بعثت نبوی کا پہلا سال

نزول سورةالمدثر۸تا۵۶

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

شروع کرتا ہوں میں اللہ تعالیٰ کے نام سے جو نہایت مہربان بڑا رحم والا ہے۔

فَإِذَا نُقِرَ فِی النَّاقُورِ ‎﴿٨﴾‏ فَذَٰلِكَ یَوْمَئِذٍ یَوْمٌ عَسِیرٌ ‎﴿٩﴾‏ عَلَى الْكَافِرِینَ غَیْرُ یَسِیرٍ ‎﴿١٠﴾‏ ذَرْنِی وَمَنْ خَلَقْتُ وَحِیدًا ‎﴿١١﴾‏ وَجَعَلْتُ لَهُ مَالًا مَّمْدُودًا ‎﴿١٢﴾‏ وَبَنِینَ شُهُودًا ‎﴿١٣﴾‏ وَمَهَّدتُّ لَهُ تَمْهِیدًا ‎﴿١٤﴾‏ ثُمَّ یَطْمَعُ أَنْ أَزِیدَ ‎﴿١٥﴾‏ كَلَّا ۖ إِنَّهُ كَانَ لِآیَاتِنَا عَنِیدًا ‎﴿١٦﴾‏ سَأُرْهِقُهُ صَعُودًا ‎﴿١٧﴾‏(المدثر)

پس جبکہ صور میں پھونک ماری جائے گی وہ دن بڑا سخت دن ہوگا، (جو) کافروں پر آسان نہ ہوگا، مجھے اور اسے چھوڑ دے جسے میں نے اکیلا پیدا کیا ہے، اور اسے بہت سا مال دے رکھا تھااور حاضر باش فرزند بھی، اور میں نے اسے بہت کچھ کشادگی دے رکھی ہے پھر بھی اس کی چاہت ہے کہ میں اسے اور زیادہ دوں ، نہیں نہیں ، وہ ہماری آیتوں کا مخالف ہےعنقریب میں اسے ایک سخت چڑھائی چڑھاؤں گا۔


رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے دین کااظہارکھلم کھلابیت اللہ میں نمازپڑھنے اورپھرعلانیہ دعوت اسلام شروع کرچکے تھے،جسے ایک قلیل التعداد سلیم الفطرت لوگ قبول بھی کرچکے تھے ، مشرکین مکہ کے کان کھڑے ہوچکے تھے کہ ان کی سیادت وقیادت اورآباؤ اجدادکے مشرکانہ دین کوخطرہ لاحق ہوچکاہے ،ان کے عقائدکوایک پراثراوردلاویزکلام سے پر زور دلائل سے جھٹلایاجارہاہے،حج کامہینہ آچکاتھاانہیں اندیشہ لاحق ہواکہ کہیں یہ دعوت مکہ سے باہرنہ نکل جائے،اوراس عقیدے کے لوگوں کی تعداد بڑھ نہ جائے،

أَنَّهُمْ لَمَّا اجْتَمَعُوا فِی دَارِ النَّدْوَةِ لِیُجْمِعُوا رَأْیَهُمْ عَلَى قَوْلٍ یَقُولُونَهُ فِیهِ، قَبْلَ أَنْ یَقْدَمَ عَلَیْهِمْ وفودُ الْعَرَبِ لِلْحَجِّ لیصدّوهُم عَنْهُ قَالُوا: نَقُولُ كَاهِنٌ، قَالَ: لَا وَاَللَّهِ مَا هُوَ بِكَاهِنِ، لَقَدْ رَأَیْنَا الْكُهَّانَ فَمَا هُوَ بِزَمْزَمَةِ الْكَاهِنِ وَلَا سَجْعِهِ،قَالُوا: فَنَقُولُ: مَجْنُونٌ، قَالَ: مَا هُوَ بِمَجْنُونِ.لَقَدْ رَأَیْنَا الْجُنُونَ وَعَرَفْنَاهُ، فَمَا هُوَ بِخَنْقِهِ، وَلَا تَخَالُجِهِ، وَلَا وَسْوَسَتِهِ، قَالُوا:فَنَقُولُ: شَاعِرٌ قَالَ: مَا هُوَ بِشَاعِرِ، لَقَدْ عَرَفْنَا الشِّعْرَ كُلَّهُ رَجَزَهُ وَهَزَجَهُ وَقَرِیضَهُ وَمَقْبُوضَهُ وَمَبْسُوطَهُ، فَمَا هُوَ بِالشِّعْرِقَالُوا: فَنَقُولُ: سَاحِرٌقَالَ:مَا هُوَ بِسَاحِرِ، لَقَدْ رَأَیْنَا السُّحَّارَ وَسِحْرَهُمْ، فَمَا هُوَ بِنَفْثِهِمْ وَلَا عَقْدِهِمْ قَالُوا: فَمَا نَقُولُ یَا أَبَا عَبْدِ شَمْسٍ؟وَاَللَّهِ إنَّ لِقَوْلِهِ لَحَلَاوَةً، وَإِنَّ أَصْلَهُ لَعَذِقٌ ، وَإِنَّ فَرْعَهُ لَجُنَاةٌقَالَ ابْنُ هِشَامٍ: وَیُقَالُ لَغَدِقٌ وَمَا أَنْتُمْ بِقَائِلِینَ مِنْ هَذَا شَیْئًا إلَّا عُرِفَ أَنَّهُ بَاطِلٌ، وَإِنَّ أَقْرَبَ الْقَوْلِ فِیهِ لَأَنْ تَقُولُوا سَاحِرٌ، جَاءَ بِقَوْلٍ هُوَ سِحْرٌ یُفَرِّقُ بِهِ بَیْنَ الْمَرْءِ وَأَبِیهِ، وَبَیْنَ الْمَرْءِ وَأَخِیهِ، وَبَیْنَ الْمَرْءِوَزَوْجَتِهِ، وَبَیْنَ الْمَرْءِ وَعَشِیرَتِهِ، فَتُفَرِّقُوا عَنْهُ بِذَلِكَ، فَجَعَلُوا یَجْلِسُونَ بِسُبُلِ النَّاسِ حِینَ قَدِمُوا الْمَوْسِمَ، لَا یَمُرُّ بِهِمْ أَحَدٌ إلَّا حَذَّرُوهُ إیَّاهُ، وَذَكَرُوا لَهُمْ أَمْرَهُ

