بعثت نبوی کا پہلا سال

مضامین سورۂ الدھر

چھوٹے چھوٹے مگرانتہائی موثراندازسے انسان کواس دورکی یاددلائی گئی جب اس انسان کاکائنات میں کوئی ذکریاوجودتک نہ تھا،پھرنہ ہی یہ کائنات خود بخوداتفاقاًوجودمیں آگئی اورنہ انسان اور دوسری بے شمارمخلوقات ،بلکہ اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت کاملہ سے یہ عظیم الشان کائنات تخلیق فرمائی اوراس کاایک بے داغ نظام مقررفرمایا، اور ایک حقیرمخلوط نطفے سے انسان کی تخلیق کے لئے مختلف مراحل اورمدارج مقررفرمائے اوراس دنیامیں پہنچنے کاسبب اوروسیلہ اس کی ماں کوبنایاگیاجوخوداس نومولودبچے کی جنس شکل و صورت،قدوقامت صلاحتیں ،قابلتیں اوردیگرحقائق سے بے خبرتھی ،جب انسان اس دنیامیں آیاتواس کواشرف المخلوقات کادرجہ دیاگیا،اس کوخلیفہ فی الارض بنا کر زمین پر اتارا گیاتاکہ اس کے عقل وشعوراورکردارکاامتحان لیاجاسکے، کیونکہ انسان کی جبلت میں سہوونسیان بھی ہے اس لئے اللہ تعالیٰ نے انبیاء ورسل کاسلسلہ شروع فرمایا جو اس انسان کواس کامقصدتخلیق یاددلاتے رہے ،اللہ نے انسان کی ہدایت ورہنمائی کے لئے پیغمبروں پرکتابیں نازل فرمائیں ،ان تمام باتوں کامقصدیہ تھاکہ انسان کاپتاچلایا جائے کہ عقل وشعور اورنازل کردہ ہدایت ورہنمائی کی روشنی کے باوجودکون کفرکی راہ اختیارہے اور کون اللہ کاشکرگزاربندہ بن کرزندگی بسرکرتاہے،کفارکے انجام بدکاذکر کرنے کے بعدان لوگوں کے اوصاف بیان فرمائے جواپنی حیثیت سمجھ کراللہ کے شکر گزار بندے ہیں اورپھروہ خصوصیات بیان کی گئیں جن کے باعث انسانوں کوآخرت میں بلندترین مناصب عطاکیے جائیں گے ۔

دوسرے رکوع میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کومخاطب کرکے تین باتیں ارشادفرمائیں ۔

xیہ کہ ہم اپنی حکمت کے تحت قرآن کوتھوڑاتھوڑااس لئے نازل کررہے ہیں کہ آپ کے دل میں اس کومحفوظ کردیاجائے نیزیہ کہ کفاریہ نہ کہیں کہ یہ خوداس کااپناتصنیف کردہ کلام ہے۔

xکفارکی بدکرداری اورکفرکے باعث ان پراگر عذاب الٰہی میں تاخیرہوتوآپ کوگھبرانانہیں چاہئے بلکہ صبرواستقلال کے ساتھ اپناکام جاری رکھیں ۔

xیاحکام الٰہی پراستقامت ودوام سے دلوں کوتقویت ملتی ہے ،اس لئے ہر حال میں شب وروز اللہ کویادکریں ،نمازوں کی پابندی کریں ،راتوں کوہرطرف سے کٹ کراللہ کی بارگاہ میں گڑگڑائیں تاکہ کفارکے مقابلے میں آپ کوثابت قدمی نصیب ہو ۔

کفارکی غلط روش پرتنبیہ کرکے فرمایاکہ ان کے انکارکی اصل وجہ یہ ہے کہ ان کوآخرت کی جوابدہی کااحساس نہیں ،اس سورۂ میں کفراورظلم کی مذمت کی گئی جبکہ شکر،ذکرالٰہی ، مسکینوں کوکھاناکھلانے اورصبرواستقامت کی عظمت کاذکرہوا۔

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

شروع اللہ کے نام سے جو بیحد مہربان نہایت رحم والا ہے

هَلْ أَتَىٰ عَلَى الْإِنسَانِ حِینٌ مِّنَ الدَّهْرِ لَمْ یَكُن شَیْئًا مَّذْكُورًا ‎﴿١﴾‏ إِنَّا خَلَقْنَا الْإِنسَانَ مِن نُّطْفَةٍ أَمْشَاجٍ نَّبْتَلِیهِ فَجَعَلْنَاهُ سَمِیعًا بَصِیرًا ‎﴿٢﴾‏ إِنَّا هَدَیْنَاهُ السَّبِیلَ إِمَّا شَاكِرًا وَإِمَّا كَفُورًا  ﴿٣﴾‏(الدھر)

یقیناً گزرا ہے انسان ایک وقت زمانے میں جب کہ یہ کوئی قابل ذکر چیز نہ تھا، بیشک ہم نے انسان کو ملےجلے نطفے سے امتحان کے لیے پیدا کیا اور اس کو سنتا دیکھتا بنایا، ہم نے اسے راہ دکھائی اب خواہ وہ شکر گزار بنے خواہ ناشکرا۔


سورۂ قیامہ میں انسان کودلائل کے ساتھ آخرت کی حقیقی کیفیت بیان کی گئی تھی ،اس سورۂ میں بھی انتہائی موثرطریقے سے انسان کودنیامیں اس کی حقیقی حیثیت ذہن نشین کی گئی ہے کہ اے انسان! جب تووجودمیں آنے سے پہلے پردہ عدم میں تھااور کوئی قابل ذکرچیزنہ تھاپھرجب اللہ نے انسان کوپیداکرنے کاارادہ فرمایاتوآدم علیہ السلام کو بدبو دار کھنکھناتی مٹی سے بنایا،جیسے فرمایا:

خَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ صَلْصَالٍ كَالْفَخَّارِ۝۱۴ۙ [1]

ترجمہ:اسی نے انسان کو ٹھیکرے کی طرح کھنکھناتی ہوئی مٹی سے پیدا کیا۔

پھراس کی نسل کومسلسل بنایا،اللہ نے اپنی قدرت کاملہ سے مردوعورت کے اس مرکب نطفے کو مختلف مراحل ومدارج سے گزار کرمکمل انسان بنایا ،

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: مَاءُ الْمَرْأَةِ وَمَاءُ الرَّجُلِ یَخْتَلِطَانِ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں اس سے مرادمرداورعورت کاپانی ہےجب وہ دونوں جمع ہوکرآپس میں مل جاتے ہیں ۔[2]

خوبصورت شکل وصورت اورمتناسب جسم وجاں کے ساتھ ماں کے پیٹ سے باہرنکالاجیسے فرمایا:

۔۔۔وَبَدَاَ خَلْقَ الْاِنْسَانِ مِنْ طِیْنٍ۝۷ۚثُمَّ جَعَلَ نَسْلَهٗ مِنْ سُلٰلَةٍ مِّنْ مَّاۗءٍ مَّهِیْنٍ۝۸ۚثُمَّ سَوّٰىهُ۔۔۔۝۹ [3]

ترجمہ: اس نے انسان کی تخلیق کی ابتداگارے سے کی ،پھراس کی نسل ایک ایسے ست سے چلائی جو حقیر پانی کی طرح ہے،پھر اس کو نک سک سےدرست کیا۔

پیدائش سے پہلے ہی اس کے رزق کا بندوبست فرمایا، والدین کی دلوں میں محبت ڈالی جو ناتوانی میں اسے اٹھائے اٹھائے پھرتے ہیں ، ناتوانی کے بعدخوب تواناکیا ، جوڑبازوؤ ں کومضبوط کیا،عقل وشعوربخشا، انواع اقسام کی بے شمار نعمتیں عطافرمائیں اب تو اپنی حیثیت وحقیقت کو بھول کر خالق حقیقی کا شکر گزار ہونے کے بجائے اس کے سامنے اکڑتااوراتراتا ہے اورکہتاہے کہ اعمال کی جزاکے لئے رب کے حضورپیش نہیں ہونا،کیاانسان یہ سمجھتا ہے کہ اس وسیع وعریض کائنات کانظام اتفاقاًقائم ہو گیاہے،کیا تم سب مردوعورت یوں ہی اتفاقا ًپیداہوگئے ہویا مردوعورت کے ارتقائی اعضااتفاقاًوجودمیں آگئے ہیں ، کیاانسانوں ،صحت بخش دودھ دینے اور سواری ومال برداری والے جانوروں ،عظیم الجثہ حیوانوں ،خونخوار درندوں ، ہواؤ ں میں پروازکرتے چھوٹے بڑے رنگ برنگے پرندوں ، زمین پررنگنے والے انواع اقسام کے حشرات الارض اور سمندروں میں ان گنت مخلوقات میں تخلیق کانظام بھی اتفاقاًہی چل رہا ہے، یاکیا اللہ نے تمہیں محض کھیل کے طورپر پیدا کر دیاہے اے غفلت میں ڈوبے انسان ! ایساہرگزنہیں ہے۔

