بعثت نبوی کا پہلا سال

مضامین سورۂ الجن

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: انْطَلَقَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فِی طَائِفَةٍ مِنْ أَصْحَابِهِ عَامِدِینَ إِلَى سُوقِ عُكَاظَ، وَهُوَ بِنَخْلَةَ عَامِدًا إِلَى سُوقِ عُكَاظَ، وَهُوَ یُصَلِّی بِأَصْحَابِهِ صَلَاةَ الْفَجْرِ مَا قَرَأَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عَلَى الْجِنِّ وَلَا رَآهُمْ وَإِنَّمَا أُوحِیَ إِلَیْهِ قَوْلُ الْجِنِّ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے(نبوت کے ابتدائی دورمیں ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چندصحابہ کے ہمراہ مکہ سے عکاظ کے میلے میں جوپندرہ ذوالقعدہ سے ذی الحجہ کے چاند نظرآنے تک نجداورعرفات کے درمیان جاری رہتاتھاتبلیغ کے لئے جارہے تھے، سوق عکاظ کی طرف جاتے ہوئے وادی نخلہ میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو نمازفجرپڑھارہے تھے کہ جنوں کی ایک سلیم الفطرت جماعت جو موسیٰ علیہ السلام اورسابقہ آسمانی کتابوں پرایمان تورکھتے تھے مگرشرک میں بری طرح گرفتارتھے وہاں سے گزری،کیونکہ جنات غیرمرئی مخلوق ہیں اس لئے نہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں دیکھا اورنہ ہی ان کے سامنے قرآن پڑھا گیا تھا بلکہ وحی کے ذریعے سے آپ کواس سے آگاہ فرمایاگیا۔[1]

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ:أَنَّهُمْ سَبْعَةٌ مِنْ جِنِّ نَصِیبین

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں یہ جنات نصیبین کے تھے جن کی تعدادسات تھی۔[2]

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز میں قرآن مجیدکاکوئی حصہ تلاوت فرمارہے تھے کیونکہ وہ سابقہ آسمانی کتب کی تعلیمات سے آشناتھے اس لئے جب انہوں نے قرآن کی تعلیمات سنیں جو پہلی کتب کے مطابق ہی تھیں اورانہیں اپنے عقیدے کی غلطی معلوم ہوگئی تو شرک سے تائب ہوکرفوراًہی اس پر ایمان لے آئے،جنات نے تلاوت سننے کے بعدجوتاثرات اپنی قوم کے سامنے بیان کئے ان میں سے چیدہ چیدہ باتیں انسانیت کی ہدایت وراہنمائی کے لئے اس سورۂ میں بیان کی گئیں ،اس میں خاص طورپرشرک کی مذمت کی گئی ہے اورانسانوں کوتنبیہ کی گئی کہ شرک کوچھوڑکرتوحیدکواپنالیں تاکہ انوارالہٰی اوراس کی رحمتوں کی بارش ان پرنازل ہو، بصورت دیگرسخت عذاب کا شکار ہوں گے ،نیزفرمایاکہ نبی کا کام پیغام الہٰی مخلوق تک پہنچاناہے وہ لوگوں کونفع یانقصان پہنچانے کا اختیارنہیں رکھتے اورنہ وہ اس بات کادعویٰ کرتے ہیں ،آج اگرقوم کی مخالفت کے باعث نبی صلی اللہ علیہ وسلم بظاہرتمہیں بے یارومددگار اور تنہا نظرآتے ہیں مگر عنقریب وہ وقت آنے والاہے جب تم حقائق سے بہرہ ورہوجاوگے توتمہیں پتاچل جائے گاکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم بے یارومددگار نہیں ،اسی طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس بات کابھی مدعی نہیں کہ وہ عالم غیب کے اسرارورموزسے مکمل طورپراگاہ ہے بلکہ عالم الغیب ہوناصرف اللہ تعالیٰ ہی کی شان ہے،نبی صلی اللہ علیہ وسلم کواللہ تعالیٰ اپنی حکمت کاملہ کے ساتھ مخلوق میں سب سے زیادہ علوم و معارف عطاکرتاہے تاکہ وہ فریضہ رسالت کی ادائیگی کاحق ادا کرسکیں ،نیزیہ کہ ان علوم کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچنے میں کسی قسم کی رکاوٹ یامداخلت کاامکان نہیں ،اسی واقعہ کے اہم نکات کو سورۂ جن کی ابتدائی آیات میں بیان کرکے سرداران مکہ کوتنبیہ کی گئی کہ جن جو گمراہی میں مبتلاتھے مگر قرآن کی چند آیات سنکرہی ان کی کایا پلٹ گئی اوریہ سمجھ گئے کہ یہ اللہ کاکلام ہے کسی انسان کا نہیں اس لئے فوراًہی اس پر ایمان لے آئے لیکن انسانوں نے جنہیں ہم نے اشرف المخلوقات بنایاہے اس جلیل القدرکلام کو متعدد بار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سننے کے باوجوداس سے فائدہ نہیں اٹھایا

 بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

شروع اللہ کے نام سے جو بیحد مہربان نہایت رحم والا ہے

الَىٰ جَدُّ رَبِّنَا مَا اتَّخَذَ صَاحِبَةً وَلَا وَلَدًا ‎﴿٣﴾‏ وَأَنَّهُ كَانَ یَقُولُ سَفِیهُنَا عَلَى اللَّهِ شَطَطًا ‎﴿٤﴾‏ وَأَنَّا ظَنَنَّا أَن لَّن تَقُولَ الْإِنسُ وَالْجِنُّ عَلَى اللَّهِ كَذِبًا ‎﴿٥﴾‏ وَأَنَّهُ كَانَ رِجَالٌ مِّنَ الْإِنسِ یَعُوذُونَ بِرِجَالٍ مِّنَ الْجِنِّ فَزَادُوهُمْ رَهَقًا ‎﴿٦﴾‏ وَأَنَّهُمْ ظَنُّوا كَمَا ظَنَنتُمْ أَن لَّن یَبْعَثَ اللَّهُ أَحَدًا ‎ ﴿٧﴾(الجن)

(اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم )آپ کہہ دیں کہ مجھے وحی کی گئی ہے کہ جنوں کی ایک جماعت نے (قرآن) سنا اور کہا کہ ہم نے عجب قرآن سنا ہے جو راہ راست کی طرف راہنمائی کرتا ہے ، ہم اس پر ایمان لا چکے (اب) ہم ہرگز کسی کو بھی اپنے رب کا شریک نہ بنائیں گے اور بیشک ہمارے رب کی شان بڑی بلند ہے، نہ اس نے کسی کو (اپنی) بیوی بنایا ہے نہ بیٹا، اور یہ کہ ہم میں کا بیوقوف اللہ کے بارے میں خلاف حق باتیں کہا کرتا تھا اور ہم تو یہی سمجھتے رہے کہ ناممکن ہے کہ انسان اور جنات اللہ پر جھوٹی باتیں لگائیں ،بات یہ ہے کہ چند انسان بعض جنات سے پناہ طلب کیا کرتے تھے جس سے جنات اپنی سرکشی میں اور بڑھ گئے، اور (انسانوں ) نے بھی تم جنوں کی طرح گمان کرلیا تھا کہ اللہ کسی کو نہ بھیجے گا (یا کسی کو دوبارہ زندہ نہ کرے گا) ۔


آفات سے نجات کاسبب :

اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم !ان منکرین حق سے کہہ دیں کہ اللہ نے میری طرف وحی نازل فرمائی ہے کہ جنوں کے ایک گروہ نے(جوشایدعیسائیوں کے کسی فرقہ سے تعلق رکھتے تھے) قرآنی تعلیمات کوغورسے سنا،جیسے فرمایا:

وَاِذْ صَرَفْنَآ اِلَیْكَ نَفَرًا مِّنَ الْجِنِّ یَسْتَمِعُوْنَ الْقُرْاٰنَ۔۔۔۝۲۹ [3]

ترجمہ:(اوروہ واقعہ بھی قابل ذکرہے)جب ہم نے جنوں کے ایک گروہ کوتمہاری طرف لے آئے تھے تاکہ قرآن سنیں ۔

اورپھراپنی قوم میں جاکرکہنے لگے ہم نے وادی نخلہ میں فجرکے وقت ایک ایساکلام سنا جوفصاحت وبلاغت اوراپنے مضامین کے اعتبار سے بے نظیراوربرکت کے لحاظ سے نہایت تعجب انگیز ہے ،یہ ایساکلام ہےجو گمراہی سے نکال کرسیدھی راہ کی طرف رہنمائی کرتاہے ،ہم نے اسے کلام الٰہی تسلیم کیااور شرک سے تائب ہوکراس پرایمان لے آئے ہیں اس لئے اب ہم ہرگز اللہ وحدہ لاشریک کے ساتھ کسی مخلوق یا کسی معبودکی عبادت نہیں کریں گے،ہم توکبھی تصوربھی نہیں سکتے تھے کہ جن وانس اللہ عزوجل کے بارے میں جھوٹ گھڑنے کی جرات بھی کرسکتے ہیں کہ اللہ کی کوئی بیوی ،بیٹی یابیٹاہو ،انہی گمراہ انسانوں کے دھوکے میں آکرہم میں سے بہت سے احمق اوربے عقل لوگ اپنی ناسمجھی اور جہالت میں اللہ کی اولاد اور بیوی ٹھہراکران کی عبادت کرتے رہے ہیں ،انہیں اللہ کا شریک جان کرمشکلات وپریشانیوں میں پکارتے رہے ہیں ،ان سے امیدیں وابستہ کرتے ہیں ، مگر اب یہ پاکیزہ کلام سن ہم نے اچھی طرح جان لیا ہے کہ ہمارے رب کی شان اس سے اعلیٰ وارفع اور بلند و برتر ہے کہ اس کی اولاد یا بیوی یاماں باپ ہو،وہ اپنی ربوبیت میں متفرد ہے ، اس کاکوئی ہمسراورکفونہیں ہے ، اس کی ذات وصفات واختیارات میں کوئی شریک نہیں ،وہ ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا ،جیسے فرمایا:

كُلُّ مَنْ عَلَیْهَا فَانٍ۝۲۶ۚۖوَّیَبْقٰى وَجْهُ رَبِّكَ ذُو الْجَلٰلِ وَالْاِكْرَامِ۝۲۷ۚ [4]

ترجمہ:ہر چیز جو اس زمین پر ہے فنا ہو جانے والی ہےاور صرف تیرے رب کی جلیل و کریم ذات ہی باقی رہنے والی ہے۔

جب خلیفہ فی الارض نے غیرآباد وادیوں میں قیام کرنے کے لئے جنوں سے ڈرنا شروع کر دیا اوراللہ وحدہ لاشریک سے پناہ چاہنے کے بجائے وادی کے جنوں سے پناہ طلب کرنے لگے،

قال مقاتل: أوّل من تعوّذ بالجن قوم من أهل الیمن، ثمّ بنو حنیفة ثمّ فشا ذلك فی العرب

مقاتل رحمہ اللہ کہتے ہیں سب سے پہلے جنوں سے پناہ طلب کر نے کام اہل یمن کی قوم نے شروع کیااورپھربنوحنفیہ نے شروع کیااورپھریہ سارے عرب میں پھیل گیا ۔[5]

فی الجاهلیة یَعُوذُونَ بِرِجالٍ مِنَ الْجِنِّ، وذلك أن الرجل إذا نزل فی فضاء من الأرض، كان یقول أعوذ بسید هذا الوادی، فیكون فی أمانهم تلك اللیلة

دورجاہلیت میں لوگ جنوں سے پناہ مانگتے تھے،جب کوئی شخص کسی زمین پرقیام کرناچاہتاتوکہتاتھامیں اس وادی کے جن سے پناہ مانگتاہوں پھروہ سمجھتاتھاکہ آج کی رات وہ اس کی امان میں ہے۔[6]

أَنَّ رِجَالًا مِنَ الْإِنْسِ كَانَ أَحَدُهُمْ فِی الْجَاهِلِیَّةِ إِذَا كَانَ مُسَافِرًا، فَأَمْسَى فِی الْأَرْضِ الْقَفْرِ نَادَى: أَعُوذُ بَسَیِّدِ هَذَا الْوَادِی مِنْ سُفَهَاءِ قَوْمِهِ، فَیَبِیتُ فِی مَنَعةٍ مِنْهُ حَتَّى یصبح

دورجاہلیت میں انسانوں میں سے کوئی شخص سفرپرجاتااوررات کوکسی زمین پربسیراکرناچاہتاتووہ بلند آواز سے کہتاکہ میں اس وادی کے جن سے پناہ مانگتاہوں کہ اس کی قوم کے برے افراداس تنگ کریں ،یہ پناہ مانگ کروہ سمجھتاتھاکہ وہ صبح تک مامون ہوگیاہے۔[7]

قال:أعوذ بسید هَذَا الوادی من سفهاء قومه فیبیت آمنا فی جوارهم حتى یصبح

کہتے تھے ہم اس وادی کے سردارجن کے شرسے پناہ مانگتے ہیں ،یہ پناہ مانگ کروہ سمجھتاتھاکہ وہ صبح تک مامون ہوگیاہے۔[8]

قَالُوا: نَعُوذُ بِأَعَزِّ هَذَا الْمَكَانِ

وہ کہتاتھامیں اس جگہ کے سردارکی پناہ مانگتاہوں کہ اس کی قوم کے برے لوگ تنگ کریں ۔[9]

قالوا: نعوذ بسید هذا الوادی من شرّ ما فیه

وہ کہتاتھامیں اس وادی کے سردارکی پناہ مانگتاہوں کہ مجھے اس سے کوئی برائی پہنچے۔[10]

توجنوں کی سرکشی وطغیانی اور کفروظلم اورزیادہ بڑھ گیااوروہ اپنی گمراہی میں زیادہ جری ہوگئے،

وقال مجاهد: طغیانا .وقال ابن زید: خوفا

مجاہد رحمہ اللہ کہتے ہیں کافرلوگ سرکشی اورطغیان میں بہت بڑھ گئے،ابن زید رحمہ اللہ کہتے ہیں جنات نے ان لوگوں کوبہت زیادہ خوف زدہ کردیا۔[11]

علماء  کااس بات پراتفاق ہے کہ غیراللہ سے استعاذہ ممنوع اورحرام ہے،ملاعلی قاری حنفی رحمہ اللہ لکھتے ہیں جنات وغیرہ سے استعاذہ کرناممنوع اورحرام ہے اوراس عمل بدپراللہ تعالیٰ نے کافروں اورمشرکوں کی مذمت فرمائی ہے ، اللہ تعالیٰ نے ارشادفرمایاہے،

