بعثت نبوی کا پہلا سال

بعثت سے قبل جنوں پر پابندی

قارین کرام !آپ نے جہالت کے دورمیں عربوں کی مذہبی،سیاسی،معاشرتی ،معاشی اوران کی اوھام پرستی کے بارے میں پڑھااب آپ دنیاکے نقشہ میں عرب کودیکھیں ، آپ دیکھیں گے کہ جزیرہ نماعرب ایشیااورافریقہ کے عین وسط میں واقع ہے اوریورپ بھی اس کے بالکل قریب ہے ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت اس زمانے کے معیارتمدن کے لحاظ سے یورپ کی متمدن قومیں یورپ کے جنوبی حصہ میں آبادتھیں ،مگران کے درمیان ملک عرب ڈھائی ہزاربرس سے سب سے الگ تھلگ سخت جہالت،پستی اوربدحالی میں مبتلاپڑاہواتھاجس کے اردگردایران،روم اورمصرکے طاقتورملکوں میں تہذیب وشائستگی ،علوم وفنون کی کچھ روشنی تھی مگرریت کے اونچے اونچے ٹیلوں نے عرب کوان سے جدا کررکھاتھا،اس تاریک خطے کی طرف رب العالمین کی نظرعنایت ہوئی اوراس نے جہالت کی تاریکیوں کودورکرنے کے لیے بہترین مرکزی علاقہ ،بہترین قبیلہ اوربہترین خاندان میں سے بہترین رہنماکھڑاکرنے کافیصلہ فرمایاتاکہ رسول انسانوں کواپنی شخصیت سمیت تمام مخلوقات کی بندگی سے آزادکرے ،خودانہیں اس آزادی کی تربیت دے اوراس کے ساتھ ساتھ وہی بشررسول ان سے اللہ کی مکمل اوربے چوں وچرااطاعت کرائے،چنانچہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کازمانہ قریب آگیاتوجن وشیاطین جوچھپ چھپا کر آسمانوں کی کچھ خبریں سنتے تھے اوراپنے دوست کاہنوں کوآکربتلایاکرتے تھے،جومزیداپنی طرف سے سوجھوٹوں کااضافہ کرکے بات آگے بڑھا دیتے تھے،مگرپہلے جن و شیاطین پرگاہے بگاہے چنگارے پھینکنے کے واقعات ہوتے تھے مگراب آسمان پرپہرہ بڑھاکراسے چنگاریوں سے بھردیاگیاتاکہ جن وشیاطین آسمانوں سے دوررہیں اوران کی چوری چھپے بات سننے کاکوئی امکان نہ رہے۔

وَّاَنَّا لَمَسْـنَا السَّمَاۗءَ فَوَجَدْنٰهَا مُلِئَتْ حَرَسًا شَدِیْدًا وَّشُهُبًا۝وَّاَنَّا كُنَّا نَقْعُدُمِنْهَا مَقَاعِدَ لِلسَّمْعِ۝۰ۭ فَمَنْ یَّسْتَمِـــعِ الْاٰنَ یَجِدْ لَهٗ شِهَابًا رَّصَدًا۝۹ ۙ[1]

ترجمہ:اوریہ کہ ہم نے آسمان کوٹٹولاتودیکھاکہ وہ پہریداروں سے پٹاپڑاہے اورشہابوں کی بارش ہورہی ہے ،اوریہ کہ پہلے ہم سن گن لینے کے لئے آسمان میں بیٹھنے کی جگہ پالیتے تھے مگراب جوچوری چھپے سننے کی کوشش کرتاہے وہ اپنے لئے گھات میں ایک شہاب ثاقب لگاہواپاتاہے۔

عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: إِنَّ أَوَّلَ خَبَرٍ قَدِمَ عَلَیْنَا عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَنَّ امْرَأَةً كَانَ لَهَا تَابِعٌ، قَالَ: فَأَتَاهَا فِی صُورَةِ طَیْرٍ، فَوَقَعَ عَلَى جِذْعٍ لَهُمْ، قَالَ: فَقَالَتْ: أَلَا تَنْزِلُ فَنُخْبِرَكَ وَتُخْبِرَنَا؟ قَالَ : إِنَّهُ قَدْ خَرَجَ رَجُلٌ بِمَكَّةَ حَرَّمَ عَلَیْنَا الزِّنَا، وَمَنَعَ مِنَ الْفِرَارِ

جابر سے مروی ہےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے ہمیں سب سے پہلی جو خبر ملی تھی وہ یہ تھی کہ ایک عورت کا کوئی جن تابع تھا وہ ایک مرتبہ اس کے پاس پرندے کی شکل میں آیااور ایک درخت کی شاخ پر بیٹھ گیا ،اس عورت نے اسے کہا کہ تم نیچے کیوں نہیں آتے کہ تم ہمیں اپنی خبر دو ہم تمہیں اپنی خبر دیں ،اس نے جواب دیا کہ مکہ مکرمہ میں ایک آدمی ظاہر ہوا جس نے ہم پر بدکاری کو حرام قرار دیا ہے اور ہمیں اس طرح ٹھہرنے سے منع کر دیا ہے۔[2]

یہ سب اہتمام وحی کی وجہ سے کیاگیاتاکہ وہ بحفاظت اپنے مقام تک پہنچے اوردرمیان میں کسی بھی طرح کی ملاوٹ اورشبہ کاامکان نہ رہے ،اب اگرکوئی جن یاشیطان چھپ چھپاکرکوئی خبر حاصل کرنے کی کوشش کرتاتواس پرشدت سے آگ کے شعلے پھینکے جاتے جس سے وہ جل کربھسم ہوجاتے ،اس سے شیاطین نے یہ اندازہ لگالیاکہ زمین پر ضرورکوئی نیاحادثہ رونماہواہے جس کی وجہ سے اتنی سختی کردی گئی ہے ،یہ سختی زمانہ نبوت تک جاری وساری رہی۔

غارحرامیں عبادت

اللہ تبارک و تعالیٰ نے یہ عظیم الشان کائنات تخلیق فرمائی،اورانسان کوزمین پرخلیفہ بنایااوران کی رشدو ہدایت کے لئے ان کی قوم کے اعلیٰ ترین خاندان میں صالح ترین بشرکو مبعوث فرماکرجن کے اخلاق وکرداراوراعمال کی قوم گواہ ہوتی تھی نبوت کاسلسلہ جاری کیا،ایساکبھی نہیں ہواکہ کوئی رسول پہلے قوم کے گمراہی پرمبنی کفرانہ عقائدوشرکیہ اعمال اور ظلم وجبر میں ان کے شانہ بشانہ کھڑاہواورپھردنیاوی مفادکے لئے اس نے اعلان کردیاہوکہ وہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی طرف سے رسول مبعوث کیاگیاہے ، بلکہ ہررسول بچپن سے ہی فطری طورپر قوم کے کفرانہ عقائدوشرکیہ اعمال اوررسومات سے ہمیشہ دورہی رہا ،اورنبوت کی عمرتک اللہ تبارک وتعالیٰ کی ہرسوپھیلی ہوئی نشانیوں پر غوروتدبرکرتے ہوئے توحیدربی کی منزلوں تک پہنچ چکے ہوتے تھے۔جیسے قرآن مجیدمیں نوح علیہ السلام کے بارے میں بتلایاگیا۔

قَالَ یٰقَوْمِ اَرَءَیْتُمْ اِنْ كُنْتُ عَلٰی بَیِّنَةٍ مِّنْ رَّبِّیْ وَاٰتٰىنِیْ رَحْمَةً مِّنْ عِنْدِهٖ۔۔۔۝۲۸ [3]

ترجمہ:اس نے کہا اے برادران قوم!ذرا سوچو تو سہی کہ اگر میں اپنے رب کی طرف سے ایک کھلی شہادت پر قائم تھا اور پھر اس نے مجھ کو اپنی خاص رحمت سے بھی نواز دیا۔

صالح علیہ السلام نے اپنی قوم سے فرمایا ۔

قَالَ یٰقَوْمِ اَرَءَیْتُمْ اِنْ كُنْتُ عَلٰی بَیِّنَةٍ مِّنْ رَّبِّیْ وَاٰتٰىنِیْ مِنْهُ رَحْمَةً۔۔۔ ۝۶۳ [4]

ترجمہ:صالح علیہ السلام نے کہااے برادران قوم !تم نے کچھ اس بات پربھی غورکیاکہ اگرمیں اپنے رب کی طرف سے ایک صاف شہادت رکھتاتھااورپھراس نے اپنی رحمت سے بھی مجھ کو نوازدیا۔

شعیب رضی اللہ عنہ اپنی قوم سے یوں مخاطب ہوتے ہیں ۔

قَالَ یٰقَوْمِ اَرَءَیْتُمْ اِنْ كُنْتُ عَلٰی بَیِّنَةٍ مِّنْ رَّبِّیْ وَرَزَقَنِیْ مِنْهُ رِزْقًا حَسَـنًا۔۔۔۝۰۝۸۸ [5]

ترجمہ: شعیب رضی اللہ عنہ نے کہابھائیو! تم خودہی سوچوکہ اگرمیں اپنے رب کی طرف سے ایک کھلی شہادت پرتھااورپھراس نے مجھے اپنے ہاں سے اچھارزق بھی عطاکیا۔

اسی طرح اللہ تبارک وتعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کوجو فطری صلاحیتیں عطافرمائیں تھیں ،ان کی مددسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی اللہ کی ہرسوپھیلی ہوئی نشانیوں پر غوروتدبرکرتے ہوئے توحید و معاد کی حقیقتوں تک پہنچ چکے تھے ۔جیسے قرآن مجیدمیں فرمایاگیا۔

اَفَمَنْ كَانَ عَلٰی بَیِّنَةٍ مِّنْ رَّبِّهٖ وَیَتْلُوْهُ شَاهِدٌ مِّنْهُ۝۱۷ [6]

