ہجرت نبوی کا پہلا سال

براء بن معرورکی وفات

بیعت عقبہ کبیرہ سے سعادت اندوزہوکربراء رضی اللہ عنہ بن معرورمدینہ منورہ واپس آئے اورایک ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے انتظارمیں بے تابی سے کاٹنے لگے لیکن افسوس کہ اس دنیامیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جمال آراکی دوبارہ زیارت ان کی قسمت میں نہ تھی،

كَانَ مَوْتُ الْبَرَاءِ بْنِ مَعْرُورٍ فِی صَفَرٍ قَبْلَ قَدُومِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بِشَهْرٍ

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت مدینہ منورہ سے ایک ماہ قبل ماہ صفرمیں وہ وفات پاگئے۔[1]

عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِی قَتَادَةَ، عَنْ أَبِیهِ،أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ حِینَ قَدِمَ الْمَدِینَةَ سَأَلَ عَنِ الْبَرَاءِ بْنِ مَعْرُورٍ، فَقَالُوا: تُوُفِّیَ وَأَوْصَى بِثُلُثِهِ لَكَ یَا رَسُولَ اللهِ، وَأَوْصَى أَنْ یُوَجَّهَ إِلَى الْقِبْلَةِ لَمَّا احْتُضِرَ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:أَصَابَ الْفِطْرَةَ وَقَدْ رَدَدْتُ ثُلُثَهُ عَلَى وَلَدِهِ، ثُمَّ ذَهَبَ فَصَلَّى عَلَیْهِ ،فَقَالَ:اللهُمَّ اغْفِرْ لَهُ وَارْحَمْهُ، وَأَدْخِلْهُ جَنَّتَكَ، وَقَدْ فَعَلْتَ

عبداللہ بن ابوقتادہ سے روایت ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب ہجرت کرکے مدینہ منورہ تشریف لائے اوربراء رضی اللہ عنہ بن معرورنظرنہ آئے توان کے متعلق دریافت فرمایاصحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیااے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !وہ تووفات پاگئے ہیں اور اپنی جائیدادکاتیسراحصہ آپ کے لئے وصیت کرگئے ہیں اورمرتے وقت انہوں نے وصیت کی تھی کہ مرنے کے بعدان کا چہرہ قبلہ رخ کردیاجائے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاوہ ایک نیک فطرت شخص تھا،ان کی وصیت کے مطابق ان کے بیٹے بشیر رضی اللہ عنہ نے تہائی مال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کیاآپ صلی اللہ علیہ وسلم نےمال قبول فرمالیااورپھران کے وارثوں کولوٹادیا، پھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کی قبرپرتشریف لائے اوران کے لئے دعائے مغفرت فرمائی فرمایااے اللہ!اسے بخش دے اوراس پررحم فرمااوراسے جنت الفردوس میں داخل فرما۔[2]

عَبْدِ اللهِ بنِ أَبِی قَتَادَةَ، عَنْ أُمِّهِ، عَنْ أَبِیْهِ أَنَّ البَرَاءَ بنَ مَعْرُوْرٍ أَوْصَى بِثُلُثِهِ لِلنَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَكَانَ أَوْصَى بِثُلُثٍ فِی سَبِیْلِ اللهِ وَأَوْصَى بِثُلُثٍ لِوَلَدِهِ

عبداللہ بن ابوقتادہ کہتے ہیں براء رضی اللہ عنہ بن معرورنےاپنی جائیدادکاایک تہائی حصہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے،ایک تہائی حصہ فی سبیل اللہ اورایک تہائی حصہ اپنے وارثوں کے لیے وصیت کی۔[3]

فلما قدم رَسُول اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أتى قبره فی أصحابه، فكبر علیه، وصلى وكبر أربعًا

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب ہجرت فرماکرمدینہ منورہ تشریف لائے توصحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ہمراہ ان کی قبرپرآئےاورچار تکبیرات کے ساتھ ان کی نمازجنازہ پڑھی۔[4]

وَكَانَ الْبَرَاءُ بْنُ مَعْرُورٍ أَوَّلَ مَنْ مَاتَ مِنَ النُّقَبَاءِ.

نقباء میں براء رضی اللہ عنہ بن معرور سب سے پہلے فوت ہوئے۔[5]

أَوَّلُ مَنْ صَلَّى عَلَیْهِ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ حِینَ قَدِمَ الْمَدِینَةَ الْبَرَاءُ بْنُ مَعْرُورٍ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت فرماکرجب مدینہ منورہ تشریف لائے توسب سے پہلی نمازجنازہ براء رضی اللہ عنہ بن معرورکی پڑھی۔[6]

عَنِ الزُّهْرِیِّ عَنِ ابْنِ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ: كَانَ الْبَرَاءُ بْنُ مَعْرُورٍ أَوَّلَ مَنِ اسْتَقْبَلَ الْقِبْلَةَ حَیًّا وَمَیِّتًا

امام زہری رحمہ اللہ فرماتے ہیں براء بن معرورنے سب سے پہلے زندگی میں اورمرنے کے بعداپناچہرہ کعبہ کی طرف کیا۔[7]

 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قباء میں آمد :

لَمَّا سَمِعْنَا بِمَخْرَجِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مِنْ مَكَّةَ، وَتَوَكَّفْنَا قُدُومَهُ، كُنَّا نَخْرُجُ إذَا صَلَّیْنَا الصُّبْحَ، إلَى ظَاهِرِ حَرَّتِنَا نَنْتَظِرُ رَسُول الله صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فو اللهِ مَا نَبْرَحُ حَتَّى تَغْلِبَنَا الشَّمْسُ عَلَى الظِّلَالِ فَإِذَا لَمْ نَجِدْ ظِلًّا دَخَلْنَا

مدینہ منورہ کے مسلمانوں کوجب خبرملی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ مکرمہ سے روانہ ہوچکے ہیں اورعنقریب مدینہ منورہ پہنچ رہے ہیں تووہ ہرروزمضطرب دل اوربے تاب نگاہوں کے ساتھ سویرے سویرے مقام حرہ تک استقبال کے لئے آتے اورکوسوں دورتک اپناگوہرمقصودتلاش کرتے اورجب تک سورج میں تیزی نہ ہوتی وہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا انتظار کرتے تھے ،جب دوپہرکی گرمی ناکابل برداشت ہوجاتی تو حسرت ویاس کے ساتھ واپس مدینہ چلے جاتے ۔

ابن سعدکے مطابق آٹھ ربیع الاول ۶۲۲ء دوشنبہ کوجب دن ڈھل رہاتھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کایہ چھوٹاساقافلہ عام گزرگاہوں سے ہٹے ہوئے راستوں سے گزرتاہوابارہ ربیع الاول کومدینہ سے تین کلومیڑپہلے جنوبی بستی قباپہنچ گیا (قباایک کنویں کانام تھاجس کی نسبت سے بستی کانام بھی قبامشہورہوگیا)

وَذَلِكَ فِی أَیَّامٍ حَارَّةٍ. حَتَّى إذَا كَانَ الْیَوْمُ الَّذِی قَدِمَ فِیهِ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، جَلَسْنَا كَمَا كُنَّا نَجْلِسُ، حَتَّى إذَا لَمْ یَبْقَ ظِلٌّ دَخَلْنَا بُیُوتَنَا، وَقَدِمَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ حَیْنَ دَخَلْنَا الْبُیُوتَ فَكَانَ أَوَّلُ مَنْ رَآهُ رَجُلٌ مِنْ الْیَهُودِ، وَقَدْ رَأَى مَا كُنَّا نَصْنَعُ، وَأَنَّا نَنْتَظِرُ قُدُومَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عَلَیْنَا، فَصَرَخَ بِأَعْلَى صَوْتِهِ: یَا بَنِی قَیْلَةَ ، هَذَا جَدُّكُمْ قَدْ جَاءَ،فثار المسلمون إلى السلاح، فتلقّوارَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ

وہ دن بھی گرمی کاتھاجب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے ،اس دن بھی ہم بددستورگئے اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم کاانتظارکرکے واپس گھروں میں چلے آئےجب ہم اپنے گھروں میں داخل ہوگئے تواس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اورجس شخص نے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کودیکھاوہ ایک یہودی تھا جوکسی کام کے لئے اپنے مکان کی چھت پر یا کسی ٹیلہ پرچڑھا،اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اورسیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کوسفیدلباس میں ملبوس مدینہ منورہ کی طرف آتے دیکھا،وہ یہودی ضبط سخن نہ کرسکااور بے ساختہ چیخنے لگا اے بنی قیلہ(اوس وخزرج) تمہارا مقصود آپہنچا جس کاتم انتظارکررہے تھے،کیونکہ یہ یہودی ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے انتظارمیں بیٹھا ہو ادیکھتا تھایہ سنتے ہی تمام مومنین جلدی جلدی ہتھیارپہن کراستقبال کے لئے ہرطرف سے جوق درجوق میدان حرہ کی طرف دوڑ پڑے اور مسلمانوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کوپروانوں کی طرح گھیرلیااورآپ کی تشریف آوری کی خوشی میں نعرہ ہائے تکبیربلندکیے اورشان نبوت کے مطابق خوش آمدیدکہا،اس موقعہ پراہالیان مدینہ کی مسرتوں کااندازہ کون کر سکتا ہے ،خوشی سے تمتماتے چہروں ،شادمانی سے لبریزسینوں اورخوشی سے چھلکتے ہوئے آنسوؤں کی منظرکشی الفاظ میں بیان نہیں کی جاسکتی،ہردل مہمان ذی شان کے لیے بے تاب وبے قراراورہرآنکھ اس تجلی کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے مضطرب تھی اسی موقع پرآپ مکمل سکون وطمانیت سے تھے اوراس آیت کریمہ کانزول ہورہاتھا

۔۔۔فَاِنَّ اللهَ هُوَمَوْلٰىهُ وَجِبْرِیْلُ وَصَالِحُ الْمُؤْمِنِیْنَ۝۰ۚ وَالْمَلٰۗىِٕكَةُ بَعْدَ ذٰلِكَ ظَهِیْرٌ۝۴ [8]

ترجمہ: بیشک اللہ ہی اس کارفیق ہے اور جبریل اورنیک مسلمان اوراس کے بعدفرشتے مددگارہیں ۔