وَیَوْمَ یَحْشُرُہُمْ جَمِیْعًا۝۰ۚ یٰمَعْشَرَ الْجِنِّ قَدِ اسْتَكْثَرْتُمْ مِّنَ الْاِنْسِ۝۰ۚ وَقَالَ اَوْلِیٰۗـؤُہُمْ مِّنَ الْاِنْسِ رَبَّنَا اسْتَمْتَعَ بَعْضُنَا بِبَعْضٍ وَّبَلَغْنَآ اَجَلَنَا الَّذِیْٓ اَجَّلْتَ لَنَا۝۰ۭ قَالَ النَّارُ مَثْوٰىكُمْ خٰلِدِیْنَ فِیْہَآ اِلَّا مَا شَاۗءَ اللہُ۝۰ۭ اِنَّ رَبَّكَ حَكِیْمٌ عَلِیْمٌ۝۱۲۸ [12]

ترجمہ:جس روز اللہ ان سب لوگوں کو گھیر کر جمع کرے گا، اس روز وہ جنوں سے خطاب کر کے فرمائے گاکہ اے گروہ جِن! تم نے تو نوع انسانی پر خوب ہاتھ صاف کیا ، انسانوں میں سے جو ان کے رفیق تھے وہ عرض کریں گے پروردگار ! ہم میں سے ہر ایک نے دوسرے کو خوب استعمال کیا ہے اور اب ہم اس وقت پر آپہنچے ہیں جو تو نے ہمارے لیے مقرر کر دیا تھا، اللہ فرمائے گا اچھا اب آگ تمہارا ٹھکانا ہے اس میں تم ہمیشہ رہو گے، اس سے بچیں گے صرف وہی جنہیں اللہ بچانا چاہے گا، بیشک تمہارا رب دانا اور علیم ہے۔

جنات سے فائدہ حاصل کرنے کی صورت یہ ہوتی ہے کہ ان سے اپنی کوئی ضرورت پوری کروالے یااپناکوئی حکم منوالے یاکسی نامعلوم اورمقام بعیدکی خبرحاصل کرلے وغیرہ اورجنات کے انسانوں سے فائدہ حاصل کرنے کی صورت یہ ہوسکتی ہے کہ ان سے اپنی تعظیم کرالے یااس کواستعاذہ پرمجبورکردے یااپنے سامنے اس کوکسی کام کے لیے مجبور کردے وغیرہ ،خولہ بنت حکیم رضی اللہ عنہ (انہیں ام شریک کہاجاتاہے،یہ عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ کے نکاح میں تھیں جب وہ فوت ہو گئے توانہوں نے اپنے آپ کورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں نکاح کے لیے پیش کیاتھالیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے نکاح نہیں کیا،ابن عبدالبر رحمہ اللہ کہتے ہیں یہ بہت ہی پارسا اورصالحہ خاتون تھیں اورکتاب وسنت کے زیورعلم سے آراستہ تھیں )کہتی ہیں ۔

سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَقُولُ: مَنْ نَزَلَ مَنْزِلًا ثُمَّ قَالَ: أَعُوذُ بِكَلِمَاتِ اللهِ التَّامَّاتِ مِنْ شَرِّ مَا خَلَقَ، لَمْ یَضُرَّهُ شَیْءٌ، حَتَّى یَرْتَحِلَ مِنْ مَنْزِلِهِ ذَلِكَ

میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوفرماتے ہوئے سناکہ جوشخص کسی جگہ قیام کرے اوریہ دعا

أَعُوذُ بِكَلِمَاتِ اللهِ التَّامَّاتِ مِنْ شَرِّ مَا خَلَقَ

میں اللہ کی پناہ مانگتاہوں اس کے مکمل اوربے عیب کلمات کے ساتھ ،تمام مخلوق کے شرسےپڑھ لے تواس کووہاں سے روانہ ہونے تک کوئی چیزاسے ضررنہ پہنچاسکے گی۔[13]

اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کوان مقدس کلمات سے استعاذہ کی تعلیم دی اوردورجاہلیت میں جوجنات سے استعاذہ کیا جاتا تھااس کوترک کرنے کی تلقین کی ،اللہ تعالیٰ نے اس موقع پرمسلمانوں کواپنے ناموں اورصفات سے استعاذہ کے لیے ہداہت فرمائی ،

علامہ قرطبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں التامات کا مطلب یہ ہے کہ یہ ایسے کامل ترین کلمات ہیں جن میں اس طرح نقص پایاجاناممکن نہیں ہے جس طرح کہ انسانوں کے کلام میں نقص پیداہوجاتاہے ،یہ کلمات نقص سے مبرااوربے عیب ہیں ۔

ان کلمات کی حیثیت ایک رہنماکی ہے جس سے انسان موذی چیزوں سے محفوظ رہتاہے چونکہ اللہ تعالیٰ کی صفات کے ساتھ استعاذہ کی طرف توجہ دلائی گئی ہے اوریہ انتہائی پسندیدہ عمل ہے لہذاہرشخص پرلازم ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے اسماء اورصفات سے استعاذہ کرے اوراپنی آرزوؤ ں کوصدق دل سے اس کے سامنے پیش کرے ،استعاذہ کے بارے میں اللہ تعالیٰ پربھروسہ رکھے اوراس کواپنے دل کی گہرائیوں میں اتارے ،جب کسی شخص میں یہ صفات پیداہوجائیں گی توان شاء اللہ وہ اپنے مقصدمیں کامیاب ہوگااپنی آرزواورخواہش کوپالے گااوراس کے گناہ بھی معاف ہوجائیں گے،

شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں ائمہ کرام جن میں امام احمد رحمہ اللہ سرفہرست ہیں اس بات کی تصریح فرمائی ہے کہ مخلوق میں سے کسی سے بھی استعاذہ کرناجائزنہیں ہے اوراسی سے ان ائمہ نے قرآن کریم کے غیرمخلوق ہونے کااستدلال کیاہے ،

تمام ائمہ نے یہ لکھااورکہاہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کے کلمات سے استعاذہ اورپناہ کرنے کاحکم فرمایاہے اورخودبھی اس پرعمل کیاہے ،اسی بناپرعلماء نے ایسے تعویذات سے سختی سے منع فرمایاہے جن کے معانی کاعلم نہ ہواس کی وجہ یہ ہے کہ مباداان میں شرکیہ کلمات ہوں ۔

علامہ ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں جوشخص کسی سلطان کے لیے کوئی جانورذبح کرے اس کوپکارے یااس سے استعاذہ کرے اوراپنی محبوب چیزکے حصول کے لیے اس کا قرب حاصل کرے تویوں سمجھیے کہ اس شخص نے شیطان کی عبادت کی ہے اگرچہ وہ شخص اس کوعبادت سے تعبیرنہ کرے بلکہ خدمت ہی کے نام سے کیوں نہ تعبیر کرے،شیطان پراعتمادکرکے ہی اس سے خدمت لی جاسکتی ہے اس فعل سے انسان شیطان کے غلاموں اوراس کے پجاریوں میں شمارہوگا،اسی وجہ سے شیطان انسان کی خدمت کرتاہے لیکن شیطان کے انسان کی خدمت کرنے کایہ مطلب ہرگزنہ ہوگاکہ شیطان نے انسان کی عبادت کی ہے کیونکہ شیطان توکسی کے سامنے نہ جھکتاہے نہ کسی کی عبادت کرتاہے بر خلاف انسان کے کہ وہ شیطان کے سامنے جھکتابھی ہے اوراس کی عبادت بھی کرتاہے ،اللہ تعالیٰ نے فرمایا