اس لئے حفظ ماتقدم کے طورپر مشترکہ لائحہ عمل اپنانے کے لئے انہوں نے دارالندوہ میں ایک میٹنگ بلائی،مختلف امورکاجائزہ لیاگیاکہ لوگوں کوکس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف ابھارا جائے ، لوگوں نے مختلف مشورے دیے،کسی نے کہاآپ کوکاہن کہاجائے،ولیدبن مغیرہ نے کہایہ کہنابے جااوربے محل ہوگاکیونکہ کاہن کی گن گناہٹ محمدمیں نہیں اورنہ اس کے کلام کے سے سجح ہیں اس بات میں تم جھوٹے ہوجاؤ گے،کسی نے رائے دی کہ انہیں مجنون کہاجائے،ولید نے کہایہ بھی حقیقت کے بالکل برعکس بات ہوگی مجنونوں کوہم نے دیکھاہے ان کی علامات بھی ان میں نہیں ہیں ، کسی نے کہاانہیں شاعرکہاجائے،ولیدنے کہا شعرااورشاعری کی اصناف سے ہم آگاہ ہیں ، رجز اور ہجز اور قریض اورمقبوض اورمبسوط سب کوہم جانتے ہیں ،محمد صلی اللہ علیہ وسلم جوکلام سناتے ہیں وہ شاعری نہیں ،کسی نے کہاانہیں ساحرکہاجائے،اس پرولیدنے پھرٹوکاکہ یہ بات بھی مناسب نہ ہوگی ہم نے ساحروں کوبخوبی دیکھاہے اورمنترجنترسے واقف ہیں ،آخروہ لوگ عاجزہوگئے توپوری قوم ولیدکے سر ہوگئی کہ اچھااے ابوعبدشمس (ولیدکی کنیت)آپ بتائیں ہمیں کیاکہناچاہے ؟ ولید بن مغیرہ نے جوکفروطغیان میں بہت بڑھاہواتھا کافی دیرسوچ بچار کے بعدبولا اللہ کی قسم! سچ بات تویہ ہے کہ محمدکےکلام میں حلاوت اورشیرینی ہے ،اس کلام کی جڑیں مضبوط اورگہری ہیں اورشاخیں ثمر آور!اوراے قریش !یہ جس قدرباتیں تم نے بیان کی ہیں ان میں سے جوبات تم کہوگے فوراًمعلوم ہوجائے گی کہ یہ جھوٹ اورباطل ہے،مگریہی بات مناسب معلوم ہوتی ہے کہ لوگوں کو بدگمان ، متنفر کرنے کے لئے تم انہیں ساحرکہواوریہ کہوکہ اس سحرہی کے سبب سے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) نے لوگوں میں تفرقہ ڈال دیاہے اوراس کاقول ایساہے کہ اس سے میاں بیوی اورباپ بیٹے اوربھائی بھائی اورکنبے اوربرادری میں تفریق ہوجاتی ہے،یہ تجویزسب نے پسندکی اور منظور ہو گئی اورسب لوگ منتشرہوگئے، چنانچہ ہرگلی کوچہ اورگزرگاہ پربیٹھ کرلوگوں کورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بہکانے اوربدگمان کرنے کے لیے یہ بات زائرین حرم سے کہی جانے لگی ،لیکن یہ پروپیگنڈا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مزیدشہرت کاسبب بن گیا۔ اللہ تعالیٰ نے اس کے جواب میں فرمایا اچھاتم دعوت اسلام کوجھٹلاتے ہو،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تکذیب کرتے ہو،مشرکانہ دین کو بچانے ،اپنی سیادت وقیادت کوقائم رکھنے اورحق کے ساتھ عنادکے لئے مقابلہ پراترآئے ہو،تم لوگوں نے یہ بھی سوچاکہ اسرافیل علیہ السلام جوصورکومنہ سے لگائے ،پیشانی جھکائے اللہ کے حکم کے منتظرہیں کہ کب حکم ہواوروہ صورپھونک دے ،

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ، قَالَ: قَالَ: حَدَّثَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: إِنَّ اللَّهَ لَمَّا خَلَقَ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضَ خَلَقَ الصُّورَ فَأَعْطَاهُ إِسْرَافِیلَ، فَهُوَ وَاضِعُهُ عَلَى فِیهِ، شَاخِصٌ بَصَرُهُ إِلَى الْعَرْشِ، یَنْتَظِرُ مَتَى یَأْمُرُهُ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااللہ تعالیٰ نے جب آسمانوں اورزمین کی تخلیق فرمائی تواس نے صورکی بھی تخلیق کی اوراسے اسرافیل علیہ السلام کے سپردکردیاوہ اس وقت سے اسے منہ سے لگائے سرجھکائے کھڑے ہیں ان کی نگاہیں اللہ کے عرش پرلگی ہیں کہ کب اللہ تعالیٰ کاحکم ہواوروہ اس میں پھونک دیں ۔[1] جب اللہ کے حکم سے وہ صور (نر سنگھا ،قرنا، بوق، بگل)میں پھونک ماریں گے( نَفْخُهُ الْفَزَعِ  یعنی گھبرادینے والا صور) جس کی ہیبت ناک آواز سے کائنات کاتمام نظام درہم برہم ہو جائے گا، چاندو سورج اوردوسرے سیارے آپس میں ٹکراجائیں گے اوران کی روشنی ختم ہوجائے گی۔

ِاِذَا الشَّمْسُ كُوِّرَتْ۝۱۠ۙوَاِذَا النُّجُوْمُ انْكَدَرَتْ۝۲۠ۙ [2]

ترجمہ: جب سورج لپیٹ دیاجائے گااورجب تارے بکھرجائیں گے ۔

یَوْمَ تَرْجُفُ الرَّاجِفَةُ۝۶ۙتَتْبَعُهَا الرَّادِفَةُ۝۷ۭ قُلُوْبٌ یَّوْمَىِٕذٍ وَّاجِفَةٌ۝۸ۙاَبْصَارُهَا خَاشِعَةٌ۝۹ۘ [3]

ترجمہ:جس روزہلامارے گا زلزلے کاایک جھٹکا اور اس کے بعددوسرا جھٹکا ، اس دن دل کانپ رہے ہوں گے اور نگاہیں خوف زدہ ہوں گی ۔

اِذَا زُلْزِلَتِ الْاَرْضُ زِلْزَالَهَا۝۱ۙوَاَخْرَجَتِ الْاَرْضُ اَثْقَالَهَا۝۲ۙوَقَالَ الْاِنْسَانُ مَا لَهَا۝۳ۚ [4]

ترجمہ: جبکہ زمین اپنی پوری شدت کے ساتھ ہلاڈالی جائے گی اورزمین اپنے اندر کے سارے بوجھ نکال کر باہر ڈال دے گی، اورانسان کہے گا کہ یہ اس کو کیا ہو رہاہے؟ ۔

فَاِذَا نُفِخَ فِی الصُّوْرِ نَفْخَةٌ وَّاحِدَةٌ۝۱۳ۙوَّحُمِلَتِ الْاَرْضُ وَالْجِبَالُ فَدُكَّتَا دَكَّةً وَّاحِدَةً۝۱۴ۙفَیَوْمَىِٕذٍ وَّقَعَتِ الْوَاقِعَةُ۝۱۵ۙ [5]

