مکہ: قبل از بعثتِ نبوی ﷺ

واقعہ شق الصدر،شام کی جانب سفر

علامہ شبلی نعمانی رحمہ اللہ سیرت النبی میں شق صدرکے بارے میں لکھتے ہیں ، شق ا لصدرکاواقعہ جوہرسیرت کی کتاب میں لکھاجاتاہے ابن ہشام ۱۶۴،۱۶۵؍۱ کے مطابق تیسرے سال واقع ہوا تھا لیکن عام مورخین کے مطابق یہ واقعہ حلیمہ سعدیہ کے قبیلہ بنوسعدمیں چوتھے یاپانچویں سال میں پیش آیا،

عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَتَاهُ جِبْرِیلُ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ یَلْعَبُ مَعَ الْغِلْمَانِ، فَأَخَذَهُ فَصَرَعَهُ، فَشَقَّ عَنْ قَلْبِهِ، فَاسْتَخْرَجَ الْقَلْبَ، فَاسْتَخْرَجَ مِنْهُ عَلَقَةً، فَقَالَ: هَذَا حَظُّ الشَّیْطَانِ مِنْكَ، ثُمَّ غَسَلَهُ فِی طَسْتٍ مِنْ ذَهَبٍ بِمَاءِ زَمْزَمَ، ثُمَّ لَأَمَهُ، ثُمَّ أَعَادَهُ فِی مَكَانِهِ، وَجَاءَ الْغِلْمَانُ یَسْعَوْنَ إِلَى أُمِّهِ یَعْنِی ظِئْرَهُ فَقَالُوا: إِنَّ مُحَمَّدًا قَدْ قُتِلَ، فَاسْتَقْبَلُوهُ وَهُوَ مُنْتَقِعُ اللَّوْنِ

انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جبرئیل علیہ السلام آئے اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم لڑکوں کے ساتھ کھیل رہے تھے،انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کوپکڑااورچت لٹادیااور پھرآپ کا سینہ مبارک چیرکردل نکالا،پھر دل میں سے خون کی ایک پھٹکی باہر نکالی اورکہایہ تمہارے جسم میں اتنا حصہ شیطان کا تھا،پھرسونے کے ایک طشت میں قلب اطہر کو آب زمزم سے دھویاپھراس کوجوڑ کر اس کے مقام پررکھ دیا، بچوں نے جو یہ واقعہ دیکھاتو ڈرگئے اور چیختے چلاتے آپ کی رضاعی والدہ کوخبرکرنے کے لئے دوڑلگادی ،جب ان کے قریب پہنچے توزورزورسے کہنے لگے بیشک محمدقتل کردئے گئے ،یہ سن کرسب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف دوڑپڑے،جب وہاں پہنچے تودیکھا(ڈروخوف سے)آپ کے چہرہ کی رنگت بدلی ہوئی تھی ۔[1]

فَالْتَمِسَا (فِیهِ) شَیْئًا لَا أَدْرِی مَا هُوَ

دوسری روایت میں یہ ہےوہ میرے پیٹ میں کوئی چیز تلاش کرتے رہے ،معلوم نہیں وہ کیاچیزتھی ،

توحلیمہ سعدیہ کے شوہرنے کہااےحلیمہ !مجھے ڈرہے کہ اس بچے کوکچھ ہونہ جائے ہمارے لئے یہی بہترہے کہ اس بچے کواس کے گھرپہنچادیاجائے ، چنانچہ یہ فیصلہ کرکے انہوں نے مکہ جاکر آپ کوان کی والدہ کے پاس پہنچادیاجہاں آپ کی پرورش کی ذمہ داری ام ایمن کے سپردہوئی،

فَكَانَتْ أُمُّ أَیْمَنَ تَحْضُنُهُ حَتَّى كَبِرَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَأَعْتَقَهَاثُمَّ أَنْكَحَهَا زَیْدَ بْنَ حَارِثَةَ

ام ایمن آپ کوکھلاتیں یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بڑے ہوئے توانہیں آزادکردیاتھا، پھران کانکاح زیدبن حارثہ رضی اللہ عنہ سے پڑھا دیا۔[2]

جَاءَنِی رَجُلَانِ عَلَیْهِمَا ثِیَابٌ بِیضٌ، فَأَضْجَعَانِی وَشَقَّا بَطْنِی، فَالْتَمِسَا (فِیهِ) شَیْئًا لَا أَدْرِی مَا هُوَ. قَالَتْ: فَرَجَعْنَا (بِهِ) إلَى خِبَائِنَاقَالَتْ: وَقَالَ لِی أَبُوهُ یَا حَلِیمَةُ، لَقَدْ خَشِیتُ أَنْ یَكُونَ هَذَا الْغُلَامُ قَدْ أُصِیبَ فَأَلْحِقِیهِ بِأَهْلِهِ قَبْلَ أَنْ یَظْهَرَ ذَلِكَ بِهِ، قَالَتْ: فَاحْتَمَلْنَاهُ، فَقَدِمْنَا بِهِ على أمّه

ابن ہشام میں ہے فرمایادوآدمی سفیدکپڑے پہنے ہوئے میرے پاس آئے اورمجھ کو لٹا کرانہوں نے میراسینہ چاک کیااوراس میں کچھ ڈھونڈنے لگے،مجھے نہیں معلوم کہ میرے سینے میں وہ کیاڈھونڈتے تھے؟حلیمہ کہتی ہیں پس میں آپ کوگھرپرلائی اورمیرے خاوندنے مجھ سے کہااے حلیمہ!اس بچے کواس کے گھر پہنچا دینا مناسب ہے کیونکہ اس کے یہاں رہنے سے ہم کواندیشہ ہے کہ کسی قسم کی خرابی اس کونہ پہنچے وربہ ہمیں اس کی جوابدہی کرنی ہوگی،حلیمہ کہتی ہیں پس آپ کولے کرآپ کی والدہ کی خدمت میں حاضرہوئی۔[3]

قَالَ أَنَسٌ: وَقَدْ كُنْتُ أَرَى أَثَرَ ذَلِكَ الْمِخْیَطِ فِی صَدْرِهِ

انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں سینہ میں سلائی کے نشان کو دیکھا کرتا تھا۔[4]

قَالَ أَنَسٌ:وَكُنْتُ أَرَى أَثَرَ الْمِخْیَطِ فِی صَدْرِهِ

انس رضی اللہ عنہ سےایک اور روایت میں ہےسینہ میں سلائی کے نشان ہم کونظرآتے تھے۔[5]

اس روایت پرتبصرہ کرتے ہوئے علامہ شبلی نعمانی سیرت النبی ۲۶۸ تا۲۷۸؍۳ پرلکھتے ہیں ،منجملہ نبوت کے ان خصائص کے جوایک پیغمبرکوعطاہوتے ہیں شق صدریاشرح صدر بھی ہے،چنانچہ یہ رتبہ خاص پیش گاہ الٰہی سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کومرحمت ہوا،شق صدرسے مرادیہ ہے کہ سینہ مبارک کوچاک کرکے اس کوبشری آلودگیوں سے پاک اور ایمان وحکمت کے نورسے منورکیاگیا،بعض روایتیں ایسی بھی ہیں جن سے ظاہرہوتاہے کہ معراج سے پہلے بھی یہ کیفیت آپ صلی اللہ علیہ وسلم پرگزری تھی ،ان روایتوں میں بعض جزئیات کی تفصیل اور وقت کی تعیین میں اختلاف ہے ،چنانچہ تمام روایتوں کو جمع کرنے سے پانچ مختلف اوقات میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم پراس کیفیت کاگزرناظاہرہوتاہے ،ایک جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم چارپانچ سال کے تھے اور حلیمہ رضی اللہ عنہا کے ہاں پرورش پارہے تھے،دوسرے جب عمرشریف دس برس کی تھی، تیسرے جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیس برس کی عمرکو پہنچے ، چوتھے جب جبرائیل علیہ السلام سب سے پہلی دفعہ وحی لے کرآئے،پانچویں معراج کے موقعہ پر۔

یہ مسئلہ کہ شق صدرواقع ہواتمام صحیح روایتوں سے ثابت ہے اوراس کے متعلق کسی شک وشبہ کی گنجائش نہیں البتہ وقت کے تعیین اوربعض[6] جزئیات کی تفصیل میں روایتیں مختلف ہیں ، تیسری دفعہ کی روایت جس میں بیس برس کی عمرمیں اس کیفیت کاگزرنابیان کیاگیاہے محدثین بلکہ خودارباب سیر[7]کے نزدیک قطعاً غیرثابت ہے ،باقی چارموقعوں کوحافظ ابن حجروغیرہ نے جوہراختلاف روایت کوایک نیاواقعہ تسلیم کرکے مختلف روایتوں میں توفیق اورتطبیق کی کوشش کرتے ہیں تسلیم کیاہے، امام سہیلی صرف دوموقعوں کی روایت کوصحیح سمجھتے ہیں ایک دفعہ صغرسنی میں اوردوسری دفعہ معراج میں ،

فِی حَالِ الطّفُولِیّةِ لِیُنَقّى قَلْبُهُ مِنْ مَغْمَزِ الشّیْطَانِ وَلِیُطَهّرَ وَیُقَدّسَ مِنْ كُلّ خُلُقٍ ذَمِیمٍ،لِتُفْرَضَ عَلَیْهِ الصّلَاةُ وَلِیُصَلّیَ بِمَلَائِكَةِ السّمَوَاتِ وَمِنْ شَأْنِ الصّلَاةِ الطّهُورُ فَقُدّسَ ظَاهِرًا وَبَاطِنًا، وَغُسِلَ بِمَاءِ زَمْزَمَ

اوراس کی مصلحت یہ بتائی ہے کہ صغر سنی میں اس لئے یہ ہواکہ بچپن ہی سے آپ کے قلب مبارک سے ذمائم کے حصہ کونکال دیاجائے اورمعراج کے وقت توظاہرہے ، اس لئے تاکہ حضورربانی کے موقع پر حکم صلوة کاجو طہارت محض ہے تحمل کیاجائے اورملائکہ الٰہی کی امامت نمازمیں فرماسکیں اور آب زمزم سے دھویاگیا۔[8]

لیکن یہ بات ہرشخص کوکھٹک سکتی ہے کہ سینہ مبارک کا آلودگیوں سے پاک وصاف ہوکرمنورہوجاناایک ہی دفعہ میں ہوسکتاہے اوروہ ایک دفعہ پاک ومنورہوکرپھردوبارہ پاکی وطہارت کامحتاج نہیں ہوسکتا،

وَرَجَّحَ عِیَاضٌ أَنَّ شَقَّ الصَّدْرِ كَانَ وَهُوَ صَغِیرٌ عِنْدَ مُرْضِعَتِهِ حَلِیمَةَ

اس بناپربعض محدثین جیسے قاضی عیاض وغیرہ اس کوایک ہی دفعہ کاواقعہ سمجھتے ہیں اوروہ صغرسنی میں جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم حلیمہ کے یہاں پرورش پارہے تھے اورمعراج کے موقع پرشق صدرکے واقعہ کوراویوں کا سہو جانتے ہیں ۔[9]

لیکن یہ پوشیدہ نہیں کہ واقعہ شق صدرکی روایت جن طریق کے ساتھ آئی ہے ان میں سب سے صحیح سب سے مستنداورمعتبرطریق وہی ہے جس میں اس کاشب معراج میں ہونا بیان ہواہے ،اس لئے اس موقع کوراویوں کاسہوقراردینااوربچپن میں اس کاہونا تسلیم کرنااصول روایت سے صحیح نہیں ۔

شق صدرکی ضعیف روایتیں

اصل یہ ہے کہ شق صدرکے وقت یااوقات کی تعیین اوراس کامکرراورباربارپیش آناصرف مختلف روایات کے پیش کردینے سے نہیں ہوسکتا، جیساکہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے کہا ہےاورقسطلانی رحمہ اللہ اورزرقانی رحمہ اللہ نے اس کی تقلیدکی ہے بلکہ ضرورت ہے کہ ان روایات کے سلسلہ سندپربھی بحث اورراویوں کی قوت وضعف پر بھی تنقید کی جائے، دس برس کے سن میں شق صدروالی روایت جس میں یہ تصریح ہے کہ سب سے پہلی دفعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پرنبوت کی یہ علامت طاری ہوئی،حسب ذیل ہے۔

أَنَّ أَبَا هُرَیْرَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ سَأَلَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَكَانَ حَرِیصًا أَنْ یَسْأَلَهُ عَنِ الَّذِی لَا یَسْأَلُهُ غَیْرُهُ فَقَالَ: یَا رَسُولَ اللَّهِ مَا أَوَّلُ مَا ابْتُدِئْتَ بِهِ مِنْ أَمْرِ النُّبُوَّةِ؟ فَقَالَ: إِذْ سَأَلْتَنِی إِنِّی لَفِی صَحْرَاءَ أَمْشِی ابْنَ عَشْرِ حِجَجٍ إِذَا أَنَا بِرَجُلَیْنِ فَوْقَ رَأْسِی یَقُولُ أَحَدُهُمَا لِصَاحِبِهِ: أَهُوَ هُوَ؟قَالَ: نَعَمْ، فَأَخَذَانِی فَلَصَقَانِی بِحَلَاوَةِ الْقَفَا ثُمَّ شَقًّا بَطْنِی فَكَانَ جِبْرِیلُ یَخْتَلِفُ بِالْمَاءِ فِی طَسْتٍ مِنْ ذَهَبٍ وَكَانَ مِیكَائِیلُ یَغْسِلُ جَوْفِی،فَقَالَ أَحَدُهُمَا لِصَاحِبِهِ: افْلِقْ صَدْرَهُ فَإِذَا صَدْرِی فِیمَا أَرَى مَفْلُوقًا لَا أَجِدُ لَهُ وَجَعًا ثُمَّ قَالَ: اشْقُقْ قَلْبَهُ فَشَقَّ قَلْبِی، فَقَالَ: أَخْرِجِ الْغِلَّ وَالْحَسَدَ مِنْهُ ، فَأَخْرَجَ شِبْهَ الْعَلَقَةِ فَنَبَذَهُ ،ثُمَّ قَالَ: أَدْخِلِ الرَّأْفَةَ وَالرَّحْمَةَ فِی قَلْبِهِ فَأَدْخَلَ شَیْئًا كَهَیْئَةِ الْفِضَّةِ ثُمَّ أَخْرَجَ ذَرُورًا كَانَ مَعَهُ فَذَرَّ عَلَیْهِ ثُمَّ نَقَرَ إِبْهَامِی ،ثُمَّ قَالَ: اغْدُ فَرَجَعْتُ بِمَا لَمِ أَغْدُ بِهِ مِنْ رَحْمَتِی عَلَى الصَّغِیرِ وَرِقَّتِی عَلَى الْكَبِیرِ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نبوت کی ابتدائی نشانیاں پوچھیں ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ میں دس برس کاتھاکہ میدان میں دوآدمی میرے سر پر آئے ، ان میں سے ایک بولا یہ وہی ہیں ، دوسرے نے اس کی تائیدکی، پھردونوں نے مجھے پکڑکرپیٹھ کے بل پچھاڑکرمیرے پیٹ کو چاک کیا،ان میں ایک جبریل علیہ السلام ایک سونے کے طشت میں پانی لاتا رہے اور دوسرےمیکائلؑ اس پانی سے پیٹ کودھوتے رہے ،پھران میں سے ایک نے کہاسینہ کوچاک کروتواچانک میں نے دیکھاکہ میراسینہ چاک ہے مگر مجھے کوئی تکلیف محسوس نہیں ہوئی، پھران میں سے ایک بولادل کوچاک کرو، دوسرے آدمی نے دل چاک کردیا،پھراس نے کہااس میں سے کینہ اورحسدنکال دو، تواس نے دل میں سے جمے ہوئے خون کی طرح کی کوئی چیزنکال دی، پھرایک بولااس میں رحمت ومہربانی رکھ دو، تواس نے دل میں چاندی کی سی کوئی چیزرکھ دی،پھراس نے اپنے پاس سے چند گھنڈیاں نکالیں اور میرے سینہ پرلگادیں ،پھرمیرے انگوٹھے کودباکرمجھے کہا،جاؤ جب میں لوٹاتواپنے اندروہ لے کرلوٹاجولے کرنہیں آیاتھایعنی چھوٹوں پر شفقت اور بڑوں پر نرمی۔[10]

ان تمام کتابوں میں مرکزی سلسلہ سندایک ہی ہے یعنی معاذبن محمداپنے والدمحمدبن معاذ یہ اپنے والدمعاذبن محمد سے اوروہ اپنے داداابی بن کعب سے روایت کرتے ہیں ،

محدث ابن المدینی اپنی کتاب العلل میں اس حدیث کی نسبت لکھتے ہیں ۔

حدیث مدنی وإسناده مجهول كله ولا نعرف محمدا ولا أباه ولا جده

اس کی سندتمام ترمجہول ہے ہم لوگ محمداس کے والداورداداکو نہیں جانتے ہیں ۔[11]

حافظ ابونعیم نے جہاں یہ حدیث نقل کی ہے صاف لکھ دیاہے۔

وَهَذَا الْحَدِیثُ مِمَّا تَفَرَّدَ بِهِ مُعَاذُ بْنُ مُحَمَّدٍ وَتَفَرَّدَ بِذِكْرِ السِّنِّ الَّذِی شُقَّ فِیهِ عَنْ قَلْبِهِ

یہ حدیث صرف معاذبن محمدنے نقل کی ہے اوروہی اس عمرکی تعیین کے بیان میں جس میں شق صدرہوامنفردہیں (یعنی اس روایت کی کسی اور نے تائیدنہیں کی)۔[12]

بیس برس کے سن کی روایت بھی بعینہ ان ہی لوگوں سے تھوڑے تغیرکے ساتھ ان ہی الفاظ میں زوائداحمد،صحیح ابن حبان ،مستدرک حاکم،بیہقی اورمختار ضیاء میں ہے۔[13]

لیکن اس سلسلہ روایت کاحال آپ سن چکے ہیں کہ وہ معتبرنہیں ۔

آغازوحی کے موقع پرشق صدرکی روایتیں دلائل ابونعیم،دلائل بیہقی،مسندطیالسی،مسندحارث میں ہیں یہ روایتیں ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی طرف منسوب ہیں ، عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی آغاز وحی والی حدیث صحیح بخاری ،صحیح مسلم،مسنداحمد وغیرہ تمام مستندکتابوں میں مذکورہے اوراس باب میں یہی روایت سب سے زیادہ مفصل صحیح اورمحفوظ ہے لیکن ان کتابوں میں اس موقع پرشق الصدر کامطلق ذکرنہیں ،اس سے واقعہ کی بے اعتباری ظاہرہوتی ہے ،

عَنْ أَبِی عِمْرَانَ الْجَوْنِیِّ، عَنْ یَزِیدَ بْنِ بَابَنُوسَ، قَالَ: دَخَلْنَا عَلَى عَائِشَةَ

علاوہ بریں ابونعیم ،بیہقی،طیالسی اورحارث والی اس روایت کی مرکزی سندابوعمران الجونی عن یزیدبن بابنوس کہتے ہیں کہ ہم عائشہ کے پاس گئے۔[14]

قال أبو حاتم: مجهول

امام ابو حاتم کہتے ہیں کہ یزیدبن بابنوس مجہول ہے۔[15]

اوراس سے صرف ابوعمران الجونی ہی نے روایت کی ہے کسی اورنے اس کونہیں لیااس روایت کی سندیہ ہے کہ حمادبن سلمہ،ابوعمران جونی سےاور وہ ایک شخص سے اوروہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے راوی ہے ، معلوم نہیں کہ نامعلوم شخص کون ہے ؟ اور ابو عمران نے اس کا نام کیوں نہیں لیا؟اس روایت کاجوسلسلہ سندہے اس میں یہ خالی جگہ یزیدبن بابنوس کے نام سے پرکی گئی ہے،

 ثنا حَمَّادٌ، عَنْ أَبِی عِمْرَانَ الْجَوْنِیِّ، عَنْ یَزِیدَ بْنِ بَابَنُوسَ، عَنْ عَائِشَةَ ۔[16]

جو مجہول ہے،علاوہ ازیں ابونعیم کی روایت میں اس کے نیچے داود بن المجر ایک شخص آتاہے جس کواکثرمحدثین ضعیف بلکہ دروغ گوتک کہتے ہیں ،اسی کے ساتھ اس روایت کے اندر بعض ایسی لغوباتیں بھی ہیں جواس کوصحت کے پایہ سے ساقط کرتی ہیں ۔

ایک اورروایت ابو ذر رضی اللہ عنہ سے ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیاکہ اے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم !جب آپ کونبی بناناچاہاگیاتوآپ کواپنی پیغمبری کاحال کیونکرمعلوم ہوا اور آپ نے کیونکریقین کیاکہ آپ پیغمبرہیں ،فرمایااے ابوذر!میں مکہ کی ترائی میں تھاکہ دوفرشتے میرے پاس آئے ایک زمین پرآیااوردوسراآسمان پرتھا ، ایک نے دوسرے سے کہا یہی وہ ہیں پھرکہاان کوتولو،پہلے ایک سے پھردس سے پھرسوسے پھرہزارسے مجھ کوتولاگیالیکن میراپلہ بھاری رہاتوکہاکہ یہ تمام امت سے بھاری ہیں ،بعدازاں میرا شکم چاک کیا(اس کے بعدشق صدرکے مختلف واقعات کاذکرہے اس کے بعدہے)کہ ان فرشتوں نے پھرمیرے شانے پرمہرکی۔

اس روایت میں گووقت کی تعیین نہیں مگر یہ ذکرہے کہ یہ واقعہ مکہ کی ترائی میں پیش آیا،اس سے ظاہرہوتاہے کہ یہ حلیمہ رضی اللہ عنہا کے پاس بنوہوزان میں قیام کے زمانہ سے بہت بعد کا واقعہ ہے ،

عَنْ أَبِی ذَرٍّ الْغِفَارِیِّ قَالَ:حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ عُثْمَانَ الْقُرَشِیُّ، عَنْ عُمَرَ بْنِ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَیْرِ، عَنْ أَبِیهِ، عَنْ أَبِی ذَرٍّ الْغِفَارِیِّ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ قُلْتُ: یَا رَسُولَ اللَّهِ كَیْفَ عَلِمْتَ أَنَّكَ نَبِیٌّ حَتَّى اسْتَیْقَنْتَ؟ فَقَالَ: یَا أَبَا ذَرٍّ أَتَانِی مَلَكَانِ وَأَنَا بِبَعْضِ بَطْحَاءِ مَكَّةَ فَوَقَعَ أَحَدُهُمَا عَلَى الْأَرْضِ، وَكَانَ الْآخَرُ بَیْنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ، فَقَالَ أَحَدُهُمَا لِصَاحِبِهِ: أَهُوَ هُوَ؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ زِنْهُ بِرَجُلٍ، فَوُزِنْتُ بِهِ فَوَزَنْتُهُ،ثُمَّ قَالَ: فَزِنْهُ بِعَشَرَةٍ، فَوُزِنْتُ بِهِمْ فَرَجَحْتُهُمْ، ثُمَّ قَالَ: زِنْهُ بِمِائَةٍ فَوُزِنْتُ بِهِمْ فَرَجَحْتُهُمْ،ثُمَّ قَالَ: زِنْهُ بِأَلْفٍ فَوُزِنْتُ بِهِمْ فَرَجَحْتُهُمْ، كَأَنِّی أَنْظُرُ إِلَیْهِمْ یَنْتَثِرُونَ عَلَیَّ مِنْ خِفَّةِ الْمِیزَانِ ، قَالَ: فَقَالَ أَحَدُهُمَا لِصَاحِبِهِ: لَوْ وَزَنْتَهُ بِأُمَّتِهِ لَرَجَحَهَا

ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ سے مروی ہےمیں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ کو کیسے علم ہے کہ آپ نبی ہیں تاکہ مجھے یقین ہوجائے،تو فرمایا اے ابو ذر! میں مکہ کی وادی بطحاء میں تھا کہ دوفرشتے میرے پاس آئے ان میں سے ایک زمین پر جبکہ دوسرے آسمان وزمین کے مابین تھا ان میں سے ایک نے اپنے ساتھی سے کہا کہ کیا یہ وہی ہیں ؟اس نے جواباً کہا جی ہاں ،توایک نے کہا کہ ا ن کا ایک آدمی کے ساتھ وزن کرو اور میرا وزن کیا گیا تو میں بھاری ہوا پھرایک نے کہاانہیں دس آدمیوں کے ساتھ وزن کرو،مجھے دس آدمیوں کے ساتھ تولا گیا پھر بھی میں بھاری رہا،پھراس نے کہاان کاسوآدمیوں کے ساتھ وزن کرو چنانچہ میراسو آدمیوں کے ساتھ وزن کیاگیا پھر بھی میں ان پر بھاری رہا، پھراس نے کہاان کاایک ہزارآدمیوں کے ساتھ وزن کرو، میراہزار آدمیوں کے ساتھ میرا وزن کیاگیا تو بھی میں بھاری رہا، جیسا کہ میں ان کی طرف دیکھتا ہی رہا کہ وہ ہلکے میزان میں منتشر ہیں ، پھر اس نے اپنی ساتھی سے کہا اگر انہیں پوری امت کے ساتھ بھی تولا جائے تو بھی آپ بھاری رہیں گے۔[17]

اس سے واضح ہوتاہے کہ یہ آغازوحی کا واقعہ ہے ،

حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ،حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ عُثْمَانَ الْقُرَشِیُّ، عَنْ عُمَرَ بْنِ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَیْرِ، عَنْ أَبِیهِ، وقال العقیلی: فی حدیثه وهم واضطراب

ان کے مشترک راوی بہ ترتیب ابوداود،جعفربن عثمان القرشی،عمربن عروہ بن زبیر ، وہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں ، جعفربن عبداللہ کی نسبت محدث عقیلی نے تنقیدکی ہے کہ اس میں وہم تھا، الفاظ کی صحیح یاداشت نہ تھی اوراضطراب تھا۔یعنی ایک واقعہ اورسندکوکبھی کسی طرح اورکبھی کسی طرح بیان کرتاتھا،پھراس روایت کونقل کرکے لکھا ہے کہ اس کی متابعت نہیں کی جاتی یعنی اس کے ہم شیخ اورہم درس اس کی تائیدنہیں کرتے۔[18]

پھربعینہ یہی واقعات شداد بن اوس رضی اللہ عنہ کی روایت سے ابونعیم، ابویعلٰی اور ابن عساکرنے عتبہ بن عبدسلمی کی روایت سے دارمی اورابن اسحاق نے (مرسلا)بچپن کے شق صدرمیں بیان کیاہے جن سے ان کاباہمی تعارض واضح ہے۔

اب رہ گئی وہ روایت جس میں حلیمہ سعدیہ کے ہاں قیام کے زمانہ میں شق صدرکاذکرہے،یہ روایت سات مختلف سلسلوں سے اورمختلف صحابیوں سے لوگوں نے نقل کی ہے مگر واقعہ یہ ہے کہ ان میں دوسلسلوں کے علاوہ بقیہ سلسلے صحت اورقوت سے تمام ترخالی ہیں اوران میں بعض ایسی لغوباتیں شامل ہیں جواس کودرجہ اعتبارسے گرادیتی ہیں ۔

xاس روایت کاسب سے پہلاطریق یہ ہے جہم بن ابی جہم عبداللہ بن جعفرسے اورعبداللہ بن جعفرخود حلیمہ سعدیہ سے راوی ہیں ،اس طریق سے یہ روایت ابن اسحاق اور دلائل لابی نعیم میں ہے ،جہم بن ابی جہم مجہول ہے اورعبداللہ بن جعفرکی حلیمہ سعدیہ سے ملاقات ثابت نہیں اورابن اسحاق جہم بن ابی جہم کاشک ظاہرکرتاہے ،اس نے کہاکہ عبداللہ ابن جعفرنے خودمجھ سے کہایاان سے سن کرکسی اورنے مجھ سے کہا،دلائل ابونعیم میں گوشک مذکورنہیں بلکہ اس میں تصریحا عبداللہ بن جعفرکانام لیاگیاہے مگراس میں اس کے نیچے کے راوی مجروح ہیں ۔

xدوسراطریق واقدی کاہے ،ابن سعدنے اس روایت کااسی سلسلہ سے ذکرکیاہے [19]مگرعلاوہ اس کے کہ واقدی کااعتبارنہیں ،اس کی تفصیلی سندتک اس میں مذکور نہیں ، اوپرکے راویوں کانام مطلق نہیں بتایاگیاہے ۔

xابونعیم نے ایک اورسلسلہ سے اس کوبیان کیاہے جویہ ہے عبدالصمدبن محمدالسعدی اپنے والدسے ،وہ اپنے والدسے اوروہ اس شخص سے جوحلیمہ کاچرواہاتھابیان کرتاہے، یہ تمام تر مجہول لوگ ہیں ۔

xبیہقی اورابن عساکرنے ایک اورسندسے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے یہ واقعہ نقل کیاہے لیکن اس سندمیں محمدبن زکریاالغلابی جھوٹااوروضاع ہے ،اس کاشمارقصہ گولوگوں میں ہوتا ہے ۔

xابن عساکرنے شداد رضی اللہ عنہ بن اوس کے واسطے سے ایک نہایت طویل داستان نقل کی ہے جس میں مذکورہے کہ قبیلہ بنی عامرکے ایک بوڑھے شخص نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے آپ کے ابتدائی حالات دریافت کئے،اورآپ نے پوراحال بیان فرمایا،منجملہ اس کے ایک واقعہ اپنے بچپن کے شق صدرکابیان کیالیکن خودابن عساکر اس روایت کوغریب(یعنی ثقات کے بیان سے مختلف) کہتے ہیں ،اس کے سوااس کے سلسلہ سندکے بیچ میں ایک بے نام ونشان راوی ہے،اس سے اوپرایک اورقابل اعتراض راوی ابوالعجفا ہے جو شداد رضی اللہ عنہ بن اوس سے سننابیان کرتاہے ،

قال البخاری: فی حدیثه نظر.

امام بخاری نے اس کی نسبت لکھاہےاس کی حدیث بحث طلب ہے،

وقال أبو أحمد الحاكم: لیس حدیثه بالقائم.

امام حاکم رحمہ اللہ کہتے ہیں  اس کی حدیث ٹھیک نہیں ۔[20]

xشداد رضی اللہ عنہ بن اوس سے مکحول شامی کے واسطہ سے ابویعلیٰ اورابن عساکرنے بعینہ اسی واقعہ کوایک اورسلسلہ سے نقل کیاہے جس میں گوکوئی مجہول راوی بیچ میں نہیں آیا مگراس میں کمی یہ ہے کہ،مکحول اورشداد رضی اللہ عنہ بن اوس کے درمیان میں ایک راوی چھوٹ گیاہے یاچھوڑدیاگیاہے ،یعنی روایت منقطع ہے کیونکہ مکحول نے شداد رضی اللہ عنہ کازمانہ نہیں پایا ہے ،مکحول شامی تدلیس میں بدنام تھا یعنی ان کی عادت یہ تھی کہ درمیان میں اگرکوئی کمزورراوی آجاتاتووہ اس کانام چھپادیتے تھے یادرمیان سے اس کوحذف کرکے اگلے سلسلہ سے جوڑدیتے تھے ،میراخیال ہے کہ مکحول اور شداد رضی اللہ عنہ کے بیچ میں دراصل وہی ابوالعجفاء تھا،مکحول نے یہ دیکھ کروہ مجروح ہے اس کودرمیان سے نکال دیاہے اس لئے یہ سلسلہ بھی نامعتبرہے ۔

x عتبہ رضی اللہ عنہ بن عبدالسلمی ایک کم سن صحابی ہیں ،ان سے ایک ہی سلسلہ سندکے زریعہ سے حاکم ،دارمی ،ابویعلیٰ ،ابن عساکراورابن حنبل نے اس واقعہ کی یوں روایت کی ہے۔

أَنَّ رَجُلًا، سَأَلَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ كَیْفَ كَانَ أَوَّلُ شَأْنِكَ یَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ: كَانَتْ حَاضِنَتِی مِنْ بَنِی سَعْدِ بْنِ بَكْرٍ فَانْطَلَقْتُ أَنَا، وَابْنٌ لَهَا فِی بَهْمٍ لَنَا، وَلَمْ نَأْخُذْ مَعَنَا زَادًا فَقُلْتُ: یَا أَخِی اذْهَبْ فَأْتِنَا بِزَادٍ مِنْ عِنْدِ أَمِّنَا فَانْطَلَقَ أَخِی، وَكُنْتُ عِنْدَ الْبَهْمِ، فَأَقْبَلَ طَیْرَانِ أَبْیَضَانِ كَأَنَّهُمَا نَسْرَانِ فَقَالَ أَحَدُهُمَا لِصَاحِبِهِ: أَهُوَ هُوَ؟ قَالَ: نَعَمْ، فَأَقْبَلَا یَبْتَدِرَانِی فَأَخَذَانِی فَبَطَحَانِی لِلْقَفَاءِ فَشَقَّا بَطْنِی، ثُمَّ اسْتَخْرَجَا قَلْبِی فَشَقَّاهُ فَأَخْرَجَا مِنْهُ عَلَقَتَیْنِ سَوْدَاوَیْنِ فَقَالَ أَحَدُهُمَا لِصَاحِبِهِ: حِصْهُ یَعْنِی خُطَّهُ وَاخْتَتِمْ عَلَیْهِ بِخَاتَمِ النُّبُوَّةِ، فَقَالَ أَحَدُهُمَا لِصَاحِبِهِ اجْعَلْهُ فِی كِفَّةٍ وَاجْعَلْ أَلْفًا مِنْ أُمَّتِهِ فِی كِفَّةٍ فَإِذَا أَنَا أَنْظُرُ إِلَى الْأَلْفِ فَوْقِی أُشْفِقُ أَنْ یَخِرُّوا عَلَیَّ، فَقَالَا: لَوْ أَنَّ أُمَّتَهُ وُزِنَتْ بِهِ لِمَالَ بِهِمْ ،ثُمَّ انْطَلَقَا وَتَرَكَانِی وَفَرِقْتُ فَرَقًا شَدِیدًا ثُمَّ انْطَلَقْتُ إِلَى أُمِّی فَأَخْبَرْتُهَا بِالَّذِی رَأَیْتُ فَأَشْفَقَتْ أَنْ یَكُونَ قَدِ الْتُبِسَ بِی، فَقَالَتْ أُعِیذُكَ بِاللَّهِ ،فَرَحَّلَتْ بَعِیرًا لَهَا فَجَعَلَتْنِی عَلَى الرَّحْلِ، وَرَكَبَتْ خَلْفِی حَتَّى بَلَغْنَا أُمِّی فَقَالَتْ أَدَّیْتُ أَمَانَتِی وَذِمَّتِی وَحَدَّثَتْهَا بِالَّذِی لَقِیتُ فَلَمْ یَرُعْهَا ذَلِكَ فَقَالَتْ: إِنِّی رَأَیْتُ خَرَجَ مِنِّی نُورٌ أَضَاءَتْ مِنْهُ قُصُورُ الشَّامِ

ایک آدمی نے ا ٓپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ اپنی نبوت کا سب سے پہلے علم کیسے ہوا؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاایک دن میں اپنے رضاعی بھائی کے ساتھ بکریاں چرارہاتھااورکھاناہمارے ساتھ نہ تھا،میں نے اسے ماں (حلیمہ سعدیہ)کے پاس کھانالانے کے لئے بھیجا،اس کے جانے کے بعد گدھ کی طرح کے دوپرندے میرے قریب آئے،ایک نے دوسرے سے کہاکیایہی ہیں ،دوسرے نے کہاہاں ، پھردونوں نے مجھے جھپٹ کرپکڑااورزمین پر پچھاڑ کرمیرا پیٹ چاک کیااوراس میں سے دوسیاہ جمے ہوئے خون کے قطرے نکالے اورٹھنڈے پانی اوربرف سے دھویا یہ حاکم کے الفاظ ہیں ،دارمی وغیرہ میں اس کے بعد اتنا اضافہ ہے کہ دھونے کے بعدایک نے کہاکہ سکینت یعنی تسکین قلبی لاؤ ،چنانچہ اس کولاکراس نے میرے سینے پرچھڑک دیا، پھردونوں مجھے چھوڑکرچلے گئے،میں ڈرااوراپنی ماں کے پاس گیا اور ساراحال کہہ سنایا،وہ یہ سن کرڈرگئیں کہ بچے کی عقل ٹھیک نہیں رہی، اس نے کہامیں تم کواللہ کی پناہ میں دیتی ہوں ، پھروہ مجھے اونٹ پربٹھاکرمیری والدہ کے پاس لائیں ، میری والدہ نے کہاتم نے پوری طرح امانت اداکی ،حلیمہ نے میراساراحال اوراپناخوف بیان کیا،لیکن والدہ نے یہ واقعہ سن کرکوئی خوف وتعجب نہیں کیا بلکہ فرمایاجب یہ بچہ پیدا ہواتومیں نے دیکھا تھا کہ ایک نورمیرے بدن سے نکلاجس سے شام کے محل روشن ہو گئے۔[21]

هَذَا حَدِیثٌ صَحِیحٌ عَلَى شَرْطِ مُسْلِمٍ وَلَمْ یُخَرِّجَاهُ

حاکم نے اس حدیث کومسلم کی شرط کے مطابق کہاہے۔

مگرواقعہ یہ ہے کہ اس سلسلہ کا پہلامشترک راوی بقیہ بن ولیدہے جس کوگوبذات خودبعضوں نے ثقہ کہاہے تاہم اس پرسب کااتفاق ہے کہ وہ سخت بے احتیاط تھا،

قال ابن المبارك: صدوقلكن یكتب عمن أقبل وأدبر،قال ابن عیینة: لا تسمعوا من بقیة ما كان فی سنة واسمعوا منه ما كان فی ثواب وغیره،وقال أبو حاتم: یكتب حدیثه ولا یحتج به، قال النسائی: إذا قال حدثنا وأخبرنا فهو ثقة وإذا قال عن فلان فلا یؤخذ عنه لأنه لا یدری عمن أخذه ، قال ابن عدی: وبقیة یخالف فی بعض حدیثه الثقات.أحمد بن حنبل یقول توهمت أن بقیة لا یحدث المناكیر إلا عن المجاهیل، فإذا هو یحدث المناكیر عن المشاهیر، فعلمت من أین أتى قلت: أتی من التدلیس، قال أبو أحمد الحاكم: ثقة فی حدیثه إذا حدث عن الثقات لا یعرف لكنه ربما روى عن أقوام مثل الأوزاعی،قال الخطیب:فی حدیثه مناكیر إلا أن أكثرها عن المجاهیل وكان صدوقا قال ابن القطان: بقیة یدلس عن الضعفاء ویستبیح ذلك

ابن مبارک کہتے ہیں وہ راست گو ہے مگروہ آگے پیچھے کے ہرشخص سے روایت لے لیاکرتاتھا،ابن عیینہ کہتے ہیں بقیہ سے احکام کی روایتیں نہ لیاکرو،ثواب(فضائل)کی روایتیں لے لیاکرو،امام ابن حنبل اورامام یحییٰ کاقول ہے کہ اگروہ مشہور لوگوں سے روایت کرے توخیرورنہ مت کرو،ابوحاتم کہتے ہیں اس کی حدیث لکھی جائے مگروہ دلیل میں نہ پیش کی جائے،امام نسائی فرماتے ہیں جب وہ اخبرنااور حدثناکہے تو خیراورجب عن عن کرکے بیان کرے تونہ لو (یادرہے کہ یہ روایت مذکورہ میں طریق عن عن ہی ہے)ابن عدی کاقول ہے کہ اس کی بعض روایتیں ثقہ اورمعتبرراویوں کے خلاف ہیں ، امام احمدبن حنبل ایک شخص سے فرماتے ہیں میں سمجھتاتھاکہ بقیہ مجہول الحال لوگوں سے سن کرحدیثیں نقل کرتاہے لیکن دیکھاتووہ مشہورلوگوں سے بھی اس قسم کی حدیثیں بیان کرتاہے ،تم نے جاناکہ وہ کہاں سے یہ روایتیں لاتاہے؟ مخاطب نے جواب دیاہاں تدلیس کے ذریعہ سے(یعنی درمیان کے کمزورراوی کوحذف کرکے آگے کے معتبرراوی سے سلسلہ جوڑدیاکرتاتھا)ابواحمد حاکم کہتے ہیں کہ اوزاعی وغیرہ مشہورلوگوں سے وہ ایسی روایتیں کرتاہے جوموضوعات کے مشابہ ہیں اوراس کی صورت یہ ہے کہ درمیان کے ضعیف راوی کوحذف کردیتاہے، خطیب کہتے ہیں کہ اس کی اکثرروایتیں منکر ہیں ،گووہ بذات خودراست گوتھا،ابن قطان کاقول ہے کہ وہ ضعیف راویوں سے تدلیس کرکے بیان کرتاہے اوراس کووہ جائزسمجھتاہے،یہ الزام اگراس پرسچ ہے تواس کے معتبرہونے میں خلل اندازہے۔[22]

 حمادبن سلمہ کی روایت میں ان کاوہم:

بچپن میں شق صدرکاسب سے صحیح اورمحفوظ سلسلہ سندوہ ہے جوحمادبن سلمہ ثابت بنانی سے اورثابت البنانی ا نس رضی اللہ عنہ بن مالک سے روایت کرتے ہیں چنانچہ یہ روایت صحیح مسلم،مسنداحمد،ابن سعد اور دلائل ابونعیم میں ایک ہی سلسلہ سندسے مذکورہے یعنی انس رضی اللہ عنہ سے۔

حَدَّثَنَا ثَابِتٌ الْبُنَانِیُّ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَتَاهُ جِبْرِیلُ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ یَلْعَبُ مَعَ الْغِلْمَانِ، فَأَخَذَهُ فَصَرَعَهُ، فَشَقَّ عَنْ قَلْبِهِ، فَاسْتَخْرَجَ الْقَلْبَ، فَاسْتَخْرَجَ مِنْهُ عَلَقَةً، فَقَالَ: هَذَا حَظُّ الشَّیْطَانِ مِنْكَ، ثُمَّ غَسَلَهُ فِی طَسْتٍ مِنْ ذَهَبٍ بِمَاءِ زَمْزَمَ، ثُمَّ لَأَمَهُ، ثُمَّ أَعَادَهُ فِی مَكَانِهِ، وَجَاءَ الْغِلْمَانُ یَسْعَوْنَ إِلَى أُمِّهِ یَعْنِی ظِئْرَهُ فَقَالُوا: إِنَّ مُحَمَّدًا قَدْ قُتِلَ، فَاسْتَقْبَلُوهُ وَهُوَ مُنْتَقِعُ اللَّوْنِ ، قَالَ أَنَسٌ: وَقَدْ كُنْتُ أَرَى أَثَرَ ذَلِكَ الْمِخْیَطِ فِی صَدْرِهِ.