مِنْ شَرِّ مَا خَلَقَ۝۲ۙ [14]

ترجمہ:ہر اس چیز کے شر سے جو اس نے پیدا کی ہے۔

علامہ ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں یعنی ہرشرسے جس مخلوق میں بھی پایاجائے وہ مخلوق حیوان ہویاغیرحیوان جن ہویاانسان،چوپایہ ہویاکوئی زہریلاکیڑا،ہوامیں ہویارعدوبجلی میں الغرض دنیااورآخرت کی کسی چیزمیں بھی شرہو۔

انسانوں کی طرح تمہارایہ خیال کہ اللہ کسی رسول کومبعوث نہیں کرے گاغلط ثابت ہو گیا اللہ نے اپنی رحمت سے جن وانس کی رشدوہدایت کے لئے اپنا رسول مبعوث فرمادیاہےاوراس پراپناجلیل القدرکلام نازل فرمارہاہے۔

وَأَنَّا لَمَسْنَا السَّمَاءَ فَوَجَدْنَاهَا مُلِئَتْ حَرَسًا شَدِیدًا وَشُهُبًا ‎﴿٨﴾‏ وَأَنَّا كُنَّا نَقْعُدُ مِنْهَا مَقَاعِدَ لِلسَّمْعِ ۖ فَمَن یَسْتَمِعِ الْآنَ یَجِدْ لَهُ شِهَابًا رَّصَدًا ‎﴿٩﴾‏ وَأَنَّا لَا نَدْرِی أَشَرٌّ أُرِیدَ بِمَن فِی الْأَرْضِ أَمْ أَرَادَ بِهِمْ رَبُّهُمْ رَشَدًا ‎﴿١٠﴾‏ وَأَنَّا مِنَّا الصَّالِحُونَ وَمِنَّا دُونَ ذَٰلِكَ ۖ كُنَّا طَرَائِقَ قِدَدًا ‎﴿١١﴾‏ وَأَنَّا ظَنَنَّا أَن لَّن نُّعْجِزَ اللَّهَ فِی الْأَرْضِ وَلَن نُّعْجِزَهُ هَرَبًا ‎﴿١٢﴾‏ وَأَنَّا لَمَّا سَمِعْنَا الْهُدَىٰ آمَنَّا بِهِ ۖ فَمَن یُؤْمِن بِرَبِّهِ فَلَا یَخَافُ بَخْسًا وَلَا رَهَقًا ‎﴿١٣﴾‏وَأَنَّا مِنَّا الْمُسْلِمُونَ وَمِنَّا الْقَاسِطُونَ ۖ فَمَنْ أَسْلَمَ فَأُولَٰئِكَ تَحَرَّوْا رَشَدًا ‎﴿١٤﴾‏ وَأَمَّا الْقَاسِطُونَ فَكَانُوا لِجَهَنَّمَ حَطَبًا ‎﴿١٥﴾ (الجن)

اور ہم نے آسمان کو ٹٹول کر دیکھا تو اسے سخت چوکیداروں اور سخت شعلوں سے پر پایا، اس سے پہلے ہم باتیں سننے کے لیے آسمان میں جگہ جگہ بیٹھ جایا کرتے تھے، اب جو بھی کان لگاتا ہے وہ ایک شعلے کو اپنی تاک میں پاتا ہے ،ہم نہیں جانتے کہ زمین والوں کے ساتھ کسی برائی کا ارادہ کیا گیا ہے یا ان کے رب کا ارادہ ان کے ساتھ بھلائی کا ہے، اور یہ کہ (بیشک) بعض تو ہم میں نیکوکار ہیں اور بعض اس کے برعکس بھی ہیں ، ہم مختلف طریقوں سے بٹے ہوئے ہیں ،اور ہم نے سمجھ لیا کہ ہم اللہ تعالیٰ کو زمین میں ہرگز عاجز نہیں کرسکتے اور نہ بھاگ کر اسے ہرا سکتے ہیں ، ہم تو ہدایت کی بات سنتے ہیں اس  پر ایمان لا چکے ہیں اور جو بھی اپنے رب پر ایمان لائے گا نہ کسی نقصان کا اندیشہ ہے نہ ظلم و ستم کا، ہاں ہم میں بعض تو مسلمان ہیں  اور بعض بےانصاف ہیں ، پس جو فرماں بردار ہوگئے انہوں نے تو راہ راست کا قصد کیا اور جو ظالم ہیں   وہ جہنم کا ایندھن بن گئے۔


ہم نے آسمان کوٹٹولاتودیکھاکہ وہ پہرے داروں سے پٹاپڑاہے اورشہابوں کی بارش ہورہی ہے،پہلے ہم عالم بالا میں بیٹھنے کی جگہ پالیتے تھے اوروہاں سے کچھ سن گن لے آتے تھےاورکاہنوں تک یہ خبریں پہنچادیتے تھے جس میں وہ اپنی طرف سے سوجھوٹ ملاکرلوگوں کوبتلایاکرتے تھے مگراب اتناسخت انتظام کردیا گیا ہے کہ جب ہم وہاں کچھ چوری چھپے سن گن لینے کی کوشش کرتے ہیں توآگ کاایک انگارہ ہماری گھات میں لگ جاتا ہے ۔

أَنَّ عَبْدَ اللهِ بْنَ عَبَّاسٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِی رَجُلٌ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مِنَ الْأَنْصَارِ، أَنَّهُمْ بَیْنَمَا هُمْ جُلُوسٌ لَیْلَةً مَعَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ رُمِیَ بِنَجْمٍ فَاسْتَنَارَ، فَقَالَ لَهُمْ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: مَاذَا كُنْتُمْ تَقُولُونَ فِی الْجَاهِلِیَّةِ، إِذَا رُمِیَ بِمِثْلِ هَذَا؟ قَالُوا: اللهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، كُنَّا نَقُولُ وُلِدَ اللَّیْلَةَ رَجُلٌ عَظِیمٌ، وَمَاتَ رَجُلٌ عَظِیمٌ،

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ مجھ سے ایک انصاری صحابی نے بیان کیاکہ وہ رات کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بیٹھے تھے اتنے میں ایک ستارہ ٹوٹااوربہت چمکا،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجاہلیت کے زمانے میں جب ایساواقعہ ہوتاتوتم کیاکہتے تھے،انہوں نے کہااللہ اوراس کارسول خوب جانتاہے لیکن ہم زمانہ جاہلیت میں یوں کہتے تھے آج کی رات کوئی بڑاشخص پیداہوایافوت ہواہے،

فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: فَإِنَّهَا لَا یُرْمَى بِهَا لِمَوْتِ أَحَدٍ وَلَا لِحَیَاتِهِ، وَلَكِنْ رَبُّنَا تَبَارَكَ وَتَعَالَى اسْمُهُ، إِذَا قَضَى أَمْرًا سَبَّحَ حَمَلَةُ الْعَرْشِ، ثُمَّ سَبَّحَ أَهْلُ السَّمَاءِ الَّذِینَ یَلُونَهُمْ، حَتَّى یَبْلُغَ التَّسْبِیحُ أَهْلَ هَذِهِ السَّمَاءِ الدُّنْیَا ثُمَّ قَالَ: الَّذِینَ یَلُونَ حَمَلَةَ الْعَرْشِ لِحَمَلَةِ الْعَرْشِ: مَاذَا قَالَ رَبُّكُمْ؟ فَیُخْبِرُونَهُمْ مَاذَا قَالَ: قَالَ فَیَسْتَخْبِرُ بَعْضُ أَهْلِ السَّمَاوَاتِ بَعْضًا، حَتَّى یَبْلُغَ الْخَبَرُ هَذِهِ السَّمَاءَ الدُّنْیَا، فَتَخْطَفُ الْجِنُّ السَّمْعَ فَیَقْذِفُونَ إِلَى أَوْلِیَائِهِمْ، وَیُرْمَوْنَ بِهِ، فَمَا جَاءُوا بِهِ عَلَى وَجْهِهِ فَهُوَ حَقٌّ، وَلَكِنَّهُمْ یَقْرِفُونَ فِیهِ وَیَزِیدُونَ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاستارہ کسی کے فوت ہونے یاپیداہونے کے لئے نہیں ٹوٹتالیکن ہمارامالک جل جلالہ جب کچھ حکم دیتاہے توعرش کے اٹھانے والے فرشتے تسبیح کرتے ہیں پھران کی آوازسن کران کے پاس والے آسمان کے فرشتے تسبیح کہتے ہیں یہاں تک تسبیح کی نوبت آسمان دنیاتک پہنچتی ہے،پھرجولوگ عرش اٹھانے والے فرشتوں سے قریب ہیں وہ ان سے پوچھتے ہیں کہ تمہارے مالک نے کیاحکم دیاہے؟وہ بیان کرتے ہیں ،اسی طرح آسمان والے ایک دوسرے سے بیان کرتے ہیں یہاں تک کہ وہ خبرآسمان دنیاوالوں تک پہنچتی ہے،ان سے وہ خبرجن اڑالیتے ہیں اوراپنے دوستوں کوآکرسناتے ہیں ،فرشتے جب ان جنوں کودیکھتے ہیں توان تاروں سے مارتے ہیں ، پھرجوخبرجن لاتے ہیں اگراتنی ہی کہیں توسچ ہے لیکن وہ جھوٹ ملاتے ہیں اوراس میں زیادہ کرتے ہیں ۔[15]

اتنے سخت اورغیرمعمولی انتظامات کی دووجہ ہماری سمجھ میں آتی تھی ،ایک یہ کہ اللہ نے اہل زمین پریکایک کوئی عذاب نازل کرنے کافیصلہ فرمایاہے،دوسرے یہ کہ اللہ نے زمین پررشدوہدایت کے لئے رسول مبعوث فرمایا ہو،ہم اسی تلاش میں نکلے تھےکہ صبح کے وقت وادی نخلہ میں ہم نے یہ پاکیزہ کلام سناتوہمیں معلوم ہوگیاکہ اللہ تعالیٰ نے زمین پرعذاب نازل کرنے کافیصلہ نہیں فرمایا بلکہ خلق کو راہ راست دکھانے کے لئے ایک رسول مبعوث فرمایا ہے،پھرجنوں نے اپنی قوم کے اختلافات کاذکرکیاکہ ہم اخلاقی لحاظ سے بھی مختلف جماعتوں (یعنی اچھے برے) اور مذہبی لحاظ سے بھی مختلف گروہوں ( مسلمان،کافر، عیسائی، مجوسی وغیرہ )میں منقسم ہیں ،پھرفخریہ طورپرکہاکہ جب ہم پر پوری طرح واضح ہوگیا کہ اللہ تعالیٰ کامل قدرت کا مالک اورہم کامل طورپربے بس ہیں ، ہماری پیشانیاں اسی کے ہاتھ میں ہیں اگرہم نے اس کی نافرمانی کی توکہیں بھی اس کی گرفت سے بچ نہیں سکیں گے،اس لئے جب وہ لاثانی کلام ہم نے سناجوصراط مستقیم کی طرف رہنمائی کرتاہے، ہم نے اس کی رشدوہدایت کوپہچان لیااوراس کلام نے ہمارے دلوں پراثرکیا تو اپنے عقائدباطلاپرجمے رہنے کے بجائے فوراً اس پر ایمان لے آئے،اب جوکوئی اپنے رب پر سچا ایمان لائے گااسے اس بات کااندیشہ نہیں ہوگاکہ اس کے اجروثواب میں کمی کردی گئی ہے اورنہ یہ خوف ہوگا کہ اس کی برائیوں میں اضافہ کردیاگیاہے،بیشک ہم میں بعض مسلمان ہیں اوربعض کافر ،پس جواللہ ،اس کے رسول اورآخرت پرایمان لائے گااوران کی اطاعت میں عمل صالحہ اختیارکرے گااس نے راہ راست کواختیارکرلیااوراللہ کی رحمت ونعمتوں کاامیدواربن گیااورجو تکذیب کریں گے توایسے ظالموں کواللہ ان کے ظلم کی پاداش میں جہنم رسیدکرے گا،جیسے فرمایا:

۔۔۔ وَمَنْ یُّطِعِ اللهَ وَرَسُوْلَهٗ یُدْخِلْهُ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ۝۰ۚ وَمَنْ یَّتَوَلَّ یُعَذِّبْهُ عَذَابًا اَلِـــیْمًا۝۱۷ۧ [16]

ترجمہ:جو کوئی اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرے گا اللہ اسے ان جنتوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہوں گی، اور جو منہ پھیرے گا اسے وہ درد ناک عذاب دے گا ۔

وَأَن لَّوِ اسْتَقَامُوا عَلَى الطَّرِیقَةِ لَأَسْقَیْنَاهُم مَّاءً غَدَقًا ‎﴿١٦﴾‏ لِّنَفْتِنَهُمْ فِیهِ ۚ وَمَن یُعْرِضْ عَن ذِكْرِ رَبِّهِ یَسْلُكْهُ عَذَابًا صَعَدًا ‎﴿١٧﴾‏ وَأَنَّ الْمَسَاجِدَ لِلَّهِ فَلَا تَدْعُوا مَعَ اللَّهِ أَحَدًا ‎﴿١٨﴾‏ وَأَنَّهُ لَمَّا قَامَ عَبْدُ اللَّهِ یَدْعُوهُ كَادُوا یَكُونُونَ عَلَیْهِ لِبَدًا ‎﴿١٩﴾‏  (الجن)

اور(اے نبی یہ بھی کہہ دو!کہ اگرلوگ اگرراہ راست پرسیدھے رہتے تویقیناہم انہیں بہت وافرپانی پلاتے تاکہ ہم اس میں انہیں آزمالیں ،اور جوشخص اپنے پروردگار کے ذکرسے منہ پھیرلے گاتواللہ تعالیٰ اسے سخت عذاب میں  مبتلا کر دے گااوریہ کہ مسجدیں صرف اللہ ہی کے لئے خاص ہیں ،پس اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی اورکونہ پکارواورجب اللہ کابندہ اس کی عبادت کے لئے کھڑا ہوا توقریب تھاکہ وہ بھیڑکی بھیڑیں بن کر اس پرپل پڑیں ۔