ترجمہ:پھرکیاوہ شخص جوپہلے اپنے رب کی طرف سے ایک روشن دلیل پرتھااس کے بعداللہ کی طرف سے ایک گواہ بھی اس کے پاس آگیا۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے قبل کچھ لوگوں نے حق کی تلاش میں زندگیاں گزاردیں تھیں مگر ان کی کاوشیں ناکام رہیں تھیں ، اورہرسواندھیروں کے علاوہ روشنی کی کوئی کرن نظرنہیں آرہی تھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے بھی توحید ومعاد کی حقیقتوں تک پہنچنے کے باوجود اللہ تبارک وتعالیٰ کی بندگی میں زندگی گزارنے کے لئے کوئی واضح راہ موجودنہ تھی ۔

وَوَجَدَكَ ضَاۗلًّا فَهَدٰى۝۷۠ [7]

ترجمہ: اوراللہ نے تم کوراہ سے ناواقف پایاپھرتمہیں راستہ بتایا۔

اب جبکہ سول اللہ ر صلی اللہ علیہ وسلم کی عمرمبارک ۳۳برس کی ہوچکی تھی،عرب میں ہرسوپھیلی کفرو شرک کی تاریکی ،اخلاقی گندگیاں ،بے حیائی وبدکرداری،معاملات میں بددیانتی ،لڑکیوں کا زندہ دفن کرنا،عورتوں ،یتیموں ،کمزوروں ،لونڈی غلاموں پرظلم وستم اورحق تلفی ،سودی لین دین،قبائل کاایک دوسرے کے خلاف قتل وغارت ،چادراورچاردیواری کامحفوظ نہ ہونا،معمولی باتوں پرسالوں پرمحیط انتقامی جنگیں وغیرہ سے جہاں ایک بات بھی آپ کی طبیعت سے میل نہیں کھاتی تھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کادم گھٹنے لگا، چنانچہ نزول وحی سے سات سال قبل آپ کوایک روشنی سی نظرآنے لگی جسے دیکھ کر آپ خوش ہوتے تھے۔

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: أَقَامَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بِمَكَّةَ خَمْسَ عَشْرَةَ سَنَةً، یَسْمَعُ الصَّوْتَ وَیَرَى الضَّوْءَ سَبْعَ سِنِینَ، وَلَا یَرَى شَیْئًا وَثَمَانَ سِنِینَ یُوحَى إِلَیْهِ، وَأَقَامَ بِالْمَدِینَةِ عَشْرًا

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ مکہ مکرمہ میں پندرہ سال قیام پذیر رہے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم آواز سنتے اور روشنی دیکھتے سات سال تک رہا لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کوئی صورت نہ دیکھتے اور پھر آٹھ سال تک وحی آنے لگی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دس سال مدینہ منورہ میں قیام فرمایا۔[8]

وحی سے تین سال قبل اللہ تعالیٰ نے آپ کونبوت کے بارعظیم کی تیاری کے لئے انسانوں سے خلوت وعزلت کی محبت آپ کے دل میں ڈال دی تاکہ آپ خلوت میں ذکروفکراورتدبر کریں ، اس لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہرسال میں ایک ماہ ام المومنین خدیجہ رضی اللہ عنہا کومطلع فرما کر تاکہ انہیں کسی قسم کی فکروتشویش نہ ہو اور باوقت ضرورت انہیں بلایابھی جاسکے ،سب لوگوں اور گھر بار سے تین میل دورجبل نور کی ایک چھوٹی سی غارجس کا طول تیرہ فٹ اورعرض تقریبا ًساڑھے پانچ فٹ تھاجسے غار حرا کہتے ہیں میں کھانے پینے کا سامان (ستواورپانی) لے کرچلے جاتے اور اس میں قیام فرماکر قدرت کی نشانیوں ،قوم کی زبوں حالی پر غور وتدبر کرنے لگے،

كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یُجَاوِرُ فِی حِرَاءٍ مِنْ كُلِّ سَنَةٍ شَهْرًا

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہرسال میں ایک مہینہ غارحراکے اندرخلوت کے واسطے تشریف لے جاتے تھے۔[9]

اہل عرب ایک طرح کا روزہ رکھتے اور اعتکاف کرتے تھے اس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے دل ودماغ کوپاک و صاف رکھنے کے لئے روزے رکھتے ،چارسوبکھری اللہ کی نشانیوں پرتدبر و تفکر میں مصروف رہتے ،اللہ عزوجل نے آپ کوجوعقلی وفطری بصیرت عطافرمائی تھی اس کے مطابق تحمیدو تقدیس الہٰی کاذکر کرتے،

فَإِذَا قَضَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ جِوَارَهُ مِنْ شَهْرِهِ ذَلِكَ، كَانَ أَوَّلُ مَا یَبْدَأُ بِهِ، إذَا انْصَرَفَ مِنْ جِوَارِهِ، الْكَعْبَةَ، قَبْلَ أَنْ یَدْخُلَ بَیْتَهُ، فَیَطُوفُ بِهَا سَبْعًا أَوْ مَا شَاءَ اللَّهُ مِنْ ذَلِكَ، ثُمَّ یَرْجِعُ إلَى بَیْتِهِ

جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مہینہ پوراکرکے شہرمیں آتے توسب سے پہلے بیت اللہ کا طواف فرماتے جوکم وبیش سات چکرہوتے تھے ،یاجس قدراللہ کومنظورہوتےپھراپنے گھرتشریف لے جاتے۔[10]

اور اہل وعیال کے حقوق اداکرتے اوردوبارہ غارحرامیں جانے کے لئے مزید توشہ بھی لے جاتے ،کبھی کبھار ام المومنین خدیجہ رضی اللہ عنہا بھی سامان اس غارمیں پہنچا دیتیں اس طرح دوسال اور چھ ماہ گزر گئے ، زمانہ نبوت جتناقریب آتاجا رہا تھااتناہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم میں دنیاوی علائق سے کنارہ کشی اورتفردمیں دل جمعی کاغلبہ بڑھتاچلاگیا ، اب وہاں آپ پر مخفی اسرار منکشف ہونے لگے ،آثار نبوت واضح ہونے لگے ،

عَنْ عَائِشَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهَا أَنَّهَا حَدَّثَتْهُ: أَنَّ أَوَّلَ مَا بُدِئَ بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مِنْ النُّبُوَّةِ، حِینَ أَرَادَ اللَّهُ كَرَامَتَهُ وَرَحْمَةَ الْعِبَادِ بِهِ، الرُّؤْیَا الصَّادِقَةُ لَا یَرَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ رُؤْیَا فِی نُوُمِهِ إلَّا جَاءَتْ كَفَلَقِ الصُّبْحِ، قَالَتْ: وَحَبَّبَ اللَّهُ تَعَالَى إلَیْهِ الْخَلْوَةَ، فَلَمْ یَكُنْ شَیْءٌ أَحَبَّ إلَیْهِ مِنْ أَنْ یَخْلُوَ وَحْدَهُ

ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں سب سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوسچے خواب دکھائی دینے شروع ہوئے تھے،اورجوخواب آپ دیکھتے وہ صبح کی سپیدی کی طرح ظاہر ہوتا تھا ، اللہ تعالیٰ نے خلوت رہنا آپ کوپسندیدہ خاطرفرمادیاچنانچہ خلوت میں رہناآپ کوبہترمعلوم ہوتاتھا۔[11]

عَنْ عَائِشَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهَا، أَنَّهَا قَالَتْ: أَوَّلُ مَا بُدِئَ بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مِنَ الوَحْیِ الرُّؤْیَا الصَّادِقَةُ فِی النَّوْمِ، فَكَانَ لاَ یَرَى رُؤْیَا إِلَّا جَاءَتْ مِثْلَ فَلَقِ الصُّبْحِ،

ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہےرسول اللہ پر وحی کی ابتدا سونے کی حالت میں سچے خوابوں کے ذریعہ سے ہوئی، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جوخواب بھی دیکھتے تووہ صبح کی روشنی کی طرح سامنے آجاتا۔[12]

أَنَّ مُدَّةَ الرُّؤْیَا كَانَتْ سِتَّةَ أَشْهُرٍ

یہ حالت تقریباًچھ ماہ رہی۔ [13]

اہل عرب یہودونصاریٰ کی زبانی ایک رسول کے آنے کاسنتے رہتے تھے مگر کوئی شخص آپ کے ان سچے خوابوں سے یہ نتیجہ نہیں نکال سکتاتھاکہ آپ عنقریب رسول مبعوث ہونے والے ہیں ،

عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: إِنِّی لَأَعْرِفُ حَجَرًا بِمَكَّةَ كَانَ یُسَلِّمُ عَلَیَّ قَبْلَ أَنْ أُبْعَثَ إِنِّی لَأَعْرِفُهُ الْآنَ

جابربن سمرة سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایامیں مکہ مکرمہ کے اس پتھر کو پہچانتاہوں جو مجھ کوبعثت سے پہلے سلام کیاکرتاتھا،میں اب بھی اسے پہچانتا ہوں ۔[14]

عَنْ عَلِیٍّ قَالَ: خَرَجْتُ مَعَ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَجَعَلَ لَا یَمُرُّ عَلَى حَجَرٍ وَلَا شَجَرٍ إِلَّا سَلَّمَ عَلَیْهِ

سیدناعلی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ(کسی جانب) نکلا،توکوئی بھی پتھریادرخت ایسانہ تھاجس پرسے آپ گزرے اوراس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کوسلام نہ کیاہو۔[15]

أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ، یُحَدِّثُنَا عَنْ لَیْلَةِ أُسْرِیَ بِالنَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مِنْ مَسْجِدِ الكَعْبَةِ: جَاءَهُ ثَلاَثَةُ نَفَرٍ، قَبْلَ أَنْ یُوحَى إِلَیْهِ، وَهُوَ نَائِمٌ فِی مَسْجِدِ الحَرَامِ، فَقَالَ أَوَّلُهُمْ: أَیُّهُمْ هُوَ؟ فَقَالَ أَوْسَطُهُمْ: هُوَ خَیْرُهُمْ، وَقَالَ آخِرُهُمْ: خُذُوا خَیْرَهُمْ. فَكَانَتْ تِلْكَ، فَلَمْ یَرَهُمْ

انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہےبعثت سے قبل ایک بارنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بیت اللہ کے احاطہ میں دوسرے لوگوں کے ساتھ استراحت فرمارہے تھے کہ خواب میں تین فرشتے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے،ایک فرشتے نے پوچھاان میں سے کون ہے ؟ ان فرشتوں کے بیچ میں جوفرشتہ تھااس نے جواب دیاان میں جوسب سے بہتر ہے، پچھلے فرشتے نے کہا توان میں سے بہترکولے لو پس اتنی ہی باتیں ہوئی تھیں کہ وہ غائب ہو گئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو نہیں دیکھا۔

غارحرامیں نزول سورۂ العلق :

جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر چالیس برس چھ ماہ آٹھ دن کی ہوئی جو انسان کے قوائے جسمانیہ وروحانیہ کے حد کمال کوپہنچنے کی عمر ہے ، اس حدکمال کے بعدزوال وانحطاط ہے اورہرپیغمبرچالیس کی عمرمیں ہی مبعوث کیاگیاتھا ، ایک دن حسب معمول رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غارحرا میں عبادت میں مشغول تھے کہ اللہ تعالیٰ نے روئے زمین کے انسانوں پراپنی رحمت وکرم کوتکمیل تک پہنچانے کے لئے جبرئیل امین کو غار حرامیں آپ کی خدمت میں حاضرہونے کاحکم فرمایا تاکہ وہ آپ کوخلعت نبوت زیب تن کرائیں ، چنانچہ مختلف اقوال کے مطابق ۷،۱۲،۱۷،۱۸،۱۹،۲۴،۲۷ رمضان المبارک بروزپیرشمسی لحاظ سے چھ اگست ۶۱۰ء کوجب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی زینب دس سال کی تھیں اور رقیہ رضی اللہ عنہا اور ام کلثوم رضی اللہ عنہا بھی سمجھدار ہو چکیں تھیں اور ان کانکاح ابولہب کے بیٹوں سے طے کر دیا گیاتھا جبرئیل علیہ السلام تشریف لائے اوریہ پوچھے بغیرکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا رب کون ہے وحی کاآغاز ان الفاظ کے ساتھ شروع کیاپڑھیں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا مجھے پڑھنانہیں آتا ، اوریہ حقیقت پرمبنی جواب تھاکیونکہ عرب میں پڑھنے لکھنے کاکوئی رواج ہی نہ تھااس لئے کوئی مدرسہ یامکتب ہی نہ تھا ،اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پڑھنایا لکھنا نہیں جانتے تھے، دوسرے اچانک اس غارمیں جس میں کوئی آ کر آپ کی خلوت میں مداخلت نہیں کرتا تھا اس شخص کوناگہانی طور پر غار میں دیکھ کرآپ انسانی فطری طورپر گھبراگئے ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پھر فرشتے نے مجھے(اپنی ذات اور آواز کو آشنا کردینے اوربے تکلف کردینے کے لئے) اپنے سینہ سے لگا کر خوب بھینچا جس سے مجھے سخت تکلیف ہوئی پھر مجھے چھوڑ دیااورپھرکہا پڑھیں ،میں نے پھر جواب دیا کہ مجھے پڑھنا نہیں آتااس پراس نے پھر مجھے پہلے کی طرح سینہ سے لگا کرخوب بھینچا یہاں تک کہ میرا بدن دکھنے لگا، پھر مجھے چھوڑدیا اور کہاکہ پڑھیں ،میں نے کہامجھے تو پڑھنا نہیں آتاتب اس نے مجھے تیسری بار بھینچا جس سے میراجسم دکھنے لگاپھر مجھے چھوڑدیا اور کہا پڑھیں ۔

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِیمِ

شروع اللہ کے نام سے جو بےحد مہربان نہایت رحم والا ہے

اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِی خَلَقَ ‎﴿١﴾‏ خَلَقَ الْإِنسَانَ مِنْ عَلَقٍ ‎﴿٢﴾‏ اقْرَأْ وَرَبُّكَ الْأَكْرَمُ ‎﴿٣﴾‏ الَّذِی عَلَّمَ بِالْقَلَمِ ‎﴿٤﴾‏ عَلَّمَ الْإِنسَانَ مَا لَمْ یَعْلَمْ ‎﴿٥﴾‏ (العلق:1-5)

’’پڑھ اپنے رب کے نام سے جس نے پیدا کیا ،جس نے انسان کو خون کے لوتھڑے سے پیدا کیا،تو پڑھتا رہ تیرا رب بڑے کرم والا ہے،جس نے قلم کے ذریعے (علم) سکھایا،جس نے انسان کو وہ سکھایا جسے وہ نہیں جانتا تھا۔ ‘‘


ابتدائی طورپرنازل ہونے والی ان آیات میں اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے بنی نوع انسان کوکئی اہم ترین مضامین، قرات،انسان کی پیدائش کاسائنسی نقطہ،علم جس کاتعلق پروردگار کے ساتھ ہو ،دوسراسائنسی نقطہ علم کی بنیادقلم،مال ودولت کی وجہ سے انسان کی اللہ تبارک وتعالیٰ سے سرکشی وبغاوت،روزجزا کے انتہائی اہم عقیدے اورعبادت کی طرف متوجہ کیا ہے،اللہ تبارک وتعالیٰ نے سب سے پہلے انسان کی بولنے کی صلاحیت کوبیان فرمایا کہ اس خالق نے تمام جانداروں کے مقابلے میں انسان کو بولنے کی صلاحیت عطافرمائی ہے جس سے انسان قراٗت کرتاہے،پھر فرشتوں ،جنوں اوردوسری بے شمارمخلوقات کے ہوتے ہوئے بطورخاص انسان کی تخلیق میں ایک سائنسی نکتہ بیان فرمایا کہ اس وسیع صفات کامالک ،بہت زیادہ کرم واحسان اوربے پایاں جودوالے رب نے انسان کو خون کے لوتھڑے کی حقیرترین حالت سے(استقرارحمل کے پہلے چنددنوں سے) ابتدا کرکے بتدریج اسے کیسی بہترین صورت وموزوں طریق پر تخلیق فرمایاکہ دیکھنے میں توبڑانرم ونازک ہے مگراس کے اندر قوتوں اور صلاحیتوں کاایک خزانہ مخفی ہے،جولوہے جیسی سخت چیزکوبھی اپنی مرضی سے موڑلیتاہے،جیسے فرمایا:

یٰٓاَیُّهَا النَّاسُ اِنْ كُنْتُمْ فِیْ رَیْبٍ مِّنَ الْبَعْثِ فَاِنَّا خَلَقْنٰكُمْ مِّنْ تُرَابٍ ثُمَّ مِنْ نُّطْفَةٍ ثُمَّ مِنْ عَلَقَةٍ ثُمَّ مِنْ مُّضْغَةٍ مُّخَلَّقَةٍ وَّغَیْرِ مُخَلَّقَةٍ لِّنُبَیِّنَ لَكُمْ۝۰ۭ وَنُقِرُّ فِی الْاَرْحَامِ مَا نَشَاۗءُ اِلٰٓى اَجَلٍ مُّسَمًّى ثُمَّ نُخْرِجُكُمْ طِفْلًا۝۵ [16]

ترجمہ:لوگو، اگر تمہیں زندگی بعد موت کے بارے میں کچھ شک ہے تو تمہیں معلوم ہو کہ ہم نے تم کو مٹی سے پیدا کیا ہے، پھر نطفے سے، پھر خون کے لوتھڑے سے، پھر گوشت کی بوٹی سے جو شکل والی بھی ہوتی ہے اور بےشکل بھی، (یہ ہم اس لیے بتا رہے ہیں ) تاکہ تم پر حقیقت واضح کریں ، ہم جس( نطفے) کو چاہتے ہیں ایک وقت خاص تک رحموں میں ٹھہرائے رکھتے ہیں ، پھر تم کو ایک بچے کی صورت میں نکال لاتے ہیں ۔

پھراس پردوسر ا احسان یہ فرمایاہے کہ جب انسان کو زمین پر خلیفہ بنایاگیا تو اللہ تبارک وتعالیٰ حسب ضرورت غیرمحسوس طریقے سے اسے مختلف انواع کے علوم جیسی خاص نعمت(جو مخلوقات کی بلندترین صفت ہے ) مرحمت فرماتارہاہے ،جیسے فرمایا:

 وَلَا یُحِیْطُوْنَ بِشَیْءٍ مِّنْ عِلْمِهٖٓ اِلَّا بِمَا شَاۗءَ۝۰۝۲۵۵ [17]

ترجمہ:اورلوگ اس کے علم میں سے کسی چیزکااحاطہ نہیں کرسکتے سوائے اس کے جووہ خودچاہے ۔

اسی علم کی بدولت ہی بنی نوع انسان کے جداعلیٰ آدم علیہ السلام کوفرشتوں پرفضیلت ملی تھی،اوربات یہیں تک محدودنہیں رکھی تیسرابڑااحسان یہ فرمایاکہ اللہ نے انسان کوماں کے پیٹ سے نکالا ، اس وقت وہ کچھ نہیں جانتا تھا ، اس کوسماعت ،بصارت اورعقل سے بہرہ ورکیا۔

وَاللهُ اَخْرَجَكُمْ مِّنْۢ بُطُوْنِ اُمَّهٰتِكُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ شَـیْـــًٔـا۝۰ۙ وَّجَعَلَ لَكُمُ السَّمْعَ وَالْاَبْصَارَ وَالْاَفْــِٕدَةَ۝۰ۙ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ۝۷۸ [18]