وَمَا خَلَقْنَا السَّمَاۗءَ وَالْاَرْضَ وَمَا بَیْنَهُمَا لٰعِبِیْنَ۝۱۶ [4]

ترجمہ:ہم نے اس آسمان اور زمین کو اور جو کچھ بھی ان میں ہے کچھ کھیل کے طور پر نہیں بنایا ہے۔

نہ یہ عظیم الشان کائنات اتفاقاً وجودمیں آگئی ہے ،نہ ہی تمام مخلوقات میں زندگی کایہ مربوط نظام اتفاقاً چل رہا ہے ، اورنہ ہی اللہ نے یہ سارانظام محض کھیل کے طور پرتخلیق فرمایا ہے بلکہ اللہ تعالیٰ نے ایک سوچے ہوئے منصوبے کے تحت یہ کارخانہ چلایاہے،اس نے انسان کوا شرف المخلوقات کا درجہ اس لئے دیاہے،اسے زمین پرخلیفہ اس لئے بنایاگیاہے، دوسری مخلوقات کے برعکس انسان کوہوش وگوش یعنی علم وعقل کی قوتیں اس لئے عطافرمائیں ہیں تاکہ وہ اطاعت ومعصیت میں تمیزکرسکے ، اس کے علاوہ چونکہ انسان کی جبلت میں سہوونسیان بھی ہے ،اس لئے اللہ نے محض علم وعقل کی صلاحتیں دے کرہی نہیں چھوڑدیابلکہ اللہ نے یہ احسان بھی فرمایاکہ انبیاء ، نازل کردہ کتابوں اورداعیان حق کے ذریعے سے شکراور کفر، اطاعت ومعصیت کے دونوں راستے کھول دیئے ہیں ،جیسے فرمایا

وَالْاَرْضِ وَمَا طَحٰىهَا۝۶۠ۙوَنَفْسٍ وَّمَا سَوّٰىهَا۝۷۠ۙفَاَلْهَمَهَا فُجُوْرَهَا وَتَقْوٰىهَا۝۸۠ۙ [5]

ترجمہ: اور زمین کی اور اس ذات کی قسم جس نے اسے بچھایا ، اور انسان کی اور اس کی جس نے اس کے اعضاء کو برابر کیا پھر اس کو بدکاری سے بچنے اور پرہیزگاری اختیار کرنے کی سمجھ دی ۔

وَهَدَیْنٰهُ النَّجْدَیْنِ۝۱۰ [6]

ترجمہ:اور(نیکی اوربدی کے) دونوں نمایاں راستے اسے ( نہیں ) دکھا دیے؟۔

انسان کوضمیرعطاکیاجواسے بھلائی پراکساتاہے اوربرائی سے روکتاہے اوربرائی کرنے پرملامت کرتاہے ،اخلاقی حس عطاکی گئی جس سے وہ بھلائی اوربرائی میں فرق کرتاہے ، عبرت کے لئے تاریخی واقعات اس کے سامنے رکھے، انسان کو زندگی کی مہلت دی تاکہ وہ اس سے فائدہ اٹھاکر ہدایت ورہنمائی کی روشنی اور اپنی عقل وشعور،فہم وفراست سے کام لے کر سیدھے راستے کا انتخاب کر سکے، اللہ نے یہ سب کچھ اس لئے کیاہے تاکہ اسے معلوم ہوجائے کہ دنیاکے اس امتحان میں کون اطاعت الٰہی کاراستہ اختیارکر کے عبادت گزاراور شکرگزاربندہ بنتا ہے اورکون معصیت کاراستہ اختیارکرکے اس کا ناشکرابندہ بنتاہے، جیسے فرمایا:

الَّذِیْ خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَیٰوةَ لِیَبْلُوَكُمْ اَیُّكُمْ اَحْسَنُ عَمَلًا۔۔۔۝۲ۙ [7]

ترجمہ: جس نے موت اور زندگی کوایجاد کیا تاکہ تم لوگوں کو آزماکردیکھے تم میں کون بہتر عمل کرنے والاہے۔

وَاَمَّا ثَمُوْدُ فَهَدَیْنٰهُمْ فَاسْتَــحَبُّوا الْعَمٰى عَلَی الْهُدٰى۔۔۔۝۱۷ۚ [8]

ترجمہ: رہے ثمود توان کے سامنے ہم نے راہ راست پیش کی مگرانہوں نے راستہ دیکھنے کے بجائے اندھابنارہناہی پسندکیا۔

عَنْ أَبِی مَالِكٍ الْأَشْعَرِیِّ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:الطُّهُورُ شَطْرُ الْإِیمَانِ وَالْحَمْدُ لِلَّهِ تَمْلَأُ الْمِیزَانَ، وَسُبْحَانَ اللهِ وَالْحَمْدُ لِلَّهِ تَمْلَآَنِ – أَوْ تَمْلَأُ – مَا بَیْنَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ، وَالصَّلَاةُ نُورٌ، وَالصَّدَقَةُ بُرْهَانٌ وَالصَّبْرُ ضِیَاءٌ، وَالْقُرْآنُ حُجَّةٌ لَكَ أَوْ عَلَیْكَ، كُلُّ النَّاسِ یَغْدُو فَبَایِعٌ نَفْسَهُ فَمُعْتِقُهَا أَوْ مُوبِقُهَا

ابومالک اشعری رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا طہارت نصف ایمان کے برابر ہے ،اورالحمدللہ میزان کو بھر دے گا اورسبحان اللہ اورالحمدللہ سے زمین و آسمان کی درمیانی فضا بھر جائے گیاور نماز نور ہے اور صدقہ دلیل ہے اور صبر روشنی ہے اور قرآن تیرے لئے حجت ہوگا یا تیرے خلاف ہوگا ہر شخص صبح کو اٹھتا ہے اپنے نفس کو فروخت کرنے والا ہے یا اس کو آزاد کرنے والا ہے(یعنی اپنے عمل وکسب کے ذریعے سے ہلاک یا آزاد کراتاہے ، اگر شرکمائے گا تواپنے نفس کو ہلاک اورخیرکمائے گاتونفس کو آزاد کرالے گا )۔[9]

عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لِكَعْبِ بْنِ عُجْرَةَ:أَعَاذَكَ اللَّهُ مِنْ إِمَارَةِ السُّفَهَاءِ ، قَالَ: وَمَا إِمَارَةُ السُّفَهَاءِ؟، قَالَ:أُمَرَاءُ یَكُونُونَ بَعْدِی، لَا یَقْتَدُونَ بِهَدْیِی، وَلَا یَسْتَنُّونَ بِسُنَّتِی، فَمَنْ صَدَّقَهُمْ بِكَذِبِهِمْ، وَأَعَانَهُمْ عَلَى ظُلْمِهِمْ، فَأُولَئِكَ لَیْسُوا مِنِّی، وَلَسْتُ مِنْهُمْ، وَلَا یَرِدُوا عَلَیَّ حَوْضِی، وَمَنْ لَمْ یُصَدِّقْهُمْ بِكَذِبِهِمْ، وَلَمْ یُعِنْهُمْ عَلَى ظُلْمِهِمْ، فَأُولَئِكَ مِنِّی وَأَنَا مِنْهُمْ، وَسَیَرِدُوا عَلَیَّ حَوْضِی. یَا كَعْبُ بْنَ عُجْرَةَ، الصَّوْمُ جُنَّةٌ، وَالصَّدَقَةُ تُطْفِئُ الْخَطِیئَةَ، وَالصَّلَاةُ قُرْبَانٌ – أَوْ قَالَ: بُرْهَانٌ – یَا كَعْبُ بْنَ عُجْرَةَ، إِنَّهُ لَا یَدْخُلُ الْجَنَّةَ لَحْمٌ نَبَتَ مِنْ سُحْتٍ النَّارُ، أَوْلَى بِهِ. یَا كَعْبُ بْنَ عُجْرَةَ، النَّاسُ غَادِیَانِ: فَمُبْتَاعٌ نَفْسَهُ فَمُعْتِقُهَا، وَبَائِعٌ نَفْسَهُ فَمُوبِقُهَا

