مکہ: قبل از بعثتِ نبوی ﷺ

رسول  اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم کاشجرہ نسب

جیساکہ انبیاء ورسل کا نسب ہمیشہ سے اعلیٰ ہوتاہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کانسب بھی تمام انساب میں اشرف واعلیٰ ہے ،

عَنِ الْمُطَّلِبِ بْنِ أَبِی وَدَاعَةَ، قَالَ: جَاءَ العَبَّاسُ إِلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَكَأَنَّهُ سَمِعَ شَیْئًا فَقَامَ النَّبِیُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عَلَى الْمِنْبَرِ فَقَالَ: مَنْ أَنَا؟ قَالُوا: أَنْتَ رَسُولُ اللهِ عَلَیْكَ السَّلاَمُ. قَالَ: أَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، إِنَّ اللَّهَ خَلَقَ الخَلْقَ فَجَعَلَنِی فِی خَیْرِهِمْ فِرْقَةً، ثُمَّ جَعَلَهُمْ فِرْقَتَیْنِ فَجَعَلَنِی فِی خَیْرِهِمْ فِرْقَةً، ثُمَّ جَعَلَهُمْ قَبَائِلَ فَجَعَلَنِی فِی خَیْرِهِمْ قَبِیلَةً، ثُمَّ جَعَلَهُمْ بُیُوتًا فَجَعَلَنِی فِی خَیْرِهِمْ بَیْتًا وَخَیْرِهِمْ نَفْسًا.

مطلب بن ابی وداعہ فرماتے ہیں عباس بن عبدالمطلب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوئے گویا کہ وہ (قریش وغیرہ سے) کچھ سن کر آئے تھے چنانچہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر کھڑے ہوئے اور لوگوں سے پوچھا کہ میں کون ہوں ؟لوگوں نے عرض کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں ، آپ پر سلامتی ہو،پھر فرمایا کہ میں محمد بن عبداللہ بن عبدالمطلب ہوں ،اللہ تعالیٰ نے مخلوق کو پیدا کیا تو ان میں سے بہترین لوگوں سے مجھے پیدا فرمایا پھر دو گروہ کئے اور مجھے ان دونوں میں سے بہتر گروہ میں سے پیدا کیا ،پھر ان کے کئی قبیلے بنائے اور مجھے ان میں سے بہترین قبیلے میں پیدا کیا، پھر ان میں سے کئی گھرانے بنائے اور مجھے ان میں سے بہترین گھرانے میں پیدا فرمایا اور سب سے اچھی شخصیت بنایا۔[1]

قَالَ اِنَّ اللَّهَ خَلَقَ خَلْقَهُ ثُمَّ فَرَّقَهُمْ، فَجَعَلَنِی مِنْ خَیْرِ الْفِرْقَتَیْنِ، ثُمَّ جَعَلَهُمْ قَبَائِلَ، فَجَعَلَنِی مِنْ خَیْرِهِمْ قَبِیلَةً، ثُمَّ جَعَلَهُمْ بُیُوتًا، فَجَعَلَنِی مِنْ خَیْرِهِمْ بَیْتًا، فَأَنَا خَیْرُكُمْ بَیْتًا، وَخَیْرُكُمْ نَفْسًا۔

رسول  اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ اس میں کچھ شک نہیں کہ حق تعالیٰ نے مخلوق کوپیداکیاتومجھے ان سب میں افضل بنایا،پھرقبائل میں انتخاب کیاتومجھے سب سے اعلیٰ قبیلہ میں پیداکیا،پس میں شخصی اورگھرانہ ہردوکے اعتبارسے سب انسانوں سے افضل ہوں ۔[2]

عَنْ وَاثِلَةَ بْنِ الأَسْقَعِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّ اللَّهَ اصْطَفَى مِنْ وَلَدِ إِبْرَاهِیمَ، إِسْمَاعِیلَ، وَاصْطَفَى مِنْ وَلَدِ إِسْمَاعِیلَ بَنِی كِنَانَةَ، وَاصْطَفَى مِنْ بَنِی كِنَانَةَ قُرَیْشًا، وَاصْطَفَى مِنْ قُرَیْشٍ بَنِی هَاشِمٍ، وَاصْطَفَانِی مِنْ بَنِی هَاشِمٍ.

واثلہ بن اسقع رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں رسول  اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاحق تعالیٰ نے ابراہیم علیہ السلام کی اولادمیں اسماعیل علیہ السلام کوبرگزیدہ فرمایاپھران کی اولادمیں بنو کنانہ کو اور بنو کنانہ سے قریش کو منتخب فرمایاپھرقریش میں بنوہاشم کواوربنوہاشم میں مجھے منتخب فرمایا۔[3]

عَنْ وَاثِلَةَ بْنِ الْأَسْقَعِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:إن الله اصطفى من ولد آدم إبراهیم واتخذه خلیلاً، ثم اصْطَفَى مِنْ وَلَدِ إِبْرَاهِیمَ إِسْمَاعِیلَ، ثم اصْطَفَى مِنْ ولد إِسْمَاعِیلَ نزاراً، ثم اصطفى من ولد نزار مضر، واصطفى من ولد مضر كِنَانَةَ،ثم اصْطَفَى مِنْ كنانة قریشاً،، وَاصْطَفَى مِنْ قُرَیْشٍ بَنِی هَاشِمٍ،وَاصْطَفَانِی مِنْ بَنِی هَاشِمٍ بَنِی عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، واصطفانی من بَنِی عَبْدِ الْمُطَّلِبِ

واثلہ بن اسقع رضی اللہ عنہ سےایک روایت میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کی زریت سے ابراہیم کوپیدافرمایااوراپناخلیل بنایاپھر ابراہیم علیہ السلام سے اسماعیل علیہ السلام کوپیدافرمایاپھراسماعیل علیہ السلام سے نزار کو پیدا کیاپھرنزارسے مضرکوپیداکیاپھرمضرسے کنانہ قریش کوپیداکیاپھرقریش سے بنی ہاشم کوپیداکیاپھربنی ہاشم سے بنو عبدالمطلب کوبنایااوربنوعبدالمطلب سے مجھے انتخاب فرمایا۔[4]

عَلِیِّ بْنِ أَبِی طَالِبٍ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: قَسَمَ اللَّهُ الأَرْضَ نِصْفَیْنِ فَجَعَلَنِی فِی خَیْرِهِمَا. ثُمَّ قَسَمَ النِّصْفَ عَلَى ثَلاثَةٍ فَكُنْتُ فِی خَیْرِ ثُلُثٍ مِنْهَا. ثُمَّ اخْتَارَ الْعَرَبَ مِنَ النَّاسِ. ثُمَّ اخْتَارَ قُرَیْشًا مِنَ الْعَرَبِ. ثُمَّ اخْتَارَ بَنِی هَاشِمٍ مِنْ قُرَیْشٍ. ثُمَّ اخْتَارَ بَنِی عَبْدِ الْمُطَّلِبِ مِنْ بَنِی هَاشِمٍ. ثُمَّ اخْتَارَنِی مِنْ بَنِی عَبْدِ الْمُطَّلِبِ

سیدناعلی رضی اللہ عنہ بن ابوطالب سے مروی ہےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااللہ تعالیٰ نے عربوں کوپسندیدہ ٹھہرایاان میں سے کنانہ یانضربن کنانہ کوان میں سے قریش کو،قریشیوں میں سے بنی ہاشم کواوربنی ہاشم میں سے مجھ کواپنی پسندیدگی کاشرف بخشا۔[5]

أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُبَیْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَیْرٍ قال: قال رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّ اللَّهَ اخْتَارَ الْعَرَبَ فَاخْتَارَ

كِنَانَةَ مِنَ الْعَرَبِ وَاخْتَارَ قُرَیْشًا مِنْ كِنَانَةَ وَاخْتَارَ بَنِی هَاشِمٍ مِنْ قُرَیْشٍ وَاخْتَارَنِی مِنْ بَنِی هَاشِمٍ

عبداللہ رضی اللہ عنہ بن عبیدبن عمیرسے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااللہ تعالیٰ کی پسندیدگی عربوں کی طرف ہوئی ،عربوں میں سے بنی کنانہ ،کنانیوں میں سے قریش ،قریشیوں میں سے بنی ہاشم اورہاشمیوں میں سے میرے ساتھ یہ پسندیدگی خاص کی گئی۔[6]

رسول  اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاعدنان سے اوپراہل نسب نے غلط بیانی کی ہے ،اس لئے سب ماہرین انساب عدنان تک متفق ہیں جواس طرح ہے،محمدبن عبد اللّٰہ بن عبدالمطلب بن ہاشم بن عبدمناف بن قصیٰ بن کلاب بن مرہ بن کعب بن لوی بن غالب بن فہربن مالک بن نضربن کنانہ بن خزیمہ بن مدرکہ بن الیاس بن مضر بن نزاربن معدبن عدنان، تمام اہل انساب کے نزدیک مضراور ربیعہ قبائل اسماعیل علیہ السلام کی اولادسے ہیں ۔

عدنان:

اسماعیل کے دوسرے نامورفرزندقیدارکی اولادمیں اکیس پشت کے بعدعدنان پیداہوئے ، یہ نہایت اولولعزم شخص تھے،ان کے معداورعک دوبیٹے تھے، عک نے حجاز سے اٹھ کر یمن میں اپنی حکومت قائم کرلی تھی ،

من حَدِیث بن عَبَّاسٍ قَالَ كَانَ عَدْنَانُ وَمَعَدٍّ وَرَبِیعَةُ وَمُضَرُ وَخُزَیْمَةُ وَأَسَدٌ عَلَى مِلَّةِ إِبْرَاهِیمَ فَلَا تَذْكُرُوهُمْ إِلَّا بِخَیْرٍ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں عدنان ،معداورربیعہ اورخزیمہ اوراسدیہ سب ملت ابراہیمی پرتھے ،اس لئے ان کا ذکر خیر اور بھلائی کے ساتھ کرو۔[7]

وَرَوَى الزُّبَیْرُ بْنُ بَكَّارٍ مِنْ وَجْهٍ آخَرَ مَرْفُوعالَا تَسُبُّوا مُضَرَ وَلَا رَبِیعَةَ فَإِنَّهُمَا كَانَا مُسْلِمَیْنِ

اس کے علاوہ زبیربن بکار مرفوعاروایت کرتے ہیں رسول  اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایامضراورربیعہ کوبرامت کہووہ اسلام پرتھے۔[8]

معدبن عدنان:

ان کی کنیت ابونزارتھی ،یہ عربوں کے مورث اعلیٰ تھے ،بڑے بہادراورجنگجوتھے ،ساری عمربنی اسرائیل سے جنگ اورمقابلہ میں گزاری وہ میدانی اورچھاپہ مار جنگوں میں جس سے بھی نبردآزماہوئے ہمیشہ کامیاب وکامران لوٹے،

وكان معد بن عدنان على عَهْدَ بُخْتَ نَصَّرَ

معدبن عدنان بخت نصرکاہم عصرتھا۔[9]

۸۸۷ قبل مسیح جب بخت نصرنے عرب پردوسراحملہ کیا تو معدکوشام لے جایاگیاتھاجب بخت نصر کا دباؤ عرب سے اٹھ گیاتومعدبھی واپس عرب آگئے اوربنوجرہم کوتلاش کرکے جرہم بن جہمہ کی لڑکی سے شادی کی جن سے ایک بیٹا نزار پیدا ہوا

فقال:من قنص بن معد

نزارکاایک بھائی قنص بھی تھا جو قنصی کہلایا، انہیں ۵ ۸ ۷قبل مسیح بخت نصرکاہم عصربتایاجاتاہے۔[10]

نزار:

وَقِیلَ لِأَنَّهُ كَانَ یُمَضِّرُ الْقُلُوبَ لحسنه وجماله قَوْله بن نِزَارٍ هُوَ مِنَ النَّزْر

یہ عقل ودانش اورحسن وجمال میں اپنے ہم عصروں میں فوقیت رکھتے تھے اس لئے نزاران کانام پڑگیا۔[11]

اوربعض کہتے ہیں کہ یہ نحیف البدن اور لاغر تھے اس لئے ان کانام نزارپڑگیا

 وَهُمْ مُضَرُ، وَرَبِیعَةُ، وَإِیَادٌ، وَأَنْمَارٌوَبِهِ كَانَ یُكَنَّى نِزَارٌ

اس کے چاربیٹے مضر،ربیعہ ،ایاداورانمار تھے،ان کی کنیت نزارتھی۔

مضر:

ان کااصل نام عمروکنیت ابوالیاس اورلقب مضر تھا، یہ صاحب دولت وثروت کے ساتھ حکیم ودانائی اور حسن وجمال میں بھی یکتا تھے جوبھی ان سے ملتاان کاگرویدہ ہو جاتا ان کے والدنے اپنے ترکہ میں سے تمام سرخ رنگ کی چیزیں ان کودی تھیں

وَكَانَ یُقَالُ لِمُضَرَ: الْحَمْرَاءُ ،كان مضر من أحسن الناس صوتا

اس لئے تاریخ میں مضرالحمرامشہورہوئے ،یہ بہت ہی خوش الحان تھے۔[12]

وَهُوَ أَوَّلُ من حدا الْإِبِل

انہوں نے ہی سب سے پہلے اونٹوں کے لئے حدی خوانی کی ابتدا کی۔[13]

مِنْ مُرْسَلِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ خَالِدٍ رَفَعَهُ لَا تَسُبُّوا مُضَرَ فَإِنَّهُ كَانَ قَدْ أَسْلَمَ

عبد اللّٰہ بن خالدسے مرسلاروایت ہے رسول  اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایامضرکوبرامت کہووہ مسلمان تھا۔[14]

ان کے چند حکیمانہ اقوال بھی مشہورہیں ۔

مضرکی اولاددوبڑے قبیلوں میں تقسیم ہوئی۔

الیاس :

ان کالقب کبیرقوم تھا،بیت  اللّٰہ کی طرف ہدی بھیجنے کی سنت سب سے پہلے انہوں نے ہی جاری کی تھی ،ان کے تین بیٹے تھے۔

۱۔عمرو(مدرکہ)        ۲۔طانجہ                ۳۔قیس عیلان

۱۔عمرو(مدرکہ):

جمہورعلماکاقول تویہ ہے کہ ان کانام عمرو تھاجبکہ محمدبن اسحاق کہتے ہیں کہ ان کانام عامرتھااورمدرکہ ان کالقب تھاان کی کنیت ابوہذیل تھی ،ایک دفعہ دونوں بھائی جنگل میں اونٹوں کی حفاظت پرمامورتھے کہ کسی وجہ سے اونٹ بھاگ گئے ،عمرونے ان کاتعاقب کیااوران کوپکڑلیا،جبکہ چھوٹابھائی وہیں انتظارکرتارہااوران کے لئے کھاناتیارکیا، جس کی وجہ سے ان کے والدنے عمروکومدرکہ اوران کے چھوٹے بھائی کوطانجہ کاخطاب دیا،یہ خطاب اصل نام پرغالب ہوگیا،  اللّٰہ نے ان کوہرطرح کی عزت ورفعت عطافرمائی ، ان سے دوبیٹے خزیمہ جن کی کنیت ابوالاسدتھی اورہذیل ہوئے۔

کنانہ:

یہ عرب میں بڑے جلیل القدرتھے جس کی وجہ سے لوگ ان سے ملاقات کے لئے دوردرازسے آتے تھے۔

نضر:

واسمه قیس ولقب بالنضر لنضارة وجهه وإشراقه وجمالها

ان کااصل نام قیس تھااورلقب نضرتھاان کے حسن وجمال کی وجہ سے انہیں نضرکہاجانے لگا۔[15]

 وكذلك النضر لیس له عقب إلا من مالك

نضرنے مالک کے علاوہ کوئی اولادنہیں چھوڑی۔[16]

مالک بن نضر:

ان کانام مالک اورکنیت ابوالحارث تھی،یہ عرب کے بڑے سرداروں میں شمارکیے جاتے تھے،کہاجاتاہے کہ اس نے فہرکے علاوہ کوئی اولادنہیں چھوڑی۔

فہربن مالک بن نضر :(تقریبا ً۳۲۵ )

أَنّ فِهْرًا هُوَ قُرَیْشٌ، وَقَدْ قِیلَ إنّ فِهْرًا لَقَبٌ وَاسْمُهُ الّذِی سُمّیَ بِهِ قُرَیْشٌ

فہربن مالک کانام قریش تھااورکہاجاتاہے کہ فہران کالقب تھا،اوران کے نام کی وجہ سے قریش پڑگیا۔[17]

ان کی والدہ کانام جندلہ بنت حرث بن مضاض الجرہمی تھا،ان پرقریشی نسب کی انتہاہوتی ہے،

 فَمَنْ كَانَ مِنْ وَلَدِهِ فَهُوَ قُرَشِیّ، وَمَنْ لَمْ یَكُنْ مِنْ وَلَدِهِ فَلَیْسَ بِقُرَشِیّ

جوشخص فہرکی اولادسے ہوگاوہ قریشی کہلائے گااورجواس سے پیدانہ ہواہوگاوہ قریشی نہیں کہلائے گا۔

اوربعض محققین علما اورامام مالک رحمہ اللہ کہتے ہیں قریش نضربن کنانہ کی اولادکوکہتے ہیں ،کنانہ کے چھ بیٹے تھے جن میں صرف نضرکی اولاد کوقریش کہا گیاہے ،ان کے علاوہ کنانہ کے دوسرے بیٹوں کی نسل کوکسی نے بھی قریش میں شامل نہیں کیا۔

قریش کے نام کی وجہ تسمیہ یہ کہی جاتی ہیں ۔

وهو دابة فی البحر عظیمة من أقوى دوابه سمیت به لقوتها؛ لأنها تأكل ولا تؤكل ، وتعلو ولا تعلى، وكذلك قریش

یہ ایک سمندری جانور کانام ہے جو بڑا زبردست ہے اورہربڑے چھوٹے جانورکوکھالیتاہے مگراسے کوئی نہیں کھاسکتا، کیونکہ قریش اپنی بہادری و شجاعت کی وجہ سے سب پرغالب رہتے ہیں اور کسی سے مغلوب نہیں ہوتے اس لئے اس سمندری جانورکی مناسبت سے قبیلہ قریش کہلائے۔[18]