ثابت البنانی اوران سے حمادبن سلمہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جبرائیل علیہ السلام آئے اور اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم لڑکوں کے ساتھ کھیل رہے تھے،جبرائیل نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پکڑااور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پچھاڑا اور دل کو چیر کر اس میں سے جمے ہوئے خون کا ایک لو تھڑا نکالا اور کہا کہ یہ آپ میں شیطان کا حصہ تھاپھر اس دل کو سونے کے طشت میں زم زم کے پانی سے دھویا پھر اسے جوڑ کر اس جگہ میں رکھ دیا، بچوں نے جو یہ واقعہ دیکھاتو ڈرگئے اور چیختے چلاتے آپ کی رضاعی والدہ کوخبر کرنے کے لئے دوڑلگادی ،جب ان کے قریب پہنچے توزورزورسے کہنے لگے بیشک محمدقتل کردئے گئے ہیں ،یہ سن کرسب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف دوڑپڑے،جب وہاں پہنچے تودیکھاآپ کے چہرہ کی رنگت بدلی ہوئی تھی،دریافت کرنے پر آپ نے پوری سرگزشت کہہ سنائی ،انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں سینہ میں سلائی کے نشان کو دیکھا کرتا تھا۔[23]

یہی حدیث اسی سلسلہ سندسے انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے اوراس میں آخرمیں واحدمتکلم کے بجائے جمع متکلم ہے یعنی یہ کہ مجھ کونظرآتے تھے کی جگہ پریہ ہے

وَكُنْتُ أَرَى أَثَرَ الْمِخْیَطِ فِی صَدْرِهِ

ہمیں سینہ میں سلائی کے نشان نظرآتے تھے۔[24]

اس سلسلہ سندکے صحیح اورمحفوظ ہونے میں کوئی شک نہیں لیکن واقعہ یہ ہے کہ صحاح میں معراج اورشق صدرکی جتنی بھی روایات ہیں انس رضی اللہ عنہ   سے مروی ہیں ،جن کے دوسرے راوی تابعین میں انس رضی اللہ عنہ کے شاگردوں میں سے قتادہ، زہری ، شریک اورثابت بنانی چارشخص ہیں ، ثابت بنانی سے دوآدمی ان واقعات کونقل کرتے ہیں سلیمان بن مغیرہ اورحمادبن سلمہ۔حمادبن سلمہ کے علاوہ اورجوطریق اوپر مذکورہوئے ان سب میں معراج کے آغازمیں شق صدرکاذکرہے ،لیکن حماد بن سلمہ اپنی روایت میں معراج کے سلسلہ میں شق صدرکے ذکرکوترک کردیتے ہیں اورشق صدرکے واقعہ کو الگ اورمستقل بچپن کے زمانہ کی تخصیص کے ساتھ بیان کرتے ہیں حالانکہ انس رضی اللہ عنہ کے شاگردوں میں کوئی بلکہ حمادکے دوسرے ہم درس طلبہ میں سے کوئی ان کی تائیدنہیں کرتا ، غا لبا یہی وجہ ہے کہ امام بخاری نے معراج کی حدیث حمادبن سلمہ کے واسطہ سے نقل نہیں کی،حمادکی نسبت اسماء الرجال کی کتابوں میں لکھاہے کہ اس کاحافظہ اخیرعمرمیں خراب ہوگیاتھااس وجہ سے امام بخاری رحمہ اللہ نے اس سے روایات نہیں لیں ،امام مسلم رحمہ اللہ اپنی سمجھ کے مطابق کوشش کرکے خرابی حافظہ سے پہلے کی جوان کی روایتیں ہیں انہی کوچن کراپنی کتاب میں لائے ہیں ،میرامیلان تحقیق یہ ہے کہ حمادکی یہ روایت بھی اس کے حافظہ خراب ہونے کے زمانہ کی ہے،انہوں نے تمام معتبر راویوں کے خلاف شق صدراورمعراج کے مشترک واقعہ کوردکردیا،میں سمجھتاہوں کہ امام مسلم رحمہ اللہ بھی اپنی ترتیب بیاں کے اشارات سے ایساہی کچھ بتاناچاہتے ہیں کہ معراج اور شق صدرکودوالگ الگ زمانوں کے واقعات قراردینے میں حمادسے غلطی ہوئی ہے ،چنانچہ واقعات معراج کے ذکرمیں امام مسلم رحمہ اللہ یہ کرتے ہیں کہ پہلے انس رضی اللہ عنہ سے ثابت کے شاگردحمادکی یہ حدیث نقل کرتے ہیں جس میں معراج کے شق صدرکاذکرنہیں پھرحمادکے ساتھی اورثابت کے شاگردسلیمان بن مغیرہ کی روایت ہے جس میں شق صدرکے ساتھ معراج کا ذکرہے ،اس کے بعدحمادبن سلمہ کی وہ روایت ہے جس میں تنہابچپن کے شق صدرکاتذکرہ ہے بعدازاں انس رضی اللہ عنہ کے دوسرے شاگردوں کی روایتیں ہیں جس میں شق صدراورمعراج کاایک ساتھ واقع ہونامذکورہے ،حمادکی اس روایت میں بعض ایسے معنوی وجوہ بھی ہیں جن کی تائیدکسی دوسرے ذریعہ سے نہیں ہوتی مثلا ًیہ کہ شق صدر کی یہ کیفیت کسی بھی عمرمیں گزری ہو مگر بہرحال اس کاتعلق روحانی عالم سے تھاگزشتہ تمام مستنداورمجروح روایتوں میں حسد،بغض ، حصہ شیطانی ،سکینت ،تسلی ،رحمت ، شفقت ، ایمان اورحکمت وغیرہ جن امورکاسینہ مبارک سے نکالنایااس میں رکھنابیان ہواہے ان میں سے کسی چیزکاتعلق جسمانیات سے نہیں ،

بایں ہمہ حمادبن سلمہ ، انس رضی اللہ عنہ سے روایت کرکے کہتے ہیں ۔

وَقَدْ كُنْتُ أَرَى أَثَرَ ذَلِكَ الْمِخْیَطِ فِی صَدْرِهِ

آپ کے سینہ پرزخم کے ٹانکے کے نشان مجھ کونظرآتے تھے۔[25]

وَكُنْتُ أَرَى أَثَرَ الْمِخْیَطِ فِی صَدْرِهِ

یاہمیں سینہ میں سلائی کے نشان نظرآتے تھے۔[26]

اگریہ جسمانی واقعہ بھی تھاتو انس رضی اللہ عنہ بن مالک کی دیگر مروی روایات میں سے جوحمادبن سلمہ کے علاوہ دوسرے راویوں نے نقل کی ہیں یہ مذکورنہیں ،علاوہ ازیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شکل شمائل کاایک ایک حرف ،جسم اطہر کے ایک ایک خدوخال کی مکمل کیفیت صحابہ رضی اللہ عنہم نے بیان کی ہے مگرکسی نے بھی سینہ مبارک کے ان نمایاں ٹانکوں کاذکرنہیں کیاایسی حالت میں اس واقعہ کوکیوں کرتسلیم کیاجا سکتا ہے ۔

دودفعہ شق صدرہونااس کی دلیل

اس تشریح اورتفصیل کے بعدبھی اگرکسی کوحمادبن سلمہ کی اس روایت کے قبول کرنے پراصرارہوتاتویہ کہاجاسکتاہے کہ اس روایت کے مطابق بچپن میں جب عقل وہوش کا آغاز ہوا تو سینہ مبارک سے حصہ شیطانی جوہرانسان کے اندرہے اس کونکالاگیاکہ صحیح مسلم کی اس روایت میں اسی قدرہے،ابھی علم وحکمت کی کوئی چیزرکھی نہیں گئی مگرمعراج کی رات جب اس عقل وہوش کی تکمیل ہوئی تووہ دھوکرعلم وحکمت سے معمورکیاگیاجیساکہ تمام روایتوں میں ہے۔

شق صدرکی صحیح کیفیت

شق صدرکی صحیح کیفیت حالت معراج کے سلسلہ میں صحیح بخاری،صحیح مسلم اورسنن نسائی وغیرہ میں متعددروایتوں اورطریقوں سے مذکورہے،

حَدَّثَنَا أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ، عَنْ مَالِكِ بْنِ صَعْصَعَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: قَالَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: بَیْنَا أَنَا عِنْدَ البَیْتِ بَیْنَ النَّائِمِ، وَالیَقْظَانِ وَذَكَرَ: یَعْنِی رَجُلًا بَیْنَ الرَّجُلَیْنِ ، فَأُتِیتُ بِطَسْتٍ مِنْ ذَهَبٍ، مُلِئَ حِكْمَةً وَإِیمَانًا فَشُقَّ مِنَ النَّحْرِ إِلَى مَرَاقِّ البَطْنِ، ثُمَّ غُسِلَ البَطْنُ بِمَاءِ زَمْزَمَ، ثُمَّ مُلِئَ حِكْمَةً وَإِیمَانًا وَأُتِیتُ بِدَابَّةٍ أَبْیَضَ، دُونَ البَغْلِ وَفَوْقَ الحِمَارِ ،البُرَاقُ، فَانْطَلَقْتُ مَعَ جِبْرِیلَ۔

انس بن مالک رضی اللہ عنہ مالک بن صعصعہ سے روایت کرتے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایامیں ایک دفعہ بیت اللہ کے قریب نینداوربیداری کی درمیانی حالت میں تھا،پھررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوآدمیوں کے درمیان لیٹے ہوئے ایک تیسرے آدمی کاذکرفرمایا،اس کے بعدمیرے پاس سونے کاایک طشت لایاگیاجوحکمت اورایمان سے بھرپورتھا،میرے سینے کوپیٹ کے آخری حصے تک چاک کیاگیا،پھرمیراپیٹ زمزم کے پانی سے دھویاگیااوراسے حکمت اورایمان سے بھردیاگیا، اس کے بعدمیرے پاس ایک سواری لائی گئی ،سفیدخچرسے چھوٹی اورگدھے سے بڑی یعنی براق،میں اس پرسوارہوکرجبریل کے ساتھ چلا۔[27]

شق صدرکی حقیقت

علمائے ظاہربین اس واقعہ کے ظاہرالفاظ کے جوعام اورسیدھے سادھے معنی سمجھتے ہیں کہ واقعی سینہ مبارک چاک کیاگیااورقلب اقدس کواسی آب زمزم سے دھوکرایمان و حکمت سے بھردیاگیااس کوہرمسلمان سمجھ سکتاہے لیکن صوفیائے حقیقت بین اورعرفائے رمزشناس ان الفاظ کے کچھ اورہی معنی سمجھتے ہیں اوران تمام تر غیر متحمل الالفاظ معنی کو تمثیل کے رنگ میں دیکھتے ہیں ،وہ کہتے ہیں کہ یہ عالم برزخ کے حقائق ہیں جہاں روحانی کیفیات جسمانی اشکال میں اسی طرح نظرآتے ہیں جس طرح حالت خواب میں تمثیلی واقعات جسمانی رنگ میں نمایاں ہوتے ہیں اورجہاں معنی اجسام کی صورت میں متمثل ہوتے ہیں ،چنانچہ شاہ ولی اللہ لکھتے ہیں ۔

أما شقّ الصَّدْر وملؤه إِیمَانًا فحقیقته غَلَبَة أنوار الملكیة وانطفاء لَهب الطبیعة وخضوعها لما یفِیض عَلَیْهَا من حَظِیرَة الْقُدس

لیکن سینہ کاچاک کرنااوراس کوایمان سے بھرنااس کی حقیقت انوارملکیہ کاروح پرغالب ہوجانااورطبعیت(بشری)کے شعلہ کابجھ جانااورعالم بالاسے جوفیضان ہوتا تو اس کے قبول کے لئے طبیعت کاآمادہ ہوجاناہے۔[28]

ان کے نزدیک معراج بھی اسی عالم کی چیزتھی اس لئے شق صدربھی اسی دنیاکاواقعہ ہوگا۔

ہمارے نزدیک صحیح اصطلاح شرح صدرہے جیساکہ مسلم باب الاسراء میں مالک بن صعصعہ رضی اللہ عنہ کی روایت میں مذکورہ ہے۔

عَنْ مَالِكِ بْنِ صَعْصَعَةَ،قَالَ نَبِیُّ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: فَشُرِحَ صَدْرِی إِلَى كَذَا وَكَذَا

مالک بن صعصعہ سے مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایامیراسینہ یہاں سے یہاں تک کھولاگیا۔

اورقرآن مجیدکی اس سورہ میں جیساکہ جامع ترمذی میں ہے اسی واقعہ کی طرف اشارہ ہے۔

اَلَمْ نَشْرَحْ لَكَ صَدْرَكَ۝۱ۙوَوَضَعْنَا عَنْكَ وِزْرَكَ۝۲ۙالَّذِیْٓ اَنْقَضَ ظَهْرَكَ۝۳ۙ [29]

ترجمہ:(اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ) کیا ہم نے تمہارا سینہ تمہارے لیے کھول نہیں دیا؟اور تم پر سے وہ بھاری بوجھ اتار دیا جوتمہاری کمرتوڑرہاتھا ۔

قرآن مجیدمیں سینہ کھولنے کالفظ جن مواقع پرآیاہے ان کودیکھتے ہوئے اس کے دومعنی لگتے ہیں ۔

ایک یہ کہ ہرقسم کے ذہنی خلجان اورترددسے پاک ہوکرانسان اس بات پر پوری طرح مطمئن ہوجائے کہ اسلام کاراستہ ہی برحق ہے ۔

دوسرایہ کہ آدمی کاحوصلہ بلندہوجائے ،کسی بڑی سے بڑی مہم پرجانے اورکسی سخت سے سخت کام کوانجام دینے میں بھی اسے تامل نہ ہواورنبوت کی عظیم ذمہ داریاں سنبھالنے کی ہمت اس میں پیداہوجائے۔

عربی میں شرح کے لغوی معنی چیرنے پھاڑنے کے ہیں ،اسی سے طب کی اصطلاح علم تشریح اورتشریح اجسام نکلی ہے ،چونکہ چیرنے اورپھاڑنے سے اندرکی چیزکھل کرنمایاں ہوجاتی ہے اس لئے اس سے تشریح امراورتشریح کلام ،شرح بیان اورشرح کتاب وغیرہ مجازی معنی پیداہوئے ،اسی سے ایک اورمحاورہ شرح صدرکاپیداہواجس کے معنی سینہ کھول دینے کے ہیں اورکلام عرب میں اس سے مقصودبات کاسمجھادینااوراس کی حقیقت کاواضح کردیناہوتاہے ،قرآن اوراحادیث میں یہ محاورہ بکثرت استعمال ہواہے ، موسیٰ  علیہ السلام کوجب فرعون کے پاس جانے کی ہدایت ہوئی توآ پ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا مانگی۔

قَالَ رَبِّ اشْرَحْ لِیْ صَدْرِیْ۝۲۵ۙوَیَسِّرْ لِیْٓ اَمْرِیْ۝۲۶ۙوَاحْلُلْ عُقْدَةً مِّنْ لِّسَانِیْ۝۲۷ۙیَفْقَـــهُوْا قَوْلِیْ۝۲۸۠ [30]

ترجمہ: اس نے عرض کیاپروردگار!میراسینہ کھول دے اور میرے کام کومیرے لئے آسان کردے اور میری زبان کی گرہ سلجھا دے تاکہ لوگ میری بات سمجھ سکیں ۔

انبیاء علیہم السلام کاعلم وفہم انسانی تعلیم وتعلم اورمادی حکمت ودانائی سے پاک ومبراہوتاہے اوروہ اپنے اخذنتائج اوراثبات دعویٰ کے لئے گزشتہ تجربات اورمنطق کے استقراءوتمثیل اورترتیب مقدمات کے ممنون نہیں ہوتے بلکہ وہ جوکچھ جانتے ہیں اورجوکچھ سمجھتے ہیں اس کاماخذ تعلیم الہٰی،القائے ربانی اورفہم ملکوتی ہوتاہے ،اس کانام علم لدنی ہے ، عربی زبان میں لدن کے معنی پاس ونزدیک کے ہیں ،چونکہ یہ علم ان کو کسب وتحصیل کے بغیراللہ کے پاس سے اوراس کے نزدیک سے عطاہوتاہے اس لئے عرف عام میں علم لدنی کہلاتاہے اللہ تعالیٰ نے قرآن مجیدمیں خضر علیہ السلام کے متعلق ارشادفرمایاہے۔

فَوَجَدَا عَبْدًا مِّنْ عِبَادِنَآ اٰتَیْنٰهُ رَحْمَةً مِّنْ عِنْدِنَا وَعَلَّمْنٰهُ مِنْ لَّدُنَّا عِلْمًا۝۶۵ [31]

ترجمہ: اور وہاں انہوں نے ہمارے بندوں میں سے ایک بندے کو پایا جسے ہم نے اپنی رحمت سے نوازا تھا اور اپنی طرف سے ایک خاص علم عطا کیا تھا۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق ارشادہوتاہے۔

كَذٰلِكَ نَقُصُّ عَلَیْكَ مِنْ اَنْۢبَاۗءِ مَا قَدْ سَبَقَ۝۰ۚ وَقَدْ اٰتَیْنٰكَ مِنْ لَّدُنَّا ذِكْرًا۝۹۹ۖۚ [32]

ترجمہ:اے نبی علیہ السلام !اس طرح ہم پچھلے گزرے ہوئے حالات کی خبریں تم کو سناتے ہیں ، اور ہم نے خاص اپنے ہاں سے تم کو ایک ذکر ( درس نصیحت)عطا کیا ہے۔

یوسف علیہ السلام کے قصہ کے آغازمیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کوخطاب ہوتاہے

نَحْنُ نَقُصُّ عَلَیْكَ اَحْسَنَ الْقَصَصِ بِمَآ اَوْحَیْنَآ اِلَیْكَ ھٰذَا الْقُرْاٰنَ۝۰ۤۖ وَاِنْ كُنْتَ مِنْ قَبْلِهٖ لَمِنَ الْغٰفِلِیْنَ۝۳ [33]

ترجمہ:اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! ہم اس قرآن کو تمہاری طرف وحی کر کے بہترین پیرایہ میں واقعات اور حقائق تم سے بیان کرتے ہیں ، ورنہ اس سے پہلے تو (اِن چیزوں سے ) تم بالکل ہی بے خبر تھے۔

وَكَذٰلِكَ اَوْحَیْنَآ اِلَیْكَ رُوْحًا مِّنْ اَمْرِنَا۝۰ۭ مَا كُنْتَ تَدْرِیْ مَا الْكِتٰبُ وَلَا الْاِیْمَانُ وَلٰكِنْ جَعَلْنٰهُ نُوْرًا نَّهْدِیْ بِهٖ مَنْ نَّشَاۗءُ مِنْ عِبَادِنَا۝۰ۭ وَاِنَّكَ لَـــتَهْدِیْٓ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ۝۵۲ۙ [34]

ترجمہ:اور اسی طرح (اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) ہم نے اپنے حکم سے ایک روح تمہاری طرف وحی کی ہے، تمہیں کچھ پتہ نہ تھا کہ کتاب کیا ہوتی ہے اور ایمان کیا ہوتا ہے، مگر اس روح کو ہم نے ایک روشنی بنادیا جس سے ہم راہ دکھاتے ہیں اپنے بندوں میں سے جسے چاہتے ہیں ،یقینا تم سیدھے راستے کی طرف رہنمائی کر رہے ہو۔

دوسرے پیغمبروں کی نسبت بھی یہی ارشادہوتاہے، ابراہیم علیہ السلام اپنے باپ سے کہتے ہیں ۔

یٰٓاَبَتِ اِنِّىْ قَدْ جَاۗءَنِیْ مِنَ الْعِلْمِ مَا لَمْ یَاْتِكَ فَاتَّبِعْنِیْٓ اَهْدِكَ صِرَاطًا سَوِیًّا۝۴۳ [35]

ترجمہ: ابا جان!میرے پاس (اللہ کی طرف سے) وہ علم آیا ہے جو آپ کے پاس نہیں آیا پس آپ میرے پیچھے چلیں ، میں آپ کو (دین کا) سیدھا راستہ بتاؤں گا۔

داود علیہ السلام وسلیمان علیہ السلام کے متعلق فرمایا۔

وَلَقَدْ اٰتَیْنَا دَاوٗدَ وَسُلَیْمٰنَ عِلْمًا۝۰ۚ وَقَالَا الْحَمْدُ لِلهِ الَّذِیْ فَضَّلَنَا عَلٰی كَثِیْرٍ مِّنْ عِبَادِهِ الْمُؤْمِنِیْنَ۝۱۵ [36]

ترجمہ:(دوسری طرف) ہم نے داؤد علیہ السلام و سلیمان علیہ السلام کو علم عطا کیا اور انہوں نے کہا کہ شکر ہے اس اللہ کا جس نے ہم کو اپنے بہت سے مومن بندوں پر فضیلت عطا کی۔

یوسف علیہ السلام کی نسبت ارشاد ہے۔

وَلَمَّا بَلَغَ اَشُدَّهٗٓ اٰتَیْنٰهُ حُكْمًا وَّعِلْمًا۝۰ۭ وَكَذٰلِكَ نَجْزِی الْمُحْسِـنِیْنَ۝۲۲ [37]

ترجمہ:اور جب وہ اپنی پوری جوانی کو پہنچا تو ہم نے اسے قوت فیصلہ اور علم عطا کیا، اس طرح ہم نیک لوگوں کو جزا دیتے ہیں ۔

یوسف کہتے ہیں ۔

قَالَ لَا یَاْتِیْكُمَا طَعَامٌ تُرْزَقٰنِهٖٓ اِلَّا نَبَّاْتُكُمَا بِتَاْوِیْـلِهٖ قَبْلَ اَنْ یَّاْتِیَكُمَا۝۰ۭ ذٰلِكُمَا مِمَّا عَلَّمَنِیْ رَبِّیْ۔۔۔۝۰۝۳۷ [38]

ترجمہ: یوسف علیہ السلام نے کہا یہاں جو کھانا تمہیں ملا کرتا ہے اس کے آنے سے پہلے میں تمہیں ان خوابوں کی تعبیر بتادوں گا یہ علم ان علوم میں سے ہے جو میرے رب نے مجھے عطا کیے ہیں ۔

لوط علیہ السلام کے متعلق ہے۔

وَلُوْطًا اٰتَیْنٰهُ حُكْمًا وَّعِلْمًا۔۔۔۝۷۴ۙ [39]

ترجمہ:اور لوط کو ہم نے حکم اور علم عطا بخشا ۔

سلیمان علیہ السلام اور چند دیگر انبیاء علیہم الاسلام کے ذکرکے بعدہے۔

فَفَهَّمْنٰهَا سُلَیْمٰنَ۝۰ۚ وَكُلًّا اٰتَیْنَا حُكْمًا وَّعِلْمًا۔۔۔ ۝۷۹ [40]

ترجمہ: اس وقت ہم نے صحیح فیصلہ سلیمان کو سمجھا دیا حالانکہ حکم اور علم ہم نے دونوں ہی کو عطا کیا تھا۔

الغرض انبیاء علیہم السلام کایہ علم محض تعلیم الہٰی اورالقائے ربانی کانتیجہ ہوتاہے اورغوروفکر،تجربہ وامتحان،تحصیل واکتساب اورجمع معلومات اورترتیب مقدمات کے بغیر ان کےعلم کی باتیں ان کے سامنے آئینہ ہوکرآجاتی ہیں ،صرف فہم وتمثیل کے لئے یہ سمجھناچاہئے کہ کبھی کبھی شعرائ،مصنفین،موجدین اوردیگرعقلاء کے ذہن میں بے غورو تامل ایک بات اس طرح خطورکرجاتی ہے کہ گویایہ معلوم ہوتاہے کہ سینہ یادماغ کادروازہ یک بیک کھل گیااورایک چیزاندرداخل ہوگئی لیکن یہ شرح صدرکی نہایت معمولی مثال ہے ، اس منصب خاص کے سینکڑوں مدارج ہیں جوانبیاء علیہ السلام کواولیاء کواوردیگرمومنین کواپنے اپنے رتبہ کے مطابق عطاہوتے ہیں ۔

فَمَنْ یُّرِدِ اللهُ اَنْ یَّهْدِیَهٗ یَشْرَحْ صَدْرَهٗ لِلْاِسْلَامِ۝۰ۚ وَمَنْ یُّرِدْ اَنْ یُّضِلَّهٗ یَجْعَلْ صَدْرَهٗ ضَیِّقًا حَرَجًا كَاَنَّمَا یَصَّعَّدُ فِی السَّمَاۗءِ۔۔۔۝۰۝۱۲۵ [41]

ترجمہ:پس (یہ حقیقت ہے کہ ) جسے اللہ ہدایت بخشنے کا ارادہ کرتا ہے اس کا سینہ اسلام کے لیے کھول دیتاہے اور جسے گمراہی میں ڈالنے کا ارادہ کرتا ہے اس کے سینے کو تنگ کر دیتا ہے اور ایسا بھینچتا ہو کہ (اِسلام کا تصور کرتے ہی) اُسے یوں معلوم ہونے لگتا ہے کہ گویا اس کی روح آسمان کی طرف پرواز کر رہی ہے ۔

یعنی بلاحجت وبرہان اسلام کی صداقت اس کے سامنے آئینہ ہو جاتی ہے صحیح بخاری میں ہے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے سیدنا ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کوان کی خلافت کے زمانہ میں مشورہ دیااوربہ اصرارکہاکہ قرآن مجیدکواوراق ومصاحف میں لکھوا دیجئے لیکن سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے مخالفت کی اورفرمایا:

كَیْفَ أَفْعَلُ شَیْئًا لَمْ یَفْعَلْهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ؟

جوکام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خوداپنی زندگی میں نہیں کیاوہ ہم لوگ کیونکر کر سکتے ہیں ؟

سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کواس پراصراراورسیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کو انکار رہا مگرچندہی روزمیں یک بیک ان کی سمجھ میں بات آگئی،اس موقع پرانہوں نے فرمایا۔

حَتَّى شَرَحَ اللَّهُ صَدْرِی لِلَّذِی

یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے اس خدمت کے لئے میرابھی سینہ کھول دیا۔[42]

مفسر ابن جریرنے متعددصاحبوں سے روایت کی ہے،

قَالُوا: كَیْفَ یُشْرَحُ صَدْرُهُ یَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ: نُورٌ یُقْذَفُ فِیهِ فَیَنْشَرِحُ لَهُ وَیَنْفَسِحُ ،قَالُوا: فَهَلْ لِذَلِكَ مِنْ أَمَارَةٍ یُعْرَفُ بِهَا؟قَالَ:الْإِنَابَةُ إِلَى دَارِ الْخُلُودِ، وَالتَّجَافِی عَنْ دَارِ الْغُرُورِ، وَالِاسْتِعْدَادُ لِلْمَوْتِ قَبْلَ الْمَوْتِ

صحابہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیااے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! شرح صدرکیونکرہوتاہے ؟ فرمایا،قلب میں ایک نورداخل ہوتاہے جس سے سینہ کھل جاتاہے پھرسوال کیاکہ اے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم !اس کی نشانی کیاہے ؟ارشادہواحیات جاوید کے گھرکااشتیاق اوراس فریب کدہ عالم سے دل برداشتگی اور موت سے پہلے موت کی تیاری۔ [43]

یہ توحقیقت ہے اوراس حقیقت کی جسمانی تمثیل سینہ مبارک کاچاک کیاجانااوراس میں نوروحکمت کابھراجاناہے۔

شرح صدرکے لئے مناسب موقع ومصلحت

جن آیتوں میں دیگرانبیاء علیہ السلام کوعطیہ علم کے دیئے جانے کاذکرہے ان میں اکثرعلم کے ساتھ حکم کالفظ بھی ہے جس سے ظاہرہوتاہے کہ علاوہ خالص شرعی ضرورتوں کے نظم و حکومت اورفیصلہ احکام کے لئے بے غوروفکرکے بدیہی ،صحیح اورحاضرعلم کی ضرورت ہے ،چونکہ معراج ہجرت کااعلان اوراسلام کے مستقبل کاعنوان تھاجس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کوحکم کی طاقت عطاکی جانے والی تھی اس لئے شرح صدرکے عطیہ کے لئے یہی مناسب موقع تھا،علاوہ ازیں معراج کے حقائق ومناظرجونفوس نبویہ کے ادر اکات کی آخری سرحد ہیں ان کے احاطہ کے لئے بھی شرح صدرکی ضرورت تھی۔

والدہ کی وفات

ابن سعداورابن اسحاق کے مطابق جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم چھ سال کے ہوئے،ایک روایت میں ہے چھ سال تین ماہ اوردس دن کے ہوئے[44]اورابن حزم وابن القیم کے مطابق ابھی آپ کاساتواں سال پورانہ ہواتھاکہ آپ کی والدہ ماجدہ آمنہ آپ کو اپنے ہمراہ لے کرمدینہ منورہ آپ کی دادی(عبدالمطلب کی والدہ)کے خاندان بنی عدی بن نجار سے ملانے کے لئے گئیں ،مگرکئی مورخین لکھتے ہیں یہ دورکارشتہ تھا صرف اتنے سے تعلق کی بناپراتنالمباسفراختیارکرناقیاس میں نہیں آتا،بلکہ مورخین لکھتے ہیں آمنہ درحقیقت اپنے بے وطن متوفی شوہرکی قبرکودیکھنے کے لئے گئی تھیں ،اور اس سفرمیں سواری کے لئے دواونٹ اورعبد اللّٰہ کی ترکے میں چھوڑی ہوئی باندی ام ایمن برکہ حبشیہ بھی ان کے ہمراہ تھیں ،مدینہ منورہ میں ایک ماہ قیام فرمایاجہاں آمنہ نے آپ کووہ مکان دکھایاجہاں آپ کے والدعبد اللّٰہ فوت ہوئے تھے اوروہ جگہ بھی دکھائی جہاں وہ مدفون تھے،اس سفرکے واقعات آپ صلی اللہ علیہ وسلم کواچھی طرح یادرہے ، اس واقعہ کے ۴۷ برس بعد اللّٰہ کے حکم سے ہجرت فرماکر جب آپ مدینہ منورہ تشریف لے گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام کوچھوٹی عمرمیں اپنی والدہ کے ہمراہ سفرمدینہ کے حالات سناتے تھے،

لَمَّا نَظَرَ إِلَى أُطُمِ بَنِی عَدِیِّ بْنِ النَّجَّارِ عَرَفَهُ وَقَالَ:كُنْتُ أُلاعِبُ أُنَیْسَةَ جَارِیَةً مِنَ الأَنْصَارِ عَلَى هَذَا الأُطُمِ وَكُنْتُ مَعَ غِلْمَانٍ مِنْ أَخْوَالِی نُطَیِّرُ طَائِرًا كَانَ یَقَعُ عَلَیْهِ، وَنَظَرَ إِلَى الدَّارِ فَقَالَ: هَهُنَا نَزَلَتْ بِی أُمِّی وَفِی هَذِهِ الدَّارِ قُبِرَ أَبِی عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، وَأَحْسَنْتُ الْعَوْمَ فِی بئر بنی عدی ابن النَّجَّارِ

بنی عدی بن نجارکااطم (مربع گھر) دیکھا توفوراًپہچان لیا اور فرمایامیں یہاں انصارکی ایک لڑکی انیسہ کے ساتھ کھیلا کرتا تھا اوراپنے ننھیالی لڑکوں کے ساتھ ہم ایک چڑیاکو اڑایاکرتے تھے جواس گھرپرآکربیٹھاکرتی تھی، دارالنابغہ کودیکھ کرفرمایا یہاں میں اپنی والدہ کے ساتھ اتراتھا اور اسی گھرمیں میرے والدعبداللہ بن عبدالمطلب کی قبرہے ،اس گھرمیں میری والدہ یہاں بیٹھاکرتی تھیں ،میں نے بنی عدی بن نجارکے کنویں میں تیراکی کی خوب مشق کی تھی۔[45]

پیارے شوہرکی مفارقت کاوہ غم واندوہ جوقبردیکھنے سے تازہ ہوگیاتھاقلب پرچھاکراپناکام کر گیا۔

 تُوُفِّیَتْ أُمُّهُ آمِنَةُ بِالأَبْوَاءِ بَیْنَ مَكَّةَ وَالْمَدِینَةِ

مدینہ منورہ سے واپسی میں ابواء کے مقام پرجومکہ مکرمہ اورمدینہ منورہ کے تقریبادرمیان میں ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی والدہ ماجدہ مختصر علالت کے بعد(بیس سال کی عمرمیں ) اپنے مالک حقیقی سے جاملیں ۔[46]

اور انہیں وہیں ابواء کے مقام پرایک چھوٹی سی پہاڑی کی چوٹی پرجہاں زمین کچھ نرم تھی قبر کھود کر دفن کردیاگیا،ابن سعدکابیان ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کووہ جگہ بھی یادتھی جہاں آپ کی والدہ دفن ہوئیں ،

فَلَمَّا مَرَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فِی عُمْرَةِ الْحُدَیْبِیَةِ بِالأَبْوَاءِ قَالَ: إِنَّ اللَّهَ قَدْ أَذِنَ لِمُحَمَّدٍ فِی زِیَارَةِ قَبْرِ أُمِّهِ فَأَتَاهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَأَصْلَحَهُ وَبَكَى عِنْدَهُ ،وَبَكَى الْمُسْلِمُونَ لِبُكَاءِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَقِیلَ لَهُ، فَقَالَ: أَدْرَكَتْنِی رَحْمَتُهَا فَبَكَیْتُ

چنانچہ عمرہ حدیبیہ کے موقع پرجب آپ ابواء کے مقام سے گزرے تو فرمایا  اللّٰہ نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی ماں کی قبر پر جانے کی اجازت دے دی ہے ،پھرآپ والدہ کی قبر پر آئے ،قبرکودرست کیااور بے اختیار آپ صلی اللہ علیہ وسلم رو پڑے ، آپ کودیکھ کرصحابہ کرام بھی روپڑے، صحابہ نے عرض کیاکہ آپ نے تورونے سے منع فرماتے ہیں ،جواب دیا ان کی ممتامجھے یادآگئی اورمیں رودیا ۔[47]

حبشی خادمہ ام ایمن برکہ نے آپ کو ابواء سے مکہ تک بحفاظت آپ کے دادا عبدالمطلب کے پاس پہنچادیا ،ظہوراسلام کے وقت پہلے مشرف اسلام ہوئیں اور رسول  اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پربیت کی ،انہوں نے دو بارایک بارحبشہ کی طرف اورایک بار مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کی،رسول  اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے ام ایمن میری والدہ کے بعدمیری ماں ہیں ،رسول  اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم ان سے ملنے کے لئے ان کے گھرتشریف لے جاتے تھے،

عَنْ أَنَسٍ، قَالَ: قَالَ أَبُو بَكْرٍ رَضِیَ اللهُ عَنْهُ، بَعْدَ وَفَاةِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ لِعُمَرَ:انْطَلِقْ بِنَا إِلَى أُمِّ أَیْمَنَ نَزُورُهَا، كَمَا كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَزُورُهَا

انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعدسیدنا ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے کہاام ایمن رضی اللہ عنہا سے ملاقات کے لئے ہمارے ساتھ چلو،ہم بھی ان سے ملاقات کریں گےجیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان سے ملاقات کے لئے جایاکرتے تھے۔[48]

 عبدالمطلب کی کفالت

یَكُونُ مَعَ أُمِّهِ آمِنَةَ بِنْتِ وَهْبٍ.فَلَمَّا تُوُفِّیَتْ قَبَضَهُ إِلَیْهِ جَدُّهُ عَبْدُ الْمُطَّلِبِ وَضَمَّهُ وَرَقَّ عَلَیْهِ رِقَّةً لَمْ یَرِقَّهَا عَلَى وَلَدِهِ. وَكَانَ یُقَرِّبُهُ مِنْهُ وَیُدْنِیهِ. وَیَدْخُلُ عَلَیْهِ إِذَا خَلا وَإِذَا نَامَ، وَكَانَ عَبْدُ الْمُطَّلِبِ لا یَأْكُلُ طَعَامًا إِلا قَالَ: عَلَیَّ بِابْنِی. فَیُؤْتَى بِهِ إِلَیْه،كَانَ یُفْرَشُ لِعَبْدِ الْمُطَّلِبِ فِی ظِلِّ الْكَعْبَةِ فِرَاشٌ وَیَأْتِی بَنُوهُ فَیَجْلِسُونَ حَوَالَیِ الْفِرَاشِ یَنْتَظِرُونَ عَبْدَ الْمُطَّلِبِ وَیَأْتِی النَّبِیُّ صلّى الله علیه وسلم وَهُوَ غُلَامٌ جَفْرٌ حَتَّى یَرْقَى الْفِرَاشَ فَیَجْلِسَ عَلَیْهِ، فَیَقُولُ أَعْمَامُهُ: مَهْلًا یَا مُحَمَّدُ عَنْ فِرَاشِ أَبِیكَ فَیَقُولُ عَبْدُ الْمُطَّلِبِ إِذَا رَأَى ذَلِكَ مِنْهُ: إِنَّ ابْنِی لَیُؤْنِسُ مُلْكًا أَوْ أَنَّهُ لَیُحَدِّثُ نَفْسَهُ بِمُلْكٍ دَعُوا ابْنِی إِنَّهُ لَیُؤْنِسُ مُلْكًا

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی والدہ آمنہ بنت وہب کے ساتھ رہتے تھے ،جب وہ انتقال کرگئیں توآپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دادا عبدالمطلب نے آپ کواپنی شفقت بھری گودمیں لے لیااور اپنی صلبی اولادسے بڑھ کر آپ کے ساتھ مہربانی اورشفقت سے پیش آئے،کمال تقریب کابرتاؤ کرتے ، ہمیشہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کوہمیشہ اپنے ساتھ رکھتے،عبدالمطلب چاہے سورہے ہوتے یاوہ تخلیہ میں ہوتے آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہروقت بے تکلف ان کے پاس چلے جاتے اوران کے بستر پر بیٹھ جاتے جبکہ ان کی اولاداپنے والدکی ہیبت کی وجہ سے یہ جرات نہیں کرسکتی تھی، اور عبدالمطلب جب کھاناتناول کرنے کے لئے بیٹھتے توکہتے میرے بیٹے کومیرے پاس لاؤ ،جب تک آپ نہ آتے کھاناتناول نہ کرتے ،جب آپ آجاتے تب کھاناکھاتے اور کھلاتے ،کبھی کبھی توفرط محبت سے اٹھا کر اپنی پرشفقت گودمیں بٹھالیتے ،عبدالمطلب کے لئے خانہ کعبہ کے سائے میں ایک خاص مسند بچھائی جاتی تھی عبدالمطلب کے ادب کی وجہ سے اس پر کوئی نہیں بیٹھتا تھابلکہ اس کے اردگردبیٹھ جاتے مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم جواس وقت خوب تنومندلڑکے تھے آکر بے تکلف مسندپربیٹھ جاتے،یہ دیکھ کرآپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچاآپ کووہاں سے ہٹانا چاہتے اور کہتے اپنے باپ کے بچھونے سے ہٹ کربیٹھو،مگر عبدالمطلب( اورآپ کی غیرمعمولی جاذبیت وکشش کودیکھ کر ) کہتے میرے اس بیٹے کو چھوڑ دومیرے بیٹے سے حکومت ومملکت کی بوآتی ہے یایہ کہتے کہ وہ اپنے جی میں حکومت کی باتیں کررہاہے۔[49]

ایک روایت میں ہے اگرکبھی کوئی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کوہٹانے کی کوشش کرتاتوعبدالمطلب کہتے

دعوا ابْنی، فو الله إنَّ لَهُ لَشَأْنًا، ثُمَّ یُجْلِسُهُ مَعَهُ عَلَى الْفِرَاشِ ، وَیَمْسَحُ ظَهْرَهُ بِیَدِهِ، وَیَسُرُّهُ مَا یَرَاهُ یَصْنَعُ

میرے بیٹے کویوں ہی بیٹھے رہنے دوکیونکہ اللہ کی قسم !اس کی توشان بڑی نرالی ہےاورساتھ ہی فرط محبت سے آپ کی پشت پرہاتھ پھیرتےاورآپ کے اس اندازشاہانہ اوراستغناء کودیکھ کرخوش ہواکرتے۔[50]

xرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاہرکام میں کامیاب وکامران لوٹنا۔

عَنْ كِنْدِیرِ بْنِ سَعِیدٍ، عَنْ أَبِیهِ قَالَ:حَجَجْتُ فِی الْجَاهِلِیَّةِ فَإِذَا أَنَا بِرَجُلٍ، یَطُوفُ بِالْبَیْتِ وَهُوَ یَرْتَجِزُ وَیَقُولُ:

رَبِّ رُدَّ إِلَیَّ رَاكِبِی مُحَمَّدًا، رُدَّهُ إِلَیَّ وَاصْطَنِعْ عِنْدِی یَدَا

فَقُلْتُ: مَنْ هَذَا؟ فَقَالُوا: عَبْدُ الْمُطَّلِبِ بْنُ هَاشِمٍ بَعَثَ بِابْنِ ابْنِهِ مُحَمَّدٍ فِی طَلَبِ إِبِلٍ لَهُ وَلَمْ یَبْعَثْهُ فِی حَاجَةٍ، إِلَّا أَنْجَحَ فِیهَا وَقَدْ أَبْطَأَ عَلَیْهِ فَلَمْ یَلْبَثْ أَنْ جَاءَ مُحَمَّدٌ وَالْإِبِلُ فَاعْتَنَقَهُ وَقَالَ: یَا بُنَیَّ لَقَدْ جَزِعْتُ عَلَیْكَ جَزَعًا لَمْ أَجْزَعْهُ عَلَى شَیْءٍ قَطُّ وَاللَّهِ لَا أَبْعَثُكَ فِی حَاجَةٍ أَبَدًا، وَلَا تُفَارِقُنِی بَعْدَ هَذَا أَبَدًا

کندیربن سعیداپنے والدسے روایت کرتے ہیں زمانہ جاہلیت میں اسلام سے قبل حج کے لئے مکہ مکرمہ حاضرہوا ،میں نے وہاں ایک شخص کوبیت اللہ کے طواف کے دوران یہ دعاپڑھتے ہوئے سنااے میرے پروردگار!میرے سوامحمد کو واپس بھیج اورمجھ پرایک احسان فرما،میں نے لوگوں سے پوچھایہ شخص کون ہے ؟لوگوں نے بتلایایہ عبدالمطلب ہیں ، ان کاایک اونٹ گم ہوگیاتھا،اس اونٹ کی تلاش کے لئے انہوں نے اپنے پوتے محمدبن عبداللہ کوبھیجاہے کیونکہ جب بھی عبدالمطلب نے انہیں کسی کام سے روانہ کیاہے اس میں وہ کامیاب وکامران ہی لوٹاہے مگروہ ابھی تک لوٹ کرنہیں آیا،اس لئے عبدالمطلب بے چین ہو کر شعرپڑھ رہے ہیں کچھ دیرنہ گزری تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس اونٹ کی مہارپکڑے واپس آتے نظرآگئے،دیکھتے ہی عبدالمطلب نے آپ کو سینے سے لگا لیا اور کہابیٹا میں تمہاری وجہ سے بے حدپریشان تھااب میں تمہیں کبھی اپنے سے جدانہیں کروں گا۔[51]

x قبیلہ بنی مدلج جوقیافہ شناسی میں مشہور تھا ۔

وَقَالَ قَوْمٌ مِنْ بَنِی مُدْلِجٍ لِعَبْدِ الْمُطَّلِبِ: احْتَفِظْ بِهِ فَإِنَّا لَمْ نَرَ قَدَمًا أَشْبَهَ بِالْقَدَمِ الَّتِی فِی الْمَقَامِ مِنْهُ ،فقال عَبْدُ الْمُطَّلِبِ لأَبِی طَالِبٍ: اسْمَعْ مَا یَقُولُ هؤلاء فكان أبو طالب یحتفظ به

قبیلہ بنی مدلج جوقیافہ شناسی میں مشہور تھا کے چندلوگوں نے عبدالمطلب سے کہااس بچے کی خاص حفاظت کرنا کیونکہ ہم نے کوئی نشان قدم ایسانہیں دیکھاجومقام ابراہیم پر ابراہیم علیہ السلام کے نشان قدم سے اس قدرمشابہت رکھتاہوجیسی اس بچے کانشان قدم ہے،اس موقعہ پرابوطالب موجودتھے عبدالمطلب نے ان سے کہاکہ جوبات یہ لوگ کہہ رہے ہیں اسے غورسے سنواوراس کی حفاظت کرو،اسی وجہ سے ابوطالب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت کیاکرتے تھے۔[52]

یہ بات صرف اس قیافہ شناس ہی کی نہیں تھی آپ کے چچا،پھوپھیاں ، دوست احباب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پاکیزہ سیرت کو دیکھ کریہی کہتے تھےوہ بہت بڑا آدمی بننے والاہے۔[53]

x أَنَّ رَجُلًا مِنْ لَهَبٍ قَالَ ابْنُ هِشَامٍ: وَلَهَبٌ مِنْ أَزْدَشَنُوءَةَ- كَانَ عَائِفًا، فَكَانَ إذَا قَدِمَ مَكَّةَ أَتَاهُ رِجَالُ قُرَیْشٍ بِغِلْمَانِهِمْ یَنْظُرُ إلَیْهِمْ وَیَعْتَافُ لَهُمْ فِیهِمْ. قَالَ: فَأَتَى بِهِ أَبُو طَالِبٍ وَهُوَ غُلَامٌ، مَعَ مَنْ یَأْتِیهِ، فَنَظَرَ إلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ شَغَلَهُ عَنْهُ شَیْءٌ، فَلَمَّا فَرَغَ قَالَ: الْغُلَامُ عَلَیَّ بِهِ، فَلَمَّا رَأَى أَبُو طَالِبٍ حِرْصَهُ عَلَیْهِ غَیَّبَهُ عَنْهُ، فَجَعَلَ یَقُولُ: وَیْلَكُمْ، رُدُّوا عَلَیَّ الْغُلَامَ الَّذِی رَأَیْت آنِفا، فو الله لَیَكُونَنَّ لَهُ شَأْنٌ. قَالَ: فَانْطَلَقَ أَبُو طَالِبٍ

( ازدشنواہ کی شاخ قبیلہ)بنی لہب میں سے ایک شخص مکہ مکرمہ آیا،یہ شخص علم قیافہ میں ماہرتھا،وہ جب کبھی آتاقریش کے لوگ اپنے اپنے بچوں کولے کراس شخص کے پاس آئے تاکہ اس سے ان بچوں کے آئندہ حالات معلوم کریں ،ابوطالب بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کولے کراس کے پاس آئے،اس قیافہ شناس شخص نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کوایک نظر دیکھامگرپھرکسی اورطرف مشغول ہوگیاجب وہ ادھرسے فارغ ہواتواس نے کہااس لڑکے کولاؤ جسے ابھی تھوڑی دیرقبل میں نے دیکھا تھا ،اس کومجھ سے جلد ملاؤ ،وہ لڑکا ہونہار معلوم ہوتاہے اورضروراس کی شان ظاہرہوگی ،ابوطالب نے جب دیکھاکہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کودیکھنے کی بڑی بے تابی کااظہارکررہاہے توانہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کوغائب کردیا۔[54]

لیکن داداکی یہ محبت وشفقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کوزیادہ دیرتک میسرنہ رہی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دوسال کفالت کے بعدجبکہ واقعہ الفیل کوآٹھ یانو سال گزر چکے تھے ، مختلف اقوال کے مطابق عبدالمطلب بیاسی ،پچاسی ،ایک سودس ،ایک سوبیس کی عمرمیں ۵۷۸ء کو انتقال کرگئے اور جحون میں اپنے داداقصیٰ کی قبرکے قریب مدفون ہوئے ،ان کی موت نے بنوہاشم کا جورتبہ امتیازتھادفعتہ گھٹادیااوردینوی اقتدارکے لحاظ سے بنوامیہ کاخاندان بنوہاشم پرغالب آگیا ،اورامیہ کانامورفرزندحرب عبدالمطلب کی مسندپرجابیٹھاصرف سقایہ کا عہدہ عبدالمطلب کے سب سے چھوٹے بیٹے عباس رضی اللہ عنہ کے ہاتھ میں رہا۔

قَالَتْ أُمُّ أَیْمَنَ: رَأَیْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَوْمَئِذٍ یَبْكِی خَلْفَ سَرِیرِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ

ام ایمن کہتی ہیں جب عبدالمطلب کاانتقال ہوا تو میں نے دیکھاآپ صلی اللہ علیہ وسلم عبدالمطلب کے تابوت کے پیچھے پیچھے رورہے تھے۔ [55]

وسئل رسول الله صلى الله علیه وسلم: أتذكر موت عبد المطلب؟قال: نعم، أنا یومئذ ابن ثمانی سنین.

ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیاگیا کہ آپ کوعبدالمطلب کی وفات یادہے ،آپ نے فرمایا میری عمر اس وقت آٹھ سال کی تھی۔[56]

ایک روایت میں ہے اس وقت آپ کی عمرآٹھ سال دوماہ اوردس دن کی تھی۔[57]

ابوطالب کی کفالت

عبدالمطلب کی وفات کے بعدسقایہ کامنصب عبدمناف (ابوطالب)کوملامگرکیونکہ یہ عیال دارتھے اوراپنی معذوری کی وجہ سے تجارتی سفرنہ کرسکتے تھے ، بس مکہ میں ہی عطربناکرفروخت کردیاکرتے تھے اس بناپرمالدارنہ تھے اور اپنی گھریلو ضروریات کوپوراکرنے کے لئے یہ اپنے بھائی عباس رضی اللہ عنہ سے قرض لے لیا کرتے تھے جسے یہ ادانہ کرسکے اورشرط کے مطابق انہیں سقایہ کامنصب اپنے بھائی عباس رضی اللہ عنہ کے حوالے کردیناپڑاجوزمانہ اسلام میں بھی ان کے پاس رہا،

لأن أبا طالب كان كثیر العیال، فقیر الحال

احمد غلوش اورمنیر محمد الغضبان لکھتے ہیں ابوطالب کثیرالعیال اورفقیرالحال تھے۔[58] تاریخوں اور سیرت کی کتابوں میں لکھاجاتاہے کہ عبدالمطلب کے انتقال کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی کفالت آپ کے چچا عبدمناف (اپنے بڑے بیٹے طالب کی وجہ سے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کاہم عمر تھا اورآپ سے بہت محبت کرتا تھا کنیت ابوطالب اتنی مشہورہوئی کہ اصل نام دب گیا، قریش مکہ جب جنگ بدرکے لئے گئے تومجبورکرکے طالب کو بھی لڑنے کے لئے ساتھ لے گئے مگراس نے جنگ میں کوئی حصہ نہیں لیابعدمیں نہ وہ زخمیوں میں ملانہ مقتولوں میں اور نہ ہی واپس مکہ پہنچااس کاکچھ پتہ نہ چلاکہ وہ کہاں گم ہوگیا )نے کی ،اس سلسلے میں ہم کچھ تاریخی مواد پیش کرتے ہیں فیصلہ آپ خودکرلیں کہ کفالت کس نے کی ۔

جب عبدالمطلب فوت ہوئے اس وقت ان کے چھ بیٹے زندہ تھے ،زبیر،حارث،عبدمناف (ابوطالب) عبدالعزیٰ (ابولہب) عباس رضی اللہ عنہ اور حمزہ رضی اللہ عنہ ۔زبیر،عبد اللّٰہ اور عبد مناف تینوں ایک ماں فاطمہ بنت عمرو کے بطن سے سگے بھائی تھے،ان میں زبیر سب سے بڑے اور اپنے زمانہ کے تاجر اور صاحب ثروت شخص تھے،

وَالزُّبَیْرَ. وَكَانَ شَاعِرًا شَرِیفًا. وَإِلَیْهِ أَوْصَى عَبْدُ الْمُطَّلِبِ

زبیر شاعراور باعزت شخص تھے اوران ہی کو عبدالمطلب نے اپناوصی کیاتھا۔[59]

لیکن زبیربن عبدالمطلب تووہ قریش کے معززاور باوقار سرداروں میں سے تھا ۔[60]

عَبْدِ الْمُطَّلِبِ بن هاشم. و الزبیر بن عَبْدِ الْمُطَّلِبِ.و أبو طالب بن عَبْدِ الْمُطَّلِبِ

بنی ہاشم میں عبدالمطلب کے بعد زبیراور ان کے بعد عبدمناف (ابوطالب) سردار ہوئے۔[61]

الزّبیر بن عَبْدِ الْمُطَّلِبِ ، فكان من رجالات قریش

زبیربن عبدالمطلب قریش کے جواں مردوں میں سے تھے۔[62]

وكان الزبیر أحد حكام قریش

اورزبیر قریش کے ایک سردارتھے۔[63]

فكان فی بنی هاشم:الزُّبَیْرِ، وأبوطَالِبٍ،وَحَمْزَةَ، والْعَبَّاسَ بنوعَبْدُ الْمُطَّلِبِ

حرب بن امیہ کے مرنے کے بعدجب عہدوں کی تقسیم ہوئی تو ہاشمی خاندان میں بالترتیب زبیر، ابوطالب، حمزہ رضی اللہ عنہ اور عباس رضی اللہ عنہ سردارہوئے۔[64]

كفله الزُّبَیْرِ حین مات عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، ثم كفله أبوطَالِبٍ : أی بعد موت الزُّبَیْرِ

عبدالمطلب کی وفات کے بعدمحمد صلی اللہ علیہ وسلم کی کفالت زبیرنے کی اوران کی موت کے بعدابوطالب نے کفالت کی۔[65]

ولرَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ من العمر نیف وعشرون سنة

جب ۵۸۱ عیسوی میں جنگ فجار ہوئی جس میں تقریبا ًباعمربیس سال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی شریک ہوئے تھے۔[66]

اس جنگ میں بنوہاشم کے سردار زبیر تھے۔[67]

ابوطالب کااس لڑائی میں کہیں ذکر نہیں ،شرح ابن ابی الحدید میں ہے کہ زبیررحیم کریم اورانصاف پرور تھے۔

عرب کے چندنیک فطرت لوگوں نے کبھی ایک عہدکیاتھا جومظلوموں کی اعانت کے سلسلہ پرمحیط تھالوگوں کواس کی یاد تو تھی مگراس پر عمل متروک ہوچکا تھا،جنگ فجار( یہ جنگ حرمت والے مہینہ یعنی محرم الحرام میں لڑی گئی تھی )کے بعد

أن الزُّبَیْرَ بن عَبْدُ الْمُطَّلِبِ وعَبْدَ اللَّه ابن جدعان ورؤساء هذه القبائل اجتمعوا فاحتلفوا لا یدعوا أحدا یظلم بمكة أحدا إلا نصروا الْمَظْلُومَ على الظالم وأخذ وا له بحقه

زبیربن عبدالمطلب نے عبد اللّٰہ بن جدعان کے مکان پرتمام قبائل کوجمع کیا اور اس عہدکی ازسرنو تجدیدکی کہ مکہ مکرمہ میں کسی پرظلم نہیں ہونے دیاجائے گااورمظلوم کو اس کاحق دلوایاجائے گا ،اس حلف کو حلف الفضول کہاجاتاہے۔[68]

ثم مات عمه الزُّبَیْرَ وله من العمر أربع عشرة سنة

حلف الفضول کے بعد جب زبیر فوت ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی عمر چودہ برس تھی۔[69]

اب اس پہلو پرغور کریں زبیر کے مرنے کے بعد

عَبْدُ مَنَافٍ. وَعَبْدَ الْكَعْبَةِ وزعمت الروافض أن اسمه عمران

عبدمناف، عبدکعبہ (ابوطالب) اورروافض کہتے ہیں ان کانام عمران تھا،جوکثیرالعیال انسان تھاخاندان کاسردارہوا، اورایک پاوں سے پیدائشی لنگڑے تھے۔

المعارف میں قریش کے مختلف خاندانوں کے جسمانی نقائص والوں کی ایک فہرست دی ہے جس میں العرج (لنگڑے ) کے عنوان کے تحت فہرست میں پہلا نمبر عبدمناف (ابوطالب) کاہے۔

العرج :وأبو طَالِبٍ، عَمُّ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ

لنگڑے:ابوطالب،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاچچا ۔[70]

قریش کا ذریعہ معاش تجارت ہی تھا، قریش تجارت کی غرض سے اپنے قافلے سردیوں اور گرمیوں میں دوردرازملکوں شام اور یمن کی طرف بھیجتے تھے ابوطالب اپنی جسمانی معذوری کے باعث اتنے لمبے سفرکی صعوبت برداشت کرنے سے معذورتھے ، اس لئے اپنی گزر اوقات کے لئے گھرپر ہی خوشبوئیں بناکربیچ لیتے تھے جس کی وجہ سے ان کی مالی حالت اپنے باپ کی زندگی ہی سے بہت کمزورچلی آتی تھی۔(ابن قتیبہ )

یہی وجہ ہے کہ عبدالمطلب کی سرداری یاان کے بعدزبیر کی سرداری کے زمانہ میں اورنہ ہی عہد جاہلیت کے کسی اہم واقعات جیسے جنگ فجاراورحلف الفضول وغیرہ میں ان کاذکرنہیں ملتا، یہاں تک کہ اپنی مالی کمزوری کے باعث وہ اپنے خاندانی عہدے کو بھی نبھا نے سے قاصر تھے اس لئے سقایہ اوررفادہ وغیرہ کے اموران کی جگہ انکے بھائی عباس رضی اللہ عنہ سرانجام دیتے تھے۔

فیصلہ آپ خودکریں عبدالمطلب نے مرتے وقت محمد رسول  اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کفالت کس کے سپردکی ہوگی،ایک طرف صاحب حیثیت ،بلندکردار، غریبوں کا ہمدرداورجرات مند ، خاندان میں نہایت عزیزاورمحبوب بڑا بیٹا ہے ،جوخاندان کا سردار ہوا، جنہیں اپنے یتیم بھتیجے سے بے پناہ محبت اورغیرمعمولی انس تھا۔

إنّ الزُّبَیْرَ بن عَبْدِ الْمُطَّلِبِ كان یرقص النبیّ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ هو صغیر ویقول : مُحَمَّد بن عبدم. عشت بِعَیْشٍ أنعم. فی عزّ فرع أسنم

زبیربن عبدالمطلب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کوجب آپ بچے تھےگودمیں اٹھائے اورہاتھوں پر جھلائے پھرتے تھے اورکہتے تھے یہ محمد میرے بھائی عبد اللّٰہ کی نشانی ہے بڑے آرام سے جئے اوربڑی اعلیٰ عزت وتوقیر پائے۔[71]

کیازبیرنے صاحب ثروت ہوتے ہوئے اپنے چہیتے بھتیجے کوفاقوں مرنے کے لئے عبد مناف کے سپردکردیاتھا۔

زبیرکاایک بیٹاجس کانام اپنے بھائی کے نام پرعبد اللّٰہ رکھا گیا تھا یہ رسول  اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہدرسالت میں جوان تھے،

أنّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ الزُّبَیْرِ أتى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فكساه حلّة، وأقعده إلى جنبه ، وقال:إنّه ابن أمّی ، وكان أبوه بی برّا

جب عبداللہ بن زبیر رسول  اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کواپنے پہلومیں جگہ دیتے اورنہایت محبت سے پیش آتے اور فرماتے یہ میرا بھائی اورمیری ماں (دادی)کابیٹاہے اس کاباپ مجھ سے بڑا نیک سلوک کرتاتھا۔[72]

اور رسول  اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بیٹے کانام طاہر ، زبیرکے ایک بیٹے طاہر کے نام پررکھاتھااسی طرح صفیہ رضی اللہ عنہا نے اپنے بیٹے کانام اپنے بھائی کے نام پرجن کے مرنے پر انہوں نے مرثیہ کہاتھازبیررکھاتھا، صفیہ رضی اللہ عنہا نے زبیر کے علاوہ اپنے کسی اور بھائی پر مرثیہ نہیں کہا۔زبیرکی چاربیٹیاں تھیں جن کے ساتھ رسول  اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بچپن اورآغازشباب گزراتھا جو سب دائرہ اسلام میں داخل ہوئیں اور دوسری طرف معمولی حیثیت کا ایک اپاہج اورکثیرالعیال چھوٹا بیٹا ہے، واقدی نے مختلف سندوں کے ساتھ بیان کیاہے

وَكَانَ إِذَا أَكَلَ عِیَالُ أَبِی طَالِبٍ جَمِیعًا أَوْ فُرَادَى لَمْ یَشْبَعُوا. وَإِذَا أَكَلَ مَعَهُمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ شَبِعُوا ،فَیَأْتِی رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَیَأْكُلُ مَعَهُمْ فَكَانُوا یُفْضِلُونَ مِنْ طَعَامِهِمْ . وَإِنْ لَمْ یَكُنْ مَعَهُمْ لَمْ یَشْبَعُوا

عبدمناف(ابوطالب) کومال کی ایسی تنگی تھی کہ ان کے گھرانے والے کھاناخواہ سب مل کرکھاتے یا جدا جدا ، کسی کاپیٹ نہیں بھرتا تھا لیکن جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کھاتے تو سب سیر ہوجاتے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آتےاورساتھ کھانا کھاتے تو کھانابچ بھی جاتا اور اگرآپ صلی اللہ علیہ وسلم ساتھ کھانانہ کھاتے تولڑکوں کوپیٹ بھرکرکھانانصیب نہ ہوتا۔[73]

یعنی کبھی کبھی رسول  اللّٰہ اپنے چچا کوملنے کے لئے جاتے ہوں اورہوسکتاہے وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کوکھانے پرروک لیتے ہوں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے ہمراہ کھانا کھاتے ہوں تواس وقت ان کاپیٹ بھی بھرجاتاتھالیکن اگرمستقل طورپر رہتے ہوتے توپھرگھر والوں کوکبھی بھی فاقہ کی نوبت نہ آتی ،یعنی یہ کہانی تو خود ثابت کررہی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم عبدمناف کے گھر نہیں رہتے تھے

وقیل اقترع أبو طالب هو والزُّبَیْرِ شقیقه فیمن یكفله صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ منهما، فخرجت القرعة لأبی طالب

یہ بھی کہاجاتاہے کہ عبدالمطلب نے کفالت کے لئے زبیر اور عبد مناف(ابوطالب) کے درمیان قرعہ اندازی کی اورقرعہ ( عبدمناف) ابوطالب کے نام نکلا۔[74]

مگر قرعہ اندازی صرف ان دو بیٹوں کے ہی درمیان کیوں ہوئی کیاعبدالمطلب کے ان دوکے علاوہ اور بیٹے نہیں تھے؟قرعہ اندازی تو پھرچھ بیٹوں کے درمیان ہونی چاہیے تھی،

فسیأتی أنه كان مشاركا له فی كفالته

ایک بات یہ بھی کہی جاتی ہے کہ چچا زبیر اورعبدمناف دونوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی کفالت کی۔[75]

لیکن غورطلب مقام یہ ہے کہ زبیر تو ایک رئیس تھے اور کفالت کرنے کے اہل بھی تھے پھرعبدمناف کوجوغریب آدمی تھا کفالت میں ساتھ شامل کرنے کی کیاضرورت پیش آگئی تھی،ایک بات یہ بھی کہی جاتی ہے کہ زبیر کے مرنے کے بعدآپ صلی اللہ علیہ وسلم کی کفالت چچا عبد مناف نے کی، مگر زبیر جنگ فجارکے بعد معاہدہ حلف الفضول کے بعدفوت ہوئے،

 یَوْمَئِذٍ ابْنُ عِشْرِینَ سَنَةً

اوراس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر مبارک تقریباً بیس (۲۰) سال کی تھی۔[76]

اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم آزادانہ تجارت کاشغل اپناچکے تھے،اس وقت عبدمناف(ابوطالب) کوآپ صلی اللہ علیہ وسلم کی کفالت کی ضرورت ہی نہ تھی ، رسول  اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تبلیغ کا سلسلہ شروع کرتے ہی قریش مکہ سے اذیتیں پہنچتی ہیں ،آپ تاریخ کاگہری نظر سے مطالعہ کرلیں آپ اس میں اشارہ تک نہیں پائیں گے کہ عبدمناف (ابوطالب)نے یا اس کی اولاد میں سے کسی نے رسول  اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جسمانی معاونت یامدد کے لئے ہاتھ بڑھایاہوابوطالب کی اعانت صرف زبانی حدتک محدودتھی ، آپ کو صرف عبد اللّٰہ (سیدناابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ )کانام نظرآئے گایاپھرچندسال بعد ابوجہل کی بدکلامی کے سلسلہ میں حمزہ رضی اللہ عنہ سیدالشہداکانام نظرآئے گا۔

چچاسے رشتہ طلب کرنا

اب آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھرپورجوان ہوچکے تھے،

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ خَطَبَ إِلَى عَمِّهِ أَبِی طَالِبٍ أُمَّ هَانِئٍ قَبْلَ أَنْ یُوحَى إِلَیْهِ، وَخَطَبَهَا مَعَهُ هُبَیْرَةُ بْنُ أَبِی وَهْبٍ فَزَوَّجَهَا هُبَیْرَةَ،

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہےاس لئے اپناگھر بسانے کے لئےوحی سے قبل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے چچا عبدمناف (ابو طالب)کوان کی بیٹی ام ہانی(جن کانام ابن ہشام کے مطابق ہند،البرقی کی رائے کے مطابق رملہ اورابن وضاح جوقرطبہ کے عظیم محدث تھے کے مطابق فاختہ تھا)

وأم هانی، واسمها: فاختة، ویقولون: هند

اور مصعب بن عبد الله کے مطابق اورام ہانی جن کانام فاختہ تھااوریہ بھی کہاجاتاہے کہ ان کانام ہندتھا۔[77]

کے لئے پیغام نکاح بھیجامگر شفیق چچا نے انکارکردیااورام ہانی کانکاح اپنے ماموں کے بیٹے ہبیرة بن ابی وہب سے کردیا(ابوطالب کایہی دامادرسول  اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں ہجو بکتارہا ،ہر غزوہ میں مقابلے پر آتا رہااور بالآخر فتح مکہ کے روز نجران کی طرف بھاگ گیااور حالت کفرہی میں مرگیا )

فَقَالَ لَهُ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:یَا عَمُّ، زَوَّجْتَ هُبَیْرَةَ وَتَرَكْتَنِی ،فَقَالَ: یَا ابْنَ أَخِی أَنَا صَاهَرْتُ إِلَیْهِمْ وَالْكَرِیمُ یُكَافِئُ الْكَرِیمَ

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب اپنے تایا سے شکوہ کیاکہ آپ نے ام ہانی کانکاح ہبیرہ سے کردیااورمجھے چھوڑدیاتواس شفیق تایا نے جواب دیا،اےبھتیجے !ہم نے ان لوگوں کے ساتھ سسرالی روابط قائم کیے ہیں اوراشراف کا میل اشراف سے ہی ہوتاہے۔[78]

مگرتو توایک محتاج آدمی ہے(اپنی حالت پرتوجہ نہیں کی کہ گھرمیں کھانے تک کونہیں ) کیاایسے تایا سے یہ امیدکی جا سکتی ہے کہ اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی کفالت کی ہوگی ، جبکہ اس کے اپنے بچے بھوک کا شکار تھے ،رسول  اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ام المومنین خدیجہ الکبریٰ رضی اللہ عنہا سے شادی ہوچکی تھی، جس روزسیدنا علی رضی اللہ عنہ بن ابی طالب پیداہوئے اس روزرسول  اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چچا عباس رضی اللہ عنہ سے فرمایاآپ توجانتے ہیں میرا چچا ابو طالب تنگ دست ہے کیوں نہ ہم اس سے ایک ایک بیٹالے کر اس بیٹے کی ذمہ داری اپنے اپنے ذمہ لے لیں ، عباس رضی اللہ عنہ اس پرتیارہوگئے ، ابوطالب کے دوبیٹے طالب اور عقیل جوان ہو چکے تھے،چنانچہ عباس رضی اللہ عنہ نے جعفر رضی اللہ عنہ کو اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نےسیدنا علی رضی اللہ عنہ کو لے لیا ، اس طرح ابو طالب پراب اپنی بیوی کے سوااورکوئی ذمہ داری نہ رہی تھی۔

اب ایک اورپہلوکی طرف توجہ کریں ،آپ نے چچازبیراورعبدمناف کے حالات پڑھے مگرایک اورسوال پیداہوتاہے کہ عباس رضی اللہ عنہ جوآپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ڈیڑھ دوسال اور حمزہ رضی اللہ عنہ سیدالشہداء بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے صرف چھ ماہ بڑے تھے ،عبدالمطلب کے مرنے کے بعدوہ بھی تویتیم ہوئے تھے ،محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح ان کوبھی کفالت کی ضرورت تھی ان کی کفالت کس نے کی ،کیازبیرنے جوایک بہادر،سخی ،فیاض اورصاحب ثروت تھا کیااس نے اپنے بھائیوں کی کفالت کابوجھ اٹھایا؟کیاعبدالعزیٰ (ابولہب )نے جوایک سرمایہ دار شخص تھا نے اپنے بھائیوں کی کفالت کی؟ نہیں زبیرہویاعبدالعزیٰ دونوں نے اپنے بھائیوں تک کی کفالت کرناتوگوارہ نہیں کی وہ بھتیجے کی دس بارہ سال کفالت کیوں کرتے ، تاریخ کی کسی کتاب میں کہیں یہ ذکرنہیں ملتاکہ عباس رضی اللہ عنہ کی کفالت کس نے کی البتہ جمهرة أنساب العرب میں علامہ ابن حزم نے حمزہ رضی اللہ عنہ بن عبدالمطلب کے بارے میں لکھاہے کہ ان کی پرورش ان کی نانی نے کی تھی جورسول  اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بھی نانی تھیں ، توپھررسول  اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دس بارہ سال کیسے گزارے کیاان کے والدعبد اللّٰہ نے کافی ترکہ چھوڑا تھاجس کے سہارے زندگی کے یہ دن گزارے ،ایسابھی نہیں ہے عبد اللّٰہ کوئی بڑے سرمایہ دارنہیں تھے،

تَرَكَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ أُمَّ أَیْمَنَ وَخَمْسَةَ أَجْمَالٍ أَوَارِكٍ. یَعْنِی تَأْكُلُ الأَرَاكَ. وَقَطْعَةَ غَنَمٍ. فَوَرِثَ ذَلِكَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فكانت أُمُّ أَیْمَنَ تَحْضُنُهُ وَاسْمُهَا بَرَكَةُ

اس نے توصرف ایک مکان ،پانچ اونٹ چندبکریاں ایک حبشی لونڈی ام ایمن برکہ ترکہ میں چھوڑی تھی اوریہ وراثت آپ کومل گئی تھی۔[79]