جابربن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کعب بن عجرہ سے فرمایااللہ تجھے بیوقوفوں کی سرداری سے بچائے،کعب رضی اللہ عنہ نے عرض کیااے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم بیوقوفوں کی سرداری کیاہے؟ فرمایا وہ میرے بعدکے سردارہوں گے جومیری سنتوں پرنہ عمل کریں گے نہ میرے طریقوں پرچلیں گے پس جولوگ ان کے جھوٹ کی تصدیق کریں اوران کے ظلم کی امداد کریں وہ نہ میرے ہیں اورنہ میں ان کاہوں ،یادرکھووہ میرے حوض کوثرپربھی نہیں آسکتے ،اور جوان کے جھوٹ کوسچانہ کرے اوران کے ظلموں میں ان کامددگارنہ بنے وہ میرا ہے اورمیں اس کاہوں یہ لوگ میرے حوض کوثرپرمجھ سے ملیں گے،اے کعب رضی اللہ عنہ !روزہ ڈھال ہےاورصدقہ خطاؤ ں کومیٹ دیتاہے،اورنمازاللہ کے قرب کاسبب ہے یافرمایاکہ دلیل نجات ہے،اے کعب رضی اللہ عنہ !وہ گوشت پوست جنت میں نہیں جاسکتاجوحرام سے پلا ہو، وہ تو جہنم میں ہی جانے کے قابل ہے،اے کعب رضی اللہ عنہ !لوگ ہر صبح اپنے نفس کی خریدو فروخت کرتے ہیں ،کوئی تواسے آزادکرالیتاہے اورکوئی ہلاک کرگزرتاہے۔[10]

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: مَا مِنْ خَارِجٍ یَخْرُجُ – یَعْنِی مِنْ بَیْتِهِ – إِلَّا بِبَابِهِ رَایَتَانِ: رَایَةٌ بِیَدِ مَلَكٍ، وَرَایَةٌ بِیَدِ شَیْطَانٍ، فَإِنْ خَرَجَ لِمَا یُحِبُّ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ، اتَّبَعَهُ الْمَلَكُ بِرَایَتِهِ، فَلَمْ یَزَلْ تَحْتَ رَایَةِ الْمَلَكِ حَتَّى یَرْجِعَ إِلَى بَیْتِهِ، وَإِنْ خَرَجَ لِمَا یُسْخِطُ اللَّهَ، اتَّبَعَهُ الشَّیْطَانُ بِرَایَتِهِ، فَلَمْ یَزَلْ تَحْتَ رَایَةِ الشَّیْطَانِ، حَتَّى یَرْجِعَ إِلَى بَیْتِهِ

اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجونکلنے والانکلتاہے اس کے دروازے پردوجھنڈے ہوتے ہیں ایک فرشتے کے ہاتھ میں دوسراشیطان کے ہاتھ میں ، پس اگروہ اس کام کے لئے نکلاجواللہ کی مرضی کاکام ہے توفرشتہ اپناجھنڈالئے ہوئے اس کے ساتھ ہولیتا ہے اوریہ واپسی تک فرشتے کے جھنڈے تلے ہی رہتاہے اور اگراللہ کی ناراضگی کے کام کے لئے نکلاہے توشیطان اپناجھنڈالگائے اس کے ساتھ ہولیتاہے اورواپسی تک یہ شیطان کے جھنڈے تلے رہتا ہے۔[11]

 إِنَّا أَعْتَدْنَا لِلْكَافِرِینَ سَلَاسِلَ وَأَغْلَالًا وَسَعِیرًا ‎﴿٤﴾‏ إِنَّ الْأَبْرَارَ یَشْرَبُونَ مِن كَأْسٍ كَانَ مِزَاجُهَا كَافُورًا ‎ یْنًا یَشْرَبُ بِهَا عِبَادُ اللَّهِ یُفَجِّرُونَهَا تَفْجِیرًا‎﴿٦﴾(الدھر)

یقیناً ہم نے کافروں کے لیے زنجیریں اور طوق اور شعلوں والی آگ تیار کر رکھی ہے، بیشک نیک لوگ وہ جام پئیں گےجس کی امیزش کافور کی ہےجو ایک چشمہ ہے جس سے اللہ کے بندے پئیں گے ،اس کی نہریں نکال لے جائیں گے (جدھر چاہیں ) ۔


زنجیریں ،طوق اورشعلے:

ان تمام انعامات واحسانات اور نعمتوں کے بعدبھی جوشخص عقل وخردسے بیگانہ ہوکرحیوانوں والی زندگی گزارے گا،دنیاکی عارضی لذات اورعیش وآرام کوآخرت پرترجیح دے گا، اللہ کومالک حقیقی جان کرشکرگزارہونے اوراللہ وحدہ لاشریک اورخاتم الانبیاء محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کااطاعت گزار ہونے کے بجائے نافرمانی کے ارتکاب کی جسارت کرکے شیطان مردودجوانسان کاپکاوواضح دشمن ہے کاپیروکاربنے گا تو ایسے بدبخت کاانجام جہنم ہی ہے جس میں اسے سترہاتھ لمبی زنجیرروں میں جکڑکر، جیسےفرمایا:

ثُمَّ فِیْ سِلْسِلَةٍ ذَرْعُهَا سَبْعُوْنَ ذِرَاعًا فَاسْلُكُوْهُ۝۳۲ۭ [12]

ترجمہ:پھراس کوسترہاتھ لمبی زنجیرمیں جکڑدو۔

گردن میں طوق ڈال کریعنی ہاتھوں کوگردن کے ساتھ باندھ اورجکڑکر،پاؤ ں میں زنجیریں ڈال کرمنہ کے بل گھسٹے ہوئے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے جہنم کے دہکتے ہوئے شعلوں میں ڈال دیاجائے گا،جیسے فرمایا

اِذِ الْاَغْلٰلُ فِیْٓ اَعْنَاقِهِمْ وَالسَّلٰسِلُ۝۰ۭ یُسْحَبُوْنَ۝۷۱ۙفِی الْحَمِیْمِ۝۰ۥۙ ثُمَّ فِی النَّارِ یُسْجَرُوْنَ۝۷۲ۚ [13]

ترجمہ:جب طوق ان کی گردنوں میں ہوں گے اورزنجیریں جن سے پکڑکروہ کھولتے ہوئے پانی کی طرف کھینچے جائیں گے اورپھردوزخ کی آگ میں جھونک دیے جائیں گے۔

جہنم کی یہ آگ ان کے جسموں کے ساتھ مزیدبھڑکے گی،جب یہ کھالیں جل جائیں گی تواللہ ان کے جسموں پراورکھال پیداکردے گا اسی طرح عذاب کایہ عمل جاری وساری رہے گا،جیسے فرمایا:

۔۔۔كُلَّمَا نَضِجَتْ جُلُوْدُھُمْ بَدَّلْنٰھُمْ جُلُوْدًا غَیْرَھَا لِیَذُوْقُوا الْعَذَابَ۔۔۔۝۰۝۵۶ [14]

ترجمہ:اورجب ان کے بدن کی کھال گل جائے گی تواس کی جگہ دوسری کھال پیداکردیں گے تاکہ وہ خوب عذاب کامزاچکھیں ۔

ان لوگوں کے برعکس وہ لوگ جنہوں نے اللہ وحدہ لاشریک ہی کو رزاق جانا ، مشکلات وتکالیف اورپریشانیوں میں اللہ ہی کومشکل کشااورحاجت روامانا ، اللہ کی عنایت کردہ بے شمار نعمتوں پراکڑنے اور اترانے کے بجائے شکرگزاررہے ،اللہ تعالیٰ اورسیدالعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کے اطاعت کاحق اداکیا،اظہاربندگی کے لئے فرض اورنفلی نمازوں کا اہتمام اور اپنی پاکیزہ کمائی کوچاہت کے باوجود اللہ کی رضاوخوشنودی کے لئے سائل و محرومین میں تقسیم اوردوسرے فرائض بجالاتے رہے،جیسے فرمایا:

۔۔ وَاٰتَى الْمَالَ عَلٰی حُبِّهٖ ذَوِی الْقُرْبٰى وَالْیَـتٰمٰى وَالْمَسٰكِیْنَ وَابْنَ السَّبِیْلِ۝۰ۙ وَالسَّاۗىِٕلِیْنَ وَفِی الرِّقَابِ۔۔۔ ۝۱۷۷ [15]

ترجمہ:اور اللہ کی محبت میں اپنا دل پسندمال رشتے داروں اور یتیموں پر مسکینوں اور مسافروں پر ، مدد کے لیے ہاتھ پھیلانے والوں پر اور غلاموں کی رہائی پر خرچ کرے ۔

لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتّٰى تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَ۔۔۔ ۝۹۲ [16]

ترجمہ:تم نیکی کو نہیں پہنچ سکتے جب تک کہ اپنی وہ چیزیں (اللہ کی راہ میں ) خرچ نہ کرو جنہیں تم عزیز رکھتے ہو۔

حَدَّثَنَا أَبُو هُرَیْرَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ:جَاءَ رَجُلٌ إِلَى النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: یَا رَسُولَ اللَّهِ، أَیُّ الصَّدَقَةِ أَعْظَمُ أَجْرًا؟قَالَ:أَنْ تَصَدَّقَ وَأَنْتَ صَحِیحٌ شَحِیحٌ تَخْشَى الفَقْرَ، وَتَأْمُلُ الغِنَى، وَلاَ تُمْهِلُ حَتَّى إِذَا بَلَغَتِ الحُلْقُومَ، قُلْتَ لِفُلاَنٍ كَذَا، وَلِفُلاَنٍ كَذَا وَقَدْ كَانَ لِفُلاَنٍ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ایک شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضرہوااورپوچھا کس طرح کے صدقہ میں سب سے زیادہ ثواب ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس صدقہ میں جسے تم صحت کے ساتھ بخل کے باوجود کرو ، تمہیں ایک طرف توفقیری کاڈرہواوردوسری طرف مالداربننے کی تمنااورامیدہواور(اس صدقہ خیرات میں )ڈھیل نہ ہونی چاہیے کہ جب جان حق تک آجائے تواس وقت توکہنے لگے کہ فلاں کے لئے اتنااورفلاں کے لئے اتناحالانکہ وہ تواب فلاں کاہوچکا۔[17]

گویااللہ کے نزدیک گنتی کے بجائے وہ دلی حالت معتبرہے جس کے ساتھ صدقہ کیا جاتا ہے۔

جو گفتار و کردار میں فرعون بننے کے بجائے اللہ کے بندوں کے ساتھ انکساری سے پیش آتے رہے، دعوت حق کوپہنچانے کے لئے جدوجہد کرتے رہے ،الغرض جن لوگوں نے رب کی رضااورآخروی زندگی میں کامیابی کے لئے آخرت کودنیاپرترجیح دی انہیں بلند ترین مناصب عطاکیے جائیں گے اورانعام کے طورپرانہیں انواع واقسام کی لازوال نعمتوں بھری جنتوں میں داخل کیاجائے گاجہاں نہ انہیں کوئی خوف ہوگانہ غم لاحق ہوگا،جیسےفرمایا:

یٰعِبَادِ لَا خَوْفٌ عَلَیْكُمُ الْیَوْمَ وَلَآ اَنْتُمْ تَحْزَنُوْنَ۝۶۸ۚ [18]

ترجمہ:اے میرے بندو!آج تمہارے لئے کوئی خوف نہیں اورنہ تمہیں کوئی غم لاحق ہوگا۔

خدام جنت خدمت میں حاضرہوں گے،وہ انہیں کافورکی آمیزش والی ٹھنڈی شراب کے چھلکتے ہوئے جام پیش کریں گے ،کافورملی یہ شراب صراحیوں یا مٹکوں میں نہیں ہوگی کہ ختم ہوجانے کااندیشہ ہو بلکہ یہ ہمیشہ جاری رہنے والاایک چشمہ ہوگا،جنتی اگراسے اپنے سفیدموتیوں کے محلات ومنازل، مجلسوں ،بیٹھکوں اور باغات یادلفریب تفریح گاہوں میں جس طرف اسے لے جاناچاہیں گےان کے ایک اشارے پر یہ اس طرف رواں دواں ہوجائے گا۔

عَنْ مُجَاهِدٍ، قَوْلُهُ: {یُفَجِّرُونَهَا تَفْجِیرًا} [19]قَالَ: یَقُودُونَهَا حَیْثُ شَاءُوا

مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں ’’ اور جہاں چاہیں گے بسہولت اس کی شاخیں نکال لیں گے ‘‘ سے مرادیہ ہے اس چشمے سے نہرنکال کرجہاں چاہیں گے لے جائیں گے۔[20]

الغرض دنیامیں چاہے تم کتنا ہی مال ودولت،حیثیت ومرتبہ،طاقت وقوت حاصل کرلو،دنیاکی ہر نعمت کو حاصل نہیں کرسکتے،کوئی نہ خلش تمہارے دلوں میں ضروررہے گی ،مگراللہ کی جنتوں میں تم وہ سب کچھ پاؤ گے جوتم تمناکروگے ،جیسے فرمایا

لَهُمْ فِیْهَا فَاكِهَةٌ وَّلَهُمْ مَّا یَدَّعُوْنَ۝۵۷ۚۖ [21]

ترجمہ: ہر قسم کی لذیذ چیزیں کھانے پینے کو ان کے لیے وہاں موجود ہیں ، جو کچھ وہ طلب کریں ان کے لیے حاضر ہے۔

یُطَافُ عَلَیْهِمْ بِصِحَافٍ مِّنْ ذَهَبٍ وَّاَكْوَابٍ۝۰ۚ وَفِیْهَا مَا تَشْتَهِیْهِ الْاَنْفُسُ وَتَلَذُّ الْاَعْیُنُ۔۔۔۝۰۝۷ [22]

ترجمہ:ان کے آگے سونے کے تھال اورساغرگردش کرائے جائیں گے اور ہر من بھاتی اور نگاہوں کولذت دینے والی چیزوہاں موجود ہوگی۔

یُوفُونَ بِالنَّذْرِ وَیَخَافُونَ یَوْمًا كَانَ شَرُّهُ مُسْتَطِیرًا ‎﴿٧﴾‏ وَیُطْعِمُونَ الطَّعَامَ عَلَىٰ حُبِّهِ مِسْكِینًا وَیَتِیمًا وَأَسِیرًا ‎﴿٨﴾‏ إِنَّمَا نُطْعِمُكُمْ لِوَجْهِ اللَّهِ لَا نُرِیدُ مِنكُمْ جَزَاءً وَلَا شُكُورًا ‎﴿٩﴾‏ إِنَّا نَخَافُ مِن رَّبِّنَا یَوْمًا عَبُوسًا قَمْطَرِیرًا ‎ ﴿١٠﴾(الدھر)

جو نذر پوری کرتے ہیں اور اس دن سے ڈرتے ہیں جس کی برائی چاروں طرف پھیل جانے والی ہے، اور اللہ تعالیٰ کی محبت میں  کھانا کھلاتے ہیں مسکین یتیم اور قیدیوں کو، ہم تمہیں صرف اللہ تعالیٰ کی رضامندی کے لیے کھلاتے ہیں نہ تم سے بدلہ چاہتے ہیں  نہ شکرگزاری، بیشک ہم اپنے پروردگار سے اس دن کا خوف کرتے ہیں جو اداسی اور سختی والا ہوگا۔


اللہ تعالیٰ نے نیک لوگوں کی مزیدتوصیف فرمائی کہ جنتوں میں اللہ کے وہ بندے داخل ہوں گے جواللہ کی اطاعت میں اپنی نذروں کوپوراکرتے ہیں ،یعنی وہ ایسے نیک بندے ہیں جوخیروبھلائی کے کام جواللہ نے ان پرواجب نہیں کیے ہیں جب ان کوانجام دینے کااللہ سے عہدکرلیتے ہیں تواس میں کسی قسم کی کوتاہی کرنے کے بجائے اسے پورا کرتے ہیں ،مگرنذرصرف وہ پوری کی جائے گی جواللہ کی اطاعت میں ہوگی معصیت میں نہیں ،