 النّضْرُ بْنُ كِنَانَةَ هُوَ قُرَیْشٌ، وَإِنّمَا سُمّیَ قُرَیْشًا ; لِأَنّهُ كَانَ یُقَرّشُ عَنْ خَلّةِ النّاسِ وَحَاجَتِهِمْ فَیَسُدّهَا بِمَالِهِ وَالتّقْرِیشُ. هُوَ التّفْتِیشُ عَنْ الشّعْبِیّ،وَكَانَ بَنُوهُ یُقْرِشُونَ أَهْلَ الْمَوْسِمِ عَنْ الْحَاجَةِ فَیَرْفِدُونَهُمْ بِمَا یَبْلُغُهُمْ فَسُمّوا بِذَلِكَ مِنْ فِعْلِهِمْ وَقَرْشِهِمْ قُرَیْشًا

امام شعبی رحمہ اللہ کہتے ہیں نضربن کنانہ کانام قریش تھاجس کی وجہ سے قریشی نام پڑگیا تقریش بمعنی تفتیش کے ہے کیونکہ اس خاندان کے آبا ؤ و اجداد غریب اورنادرلوگوں کی تفتیش اور تلاش کرکے ان کی حاجات اورضروریات کوپوراکیاکرتے تھے اس طرح حجاج کرام کے حالات دریافت کرتے اوران کی امداد کیا کرتے تھے اس لئے انہیں قریش کہاگیا ۔[19]

قُرَیْشٌ قُرَیْشًا مِنْ التّقَرّشِ وَالتّقَرّشُ التّجَارَةُ وَالِاكْتِسَابُ

ایک وجہ یہ بھی بیان کی جاتی ہےقریش تقرش سے ہے جس کے معنیٰ کسب کرنے،کمانے کے ہیں ،چونکہ یہ لوگ تجارت میں بہت مہارت رکھتے تھے اوران کایہ پیشہ عالمی شہرت کاحامل تھااس لئے یہ خاندان اس لقب سے مشہورہوا۔[20]

لِأَنّ التّقَرّشَ هُوَ التّجَمّعُ، قُرَیْشًا لِتَجَمّعِهَا مِنْ بَعْدِ تُفَرّقْهَا

یہ بھی کہاجاتاہے التقرش ،التجمع کے معنیٰ میں ہے،بنوکنانہ کے متفرق ہوجانے کے بعد جب قصیٰ بن کلاب نے سب کوحرم میں یک جاکردیاتواس اجتماع کے باعث وہ قریش کہلائے۔[21]

قریش کوئی ایک قبیلہ نہیں بلکہ چھوٹے چھوٹے دس مختلف خاندانوں ہاشم ،امیہ ،نوفل ، عبدالدار،اسد،تیم ،مخزوم ،عدی ،جہمہ ،سہم پرمشتمل تھا،یہ غریبوں ومحتاجوں کی خبر گیری کرتے اوراپنے مال واسباب سے ان کی حاجت روائی کرتے تھے ۔

فہر کے تین لڑکے غالب،محارب اورحرث تھے۔

غالب بن فہر: (تقریباً ۳۵۰ء ):

غالب بن فہرسے دوبیٹے لوی اورتیم الاورم ہوئے۔

لوی بن غالب:(تقریبا ً۳۷۵ ئ)

لوی بن غالب سے پانچ بیٹے عامر،کعب،قرینہ،سعداورجشم ہوئے۔

کعب بن لوی:(تقریباً۴۰۰ء ):

کعب بن لوی بڑاعظیم القدرشخص تھا۔

كَعْبُ بْنُ لُؤَیّ هَذَا أَوّلُ مَنْ جَمَعَ یَوْمَ الْعَرُوبَةِ وَلَمْ تُسَمّ الْعَرُوبَةُ. الْجُمُعَةَ إلّا مُنْذُ جَاءَ الْإِسْلَامُ فِی قَوْلِ بَعْضِهِمْ وَقِیلَ هُوَ أَوّلُ مَنْ سَمّاهَا الْجُمُعَةَ فَكَانَتْ قُرَیْشٌ تَجْتَمِعُ إلَیْهِ فِی هَذَا الْیَوْمِ فَیَخْطُبُهُمْ وَیُذَكّرُهُمْ بِمَبْعَثِ النّبِیّ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَیُعْلِمُهُمْ أَنّهُ مِنْ وَلَدِهِ وَیَأْمُرُهُمْ بِاتّبَاعِهِ وَالْإِیمَانِ بِهِ وَیَنْشُدُ فِی هَذَا أَبْیَاتًا مِنْهَا قَوْلُهُ:

عربوں کاقومی دن یوم العروبہ تھا،کعب نے یہ نام بدل کرجمعہ رکھ دیااورجمعہ کے دن لوگوں کواپنے یہاں جمع ہونے کا طریقہ جاری کیا، جنہیں یہ وعظ ونصیحت کرتے ،صلح رحمی کی ترغیب دیتے ان کاخیال تھاکہ آنے والارسول ان کی اولادمیں سے ہوگاوہ رسول کی بعثت کی خوشخبری سناتے اور لوگوں کورسول  اللّٰہ کی اتباع کی ہدایت کیاکرتے تھے،اس سلسلہ میں ان کی طرف یہ شعربھی منسوب ہے۔

یَا لَیْتَنِی شَاهِدٌ فَحْوَاءَ دَعْوَتِهِ،إذَا قُرَیْشٌ تُبَغّی الْحَقّ خِذْلَانًا

کاش میں ان کی اعلان دعوت کے وقت حاضر ہوتا   جس وقت قریش ان کی اعانت سے دس کش ہوں گے۔[22]

وكان كعب عظیم القدر فی العرب. فأرخوا بموته إعظاما له، إلى أن كان عام الفیل فأرخوا به

کعب عرب میں عظمت وشان والا سردار تھا اس کی شان وشوکت کی پاسداری کرتے ہوئے اس کی موت سے تاریخوں کاحساب لگاتےتھے۔[23]

ابن کثیرکی روایت کے مطابق کعب بن لوی کی موت اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے درمیان ۵۶۰برس کی دوری ہے، ان کے چاربیٹے بنومعیص ،بنوحصل ،مرہ اور عدی ہوئے۔

مرہ:(تقریبا ً ۴۲۵ء ):

یہ بہت شجاع ،بہادراوراپنے دشمنوں کے لئے بڑے تلخ تھے اس لئے مرہ کے نام سے موسوم ہوئے ،

وَكُبَرَاءِ قُرَیْشٍ الْأَوَائِلِ مِنْهَا یَشْرَبُونَ، وَهِیَ رُمُّ، وَرُمُّ: بِئْرُ مُرَّةَ ابْن كَعْبِ بْنِ لُؤَیٍّ

قریش کے سردار رم نامی کنواں سے ہی پانی پیا کرتے تھے ’’رم‘‘ جوکہ مرہ بن کعب بن لؤی کے نام سے مشہور تھا۔

ان کے تین بیٹے تیم ،کلاب اوریقیظہ ہوے۔

کلاب بن مرہ:(تقریبا ً ۴۵۰):

ان کااصل نام حکیم یاعروہ یامہذب تھاکیونکہ شکاری کتے جمع رکھتے اوران کتوں سے شکارکھیلاکرتے تھے اس لئے ان کالقب کلاب پڑ گیا ، آپ کی والدہ امنہ کے سکڑ دادا تھے ، رسول  اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم کے والد اور والدہ کانسب ان ہی پرجاکرمل جاتاہے،ان کے بارے میں مشہورہے کہ موجودہ عربی مہینوں کے نام انہوں نے ہی رکھے تھے، انہوں نے خم نامی کنواں بنی مخزوم کے لئے کھدوایاتھا۔

اس کے دوبیٹے زہرہ اورقصی ہوے۔

قصیٰ بن کلاب:(تقریبا ً ۴۷۵):

امام احمدبن حنبل رحمہ اللہ کہتے ہیں:

وَاسْمُ قُصَیٍّ:

زَیْدُان کااصل نام زیدتھا،یہ خاندان قریش کے جداعلیٰ اورطاقت وار،سخت مزاج،ثابت قدم ، بلندحوصلہ ،حکیم و داناہونے کی وجہ سے قریش کی ایک درخشندہ وتابندہ شخصیت تھے ، ابھی یہ شیرخوار ہی تھے کہ ان کے والدکلاب بن مرہ فوت ہوگئے توان کی والدہ فاطمہ بنت سعد نے ربیعہ بن حرام بن ضمنہ بن عبدبن کبیربن عذرة بن سعدبن زیدسے جوقبیلہ قضاعہ سے تعلق رکھتے تھے عقد کر لیا ، وہ انہیں اپنی قوم بنی عذرہ کے علاقہ ملک شام لے گئے ،اس طرح یہ اپنے عزاء واقرباء سے دوررہنے لگے ،اس وجہ سے ان کانام قصی ٰ پڑگیا،مگران کے بڑے بھائی زہرہ بن کلاب مکہ ہی میں اپنی قوم کے پاس رہ گئے ،قصٰی جب کچھ بڑے ہوئے تو ربیعہ بن حرام ہی کواپناوالدسمجھنے لگے ،مگرایک دن ایساہواکہ قصیٰ کاایک شخص رقیع سے جوقبیلہ قضاعہ سے تعلق رکھتاتھاتیراندازی کامقابلہ ہوگیاجس میں قصیٰ جیت گئے ،رقیع ان کی جیت برداشت نہ کرسکااورمعاملہ جھگڑے کی صورت اختیارکرگیااس نزاع میں رقیع نے کہاتو تو ہمارے خاندان کاہی نہیں اگرتواتناہی اچھا ہے تو اپنے خاندان میں کیوں نہیں چلا جاتا ،یہ تعجب انگیزبات سن کرقصیٰ دنگ رہ گئے،گھرآکروالدہ سے پوچھاکہ ان کے والداورقبیلہ والے کون ہیں ؟والدہ نے کہاربیعہ تمہارا والد ہے ،قصیٰ نے کہااگرربیعہ میراوالد ہوتا تومجھے یہاں سے نکالانہ جاتا، بہر حال والدہ نے انہیں بتایاکہ ان کے والدکانام کلاب بن مرہ ہے ،تواپنی ذاتی حیثیت ، والدکی حیثیت اورخاندان کی حیثیت سے اس خاندان سے کہیں زیادہ اشرف اورمعزز ہے ، اور تیری قوم مکہ میں بیت  اللّٰہ کے پاس آبادہے،اب قصیٰ نے اپنے لوگوں میں جانے کی ٹھان لی اورجب قضاعہ کے چندلوگ حج کے لئے روانہ ہوئے تویہ بھی ان کے ساتھ چل پڑے،مکہ پہنچ کراپنے بھائی زہرہ سے ملے جن کی بینائی ختم ہوچکی تھی اور انہیں اپنے مکہ میں رہنے کے بارے میں آگاہ کیااورمکہ میں ہی مقیم ہوگئے،مکہ کاحکمران اس وقت خلیل بن حبشیہ الخزاعی تھااورکعبہ کی حجابت یعنی پردہ داری کامنصب بھی اس کے پاس تھا قصیٰ اب جوان ہوچکے تھے انہوں نے اس کی لڑکی جس کانام حبٰی بتایاجاتاہے کے لئے شادی کاپیغام دیا ،خلیل نے قصیٰ کے اوصاف دیکھ کرشادی کے پیغام کوشرف قبولیت سے نوازا، شادی کے بعد ان کی اولادکی شرافت کاچرچاہونے لگااس طرح قصیٰ خلیل کے منظورنظربن گئے اورخلیل انہیں اپناجانشین بنانے کی سوچنے لگے، کبھی کبھی کعبہ کی چابی وہ قصیٰ کے حوالے بھی کر دیتاتھا تاکہ وہ دروازہ کھول کرلوگوں کوکعبہ کی اندرسے زیارت کرائیں ،جب خلیل کاوقت وفات آیاتواس نے مکہ کی حکومت اورکعبہ کی تولیت انہی کے سپردکردی ۔

ایک روایت یہ بھی ہے کہ قصیٰ نے خلیل کے بیٹے ابوغبشان سے مکہ کی حکومت ایک مشکیزہ شراب کے بدلے میں خریدکرلی تھی ،جب قصیٰ کے پاس کافی مال ودولت جمع ہوگیااوراس کی اولاد کی شرافت مسلم مانی جانے لگی تواس کے دل میں مکہ پرحکومت کرنے کاشوق چرانے لگا اس کاخیال تھاکہ قبائل خزاعہ اوربنی بکرکی نسبت مکہ کی حکومت اورکعبہ کی تولیت کے وہ زیادہ حقدارہیں کیونکہ اسماعیل علیہ السلام کی خالص اولاد قریشی ہی ہیں ، چنانچہ ان کی رائے سے متفق ہوکرقریش بنی کنانہ ،قصیٰ کے ماں جائے بھائی رزاح بن ربیعہ اورقبیلہ قضاعہ متحد ہو کر خزاعہ اوربن بکرکے خلاف کھڑے ہوگئے ،اس وقت الیاس بن مضرکے خاندان بنو غوث بن مرہ کی اولادسے جوقبیلہ صوفہ کہلاتاتھااسے یہ اعزاز حاصل تھاکہ وہ حاجیوں کو ارکان حج کی اجازت دے،تیرہ ذی الحجہ کومزدلفہ سے رمی جمارکے لئے سب سے پہلے یہی قبیلہ صوفہ ہی آیاکرتاتھاجب یہ لوگ رمی سے فارغ ہو جاتے تودوسرے لوگوں کورمی کی اجازت ملتی تھی،اورمنی سے روانگی ہوتی تویہی صوفہ منی کی واحدگزرگاہ عقبہ کے دونوں جانب گھیراڈال کرکھڑے ہو جاتے اورجب تک خودگزرنہ جاتے اس وقت تک کسی کوگزرنے کی اجازت نہ تھی،ان کے راستہ خالی کردینے کے بعدلوگ گزرتے، جب صوفہ ختم ہوگئے تویہ اعزازبنوتمیم کے ایک خاندان بنوسعدبن زیدمناة کی طرف منتقل ہوا ،قصیٰ جب یہ فیصلہ کرچکاکہ یہ خدمت اب وہ سرانجام دے گاتووہ اپنے حواریوں کے ساتھ قبیلہ صوفہ کے آنے سے بیشترمنٰی میں جمرات کے پاس پہنچ گیااوران کے ساتھ یہ کہتے ہوئے مزاحمت کی کہ وہ ان کی نسبت اس خدمت کے زیادہ حقدارہیں ،توتکرارمیں آخر نوبت جنگ تک پہنچ گئی جس میں دونوں طرف کے بے شمارلوگ مارے گئے مگرپلڑاقصیٰ کی طرف جھک گیا اور بنوصوفہ کوشکست ہو ئی اورقصیٰ کی اجازت سے لوگوں نے رمی کی،یہ دیکھ کربنوخزاعہ اور بنوبکر کوبھی اپنے مستقبل کی فکردامن گیرہوئی کہ کہیں انہیں بھی کعبہ کی خدمت اور مناسب سے محروم نہ کردیاجائے ،اس لئے وہ بھی قصیٰ سے مقابلہ کے لئے کھڑے ہو گئے ، مگر آخر کارقتل وقتال کے بعدمجبورہوکرانہوں نے یعمربن عوف کوحکم مقررکیاکہ وہ قصیٰ سے صلح کرائے ، یعمربن عوف نے فیصلہ کیاکہ خزاعہ کی نسبت قصیٰ بن کلاب مکہ کی حکومت اور کعبہ کی تولیت کازیادہ حقدار ہے ،اس لئے مکہ کی حکومت اس کے حوالے کردی جائے ، قصیٰ کے ہاتھوں جتنے لوگ مارے گئے ہیں ان کاخون بہابھی اس کے ذمہ نہیں ہے ، جبکہ بنوخزاعہ اوربنوبکرنے قریش،بنی کنانہ اورقضاعہ کے جتنے آدمی قتل کیئے ہیں ان کا خون بہاان کے ذمہ واجب الآداہے ،اس فیصلہ کی وجہ سے یعمرکالقب شداخ پڑگیااس طرح ۴۴۰ ء میں رسول  اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش سے ایک سوتیس سال قبل مکہ کی حکومت بزورشمشیر قبیلہ خزاعہ سے قصیٰ بن کلاب قریشی کی طرف جوبنواسماعیل میں عدنان دوم کی پندرہویں پشت سے تھا منتقل ہوئی،قصیٰ نے ۴۴۰ء میں مکہ میں وفاقی حکومت کی بنیادرکھی۔

قصیٰ کے کارنامے:

قصی نے بچپن میں حدودشام میں تربیت پائی تھی ،جہاں اس نے تہذیب زندگی ،نظم حکومت اورتاسیس قومیت کے اصول سیکھے تھے ، حکومت ملنے کے بعداس نے مکہ کی تمدنی ، معاشرتی ، معاشی اور سیاسی ترقی کے لئے عظیم الشان کارنامے سرانجام دیئے جس سے ان کی قوم ترقی کی راہ پرگامزن ہوکر اوج کمال تک پہنچ گئی، قصیٰ ایک بیدارمغزحکمران تھا عرب میں اسے خاص اقتدارحاصل تھااورلوگ اس کے مطیع وفرمابردار تھے ، انہوں نے قبائل قریش کے باہمی اختلافات کوختم کر کے ان کو متحد کردیا،اور نظام مملکت چلانے کے لئے چودہ مختلف عہدے قائم کئے جوقریش کے دس عہدہ داروں پرمنقسم تھے۔

۱۔ حجابت (بیت  اللّٰہ کی دربانی اور مسجد حرام کی خدمت )

۲۔سقایت (حجاج کوزمزم کاپانی پلانا)

۳۔ رفادیت (قبائل کے جمع شدہ چندے سے فقراء ،مساکین،حجاج اور مسافرین کی اعانت اورامداد کرنا)

۴۔عمارت (مسجد حرام اوربیت  اللّٰہ کی حفاظت تعمیر اور مرمت)

۵۔ سفارت(دوفریقوں کاکسی معاملہ میں مراسلت کرنا)

۶۔ ندوہ (مشورہ کرنا)

۷۔قبہ (جنگ کے وقت لشکرکی رہائش کے لئے خیموں کابندوبست کرنا)

۸۔بواء یاعقاب(علم برداری )

۹۔اعنہ(باوقت جنگ یاگھوڑدوڑکے وقت گھوڑوں اور سواروں کا انتظام کرنا)

