مکہ: قبل از بعثتِ نبوی ﷺ

پیدائش کے سلسلہ میں چندضعیف روایات

 ولم یكن فی ذلك الوقت لوح ولا قلم، ولا جنة ولا نار، ولا ملك ولا سماء، ولا أرض ولا شمس ولا قمر، ولا جنی ولا إنسی، فلما أراد الله تعالى أن یخلق الخلق

اللّٰہ تعالیٰ نے لوح وقلم،جنت ودوزخ،فرشتے وآسمان وزمین ،سورج وچاند اورجن وانس سے قبل نورمحمدی کوپیداکیااورجب اللہ تعالیٰ نے مخلوقات کو پیدا کرنےکا ارادہ فرمایا توسب چیزیں اسی نور سے پیدافرمائیں ۔[1]

ایک مشہورروایت ہے ۔

أول ما خلق الله نوری

ترجمہ:سب سے قبل  اللّٰہ نے میرے نورکوپیداکیا۔

حالانکہ یہ روایت کسی حدیث کی کتاب میں موجودنہیں ہے،البتہ مصنف عبدالرزاق بن ہمام میں یہ روایت اس طرح مروی ہے۔

قال صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: یا جابر، إن الله تعالى قد خلق قبل الأشیاء نور نبیك من نوره

رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااے جابر رضی اللہ عنہ !ساری اشیاء سےپہلے  اللّٰہ تعالیٰ نے اپنے نور سے تیرے نبی کے نور کو پیدا کیا۔

اس حدیث کو ذکر کرنے کے بعد امام زرقانی رحمہ اللہ اس حدیث سے متعلق رقمطراز ہیں

حدیث جابر هذا المنسوب إلى عبد الرزاق موضوع لا أصل له، وقد عزاه غیر واحد إلى عبد الرزاق خطأ فهو غیر موجود فی مصنفه ولا جامعه ولا تفسیره

حدیث جابر جو عبد الرزاق کی طرف منسوب کی گئی ہے من گھڑت ہے جس کی کوئی اصل نہیں ، اس حدیث کو عبد الرزاق کی طرف ایک سے زیادہ لوگوں نے منسوب کیا لیکن حقیقت یہ ہے کہ حدیث ہذا ان کی تصانیف مصنف،جامع،تفسیروغیرہ میں کہیں بھی نہیں ملتی۔[2]

بلکہ صحیح احادیث میں مخلوقات الہٰی میں سب سے پہلے قلم تقدیرکی پیدائش کاذکرہے،

إِنَّ أَوَّلَ مَا خَلَقَ اللَّهُ القَلَمَ

اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے قلم کوپیدافرمایا۔[3]

عَنْ أَبِی حَفْصَةَ قَالَ قَالَ عُبَادَةُ بْنُ الصَّامِتِ لِابْنِهِ یَا بُنَیَّ إِنَّکَ لَنْ تَجِدَ طَعْمَ حَقِیقَةِ الْإِیمَانِ حَتَّی تَعْلَمَ أَنَّ مَا أَصَابَکَ لَمْ یَکُنْ لِیُخْطِئَکَ وَمَا أَخْطَأَکَ لَمْ یَکُنْ لِیُصِیبَکَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَقُولُ إِنَّ أَوَّلَ مَا خَلَقَ اللَّهُ الْقَلَمَ فَقَالَ لَهُ اکْتُبْ قَالَ رَبِّ وَمَاذَا أَکْتُبُ قَالَ اکْتُبْ مَقَادِیرَ کُلِّ شَیْئٍ حَتَّی تَقُومَ السَّاعَةُ یَا بُنَیَّ إِنِّی سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَقُولُ مَنْ مَاتَ عَلَی غَیْرِ هَذَا فَلَیْسَ مِنِّی

ابوحفصہ کہتے ہیں عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ نے اپنے بیٹے سے فرمایا کہ اے میرے بیٹے! تو ہرگز ایمان کی حقیقت کی حلاوت نہیں پائے گا یہاں تک کہ تو یہ جان لے کہ تجھے جو کچھ (تکلیف یا مال وغیرہ) پہنچا وہ تجھ سے ہرگز چھٹنے والا نہ تھا اور جو تجھ سے رہ گیا وہ ہرگز تجھے ملنے والا نہ تھا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ پہلی چیز جو اللہ تعالیٰ نے پیدا کی وہ قلم ہے پھر اس سے فرمایا کہ لکھ، اس نے کہا کہ اے میرے رب! میں کیا لکھوں ؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ہر چیز کی تقدیر لکھ یہاں تک کہ قیامت قائم ہوجائے اے میرے بیٹے !میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ جو اس (اعتقاد و یقین کے بغیر) مرگیا تو وہ مجھ سے نہیں ہے (اعتقاد سے خارج ہے)۔[4]

محدثین کی ایک کثیرتعدادعبدالرزاق بن ہمام کورافضی اورکذاب قراردیتی ہے،

عن زید بن المبارك قال كان عبد الرزاق كذابا یسرق الحدیث

زیدبن المبارک کہتے ہیں یہ جھوٹاہے اوراحادیث چوری کرتاہے۔[5]

والله الذی لا إله إلا هو إن عبد الرزاق كذاب، والواقدى أصدق منه

 اللہ کی قسم جس کے سواکوئی معبودنہیں عبدالرزاق جھوٹاہے ،واقدی اس سے زیادہ سچاہے ۔[6]

اس لئے محدثین اس کی روایات کو چند شرائط کے ساتھ ہی قبول کرتے ہیں ، ۲۱۰ ہجری میں اس کادماغ جواب دے گیاتھا لہذا ۲۱۰ ہجری کے بعدسے اس کی جوروایات نقل کی جاتی ہیں وہ تمام روایات ناقابل قبول ہیں ،ان سے ان کابھانجاجوروایات نقل کرتاہے وہ سب منکرہوتی ہیں ،یہ معمرسے روایات غلط بیان کرنے میں مشہورہے اوراس کی عام روایات معمرسے ہوتی ہیں ، عیسائیوں نے غلوکرکے تثلیث کانظریہ تخلیق کرڈالااورتین تک محدودرکھامگرمسلمانوں نے تمام مخلوقات کواس کے احاطہ میں شامل کرڈالااگریہ روایت تسلیم کرلی جائے تواس سے یہ ثابت ہوگاکہ  اللّٰہ تعالیٰ لامحدود اجزا واقسام میں تقسیم ہوگیااورکیونکہ ہرشے  اللّٰہ کے نورسے پیداہوئی ہے اس لئے ہرشے میں الوہیت کامادہ موجود ہےاورکیونکہ ہر شے فانی ہے اس لئے  اللّٰہ تعالیٰ کی فنابھی یقینی ہو گی ، حالانکہ یہ ایک بڑی غلط فہمی ہے کہ  اللّٰہ بذات خودایک نورہے،نورتواس رب کی ایک مخلوق ہے،جیسے  اللّٰہ تعالیٰ نے فرمایا :

اَلْحَمْدُ لِلهِ الَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ وَجَعَلَ الظُّلُمٰتِ وَالنُّوْرَ۝۰ۥۭ ثُمَّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا بِرَبِّهِمْ یَعْدِلُوْنَ۝۱ [7]

ترجمہ :سب تعریف اللہ کے لیے ہے جس نے زمین اورآسمان بنائے،روشنی اور تاریکیاں پیداکیں پھر بھی وہ لوگ جنہوں نے دعوت حق کوماننے سے انکارکردیاہے دوسروں کو اپنے رب کاہمسر ٹھہرارہےہیں ۔

اَوَمَنْ كَانَ مَیْتًا فَاَحْیَیْنٰهُ وَجَعَلْنَا لَهٗ نُوْرًا یَّمْشِیْ بِهٖ فِی النَّاسِ كَمَنْ مَّثَلُهٗ فِی الظُّلُمٰتِ لَیْسَ بِخَارِجٍ مِّنْهَا۝۰ۭ كَذٰلِكَ زُیِّنَ لِلْكٰفِرِیْنَ مَا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ۝۱۲۲ [8]

ترجمہ: کیا وہ شخص جو پہلے مُردہ تھا پھر ہم نے اُسے زندگی بخشی اور اس کو وہ روشنی عطا کی جس کے اُجالے میں وہ لوگوں کے درمیان زندگی کی راہ طے کرتا ہے اس شخص کی طرح ہو سکتا ہے جو تاریکیوں میں پڑا ہوا ہو اور کسی طرح ان سے نہ نکلتا ہو؟ کافروں کے لیے تو اسی طرح ان کے اعمال خوشنما بنا دیے گئے ہیں ۔

اَوْ كَظُلُمٰتٍ فِیْ بَحْرٍ لُّجِّیٍّ یَّغْشٰـىهُ مَوْجٌ مِّنْ فَوْقِهٖ مَوْجٌ مِّنْ فَوْقِهٖ سَحَابٌ۝۰ۭ ظُلُمٰتٌۢ بَعْضُهَا فَوْقَ بَعْضٍ۝۰ۭ اِذَآ اَخْرَجَ یَدَهٗ لَمْ یَكَدْ یَرٰىهَا۝۰ۭ وَمَنْ لَّمْ یَجْعَلِ اللهُ لَهٗ نُوْرًا فَمَا لَهٗ مِنْ نُّوْرٍ۝۴۰ۧ [9]

ترجمہ:یا پھر اس کی مثال ایسی ہے جیسے ایک گہرے سمندر میں اندھیرا کہ اوپر ایک موج چھائی ہوئی ہے، اس پر ایک اور موج اور اس کے اوپر بادل، تاریکی پر تاریکی مسلط ہے ،آدمی اپنا ہاتھ نکالے تو اسے بھی نہ دیکھنے پائے،جسے اللہ نور نہ بخشے اس کے لیے پھر کوئی نور نہیں ۔

پس جب  اللّٰہ خودنورنہیں تواس کے نورسے کسی کی تخلیق کاسوال ہی پیدانہیں ہوتاجبکہ قران مجیدمیں  اللّٰہ تعالیٰ نے فرمادیا۔

وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنْ سُلٰـلَـةٍ مِّنْ طِیْنٍ۝۱۲ۚ [10]

ترجمہ:ہم نے انسان کومٹی کے ست سے بنایا۔

هُوَالَّذِیْ خَلَقَكُمْ مِّنْ طِیْنٍ ثُمَّ قَضٰٓى اَجَلًا۝۰ۭ وَاَجَلٌ مُّسَمًّى عِنْدَهٗ ثُمَّ اَنْتُمْ تَمْتَرُوْنَ۝۲ [11]

ترجمہ:وہی ہے جس نے تم کو مٹی سے پیدا کیا پھر تمہارے لیے زندگی کی ایک مدت مقرر کر دی ، اور ایک دوسری مدت اور بھی ہے جو اس کے ہاں طے شدہ ہے، مگر تم لوگ ہو کہ شک میں پڑے ہوئے ہو ۔

xیہ بھی روایتوں میں ہے کہ یہ نورہزاروں برس سجدے میں پڑارہاپھرآدم علیہ السلام میں منتقل ہوا،آدم علیہ السلام نے مرتے وقت ثیث علیہ السلام کواپناوصی بناکریہ نوران کے سپردکیااسی طرح یہ نورایک سے دوسرے پیغمبرکوسپردہوتارہا،یہ نورعبد اللّٰہ کے سپردہوااورپھرعبد اللّٰہ سے آمنہ کومنتقل ہوا۔

نورکاسجدے میں پڑارہنااوراس کاموجودرہنابالکل موضوع ہے اورنورکاایک دوسرے وصی کودرجہ بدرجہ منتقل ہوناقطعا ًبے سروپاہے،قرآن مجیدکی آیت مبارک

 الَّذِیْ یَرٰىكَ حِیْنَ تَقُوْمُ۝۲۱۸ۙوَتَقَلُّبَكَ فِی السّٰجِدِیْنَ۔۔۔۝۲۱۹ [12]

ترجمہ:جو تمہیں اس وقت دیکھ رہا ہوتا ہے جب تم اُٹھتے ہو، اور سجدہ گزار لوگوں میں تمہاری نقل و حرکت پر نگاہ رکھتا ہے ۔

اس تفسیرپرمجاہد رحمہ اللہ ،عکرمہ رحمہ اللہ ،قتادہ رحمہ اللہ ،عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ اورتمام مفسرین کااتفاق ہے لیکن ابن سعد ،طبرانی،ابونعیم میں اس آیت مبارک کی تفسیرجوکلبی کذاب نے کی ہے وہ یہ ہے کہ رسول  اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم کا پیغمبروں کی پشت بہ پشت منتقل ہونا اللّٰہ تعالیٰ دیکھ رہاتھا۔لیکن اول توپوری آیت کے الفاظ اورسیاق وسباق اس مطلب کاساتھ نہیں دیتے اور دوسرے یہ روایت قابل اعتبارنہیں ۔[13]

اوراگریہ نورپیغمبروں کی پشت درپشت منتقل ہوتارہا تھا تو سوال یہ پیداہوتاہے کہ نوح  علیہ السلام کی اولادمیں ابراہیم علیہ السلام تک کوئی نبی نہیں اور اسماعیل علیہ السلام کی اولادمیں رسول  اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ اور کون ساپیغمبرگزراہےتوپھریہ نورکیسے منتقل ہوتارہا جبکہ رسول  اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آباؤ اجدادمیں توبہت سے بت پرست اورمشرک بھی گزرے ہیں اس طرح تویہ دعویٰ ہی سراسر جھوٹا ہے،اس کے علاوہ جلاء العیون میں اس کہانی کے آخر میں یہ ہے کہ عبدالمطلب سے یہ نورعبد اللّٰہ اورعبدمناف میں دوحصوں میں منقسم ہوگیا،عبد اللّٰہ سے یہ نور رسول  اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم کوملا اور عبدمناف سے سیدنا علی علیہ السلام کوملااسی باعث محمد صلی اللہ علیہ وسلم امام الانبیاء اور علی امام الاولیاء ہیں ،یعنی رسول  اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم اورسیدنا علی رضی اللہ عنہ مساوی درجہ رکھتے ہیں ،حتی کہ جلاء العیون میں ہے کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے پیدائش کے اول دن کلام فرمایااور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیاکہ کیاتم نے مجھے پہچان لیا؟رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیاہاں ، پھررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے یہی سوال کیا سیدناعلی رضی اللہ عنہ نے بھی اثبات میں جواب دیااسی روزسے اس دن کانام عرفہ یعنی پہچان لینے کادن ہوا(یعنی عیسٰی علیہ السلام کی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور علیٰ رضی اللہ عنہ نے اس وقت کلام کیاجب وہ اپنی ماں کی گودمیں تھے ،اور سیدناعلیٰ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مساوی درجہ رکھتے ہیں ،علاوہ ازیں قرآن مجیدمیں مہدمیں کلام کرنے کی صفت پیغمبروں میں صرف عیسٰی علیہ السلام کی بیان کی گئی ہے)

x أن نوررَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ لما وصل إلى عبد المطلب ونام فی الحجر فانتبه مكحولا مدهونا فأخذه أبوه هاشم بیده ثم انطلق به إلى كهنة قریش فأخبرهم بذلك فقالوا له: اعلم أن إله السماء قد أذن لهذا الغلام أن یتزوج، تفوح منه ریح كریح المسك ، ونور محمدصَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یسطع فی دائرة غرة جبینه،وكانت قریش بعد ذلك إذا أصابتهم قحط وشدة یأخذون بید عبد المطلب فیخرجونه إلى ثبیر فیتقربون به إلى الله عزّ وجلّ ویسألونه أن یسقیهم بنور مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فیسقیهم الله جل جلاله به

روایت ہےیہ نورجب عبدالمطلب (شیبہ) کے سپردہواتووہ ایک دن خانہ کعبہ میں سوئے ہوئے تھے اٹھے تودیکھاکہ آنکھوں میں سرمہ اوربالوں میں تیل لگاہواہے اور بدن پر جمال ورونق کاخلعت ہے یہ دیکھ کرششدررہ گئے ،آخرکاران کے باپ ان کوقریش کے ایک کاہن کے پاس لے گئے ،اس نے کہاکہ آسمانوں کے خدانے اجازت دی ہے کہ اس لڑکے کانکاح کردیاجائے،اس نورکے اثرسے عبدالمطلب کے بدن سے مشک کی خوشبو آتی تھی اوروہ نوران کی پیشانی میں چمکتاتھا،قریش پرجب قحط وغیرہ کی کوئی مصیبت پیش آتی تھی تووہ عبدالمطلب کولے کرمقام ثبیرپرلے جاتے تھے اوروہ نورِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے وسیلے سے دعامانگتے تھے توقبول ہوتی تھی۔[14]

یہ روایت ایک تابعی تک موقوف ہے ،آگے سند نہیں ،بیچ کاراوی ابوبکربن ابی مریم جوبابلتی کے لقب سے مشہورتھابااتفاق محدثین ضعیف ہے،اس کادماغ ایک حادثہ کے باعث ٹھیک نہیں رہاتھا۔[15]

کعب احبارتو ابوبکر بن ابی مریم کے وجود میں آنے سے پہلے ہی مرچکاتھاتوکیا ابوبکربن ابی مریم کی کعب احبارکی روح سے ملاقات ہوئی تھی جس سے سن کراس نے یہ روایت بیان کی ہے، امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں یہی کعب احباراسلام میں اسرائیلیات اورعجیب وغریب حوادث کی روایات کے سرچشمہ ہیں ۔

اول تواس طرح کے بے سروپا وسیلے اورواسطے کفارکی سنت ہے،دوسرے یہ کہ روایت وضاع کرنے والے کواتناعلم بھی نہ تھاکہ عبدالمطلب (شیبہ)کے والدہاشم کاانتقال توان کی پیدائش سے قبل ہی غزہ کے مقام پر ہو گیاتھا اور شیبہ نے یتیمی میں آٹھ سال مدینہ میں اپنی والدہ کے ساتھ گزارے تھے، کیاہاشم مرنے کے پندرہ سولہ برس بعد دوبارہ زندہ ہوکرآیاتھاتاکہ اپنے بیٹے کو کاہن کے پاس لے جاسکے،تیسرا یہ کہ کفارمکہ اپنے بت ہبل کے پاس آکرفال نکلواتے تھے تاکہ اس کی خوشنودی معلوم ہو سکے ، اس طریقہ فال میں  اللّٰہ کاکوئی ذکر نہیں ہوتا تھا اور جوکچھ بھی عبدالمطلب کو درپیش تھااس سے شادی کاکیاتعلق بنتاہےکیاکاہن کی اجازت کے بغیرشادی نہیں ہوسکتی تھی؟۔

الْمِسْوَرِ بْنِ مخرمة الزهری عَنْ أَبِیهِ عَنْ جَدِّهِ قال:كان عبد المطلب إِذَا وَرَدَ الْیَمَنَ نَزَلَ عَلَى عَظِیمٍ مِنْ عُظَمَاءِ حِمْیَرَ. فَنَزَلَ عَلَیْهِ مَرَّةً مِنَ الْمَرِّ فَوَجَدَ عِنْدَهُ رَجُلا مِنْ أَهْلِ الْیَمَنِ قَدْ أُمْهِلَ لَهُ فِی الْعُمُرِ. وَقَدْ قَرَأَ الْكُتُبَ، فَقَالَ لَهُ: یَا عَبْدَ الْمُطَّلِبِ! تَأْذَنُ لِی أَنْ أُفَتِّشَ مَكَانًا مِنْكَ؟قَالَ: لَیْسَ كُلُّ مَكَانٍ مِنِّی آذَنُ لَكَ فِی تَفْتِیشِهِ، قَالَ: إِنَّمَا هُوَ مَنْخَرَاكَ، قَالَ: فَدُونَكَ، قَالَ: فَنَظَرَ إِلَى یَارٍ. وَهُوَ الشَّعْرُ فِی مَنْخَرَیْهِ. فَقَالَ: أَرَى نُبُوَّةً وَأَرَى مُلْكًا. وَأَرَى أَحَدَهُمَا فِی بَنِی زُهْرَةَ

مسوربن مخرمتہ الزہری کہتے ہیں عبدالمطلب جب کبھی یمن جاتے توحمیرکے سردارکے ہاں ٹھہرتے تھے،ایک مرتبہ کے ٹھہرنے میں ایک یمنی سے وہیں ملاقات ہوئی جوبہت ہی بڑی عمروالاتھااوراس نے(قدیم)کتابیں پڑھی تھیں ،اس نے عبدالمطلب سے کہاکیاآپ مجھے اس کی اجازت دیتے ہیں کہ میں تمہارے جسم کاکوئی حصہ ٹٹولوں ؟ عبدالمطلب نے کہامیں تجھے اپنے جسم کے ہرحصہ کوٹٹولنے کی اجازت نہیں دے سکتا، یمنی نے پھرکہامیں صرف تمہارے نتھنے ٹٹولناچاہتاہوں ، عبدالمطلب نے اجازت دے دی(یہی بات ہے توبسم اللہ) یمنی نے عبدالمطلب کے نتھنوں کے بال دیکھے اورکہامیں نبوت دیکھ رہاہوں ،ملک اورحکومت دیکھ رہاہوں مگران دونوں میں سے ایک چیزمجھے قبیلہ بنی زہرہ میں نظرآتی ہے(یعنی تم بنوزہرہ کی کسی لڑکی سے جاکرشادی کرو۔[16]

اورایک روایت میں نتھنے نہیں ہاتھ دیکھنے کی بات ہے۔

 ثنا عَبْدُ الْعَزِیزِ بْنُ عِمْرَانَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِیزِ، قَالَ: ثنا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ جَعْفَرٍ الْمُخَرِّمِیُّ، عَنْ أَبِی عَوْنٍ، مَوْلَى الْمِسْوَرِ بْنِ مَخْرَمَةَ، عَنِ الْمِسْوَرِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنْ أَبِیهِ الْعَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ قَالَ: قَالَ عَبْدُ الْمُطَّلِبِ: قَدِمْتُ الْیَمَنَ فِی رِحْلَةِ الشِّتَاءِ، فَنَزَلْتُ عَلَى حَبْرٍ مِنَ الْیَهُودِ، فَقَالَ رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ الزَّبُورِ، یَعْنِی أَهْلَ الْكِتَابِ : مِمَّنِ الرَّجُلُ؟ قُلْتُ: مِنْ قُرَیْشٍ، قَالَ: مِنْ أَیِّهِمْ؟ قُلْتُ: مِنْ بَنِی هَاشِمٍ، قَالَ: یَا عَبْدَ الْمُطَّلِبِ، أَتَأْذَنُ لِی أَنْ أَنْظُرَ إِلَى بَعْضِكَ؟ قَالَ: نَعَمْ، مَا لَمْ یَكُنْ عَوْرَةً،ع قَالَ: فَفَتَحَ أَحَدَ مَنْخِرَیَّ، ثُمَّ فَتَحَ الْآخَرَ، فَقَالَ: أَشْهَدُ أَنَّ فِیَ إِحْدَى یَدَیْكَ مُلْكًا، وَفِی الْأُخْرَى نُبُوَّةٌ، وَإِنَّا نَجِدُ ذَلِكَ فِی بَنِی زُهْرَةَ،فَكَیْفَ ذَلِكَ؟ قُلْتُ: لَا أَدْرِی، قَالَ: هَلْ لَكَ مِنْ شَاعَةٍ؟قُلْتُ: وَمَا الشَّاعَةُ؟قَالَ: الزَّوْجَةُ،قُلْتُ : أَمَّا الْیَوْمُ فَلَا،فَقَالَ: فَإِذَا رَجَعْتَ فَتَزَوَّجْ فِیهِمْ،فَرَجَعَ عَبْدُ الْمُطَّلِبِ إِلَى مَكَّةَ، فَتَزَوَّجَ هَالَةَ بِنْتَ وُهَیْبِ بْنِ عَبْدِ مَنَافِ بْنِ زُهْرَةَ، فَوَلَدَتْ لَهُ حَمْزَةَ، وَصَفِیَّةَ

عبدالعزیزبن عمران ،عبداللہ بن جعفر،ابن عون،مسعودبن مخرمہ اورعبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہےعبدالمطلب ایک مرتبہ گرمی کے موسم میں مکہ سے یمن کا سفر کر رہے تھےتوراستے میں حبرکے پاس جس کاتعلق قوم یہودسے تھاکچھ دیرکے لئے ٹھہرگئے اوروہیں اہل کتاب میں سے ایک شخص نے ان سے کہاعبدالمطلب ! کیاآپ مجھے اپنے بدن کے کچھ حصے دیکھنے کی اجازت دے سکتے ہیں ؟عبدالمطلب نے کہاضروربشرطیکہ وہ سترعورت میں سے نہ ہوں ،وہ شخص بولاآپ میرے سامنے اپنے ایک ہاتھ کی ہتھیلی کھولیں ،عبدالمطلب نے اپنے داہنے ہاتھ کی ہتھیلی اس کے سامنے کردی جسے وہ کچھ دیرتک دیکھتارہا،پھراس نے ان کے بائیں ہاتھ کی ہتھیلی کھلوائی اوراسے بھی خاصی دیرتک دیکھنے کے بعد بولا آپ کے ایک ہاتھ میں نبوت اوردوسرے میں حکومت کے آثارپائے جاتے ہیں ،اس کے بعداس شخص نے عبدالمطلب سے کہاکہ نبوت کے آثارجہاں تک میں نے دیکھا ہے آپ سے بنی زہرہ کی طرف منتقل ہوتے نظرآتے ہیں ،عبدالمطلب نے پوچھاوہ کیسے؟اس نے کہایہ تومجھے معلوم نہیں ،پھرعبدالمطلب سے پوچھاکیاآپ شاغہ ہے؟ عبدالمطلب نے پوچھاشاغہ کیاہے؟وہ بولا زوجہ، عبدالمطلب نے کہاآج کل توکوئی نہیں ہے،یہ سن کروہ شخص بولاتوپھرجب اس سفرسے واپس مکہ جاؤ تووہاں بنی زہرہ میں شادی کرلینا،چنانچہ جب عبدالمطلب یمن سے مکہ واپس آئے توانہوں نے ہالہ بنت وہب بن عبدمناف بن زہری سے شادی کرلی جن کے بطن سے حمزہ اورصفیہ پیدا ہوئے ۔[17]

ان روایات کامشترک راوی عبد العزیزبن عمران الزہری المدنی ہے ،

قال البخاری: لا یكتب حدیثه.وقال النسائی وغیره: متروك.قلت یحیى: قال: لیس بثقة، إنما كان صاحب شعر.