ترجمہ: جب صورمیں ایک پھونک مار دی جائے گی اور زمین اور پہاڑ اٹھاکرایک ہی چوٹ میں توڑدیے جائیں گے تووہ واقعہ عظیم پیش آ جائے گا ۔

اِذَا رُجَّتِ الْاَرْضُ رَجًّا۝۴ۙوَّبُسَّتِ الْجِبَالُ بَسًّا۝۵ۙفَكَانَتْ هَبَاۗءً مُّنْۢبَثًّا۝۶ۙ [6]

ترجمہ:جس روززمین جھنجھوڑ ڈالی جائے گی اور پہاڑ پراگندہ غباربن کر رہ جائیں گے۔

فَكَیْفَ تَتَّقُوْنَ اِنْ كَفَرْتُمْ یَوْمًا یَّجْعَلُ الْوِلْدَانَ شِیْبَۨا۝۱۷ۤۖالسَّمَاۗءُ مُنْفَطِرٌۢ بِهٖ ۝۱۸ [7]

ترجمہ:اگرتم نے پیغمبرکی بات نہ مانی توکیسے بچوگے اس دن کی آفت سے جو بچوں کو بوڑھاکر دے گااورجس کی شدت سے آسمان پھٹاپڑتا ہو گا ۔ الغرض زمین کی کیفیت ایسی ہوگی جیسے کشتی موجوں کے تھپیڑے کھاکرڈگمگاتی ہے ، اس دن کی ہولناکیوں اورسختیوں کودیکھ کر تم لوگ ہر بھلائی سے مایوس ہو جاؤ گے ،تمہیں اپنی ہلاکت وتباہی کایقین ہوجائے گا،وہ دن تمہارے لئے ہلکانہیں بلکہ بڑاہی سخت ہوگا، جیسا کہ کفار کہیں گے،

۔۔۔ یَقُوْلُ الْكٰفِرُوْنَ ھٰذَا یَوْمٌ عَسِرٌ۝۸ [8]

ترجمہ:کفارکہیں گے کہ یہ دن بڑاہی سخت ہے ۔ پھردوسرا صور(نَفْخُهُ الصَّعْق یعنی مارگرانے والا) پھونکا جائے گاجس کی آوازسے تمام لوگ ہلاک ہوجائیں گے یعنی قیامت برپاہو جائے گی ، پھرایک معین مدت کے بعداللہ زمین وآسمان کی موجودہ ہیئت کو بدل دے گااور ایک دوسرا نظام دوسرے قوانین کے ساتھ بنائے گا،جیسے فرمایا:

یَوْمَ تُبَدَّلُ الْاَرْضُ غَیْرَ الْاَرْضِ وَالسَّمٰوٰتُ وَبَرَزُوْا لِلهِ الْوَاحِدِ الْقَهَّارِ۝۴۸ [9]

ترجمہ:جس دن یہ زمین دوسری زمین سے بدل دی جائے گی اور آسمان بھی بدل دیے جائیں گے اور لوگ زبردست اکیلے اللہ کے سامنے نکل کھڑے ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ اسرافیل علیہ السلام کوصور (نَفْخُهُ الْقِیَام یعنی رب کے حضور پیش ہونے ہونے کے لئے) پھونکنے کاحکم فرمائے گا،وہ اس کی تعمیل کریں گے اوراس آوازپرجو زمین میں ہرجگہ گونجے گی، آدم علیہ السلام سے لیکرآخری انسان تک جسم وروح اور اسی شخصیت کے ساتھ جووہ دنیامیں تھے ازسرنو زندہ ہو جائیں گے اور زمین کے ہرگوشے میں اپنے مرقدوں سے نکل کر میدان محشرکی طرف دوڑنے لگیں گے ،جیسے فرمایا

وَنُفِخَ فِی الصُّوْرِ فَاِذَا هُمْ مِّنَ الْاَجْدَاثِ اِلٰى رَبِّهِمْ یَنْسِلُوْنَ۝۵۱ [10]

ترجمہ:اور جس وقت صور پھونکا جائے گا یہ قبروں سے نکل کر اپنے رب کی طرف دوڑ پڑیں گے۔ قیامت کی چندنشانیاں بیان کرنے کے بعدفرمایا یہ شخص جوبے شمارمعبودان باطلہ کی حمایت میں دعوت توحیدکی بھرپورمخالفت کررہاہے ، اللہ نے اسے کسی دوسرے معبودکی مددسے پیدانہیں کیاتھااورنہ ہی یہ ماں کے پیٹ سے مال واولاد ، حیثیت ومرتبہ لیکرپیدا ہواتھا ،اللہ تعالیٰ نے ہی اپنے فضل سے اسے ڈھیروں مال عنایت کیا، اسے سات، دس، بارہ یاتیرہ نامور،بااثراورتابعداربیٹوں سے نوازا جودشمنوں کے خلاف اس کی مدد کرتے ہیں ، ان میں سے تین خالدبن ولید، ہشام بن ولیداورولیدبن ولیدمسلمان ہوئے پھراس کوعمرعطافرمائی اور قیادت کی راہ ہموار کرکے سرداری عطا فرمائی،مگران نعمتوں اوربھلائیوں کے باوجوداس کی حرص ختم نہیں ہوتی بلکہ کفرومعصیت کے باوجوداس کی خواہش ہے کہ دنیابھرکی نعمتیں اسے دے دی جائیں ، اللہ تعالیٰ نے فرمایاہرگزنہیں ، ان نعمتوں پروہ ہماراشکرگزاراوراطاعت گزارہونے کے بجائے ہماری آیات سے بغض وعنادرکھتاہے ، ہم اسے نعمتیں عطاکرنے کے بجائے اسے ایسے عذاب میں مبتلاکریں گے جس کابرداشت کرنانہایت سخت ہوگا۔

إِنَّهُ فَكَّرَ وَقَدَّرَ ‎﴿١٨﴾‏ فَقُتِلَ كَیْفَ قَدَّرَ ‎﴿١٩﴾‏ ثُمَّ قُتِلَ كَیْفَ قَدَّرَ ‎﴿٢٠﴾‏ ثُمَّ نَظَرَ ‎﴿٢١﴾‏ ثُمَّ عَبَسَ وَبَسَرَ ‎﴿٢٢﴾‏ ثُمَّ أَدْبَرَ وَاسْتَكْبَرَ ‎﴿٢٣﴾‏ فَقَالَ إِنْ هَٰذَا إِلَّا سِحْرٌ یُؤْثَرُ ‎﴿٢٤﴾‏ إِنْ هَٰذَا إِلَّا قَوْلُ الْبَشَرِ ‎﴿٢٥﴾‏ (المدثر)