۱۰۔اشناق(قبائل کے باہمی منافشات دور کرنے کے لئے دیت یاتاوان کااداکرنا،اورجس شخص میں اسے اداکرنے کی سکت نہ ہواس کی مددکرنا)

۱۱۔اموال محجرہ (بتوں کے نام وقف کیے گئے اموال موقوفہ)

۱۲۔ ایساروالام (تیروں سے فال نکالنا)

قائم کیےاورسب عہدے اپنے ہاتھ میں رکھے، پھر ایک مجلس مشاورت قائم کی جودس بڑے قبائل کے معمر ، جہاں دیدہ اورتجربے کار سرداروں پرمشتمل تھی ،اس کونسل میں داخلہ کے لئے کم ازکم چالیس سال کی عمرکاہوناضروری تھا البتہ حاکم شہرکے بیٹے اعزازی طورپرعمرکی اس شرط سے مستثنی تھے ،بعد میں قریش نے اپنے دورمیں ان شرائط کوکافی نرم کردیاتھا جس کی وجہ سے ابوجہل کواس کی اصابت رائے اور اعلیٰ صلاحیت کے پیش نظرتیس سال کی عمرمیں اس کونسل کاممبر بنا دیاگیا ، اسی طرح حکیم بن حزام کوپندرہ یابیس سال کی عمرمیں یہ اعزازحاصل ہو گیا،یہ کونسل مالی قوانین اور تعزیراتی احکامات صادرکرتی تھی،اہل مکہ عربی کلچراور معاشرت کے اس قدرپابندتھے کہ ان کے نزدیک اسے چھوڑنامذہبی ،ملی اورقومی تمدن کی صریح خلاف ورزی سمجھی جاتی تھی ،اس کے علاوہ ان کے سامنے بیت اللہ بھی جلوہ فگن اور رونق افروز تھا اس کے قرب وجوارمیں مکان بنانااس کی بے حرمتی سمجھتے تھے ،اس لئے قصیٰ سے پہلے نہ ان کاکوئی باضابطہ مکان ہوتا تھااورنہ ہی وہ تمدن اختیارکرتے تھے ، لوگ دن توحرم میں گزارتے مگررات گزارنے کے لئے دورندی نالوں کے کنارے اپنے خیموں یا کھجورکی شاخوں سے قبہ نماچارمیڑلمبی چوڑی جھونپڑیوں اور غاروں میں چلے جاتے تھے ،اس لئے مجلس شوریٰ کا اجلاس کسی کھلی جگہ یااپنے سردار کے خیمہ میں منعقد ہوتا تھالیکن قصیٰ نے اس میں جدت پیداکی، ان کی قوم پراگندہ تھی اوران کی کوئی شیرازہ بندی نہ تھی ، قصیٰ نے انہیں تہذیب و تمدنی زندگی سے روشناس کرنے کے لئے شہری آبادی کی طرف بھرپورتوجہ کی،اس کاخیال تھاکہ بیت  اللّٰہ کے چاروں طرف مکانات بن جانے سے یہ محفوظ ہو جائے گامگر قریش بیت  اللّٰہ کے رعب وجلال اور بیت  اللّٰہ کی تعظیم وتکریم کے پیش نظر اس کے قریب مکان بنانے پرآمادہ ہی نہیں ہوتے تھے،قصی نے عوام کوآمادہ کرنے کے لئے یہ استدلال کیاکہ اگرتم عبادت گاہ کے اطراف رہنے لگوتولوگ تم سے ڈراکریں گے اورلوٹ مار کے لئے تم پرحملہ کرنے سے بازآجائیں گے،

وَیَزْعُمُ النَّاسُ أَنَّ قُرَیْشًا هَابُوا قَطْعَ شَجَرِ الْحَرَمِ فِی مَنَازِلِهِمْ فَقَطَعَهَا قُصَیٌّ بِیَدِهِ وَأَعْوَانِهِ، فَسَمَّتْهُ قُرَیْشٌ مُجَمِّعًا لِمَا جَمَعَ مِنْ أَمْرِهَا، وَتَیَمَّنَتْ بِأَمْرِهِ

لیکن پھرلوگوں کویہ خیال ہواکہ قریش اپنے گھروں میں حرم کے درخت قطع کرنے سے ڈرتے ہیں ،جب قصی نے یہ سناتواس نے (لوگوں کے دلوں سے ڈووخوف کو دورکرنے کے لئے پہل کرتے ہوئے )سب سے پہلے اپنے ہاتھ سے اپنے گھرکادرخت کاٹ ڈالا،قریش نے اس کی اس بات کومبارک سمجھااوراس کی تقلیدکرنے لگے۔[24]

اورقصی نے خودہی اپنے لئے مکان تعمیرکیا اورپھر شمال میں حطیم کے سامنے ایک بڑاوسیع مکان تعمیر کرایا جس کا کافی کشادہ صحن تھا اوردروازہ کعبہ کی طرف کھلتاتھا اس مکان کانام دارالندوہ رکھاگیا، قریش جب کسی اہم کام کامشورہ کرنا چاہتے بغیر کسی معینہ وقت کے اسی جگہ جمع ہو کر باہم مشورہ کرتے ، یہیں اجتماعی ،تجارتی ،عدالتی ،سیاسی احکام اورفیصلے ہوتے ،یہیں جنگی تیاریوں کے انتظامات کے تمام امور طے ہوتے،

وَلَا یَعْقِدُونَ لِوَاءً لِحَرْبِ قَوْمٍ مِنْ غَیْرِهِمْ إلَّا فِی دَارِهِ

اوردارالندوہ ہی میں جنگ کاپرچم قصیٰ کے ہاتھوں باندھا جاتا تھا ،

شادی بیاہ اورنکاح پڑھائے جاتے ، لڑکی کی بلوغ اور قابل نکاح ہونے کااعلان کرنے کے لئے تاکہ خواہشمندآگاہ ہوکررونمائی کے لئے آسکیں رسومات بھی یہی اداکی جاتی تھیں ،اس کاطریقہ یہ تھا،

وَمَا تَدَّرِعُ جَارِیَةٌ إذَا بَلَغَتْ أَنْ تَدَّرِعَ مِنْ قُرَیْشٍ إلَّا فِی دَارِهِ، یَشُقُّ عَلَیْهَا فِیهَا دِرْعَهَا ثُمَّ تَدَّرِعُهُ، ثُمَّ یَنْطَلِقُ بِهَا إلَى أَهْلِهَا

لڑکی کوبے نقاب یہاں لایا جاتا اور اسے ایک پوری قمیص(ورع) پہنائی جاتی پھروہ بے نقاب ہی واپس گھرجاتی جہاں اس پرپابندیاں عائدہوجاتیں ۔[25]

قریش کی قومی تقریبات بھی یہیں ہوتیں ،اورنقیب تقریب اور مجالس کے انعقادکاڈھنڈوراپیٹتے، بیرونی مہمان آتے توان کی ضیافت بھی یہیں ہوتی ،الغرض ہرطرح کے اجتماعات یہیں منعقد ہوتے ،اس کے علاوہ شہرمیں جتنی قبائلی آبادیاں تھیں اتنے ہی مجالس محلہ بھی تھے جن کونادی کہاجاتاتھا،ان نادیوں میں اجنبیوں کومعاہدے کے ذریعے سے مولایعنی فردخاندان بنانے کی رسم بھی انجام دی جاتی تھی اورکسی فردخاندان کوبے راہروی وغیرہ پرجات باہر(طردیاخلع)کرنے کااعلان بھی وہیں کیاجاتاتھا،محلے والے اوربعض وقت دیگرمحلوں کے دوست بھی چاندنی راتوں میں یہاں جمع ہوکرشبانہ قصہ گوئی اورشعروشاعری کیاکرتے تھے ۔تجارتی معاملات اور کاروانوں کی آمدیاروانگی بھی انہیں نادیوں سے ہواکرتی تھی مگرجب وہ سفرسے واپس آتے توقصیٰ کے فضل و شرف کے اعتراف کے طور پر دارالندوہ میں اترتے، مظلوم اجنبی وہیں آکراہل شہرکے خلاف دہائی دیتے ،قریش کی شکست کاپیشگوانہ خواب ایک عورت نے دیکھاتواس پربحث بھی وہیں ہوئی ،عربوں کا باعزت پیشہ سوداگری اور تجارت تھا قصیٰ نے قریش کے تجارتی کاروانوں کو جو دو تین ہزار اونٹوں مشتمل ہوتے تھے منظم کیا جن پرسونا، چاندی ،چمڑا،گھی اوردوسرا سامان تجارت ہوتا تھا (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کا مجرمانہ فیصلہ بھی اسی ایوان عدالت میں بیٹھ کرصادرکیاگیاتھا) اس طرح قصیٰ نے ایوان زیریں اوردوسراایوان بالا پرمشتمل ایک پارلیمانی نظام قائم کردیا ،اور دار الندوہ قریش کا پارلیمنٹ ہاوس تھاجوان کی وحدت کاضامن تھااوریہیں ان کے ہرطرح کے الجھے ہوئے معاملات بحسن وخوبی حل ہوتے تھے اورقصیٰ جس کاکوئی حریف ومدمقابل نہ تھااس دارالشوری کامطلق العنان اوربااقتداربادشاہ تھا ،اس طرح وہ قومی وانفرادی نوعیت کی تمام مشکلات میں قوم کے ہیروبنے ہوئے تھے(خلیفہ المستنصرکے دورمیں یہ عمارت گرادی گئی اورنئی بنیادیں کھود کر مسجد تعمیر کی گئی) اس کی یہ سکیم نتیجہ خیزثابت ہوئی اورقریش نے قصٰی کے حکم کے مطابق کعبہ کے چاروں طرف کھلی جگہ میں کعبہ سے کچھ فاصلہ چھوڑکر(اس فاصلہ کو المفروش کہا جاتا تھا جسے اب حرم یامطاف کہا جاتا ہے ) کچے اورسادہ مٹی گارے اورپتھروں سے تھوڑے تھوڑے فاصلے سے چاروں طرف ایک منزلہ رہائشی مکانات مکان بنائے جن کے دروازے بیت  اللّٰہ کی طرف تھے تاکہ کعبہ تک آنے والوں کوسہولت ہو بنانے شروع کردیئے، اور ہردومکانات کے بعدراستہ چھوڑ ا گیاتاکہ بیت  اللّٰہ میں آنے والوں کو تکلیف نہ ہو اس طرح کعبہ اورمکانات کا درمیانی فاصلہ بمنزل چا ردیواری کے بن گئے،عرصہ درازتک اسی نوعیت کے کچے اورسادہ مکانات اس شہرکاطرہ امتیازرہا ، مکانات کے ان درمیانی راستوں پر کوئی باقاعدہ دروازہ نہ تھا بعدمیں جب کعبہ کی توسیع کاکام ہوا تو کعبہ کے اطراف میں کئی دروازے بنائے گئے اور بنانے والے کی نسبت سے دروازوں کے نام بھی رکھ دیئے گئے ، یہی کیفیت رسول  اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مقدس میں بھی تھی ، بنو خزاعہ کے تین سوسال اقتدارمیں زیادہ ترعدنانی قبائل مکہ اورحجازسے نکل کر نجد،عراق کے اطراف اوربحرین وغیرہ میں پھیل گئے تھے اور صرف قریش کی چندشاخیں مکہ میں خانہ بدوشوں کی طرح الگ الگ ٹکڑیوں میں آباد رہیں ، بنوکنانہ میں بھی ان کے چند متفرق گھرانے تھے مگرسب اختیارات بیت  اللّٰہ کی تولیت سمیت بنوخزاعہ کوحاصل تھے ،قصیٰ نے اپنی قوم کوتمام اطراف مکہ سے بلاکر پورا شہران پر اس طرح تقسیم کردیابنی کعب بن لوی کی مختلف شاخوں بنی عدی ،بنی جمح ،بنی سہم ،بنی تمیم ،بنی مخزوم ،بنی زہرہ ،بنی عبدالعزی ،بنی عبدالدار، بنی المطلب ،بنی ہاشم ،بنی عبدشمس اوربنی نوفل جن کو البطاح یعنی مکہ کے اندرونی حصہ میں رہنے والے اور اصل اہل حرم تھے کوحرم کے آس پاس علاقے اوردونوں طرف کی پہاڑوں کی گھاٹیوں اوربلندیوں میں آبادکیا ، اور کعب سے اوپرفہرکی اولادکے خاندان بنی محارب،بنی الحارث ، بنی تیم الاذرم ،بنی عامربن لوی وغیرہ جوقریش الظواہرتھے ان کومکہ مکرمہ کے بیرونی حصہ میں لابسایااور خودمکہ کے بالائی حصہ میں رہائش پذیر

ہو ا،حرام مہینے آگے پیچھے کرنے والوں ، آل صفوان ،بنوعدوان اورمرہ بن عوف کوان کے عہدے پربرقراررکھتے ہوئے باقی عہدوں پراپنی قوم کے لوگوں کومامور کیا،یہ ایک بہت بڑاکارنامہ اور بڑی فضیلت کی بات تھی اس لئے انہیں مجمع بھی کہاجاتاہے ،قصٰی نے اپنے عہدحکومت میں دس محرم کو کعبہ کوغلاف پہنانے کے لئے جو نہایت قیمتی کپڑوں مثلا دیباج اورمخمل سے تیارکیا جاتا تھا مگر اس پرکوئی نقش ونگارنہیں بنائے جاتے تھے تمام قبائل کومشترکہ طورپراس کارخیرمیں حصہ لینے کے لئے اس کے اخراجات سب پرتقسیم کر دیئے ، بعدمیں سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے سال میں دو مرتبہ قباطی غلاف چڑھانے کی طرح ڈالی تھی۔

محمدبن عمروکاکہناہے کہ قصیٰ نے ہی سب سے پہلے مزدلفہ میں آگ روشن کرنے کی رسم ایجاد کی تھی جوبرابر روشن رہتی تھی تاکہ عرفات سے واپس آنے والے رات کے اندھیرے میں راستہ سے نہ بھٹک جائیں بلکہ آگ کی روشنی دیکھ کرباآسانی اپنی منزل مقصود تک پہنچ جائیں یہ رسم سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے دور تک جاری رہی ، جرہم اور قطورہ کے دوقبائل نے جب مکہ میں وفاقی حکومت قائم کی تھی تو آمدن کی تقسیم کے لئے انہوں نے شہرکودوحصوں میں تقسیم کرلیاتھا چنانچہ جس حصہ سے کوئی تاجرشہرمیں داخل ہوتااسی حصہ کے قبیلہ کووہ عشراداکرتاتھالیکن مکہ مکرمہ کے باشندے اس سے مستثنی تھے، قصیٰ نے اپنے عہد حکومت میں اس تقسیم کوختم کر دیا اب آمدنی کا سب سے بڑا ذریعہ عشر یا محصول اس کے پاس جمع ہونے لگا ،چونکہ بیت  اللّٰہ کی کلید برداری ، حاجیوں کے پانی کابندوبست اورکھانے کے لئے لنگرکی تقسیم خدام حرم کا سب سے بڑا منصب تھااس کے علاوہ عام مہمان داری کے اہم فرائض بھی قصیٰ کے ذمہ تھےاس لئے ان مقاصدکو پورا کرنے کے لئے قصیٰ نے قریش کو حاجیوں کے کھانے اور پانی کے انتظام پراکسایا اوراس مقصدکی بجاآوری کے لئے ایک سالانہ ٹیکس لگایا جس کا قریش نے مثبت جواب دیا اور اس نیک مقصدکے لئے اپنی کمائی میں سے ایک حصہ بر رضا ورغبت نکال کر قصیٰ کے حوالے کر دیتے ،جس سے سال بھرمیں ایک معقول رقم جمع ہو جاتی جس سے حاجیوں کوعمدہ اور اعلیٰ قسم کاکھانا (رفادہ) دیاجاتا اور پینے(سقایہ) کا بندوبست کیاجاتا تھا ، منیٰ ، مزدلفہ اورعرفات میں حج کے دنوں میں بلا امتیاز کھانے (گوشت پلاو) اورپانی دینے کایہ دستور فروری ۱۹۸۰ تک جاری رہا ،

 ثُمّ احْتَفَرَ قُصَیّ الْعَجُولَ فِی دَارِ أُمّ هَانِئِ بِنْتِ أَبِی طَالِبٍ، وَهِیَ أَوّلُ سِقَایَةٍ اُحْتُفِرَتْ بِمَكّةَ

پھرپانی کی ضرورت کے تحت قصی نے ام ہانی کے مکان کی جگہ پرایک کنواں العجول کھدوایایہ پہلاکنواں تھاجومکہ میں کھوداگیا۔[26]

قصیٰ نے سقایہ کی خدمت میں جدت پیداکی اور حجاج کے لئے نہایت خوشگوار پانی باہر سے درآمد کیا جاتا جس میں کھجوراور انگور نچوڑ کر مزیدخوشگوارذائقہ دار بنایا جاتا تھا۔

اساف بن عمرواور نائلہ بنت ذئب یمن کے باشندے اور قبیلہ جرہم کے فرد تھے ،جنہوں نے کعبہ کے اندربدفعلی کی اورپھررب کے دردناک عذاب میں گرفتار ہوکر پتھر بن گئے ، لوگوں کوعبرت دلانے کے لئے انہیں اٹھاکرایک کوکوہ صفا پر اوردوسرے کوکوہ مروہ پرپھینک دیا گیاتھا،ایک عرصہ تک وہ وہاں پڑے رہے اورلوگ ان کوبھول چکے تھے ، عمروبن لحی الخزاعی نے مکہ میں بت پرستی کی داغ بیل ڈال دی تھی ،شرک کی نحوست سے مشرکین کادماغ مفلوج ہوجاتاہے ،اورعقل سلیم ان کاساتھ چھوڑ دیتی ہے جب قصیٰ بن کلاب کازمانہ آیاتواس نے انہیں اپناکوئی معبودسمجھ کر ایک کو کعبہ کے متصل اور دوسرے کوزمزم کے پاس نصب کردیا، مشرکین نے انہیں بھی اپنے معبودوں میں شامل کردیا وہ ان کی عبادت کرتے اورانہیں حاجت رواسمجھ کر ان کے نام کی نذریں ماننے لگے،ان سنگین جرم کے مرتکب ہوکررب کے عذاب میں گرفتارہونے والوں کاتقرب حاصل کرنے کے لئے ان کے پاس قربانی کے جانورذبح ہونے لگے ،اورجب حج کرتے توطواف کعبہ کی ابتداء اساف بت سے کرتے اورنائلہ کے بت کے پاس آکرختم کرتے ، اوران دونوں کااستلام بھی کرتے (آخررسول  اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوسرے بتوں کے ساتھ ان دونوں کوبھی نیست ونابودکردیا) جب قصیٰ بوڑھاہو گیااورساری ذمہ داریوں کا بوجھ اٹھانا دشوارہوگیا تو اس نے تمام عہدے اپنے چھ بیٹوں عبدالدار، عبدمناف، عبدالعزیٰ اورعبدبن قصیٰ،تخمر،برہ میں تقسیم کردیئے ،دارالندوہ کی حکومت ،سقایہ ، رفادہ اورحجابہ عبدالدارکے حوالے کیے،جس کی کسی نے مخالفت نہیں کی ، وقت وفات انہوں نے شراب کی مضرتوں کومحسوس کرکے اہل تعلق کواس سے منع کیاتھا، قصیٰ نے اسی(۸۰) سال عمرپائی اور۴۸۰ء میں اس کاوصال ہوااوراسے حجوں (معابدہ) میں دفن کیاگیا، ان کے بھی بعض حکیمانہ اقوال مشہورہیں ۔