جس کی نسبت امام بخاری رحمہ اللہ کہتے ہیں اس کی حدیث نہ لکھی جائے،امام نسائی رحمہ اللہ نے کہاہے کہ یہ متروک ہے،یحییٰ نے کہا یہ شعرو شاعری کاآدمی ہے ثقہ نہ تھا۔[18]

دوسراراوی یعقوب بن زہری ہے

قال ابن معین: ما حدث عن الثقات فاكتبوه،وقال أبو زرعة: لیس بشئ یقارب الواقدی،وقال أحمد: لیس بشئ،وقال الساجی: منكر الحدیث

جس کی نسبت ابن معین رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ اگرثقات سے روایت کرے توخیرلکھو،ابوزرعہ نے کہا،وہ کچھ نہیں وہ واقدی کے برابرہے،امام احمد رحمہ اللہ نے کہاوہ کچھ نہیں اس کی حدیث لاشی ہے،ساجی رحمہ اللہ نے کہاوہ منکرالحدیث ہے،علاوہ ازیں اس روایت میں بعض اورمجہول راوی بھی ہیں ۔[19]

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی والدہ آمنہ کاتعلق بنوزہرہ سے تھا،آپ کے والدکانام عبداللہ اورداداکانام شیبہ (عبدالمطلب) تھا،اگریہ بات عبداللہ سے کہی جاتی تویہ خلاف واقعہ نہ ہوتی لیکن اس روایت کے راوی باپ کے بجائے داداکی بنوزہرہ میں شادی کرارہے ہیں ،جس سے یہ بات ثابت ہوگی کہ نبوت وبادشاہت اس لڑکے یااس لڑکے کی اولاد کے حصہ میں آئے گی جس کی ماں بنوزہرہ سے تعلق رکھتی ہویعنی یہ صرف رسول اللہ کی والدہ بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دادی کاتعلق بھی بنوزہرہ سے ہو،عبدالمطلب نے متعدد شادیاں کیں ، جن میں سے ایک بیوی ہالہ بنت اہیب جوآمنہ کی چچازادبہن تھیں بنوزہرہ سے تعلق رکھتی تھی،جس روزعبداللہ کانکاح آمنہ سے ہوااسی روزعبدالمطلب کا نکاح ہالہ سے ہوا جن کے بطن سے حمزہ رضی اللہ عنہ پیداہوئے جوآپ کے خالہ زادبھائی ہوئے،اورنبوت وبادشاہی عبداللہ کی اولادکوملی نہ کہ حمزہ رضی اللہ عنہ اوران کی اولادکو،کیایہ راوی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے نبوت وبادشاہی چھین کر حمزہ رضی اللہ عنہ کے سپردکرناچاہتے ہیں ۔

ایک عورت کاعبداللہ کودعوت دینا :

ثُمَّ انْصَرَفَ عَبْدُ الْمُطَّلِبِ آخِذًا بِیَدِ عَبْدِ اللَّهِ، فَمَرَّ بِهِ- فِیمَا یَزْعُمُونَ- عَلَى امْرَأَةٍ مِنْ بَنِی أَسَدِ بْنِ عَبْدِ الْعُزَّى بْنِ قُصَیِّ بْنِ كِلَابِ بْنِ مُرَّةَ بْنِ كَعْبِ بْنِ لُؤَیِّ بْنِ غَالِبِ بْنِ فِهْرِ، وَهِیَ أُخْتُ وَرَقَةَ بْنِ نَوْفَلِ بْنِ أَسَدِ بْنِ عَبْدِ الْعُزَّى، وَهِیَ عِنْدَ الْكَعْبَةِ، فَقَالَتْ لَهُ حِینَ نَظَرَتْ إلَى وَجْهِهِ: أَیْنَ تَذْهَبُ یَا عَبْدَ اللَّهِ؟ قَالَ: مَعَ أَبِی،قَالَتْ: لَكَ مِثْلُ الْإِبِلِ الَّتِی نُحِرَتْ عَنْكَ، وَقَعْ عَلَیَّ الْآنَ،قَالَ: أَنَا مَعَ أَبِی، وَلَا أَسْتَطِیعُ خِلَافَهُ

عبدالمطلب عبداللہ کاہاتھے تھامے ہوئے جارہے تھے کہ بنی اسدبن عبدالعزیٰ سے ایک عورت جوواقدبن نوفل کی بہن تھی(اورکاہنہ تھی) کعبہ کے پاس بیٹھی تھی اس نے عبداللہ کے نورانی چہرے کودیکھ کران سے کہاکہ اے عبداللہ!کہاں جاتے ہو؟فرمایااپنے والدکے ساتھ جارہاہوں ،اس نے کہاجس قدراونٹ تمہاری طرف سے ذبح کئے گئے ہیں اسی قدرمیں تمہاری نظرکرتی ہوں مجھ سے شادی کرلو،عبداللہ نے فرمایامیں اپنے والدکامطیع فرمان ہوں ان کی منشاء کے خلاف نہیں کرسکتا۔اوریہ شعرکہے۔

أَمَّا الْحَرَامُ فَالْمَمَاتُ دُونَهُ

فعل حرام توممکن نہیں بجائے اس کے مرجاناقبول ہے

وَالْحِلُّ لا حِلَّ فَأَسْتَبِینَهُ

اورحلال کی کوئی صورت نہیں کہ اس کاراستہ نکلے

فَكَیْفَ بِالأَمْرِ الَّذِی تَنْوِینَهُ؟

پھروہ معاملہ کیونکرہوجوتیری نیت ہے؟

وَلَا فِرَاقَهُ،فَزَعَمُوا أَنَّهُ دَخَلَ عَلَیْهَا حِینَ أُمْلِكَهَا مَكَانَهُ، فَوَقَعَ عَلَیْهَا، فَحَمَلَتْ بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ،ثُمَّ خَرَجَ مِنْ عِنْدِهَا، فَأَتَى الْمَرْأَةَ الَّتِی عَرَضَتْ عَلَیْهِ مَا عَرَضَتْ، فَقَالَ لَهَا: مَا لَكَ لَا تَعْرِضِینَ عَلَیَّ الْیَوْمَ مَا كُنْتِ عَرَضْتِ عَلَیَّ بِالْأَمْسِ؟ قَالَتْ لَهُ:فَارَقَكَ النُّورُ الَّذِی كَانَ مَعَكَ بِالْأَمْسِ،فَلَیْسَ (لِی) بِكَ الْیَوْمَ حَاجَةٌ

عبداللہ، آمنہ سے منعقدہوئے اوران کواپنے گھرمیں لاکران سے ہم خلوت ہوئے،امنہ کورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاحمل مبارک ہوا، پھرعبداللہ اس عورت کے پاس تشریف لائے جس نے آپ سے شادی کرنے کاکہاتھاوہ عورت خاموش بیٹھی رہی اورآج اس نے کچھ نہ کہا،عبداللہ نے اس سے کہا کیاسبب ہے کہ توآج مجھ سے وہ باتیں نہیں کہتی جوکل کہتی تھی،اس نے کہاکل جونورتمہاری پیشانی میں جلوہ گرتھاآج نہیں ہے( اب وہ نورتمہاری پیشانی سے منتقل ہوچکا) لہذااب مجھے آپ سے کوئی حاجت نہیں ۔[20]

ابن سعدمیں یہ روایت تین سندوں سے ہے ،ایک سند میں پہلاراوی واقدی ہے،دوسری میں کلبی ہے ،یہ دونوں مشہوردروغ گوہیں ،تیسری ابویزیدمدنی تابعی پر جاکرختم ہو جاتی ہے،ابویزیدمدنی کی اگرچہ بعض ائمہ نے توثیق کی ہے

فقال: شیخ سئل مالك عنه فقال: لا أعرفه

مگرمدینہ کے شیخ الکل امام مالک رحمہ اللہ سے ان کے بارے میں دریافت کیاگیاتو فرمایا میں اس کونہیں جانتا۔[21]

لا اعلم له اسما

ابوزرعہ رحمہ اللہ نے کہامجھے نہیں معلوم ،

ابونعیم نے چار طرق سے اس کی روایت کی ہے لیکن کوئی ان میں قابل وثوق نہیں ،ایک طرق میں نضربن سلمہ اوراحمدبن محمدبن عبدالعزیزبن عمروالزہری ہیں اوریہ تینوں نامعتبرہیں ،تیسرے سلسلہ میں مسلم بن خالدالزنجی ہیں جوضعیف سمجھے جاتے ہیں اورمتعددمجاہیل ہیں ،چوتھاطریقہ یزیدبن شہاب الزہری پرختم ہے اوروہ اپنے آگے کا سلسلہ نہیں بتاتے اوران کاحال بھی نہیں معلوم ،بیہقی کاسلسلہ وہی تیسراہے ،خرائطی اورابن عساکرکایوں بھی اعتبارنہیں ۔[22]

اصل میں یہ راوی یہ ثابت کررہے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے والدعبداللہ ایک ہوس پرست اوربدکارشخص تھے کہ انہیں ایک فاحشہ نے اپنی جانب مائل کرناچاہا،اس وقت والدمحترم کی وجہ سے انکارکردیالیکن بعدمیں خوداس فاحشہ کے پاس درخواست کرنے کے لئے پہنچ گئے ،اس طرح انہیں بدکارثابت کرکے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے والدپرایک تبرا کر رہے ہیں ۔

عبدمناف اورقبیلہ مخزوم کی دوسوعورتوں کامرجانا۔

عن العباس:أنه لما بنى عبد الله بآمنة أحصوا مائتی امرأة من بنی مخزوم وبنی عبد مناف متن ولم یتزوجن أسفًا على ما فاتهن من عبد الله، وأنه لم تبق امرأة فی قریش إلا مرضت لیلة دخل عبد الله بآمنة

عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کی گئی ہے عبدمناف اورقبیلہ مخزوم کی دوسوعورتیں گنی گئیں جنہوں نے اس غم میں کہ عبداللہ سے ان کویہ دولت حاصل نہ ہوئی مرگئیں ،لیکن انہوں نے شادی نہ کی(یعنی عمربھرکنواری رہیں )اورقریش کی کوئی عورت نہ تھی جواس غم میں بیمارنہ پڑگئی ہو۔[23]

یہ درحقیقت بالکل بے سنداوربے اصل روایت ہے اورکسی معتبرکتاب میں اس کاپتہ نہیں ۔[24]

شادی نہ ہونے کا غم صرف عبدمناف اورقبیلہ مخزوم کی عورتوں ہی کوکیوں ہوااوربنوزہرہ ،بنوجمح،بنواسد،بنوخویلد،بنوتیم،بنوعدی اوربنوغالب کی عورتوں کوکیوں نہیں ہوا، ولید بن مغیرہ اورابوجہل قبیلہ مخزوم سے تعلق رکھتے تھے اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پکے دشمن تھے ،کہیں ان کی عداوت کی وجہ یہ تونہیں تھی کہ ان کی ماؤ ں اوربہنوں نے فراق عبداللہ میں جان دے دی تھی؟ یعنی عبداللہ کی شب وصال اہل مکہ کے لئے غم کی رات تھی ،پھرتووہ اس رات کوعبداللہ پرتبراکرکے محرم کی طرح مناتے ہوں گے،عبدمناف اورقبیلہ مخزوم کی دو سو عورتوں کی فہرست تیارکرناتوبڑی ہے صرف پانچ دس نام ہی گنوادیں ،یاصرف بنی ہاشم ہی کی عورتوں کے نام بتادیں ۔

 پیداہوتے ہی آسمان کی طرف دیکھنا:

 عَنْ عِكْرِمَةَ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ لَمَّا وَلَدَتْهُ أمه وضعته تحت برمة فانقلقت عَنْهُ. قَالَتْ: فَنَظَرْتُ إِلَیْهِ فَإِذَا هُوَ قَدْ شَقَّ بَصَرُهُ یَنْظُرُ إِلَى السَّمَاءِ

عکرمہ سے مروی ہےجب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی والدی کے بطن سے پیداہوئے توپتھرکے ایک کونڈے کے نیچے انہیں الٹالٹادیاگیامگرپتھرکاوہ کونڈاپھوٹ گیامیں نے دیکھاتووہ آنکھ پھاڑکرآسمان کی طرف دیکھ رہے تھے۔[25]

پیدائش کی رات ایوان کسریٰ میں زلزلہ کاآنااور محل کے چودہ کنگروں کاگرجانا:

لَمَّا كَانَ لَیْلَةُ وُلِدَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ ارْتَجَسَ إِیوَانُ كِسْرَى وَسَقَطَتْ مِنْهُ أَرْبَعَ عَشْرَةَ شُرْفَةً، وَخَمَدَتْ نَارُ فَارِسَ وَلَمْ تَخْمُدْ قَبْلَ ذَلِكَ بِأَلْفِ عَامٍ، وَغَاضَتْ بُحَیْرَةُ سَاوَةَ وَرَأَى الْمُوبَذَانُ إِبِلا صِعَابًا تَقُودُ خَیْلا عِرَابًا قَدْ قَطَعَتْ دِجْلَةَ وَانْتَشَرَتْ فِی بِلادِهَا

ولادت کی رات کسری کے محل میں زلزلہ پڑگیااوراس کے چودہ کنگورے گرپڑے، اورفارس میں واقع سادہ کی نہریاشام میں واقع طبریہ کی نہرخشک ہوگئی، فارس کا ہزاروں برس سے روشن آتش کدہ بجھ گیا، کسری نے ایک ہولناک خواب دیکھاجس کی تعبیریمن کے ایک کاہن سطیح سے دریافت کی گئی۔۔۔[26]

اس روایت کامرکزی راوی مخزوم بن ہانی ہے جواپنے والدہانی مخزومی سے جس کی عمرڈیڑھ سوبرس تھی سے روایت نقل کرتاہے(اس نام کاکوئی صحابی بنومخزوم میں نہیں رہا، اور اس کے بیٹے مخزوم بن ہانی سے محدثین میں سے کوئی بھی شناسانہیں ہے،نیچے کے باقی راویوں کابھی یہی حال ہے،یہاں تک کہ ابن عساکر جیسے ضعیف راویوں کے سر پرست بھی اس روایت کوغریب کہنے کی جرات کرتے ہیں اورابن حجرجیسے کمزورراویوں کے سہارااورپشت پناہ بھی اس کومرسل ماننے کوتیارہیں ،ابو نعیم کی روایت میں محمدبن جعفربن اعین مشہور وضاع ہے۔[27]

دس محرم سولہ ہجری میں خلیفہ دوئم سیدنا عمرفاروق رضی اللہ عنہ کے حکم سے سعدبن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے قادسیہ کے میدان میں ایرانیوں کوشکست فاش دے کرمدائن پرقبضہ کیااورنوشیرواں کے محل میں جمعہ پڑھایایہ تھاوہ زلزلہ جوکسری کے ایوان میں آیا،ان نہروں کاخشک ہوجانادجال کے ظہورکی نشانیوں میں سے ہے( سعدبن ابی وقاص کے بعد عثمان رضی اللہ عنہ کے آخر عہدخلافت تک مسلمان جہاں تک آگے بڑھتے رہے ہرگاؤ ں اورہرشہرکے آتش کدہ بجھتے ہی رہے ،سب سے بڑاآتش کدہ بہارتھاجو بخارامیں تھا جو خلیفہ ولیدبن عبدالملک بن مروان کے زمانہ میں بجھادیاگیا ۔

مشرق ومغرب کی ساری زمین کاروشن ہونا:

لَمَّا وَلَدَتْ آمِنَةُ مُحَمَّدًا صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَقَعَ عَلَى یَدَیَّ، فَاسْتَهَلَّ، فَسَمِعْتُ قَائِلًا یَقُولُ: رَحِمَكَ رَبُّكَ، قَالَتِ الشِّفَاءُ: فَأَضَاءَ لِی مَا بَیْنَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ، حَتَّى نَظَرْتُ إِلَى بَعْضِ قُصُورِ الشَّامِ، قَالَتْ: ثُمَّ أَلْبَنْتُهُ، وَأَضْجَعْتُهُ، فَلَمْ أَنْشَبْ أَنْ غَشِیَتْنِی ظُلْمَةٌ وَرُعْبٌ وَقُشْعَرِیرَةٌ، ثُمَّ أُسْفِرَ عَنْ یَمِینِی، فَسَمِعْتُ قَائِلًا یَقُولُ: أَیْنَ ذَهَبْتَ بِهِ؟ قَالَ: ذَهَبْتُ بِهِ إِلَى الْمَغْرِبِ، قَالَتْ: وَأَسْفَرَ ذَلِكَ عَنِّی، ثُمَّ عَاوَدَنِی الرُّعْبُ بِهِ؟ قَالَ: إِلَى الْمَشْرِقِ

جب رسول  اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش ہوچکی تو عبدالرحمٰن رضی اللہ عنہ بن عوف کی والدہ شفا رضی اللہ عنہ بنت اوس باوقت ولادت وہاں موجودتھیں ،ان کابیان ہے کہ جب آپ پیداہوئے توپہلے توغیب سے ایک آوازآئی پھرمشرق سے مغرب کی ساری زمین میرے سامنے روشن ہوگئی،یہاں تک کہ شام کے محل مجھے نظرآنے لگے،میں نے آپ کوکپڑاپہناکرلٹایاہی تھا کہ ایک دم اندھیراچھاگیایہ دیکھ کرمیں ڈرسے کانپنے لگی،پھرمیری داہنی طرف سے کچھ روشنی نکلی اوریہ آوازسننے میں آئی کہ کہاں لے گئے تھے،جواب دیاگیاکہ مغرب کی سمت،ابھی کچھ دیرہی گزری تھی کہ پھروہی کیفیت طاری ہوگئی ،میں پھرڈرکرکانپنے لگی،پھرآوازآئی کہ کہاں لے گئے تھے جواب دیاگیامشرق کی طرف۔[28]

اس روایت میں بیچ کاایک روای احمدبن محمدبن عبدالعزیز الزہری نامعتبرہے،اوربقیہ راوی بھی مجہول الحال ہیں ۔[29]

سب سے پہلے یہ بات قابل غورہے کہ قصہ گھڑنے والے کویہ بھی علم نہیں تھاکہ شفاکے والدکانام اوس نہیں عبداللہ تھا،پھرخودشفا رضی اللہ عنہ کی اس وقت کیاعمرتھی ، عبدالرحمان رضی اللہ عنہ بن عوف سترہ برس کی عمرمیں ایمان لائے،یعنی یہ اس وقت پیداہوئے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر ۲۳سال کی تھی ،اب عبدالرحمان رضی اللہ عنہ بن عوف کی پیدائش سے۲۳سال قبل شفا رضی اللہ عنہ بنت عبداللہ کی کیاعمر ہو گی،اس وقت اگروہ بیس سال کی تھیں اور کنواری تھیں تواول کسی کنواری لڑکی کوزچگی میں کھڑانہیں ہونے دیاجاتا،دوسرا یہ کہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیس سال بڑی ہوئیں ،جبکہ تمام مورخین اس بات پرمتفق ہیں کہ صحابیات میں کوئی عورت ایسی نہیں جوآپ سے بڑی عمرکی ہو،یہ اپنے بیٹے کواسلام قبول کرنے پراذیتیں دیتی تھیں مگر بہت دیرکے بعدایمان لائیں اور صحابیہ کادرجہ پایا لہذایہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے چھوٹی ہوئیں ،توپھرزچگی کے وقت موجودکہاں سے ہوگئیں ،اس لئے یہ روایت کھلاجھوٹ ہے ۔

آمنہ کوخواب میں بچے کانام محمداوراحمد رکھنے کاکہنا:

رَأَتْ آمِنَةُ بِنْتُ وَهْبٍ أُمُّ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فِی مَنَامِهَا، فَقِیلَ لَهَا: إِنَّكِ قَدْ حَمَلْتِ بِخَیْرِ الْبَرِیَّةِ وَسَیِّدِ الْعَالَمِینَ، فَإِذَا وَلَدْتِیهِ فَسَمِّیهِ أَحْمَدَ وَمُحَمَّدًا، وَعَلِّقِی عَلَیْهِ هَذِهِ، قَالَ: فَانْتَبَهَتْ، وَعِنْدَ رَأْسِهَا صَحِیفَةٌ مِنْ ذَهَبٍ مَكْتُوبٌ فِیهَا

آمنہ نے خواب دیکھاکہ کوئی ان سے کہہ رہاہے ،اے آمنہ تیرابچہ تمام جہاں کاسردارہوگا جب بچہ پیداہوتواس کانام محمد اوراحمد رکھنااوریہ تعویزگلے میں ڈال دینا،جب بیدار ہوئیں توسونے کے ایک پترپرکچھ اشعارلکھے ملے۔[30]

اس روایت کاراوی ابوغزیہ محمدبن موسٰی الانصاری ہے جوروایات وضع کر کے ثقہ راویوں کی جانب منسوب کرتاتھا،

قال البخاری: عنده مناكیروقال ابن حبان: كان یسرق الحدیث.ویروى عن الثقات الموضوعات وقال أبو حاتم: ضعیف