وہاں سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم داہنی طرف مڑگئے یہاں تک کہ چلتے چلتے آپ مدینہ کی ایک مرتفع بستی یعنی بنی عمروبن عوف کے سردار کلثوم بن ہدم یاسعدبن خیمثہ یاخارجہ بن زیدکے گھر جااترے ، پہلاقول زیادہ راجح ہے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آمدکی خوشی میں مسلمانوں نے اس زورسے نعرہ تکبیرلگایاکہ بنوعمروبن عوف کاگاوں نعرہ تکبیرسے گونج اٹھا،آوازسن کر مسلمان اپنے اپنے گھروں سے نکل آئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضرہوکرسلام عرض کیا سیدناابوبکر رضی اللہ عنہ لوگوں سے ملاقات کے لئے کھڑے ہوئے تھے اوران کے سلام کاجواب دے رہے تھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش بیٹھے ہوئے تھے

وَأَكْثَرُنَا لَمْ یَكُنْ رَأَى رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَبْلَ ذَلِكَ، وَرَكِبَهُ النَّاسُ وَمَا یَعْرِفُونَهُ مِنْ أَبِی بَكْرٍ، حَتَّى زَالَ الظِّلُّ عَنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَقَامَ أَبُو بَكْرٍ فَأَظَلَّهُ بِرِدَائِهِ، فَعَرَفْنَاهُ عِنْدَ ذَلِكَ

جن لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کونہیں دیکھاتھاوہ سیدناابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس آتے تھے اوران کواللہ کا رسول سمجھ کرسلام کرتے تھے،یہاں تک کہ جب سایہ ہٹ گیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پردھوپ آگئی توجانثاررفیق غارسیدناابوبکر رضی اللہ عنہ نے کھڑے ہوکرآپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اوپراپنی چادر سے سایہ کرلیااب لوگوں نے سمجھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ ہیں ۔[9]

فَأَقَامَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بقُباءٍ، فِی بَنِی عَمْرِو بْنِ عَوْفٍ، یَوْمَ الِاثْنَیْنِ وَیَوْمَ الثُّلَاثَاءِ وَیَوْمَ الْأَرْبِعَاءِ وَیَوْمَ الْخَمِیسِ

ایک روایت ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مقام قبامیں بنی عمروبن عوف کے ہاں پیر،منگل،بدھ اورجمعرات یعنی چارردن قیام فرمایا۔[10]

عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: قَدِمَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ المَدِینَةَ فَنَزَلَ أَعْلَى المَدِینَةِ فِی حَیٍّ یُقَالُ لَهُمْ بَنُو عَمْرِو بْنِ عَوْفٍ، فَأَقَامَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فِیهِمْ أَرْبَعَ عَشْرَةَ لَیْلَةً

انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے توآپ مدینہ منورہ کے ایک بلندحصے میں بنی عمروبن عوف کے ہاں اترے اور چودہ راتیں قیام فرمایا۔[11]

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، قَالَ: لَمَّا قَدِمَ المُهَاجِرُونَ الأَوَّلُونَ العُصْبَةَ مَوْضِعٌ بِقُبَاءٍ قَبْلَ مَقْدَمِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ كَانَ یَؤُمُّهُمْ سَالِمٌ مَوْلَى أَبِی حُذَیْفَةَ، وَكَانَ أَكْثَرَهُمْ قُرْآنًا

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہےجب پہلے مہاجرین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت سے بھی پہلے قباکے مقام عصبہ میں پہنچے توان کی امامت ابوحذیفہ رضی اللہ عنہ کے غلام سالم رضی اللہ عنہ کیاکرتے تھے،آپ کوقرآن مجید سب سے زیادہ یادتھا۔[12]

 تعمیرمسجدقبا:

تین دن تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم قبامیں مقام عصبہ پر نمازادافرماتے رہے،

وكان لكلثوم بن الهدم بقباء مربد، والمربد: الموضع الذی یبسط فیه التمر لییبس، فأخذه منه رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فأسسه وبناه مسجدا

پھرگیارہ ربیع الاول تیرہ بعثت نبوی مطابق تیئس ستمبر۶۲۲ء کوآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کلثوم بن ہدام کی ایک افتادہ زمین میں جہاں کھجوریں خشک کی جاتی تھیں مسجدقباکی رسم تاسیس ادا فرمائی۔ [13]

یہ مسجدمدینہ منورہ سے جنوب مغربی جانب کوئی تین کلومیڑکے فاصلہ پرواقع ہے،

كَانَ النّبِیّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ حِینَ بَنَى مَسْجِدَ قُبَاءٍ یَأْتِی بِالْحَجَرِ قَدْ صَهَرَهُ إلَى بَطْنِهِ، فَیَضَعُهُ فَیَأْتِی الرّجُلُ یُرِیدُ أَنْ یُقِلّهُ فَلَا یَسْتَطِیعُ حَتّى یَأْمُرَهُ أَنْ یَدَعَهُ وَیَأْخُذَ غَیْرَهُ

تعمیرمسجدمیں سیدالامم صلی اللہ علیہ وسلم عام مزدوروں کے شانہ بشانہ مصرف کاررہے ،بڑے بڑے وزنی پتھراٹھاتے وقت جسم اقدس خم کھاجاتامگراس جلیل القدرکام میں تساہل گوارہ نہ کیا،عقیدت مندبڑی لجاہت اورمروت کے ساتھ عرض کرتے آپ پرہمارے ماں باپ قربان ہوں آپ چھوڑ دیں ہم ایسے وزنی پتھراٹھائیں گے ،آپ ان کی دلداری کرتے ہوئے وہ پتھرچھوڑ دیتے مگراسی کے برابرکا دوسرا پتھر اٹھالیتے۔ [14]

عن الشموس بنت النعمان قالت:نظرت إلى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ حِینَ قدم ونزل وأسس هذا المسجد مَسْجِدَ قُبَاءٍ، فرأیته یأخذ الحجر أو الصخرة حتى یهصره الحجر، وأنظر إلى بیاض التراب على بطنه أو سرته، فیأتی الرجل من أصحابه ویقول: بأبی وأمی یَا رَسُولَ اللهِ أعطنی أكفك ، فیقول: لا، خذ مثله

شموس بنت نعمان سے مروی ہےمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کودیکھ رہی تھی جب انہوں نے قبامیں قدم رنجہ فرمایا اور اس مسجدقباکی بنیادرکھی،میں نے دیکھاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پتھر اٹھاتےیہاں تک کہ ایک ڈھیرجمع ہوگیامیں نے دیکھاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سینہ مبارک پرغبارجمع ہوگیا،اصحاب میں سے لوگ آتے اورعرض کرتے ہمارے ماں باپ آپ پرقبربان ہو ں یہ وزنی پتھرہمیں دے دیں ہم پہنچادیتے ہیں ، مگرآپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے نہیں تم کوئی دوسراپتھراٹھالو۔ [15]

مسجدقباکو بارگاہ الہٰی میں ایسی مقبولیت حاصل ہوئی کہ اس کی رفعت وعظمت شان کاتذکرہ قرآن مجیدنے ان الفاظ میں کیا

۔۔۔ لَمَسْجِدٌ اُسِّــسَ عَلَی التَّقْوٰى مِنْ اَوَّلِ یَوْمٍ۔۔۔۝۱۰۸ [16]

ترجمہ:جو مسجد اوّل روز سے تقویٰ پر قائم کی گئی تھی۔[17]

مسجدکاقبلہ بیت المقدس کی طرف رکھاگیا،اس کامینارغالباً عمربن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے بنوایاتھا،سیدنا علی رضی اللہ عنہ بھی تین دن کے بعدمکہ مکرمہ سے روانہ ہوئے اور قباپہنچ کرکلثوم بن الہدم ہی کے ہاں قیام پذیرہوئے ،

عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ:ثُمَّ أَرْسَلَ إِلَى بَنِی النَّجَّارِ كان خروجه صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ من قباء یوم الجمعة، فَجَاءُوا مُتَقَلِّدِی السُّیُوفِ وَقَالُوا: ارْكَبَا آمِنَیْنِ مُطَاعَیْنِ.

انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہےآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے روانگی سے پہلے بنونجار کوبلا بھیجا اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کے روزقباسے روانہ ہوئے، وہ سویرے سویرے گلے میں تلواریں لٹکائے ہوئے حاضرہوئےاوردرخواست کی کہ آپ دونوں اطمینان کے ساتھ مدینہ چلئے ہم آپ کی اطاعت کریں گے ،چنانچہ اسی روزکافی دن چڑھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ کی طرف روانہ ہوئے ۔

أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ:كَأَنِّی أَنْظُرُ إِلَى النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عَلَى رَاحِلَتِهِ، وَأَبُو بَكْرٍ رِدْفُهُ وَمَلَأُ بَنِی النَّجَّارِ حَوْلَه

انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں قباء سے آپ کی روانگی کا منظر اب بھی میری آنکھوں کے سامنے ہے ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی سواری پر تشریف فرما ہیں جبکہ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ آپ کے پیچھے بیٹھے ہوئے ہیں اوربنونجارکے لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم اورسیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کو ہتھیاروں سے گھیررکھاہے۔[18]

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدینہ روانگی کے کچھ ہی دنوں بعد کلثوم بن ہدم رضی اللہ عنہ انتقال فرماگئے۔

بنوسالم بن عوف کی بستی میں خطبہ جمعہ:

فأتى مسجدهم الذی فی الوادی وادی رانوناء وأدركته صلاة الجمعة فصلى بهم هنالك، وكانوا مائة رجل، فَكَانَتْ أَوَّلَ جُمُعَةٍ صَلَّاهَا بِالْمَدِینَةِ

راستے میں جب آپ بنوسالم بن عوف کے علاقہ وادی رانوناء کے مقام پر پہنچے تونمازجمعہ کاوقت آگیایہاں عتبان بن مالک رضی اللہ عنہ اقامت پذیر تھے جنہوں نے نمازکے لئے ایک چھوٹی سی مسجدبنارکھی تھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سوآدمیوں کے ہمراہ ان کی مسجدمیں نمازجمعہ ادا فرمائی مدینہ منورہ میں یہ پہلی نمازجمعہ پڑھی گئی۔[19]

حتى أدركته الجمعة فی بنی سالم، فصلى فی بطن الوادی الجمعة وادی ذی صلب

ایک روایت میں ہےیہاں تک کہ بنوسالم کے علاقہ دادی ذی صلب میں جمعہ کاوقت ہوگیا۔[20]

امام ابن زبالہ رحمہ اللہ الغبیب میں جمعہ پڑھنابیان کرتے ہیں بظاہران روایات میں تغادمعلوم ہوتاہے مگرحقیقت یہ ہے کہ ذی صلب اور رانوناء دونوں نالوں کاپانی مسجدالغبیب کے مقام پراکٹھاہوتاتھااس لیے تینوں روایات سے اس بات کی تائیدہوتی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجدجمعہ والی جگہ ہی قبیلہ بنوسالم میں نمازجمعہ ادافرمائی تھی ۔