ترجمہ:اللہ نے تم کو تمہاری ماؤں کے پیٹوں سے نکالا اس حالت میں کہ تم کچھ نہ جانتے تھے اس نے تمہیں کان دیے ، آنکھیں دیں اور سوچنے والے دل دیے ، اس لیے کہ تم شکر گزار بنو ۔

اِنَّا خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنْ نُّطْفَةٍ اَمْشَاجٍ۝۰ۤۖ نَّبْتَلِیْهِ فَجَعَلْنٰهُ سَمِیْعًۢا بَصِیْرًا۝۲ [19]

ترجمہ:ہم نے انسان کو ایک مخلوط نطفے سے پیدا کیا تاکہ اس کا امتحان لیں اور اس غرض کے لیے ہم نے اسے سننے اور دیکھنے والا بنایا۔

اس کے لئے حصول علوم کے تمام اسباب آسان کیے، ان علوم کو محفوظ کرنے کے لئے الہامی طور پر اسے قلم کے استعمال سے کتابت کافن سکھایا ،کیونکہ علم انسان کے ذہن میں ہوتاہے جس کااظہاروہ زبان کے ذریعے سے کرتاہے ،ذہن و حافظہ میں جوکچھ ہوتاہے وہ انسان کی موت کے ساتھ ہی ختم ہوجاتاہے ،چنانچہ ان تمام علوم کومحفوظ رکھنے کے لئے قلم کے ذریعہ کاغذپرکتابت کرتارہا،جس کے نتیجہ میں اسلاف کی تاریخیں اورکافی علمی ذخیرہ محفوظ ہوکر نسل درنسل آگے پہنچتارہا، اگرقلم نہ ہوتاتو انسان کے ذہن میں جو کچھ ہوتااس کی موت کے ساتھ ہی ضائع ہوجاتا اور مزید ترقی کرنے کاموقعہ ہی پیدانہ ہوتااور ہم وہیں کھڑے ہوتے جہاں ہمارے اسلاف کھڑے تھے ،یعنی اسلام پہلے علم کانام ہے ،علم کے بعدعمل کانام ہے ،اسی لئے اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے قلم کوپیداکیااوراس کو تمام مخلوقات کی تقدیرلکھنے کاحکم دیا،

عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: قَیِّدُوا الْعِلْمَ بِالْكِتَابِ

انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا علم کوکتابت کے ساتھ مقیدکرلو۔[20]

تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان آیات کوزبان سے دہرایا۔

اللہ تعالیٰ نے کوہ طورپر موسیٰ علیہ السلام کواپنے پہلے ہی کلام میں واضح کر دیاکہ وہ اللہ رب العالمین سے مخاطب ہیں اور اللہ نے انہیں لوگوں کی رشدوہدایت کے لئے منصب رسالت پر فائزکردیاگیاہے اوران کاکام یہ ہے کہ وہ فرعون اور اس کی قوم کے توحیدوآخرت کے بارے میں عقائددرست کریں ،اوراللہ کی بندگی کے اظہارکے لئے نمازکانظام قائم کریں اوراسی موقع پر معجزات بھی عطافرمادیئے گئے مگر سورہ العلق کی ان ابتدائی آیات میں اللہ تعالیٰ کی چندتخلیقی صفات کوبیان فرمایاگیامگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کویہ نہیں بتایاگیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کوکس کارعظیم پرمامورکیاگیاہے اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم کوکیاکرناہے،البتہ فرشتہ وحی جبرائیل علیہ السلام سے آپ کاتعارف ہوگیا کیونکہ پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم شریعت اورایمان کے بارے میں کچھ نہ جانتے تھے ،جیسے فرمایا:

وَكَذٰلِكَ اَوْحَیْنَآ اِلَیْكَ رُوْحًا مِّنْ اَمْرِنَا۝۰ۭ مَا كُنْتَ تَدْرِیْ مَا الْكِتٰبُ وَلَا الْاِیْمَانُ۔۔۔ ۝۵۲ۙ [21]

ترجمہ: اوراسی طرح (اے نبی علیہ السلام )ہم نے اپنے حکم سے ایک روح تمہاری طرف وحی کی ہے تمہیں کچھ پتہ نہ تھاکہ کتاب(شریعت) کیاہوتی ہے اورایمان کیاہوتاہے۔

عرب کے اکثر لوگوں کی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نہ لکھ سکتے تھے اورنہ پڑھ سکتے تھے ،جیسے فرمایا:

وَمَا كُنْتَ تَتْلُوْا مِنْ قَبْلِهٖ مِنْ كِتٰبٍ وَّلَا تَخُطُّهٗ بِیَمِیْنِكَ۔۔۔ ۝۴۸ [22]

ترجمہ: اے نبی!تم اس سے پہلے کوئی کتاب نہیں پڑھتے تھے اورنہ اپنے ہاتھ سے لکھتے تھے۔

اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کوایسی کوئی خواہش، امیدیاوہم وگمان اورتصور نہ تھا کہ اللہ تبارک وتعالیٰ انہیں دنیا کی رہنمائی کے لئے چن لیں گے ،جیسے فرمایا

 وَمَا كُنْتَ تَرْجُوْٓا اَنْ یُّلْقٰٓى اِلَیْكَ الْكِتٰبُ اِلَّا رَحْمَةً مِّنْ رَّبِّكَ۔۔۔ ۝۸۶ۙ [23]

ترجمہ:تم اس بات کے ہرگزامیداوارنہ ےتھے کہ تم پرکتاب نازل کی جائے گی،یہ تومحض تمہارے رب کی مہربانی سے(تم پرنازل ہوئی ہے)۔

اس لئے اس اچانک واقعہ کے خوف سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کواپنی جان کی ہلاکت کااندیشہ پیداہوگیا ،ان آیات مبارکہ سے بحیراراہب کی داستان بھی پوری کی پوری غلط ثابت ہوجاتی ہے ۔اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام کومنصب رسالت پرفائزفرمایا،انہوں نے کیافرض نبھاناہے وہ بھی واضح طورپرفرمادیاگیامگرجب انہیں عصاکامعجزہ عطافرمایاگیااورانہوں نے اپنی لاٹھی کوایک اژدھابن کرپھنکاریں مارتے اورادھرادھردوڑتے دیکھاتوخوف ودہشت سے بھاگ کھڑے ہوئے اورپلٹ کربھی نہ دیکھاکیونکہ ان کے وہم وگمان میں بھی نہ تھاکہ ان کی لاٹھی ایک حقیقی اژدھابن جائے گی،اللہ تعالیٰ نے انہیں تسلی دی۔

۔۔۔ یٰمُوْسٰی لَا تَخَفْ۝۰ۣ اِنِّىْ لَا یَخَافُ لَدَیَّ الْمُرْسَلُوْنَ۝۱۰ۤۖ [24]

ترجمہ: اے موسی علیہ السلام !ڈرونہیں ،میرے حضورپیغمبر ڈرانہیں کرتے ۔

اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ابھی تربیت کے مرحلہ سے گزررہے تھے،ایک فرشتے کاغیرمتوقع طورپراس طرح آنے ،سینے سے لگانے اورپڑھنے کاحکم دینے سے آپ خوف زدہ ہوگئے ،چنانچہ خوف کی اسی حالت میں کانپتے اورلرزتے ہوئے ام المومنین خدیجہ رضی اللہ عنہا بنت خویلدکے پاس پہنچے اور فرمایا:

زَمِّلُونِی زَمِّلُونِی

مجھے چادراڑھا دو،مجھے چادر اوڑھا دو ،

ام المومنین خدیجہ رضی اللہ عنہا نے حسب حکم فورا ًچادر اوڑھادی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کچھ دیر خاموش لیٹے رہے، جب خوف کی کیفیت رفع ہوئی توام المومنین خدیجہ رضی اللہ عنہا کے پوچھنے پرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے غارحرا میں پیش آنے والا تمام واقعہ بیان کیاکیونکہ آپ نے فرشتہ دیکھاہواہی نہیں تھااس لئے کہیں یہ ذکرنہیں فرمایاکہ میرے پاس ایک فرشتہ آیاتھابلکہ خوف سے فرمایا:

لَقَدْ خَشِیتُ عَلَى نَفْسِی

مجھے اپنی جان کا خطرہ لاحق ہو گیاہے ۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ بات سن کر جاں نثار اور زیرک اہلیہ سیدہ النساء ام المومنین خدیجہ الکبریٰ رضی اللہ عنہا نے جوپندرہ برس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاکیزہ کردارسےآشناتھیں اوراس وقت پچپن برس کی ایک پختہ عمرکی عورت تھیں بڑے وثوق سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق حسنہ کے بارے میں عرض کیا۔

كَلَّا وَاللَّهِ مَا یُخْزِیكَ اللَّهُ أَبَدًا إِنَّكَ لَتَصِلُ الرَّحِمَ وَتَحْمِلُ الكَلَّ، وَتَكْسِبُ المَعْدُومَ، وَتَقْرِی الضَّیْفَ، وَتُعِینُ عَلَى نَوَائِبِ الحَقِّ ،

ہرگزنہیں ،اللہ کی قسم !آپ کواللہ کبھی رسوانہیں کرے گاآپ توصلہ رحمی کرتے ہیں ،آپ توکنبہ پرورہیں ،بے کسوں کابوجھ اپنے سرپررکھ لیتے ہیں ،مفلسوں کے لئے آپ کماتے ہیں ،مہمان نوازی میں آپ بے مثال ہیں اورمشکل وقت میں آپ امرحق کاساتھ دیتے ہیں ۔ [25]