امام بخاری اس کی روایات کومنکرکہتے ہیں ،ابن حبان کا بیان ہے کہ وہ دوسروں کی حدیثیں چرایا کرتا تھا اورثقات سے موضوع روایتیں بناکربیان کیا کرتاتھا، ابوحاتم نے اسے ضعیف کہاہے۔[31]

ابن اسحاق نے بھی اس کو بے سندروایت کہاہے،ابن سعدمیں یہ روایت واقدی کے حوالہ سے ہے جس کی دروغ گوئی محتاج بیاں نہیں ۔[32]

یہ تعویزکتناعرصہ آپ کے گلے میں پڑارہاحالانکہ مسلمانوں کاتویہ عقیدہ ہے کہ انبیاء اپنی بعثت سے قبل بھی معصوم ہوتے ہیں اورتعویزکوگلے میں ڈالنے کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

التَّمَائِمَ شِرْكٌ

تعویذات شرک ہیں ۔

کیارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بعثت سے قبل شرک میں مبتلارہے تھے؟نعوذباللہ

تاروں کازمین پرجھک جانا:

حَدَّثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ أَحْمَدَ، قَالَ: ثنا أَحْمَدُ بْنُ عُمَرَ الْخَلَّالُ الْمَكِّیُّ، قَالَ: ثنا مُحَمَّدُ بْنُ مَنْصُورٍ، قَالَ: ثنا یَعْقُوبُ بْنُ مُحَمَّدٍ الزُّهْرِیُّ، قَالَ: حَدَّثَنِی عَبْدُ الْعَزِیزِ بْنُ عُمَرَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِی عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُثْمَانَ بْنِ أَبِی سُلَیْمَانَ، عَنْ أَبِی سُوَیْدٍ الثَّقَفِیِّ، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ أَبِی الْعَاصِ، قَالَ: أَخْبَرَتْنِی أُمِّی، أَنَّهَا حَضَرَتْ آمِنَةَ أُمَّ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ لَمَّا ضَرَبَهَا الْمَخَاضُ، قَالَتْ: فَجَعَلْتُ أَنْظُرُ إِلَى النُّجُومِ تَدَلَّى، حَتَّى قُلْتُ: لَتَقَعَنَّ عَلَیَّ، فَلَمَّا وَضَعَتْ خَرَجَ مِنْهَا نُورٌ أَضَاءَ لَهُ الْبَیْتُ وَالدَّارُ، حَتَّى جَعَلْتُ لَا أَرَى إِلَّا نُورًا

سلیمان بن احمدروایت کرتے ہیں کہ میں نے احمدبن عمرالخلال المکی سے سناانہوں نے محمدبن منصورسے سنا،انہوں نے یعقوب بن محمدالزہری سے سناان سے عبدالعزیزبن عمربن عبدالرحمٰن بن عوف نے بیان کیاکہتے ہیں مجھے عبداللہ بن عثمان بن ابی سلیمان نے بیان کیاعن ابی سویدالثقفی ،عن عثمان بن ابی العاص ، کہامجھے میری والدہ نے بتلایا کہ جب آمنہ کودردزہ پیداہواتویہ معلوم ہوتاتھاکہ تمام ستارے زمین پرجھک آئے ہیں ،یہاں تک کہ میں ڈری کہ کہیں زمین پرنہ گرپڑیں ،اورآپ جب پیداہوئے توجدھرنظرجاتی تھی تمام گھرروشنی سے معمورتھا۔[33]

اس روایت میں یعقوب بن محمدزہری پایہ اعتبارسے ساقط ہے ،اوردوسراراوی عبدالعزیزبن عمربن عبدالرحمان بن عوف محض ایک داستان گواورجھوٹاانسان تھا۔[34]

اس کے علاوہ عثمان رضی اللہ عنہ بن ابی العاص( جوبنی ثقیف سے تھے اورطائف کے باشندے تھے ) قبیلہ بنی ثقیف رجب نو بعثت نبوی کے بعداسلام میں داخل ہوا ،رجب نو بعثت نبوی سے قبل اس خاندان کے صرف دوافراد مغیرہ بن شعبہ جوصلح حدیبیہ سے قبل ایمان لائے اور عمروہ رضی اللہ عنہ بن مسعودثقفی جوآٹھ بعثت نبوی کے آخرمیں ایمان لائے تھے،اپنے بزرگوں کے دین کو چھوڑ کر اللہ وحدہ لاشریک پرایمان لانے کے جرم میں اہل طائف نے انہیں شہیدکردیا ، یہ تمام قبیلہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کابدترین دشمن تھاجس میں عثمان رضی اللہ عنہ بن ابی العاص اوران کی والدہ بھی شریک تھیں ،اگر عثمان رضی اللہ عنہ کی والدہ آپ کی ولادت کے واقعات کودیکھتیں تووہ بہت پہلے اسلام قبول کرچکی ہوتیں حالانکہ ان کاتوصحابیہ ہونابھی مشکوک ہے ،اس لئے کہ اسلام کی خاطر اہل ثقیف نے پانچ افراد پرمشتمل ایک وفدرسول  اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بھیجاتھاجن میں سب سے کم سن عثمان رضی اللہ عنہ بن ابی العاص بھی تھے ،آپ نے انہیں طائف کا امیر متعین فرمایااوربقیہ اہل طائف ان کے ہاتھ پرایمان لائے۔

 حمل کی کوئی علامت کاظاہرنہ ہونا:

تَقُولُ: مَا شَعَرْتُ أَنِّی حَمَلْتُ بِهِ. وَلا وَجَدْتُ لَهُ ثُقْلَةً كَمَا تَجِدُ النِّسَاءُ. إِلا أَنِّی قَدْ أَنْكَرْتُ رَفْعَ حَیْضَتِی

آمنہ کہتی ہیں مجھے ایام حمل میں حمل کی کوئی علامت پیدانہیں ہوئی اورعورتوں کوان ایام میں جوگرانی اورتکلیف محسوس ہوتی ہے وہ بھی نہیں ہوئی،بجزاس کے کہ معمول میں کچھ فرق آگیاتھا۔[35]

قسطلانی نے مواہب لدینہ میں اس قصہ کومحمدبن اسحاق اورابونعیم کے حوالہ سے بیان کیاہے لیکن ابن اسحاق کی کتاب جوآج کل ابن ہشام کے نام سے مشہوراورچھپی ہوئی ہے اورنیزدلائل ابی نعیم کے مطبوعہ نسخہ میں اس قسم کاکوئی واقعہ مذکورنہیں ،دراصل یہ قصہ ابن سعدنے نقل کیاہے اوراس کی روایت کے دوسلسلے لکھے ہیں مگران میں سے ہرایک کاسرسلسلہ واقدی ہے اوراس کی نسبت محدثین کی رائے پوشیدہ نہیں ،علاوہ ازیں ان میں کوئی سلسلہ بھی مرفوع نہیں ،پہلاسلسلہ عبداللہ بن وہب پرختم ہوتاہے جووہ اپنی پھوپھی سے روایت کرتاہے کہ وہ کہتی ہیں کہ ہم یہ سناکرتے تھے،دوسرے سلسلہ کوواقدی زہری پرجاکرختم کردیتاہے۔[36]

اصل میں کوئی صحابی ایسانہیں جوآپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عمرمیں اتنابڑاہوجواس طرح کے واقعات کومحفوظ رکھ سکے اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعدایک عرصہ تک زندہ بھی رہا ہو، خاص طور پر وہ صحابی بنی ہاشم سے تعلق رکھتاہو،احادیث میں کل پانچ افرادایسے نظرآتے ہیں جوآپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عمرمیں بڑے تھے جوآپ پرایمان لائے تھے،ایک توسیدنا ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کے والدابوقحافہ رضی اللہ عنہ تھے یہ بنوہاشم سے نہیں بلکہ قبیلہ تیم سے تعلق رکھتے تھے،ان سے کوئی روایت مروی نہیں ہے ،ام المومنین خدیجہ رضی اللہ عنہا کے بھتیجے حکیم رضی اللہ عنہ بن حزام جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دوست تھے اورآپ سے چارپانچ برس بڑے تھے،یہ فتح مکہ کے دن ایمان لائےاورامیرمعاویہ رضی اللہ عنہ کے دورخلافت میں فوت ہوئے ،ان سے ولادت کے بارے میں کوئی روایت نہیں ہے، ایک قباث بن اشیم تھے جوآپ سے چھ ماہ ہی بڑے تھے،ان سے بھی کوئی روایت مروی نہیں ہے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچاسیدالشہداء حمزہ رضی اللہ عنہ بن عبدالمطلب جوآپ سے چھ ماہ بڑے تھے ،بعض روایت میں ہے کہ چارسال بڑے تھے۔[37]

اوریہ غزوہ احدمیں شہیدہوگئے تھے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دوسرے چچا عباس رضی اللہ عنہ جوآپ سے ڈیڑھ برس اوربعض روایات کے مطابق تین سال بڑے تھے،ان سے بعض روایات منسوب کی جاتی ہیں لیکن اتنی کم عمرمیں واقعات کو دیکھنا اور یادرکھنا ممکن نہیں ، زہری رحمہ اللہ پچاس ہجری میں پیدا ہوئے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ ہجرت فرمائی اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمرترپن برس کی تھی،اس طرح درمیان کے سوبرس کے راوی گم ہیں ،عبداللہ بن وہب توزہری کے بھی بعد پیداہوا اور یہ اپنی پھوپھی سے روایت کرتا ہے ،ان کی پھوپھی کون تھیں ، اس نے کس سے سناکچھ علم نہیں ۔

آمنہ کے ہاں کئی لڑکوں کاپیداہونا:

قَدْ حَمَلْتُ الأَوْلادَ فَمَا حَمَلْتُ سَخْلَةً أَثْقَلَ مِنْهُ

آمنہ کہاکرتی تھیں کئی بارمیں حاملہ ہوئی،میرے لڑکے ہوئے لیکن اس بچہ سے زیادہ بھاری اورگراں مجھے کوئی محسوس نہیں ہوا۔[38]

اول تویہ روایت معروف واقعہ کے خلاف ہے آمنہ کے ایک کے سوااورکوئی بچہ نہیں ہوااورنہ حمل رہادوسرے یہ کہ اس روایت کاسلسلہ ناتمام ہے،اور اس سے بڑھ کریہ ہے کہ اس کاپہلاراوی عمربن صبح کذاب ،وضاع اورمتروک تھا۔[39]

قال الدارقطنی وغیره: متروك ،وقال الأزدی: كذاب

امام دارقطنی رحمہ اللہ اوردوسرے ائمہ نے اسے متروک کہاہے، ازدی رحمہ اللہ نے اسے کذاب کہاہے۔ [40]

 فرشتوں کاباہم بشارت دینا:

فَلَمَّا ولد النّبِیّ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ امْتَلَأت الدُّنْیَا كلهَا نورا وتباشرت الْمَلَائِكَة وَضرب فِی كل سَمَاء عَمُود من زبرجد وعمود من یاقوت قد استنار بِهِ فَهِیَ مَعْرُوفَة فِی السَّمَاء قد رَآهَا رَسُول الله صلى الله عَلَیْهِ وَسلم لَیْلَة الْإِسْرَاء قیل هَذَامَا ضرب لَك استبشارا بولادتك وَقد انبت الله لَیْلَة ولد على شاطئ نهر الْكَوْثَر سبعین الف شَجَرَة من الْمسك الأذفرجعلت ثمارها بخور أهل الْجنَّة وكل اهل السَّمَوَات یدعونَ الله بالسلامة ونكست الْأَصْنَام كلهَا

جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت کاوقت آیاتو اللّٰہ تعالیٰ نے فرشتوں کوحکم دیاکہ آسمانوں اورجنتوں کے دروازے کھول دیئے جائیں ،فرشتے باہم بشارت دیتے پھرتے تھے ، سورج نے نورکانیاجوڑاپہنا،اس سال دنیاکی تمام عورتوں کویہ رعایت ملی کہ سب فرزندنرینہ جنیں ،درختوں پرپھل آگئے (کیااس سے پہلے ماضی میں ان درختوں پرپھل نہیں آیا تھا )آسمان میں زبرجدویاقوت کے ستون کھڑے کئے گئے ،نہرکوثرکے کنارے مشک خالص کے درخت اگائے گئے (خالص مشک درختوں سے پیدانہیں ہوتابلکہ ہرن کے نافہ سے حاصل کیا جاتاہے)مکہ کے بت اوندھے ہوگئے۔[41]

پھرتومکہ میں تہلکہ مچ گیاہوگاکہ ایساکیوں ہوااورجب ان کوپتہ چلتاکہ یہ عبدالمطلب کے پوتے کے سبب ہوا ہے تو یقیناًسب بنی ہاشم ایمان لے آتے وغیرہ وغیرہ ۔

یہ داستان مواہب لدینہ اورخصائص کبریٰ میں ابونعیم کے حوالہ سے نقل کی گئی ہے لیکن ابو نعیم کی دلائل النبوت کے مطبوعہ نسخہ میں جہاں اس کاموقعہ ہوسکتاتھاوہاں یہ روایت مجھ کونہیں ملی،بہرحال اس روایت کی بنیادصرف اس قدرہے کہ ابونعیم چوتھی صدی کے ایک راوی عمروبن قتیبہ سے نقل کرتے ہیں کہ ان کے والدقتیبہ جوبڑے فاضل تھے بیان کرتے تھے، قسطلانی نے مواہب میں اس روایت کونقل کرکے لکھاہے کہ عمروبن قتیبہ مطعون ہے ،حافظ سیوطی نے خصائص میں اس روایت کومنکرکہاہے اورواقعہ یہ ہے کہ یہ تمام تربے سنداور موضوع ہے۔[42]

عمروبن قتیبہ اوران کے والدقتیبہ چوتھی صدی کے راوی ہیں ،اس لئے اگرعمروبن قتیبہ اوروالدمعتبربھی ہوتے توتب بھی یہ روایت مردودہوتی کیونکہ درمیان کے ساڑھے تین سو سال کے راوی کہاں ہیں ۔

اس رات جانوروں کابولناوغیرہ:

 فَكَانَ مِنْ دَلَالَاتِ حَمْلِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَنَّ كُلَّ دَابَّةٍ كَانَتْ لِقُرَیْشٍ نَطَقَتْ تِلْكَ اللَّیْلَةَ وَقَالَتْ: حُمِلَ بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَرَبِّ الْكَعْبَةِ وَهُوَ أَمَانُ الدُّنْیَا وَسِرَاجُ أَهْلِهَا وَلَمْ یَبْقَ كَاهِنَةٌ مِنْ قُرَیْشٍ وَلَا قَبِیلَةٌ مِنْ قَبَائِلِ الْعَرَبِ إِلَّا حُجِبَتْ عَنْ صَاحِبَتِهَا , وَانْتُزِعَ عِلْمُ الْكَهَنَةِ وَلَمْ یَكُنْ سَرِیرُ مَلِكٍ مِنْ مُلُوكِ الدُّنْیَا إِلَّا أَصْبَحَ مَنْكُوسًا وَالْمَلِكُ مُخْرَسًا لَا یَنْطِقُ یَوْمَهُ ذَلِكَ وَمَرَّتْ وُحُوشُ الْمَشْرِقِ إِلَى وُحُوشِ الْمَغْرِبِ بِالْبُشَارَاتِ , وَكَذَلِكَ الْبِحَارِ یُبَشِّرُ بَعْضُهُمْ بَعْضًا بِهِ فِی كُلِّ شَهْرٍ مِنْ شُهُورِهِ نِدَاءٌ فِی الْأَرْضِ وَنِدَاءٌ فِی السَّمَاءِ: أَنْ أَبْشِرُوا؛ فَقَدْ آنَ لِأَبِی الْقَاسِمِ أَنْ یَخْرُجَ إِلَى الْأَرْضِ مَیْمُونًا مُبَارَكًا فَكَانَتْ أُمُّهُ تُحَدِّثُ عَنْ نَفْسِهَا وَتَقُولُ: أَتَانِی آتٍ حِینَ مَرَّ بِی مِنْ حَمْلِهِ سِتَّةُ أَشْهُرٍ فَوَكَزَنِی بِرِجْلِهِ فِی الْمَنَامِ وَقَالَ: یَا آمِنَةُ إِنَّكِ قَدْ حَمَلْتِ بِخَیْرِ الْعَالَمِینَ طُرًّا فَإِذَا وَلَدْتِیهِ فَسَمِّیهِ مُحَمَّدًا وَاكْتُمِی شَأْنَكِ. قَالَ: فَكَانَتْ تَقُولُ: لَقَدْ أَخَذَنِی مَا یَأْخُذُ النِّسَاءَ وَلَمْ یَعْلَمْ بِی أَحَدٌ مِنَ الْقَوْمِ ذَكَرٌ وَلَا أُنْثَى وَإِنِّی لَوَحِیدَةٌ فِی الْمَنْزِلِ وَعَبْدُ الْمُطَّلِبِ فِی طَوَافِهِ قَالَتْ: فَسَمِعْتُ وَجْبَةً شَدِیدَةً وَأَمْرًا عَظِیمًا فَهَالَنِی ذَلِكَ وَذَلِكَ یَوْمُ الِاثْنَیْنِ فَرَأَیْتُ كَأَنَّ جَنَاحَ طَیْرٍ أَبْیَضَ قَدْ مَسَحَ عَلَى فُؤَادِی فَذَهَبَ عَنِّی كُلُّ رُعْبٍ وَكُلُّ فَزَعٍ وَوَجَعٍ كُنْتُ أَجِدُهُ , ثُمَّ الْتَفَتُّ فَإِذَا أَنَا بِشَرْبَةٍ بَیْضَاءَ وَظَنَنْتُهَا لَبَنًا , وَكُنْتُ عَطْشَى , فَتَنَاوَلْتُهَا فَشَرِبْتُهَا فَأَضَاءَ مِنِّی نُورٌ عَالٍ , ثُمَّ رَأَیْتُ نِسْوَةً كَالنَّخْلِ الطِّوَالِ كَأَنَّهُنَّ بَنَاتُ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ یُحَدِّقْنَ بِی فَبَیْنَا أَنَا أَعْجَبُ وَأَقُولُ: وَاغَوْثَاهْ مِنْ أَیْنَ عَلِمْنَ بِی هَؤُلَاءِ وَاشْتَدَّ بِیَ الْأَمْرُ وَأَنَا أَسْمَعُ الْوَجْبَةَ فِی كُلِّ سَاعَةٍ أَعْظَمَ وَأَهْوَلَ فَإِذَا أَنَا بِدِیبَاجٍ أَبْیَضَ قَدْ مُدَّ بَیْنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ وَإِذَا قَائِلٌ یَقُولُ: خُذُوهُ عَنْ أَعْیُنِ النَّاسِ قَالَتْ: وَرَأَیْتُ رِجَالًا قَدْ وَقَفُوا فِی الْهَوَاءِ بِأَیْدِیهِمْ أَبَارِیقُ فِضَّةٍ وَأَنَا یَرْشَحُ مِنِّی عَرَقٌ كَالْجُمَانِ أَطْیَبُ رِیحًا مِنَ الْمِسْكِ الْأَذْفَرِ وَأَنَا أَقُولُ: یَا لَیْتَ عَبْدَ الْمُطَّلِبِ قَدْ دَخَلَ عَلَیَّ وَعَبْدُ الْمُطَّلِبِ عَنِّی نَاءٍ قَالَتْ: فَرَأَیْتُ قِطْعَةً مِنَ الطَّیْرِ قَدْ أَقْبَلَتْ مِنْ حَیْثُ لَا أَشْعُرُ حَتَّى غَطَّتْ حُجْرَتِی مَنَاقِیرُهَا مِنَ الزُّمُرُّدِ وَأَجْنِحَتُهَا مِنَ الْیَوَاقِیتِ فَكَشَفَ لِی عَنْ بَصَرِی فَأَبْصَرْتُ سَاعَتِی مَشَارِقَ الْأَرْضِ وَمَغَارِبَهَا , وَرَأَیْتُ ثَلَاثَ أَعْلَامٍ مَضْرُوبَاتٍ: عَلَمٌ فِی الْمَشْرِقِ , وَعَلَمٌ فِی الْمَغْرِبِ , وَعَلَمٌ عَلَى ظَهْرِ الْكَعْبَةِ وَأَخَذَنِی الْمَخَاضُ وَاشْتَدَّ بِیَ الْأَمْرُ جِدًّا فَكُنْتُ كَأَنِّی مُسْتَنِدَةٌ إِلَى أَرْكَانِ النِّسَاءِ , وَكَثُرْنَ عَلَیَّ حَتَّى كَأَنَّ الْأَیْدِی مَعِی فِی الْبَیْتِ وَأَنَا لَا أَرَى شَیْئًا، فَوَلَدْتُ مُحَمَّداً صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَلَمَّا خَرَجَ مِنْ بَطْنِی دُرْتُ فَنَظَرْتُ إِلَیْهِ فَإِذَا أَنَا بِهُ سَاجِدٌ قَدْ رَفَعَ إِصْبَعَیْهِ كَالْمُتَضَرِّعِ الْمُبْتَهِلِ ثُمَّ رَأَیْتُ سَحَابَةً بَیْضَاءَ قَدْ أَقْبَلَتْ مِنَ السَّمَاءِ تَنْزِلُ حَتَّى غَشِیَتْهُ فَغُیِّبَ عَنْ وَجْهِی، فَسَمِعْتُ مُنَادِیًا یَقُولُ: طُوفُوا بِمُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ شَرْقَ الْأَرْضِ وَغَرْبَهَا وَأَدْخِلُوهُ الْبِحَارَ كُلَّهَا؛ لِیَعْرِفُوهُ بِاسْمِهِ وَنَعْتِهِ وَصُورَتِهِ وَیَعْلَمُوا أَنَّهُ سُمِّیَ فِیهَا الْمَاحِیَ؛ لَا یَبْقَى شَیْءٌ مِنَ الشِّرْكِ إِلَّا مُحِیَ بِهِ فِی زَمَنِهِ ثُمَّ تَجَلَّتْ عَنْهُ فِی أَسْرَعِ وَقْتٍ فَإِذَا بِهِ مُدْرَجٌ فِی ثَوْبٍ صُوفٍ أَبْیَضَ أَشَدِّ بَیَاضًا مِنَ اللَّبَنِ وَتَحْتَهُ حَرِیرَةٌ خَضْرَاءُ قَدْ قَبَضَ عَلَى ثَلَاثِ مَفَاتِیحَ مِنَ اللُّؤْلُؤِ الرَّطْبِ الْأَبْیَضِ وَإِذَا قَائِلٌ یَقُولُ: قَبَضَ مُحَمَّدٌ عَلَى مَفَاتِیحِ النَّصْرِ وَمَفَاتِیحِ الرِّیحِ وَمَفَاتِیحِ النُّبُوَّةِ وَلِمَوْلِدِهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ

اس رات قریش کے سب جانوربولنے لگے اورکہنے لگے کہ رب کعبہ کی قسم آپ صلی اللہ علیہ وسلم شکم مادرمیں آگئے،وہ دنیاجہاں کی امان اوراہل دنیاکے چراغ ہیں ، قریش اور دیگر قبائل کی کاہنہ عورتوں میں کوئی ایسی نہ تھی کہ اس کاجن اس کی آنکھوں سے اوجھل نہ ہوگیاہواوران سے کہانت کاعلم چھین نہ لیاگیاہواوراس روز دنیاکے تمام بادشاہوں کے تخت اوندھے ہوگئے اورسلاطین اس دن گونگے ہوگئے ،مشرق کے وحشی جانوروں نے مغرب کے وحشی جانوروں کو جاکر بشارت دی اسی طرح ایک دریانے دوسرے دریا کوخوش خبری سنائی اور پورے ایام حمل میں ہرماہ آسمان وزمین میں سے نداسنی جانے لگی کہ بشارت ہوکہ ابوالقاسم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمین پرظاہرہونے کازمانہ قریب آیا۔رسول  اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم کی والدہ محترمہ امنہ فرماتی تھیں کہ جب میرے حمل کے چھ ماہ گزرچکے توخواب میں کسی نے مجھے ٹھوکرمارکرکہااے آمنہ! تمام جہانوں کاسردارتیرے پیٹ میں ہے جب وہ پیدا ہوتواس کانام محمد رکھنا اوراپنی حالت کوچھپائے رکھنا،آمنہ کہتی ہیں کہ جب ولادت کاوقت آیاتوان کووہ کچھ پیش نہ آیاجودوسری عورتوں کوپیش آتاہے ،اورکسی کومیری اس حالت کی خبرنہ تھی ،کہتی ہیں عبدالمطلب خانہ کعبہ گئے ہوئے تھے اورمیں گھرمیں بالکل تنہاتھی کہ میں نے ایک زوردارآوازسنی جسے سن کرمیں ڈرگئی ،میں نے دیکھاکہ ایک سفیدرنگ کامرغ اپنے بازوکومیرے دل پرمل رہاہے جس سے دردکی تکلیف اور دل کی دہشت دورہوگئی،میں نے ایک طرف دیکھاجہاں سفیدشربت پڑا ہواتھامجھے پیاس لگ رہی تھی میں اس شربت کودودھ سمجھ کرپی گئی،اس شربت کے پیتے ہی ایک نورنکل کرمجھ سے بلندہوا،پھرمیں نے دیکھاکہ چندلمبے قدکی عورتیں ہیں گویا وہ عبدالمطلب کی بیٹیاں ہیں اورمجھے بڑے غورسے دیکھ رہی ہیں ، میں دل میں تعجب کرنے لگی کہ ان کومیرے حال کاعلم کیونکرہوا،ایک دوسری روایت میں ہے کہ ان عورتوں نے اپناتعارف کراتے ہوئے کہاکہ ہم فرعون کی بیوی آسیہ اورعمران کی بیٹی مریم اورباقی حوریں ہیں ،اب میرادردزیادہ بڑھ گیااسی طرح ان کی آوازبھی زیادہ بلندتھی،اسی اثنامیں دیباکی ایک سفیدچادرآسمان وزمین کے درمیان پھیلی نظرآئی اوراس میں سے آوازآئی کہ اس کولوگوں کی نگاہوں سے چھپالو،میں نے ہوامیں معلق چندمردوں کو دیکھا جن کے ہاتھوں میں چاندی کے آفتابے تھے ، میرے جسم سے پسینے کے قطرے جن میں خالص مشک سے بہترخوشبوتھی موتیوں کی طرح ٹپک رہے تھے،میں اپنے دل ہی دل میں کہہ رہی تھی کہ کاش اس وقت عبدالمطلب میرے قریب موجودہوتے ( اس حالت میں کوئی شریف عورت کسی مردکوچاہے وہ اس کاخاوندہی کیوں نہ ہواس کے سامنے بے حجاب ہونا پسند نہیں کرتی ،سسرتوبہت دورکی بات ہے)پھرمیں نے نامعلوم سمت سے آئے ہوئے پرندوں کے ایک غول کوجن کی چونچیں زمردکی اوربازویاقوت کے تھے اپنے کمرے میں دیکھا ،اس وقت میری آنکھوں کے سامنے سے پردے ہٹادیئے گئے جس سے مشرق و مغرب میری آنکھوں کے سامنے ہوگئے،مجھے مشرق ،مغرب اورخانہ کعبہ پرتین جھنڈے نظرآئے،اب میرادرداورزیادہ بڑھ گیاتومجھے ایسامعلوم ہواکہ کچھ عورتیں مجھے ٹیک لگائے بیٹھی ہیں اوراتنی تعدادمیں عورتیں بھرگئیں کہ مجھے گھرکی کوئی چیزنظرنہ آتی تھی ،اسی اثنا میں بچہ پیداہوامیں نے مڑکردیکھاتوبچہ دوانگلیوں کودعاکی طرح آسمان کی طرف اٹھائے سجدے میں پڑاہواتھا،پھرایک سیاہ بادل آسمان سے اترکرنیچے آیااورمجھ پر چھا گیا جس سے بچہ میری نگاہ سے اوجھل ہوگیااس وقت ایک آوازآئی کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کوزمین کے مشرق و مغرب میں اور سمندروں کے اندر لے جاو تاکہ سب مخلوق ان کانام اورشکل وصورت پہچان لیں اورجان جائیں کہ یہ مٹانے والے ہیں (کیاشمال اورجنوب میں مخلوق نہیں بستی ہیں )یہ اپنے دوررسالت میں شرک کا نام ونشان مٹادیں گے،پھرکچھ ہی دیر بعدبادل ہٹ گیااورآپ دودھ سے زیادہ سفیدکپڑے میں جس کے نیچے سبزریشم تھالپٹے نظرآئے،آپ کے ہاتھوں میں سفیدموتیوں کی تین کنجیاں تھیں اورایک آوازآئی کہ محمدکوفتح ونصرت اورنبوت کی تین کنجیاں دی گئیں ہیں ۔ [43]

اس روایت کاپہلاراوی یحییٰ بن عبد اللّٰہ البابلتی ہے جوبالکل ضعیف ہے دوسر ا راوی ابوبکربن ابی مریم ہے جومحدثین کے نزدیک ناقابل حجت ہے،ان کے بعدکے راوی عمرو الانصاری اوران کابیٹا سعیدبن عمروالانصاری کاکچھ پتہ نہیں ۔[44]

یہ تیسری چوتھی صدی کی وضع کی ہوئی روایت ہے جو عباس رضی اللہ عنہ سے منسوب کردی گئی ہے،حالانکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا عباس رضی اللہ عنہ جو رسول  اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم سے صرف ڈیڑھ دو سال ہی بڑے تھے اوران کابیٹاعبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ ہجرت مدینہ سے دوسال قبل پیداہوئے تھے اس لئے ان دونوں باپ بیٹے کاآمنہ سے ملاقات کرنایاآپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت کاحال دیکھنا ممکن نہیں ۔

 عبدالمطلب کاایک خواب :

قَالَ لما ولد اخی عبد الله وَهُوَ اصغرنا كَانَ فِی وَجهه نور یزهر كنور الشَّمْس فَقَالَ أَبوهُ ان لهَذَا الْغُلَام لشأنا فَرَأَیْت فِی مَنَامِی انه خرج من منخره طَائِر أَبیض فطار فَبلغ الشرق والغرب ثمَّ رَجَعَ حَتَّى سقط على الْكَعْبَة فسجدت لَهُ قُرَیْش كلهَا ثمَّ طَار بَین السَّمَاء وَالْأَرْض فَأتیت كاهنة بنی مَخْزُوم فَقَالَت لی لَئِن صدقت رُؤْیَاك لیخرجن من صلبه ولد یصیر أهل الْمشرق وَالْمغْرب لَهُ تبعا فَلَمَّا ولدت آمِنَة قلت لَهَا مَا الَّذِی رَأَیْت فِی ولادتك قَالَت لما جَاءَنِی الطلق وَاشْتَدَّ بِی الْأَمر سَمِعت جلبة وكلاما لَا یشبه كَلَام الْآدَمِیّین وَرَأَیْت علما من سندس على قضیب من یاقوت قد ضرب مَا بَین السَّمَاء والارض وَرَأَیْت نورا ساطعا من رَأسه حَتَّى بلغ السَّمَاء وَرَأَیْت قُصُور الشامات كلهَا شعلة نَار وَرَأَیْت قربی سربا من القطاء قد سجدت لَهُ ونشرت أَجْنِحَتهَا وَرَأَیْت تَابِعَة سعیرة الأَسدِیة قد مرت وَهِی تَقول

مَا لَقِی الْأَصْنَام والكهان من ولدك هَذَا هَلَكت سعیرة وَالْوَیْل للأصنام وَرَأَیْت شَابًّا من اتم النَّاس طولا وأشدهم بَیَاضًا فَأخذ الْمَوْلُود منی فتفل فِی فِیهِ وَمَعَهُ طاس من ذهب فشق بَطْنه شقا ثمَّ اخْرُج قلبه فشقه شقا فَأخْرج مِنْهُ نُكْتَة سَوْدَاء فَرمى بهَا ثمَّ أخرج صرة من حَرِیر أَبیض فَفَتحهَا فَإِذا فِیهَا شَیْء كالذریرة الْبَیْضَاء فحشاه ثمَّ أخرج صرة من حَرِیر أَبیض فَفَتحهَا فَإِذا فِیهَا خَاتم فَضرب على كتفه كالبیضة وَألبسهُ قَمِیصًا فَهَذَا مَا رَأَیْت

عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میرے چھوٹے بھائی عبد اللّٰہ پیداہوئے توان کے چہرے پرسورج کی طرح روشنی تھی اوروالدنے ایک دفعہ خواب دیکھااوراس کاذکر بنو مخزوم کی ایک کاہنہ سے کیا،کاہنہ نے خواب سن کرپیشین گوئی کی کہ اس لڑکے کی پشت سے ایک ایسابچہ پیداہوگاجوتمام دنیاپرحکومت کرے گا،جب آمنہ کے بطن سے بچہ پیدا ہواتومیں نے ان سے پوچھاکہ ولادت کے وقت تم کوکیاکچھ نظرآیا انہوں نے جواب دیاکہ جب مجھے دردہونے لگاتومیں نے بڑے زورکی آوازسنی جوانسانوں جیسی نہ تھی اورآسمان وزمین کے درمیان مجھے یاقوت کے ڈنڈے میں لگاہواسبزرنگ کاپھریرا گڑاہوا نظرآیا ،اورمیں نے دیکھاکہ بچہ کے سرسے روشنی کی کرنیں نکل کرآسمان تک جاتی ہیں ،شام کے محل آگ کاشعلہ معلوم ہوتے تھے(عباسی خلفاء کوخوش کرنے کی کوشش ہے) اورمرغابیوں کاایک جھنڈ نظرآیا(مرغابی گرم ملک کا نہیں سردملک کاپرندہ ہے ) جس نے بچہ کوسجدہ کیاپھراپنے پروں کو کھول دیا،اورسعیرہ اسدیہ کودیکھاکہ وہ کہتی ہوئی گزری کہ تیرے اس بچہ نے بتوں اورکاہنوں کوبڑا صدمہ پہنچایا ہائے سعیرہ ہلاک ہوگئی ،پھر سپیدرنگ کاایک بلندوبالاجوان نظرآیا جس کے ہاتھ میں سونے کاطشت تھااس نے بچے کومیرے ہاتھوں سے لے کر اس کے منہ میں اپنا لعاب دہن لگایاپھربچہ کے پیٹ کوپھاڑکراس کادل باہرنکالااوراس میں سے ایک سیاہ داغ نکال کرپھینک دیاپھرسبزحریرکی تھیلی کھولی اوراس میں سے ایک انگوٹھی نکال کرمونڈھے کے برابرمہرلگائی اوراس کوایک کرتہ پہنادیا اے عباس رضی اللہ عنہ میں نے یہ دیکھا۔[45]

سیوطی کی کتابوں کا دارومدارہی اس جیسی ضعیف روایات پرہےوہ خودلکھتے ہیں

قلت هَذَا الاثر والاثر ان قبله فِیهَا نَكَارَة شَدِیدَة وَلم أورد فِی كتابی هَذَا اشد نَكَارَة مِنْهَا وَلم تكن نَفسِی لتطیب بایرادها لكنی تبِعت الْحَافِظ أَبَا نعیم

میں نے اپنی کتاب خصائص میں ان تینوں سے زیادہ منکرکوئی روایت نقل نہیں کی اور میرا دل ان کے لکھنے کونہیں چاہتاتھالیکن میں نے محض ابونعیم کی تقلیدمیں لکھ دیاہے۔[46]

سیوطی اس روایت کاماخذابونعیم کوبتاتے ہیں مگریہ روایت دلائل ابی نعیم کے مطبوعہ نسخہ میں نہیں ملی، جب آمنہ فوت ہوئیں تو عباس رضی اللہ عنہ سات آٹھ برس کے بچے ہوں گے۔[47]

کیاان کی وفات کے بعد ملاقات ہوئی تھی۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے والدعبداللہ ، حمزہ رضی اللہ عنہ اور عباس رضی اللہ عنہ دونوں سے بڑے تھے ،کیا عباس رضی اللہ عنہ اپنی پیدائش سے قبل اپنے بڑے بھائی کی پیدائش دیکھنے چلے آئے تھے؟

 محمد صلی اللہ علیہ وسلم کاکعبہ پرقبضہ :

وروى الْحَافِظ ابو زَكَرِیَّا یحیى بن عَائِذ فِی مولده عَن ابْن عَبَّاس ان آمِنَة كَانَت تحدث عَن یَوْم میلاده وَمَا رَأَتْ من الْعَجَائِب قَالَت بَینا أَنا أعجب إِذا بِثَلَاثَة نفر ظَنَنْت ان الشَّمْس تطلع من خلال وجههم بید أحدهم إبریق فضَّة وَفِی ذَلِك الابریق ریح كریح الْمسك وَفِی یَد الثَّانِی طست من زمردة خضراء عَلَیْهَا أَرْبَعَة نواحی على كل نَاحیَة من نَوَاحِیهَا لؤلؤة بَیْضَاء وَإِذا قَائِل یَقُول هَذِه الدُّنْیَا شرقها وغربها وبرها وبحرها فاقبض یَا حبیب الله على ای نَاحیَة شِئْت مِنْهَا قَالَت فَدرت لأنظر ایْنَ قبض من الطست فَإِذا هُوَ قد قبض على وَسطهَا فَسمِعت الْقَائِل یَقُول قبض مُحَمَّد على الْكَعْبَة وَرب الْكَعْبَة اما أَن الله قد جعلهَا لَهُ قبْلَة ومسكنا مُبَارَكًا وَرَأَیْت بید الثَّالِث حریرة بَیْضَاء مطویة طیا شَدِیدا فنشرها فَإِذا فِیهَا خَاتم تحار أبصار الناظرین دونه ثمَّ جَاءَ إِلَیّ فتناوله صَاحب الطست فَغسل بذلك الإبریق سبع مَرَّات ثمَّ ختم بَین كَتفیهِ بالخاتم ختما وَاحِدًا ولفه فِی الحریرة مربوطا عَلَیْهِ بخیط من الْمسك الأذفر ثمَّ حمله فَأدْخلهُ بَین أجنحته سَاعَة قَالَ ابْن عَبَّاس كَانَ ذَلِك رضوَان خَازِن الْجنان وَقَالَ فِی أُذُنه كلَاما لم أفهمهُ وَقَالَ اُبْشُرْ یَا مُحَمَّد فَمَا بَقِی لنَبِیّ علم إِلَّا وَقد أَعْطیته فَأَنت أَكْثَرهم علما وأشجعهم قلبا مَعَك مَفَاتِیح النُّصْرَة قد ألبست الْخَوْف والرعب لَا یسمع اُحْدُ بذكرك إِلَّا وَجل فُؤَاده وَخَافَ قلبه وَإِن لم یَرك یَا خَلیفَة الله

عباس رضی اللہ عنہ سے ایک اورروایت ہے کہ آمنہ رسول  اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت کاقصہ بیان کررہی تھیں کہ میں حیرت میں تھی کہ تین آدمی دکھائی دیئے جن کے چہرے سورج کی طرح چمک رہے تھے ،ایک آدمی کے ہاتھ میں چاندی کاآفتابہ تھاجس سے مشک کی خوشبوآرہی تھی ،دوسرے کے ہاتھ میں سبز زمرد کاطشت تھاجس کے چارگوشے تھے اور ہر گوشہ میں ایک سپیدموتی رکھاہواتھاایک آوازآئی اے حبیب  اللّٰہ یہ پوری دنیامشرق مغرب خشکی وتری سب مجسم ہوکرآئی ہے اس کے جس گوشے کودل چاہے مٹھی میں لے لیں ،آمنہ کہتی ہیں کہ میں نے گھوم کردیکھاکہ بچہ کہاں ہاتھ رکھتاہے ،میں نے دیکھاکہ اس نے بیچ میں ہاتھ رکھاتوکہنے والے کی آوازسنی کہ رب کعبہ کی قسم محمدنے کعبہ پرقبضہ کرلیاہے ،ہاں یہ کعبہ اس کا قبلہ اورمسکن رہے گا،تیسرے آدمی کے ہاتھ میں سپیدحریرتھااس نے اسے کھولاتواس میں سے ایک انگوٹھی نکلی جس کو دیکھ کر دیکھنے والوں کی آنکھیں حیران ہوتی تھیں ،پھروہ میرے پاس آیاتوطشت والے نے اس انگوٹھی کولے کراس آفتابہ سے سات باردھویااوربچہ کے مونڈھے پرمہرکردی اورحریرمیں اس کو لپیٹ کر مشک خالص کے تاگے سے باندھ دیااور تھوڑی دیرتک اپنے بازووں میں لپٹائے رکھا،عبد اللّٰہ بن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں یہ رضوان جنت تھاپھربچہ کے کان میں کچھ کہاآمنہ کہتی ہیں میں اسے سمجھ نہ سکی ، پھراس نے کہااے محمد! بشارت ہوکہ کسی نبی کوکوئی ایساعلم عطانہیں کیاگیاجوتم کونہیں دیاگیاتم سب پیغمبروں سے زیادہ شجاع بنائے گئے ہوتم کوفتح و نصرت کی کنجی دی گئی اوررعب وداب بخشاگیاجو تمہارا نام سنے گاخواہ اس نے تم کوکبھی دیکھابھی نہ ہوتووہ کانپ جائے گااے  اللّٰہ کے خلیفہ۔[48]

تمام روایت ہی بے اصل اوربے بنیادہے۔[49]

رسول  اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پشت پرمونڈھے کے قریب گوشت کاایک ٹکڑا پیدائشی طورپرموجودتھاجسے مہرنبوت کہاجاتاہے،ایسی کوئی مہرنہ تھی جس پرپوراکلمہ طیبہ تحریرہواس کے علاوہ اس جان لیوا تکلیف میں عورت کواپنی پڑی ہوتی ہے کجایہ کہ وہ کسی تفصیلات کی طرف توجہ کرسکے۔

 مختلف انبیاءکاذکر:

أن آمنة قالت لما وضعته علیه السّلام رأیت سحابة عظیمة لها نور أسمع فیها صهیل الخیل وخفقان الأجنحة وكلام الرجال، حتى غشیته وغیب عنى فسمعت منادیا ینادى طوفوا بمحمد- صلى الله علیه وسلم- جمیع الأرض وأعرضوه على كل روحانى من الجن والإنس والملائكة والطیور والوحوش وأعطوه خلق آدم، ومعرفة شیث، وشجاعة نوح، وخلة إبراهیم ولسان إسماعیل، ورضا إسحاق، وفصاحة صالح، وحكمة لوط، وبشرى یعقوب، وشدة موسى، وصبر أیوب، وطاعة یونس، وجهاد یوشع، وصوت داود وحب دانیال ووقار إلیاس وعصمة یحیى وزهد عیسى، واغمسوه فى أخلاق النبیین قالت: ثم انجلت عنى فإذا به قد قبض على حریرة بیضاء خضراء مطویة طیّا شدیدا ینبع من تلك الحریرة ماء وإذا قائل یقول بخ بخ قبض محمدصَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ على الدنیا كلها لم یبق خلق من أهلها إلا دخل طائعا فى قبضته، قالت ثم نظرت إلیه فإذا به كالقمر لیلة البدر وریحه یسطع كالمسك الإذفر، وإذا بثلاثة نفر فى ید أحدهم إبریق من فضة، وفى ید الثانى طست من زمرد أخضر وفى ید الثالث حریرة بیضاء فنشرها فأخرج منها خاتما تحار أبصار الناظرین دونه فغسله من ذلك الإبریق سبع مرات ثم ختم بین كتفیه بالخاتم ولفه فى الحریرة ثم احتمله فأدخله بین أجنحته ساعة ثم رده إلى ورواه أبو نعیم عن ابن عباس وفیه نكارة

آمنہ کابیان ہے کہ جب میرے یہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت ہوئی توایک بڑاابر کا ٹکڑانظرآیاجس میں سے گھوڑوں کے ہنہنانے ،پرندوں کے پروں کے پھٹپھٹانے اورلوگوں کے بولنے کی آوازیں آرہی تھیں ،وہ ابرکاٹکڑابچہ کے اوپرچھاگیاجس سے بچہ میری نظروں سے اوجھل ہوگیاالبتہ منادی کی آوازسنائی دی کہ محمد کو ملکوں ملکوں پھراؤ اور سمندروں کی تہوں میں لے جاؤ کہ تمام دنیاان کے نام ونشان کوپہچان لے اورجن وانس ،چرندوپرند اورملائکہ بلکہ ہرذی روح کے سامنے لے جاوان کوآدم علیہ السلام کاخلق،شیث علیہ السلام کی معرفت،نوح علیہ السلام کی شجاعت، ابراہیم علیہ السلام کی دوستی ، اسماعیل علیہ السلام کی زباں ،اسحاق  علیہ السلام کی رضا،صالح  علیہ السلام کی فصاحت ، لوط  علیہ السلام کی حکمت،موسیٰ  علیہ السلام کی سختی،ا یوب علیہ السلام کاصبر،یونس علیہ السلام کی اطاعت، یوشع  علیہ السلام کاجہاد،داودؑ کی آواز، دانیال کی محبت،الیاس علیہ السلام کاوقار،یحییٰ  علیہ السلام کی پاکدامنی اورعیسٰی علیہ السلام کازہدعطاکرواورتمام پیغمبروں کے اخلاق میں انہیں غوطہ دوآمنہ کہتی ہیں پھریہ منظر ہٹ گیاتومیں نے دیکھاکہ آپ سبز حریر میں لپٹے ہیں اوراس کے اندرسے پانی ٹپک رہاہے آوازآئی ہاں محمدنے تمام دنیاپرقبضہ کرلیا(رسول  اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کاآج تک پوری دنیاپرقبضہ نہیں ہوااس لحاظ سے توفرشتے جھوٹے ہوئے )اورکوئی مخلوق ایسی نہ رہی جو ان کے حلقہ اطاعت میں نہ آگئی ہو(فرشتے اللہ وحدہ لاشریک کے سواکسی کے تابع دارنہیں ہیں ،اس کے علاوہ ایک باربچھونے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کاٹا تھا کیا اس سے یہ بات ثابت نہیں ہوتی کہ درندے اورجانور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حلقہ اطاعت میں داخل نہیں ہیں )کہتی ہیں کہ پھرمیں نے دیکھاتونظرآیاکہ آپ کاچہرہ چودھویں رات کے چاندکی طرح ہے اورخالص مشک کی سی خوشبوآپ سے نکل رہی ہے ،دفعتاً تین آدمی نظرآئے ایک کے ہاتھ میں چاندی کا آفتابہ ہے دوسرے کے ہاتھ میں سبز زمردکاطشت ہے اورتیسرے کے ہاتھ میں سپیدریشم ہے ،اس نے سپیدریشم کوکھول کراس میں سے انگوٹھی جس کو دیکھ کر آنکھیں خیزہ ہوتی تھیں نکالی ، پہلے اس نے انگوٹھی کوسات مرتبہ آفتابے کے پانی سے دھویاپھرمونڈھے پرمہرکرکے بچہ کوتھوڑی دیرکے لئے اپنے بازوں میں لپیٹ لیا اور پھر مجھے واپس کردیا۔[50]

بے سندروایت ہے اورحافظ قسطلانی نے خودتشریح کردی ہے

وفیه نكارة

اس میں سخت نکارت ہے۔[51]