فَكَانَتْ أَوَّلَ جُمُعَةٍ صَلَّاهَا بِالْمَدِینَةِ

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ منورہ میں پہلاجمعہ ادافرمایا۔[21]

بعدمیں اس مقام پربنائی جانے والی مسجد کانام مسجد الغبیب ،مسجد الوادی اور مسجد جمعہ مشہورہوا، اس مسجدکی اولین تعمیرکنندگان میں امیرمدینہ عبدالصمدالعباسی بھی تھاجسے خلیفہ مہدی عباسی نے ۱۵۹ہجری ۷۷۶ ئ میں معزول کردیاتھا ۔

ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن رضی اللہ عنہ کابیان ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے قبیلے میں خطبے کے لئے کھڑے ہوئے اورتوشہ آخرت پرلوگوں کوابھارا ،اللہ عزوجل کی خوب حمدوثنابیان فرمائی پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت یہ خطبہ بیان فرمایا

امابعد!الْحَمْدُ لِلَّهِ أَحْمَدُهُ، وَأَسْتَعِینُهُ، وَأَسْتَغْفِرُهُ وَأَسْتَهْدِیهِ، وَأُومِنُ بِهِ وَلَا أَكْفُرُهُ، وَأُعَادِی مَنْ یَكْفُرُهُ، وَأَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ لَا شَرِیكَ لَهُ، وَأَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ أَرْسَلَهُ بِالْهُدَى، وَالنُّورِ، وَالْمَوْعِظَةِ عَلَى فَتْرَةٍ مِنَ الرُّسُلِ، وَقِلَّةٍ مِنَ الْعِلْمِ، وَضَلَالَةٍ مِنَ النَّاسِ، وَانْقِطَاعٍ مِنَ الزَّمَانِ، وَدُنُوٍّ مِنَ السَّاعَةِ، وَقُرْبٍ مِنَ الْأَجَلِ، مَنْ یُطِعِ اللهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ رَشَدَ، وَمَنْ یَعْصِهِمَا فَقَدْ غَوَى وَفَرَّطَ، وَضَلَّ ضَلَالًا بَعِیدًا، وَأُوصِیكُمْ بِتَقْوَى اللهِ، فَإِنَّهُ خَیْرُ مَا أَوْصَى بِهِ الْمُسْلِمُ الْمُسْلِمَ أَنْ یَحُضَّهُ عَلَى الْآخِرَة، وَأَنْ یَأْمُرَهُ بِتَقْوَى اللهِ، فَاحْذَرُوا مَا حَذَّرَكُمُ اللهُ مِنْ نَفْسِهِ، وَلَا أَفْضَلَ مِنْ ذَلِكَ نَصِیحَةً، وَلَا أَفْضَلَ مِنْ ذَلِكَ ذِكْرَى، وَإِنَّهُ تَقْوَى لِمَنْ عَمِلَ بِهِ عَلَى وَجِلٍ وَمَخَافَةٍ،

الحمدللہ میں اس کی حمدکرتاہوں اوراسی سے طالب امدادہوں اس سے مغفرت کی دعاکرتاہوں اوراسی سے ہدایت طلب کرتاہوں ،میں اس پرایمان رکھتاہوں اوراس کے وجودسے انکارنہیں کرتا،میں کفرکرنے والے کادشمن ہوں ، میں گواہی دیتاہوں کہ اللہ تعالیٰ کے سواکوئی معبودنہیں نہ اس کاکوئی شریک ہے ،محمد( صلی اللہ علیہ وسلم )اس کابندہ اوررسول ہے جسے اس نے دوسرے رسولوں کی طرح دنیاکی ہدایت ،دین حق کی تبلیغ اورزمین پرروشنی پھیلانے اوربندگان خداکی پندوموعظت کے لئے بھیجاہے تاکہ انہیں علم ،انسان کی گمراہی ،دنیاسے رحلت ،قرب قیامت اورقرب اجل کے بارے میں بتایاجائے،جس نے اللہ اوراس کے رسول کی اطاعت کی وہ رشیدہے اورجس نے ان سے منہ موڑکرراہ معصیت اختیارکی وہ ہمیشہ کے لئے پست ترین قعرمذلت وضلالت میں گرا،میں تمہیں تقویٰ کی وصیت کرتاہوں ،یہ وہ بھلائی ہے جو آخرت تک ہرمسلمان کومسلمان بنائے رکھتی ہے،مسلمان دوسروں کوتقویٰ کاحکم اوراس کے نفس کی اطاعت سے روکتاہے جس سے بہترکوئی نصیحت نہیں ہے نہ اس سے میراکوئی ذکرہے،تقویٰ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے احکام پرعمل کیاجائے اوراس (کے عذاب)سے ڈراجائے،

وعون صدق على مَا تَبْتَغُونَ مِنْ أَمْرِ الْآخِرَةِ، وَمَنْ یُصْلِحِ الَّذِی بَیْنَهُ وَبَیْنَ اللَّهِ مِنْ أَمْرِ السِّرِّ وَالْعَلَانِیَةِ لَا یَنْوِی بِذَلِكَ إِلَّا وَجْهَ اللَّهِ یَكُنْ لَهُ ذِكْرًا فِی عَاجِلِ أَمْرِهِ وَذُخْرًا فِیمَا بَعْدَ الْمَوْتِ، حِینَ یَفْتَقِرُ الْمَرْءُ إِلَى مَا قَدَّمَ، وَمَا كَانَ مِنْ سِوَى ذَلِكَ یَوَدُّ لَوْ أَنَّ بَیْنَهُ وَبَیْنَهُ أَمَدًا بَعِیدًا، وَیُحَذِّرُكُمُ اللهُ نَفْسَهُ وَاللهُ رَءُؤُفٌ بِالْعِبَادِ.

امرآخرت کی صداقت جلدظاہرہونے والی ہے،جوشخص اپنے اوراللہ تعالیٰ کے مابین بھلائی کاخواہش مندہے وہ بظاہراوربباطن اس کے حکم پرعمل کرتاہے جس کی مدت کچھ بہت زیادہ نہیں ہے’’اپنے نفس کی اطاعت سے پرہیزکرو،اللہ اپنے بندوں پرمہربان ہے۔‘‘

وَالَّذِی صَدَقَ قَوْلُهُ، وَأَنْجَزَ وَعْدَهُ، لَا خُلْفَ لِذَلِكَ، فَإِنَّهُ یَقُولُ تَعَالَى:مَا یُبَدَّلُ الْقَوْلُ لَدَیَّ وَمَا أَنَا بِظَلَّامٍ لِلْعَبِیدِ،وَاتَّقُوا اللهَ فِی عَاجِلِ أَمْرِكُمْ وَآجِلِهِ، فِی السِّرِّ وَالْعَلَانِیَةِ، فَإِنَّهُ مَنْ یَتَّقِ اللهَ یُكَفِّرْ عَنْهُ سَیِّئَاتِهِ، وَیُعْظِمْ لَهُ أَجْرًا، وَمَنْ یَتَّقِ اللهَ فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِیمًا، وَإِنَّ تَقْوَى اللهِ تُوقِّی مَقْتَهُ، وَتُوقِّی عُقُوبَتَهُ، وَتُوقِّی سَخَطَهُ، وَإِنَّ تَقْوَى اللهِ تُبَیِّضُ الْوَجْهَ وَتُرْضِی الرَّبَّ وَتَرْفَعُ الدَّرَجَةَ، خُذُوا بِحَظِّكُمْ،

جوشخص قول کاسچااورایفائے عہدمیں پکاہے اس کے بارے میں اللہ تعالیٰ کاارشادفرماتاہے’’میرے ہاں بات پلٹی نہیں جاتی اور میں اپنے بندوں پر ظلم توڑنے والا نہیں ہوں ۔‘‘ پوشیدہ وعلانیہ ہر حال میں اپنے رب سے ڈرتے رہنا’’جو اللہ سے ڈرے گا اللہ اس کی برائیوں کو اس سے دُور کر دے گا اور اس کو بڑا اجر دے گا۔‘‘اورجوکوئی اللہ کاتقویٰ اختیارکرے گااس نے بڑی کامیابی حاصل کی،جوشخص تقویٰ اختیارکرتاہے اللہ تعالیٰ اس کے بعض اوراس کی عقوبت کوختم کردیتاہے اوراس کی تکلیف بھی دورکردیتاہے،اللہ کاتقویٰ (خوف)چہرے کوروشن کردیتاہےاورمتقی سے اللہ تعالیٰ راضی ہوتاہےاوراس کے درجات بلند کردیتاہے،(پس ) اس سلسلے میں اپنے فائدے کی بات لے لو

 وَلَا تُفَرِّطُوا فِی جَنْبِ اللهِ، قَدْ عَلَّمَكُمُ اللهُ كِتَابَهُ، وَنَهَجَ لَكُمْ سَبِیلَهُ; لِیَعْلَمَ الَّذِینَ صَدَقُوا وَلِیَعْلَمَ الْكَاذِبِینَ، فَأَحْسِنُوا كَمَا أَحْسَنَ اللهُ إِلَیْكُمْ، وَعَادُوا أَعْدَاءَهُ،وَجَاهِدُوا فِی اللهِ حَقَّ جِهَادِهِ، هُوَ اجْتَبَاكُمْ وَسَمَّاكُمُ الْمُسْلِمِینَ لِیَهْلِكَ مَنْ هَلَكَ عَنْ بَیِّنَةٍ، وَیَحْیَا مَنْ حَیَّ عَنْ بَیِّنَةٍ، وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللهِ، فَأَكْثِرُوا ذِكْرَ اللهِ وَاعْمَلُوا لِمَا بَعْدَ الْمَوْتِ، فَإِنَّهُ مَنْ أَصْلَحَ مَا بَیْنَهُ وَبَیْنَ اللهِ، یَكْفِهِ مَا بَیْنَهُ وَبَیْنَ النَّاسِ، ذَلِكَ بِأَنَّ اللهَ یَقْضِی عَلَى النَّاسِ وَلَا یَقْضُونَ عَلَیْهِ، وَیَمْلِكُ مِنَ النَّاسِ وَلَا یَمْلِكُونَ مِنْهُ، اللهُ أَكْبَرُ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللهِ الْعَلِیِّ الْعَظِیمِ

