعد۱۸۸؍۳

[43] ابن سعد۱۰۵؍۱،تاریخ طبری ۲۸۰؍۲

[44] ابن سعد۱۰۶؍۱

[45] ابن سعد۱۰۶؍۱

[46]ابن سعد ۱۳؍۸

[47] ابن سعد۱۰۶؍۱، تاریخ طبری ۲۸۲؍۲

[48] عیون الاثر۶۴؍۱

[49] شرح الزرقانی على المواهب اللدنیة۳۷۲؍۱

[50] ابن ہشام۱۹۱؍۱

[51] السنن الکبری للبیہقی۱۱۱؍۷

[52] ابن سعد۱۰۶؍۱

[53] زادالمعاد۱۰۱؍۱،عیون الآثر۳۵۷؍۲،الروض الانف ۱۶۰؍۲

[54] مسند احمد ۴۸۳۹ ،مستدرک حاکم ۱۸۲؍۳

[55]جوامع السیرة ۳۱؍۱

[56] اصابة فی تمیزاصحابة۴۶۱؍۸

[57] الاستیعاب فی معرفة الأصحاب۱۸۵۴؍۴،تاریخ الخمیس فی أحوال أنفس النفیس۲۷۳؍۱

[58] شرح الزرقانی علی المو اہب ۴۷۱؍۱

[59] الاحزاب ۵۹

[60] جمهرة أنساب العرب لابن حزم۱۷؍۱

[61] الضحیٰ ۸

[62] ابن ہشام۲۴۷؍۱

[63] تاریخ الخمیس فی أحوال أنفس النفیس۷۳؍۲،هایة الإیجاز فی سیرة ساكن الحجاز۴۸۰؍۱،ابن ہشام۲۴۸؍۱

[64] امتاع الاسماع۳۰۳؍۶

[65] تاریخ الخمیس۷۳؍۲

[66] الروض الانف۲۹۰؍۲

[67] خاتم النبیین صلى الله علیه وآله وسلم۲۸۹؍۱، تاریخ الاسلام۱۳۸؍۱،الاكتفاء بما تضمنه من مغازی رسول الله صلى الله علیه وسلم والثلاثة الخلفاء ۱۷۱؍۱

[68] الاحزاب ۴۰

[69] الاحزاب۵

[70]الاحزاب ۳۷

[71] کتاب المعارف۶۴،الاستیعاب۲۱۸؍۱

[72] ابن ہشام۲۴۵؍۱ ، عیون الآثر۲۸۷؍۲

Related Articles