اہل مکہ ابراہیم علیہ السلام اور اسماعیل علیہ السلام کواپناجدامجدہونے کی وجہ سے ہی جانتے تھے،باقی پیغمبروں کے بیان کیے ہوئے نام واوصاف تو پورے عرب میں ہی کوئی نہیں جانتا تھا اس لحاظ سے توآمنہ بڑی عالمہ وفاضلہ عورت تھیں کہ پیغمبروں کوان کے اوصاف سے جانتی تھیں ،تاریخ گواہ ہے کہ امت مسلمہ کاپوری دنیاپرکبھی بھی قبضہ نہیں ہوااس طرح تو فرشتوں کاجھوٹاہوناثابت ہوتاہے اورفرشتے گناہ پرقدرت نہیں رکھتے،اس کے علاوہ فرشتے اللہ تعالیٰ کے سواکسی کے تابع دارنہیں ہوتے جوتمام مخلوق کی اطاعت کا سوال پیداہو۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیداہوتے ہی ایک نورکانکلنا:

لَقَدْ عَلِقْتُ بِهِ.تَعْنِی رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَمَا وَجَدْتُ لَهُ مَشَقَّةً حَتَّى وَضَعْتُهُ. فَلَمَّا فَصَلَ مِنِّی خَرَجَ مَعَهُ نُورٌ أَضَاءَ لَهُ مَا بَیْنَ الْمَشْرِقِ إِلَى الْمَغْرِبِ. ثُمَّ وَقَعَ عَلَى الأَرْضِ مُعْتَمِدًا عَلَى یَدَیْهِ ثُمَّ أَخَذَ قَبْضَةً مِنْ تُرَابٍ فَقَبَضَهَا وَرَفَعَ رَأْسَهُ إِلَى السَّمَاء

آمنہ کہتی ہیں میں اس بچے(یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم )سے حمل میں ہوئی تووضع حمل تک میں نے کوئی تکلیف محسوس نہیں کی،جب آپ پیداہوئے توان کے ساتھ ایک ایسا نور نکلا جس سے تمام مشرق ومغرب روشن ہوگئے، بعدمیں آپ دونوں ہاتھ ٹیک کرزمین پرگرپڑے (یعنی سجدہ میں گر پڑے ) پھرمٹھی سے مٹی اٹھالی(یعنی پوری زمین پرقبضہ کر لیا )اورآسمان کی طرف سراٹھایا۔[52]

یہ روایت ابن سعد،ابونعیم ،طبرنی میں ہے مگرکوئی روایت بھی قوی نہیں ۔[53]

حالانکہ پندرہ سوسال گزرچکے ہیں لیکن آج تک ایک روزکے لئے بھی مسلمان پوری دنیاپرقابض نہیں ہوئے ۔

ایک یہودی کاآپ کی بعثت کی اطلاع دینا:

كَانَ یَهُودِیٌّ قَدْ سَكَنَ مَكَّةَ یَتَّجِرُ بِهَا، فَلَمَّا كَانَتِ اللَّیْلَةُ الَّتِی وُلِدَ فِیهَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ فِی مَجْلِسٍ مِنْ قُرَیْشٍ: یَا مَعْشَرَ قُرَیْشٍ، هَلْ وُلِدَ فِیكُمُ اللَّیْلَةَ مَوْلُودٌ؟ فَقَالَ الْقَوْمُ: وَاللهِ مَا نَعْلَمُهُ. قَالَ: اللهُ أَكْبَرُ؛ أَمَا إِذْ أَخْطَأَكُمْ فَلَا بَأْسَ؛ انْظُرُوا وَاحْفَظُوا مَا أَقُولُ لَكُمْ: وُلِدَ فِیكُمْ هَذِهِ اللَّیْلَةَ نَبِیُّ هَذِهِ الْأُمَّةِ الْأَخِیرَةِ، بَیْنَ كَتِفَیْهِ عَلَامَةٌ فِیهَا شَعْرَاتٌ مُتَوَاتِرَاتٌ، كَأَنَّهُنَّ عُرْفُ فَرَسٍ، لَا یَرْضَعُ لَیْلَتَیْنِ، وَذَلِكَ أَنَّ عِفْرِیتًا مِنَ الْجِنِّ أَدْخَلَ أُصْبُعَهُ فِی فَمِهِ فَمَنَعَهُ الرَّضَاعَ فَتَصَدَّعَ الْقَوْمُ مِنْ مَجْلِسِهِمْ وَهُمْ یَتَعَجَّبُونَ مِنْ قَوْلِهِ وَحَدِیثِهِ، فَلَمَّا صَارُوا إِلَى مَنَازِلِهِمْ أَخْبَرَ كُلُّ إِنْسَانٍ مِنْهُمُ أَهْلَهُ، فَقَالُوا: لَقَدْ وُلِدَ لِعَبْدِ اللهِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ غُلَامٌ سَمَّوْهُ مُحَمَّدًا. فَالْتَقَى الْقَوْمُ فَقَالُوا: هَلْ سَمِعْتُمْ حَدِیثَ هَذَا الْیَهُودِیِّ؟ بَلَغَكُمْ مَوْلِدُ هَذَا الْغُلَامِ؟ فَانْطَلَقُوا حَتَّى جَاءُوا الْیَهُودِیَّ فَأَخْبَرُوهُ الْخَبَرَ. قَالَ: فَاذْهَبُوا مَعِیَ حَتَّى أَنْظُرَ إِلَیْهِ، فَخَرَجُوا بِهِ حَتَّى أَدْخَلُوهُ عَلَى آمِنَةَ، فَقَالَ: أَخْرِجِی إِلَیْنَا ابْنَكِ، فَأَخْرَجَتْهُ، وَكَشَفُوا لَهُ عَنْ ظَهْرِهِ، فَرَأَى تِلْكَ الشَّامَةَ فَوَقَعَ الْیَهُودِیُّ مَغْشِیًّا عَلَیْهِ، فَلَمَّا أَفَاقَ قَالُوا: وَیْلَكَ مَا لَكَ؟ قَالَ: ذَهَبَتْ وَاللهِ النُّبُوَّةُ مِنْ بَنِی إِسْرَائِیلَ، أَفَرِحْتُمْ بِهِ یَا مَعْشَرَ قُرَیْشٍ؟ أَمَا وَاللهِ لَیَسْطُوَنَّ بِكُمْ سَطْوَةً یَخْرُجُ خَبَرُهَا مِنَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ

جس شب آپ پیداہوئے ،قریش کے بڑے بڑے سردارجلسہ جمائے بیٹھے تھے ایک یہودی نے جو مکہ میں سوداگری کرتا تھا آکران سے دریافت کیاکہ کیاتمہارے ہاں آج کسی کے گھربچہ پیداہواہے ؟سب نے اپنی لاعلمی کااظہارکیا،اسی یہودی نے کہا اللّٰہ اکبر،تم کونہیں معلوم توخیرمیں جوکچھ کہتاہوں اس کوسن رکھوآج شب کواس پچھلی امت کانبی پیداہواہے ،اس کے دونوں مونڈھوں کے بیچ میں ایک نشانی ہے ،اس میں گھوڑے کے ایال کی طرح کچھ اوپرتلے بال ہیں وہ دودن تک دودھ نہ پئے گاکیونکہ ایک جن نے اس کے منہ میں انگلی ڈال دی ہے جس سے وہ دودھ نہیں پی سکتاجب جلسہ برخاست ہوگیااورلوگ گھروں کولوٹے تومعلوم ہواکہ عبد اللّٰہ بن عبدالمطلب کے گھرلڑکاپیداہواہے ، لوگ اس یہودی کوآمنہ کے گھر لائے ،اس نے بچہ کے پیٹ پرتل دیکھاتوغش کھاکرگرپڑا(اس نے کندھوں کے درمیان مہرنبوت کیوں نہیں دیکھی )جب ہوش آیاتولوگوں نے سبب پوچھا،اس نے کہا اللّٰہ کی قسم! اسرائیل کے گھرانے سے نبوت رخصت ہوگئی اوران کے ہاتھوں سے کتاب الٰہی نکل گئی وہ بنی اسرائیل کوقتل کرے گااوران کے احبارپرغالب آئے گا،عرب نبوت پرفائزہوئے، اے قریش تم اس کی پیدائش سے خوش ہو ہوشیار! اللّٰہ کی قسم یہ ایک دن تم پرایساحملہ کرے گاجس کی خبرچاردانگ عالم میں پھیلے گی۔[54]

اس روایت میں ابوغسان محمدبن یحییٰ کنانی منکر الحدیث ہے،یہ اپنے والدیحییٰ بن علی سے روایت کرتاہے جس کاکچھ پتہ نہیں کہ یہ کون تھے،ابن حزم نے اس کومجہول کہاہے ، اسی قسم کی ایک اورروایت عیص راہب کے متعلق ابوجعفربن ابی شیبہ سے ہے اورابونعیم نے دلائل میں اورابن عساکرنے تاریخ میں اس کوذکرکیاہےلیکن زرقانی رحمہ اللہ نے لکھ دیاہے کہ ابوجعفرابن ابی شیبہ نامعتبرہے۔[55]

پہلی بات تویہ کہ کسی تل کانبوت سے کیاتعلق ہے،دوسری یہ کہ مکہ معظمہ میں کسی یہودی کاکوئی وجودنہ تھا،پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعویٰ نبوت کیاتوکیاکبھی کسی قریشی سردارنے کہاکہ ہاں فلاں یہودی نے ہمیں تمہاری ولادت کی رات کوتمہاری نبوت کے بارے میں بتلایاتھااوریہ کہ تم ہم پرحملہ آورہوگے جس کی خبرچاردانگ عالم میں پھیلے گیاوریہ بات کہ یہ بچہ کسی جن کی وجہ سے دوتین دن تک دودھ نہیں پی سکے گاسیرت کی کتابیں بھری پڑی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے دوتین دن اپنی والدہ کادودھ پیاتھاپھرثویبہ کادودھ پیا اورپھرحلیمہ سعدیہ کا دودھ پیاتھااس طرح تویہودی کی بشارت ہی غلط ثابت ہوگئی۔

 چاندکاآپ صلی اللہ علیہ وسلم سے باتیں کرنا:

عَنِ الْعَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ قَالَ: قُلْتُ: یَا رَسُولَ اللهِ، دَعَانِی إِلَى الدُّخُولِ فِی دِینِكَ أَمَارَةٌ لِنُبُّوتِكَ، رَأَیْتُكَ فِی الْمَهْدِ تُنَاغِی الْقَمَرَ وَتُشِیرُ إِلَیْهِ بِأُصْبُعِكَ، فَحَیْثُ أَشَرْتَ إِلَیْهِ مَالَ قَالَ: إِنِّی كُنْتُ أُحَدِّثُهُ وَیُحَدِّثُنِی، وَیُلْهِینِی عَنِ الْبُكَاءِ، وَأَسْمَعُ وَجْبَتَهُ حِینَ یَسْجُدُ تَحْتَ الْعَرْشِ

عباس رضی اللہ عنہ بن عبدالمطلب نے رسول  اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیااے اللہ کےرسول ( صلی اللہ علیہ وسلم )مجھ کوجس نشانی نے آپ کے مذہب میں داخل ہونے کاخیال دلایاوہ یہ ہے کہ جب آپ گہوارے میں تھے تو میں نے دیکھاکہ آپ چاندسے اورچاندآپ سے باتیں کرتاتھااورانگلی سے آپ جدھراشارہ کرتے تھے ادھرجھک جاتاتھا فرمایاہاں وہ مجھ سے باتیں کرتاتھا اور میں اس سے باتیں کرتاتھاوہ مجھے رونے سے بہلاتاتھااورجب وہ عرش کے نیچے جاکرتسبیح کرتاتھاتومیں اس کی آوازسنتاتھا۔[56]

رسول  اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچاعباس آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے تین سال ہی بڑے تھے جب رسول  اللّٰہ شیرخوارہوں گے،

عَنْ الْعَبّاسِ رَضِیَ اللهُ عَنْهُ أَنّهُ قَالَ أَذْكُرُ مَوْلِدَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَأَنَا ابْنُ ثَلَاثَةِ أَعْوَامٍ أَوْ نَحْوِهَا، فَجِیءَ بِی حَتّى نَظَرْت إلَیْهِ وَجَعَلَ النّسْوَةُ یَقُلْنَ لِی: قَبّلْ أَخَاك، قَبّلْ أَخَاك، فَقَبّلْته

عباس رضی اللہ عنہ خودفرماتے ہیں جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پیدا ہوئے تومیں تین سال کاتھامجھے خوب یادہے کہ گھرکی عورتیں مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لائیں اورکہا بھائی کو پیار کرو چنانچہ میں نے آپ کوپیارکیا۔[57]

یہ روایت سنداورمتن دونوں کے لحاظ سے غریب ہے،یہ احمدبن ابراہیم جبلی کی روایت ہے جومجہول ہے۔ [58]

عرب کے دستورکے مطابق آپ صلی اللہ علیہ وسلم صرف دس گیارہ روزہی مکہ مکرمہ میں رہے،پہلے دوتین دن والدہ نے پھر تقریباًایک ہفتہ ابولہب کی لونڈی ثویبہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کودودھ پلایا پھرحلیمہ سعدیہ آپ کولے کرقبیلہ بنی سعدمیں چلی گئیں تھیں ، عباس رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کوکب چاندسے باتیں کرتے ہوئے دیکھا ،اگر عباس رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو چاند سے باتیں کرتے دیکھابھی تھاتوفتح مکہ سے ایک دن پہلے تک اپنے اسلام کااظہارکیوں نہیں کیاتھاکیایہ نشانی فتح مکہ کے روزیادآئی تھی جبکہ ان کی اہلیہ ام الفضل رضی اللہ عنہ سابقین اولین میں سے ہیں ،رسول  اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم کاچاندسے باتیں کرناتومعمولی بات ہوسکتی ہے مگرکیاکوئی مکہ کاباشندہ شق قمرجیسامعجزہ دیکھ کرایمان لایا، کوئی بھی صحابی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی معجزہ دیکھ کرایمان نہیں لایابلکہ وہ  اللّٰہ کانازل کردہ کلام قرآن مجیدکے دلائل اور طرزبیاں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کااخلاق حسنہ اورآپ کی صداقت ودیانت اوراسلام کی روز بروز بڑھتی ہوئی شان وشوکت کودیکھ کر ایمان لاتے تھے۔

 گہوارے میں کلام کرنا:

ان مهده كَانَ یَتَحَرَّك بتحریك الْمَلَائِكَة وَأَن أول كَلَام تكلم بِهِ أَن قَالَ ألله أكبر كَبِیرا وَالْحَمْد لله كثیرا

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے گہوارے میں کلام کیا، فرشتے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کاگہوارہ ہلاتے تھے اورپہلاکلمہ جوزبان سے اداہواوہ اللہ اکبرکبیراوالحمدللہ کثیراتھا۔[59]

عبد الله بن عَبَّاس عَن أَبِیه عَن جده قَالَ كانت حلیمة تُحَدِّثُ بأنها أول مافَطَمَتْ رسول الله صلى الله علیه وسلم تكلم فقال: اللهُ أَكْبَرُ كَبِیرًا، وَالْحَمْدُ لِلَّهِ كَثِیرًا، وَسُبْحَانَ اللهِ بُكْرَةً وَأَصِیلًا

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہےحلیمہ کہتی تھیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سب سے پہلا کلمہ یہ نکلاتھا

اللہ اکبرکبیرا،والحمدللہ کثیرا،وسبحان اللہ بکرة واصیلا۔ [60]

عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: كَانَتْ حَلِیمَةُ بِنْتُ أَبِی ذُؤَیْبٍ الَّتِی أَرْضَعَتِ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، تُحَدِّثُ أَنَّهَا لَمَّا فَطَمَتْ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، تَكَلَّمُ , قَالَتْ: سَمِعْتُهُ یَقُولُ كَلَامًا عَجِیبًا سَمِعْتُه یَقُولُ: اللهُ أَكْبَرُ كَبِیرًا، وَالْحَمْدُ لِلَّهِ كَثِیرًا، وَسُبْحَانَ اللهِ بُكْرَةً وَأَصِیلًا

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہےحلیمہ بنت ابی ذویب جنہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کودودھ پلایاکہتی تھیں جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بولناشروع کیاتوکچھ بول رہے تھے میں نے ایک عجیب کلام سنامیں نے سناآپ صلی اللہ علیہ وسلم بول رہے تھے

اللہ اکبرکبیرا،والحمدللہ کثیرا،وسبحان اللہ بکرة واصیلا ۔[61]

میلادکی اور کتابوں میں کچھ اور فقرے بھی منسوب ہیں جیسے

لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ یاجَلَالُ رَبِّی الرَّفِیعُ

کسی قدیم ماخذسے اس روایت کاعلم نہیں ،امام احمدبن حنبل اوردوسرے محدثین فرماتے ہیں راوی واقدی کذاب ہے۔[62]

 آپ مختون پیداہوئے:

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنْ أَبِیهِ الْعَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، قَالَ: وُلِدَ النَّبِیُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ ،مَخْتُونًا مَسْرُورًا

عبداللہ بن عباس اپنے والد عباس رضی اللہ عنہ بن عبدالمطلب سے روایت کرتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پیداہوئے توختنہ شدہ ناف کٹی ہوئی تھی۔[63]

یہ روایت متعددطریق سے مروی ہے مگران میں کوئی طریق بھی ایسا نہیں جوضعیف نہ ہو، مگرامام حاکم رحمہ اللہ نے اپنی مستدرک میں لکھاہے۔

هَذَا حَدِیثٌ صَحِیحُ الْإِسْنَادِ وَلَمْ یُخَرِّجَاهُ وَقَدْ تَوَاتَرَتِ الْأَخْبَارُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وُلِدَ مَخْتُونًا مَسْرُورًا

اس حدیث کی اسنادصحیح ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کامختون پیدا ہونا متواترروایتوں سے ثابت ہے،علامہ ذہبی رحمہ اللہ نے اس پرتنقیدکی ہے،

عقب تصحیح الحاكم للحدیث لا نافیا لصحته

تواتر تو کجاصحیح طریق سے ثابت نہیں ۔

عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ:قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:مِنْ كَرَامَتِی عَلَى رَبِّی أَنِّی وُلِدْتُ مَخْتُونًا

انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااللہ کایہ مجھ پرکرم ہے کہ اس نے مجھے مختون پیداکیاہے۔[64]

لَمْ یَرْوِ هَذَا الْحَدِیثَ عَنْ یُونُسَ إِلَّا هُشَیْمٌ، تَفَرَّدَ بِهِ سُفْیَانُ بْنُ مُحَمَّدٍ الْفَزَارِیُّ

اس روایت میں سفیان بن محمدالفزاری ضعیف رواوی ہے۔[65]

وقیل ختن یوم شق قلبه الملائكة عند ظئره حلیمة

ایک روایت یہ بھی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کااس دن ختنہ کیاگیاجب آپ کاسینہ چیراگیااور آپ صلی اللہ علیہ وسلم حلیمہ کے گھرتھے۔[66]

وَقَدِ اخْتُلِفَ فِیهِ عَلَى ثَلَاثَةِ أَقْوَالٍ:أَحَدُهَا: أَنَّهُ وُلِدَ مَخْتُونًا مَسْرُورًا، وَرُوِیَ فِی ذَلِكَ حَدِیثٌ لَا یَصِحُّ، ذَكَرَهُ أَبُو الْفَرَجِ بْنُ الْجَوْزِیِّ فِی الْمَوْضُوعَاتِ وَلَیْسَ فِیهِ حَدِیثٌ ثَابِتٌ، وَلَیْسَ هَذَا مِنْ خَوَاصِّهِ، فَإِنَّ كَثِیرًا مِنَ النَّاسِ یُولَدُ مَخْتُونًا

اورعلامہ ابن القیم رحمہ اللہ کہتے ہیں اس مسئلہ میں تین مختلف اقوال ہیں ایک یہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مختون تولدہوئے تھے لیکن اس باب میں جوحدیث بیان کی جاتی ہے وہ صحیح نہیں ہے،ابوالفرج جوزی نے اسے موضوعات میں شمارکیاہے،اس بارے میں کوئی صحیح حدیث نہیں ملتی، اوریہ بات آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خواص میں سے بھی نہیں سمجھی جاسکتی کیونکہ ایسے بچے اکثرپیداہوتے رہتے ہیں ۔ [67]

وَحَدَّثَنِی صَاحِبُنَا أبو عبد الله محمد بن عثمان الخلیلی الْمُحَدِّثُ بِبَیْتِ الْمَقْدِسِ أَنَّهُ وُلِدَ كَذَلِكَ، وَأَنَّ أَهْلَهُ لَمْ یَخْتِنُوهُ، وَالنَّاسُ یَقُولُونَ لِمَنْ وُلِدَ كَذَلِكَ: خَتَنَهُ الْقَمَرُ، وَهَذَا مِنْ خُرَافَاتِهِمْ ،الْقَوْلُ الثَّانِی: أَنَّهُ خُتِنَ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَوْمَ شَقَّ قَلْبَهُ الْمَلَائِكَةُ عِنْدَ ظِئْرِهِ حَلِیمَةَ.الْقَوْلُ الثَّالِثُ: أَنَّ جَدَّهُ عبد المطلب خَتَنَهُ یَوْمَ سَابِعِهِ وَصَنَعَ لَهُ مَأْدُبَةً وَسَمَّاهُ مُحَمَّدًا.قَالَ أَبُو عُمَرَ بْنُ عَبْدِ الْبَرِّ: وَفِی هَذَا الْبَابِ حَدِیثٌ مُسْنَدٌ غَرِیبٌ

اورلکھتے ہیں اورمجھے ابوعبداللہ محمدبن عثمان خلیلی بیت المقدس کے محدث نے واقعہ بتایاکہ ان کے ہاں بھی ایسا ہی ایک مختون لڑاکاپیداہواہے ،اس کے گھروالوں نے ختنہ نہیں کیااورلوگوں میں مشہورہے کہ جواس طرح ختنہ شدہ پیداہواسے چاندختنہ کردیتاہے لیکن یہ سب خرافات ہے۔دوسراقول یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا حلیمہ رضی اللہ عنہا کی بکریاں چراتے ہوئے جب فرشتے نے شق صدرکیاتواس وقت ختنہ کیا۔تیسراقول یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کوآپ کے داداعبدالمطلب نے ساتویں روزختنہ کے لیے بٹھایااورایک دعوت عام کی اورآپ کانام محمدرکھا۔یہ روایت ابوعمروبن عبدالبرکی ہے ،مسندکی یہ روایت غریب ہے۔

چنانچہ کمال الدین بن عدیم نے ان پرتنقیدکی ہے ،انہوں نے بتایا:

وَبَیَّنَ فِیهِ أَنَّهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ خُتِنَ عَلَى عَادَةِ الْعَرَبُ، وَكَانَ عُمُومُ هَذِهِ السُّنَّةِ لِلْعَرَبِ قَاطِبَةً مُغْنِیًا عَنْ نَقْلٍ مُعَیَّنٍ فِیهَا

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کاعربوں کے معمول کے مطابق ختنہ کیاگیااورعربوں کے ہاں ختنہ کرناایک عمومی رواج کے علاوہ نشان شرف بھی سمجھاجاتاتھا۔[68]

دودھ پلانے والیاں :

أمه أرضعته تسعة أیام

سب سے پہلے آ پ صلی اللہ علیہ وسلم کوآپ کی والدہ آمنہ بنت وہب نے دوتین دن دودھ پلایا۔[69]

أَوَّلُ مَنْ أَرْضَعَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ ثُوَیْبَةُ بِلَبَنِ ابْنٍ لَهَا. یُقَالُ لَهُ مَسْرُوحٌ. أَیَّامًا قَبْلَ أَنْ تَقْدَمَ حَلِیمَةُ. وَكَانَتْ قَدْ أَرْضَعَتْ قَبْلَهُ حَمْزَةَ بْنَ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ. وَأَرْضَعَتْ بَعْدَهُ أَبَا سَلَمَةَ بْنَ عَبْدِ الأَسَدِ الْمَخْزُومِیَّ