اس کے تین بیٹے عبدالدار،عبدمناف اور عبدالعزی ہوئے ۔

عبدمناف:(تقریبا ً ۵۰۰ء ):

امام شافعی رحمہ اللہ کہتے ہیں ان کااصل نام مغیرہ تھا،پہلے پہل ماں نے مناة بت کے پاس بھیجاتھااس لئے عرف عام میں عبدمناف مشہورہوئے۔

قصیٰ کی وفات کے بعدعبدالدار(جوان کابڑابیٹاتھاکے بجائے) عبدمناف ان کے جانشین بنے ،کیونکہ یہ اپنے باپ کی زندگی ہی میں شرف وسیادت کے مقام پرپہنچ گیاتھااس لئے قریش کے تمام امورانہیں سونپ دیئے گئے ،یہ حسین جمیل تھے اس لئے انہیں بطاکاچاندبھی کہاجاتاتھا،یہ بہت سخی تھے جس کی وجہ سے قریش میں فیاض کے نام سے موسوم تھے ، موسٰی بن عقبہ روایت کرتے ہیں کہ بعض پتھروں پریہ لکھاہواپایاگیا میں مغیرہ قصیٰ کابیٹا اللّٰہ کے تقوی اورصلہ رحمی کاحکم دیتا ہوں ،یہ چوتھی پشت پر عثمان رضی اللہ عنہ کے جداعلیٰ تھے۔

ان کے چھ بیٹے اورچھ بیٹیاں تھیں ۔

اور ان چھ بیٹوں سے چاربیٹوں عبدالشمس ، نوفل ،مطلب اورہاشم سے قریش کے چارذیلی قبیلے وجودمیں آئے،ابوعمرواورابوعبیدہ کے حالات نہیں ملتے، جب عبدمناف بھی فوت ہوگیا توان کی اولاد بنی عبدمناف ،ہاشم ، عبدالشمس ، مطلب اور بنی نوفل نے جمع ہو کرمشورہ کیاکہ کیونکہ ہم شرف ومجدمیں ہم ان پرفضیلت رکھتے ہیں اس لئے حجابہ ، سقایہ، رفادہ اورلواء وغیرہ کے ہم زیادہ حقدارہیں ،اب قریش میں گروپ بن گئے،قریش کے یہ خاندانوں بنواسدبن عبدالعزیٰ ،بنوزہرہ بن کلاب ،بنوتیم بن مرہ اور بنوالحارث بن فہراوراس جتھے کا سردارعبدشمس سمجھتے تھے کہ عبدمناف اس کے زیادہ حقدارہیں ، اوربنومخزوم ،بنوسہم ،بنوجمح اوربنوعدی ،اس جتھے کاسردارعامربن ہاشم تھا ان خاندانوں کاخیال تھاکہ کیونکہ ہمارے جد اعلیٰ نے یہ عہدے عبدالدارہی کودیئے ہیں اس لئے یہ ان کے پاس ہی رہیں ،بنی عامربن لوی اوربنی محارب بن فہراس جھگڑے سے دور غیرجانبدار رہے، قریش کایہ اختلاف جنگ پرختم ہوااورپھراس بات پرصلح ہوئی کہ سقایہ اوررفادہ کے عہدے بنوعبدمناف کودے دیئے گئے ،یہ عہدے عربوں کے ہاں بڑے ہی محترم تھے اگران میں سے ایک عہدہ بھی کسی کو مل جاتایاکوئی اس عہدے میں شریک ہوجاتاتوسمجھتاتھاکہ اسے اقلیم کی دولت مل گئی، بنو عبد مناف نے حاصل شدہ منصب کے لئے قرعہ ڈالاکہ یہ کس کے پاس رہیں گے توقرعہ ہاشم بن عبدمناف کے نام پڑاجسے سب نے تسلیم کرلیااورہاشم ساری زندگی سقایہ اور رفادہ کے عہدے پرفائزرہے ،دارلندوہ کی سربراہی،لواء اورحجابہ بنوعبدالدارکے پاس رہے، یہ مناصب فتح مکہ تک اسی طرح قائم رہے ،جس طرح یہ اس مصالحت کے موقع پردونوں خاندانوں میں تقسیم کیے گئے تھے ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجابہ اورسقایہ کے سواباقی سب کو منسوخ کردیا،حجابہ ابھی تک عبدالدارکی شاخ شیبہ بن عثمان کے ہاتھ چلی آرہی ہے ، سقایہ عباس رضی اللہ عنہ بن عبدالمطلب کے پاس رہاان کے بعدایک مدت تک بنی عباس کے ہاتھ میں رہامگرپہلے عباسی خلیفہ نے اس کوخودہی چھوڑدیا،دارالندوہ بھی حکیم بن حزام کی ملکیت میں آیاجس نے اسے امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کوایک لاکھ درہم میں فروخت کردیااورساری رقم راہ  اللّٰہ تقسیم کردی ۔

ہاشم:(تقریباً ۵۲۵ ):

امام مالک رحمہ اللہ اورامام شافعی رحمہ اللہ کہتے ہیں ان کااصل نام عمروبن عبدمناف تھا ،یہ بڑے زیرک اورمدبرتھے ،اوراپنے فرائض کونہایت خوش اسلوبی سے سرانجام دیتے تھے ،والد عبد مناف کی وفات کے بعداپنی قوم کے سرداربنے،ان کے بلندمرتبہ کی وجہ سے انہیں عمروالعلا کہاجاتاتھا،یہ تجارت کیاکرتے تھے اس لئے کافی دولت منداورغنی تھے ،جبکہ ان کے بھائی عبدشمس اکثرسفرہی میں رہتے اور مکہ میں کم ہی رہتے تھے،یہ قلیل المال اورکثیرالعیال تھے،جب ایام حج آتے توہاشم بن عبدمناف تمام حجاج کے لئے پانی کی سبیل اور حاجیوں کے کھانے گوشت،روٹی،ستواورکھجوروں ) کاانتظام کرتے اور حجاج کونہایت سیر چشمی سے کھلاتے ،حاجیوں کی آسائش اورکھانے پینے کی سہولت بہم پہنچانے کے لئے آپ ہرسال بہت سامال وقف کردیتے ،قریش بھی بڑی فراخ دلی سے اس معاملہ میں ان سے تعاون کرتے اورہرآدمی سو،سومثقال سالانہ پیش کرتا، ان کا دسترخوان تنگی وفراغت ہرحال میں وسیع اورعام رہتاتھا،یہ غریبوں و محتاجوں کی مددکیاکرتے ،مصیبت زدہ لوگوں کوپناہ دیتے اورغریب مسافروں کوسفرکرنے کے لئے اونٹ عطاکرتے تھے ،

فَحَدَّثَنِی یَزِیدُ بْنُ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ الْمُغِیرَةِ النَّوْفَلِیُّ عَنْ أَبِیهِ قَالَ:كَانَ إِذَا حَضَرَ الْحَجَّ قَامَ فِی قُرَیْشٍ فَقَالَ: یَا مَعْشَرَ قُرَیْشٍ إِنَّكُمْ جِیرَانُ اللَّهِ. وَأَهْلُ بَیْتِهِ. وَإِنَّهُ یَأْتِیكُمْ فِی هَذَا الْمَوْسِمِ زُوَّارُ اللَّهِ یُعَظِّمُونَ حُرْمَةَ بَیْتِهِ فَهُمْ ضَیْفُ اللَّهِ. وَأَحَقُّ الضَّیْفِ بِالْكَرَامَةِ ضَیْفُهُ، وَقَدْ خَصَّكُمُ اللَّهُ بِذَلِكَ وَأَكْرَمَكُمْ بِهِ.وَحَفِظَ مِنْكُمْ أَفْضَلَ مَا حَفِظَ جَارٌ مِنْ جَارِهِ. فَأَكْرِمُوا ضَیْفَهُ وَزَوْرَهُ.یَأْتُونَ شُعْثًا غُبْرًا مِنْ كُلِّ بَلَدٍ عَلَى ضَوَامِرَ كَأَنَّهُنَّ الْقِدَاحُ. قَدْ أَزْحَفُوا وَتَفَلُوا وَقَمَلُوا وَأَرْمَلُوا فَاقْرُوهُمْ وَاسْقُوهُمْ، فَكَانَتْ قُرَیْشٌ تُرَافِدُ عَلَى ذَلِكَ. حَتَّى أَنْ كَانَ أَهْلُ الْبَیْتِ لَیُرْسِلُونَ بِالشَّیْءِ الْیَسِیرِ عَلَى قَدْرِهِمْ

یزیدبن عبدالملک بن المغیرہ النوظی کہتے ہیں ہاشم سخی دست آدمی تھے جب حج کاموسم آتاتوقریش کے مجمع میں کھڑے ہوکرتقریرکرتےاے جماعت قریش!تم لوگ اللہ کے پڑوس میں ہو،بیت اللہ والے ہو،جواس کے گھرکی حرمت کے ساتھ تعظیم سے پیش آتے ہیں وہ اللہ تعالیٰ کے مہمان ہیں اورسب میں پہلے عزت کے لائق وہی ہیں جواللہ تعالیٰ کامہمان ہو، اللہ تعالیٰ نے تمہیں اس نعمت سے مخصوص فرمایاہے اورتمہیں خاص کریہ کرامت عطافرمائی ہے،ایک ہمسایہ اپنے دوسرے ہمسائے کاجتنالحاظ کرتاہے اس سے کہیں زیادہ اللہ تعالیٰ تمہارا خیال ولحاظ کرتاہےلہذاتم بھی اس کے زیارت کرنے والوں کی بزرگی کی رعایت کروجوبکھرے ہوئے غبارآلودبالوں کے ساتھ ہرایک شہرسے ایسی ایسی کمزور سواریوں پر آتے ہیں قماربازی کے تیرکی طرح بغیربال وپربے سازوسامان ہوتے ہیں ،چلے ہیں اورچل کے تھکن سے چورہوگئے ہیں جس سے بوآنے لگی ہے ،کپڑوں میں جوئیں پڑگئی ہیں ،سفر کا سامان اورکھانے پینے کی چیزیں ختم ہوچکی ہیں ،تم ان کی مہمان نوازی کروانہیں کھاناکھلاؤ اورپانی پلاؤ ،قریش اس وجہ سے حاجیوں کے آرام وراحت پہنچانے کااس قدرسامان کرتے کہ گھروالے طاقت کے مطابق معمولی چھوٹی چھوٹی چیزیں بھی فراہم کردیتے،

وَكَانَ هَاشِمُ بْنُ عَبْدِ مَنَافِ بْنِ قُصَیٍّ یُخْرِجُ فِی كُلِّ عَامٍ مَالا كَثِیرًا. وَكَانَ قَوْمٌ مِنْ قُرَیْشٍ أَهْلَ یَسَارَةٍ یَتَرَافَدُونَ. وَكَانَ كُلُّ إِنْسَانٍ یُرْسِلُ بِمِائَةِ مِثْقَالٍ هِرْقَلِیَّةٍ. وَكَانَ هَاشِمٌ یَأْمُرُ بِحِیَاضٍ مِنْ أَدَمٍ فَتُجْعَلُ فِی مَوْضِعِ زَمْزَمَ ثُمَّ یَسْتَقِی فِیهَا الْمَاءَ مِنَ الْبِئَارِ الَّتِی بِمَكَّةَ فَیَشْرَبُهُ الْحَاجُّ.وَكَانَ یُطْعِمُهُمْ أَوَّلَ مَا یُطْعِمُ قَبْلَ التَّرْوِیَةِ بِیَوْمٍ بِمَكَّةَ وَبِمِنًى وَجَمْعٍ وَعَرَفَةَ.وَكَانَ یُثْرِدُ لَهُمُ الْخُبْزَ وَاللَّحْمَ. وَالْخُبْزَ وَالسَّمْنَ. وَالسَّوِیقَ وَالتَّمْرَ. وَیَجْعَلُ لَهُمُ الْمَاءَ فَیُسْقَوْنَ بِمِنًى. وَالْمَاءُ یَوْمَئِذٍ قَلِیلٌ فِی حِیَاضِ الأَدَمِ. إِلَى أَنْ یَصْدُرُوا مِنْ مِنًى فَتَنْقَطِعُ الضِّیَافَةُ وَیَتَفَرَّقُ النَّاسُ لَبِلادِهِمْ

ہاشم بن عبدمناف خودبھی ہرسال بہت سامان اسی غرض سے نکالتے اورقریش کے جولوگ دولت مندتھے وہ بھی مددکرتے،اورہرشخص ہرقل (بادشاہ روم)کے سکے سوسومثقال بھیجتا،ہاشم حوضوں کی تیاری کاانتظام کرتے جن کامحل وقوع(مقام)زمزم کاکنواں ہوتا،ان میں مکہ مکرمہ کے کنوؤ ں سے پانے لاتے اورحوض بھردیتےحاجی یہی پانی پیتے تھے ،یوم الترویہ (۸ذی الحجہ)سے حاجیوں کی مہمان نوازی کاسامان ہوتااورمکہ ومنی اورحجاج کے جمع ہونے کے مقام جمع وعرفات پران کوکھاناکھلایاجاتا،گوشت روٹی اورچھوہارے اورستوکی ثریدبنابناکے دی جاتی ،سب کے لیے پانی کااہتمام ہوتااورباوجوداس کے کہ حوضوں میں پانی کی کمی ہوتی مگرپھربھی منی میں سب کوپانی پایاجاتا،ارکان حج سے فارغ ہوکرمنی سے جب لوگ واپس آتے تواس وقت مہمان نوازی ختم ہوتی اورلوگ اپنے اپنے مقام پرچلے جاتے۔[27]

امیہ بن عبد شمس پر ہاشم کاتمام عرب میں اقتداراورحجاج پران کاجودوسخاگراں تھاچنانچہ امیہ نے بھی ہاشم کی طرح حجاج کوکھلانے پلانے کی کوشش کی مگردولت وثروت ہونے کے باوجودہاشم کا مقابلہ نہ کرسکے،یہیں سے بنی ہاشم اوربنی امیہ کے درمیان عداوت کاسلسلہ شروع ہوا،ہاشم ہی پہلے شخص ہیں جنہوں نے قریش کے تجارتی سفر کا طریقہ ایک سفرموسم سرمامیں یمن اور حبشہ دوسرا سفر موسم گرمامیں ملک شام،غزہ اورانقرہ کی طرف رائج کیا تھا اوراپنی دانائی اورحسن معاملات کی بدولت انہوں نے قریش کی تجارت کو چار چاندلگادیئے ،قیصرروم ہاشم کے ساتھ نہایت احترام کے ساتھ پیش آتاتھا،ہاشم نے شام کے غسانی بادشاہ اورشاہ حبشہ سے،مطلب نے یمنی امراء سے اورنوفل نے عراق وفارس کی حکومتوں سے قریش کے سامان پرٹیکس نہ لگانے،تجارت کی حمایت اورحفاظت کافرمان جاری کرایا، اس طرح ان لوگوں کی تجارت بڑی تیزی سے ترقی کرتی چلی گئی ،اوریہ بھائی متجرین (تجارت پیشہ)مشہورہوگئے ، عرب میں قزاقی اوررہزنی کی بدولت تجارتی راستے محفوظ نہیں تھے ،ہاشم نے مختلف قبائل کادورہ کرکے ان سے معاہدہ کرلیاکہ ہم تمہاری ضرورتوں بہم پہنچائیں گے اورتم لوگ قریش کے تجارتی کاروانوں کو نقصان نہیں پہنچاؤ گے ،ہاشم کی حسن تدبیرکی بدولت تمام راستے محفوظ و مامون ہوگئے قریش کے ہزاروں اونٹوں پرمشتمل کارواں بغیرکسی خوف و خطرکے آتے جاتے رہتے اس وجہ سے ان کو اصحاب الایلاف(الفت پیداکرنے والے) بھی کہا جاتا تھا ،قریش کاان ممالک سے روابط کی وجہ سے ان کامعیاردانش وبنیش اتنابلندہوتاچلاگیاکہ عرب کاکوئی دوسراقبیلہ ان کامقابل کانہ رہا،بیت اللہ کامتولی اورمال ودولت کے اعتبارسے وہ تمام اہل عرب پرفائق ہوگئے اورمکہ سب سے زیادہ اہم تجارتی مرکزبن گیا،ان روابط کی وجہ سے قریش میں سب سے زیادہ پڑھے لکھے لوگ موجودتھے ،یہ لوگ عراق سے وہ رسم الخط لے کرآئے جوبعدمیں قرآن مجیدلکھنے کے لئے استعمال ہوا،

أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ كَانَ یُؤْثِرُ قُرَیْشًا عَلَى سَائِرِ النَّاسِ

اس لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاقریش لوگوں کے لیڈرہیں ۔[28]

ملک میں ایک مرتبہ شدیدقحط پڑگیا اور لوگ فاقوں میں مبتلاہوکرلاغروناتواں ہوگئے ،اس کے علاوہ حج کاوقت بھی قریب تھا چنانچہ قوم کا حال دیکھ کریہ ملک شام گئے اوروہاں سے ضروریات کاسامان لے کرزمانہ حج سے پہلے پہنچ گئے ،اونٹ ذبح کیے اورثریدتیار کر کے لوگوں کوپیٹ بھرکر کھانا کھلایااس طرح آپ پہلے شخص ہیں جنہوں نے اہل مکہ کوثرید (ایک اعلیٰ قسم کاکھانا) کھلایا ، اسی مناسبت سے ان کانام ہاشم پڑگیا ،