عَنْ عَائِشَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهَا،عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:مَنْ نَذَرَ أَنْ یُطِیعَ اللَّهَ فَلْیُطِعْهُ،وَمَنْ نَذَرَ أَنْ یَعْصِیَهُ فَلاَ یَعْصِهِ

ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس شخص نے نذرمانی کہ وہ اللہ کی اطاعت کرے گاتواسے اطاعت کرنی چاہیے،اورجس نے معصیت الٰہی کی نذرمانی تووہ اللہ کی نافرمانی نہ کرے یعنی اسے پورانہ کرے۔[23]

اور اس دن سے ڈرتے ہوئے محرمات اورمعصیات کاارتکاب نہیں کرتے جس کاشرگنہگاروں کوگھیرلے گا،یہ وہ لوگ ہیں جواللہ کی رضاوخوشنودی حاصل کرنے کے لئے غلاموں اور نوکرچاکروں کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آتے ہیں ،

عَنْ أَنَسٍ قَالَ:كَانَتْ عَامَّةُ وَصِیَّةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ حِینَ حَضَرَتْهُ الْوَفَاةُ، وَهُوَ یُغَرْغِرُ بِنَفْسِهِ الصَّلَاةَ، وَمَا مَلَكَتْ أَیْمَانُكُمْ

انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہےاللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات جب قریب تھی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا سانس اٹک رہا تھا اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اکثر وصیت یہ تھی کہ نماز اور غلاموں کا خیال رکھنا۔[24]

جوخودحاجت مندہونے کے باوجود غریبوں ،یتیموں ،مسکینوں اسیروں (خواہ وہ کافرہوں یامسلمان،جنگی قیدی ہویاکسی جرم میں گرفتار) اورمسافروں کو کوکھاناکھلاتے ہیں ،یعنی حاجت مندوں کی جوبھی حاجت ہواس میں مددکرتے ہیں ،اوراس شخص کواطمینان دلانے کے لئے کہتے ہیں کہ ہم تم سے کسی بدلہ کے خواست گارنہیں ہیں اورنہ ہی تم کواحسان جتلانے یامالی جزایاکسی اور ضرورت کے لئے نہیں کررہے بلکہ ہم تو مصیبت کے اس دن سے بچنے کے لئے کررہے ہیں جونہایت سخت ہوگااورسختیوں اورہولناکیوں کی وجہ سے کافروں پربڑا لمبا ہوگا،اس لئے ہمارامطمع نظرصرف اللہ رب العالمین کی خوشنودی حاصل کرناہے۔

فَوَقَاهُمُ اللَّهُ شَرَّ ذَٰلِكَ الْیَوْمِ وَلَقَّاهُمْ نَضْرَةً وَسُرُورًا ‎﴿١١﴾‏ وَجَزَاهُم بِمَا صَبَرُوا جَنَّةً وَحَرِیرًا ‎﴿١٢﴾‏ مُّتَّكِئِینَ فِیهَا عَلَى الْأَرَائِكِ ۖ لَا یَرَوْنَ فِیهَا شَمْسًا وَلَا زَمْهَرِیرًا ‎﴿١٣﴾‏ وَدَانِیَةً عَلَیْهِمْ ظِلَالُهَا وَذُلِّلَتْ قُطُوفُهَا تَذْلِیلًا ‎﴿١٤﴾‏ وَیُطَافُ عَلَیْهِم بِآنِیَةٍ مِّن فِضَّةٍ وَأَكْوَابٍ كَانَتْ قَوَارِیرَا ‎﴿١٥﴾‏ قَوَارِیرَ مِن فِضَّةٍ قَدَّرُوهَا تَقْدِیرًا ‎﴿١٦﴾‏ وَیُسْقَوْنَ فِیهَا كَأْسًا كَانَ مِزَاجُهَا زَنجَبِیلًا ‎﴿١٧﴾‏ عَیْنًا فِیهَا تُسَمَّىٰ سَلْسَبِیلًا(الدھر)

پس انہیں اللہ تعالیٰ نے اس دن کی برائی سے بچا لیا اور انہیں تازگی اور خوشی پہنچائی، اور انہیں ان کے صبر کے بدلے جنت اور ریشمی لباس عطا فرمائے،یہ وہاں تختوں پر تکیے لگائے ہوئے بیٹھیں گےنہ وہاں آفتاب کی گرمی دیکھیں گے نہ جاڑےکی سختی، ان جنتوں کے سائے ان پر جھکے ہوئے ہوں گے اور ان کے (میوے اور) گچھے نیچے لٹکے ہوئے ہونگے، اور ان پر چاندی کے برتنوں اور ان جاموں کا دور کرایا جائے گا جو شیشے کے ہونگے،شیشے بھی چاندی کے جن کو (ساقی نے) اندازے سے ناپ رکھا ہوگا، اور انہیں وہاں وہ جام پلائے جائیں گے جن کی آمیزش زنجبیل کی ہوگی، جنت کی ایک نہر جس کا نام سلسلبیل ہے۔


اللہ تعالیٰ ان کے اس جذبہ ایثاروقربانی کوپسندفرماتاہے اس لئے وہ انہیں روزمحشرکی ساری سختیوں اورہولناکیوں سے بچائے گا،اس لئے ان سختیوں سے بچ جانے کی وجہ سے ان کادل مسرت سے لبریزاور چہرے تروتازہ ہوں گے جیسے فرمایا

 لَا یَحْزُنُهُمُ الْفَزَعُ الْاَكْبَرُ وَتَتَلَقّٰىهُمُ الْمَلٰۗىِٕكَةُ ۭ ھٰذَا یَوْمُكُمُ الَّذِیْ كُنْتُمْ تُوْعَدُوْنَ [25]

ترجمہ:وہ انتہائی گھبراہٹ کاوقت ان کو ذراپریشان نہ کرے گا اور ملائکہ بڑھ کران کوہاتھوں ہاتھ لیں گے کہ یہ تمہاراوہی دن ہے جس کاتم سے وعدہ کیا جاتا تھا۔

مَنْ جَاۗءَ بِالْحَسَنَةِ فَلَهٗ خَیْرٌ مِّنْهَا۝۰ۚ وَهُمْ مِّنْ فَزَعٍ یَّوْمَىِٕذٍ اٰمِنُوْنَ۝۸۹ [26]

ترجمہ:جوشخص بھلائی لے کرآئے گااسے اس سے زیادہ بہترصلہ ملے گا اور ایسے لوگ اس دن کے ہول سے محفوظ ہوں گے۔

دنیامیں جن لوگوں نے صبرکیا،یعنی استطات بھر اللہ کی اطاعت میں نفس کی خواہشات اورلذات کوقربان کیا ،حرام وحلال کمائی کی تمیزرکھی، اللہ کی مقررکردہ حدوں کی پابندی کی،اللہ کے عائدکردہ فرائض نماز،روزہ،حج ،زکوٰة وغیرہ کوپوراکیا،اللہ کی رضاوخوشنودی کے لئے اپنا وقت ، اپنا مال،اپنی ساری قابلتیں حتی کہ اپنی جان تک نچھاور کر دی،دین کی راہ میں جوتکالیف آئیں انہیں خندہ پیشانی سے برداشت کیا،اس کے بدلے اللہ انہیں نعمتوں بھری جنتوں میں داخل فرمائے گااوروہ جنت کاسبزحریری لباس زیب تن کیے،جیسے فرمایا:

۔۔۔وَلِبَاسُهُمْ فِیْهَا حَرِیْرٌ۝۲۳ [27]

ترجمہ:اور ان کالباس ریشم کے ہوں گے۔

آسودگی کی حالت میں اونچی مرصع اورمزین جڑاؤ مسندوں پرتکیے لگائے اپنی بیویوں اورحوروں کے ساتھ آمنے سامنے بیٹھے ہوں گے،ہمیشہ ایک طرح کامعتدل موسم ہوگا،نہ انہیں تیز دھوپ کی تپش ستائے گی اورنہ ہی سخت جاڑے کی سردی، اس موسم میں ان کے جسم لذت حاصل کریں گے ،جنت کے پھل دارگھنے درخت ان پرجھکے سایہ فگن ہوں گے ،جن کے انواع اقسام کے لذیزپھلوں کے گچھے اورمیوؤ ں کے لچھے جھکے پڑے ہوں گے اور ہروقت ان کی دسترس میں ہوں گے کہ لیٹے، بیٹھے اور کھڑے جس حالت میں ہوں جب اورجس قدرچاہیں حاصل کرلیں ،جیسے فرمایا