پھرحلیمہ کے آنے سے پہلے(آپ کے حقیقی چچاابولہب کو آپ علیہ السلام کی ولادت کی خوشخبری کے عوض آزاد ہونے والی لونڈی) ثویبہ اسلمیہ(حافظ ابومندہ ثویبہ کوصحابیات میں شمار کرتے ہیں ) نے جن کے بطن سے ایک لڑکامسروح تھااس کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کوتقریباًایک ہفتہ دودھ پلاکر یہ سعادت حاصل کی،جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچاسیدالشہداء حمزہ رضی اللہ عنہ بن عبدالمطلب اورام المومنین زینب رضی اللہ عنہا کے بھائی عبد اللّٰہ رضی اللہ عنہ بن جحش کوبھی دودھ پلاچکی تھیں ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعدثویبہ نے ابوسلمہ بن عبدالاسد مخزومی کوبھی دودھ پلایا تھا ۔[70]

اس لئے یہ حضرات رسول  اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم کے رضاعی بھائی تھے ۔

 أَنَّ أُمَّ حَبِیبَةَ، زَوْجَ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، قَالَتْ:فَقُلْتُ: یَا رَسُولَ اللَّهِ، فَوَاللَّهِ إِنَّا نَتَحَدَّثُ أَنَّكَ تُرِیدُ أَنْ تَنْكِحَ دُرَّةَ بِنْتَ أَبِی سَلَمَةَ؟فَقَالَ:بِنْتَ أُمِّ سَلَمَةَ ،فَقُلْتُ: نَعَمْ، قَالَ:فَوَاللَّهِ لَوْ لَمْ تَكُنْ رَبِیبَتِی فِی حَجْرِی مَا حَلَّتْ لِی، إِنَّهَا بِنْتُ أَخِی مِنَ الرَّضَاعَةِ، أَرْضَعَتْنِی وَأَبَا سَلَمَةَ ثُوَیْبَةُ

ام المومنین ام حبیبہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہےمیں نے ایک باررسول  اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں یہ عرض کیا کہ میں نے یہ سناہے کہ آپ ابوسلمہ کی بیٹی درہ سے نکاح کاارادہ رکھتے ہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بطورتعجب فرمایاکہ ام سلمہ کی بیٹی سے جو میری تربیت میں ہے، میں نے کہاہاں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااگروہ میری پرورش میں نہ ہوتی تب بھی وہ میرے لیے حلال نہیں تھی وہ تومیرے رضاعی بھائی کی لڑکی ہے مجھے اورابوسلمہ (ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کاپہلا شوہر ، اس کی وفات کے بعدام سلمہ رضی اللہ عنہا کوام المومنین بننے کا فخر حاصل ہوا)کوثویبہ نے دودھ پلایاتھا۔[71]

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أُرِیدَ عَلَى ابْنَةِ حَمْزَةَ ،فَقَالَ: إِنَّهَا ابْنَةُ أَخِی مِنَ الرَّضَاعَةِ وَإِنَّهَا لا تَحِلُّ لِی وَإِنَّهُ یَحْرُمُ مِنَ الرَّضَاعَةِ مَا یَحْرُمُ مِنَ النَّسَبِ

عبد اللّٰہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہےمیں نے رسول  اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیاکہ اگرآپ حمزہ رضی اللہ عنہ بن عبدالمطلب کی بیٹی سے نکاح فرمالیں توکیساہے؟ توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاوہ میری رضاعی بھتیجی ہے،وہ میرے لیے حلال نہیں ہے رضاعت وہ تمام رشتے حرام ہوجاتے ہیں جونسب سے ہوتے ہیں ۔[72]

جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ام المومنین خدیجہ الکبریٰ رضی اللہ عنہا سے شادی ہوگئی توثویبہ رضی اللہ عنہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا کرتی تھی، ام المومنین خدیجہ رضی اللہ عنہا بھی ان کی عزت وتکریم کرتیں اوراس کے ساتھ احسان کابرتاو کرتیں تھیں ،اوراسی خدمت کے صلے میں رسول  اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی ہمیشہ ثویبہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ حسن سلوک فرماتے رہتے تھے ،ہجرت مدینہ کے بعدبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم ثویبہ رضی اللہ عنہا کے لئے کبھی ہدیہ میں کپڑے اورخرچہ بھیجتے تھے ،جب مکہ فتح ہواتوآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ثویبہ رضی اللہ عنہ اوراس کے بیٹے مسروح کے بارے میں دریافت فرمایامعلوم ہواکہ دونوں ماں بیٹے کا انتقال ہوچکاہے ، پھرفرمایاکہ اس کے اقارب میں کوئی زندہ ہے تاکہ اس کے ساتھ کچھ حسن سلوک اور احسان فرمائیں ،معلوم ہوا کہ اس کے خویش واقارب میں بھی کوئی زندہ نہیں ۔

سعدیہ حلیمہ کی رضاعت:

شرفاء عرب اپنے بچوں کی بہترنشونما،بہترعادات واطوار ، لسانی فصاحت وشستگی جوکہ شہری باشندوں کی نسبت دیہاتی لوگوں کی زبان زیادہ فصیح اور خالص ہوتی تھی ، عرب کے اصلی تمدن اورعربی خصوصیات کے لئے اپنے قبیلہ کوچھوڑکردیہات کے کسی دوسرے قبیلہ کی اچھی اناکاانتخاب کرتے تھے ،جوسال میں دومرتبہ مکہ آتی تھیں ، اس سال شدیدخشک سالی تھی ،اس دستور کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت کے چنددن بعد بنو سعد(ہوزان )جواپنی فصاحت وبلاغت میں مشہورہے کی دس عورتیں بچوں کی تلاش میں مکہ معظمہ آئیں ،ان عورتوں کے ساتھ حلیمہ بنت ابی ذو یب سعدیہ بھی اپنے شوہر حارث بن عبدالعزیٰ جس کی کنیت ابوکبشہ تھی اوراپنے بچے کے ہمراہ آئی تھیں ،

قال النووی رحمه الله تعالى: كنیة حلیمة أم كبشة

امام نووی ر حمہ اللہ فرماتے ہیں حلیمہ سعدیہ کی کنیت ام کبثہ تھی ۔[73]

سب عورتیں بچوں کی تلاش میں مکہ میں پھیل گئیں اوربچوں کوحاصل بھی کرلیا مگرمحمد صلی اللہ علیہ وسلم کویتیم سمجھ کرلینے کوکوئی تیارنہ ہوئی کہ نامعلوم اس یتیم کی والدہ اور دادا ہمیں رضاعت کامعقول معاوضہ دے بھی سکیں گے یانہیں جبکہ ہرخاتون اس خدمت کے عوض معقول معاوضہ حاصل کرنا چاہتی تھی (ان دایوں کو چند سکوں کی چمک میں اس گوہر نایاب کی قیمت کااندازہ ہی نہ ہوسکاجس کے ہاتھ میں قیصر و کسریٰ کے خزانوں کی کنجیاں تھیں )اب صرف حلیمہ بنت ابی ذو یب سعدیہ خالی ہاتھ رہ گئیں تھیں ،وقت روانگی دوسری عورتوں کی طعن وتشنیع کی وجہ سے خالی ہاتھ واپس جاناانہیں ناگوارہواتوبالآخر حلیمہ سعدیہ نے اپنے شوہرکی اجازت سے اس یتیم کوحاصل کرلیااور رضاعت کے لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو لے کر اپنے قبیلہ بنی سعد میں لے گئیں سب سے زیادہ انہوں نے ہی دودھ پلایا،عبد اللّٰہ ،انیسہ ،حذافہ یاجذامہ جس کالقب شیماتھا حارث بن عبدالعزیٰ کے بچے تھے جوآپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رضاعی بہن بھائی تھے ، شیماآپ صلی اللہ علیہ وسلم کو گودمیں لئے لئے پھرتی اورکھلایاکرتی تھی، حلیمہ سعدیہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچازادبھائی ابوسفیان بن حارث بن عبدالمطلب کوبھی دودھ پلایا تھااس طرح یہ بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے رضاعی بھائی تھے ،

ما رأیت أفصح منك یا رسول الله، فقال له: ما یمنعنی وأنا من قریش، وأرضعت فی بنی سعد؟

ایک بارعبد اللّٰہ (سیدناابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ )نے عرض کیااے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم آپ کی زبان نہایت فصیح ہےآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اول تومیں قریش میں سے ہوں اورپھر بنی سعدبن بکرمیں میں نے دودھ پیاہے۔[74]

 قَالَ ابْنُ إسْحَاقَ:وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَقُولُ لِأَصْحَابِهِ: أَنَا أَعْرَبُكُمْ، أَنَا قُرَشِیٌّ، وَاسْتُرْضِعْتُ فِی بَنِی سَعْدِ بْنِ بَكْرٍ

ابن اسحاق کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام سے فرمایامیں عربوں میں سے ہوں میں قریشی ہوں اورمیں نے سعدبن بکرمیں رضاعت ہوئی ہے ۔[75]

ان کے علاوہ سیرت کی کتابوں میں خولہ بنت منذر، حبشی خادمہ ام ایمن برکہ کے نام بھی ملتے ہیں ،رسول  اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم ثویبہ کی طرح حلیمہ سعدہ کے ساتھ بھی نہایت محبت اوراحسان کا برتاو کرتے رہے،

أُسَامَةُ بْنُ زَیْدٍ اللَّیْثِیُّ عَنْ شَیْخٍ مِنْ بَنِی سَعْدٍ قَالَ: قَدِمَتْ حَلِیمَةُ بِنْتُ عَبْدِ اللَّهِ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وسلم مَكَّةَ. وَقَدْ تَزَوَّجَ خَدِیجَةَ. فَتَشَكَّتْ جَدْبَ الْبِلادِ وَهَلاكَ الْمَاشِیَةِ. فَكَلَّمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ خَدِیجَةَ فِیهَا فَأَعْطَتْهَا أَرْبَعِینَ شَاةً وَبَعِیرًا مَوَقَّعًا لِلظَّعِینَةِ وَانْصَرَفَتْ إِلَى أَهْلِهَا

اسامہ بن زیداللیثی قبیلہ بنی سعدکے ایک بزرگ سے روایت کرتے ہیں حلیمہ بنت عبداللہ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچیں ،یہ وہ زمانہ تھاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ام المومنین خدیجہ رضی اللہ عنہا سے نکاح کرچکے تھے ،حلیمہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے خشک سالی ،گرانی اور مویشیوں کے ہلاک ہوجانے کی شکایت کی ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خدیجہ رضی اللہ عنہا سے اس بارے میں گفتگو کی توانہوں نے حلیمہ کو چالیس بکریاں اورسواری کے لئے ایک اونٹ عنایت کیاجوسامان ومتاع سے لداہواتھا،حلیمہ یہ سب لے کراپنے خاندان میں واپس آگئیں ۔[76]

عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْكَدِرِ قَالَ: اسْتَأْذَنَتِ امْرَأَةٌ عَلَى النَّبِیِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَدْ كَانَتْ أَرْضَعَتْهُ. فَلَمَّا دَخَلَتْ عَلَیْهِ قَالَ: أُمِّی أُمِّی! وَعَمَدَ إِلَى رِدَائِهِ فَبَسَطَهُ لَهَا فَقَعَدَتْ عَلَیْهِ

محمدبن المنکدرکہتے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ایک عورت جس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کودودھ پلایاتھانے آنے کی اجازت طلب کی،جب یہ خاتون حاضرہوئیں تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایامیری ماں ،میری ماں ،اپنی چادرمبارک لے کران کے لئے بچھادی جس پروہ بیٹھیں ۔[77]

وأخبرته بوفاة حلیمة فذرفت عیناه،فأمر لها بكسوة وجمل ومائتی درهم

فتح مکہ کے موقعہ پرحلیمہ سعدیہ کی بہن نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوکرحلیمہ سعدیہ کے انتقال کی خبرسنائی ، یہ خبرسن کرآپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھوں سے آنسوبہہ نکلے ، اور پھر اسے سواری کے لئے کجاوے سمیت ایک اونٹ ،کپڑے اوردوسودرہم عطا فرمائے۔[78]

اسی طرح حلیمہ سعدیہ کے غزوہ ہوزان میں گرفتارلوگوں کے بارے میں روایت ہے۔

أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُمَرَ عَنْ مَعْمَرٍ عَنِ الزُّهْرِیِّ وَعَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ جَعْفَرٍ وَابْنِ أَبِی سَبْرَةَ وَغَیْرِهِمْ قَالُوا: قَدِمَ وَفْدُ هَوَازِنَ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بِالْجِعْرَانَةِ بعد ما قَسَّمَ الْغَنَائِمَ وَفِی الْوَفْدِ عَمُّ النَّبِیِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مِنَ الرَّضَاعَةِ أَبُو ثَرْوَانَ. فَقَالَ یَوْمَئِذٍ: یَا رَسُولَ اللَّهِ. إِنَّمَا فِی هَذِهِ الْحَظَائِرِ مَنْ كَانَ یَكْفُلُكَ مِنْ عَمَّاتِكَ وَخَالاتِكَ وَحَوَاضِنِكَ. وَقَدْ حَضَنَّاكَ فِی حُجُورِنَا وَأَرْضَعْنَاكَ بِثَدْیِنَا. وَلَقَدْ رَأَیْتُكَ مُرْضَعًا فَمَا رَأَیْتُ مُرْضَعًا خَیْرًا مِنْكَ. وَرَأَیْتُكَ فَطِیمًا فَمَا رَأَیْتُ فَطِیمًا خَیْرًا مِنْكَ. ثُمَّ رَأَیْتُكَ شَابًّا فَمَا رَأَیْتُ شَابًّا خَیْرًا مِنْكَ. وَقَدْ تَكَامَلَتْ فِیكَ خِلالُ الْخَیْرِ. وَنَحْنُ مَعَ ذَلِكَ أَصْلُكَ وَعَشِیرَتُكَ. فَامْنُنْ عَلَیْنَا مَنَّ اللَّهُ عَلَیْكَ!فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: قَدِ اسْتَأْنَیْتُ بِكُمْ حَتَّى ظَنَنْتُ أَنَّكُمْ لا تَقْدَمُونَ] . وَقَدْ قَسَمَ النَّبِیُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ السَّبْیَ وَجَرَتْ فِیهِ السُّهْمَانُ. وَقَدِمَ عَلَیْهِ أربعة عشر رجلا من هوازن مسلمین وجاؤوا بِإِسْلامِ مَنْ وَرَاءَهُمْ مِنْ قَوْمِهِمْ

زہری ،عبداللہ بن جعفراورابن سبرہ وغیرہ کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیش گاہ میں قبیلہ بنی ہوزان کاوفدجعرانہ کے مقام پرپیش ہوا،جب کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مال غنیمت تقسیم کرچکے تھے،اس وفدمیں ابوثروان بھی تھے جورشتہ رضاعت سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچاہوتے تھے ،اس موقعہ پرانہوں نے عرض کیاان خطیروں میں وہ ہیں جنہوں نے آپ کی کفالت کی تھی ،آپ کی چچی ہیں ،خالائیں ہیں ،دائیاں ہیں ،ہم اپنی آغوش میں آپ کوپالتے رہے ہیں ،اپنی چھاتیوں سے آپ کودودھ پلاتے رہے ہیں ،میں نے آپ کودودھ پیتے دیکھاہے مگرکوئی دودھ پیتابچہ آپ سے بہترنہیں دیکھا،آپ کودودھ چھوڑتے دیکھاہے مگرکوئی دودھ چھڑایاہوابچہ آپ سے بہترنہیں دیکھا ، آپ کوجوان دیکھاکہ کوئی جوان آپ سے اچھانہیں دیکھا،تمام نیک عادت آپ میں درجہ کال تک پہنچ چکی ہیں اب سب باتوں کے باوجودآپ کی جڑبنیادہم ہیں ، آپ کے خاندان کے لوگ ہم ہیں ہم پراحسان کیجئےاللہ آپ پراحسان کرے گا،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاتم لوگوں نے اتنی سستی اوردیرکی کہ میں نے گمان کیاکہ اب تم لوگ نہیں آؤ گے،حالت یہ تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غلام(جوغزوہ ہوزان میں غلام بنائے گئے)تقسیم کرچکے تھے اوران کے حصے بھی لگ چکے تھے ،ہوزان کے چودہ آدمی مسلمان ہوکرآئے تھے اورجولوگ رہ گئے تھے ان کے اسلام قبول کرنے کی خبرلائے تھے،

وَكَانَ رَأْسُ الْقَوْمِ وَالْمُتَكَلِّمُ أَبُو صُرَدٍ زُهَیْرُ بْنُ صُرَدٍ فَقَالَ: یَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّا أَصْلٌ وَعَشِیرَةٌ. وَقَدْ أَصَابَنَا مِنَ الْبَلاءِ مَا لا یَخْفَى عَلَیْكَ یَا رَسُولَ اللَّهِ. إِنَّمَا فِی هَذِهِ الْحَظَائِرِ عَمَّاتُكَ وَخَالاتُكَ وَحَوَاضِنُكَ اللاتِی هُنَّ یَكْفُلْنَكَ. وَلَوْ أَنَّا مَلَحْنَا لِلْحَارِثِ بْنِ أَبِی شَمْرٍ أو للنعمان بن الْمُنْذِرِ ثُمَّ نَزَلا مِنَّا بِمِثْلِ الَّذِی نَزَلْتَ بِهِ رَجَوْنَا عَطْفَهُمَا وَعَائِدَتَهُمَا وَأَنْتَ خَیْرُ الْمَكْفُولِینَ. وَیُقَالُ إِنَّهُ قَالَ یَوْمَئِذٍ أَبُو صُرَدٍ: إِنَّمَا فِی هَذِهِ الْحَظَائِرِ أَخَوَاتُكَ وَعَمَّاتُكَ وَخَالاتُكَ وَبَنَاتُ عَمِّكَ وَبَنَاتُ خَالاتِكَ وَأَبْعَدُهُنَّ قَرِیبٌ مِنْكَ. بِأَبِی أَنْتَ وَأُمِّی! إِنَّهُنَّ حَضَنَّكَ فِی حُجُورِهِنَّ وَأَرْضَعْنَكَ بِثُدَیِّهِنَّ وَتَوَرَّكْنَكَ عَلَى أَوْرَاكِهِنَّ. وَأَنْتَ خَیْرُ الْمَكْفُولِینَ،رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ : إِنَّ أَحْسَنَ الْحَدِیثِ أَصْدَقُهُ وَعِنْدِی مَنْ تَرَوْنَ مِنَ الْمُسْلِمِینَ أَفَأَبْنَاؤُكُمْ وَنِسَاؤُكُمْ أَحَبُّ إِلَیْكُمْ أَمْ أَمْوَالُكُمْ؟ فَقَالُوا: یَا رَسُولَ اللَّهِ خَیَّرْتَنَا بَیْنَ أَحْسَابِنَا وَأَمْوَالِنَا. وَمَا كُنَّا لِنَعْدِلَ بِالأَحْسَابِ شَیْئًا. فرد علینا أبناءنا ونساءنا . فقال النبی صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: أما ما لی ولبنی عبد المطلب فهو لَكُمْ وَأَسْأَلُ لَكُمُ النَّاسَ فَإِذَا صَلَّیْتُ بِالنَّاسِ الظُّهْرَ فَقُولُوا

ان لوگوں کے سرداراورخطیب ابومروزہیربن صعدتھے،جنہوں نے عرض کیااے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم ! ہم لوگ ہی آپ کے خاندان والے ہیں ،ہم جس مصیبت میں مبتلاہیں وہ آپ سے پوشیدہ نہیں ، انہیں خطیروں میں آپ کی پھوپیاں ہیں خالائیں ہیں اوردائیاں ہیں ،پرورش کرنے والیاں ہیں جوآپ کی کفالت کرچکی ہیں ،اگرہم حارث بن ابی شمر(غسان کا بادشاہ)یانعمان بن منذر(حیرہ کابادشاہ)سے یہی سلوک اختیارکرتے اورجومرتبہ آپ کاہے ہم میں یہی محل ومقام ان کوحاصل ہواہوتاتوہم ان کی رحمت وشفقت اورطلب کے بھی امیدوارہوتے اورآپ توبہترین کفیل ہیں ۔دوسری روایت یہ ہے کہ اس دن ابوصردنے یہ تقریرکی اے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم ! یہی خطیرے ہیں جن میں آپ کی بہنیں ہیں ، پھوپیاں ہیں ،خالائیں ہیں ،چچیری اورخالازادبہنیں ہیں اوران میں جودورکے رشتے کے بھی ہیں وہ بھی آپ سے قریبی تعلق رکھتی ہیں ،میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں انہیں نے اپنے کناروآغوش میں آپ کولیاہے ،اپنی چھاتیوں کادودھ آپ کوپلایاہے اوراپنے زانوؤ ں پرآپ کوکھلایاہے اوراب آپ ہی بہترین کفیل ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاسب سے اچھی بات وہی ہے جوسچائی میں سب سے اچھی ہو،مسلمانوں میں جومیرے پاس ہیں انہیں تم دیکھ رہے ہو،اب بتاؤ تمہیں اپنی عورتیں اوراولادزیادہ محبوب ہیں یامال ومتاع؟وفدنے عرض کیااے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم ! نسب ومال دونوں میں سے کسی ایک کواختیارکرلینے کی آپ نے ہمیں اجازت دی ہے ہم تونسب کے برابرکسی چیزکونہیں سمجھتے،آپ ہمارے بال بچوں کوواپس فرمادیں ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایاجومیرے لئے اوراولادعبدالمطلب کے لئے ہے وہ تمہارے لئے ہے مسلمانوں سے میں بھی تمہارے لئے مسالت کروں گاجب میں لوگوں کے ساتھ نمازظہراداکرچکوں توتم یہ کہنا

نَسْتَشْفِعُ بِرَسُولِ اللَّهِ إِلَى الْمُسْلِمِینَ وَبِالْمُسْلِمِینَ ،فَإِنِّی سَأَقُولُ لَكُمْ مَا كَانَ لِی وَلِبَنِی عَبْدِ الْمُطَّلِبِ فَهُوَ لَكُمْ. وَسَأَطْلُبُ لَكُمْ إِلَى النَّاسِ ،فَلَمَّا صَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ الظُّهْرَ. قَامُوا فَتَكَلَّمُوا بِالَّذِی قَالَ لَهُمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَرَدَّ عَلَیْهِمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مَا كَانَ لَهُ وَلِبَنِی عَبْدِ الْمُطَّلِبِ. وَرَدَّ الْمُهَاجِرُونَ وَرَدَّ الأَنْصَارُ. وَسَأَلَ لَهُمْ قَبَائِلَ الْعَرَبِ فَاتَّفَقُوا عَلَى قَوْلٍ وَاحِدٍ بِتَسْلِیمِهِمْ وَرِضَاهُمْ وَدَفْعِ مَا كَانَ فِی أَیْدِیهِمْ مِنَ السَّبْیِ إِلا قَوْمًا تَمَسَّكُوا بِمَا فِی أَیْدِیهِمْ فَأَعْطَاهُمْ إِبِلا عِوَضًا مِنْ ذَلِكَ،