طبری کہتے ہیں کہ ہاشم فلسطین سے بہت ساآٹا خرید کرمکہ لائے ،ان کی روٹیاں پکوائیں اوربہت سے جانور ذبح کر کے گوشت تیار کرایا ، پھر ان روٹیوں کاچورابناکرثرید تیار کیااوراپنی قوم کی دعوت کی ،

انہوں نے صفاومروہ کے درمیان ایک کنواں سجلہ نامی کھدوایا تھاجوبعدمیں کنواں جبیر بن مطعم کے نام سے مشہور ہوا، آپ نہایت حسین وجمیل تھے،

روایت ہے کہ قبائل عرب اورعلماء بنی اسرائیل ہاشم کونکاح کے لئے اپنی لڑکیاں پیش کرتے تھے حتی کہ شاہ روم ہرقل نے بھی ہاشم کوخط لکھااورشہزادی کوان کے عقدمیں دینے کالکھا مگرہاشم نے انکارکردیا،ہاشم اپنے تجارتی سفروں کے سلسلے میں اکثرشام جاتے ہوئے مدینہ منورہ میں قیام کرتا تھا اوروہاں قبیلہ خزرج کی ایک عورت ہندبنت عمروبن ثعلبہ سے وہ پہلے ہی شادی کرچکاتھاجس سے اس کے دوبچے بھی تھے ،ایک دفعہ آپ شام کے سفرپرروانہ ہوئے ،راستہ میں چنددن مدینہ میں قیام کیاوہاں انہوں نے ایک لڑکی کودیکھا جوحسین وجمیل تھی،جس کی حرکات وسکنات سے شرافت وفراست اورچہرے سے سنجیدگی ٹپکتی تھی اس نے اپنا مال تجارت مدینہ کے تاجروں کودیاہواتھاوہ ان تاجروں سے سفرکی روداداوراپنے تجارتی سامان کی معلومات لینے لگی ،ہاشم نے اس لڑکی کی تاجروں سے بات چیت سے محسوس کیاکہ وہ بہت ہی ہوشیار،تجربہ کار اور باتدبیر ہے ،ہاشم نے یہ معاملہ دیکھ کردل ہی دل میں لڑکی کی فہم وفراست کی داددی ، ہاشم نے اس کے بارے میں معلومات لیں تو پتہ چلاکہ اس لڑکی کانام سلمیٰ بنت عمروبن زیدبن لبیدبن خدابخش بن عامربن غنم بن عدی ہے ، خزرج کے ایک خاندان بنی نجارسے تعلق ہے ،اپنے یہاں معزز اور کنواری ہے ،اورچاہتی ہے کہ اسے ایساشوہرملے جواسے آزادرکھے اسے اپنی آزادی مجروح کرنا گوارا نہیں ،ہاشم نے اس سے شادی کی درخواست کی ، ہاشم کا اپنی قوم میں جو مقام تھا وہ اسے جانتی تھی اس لئے اس پیشکش کوفوراًقبول کرلیا چنانچہ ہاشم اور سلمیٰ بنت عمروبن زید کا نکاح ہوگیا،کچھ دنوں بعدہاشم اپنی اہلیہ کوجواس وقت حمل سے تھیں اپنے والدین کے پاس چھوڑکرتجارتی سفرپر شام روانہ ہوگئے مگرغزہ کے مقام پر بیمار ہو گئے اور وہیں وصال ہوگیااوراسی جگہ دفن کیے گئے،ہاشم نے مرتے وقت وصیت کی کہ اس کے بعد اس کابھائی مطلب اس کی جگہ سقایہ اوررفادہ کامتولی ہوگااوروہی اس کے خاندان کی بھی دیکھ بھال کرے گا،جس کی وجہ سے بنی ہاشم اوربنی المطلب ایک جان دوقالب بن گئے اور آخرتک رہے،اس کے برعکس بنی عبدشمس (جن سے بنی امیہ تھے )اوربنی نوفل ایک دوسرے کے حلیف بنے اوربعدتک رہے،اس لئے جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم شعب بنوہاشم میں محصور کئے گئے توبنی ہاشم کے ساتھ بنی المطلب بھی اس محصوری میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شامل ہوئے جبکہ بنی نوفل اوربنی عبدشمس نے مخالفین کاساتھ دیا،ہاشم کی بیوی سلمیٰ اس وقت حمل سے تھیں ،ان کے بطن سے تقریباً۴۹۵ء میں ایک لڑکا پیداہواجس کانام شبیہ رکھاگیا جنہوں نے جوانی کی عمرکے قریب پہنچنے تک مدینہ کے بنی خزرج میں میں والدہ کے ساتھ پرورش پائی،ایک مرتبہ ثابت بن منذر( حسان رضی اللہ عنہ بن ثابت کاوالد)کسی کام سے مکہ مکرمہ گیااس کا مطلب سے کافی میل جول تھا اس لئے وہ مطلب سے ملا،گفتگو کے دوران ثابت بن منذرنے مطلب سے کہاکہ اگرتم اپنے بھتیجے شیبہ کوجوبڑاشاندارپرہیبت اورخوبرو نوجوان اٹھاہے دیکھوتوتمہارادل خوش ہوجائے، جب ہاشم کے بھائی مطلب کو اپنے بھتیجے کے بارے میں علم ہواتوبے تاب ہو گیا ،

فَخَرَجَ الْمُطَّلِبُ فَوَرَدَ الْمَدِینَةَ فَنَزَلَ فِی نَاحِیَةٍ وَجَعَلَ یَسْأَلُ عَنْهُ حَتَّى وَجَدَهُ یَرْمِی فِی فَتَیَانٍ مِنْ أَخْوَالِهِ. فَلَمَّا رَآهُ عَرَفَ شِبْهَ أَبِیهِ فِیهِ فَفَاضَتْ عَیْنَاهُ وَضَمَّهُ إِلَیْهِ وَكَسَاهُ حُلَّةً یَمَانِیَةً وَأَنْشَأَ یَقُولُ:

مطلب مکہ سے نکل کرچلے اورمدینہ منورہ پہنچ کرایک کونے میں ٹھہرے اوراپنے بھتیجے شیبہ کوتلاش کرتے رہے،حتی کہ اپنے ننھیالی لڑکوں میں تیراندازی کرتے ہوئے وہ مل گئے،مطلب نے دیکھاتوباپ کی شباہت ان میں نظرآئی ،پہچان لیاآنکھیں رونے لگیں ،گلے سے لگایاحلہ یمانی پہنایااورکہنے لگے۔

عَرَفْتُ شَیْبَةَ وَالنَّجَّارُ قَدْ حَفَلَتْ،أَبْنَاؤُهَا حَوْلَهُ بِالنَّبْلِ تَنْتَضِلُ

میں نے شیبہ کوپہچان لیااورایسی حالت میں پہچاناکہ قبیلہ بنی نجارکے لڑکے اس کے اردگردتیراندازی کے لیے مجمع کئے ہوئے تھے

عَرَفْتُ أَجْلادَهُ مِنَّا وَشِیمَتَهُ ،فَفَاضَ مِنِّی عَلَیْهِ وَابِلٌ سَبَلُ

میں نے پہچان لیاکہ ان کازوربازووڈھنگ وطریق ہم ہی میں سے ہے اوریہ پہچان کرمیری آنکھیں اس پرآنسوؤ ں کے ڈونگرے برسانے لگیں ۔

فَأَرْسَلَتْ سَلْمَى إِلَى الْمُطَّلِبِ فَدَعَتْهُ إِلَى النُّزُولِ عَلَیْهَا. فَقَالَ: شَأْنِی أَخَفُّ مِنْ ذَلِكَ. مَا أُرِیدُ أَنْ أَحُلَّ عُقْدَةً حَتَّى أَقْبِضَ ابْنَ أَخِی وَأَلْحِقَهُ بِبَلَدِهِ وَقَوْمِهِ، فَقَالَتْ: لَسْتُ بِمُرْسِلَتِهِ مَعَكَ. وَغَلَّظَتْ عَلَیْهِ. فَقَالَ الْمُطَّلِبُ: لا تَفْعَلِی فَإِنِّی غَیْرُ مُنْصَرَفٍ حَتَّى أَخْرُجَ بِهِ مَعِی. ابْنُ أَخِی قَدْ بَلَغَ وَهُوَ غَرِیبٌ فِی غَیْرِ قَوْمِهِ وَنَحْنُ أَهْلُ بَیْتٍ شَرُفَ قَوْمُنَاوَالْمُقَامُ بِبَلَدِهِ خَیْرٌ لَهُ مِنَ الْمُقَامِ هَهُنَا وَهُوَ ابْنُكِ حَیْثُ كَانَ،فَلَمَّا رَأَتْ أَنَّهُ غَیْرُ مُقَصِّرٍ حَتَّى یَخْرُجَ بِهِ اسْتَنْظَرَتْهُ ثَلاثَةَ أَیَّامٍ

کسی طرح سلمیٰ کوبھی اطلاع ملی توانہوں نے مطلب کو بلا بھیجا اوراپنے یہاں ٹھہرنے کی دعوت دی،جس کے جواب میں مطلب نے کہامیری حالت اس (تکلف)سے بہت ہی عاری واقع ہوئی ہے میں جب تک اپنے بھتیجے کونہ پاؤ ں گااوراسے اس کے شہراورقوم میں نہ لے جاؤ ں گااس وقت تک گرہ بھی نہیں کھولناچاہتا،سلمی نے کہامیں تواس کو تیرے ساتھ نہیں بھجوں گی،سلمی نے اس جواب میں مطلب کے ساتھ سختی وخشونت ظاہرکی،مطلب نے کہاایسانہ کرمیں تواس کوساتھ لیے بغیرواپس نہیں جاؤ ں گا، میرا بھتیجا سن شعورکوپہنچ چکاہے اورغیرقوم میں ہے اوراجنبی ہے ،ہم لوگ اس خاندان کے ہیں کہ ہماری قوم کی شرافت اوراپنے قومی شہرمیں قیام کرنایہاں کی اقامت سے اس کے لیے بہتر ہے اوروہ جہاں کہیں بھی ہوبہرحال تیرالڑکاہے ،سلمی نے جب دیکھاکہ مطلب شیبہ کولئے بغیرواپس جانے والے نہیں توان سے تین دن کی مہلت چاہی ، بالآخر تین دن مہمان داری کے بعدشیبہ کوان کے ہمراہ مکہ روانہ کردیا تاکہ وہ مدینہ میں اپنے ننھیال میں رہنے کے بجائے مکہ میں اپنے اعلیٰ نسب بزرگوں کے ساتھ رہے، مطلب جب مدینہ سے واپس ہوکر مکہ میں داخل ہوئے تو کیونکہ شیبہ ان کے پیچھے اونٹ پرسوارتھے،چہرے سے یتیمی ٹپکتی تھی ، کپڑے بھی میلے اورگردآلودتھے جس سے لوگوں نے سمجھاکہ یہ مطلب کے غلام ہیں اس لئے مکہ میں ان کانام عبدالمطلب (یعنی مطلب کاغلام )مشہورہوا ،لیکن صحیح ترقول یہ ہے کہ کیونکہ مطلب نے اپنے یتیم بھتیجے کی پرورش کی تھی اسی نسبت سے عبدالمطلب مشہور ہوئے ،

ہاشم کے چارلڑکے اورپانچ لڑکیاں ہوئیں ۔

ابوصیفی،اسداورنضلہ کے حالات برائے نام ملتے ہیں ۔

مطلب :

ہاشم کی وصیت کے مطابق السقایہ اورالرفادہ کے ناظم عبدشمس اورہاشم سے چھوٹے بھائی مطلب بن عبدمناف بنے،یہ اپنی قوم میں فضیلت اورعزوشرف کے مالک تھے، جودوسخاکی وجہ سے قریش ان کوفیاض کے نام سے پکارتے تھے،کچھ عرصہ بعدایک تجارتی سفرکے سلسلہ میں یمن گئے اوروہیں وفات پائی۔

عبدالمطلب:(تقریباً ۵۵۰ء ):

یہ رسول  اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جداعلیٰ تھے،

عَبْدِ الْمُطَّلِبِ. وَاسْمُهُ شَیْبَةُ وَأُمُّ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ بْنِ هَاشِمٍ سَلْمَى بِنْتُ عَمْرِو بْنِ زَیْدِوَكَانَ عَبْدُ الْمُطَّلِبِ أَحْسَنَ قُرَیْشٍ وَجْهًا وَأَمَدَّهُ جِسْمًا وَأَحْلَمَهُ حِلْمًا وَأَجْوَدَهُ كَفًّا وَأَبْعَدَ النَّاسِ مِنْ كُلِّ مُوبِقَةٍ تُفْسِدُ الرِّجَالَ. وَلَمْ یَرَهُ مَلِكٌ قَطُّ إِلا أَكْرَمَهُ وَشَفَّعَهُ. وَكَانَ سَیِّدَ قُرَیْشٍ حَتَّى هَلَكَ

عبدالمطلب کااصل نام شیبہ تھااورعبدالمطلب کی والدہ کانام سلمیٰ بنت عمروبن زیدتھا،یہ۴۹۷ء میں پیداہوئے،ان کی کنیت بڑے بیٹے حارث کے نام پر ابوالحارث تھی عبدالمطلب طویل القامت، بڑے خوبصورت، قوی وجسیم،سنجیدہ وبردبار،سب سے زیادہ سخی اوران تمام برائیوں سے دورتھے جومردوں کوبگاڑنے والی ہوتی ہیں ۔[29]

وَشَرُفَ فِی قَوْمِهِ شَرَفًا لَمْ یَبْلُغْهُ أَحَدٌ مِنْ آبَائِهِ، وَأَحَبَّهُ قَوْمُهُ وَعَظُمَ خَطَرُهُ فِیهِمْ

اور ان کواپنی قوم میں عزت وشرف کا ایسامرتبہ حاصل ہواجس تک ان کے آباء و اجداد میں سے کوئی نہیں پہنچا تھاان کی قوم ان کی مطیع اورمحب تھی اوران کی تعظیم وتکریم کواپنی سعادت سمجھتی تھی۔[30]

فَكَانَ إِذَا دَخَلَ شَهْرُ رَمَضَانَ صَعِدَ حِرَاءَ وَأَطْعَمَ الْمَسَاكِینَ جَمِیعَ الشَّهْرِ

عبدالمطلب رمضان کے مہینہ میں ہر سال غارحرامیں جاکرعبادت کیاکرتے اوراس پورے مہینہ میں مساکین کو کھانا کھلایا کرتے تھے۔[31]

وكان یأمر أولاده بترك الظلم والبغی، ویحثهم على مكارم الأخلاق وینهاهم عن دنیات الأمور، والمنع من نكاح المحارم، وقطع ید السارق، والنهی عن قتل الموءودة وتحریم الخمر والزنا، وأن لا یطوف بالبیت عریان

عبدالمطلب کی شان عام اہل عرب سےمختلف تھی وہ اپنی اولادکوظلم وفساد سے روکتےاورانہیں مکارم اخلاق پرکاربندرہنے کی تلقین کرتے اورانہیں دنیاوی گندے کاموں سے روکتے ،وہ محرم عورتوں (بہن، پھوپھی،خالہ وغیرہ) سے نکاح سے منع کرتے ،اور چوروں کاہاتھ کاٹنے کاحکم دیتے اورلڑکیوں کوزندہ دفن کرنے سےاورشراب اورزناسے منع کرتے اوربیت  اللّٰہ کا برہنہ طواف کرنے سے لوگوں کوروکتے۔[32]

وَكَانَ شَرِیفًا فِی قَوْمِهِ مُطَاعًا سَیِّدًا. وَكَانَتْ قُرَیْشٌ تُسَمِّیهِ الْفَیْضَ لِسَمَاحَتِهِ

وہ اپنی قوم میں شریف تھے ،سردارتھے اوران کی پیروی کی جاتی تھی ،جودوکرم کی وجہ سے قریش انہیں الفیض کے نام سے یادکرتے تھے۔[33]