قُطُوْفُهَا دَانِیَةٌ۝۲۳ [28]

ترجمہ:جس کے پھلوں کے گچھے جھکے پڑ رہے ہوں گے۔

عَنْ مُجَاهِدٍ، قَوْلُهُ: {وَذُلِّلَتْ قُطُوفُهَا تَذْلِیلًا} [29]قَالَ: إِذَا قَامَ ارْتَفَعَتْ بِقَدْرِهِ، وَإِنْ قَعَدَ تَدَلَّتْ حَتَّى یَنَالَهَا، وَإِنِ اضْطَجَعَ تَدَلَّتْ حَتَّى یَنَالَهَا، فَذَلِكَ تَذْلِیلُهَا

مجاہد رحمہ اللہ آیت کریمہ ’’ اور اس کے پھل ہر وقت ان کے بس میں ہوں گے ‘‘کے بارے میں فرماتے ہیں جب وہ کھڑاہوگاتوجنت کے درختوں کی ثمربارشاخیں اس کے قدکے مطابق بلندہوجائیں گی اورجب وہ بیٹھے گاتونیچے جھک جائیں گی تاکہ وہ انہیں پکڑسکےاوراسی طرح جب وہ لیٹے گاتوپھراوربھی جھک جائیں گی تاکہ لیٹے لیٹے بھی پھل حاصل کرسکے،یہی معنی ہیں اللہ تعالیٰ کے ارشادتَذْلِیلا کے۔[30]

خدام جنت مہمان نوازی کے لئے ان کے آگے پھلوں اور بھنے ہوئے پرندوں کے لئے سونے اور چاندی کے خوان اورپاکیزہ شراب پینے کے لئے ہرشخص کواس کی خواہش کے مطابق چاندی کے مگر شیشے کی طرح صاف وشفاف، نفیس و نازک جام جوٹھیک اندازے سے بھرے ہوں گے پیش کرنے کے لئے دوڑتے پھرتے رہیں گے ، جیسے فرمایا:

عَلٰی سُرُرٍ مَّوْضُوْنَةٍ۝۱۵ۙمُّتَّكِـــِٕیْنَ عَلَیْهَا مُتَقٰبِلِیْنَ۝۱۶یَطُوْفُ عَلَیْهِمْ وِلْدَانٌ مُّخَلَّدُوْنَ۝۱۷ۙبِاَكْوَابٍ وَّاَبَارِیْقَ۝۰ۥۙ وَكَاْسٍ مِّنْ مَّعِیْنٍ۝۱۸ۙلَّا یُصَدَّعُوْنَ عَنْهَا وَلَا یُنْزِفُوْنَ۝۱۹ۙوَفَاكِهَةٍ مِّمَّا یَتَخَیَّرُوْنَ۝۲۰ۙوَلَحْمِ طَیْرٍ مِّمَّا یَشْتَهُوْنَ۝۲۱ۭ [31]

ترجمہ:مرصع تختوں پر تکیے لگائے آمنے سامنے بیٹھیں گے، ان کی مجلسوں میں ابدی لڑکے شراب چشمہ جاری سے لبریز پیالےاور کنڑ اور ساغر لیےدوڑتے پھرتے ہوں گے جسے پی کر نہ ان کا سر چکرائے گا نہ ان کی عقل میں فتور آئے گااور وہ ان کے سامنے طرح طرح لذیذ پھل پیش کریں گے کہ جسے چاہیں چن لیں ، اور پرندوں کے گوشت پیش کریں گے کہ جس پرندے کا چاہیں استعمال کریں ۔

اہل عرب چونکہ شراب کے ساتھ سونٹھ ملے ہوئے پانی کی آمیزش کوپسندکرتے تھے جس سے شراب میں تلخی اورگرمی پیدا ہوجاتی تھی اس لئے اس کی مشابہت سے فرمایاکافورکی آمیزش والی شراب کے قدتی چشمہ کے علاوہ سونٹھ کی آمیزش والی شراب کا بھی ایک قدرتی چشمہ ہے ،اس کانام سلسبیل ہے،یہ شراب تلخ ہونے کے بجائے میٹھی، ہلکی اورخوش ذائقہ ہوگی، جنتی اس سے بھی لطف اندوزہوں گے۔

 وَیَطُوفُ عَلَیْهِمْ وِلْدَانٌ مُّخَلَّدُونَ إِذَا رَأَیْتَهُمْ حَسِبْتَهُمْ لُؤْلُؤًا مَّنثُورًا ‎﴿١٩﴾‏ وَإِذَا رَأَیْتَ ثَمَّ رَأَیْتَ نَعِیمًا وَمُلْكًا كَبِیرًا ‎﴿٢٠﴾‏ عَالِیَهُمْ ثِیَابُ سُندُسٍ خُضْرٌ وَإِسْتَبْرَقٌ ۖ وَحُلُّوا أَسَاوِرَ مِن فِضَّةٍ وَسَقَاهُمْ رَبُّهُمْ شَرَابًا طَهُورًا ‎﴿٢١﴾‏ إِنَّ هَٰذَا كَانَ لَكُمْ جَزَاءً وَكَانَ سَعْیُكُم مَّشْكُورًا ‎﴿٢٢﴾‏ (الدھر )

اور ان کے ارد گرد گھومتے پھرتے ہوں گے وہ کم سن بچے جو ہمیشہ رہنے والے ہیں ، جب تو انہیں دیکھے تو سمجھے کہ وہ بکھرے ہوئے موتی ہیں ، تو وہاں جہاں کہیں بھی نظر ڈالے گا سراسر نعمتیں اور عظیم الشان سلطنت ہی دیکھے گا، ان کے جسموں پر سبز باریک اور موٹے ریشمی کپڑے ہوں گے اور انہیں چاندی کے کنگن کا زیور پہنایا جائے گا، اور انہیں ان کا رب پاک صاف شراب پلائے گا (کہا جائے گا) کہ یہ ہے تمہارے اعمال کا بدلہ اور تمہاری کوشش کی قدر کی گئی۔


خدام جنتیوں کی خدمت کے لئے میوؤ ں ،پھلوں اورپرندوں کے بھنے ہوئے گوشت سے بھرے خونان اورپلانے کے لئے شیشے جیسے نفیس جام لئے ہرطرف مستعدی اورتیزی سے دوڑتے پھریں گے،یہ خدام حسن وصفائی اورتازگی وشادابی میں ایسے لگیں گے جیسے آب دارموتیوں کوجنت میں بکھیردیاگیاہو،ایک مقام پران کی خوبصورتی کویوں بیان فرمایا:

وَیَطُوْفُ عَلَیْهِمْ غِلْمَانٌ لَّهُمْ كَاَنَّهُمْ لُؤْلُؤٌ مَّكْنُوْنٌ۝۲۴ [32]

ترجمہ:اور ان کی خدمت میں وہ لڑکے دوڑتے پھر رہے ہوں گے جو انہی (کی خدمت )کے لیے مخصوص ہوں گے، ایسے خوبصورت جیسے چھپا کر رکھے ہوئے موتی ۔

جنتی جس طرف بھی نگاہ اٹھائیں گے ہرطرف اپنے رب کی لاتعداد نعمتوں کوپائیں گے ، ہرجنتی کے پاس لاتعدادخدام ہوں گے ،

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو:مَا مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ مِنْ أَحَدٍ إِلَّا یَسْعَى عَلَیْهِ أَلْفُ خَادِمٍ، كُلُّ خَادِمٍ عَلَى عَمَلٍ مَا عَلَیْهِ صَاحِبُهُ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ہرجنتی کوایک ایک ہزارخادم ملیں گے جو مختلف کام کاج کریں گے۔[33]

بہترین آرام گاہیں ،سجائے اورمزین کیے ہوئے بالاخانے ،خوبصورت باغات ،انتہائی خوبصورت اورخوب سیرت بیویاں ہوں گی ،ان کاحسن قلب کوسرور،لذت اورخوشی سے لبریزکردے گا،اللہ کی عطاکردی یہ نعمتیں ہروقت اورہرآن بڑھتی ہی رہیں گی اوراس سے بڑھ کررب کریم کی رضا۔