اس کی طرف بھی افراط کاخیال ترک کردوکیونکہ اس نے تمہیں اپنی کتاب مقدس کاعلم بخشاہے تاکہ لوگ اللہ تعالیٰ کا بتایا ہوا طریقہ اختیارکریں تاکہ سچے اورجھوٹے لوگوں میں امتیازکرسکیں ،بھلائی کروجس طرح اللہ تعالیٰ نے تمہارے ساتھ بھلائی کی ہےاوراللہ کے دشمنوں سے عداوت رکھواوراس کی راہ میں جہادکروجیساجہاد کرنے کا حق ہے،وہی ہے جس نے تمہیں منتخب فرما کر مسلمان بنایا تاکہ جوہلاک ہوتواسے معلوم ہواور جو زندہ رہے اسے بھی معلوم ہو،قوت ہے فقط اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی ہے،اللہ تعالیٰ کاذکرزیادہ سے زیادہ کیا کرووہی آخرت میں موت کے بعدتمہارے کام آئے گا،بندوں کی اصلاح اوران کی اصلاح کاکام اللہ تعالیٰ کاہے،اللہ تعالیٰ اپنے بندوں سے کسی بات کا تقاضاکرسکتاہے بندے اس سے کسی بات کاتقاضانہیں کرسکتے کیونکہ اللہ تعالیٰ کازوراپنے بندوں پرہے ان کااللہ تعالیٰ پرکوئی زورنہیں ،بندے اللہ کی ملکیت ہیں ،اللہ بندوں کی ملکیت نہیں ہے، اللہ تعالیٰ بہت بڑاہے اورتمام قوتیں اورطاقتیں اسی کی طرف سے ہیں [22]

ایک روایت میں یہ خطبہ منقول ہے۔

أَمَّا بَعْدُ، أَیُّهَا النَّاسُ فَقَدِّمُوا لِأَنْفُسِكُمْ تَعْلَمُنَّ وَاللهِ لَیُصْعَقَنَّ أَحَدُكُمْ، ثُمَّ لَیَدَعَنَّ غَنَمَهُ لَیْسَ لَهَا رَاعٍ، ثُمَّ لَیَقُولَنَّ لَهُ رَبُّهُ لَیْسَ لَهُ تُرْجُمَانٌ وَلَا حَاجِبٌ یَحْجُبُهُ دُونَهُ -: أَلَمْ یَأْتِكَ رَسُولِی فَبَلَّغَكَ؟ وَآتَیْتُكَ مَالًا؟ وَأَفْضَلْتُ عَلَیْكَ؟ فَمَا قَدَّمْتَ لِنَفْسِكَ؟ فَیَنْظُرُ یَمِینًا وَشِمَالًا فَلَا یَرَى شَیْئًا، ثُمَّ یَنْظُرُ قُدَّامَهُ فَلَا یَرَى غَیْرَ جَهَنَّمَ ،فَمَنِ اسْتَطَاعَ أَنْ یَقِیَ وَجْهَهُ مِنَ النَّارِ، وَلَوْ بِشِقِّ تَمْرَةٍ، فَلْیَفْعَلْ، وَمَنْ لَمْ یَجِدْ فَبِكَلِمَةٍ طَیِّبَةٍ، فَإِنَّ بِهَا تُجْزَى الْحَسَنَةُ عَشْرَ أَمْثَاَلِهَا إِلَى سَبْعِمِائَةِ ضِعْفٍ، وَالسَّلَامُ عَلَى رَسُولِ اللهِ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ.وَالسَّلَامُ عَلَیْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ

لوگو!اپنی ذات حیثیت پرپہلے غورکرو ، اللہ تمہیں بتاتاہے اورپھرتم سے پوچھتاہے کہ اگرتم میں سے کسی پراس کے حکم سے بجلی گرپڑے توکیااس کے بعداس کے بکریوں کے گلے کوبلانے والااورچرواہاکوئی ہوگا؟اللہ تعالیٰ کے سوانہ کوئی تمہاراترجمان ہے اورنہ کوئی تمہاراپردہ پوش ،وہ تم سے یہ بھی فرماتا ہے کہ کیااس نے تمہاری ہدایت کے لئے اپنارسول نہیں بھیجا؟کیااس نے تمہیں مال ودولت نہیں دی؟کیااس نے تم پراپنافضل نہیں کیا؟پھرتم اپنے نفس کی پیروی پرکیوں مائل ہو؟ایساکروگے توپھراگرتم اپنے دائیں بائیں دیکھوگے توتمہیں کوئی چیزنظرنہیں آئے گی اوراگرنیچے نظرڈالوگے تو آتش جہنم کے سواکچھ نہ دیکھ سکوگے،پس جو اپنے چہرے کو جہنم کی آگ سے بچانے کی استطاعت رکھتاہے وہ بچائے گو اسے آدھی کھجور ہی دے کر نہ بچاناپڑے،کاش تم ایک لمحے کے لئے اس پرغورکرکے اعمال صالح کی طر ف آؤگے توتمہارے لئے ایک ہی بہترراستہ ہے یعنی کلمہ طیبہ لاالٰہ الااللہ محمدرسول اللہ،اعمال حسنہ کاتجزیہ کرنے کے لئے دس سے لے کرسات سوبلکہ اس سے بھی زیادہ ضرب درضرب بے شمارمثالیں ہیں ،والسلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ۔

ثُمَّ خَطَبَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مَرَّةً أُخْرَی، فَقَالَ: إِنَّ الْحَمْدَ لِلَّهِ أَحْمَدُهُ وَأَسْتَعِینُهُ، نَعُوذُ بِاللهِ مِنْ شُرُورِ أَنْفُسِنَا وَسَیِّئَاتِ أَعْمَالِنَا، مَنْ یَهْدِهِ اللهُ فَلَا مُضِلَّ لَهُ، وَمَنْ یُضْلِلْ فَلَا هَادِیَ لَهُ، وَأَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ لَا شَرِیكَ لَهُ، إِنَّ أَحْسَنَ الْحَدِیثِ كِتَابُ اللهِ، قَدْ أَفْلَحَ مَنْ زَیَّنَهُ اللهُ فِی قَلْبِهِ، وَأَدْخَلَهُ فِی الْإِسْلَامِ بَعْدَ الْكُفْرِ، وَاخْتَارَهُ عَلَى مَا سِوَاهُ مِنْ أَحَادِیثِ النَّاسِ، إِنَّهُ أَحْسَنُ الْحَدِیثِ وَأَبْلَغُهُ، أَحِبُّوا مَنْ أَحَبَّ اللهَ، أَحِبُّوا اللهَ مِنْ كُلِّ قُلُوبِكُمْ، وَلَا تَمَلُّوا كَلَامَ اللهِ وَذِكْرَهُ، وَلَا تَقْسُ عَنْهُ قُلُوبُكُمْ، فَإِنَّهُ مِنْ كُلٍّ یَخْتَارُ اللهُ وَیَصْطَفِی، فَقَدْ سَمَّاهُ خِیَرَتَهُ مِنَ الْأَعْمَالِ، وَخِیَرَتَهُ مِنَ الْعِبَادِ، وَالصَّالِحَ مِنَ الْحَدِیثِ، وَمِنْ كُلِّ مَا أُوتِیَ النَّاسُ مِنَ الْحَلَالِ وَالْحَرَامِ، فَاعْبُدُوا اللهَ وَلَا تُشْرِكُوا بِهِ شَیْئًا، وَاتَّقُوهُ حَقَّ تُقَاتِهِ، وَاصْدُقُوا اللهَ صَالِحَ مَا تَقُولُونَ بِأَفْوَاهِكُمْ، وَتَحَابُّوا بِرَوْحِ اللهِ بَیْنَكُمْ، إِنَّ اللهَ یَغْضَبُ أَنْ یُنْكَثَ عَهْدُهُ، وَالسَّلَامُ عَلَیْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ

اس جمعے کے آخرمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایاالحمدللہ! میں اس کی حمدکرتاہوں اوراس سے امدادطلب کرتاہوں ،ہم اپنے نفس کے فتنوں اوراپنے اعمال کی برائیوں سے اللہ کی پناہ مانگتے ہیں ،اللہ جس کوگمراہ کرے اسے کوئی ہدایت نہیں دے سکتا،میں گواہی دیتاہوں کہ اللہ کے سواکوئی معبودنہیں (وہ واحدہے اس کاکوئی شریک نہیں )سب سے بہترکلام اللہ تعالیٰ کی کتاب (قرآن)ہے،اس نے فلاح پائی جس کے قلب کواللہ تعالیٰ نے زینت بخشی اوراسے کفرکے بعداسلام میں داخل ہونے کی توفیق عطافرمائی اوراسے اختیاربخشاکہ وہ ہدایات اسلام کے علاوہ دنیاکے تمام انسانوں کی باتوں کوردکردے،کلام الٰہی سب سے زیادہ بہتر(یعنی شریں )کلام ہے ،اس کی تبلیغ کرو،جسے اللہ چاہے اسے تم بھی چاہو،اللہ کواپنے دل کی تمام گہرائیوں سے چاہو،اللہ کے کلام اوراس کے ذکرکونہ الٹ پلٹ کرونہ اپنے قلوب میں اس کی کمی آنے دوجسے اللہ تعالیٰ نے اختیاربخشااوراس کے قلب کومصفابنایااس نے (گویا) اس کے اعمال کوبھی نیک بنایااوراپنے تمام بندوں میں اسے بھلائی کے لئے چن لیا،بہترین بات یہ ہے کہ کوئی دوسروں کوحرام وحلال میں فرق کرناسکھائے،اللہ کی عبادت کرواورکسی کواس کاشریک نہ بناؤ،تقویٰ کو اتنا اختیار کروجتنااس کاحق ہے، جوکچھ منہ سے نکالو(یعنی جوبات کرو)اس میں اللہ کوحاضروناظرجان کرصداقت کاسب سے زیادہ خیال رکھو،آپس میں جو معاہدہ کرو اسے روح خداوندی جان کر پوراکروکیونکہ جومعاہدات پورے نہیں کرتے ان سے اللہ ناراض ہوتاہے،والسلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ ۔[23]

عَنْ أَبِی بَكْرٍ، قَالَ:سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عَلَى أَعْوَادِ الْمِنْبَرِ یَقُولُ:اتَّقُوا النَّارَ وَلَوْ بِشِقِّ تَمْرَةٍ، فَإِنَّهَا تُقِیمُ الْعَوَجَ، وَتَدْفَعُ مِیتَةَ السَّوْءِ، وَتَقَعُ مِنَ الْجَائِعِ مَوْقِعَهَا مِنَ الشَّبْعَانِ

مسیدناابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ سے مروی ہےیں نے اس منبرکی لکڑیوں پررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کویہ خطبہ دیتے ہوئے سناہے کہ لوگو!آتش دوزخ سے بچوگوآدھی کھجورسے ہی ہو،یعنی مال نہ ہوتوآدھی کھجورہی اللہ کی راہ میں دے دوتاکہ وہی جہنم سے بچاوکاسبب بن جائے،یادرکھوصدقہ تمام کجی اورکمی دورکردیتاہے ، اس سے موت کی برائی اور بدی دفع ہوجاتی ہے اوروہ بھوکے سے اسی جگہ واقع ہوتاہے جواس کی جگہ آسودہ سے ہے۔[24]