وَأَخْبَرَهَا بِمَا جَاءَ بِه ِفَقَالَتْ أَبْشِرْ فَوَاللَّهِ لَا یَفْعَلُ اللَّهُ بِكَ إِلَّا خَیْرًا فَاقْبَلِ الَّذِی جَاءَكَ مِنَ اللَّهِ ، فَإِنَّهُ حَقٌّ وَأَبْشِرْ فَإِنَّكَ رَسُولُ اللَّهِ حَقًّا

ایک روایت میں ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام واقعہ خدیجہ رضی اللہ عنہا سے بیان فرمایاتوانہوں نے کہامبارک ہواورآپ کوبشارت ہو،اللہ کی قسم!اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ سوائے خیراوربھلائی کے کچھ نہ کرے گا، جومنصب اللہ تعالیٰ کی جانب سے آپ کے پاس آیاہے اس کوقبول کریں ، وہ بلاشبہ حق ہے،اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم کوخوش خبری ہوکہ آپ یقیناًاللہ تعالیٰ کے رسول برحق ہیں ۔[26]

فَقَالَتْ: أَبْشِرْ یَا بن عمّ واثبت، فو الّذی نَفْسُ خَدِیجَةَ بِیَدِهِ إنِّی لَأَرْجُو أَنْ تَكُونَ نَبِیَّ هَذِهِ الْأُمَّةِ

ایک روایت میں ہےام المومنین خدیجہ رضی اللہ عنہا نے کہااے میرے چچازاد!آپ کومبارک ہو قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں خدیجہ کی جان ہے میں قوی امیدرکھتی ہوں کہ آپ اس امت کے نبی ہوں گے۔[27]

 ورقہ بن نوفل بن اسدبن عبدالعزیٰ:

جب کچھ دیر کے بعد مزید طبیعت بہترہوئی تو ام المومنین خدیجہ رضی اللہ عنہا کو جستجوہوئی کہ اس معاملہ میں کسی صاحب علم سے رائے لی جائے، چنانچہ ام المومنین خدیجہ، رضی اللہ عنہا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے چچازاد بھائی ورقہ بن نوفل بن اسدبن عبدالعزیٰ کے پاس لے گئیں ، جنہوں نے دین حنیف کی تلاش میں بت پرستی سے تائب ہوکر نصرانی مذہب اختیار کر لیا تھا اور عبرانی زبان سیکھ کرتورات وانجیل کواس کی اصل زبان میں سمجھنے اور لکھنے پر قادر تھے ،اس طرح وہ تورات وانجیل میں پیغمبروں کے حالات اور نبی آخرالزماں کی آمدکی پیشین گوئیوں سے بھی واقف تھے ، اس وقت وہ بہت بوڑھے اور نابینا ہوچکے تھے اس لئے جلدہی فوت ہوگئے،ورقہ بن نوفل بچپن سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی دیکھتے چلے آرہے تھے اور پندرہ سال کی قریبی رشتہ داری کی بنا پرآپ کے حالات سے اوربھی گہری واقفیت رکھتے تھے ۔

فَقَالَتْ لَهُ خَدِیجَةُ: أَیِ ابْنَ عَمِّ، اسْمَعْ مِنَ ابْنِ أَخِیكَ، فَقَالَ وَرَقَةُ: ابْنَ أَخِی مَاذَا تَرَى؟ فَأَخْبَرَهُ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مَا رَأَى، فَقَالَ وَرَقَةُ: هَذَا النَّامُوسُ الَّذِی أُنْزِلَ عَلَى مُوسَى، یَا لَیْتَنِی فِیهَا جَذَعًا، أَكُونُ حَیًّا حِینَ یُخْرِجُكَ قَوْمُكَ. فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: أَوَمُخْرِجِیَّ هُمْ فَقَالَ وَرَقَةُ: نَعَمْ، لَمْ یَأْتِ رَجُلٌ قَطُّ بِمِثْلِ مَا جِئْتَ بِهِ إِلَّا عُودِیَ، وَإِنْ یُدْرِكْنِی یَوْمُكَ أَنْصُرْكَ نَصْرًا مُؤَزَّرًا، ثُمَّ لَمْ یَنْشَبْ وَرَقَةُ أَنْ تُوُفِّیَ،

ان سے خدیجہ رضی اللہ عنہا نے کہااے میرے بھائی !ذرا اپنے بھتیجے کاواقعہ سن لیں مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش رہے توورقہ بن نوفل نے پوچھا

یَا ابْنَ أَخِی، مَاذَا تَرَى؟

اے میرے بھتیجے! کیا دیکھا ؟

ورقہ کے پوچھنے پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جوکچھ دیکھاتھابیان کردیا،تمام کیفیت سن کرورقہ بن نوفل اسے کوئی شیطانی وسوسہ نہیں سمجھابلکہ اس کے نزدیک بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اتنے بلندپایہ انسان تھے کہ آپ کامنصب نبوت پرسرفراز ہونا کوئی قابل تعجب امرنہ تھا اس لئے جھٹ سے بولا یہ وہی ناموس (معززرازداں فرشتہ) ہے جسے اللہ نے اس سے قبل موسیٰ علیہ السلام کے پاس بھیجاتھاکاش میں اس وقت تک زندہ رہتا جب آپ کی قوم آپ کواپنے وطن سے باہر نکال دے گی ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ سن کر کہ آپ کی قوم آپ کی تکذیب کرے گی ،آپ کوایذاء دی جائے گی خاموش رہے مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کومکہ معظمہ سے بے دخلی کاسن کربڑا شاق گزرا اور ورقہ سے بڑی حیرت سے پوچھا کیا میری قوم مجھے مکہ معظمہ سے نکال دے گی،ورقہ نے کہا ہاں ، آج تک کوئی ایسا شخص نہیں گزرا جو آپ کی طرح نبوت لے کرآیا ہو اوراس کی پر زور مخالفت نہ کی گئی ہو اگرمیں نے وہ زمانہ پالیا تومیں آپ کی زبردست مدد کروں گا مگر اس بات کے تھوڑے ہی دن بعدورقہ بن نوفل انتقال کرگیا۔[28]

فِی مُرْسَلِ أَبِی مَیْسَرَةَ أَبْشِرْ فَأَنَا أَشْهَدُ إِنَّك الَّذِی بشر بِهِ بن مَرْیَمَ وَأَنَّكَ عَلَى مِثْلِ نَامُوسِ مُوسَى وَأَنَّكَ نَبِیٌّ مُرْسَلٌ وَأَنَّكَ سَتُؤْمَرُ بِالْجِهَادِ بَعْدَ یَوْمِكَ هَذَا

ابومیسرہ کی ایک مرسل روایت میں ہے کہ ورقہ نے کہاآپ کوبشارت ہو،میں گواہی دیتاہوں کہ آپ وہی نبی ہیں جن کی مسیح بن مریم نے بشارت دی ہےاورآپ موسیٰ علیہ السلام کی طرح نبی مرسل ہیں ، اورآپ کوعنقریب اللہ کی طرف سے جہادکاحکم مرحمت فرمایاجائے گا۔[29]

فَلَمَّا قَضَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ جِوَارَهُ وَانْصَرَفَ صَنَعَ مَا كَانَ یَصْنَعُ، بَدَأَ بِالْكَعْبَةِ فَطَافَ بِهَا فَلَقِیَهُ وَرَقَةُ بْنُ نَوْفَلٍ وَهُوَ یَطُوفُ بِالْكَعْبَةِ فقال له: یا ابن أَخِی: أَخْبِرْنِی بِمَا رَأَیْتَ وَسَمِعْتَ؟فَأَخْبَرَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ لَهُ وَرَقَةُ: وَالَّذِی نَفْسِی بِیَدِهِ إِنَّكَ لَنَبِیُّ هَذِهِ الأُمَّةِ وَلَقَدْ جَاءَكَ النَّامُوسُ الأَكْبَرُ الَّذِی جَاءَ مُوسَى وَلْتُكَذِّبَنَّهُ وَلْتُؤْذِیَنَّهُ وَلْتُقَاتِلَنَّهُ، وَلَئِنْ أَنَا أَدْرَكْتُ ذَلِكَ الْیَوْمَ لأَنْصُرَنَّ اللَّهَ نَصْرًا یَعْلَمُهُ، ثُمَّ أَدْنَى رَأْسَهُ مِنْهُ فَقَبَّلَ یَأْفُوخَهُ ثُمَّ انْصَرَفَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ إلى مَنْزِلِهِ

ایک اورروایت میں ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کعبہ تشریف لے گئے اوراس کاطواف شروع کیادوران طواف ورقہ بن نوفل بھی انہیں مل گئے کیونکہ وہ بھی کعبہ کاطواف کررہے تھے،انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سےکہااے بھتیجے!مجھے بتاؤ تم نے(غارحرامیں کیا)دیکھااورکیاسنا؟رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں بتایا،ورقہ نے کہاقسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے تم اس امت کے نبی ہواورجوتیرے پاس آیاتھاوہ ناموس اکبرہے جوموسیٰ علیہ السلام کے پاس آیاکرتاتھا،بے شک تیری تکذیب کی جائے گی ،تجھے اذیت دی جائے گی اورتیرے ساتھ جنگ کی جائے گی،اگرمیں اس دن تک زندہ رہاتوتیری بہت بڑی مددکروں گا پھرورقہ نے سرجھکایااورآپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشانی مبارک کوبوسہ دیا پھررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے مکان پرواپس آگئے۔[30]

دوسرے معنوں میں ورقہ نے یہ توجان لیاکہ یہ علامات وحی ہیں اورمستقبل میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نبی یارسول کے منصب پرفائزہونے والے ہیں مگر انہوں نے سیدالامم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کویہ نہیں کہا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کونبی یارسول مقررکردیاگیاہے ،اگراس وقت وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کونبی یارسول تسلیم کرلیتے توکوئی وجہ نہیں تھی کہ ورقہ جیساحق پرست اورصاحب علم انسان فورا ًہی ایمان نہ لے آتااورالسابقون الاولون میں شمارہوتابلکہ اس نے بڑے حسرت بھرے الفاظ میں کہا۔