’’اس نے غور کرکے تجویز کی، اسے ہلاکت ہو کیسی (تجویز) سوچی ؟ وہ پھر غارت ہو کس طرح اندازہ کیا، اس نے پھر دیکھا،پھر تیوری چڑھائی اور منہ بنایا، پھر پیچھے ہٹ گیا اور غرور کیا اور کہنے لگا یہ تو صرف جادو ہے جو نقل کیا جاتا ہے،سوائے انسانی کلام کے کچھ بھی نہیں ۔


دارالندوہ میں جب سب نے ولیدبن مغیرہ مخزومی کوکہاکہ آخروہ کوئی تجویزپیش کرے ،اللہ تعالیٰ نے ولیدبن مغیرہ کی اس وقت ذہنی انتشارکی تصویرکشی کی کہ سوچ وبچارکرتے ہوئے اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ابتدائی زندگی کاجائزہ لیا،آپ کے چالیس سالہ کرداروسیرت کوپرکھا،آپ کے خطاب صادق وامین کوجانچا،کلام الٰہی کے مضامین کی گہرائی وسچائی کوپہچانااوراس کی حقیقت سے متاثرہوااوراس کے دل نے سچائی کی گواہی دی ، مگراس نے جانتے بوجھتے اطاعت قبول کرنے کے بجائے روگردانی کی اور اس تجویز پر غور کیاکہ وہ کیابات کہے جس کے زریعے سے وہ کلام الٰہی کاانکار کر سکے ،اس پراللہ کی پھٹکارہواس نے کیسی بات سوچی ،ہاں مکرراس نے سوچاکہ قرآن کاردکس طرح ممکن ہے ،پھرمجلس میں موجودلوگوں کے چہروں کوپڑھاکہ وہ کیا چاہتے ہیں ، پھرحق سے نفرت اوربغض ظاہرکرنے کے لئے اس نے تیوری چڑھائی اور اپنا منہ بسورا، پھرپیٹھ پھیر کر چل دیا، پھررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی معاشی حالت اوران کے پیروکاروں کی حالت زاراوراپنی ظاہری شان وشوکت کودیکھ کر تکبر میں پڑگیااوربہت غوروخوض کے بعد بولا محمد جو کلام پیش کررہے ہیں وہ اللہ کاکلام نہیں بلکہ انسانی کلام ہے،جووہ کسی سے سیکھ کرآیاہے اوردعوی کر دیاہے کہ یہ کلام الٰہی ہے ،مگریہ کلام جادوکے سواکچھ نہیں جو ہمارے آباؤ اجدادسے چلاآرہاہے۔ جیسے اللہ نے ان کی کم عقلی اوربدحواسی کاذکر فرمایا:

اُنْظُرْ كَیْفَ ضَرَبُوْا لَكَ الْاَمْثَالَ فَضَلُّوْا فَلَا یَسْتَطِیْعُوْنَ سَبِیْلًا۝۹ۧ [11]

ترجمہ: دیکھو،کیسی کیسی حجتیں یہ لوگ تمہارے آگے پیش کررہے ہیں ،ایسے بہکے ہیں کہ کوئی ٹھکانے کی بات ان کونہیں سوجتی۔

سَأُصْلِیهِ سَقَرَ ‎﴿٢٦﴾‏ وَمَا أَدْرَاكَ مَا سَقَرُ ‎﴿٢٧﴾‏ لَا تُبْقِی وَلَا تَذَرُ ‎﴿٢٨﴾‏ لَوَّاحَةٌ لِّلْبَشَرِ ‎﴿٢٩﴾‏ عَلَیْهَا تِسْعَةَ عَشَرَ ‎﴿٣٠﴾‏ وَمَا جَعَلْنَا أَصْحَابَ النَّارِ إِلَّا مَلَائِكَةً ۙ وَمَا جَعَلْنَا عِدَّتَهُمْ إِلَّا فِتْنَةً لِّلَّذِینَ كَفَرُوا لِیَسْتَیْقِنَ الَّذِینَ أُوتُوا الْكِتَابَ وَیَزْدَادَ الَّذِینَ آمَنُوا إِیمَانًا ۙ وَلَا یَرْتَابَ الَّذِینَ أُوتُوا الْكِتَابَ وَالْمُؤْمِنُونَ ۙ وَلِیَقُولَ الَّذِینَ فِی قُلُوبِهِم مَّرَضٌ وَالْكَافِرُونَ مَاذَا أَرَادَ اللَّهُ بِهَٰذَا مَثَلًا ۚ كَذَٰلِكَ یُضِلُّ اللَّهُ مَن یَشَاءُ وَیَهْدِی مَن یَشَاءُ ۚ وَمَا یَعْلَمُ جُنُودَ رَبِّكَ إِلَّا هُوَ ۚ وَمَا هِیَ إِلَّا ذِكْرَىٰ لِلْبَشَرِ ‎﴿٣١﴾  (المدثر)

میں عنقریب اس دوزخ میں ڈالوں گا، اور تجھے کیا خبر کہ دوزخ کیا چیز ہے ،نہ وہ باقی رکھتی ہے نہ چھوڑتی ہے، کھال کو جھلسا دیتی ہے، اور اس میں انیس (فرشتے مقرر) ہیں ، ہم نے دوزخ کے دروغے صرف فرشتے رکھے ہیں ،اور ہم نے ان کی تعداد صرف کافروں کی آزمائش کے لیے مقرر کی ہے، تاکہ اہل کتاب یقین کرلیں اور اہل ایمان میں اضافہ ہوجائے، اور اہل کتاب اور مسلمان شک نہ کریں ، اور جن کے دلوں میں بیماری ہے، اور وہ کافر کہیں کہ اس بیان سے اللہ تعالیٰ کی کیا مراد ہے ؟ اس طرح اللہ تعالیٰ جسے چاہتا ہے گمراہ کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے، تیرے رب کے لشکروں کو اس کے سوا کوئی نہیں جانتا، یہ تو کل بنی آدم کے لیے سراسر پندونصیحت ہے۔


عذاب جہنم کی وعید:

عنقریب اللہ اسے اس کے اعمال کے سبب سقر( دوزخ کاایک نام) میں جھونک دے گا،اورتم کیاجانتے ہوکہ سقر کیسے سخت عذاب کی جگہ ہے ؟ جو بدبخت اس میں داخل کیا جائے گااس کی آگ اس کوجلاکرخاک کردے گی ،نہ کھال چھوڑے گی نہ ہڈی مگرپھربھی پیچھانہیں چھوٹے گا،اللہ اس شخص کوفوراًدوسری کھال پہنادے گااوریہ آگ پھران کے منہ اور جسم کی کھال اورہڈیوں کو جلاکرکوئلہ کردے گی اورعذاب کایہ سلسلہ چلتاہی رہے گا،جوشخص اس کی گرفت میں آجائے گاوہ نہ تومرے گااورنہ ہی جی سکے گا،جیسے فرمایا