اگر کوئی بڑی وراثت ہوتی بھی توبھی عرب کے قانون کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ وسلم کونہ ملتی کیونکہ زمانہ جاہلیت میں اہل عرب نہ توعورتوں کووراثت دیتے تھے اورنہ چھوٹے بچوں کوچاہے وہ لڑکاہی کیوں نہ ہوتاالبتہ رہائشی مکان پرقبضہ نہیں کیاجاتاتھا،اس کی وہ یہ دلیل پیش کرتے تھے کہ مال وراثت اس شخص کے علاوہ کسی کو نہیں دیاجاسکتاجوگھوڑے کی پشت پرسوار ہو کر جنگ کرے نیزے سے کسی کوزخمی کرے ،تلوارسے لڑے اورمال غنیمت حاصل کرے، اس صورت میں اگرعبد اللّٰہ نے کوئی بڑاسرمایہ چھوڑاتھاتووہ ایسے شخص کے قبضہ میں چلاگیا ہو گاجولڑنے کی طاقت وقوت رکھتاہوگا،یعنی زبیربن عبدالمطلب یا پھر عبدالعزیٰ (ابولہب)ہضم کرگئے لیکن قرآن مجیدکے مطابق ایسابھی نہیں ہوا،قرآن مجیدتویہ کہہ رہا ہے،

 اَلَمْ یَجِدْكَ یَتِیْمًـا فَاٰوٰىٰ [80]

ترجمہ:کیا اللّٰہ نے آپ کویتیم نہیں پایا توپھر آپ کو ٹھکانہ دیا ۔

وَوَجَدَكَ عَاۗىِٕلًا فَاَغْنٰى [81]

ترجمہ:اور اللّٰہ نے آپ کومحتاج پایا تو غنی کیا ۔

یعنی عبدالمطلب کی وفات کے بعدآپ صلی اللہ علیہ وسلم پرتنگ دستی اور فقروفاقہ کاوقت بھی گزرااورآپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دونوں سرمایہ دارچچاوں نے نہ تواپنے بھائیوں اور نہ ہی اپنے بھتیجے کی کوئی مدد کی،اور  اللّٰہ نے جوٹھکانہ عطافرمایاوہ کسی غیرکی ملکیت نہ تھابلکہ آپ کااپناتھا،رسول  اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم اب ہوش مند ہو چکے تھے بچپن میں حلیمہ سعدیہ کے بچوں کے ساتھ بکریاں چراچکے تھے ،اس لئے گزراوقات کے لئے کسی کا احسان اٹھاناگوارانہ فرمایابلکہ اپنی گزراوقات کا ذریعہ خود پیدا کیا اور وہ ذریعہ کیاتھا ،

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:مَا بَعَثَ اللَّهُ نَبِیًّا إِلَّا رَعَى الغَنَمَ، فَقَالَ أَصْحَابُهُ: وَأَنْتَ؟ فَقَالَ:نَعَمْ، كُنْتُ أَرْعَاهَا عَلَى قَرَارِیطَ لِأَهْلِ مَكَّةَ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول  اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ کوئی نبی ایسانہیں گزراجس نے بکریاں نہ چرائی ہوں ، صحابہ کرام نے پوچھا یا رسول  اللّٰہ کیاآپ نے بھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاہاں میں بھی چند قیراط (اس زمانہ کا سکہ جو دیناریااشرفی کے بیسویں حصہ کے برابرہوتاتھا) کے عوض اہل مکہ کی بکریاں چرایا کرتاتھا۔[82]

عَنْ عُبَیْدِ بْنِ عُمَیْرٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: مَا مِنْ نَبِیٍّ إِلا قَدْ رَعَى الْغَنَمَ.قَالُوا : وَأَنْتَ یَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ: وَأَنَا

عبیدبن عمیرسے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکوئی نبی ایسا نہیں گزرا جس نے بکریاں نہ چرائی ہوں ،لوگوں نے عرض کیاکیا آپ نے بھی چرائی ہیں ؟فرمایاہاں میں نے بھی چرائی ہیں ۔[83]

بُعِثَ مُوسَى صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ رَاعِی غَنَمٍ وَبُعِثَ دَاوُدُ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ رَاعِی غَنَمٍ وَبُعِثْت، وَأَنَا رَاعِی غَنَمِ أَهْلِی بِأَجْیَادِ

اللہ تعالیٰ نے موسی علیہ السلام کومبعوث کیاانہوں نے بکریاں چرائیں ، اور داودؑکومبعوث کیاوہ بھی بکریاں چرایاکرتے تھےاورمیں نےجیادوالوں کی بکریاں چرائی ہیں ۔[84]

توکیاابوطالب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اہل مکہ کی بکریاں چرواکراپناپیٹ بھرتا تھا پھرتو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا چچا پر احسان ہوانہ کہ چچاکابھتیجے پر۔

عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ:كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بمر الطّهْرَانِ، ونحن نَجْنِی الْكَبَاثَ، فَقَالَ النبی صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:عَلَیْكُمْ بِمَا اسْوَدَّ مِنْهُ،فَإِنَّهُ أَطْیَبُهُ فإنی كنت أجنیه إذ كنت أرعى الغنم ، فقلنا: یَا رَسُولَ اللَّهِ، كأنك رَعَیْت الْغَنَمَ؟قَالَ:نَعَمْ، وَمَا مِنْ نَبِیٍّ إِلَّا وَقَدْ رَعَاهَا

جابربن عبد اللّٰہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےایک مرتبہ ہم مقام الطہران میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے اوروہاں پیلوکے پھل چن رہے تھے آپ نے فرمایاکہ تمہیں کالے پھل چننے چاہئیں کیونکہ وہ زیادہ خوش ذائقہ اورلذیذ ہوتے ہیں جب میں بکریاں چرایاکرتاتھاتووہی چنا کرتا تھا،لوگوں نے عرض کیا اے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم آپ بکریاں چرایاکرتے تھے ؟فرمایاہاں کوئی نبی ایسانہیں گزراجس نے بکریاں نہ چرائی ہوں ۔[85]

منصب نبوت کے فریضہ کی ادائیگی جن اوصاف وخصوصیات کی حامل ہوتی ہے یا یوں کہئے کہ نبی کو اپنی ذمہ داریوں سے عہدہ بر آ ہونے کے لیے معاشرہ اور سماج سے جو قریبی ربط وتعلق رکھنا پڑتا تھا اس کے لئے چونکہ یہ ضروری تھا کہ دعوت وتبلیغ اور اصلاح اور رہنمائی کے کسی بھی موڑ پر پورے معاشرے کے افراد اور نبی کے درمیان اجنبیت اور غیریت کی دیوار حائل نہ رہے، اس لئے قدرت کی طرف سے ابتداء میں نبی کو ایک ایسے تربیتی اور آزمائشی دور سے گزارا جاتا تھا جسکے بعض مرحلے بظاہر تو بہت نچلی سطح کے معلوم ہوتے تھے لیکن نتائج واثرات کے اعتبار سے وہی مرحلے بہت ہی دور رس اور کار آمد ثابت ہوتے تھے،ایسا ہی ایک مرحلہ بکریوں کا چرانا بھی ہے جو اگرچہ بہت معمولی درجہ کی چیز معلوم ہوتی ہے لیکن اگر غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ یہی بکریوں کا چرانا محبت وشفقت محنت ومشقت باہمی ربط وتعلق اور عام خیر خواہی ونگہداشت کا ایک بہترین سبق ہے جو کسی رہبرومصلح کی حیات کا ایک بنیادی وصف ہے ،چنانچہ ہر نبی اسی لئے بکریاں چراتا تھا تاکہ اس تجربہ سے گزرنے کے بعد امت کی نگہبانی وشفقت اور معاشرے سے ربط وتعلق کا حقیقی جذبہ پوری زندگی میں سرایت کئے رہے اور قوم کی طرف سے پیش آنیوالی ہر سختی ومشقت پر صبر وتحمل کی قوت حاصل رہے نیز اس ذریعے سے وہ حقیقی خلوت وتنہائی بھی حاصل ہو جاتی تھی جو نبی کی ابتدائی زندگی کا ایک مطلوب ہوتی تھی،مذکورہ بالا نکتہ زیادہ واضح ہو جاتا ہے اگر یہ تجزیہ پیش نظر ہو کہ ایک رہبر اور ایک بادشاہ اپنی قوم یا اپنی رعایا کے ساتھ وہی نسبت وتعلق رکھتا ہے جو ایک چرواہا اپنی بکریوں کے ساتھ رکھتا ہے۔بہرحال بکریاں چراتے چراتے آپ بارہ سال کے ہوگئے ۔

جامع ترمذی میں بحیراراہب کاقصہ

اب یہ ایک لمبا واقعہ ملاحظہ فرمائیں جوحدیث کی کتاب جامع ترمذی ابواب المناقب باب ماجافی بدنبوة النبی صلی اللہ علیہ وسلم میں اورکمی بیشی کے ساتھ ہرتاریخ اورسیرت کی کتاب میں لکھاجاتاہے ، پہلے جامع ترمذی کی روایت ملاحظہ فرمائیں ۔

عَنْ أَبِی بَكْرِ بْنِ أَبِی مُوسَى الأَشْعَرِیِّ، عَنْ أَبِیهِ، قَالَ: خَرَجَ أَبُو طَالِبٍ إِلَى الشَّامِ وَخَرَجَ مَعَهُ النَّبِیُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فِی أَشْیَاخٍ مِنْ قُرَیْشٍ، فَلَمَّا أَشْرَفُوا عَلَى الرَّاهِبِ هَبَطُوا فَحَلُّوا رِحَالَهُمْ، فَخَرَجَ إِلَیْهِمُ الرَّاهِبُ وَكَانُوا قَبْلَ ذَلِكَ یَمُرُّونَ بِهِ فَلاَ یَخْرُجُ إِلَیْهِمْ وَلاَ یَلْتَفِتُ. قَالَ: فَهُمْ یَحُلُّونَ رِحَالَهُمْ، فَجَعَلَ یَتَخَلَّلُهُمُ الرَّاهِبُ حَتَّى جَاءَ فَأَخَذَ بِیَدِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: هَذَا سَیِّدُ العَالَمِینَ، هَذَا رَسُولُ رَبِّ العَالَمِینَ، یَبْعَثُهُ اللَّهُ رَحْمَةً لِلْعَالَمِینَ، فَقَالَ لَهُ أَشْیَاخٌ مِنْ قُرَیْشٍ: مَا عِلْمُكَ، فَقَالَ: إِنَّكُمْ حِینَ أَشْرَفْتُمْ مِنَ العَقَبَةِ لَمْ یَبْقَ شَجَرٌ وَلاَ حَجَرٌ إِلاَّ خَرَّ سَاجِدًا وَلاَ یَسْجُدَانِ إِلاَّ لِنَبِیٍّ، وَإِنِّی أَعْرِفُهُ بِخَاتَمِ النُّبُوَّةِ أَسْفَلَ مِنْ غُضْرُوفِ كَتِفِهِ مِثْلَ التُّفَّاحَةِ، ثُمَّ رَجَعَ فَصَنَعَ لَهُمْ طَعَامًا، فَلَمَّا أَتَاهُمْ بِهِ وَكَانَ هُوَ فِی رِعْیَةِ الإِبِلِ،قَالَ: أَرْسِلُوا إِلَیْهِ، فَأَقْبَلَ وَعَلَیْهِ غَمَامَةٌ تُظِلُّهُ، فَلَمَّا دَنَا مِنَ القَوْمِ وَجَدَهُمْ قَدْ سَبَقُوهُ إِلَى فَیْءِ الشَّجَرَةِ، فَلَمَّا جَلَسَ مَالَ فَیْءُ الشَّجَرَةِ عَلَیْهِ، فَقَالَ: انْظُرُوا إِلَى فَیْءِ الشَّجَرَةِ مَالَ عَلَیْهِ، قَالَ: فَبَیْنَمَا هُوَ قَائِمٌ عَلَیْهِمْ وَهُوَ یُنَاشِدُهُمْ أَنْ لاَ یَذْهَبُوا بِهِ إِلَى الرُّومِ، فَإِنَّ الرُّومَ إِنْ رَأَوْهُ عَرَفُوهُ بِالصِّفَةِ فَیَقْتُلُونَهُ، فَالتَفَتَ فَإِذَا بِسَبْعَةٍ قَدْ أَقْبَلُوا مِنَ الرُّومِ فَاسْتَقْبَلَهُمْ، فَقَالَ: مَا جَاءَ بِكُمْ؟ قَالُوا: جِئْنَا، إِنَّ هَذَا النَّبِیَّ خَارِجٌ فِی هَذَا الشَّهْرِ، فَلَمْ یَبْقَ طَرِیقٌ إِلاَّ بُعِثَ إِلَیْهِ بِأُنَاسٍ وَإِنَّا قَدْ أُخْبِرْنَا خَبَرَهُ فَبُعِثْنَا إِلَى طَرِیقِكَ هَذَا، فَقَالَ: هَلْ خَلْفَكُمْ أَحَدٌ هُوَ خَیْرٌ مِنْكُمْ؟ قَالُوا: إِنَّمَا أُخْبِرْنَا خَبَرَهُ بِطَرِیقِكَ هَذَا. قَالَ: أَفَرَأَیْتُمْ أَمْرًا أَرَادَ اللَّهُ أَنْ یَقْضِیَهُ هَلْ یَسْتَطِیعُ أَحَدٌ مِنَ النَّاسِ رَدَّهُ؟ قَالُوا: لاَ، قَالَ: فَبَایَعُوهُ وَأَقَامُوا مَعَهُ قَالَ: أَنْشُدُكُمْ بِاللَّهِ أَیُّكُمْ وَلِیُّهُ؟ قَالُوا: أَبُو طَالِبٍ، فَلَمْ یَزَلْ یُنَاشِدُهُ حَتَّى رَدَّهُ أَبُو طَالِبٍ وَبَعَثَ مَعَهُ أَبُو بَكْرٍ بِلاَلاً وَزَوَّدَهُ الرَّاهِبُ مِنَ الكَعْكِ وَالزَّیْتِ.

ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے مروی ہےابوطالب قریش کے سرداروں کے ساتھ شام گیاآپ کے ساتھ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی تھےیہ لوگ جب راہب کے قریب پہنچے تواس جگہ ان لوگوں نے منزل کی اوراپنے کجاوے کھول دیئے ، راہب انہیں دیکھ کرنیچے اترا،اس سے قبل یہ لوگ جب ادھرسے گزرتے تھے تو قطعاً نیچے نہ اترتا اورنہ ان لوگوں کی جانب کوئی توجہ دیتا،یہ لوگ توکجاوے کھولنے میں مشغول تھے اور وہ راہب ان کے درمیان سے گزرتاہواآپ تک پہنچا اور آپ کا ہاتھ تھام کربولایہ سیدالعالمین ہیں ،رب العالمین کے رسول ہیں ،انہیں  اللّٰہ تعالیٰ رحمة للعالمین بناکربھیجے گا، سرداران قریش نے استفسارکیاتمہیں یہ بات کیسے معلوم ہوئی ؟ کہنے لگاجب تم گھاٹی سے اتررہے تھے توکوئی پتھراورکوئی درخت ایسانہ تھاجو سجدہ میں نہ گرگیاہواوریہ چیزیں نبی کے علاوہ کسی کوسجدہ نہیں کرتیں ، اورمیں ختم نبوت کوپہچانتاہوں جوسیب کی طرح مونڈھے پرہوگی،پھر واپس لوٹ گیااوران کے لئے کھانا تیار کیا جب وہ کھانالے کران لوگوں کے پاس آیا تو اونٹوں کے گلہ میں پہنچتے ہی اس نے لوگوں سے کہا کہ اس لڑکے کوبلاؤ ،آپ جب آئے تو آپ پربادل سایہ کئے ہوئے تھا،جب آپ لوگوں کے قریب پہنچے توآپ نے دیکھاکہ لوگ درخت کے سایہ میں بیٹھ چکے تھے جب آپ بیٹھے توسایہ نے ادھرہی رخ کر لیا راہب یہ دیکھ کر بولا دیکھو سایہ ادھرہی ہوگیاہے،ابھی وہ درمیان میں کھڑاانہیں قسمیں دے رہا تھاکہ ا س بچہ کوروم نہ لے جاوکیونکہ رومی اسے دیکھیں گے تواسے صفات سے پہچان لیں گے اوراسے قتل کردیں گے، اچانک روم کی جانب سے سات آدمی آتے نظرآئے وہ ان کی جانب متوجہ ہوااوران سے دریافت کیاکس لئے آئے ہو ؟انہوں نے جواب دیاکہ ہونے والا نبی اس شہرمیں آیاہے لہذاہرطرف آدمی اس کی تلاش میں روانہ کئے گئے ہیں ہمیں اس کی آمدکی یہاں خبرملی تھی توہمیں اس جانب روانہ کیاگیا، اس نے سوال کیاکہ کیا تمہارے پیچھے تم سے بہترکوئی فردنہیں ؟وہ بولے ہمیں تواس راہ کی جانب بھیجاگیاتھا، اس نے سوال کیااگر اللّٰہ کسی کام کے کرنے کاارادہ کر لے کیاکوئی شخص اسے روک سکتاہے؟وہ بولے نہیں ،راہب نے کہااچھاتولوٹ جاؤ اور خود بھی ان کے ساتھ کھڑاہوگیااورجاتے جاتے بولا میں تمہیں  اللّٰہ کی قسم دیتاہوں کہ اس کاولی کون ہے ؟ابوطالب نے کہا میں ،وہ ابو طالب کوقسمیں دیتارہاحتی کہ ابوطالب نے آپ کو مکہ لوٹادیااورآپ کے ساتھ ابوبکراوربلال کوبھیج دیا اس راہب نے آپ کے ذادراہ کے لئے کیک اور زیتون دیا۔[86]

هَذَا حَدِیثٌ حَسَنٌ غَرِیبٌ، لاَ نَعْرِفُهُ إِلاَّ مِنْ هَذَا الوَجْهِ.

امام ترمذی رحمہ اللہ کہتے ہیں یہ حدیث حسن غریب ہے اورہمیں اس سند کے علاوہ اس کی اور سند معلوم نہیں ۔

امام البانی رحمہ اللہ اس حدیث کی تخریج کرتے ہوئےفرماتے ہیں

 صحیح لكن ذكر بلال فیه منكر

یہ حدیث صحیح مگر سیدنا بلال کا ذکر (محدثین کے ہاں )محل نظر ہے۔


شام کی جانب سفراوربحیراراہب کی داستان

شیخ محمدرضا سابق مدیرمکتبہ جامعہ فواد قاہرہ اپنی تصنیف محمدرسول  اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم میں لکھتے ہیں جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمرمبارک بارہ سال ہوئی تو ۵۸۲ء کو آپ اپنے چچا عبدمناف (ابوطالب)کے ہمراہ ایک تجارتی قافلہ کے ساتھ شام کے سفرپر روانہ ہوئے ، یہ قافلہ شام کے ایک قصبہ بصری میں جاٹھہرااس وقت اس عرب علاقہ کا حصہ تھا جو رومانیہ کی حکومت کے تحت تھا،اس زمانہ میں بصری کے گرجامیں بحیرانامی ایک پادری رہتاتھا جو عیسائی مذہب کا بڑاعالم تھا اور عرصہ سے اسی گرجامیں پادری چلاآرہاتھا نسل در نسل منتقل ہونے والی مذہبی کتاب مقدس کایہی بڑا عالم رہ گیاتھا ،عرب کے تجارتی قافلے اکثر ادھر سے گزراکرتے تھے لیکن بحیرا نے کبھی ان سے کوئی گفتگوکی تھی نہ کسی بات پرانہیں ٹوکا تھا،لیکن اس سال جب یہ قافلہ اس کے گرجاکے قریب فروکش ہواتواس نے اپنے گرجاکے اندر بیٹھے ہوئے ہی کوئی خاص بات دیکھ کراس قافلہ والوں کے لئے بہت عمدہ سا کھانا تیار کرایااورانہیں مدعوکیا،جب قافلہ والے آرہے تھے تواس نے دیکھاکہ صرف ایک لڑکے پر بادل اپناسایہ کیے ہوئے ہیں پھریہ لوگ اس کے گرجاکے قریب ہی ایک سایہ دار درخت کے سایہ تلے فروکش ہوئے تواس نے دیکھاکہ ایک بادل کے ٹکڑے نے اس درخت پر اپنا سایہ کرلیا اور درخت کی ٹہنیاں خودبخودآپ پرجھک گئیں اورآپ اس کے سایہ تلے آرام کرنے لگے جب بحیرانے یہ منظردیکھاتواس نے گرجاسے باہرآکرکھانا تیار کرنے کاحکم دیا پھراہل قافلہ کوکہلا بھیجا کہ اے جماعت قریش !میں نے آپ کے لئے کھانا تیار کرایاہے میری دلی خواہش ہے کہ آپ میں کاہرشخص چھوٹابڑا،آزادوغلام سب کے سب میرے یہاں آکرکھاناتناول کریں ،ان میں سے ایک شخص نے کہا،و اللّٰہ اے بحیرا! آج تو تیرا طرز عمل نرالاہے اس سے پہلے کبھی تم ہماری دعوت نہ کیاکرتے تھے حالانکہ ہم اکثرتمہارے پاس سے گزرتے تھے پھرآج اس کاکیاخاص سبب پیش آیاہے ؟ بحیرا نے کہاتم نے صحیح کہاہے واقعہ یہی تھاجیساتم کہہ رہے ہولیکن تم لوگ مہمان ہواس لئے میں نے چاہاکہ میں تمہارااحترام ملحوظ رکھتے ہوئے تمہارے لئے کھانا تیار کراوں تاکہ تم سب اسے تناول کرو،چنانچہ سب کھانے پرجمع ہوگئے مگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم اپنی کمسنی کی وجہ سے قافلہ کے پڑاؤ ہی میں درخت کے نیچے بیٹھے رہے جب بحیرانے ان لوگوں پر نظر ڈالی اوروہ علامات نہ دیکھیں جنھیں وہ جانتااوراپنی کتابوں میں پاتاتھا تو کہااے جماعت قریش !تم میں سے کوئی بھی میری دعوت سے غیر حاضر نہ رہے ، انھوں نے جواب دیا اے بحیرا! تمہاری دعوت میں شرکت کے اہل لوگوں میں سے کوئی بھی باقی نہیں رہاصرف ایک سب سے کمسن لڑکاہے جو اپنے پڑاؤ میں ہی رہ گیا ہے ،بحیرا نے کہاایسانہ کیجئے اسے بھی بلالیجئے تاکہ وہ بھی کھانے میں آپ کے ساتھ شریک ہوسکے ،اس پرایک قریشی اٹھااورآپ کوگودمیں اٹھالایااوردوسرے مہمانوں کے ساتھ آپ کو بھی دسترخوان پر لا بٹھایا،جب بحیراکی نظرآپ پر پڑی توآپ کوغورسے دیکھنے لگااورآپ کے جسم مبارک میں ان علامات کی جستجوکرنے لگاجوآپ کے اوصاف کے متعلق اس کے علم میں تھیں ، جب سب لوگ کھانے سے فراغت پا کردسترخوان سے اٹھ کھڑے ہوئے توبحیراآپ کے پاس آیااورکہااے صاحبزادے!میں تمہیں لات و عزیٰ کی قسم دے کر کہتا ہوں کیاتم میرے سوالات کاصحیح جواب دوگے ؟ بحیرانے یہ طرزتخاطب اس لئے اختیارکیاتھاکہ اس نے سناتھاکہ آپ کی قوم والے لات وعزیٰ کی قسم کھایاکرتے تھے ،مگرآپ نے بتوں کی قسم کھانے پرناپسندیدگی کااظہار فرمایا ، تب بحیرانے کہااللہ کی قسم!کیاتم مجھے میرے سوالات کا جواب دوگے ؟آپ نے فرمایا جو دریافت کرنا چاہتے ہودریافت کرو، چنانچہ اس نے آپ کے چندحالات زندگی،آپ کی نینداورسونے کی کیفیت پوچھی اوربعض دوسرے سوالات کیے ،آپ بچپن سے پیش آنے والے واقعات بتاتے رہے جوبحیراکی معلومات کے بالکل مطابق نکلے ،پھر آپ نے اس کی حسب فرمائش پشت مبارک کھول کراسے دکھائی ،اس نے آپ کے شانوں کے درمیان مہرنبوت دیکھی جوابھرے ہوئے گوشت کی ماند(ایک پھڑیاسی)تھی جب وہ آپ سے سوالات کرچکاتوآپ کے چچاابوطالب کی طرف متوجہ ہوکر بولا کیایہ لڑکا آپ کارشتہ دارہے ؟ انھوں نے جواب دیاکہ یہ میرافرزندہے ،بحیرانے کہایہ آپ کابیٹانہیں ہوسکتاکیونکہ اس لڑکے کی خصوصیات میں سے یہ امربھی ہے کہ اس کے والد زندہ نہ ہوں ،تب انھوں نے فرمایا یہ میرا بھتیجا ہے ، اس نے کہااس لڑکے کے والدکیاہوئے ؟فرمایایہ ابھی بطن مادرہی میں تھے کہ اس کے والدانتقال کرگئے تھے ،اس پربحیرانے کہاآپ نے سچ کہا اپنے اس بھتیجے کوفوراًاپنے وطن واپس لے جائیں اوران کے متعلق یہودیوں سے ہوشیار رہیں ۔( محمدرسول  اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم تالیف شیخ محمدرضا سابق مدیرمکتبہ جامعہ فواد قاہرہ صفحہ ۵۱ )