حطیم میں ان کے بیٹھنے کی جگہ پر ایک غلیچہ بچھارہتاتھاجس پران کے علاوہ کوئی نہیں بیٹھتا تھا ،مطلب کے انتقال کے بعدان کے بھتیجے اور رسول  اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دادا عبدالمطلب السقایہ والرفادہ کے ناظم بنے،انہوں نے ان کاایسااعلیٰ انتظام کیا اور آباء اجدادکے مستحسن افعال کوترقی دی کہ قوم میں تعظیم وتکریم کے بلندمرتبہ پرفائزہوئے ، شیبہ (عبدالمطلب) کے چچانوفل نے ہاشم کے چھوڑے ہوئے ترکہ میں سے کچھ حصہ غصب کرلیا، عبدالمطلب نے پہلے تواپنے قبیلہ کے بڑے لوگوں سے اپنے چچا نوفل کی شکایت کی کیونکہ اس حمام میں سب ہی ننگے تھے اس لئے چچااوربھتیجے کے جھگڑے میں کوئی بھی کودنے کو تیار نہ ہوآخرمجبورہوکرانہوں نے اپنی ننھیال بنی عدی بن نجارکواپنی مدد کے لئے آوازدی ، اپنے بھانجے کی آواز پران کے ماموں ابوسعیدبن عدس اسی آدمیوں کے ہمراہ مدینہ منورہ سے مکہ مکرمہ آ گیا اورنوفل سے زبردستی اپنے بھانجے کاحق دلوایاجس پرنوفل بنی ہاشم کے خلاف بنی عبدشمس سے مل گیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت تک اسی پارٹی میں شامل رہا جوبنی ہاشم کامخالف اور بنی عبدشمس کاساتھی تھا،عبدالمطلب نے جب یہ صورت حال دیکھی تو انہوں نے قبیلہ خزاعہ سے بات چیت کرکے اتحاداورامدادباہمی کامعاہدہ کرلیااوراس معاہدہ کی کعبہ میں جاکر باقاعدہ تحریر لکھی گئی،مگرابن سعداور بلازری لکھتے ہیں کہ خودبنی خزاعہ نے عبدالمطلب سے باہمی دوستی ومعاونت کامعاہدہ کیاتھااس معاہدہ میں بنی ہاشم اوربنی المطلب دونوں شامل ہوئے اوران کے مخالف بنی عبدشمس اوربنی نوفل الگ رہے،یہ معاہدہ دارالندوہ میں تحریر ہوااورکعبہ میں آویزاں کیاگیا،اس معاہدے کے مطابق شیبہ (عبدالمطلب)نے اپنی اولاد کووصیت کی تھی کہ وہ ہمیشہ بنی خزاعہ کے ساتھ دوستی نبھائے،اس وجہ سے صلح حدیبیہ کے موقعہ پرجب یہ شرط لکھی گئی کہ قبائل عرب میں سے جوچاہئے فریقین میں سے کسی ایک کے ساتھ شریک ہو جائے توبنی خزاعہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شریک ہونے کافیصلہ کیاتھا ،ان کی زندگی کاسب سے بڑا کارنامہ چاہ زمزم کھودنے کاتھا، بنواسماعیل جن کو ہاجرہ رحمہ اللہ نے چاہ زمزم کے قریب رہنے کی اجازت فرمائی تھی اور انہی میں اسماعیل علیہ السلام کی شادی بھی ہوئی تھی، اسماعیل علیہ السلام کی اولادمیں ان کادوسرالڑکا قیدارجو نہایت مدبراور نامور تھا ،اس کی اولاد خاص مکہ میں آبادرہی ،ان لوگوں نے اپنے باپ کے نقش قدم پرچل کراس مقدس گھرکے حقوق کی ہمیشہ پاسبانی کی،۲۰۷ء میں عدنان اور بنی جرہم میں کسی بات سے مخاصمت پیدا ہوئی جس میں بنی جرہم عدنان پر غالب ہوگئے جس کی وجہ سے مکہ پر جراہم کی حکومت قائم ہوگئی، اکثرعدنانی قبائل تو نجد ، اطراف عراق اور بحرین چلے گئے مگرچند قریش اور کنانہ کے لوگ لاچارہوکرمکہ مکرمہ کے اطراف وجوانب میں آبادہوگئے مگر وقت کے ساتھ ساتھ جرہم کی حالت خراب ہوتی گئی اور وہ تنگ دستی کاشکارہونے لگے ، جرہم کا فسق و فجور، حدود  اللّٰہ کوتوڑنے اور مکہ میں آنے والے حاجیوں پر ظلم وستم بڑھتاہی چلا گیا،انہوں نے بیت اللہ پرچڑھائے جانے والے نذرونیاز کو بھی تر نوالہ بنالیا اور خزانہ کعبہ پر دست تصرف درازکیااورحدیہ کہ کعبہ کے اندرقبیلہ جرہم کے دویمنی مردوعورت اساف اورنائلہ نے بدکاری جیسے قبیح جرم کاارتکاب کیا،جب مضاض بن عمروبن حارث بن مضاض بن عمروالجرہمی نے دیکھا تواپنی قوم سے مخاطب ہوکرکہنے لگااے میری قوم !اللہ تعالیٰ سے ڈرواوربیت اللہ کی بے حرمتی سے بازآجاؤ تم اچھی طرح جانتے ہوکہ جس قوم نے بھی اس مقدس گھرکی عزت وحرمت کوپامال کیاوہ تباہ وبربادہوااورعمالقہ کی ذلت ورسوائی کی المناک داستان تمہارے سامنے ہے ایسانہ ہوکہ افعال بد کی پاداش میں اللہ تعالیٰ تم پر کوئی دوسری قوم مسلط کردے اورتم ذلیل ورسواہوجاؤ ،مگرقوم مضاض کی ناصحانہ باتوں کی پرواہ نہ کرتے ہوئے کہنے لگی ہم بے حد عزت والے عرب ہیں ہماری افرادی قوت زبردست ہے ہمارے پاس سامان حرب وضرب بے اندازہے ،ہمیں کون شکست دے سکتاہے ،مضاض نے کہاجب اللہ تعالیٰ کی گرفت آجاتی ہے توتمام تدابیر دھری کی دھری رہ جاتی ہے اورنافرمان قومیں صفحہ ہستی سے مٹ جاتی ہیں ،لیکن قوم بدکاری کی ایسی دلدادہ اورخوگربن چکی تھی کہ مضاض کی نصیحت کاان پرکوئی اثرنہ ہوا ، بنو عدنان اپنے آبائی گھرمیں جرہم کی حرکتوں پر دل ہی دل میں کڑھتے بھڑکتے مگرکرکچھ نہیں سکتے تھے جب انہوں نے ساری حدیں توڑڈالیں تو قادر مطلق نے ان سے اقتدار چھیننے،ان کاجاہ وجلال اور کروفر کوذلت وخواری میں بدلنے اورمکہ سے ذلیل وخوارہوکرنکلنے کے اسباب مہیا کئے ،دوسری صدی عیسوی کے وسط میں بنوخزاعہ نے مرالظہران میں پڑاوکیا انہوں نے بنوعدنان اور بنو جرہم کی نفرت جلدہی محسوس کرلی،انہوں نے موقعہ کواپنے حق میں سازگار سمجھا،بنوخزاعہ میں سے غبشان نے بنی کنانہ سے بنوبکربن عبدمناف بن کنانہ کواپنے ساتھ ملا کر بنو جرہم کے خلاف جنگ شروع کردی ،تین دن تک جنگ ہوتی رہی بالآخرجرہم کو شکست ہوئی اور بنو جرہم کوصدیوں مکہ پرحکومت کرنے کے بعد ذلت وخواری سے بھاگنا پڑا ، یہاں سے رخصت ہونے سے قبل مضاض جرہمی سے اورتوکچھ نہ بن پڑاالبتہ کعبہ کے نفیس اور قیمتی تحائف چاہ زمزم میں ڈال کراسے مٹی سے بھرکرزمین کے برابر کر دیا اور اس کانشان تک مٹا دیا اور خود ذلیل ونامراد ہو کراپنے اصلی وطن یمن کی طرف بھاگ گیا ، بنو خزاعہ کی شاخ غبشان سربلند رہے ،انہوں نے بنوبکرکو شامل کیے بغیرتنہااپنی حکومت قائم کرکے اس مقدس گھرکے متولی بن بیٹھے ،اورصرف تین امتیازی مناصب مضری قبائل کوملے۔

۱۔حاجیوں کوعرفات سے مزدلفہ لے جانا اور یوم النضراورحج کے آخری دن ۱۳ ذی الحجہ کومنی سے روانگی کی اجازت دینا۔

۲۔۱۰ ذی الحجہ کی صبح کومزدلفہ سے منیٰ کی جانب افاضہ (روانگی) یہ اعزاز بنو عدوان کوحاصل تھا۔

۳۔حرام مہینوں کوضرورت کے وقت آگے پیچھے کرنا،یہ اعزاز بنوکنانہ کی ایک شاخ بنوتمیم کوحاصل ہوا۔

بنی جرہم کے جانے کے بعدبنی اسماعیل جولڑائی سے کنارہ کش تھے خزاعہ کے پاس آئے اورمکہ میں رہائش کاحق مانگاجسے خزاعہ نے قبول کرلیا، اس طرح بنی اسماعیل مکہ واپس آگئے ،پھر عمروبن لحی کی اولادنے پانچ سوسال مکہ معظمہ پرحکمرانی کی اوران کاآخری حکمران خلیل بن حبشیہ بن سلول بن کعب ہوا۔

ثُمَّ إنَّ قُصَیَّ بْنَ كِلَابٍ خَطَبَ إلَى حُلَیْلِ بْنِ حُبْشِیَّةَ ابْنَتَهُ حُبَّى، فَرَغِبَ فِیهِ حُلَیْلٌ فَزَوَّجَهُ

قصی بن کلاب نے اس کی بیٹی حیی سے اپناپیغام دیااس نے بخوشی خاطران سے شادی کردی ۔[34]

عمروبن لحی سے قبل اہل عرب بت پرستی سے ناآشناتھے ،اس بدبخت نے ہی عرب میں بت پرستی کی بنیادڈالی تھی،

عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ صَخْرٍ یَقُولُ:سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَقُولُ إنّهُ كَانَ أَوّلَ مَنْ غَیّرَ دِینَ إسْمَاعِیلَ فَنَصَبَ الْأَوْثَانَ وَبَحَرَ الْبَحِیرَةَ وَسَیّبَ السّائِبَةَ وَوَصَلَ الْوَصِیلَةَ وَحَمَى الْحَامِی

عبدالرحمٰن بن صخرسے مروی ہے میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوفرماتے ہوے سنا(عمروبن لحی)وہ شخص تھاجس نے سب سے پہلے اسماعیل علیہ السلام کے دین کوتبدیل کیااوربتوں کونصب کیااوربحیرہ،سائبہ،وصیلہ اورحامی کاطریقہ شروع کی۔[35]

عَمْرِو بْنِ حَزْمٍ عَنْ أَبِیهِ قَالَ:أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: رَأَیْتُ عَمْرَو بْنَ لُحَیٍّ یَجُرُّ قُصْبَهُ فِی النَّارِ

عمروبن حزم سے روایت ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایامیں نے(معراج میں ) عمروبن لحی بن قمعہ بن خذف کودیکھا کہ اس کی انتڑیاں آگ میں گھسیٹی جارہی تھیں ۔[36]

مگرچاہ زمزم کی طرف کسی نے توجہ نہ کی ، امتدادزمانہ اور سیلاب کی تباہ کاریوں کے سبب زمزم کانام ونشان تک مٹ چکا تھا اور مدتیں گزرجانے سے لوگوں کے ذہن سے بھی چاہ زمزم کامحل ووقوع نکل چکاتھا ،مکہ مکرمہ میں کوئی پانی کاکنواں نہیں تھا چند منتشرکنوئیں مکہ کے اطراف میں تھے انہیں سے حاجیوں کے لئے پانی لا کر حوضوں میں بھرتے رہتے تھے جو نہایت دقت طلب کام تھاجس سے عبدالمطلب بڑے پریشان ہوتے ، آخرانہیں چاہ زمزم کے بارے میں خیال آیاتولوگوں سے اس کا محل وقوع پوچھنے لگے مگر کسی کوپتہ ہوتا توبات بنتی،  اللّٰہ کی جب حکمت ہوئی کہ اس بنداوربے نام ونشان چشمہ سے اس کی مخلوق سیراب ہو تو عبدالمطلب کوجب وہ حطیم میں سو رہے تھے خواب میں اس کنویں کو کھودنے کاحکم دیا گیا۔

قَالَ عَبْدُ الْمُطَّلِبِ: إنِّی لَنَائِمٌ فِی الْحِجْرِ إذْ أَتَانِی آتٍ فَقَالَ: احْفِرْ طَیْبَةَقَالَ: وَمَا طَیْبَةُ؟فَلَمَّا كَانَ الْغَدُ أَتَاهُ،فَلَمَّا كَانَ الْغَدُ أَتَاهُ وَهُوَ نَائِمٌ فِی مَضْجَعِهِ ذَلِكَ فَقَالَ: احْفُرِ الْمَضْنُونَةَقَالَ: وَمَا الْمَضْنُونَةُ؟قَالَ: ثُمَّ ذَهَبَ عَنِّی، قَالَ: ثُمَّ ذَهَبَ عَنِّی. فَلَمَّا كَانَ الْغَدُ رَجَعْتُ إلَى مَضْجَعِی فَنِمْتُ فِیهِ، فَجَاءَنِی فَقَالَ: احْفِرْ زَمْزَمَ قَالَ: وَمَا زَمْزَمُ؟قَالَ: لَا تَنْزِفُ أَبَدًا وَلَا تُذَمُّ ، تَسْقِی الْحَجِیجَ الْأَعْظَمَ، وَهِیَ بَیْنَ الْفَرْثِ وَالدَّمِ، عِنْدَ نُقْرَةِ الْغُرَابِ الْأَعْصَمِ ، عِنْدَ قَرْیَةِ النَّمْلِ

عبد المطلب کاکہناتھاکہ ایک رات میں حجرمیں سویاہواتھاکہ ایک آنے والاآیااوراس نے مجھے کہاکہ طیبہ کو کھودو،میں نے پوچھاطیبہ کیاہے ؟مگروہ شخص جواب دئے بغیر چلا گیا دوسری رات بھی جب میں سویاپھروہ شخص حاضرہوااورکہا مضنونة کو کھودو،میں نے پوچھا مضنونة کیاہے ؟مگروہ شخص پھرغائب ہو گیا،تیسرے روزبھی خواب میں مجھے کہنے والے نے کہا زمزم کو کھود و،میں نے پوچھا زمزم کیاہے ؟تواس نے بتایازمزم وہ چشمہ ہے جس کاپانی نہ کبھی ٹوٹتا ہے اورنہ کبھی کم ہوتا ہے ، اوربے شمار حجاج کوسیراب کرتاہے ، اس کے کھودنے میں تمہیں کوئی غیرمعمومی مشقت بھی نہیں اٹھانی پڑے گی اوروہ اس جگہ پرہے جہاں لوگ قربانیاں کرتے ہیں اوروہیں چیونٹیوں کی ایک بستی ہے اورتم کووہاں ایک کوا(وہ کوا جس کے دونوں پاؤ ں اورچونچ سرخ رنگ کے ہوں اوراس کے پروں میں کچھ سفیدی ہو،اس زمانہ میں اسی رنگ کاایک کوا مقام زمزم پرآکربیٹھتاتھا،زمزم توباقی نہ رہاتھاالبتہ اس کی جگہ قریش قربانی کیا کرتے تھے اوراسی وجہ سے وہ کوہ وہاں سے ہٹتانہ تھا) چونچ سے زمین کریدتاہوادیکھوگے،

فَعَدَا عَبْدُ الْمُطَّلِبِ وَمَعَهُ ابْنُهُ الْحَارِثُ، وَلَیْسَ لَهُ یَوْمَئِذٍ وَلَدٌ غَیْرَهُ، فَوَجَدَ قَرْیَةَ النَّمْلِ، وَوَجَدَ الْغُرَابَ یَنْقُرُ عِنْدَهَا بَیْنَ الْوَثَنَیْنِ: إسَافٍ وَنَائِلَةٍ، اللَّذَیْنِ كَانَتْ قُرَیْشٌ تَنْحَرُ عِنْدَهُمَا ذَبَائِحَهَافَقَامَتْ إلَیْهِ قُرَیْشٌ حِینَ رَأَوْا جِدَّهُ، فَقَالُوا: وَاَللَّهِ لَا نَتْرُكُكَ تَحْفِرُ بَیْنَ وَثَنَیْنَا هَذَیْنِ اللَّذَیْنِ نَنْحَرُ عِنْدَهُمَافَقَالَ عَبْدُ الْمُطَّلِبِ لِابْنِهِ الْحَارِثِ: ذُدْ عَنِّی حَتَّى أحفر، فو الله لَأَمْضِیَنَّ لِمَا أُمِرْتُ بِهِ، فَلَمَّا عَرَفُوا أَنَّهُ غَیْرُ نَازِعٍ ، خَلَّوْا بَیْنَهُ وَبَیْنَ الْحَفْرِ، وَكَفُّوا عَنْهُ،وَكَانَ عَبْدُ الْمُطَّلِبِ بْنُ هَاشِمٍ فِیمَا یَزْعُمُونَ وَاَللَّهُ أَعْلَمُ قَدْ نَذَرَ حِینَ لَقِیَ مِنْ قُرَیْشٍ مَا لَقِیَ عِنْدَ حَفْرِ زَمْزَمَ، لَئِنْ وُلِدَ لَهُ عَشَرَةُ نَفَرٍ، ثُمَّ بَلَغُوا مَعَهُ حَتَّى یَمْنَعُوهُ، لَیَنْحَرَنَّ أَحَدَهُمْ للَّه عِنْدَ الْكَعْبَةِ

چنانچہ دوسرے روز عبدالمطلب اپنے اکلوتے بیٹے حارث کے ساتھ کھدائی کا ضروری سامان لے کر حرم میں پہنچ گئے ،بشارت کے مطابق ایک کوئے کو اساف اور نائلہ کے بتوں کے قریب زمین کو کریدتے پایا اور چیونٹیوں کے بل بھی وہاں بکثرت تھے،وہیں قریش اپنے بتوں کے نام کی قربانیاں کرتے تھے ، اوران کے آگے سجدہ میں گرتے تھےعبدالمطلب نے قریش کواپنے خواب کاذکرکیااورکہاکہ میراارادہ اس جگہ کو کھودنے کاہے، مگرقریش نے کھدائی کی مخالفت کی اورمزاحم ہوئے اور کہاکہ ہم تمہیں اپنے دونوں بتوں کے درمیان ہرگز کھدائی کی اجازت نہیں دیں یہاں ہم قربانیاں کرتے ہیں ، عبدالمطلب نے ان کی مخالفت کی پرواہ نہ کرتے ہوئے اپنے بیٹے حارث سے کہاتم کدال مجھے دومیں یہاں کھدائی کرتاہوں میں ان کی تہدیدوتخویف سے ہرگزاپنے کام کونہیں روکوں گاجس کامجھے عالم بالاسے حکم ہوچکاہے اور اس کے ساتھ وہاں کھدائی میں مصروف ہو گئے،قریش نے جب عبدالمطلب کاعزم دیکھاتوخاموش ہوگئے،قریش کے رویئے کے پیش نظراس وقت انہوں نے منت مانی کہ اگر اللّٰہ مجھے دس بیٹے عطافرمائے گا جو جوان ہوکر میرے دست وبازوبنیں تو ان میں سے ایک بیٹے کوقربان کر دوں گا۔[37]

 فَیَحْمِلُهُ الْحَارِثُ فَیُلْقِیهِ خَارِجًا فَلَمْ یَحْفِرْ إلَّا یَسِیرًا، حَتَّى بَدَا لَهُ الطَّیُّ، فَكَبَّرَ وَعَرَفُوا أَنَّهُ قَدْ صُدِقَ.فَلَمَّا تَمَادَى بِهِ الْحَفْرُ وَجَدَ فِیهَا غَزَالَیْنِ مِنْ ذَهَبٍ، وَهُمَا الْغَزَالَانِ اللَّذَانِ دَفَنَتْ جُرْهُمٌ فِیهَا حِینَ خَرَجَتْ مِنْ مَكَّةَ، وَوَجَدَ فِیهَا أَسْیَافًا قَلْعِیَّةً وَأَدْرَاعًا فَقَامُوا إلَیْهِ فَقَالُوا: یَا عَبْدَ الْمُطَّلِبِ، إنَّهَا بِئْرُ أَبِینَا إسْمَاعِیلَ، وَإِنَّ لَنَا فِیهَا حَقًّا فَأَشْرِكْنَا مَعَكَ فِیهَا قَالَ: مَا أَنَا بِفَاعِلِ، إنَّ هَذَا الْأَمْرَ قَدْ خُصِصْتُ بِهِ دُونَكُمْ، وَأُعْطِیتُهُ مِنْ بَیْنِكُمْ،فَقَالُوا لَهُ: فَأَنْصِفْنَا فَإِنَّا غَیْرُ تَارِكِیكَ حَتَّى نُخَاصِمَكَ فِیهَاقَالَ: فَاجْعَلُوا بَیْنِی وَبَیْنَكُمْ مَنْ شِئْتُمْ أُحَاكِمُكُمْ إلَیْهِ، قَالُوا:كَاهِنَةُ بَنِی سَعْدٍ هُذَیْمٌ ، قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: وَكَانَتْ بِأَشْرَافِ الشَّامِ