ثُمَّ لَا یَمُوْتُ فِیْهَا وَلَا یَحْیٰی۝۱۳ۭ [12]

ترجمہ:پھروہ نہ اس میں مرے گانہ جیے گا۔ مجرموں کوقابومیں رکھنے اورفردا ًفرداًایک ایک شخص کوعذاب دینے کے لئے اللہ نے اس جہنم کے انیس(۱۹) دربان متعین فرمائے ہیں ،جونہایت سخت اوردرشت ہیں ، اور جو اپناکام کرتے ہوئے نہ تھکتے ہیں اورنہ مجرموں پررحم کھاتے ہیں ،ہم نے ان فرشتوں کو سختی اورقوت کی بناپرجہنم کادربان بنایاہے ،اوردربانوں کی گنتی مشرکین کی آزمائش کے لئے ہے ،اس کے ردعمل میں کلدہ بن اسیدبن خلف جس کی کنیت ابوالاشدتھی ، یہ شخص بڑاہی مغروراورقوی تھا،یہ گائے کے چمڑے پرکھڑاہوجاتاپھردس طاقتورآدمی مل کراسے اس کے پیروں کے تلے سے نکالناچاہتے مگرکھال کے ٹکڑے اڑجاتے لیکن اس کے قدم جنبش نہ کھاتے،

لَمَّا نَزَلَتْ عَلَیْهَا تِسْعَةَ عَشَرَ قَالَ: رَجُلٌ مِنْ قُرَیْشٍ یُدْعَى أَبَا الْأَشَدَّیْنِ: یَا مَعْشَرَ قُرَیْشٍ لَا یَهُولَنَّكُمُ التِّسْعَةَ عَشَرَ، أَنَا أَدْفَعُ عَنْكُمْ بِمَنْكِبِیَ الْأَیْمَنِ عَشَرَةً وَبِمَنْكِبِیَ الْأَیْسَرِ التِّسْعَةَ

اس نے فرشتوں کی یہ تعدادسن کراپنی طاقت کے گھمنڈمیں کہااے اہل قریش !تم سب مل کران میں سے دوکوروک لیناباقی سترہ کے لئے میں کافی ہوں ۔[13]

قَالَ أَبُو جَهْلٍ یَوْمًا وَهُوَ یَهْزَأُ بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَبِمَا جَاءَ بِهِ مِنَ الْحَقِّ یَا مَعْشَرَ قُرَیْشٍ یَزْعُمُ مُحَمَّدٌ أَنَّ جُنُودَ اللَّهِ الَّذِینَ یُعَذِّبُونَكُمْ فِی النَّارِ وَیَحْبِسُونَكُمْ فِیهَا تِسْعَةَ عَشَرَ وَأَنْتُمْ أَكْثَرُ النَّاسِ عَدَدًا وَكَثْرَةً أَفَیُعْجِزُكُمْ مِائَةُ رَجُلٍ مِنْكُمْ عَنْ رَجُلٍ مِنْهُمْ؟

ایک روایت ہےابوجہل نے قریش کوخطاب کرتے ہوئے کہااے قریش!محمد( صلی اللہ علیہ وسلم )کایہ دعویٰ ہے کہ جہنم میں عذاب دینے کے لیے انیس کارکن ہیں تم اتنی کثرت میں ہوتوکیاتم میں سے ہردس آدمیوں کاگروپ ایک ایک فرشتے کے لئے کافی نہیں ہوگا؟۔[14] اللہ تعالیٰ نے فرمایااتنی بڑی غیض وغضب سے دہکتی جہنم جس میں بے حدوحساب مجرم ہوں گے اوراس کے اتنے کم نگراں کافروں کے لئے باعث فتنہ ہیں ، اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس کھلم کھلا اعلان سے یہودونصاریٰ کوبھی یقین ہوجائے کہ یہ رسول برحق ہے اور یہ اللہ کاکلام ہے اوراہل ایمان کے ایمان میں یقین واعتماد،اطاعت و فرمانبرداری کی وجہ سے ا ضافہ ہواوراہل ایمان واہل کتاب کسی شک وشبہ میں نہ رہیں اورجن کے دلوں میں شکوک ہیں اورکفارکہیں کہ بھلاجہنم کے نگرانوں کی تعدادبتلانے سے اللہ کی کیاحکمت ہے؟ اسی طرح اللہ اپنے کلام اوراپنے احکام وفرامین سے دلوں کی آزمائش کرتا ہے ، جس کے دل میں کجی ہوتی ہے،جوہٹ دھرم اورکج فہم ہوتاہے اسے ضلالت کے راستوں پردھکیل دیتاہے اورجن کے دلوں میں یقین کامل اوراطاعت گزاری کاجذبہ ہوتا ہے ،جوسلیم الطبع اورصحیح الفکرہوتے ہیں انہیں ہدایت کی راہ پرگامزن کردیتاہے،کفارومشرکین سمجھتے ہیں کہ جہنم میں انیس( ۱۹)دربانوں پرقابوپاناکون سامشکل کام ہے؟ لیکن اس عظیم الشان کائنات میں اللہ نے کیسی کیسی مخلوقات پیداکررکھی ہیں ،ان کوکیاطاقتیں بخشی ہیں اور اللہ ان سے کیاکام لے رہاہے ،ان کے بارے میں نہ توفرشتے ہی جانتے ہیں نہ کوئی اور،ان کی صحیح تعداد توصرف اللہ ہی جانتاہے،صرف فرشتے ہی اتنی تعدادمیں ہیں کہ

یُصَلِّی فِیهِ كُلَّ یَوْمٍ سَبْعُونَ أَلْفَ مَلَكٍ، إِذَا خَرَجُوا لَمْ یَعُودُوا إِلَیْهِ آخِرَ مَا عَلَیْهِمْ

سترہزارفرشتے روزانہ اللہ کی عبادت کے لئے بیت المعمورمیں داخل ہوتے ہیں پھرقیامت تک ان کی باری نہیں آئے گی۔[15] اوردوزخ اوراس کی ہولناکی کاذکرصرف نصیحت کے لئے کیاگیاہے تاکہ نافرمانیوں سے بازآجاؤ اور جہنم کے دردناک عذاب سے بچنے کی کوشش کرو۔‏