x قاری احمد بھیتی قادری اپنی تالیف تاریخ مسلمانان عالم میں لکھتے ہیں ابوطالب کی آخری منزل وہ جگہ تھی جسے بصریٰ کہتے تھے ،عرب سے شام کوآنے والے تجارتی قافلے اسی شہربصریٰ میں ٹھہرے ہوئے تھے ،قیام گاہ سے تھوڑے فاصلہ پر بحیراراہب کی مشہورخانقاہ تھی بحیرادین مسیح کابہت بڑامتقی اورعبادت گزارشخص تھا،توریت ، انجیل اور دیگر آسمانی کتابیں اس کے ذہن میں محفوظ تھیں ،وہ اچھی طرح جانتا تھا کہ نبی آخرالزماں کے پیداہونے کی علامتیں کیاہیں وہ اکثرقریش کے تجارتی قافلوں کوخانقاہ سے دیکھنے کے لئے آتاتھاکہ معلوم کرسکے کہ نبی آخرالزماں اس میں موجودہیں یانہیں ،اتفاق کی بات کہ ابوطالب کاقافلہ گھاٹی سے اترکرقیام کرناچاہتاہی تھاکہ بحیراکی نظریں پڑگئیں ، اوروہ دیکھ کر حیران رہ گیاکہ ابرکاٹکڑاقافلہ کے ایک بچہ پرسایہ کئے ہوئے ہے اورتمام حجروشجرسجدے کے لئے جھک رہے ہیں اوراسلام علیک یارسول اللہ کہہ رہے ہیں ابھی قافلہ والے اچھی طرح سے دم بھی نہ لینے پائے تھے کہ بحیراخانقاہ سے ابوطالب کے قریب آگیااورآپ صلی اللہ علیہ وسلم کاہاتھ پکڑکرکہنے لگاکہ یہ بچہ سیدالعالمین اوررسول پروردگارہے ،مورخین کا بیان ہے کہ بحیرانے اہل قافلہ کی اپنی خانقاہ میں دعوت بھی کی تھی ،جب سب لوگ بیٹھ گئے تووہ آپ کوبڑے غورسے دیکھتارہا،کھانے سے فارغ ہوکرسب کورخصت کردیامگر ابو طالب اورآپ کوروک لیااورابوطالب سے آپ کے متعلق بہت سے سوالات کئے ،خواب وبیداری کے حالات پوچھے ،رشتہ دریافت کیا،ابوطالب نے والدکی وفات کا حال بتایا،شانہ مبارک دیکھا اور مہر نبوت کوکتب سماویہ کے مطابق پاکرابوطالب سے کہامیں آپ کو ہمدردانہ مشورہ دیتاہوں کہ آپ جلدی واپس گھرچلے جائیں ،یہودکونبی عربی سے سخت عداوت ہے مجھے ان کی طرف سے اندیشہ ہے کہ وہ ان کودیکھیں گے توضرورنقصان پہنچانے کی تدبیریں کریں گے ، ابوطالب نے بحیراکے مشورے کوقبول کیااوربصریٰ ہی میں خرید و فروخت کرکے واپس آگئے، بحیرانے آپ کی مہر نبوت کو بوسہ دیا یعنی قبل ازوقت آپ پر ایمان لائے۔[87]

بحیراجس وقت آپ کوخانقاہ میں دیکھ رہاتھا اورابوطالب سے کہہ رہاتھاکہ ان کویہودسے بچاناکہ اس وقت سات رومی عیسائی آڑمیں کھڑے ہوئے سن رہے تھے ،بحیرانے ان سے معلوم کیاکہ تم لوگ یہاں کیوں آئے ؟تو انھوں نے کہاکہ ہم کواطلاع ملی تھی کہ نبی عربی اس ماہ میں یہاں آنے والے ہیں ،بحیرانے کئی دنوں تک ان کواپنی خانقاہ ہی میں ٹھہرائے رکھا۔(تاریخ مسلمانان عالم تالیف قاری احمد بھیتی قادری ۱۰۹؍۲ )

xحکیم عبدالروف داناپوری اپنی تالیف اصح السیرمیں لکھتے ہیں حضور کی عمرجب بارہ سال دوماہ ہوئی(ابن عبدالبر نے تیرہ سال لکھی ہے) اس وقت خواجہ ابو طالب نے تجارت کی غرض سے شام کا سفر کیااور حضور کوبھی اپنے ساتھ لے گئے، جب مقام تیمامیں پہنچے تووہاں بحیراراہب ملابعض روایتوں میں ہے کہ یہ یہودعالم تھااوربعض روایتوں میں ہے کہ یہ نصرانی عالم تھا،اس نے کتب قدیمہ کی پیشین گوئیوں کے مطابق آپ میں نبوت کی کچھ علامات دیکھیں اورخواجہ ابوطالب سے پوچھاکہ یہ لڑکاجوتمہارے ساتھ ہے کون ہے ؟انہوں نے کہایہ میرابھتیجاہے ،بحیرا نے کہا کیاآپ کو اس کے ساتھ محبت ہے ؟انہوں نے کہابے شک ،بحیرانے کہامیں آپ کوایک بات بتاتاہوں بخداآپ اگرانہیں شام لے گئے تویہودان کے دشمن ہوجائیں گے اورقتل کرنا چاہیں گے ،آپ انہیں واپس لے جائیے بخداآپ انہیں اگرشام لے گئے تویہودان کے دشمن ہوجائیں گے اورقتل کرنا چاہیں گے آپ ان کوواپس لے جائیے ، خداکی قسم ! اگر انھوں نے انہیں دیکھ لیااور جوعلامات میں نے پہچان لی ہیں اگروہ بھی پہچان گئے توضروران کے درپے آزار ہوجائیں گے کیونکہ ان کاایک عظیم الشان مستقبل ہونے والا ہے اس لئے انھیں آپ جلدی سے اپنے وطن لئے جائیے، اصح السیرصفحہ ۵۱ پرہے چنانچہ خواجہ ابوطالب وہیں سے حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم کو ساتھ لے کرواپس چلے آئے ، اوربعض روایتوں میں ہے کہ آپ کوکسی غلام کے ساتھ واپس کیا۔[88]

x مولاناصفی الرحمٰن مبارکپوری اپنی تالیف الرحیق المختوم میں لکھتے ہیں بعض روایات کے مطابق جن کی استنادی حیثیت مشکوک ہے، جب آپ کی عمرمبارک بارہ برس اورایک تفصیلی قول کے مطابق بارہ برس دومہینے دس دن کی ہوگئی تو ابو طالب آپ کوساتھ لے کرتجارت کے لئے ملک شام کے سفر پر نکلے اوربصریٰ پہنچے،بصری ٰ ملک شام کاایک مقام اورحوران کامرکزی شہرہے ،اس وقت یہ جزیرة العرب کے رومی مقبوضات کا دارالحکومت تھا،اس شہرمیں جرجیس نامی ایک راہب رہتاتھاجو بحیرا کے لقب سے معروف تھا،جب قافلے نے وہاں پڑاوڈالاتویہ راہب اپنے گرجاسے نکل کرقافلے کے اندر آیا اور اس کی میزبانی کی حالانکہ اس سے پہلے وہ کبھی نہیں نکلتاتھا،اس نے رسول  اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم کوآپ کے اوصاف کی بناپرپہچان لیااورآپ کاہاتھ پکڑکرکہایہ سیدالمرسلین ہیں ،یہ سیدالعالمین ہیں ، اللّٰہ انہیں رحمة ا لعالمین بناکربھیجے گا،ابوطالب اورقریش کے شیوخ نے پوچھا !آپ کویہ کیسے معلوم ہوا؟ اس نے کہاتم لوگ جب گھاٹی کے اس جانب نمودارہوئے توکوئی بھی درخت یاپتھرایسانہیں تھاجوسجدہ کے لئے جھک نہ گیاہواوریہ چیزیں نبی کے علاوہ کسی اور انسان کوسجدہ نہیں کرتیں ،پھرمیں انہیں مہر نبوت سے پہچانتاہوں جوکندھے کے نیچے کری (نرم ہڈی)کے پاس سیب کی طرح ہے اورہم انہیں اپنی کتابوں میں بھی پاتے ہیں ،اس کے بعدبحیراراہب نے ابو طالب سے کہاکہ انہیں واپس کردوملک شام نہ لے جاؤ کیونکہ یہودسے خطرہ ہے اس پرابوطالب نے بعض غلاموں کی معیت میں آپ کومکہ واپس بھیج دیا۔ [89]

قارئین آپ نے جامع ترمذی اورسیرت کی چندکتابوں میں یہ واقعہ ملاحظہ فرمایا اب ان روایات کی سند پر سیرت النبی صفحہ۱۳۱،۱۳۰؍۱ پرعلامہ شبلی نعمانی کاتبصرہ ملاحظہ کریں ۔

x روایت میں حسن کادرجہ صحیح سے کم ہوتاہے اورجب وہ روایت غریب بھی ہوتواس کارتبہ اوربھی گھٹ جاتاہے۔[90]

xاس روایت کا ایک راوی عبدالرحمان بن غزوان ہے جس کی نسبت علامہ ذہبی لکھتے ہیں

قال حدیثاً منكرا.قلت: أنكر ماله حدیثه فی سفر النبی صلى الله علیه وسلم، وهو مراهق مع أبی طالب إلى الشام، وقصة بحیرا

عبدالرحمان بن غزوان منکرحدیثیں بیان کرتاہے جن میں سب سے بڑھ کرمنکر روایت وہ ہے جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کاابوطالب کے ساتھ شام جانے کاذکرہے اور بحیرا کا واقعہ مذکور ہے۔[91]

xبحیرا راہب کی اس روایت کی نسبت حاکم نے اپنی مستدرک میں لکھاہے

هَذَا حَدِیثٌ صَحِیحٌ عَلَى شَرْطِ الشَّیْخَیْنِ وَلَمْ یُخَرِّجَاهُ

یہ حدیث بخاری ومسلم کی شرائط کے مطابق ہے لیکن علامہ ذہبی رحمہ اللہ نے تخلیص مستدرک میں حاکم کایہ قول نقل کر کے لکھا ہے

أظنه موضوعا فبعضه باطل

میں اس حدیث کے بعض واقعات کوموضوع ، جھوٹااورخودساختہ خیال کرتاہوں ۔

x اس روایت میں مذکورہے کہ بلال رضی اللہ عنہ اورسیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ بھی شریک سفرتھے حالانکہ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ خودبچے تھے اور بلال رضی اللہ عنہ کاوجودہی نہ تھا ۔

xاس روایت کے آخری راوی(جن سے جامع ترمذی،دلائل النبوة للبیہقی ،ابن عساکر،مستدرک حاکم،دلائل النبو ة لابی ابونعیم،ابوبکرالخرائطی اورابن شیبہ نے روایت نقل کی ہے) ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ خود شریک واقعہ نہ تھے مگروہ اوپرکے راویوں کے نام نہیں بتاتے، اس کے علاوہ طبقات ابن سعدمیں جوسلسلہ سندمذکورہے وہ مرسل یامعضل ہے (مرسل یہ ہے کہ جس میں تابعی شریک واقعہ نہیں ہے کسی صحابی کانام نہیں لیتا اور معضل یہ ہے کہ اس میں راوی اپنے اوپر کے دوراوی جوتابعی اورصحابی ہیں ان کانام نہیں لیتا ہے۔

xحافظ ابن حجر رحمہ اللہ اس روایت کے پہلے حصہ کوتوتسلیم کرتے ہیں مگرمجبوراًآخری حصہ کے بارے میں اقرارکرتے ہیں جس میں سیدنا ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ اور بلال رضی اللہ عنہ کاذکرہے کہ اس قدر حصہ غلط ہے جوغلطی سے روایت میں شامل ہوگیاہے ، حالانکہ حافظ ابن حجرکایہ دعویٰ صحیح نہیں کہ اس روایت کی تمام روایات قابل سندہیں کیونکہ تهذیب التهذیب میں خودہی عبدالرحمان بن غزوان کے بارے میں لکھاہے

قال كان یخطىء یتخالج فی القلب منه لروایته عن اللیث عن مالك عن الزهری عن عروة عن عائشة قصة المكاكیك

وہ خطا کرتا تھااس کی طرف سے اس وجہ سے بھی شبہ پیداہوتاہے کہ اس نے لیث عن مالک عن زہری عن عروہ عن عائشہ ممالیک کی روایت نقل کی ہے۔[92]

ممالیک کی ایک روایت ہے جس کو محدثین جھوٹ اورموضوع خیال کرتے ہیں ۔

ان کے شاگردسیدسلیمان ندوی سیرت النبی میں اس روایت پرمزیدتبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں یہ روایت اختصاراورتفصیل کے ساتھ سیرت کی اکثرکتابوں میں اوربعض حدیثوں میں مذکورہے مگرابن اسحاق اورابن سعدوغیرہ کتب سیرمیں اس کے متعلق جس قدرروائتیں ہیں سب کے سلسلے کمزوراورٹوٹے ہوئے ہیں اس قصہ کاسب سے محفوظ طریق سندوہ ہے جس میں عبدالرحمان بن غزوان جوابونوح قرارکے نام سے مشہورہے یونس بن اسحاق سے اوروہ ابوبکربن ابی موسیٰ سے اوروہ اپنے باپ ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے اس کی روایت کرتے ہیں ،یہ قصہ اس سلسلہ سندکے ساتھ جامع ترمذی ،مستدرک حاکم،مصنف ابن ابی شیبہ،دلائل النبوة بیہقی اوردلائل النبوة لابی نعیم میں مذکورہے ، ترمذی نے اس کو حسن غریب اورحاکم نے صحیح کہا ہے استاذمرحوم نے سیرت کی پہلی جلدطبع اول صفحہ ۱۳۰وطبع دوم صفحہ ۱۶۸میں اس روایت پرپوری تنقیدکی ہے اور عبدالرحمان بن غزوان کو اس سلسلہ میں مجروح قراردیاہے اور حافظ ذہبی کایہ قول نقل کیاہے کہ وہ اس روایت کوموضوع سمجھتے ہیں ،سب سے اول یہ کہ ابوموسیٰ اشعری سات ہجری میں مسلمان ہو کرمدینہ آئے اوریہ واقعہ اس سے پچاس برس پہلے کاہے ، ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نہ توخود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے اورنہ کسی اورشریک واقعہ کی زبان سے اپنا سننا بیان کرتے ہیں اس لئے یہ روایت مرسل ہے ،اس واقعہ کو ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے ان کے صاحبزادے ابوبکرروایت کرتے ہیں مگران کی نسبت کلام ہے کہ انہوں نے اپنے باپ سے کوئی روایت سنی بھی ہے یا نہیں ۔

قَالَ أَبُو بَكْرٍ: وَهَذَا الْحَدِیثُ لَا نَعْلَمُ رَوَاهُ عَنْ أَبِی بَكْرِ بْنِ أَبِی مُوسَى عَنْ أَبِیهِ

ابوبکرکہتے ہیں اس حدیث کے بارے میں ہم نہیں جانتے کہ ابوبکرنے اسے اپنے والدسے سناہے۔[93]

چنانچہ ناقدین فن کواس باب میں بہت کچھ شک ہے ، امام احمدبن حنبل نے تواس سے قطعی انکارکیاہے بنابریں یہ روایت منقطع ہے،

ابن سعد، فإنه قال: یستضعف

اس کے سوا ابن سعدنے لکھاہے کہ وہ ضعیف سمجھے جاتے ہیں ۔[94]

ابوبکرسے یونس بن ابی اسحاق اس واقعہ کونقل کرتے ہیں گومتعدد محدثین نے ان کی توثیق کی ہے تاہم عام فیصلہ یہ ہے کہ وہ ضعیف ہیں ۔یحییٰ کہتے ہیں کہ ان میں سخت بے پروائی تھی ،شعبہ نے ان پرتدلیس کاالزام قائم کیا ہے ،امام احمدان کی اپنے باپ سے روایت کوضعیف اورعام روایتوں کو مضطرب اورایسی ویسی کہتے ہیں ،ابو حاتم کی رائے ہے کہ گووہ راست گوہیں لیکن ان کی اپنے باپ سے حدیث حجت نہیں ،ساجی کاقول ہے کہ وہ سچے ہیں اوربعض محدثین نے ان کوضعیف کہاہے ،ابوحاکم کابیان ہے کہ ان کواکثراپنی روایتوں میں وہم ہوجاتاتھا،چوتھاراوی عبدالرحمان بن غزوان ہے اس کانام مستدرک اور ابو نعیم میں ابونوح قرارہے اس کواگرچہ بہت سے لوگوں نے ثقہ کہاہے تاہم وہ متعدد منکر روایتوں کاراوی ہے ممالیک والی جھوٹی حدیث اسی نے روایت کی ہے۔

قال أبو أحمد الحاكم: روى عن اللیث حدیثاً منكرا

ابواحمد حاکم رحمہ اللہ کابیان ہے کہ اس نے امام لیث سے ایک منکر روایت نقل کی ہے۔[95]

 قال ابن حبان: كان یخطئ، یتخالج فی القلب منه لروایته عن اللیث، عن الزهری، عن عروة، عن عائشة قصة الممالیك

ابن حبان رحمہ اللہ نے لکھاہے کہ وہ غلطیاں کرتاتھا اور امام مالک اورلیث کی طرف سے ممالیک والی حدیث نقل کرنے کی وجہ سے اس کی طرف سے دل خلجان میں ہے ۔

حافظ ذہبی رحمہ اللہ لکھتے ہیں عبدالرحمان بن غزوان کی منکر روایتوں میں سب سے زیادہ منکربحیرا راہب کاقصہ ہے،

ومما یدل على أنه باطل قوله / ورده أبو طالب، وبعث معه أبو بكر بلالا بلال لم یكن خلق بعد، وأبو بكر كان صبیا

اس قصہ کے غلط ہونے کی دلیل یہ ہے کہ اس روایت میں ہے کہ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے بلال رضی اللہ عنہ کوآپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کردیا، حالانکہ ابوبکر رضی اللہ عنہ اس وقت بچہ تھے اور بلال رضی اللہ عنہ پیدابھی نہ ہوئے تھے۔[96]

هَذَا حَدِیثٌ صَحِیحٌ عَلَى شَرْطِ الشَّیْخَیْنِ وَلَمْ یُخَرِّجَاهُ

امام حاکم رحمہ اللہ نے مستدرک میں اس واقعہ کونقل کرکے لکھا ہےیہ حدیث بخاری ومسلم کی شرط کے مطابق ہے،

أظنه موضوعا فبعضه باطل

حافظ ذہبی مستدرک کی تلخیص میں لکھتے ہیں میں اس روایت کو خودساختہ خیال کرتا ہوں کیونکہ اس میں بعض واقعات غلط ہیں ۔

امام بیہقی رحمہ اللہ اس کی صحت کوصرف اس قدرتسلیم کرتے ہیں کہ یہ قصہ اہل سیرمیں مشہورہے۔ سیوطی نے خصائص الکبری میں امام موصوف کے اس فقرہ سے یہ سمجھاہے کہ وہ بھی اس کے ضعف کے قائل ہیں اس لئے اصل روایت میں ابن سعدوغیرہ سے چند اورسلسلے نقل کئے ہیں مگران میں سے کوئی بھی محفوظ نہیں ۔

وَوَقَعَ فِی كِتَابِ الترمذی وَغَیْرِهِ أَنَّهُ بَعَثَ مَعَهُ بلالا، وَهُوَ مِنَ الْغَلَطِ الْوَاضِحِ، فَإِنَّ بلالا إِذْ ذَاكَ لَعَلَّهُ لَمْ یَكُنْ مَوْجُودًا، وَإِنْ كَانَ فَلَمْ یَكُنْ مَعَ عَمِّهِ وَلَا مَعَ أبی بكر

علامہ ابن القیم رحمہ اللہ لکھتے ہیں جامع ترمذی کی روایت کہ چچانے واپس کرتے وقت آپ کے ساتھ بلال کوبھیجاتھا،یہ صریح غلطی ہے اول تواس وقت بلال رضی اللہ عنہ نہ ابوطالب کے پاس تھااورنہ ہی سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس ،دوسرے یہ بھی ممکن ہے کہ وہ دنوں موجودہی نہ ہوں ۔[97]

وَذَكَرَ البزار فِی مُسْنَدِهِ هَذَا الْحَدِیثَ وَلَمْ یَقُلْ: وَأَرْسَلَ مَعَهُ عَمُّهُ بلالا، وَلَكِنْ قَالَ: رَجُلًا