یَا لَیْتَنِی فِیهَا جَذَعًا، لَیْتَنِی أَكُونُ حَیًّا إِذْ یُخْرِجُكَ قَوْمُكَ

کاش میں اس وقت تک زندہ رہتا جب آپ کی قوم آپ کواپنے وطن سے باہر نکال دے گی،اگرمیں نے وہ زمانہ پالیا تومیں آپ کی زبردست مدد کروں گا ۔

روایت ہے کہ سورہ العلق کی ان پہلی پانچ آیات کی وحی کے ابتدائی تعارف کے بعدکچھ عرصہ کے لئے وحی منقطع ہوگئی تاکہ آپ کے دل سے وہ خوف دورہوجائے جواچانک غارحرامیں جبرائیل علیہ السلام کودیکھ کراور ابتدائی آیات مبارکہ کوسن کر طاری ہواتھااوراس کے ساتھ ہی وحی کے انتظارکاشوق بھی بڑھ جائے۔[31]

اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم ذہنی طور پر وحی وصول کرنے اورنبوت کے فرائض سنبھالنے کے لئے کمربستہ ہوجائیں ،اس حکم کے بعد کچھ دنوں تک جبرائیل علیہ السلام دوسری وحی لیکر نازل نہ ہوئے توروزبروزآپ صلی اللہ علیہ وسلم کارنج وغم بڑھتاچلاگیا،

أَنَّ مُدَّةَ فَتْرَةِ الْوَحْیِ كَانَت ثَلَاث سِنِین

شعبی رحمہ اللہ کے مطابق انقطاع وحی کی کل مدت تین سال رہی۔[32]

حالانکہ اگراللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کوتین سال بعدمنصب نبوت پر فائز کرنا تھا تو اتنے جلدی جبرائیل علیہ السلام کو بھیجنے کی کیاضرورت تھی،

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ – صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ – لَمَّا نَزَلَ عَلَیْهِ الْوَحْیُ بِحِرَاءٍ مَكَثَ أَیَّامًا لا یَرَى جِبْرِیلَ.

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہےجب حرامیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پروحی نازل ہوئی توکچھ دنوں تک یہ کیفیت رہی کہ جبرائیل علیہ السلام نظرنہیں آئے[33]

وَلَیْسَ الْمُرَادُ بِفَتْرَةِ الْوَحْیِ الْمُقَدَّرَةِ بِثَلَاثِ سِنِینَ وَهِیَ مَا بَیْنَ نُزُولِ أَقرَأ وَیَا أَیهَا المدثر عَدَمَ مَجِیءِ جِبْرِیلَ إِلَیْهِ

اس سے یہ مرادنہیں ہے کہ وحی کی بندش تین سال تک رہی ،مگرصرف سو رہ العلق کی ابتدائی آیات اورسورہ المدثر کے درمیانی عرصہ میں جبرائیل علیہ السلام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس نہیں آئے۔[34]

حَتَّى حَزِنَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ ، فِیمَا بَلَغَنَا، حُزْنًا غَدَا مِنْهُ مِرَارًا كَیْ یَتَرَدَّى مِنْ رُءُوسِ شَوَاهِقِ الجِبَالِ، فَكُلَّمَا أَوْفَى بِذِرْوَةِ جَبَلٍ لِكَیْ یُلْقِیَ مِنْهُ نَفْسَهُ تَبَدَّى لَهُ جِبْرِیلُ فَقَالَ: یَا مُحَمَّدُ، إِنَّكَ رَسُولُ اللَّهِ حَقًّافَیَسْكُنُ لِذَلِكَ جَأْشُهُ، وَتَقِرُّ نَفْسُهُ، فَیَرْجِعُ، فَإِذَا طَالَتْ عَلَیْهِ فَتْرَةُ الوَحْیِ غَدَا لِمِثْلِ ذَلِكَ

یہاں تک کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس قدرغمگین ہوئے کہ متعدد بار بلند چوٹی پر سے اپنے آپ کو گرا کر ہلاک کردینا چاہا، جب بھی پہاڑ کی چوٹی پر پہنچے کہ اپنے آپ کو گراکرہلاک کر دیں تو جبرائیل ظاہر ہوتے اور کہتے اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم آپ اللہ کے سچے رسول ہیں ، تو اس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا جوش سرد پڑجاتا اور طبیعت کو سکون ملتا اور واپس تشریف لے آتے، جب وحی کا سلسلہ دیر تک منقطع رہا تو پھر اسی طرح نکلے، جب پہاڑ کی چوٹی پر پہنچے تو جبرائیل سامنے آتے اور اسی طرح کہتے۔[35]

یہ مقطوع روایت ہے جس کا سلسلہ زہری پرہی ختم ہوجاتاہے اورآگے نہیں بڑھتا ، امام زہری نے اس روایت کو بلاغات میں تحریر کیاہے۔

روایت ہے کہ ایک مرتبہ سید النساء خدیجہ الکبریٰ رضی اللہ عنہا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی۔

أَیْ ابْنَ عَمِّ، أَتَسْتَطِیعُ أَنَّ تُخْبِرَنِی بِصَاحِبِكَ هَذَا الَّذِی یَأْتِیكَ إذَا جَاءَكَ؟قَالَ: نَعَمْ،قَالَتْ: فَإِذَا جَاءَكَ فَأَخْبِرْنِی بِهِ،فَجَاءَهُ جِبْرِیلُ عَلَیْهِ السَّلَامُ كَمَا كَانَ یَصْنَعُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ لِخَدِیجَةَ: یَا خَدِیجَةُ، هَذَا جِبْرِیلُ قَدْ جَاءَنِی،قَالَتْ: قُمْ یَا بن عَمِّ فَاجْلِسْ عَلَى فَخِذِی الْیُسْرَى قَالَ فَقَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَجَلَسَ عَلَیْهَا قَالَتْ: هَلْ تَرَاهُ؟ قَالَ: نَعَمْ،قَالَتْ: فَتُحَوَّلْ فَاجْلِسْ عَلَى فَخِذِی الْیُمْنَى

اے میرے چچاکے بیٹے!کیاآپ جبرائیل کے آنے کی مجھے خبردے سکتے ہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاہاں ،انہوں نے کہااگراب وہ آئیں تومجھے بھی خبردیجئے گا، چنانچہ جب جبرائیل علیہ السلام آئے تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے خدیجہ رضی اللہ عنہا یہ جبرائیل میرے پاس آئے ہیں ، خدیجہ رضی اللہ عنہا نے کہاآپ کھڑے ہوکرمیری بائیں ران پربیٹھ جائیں ،چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کی ران پربیٹھ گئے،انہوں نے کہااب بھی جبرائیل علیہ السلام آپ کودکھائی دیتے ہیں ؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاہاں ، انہوں نے کہااچھامیری دائیں ران پربیٹھ جائیں

قَالَتْ: فَتَحَوَّلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَجَلَسَ عَلَى فَخِذِهَا الْیُمْنَى فَقَالَتْ:هَلْ تَرَاهُ؟ قَالَ: نَعَمْ،قَالَتْ: فَتَحَوَّلْ فَاجْلِسْ فِی حِجْرِی قَالَتْ: فَتَحَوَّلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَجَلَسَ فِی حِجْرِهَا، قَالَتْ: هَلْ تَرَاهُ؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ:فَتَحَسَّرَتْ وَأَلْقَتْ خِمَارَهَا وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ جَالِسٌ فِی حِجْرِهَا، ثُمَّ قَالَتْ لَهُ: هَلْ تَرَاهُ؟قَالَ: لَا، قَالَتْ یَا بن عَمِّ، اثْبتْ وأبشر، فو الله إنَّهُ لَمَلَكٌ وَمَا هَذَا بِشَیْطَانٍ

چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دائیں ران پربیٹھ گئے،انہوں نے کہااب بھی جبرائیل موجودہیں ؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاہاں موجودہیں ،انہوں نے کہااچھاآپ میرے زانوؤ ں پر تشریف رکھیں ،چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایساہی کیا،انہوں نے کہا کیا اب بھی دکھائی دیتے ہیں ؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاہاں ،انہوں نے پھراپنی اوڑھنی سرپرسے اتاری اوربرہنہ سرہوکرکہا کیااب بھی جبرائیل دکھائی دیتے ہیں ؟ فرمایانہیں ،اب دکھائی نہیں دیتے، یہ سن کر خدیجہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیااے میرے چچاکے بیٹے!آپ کو بشارت ہو،اللہ کی قسم یہ فرشتہ ہے ،ابلیس نہیں ۔[36]

عَنْ عَائِشَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ خَدِیجَةُ: أَبْشِرْ فَإِنَّهُ مَلَكٌ كَرِیمٌ لَوْ كَانَ شَیْطَانًا مَا اسْتَحْیَى

ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت میں یوں ہےام المومنین خدیجہ رضی اللہ عنہا نے عرض کی آپ کو مبارک ہویہ فرشتہ ہے اگرابلیس ہوتاتونہ شرماتا۔[37]

اس روایت کی سندضعیف ہے۔

اس کے علاوہ جب ورقہ بن نوفل نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کے بارے میں کہہ دیااورچند ددنوں بعدجبرائیل علیہ السلام بھی باضابطہ وحی لانے لگے توپھرتصدیق کرنے کے لئےیہ سب کچھ کرنے کی ضرورت باقی نہیں رہتی اورکیاشیطان اس طرح کی وحی لاسکتاہے۔