جنوں کی بات ختم کرکے اللہ تعالیٰ نے ارشادفرمایااے نبی صلی اللہ علیہ وسلم !ان منکرین حق سے کہیں کہ اللہ نے میری طرف وحی فرمائی ہے کہ اگریہ لوگ اللہ پر ایمان لاتے،رسولوں کی اطاعت کرتے اوراپنی زندگی نازل شدہ تعلیمات کے مطابق بسرکرتے تواللہ ان پرآسمان وزمین کی برکتیں کھول دیتا ،اللہ کے حکم سے زمین اپنے اندرچھپے خزانے اگل دیتی ، جیسےفرمایا

وَلَوْ اَنَّ اَهْلَ الْقُرٰٓی اٰمَنُوْا وَاتَّقَوْا لَفَتَحْنَا عَلَیْهِمْ بَرَكٰتٍ مِّنَ السَّمَاۗءِ وَالْاَرْضِ وَلٰكِنْ كَذَّبُوْا۔۔۔۝۹۶ [17]

ترجمہ: اگر بستیوں کے لوگ ایمان لاتے اور تقویٰ کی روش اختیار کرتے تو ہم ان پر آسمان اور زمین سے برکتوں کے دروازے کھول دیتے ، مگر انہوں نے تو جھٹلایا ۔

نوح علیہ السلام نے اپنی قوم سے فرمایا تھا۔

 فَقُلْتُ اسْتَغْفِرُوْا رَبَّكُمْ۝۰ۭ اِنَّهٗ كَانَ غَفَّارًا۝۱۰ۙیُّرْسِلِ السَّمَاۗءَ عَلَیْكُمْ مِّدْرَارًا۝۱۱ۙوَّیُمْدِدْكُمْ بِاَمْوَالٍ وَّبَنِیْنَ وَیَجْعَلْ لَّكُمْ جَنّٰتٍ وَّیَجْعَلْ لَّكُمْ اَنْهٰرًا۝۱۲ۭ [18]

ترجمہ:میں نے کہا اپنے رب سے معافی مانگو ! بے شک وہ بڑا معاف کرنے والا ہے،وہ تم پر آسمان سے خوب بارشیں برسائے گا ، تمہیں مال اور اولاد سے نوازے گا ، تمہارے لیے باغ پیدا کرے گا اور تمہارے لیے نہریں جاری کر دے گا۔

پھراللہ دیکھتاکہ اس کی نعمتیں پاکرکون شکر گزار بندے بنتے ہیں اورکون گمراہی کی طرف لوٹ جاتے ہیں ،اپنے رب کی عطافرمائی ہوئی دولت کوصحیح راہ پر خرچ کرکے اللہ کی خوشنودی حاصل کرتے ہیں یاشیطان کے ساتھی بن کرنمودونمائش اور فضول خرچی میں اڑاتے ہیں ،اگرکوئی اللہ کی نازل کی ہوئی نصیحت کو سننا گواراہ نہیں کرتا،اس پرایمان نہیں لاتا،اس کااتباع نہیں کرتابلکہ اس کے بارے میں غافل رہتاہے تو اللہ اپنی رحمت کوٹھکرانے کے جرم میں اسے الم ناک عذاب میں مبتلاکرے گا،ویسے تواللہ تعالیٰ کی ساری زمین ہی عبادت گاہ ہے۔

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ،أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:جُعِلَتْ لِیَ الْأَرْضُ مَسْجِدًا وَطَهُورًا

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایازمین میرے لئے پاک کرنے والی بنائی گئی ہے اورجائے سجدہ بھی۔[19]

پلیدزمین پر،قبرستان اورمذبح میں نمازمنع ہے اسی طرح اونٹوں کے باڑے میں بھی منع ہے۔

مگربطورخاص مساجدکی تعمیرکی غرض وغایت کا ذکرفرمایاکہ مساجد جو عبادت کے لئے سب سے بڑامقام ومحل ہے ،جواللہ کے اخلاص ،اس کی عظمت کے سامنے خضوع اوراس کے غلبے کے سامنے فروتنی کی بنیاد پرتعمیرکی گئی ہیں کا مقصد صرف ایک اللہ وحدہ لاشریک کی عبادت ہے ،اس لئے مسجدوں میں کسی اورکی عبادت ،کسی اورسے دعاومناجات ،کسی اورسے استغاثہ و استمداد جائز نہیں ،جب اللہ کارسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم مدتوں سے گمراہی میں مبتلالوگوں کوراہ راست کی طرف بلانے کے لئے کھڑاہواتوجن وانس اس کے خلاف کھڑے ہوگئے ،کفارنے ایذارسانی ،مخالفت اورتکذیب پر کمر باندھ لی اور اللہ تعالیٰ کے نورکوپھونکوں سے بجھادینے کے لئے طرح طرح کی سازشیں کرنے لگے ۔

 قُلْ إِنَّمَا أَدْعُو رَبِّی وَلَا أُشْرِكُ بِهِ أَحَدًا ‎﴿٢٠﴾‏ قُلْ إِنِّی لَا أَمْلِكُ لَكُمْ ضَرًّا وَلَا رَشَدًا ‎﴿٢١﴾‏ قُلْ إِنِّی لَن یُجِیرَنِی مِنَ اللَّهِ أَحَدٌ وَلَنْ أَجِدَ مِن دُونِهِ مُلْتَحَدًا ‎﴿٢٢﴾‏ إِلَّا بَلَاغًا مِّنَ اللَّهِ وَرِسَالَاتِهِ ۚ وَمَن یَعْصِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَإِنَّ لَهُ نَارَ جَهَنَّمَ خَالِدِینَ فِیهَا أَبَدًا ‎﴿٢٣﴾   (الجن)

 آپ کہہ دیجئے کہ میں تو صرف اپنے رب ہی کو پکارتا ہوں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کرتا، کہہ دیجئے کہ مجھے تمہارے کسی نفع نقصان کا اختیار نہیں ، کہہ دیجئے کہ مجھے ہرگز کوئی اللہ سے بچا نہیں سکتا اور میں ہرگز اس کے سوا  کوئی جائے پناہ بھی نہیں پاسکتا،البتہ( میرا کام) اللہ کی بات اور اس کے پیغامات (لوگوں کو) پہنچا دینا ہے،


(اب) جو بھی اللہ اور اس کے رسول کی نہ مانے گااس کے لیے جہنم کی آگ ہے جس میں ایسے لوگ ہمیشہ رہیں گے۔

اعلان توحید:

اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم !جب یہ سب آپ کی عداوت پرمتحدہوگئے ہیں توآپ جس چیزکی طرف انہیں دعوت دے رہے ہیں ،اس کی حقیقت کا برملا اعلان فرمادیں کہ میں توبیشک اپنے رب کی عبادت کرتاہوں جس کاکوئی شریک نہیں ، میں اسی وحدہ لاشریک کی ذات پر مکمل آس وامید رکھتاہوں ، اسی سے ہرطرح کے شرسے اس کی پناہ طلب کرتا ہوں ، اسی پر ہی مکمل بھروسہ کرتاہوں اوربھروسہ کرنے والوں کواسی پرہی بھروسہ کرناچاہئے،جیسے فرمایا:

۔۔۔ اِنِ الْحُكْمُ اِلَّا لِلهِ۝۰ۭ عَلَیْهِ تَوَكَّلْتُ۝۰ۚ وَعَلَیْهِ فَلْیَتَوَكَّلِ الْمُتَوَكِّلُوْنَ۝۶۷ [20]

ترجمہ:حکم اس کے سوا کسی کا بھی نہیں چلتا، اسی پر میں نے بھروسہ کیا اور جس کو بھی بھروسہ کرنا ہو اسی پر کرے۔