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ، قَالَ:قَالَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: إِنِّی لَأَعْلَمُ آخِرَ أَهْلِ النَّارِ خُرُوجًا مِنْهَا، وَآخِرَ أَهْلِ الجَنَّةِ دُخُولًا،رَجُلٌ یَخْرُجُ مِنَ النَّارِ كَبْوًا فَیَقُولُ اللَّهُ: اذْهَبْ فَادْخُلِ الجَنَّةَ، فَیَأْتِیهَا، فَیُخَیَّلُ إِلَیْهِ أَنَّهَا مَلْأَى،فَیَرْجِعُ فَیَقُولُ: یَا رَبِّ وَجَدْتُهَا مَلْأَى، فَیَقُولُ: اذْهَبْ فَادْخُلِ الجَنَّةَ، فَیَأْتِیهَا فَیُخَیَّلُ إِلَیْهِ أَنَّهَا مَلْأَى، فَیَرْجِعُ فَیَقُولُ: یَا رَبِّ وَجَدْتُهَا مَلْأَى ،فَیَقُولُ: اذْهَبْ فَادْخُلِ الجَنَّةَ، فَإِنَّ لَكَ مِثْلَ الدُّنْیَا وَعَشَرَةَ أَمْثَالِهَا – أَوْ: إِنَّ لَكَ مِثْلَ عَشَرَةِ أَمْثَالِ الدُّنْیَا فَیَقُولُ: تَسْخَرُ مِنِّی أَوْ: تَضْحَكُ مِنِّی وَأَنْتَ المَلِكُ، فَلَقَدْ رَأَیْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ ضَحِكَ حَتَّى بَدَتْ نَوَاجِذُهُ وَكَانَ یَقُولُ: ذَاكَ أَدْنَى أَهْلِ الجَنَّةِ مَنْزِلَةً

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایامیں خوب جانتاہوں کہ اہل جہنم میں سے کون سب سے آخرمیں وہاں سے نکلے گااوراہل جنت میں کون سب سے آخرمیں اس میں داخل ہوگاایک شخص جہنم سے گھٹنوں کے بل گھسیٹتے ہوئے نکلے گااللہ تعالیٰ اس سے کہے گاکہ جاؤ اورجنت میں داخل ہوجاؤ ،وہ جنت کے پاس آئے گالیکن اسے ایسامعلوم ہوگاکہ جنت بھری ہوئی ہےچنانچہ وہ واپس آے گااورعرض کرے گااے میرے رب!میں نے جنت کوبھراہواپایا،اللہ تعالیٰ پھر اس سے کہے گاکہ جاؤ اور جنت میں داخل ہوجاؤ ،وہ پھرآئے گالیکن اسے ایسامعلوم ہوگاکہ جنت بھری ہوئی ہے،وہ واپس لوٹے گااورعرض کرے گاکہ اے رب!میں نے جنت کوبھراہواپایا، اللہ تعالیٰ فرمائے گاجاؤ اورجنت میں داخل ہوجاؤ تمہیں دنیااوراس سے دس گنادیاجاتاہے یا(اللہ تعالیٰ فرمائے گاکہ)تمہیں دنیاکے دس گنادیاجاتاہے، وہ شخص کہے گا تو میرا مذاق بناتاہے حالانکہ توشہنشاہ ہے،میں نے دیکھاکہ اس بات پررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہنس دیئے اورآپ کے آگے کے دندان مبارک ظاہرہوگئے،اورکہاجاتاہے کہ وہ جنت کاسب سے کم درجے والاشخص ہوگا۔[34]

یہ حال توادنیٰ جنتی کاہے اعلیٰ جنتی کا درجہ کیاہوگا؟

وہاں وہ اس شان وشوکت سے رہیں گے گویاوہ ایک عظیم الشان سلطنت کے وارث ہیں ، دنیامیں تو مردوں کے لئے سوناپہننا،سونے چاندی کے برتن استعمال کرنا اورریشمی کپڑوں کوزیب تن کرنامنع ہےمگرجنت میں اس کی اجازت ہوگی ، چنانچہ فرمایاجنتی ہاتھوں میں سونے اورچاندی کے ہیروں سے جڑے کنگن،گلے میں موتیوں کے ہار اور موٹے اطلس ودیبااورسبز باریک،نرم اورچمکدار ریشم سے بنے لباس زیب تن کیے اطمینان ، راحت اورآسودگی کی حالت میں شاہانہ اندازسے اونچی مسندوں پرجن پر سجاوٹ والے کپڑے بچھائے گئے ہوں گے گاؤ تکیوں سے ٹیک لگا کر بیٹھے ہوں گے ،جیسے متعدد مقامات پر فرمایا:

۔۔۔ یُحَلَّوْنَ فِیْهَا مِنْ اَسَاوِرَ مِنْ ذَهَبٍ وَّیَلْبَسُوْنَ ثِیَابًا خُضْرًا مِّنْ سُنْدُسٍ وَّاِسْتَبْرَقٍ مُّتَّكِــِٕـیْنَ فِیْهَا عَلَی الْاَرَاۗىِٕكِ۔۔۔ ۝۳۱ۧ [35]

ترجمہ:وہاں وہ سونے کے کنگنوں سے آراستہ کیے جائیں گے ،باریک ریشم اوراطلس ودیباکے سبزکپڑے پہنیں گے اوراونچی مسندوں پرتکیے لگا کر بیٹھیں گے۔

۔۔۔یُحَلَّوْنَ فِیْهَا مِنْ اَسَاوِرَ مِنْ ذَهَبٍ وَّلُؤْلُؤًا۝۰ۭ وَلِبَاسُهُمْ فِیْهَا حَرِیْرٌ۝۲۳ [36]

ترجمہ:وہاں وہ سونے کے کنگنوں اورموتیوں سے آراستہ کیے جائیں گے اوران کے لباس ریشم کے ہوں گے۔

۔۔۔یُحَلَّوْنَ فِیْهَا مِنْ اَسَاوِرَ مِنْ ذَهَبٍ وَّلُؤْلُؤًا۝۰ۭ وَلِبَاسُهُمْ فِیْهَا حَرِیْرٌ۝۲۳ [37]

ترجمہ:وہاں انہیں سونے کے کنگنوں اورموتیوں سے آراستہ کیاجائے گا،وہاں ان کالباس ریشم ہوگا۔

رب کریم جنتیوں کو کافوراورزنجبیل کی آمیزش والی شرابوں کے علاوہ ایک اوربہترین نوعیت کی شراب عنایت فرمائے گااورفرمائے گاکہ یہ ساری نعمتیں اس لئے تمہیں عطافرمائی گئیں ہیں کہ تم نے دنیامیں ہماری اطاعت میں زندگی گزاری اورامتحان میں کامیاب وکامران رہے ، ہم نے تمہاری کوششوں کی قدرکی اوریہ تمام نعمتیں تمہیں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے عطا فرما دیں ۔

كُلُوْا وَاشْرَبُوْا هَنِیْۗــــًٔۢـــابِمَآ اَسْلَفْتُمْ فِی الْاَیَّامِ الْخَالِیَةِ۝۲۴ [38]

ترجمہ:(ایسے لوگوں سے کہا جائے گا) مزے سے کھاؤ اور پیو اپنے ان اعمال کے بدلے جو تم نے گزرے ہوئے دنوں میں کیے ہیں ۔

۔۔۔ وَنُوْدُوْٓا اَنْ تِلْكُمُ الْجَنَّةُ اُوْرِثْتُمُوْهَا بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ۝۴۳ [39]

ترجمہ:اس وقت نداآئے گی کہ یہ جنت جس کے تم وارث بنائے گئے ہوان اعمال کے بدلے میں ملی ہے جوتم کرتے رہے تھے۔