بزارنے بھی اس حدیث کااپنی مسندمیں ذکرکیاہے لیکن یہ نہیں لکھاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ابوطالب نے بلال کوبھیجابلکہ ایک آدمی لکھا ہے۔[98]

عبدالحق محدث دہلوی مشکوة کی شرح اللمعات میں لکھتے ہیں کہ محدثین کہتے ہیں یہ واقعہ کیسے ممکن ہوسکتاہے اس لئے کہ بلال رضی اللہ عنہ تواس وقت تک پیدابھی نہیں ہوئے تھے اورسیدناابوبکر رضی اللہ عنہ آپ سے دوسال چھوٹے تھے لہذایہ حدیث ضعیف ہے اوربعض محدثین کہتے ہیں یہ روایت باطل ہے۔[99]

وبلال لم یكن خلق بعد، وأبو بكر كان صبیا

اوربلال رضی اللہ عنہ تواس وقت تک پیداہی نہیں ہوئے تھے اورسیدناابوبکر رضی اللہ عنہ ابھی بچے تھے۔[100]

اب ان روایات پر چندعقلی دلائل پربھی غورفرمائیں ۔

x ابوطالب ایک ٹانگ سے بچپن ہی سے معذورتھے۔[101]

اس لئے اتنے لمبے سفرکرنے سے جوتقریباًایک ماہ کاتھا معذورتھے جس کی وجہ سے وہ اپنی گزر بسر کے لئے گھرپرعطروغیرہ بناکرفروخت کردیاکرتے تھے ،کم آمدنی کی وجہ سے ان کے گھر میں معاشی تنگی تھی اس لئے ان کے اہل وعیال پیٹ بھرکرکھانابھی نہیں کھاسکتے تھے ، اسی تنگ دستی کی وجہ سے عباس رضی اللہ عنہ اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی اولادکواپنی کفالت میں لے لیاتھا۔

xروایت میں ہے کہ مقام تیماپرپہنچے اورکسی جگہ لکھاہے کہ بصری ٰ پہنچے۔

xکیاکم سن بچوں کوپڑاوپربھوکاپیاسا اکیلا چھوڑدیاجاتاہے،پھر بحیراراہب کی فرمائش پرایک قریشی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کودعوت میں لانے کے لئے گودمیں اٹھالایا،کیابارہ سال کے بچہ کو گود میں اٹھاکرلایاجاتاہے ،اگرایساتھاتوپھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم سارے سفر میں قریش کی گودیوں میں سفرکرتے رہے ہوں گے ،ان قریشیوں کے نام کیاتھے۔

xبحیراراہب نے آپ کونبوت ملنے سے قبل ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کوقبول کرلیاتھااورآپ پرایمان لے آیاتھااس طرح تو پہلا مرد جومسلمان ہواوہ بحیراراہب ہوا،سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ، ام المومنین خدیجہ رضی اللہ عنہا ، زیدبن حارثہ رضی اللہ عنہ اوردیگرسابقین اولین تونہ ہوئے یایہ کہاجائے کہ بوڑھوں میں پہلے بحیراراہب ایمان لایا مگرمقام حیرت تویہ ہے کہ اس واقعہ کے بعدبحیر ا راہب کاکوئی اتہ پتہ معلوم نہیں ہوتاکیاوہ صرف آپ کی نبوت کی علامات بتانے کے لئے تخلیق کیاگیاتھا۔

x اللّٰہ تعالیٰ کی پیداکی ہوئی کوئی بھی مخلوق اپنے خالق کے سواکسی کوسجدہ نہیں کرتی چاہے وہ نبی ہی کیوں نہ ہو اللّٰہ کی یہ مخلوقات مشرک نہیں ، جیساکہ قرآن مجیدمیں ہے ۔

اَلَمْ تَرَ اَنَّ اللّٰهَ یَسْجُدُ لَهٗ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَمَنْ فِی الْاَرْضِ وَالشَّمْسُ وَالْقَمَرُ وَالنُّجُوْمُ وَالْجِبَالُ وَالشَّجَرُ وَالدَّوَاۗبُّ وَكَثِیْرٌ مِّنَ النَّاسِ ۭ وَكَثِیْرٌ حَقَّ عَلَیْهِ الْعَذَابُ ۭ وَمَنْ یُّهِنِ اللّٰهُ فَمَا لَهٗ مِنْ مُّكْرِمٍ۔۔۔[102]

ترجمہ: کیا تم دیکھتے نہیں ہو کہ اللہ کے آگے سر بسجود ہیں وہ سب جو آسمانوں میں ہیں اور جو زمین میں ہیں ؟ سورج اور چاند اور تارے اور پہاڑ اور درخت اور جانور اور بہت سے انسان اور بہت سے وہ لوگ بھی جو عذاب کے مستحق ہوچکے ہیں اور جسے اللہ ذلیل و خوار کردے اسے پھر کوئی عزت دینے والا نہیں ہے۔

کیا قرآن مجیدکی بات کوچھوڑکریہ روایت تسلیم کی جائے۔

xجب درخت کی ٹہنیاں سایہ کرنے کے لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پرجھک رہی تھیں اور راہ میں شجروحجر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کوسجدہ کررہے تھے توکیایہ واقعات سارے اہل قافلہ نے دیکھے تھے ،قافلے میں کون کون شامل تھا یا صرف راوی روایت کواپنی تخلیق سے بیشترہی نظرآگئے تھے،اگرسب اہل قافلہ نے یہ واقعات اپنے سامنے ہوتے دیکھے تھے توآپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اعلان نبوت کے بعدان میں کتنے لوگ ایمان سے بہرہ مندہوئے، قافلہ کے اورلوگ توکیاایمان لاتے خودابوطالب جس کے سامنے بحیراراہب اس کے بھتیجے کی نبوت کی واضح علامات بیان کرکے ان کا مرتبہ بیان کر رہا ہے کیاوہ مرتے دم تک رسول  اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصرارکے باوجودمسلمان ہوا، کیارسول  اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوطالب اورقریشیوں کوجواس قافلہ کے ساتھ تھے پچھلے واقعات کاحوالہ دے کراپنی نبوت کایقین نہیں دلایا کہ تم توبچپن سے ہی میری نبوت کی علامات اورمعجزے دیکھتے آئے ہو پھر کیا وجہ ہے کہ تم لوگ میری رسالت کوتسلیم نہیں کرتے ،کیاقافلہ میں شریک سارے قریش بھی ان واقعات کوفراموش کربیٹھے تھے، کیاوجہ ہے جو اس واقعہ کے بعدبحیراراہب کاتذکرہ کہیں نہیں ملتا تویہ واقعات راویوں کوکس نے بیان کیے۔

xجامع ترمذی کی روایت سے تویہ ظاہرہوتاہے کہ یہودیوں سے آپ کوکوئی خطرہ نہ تھاکیونکہ یہودی تویہ سمجھتے کہ رسول موعودبنی اسرائیل میں سے ہوگااوروہ کافروں پرفتح و نصرت کے لئے بڑی بے تابی سے منتظر تھے اورجب رسول  اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت بنی اسماعیل میں ہوگئی اس وقت تک ان کایہ اعتقادبرقراررہا، رہاعیسائیوں کامسئلہ تواس روایت کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خود، قافلہ میں شریک قریش کے لوگوں کوآپ کی نبوت کا معلوم ہوچکاتھااورروم میں بیٹھے ہوئے ارباب اختیارتک کوبھی یہ معلوم ہوچکاتھاکہ آپ نبی ہونے والے ہیں ، اوران کو علم غیب سے یہ بھی معلوم ہوچکا تھاکہ آپ عرب میں پیداہونے کے بعداس وقت بصریٰ میں موجودہیں اس لئے سات رومی عیسائی آپ کی تلاش میں بصری میں آئے تھے ،مگریہ بات بھی صحیح ثابت نہیں ہوتی کیونکہ صلح حدیبیہ کے بعد جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے شاہ مصر مقوقس ،شاہ روم قیصراورشاہ حبش نجاشی کو اسلام قبول کرنے کے خطوط لکھے ،ان بادشاہوں اور نجران کی طرف سے جووفودآئے تھے انہوں نے اس بات کااقرار کیا تھاکہ یہ توہم جانتے تھے کہ ایک نبی آنے والا ہے لیکن ہمیں یہ معلوم نہ تھاکہ وہ عرب کی سر زمین سے ہوگا،اس طرح تویہ باتیں غلط ہوئیں کہ عیسائیوں کو رسول  اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مبعوث ہونے کاعلم تھا۔

xروایت وضح کرنے والے کواتنابھی علم نہ تھاکہ اس وقت شام میں عیسائیوں کی حکومت تھی یہودی تووہاں غلامانہ زندگی گزار رہے تھے اوررسول موعودکے بے چینی کے ساتھ منتظر تھے جس کی بعثت کی پیشین گوئیاں ان کے انبیاء نے کی تھیں اوردعائیں مانگاکرتے تھے کہ وہ رسول جلدی سے آئے توکفارکاغلبہ مٹے اورپھران کے عروج کا دور شروع ہو،ان کا یہ اعتقاداس وقت تک رہاجب تک رسول  اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت نہ ہوئی ،اگریہودی بچپن ہی میں آپ کوپہچان لیتے تواپنے اعتقادویقین کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی فتح ونصرت کادیوتا سمجھ لیتے اورقتل کرنے کے بجائے نہایت خدمت گزاری کرتے ، جیساکہ قرآ ن مجیدمیں ہے۔

 وَلَمَّا جَاۗءَھُمْ كِتٰبٌ مِّنْ عِنْدِ اللّٰهِ مُصَدِّقٌ لِّمَا مَعَھُمْ ۙ وَكَانُوْا مِنْ قَبْلُ یَسْتَفْتِحُوْنَ عَلَی الَّذِیْنَ كَفَرُوْا ښ فَلَمَّا جَاۗءَھُمْ مَّا عَرَفُوْا كَفَرُوْا بِهٖ ۡ فَلَعْنَةُ اللّٰهِ عَلَی الْكٰفِرِیْنَ [103]

ترجمہ :اور اب جو ایک کتاب اللہ کی طرف سے ان کے پاس آئی ہے ،اس کے ساتھ ان کا کیا برتاؤ ہے ؟ باوجود یکہ وہ اس کتاب کی تصدیق کرتی ہے جوان کے پاس پہلے سے موجود تھی ، باوجود یہ کہ اس کی آمد سے پہلے وہ خود کفار کے مقابلے میں فتح و نصرت کی دعائیں مانگا کرتے تھے ، مگر جب چیز آگئی جسے وہ پہچان بھی گئے تو انہوں نے اسے ماننے سے انکار کر دیا پس ایسے کافروں پر اللّٰہ کی پھٹکار و لعنت ہو ۔

xاس طرح اگردیکھاجائے توآپ صلی اللہ علیہ وسلم کوعیسائیوں سے خطرہ ہوسکتاتھایہودیوں سے نہیں جیساکہ روایت میں ہے کہ روم سے سات آدمی آپ کی تلاش میں آئے ، مگربحیرا راہب کے کہنے پراپنے مقصدسے بازرہے ۔

x کیا وہ انتہائی خطرہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی جوانی کے بعدجب آپ نے تجارت کاشغل اپنایاجس میں آپ متعدد بارشام ویمن میں خدیجہ رضی اللہ عنہا کا مال تجارت لے کر گئے تھے ، ٹل گیا تھایا یہودیوں اورعیسائیوں کونبوت کی نشانیاں بھول گئی تھیں ۔

xاصل میں اس ضعیف روایت کوکسی نہ کسی طرح سچاثابت کرنے کے لئے مصنفین نے اپنی دیانت وصداقت کوخیربادکہہ کر بدنیتی سے اس واقعہ کے آخری جز کوبالکل ہی بدل دیا جس سے اس روایت کاغلط ثابت ہونا ظاہر ہوتاہے ،ورنہ آخرمیں اصل بیان تویہ ہے کہ ابوطالب نے آپ کوبلال اورسیدنا ابوبکر کے ساتھ واپس کردیا،اوربعض روایات میں ہے کہ سیدنا ابوبکر نے بلال کے ساتھ واپس کردیا،بعض روایت میں ہے کہ غلام کے ہمراہ واپس بھیج دیا، کیاسیدناابوبکر رضی اللہ عنہ جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوا دوسال چھوٹے تھے سالارقافلہ تھے اور بلال رضی اللہ عنہ تو پیدا ہی نہ ہوئے تھے،اوراگرکسی غلام کے ساتھ واپس کیاتھاتوابوطالب کواپنے بھتیجے سے یہ کیسی محبت تھی کہ اتنے بڑے خطرے کے باوجودجس میں بھتیجاقتل تک ہوسکتاتھا غلام کے ساتھ واپس بھیج دیا۔

[1] صحیح مسلم کتاب الایمانبَابُ الْإِسْرَاءِ بِرَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ إِلَى السَّمَاوَاتِ، وَفَرْضِ الصَّلَوَاتِ۴۱۳، مسند احمد۱۲۵۰۶،ابن سعد ۹۰؍۱

[2] صحیح مسلم كِتَابُ الْجِهَادِ وَالسِّیَرِ بَابُ رَدِّ الْمُهَاجِرِینَ إِلَى الْأَنْصَارِ مَنَائِحَهُمْ مِنَ الشَّجَرِ وَالثَّمَرِ حِینَ اسْتَغْنَوْا عَنْهَا بِالْفُتُوحِ۴۶۰۳

[3] ابن ہشام۱۶۴؍۱

[4] صحیح مسلم کتاب الایمان بَابُ الْإِسْرَاءِ بِرَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ إِلَى السَّمَاوَاتِ، وَفَرْضِ الصَّلَوَاتِ۴۱۳

[5] مسنداحمد۱۲۵۰۶

[6]فتح الباری ۸۹؍۱

[7] زرقانی برمواہب ۱۸۰؍۱

[8] الروض الانف۱۱۱؍۲

[9] فتح الباری ۴۶۰؍۱، شرح الزرقانی علی المواہب ۵۵۳؍۵

[10] دلائل النبوة لأبی نعیم ۱۶۶ ، کنز العمال ۳۵۴۳۰

[11] تہذیب التہذیب ۱۹۴؍۱۰

[12] دلائل النبوة لابی نعیم۲۱۹؍۱

[13] کنزالعمال ۹۶؍۶

[14] مسند ابی داؤد الطیالسی ۱۳۱؍۱

[15] تہذیب التہذیب ۳۱۶؍۱۱

[16] دلائل النبوة لابی نعیم ۱۶۳

[17] سنن الدارمی۱۴ ، دلائل النبوة لابی نعیم ۱۶۷

[18] میزان الاعتدال ۴۱۲؍۱

[19] ابن سعد۹۰؍۱

[20] تہذیب التہذیب ۱۶۵؍۱۲،میزان الاعتدال ۵۵۰؍۴

[21] مستدرک حاکم ۴۲۳۰

[22] میزان الاعتدال ۳۳۱تا۳۳۹؍۱،تہذیب التہذیب ۴۷۳تا۴۷۸؍۱

[23] صحیح مسلم کتاب الایمان بَابُ الْإِسْرَاءِ بِرَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ إِلَى السَّمَاوَاتِ، وَفَرْضِ الصَّلَوَاتِ۴۱۳

[24] مسنداحمد۱۲۵۰۶

[25] صحیح مسلم کتاب الایمان بَابُ الْإِسْرَاءِ بِرَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ إِلَى السَّمَاوَاتِ، وَفَرْضِ الصَّلَوَاتِ ۴۱۳

[26] مسنداحمد۱۲۵۰۶

[27] صحیح بخاری کتاب بدئ الخلق بَابُ ذِكْرِ المَلاَئِكَةِ ۳۲۰۷ ،صحیح مسلم کتاب الایمان بَابُ الْإِسْرَاءِ بِرَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ إِلَى السَّمَاوَاتِ، وَفَرْضِ الصَّلَوَاتِ۴۱۶،سنن نسائی کتاب الصلوٰة فَرْضُ الصَّلَاةِ , وَذِكْرُ اخْتِلَافِ النَّاقِلِینَ فِی إِسْنَادِ حَدِیثِ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ , وَاخْتِلَافِ أَلْفَاظِهِمْ فِیهِ۴۴۹ ،مسنداحمد۱۷۸۳۳

[28] حجة اللہ البالغة۳۲۰؍۲

[29]الم نشرح ۱تا۳

[30] طہ ۲۵تا ۲۸

[31] الکہف ۶۵

[32]طہ ۹۹

[33] یوسف۳

[34]الشوری۵۲

[35] مریم۴۳

[36] النمل ۱۵

[37] یوسف۲۲

[38] یوسف۳۷

[39] انبیاء ۷۴

[40] انبیاء ۷۹

[41] الانعام۱۲۵

[42] صحیح بخاری کتاب التفسیر بَابُ قَوْلِهِ لَقَدْ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِیزٌ عَلَیْهِ مَا عَنِتُّمْ، حَرِیصٌ عَلَیْكُمْ بِالْمُؤْمِنِینَ رَءُوفٌ رَحِیمٌ۴۶۷۹

[43]تفسیرطبری ۱۰۰؍۱۲ ، مستدرک حاکم ۷۸۶۳

[44] الفصول فی سیرة الرسول ازعلامہ ابن کثیر صفحہ ۹۳

[45] ابن سعد ۹۳،۹۴؍۱

[46] عیون الأثر ۴۷؍۱

[47] ابن سعد۹۴؍۱

[48] صحیح مسلم کتاب الفضائل بَابُ مِنْ فَضَائِلِ أُمِّ أَیْمَنَ رَضِیَ اللهُ عَنْهَا۶۳۱۸

[49] ابن سعد۱۲۱؍۱،دلائل النبوة لأبی نعیم الأصبهانی۱۶۴؍۱

[50] ابن ہشام۱۶۸؍۱

[51] مستدرک حاکم۴۱۸۴،ابن سعد۹۱؍۱، المعجم الکبیر للطبرانی ۵۵۲۴،دلائل النبوة للبیہقی۲۰؍۲، مسند ابی یعلی ۱۴۷۸، عیون الاثر۴۸؍۱

[52] ابن سعد۹۵؍۱

[53]ابن ہشام

[54]ابن ہشام۱۷۹؍۱

[55]ابن سعد ۹۵؍۱

[56] ابن سعد۹۵؍۱،دلائل النبوة لابی نعیم ۱۰۳،۱۶۶؍۱

[57] البدایة والنہایة

[58] السیرةالنبویة والدعوة فی العهد المكی۲۰۶؍۱،المنهج الحركى للسیرة النبویة۴۱؍۱

[59]  ابن سعد۷۵؍۱

[60]شرح ابن ابی الحدید

[61] المحبر۱۳۲؍۱

[62] المعارف۱۲۰؍۱

[63] انساب الاشراف للبلاذری ۸۸؍۱

[64] المحبر۱۶۵؍۱

[65] السیرة الحلبیة۱۶۵؍۱

[66]السیرة الحلبیة۱۶۵؍۱

[67]اشراف قریش ۱۶۵

[68] المحبر۱۶۷؍۱

[69] السیرة الحلبیة۱۶۵؍۱

[70] المعارف ۵۸۳؍۱

[71] الاصابة فی تمیزالصحابة ۷۸؍۴

[72] الاصابة فی تمیزالصحابة ۷۷؍۴

[73] ابن سعد۹۵؍۱

[74] السیرة الحلبیة۱۶۵؍۱

[75] السیرة الحلبیة۱۶۵؍۱

[76] ابن سعد ۱۰۳؍۱

[77] نسب قریش ۳۹؍۱

[78] مستدرك حاكم ۶۸۷۱ ، ابن سعد ۱۲۰؍۸، تاریخ طبری ۶۱۹؍۱۱، المحبر ۹۸

[79] ابن سعد۸۰؍۱

[80] الضحٰی ۶

[81] الضحٰی ۸

[82] صحیح بخاری کتاب الاجارہ باب رعی الغنم علی قراریط۲۲۶۲،سنن ابن ماجہ کتاب التجارات باب الصناعات۲۱۵۰،السنن الکبری للبیہقی ۱۱۶۴۱،شرح السنة للبغوی ۲۱۸۷،الروض الانف۱۰۷؍۲

[83] ابن سعد۱۰۰؍۱

[84] الروض الانف۱۱۷؍۲،تاریخ طبری۵۶۷؍۱۱،السیرة الحلبیة۱۸۴؍۱

[85] السیرة الحلبیة۱۸۵؍۱ ، سبل الهدى والرشادفی سیرة خیر العباد۱۵۶؍۲،السیرة النبویة والدعوة فی العهد المكی۲۱۵؍۱،منتهى السؤل على وسائل الوصول إلى شمائل الرسول صلى الله علیه وآله وسلم ۱۴۶؍۲

[86] جامع ترمذی أَبْوَابُ الْمَنَاقِبِ بَابُ مَا جَاءَ فِی بَدْءِ نُبُوَّةِ النَّبِیِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ۳۶۲۰،مستدرک حاکم۴۲۲۹،مسندالبزار۳۰۹۶،تاریخ طبری۲۷۸؍۲

[87]دلائل النبوة لابی نعیم ۱۶۹؍۱

[88] اصح السیرتالیف حکیم عبدالروف داناپوری صفحہ ۵۱

[89] الرحیق المختوم ۸۵

[90] سیرت النبی۱۳۰؍۱

[91] میزان الاعتدال۵۸۱؍۲

[92] تهذیب التهذیب۲۴۸؍۶

[93] مسندالبزار۳۰۹۶

[94] میزان الاعتدال ۴۹۹؍۴

[95] میزان الاعتدال۵۸۱؍۲

[96] میزان الاعتدال۵۸۱؍۲

[97] زادالمعاد۷۵؍۱

[98] زادالمعاد ۷۵؍۱

[99]حاشیہ جامع ترمذی

[100] میزان الاعتدال۵۸۱؍۲

[101] المعارف۵۸۳؍۱

[102]الحج ۱۸

[103]البقرة ۸۹

[104]ابن اسحاق،ابن سعد،بلاذری اور تفسیرطبری

[105] ابن ہشام ۱۸۴؍۱

[106] ابن ہشام ۱۸۶؍۱،ابن سعد۱۰۲؍۱، الروض الانف۱۴۹؍۲

[107] ابن سعد۱۰۲؍۱

[108] البدایةوالنہایة۳۵۶؍۲

[109] ابن سعد۱۰۳؍۱

[110]الروض الانف۴۷؍۲

[111] المحبر ۱۶۷

[112] الرروض الانف ۴۹؍۲،ابن ہشام۱۳۴؍۱،البدایة والنہایة۳۵۷؍۲

[113] صحیح مسلم کتاب الایمان بَابُ الدَّلِیلِ عَلَى أَنَّ مِنْ مَاتَ عَلَى الْكُفْرِ لَا یَنْفَعُهُ عَمَلٌ۵۱۸،مسند احمد۲۴۶۲۱، صحیح ابن حبان ۳۳۱

Related Articles