كَلَّا وَالْقَمَرِ ‎﴿٣٢﴾‏ وَاللَّیْلِ إِذْ أَدْبَرَ ‎﴿٣٣﴾‏ وَالصُّبْحِ إِذَا أَسْفَرَ ‎﴿٣٤﴾‏ إِنَّهَا لَإِحْدَى الْكُبَرِ ‎﴿٣٥﴾‏ نَذِیرًا لِّلْبَشَرِ ‎﴿٣٦﴾‏ لِمَن شَاءَ مِنكُمْ أَن یَتَقَدَّمَ أَوْ یَتَأَخَّرَ ‎﴿٣٧﴾‏ كُلُّ نَفْسٍ بِمَا كَسَبَتْ رَهِینَةٌ ‎﴿٣٨﴾‏ إِلَّا أَصْحَابَ الْیَمِینِ ‎﴿٣٩﴾‏ فِی جَنَّاتٍ یَتَسَاءَلُونَ ‎﴿٤٠﴾‏ عَنِ الْمُجْرِمِینَ ‎﴿٤١﴾‏ مَا سَلَكَكُمْ فِی سَقَرَ ‎﴿٤٢﴾‏ قَالُوا لَمْ نَكُ مِنَ الْمُصَلِّینَ ‎﴿٤٣﴾‏ وَلَمْ نَكُ نُطْعِمُ الْمِسْكِینَ ‎﴿٤٤﴾‏ وَكُنَّا نَخُوضُ مَعَ الْخَائِضِینَ ‎﴿٤٥﴾‏ وَكُنَّا نُكَذِّبُ بِیَوْمِ الدِّینِ ‎﴿٤٦﴾‏ حَتَّىٰ أَتَانَا الْیَقِینُ ‎﴿٤٧﴾‏فَمَا تَنفَعُهُمْ شَفَاعَةُ الشَّافِعِینَ ‎﴿٤٨﴾‏ (المدثر)

 سچ کہتاہوں قسم ہے چاند کی اور رات جب وہ پیچھے ہٹے، اور صبح کی جب وہ روشن ہوجائے کہ (یقیناً وہ جہنم) بڑی چیزوں میں سے ایک ہے، بنی آدم کو ڈرانے والی، (یعنی) اسےجو تم میں سے آگے بڑھنا چاہے یا پیچھے ہٹنا چاہیے، ہر شخص اپنے اعمال کے بدلے میں گروی ہے، مگر دائیں ہاتھ والے کہ وہ بہشتوں میں (بیٹھے ہوئے) گناہ گاروں سے سوال کرتے ہوں گے تمہیں دوزخ میں کس چیز نے ڈالا،وہ جواب دیں گے ہم نمازی نہ تھے، نہ مسکینوں کو کھانا کھلاتے تھے، اور ہم بحث کرنے والے (انکاریوں ) کا ساتھ دے کر بحث مباحثہ میں مشغول رہا کرتے تھے ،اور روز جزا کو جھٹلاتے تھے، یہاں تک کہ ہمیں موت آگئی، پس انہیں سفارش کرنے والوں کی سفارش نفع نہ دے گی۔


اہل مکہ کے خیالات کی نفی کرتے ہوئے فرمایاکہ دوزخ کوئی ہوائی بات نہیں جس کااس طرح مذاق اڑایاجائے اورنہ ہی فرشتے ایسے بودے ہیں کہ تم انہیں مغلوب کرلوگے ، قسم ہے چاندکی اوررات کی جب وہ جانے لگے ،اورصبح کی جبکہ وہ خوب روشن ہوتی ہے ،اللہ نے تین نہایت اہم چیزوں کی قسم کھاکرفرمایاجس طرح چاند،رات اورروشن دن اللہ تعالیٰ کی قدرت کے عظیم نشانات ہیں اسی طرح دوزخ بھی عظائم قدرت میں سے ایک نشانی ہےاوراس کی بڑائی اورہولناکی میں کوئی شک نہیں ،جوانسانوں کوسیدھا چلانے کے لئے ایک ڈراواہے، جہنم کے ہولناک عذاب سے لوگوں کوخبردارکردیاگیاہے اب جس کاجی چاہے اس کے عذاب سے ڈرکربھلائی کے راستے کواپنائے اورجس کاجی چاہے کفرکرے ،جیسے فرمایا:

وَقُلِ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّكُمْ۝۰ۣ فَمَنْ شَاۗءَ فَلْیُؤْمِنْ وَّمَنْ شَاۗءَ فَلْیَكْفُرْ۔۔۔ ۝۲۹ [16]

ترجمہ:صاف کہہ دوکہ یہ حق ہے تمہارے رب کی طرف سے اب جس کاجی چاہے مان لے اورجس کاجی چاہے انکارکردے ۔ اللہ نے انسان کودنیا میں جوطاقتیں ،صلاحتیں اورجواختیارات عطافرمائے ہیں یہ توایک قرض ہیں جس کے بدلے میں انسان کانفس اللہ کے پاس رہن ہے،انسان خواہ وہ کتنے ہی بڑے مرتبہ والا ہو اگر ان طاقتوں ،صلاحیتوں اوراختیارات کااللہ اوراس کے رسول کی اطاعت میں صحیح استعمال کرے گاتووہ اپنے نفس کوچھڑالے گاورنہ اسے ضبط کرلیاجائے گا ،جولوگ عمل صالح اختیارکر کے اللہ سے اپنے نفس کوچھڑالیں گےوہ آزادہوں گے اوراللہ انہیں نعمتوں بھری جنتوں میں داخل فرمائے گاجس میں عیش ہی عیش اورآرام ہی آرام ہے ،مگرجولوگ اپنانفس آزادنہ کراسکیں گے وہ مجرم ہوں گے اور انہیں جہنم میں داخل کردیاجائیگاجوبدترین عذاب کی جگہ ہے ،جنتی اپنے بالاخانوں میں بیٹھے ایک دوسرے سے مجرموں کے بارے میں پوچھیں گے کہ وہ کس حال کوپہنچے،پھر ان مجرموں کو کسی توسط کے بغیر ہزاروں میل کے فاصلہ سے براہ راست مبتلائے عذاب دیکھیں گے تو دریافت کریں گے کیاچیزتمہیں دوزخ میں لے جانے کاسبب بن گئی؟ دوزخی بڑی حسرت سے آہ بھرکرکہیں گے ہم اپنے معبودحقیقی کی بندگی کرنے والے نہ تھے ،یعنی ہم نے ایمان کااعلان توکیامگراللہ تعالیٰ کااولین حق جوہم پر فرض کیا گیا تھااس کے تارک تھے ، حالانکہ ہمیں کہاگیاتھا۔

وَاعْبُدْ رَبَّكَ حَتّٰى یَاْتِیَكَ الْیَقِیْنُ۝۹۹ۧ [17]