اللہ تعالیٰ پیغمبروں کو بہترین صلاحتیں اورقوتیں عطاکرکے مبعوث فرماتا ہے ،وہ بہترین اخلاق ،کامل علم ،شجاع اورمضبوط استقلال کے مالک ہوتے ہیں ،چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے قبل دنیا میں کتنے ہی پیغمبرگزرے جنہیں کوئی امیدنہیں تھی کہ انہیں پیغمبربنایاجانے والاہے ،جب ان کے پاس جبرائیل علیہ السلام وحی لیکرحاضر ہوئے تو کیا انہوں نے منصب رسالت پر فائز ہونے اوراپنے پیغمبر ہونے پرشک کیا، موسیٰ علیہ السلام سردیوں کی تاریک رات کے وقت تن تنہا آگ لینے کوہ طورپرچڑھ گئے جہاں اس سنسان جگہ پر اچانک اللہ تعالیٰ ان سے ہم کلام ہوا اور انہیں منصب رسالت پرفائزفرمایا تو کیا انہوں نے اپنی پیغمبری پرشک کیایاتحقیق کی،اس لئے کوئی وجہ نہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کارسول ہونے میں شک کرتے اور کمزورارادے کے لوگوں کی طرح خودکوپہاڑسے گراکرموت کے حوالے کر دیناچاتے جہاں جبرائیل علیہ السلام آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو باربار یقین دہانی کراتے کہ آپ سچے نبی ہیں ،اس کے علاوہ کیا اتنے بڑے واقعہ کے لئے مقطوع روایت کافی ہے۔

دراصل جبرائیل علیہ السلام کوبھیجنے کا مقصد صرف ان کا تعارف کراناتھاکہ آئندہ بھی یہ فرشتہ آپ کے پاس ہماراپیغام لے کرآتارہے گااوریہ آپ کی ذمہ داری ہوگی کہ اسے من وعن لوگوں تک پہنچائیں ،لہذایہ صحیح نہیں کہ غارحراء کاواقعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کانقطہ آغاز تھا اور اس میں پہلی وحی نازل ہوئی تھی بلکہ منصب رسالت پرفائزکرنے کا معاملہ آئندہ کے لئے چھوڑدیا گیا ، اس لئے جب پہلی مرتبہ وحی نازل ہی نہیں ہوئی تواس میں بندش کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا،حقیقت میں وحی کانقطہ آغاز جبرائیل علیہ السلام کے دوبارہ آنے کاموقعہ ہے جس میں کچھ دن لگے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس چندروزہ وقتی محرومی پر بہت رنجیدہ رہنے لگے ۔[38]

تابعین کے دورمیں بھی یہ اختلاف تھاکہ پہلی وحی کونسی تھی آیاسورہ المدثر یاسورہ العلق۔

عَنْ یَحْیَى بْنِ أَبِی كَثِیرٍ، سَأَلْتُ أَبَا سَلَمَةَ بْنَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ أَوَّلِ مَا نَزَلَ مِنَ القُرْآنِ، قَالَ: {یَا أَیُّهَا المُدَّثِّرُ}[39] قُلْتُ: یَقُولُونَ: {اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِی خَلَقَ} [40]فَقَالَ أَبُو سَلَمَةَ: سَأَلْتُ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُمَا عَنْ ذَلِكَ، وَقُلْتُ لَهُ مِثْلَ الَّذِی قُلْتَ: فَقَالَ جَابِرٌ: لاَ أُحَدِّثُكَ إِلَّا مَا حَدَّثَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:جَاوَرْتُ بِحِرَاءٍ، فَلَمَّا قَضَیْتُ جِوَارِی هَبَطْتُ فَنُودِیتُ، فَنَظَرْتُ عَنْ یَمِینِی فَلَمْ أَرَ شَیْئًا، وَنَظَرْتُ عَنْ شِمَالِی فَلَمْ أَرَ شَیْئًا، وَنَظَرْتُ أَمَامِی فَلَمْ أَرَ شَیْئًا، وَنَظَرْتُ خَلْفِی فَلَمْ أَرَ شَیْئًا، فَرَفَعْتُ رَأْسِی فَرَأَیْتُ شَیْئًا، فَأَتَیْتُ خَدِیجَةَ فَقُلْتُ: دَثِّرُونِی وَصُبُّوا عَلَیَّ مَاءً بَارِدًا، قَالَ: فَدَثَّرُونِی وَصَبُّوا عَلَیَّ مَاءً بَارِدًا، قَالَ: فَنَزَلَتْ: {یَا أَیُّهَا المُدَّثِّرُ قُمْ فَأَنْذِرْ وَرَبَّكَ فَكَبِّرْ}[41]

یحییٰ بن ابوکثیر سے مروی ہےمیں نے ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن سے دریافت کیاکہ قرآن کاکونساحصہ پہلے نازل ہوا،انہوں نے جواب دیاسورہ المدثر نازل ہوئی،میں نے کہا کہ لوگ کہتے ہیں کہ سورہ العلقَ سب سے پہلے نازل ہوئی، تو ابوسلمہ رضی اللہ عنہ نے کہا میں نے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے اس کے متعلق پوچھا اور میں نے وہی کہا جو تم نے کہا، جابر رضی اللہ عنہ نے کہا میں تم سے وہی بیان کرتا ہوں جو ہم سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں حرا میں گوشہ نشین تھا جب میں نے گوشہ نشینی کی مدت کو پورا کرلیا تو میں وہاں سے اترا تو میں پکارا گیا ایک آواز سنی میں نے اپنی دائیں طرف دیکھا تو کچھ نظر نہ آیا میں نے اپنے بائیں طرف دیکھا تو کچھ نظر نہ آیا تو میں نے سر اٹھایا تو ایک چیز دیکھی پھر میں خدیجہ رضی اللہ عنہا کے پاس آیا تو میں نے کہا مجھ کو کمبل اڑھا دو اور مجھ پر ٹھنڈا پانی بہاؤ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان کیا کہ لوگوں نے مجھے کمبل اڑھائے اور مجھ پر ٹھنڈا پانی بہایااورسورہ المدثرکی آیات ۱اور۲ ،اے کپڑے میں لپٹنے والے !اٹھئے پھرلوگوں کوعذاب آخرت سے ڈرائے اوراپنے پروردگارکی بڑائی کیجئے۔نازل ہوئی ۔[42]

اوردیکھاجائے توالمدثرکی ابتدائی آیات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوبعض احکام دیئے گئے ہیں اورتبلیغ کاحکم فرمایاگیاہے جبکہ قراء کی آیات میں صرف اللہ تعالیٰ کی چندتخلیقی صفات کابیان ہے۔

مگرچنددن کی بندش سےمشرکین مکہ کومذاق اڑانے کاموقع مل گیااورانہوں نے ازراہ تمسخرکہناشروع کردیاکہ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم )کے خدانے اسے چھوڑدیاہے اوراب اس سے بغض رکھنے لگاہے۔

عَنْ عَائِشَةَ مَرْفُوعًا لَا تَسُبُّوا وَرَقَةَ فَإِنِّی رَأَیْتُ لَهُ جَنَّةً أَوْ جَنَّتَیْنِ

ورقہ بن نوفل کے بارے میں عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاورقہ بن نوفل کوبرامت کہومیں نے اس کے لئے جنت میں ایک یادوباغ دیکھے ہیں ۔ [43]

عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ:سُئِلَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عَنْ وَرَقَةَ، فَقَالَتْ لَهُ خَدِیجَةُ: إِنَّهُ كَانَ صَدَّقَكَ وَلَكِنَّهُ مَاتَ قَبْلَ أَنْ تَظْهَر فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: أُرِیتُهُ فِی الْمَنَامِ وَعَلَیْهِ ثِیَابٌ بَیَاضٌ، وَلَوْ كَانَ مِنْ أَهْلِ النَّارِ لَكَانَ عَلَیْهِ لِبَاسٌ غَیْرُ ذَلِكَ

ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کی ایک اور روایت میں یوں ہے ام المومنین خدیجہ رضی اللہ عنہا نے آپ سے عرض کیاکہ ورقہ بن نوفل نے آپ کی رسالت ونبوت کی تصدیق کی مگر آپ کے اعلان نبوت سے قبل وہ فوت ہوگئے ہیں ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایامیں نے خواب میں ورقہ بن نوفل کوسفیدلباس میں دیکھااگروہ جہنمی ہوتے توسفیدلباس کی بجائے کسی اوررنگ کے لباس میں ہوتے۔[44]

عَنْ عَائِشَةَ، أَنَّ خَدِیجَةَ سَأَلَتْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عَنْ وَرَقَةَ بْنِ نَوْفَلٍ، فَقَالَ:قَدْ رَأَیْتُهُ فِی الْمَنَامِ، فَرَأَیْتُ عَلَیْهِ ثِیَابُ بَیَاضٍ، فَأَحْسِبُهُ لَوْ كَانَ مِنْ أَهْلِ النَّارِ، لَمْ یَكُنْ عَلَیْهِ بَیَاضٌ

اورام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہےام المومنین خدیجہ رضی اللہ عنہا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ورقہ بن نوفل کے بارے میں دریافت کیاآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایامیں نے خواب میں ورقہ بن نوفل کوسفیدلباس میں دیکھااگروہ جہنمی ہوتے توسفیدلباس میں نہ ہوتے۔ [45]

عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ:وَسُئِلَ عَنْ وَرَقَةَ بْنِ نَوْفَلٍ، فَقَالَ: أَبْصَرْتُهُ فِی بُطْنَانِ الْجَنَّةِ عَلَیْهِ سُنْدُسٌ

جابربن عبداللہ سے روایت ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ورقہ بن فوفل کے بارے میں سوال کیاگیاتوآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایامیں نے اسے جنت کے ایک بہترین درجے میں دیکھاہے اوراس کالباس ریشمی تھا۔[46]

ورقہ بن نوفل سے گفتگوکرنے کے بعداپنااعتکاف پوراکرنے کے لئے آپ واپس غارحرامیں تشریف لائے اوراعتکاف کے باقی دن پورے فرماکرمکہ مکرمہ واپس تشریف لے آئے ،