مسلمانوں سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے طفیل میں اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مسلمانوں کی بدولت ہم طلب گارشفاعت ہیں ،اس پرمیں تم سے کہوں گاکہ میرے اوربنی عبدالمطلب کے حصے میں جوہیں وہ تمہارے ہیں ،اس کے ساتھ ساتھ میں تمہارے لئے لوگوں سے بھی کہوں گا،جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ظہرکی نمازاداکرچکے توان لوگوں نے اٹھ کرجوباتیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی تھیں عرض کیں ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اوربنی عبدالمطلب کے حصے کے لونڈی غلام ان کوواپس کردیئے اورمہاجرین اورانصارنے بھی اپنے حصے واپس کردیئے اورقبائل عرب سے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خواہش ظاہرفرمائی،جانثارکب پیچھے رہنے والے تھےسب نے اسی ایک بات پراتفاق کیاکہ تسلیم ورضاپرراضی ہیں ،جتنے غلام قبضہ میں ہیں سب واپس کردیں گے البتہ کچھ لوگوں نے غلاموں کے دینے سے ہاتھ روک لئے تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں بدلے میں اونٹ دے دیدے۔[79]

اس طرح چھ ہزار قیدی رہا ہوگئے اورغنیمت میں آئے ہوئے پانچ کروڑدرہم بھی واپس کردئیے،

فلما توفی رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وفدت على أبی بكر وعمر رضی الله تعالى عنهما فصنعا بها مثل ذلك

رسول  اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعدسیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اورسیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ بھی اس خاندان کے ساتھ خاص طورپر حسن سلوک اورتکریم کے ساتھ پیش آتے تھے۔[80]

روایت ہےغزوہ ہوزان میں کچھ لوگ قیدی بن کرآئے جن میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رضاعی بہن شیما بھی تھی جسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فورا پہچان لیااوراس کے ساتھ نہایت مہربانی کے ساتھ پیش آئے پھرعزت کے ساتھ اسے اس کے خاندان والوں کے پاس بھیج دیا،ابن حجرکہتے ہیں یہ مسلمان ہوگئیں تھیں ۔

کچھ ضعیف روایات:

وهو راقد على قفاه یغط، فأشفقت أن أوقظه من نومه لحسنه وجماله،فدنوت منه رویدا فوضعت یدى على صدره فتبسم ضاحكا وفتح عینیه ینظر الىّ فقبلته بین عینیه فَأَخَذْتُهُ،ثُمَّ رَجَعْتُ إِلَى رَحْلِی. فَقَالَ لِی زَوْجِی: قَدْ أَخَذْتِهِ. قَالَتْ: قُلْتُ: نَعَمْ، وَذَاكَ أَنِّی لَمْ أَجِدْ غَیْرَهُ.قَالَ: قَدْ أَصَبْتِ عَسَى اللَّهُ أَنْ یَجْعَلَ لَنَا فِیهِ خَیْرًا

حلیمہ کابیان ہے کہ جب میں سیدہ آمنہ کے گھراس دریتیم کولینے گئی آپ گدی کے بل سورہے تھے ماں نے اشارے سے بتایا،میں قریب گئی ،چہرہ مبارک کی تابانی دیکھی توجگانے کی ہمت نہ ہوئی ،محبت میں آہستگی کے ساتھ میں اس کےسینہ پرہاتھ رکھاآپ نے آنکھیں کھول دیں مجھے دیکھااورمسکرائے،آنکھوں کانوراورمعصومانہ مسکراہٹ دیکھ کرمجھے یقین ہو گیا کہ اگرچہ یہ بچہ یتیم ہے مگراپنی عظمت وشرافت میں مکہ کے بچوں کا سردارمعلوم ہوتاہے ،اس کی برکتوں سے نہ صرف میری پریشانیاں دورہوں گی بلکہ بہت سے یتیم بچے اور نادرانسان فیض حاصل کرلیں گے ( کیا حلیمہ کو کشف حاصل ہوگیاتھا)مجھ سے ضبط نہ ہوسکافرط محبت سے جھکی ،پیشانی کو چوما اور گودمیں اٹھالیا،تھوڑی دیرسیدہ آمنہ کے پاس بیٹھی پھران کی اجازت سے مولود مسعود کو گودمیں لے کر اپنے خیمہ میں آئی ،شوہر(حارث بن عبدالعزی ٰ)نے جمال جہاں آراکودیکھااورکہا حلیمہ یہ تو  اللّٰہ کی بڑی نعمت ہے ، اس بچے کوگودلے لو،شاید اللہ تعالیٰ اس میں ہمارے لئے بہتری کرے ۔[81]

حلیمہ کاگودمیں اٹھاتے ہی چھاتیوں میں دودھ بھرآنا:

فَذَهَبْتُ إلَیْهِ فَأَخَذْتُهُ، وَمَا حَمَلَنِی عَلَى أَخْذِهِ إلَّا أَنِّی لَمْ أَجِدْ غَیْرَهُ. قَالَتْ: فَلَمَّا أَخَذْتُهُ، رَجَعْتُ بِهِ إلَى رَحْلِی، فَلَمَّا وَضَعْتُهُ فِی حِجْرِی أَقَبْلَ عَلَیْهِ ثَدْیَایَ بِمَا شَاءَ مِنْ لَبَنٍ، فَشَرِبَ حَتَّى رَوِیَ، وَشَرِبَ مَعَهُ أَخُوهُ حَتَّى رَوِیَ ، ثُمَّ نَامَا، وَمَا كُنَّا نَنَامُ مَعَهُ قَبْلَ ذَلِكَ، وَقَامَ زَوْجِی إلَى شَارِفِنَا تِلْكَ، فَإِذَا إنَّهَا لَحَافِلٌ، فَحَلَبَ مِنْهَا مَا شَرِبَ، وَشَرِبْتُ مَعَهُ حَتَّى انْتَهَیْنَا رِیًّا وَشِبَعًا، فَبِتْنَا بِخَیْرِ لَیْلَة

حلیمہ کہتی ہیں میں اسی وقت گئی اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم کواپنی گودمیں لے کرآئی ، جس وقت میں نے آپ کواپنی گودمیں لٹایااسی وقت میرے سوکھے ہوئے سینے میں دودھ کی فراوانی ہوگئی ، اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خوب سیرہوکردودھ پیااورآپ کا(رضاعی)بھائی بھی آپ کی برکت سے ہی شکم سیرہوااوردونوں نے بعافیت تمام آرام فرمایااورہماراجودودھ دینے والاجانورتھااس نے بھی اس قدردودھ دیاکہ ہم دونوں میاں بیوی نے خوب پیٹ بھرکردودھ پیااورخیروعافیت کے ساتھ ہم نے رات گزاری۔[82]

لاغرونحیف اونٹنی کاتیزروہوجانا:

قَالَتْ: ثُمَّ خَرَجْنَا وركبتُ أَتَانِی، وَحَمَلْتُهُ عَلَیْهَا مَعِی، فَوَاَللَّهِ لقطعتْ بالرَّكْبِ مَا یَقْدِرُ عَلَیْهَا شَیْءٌ مِنْ حُمُرِهم، حَتَّى إنَّ صَوَاحِبِی لِیَقُلْنَ لِی: یَا ابْنَةَ أَبِی ذُؤیْب، ویحكِ! ارْبَعِی عَلَیْنَا، ألیستْ هَذِهِ أتانَك الَّتِی كنتِ خَرَجْتُ عَلَیْهَا؟ فَأَقُولُ لَهُنَّ: بَلَى وَاَللَّهِ . إنَّهَا لَهِیَ هِیَ فیقلْنَ: وَاَللَّهِ إنَّ لَهَا لشأَنًا

حلیمہ کہتی ہیں صبح کوجب ہم روانہ ہونےکے لئے اپنی اس نحیف ولاغراونٹنی پربیٹھے ،اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم کومیں نے اپنی گودمیں لے لیاتواس نحیف اورلاغراونٹنی کواس قدر تیزروپایاکہ تمام قافلہ سے آگے آگے دوڑرہی تھی ،میری ہمراہی عورتیں یہ دیکھ کرکہنے لگیں اے حلیمہ !کیایہ تیری وہی اونٹنی ہے جوپہلے تھی ،میں نے کہاہاں وہی ہے ،وہ کہنے لگیں اب تویہ بہت تیزروہوگئی ہے ۔[83]

 خشک سالی میں بکریوں کاجنگل سےپیٹ بھرکرآنا:

ثُمَّ قَدِمْنَا مَنَازِلَنَا مِنْ بِلَادِ بَنِی سَعْدٍ وَمَا أَعْلَمُ أَرْضًا مِنْ أَرْضِ اللَّهِ أَجْدَبَ مِنْهَا، فَكَانَتْ غَنَمِی تَرُوحُ عَلَیَّ حِینَ قَدِمْنَا بِهِ مَعَنَا شِبَاعًا لُبَّنًا، فَنَحْلُبُ وَنَشْرَبُ، وَمَا یَحْلُبُ إنْسَانٌ قَطْرَةَ لَبَنٍ، وَلَا یَجِدُهَا فِی ضَرْعٍ، حَتَّى كَانَ الْحَاضِرُونَ مِنْ قَوْمِنَا یَقُولُونَ لِرُعْیَانِهِمْ: وَیْلَكُمْ اسْرَحُوا حَیْثُ یَسْرَحُ رَاعِی بِنْتِ أَبِی ذُؤَیْبٍ، فَتَرُوحُ أَغْنَامُهُمْ جِیَاعًا مَا تَبِضُّ بِقَطْرَةِ لَبَنٍ، وَتَرُوحُ غَنَمِی شِبَاعًا لُبَّنًا. فَلَمْ نَزَلْ نَتَعَرَّفُ مِنْ اللَّهِ الزِّیَادَةَ وَالْخَیْرَ حَتَّى مَضَتْ سَنَتَاهُ وَفَصَلْتُه

حلیمہ کہتی ہیں (ا ٓپ کی برکتیں صرف مکہ میں یاراستہ تک محدودنہیں رہیں )غرضیکہ اسی برکت اورفرحت کے ساتھ ہم اپنے وطن پہنچے اورباوجودخشک سالی کے جنگل میں ایک گھاس کاپتہ نہ تھامگرآپ صلی اللہ علیہ وسلم کی برکت قدم سے ہماری بکریاں جنگل سے پیٹ بھرکے آتی تھیں اورخوب دودھ دیتی تھیں ،حالانکہ ہماری ساری قوم کی بکریاں بھوکی جنگل سے آتیں اورایک قطرہ دودھ کانہ دیتی تھیں ،میری قوم کے لوگ اپنے چرواہوں سے کہتے کہ تم بھی اپنی بکریاں وہیں کیوں نہیں چراتے جہاں حلیمہ کی بکریاں چرتی ہیں مگرپھربھی ان کی بکریاں بھوکی اورمیری پیٹ بھری آتیں ،غرضیکہ ہم نے اللہ کی طرف سےاسی طرح کی بہت سی برکتیں مشاہدہ کیں ۔[84]

پہلاکلام لاالہ الا اللّٰہ بولنا:

قالت حلیمة ومن العجائب انى ما رأیت له بولا ولا غسلت له وضوء اقط وكانت له طهارة ونظافة وكان له فى كل یوم وقت واحد یتوضأ فیه ولا یعود حتى یكون وقته من الغد ولم یكن شىء أبغض الیه من ان یرى جسده مكشوفا فكنت اذا كشفت عن جسده یصیح حتى أستره علیه وكان لا یبكى قط ولم یسئ خلقه ان رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ لما صار ابن شهرین كان یتزحلف مع الصبیان الى كل جانب وفى ثلاثة أشهر كان یقوم على قدمیه وفى أربعة أشهر كان یمسك الجدار ویمشى وفى خمسة أشهر حصل له القدرة على المشى ولماتم له ستة أشهر كان یسرع فى المشى وفى سبعة أشهر كان یسعى ویعد والى كل جانب ولما مضى علیه ثمانیة أشهر كان یتكلم بحیث یفهم كلامه وفى تسعة أشهر شرع یتكلم بكلام فصیح وفى عشرة أشهر كان یرمى السهام مع الصبیان قالت وانتبهت لیلة من اللیالى فسمعته یتكلم بكلام لم أسمع كلاما قط أحسن منه یقول لا اله الا الله قدّوسا قدّوسا نامت العیون والرحمن لا تأخذه سنة ولا نوم وهو أوّل ما تكلم به فلما ترعرع كان یخرج فینظر الى الصبیان یلعبون فیجتنبهم وكان أخواه من الرضاعة یخرجان فیمرّان بالغلمان فیلعبان معهم فاذا رآهم محمد صلّى الله علیه وسلم اجتنبهم وأخذ بیدى أخویه وقال لهما انا لم نخلق لهذا

حلیمہ کہتی ہیں کہ گہوارے میں بھی عدل وانصاف پراس درجہ عمل پیراتھے کہ میں آپ کو کبھی دوسری سمت سے دودھ پلاناچاہتی توآپ نہ پیتے تھے،اسکی وجہ صرف ایک ہی ہو سکتی تھی کہ آپ اپنے رضاعی بھائی عبد اللّٰہ کے حق کالحاظ رکھتے تھے ،اسی طرح مزاج میں شروع ہی سے اس قدرنفاست اورشر م تھی کہ آپ نے کبھی کپڑوں میں پیشاب پاخانہ نہیں فرمایا ، اگرحاجت ہوتی توروتے تھے ،جب میں کپڑااوڑھادیاکرتی تھی توخاموش ہوجاتے تھے ،اگرمیں کسی کام میں مصروف ہوتی توایسامحسوس ہوتاتھاکہ کوئی آپ کو بہلارہاہے اورآپ اطمینان سے لیٹے ہوئے ہیں ،اس سے پتہ چلتاہے کہ قدرت نے آپ کی فطرت میں شرم وحیااورعدل وانصاف کودویعت فرمایاتھا،دومہینے کی عمرمیں آپ بیٹھنے لگے تھے ، تیسر مہینہ میں اپنے پاؤں پر کھڑے ہوسکتے تھے چوتھے مہینہ میں دیوار کے سہارے چلتے پھرتے ،پانچویں مہینہ کی عمرمیں پیروں پرچلنے لگے تھےچھٹے اورساتویں ماہ کی عمرمیں تیز چلتے تھے ،آٹھ مہینے کی عمر ہوئی توآپ اچھی طرح بولنے لگے تھے نو ما ہ کی عمر میں زیادہ صراحت کے ساتھ کلام کیا کرتے تھےاور دس ماہ کی عمر میں محلے کے بچوں کے ساتھ تیراندازی کیا کرتے تھے، مزید فرماتی ہیں کہ ایک رات میں نے ان سے کچھ اس طرح کلمات سنے جس میں ان کا پہلاکلام لاالہ ال اللّٰہ تھااور رب رحمان کی پاکیزگی ، آدمی سو جاتے ہیں لیکن رب رحمان کو نہ نیند آتی ہے نا اونگھ اس جیسے فصیح وبلیغ کلمات آپ کی زبان پر رواں تھے،اسی اثناء میں وہ جب گھر سے باہرمحلے کے لڑکوں کو کھیلتا دیکھتے تو ان کے ساتھ کھیلنے سے گریز کیا کرتے،آپ کبھی بچوں کے ساتھ نہیں کھیلے بلکہ اپنے رضاعی بھائی کوکھیلتے ہوئے دیکھتے توان کومنع فرماتے تھے کہ ہم اسی مقصد کے لیے پیدا نہیں ہوئے۔[85]بعض تاریخوں میں بچوں کے ساتھ کھیلنے کا ذکر پایا جاتاہے (مگرشاہ عبدالحق دہلوی نے اسے غلط قرار دیا ہے )

ضَرْعَ شَاةٍ :

آپ کی ذات فیض وبرکات کاایسامنبع تھی کہ جوبیماربچے پاس آکر بیٹھ جاتے وہ تندرست ہوجاتے تھے ، بیمار بکریوں پراگرآپ ہاتھ پھیرتے توشفامل جاتی تھی ، آپ دیکھتے تھے تومیرے اوپر ایک قسم کی ہیبت طاری ہو جاتی تھی اوریہ کیفیت مجھ پراس درجہ غالب تھی کہ میں آپ کی موجودگی میں کبھی اپنے شوہرسے بھی ملاقات نہ کرسکی۔

کم سن ہونے کے باوجود بڑا دکھائی دینا:

حَتَّى بلغ سنتَیْن فَكَانَ یشب شبَابًا لَا تشبه الغلمان، فو الله مَا بَلَغَ السَّنَتَیْنِ حَتَّى كَانَ غُلَامًا جَفْرًا فقدمنا بِهِ على أمه وَنحن أضن شئ بِهِ مِمَّا رَأَیْنَا فِیهِ مِنَ الْبَرَكَةِ، فَلَمَّا رَأَتْهُ أمه، قلت لَهَا: دَعِینَا نَرْجِعُ بِابْنِنَا هَذِهِ السَّنَةَ الْأُخْرَى، فَإِنَّا نخشى عَلَیْهِ وباء مَكَّة.فو الله مازلنا بهَا حَتَّى قَالَت: نعم.فَاحْتَمَلْنَاهُ فَلَمْ تُرَعْ أُمُّهُ إِلَّا بِهِ، فَقَدِمْنَا بِهِ عَلَیْهَا فَقَالَت: مَا رد كَمَا بِهِ یاظئر، فَقَدْ كُنْتُمَا عَلَیْهِ حَرِیصَیْنِ؟ فَقَالَا: لَا وَاللَّهِ، إِلَّا أَنَّ اللَّهَ قَدْ أَدَّى عَنَّا وَقَضَیْنَا الَّذِی عَلَیْنَا وَقُلْنَا نَخْشَى الْإِتْلَافَ وَالْأَحْدَاثَ نَرُدُّهُ إِلَى أَهْلِهِ.

حلیمہ سعدیہ کابیان ہے کہ جب آپ دوسال کے تھے تواچھے خاصے بڑے معلوم ہوتے تھے،میرادل تو نہیں چاہتاتھاکہ آپ کو اپنے گھرسے جداکیاجائے اورماں کوواپس کیاجائے مگر دستورکے مطابق مجھے دودھ چھڑانے کے بعدآپ کومکہ لے جاناپڑاتاکہ میں آپ کو آپ کی والدہ کے سپردکردوں ، مگر اتفاق سے جب مکہ پہنچی تووہاں طاعون کی وباپھیلی ہوئی تھی،لوگ پریشان تھے مجھے آپ کو واپس لانے کاایک اچھاموقعہ ہاتھ آگیا،چنانچہ میں نے آپ کے دادا اوروالدہ سے کہاکہ مکہ میں طاعون کی وباکے زمانہ میں آپ کا رہنامناسب معلوم نہیں ہوتااگرآپ کہیں تومیں اپنے ہمراہ واپس لے جاؤ ں ، اللّٰہ کی عنایت کہ میرا مشورہ قبول ہوا، سب راضی ہو گئے اور میں آپ کواپنے ساتھ واپس لے آئی،ماں کادل نہیں چاہتاتھا کہ بچہ علیحدہ رکھاجائے مگر حلیمہ کے اصراراوروباکے زورنے واپس کرناہی مناسب سمجھا، آپ جانے لگے توماں نے پیار کیا اور فرمایابیٹاتھوڑے دن کے لئے ابھی اپنی مشفقہ دائی حلیمہ کے پاس اوررہو پھرہم بلالیں گے، آپ نے محبت سے ماں کو دیکھا اوردوبارہ قبیلہ بنی سعدمیں واپس آگئے ۔[86]

اورکچھ عرصہ کے بعداپنے رضاعی بھائیوں کے ساتھ جنگل میں بکریاں چرانے کے لئے جانے لگے،جب آپ پانچ سال کے ہوگئے تو حلیمہ سعدیہ آپ کوپھر آپ کی والدہ کے پاس لے آئیں جنہوں نے اپنے فرزندارجمندکواپنے پاس رکھ لیا ۔

قارین کرام آپ نے یہ داستان پڑھی جو تاریخ اورسیرت کی کتابوں میں یہ داستان ضرورنظرآتی ہیں ،جنہیں ابن اسحاق ،ابن راہویہ ،ابویعلیٰ ،طبرانی ،بیہقی ،ابونعیم ،ابن عساکر اور ابن سعد میں کہیں اجمالاً اور کہیں تفصیلا ًمذکورہے،یہ تمام واقعات دوطریقوں سے مروی ہیں ،ایک طریق کامشترک راوی جہم بن ابی جہم ایک مجہول شخص ہے اور دوسرے کامشترک راوی واقدی کذاب ہے ،پہلے طریق سے اس کوابن اسحاق،ابن راہویہ ،ابویعلیٰ،طبرانی اورابونعیم نے روایت کیا ہے جس کاسلسلہ سندیوں ہے کہ ابن اسحاق نے کہاکہ مجھ سے جہم بن ابی جہم مولی حارث بن حاطب جمحی نے بیان کیااوروہ کہتاہے کہ مجھ سے عبد اللّٰہ رضی اللہ عنہ بن جعفربن ابی طالب نے خود بیان کیایاکسی ایسے شخص نے بیان کیاجس نے عبد اللّٰہ رضی اللہ عنہ بن جعفرسے سنااور عبد اللّٰہ رضی اللہ عنہ بن جعفرنے حلیمہ سعدیہ سے سنا،اس روایت میں سب سے پہلی بات تویہ ہے کہ جہم بن ابی جہم کا اس روایت کوخود عبد اللّٰہ رضی اللہ عنہ بن جعفرسے سننایقینی نہیں بلکہ کہتاہے کہ عبد اللّٰہ رضی اللہ عنہ بن جعفریاکسی نے ان سے سن کرکہا،معلوم نہیں وہ کون تھااورکیساشخص تھا؟ابونعیم وغیرہ متاخرین نے اس روایت کواس طرح بیان کیاہے کہ شک سرے سے نظرانداز ہوگیا (یاعمدا ًگرا دیاگیاہے) اگر بالفرض جہم بن ابی جہم نے عبد اللّٰہ بن جعفر رضی اللہ عنہ سے سناتوعبد اللّٰہ بن جعفر رضی اللہ عنہ رسول  اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں آٹھ نوبرس کے تھے اورسات ہجری میں ملک حبشہ سے مدینہ طیبہ آئے تھے، ان کاحلیمہ سے ملنا اوران سے نقل روایت کرنامحتاج ثبوت ہے،بلکہ علمائے سیرورجال میں خودحلیمہ کے اسلام یانبوت کے بعدآپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات میں اختلاف ہے ،صرف ایک دفعہ غزوہ ہوزان کے موقعہ پران کاآناکسی کسی نے بیان کیاہے (حالانکہ صحیح یہ ہے کہ وہ حلیمہ کی بیٹی شیما اوران کاخاندان حالت کفرمیں گرفتارہوکرآیا تھا کیونکہ جنگ ہوزان حلیمہ کے خاندان ہی سے ہوئی تھی)مگراس موقعہ پرعبد اللّٰہ بن جعفرکاجوکم سن تھے موجود ہونا اور ان سے نقل روایت کرنا محتاج ثبوت ہے(بلکہ فتح مکہ اوراس کے بعدکے غزوات میں کوئی بچہ آپ کے ہمراہ نہ تھا)جہم بن ابی جہم جواس روایت کاسربنیادہے علامہ ذہبی نے میزان الاعتدال میں اسی روایت کی تقریب سے اس کانام لکھ کرلکھاہے لایعرف یعنی معلوم نہیں یہ کون شخص تھا؟(جہم کی نہ کوئی حقیقت ہے اورنہ کوئی وجود ہے) دوسرا طریق جس کامرکزی راوی واقدی ہے اس سلسلہ سے ابن سعد،ابونعیم اورابن عساکر نے اس واقعہ کولکھاہے ،یہ سلسلہ علاوہ ازیں کہ واقدی کے سلسلہ سے موقوف ہے یعنی یہ سلسلہ کسی صحابی تک نہیں پہنچتا ، اس کوواقدی، زکریا بن یحیٰ بن یزیدسعدی سے اوروہ اپنے باپ یحیٰ بن یزید سعدی سے نقل کرتاہے،ابن سعد نے دوسری جگہ پرایک اور سلسلہ سے اس کوواقدی سے روایت کیاہے اورواقدی ،عبد اللّٰہ بن زیدبن اسلم سے ،اورعبد اللّٰہ اپنے باپ زیدبن اسلم تابعی سے نقل کرتاہے،یہ سلسلہ بھی علاوہ ازیں کہ اس کاپہلاراوی واقدی ہے اور روایت بھی موقوف ہے ، زید مذکور کی نسبت اہل مدینہ کلام کرتے تھے اوران کے بیٹے عبد اللّٰہ کو اکثرمحدثین نے ضعیف کہا ہے ،اس لئے یہ سلسلہ بھی استنادکے قابل نہیں (زیدبن اسلم تابعی کے تین بیٹے عبد اللّٰہ ، عبدالرحمان اوراسامہ تھے،محدثین کی ایک جماعت عبد اللّٰہ کو ضعیف اور دوسروں کومعتبر قرار دیتی ہے ، کچھ محدثین عبدالرحمان کوضعیف اوربقیہ دونوں کومعتبرکہتے ہیں ،کچھ محدثین اسامہ کونامعتبر اوربقیہ کومعتبرکہتاہے،