ترجمہ: اور اس آخری گھڑی تک اپنے رب کی بندگی کرتے رہوجس کاآنایقینی ہے۔ اللہ نے بغیرکسی استحقاق کے اپنے خزانوں سے ہمیں انگنت نعمتیں عطاکررکھی تھیں مگر ہم اس رب کی خوشنودی کے لئے سائلوں ، بیواؤ ں ، یتیموں ،مسکینوں ،اسیروں اور مسافروں کوکھانا نہیں کھلاتے تھے،یعنی نہ توہم نے حقوق اللہ کاخیال کیااورنہ ہی حقوق العبادکی پرواہ کی ،ہم اتنے گمراہ تھے کہ جولوگ حق کودبانے یامٹانے کے لئے جدوجہد کرتے تھے ہم کے خلاف کھڑے ہونے کے بجائے ان کے ہم نواہوجاتے تھے،اورسرگرمی سے ان کی حمایت کرتے تھے ،ہم زبانی طورپرروزجزاکااقرارتوکرتے تھے مگر ہمارے اعمال اس کی گواہی نہیں دیتے تھے، مرتے دم تک ہم اسی روش پرقائم رہے ،آخر ہمیں دوزخ سے سابقہ پڑگیاجس سے بچنے کے لئے باربارتنبیہات کی گئی تھیں ، جو لوگ صفات مذکورہ کاحامل ہوگااسے کسی سفارش کرنے والے کی سفارش اور شفاعت فائدہ نہیں پہنچائے گی۔

فَمَا لَهُمْ عَنِ التَّذْكِرَةِ مُعْرِضِینَ ‎﴿٤٩﴾‏ كَأَنَّهُمْ حُمُرٌ مُّسْتَنفِرَةٌ ‎﴿٥٠﴾‏ فَرَّتْ مِن قَسْوَرَةٍ ‎﴿٥١﴾‏ بَلْ یُرِیدُ كُلُّ امْرِئٍ مِّنْهُمْ أَن یُؤْتَىٰ صُحُفًا مُّنَشَّرَةً ‎﴿٥٢﴾‏ كَلَّا ۖ بَل لَّا یَخَافُونَ الْآخِرَةَ ‎﴿٥٣﴾‏ كَلَّا إِنَّهُ تَذْكِرَةٌ ‎﴿٥٤﴾‏ فَمَن شَاءَ ذَكَرَهُ ‎﴿٥٥﴾‏ وَمَا یَذْكُرُونَ إِلَّا أَن یَشَاءَ اللَّهُ ۚ هُوَ أَهْلُ التَّقْوَىٰ وَأَهْلُ الْمَغْفِرَةِ ‎﴿٥٦﴾‏ (المدثر)

انہیں کیا ہوگیا ہے کہ نصیحت سے منہ موڑ رہے ہیں گویا کہ وہ بدکے ہوئے گدھے ہیں جو شیر سے بھاگے ہوں ،بلکہ ان میں سے ہر ایک شخص چاہتا ہے کہ اسے کھلی ہوئی کتابیں دی جائیں ، ہرگز ایسا نہیں (ہو سکتا بلکہ)یہ قیامت سے بےخوف ہیں ، سچی بات تو یہ ہے کہ یہ (قرآن) ایک نصیحت ہے، اب جو چاہے اس سے نصیحت حاصل کرے،اور وہ اس وقت نصیحت حاصل کریں گے جب اللہ تعالیٰ چاہے، وہ اسی لائق ہے کہ اس سے ڈریں اور اس لائق بھی کہ وہ بخشے


۔ آخرکیابات ہے کہ یہ لوگ اس نصیحت سے روگرداں ہیں جوخودانہی کے فائدے کے لئے کی جاتی ہے ،یہ تواس پاکیزہ دعوت سے نفرت واعراض میں ایسے دور بھاگ رہے ہیں جیسے وحشی،خوف زدہ گدھے خطرے کی بو پا کر بھاگتے ہیں ،بلکہ اس نصیحت سے اعراض کی اصل وجہ ان کے دل کاچورہے ان میں سے ہرشخص یہ چاہتاہے کہ اس پربراہ راست آسمان سے کھلی کتاب نازل ہوجائے ، میں کسی دوسرے کی پیروی واطاعت کیوں کروں ؟ایک اورمقام ان کامطالبہ نقل فرمایا

وَاِذَا جَاۗءَتْهُمْ اٰیَةٌ قَالُوْا لَنْ نُّؤْمِنَ حَتّٰی نُؤْتٰى مِثْلَ مَآ اُوْتِیَ رُسُلُ اللهِ۔۔۔۝۰۝۱۲۴ [18]

ترجمہ:جب ان کے سامنے کوئی آیت آتی ہے تووہ کہتے ہیں ہم نہ مانیں گے جب تک کہ وہ چیزخودہم کونہ دی جائے جواللہ کے رسولوں کودی گئی ہے۔ ایک مقام ان کامطالبہ یوں نقل فرمایا:

۔۔۔ اَوْ تَرْقٰى فِی السَّمَاۗءِ۝۰ۭ وَلَنْ نُّؤْمِنَ لِرُقِیِّكَ حَتّٰى تُنَزِّلَ عَلَیْنَا كِتٰبًا نَّقْرَؤُهٗ۔۔۔۝۹۳ۧ [19]

ترجمہ: اوریا تو آسمان پرچڑھ جائے اورتیرے چڑھنے کابھی ہم یقین نہ کریں گے جب تک کہ توہمارے اوپرایک ایسی تحریرنہ اتارلائے جسے ہم پڑھیں ۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے دل کی حقیقت بیان فرمائی ، ہرگزنہیں ،یہ لوگ جھوٹ کہتے ہیں اورحق سے اعراض کے لئے مختلف بہانے ڈھونڈتے ہیں ، حقیقت یہ ہے کہ انہیں حیات بعد الموت اور روز آخرت پرایمان نہیں ،اپنے اعمال کی جوابدہی کاخوف نہیں ،اگرانہیں اپنے اعمال کی جوابدہی کاخوف ہوتاتواس کی تکذیب کرنے کے بجائے اس پرایمان لاتے جیسےفرمایا

وَلَوْ نَزَّلْنَا عَلَیْكَ كِتٰبًا فِیْ قِرْطَاسٍ فَلَمَسُوْهُ بِاَیْدِیْهِمْ لَقَالَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْٓا اِنْ هٰذَآ اِلَّا سِحْـرٌ مُّبِیْنٌ۝۷ [20]

ترجمہ:اے پیغمبر ! اگر ہم تمہارے اوپرکوئی کاغذمیں لکھی لکھائی کتاب بھی اتاردیتے اورلوگ اسے اپنے ہاتھوں سے چھوکربھی دیکھ لیتے تب بھی جنھوں نے حق کاانکارکیاہے وہ یہی کہتے کہ یہ توصریح جادوہے۔ اس لئے ان کا کوئی مطالبہ پورا نہیں کیاجائے گا،اللہ نے قرآن نازل فرماکر حق وباطل کوممیزکردیاہے اب جس کاجی چاہے سیدھے راستے کواختیارکرے اوریہ اس سے کوئی نصیحت حاصل نہیں کریں گے جب تک کہ اللہ کی مشیت نہ ہو،کیونکہ اللہ کی مشیت ساری مشیتوں پرغالب ہے،جیسے فرمایا:

وَمَا تَشَاۗءُوْنَ اِلَّآ اَنْ یَّشَاۗءَ اللهُ رَبُّ الْعٰلَمِیْنَ۝۲۹ۧ [21]

ترجمہ: اور تمہارے چاہنے سے کچھ نہیں ہوتاجب تک اللہ رب العالمین نہ چاہے۔ اوراللہ جس نے کائنات کوتخلیق فرمایا، انسان کی تخلیق فرمائی،اسے زمین پر خلیفہ بنایا،تمام کائنات کو اس کی خدمت کے لئے مسخرکردیا،اسے آسمان وزمین سے ہرطرح کا رزق عطافرمایا،اسے اولاد، حیثیت اورمرتبہ عنایت کیا، اس کاحق ہے کہ اس کے بندے اس سے خوف کھائیں ،اس کے علاوہ کسی کومعبودنہ بنائیں اوراس کی اطاعت میں زندگی بسرکریں ،اسی وحدہ لاشریک کی عبادت کریں ،اسی کی حمدوثنابیان کریں ،اسی کومشکل کشااورحاجت رواجانیں ،اپنی مشکلات اورپریشانیوں میں اسی کوپکاریں ،اوراسی پربھروسہ کریں ،اوریہ اللہ ہی کوزیب دیتاہے کہ اپنے بندوں کوچاہے انہوں نے کتنی ہی نافرمانیاں کی ہوں اگروہ اپنے گناہوں سے توبہ کرلیں تووہ ان کے قصوروں سے درگزر فرمائے اوربغیرسزادیے معاف فرمادے۔

عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ، قَالَ: كُنْتُ رِدْفَ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ لَیْسَ بَیْنِی وَبَیْنَهُ إِلَّا مُؤْخِرَةُ الرَّحْلِ، فَقَالَ: یَا مُعَاذُ بْنَ جَبَلٍ، قُلْتُ: لَبَّیْكَ رَسُولَ اللهِ، وَسَعْدَیْكَ، ثُمَّ سَارَ سَاعَةً، ثُمَّ قَالَ: یَا مُعَاذُ بْنَ جَبَلٍ قُلْتُ: لَبَّیْكَ رَسُولَ اللهِ وَسَعْدَیْكَ، ثُمَّ سَارَ سَاعَةً، ثُمَّ قَالَ: یَا مُعَاذُ بْنَ جَبَلٍ قُلْتُ: لَبَّیْكَ رَسُولَ اللهِ وَسَعْدَیْكَ، قَالَ: هَلْ تَدْرِی مَا حَقُّ اللهِ عَلَى الْعِبَادِ؟ قَالَ: قُلْتُ: اللهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، قَالَ: فَإِنَّ حَقُّ اللهِ عَلَى الْعِبَادِ أَنْ یَعْبُدُوهُ، وَلَا یُشْرِكُوا بِهِ شَیْئًا، ثُمَّ سَارَ سَاعَةً، ثُمَّ قَالَ: یَا مُعَاذَ بْنَ جَبَلٍ قُلْتُ: لَبَّیْكَ رَسُولَ اللهِ، وَسَعْدَیْكَ، قَالَ: هَلْ تَدْرِی مَا حَقُّ الْعِبَادِ عَلَى اللهِ إِذَا فَعَلُوا ذَلِكَ؟ قَالَ: قُلْتُ: اللهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، قَالَ: أَنْ لَا یُعَذِّبَهُمْ

معاذبن جبل رضی اللہ عنہ سے مروی ہےمیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے سوار تھا میرے اور آپ کے درمیان پالان کے ڈنڈے کے سوا کوئی چیز حائل نہ تھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے معاذ! میں نے عرض کیا لَبَّیْکَ رَسُولَ اللَّهِ وَسَعْدَیْکَ پھر تھوڑی دیر چلے اور فرمایا اے معاذ! میں نے کہا لَبَّیْکَ رَسُولَ اللَّهِ وَسَعْدَیْکَ، پھر تھوڑی دیر چلے اور فرمایا اے معاذ! میں نے کہا لَبَّیْکَ رَسُولَ اللَّهِ وَسَعْدَیْکَ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جانتے ہو کہ اللہ کا اپنے بندے پر کیا حق ہے، میں نے کہا اللہ اور اس کے رسول زیاد ہ جانتے ہیں ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ کا حق بندے پر یہ ہے کہ اس کی عبادت کرے اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرے، پھر تھوڑی دیر چلے اور فرمایا اے معاذ بن جبل! میں نے عرض کیا لَبَّیْکَ رَسُولَ اللَّهِ وَسَعْدَیْک آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم جانتے ہو کہ بندے کا حق اللہ پر کیا ہےجب وہ یہ کام کریں ؟ میں نے کہا اللہ اور اس کے رسول زیادہ جانتے ہیں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بندے کا حق اللہ پر یہ ہے کہ وہ ان کو عذاب نہ دے۔[22]

[1] تعظیم قدر الصلاة۲۷۳

[2] التکویر ۱،۲

[3] النازعات۶تا۹

[4]الزلزال ۱تا۳

[5]الحاقة ۱۳تا۱۵

[6] الواقعة ۴تا۶

[7] المزمل۱۷،۱۸

[8] القمر۸

[9] ابراہیم۴۸

[10] یٰسین۵۱

[11]الفرقان ۹

[12] الاعلیٰ۱۳

[13] تفسیرابن ابی حاتم ۳۳۳۴؍۱۰

[14] تفسیرابن ابی حاتم۲۶۹۸؍۸

[15] صحیح بخاری کتاب بدء الخلق بَابُ ذِكْرِ المَلاَئِكَةِ۳۲۰۷،صحیح مسلم کتاب الایمان بَابُ الْإِسْرَاءِ بِرَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ إِلَى السَّمَاوَاتِ، وَفَرْضِ الصَّلَوَاتِ۴۱۱

[16] الکہف۲۹

[17] الحجر۹۹

[18] الانعام۱۲۴

[19] بنی اسرائیل ۹۳

[20] الانعام۷

[21] التکویر۲۹

[22] صحیح بخاری كِتَابُ الجِهَادِ وَالسِّیَرِ بَابُ اسْمِ الفَرَسِ وَالحِمَارِ ۲۸۵۶،صحیح مسلم كِتَابُ الْإِیمَانَ بَابُ مَنْ لَقِی اللهَ بِالْإِیمَانِ وَهُو غَیْرُ شَاكٍّ فِیهِ دَخَلَ الْجَنَّةَ وَحُرِّمَ عَلَى النَّارِ۱۴۳،مسنداحمد۲۱۹۹۴

Related Articles