یثرب میں آمد:

نماز جمعہ کے بعدآپ صلی اللہ علیہ وسلم اونٹنی پرسوارہوئے اوراس کی مہارڈھیلی چھوڑدی تاکہ آپ اپنے ارادہ اوراختیارسے مہارکو کسی جانب حرکت نہ دیں اورنہ اپنی طرف سے کسی مخصوص مکان میں اترنے کاعندیہ دیں تاکہ انصارکے دلوں میں کوئی رنجش پیدانہ ہو،اوروہ اچھی طرح سمجھ لیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کااپناکوئی ارادہ نہیں بلکہ جہاں اللہ کاحکم ہوگاآپ صلی اللہ علیہ وسلم وہیں اتریں گے، مدینہ منورہ میں خوشی کے شادیانے بجائے جارہے تھے، ہرطرف یہی چرچا تھا کہ اللہ کے نبی آرہے ہیں ، لوگ بلندیوں پرچڑھ کرنظارہ کررہے تھے،بہت سے مرد وعورت گھروں کی چھتوں پرچڑھ گئے ،لڑکے اورخادم راستوں میں پھیل گئے ،اہل مدینہ ایسے خوش تھے کہ اس سے پہلے ایسے خوش کبھی نہ ہوئے تھے ،ان کی بچیاں خوشی سے دف بجاکریہ ترانہ گانے لگیں ۔

طَلَعَ الْبَدْرُ عَلَیْنَا ،مِنْ ثَنِیَّاتِ الْوَدَاعْ

چودہوں رات کے چاندنےثنیات الوادع سے ہم پرطلوع کیاہے

وَجَبَ الشُّكْرُ عَلَیْنَا ،مَا دَعَا لِلَّهِ دَاعْ

ہم پراللہ کاشکرواجب ہے ،جب تک اللہ کوکوئی پکارنے والاباقی ہے

أیها المبعوث فینا ،جئت بالأمر المطاع

وہ جوہم میں پیغمبربناکربھیجے گئے ،ایسے امورلے کرآئے ہیں جن کی اطاعت فرض ہے۔[25]

اورجب اونٹنی بنونجار(جوآپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ننہالی قرابت دارہیں )میں پہنچی تومعصوم بچیاں دف بجابجاکریہ گاتی تھیں ۔

نحن جوار من بنی النجار ، یا حبذا محمد من جار

ہم خاندان نجارکی لڑکیاں ہیں ،محمد صلی اللہ علیہ وسلم کیاہی اچھےپڑوسی ہیں

فقال رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: أتحببنانی؟قلن: نعم یا رَسُولَ اللهِ،فقال: والله وأنا أحبكن، قالها ثلاثاوفی روایة:یعلم الله إنی أحبكن

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان لڑکیوں سے فرمایاکیاتم مجھے چاہتی ہو؟وہ بولیں ہاں اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااللہ کی قسم !میں بھی تم کوچاہتاہوں ،تین باریہ فرمایااوربعض روایات میں ہے اللہ تعالیٰ جانتاہے میں بھی تم کوچاہتاہوں ۔[26]

البَرَاءَ بْنَ عَازِبٍ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ:فَمَا رَأَیْتُ أَهْلَ المَدِینَةِ فَرِحُوا بِشَیْءٍ فَرَحَهُمْ بِرَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ

براء بن عازب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں نے دیکھاکہ لوگوں کو اس قدرکبھی بھی فرحت وخوشی نہ ہوئی جس قدر آپ کی تشریف آوری کے باعث ہوئی۔[27]

تفرّق الغلمان والخدم فى الطرق ینادون جاء محمد جاء رَسُولَ اللهِ

بچے اور لونڈیاں راستوں میں پھیل گئے اور اللہ کے رسول کی تشریف آوری کا اعلان کرنے لگے۔[28]

عَنْ أَنَسٍ، قَالَ:لَمَّا قَدِمَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ الْمَدِینَةَ لَعِبَتِ الْحَبَشَةُ لَقُدُومِهِ فَرَحًا بِذَلِكَ، لَعِبُوا بِحِرَابِهِمْ

انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ میں تشریف لائے توحبشیوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریف آوری کی مسرت میں نیزہ بازی کے کرتب دکھائے۔[29]

عَنْ أَنَسٍ، قَالَ:لَمَّا كَانَ الْیَوْمُ الَّذِی دَخَلَ فِیهِ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ الْمَدِینَةَ أَضَاءَ مِنْهَا كُلُّ شَیْءٍ، فَلَمَّا كَانَ الْیَوْمُ الَّذِی مَاتَ فِیهِ أَظْلَمَ مِنْهَا كُلُّ شَیْءٍ، وَمَا نَفَضْنَا عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ الْأَیْدِیَ حَتَّى أَنْكَرْنَا قُلُوبَنَا

انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ میں رونق افروزہوئے تومدینہ منورہ کاذرہ ذرہ روشن تھااورجس روزآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وفات پائی اس وزہرچیزتاریک تھی ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبرمبارک میں رکھ کرمٹی سے ہاتھ نہیں جھاڑنے پائے تھے کہ اپنے دلوں میں تغیرپاتے تھے۔[30]

فرط مسرت سے ہرچھوٹے بڑے کی زبان پریہ الفاظ تھے

جَاءَ نَبِیُّ اللهِ جَاءَ نَبِیُّ اللهِ

اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے ،اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے ۔

الغرض جس قدر اونٹنی آہستہ آہستہ چل رہی تھی اورانصارکی نگاہیں فرش راہ بنی ہوئی تھیں وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قیام کے سلسلہ میں باہم جھگڑرہے تھے، ہر شخص یہی چاہتاتھاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے ہاں قیام فرمائیں ،اسے خدمت کاموقعہ عنایت فرمائیں ،جب اونٹنی کسی کے گھرکے سامنے سے گزرجاتی تو وہ حسرت سے اونٹنی کے نقش پاکودیکھتارہ جاتا،بنی سالم نے جوش محبت و عقیدت میں اپنی قسمت کوسنوانے کے لئے اونٹنی کی مہار پکڑنا چاہاتوآپ صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا

دَعُوهَا فَإِنَّهَا مَأْمُورَةٌ إِنَّمَا أَنْزِلُ حَیْثُ أَنْزَلَنِی اللهُ تَعَالَى

اس کاراستہ چھوڑدویہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے مامور ہے یہ وہاں تک جائے گی جہاں تک اللہ تعالیٰ کومنظور ہے۔ [31]

بنی الحارث بن الخزرج سے سعدبن ربع نے روکاتوفرمایا

خَلُّوا سَبِیلَهَا فَإِنَّهَا مَأْمُورَةٌ

اس کاراستہ چھوڑ دویہ اللہ کی طرف سے مامور ہے۔[32]

بنی عدی کے خارجہ بن زید نے روکاتوفرمایا

خلوا الناقة فإنها مأمورة

اونٹنی کوچھوڑدویہ اللہ کی طرف سے مامور ہے۔[33]

ابوسلیط اسیدہ بن خارجہ نے قسمت آزمانی چاہی تو فرمایا

خَلُّوا زِمَامَهَا فَإِنَّهَا مَأْمُورَةٌ

اس کی مہارچھوڑدویہ اللہ کی طرف سے مامورہے۔[34]

دَعُوا النَّاقَةَ فَإِنَّهَا مَأْمُورَةٌ

اونٹنی کوچھوڑدویہ اللہ کی طرف سے مامورہے۔[35]

حَتَّى إذَا أَتَتْ دَارَ بَنِی مَالِكِ بْنِ النَّجَّارِ، بَرَكَتْ عَلَى بَابِ مَسْجِدِهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، وَهُوَ یَوْمئِذٍ مِرْبَدٌ لِغُلَامَیْنِ یَتِیمَیْنِ مِنْ بَنِی النَّجَّارِ، ثُمَّ مِنْ بَنِی مَالِكِ بْنِ النَّجَّارِ، وَهُمَا فِی حِجْرِ مُعَاذِ بْنِ عَفْرَاءَ، سَهْلٍ وَسُهَیْلٍ ابْنَیْ عَمْرٍو. فَلَمَّا بَرَكَتْ، وَرَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عَلَیْهَا لَمْ یَنْزِلْ، وَثَبَتَ فَسَارَتْ غَیْرَ بِعِیدٍ، وَرَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَاضِعٌ لَهَا زِمَامَهَا لَا یَثْنِیهَا بِهِ، ثُمَّ الْتَفَتَتْ إلَى خَلْفِهَا، فَرَجَعَتْ إلَى مَبْرَكِهَا أَوَّلَ مَرَّةٍ، فَبَرَكَتْ فِیه

اس طرح چلتے چلتے ہوئے اونٹنی ایک جگہ بیٹھ گئی جہاں اب مسجدنبوی تعمیرہے مگرآپ صلی اللہ علیہ وسلم ابھی اترے نہیں تھے کہ وہ کھڑی ہو گئی اورپھرتھوڑی دورادھرادھرچل کرپہلی جگہ پرآکربیٹھ گئی اوراپنی گردن زمین پرڈال دی ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نیچے اتر آئے ، سب انصارنے سمجھ لیا ابوایوب رضی اللہ عنہ کورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کی یہ سعادت اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے عنایت فرمائی ہے ،یہ عبدالمطلب کی ننھال یعنی بنو نجار کا محلہ تھا۔

عَنْ أَبِی أُسَیْدٍ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ:قَالَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:خَیْرُ دُورِ الأَنْصَارِ، بَنُو النَّجَّارِ

ابواسید رضی اللہ عنہ سے مروی ہےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایانجارکاگھرانہ انصارمیں سب سے بہتر گھرانہ ہے۔[36]

عَنِ الْبَرَاءِ، قَالَ:فَتَنَازَعُوا أَیُّهُمْ یَنْزِلُ عَلَیْهِ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: أَنْزِلُ عَلَى بَنِی النَّجَّارِ، أَخْوَالِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ

اوربراء بن عازب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب لوگوں میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی میزبانی کے متعلق جھگڑاہونے لگاتوآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایامیں بنونجارکے ہاں اتروں گاجوعبدالمطلب کے ماموں ہیں ۔ [37]

جیسے ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم اونٹنی سے اترے ، ابوایوب رضی اللہ عنہ خالدبن زید بن کلیب خزرجی رضی اللہ عنہ جلدی سے آپ کا کجاوہ اتارااور اٹھاکر اپنے گھر لے گئے

فَقَالَ: الْمَرْءُ مَعَ رَحْلِهِ

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا آدمی وہاں اترتا ہے جہاں اس کاپالان ہوتاہے۔[38]

عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ:فَقَالَ نَبِیَّ الله صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: أَیُّ بُیُوتِ أَهْلِنَا أَقْرَبُ؟ فَقَالَ أَبُو أَیُّوبَ: یَا نَبِیَّ اللهِ هَذِهِ دَارِی وَهَذَا بَابِی، فَقَالَ: اذْهَبْ فَهَیِّئْ لَنَا مَقِیلا. قَالَ: فَذَهَبَ فَهَیَّأَ لَهُمَا مَقِیلا ثُمَّ جَاءَ فَقَالَ: یَا نَبِیَّ اللهِ قَدْ هَیَّأْتُ لَكُمَا مَقِیلا. قُومَا عَلَى بَرَكَةِ اللهِ فَقِیلا

انس بن مالک رضی اللہ عنہما سے مروی ہےاللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاہمارے رشتہ داروں میں کس کا گھر قریب ہے ؟ابوایوب رضی اللہ عنہ بولے اے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! میراگھرقریب ہے اوریہ میرے گھرکادروازہ ہے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اندر جاؤاور آرام کے لئے جگہ بناؤ،وہ گئے اورانہوں نے دونوں حضرات کے لئے قیلولے کی جگہ ٹھیک کی پھرآئے اورعرض کی اے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم !میں نے آپ دونوں حضرات کے لئے قیلولے کی جگہ ٹھیک کردی ہے اللہ کی برکت سے اٹھیں اورآرام فرمائیں ۔[39]

الغرض آپ اپنی ننھال میں ابوایوب رضی اللہ عنہ کے ایک مکان کی جانب اتر گئے اور ان کے گھروالوں سے باتیں کرتے رہے،

وَجَاءَ أَسْعَدُ بْنُ زُرَارَةَ فَأَخَذَ بِزِمَامِ رَاحِلَةِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَكَانَتْ عِنْدَهُ

اسعد رضی اللہ عنہ بن زرارہ انصاری کوعلم ہواتووہ اونٹنی کی مہارپکڑکر اپنے گھرلے گئے اوراس کے چارہ دانہ کا بندوبست فرماتے رہے۔[40]

ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ کے مکان کے بارے میں روایت ہے

وكان معه أربعمائة عالم،فتعاقدوا على ألایخرجوا منها فسألهم تبع عن سر ذلك، فقالوا:إنا نجد فی كتبنا أن نبیا اسْمُهُ مُحَمَّد هذه دار مهاجره؛ فنحن نقیم لعل أن نلقاه، فأراد تبع الإقامة معهم، ثم بنى لكل واحد من أولئك دارا واشترى له جاریة وزوجها منه وأعطاه مالا جزیلا، وكتب كتابا فیه إسلامه، ومنه:

جب تبع شاہ یمن کامدینہ منورہ سے گزرہواتواس وقت اس کے ہمراہ چارسوتورات کے عالم تھے ان سب نے بادشاہ سے گزارش کی کہ انہیں اس جگہ رہنے کی اجازت دے دے،شاہ تبع نے وہاں رہنے کاسبب دریافت کیا،علمائے تورات کہنے لگے ہم اپنے صحیفوں ں میں یہ لکھا ہوا پاتے ہیں کہ آخرزمانہ میں ایک نبی پیداہوگاجس کا نام احمدہوگااوراس جگہ وہ ہجرت کرکے آئے گاہم یہاں اس لیے رہناچاہتے ہیں شایدہم ان سے مل سکیں ،بادشاہ نے علماء کی درخواست قبول کرلی اورانہیں مدینہ منورہ میں رہنے کی اجازت دے دی،اوران سب کے لئے رہائشی مکانات تیارکرائےاورانہیں بہت سامال عطاکیاایک اورمکان خاص نبی آخرالزماں کے بھی تیارکرایاتاکہ جب وہ نبی ہجرت کرکے یہاں آئیں تواس مکان میں قیام فرمائیں ، پھرایک خط لکھاجس میں اپنے اسلام اوراشتیاق دیدارکاان الفاظ میں ذکرکیا

شَهِدْتُ عَلَى أَحْمَدَ أَنَّهُ،رَسُولٌ مِنَ اللهِ بَارِی النَّسَمْ

میں گواہی دیتاہوں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول برحق ہیں

فَلَوْ مُدَّ عُمْرِی إِلَى عُمْرِهِ ، لَكُنْتُ وَزِیرًا لَهُ وَابْنَ عَمْ

اگرمیری عمرنے وفاکی اوران کی آمدتک اللہ نے زندگی بخشی تومیں ان کامعین ومددگاربنوں گا

تفسیرابن کثیر میں یہ شعربھی ہے۔

وَجَاهَدْتُ بِالسَّیْفِ أَعْدَاءَهُ ،وَفَرَّجْتُ عَنْ صَدْرِهِ كُلَّ غَمْ

اوران کے دشمنوں کے خلاف تلوارسے جہادکروں گااوران کے تمام غم دورکردوں گا

تفسیر البحر المدید فی تفسیر القرآن المجیدمیں یہ شعربھی ہیں ۔

وأَلْزَمتُ طَاعَتَه كلَّ مَن ،عَلَى الأَرْضِ، مِنْ عُرْبٍ وعَجمْ

اورمیں یہ عزم کرتاہوں کہ عرب وعجم کے سارے لوگوں کوآپ کی اطاعت پرمجبورکروں گا

ولَكِن قَوْلی له دَائماً ، سَلاَمٌ عَلَى أحمد فى الأمم

لیکن میں ان کے لیےہمیشہ یہی کہوں گاکہ امتوں کے سرداراحمد صلی اللہ علیہ وسلم پرسلام ہو

وختمه بِالذَّهَبِ ودفعه إلى كبیرهم، وسأله أن یدفعه إلى النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ إن أدركه، وإلا فمن أدركه من ولده أو ولد ولده، وبنى لِلنَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ دارا لینزلها إذا قدم المدینة، فتداول الدار الملاك إلى أن صارت لأبی أیوب وهو من ولد ذلك العالم،وأَهْلِ الْمَدِینَةِ الذین نصروه كلهم من أولاد أولئك الْعُلَمَاء،ویقال: إن الكتاب الذی فیه الشعر كان عند أبی أیوب حین نزل علیه النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فدفعه له

اوراس خط پراپنی مہرلگاکرایک بڑے عالم کے سپردکردیاکہ اگرتم نبی آخرالزماں کازمانہ پاؤتو میرا یہ خط انہیں پیش کردینااگرتمہارے زمانہ میں وہ نہ آئیں تو یہ خط اپنی اولادکے سپردکرکے وصیت کردینااوروہ اپنی اولادکووصیت کریں ،ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ اسی عالم کی اولاد میں سے ہیں اوریہ وہی مکان تھاجوتبع شاہ یمن نے نبی آخرالزماں کے لئے بنوایاتھا اورباقی انصاربھی انہیں علماء کی اولادمیں سے ہیں جومدینہ منورہ میں قیام پذیر ہو گئے تھے ،یہ بھی کہاجاتا ہے کہ جب خیرالخلائق سیدالاولین وآخرین صلی اللہ علیہ وسلم ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ کے گھرفروکش ہوئے توانہوں نے تبع شاہ یمن کامہرشدہ نامہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوپیش کردیاتھا۔[41]

شیخ زین الدین مراغی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ اگریہ کہنابیجانہ ہوگاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کے مکان پرنہیں بلکہ اپنے ہی مکان پراترے تھے۔

بہرحال ابوایوب رضی اللہ عنہ انصاری نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے گزارش کی کہ وہ مکان کی دوسری منزل پرقیام فرمائیں اوران کے گھروالے نیچے والے حصہ میں رہیں تاکہ بالاخانہ میں ان کے گھروالوں کی نقل وحرکت سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کسی قسم کی بے آرامی نہ ہو، ساتھ ہی ان کے دل میں یہ بھی خیال تھاکہ اگررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکان میں نیچے رہے اوروہ بالاخانہ میں رہے تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں یہ بڑی بے ادبی ہوگئی، مگررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس خیال سے کہ دین سیکھنے کے لئے ان کے پاس لوگوں کی آمدورفت رہے گی اگرانہوں نے بالاخانہ میں قیام فرمایاتوابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ کے گھر والوں کو وقت بے وقت اس آمدورفت سے بڑی پریشانی ہوگئی اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بالاخانے کے بجائے نیچے رہنازیادہ پسندکیاتاکہ ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ کے گھر والے ایک طرف ہی رہیں اورانہیں کوئی پریشانی نہ ہو،تعمیل حکم میں ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ بالاخانہ پرمنتقل ہوگئے اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پہلی منزل میں قیام پذیر ہوئے،

وَكُنَّا نَصْنَعُ لَهُ الْعَشَاءَ، ثُمَّ نَبْعَثُ بِهِ إلَیْهِ، فَإِذَا رَدَّ عَلَیْنَا فَضْلَهُ تَیَمَّمْتُ أَنَا وَأُمُّ أَیُّوبَ مَوْضِعَ یَدِهِ، فَأَكَلْنَا مِنْهُ نَبْتَغِی بِذَلِكَ الْبَرَكَةَ،حَتَّى بَعَثْنَا إلَیْهِ لَیْلَةً بِعَشَائِهِ وَقَدْ جَعَلْنَا لَهُ بَصَلًا أَوْ ثُومًا، فَرَدَّهُ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، وَلَمْ أَرَ لِیَدِهِ فِیهِ أَثَرًا،قَالَ: فَجِئْتُهُ فَزِعًا، فَقُلْتُ: یَا رَسُولَ اللهِ، بِأَبِی أَنْتَ وَأُمِّی، رَدَدْتَ عَشَاءَكَ، وَلَمْ أَرَ فِیهِ مَوْضِعَ یَدِكَ، وَكُنْتَ إذَا رَدَدْتُهُ عَلَیْنَا، تَیَمَّمْتُ أَنَا وَأُمُّ أَیُّوبَ مَوْضِعَ یَدِكَ، نَبْتَغِی بِذَلِكَ الْبَرَكَةَ، قَالَ:إنِّی وَجَدْتُ فِیهِ رِیحَ هَذِهِ الشَّجَرَةِ، وَأَنَا رَجُلٌ أُنَاجِی، فَأَمَّا أَنْتُمْ فَكُلُوهُ. قَالَ: فَأَكَلْنَاهُ، وَلَمْ نَصْنَعْ لَهُ تِلْكَ الشَّجَرَةَ

ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ روزانہ وقت پر کھاناتیارکرا کر خدمت اقدس میں پیش کردیتے،آپ جتناکھانا چاہتے تناول فرماتے اورباقی جوبچ جاتا واپس گھر میں بھیجوادیتے، بعد میں ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ اوران کی اہلیہ رضی اللہ عنہا برتن پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی انگلیوں کے نشانات دیکھتے اورتبرکا ًوہیں سے کھاناتناول کرتے،ایک مرتبہ کھانے کو اچھا بنانے کے لئے اس میں پیازاورلہسن کوشامل کردیامگرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میں سے کچھ تناول نہ فرمایا اور ساراکھاناواپس کردیا،جب دونوں میاں بیوی کھانے کے لئے بیٹھے تو دیکھابرتن پررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی انگلیوں کے نشانات نہیں ہیں جس سے انہیں علم ہوگیاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھانانہیں کھایا، ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ گھبراکرخدمت اقدس میں حاضرہوئے اورعرض کیااے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم !کھانے کے برتن پرآپ کی انگلیوں کے نشانات نہیں ہیں ، میں اورمیری اہلیہ برکت حاصل کرنے کے لئے قصداًبرکت کے لیےانہیں انگلیوں کے نشانات سے ہی کھاتے تھے، بَعْدُ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایامیں نے کھانے میں پیاز اور لہسن کی بومحسوس کی اس لئے واپس کردیاچونکہ میں جبرائیل علیہ السلام سے ہم کلام ہوتاہوں ،اس لئے پیازاورلہسن کھانے سے احتراز کرتا ہوں تم کھاؤ، ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں پھرکبھی ہم نے پیازاورلہسن کوکھانے میں شامل نہیں کیا۔[42]

ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ اوران کے اہل خانہ اوپر دبے پاوں چلتے تاکہ ان کے پیروں کی دھمک سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے آرام میں کچھ خلل نہ پڑے

وَكُنَّا فَوْقَهُ فِی الْمَسْكَنِ فَلَقَدْ انْكَسَرَ حُبٌّ لَنَا فِیهِ مَاءٌ فَقُمْتُ أَنَا وَأُمُّ أَیُّوبَ بِقَطِیفَةٍ لَنَا، مَا لَنَا لِحَافٌ غَیْرَهَا، نُنَشِّفُ بِهَا الْمَاءَ، تَخَوُّفًا أَنْ یَقْطُرَ عَلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مِنْهُ شَیْءٌ فَیُؤْذِیَهُ

ایک مرتبہ بالاخانہ میں کسی طرح پانی کامٹکا ٹوٹ گیاگھرمیں سوائے ایک رضاعی کے اورکوئی کپڑا نہ تھاخطرہ ہواکہ پانی نیچے نہ پہنچ جائے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوتکلیف ہواس لیےہم نے جلدی سے اس رضاعی کواٹھاکرپانی پرڈال دیاتاکہ پانی اس میں جذب ہو جائے ، جب کچھ پانی جذب ہو جاتا اسے ایک طرف نچوڑ لیتے ، اس طرح انہوں نے ساراپانی صاف کردیا۔[43]

قرآن مجیدکی کتابت:

مکہ مکرمہ میں پڑھنے اورلکھ سکنے والے لوگ نہ ہونے کے برابرتھے مگرمدینہ منورہ میں یہودیوں کے بیت المدارس کی وجہ سے انصارمیں سے بہت سے لوگ لکھناپڑھناجانتے تھے،جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ ہجرت فرماکرپہنچے تو زیدبن ثابت رضی اللہ عنہ کوقرآن کریم کی باقاعدہ کتابت پرمقررفرمایا۔[44]

 بیت المدارس کے علماء کامشورہ:

 حَتَّى إِذَا أَتَى الْمَدِینَةَ الْمدَارِس فَفَسَّرَهُ فِی الْمَطَالِعِ بِالْبَیْتِ الَّذِی تُقْرَأُ فِیهِ التَّوْرَاةُ

سعیدبن مسیب رضی اللہ عنہ ، ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت فرماکرمدینہ منورہ تشریف لے آئے تو یہودیوں کے علماء اپنے مدرسے(بیت المدارس)میں جمع ہوئے اورآپس میں مشورہ کیاکہ اس شخص(رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم )کے پاس جاکرسوالات کرنے چائیں ۔[45]

اس طرح بہت سے علماء اور یہودآپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضرہوئے،ان میں کئی لوگوں نے اسلام قبول کرکے خودکوعذاب جہنم سے آزادکرالیااورکئی نے بغض وحسد میں مبتلا ہوکرجہنم کاطوق خوداپنے ہاتھوں سے اپنے گلے میں ڈال لیا ۔

خادم رسول :

عَنْ أَنَسٍ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ:قَدِمَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ المَدِینَةَ لَیْسَ لَهُ خَادِمٌ،قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ لِأَبِی طَلْحَةَ:التَمِسْ غُلاَمًا مِنْ غِلْمَانِكُمْ یَخْدُمُنِی،فَأَخَذَ أَبُو طَلْحَةَ بِیَدِی، فَانْطَلَقَ بِی إِلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: یَا رَسُولَ اللهِ، إِنَّ أَنَسًا غُلاَمٌ كَیِّسٌ فَلْیَخْدُمْكَ،قَالَ:فَخَدَمْتُهُ فِی السَّفَرِ وَالحَضَرِ، مَا قَالَ لِی لِشَیْءٍ صَنَعْتُهُ لِمَ صَنَعْتَ هَذَا هَكَذَا؟ وَلاَ لِشَیْءٍ لَمْ أَصْنَعْهُ لِمَ لَمْ تَصْنَعْ هَذَا هَكَذَا؟

انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہےجب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت فرماکرمدینہ منورہ میں تشریف لائے تواس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کوئی خادم نہیں تھاچنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوطلحہ رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ کوئی لڑکا تم اپنے لڑکوں میں سے تلاش کردو جو میرا کام کردیا کرے، ابوطلحہ رضی اللہ عنہ (انس رضی اللہ عنہ کے سوتیلے باپ)نے انس رضی اللہ عنہ کاہاتھ پکڑکراپنی سواری پر بٹھایا اور انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لے گئے اورعرض کیااے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم !یہ لڑکا بڑا سمجھدار ہے یہ آپکی خدمت کیاکرے گا،انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں میں نے ( مسلسل دس سال تک) سفروحضرمیں رحمة للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کی،لیکن سرورعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب کبھی ان سے کسی کام کا کہا تو کبھی ان سے یہ نہیں پوچھا کہ یہ کام تم نے کیوں نہیں کیااور جس کام کونہیں کیاتو سیدالامم صلی اللہ علیہ وسلم ے کبھی اس کے متعلق یہ نہیں فرمایاکہ یہ کام تم نے کیوں نہیں کیا۔[46]

أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ: أَنَّهُ كَانَ ابْنَ عَشْرِ سِنِینَ، مَقْدَمَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ المَدِینَةَ، فَكَانَ أُمَّهَاتِی یُوَاظِبْنَنِی عَلَى خِدْمَةِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ

ایک روایت میں انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےمدینہ منورہ میں قدم رنجہ فرمایامیں اس وقت دس سال کاتھامیری والدہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کی ترغیب دیتی تھیں ۔[47]

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بڑے ہی خلیق تھے،

قَالَ أَنَسٌ: كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مِنْ أَحْسَنِ النَّاسِ خُلُقًا فَأَرْسَلَنِی یَوْمًا لِحَاجَةٍ،فَقُلْتُ: وَاللهِ لَا أَذْهَبُ، وَفِی نَفْسِی أَنْ أَذْهَبَ لِمَا أَمَرَنِی بِهِ نَبِیُّ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ،فَخَرَجْتُ حَتَّى أَمُرَّ عَلَى صِبْیَانٍ وَهُمْ یَلْعَبُونَ فِی السُّوقِ،فَإِذَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَدْ قَبَضَ بِقَفَایَ مِنْ وَرَائِی،قَالَ: فَنَظَرْتُ إِلَیْهِ وَهُوَ یَضْحَكُ، فَقَالَ:یَا أُنَیْسُ أَذَهَبْتَ حَیْثُ أَمَرْتُكَ؟قَالَ قُلْتُ: نَعَمْ، أَنَا أَذْهَبُ، یَا رَسُولَ اللهِ

اس بارے میں انس رضی اللہ عنہ ایک واقعہ بیان کرتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سب لوگوں سے زیادہ ملنسار تھے،ایک دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے ایک کام کے لئے بھیجا ،میں نے کہااللہ کی قسم! میں نہیں جاؤں گامگردل میں خیال تھاکہ جس کام کے لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم فرمایاہے وہاں جاؤں گا،چنانچہ میں گھرسے نکلااوربازارمیں بچوں کاکھیل دیکھنے لگا اسی اثنا میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پیچھے سے آکرمیری گردن پکڑلی،میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف دیکھاتوآپ صلی اللہ علیہ وسلم مسکرارہے تھے،رسول اللہ نے فرمایااےانیس رضی اللہ عنہ ! تم وہاں گئے جہاں میں نے جانے کاحکم دیاتھامیں نے عرض کیا اے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم ابھی جاتاہوں ۔[48]

عَنْ أَنَسٍ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ: أَنَّ غُلاَمًا لِیَهُودَ، كَانَ یَخْدُمُ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ

انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہےایک یہودی لڑکا(عبدوس نامی)نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کیاکرتاتھا۔[49]

ہجرت کے بعدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلاکام یہ کیاکہ مدینہ منورہ کے حدودقائم کرکے اس کوحرم قراردے دیا

عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُمَا،فَرَضَهَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ لِأَهْلِ نَجْدٍ قَرْنًا، وَلِأَهْلِ المَدِینَةِ ذَا الحُلَیْفَةِ، وَلِأَهْلِ الشَّأْمِ الجُحْفَةَ

چنانچہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نجدوالوں کے لئے قرن،مدینہ والوں کے لئے ذوالحلیفہ اورشام والوں کے لئے جحفہ(میقات) مقررکیا ہے ۔[50]

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ:إِنَّ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَقَّتَ لِأَهْلِ المَدِینَةِ ذَا الحُلَیْفَةِ، وَلِأَهْلِ الشَّأْمِ الجُحْفَةَ، وَلِأَهْلِ نَجْدٍ قَرْنَ المَنَازِلِ، وَلِأَهْلِ الیَمَنِ یَلَمْلَمَ، هُنَّ لَهُنَّ، وَلِمَنْ أَتَى عَلَیْهِنَّ مِنْ غَیْرِهِنَّ مِمَّنْ أَرَادَ الحَجَّ وَالعُمْرَةَ، وَمَنْ كَانَ دُونَ ذَلِكَ، فَمِنْ حَیْثُ أَنْشَأَ حَتَّى أَهْلُ مَكَّةَ مِنْ مَكَّةَ

اورعبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل مدینہ کے لئے ذوالحلیفہ، اہل شام کے لئے جحفہ، اہل نجد کے لئے قرآن منازل اور اہل یمن کے لئے یلملم کو مقرر کیا، یہاں کے لئے میقات ہے اور ان کے لئے جو دوسرے مقامات سے حج اور عمرہ کے ارادہ سے آئیں اور جو ان میقاتوں کے اندر رہنے والا ہے وہ وہیں سے احرام باندھے، جہاں سے چلا ہے یہاں تک کہ اہل مکہ، مکہ ہی سے احرام باندھ لیں ۔[51]

جس کوموجودہ دورکی اصطلاح میں مقدس اورممنوعہ علاقہ (Open City) کہتے ہیں جس کامطلب یہ ہوتاہے کہ اس شہرکے اندر اوراس کے اطراف میں اہل شہرمخالفین سے جنگ نہیں کرنا چاہتے ، اگر اہل مکہ نے حرم مدینہ کے تقدس کی خلاف ورزی کی تواہل مدینہ پربھی مکہ کی تقدس کی ذمہ داری نہ رہے گی۔

یہودی عالم ابن صوریاکی گواہی :

عَن أبی هُرَیْرَة أَن النَّبِی صلى الله عَلَیْهِ وَسلم قَالَ لِابْنِ صوریا أنْشدك بِالله هَل تعلم ان لله حكم فِی التَّوْرَاة فِیمَن زنا بعد إحْصَانه بِالرَّجمِ فَقَالَ اللهُمَّ نعم أما وَالله یَا أَبَا الْقَاسِم انهم لیعرفون انك نَبِی مُرْسل وَلَكنهُمْ یحسدونك

ابوہرہرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک یہودی عالم ابن صوریاسے کہاکہ میں تجھے اللہ تعالیٰ کی قسم دیتاہوں کہ توسچ سچ بیان کرکہ تورات میں شادی شدہ شخص زناکرے تواس کی سزاکاحکم رجم ہے،ابن صوریانے جواب دیابیشک تورات میں شادی شدہ کے زناکرنے پر رجم ہی کاحکم ہے ، اوراے ابوالقاسم !واللہ اہل کتاب آپ کوخوب اچھی طرح جانتے اورپہچانتے ہیں کہ آپ اللہ تعالیٰ کے پیغمبرہیں لیکن وہ آپ پرحسدکرتے ہیں [52]

[1] مستدرک حاکم۴۸۳۲،ابن سعد۴۶۵؍۳

[2] مستدرک حاکم۱۳۰۵

[3] سیراعلام النبلائ۱۶۵؍۳

[4] اسد الغابة ۳۶۴؍۱

[5] ابن سعد۴۶۶؍۳،المنتظم فی تاریخ الأمم والملوك۸۳؍۳

[6] ابن سعد۴۶۵؍۳

[7] ابن سعد۴۶۵؍۳،الاستیعاب فی معرفة الأصحاب۱۵۲؍۱

[8]التحریم ۴

[9] ابن ہشام۴۹۲؍۱،الروض الانف۱۵۲؍۴،السیرة النبویة لابن کثیر۲۶۸؍۲

[10] الروض الانف ۲۳۲؍۴، تاریخ طبری ۳۸۳؍۲،البدایة والنہایة۲۴۲؍۳،ابن ہشام۴۴۶؍۱

[11] صحیح بخاری کتاب الصلوٰة بَابٌ هَلْ تُنْبَشُ قُبُورُ مُشْرِكِی الجَاهِلِیَّةِ، وَیُتَّخَذُ مَكَانُهَا مَسَاجِدَ۴۲۸ ،ابن سعد۱۸۱؍۱

[12]صحیح بخاری کتاب الصلواة بَابُ إِمَامَةِ العَبْدِ وَالمَوْلَى ۶۹۲

[13] وفاء الوفاء بأخبار دار المصطفى۱۹۰؍۱

[14] وفاء الوفاء بأخبار دار المصطفى۱۹۷؍۱،الروض الانف ۲۵۴؍۴، إمتاع الأسماع ۷۱؍۱۰

[15] وفاء الوفاء بأخبار دار المصطفى۱۹۷؍۱

[16] التوبة۱۰۸

[17] وفاء الوفاء بأخبار دار المصطفى۱۹۵؍۱

[18] صحیح بخاری کتاب الصلوٰة بَابٌ هَلْ تُنْبَشُ قُبُورُ مُشْرِكِی الجَاهِلِیَّةِ، وَیُتَّخَذُ مَكَانُهَا مَسَاجِدَ۴۲۸،صحیح مسلم کتاب المساجدباب ابتنامسجدالنبی صلی اللہ علیہ وسلم ۱۱۷۳،البدایة والنہایة۲۶۱؍۳،ابن سعد۱۸۱؍۱،وفاء الوفاء بأخبار دار المصطفى ۱۹۸؍۱

[19]اخبارمدینة ۸۵؍۱

[20] وفاء الوفاء بأخبار دار المصطفى۱۹۵؍۱

[21] ابن ہشام۴۹۶؍۱

[22] البدایة والنہایة۲۵۹؍۳، تاریخ طبری ۳۹۴،۳۹۵؍۲ ،تفسیر القرطبی ۹۹،۹۸؍۱۸ ، المواہب الدینة ۲۷۴،۲۷۵؍۳،السیرة النبویة لابن کثیر۳۰۰؍۲

[23] البدایة والنہایة۲۶۰؍۳،الروض الانف ۲۳۹؍۴،ابن ہشام۵۰۰؍۱

[24] مسند أبی یعلی الموصلی ۸۵

[25] دلائل النبوة للبیہقی۵۰۷؍۲،شرف المصطفیٰ۳۷۲؍۲،السیرة النبویة لابن کثیر۲۶۹؍۲،الخصائص الکبریٰ۳۱۳؍۱،المواھب الدینة۱۸۵؍۱،السیرة الحلبیة۷۴؍۲، سبل الهدى والرشاد، فی سیرة خیر العباد۲۷۱؍۳

[26] وفاء الوفاء بااخباردارالمصطفی۲۰۴؍۱

[27] صحیح بخاری كِتَابُ المَنَاقِبِ بَابُ مَقْدَمِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَأَصْحَابِهِ المَدِینَةَ ۳۹۲۵

[28] تاریخ الخمیس ۳۴۲؍۱

[29] سنن ابوداودكِتَاب الْأَدَبِ بَابٌ فِی النَّهْیِ عَنِ الْغِنَاءِ۴۹۲۳

[30] سنن ابن ماجہ كِتَابُ الْجَنَائِزِبَابُ ذِكْرِ وَفَاتِهِ وَدَفْنِهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ۱۶۳۱،جامع ترمذی أَبْوَابُ الْمَنَاقِبِ بَابٌ فِی فَضْلِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ۳۶۱۸

[31] دلائل النبوة للبیہقی۵۰۱؍۲

[32] ابن سعد۱۷۹؍۱،ابن ہشام ۴۹۴؍۱،الروض الانف ۱۵۷؍۴،عیون الآثر۲۲۳؍۱،البدایة والنہایة۲۴۲؍۳

[33] شرف مصطفیٰ۴۵۰؍۲

[34] تاریخ طبری۳۹۶؍۲

[35] البدایة والنہایة۲۴۴؍۳

[36] صحیح بخاری کتاب مناقب الانصار بَابُ فَضْلِ دُورِ الأَنْصَارِ۳۷۸۹

[37] صحیح مسلم کتاب الذھد بَابٌ فِی حَدِیثِ الْهِجْرَةِ وَیُقَالُ لَهُ حَدِیثُ الرَّحْلِ بِالْحَاءِ عن براء بن عازب۷۵

[38] عیون الآثر۲۲۵؍۱،تاریخ طبری۳۹۶؍۲،ابن سعد ۱۸۳؍۱

[39] ابن سعدا۸۲؍۱

[40] ابن سعد۱۸۳؍۱

[41] وفاء الوفاء بأخبار دار المصطفى۱۵۰؍۱

[42] ابن ہشام۴۹۶؍۱،الروض الانف۱۶۶؍۴،البدایة والنہایة ۲۴۶؍۳،السیرة النبوة لابن کثیر۲۷۷؍۲

[43] ابن ہشام۴۹۶؍۱،مستدرک حاکم۵۹۳۹،الروض الانف ۱۶۵؍۴، السیرة النبوة لابن کثیر۲۷۷؍۲

[44] صحیح بخاری کتاب فضائل القران بَابُ كَاتِبِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عن زیدبن ثابت ۴۹۸۹

[45] فتح الباری ۳۱۸؍۱۲

[46] صحیح بخاری کتاب الوصایابَابُ اسْتِخْدَامِ الیَتِیمِ فِی السَّفَرِ وَالحَضَرِ، إِذَا كَانَ صَلاَحًا لَهُ، وَنَظَرِ الأُمِّ وَزَوْجِهَا لِلْیَتِیمِ ۲۷۶۸،وکتاب الادب بَابُ حُسْنِ الخُلُقِ وَالسَّخَاءِ، وَمَا یُكْرَهُ مِنَ البُخْلِ۶۰۳۸،وکتاب الاطعمتہ بَابُ الحَیْسِ۵۴۲۵،وکتاب الدیات بَابُ مَنِ اسْتَعَانَ عَبْدًا أَوْ صَبِیًّا۶۹۱۱،صحیح مسلم کتاب الحج بَابُ فَضْلِ الْمَدِینَةِ، وَدُعَاءِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فِیهَا بِالْبَرَكَةِ، وَبَیَانِ تَحْرِیمِهَا، وَتَحْرِیمِ صَیْدِهَا وَشَجَرِهَا، وَبَیَانِ حُدُودِ حَرَمِهَا۳۳۲۱

[47] صحیح بخاری كِتَابُ النِّكَاحِ بَابٌ الوَلِیمَةُ حَقٌّ۵۱۶۶

[48] صحیح مسلم کتاب الفضائل بَابُ كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَحْسَنَ النَّاسِ خُلُقًا ۶۰۱۵، سنن ابوداودکتاب الادب بَابٌ فِی الْحِلْمِ وَأَخْلَاقِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ۴۷۷۳،البدایة والنہایة۴۲؍۶

[49] صحیح بخاری کتاب المرضی ٰبَابُ عِیَادَةِ المُشْرِكِ ۵۶۵۷

[50] صحیح بخاری کتاب الحج بَابُ فَرْضِ مَوَاقِیتِ الحَجِّ وَالعُمْرَةِ ۱۵۲۲

[51] صحیح بخاری کتاب الحج بَابُ مُهَلِّ أَهْلِ مَكَّةَ لِلْحَجِّ وَالعُمْرَةِ۱۵۲۴

[52] خصائص الکبریٰ ۳۱۷؍۱،السنن الکبریٰ للبیہقی۴۳۰؍۸

Related Articles