عبدالمطلب کنواں کھودتے جاتے تھےاور حارث مٹی اٹھاکردورپھینکتے جاتے تھے،عبدالمطلب کوزمین کھودتے ہوئے تھوڑاہی عرصہ گزراتھاکہ پانی نمودارہواتوعبدالمطلب نے تکبیرکہی اورجان لیاکہ بے شک یہ سچی بشارت تھی ،بہت جلدانہیں اس کنویں سے جرہم کاوہ دفینہ جو سونے کے دو ہرن،بہت سی قلعی ، تلواریں اورقیمتی زرہوں پرمشتمل تھا بھی دستیاب ہوگیا اب توان کی ہمت اوربڑھ گئی اوروہ اپنے کام میں پوری تنددہی سے لگے رہے آخر خون پسینہ ایک کرکے تین دنوں میں باپ بیٹا پانی تک پہنچ گئے، جب قریش نے دیکھا کہ عبدالمطلب اپنے مقصد میں کامیاب ہوگئے ہیں اورانہیں بیش بہاخزانہ بھی مل گیا ہےتو انہوں نے یہ مطالبہ جڑدیاکہ کیونکہ یہ ہمارے باپ اسماعیل علیہ السلام کی میراث ہے اس لئے ہم بھی اس خزانہ میں حصہ دارہیں اور زمزم کی حفاظت اورتقسیم میں ہمیں بھی شامل کیا جائے،مگر عبدالمطلب نے ان کامطالبہ تسلیم کرنے سے انکار کردیااورکہایہ خاص میرے واسطے ہے تمہارااس میں کچھ حصہ نہیں ہے، قریش نے کہاجب تک تم ہمیں حصہ نہ دوگے ہم تمہیں نہیں چھوڑیں گے بلکہ تم سےجھگڑاکریں گے،آخریہ معاملہ نازک صورت حال اختیار کر گیاتوعبدالمطلب نے کہااچھاتم کوئی ثالث مقررکروجوہمارااورتمہارافیصلہ کردے،قریش نے کہا اس مسئلہ کے فیصلے کے لیے ہم بنی سعدبن ہذیل کی کاہنہ کوجوملک شام کی سرحدپررہتی ہےثالث مقررکرتے ہیں ۔

مکہ مکرمہ میں اس وقت یہ رواج تھاکہ جب کوئی اہم کام درپیش ہوتا تو دیوتاؤ ں کی مرضی معلوم کرنے کے لئے تیروں سے فال نکلواتے،پروہت یا مہنت تیروں کولے جاتااوران تیروں کوایک خاص طریقہ پرگھماتاجس تیرکامنہ دیوتاکی طرف ہو جاتا توسمجھتے یہی دیوتاکی پسندہے پھر اسی کے مطابق کام کرتے،

چنانچہ ایک روایت ہے جب قریش نہ مانے تو

نَضْرِبُ عَلَیْهَا بِالْقِدَاحِ ،قَالُوا: وَكَیْفَ تَصْنَعُ؟قَالَ:أَجْعَلُ لِلْكَعْبَةِ قِدْحَیْنِ، وَلِی قِدْحَیْنِ، وَلَكُمْ قِدْحَیْنِ، فَمَنْ خَرَجَ لَهُ قِدْحَاهُ عَلَى شَیْءٍ كَانَ لَهُ، وَمَنْ تَخَلَّفَ قِدْحَاهُ فَلَا شَیْءَ لَهُ،قَالُوا: أَنْصَفْتَ، فَجَعَلَ قِدْحَیْنِ أَصْفَرَیْنِ لِلْكَعْبَةِ، وَقِدْحَیْنِ أَسْوَدَیْنِ لِعَبْدِ الْمُطَّلِبِ، وَقِدْحَیْنِ أَبْیَضَیْنِ لِقُرَیْشِ، ثُمَّ أَعْطَوْا (الْقِدَاحَ) صَاحِبَ الْقِدَاحِ الَّذِی یَضْرِبُ بِهَا عِنْدَ هُبَلَ وَقَامَ عَبْدُ الْمُطَّلِبِ یَدْعُو اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ، فَضَرَبَ صَاحِبُ الْقِدَاحِ،فَخَرَجَ الْأَصْفَرَانِ عَلَى الْغَزَالَیْنِ لِلْكَعْبَةِ، وَخَرَجَ الْأَسْوَدَانِ عَلَى الْأَسْیَافِ، وَالْأَدْرَاعُ لِعَبْدِ الْمُطَّلِبِ وَتَخَلَّفَ قِدْحَا قُرَیْشٍ، فَضَرَبَ عَبْدُ الْمُطَّلِبِ الْأَسْیَافَ بَابًا لِلْكَعْبَةِ، وَضَرَبَ فِی الْبَابِ الْغَزَالَیْنِ مِنْ ذَهَبٍ. فَكَانَ أَوَّلَ ذَهَبٍ حَلِیَتْهُ الْكَعْبَةُ، فِیمَا یَزْعُمُونَ، ثُمَّ إنَّ عَبْدَ الْمُطَّلِبِ أَقَامَ سِقَایَةَ زَمْزَمَ لِلْحُجَّاجِ.

عبدالمطلب نے کہااگرتم اس میں حصہ لینے پرمصرہو تو اس کے لئے قرعہ اندازی کرلیتے ہیں ،جس کاقرعہ نکل آئے وہ ان چیزوں (سونے کے ہرن ،ڈھالیں ،تلواریں وغیرہ) کا حقداراورجس کاقرعہ نہ نکلے وہ ان چیزوں سے محروم تصور ہوگا قریش نے پوچھایہ قرعہ اندازی کیسے ہوگی ؟عبد المطلب نے کہادوتیرکعبہ کے دوتیر تمہارے اوردوتیرمیرے ہوں گے ،جس کے تیرجس چیزپرنکل آئے وہ اس کومل جائے گی اور جس کے نہ نکلے وہ ان چیزوں سے محروم ہوگا،اس تجویز پر سب قریش متفق ہوگئے اور اس تجویزکو مبنی برانصاف کہا اب عبدالمطلب نے دوزردتیرکعبہ کے لئے دوکالے تیر اپنے لئے اوردوسفید تیر قریش کے لئے تیار کیے اوراپنے سب سے بڑے معبود ہبل جس کا قریش نعرہ لگایا کرتے تھے کے پاس جاکرتیرقرعہ اندازی کے لئے قرعہ اندازکے حوالے کردیئے اور خودکھڑے ہوکر اللہ عزوجل کی بارگاہ میں دعا کرنے لگے، قرعہ ڈالنے والاقرعہ اندازی میں مصروف ہوا،سونے کے دونوں ہرنوں پرکعبہ کاقرعہ نکلا،تلواروں اورزرہوں پرعبدالمطلب کاقرعہ برآمدہوااورقریش کے لیے کسی چیزپرقرعہ نہ نکلا ،اس طرح یہ نزاع حل ہوگیا، عبدالمطلب نے زرہیں اور تلواریں فروخت. کرکے بیت  اللّٰہ کا دروازہ بنادیااور سونے کے دونوں ہرنوں کوخوبصورتی کے لئے ان دروازوں پرنصب کردیااس طرح عبدالمطلب پہلے شخص ہیں جنہوں نے کعبہ کوسونے سے مزین کیااس کے بعدانہوں نے اس چاہ کے قریب کچھ حوض تیارکرائے جس سے حجاج کوپانی پلاتے۔[38]

عبدالمطلب نے کھددائی کے وقت جومنت مانی تھی کہ اگروہ اپنی زندگی میں دس جوان بیٹوں کودیکھ لیں توان میں سے ایک لڑکاقربان کردیں گے ، اللّٰہ نے ان کی آرزو کو پورا کر دیا تھا ، اور بارہ بیٹے عطاکیے تھےجن میں سے دس کے حالات ملتے ہیں ۔

عبدالمطلب کی چھ بیویوں سے درج ذیل اولادیں ہوئیں ۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے والدعبداللہ ،عبدالمطلب کے سب سے چھوٹے بیٹے نہ تھابلکہ عبداللہ سے بہت چھوٹے سیدالشیداء حمزہ رضی اللہ عنہ اور عباس رضی اللہ عنہ تھے۔کہاجاتاہے کہ غیداق دراصل حجل ہے ، مقوم دراصل عبدالکعبة ہے،اورقثم کوئی نہیں ،اس طرح پندرہ کے بجائے بارہ بیٹے ہوئےمگردس کے حالات ملتے ہیں ۔

اورچھ لڑکیاں یہ تھیں ۔

ام حکیم بیضا۔         یہ کریزبن ربیعہ بن حبیب بن عبدشمس کے نکاح میں آئیں ،ان کے بطن سے ابوعبد اللّٰہ عامربن عامرجوبہت سخی تھے پیداہوئے،یہ عثمان رضی اللہ عنہ کی نانی تھیں اروٰی ان کانکاح عفان سے ہوا،ان کے بطن سے عثمان ذوالنورین خلیفہ ثالث پیداہوئے ،جب وہ فوت ہوگئے توعقبہ بن ابی معیط کے نکاح میں آئیں اوران سے ولیدبن عقبہ پیداہوئے،یہ اپنے جلیل القدرفرزندکے دورخلافت تک بقعہ حیات تھیں ۔

برہ۔       یہ ابوسلمہ بن عبدالاسدمخزومی اورابوسبزہ کی والدہ ہیں ۔

عاتکہ۔    یہ زبیربن امیہ اورعبد اللّٰہ ابن ابی امیہ مخزومی کی والدہ ہیں ۔

صفیہ۔     یہ زبیر رضی اللہ عنہ کی والدہ اورام المومنین خدیجہ الکبریٰ رضی اللہ عنہا کی بھاوج ہیں ،انہوں نے اسلام قبول کیاتھااورہجرت فرماکرمدینہ

چلی آئی تھیں ۔

اممیہ۔      یہ عبد اللّٰہ ،ابواحمد،عبید اللّٰہ ،حجش اورام المومنین زینب اورحمنہ کی والدہ ہیں ۔

ان کاایک بڑالڑکاحارث باپ کی زندگی میں وفات پاچکاتھا،ان کا ایک بیٹاجس کانام ربیعہ رضی اللہ عنہ تھاجنگ بدرمیں ایمان لے آیاتھا ،ایک بیٹاعبد اللّٰہ (ابوسفیان رضی اللہ عنہ )بھی فتح مکہ کے دن ایمان لے آیاتھا،عبدالمطلب کاایک بیٹازبیربن عبدالمطلب تھایہ بھی ان کی زندگی میں اسلام سے پہلے فوت ہوگیاتھا ان کی اولادمیں ایک لڑکے عبد اللّٰہ اور ایک لڑکی ضباعہ نے اسلام کی دعوت قبول کرلی تھی،ایک لڑکاعبدمناف(ابوطالب)تھاانہوں نے رسول  اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم کاساتھ تودیامگراسلام کی نعمت سے محروم ہی رہا ،ان کے چاربیٹے طالب، عقیل، جعفر اور سیدناعلی رضی اللہ عنہ تھے،جن کی پیدائش کے درمیانہ وقفہ دس دس سال کاہے،عبدالمطلب کاایک بیٹاابولہب تھاجوجنگ بدرکے بعدعبرت ناک موت مرا،اس کے ایک بیٹے عتیبہ کورسول  اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بددعاکی تھی اوراسے ایک درندے نے پھاڑکھایاتھامگراس کے دوبیٹے عتبہ اورمعتب فتح مکہ کے دن ایمان لائے،ان کاایک بیٹا حمزہ رضی اللہ عنہ تھے جو ہجرت حبشہ سے پہلے ایمان لائے ،ساتواں بیٹا عباس رضی اللہ عنہ تھے جوفتح مکہ کے وقت ایمان لائے ،اس وقت یہ سقایہ اوررفادہ کے عہدے پرفائزتھے ،ان کاایک بیٹا عبد اللّٰہ تھاجورسول  اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم کے والد ہیں ،آپ کے علاوہ ان کی اورکوئی اولادنہیں ،

ثم نام فنودی :قال: قرب أحد أولادك الذی نذرته أی: نذرت ذبحه

ایک دن وہ خانہ کعبہ کے سامنے سورہے تھے توخواب میں دیکھاکہ ایک شخص کہہ رہاہے اے عبدالمطلب !اس نذرکو پوراکرو جوآپ نے اس گھرکے مالک کے لئے مانی تھی یعنی ایک لڑکے کے ذبح کرنے کی نذر۔[39]

جَمَعَهُمْ ثُمَّ أَخْبَرَهُمْ بنذره ودعاهم إِلَى الْوَفَاء لله عزوجل بِذَلِكَ.فَأَطَاعُوهُ وَقَالُوا: كَیْفَ نَصْنَعُ؟قَالَ: لِیَأْخُذْ كُلُّ رَجُلٍ مِنْكُمْ قِدْحًا ثُمَّ یَكْتُبُ فِیهِ اسْمَهُ ثُمَّ ائْتُونِی فَفَعَلُوا ثُمَّ أَتَوْهُ ،أَنَّ عَبْدَ الْمُطَّلِبِ لَمَّا جَاءَ یَسْتَقْسِمُ بِالْقِدَاحِ عِنْدَ هُبَلَ فَقَالَ عَبْدُ الْمُطَّلِبِ لِصَاحِبِ الْقِدَاحِ: اضْرِبْ عَلَى بَنِیَّ هَؤُلَاءِ بِقِدَاحِهِمْ هَذِهِ وَأَخْبَرَهُ بِنَذْرِهِ الَّذِی نَذَرَ، فَأَعْطَاهُ كُلُّ رَجُلٍ مِنْهُمْ قِدْحَهُ الَّذِی فِیهِ اسْمُهُ وَكَانَ عَبْدُ اللَّهِ فِیمَا یَزْعُمُونَ أَحَبَّ وَلَدِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ إلَیْهِ فَلَمَّا أَخَذَ صَاحِبُ الْقِدَاحِ الْقِدَاحَ لِیَضْرِبَ بِهَا، قَامَ عَبْدُ الْمُطَّلِبِ عِنْدَ هُبَلَ یَدْعُو اللَّهَ فَخَرَجَ الْقِدْحُ عَلَى عَبْدِ اللَّهِ، فَأَخَذَهُ عَبْدُ الْمُطَّلِبِ بِیَدِهِ وَأَخَذَ الشَّفْرَةَ، ثُمَّ أَقْبَلَ بِهِ إلَى إسَافٍ وَنَائِلَةٍ لِیَذْبَحَهُ فَبَكَى بَنَاتُ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ. وَكُنَّ قِیَامًا

جب نیندسے بیدارہوئے تواپنے تمام بیٹوں کوجمع کرکے اپنی منت اور خواب کے بارے میں بتایا ، سب بچوں نے کہاکہ وہ اپنی نذر پوری کریں اورجوچاہیں کریں ،انہوں نے کہااس کافیصلہ کیسے ہوگا؟عبدالمطلب نے کہاتم سب کولازم ہے کہ ایک ایک تیرقرعہ اندازی کے لیے لے لواوراس پراپنانام لکھ دوپھرمیرے پاس لے آؤ ،انہوں نے ایساہی کیااورپھراپنے باپ کے پاس آگئے،چنانچہ عبدالمطلب اپنی نذر کی تکمیل کے لئے تمام بچوں کولے کرکعبہ میں آئے، اورقرعہ اندازسے کہامیرے ان فرزندوں کے لیے قرعہ ڈالواوراپنی نذرکاحال بھی اس سے بیان کیااوروہ تیربھی اس کے حوالے کردیے جن پران کے بیٹوں کے نام لکھے ہوئے تھے، لوگوں کے قول کے مطابق عبدالمطلب کو اپنے سب بیٹوں سے زیادہ عبداللہ سے محبت تھی، جب قرعہ اندازقرعہ اندازی میں مصروف ہواتو عبدالمطلب ہبل کے پاس جاکردعامیں مصروف ہوگئے،اللہ کی قدرت قرعہ ان کے محبوب و منظورنظربیٹے عبدالدار(عبد اللّٰہ ) کا نام نکلا،عبدالمطلب نےہاتھ میں چھری پکڑی اورمحبوب فرزند کولے کرچاہ زمزم کے پاس قربان گاہ کی طرف چلے ، جہاں اساف اور نائلہ کے بت تھے ،یہ خبرجنگل کے آگ کی طرح سارے مکہ مکرمہ میں پھیل گئی اورلوگ عبدالمطلب کواس عمل سے روکنے کے لئے قربان گاہ کی طرف دوڑ پڑے ، اورانہیں اس عمل سے روکنے لگے،ان عبدالمطلب کی بیٹیاں جووہاں موجودتھیں بھی بھائی کوقربان ہوتے دیکھ کر رونے لگیں ، اب عبدالمطلب عجیب کشمکش میں پڑ گئے اورکہنے لگے میں نذرمان چکاہوں جس کاپوراکرناضروری ہے آخرمیں کیاکروں ،

وَأَمّا الْكَاهِنَةُ الّتِی تَحَاكَمُوا إلَیْهَا بِالْمَدِینَةِ فَاسْمُهَا: قُطْبَةُ

ایک روایت میں ہےقریش کے کہنے پرمدینہ کے پاس حجرنامی بستی میں کاہنہ کے پاس گئےجس کانام قطبہ تھا۔[40]

اور اس نے یہ طریقہ بتایا ،

ایک روایت ہے کہ عبد اللّٰہ کی ایک بہن نے کہااے ابا! آپ دس اونٹوں اور عبد اللّٰہ میں قرعہ ڈال کردیکھیں اگرقرعہ دس اونٹوں کے نام پرنکل آئے تو عبد اللّٰہ کو چھوڑ دینا اوراونٹ ذبح کردینا ، عبدالمطلب نے یہ بات مان لی،