قَالَ جَابِرٌ: أُحَدِّثُكُمْ مَا حَدَّثَنَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:جَاوَرْتُ بِحِرَاءٍ، فَلَمَّا قَضَیْتُ جِوَارِی هَبَطْتُ فَنُودِیتُ، فَنَظَرْتُ عَنْ یَمِینِی فَلَمْ أَرَ شَیْئًاوَنَظَرْتُ عَنْ شِمَالِی فَلَمْ أَرَ شَیْئًاوَنَظَرْتُ أَمَامِی فَلَمْ أَرَ شَیْئًا وَنَظَرْتُ خَلْفِی فَلَمْ أَرَ شَیْئًا فَرَفَعْتُ رَأْسِی فَرَأَیْتُ شَیْئًا، فَأَتَیْتُ خَدِیجَةَ

جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایامیں غارحرامیں ایک مدت کے لئے خلوت نشین تھا، جب میں وہ دن پورے کرکے پہاڑسے نیچے اترا(اورمیں بطن وادی سے گزررہاتھاکہ) مجھے آوازدی گئی،میں نے اس آواز پر اپنے دائیں طرف دیکھا مگر کوئی بھی نظرنہ آیاپھربائیں طرف دیکھاادھربھی کوئی چیزدکھائی نہیں دی ،سامنے دیکھاادھربھی کوئی چیزدکھائی نہیں دی،پیچھے کی طرف دیکھااورادھربھی کوئی چیزدکھائی نہیں دی، اب میں نے اپناسر اوپرآسمان کی طرف اٹھایا تواسی فرشتے کوزمین وآسمان کے درمیان میں ایک کرسی پربیٹھے ہوئے پایا،مجھے یہ دیکھ کر(ہیبت کے مارے)لرزہ چڑھ آیا تب میں خدیجہ رضی اللہ عنہا کے پاس آیا۔[47]

جابربن عبداللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سناآپ وحی کے متعلق فرمارہے تھے جب موقوف ہوگئی تھی کہ میں جارہاتھا(باقی الفاظ وہی ہیں جو اوپر گزرے)(جبرائیل علیہ السلام کواپنی اصل شکل وصورت میں دیکھاتو)

فَجُثِثْتُ مِنْهُ فَرَقًا حَتَّى هَوَیْتُ إِلَى الْأَرْضِ

میں سہم گیااور خوف سے زمین کی طرف جھک گیا۔[48]

جب جبرائیل علیہ السلام چلے گئے تو اسی خوف کی حالت میں آپ گھرواپس تشریف لائے ،

فَقُلْتُ:زَمِّلُونِی زَمِّلُونِی، فَدَثَّرُونِی

اوراپنی اہلیہ ام المومنین خدیجہ رضی اللہ عنہا سے فرمایامجھے کمبل اوڑ ھا دو، مجھے کمبل اوڑھا دو اور مجھ پر ٹھنڈاپانی ڈالو،ام المومنین خدیجہ رضی اللہ عنہا نے حکم کی تکمیل میں کمبل اڑھا دیا اور ٹھنڈے پانی کے چھینٹے مارے۔[49]

[1] الجن ۸،۹

[2] مسنداحمد۱۴۸۳۵

[3] ھود ۲۸

[4] ھود۶۳

[5] ھود۸۸

[6] ھود۱۷

[7] الضحٰی ۷

[8] صحیح مسلم كتاب الْفَضَائِلِ بَابُ كَمْ أَقَامَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بِمَكَّةَ وَالْمَدِینَةَ؟۶۱۰۴ ،شرح السنة للبغوی ۳۷۳۴، السنن الکبری للبیہقی۱۲۱۶۶

[9] ابن ہشام۲۳۵؍۱ ،تاریخ طبری۳۰۰؍۲،الروض الانف ۲۵۳؍۲،عیون الآثر۱۰۴؍۱

[10] ابن ہشام۲۳۶؍۱

[11] ابن ہشام۲۳۴؍۱، عیون الاثر۱۰۰؍۱، الروض الانف ۲۵۱؍۲،تاریخ طبری ۲۹۸؍۲، زادالمعاد۷۷؍۱،دلائل النبوةللبیہقی۱۳۵؍۲

[12] فتح الباری ۲۷؍۱

[13] فتح الباری ۲۷؍۱

[14] صحیح مسلم کتاب الفضائل بَابُ فَضْلِ نَسَبِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، وَتَسْلِیمِ الْحَجَرِ عَلَیْهِ قَبْلَ النُّبُوَّةِ۵۹۳۹،جامع ترمذی ابواب المناقب بَابٌ فِی آیَاتِ نُبُوَّةِ النَّبِیِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَمَا قَدْ خَصَّهُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ بِهِ ۳۶۲۴،۲۷۴۰ ،دلائل النبوة للبیہقی ۱۵۳؍۲، عیون الاثر۱۰۱؍۱

[15] المعجم الاوسط للطبرانی۵۴۳۱،سلسلة الأحادیث الصحیحة۳۷۲؍۶

[16] الحج ۵

[17] البقرة ۲۵۵

[18] النحل۷۸

[19] الدھر۲

[20]المخلصیات۵۵۶،مسند الشهاب۶۳۷،جامع بیان العلم وفضله ۳۹۵،المعجم الکبیر للطبرانی ۷۰۰

[21] الشوریٰ ۵۲

[22]العنکبوت ۴۸

[23] القصص ۸۶

[24] النمل۱۰

[25]صحیح بخاری کتاب الوحی كَیْفَ كَانَ بَدْءُ الوَحْیِ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ؟ ۳،وکتاب التعبیربَابُ أَوَّلُ مَا بُدِئَ بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مِنَ الوَحْیِ الرُّؤْیَا الصَّالِحَةُ۶۹۸۲ ،صحیح مسلم کتاب الایمان بَابُ بَدْءِ الْوَحْیِ إِلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عن عائشہ ۴۰۳

[26] فتح الباری۳۵۹؍۱۲

[27] ۔ابن ہشام۲۳۸؍۱

[28] صحیح بخاری کتاب التعبیربَابُ أَوَّلُ مَا بُدِئَ بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مِنَ الوَحْیِ الرُّؤْیَا الصَّالِحَةُ۶۹۸۲ ،صحیح مسلم کتاب الایمان بَابُ بَدْءِ الْوَحْیِ إِلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ۴۰۳

[29] فتح الباری۷۲۰؍۸، عیون الاثر۱۰۲؍۱، الإصابة فی تمییز الصحابة۴۷۵؍۶

[30] عیون الاثر۱۰۲؍۱،ابن ہشام۲۳۸؍۱

[31] فتح الباری۲۷؍۱

[32] فتح الباری۲۷؍۱

[33] ابن سعد۱۵۴؍۱

[34] فتح الباری۲۷؍۱

[35] فتح الباری ۳۶۱؍۱۲،شرح الزرقانی علی المواھب ۴۰۲؍۱، الخصائص الکبریٰ ۱۵۶؍۱،صحیح بخاری بَابُ أَوَّلُ مَا بُدِئَ بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مِنَ الوَحْیِ الرُّؤْیَا الصَّالِحَةُ

[36] ابن ہشام۲۳۹؍۱،الروض الانف ۲۶۶؍۲،عیون الاثر۱۰۵؍۱،تاریخ طبری ۳۰۳؍۲،فتح الباری ۷۲۰؍۸

[37] دلائل النبوة لابی نعیم۱۶۵

[38] صحیح بخاری کتاب التعبیربَابُ أَوَّلُ مَا بُدِئَ بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مِنَ الوَحْیِ الرُّؤْیَا الصَّالِحَةُ۶۹۸۲

[39] المدثر: 1

[40] العلق: 1

[41] المدثر: 2

[42] صحیح بخاری کتاب التفسیرسُورَةُ المُدَّثِّرِ ۴۹۲۲ ، صحیح مسلم کتاب الایمانبَابُ بَدْءِ الْوَحْیِ إِلَى رَسُولِ اللهِ صلی اللہ علیہ وسلم ۴۰۶

[43] فتح الباری ۷۲۰؍۸

[44] جامع ترمذی ابواب الرویابَابُ مَا جَاءَ فِی رُؤْیَا النَّبِیِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ الْمِیزَانَ وَالدَّلْوَ ۲۲۸۷،۲۲۸۸ ، مستدرک حاکم ۸۱۸۷،فتح الباری ۷۲۰؍۸

[45] مسند احمد ۲۴۳۶۷

[46] مسند أبی یعلى۲۰۴۷،مجمع الزوائد ومنبع الفوائد۱۶۱۷۷

[47] صحیح مسلم کتاب الایمان بَابُ مَعْنَى قَوْلِ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ وَلَقَدْ رَآهُ نَزْلَةً أُخْرَى، وَهَلْ رَأَى النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ رَبَّهُ لَیْلَةَ الْإِسْرَاءِ عن عائشہ۴۰۹

[48] صحیح بخاری کتاب تفسیرالقرآن سُورَةُ المُدَّثِّرِ ۴۹۲۲،وكِتَابُ بَدْءِ الخَلْقِ بَابُ إِذَا قَالَ أَحَدُكُمْ: آمِینَ وَالمَلاَئِكَةُ فِی السَّمَاءِ، آمِینَ فَوَافَقَتْ إِحْدَاهُمَا الأُخْرَى، غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ ۳۲۳۸،صحیح مسلم کتاب الایمان بَابُ بَدْءِ الْوَحْیِ إِلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ ۴۰۷، مسنداحمد ۱۴۴۸۳، البدایة والنھایة۲۳؍۳

[49] صحیح بخاری کتاب التفسیرباب سُورَةُ المُدَّثِّرِعن جابر ۴۹۲۵ ،وکتاب بدء الخلق بَابُ بَدْءِ الوَحْیِ ۴ ،صحیح مسلم کتاب الایمان بَابُ بَدْءِ الْوَحْیِ إِلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عن جابر۴۰۶

Related Articles