اور اس کے سوا تمام خودساختہ معبودوں اوران ہستیوں سے بیزاری کا اعلان کرتا ہوں جن کو مشرکین نے اللہ کی صفات عطاکرکے معبودبنارکھاہے ،مجھے تمہاری رشدوہدایت کایاکسی اورطرح کے نفع یا نقصان کاکچھ بھی اختیارنہیں ہے ،جیسے ایک اورمقام پر فرمایا

قُلْ لَّآ اَمْلِكُ لِنَفْسِیْ نَفْعًا وَّلَا ضَرًّا اِلَّا مَا شَاۗءَ اللهُ۝۰ۭ وَلَوْ كُنْتُ اَعْلَمُ الْغَیْبَ لَاسْـتَكْثَرْتُ مِنَ الْخَیْرِ۝۰ۚۖۛ وَمَا مَسَّنِیَ السُّوْۗءُ۝۰ۚۛ اِنْ اَنَا اِلَّا نَذِیْرٌ وَّبَشِیْرٌ لِّقَوْمٍ یُّؤْمِنُوْنَ۝۱۸۸ۧ [21]

ترجمہ:اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ! ان سے کہو کہ میں اپنی ذات کے لیے کسی نفع اور نقصان کا اختیار نہیں رکھتا اللہ ہی جو کچھ چاہتا ہے وہی ہوتا ہے، اور اگر مجھے غیب کا علم ہوتا تو میں بہت سے فائدے اپنے لیے حاصل کرلیتا اور مجھے کبھی کوئی نقصان نہ پہنچتا ،میں تو محض ایک خبردار کرنے والا اور خوشخبری سنانے والا ہوں ان لوگوں کے لیے جو میری بات مانیں ۔

قُلْ لَّآ اَمْلِكُ لِنَفْسِیْ ضَرًّا وَّلَا نَفْعًا اِلَّا مَا شَاۗءَ اللهُ۝۰ۭ ۔۔۔۝۴۹ [22]

ترجمہ:کہو میرے اختیار میں خود اپنا نفع و ضرر بھی نہیں ، سب کچھ اللہ کی مشیّت پر موقوف ہے۔

میں توصرف اس کاایک عاجز بندہ ہوں جسے اللہ نے اپنی رحمت وکرم سے وحی ورسالت کے لئے منتخب فرمالیاہے،معاملے اورتصرف میں مجھے کوئی اختیارنہیں ،اگرمیں اس کے احکامات وہدایات کی نافرمانی کروں تواللہ کے سواکوئی اورہستی نہیں جو مجھے اس کی گرفت سے بچاسکے یا پناہ ہی دے سکے،میراکام پوری امانت ودیانت کے ساتھ لوگوں تک اللہ کے احکامات وہدایات واضح طورپرپہنچادینااوراس پرعمل کرکے دکھا دیناہے تاکہ لوگوں پرحجت قائم ہوجائے ،اس کے باوجود جولوگ اللہ اوراس کے رسول کی بات کی تکذیب کریں گے ، اللہ انہیں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے جہنم کے الم ناک عذاب میں مبتلاکردے گا۔

حَتَّىٰ إِذَا رَأَوْا مَا یُوعَدُونَ فَسَیَعْلَمُونَ مَنْ أَضْعَفُ نَاصِرًا وَأَقَلُّ عَدَدًا ‎﴿٢٤﴾‏(الجن)

(ان کی آنکھ نہ کھلے گی) یہاں تک کہ اسے دیکھ لیں جس کا ان کو وعدہ دیا جاتا ہے، پس عنقریب جان لیں گے کہ کس کا مددگار کمزور اور کس کی جماعت کم ہے ۔


اسلام کی دعوت عام کوشروع ہوئے ابھی زیادہ عرصہ نہیں گزراتھامگرچندکمزورمگرسلیم الفطرت لوگ اس پرایمان لے آئے تھےاورآئے روزکسی نہ کسی کے مسلمان ہونے کی خبر آتی رہتی تھی جس پرسرداران قریش کواپنے مشرکانہ آبائی دین کی فکرلاحق ہوگئی تھی، چنانچہ اس دعوت کوروکنے کے لئے انہوں نے کمزوروبے بس مسلمانوں پر ظلم وستم شروع کر دیا تھا،وہ اپنے اس زعم میں مبتلاتھے کہ ہماراجتھابڑازبردست ہے اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھی چندمٹھی بھرہیں اس لئے ظلم وستم سے یہ لوگ باآسانی واپس ان کی ملت پر پلٹ آئیں گے،جس پراللہ تعالیٰ نے فرمایاکہ اس وقت یہ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوکمزوراوربے یارومددگاراوراپنے آپ کوکثیرالتعداداورطاقتوردیکھ کرحق کی آوازکودبانے کے لئے بڑے دلیر ہو رہےہیں مگرجب دنیامیں یاآخرت میں وہ الم ناک عذاب دیکھ لیں گے اورانہیں یقین آجائے گاکہ وہ ان پرواقع ہونے والاہے اس وقت جن وانس کو حقیقت معلوم ہوجائے گی کہ اصل میں کس کا جتھا کمزور ہے اوربے یارومددگارکون ہیں ،اس وقت نہ وہ خوداپنی مددکرسکیں گے اورنہ کوئی دوسرامددکرنے والاہوگا ۔

قُلْ إِنْ أَدْرِی أَقَرِیبٌ مَّا تُوعَدُونَ أَمْ یَجْعَلُ لَهُ رَبِّی أَمَدًا ‎﴿٢٥﴾‏ عَالِمُ الْغَیْبِ فَلَا یُظْهِرُ عَلَىٰ غَیْبِهِ أَحَدًا ‎﴿٢٦﴾‏ إِلَّا مَنِ ارْتَضَىٰ مِن رَّسُولٍ فَإِنَّهُ یَسْلُكُ مِن بَیْنِ یَدَیْهِ وَمِنْ خَلْفِهِ رَصَدًا ‎﴿٢٧﴾‏ لِّیَعْلَمَ أَن قَدْ أَبْلَغُوا رِسَالَاتِ رَبِّهِمْ وَأَحَاطَ بِمَا لَدَیْهِمْ وَأَحْصَىٰ كُلَّ شَیْءٍ عَدَدًا ‎﴿٢٨﴾‏ الجن)

کہہ دیجئے مجھے معلوم نہیں کہ جس کا وعدہ تم سے کیا جاتا ہے، وہ قریب ہے یا میرا رب اس کے لیے دوری کی مدت مقرر کرے گا، وہ غیب کا جاننے والا ہے اور اپنے غیب پر کسی کو مطلع نہیں کرتاسوائے اس پیغمبر کے جسے وہ پسند کرلے، لیکن اس کے بھی آگے پیچھے پہرے دار مقرر کردیتا ہےتاکہ ان کے اپنے رب کے پیغام پہنچا دینے کا علم ہوجائے، اللہ تعالیٰ نے انکے آس پاس (کی تمام چیزوں ) کا احاطہ کر رکھا ہے، اور ہر چیز کی گنتی کا شمار کر رکھا ہے ۔


کسی کومعلوم نہیں کہ قیامت کب قائم ہوگی :

جب کفارکوعذاب کے وعدے کاذکرکیاگیاتوانہوں نے بطورطنزاورمذاق کے سوال کیاکہ جس عذاب سے آپ ہمیں ڈرا رہے ہیں وہ کب واقع ہوگا؟جیسے فرمایا:

وَیَقُوْلُوْنَ مَتٰى هٰذَا الْوَعْدُ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ۝۴۸ [23]

ترجمہ:کہتے ہیں اگر تمہاری یہ دھمکی سچی ہے تو آخر یہ کب پوری ہوگی ؟ ۔

اللہ تعالیٰ نے فرمایااے نبی صلی اللہ علیہ وسلم !انہیں فرمایادیں کہ اللہ علام الغیوب بعض غیب کے امورسے جن کاتعلق فرائض رسالت سے ہوتاہے یاوہ رسالت کی صداقت کی دلیل ہوتے ہیں یاکسی چیزکے لئے اس کی مشیت و حکمت تقاضاکرتی ہے مجھے مطلع فرما دیتا ہےتاکہ ان تعلیمات کے ذریعے میں لوگوں کوگمراہی سے بچنے کی تلقین کرسکوں ،ہاں جس دن کا وعدہ کیاجارہاہے اس دن کاآنا یقینی ہے مگروہ کب واقع ہوگا اس کے بارے میں مجھے مطلع نہیں فرمایا گیا ، جیسےفرمایا

۔۔۔ وَلَا یُحِیْطُوْنَ بِشَیْءٍ مِّنْ عِلْمِهٖٓ اِلَّا بِمَا شَاۗءَ ۔۔۔۝۲۵۵ [24]

ترجمہ: اور اس کی معلومات میں سے کوئی چیز ان کی گرفت ادراک میں نہیں آسکتی اِلا یہ کہ کسی چیز کا علم وہ خود ہی ان کو دینا چاہے ۔

اوراگریہ آپ سے پوچھیں کہ قیامت قائم ہونے کی جودھمکی آپ دے ہیں ہیں کب پوری ہوگی؟ توآپ ان سے کہہ دیں اللہ تعالیٰ ہی علام الغیوب ہے وہی جانتاہے کہ وہ دن جلدی آنے والاہے یااس کی ایک طویل مدت مقررکی گئی ہے،

مَتَى السَّاعَةُ؟ قَالَ: مَا المَسْئُولُ عَنْهَا بِأَعْلَمَ مِنَ السَّائِلِ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سےمروی ہے کہ جبرائیل علیہ السلام نے ایک اعرابی کی شکل میں ظاہرہوکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیاقیامت کب آئے گی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااس کے بارے میں جواب دینے والاپوچھنے والے سے کچھ زیادہ نہیں جانتا۔[25]

اورنزول وحی کے وقت اللہ تعالیٰ وحی کی حفاظت کے لئےاس کے آگے اورپیچھے نگہبان فرشتے مقررفرمادیتاہےتاکہ وہ علم نہایت محفوظ طریقے سے رسول تک پہنچ جائے اوراس میں کسی قسم کی آمیزش نہ ہونے پائے اور تاکہ اللہ تعالیٰ جان لے کہ فرشتوں نے اللہ تعالیٰ کے پیغامات اس کے رسول تک ٹھیک ٹھیک پہنچادیے ہیں اور رسولوں نے اپنے رب کے پیغامات لوگوں تک پوری امانت ودیانت کے ساتھ پہنچادیے ہیں ، اورجوکچھ ان کے پاس ہے جسے وہ چھپاتے ہیں اورجسے وہ ظاہرکرتے ہیں اللہ تعالیٰ نے اس کا ایک ایک حرف شمارکر رکھاہے

[1] صحیح بخاری کتاب الاذان بَابُ الجَهْرِ بِقِرَاءَةِ صَلاَةِ الفَجْرِ ۷۷۳،صحیح مسلم کتاب الصلاة بَابُ الْجَهْرِ بِالْقِرَاءَةِ فِی الصُّبْحِ وَالْقِرَاءَةِ عَلَى الْجِنِّ۱۰۰۶ ، مسنداحمد۲۲۷۱

[2] تفسیرابن کثیر۲۸۹؍۷

[3] الاحقاف۲۹

[4] الرحمٰن۲۶،۲۷

[5] تفسیرالثالبی۔الكشف والبیان عن تفسیر القرآن۵۰؍۱۰

[6] تفسیر السمرقندی۔ بحرالعلوم ۵۰۵؍۳

[7] تفسیرالقرآن العزیزلابن ابی زمنین۴۳؍۵

[8] تفسیر مقاتل بن سلیمان ۴۶۲؍۴

[9] تفسیرعبدالرزاق۳۵۱؍۳

[10] تفسر طبری ۶۵۴؍۲۳

[11] تفسیرثعالبی۔الكشف والبیان عن تفسیر القرآن۵۱؍۱۰

[12] الانعام۱۲۸

[13] صحیح مسلم كتاب الذِّكْرِ وَالدُّعَاءِ وَالتَّوْبَةِ وَالِاسْتِغْفَارِ بَابٌ فِی التَّعَوُّذِ مِنْ سُوءِ الْقَضَاءِ وَدَرَكِ الشَّقَاءِ وَغَیْرِهِ۶۸۷۸،جامع ترمذی أَبْوَابُ الدَّعَوَاتِ بَاب مَا جَاءَ مَا یَقُولُ إِذَا نَزَلَ مَنْزِلاً۳۴۳۷

[14] الفلق۲

[15] صحیح مسلم کتاب السلام بَابُ تَحْرِیمِ الْكَهَانَةِ وَإِتْیَانِ الْكُهَّانِ ۵۸۱۹،جامع ترمذی ابواب تفسیرالقرآن بَابٌ وَمِنْ سُورَةِ سَبَأٍ ۳۲۲۴

[16] الفتح۱۷

[17] الاعراف۹۶

[18] نوح۱۰تا۱۲

[19] سنن ابن ماجہ كِتَابُ الطَّهَارَةِ وَسُنَنِهَا بَابُ مَا جَاءَ فِی السَّبَبِ ۵۶۷،صحیح بخاری کتاب الصلوٰة بَابُ قَوْلِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ جُعِلَتْ لِی الأَرْضُ مَسْجِدًا وَطَهُورًا۴۳۸،سنن نسائی کتاب المساجد باب الرُّخْصَةُ فِی ذَلِكَ۷۳۷،سنن ابوداودکتاب الصلاة بَابٌ فِی الْمَوَاضِعِ الَّتِی لَا تَجُوزُ فِیهَا الصَّلَاةُ عن ابی ذر ۴۸۹،جامع ترمذی ابواب الصلوٰة بَابُ مَا جَاءَ أَنَّ الأَرْضَ كُلَّهَا مَسْجِدٌ إِلاَّ الْمَقْبَرَةَ وَالحَمَّامَ ۳۱۷،سنن الکبری للنسائی ۸۱۷،مسنداحمد۷۲۶۶،صحیح ابن حبان ۲۳۱۳،مصنف عبد الرزاق ۹۸

[20] یوسف۶۷

[21] الاعراف۱۸۸

[22] یونس۴۹

[23] یونس۴۸،الانبیاء ۳۸،النمل۷۱،سبا۲۹،یٰسین۴۸،الملک۲۵

[24] البقرة۲۵۵

[25] صحیح بخاری کتاب الایمان بَابُ سُؤَالِ جِبْرِیلَ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الإِیمَانِ، وَالإِسْلاَمِ، وَالإِحْسَانِ، وَعِلْمِ السَّاعَةِ۵۰

Related Articles