فَقَالَ لِلسَّادِنِ: اضْرِبْ عَلَیْهِ بِالْقِدَاحِ وَعَلَى عَشْرٍ مِنَ الإِبِلِ،فَضَرَبَ. فَخَرَجَ الْقَدَحُ عَلَى عَبْدِ اللَّهِ،فَجَعَلَ یَزِیدُ عَشْرًا عَشْرًا. كُلُّ ذَلِكَ یَخْرُجُ الْقَدَحُ عَلَى عَبْدِ اللَّهِ حَتَّى كَمَلَتِ الْمِائَةُ . فَضَرَبَ بِالْقِدَاحِ فَخَرَجَ عَلَى الإِبِلِ ،وَقَدَّمَ عَبْدُ الْمُطَّلِبِ الإِبِلَ فَنَحَرَهَا بَیْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَةِ، فَجَرَتْ فِی قُرَیْشٍ وَالْعَرَبِ مِائَةٌ مِنَ الإِبِلِ. وأقرها رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عَلَى مَا كَانَتْ عَلَیْهِ

چنانچہ عبدالمطلب نے پانسے ڈالنے والے سے کہاعبداللہ پراوردس اونٹوں پرپانسے ڈال، قرعہ ڈالاگیاتوپھر بھی عبد اللّٰہ ہی کے نام نکلا،عبدالمطلب دس دس اونٹ بڑھاتے رہے یہاں تک کہ سوکی تعدادپوری ہوگئی مگردسویں بار قرعہ عبد اللّٰہ کے بجائے اونٹوں کے نام نکلا ،دل کی تسلی کے لئے تین دفعہ تیروں سے مزیدفال لی گئی اورہرمرتبہ فال اونٹوں کے نام نکلی تب عبدالمطلب مطمئن ہوئے اورلوگ خوشی سے اچھل پڑے، چنانچہ عبدالمطلب نے اپنی منت کو پورا کرنے کے لئے سو اونٹ صفاو مروہ کے مابین قربان کیے ، اس کے بعددیت یاخون بہاکے لئے اونٹوں کی تعدادسوکردی گئی ،اس کے بعدقریش اورعرب میں بھی سواونٹوں کا قانون بن گیااوررسول  اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اسےبرقرار رکھا، اس واقعہ کے بعد عبدالمطلب نے عبدالدار کا نام بدل کرعبد اللّٰہ رکھ دیا اوروہ ذبیح کے لقب سے مشہورہوئے اور رسول  اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم کوابن الذبیحین (یعنی دوذبیح کے فرزند ، اسماعیل علیہ السلام اورآپ کے والد عبد اللّٰہ ) کہتے ہیں ۔

لقوله صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: أنا ابن الذبیحین یعنی: إسماعیل وعبد الله

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایامیں دوذبیح کافرزندہوں یعنی اسماعیل علیہ السلام اورعبداللہ۔[41]

عَنْ عِكْرِمَةَ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: كَانَتِ الدِّیَةُ یَوْمَئِذٍ عَشْرًا مِنَ الإِبِلِ. وَعَبْدُ الْمُطَّلِبِ أَوَّلُ مَنْ سَنَّ دِیَةَ النَّفْسِ مِائَةً مِنَ الإِبِلِ

عکرمہ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں اس سے پہلے ایک آدمی کی دیت(خون بہا)دس اونٹ تھی،عبدالمطلب پہلے شخص ہیں جنہوں نے ایک جان کابدلہ سو( ۱۰۰) اونٹ قراردیا۔[42]

عبد اللّٰہ کی شادی :

عبدالمطلب قرعہ اندازی کے بعدجب فدیہ سے فارغ ہوگئے تواپنے محبوب بیٹے کی شادی کی فکردامن گیرہوئی جو جوان ہوچکے تھے، اللّٰہ نے انہیں خدا داد حسن عطاکیاتھایہ بڑے پاکباز،حلیم الطبع اورفیاض تھے،نذرکے واقعہ سے گھرگھران کاچرچاتھا،جس سے ان کی عظمت اوربڑھ گئی تھی بہترین عورتیں ان سے شادی کی خواہشمندتھیں لیکن انہیں یہ شرف نہ مل سکا ،عبدالمطلب نے نگاہیں دوڑائیں توقبیلہ زہرہ کے رئیس وہب بن عبدمناف بن زہرہ بن کلاب کی لڑکی آمنہ پرجو اپنے چچا وہیب بن عبدمناف کی زیرتربیت تھیں اور نسبی شرافت میں ممتاز اوراپنی قوم کی بہترین لڑکیوں میں شمارہوتی تھیں پر جاکرٹھہرگئیں ، عبدالمطلب نے آمنہ کے لئے عبد اللّٰہ کاپیغام نکاح بھیجا اور اس کے ساتھ عبدالمطلب نے وہیب بن عبدمناف کی لڑکی ہالہ کے لئے اپناپیغام نکاح بھی بھیجا ،لڑکی والوں نے اسے اپناشرف سمجھااوردونوں کارشتہ منظور ہو گیااورایک ہی وقت میں عبدالمطلب اور عبد اللّٰہ بن عبدالمطلب کانکاح ہوگیا،انہی ہالہ بنت وہیب بن عبدمناف سے حمزہ رضی اللہ عنہ سید الشہدا پیداہوئے جوآپ علیہ السلام سے صرف چھ ماہ ہی بڑے تھے رشتہ میں رسول  اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خالہ زاد اور رضائی بھائی بھی تھے۔عباس رضی اللہ عنہ سے ایک بے سند،بے اصل روایت یہ بھی ہے کہ عبدمناف اورقبیلہ مخزوم کی دوسوعورتیں اس غم میں کہ عبد اللّٰہ سے انہیں یہ دولت حاصل نہیں ہوئی مرگئیں مگرانہوں نے کہیں شادی نہیں کی (سوچنے کامقام یہ ہے کہ کیابنوزہرہ ،بنوجمح ،بنواسد،بنوخویلد،بنوتمیم ،بنوعدی ، بنو غالب میں کیاکوئی لڑکی موجودنہ تھی کہ وہ بھی رشک وحسد کرتیں )اورقریش کی کوئی عورت ایسی نہ تھی جواس غم میں بیمارنہ پڑگئی ہو ۔

ایک متروک منکرالحدیث راوی عبدالعزیز بن عمران الزہری سے یہ روایت بھی ہے کہ ایک بارعبدالمطلب یمن گئے وہاں ایک کاہن ان کے پاس آیااوران سے ان کے نتھنے دیکھنے کی درخواست کی جوانہوں نے دے دی ،نتھنے دیکھ کروہ کاہن بولاکہ ایک ہاتھ میں نبوت اوردوسرے میں بادشاہی کی علامت ہے تم بنوزہرہ کی کسی لڑکی سے جاکرشادی کرو،یعنی داداکی بنوزہرہ میں شادی سے یہ بات ثابت ہوگی کہ بادشاہت ونبوت اس لڑکے یااس لڑکے کی اولادکے حصہ میں آئے گی جس کی ماں بنوزہرہ سے تعلق رکھتی ہو۔

ایک کاہنہ کاعبداللہ سے لگاؤ :

ایک ضعیف روایت ابن سعد،خرائطی،ابن عساکر،بیہقی اورابونعیم میں کئی طریقوں سے مذکورہے جس کے راوی مشہورکذاب واقدی، کلبی اور راوی نفربن سلمہ جواحادیث وضع کرتاتھا،احمدبن محمد،عبدالعزیزبن عمروالزہری اورتبع تابعی مسلم بن خالدالزنجی جوبنومخزوم کے غلام تھے وغیرہ ہیں جوسب نامعتبرہیں کہ جب عبدالمطلب اونٹوں کی قربانی سے فارغ ہوکراپنے بیٹے عبد اللّٰہ کے ساتھ گھرواپس ہو رہے تھے توکعبہ کے پاس کھڑی قبیلہ بنو اسدبن عبدالعزیٰ بن قصیٰ کی ایک کاہنہ عورت پر ان کا گزرہوا،جونہی اس عورت کی نظرعبد اللّٰہ پرپڑی اس نے عبد اللّٰہ کی پیشانی پرچمکتے ہوئے نورکوپہچاناکہ یہ نور نبوت ہے کیونکہ وہ اپنے بھائی ورقہ بن نوفل سے جونصرانی کتب سماوی کے ماہرتھے ایک نبی کے ظہورکاسنتی تھی اس لئے اس نے خواہش کی کہ وہ اس نورکی امین بن جائے چنانچہ اس نے عبد اللّٰہ سے کہااگرتم مجھ سے اسی وقت اختلاط کر لو تو میں تمہیں یہ کچھ دوں گی مگرعبد اللّٰہ نے اپنے ہمراہ والدکاعذرکردیااورگھرچلے گئے ،ان کی شادی آمنہ سے ہوئی پھردستورکے مطابق شادی کے تین دن سسرال میں گزارنے کے بعد

 ثُمَّ خَرَجَ مِنْ عِنْدِهَا، فَأَتَى الْمَرْأَةَ الَّتِی عَرَضَتْ عَلَیْهِ مَا عَرَضَتْ فَقَالَ لَهَا: مَا لَكَ لَا تَعْرِضِینَ عَلَیَّ الْیَوْمَ مَا كُنْتِ عَرَضْتِ عَلَیَّ بِالْأَمْسِ؟ قَالَتْ لَهُ:فَارَقَكَ النُّورُ الَّذِی كَانَ مَعَكَ بِالْأَمْسِ، فَلَیْسَ (لِی) بِكَ الْیَوْمَ حَاجَةٌ

عبد اللّٰہ اس عورت کے پاس آئے جس نے پہلے خودکواختلاط کے لئے پیش کیاتھامگراس نے انکارکردیاعبد اللّٰہ نے کہاتجھے کیاہوگیاہے کہ جو پیش کش تم نے پہلے کی تھی آج نہیں کررہی ،اس عورت نے جواب دیاکہ جونورتم میں پہلے تھااب موجودنہیں ہے اس لئے مجھے اب تمہاری ضرورت نہیں رہی ۔[43]

 والدکی وفات :

آمنہ سے شادی کے کچھ ہی دنوں بعد آپ کے والد عبد اللّٰہ جن کی عمراس وقت کئی روایات کے مطابق ۱۸، ۲۴، ۲۵ ،۲۸ ،۳۰یا۳۵برس تھی،تجارت کی غرض سے شام روانہ ہوگئے ،کچھ عرصہ فلسطین کے شہرغزہ میں رہنے کے بعدواپسی میں اچانک بیمارہوئے اور مدینہ میں اپنے ننھیال بنونجارکے ہاں ایک ماہ قیام کیا،ان کے ساتھی چندروزتک ان کی صحت یابی کاانتظارکرکے مکہ مکرمہ روانہ ہوگئے،قافلہ جب مکہ واپس آیااوراس نے عبد اللّٰہ کی بیماری کی خبردی توعبدالمطلب نے اپنے بڑے بیٹے حارث کوخبرکے لئے مدینہ روانہ کیامگرحارث کے پہنچنے سے پہلے عبداللہ کاانتقال ہوچکاتھا اوران کی تدفین نابغہ جعدی کے مکان میں ہوئی ،حارث نے واپس آکراس پر ملال حادثہ سے عبدالمطلب کو آگاہ کیا،انہیں اپنے پیارے بیٹے کے انتقال سے بے حددکھ ہو،اکثرمورخین کہتے ہیں اس وقت آپ علیہ السلام اپنی ماں کے پیٹ میں تھے،

تُوُفِّیَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ بعد ما أَتَى عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ ثَمَانِیَةٌ وَعِشْرُونَ شَهْرًا.وَیُقَالُ سَبْعَةُ أَشْه

جبکہ کچھ کہتے ہیں عبد اللّٰہ بن عبدالمطلب نے اس وقت وفات پائی جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اٹھائیس،انتیس مہینے کے ہوچکے تھے اوریہ بھی کہاجاتاہے کہ سات مہینے ہوچکے تھے۔[44]

وَقَالَ الزُّبَیْرُ بْنُ بَكَّارٍ: حَدَّثَنِی مُحَمَّدُ بْنُ حَسَنٍ عَنْ عَبْدِ السَّلام عَنِ ابْنِ خَرَّبُوذَ.قَالَ: توفِّی عَبْدُ اللَّهِ بِالْمَدِینَةِ وَرَسُولُ اللَّهِ صلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ ابْنُ شَهْرَیْنِ، وَمَاتَتْ أُمُّهُ وَهُوَ ابْنُ أَرْبَعِ سِنِینَ،

اورزبیربن بکاربیان کرتے ہیں ان سے محمدبن حسن نے عبدالسلام اورابن خربودکے حوالے سے بیان کیاکہ جب عبداللہ بن عبدالمطلب فوت ہوئے اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمردوماہ ہوچکی تھی۔[45]

وَالأَوَّلُ أَثْبَتُ أَنَّهُ تُوُفِّیَ وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ حَمْلٌ

محمدبن سعدکہتے ہیں معتبراورمسلم ترین روایت پہلی ہے کہ آپ ابھی شکم مادرہی میں تھے کہ والدکاانتقال ہوگیا۔[46]

وَلِعَبْدِ اللَّهِ یَوْمَ تُوُفِّیَ خَمْسٌ وَعِشْرُونَ سَنَةً

عبداللہ نے پچیس سال کی عمرمیں وفات پائی۔[47]

قرآن مجیدمیں باری تعالیٰ کاارشادہے۔

اَلَمْ یَجِدْكَ یَتِیْمًـا فَاٰوٰى۝۶۠۠ [48]

ترجمہ:اے نبی اس نے تم کویتیم نہیں پایااورپھرٹھکانہ فراہم کیا۔

تَرَكَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ أُمَّ أَیْمَنَ وَخَمْسَةَ أَجْمَالٍ أَوَارِكٍ. یَعْنِی تَأْكُلُ الأَرَاكَ. وَقَطْعَةَ غَنَمٍ

عبد اللّٰہ بن عبدالمطلب نے اپنے ترکہ میں پانچ اونٹ ،چندبکریاں اورایک حبشی النسل باندی برکہ جس کی کنیت ام ایمن تھی چھوڑی۔[49]

ایک روایت میں ایک اونٹ اورایک حبشی باندی برکہ جس کی کنیت ام ایمن تھی چھوڑی ۔

[1] جامع ترمذی أَبْوَابُ الْمَنَاقِبِ بَابٌ فِی فَضْلِ النَّبِیِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ ۳۶۰۸ ،فضائل الصحابة لاحمدبن حنبل۱۸۰۳

[2] مسندابن ابی شیبة ۹۱۹ ، مسند احمد ۱۷۸۸، المعجم الکبیر للطبرانی ۶۷۶ ،دلائل النبوة لأبی نعیم الأصبهانی۵۸؍۱

[3] جامع ترمذی أَبْوَابُ الْمَنَاقِبِ بَابٌ فِی فَضْلِ النَّبِیِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ۳۶۰۵ ،مسنداحمد۱۶۹۸۷،مصنف ابن ابی شیبة۳۱۷۳۱

[4] مسنداحمد۱۶۹۸۶

[5] ابن سعد۱۸؍۱

[6] ابن سعد۱۸؍۱

[7]فتح الباری۱۶۴؍۷

[8] فتح الباری ۱۶۴؍۷،۵۲۸؍۶،انساب الاشراف للبلاذری۲۹؍۱

[9] انساب الاشراف للبلاذری۲۲؍۱،ابن سعد۴۸؍۱

[10] انساب الاشراف للبلاذری۲۳؍۱

[11] فتح الباری۱۶۴؍۷

[12] انساب الاشراف للبلاذری۲۹؍۱

[13] فتح الباری۵۲۹؍۶

[14] فتح الباری۵۳۰؍۶، ابن سعد۴۸؍۱،انساب الاشراف للبلاذری۲۹؍۱

[15] شرح الزرقانی علی الموھب ۱۴۵؍۱

[16] شرح الزرقانی علی المواھب ۱۴۴؍۱

[17] الروض الانف۲۳۹؍۱

[18] شرح الزرقانی علی المواھب ۱۴۴؍۱

[19] الروض الانف ۲۳۸؍۱

[20] الرروض الانف ۲۳۸؍۱

[21] الروض الانف ۲۳۸؍۱

[22]الروض الانف۲۹؍۱

[23]الکامل فی التاریخ ۱۳؍۱، انساب الاشراف ۴۱؍۱

[24] ابن ہشام ۱۲۵؍۱، الروض الانف ۳۳؍۲،تاریخ طبری۲۵۸؍۲

[25] ابن ہشام ۱۲۵؍۱،الروض الانف۳۴؍۲،تاریخ طبری۲۵۹؍۲

[26] ابن ہشام۱۴۷؍۱،الروض الانف ۷۸؍۲

[27] ابن سعد۶۳؍۱

[28] مسنداحمد۴۳۹

[29] ابن سعد ۶۹؍۱

[30] ابن ہشام۱۴۲؍۱

[31] الکامل فی التاریخ ۶۱۸؍۱

[32] شرح الزرقانی علی المواھب ۱۵۵؍۱،المفصل فی تاریخ العرب قبل الاسلام۳۲۱؍۱۰

[33] ابن سعد۶۶؍۱

[34] ابن ہشام ۱۱۷؍۱،روض الانف ۲۱؍۲

[35]ابن ہشام ۷۶؍۱،روض الانف ۲۰۷؍۱

[36] ابن ہشام ۷۶؍۱،روض الانف ۲۰۷؍۱

[37] سیرة ابن اسحاق۔السیروالمغازی۳۲؍۱

[38] ابن ہشام۱۴۳؍۱

[39] شرح الزرقانی علی المواھب۱۷۶؍۱

[40]الروض الانف۸۷؍۲

[41] شرف المصطفى۷۴؍۲

[42] ابن سعد۷۲؍۱

[43] ابن ہشام۱۵۷،۱۵۸؍۱ ،ابن سعد۷۵،۷۶؍۱

[44] ابن سعد۸۰؍۱

[45] البدایة والنہایة۳۲۳؍۲

[46] ابن سعد۸۰؍۱

[47] ابن سعد۸۰؍۱

[48] الضحٰی ۶

[49] ابن سعد۸۰؍۱

Related Articles