قال الجوزجانی: الثلاثة ضعفاء فی الحدیث من غیر بدعة ولا زیغ

جوزجانی رحمہ اللہ کہتے ہیں حقیقت یہ ہے کہ تینوں ہی ضعیف ہیں ۔[87]

ابونعیم نے تیسری روایت میں واقدی کے سلسلہ سے ان واقعات کوبے سندلکھا ہے۔[88]

 قبیلہ ہذیل کاایک قیافہ شناس بڈھا:

فَقُلْنَ:وَاللَّهِ إِنَّا لَنَرْجُو أَنْ یَكُونَ مُبَارَكًا. قَالَتْ حَلِیمَةُ: قَدْ رَأَیْنَا بَرَكَتَهُ. كُنْتُ لا أَرْوِی ابْنِی عَبْدَ اللَّهِ وَلا یَدَعُنَا نَنَامُ مِنَ الْغَرَثِ. فَهُوَ وَأَخُوهُ یَرْوَیَانِ مَا أَحَبَّا وَیَنَامَانِ وَلَوْ كَانَ مَعَهُمَا ثَالِثٌ لَرَوِیَ. وَلَقَدْ أَمَرَتْنِی أُمُّهُ أَنْ أَسْأَلَ عَنْهُ. فَرَجَعَتْ بِهِ إِلَى بِلادِهَا. فَأَقَامَتْ بِهِ حَتَّى قَامَتْ سُوقُ عُكَاظٍ. فَانْطَلَقَتْ بِرَسُولِ اللَّهِ – صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ – حَتَّى تَأْتِیَ بِهِ إِلَى عَرَّافٍ مِنْ هُذَیْلٍ یُرِیهُ النَّاسُ صِبْیَانَهُمْ. فَلَمَّا نَظَرَ إِلَیْهِ صَاحَ: یَا مَعْشَرَ هُذَیْلٍ! یَا مَعْشَرَ الْعَرَبِ! فَاجْتَمَعَ إِلَیْهِ النَّاسُ مِنْ أَهْلِ الْمَوْسِمِ. فَقَالَ: اقْتُلُوا هَذَا الصَّبِیَّ! وَانْسَلَّتْ بِهِ حَلِیمَةُ. فَجَعَلَ النَّاسُ یَقُولُونَ: أَیَّ صَبِیٍّ؟ فَیَقُولُ: هَذَا الصَّبِیُّ! وَلا یَرَوْنَ شَیْئًا قَدِ انْطَلَقَتْ بِهِ أُمُّهُ. فَیُقَالُ لَهُ: مَا هُوَ؟ قَالَ: رَأَیْتُ غُلامًا. وَآلِهَتِهِ لَیَقْتُلَنَّ أَهْلَ دِینِكُمْ. وَلَیُكَسِّرَنَّ آلِهَتَكُمْ. وَلَیَظْهَرَنَّ أَمْرُهُ عَلَیْكُمْ. فَطُلِبَ بِعُكَاظٍ فَلَمْ یُوجَدْ. وَرَجَعَتْ بِهِ حَلِیمَةُ إِلَى مَنْزِلِهَا. فَكَانَتْ بَعْدُ لا تَعْرِضُهُ لِعَرَّافٍ وَلا لأَحَدٍ مِنَ النَّاسِ

حلیمہ سعدیہ آپ کوپہلے پہل مکہ معظمہ سے لے کرعکاظ کے میلے میں آئیں (رسول  اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم ربیع الاول میں پیداہوئے ،جبکہ عکاظ کامیلہ ذی الحجہ میں لگا کرتا تھا ، یہ دس ماہ کاوقفہ میں کیاحلیمہ مکہ میں قیام پذیررہیں ) وہاں قبیلہ ہذیل کاایک قیافہ شناس بڈھابھی تھا،عورتیں اپنے بچوں کواس کے پاس لے کرآتیں اورفال نکلواتی تھیں ،حلیمہ سعدیہ نے بھی آپ کواس بڈھے قیافہ شناس کے سامنے کیاجب اس بڈھے کی نظر رسول  اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم پرپڑی تووہ چلااٹھاکہ اسے قتل کر ڈالو مگر آپ لوگوں کی نظروں سے غائب ہو چکے تھے ،حلیمہ سعدیہ آپ کو لے کرچل پڑی تھیں ،لوگوں نے اس بڈھے سے واقعہ پوچھاتواس نے کہاکہ میں نے ابھی وہ بچہ دیکھاجوتمہارے اہل مذہب کوقتل کرے گااور تمہارے بتوں کوتوڑے گااور کامیاب رہے گا،اس کے بعدلوگوں نے آپ کوبہت ڈھونڈامگرآپ نہ ملے،حلیمہ سعدیہ نے اس کے بعدآپ کوپھرکسی قیافہ شناس اورفال دیکھنے والے کے سامنے پیش نہیں کیا۔[89]

قیافہ شناس علم الغیب نہیں ہوتا،وہ توقیافہ شناس اپنے قیافہ سے کسی کے بارے میں کچھ اچھی یا بری رائے تودے دیتاہے مگروہ آنے والی کل کے بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتاکہ کل کوئی شخص کیافعل سرانجام دے گا،کل کیاہوگایہ صرف اللہ رب العالمین ہی جانتاہے۔

ایک دوسری روایت میں یہ واقعہ کچھ یوں ہے ۔

أَنَّ أُمَّ النَّبِیِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ لَمَّا دَفَعَتْهُ إِلَى السَّعْدِیَّةِ الَّتِی أَرْضَعَتْهُ قَالَتْ لَهَا: احْفَظِی ابْنِی. وأخبرتها بما رَأَتْ. فَمَرَّ بِهَا الْیَهُودُ. فَقَالَتْ: أَلا تُحَدِّثُونِی عَنِ ابْنِی هَذَا فَإِنِّی حَمَلْتُهُ كَذَا وَوَضَعْتُهُ كَذَا وَرَأَیْتُ كَذَا كَمَا وَصَفَتْ أُمُّهُ. قَالَ: فَقَالَ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ:اقْتُلُوهُ. فَقَالُوا: أَیَتِیمٌ هُوَ؟ فَقَالَتْ: لا. هَذَا أَبُوهُ وَأَنَا أُمُّهُ. فَقَالُوا: لَوْ كَانَ یَتِیمًا لَقَتَلْنَاهُ! قَالَ: فَذَهَبَتْ بِهِ حَلِیمَةُ وَقَالَتْ: كِدْتُ أُخَرِّبُ أَمَانَتِی

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوجب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی والدہ نے دودھ پلانے کے لئے(حلیمہ)سعدیہ کے حوالے کیاتویہ بھی کہاکہ میرے بچے کی حفاظت کرتی رہنا ، اسی ساتھ وہ تمام باتیں بھی حلیمہ کوبتادیں (جوآپ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق انہوں نے دیکھی تھیں )کچھ دن گزرے کہ حلیمہ کے پاس یہودیوں کاگزرہوا،جس سے حلیمہ نے کہامیرے اس بچے کی نسبت تم مجھے کچھ باتیں نہیں بتاتے،یہ پیٹ میں رہا،اس طرح پیداہواتویوں ہوا،اورمیں نے یہ یہ کچھ اس کی نسبت دیکھا ہے،غرض کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی والدہ نے جوباتیں بتائی تھیں سن کہہ دیں ،ان میں سے ایک یہودی نے کہا اس کوقتل کرڈالو،دوسرے نے دریافت کیایہ بچہ یتیم ہے ؟حلیمہ سعدیہ نے کہانہیں ،یہ (اپنے شوہرکی طرف اشارہ کرکے) اس کاباپ ہے اورمیں اس کی ماں ہوں ،یہودیوں نے کہااگریہ یتیم ہوتاتوہم اس کو قتل کر ڈالتے ،جب یہ واقعہ پیش آیاتوحلیمہ آپ کرلے کرچلی گئیں اورکہنے لگیں قریب تھاکہ میں اپنی امانت ہی کوخراب اورضائع کرچکی تھی۔[90]

پہلی روایتوں کاماخذ واقدی کی ناتمام سلسلے کی داستانیں ہیں ،جبکہ دوسری روایت موقوف ہے ۔

ابونعیم نے دلائل میں اس واقعہ کواس طرح بیان کیاہے ۔

فَقَدِمُوا بِهِ عَلَى أُمِّهِ زَائِرِینَ لَهَا وَهُمْ أَحْرَص شَیْءٍ عَلَى مَكَانِهِ؛ لِمَا رَأَوْا مِنْ عِظَمِ بَرَكَتِهِ فَلَمَّا كَانُوا بِوَادِی السُّرَرِ لَقِیَتْ نَفَرًا مِنَ الْحَبَشَةِ وَهُمْ خَارِجُونَ مِنْهَا فَرَافَقَتْهُمْ، فَسَأَلُوهَا، فَنَظَرُوا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ نَظَرًا شَدِیدًا، ثُمَّ نَظَرُوا إِلَى خَاتَمِ النُّبُوَّةِ بَیْنَ كَتِفَیْهِ وَإِلَى حُمْرَةٍ فِی عَیْنَیْهِ، فَقَالُوا: یَشْتَكِی أَبَدًا عَیْنَیْهِ لِلْحُمْرَةِ الَّتِی فِیهَا؟ قَالَتْ: لَا، وَلَكِنْ هَذِهِ الْحُمْرَةُ لَا تُفَارِقُهُ، فَقَالُوا: هَذَا وَاللَّهِ نَبِیٌّ، فَغَالَبُوهَا عَلَیْهِ فَخَافَتْهُمْ أَنْ یَغْلِبُوهَا فَمَنَعَهُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ

جب حلیمہ آپ کومکہ سے لے کرروانہ ہوئیں توایک وادی میں پہنچ کران کوحبش کے کچھ لوگ ملے ،حلیمہ ان کے ساتھ ہو گئیں ، انہوں نے جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کودیکھاتوآپ کی نسبت کچھ دریافت کیااس کے بعدآپ کو خوب غورسے دیکھناشروع کیا،دونوں مونڈھوں کے بیچ مہرنبوت تھی وہ دیکھی ،آپ کی آنکھوں میں تھوڑی سرخی تھی اس کودیکھتے رہے(آپ صلی اللہ علیہ وسلم اکحل العینین تھے،یعنی آپ کی آنکھوں میں سپیدی کی جگہ خوب گہری سپیدی اورسیاہی کی جگہ خوب گہری سیاہی تھی،ایسی آنکھیں بڑی حسین تصورکی جاتی ہیں ،آنکھوں میں سرخی کاہوناحسن کی علامت نہیں ) پھرپوچھاکہ کیا بچے کی آنکھوں میں یہ سرخی کسی بیماری سے ہے یاہمیشہ سے اسی طرح ہے،حلیمہ سعدیہ نے کہانہیں ہمیشہ سے اسی طرح ہے ، انہوں نے کہا اللّٰہ کی قسم یہ پیغمبرہے یہ کہہ کرانہوں نے چاہاکہ بچے کوحلیمہ سعدیہ سے چھین لیں لیکن  اللّٰہ نے آپ کی حفاظت کی۔ [91]

(اس روایت کا سلسلہ نہایت ضعیف وکمزورہے ،راوی مجہول الحال لوگ ہیں ۔[92]

بادلوں کاسایہ کرنا:

وَكَانَتْ حَلِیمَةُ بَعْدَ رُجُوعِهَا مِنْ مَكَّةَ لا تَدَعُهُ أَنْ یَذْهَبَ مَكَانًا بَعِیدًا، فَغَفَلَتْ عَنْهُ یَوْمًا فِی الظَّهِیرَةِ، فَخَرَجَتْ تَطْلُبُهُ حَتَّى تَجِدَهُ مَعَ أُخْتِهِ، فَقَالَتْ: فِی هَذَا الْحَرِّ؟ فَقَالَتْ أُخْتُهُ: یَا أُمَّهْ، مَا وَجَدَ أَخِی حَرًّا، رَأَیْتُ غَمَامَةً تُظِلُّ عَلَیْهِ، إِذَا وَقَفَ وَقَفَتْ، وَإِذَا سَارَ سَارَتْ، حَتَّى انْتَهَى إِلَى هَذَا الْمَوْضِعِ

حلیمہ سعدیہ مکہ سے لوٹنے کے بعدمحمد صلی اللہ علیہ وسلم کو دور جانے کیلئے نہ چھوڑتی لیکن ایک دفعہ دوپہر کے وقت جبکہ وہ آپ کی طرف سے غافل تھی (آپ باہر نکل گئے) تو تلاش کرنے کے لیے نکلی دیکھا کہ وہ اپنی (رضاعی) بہن کی معیت انہیں پایا، تو کہنے لگی : اس دھوپ میں کیا کر رہے ہو؟ بیٹی بولی،امی جان !میں نے بھائی کودھوپ میں نہیں پایا،میں نے دیکھاکہ ایک بادل دیکھاجوان پرسایہ کیے رہا،جب وہ چلتے تووہ بھی چلتاجب آپ ٹھہرجاتے تووہ بھی ٹھہرجاتایہاں تک کہ اس مکان پر آ پہنچے۔[93]

ثُمَّ رَأَتْ غَمَامَةً تُظِلُّهُ إِذَا وَقَفَ وَقَفَتْ. وَإِذَا سَارَ سَارَتْ. فَأَفْزَعَهَا ذَلِكَ أَیْضًا مِنْ أَمْرِهِ. فَقَدِمَتْ بِهِ إِلَى أُمِّهِ لِتَرُدَّهُ وَهُوَ ابْنُ خَمْسِ سِنِینَ

کچھ دن گزرے تھے کہ حلیمہ سعدیہ نے دیکھاکہ ایک بادل آپ صلی اللہ علیہ وسلم پرسایہ ڈالے ہوئے ہے ،جب آپ ٹھہرجاتے ہیں تووہ بھی ٹھہرجاتاہے اورجب چلتے ہیں تووہ بھی چلتاہے ،حلیمہ اس بات سے بھی ڈریں اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم کولے کرچلیں کہ آپ کوآپ کی والدہ کے حوالے کردیں ،اس وقت آپ پانچ سال کے تھے۔[94]

یہ واقعہ دوطریقوں سے ہے ایک میں صرف واقدی کاحوالہ ہے اور اس کے آگے کوئی نام نہیں ، دوسرے طریق میں ہے کہ واقدی نے معاذبن محمدسے اوراس نے عطاسے اورعطانے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے سنا،اس سلسلہ میں واقدی کے علاوہ معاذ بن محمدمجہول اورنامعتبرہے۔[95]

[1] شرح الزرقانی علی المواہب ۸۹،۹۰؍۱

[2] شرح الزرقانی علی المواہب ۸۹؍۱

[3] جامع ترمذی کتاب التفسیرسورۂ ن والقلم۲۱۵۵، سیرت النبی ۴۱۴؍۳

[4] سنن ابوداود كِتَاب السُّنَّةِ بَابٌ فِی الْقَدَرِ۴۷۰۰،السنن الکبری للبیہقی۲۰۸۷۵

[5] تهذیب التهذیب۳۱۵؍۶

[6] میزان الاعتدال۶۱۱؍۲

[7] الانعام ۱

[8]الانعام ۱۲۲

[9]النور ۴۰

[10] المومنون ۱۲

[11] الانعام ۲

[12] الشعراء ۲۱۸،۲۱۹

[13] سیرت النبی ۴۱۵؍۳

[14] شرف المصطفٰی ۳۳۴؍۱، سیرت النبی ۴۱۵؍۳

[15] سیرت النبی ۴۱۵؍۳

[16] ابن سعد۷۰؍۱

[17] دلائل النبوة لابی نعیم۱۲۹؍۱

[18] میزان الاعتدال۶۳۲؍۲

[19] میزان الاعتدال۴۵۴؍۴،سیرت النبی ۴۱۵؍۳

[20] ابن ہشام۱۵۷،۱۵۸؍۱،ابن سعد۷۵،۷۶؍۱

[21]الجرح والتعدیل لابن ابی حاتم۴۵۸؍۹

[22] سیرت النبی ۴۱۶؍۳

[23] شرح الزرقانی علی المواھب۱۹۳؍۱،تاریخ الخمیس۱۸۳؍۱،السیرة النبویة علی ضوئ القرآن والسنة۱۶۳؍۱

[24] سیرت النبی ۴۱۶؍۳

[25] ابن سعد۸۲؍۱

[26] عیون الاثر۳۵؍۱ ، دلائل النبوة لابی نعیم ۸۲،۱۳۸؍۱،دلائل النبوة للبیہقی۱۲۶؍۱،تاریخ طبری۱۶۶؍۲

[27] سیرت النبی۴۱۶؍۳

[28] دلائل النبوة لابی نعیم۱۳۵؍۱

[29]سیرت النبی ۴۱۶؍۳

[30] دلائل النبوةلابی نعیم۱۳۶؍۱،الخصائص الکبری۶۷؍۱،شرف مصطفیٰ۳۵۰؍۱

[31] میزان الاعتدال۴۹؍۴

[32] سیرت النبی ۴۱۷؍۳

[33] دلائل النبوة لابی نعیم ۷۶،۱۳۵؍۱ ،المعجم الکبیرللطبرانی ۳۵۵

[34] سیرت النبی ۴۱۷؍۳

[35] ابن سعد۷۸؍۱

[36] سیرت النبی ۴۱۷؍۳

[37] الروض الانف

[38]ابن سعد۷۹؍۱

[39]سیرت النبی ۴۱۷؍۳

[40]میزان الاعتدال۲۰۷؍۳،

[41] الخصائص الکبری۸۰؍۱،امتاع الاسماع ۵۹؍۴

[42]سیرت النبی ۴۱۸ ؍۳

[43] دلائل النبوة لابی نعیم۶۱۰؍۱

[44] سیرت النبی ۴۱۸،۴۱۹؍۳

[45] الخصائص الکبری۸۳؍۱

[46] الخصائص الکبری۸۳؍۱

[47] سیرت النبی ۴۲۰؍۳

[48] ادلائل النبوة لأبی نعیم ۸۴؍۱ الخصائص الکبری ۸۰؍۱، شرف مصطفی۳۶۰؍۱

[49]سیرت النبی ۴۲۰؍۳

[50] المواہب لدنیہ۷۷؍۱

[51] سیرت النبی ۴۲۱؍۳

[52]ابن سعد۸۱؍۱،البدایة والنہایة۳۲۳؍۲

[53] سیرت النبی ۴۲۱؍۳

[54] دلائل النبوة للبہقی ۱۰۸؍۱، السیرة النبویة لابن کثیر ۲۱۲؍۱، خصائص الکبری ۸۴؍۱

[55] سیرت النبی ۴۲۲؍۳

[56] الخصائص الکبری ۹۱؍۱،دلائل النبوة للبیہقی۴۱؍۲

[57] الروض الانف۸۴؍۲

[58]سیرت النبی ۴۲۲؍۳

[59] الخصائص الکبری۹۱؍۱

[60]شرح الزرقانی علی المواھب۲۷۷؍۱

[61] دلائل النبوة للبیہقی۱۳۹؍۱، الخصائص الکبری ۹۳؍۱،تاریخ دمشق لابن عساکر ۴۷۴؍۳،تاریخ الخمیس فی أحوال أنفس النفیس۲۲۵؍۱

[62]سیرت النبی ۴۲۲؍۳

[63] ابن سعد۸۲؍۱،مستدرک حاکم۴۱۷۷،دلائل النبوة لابن نعیم۹۲،۱۵۴؍۱،البدایة والنہایة ۳۲۴؍۲،السیرة النبویة وأخبار الخلفاء۵۸؍۱

[64] المعجم الأوسط للطبرانی۶۱۴۸،دلائل النبوة لابی  نعیم۹۱

[65] المعجم الأوسط للطبرانی۶۱۴۸

[66] بهجة المحافل وبغیة الأماثل ۴۰؍۱

[67]زادالمعاد۸۰؍۱،سیرت النبی ۴۱۳؍۳

[68] زادالمعاد۸۰؍۱

[69]شرح الزرقانی علی المواھب ۲۵۸؍۱

[70] ابن سعد۸۷؍۱،دلائل النبوة لابی نعیم۱۵۷؍۱

[71]صحیح بخاری کتاب النفقات بَابُ المَرَاضِعِ مِنَ المَوَالِیَاتِ وَغَیْرِهِنَّ۵۳۷۲

[72] ابن سعد۸۸؍۱

[73] سبل الهدى والرشاد، فی سیرة خیر العباد ۳۷۸؍۱

[74] السیرة الحلبیة ۱۳۱؍۱

[75] ابن ہشام۱۶۷؍۱،الروض الانف۱۱۶؍۲،السیرة النبویة لابن کثیر۲۳۲؍۱،حیاة محمد صلی اللہ علیہ وسلم   ۸۱؍۱

[76] ابن سعد۹۲؍۱،تاریخ الخمیس فی أحوال أنفس النفیس۲۲۸؍۱

[77] ابن سعد۹۲؍۱،سبل الهدى والرشاد، فی سیرة خیر العباد۳۸۲؍۱

[78] امتاع الاسماع۵؍۲

[79] ابن سعد۹۱،۹۲؍۱

[80] سبل الهدى والرشاد، فی سیرة خیر العباد۴۴۷؍۱۱

[81] المنتظم فی تاریخ الملوک والأمم ۲۶۲؍۲، الخصائص الکبری ۹۷؍۱

[82] ابن ہشام۱۶۳؍۱،روض الانف۱۰۶؍۲،عیون الاثر۴۲؍۱

[83] ابن ہشام۱۶۴؍۱ ،الروض الانف ۱۴۶؍۲،عیون الآثر۴۲؍۱،سیرة ابن اسحاق۴۹؍۱، دلائل النبوة للبیہقی۱۳۲؍۱،الخصائص الکبری ۹۲؍۱، سبل الھدی والرشدفی سیرة خیرالعباد۳۸۷؍۱،السیرة النبوة لابن کثیر۲۲۷؍۱

[84] ابن ہشام۱۶۴؍۱ ،الروض الانف۱۰۶؍۲،عیون الاثر۴۲؍۱

[85] تاریخ الخمیس۲۲۵؍۱

[86] السیرة النبوة لابن کثیر۲۲۷؍۱

[87]میزان الاعتدال۴۲۵؍۲

[88] سیرت النبی ۴۲۴؍۳

[89]ابن سعد۱۲۰؍۱

[90] ابن سعد ۹۱؍۱

[91]دلائل النبوة لابی نعیم   ۱۵۹؍۱

[92] سیرت النبی ۴۲۵؍۳

[93] عیون الاثر۴۵؍۱،الخصائص الکبری۱۰۰؍۱،ابن سعد۱۲۱؍۱

[94] ابن سعد۹۰؍۱

[95] سیرت النبی ۴۲۵؍۳

Related Articles