‏ إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا عَلَیْكَ الْقُرْآنَ تَنزِیلًا ‎﴿٢٣﴾‏ فَاصْبِرْ لِحُكْمِ رَبِّكَ وَلَا تُطِعْ مِنْهُمْ آثِمًا أَوْ كَفُورًا ‎﴿٢٤﴾‏ وَاذْكُرِ اسْمَ رَبِّكَ بُكْرَةً وَأَصِیلًاوَمِنَ اللَّیْلِ فَاسْجُدْ لَهُ وَسَبِّحْهُ لَیْلًا طَوِیلًا ‎﴿٢٦﴾‏ إِنَّ هَٰؤُلَاءِ یُحِبُّونَ الْعَاجِلَةَ وَیَذَرُونَ وَرَاءَهُمْ یَوْمًا ثَقِیلًا ‎ ‎﴿٢٧﴾ (الدھر)

بیشک ہم نے تجھ پر بتدریج قرآن نازل کیا ہے، پس تو اپنے رب کے حکم پر قائم رہ، اور ان میں سے کسی گناہ گار یا ناشکرے کا کہنا نہ مان، اور اپنے رب کے نام کا صبح شام ذکر کیا کر، اور رات کے وقت اس کے سامنے سجدے کر اور بہت رات تک اس کی تسبیح کیا کر، بیشک یہ لوگ جلدی ملنے والی (دنیا)کو چاہتے ہیں اور اپنے پیچھے ایک بڑے بھاری دن کو چھوڑے دیتے ہیں ۔


بے شک ہم نے یہ قرآن جس میں وعدووعیداورہرچیزکابیان ہے آپ کاگھڑاہوانہیں ہے بلکہ ہم نے اپنی حکمت ومشیت کے تحت،انسان کی قوت فہم اورقوت اخذمیں نقص کے سبب، حسب ضرورت واقضابہ تدریج،مرحلہ وار آپ پر نازل کیاہے،کفارومشرکین دعوت حق کودبانے اورطاغوت کی سربلندی کے لئے روڑے اٹکائیں گے،سازشیں کریں گے،ظلم وستم کے پہاڑتوڑیں گے مگرآپ تمام سختیوں اورمشکلات پرصبرواستقامت سے کام لیں اورپامردی کے ساتھ برداشت کرتے جائیں ،اور اپنے رب پر بھروسہ کرتے ہوئے کھلم کھلا وعظ ونصیحت ، ارشاد وتلقین جاری رکھیں ،دشمنوں کے مقابلہ میں حوصلہ و استقامت حاصل کرنے کے لئے صبح شام رب کی اظہاربندگی کے لئے نماز اوررات کاطویل حصہ بھی اس کے حضورسجدہ ریزرہاکریں ،اورکثرت سے اس کی شان کے لائق حمدوثنابیان کیاکریں جیسے فرمایا:

قُمِ الَّیْلَ اِلَّا قَلِیْلًا۝۲ [40]

ترجمہ:رات کو نمازمیں کھڑے رہاکرومگرکم ۔

وَمِنَ الَّیْلِ فَتَهَجَّدْ بِهٖ نَافِلَةً لَّكَ۔۔۔ ۝۷۹ [41]

ترجمہ:اور رات کو تہجد پڑھو یہ تمہارے لئے نفل ہے ۔

کفارمکہ جنہوں نے رب کی انمول نعمت کوقبول کرنے سے انکار کر دیا ہے ، ان بیوقوفوں ،دل کے اندھوں کے سامنے کھول کھول کرآیات بیان کی گئیں ہیں ،ان کوروزقیامت کی سختیوں اور جہنم کی ہولناکیوں سے ڈرایاگیاہےمگراس چیزنے ان کو کوئی فائدہ نہیں دیا،یہ توبس اخلاق وعقائدکی گمراہیوں پر مصرہیں ،اپنی ساری کوششیں اورجدوجہددنیاوی مال واسباب کوحاصل کرنے میں لگے ہوئے ہیں ، اس عارضی دنیاکی لذات میں ڈوبے ہوئے ہیں اورسمجھتے ہیں کہ انہوں نے اپنے اعمال کی جزاکے لئے اللہ کے دربارمیں پیش نہیں ہونا،اس لئے تمہارے حساب کے مطابق پچاس ہزارسال پر محیط سخت کٹھن دن کی شدتوں اورہولناکیوں کو جس میں انہوں نے اللہ کی ہرنعمت اوراپنے ہرعمل کاحساب دیناہے کوبھولے ہوئے ہیں ۔جیسے فرمایا:

۔۔۔یَقُوْلُ الْكٰفِرُوْنَ ھٰذَا یَوْمٌ عَسِرٌ۝۸ [42]

ترجمہ: اوروہی منکرین(جودنیامیں اس کاانکارکرتے تھے)اس وقت کہیں گے کہ یہ دن توبڑاکٹھن ہے۔

نَّحْنُ خَلَقْنَاهُمْ وَشَدَدْنَا أَسْرَهُمْ ۖ وَإِذَا شِئْنَا بَدَّلْنَا أَمْثَالَهُمْ تَبْدِیلًا ‎﴿٢٨﴾‏ إِنَّ هَٰذِهِ تَذْكِرَةٌ ۖ فَمَن شَاءَ اتَّخَذَ إِلَىٰ رَبِّهِ سَبِیلًا ‎﴿٢٩﴾‏ وَمَا تَشَاءُونَ إِلَّا أَن یَشَاءَ اللَّهُ ۚ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلِیمًا حَكِیمًا ‎﴿٣٠﴾‏ یُدْخِلُ مَن یَشَاءُ فِی رَحْمَتِهِ ۚ وَالظَّالِمِینَ أَعَدَّ لَهُمْ عَذَابًا أَلِیمًا ﴿٣١﴾‏‎(الدھر)

ہم نے انہیں پیدا کیا اور ہم نے ہی ان کے جوڑ اور بند ھن مضبوط کئےاور ہم جب چاہیں ان کے عوض ان جیسے اوروں کو بدل لائیں ،یقیناً یہ تو ایک نصیحت ہے پس جو چاہے اپنے رب کی راہ لے لے، اور تم نہ چاہو گے مگر یہ کہ اللہ تعالیٰ ہی چاہے،  شک اللہ تعالیٰ علم والا با حکمت ہے، جسے چاہے اپنی رحمت میں داخل کرلے، اور ظالموں کے لیے  بیاس نے دردناک عذاب تیار کر رکھا ہے۔


اللہ ہی ان لوگوں کوعدم سے وجودمیں لایاہے،اللہ نے ہی ان کے جوڑوں کورگوں اورپٹھوں کے ذریعے سے ایک دوسرے سے ملاکر مضبوط کیایہاں تک کہ جسم تکمیل کی منزل پر پہنچ گیااورہراس فعل پرقادرہوگیاجووہ چاہتاتھا،پس جوہستی انہیں حالت وجودمیں لاسکتی ہے وہ ان کے مرنے کے بعدان کوجزاوسزادینے کے لئے دوبارہ زندہ کرنے پر قادر ہے ،اوراگراللہ چاہے تو ان نافرمان لوگوں کوہلاک کرکے انہی کی جنس کے دوسرے لوگوں کولے آئے،جواپنے کردارمیں ان سے مختلف ہوں ، جیسے فرمایا:

اِنْ یَّشَاْ یُذْهِبْكُمْ اَیُّھَا النَّاسُ وَیَاْتِ بِاٰخَرِیْنَ۝۰ۭ وَكَانَ اللهُ عَلٰی ذٰلِكَ قَدِیْرًا۝۱۳۳ [43]

ترجمہ:اگروہ چاہے توتم لوگوں کوہٹاکرتمہاری جگہ دوسروں کولے آئے اوروہ اس کی پوری قدرت رکھتاہے۔

اَلَمْ تَرَ اَنَّ اللهَ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ بِالْحَقِّ۝۰ۭ اِنْ یَّشَاْ یُذْهِبْكُمْ وَیَاْتِ بِخَلْقٍ جَدِیْدٍ۝۱۹ۙوَّمَا ذٰلِكَ عَلَی اللهِ بِعَزِیْزٍ۝۲۰ [44]

ترجمہ: کیا تم دیکھتے نہیں ہو کہ اللہ نے آسمان و زمین کی تخلیق کو حق پر قائم کیا ہے ؟ وہ چاہے تو تم لوگوں کو لے جائے اور ایک نئی خلقت تمہاری جگہ لے آئےایسا کرنا اس پر کچھ بھی دشوار نہیں ہے۔

یہ قرآن توایک نصیحت ہے،جس میں تمام معاملات کھول کھول کربیان کردیے گئے ہیں ، اورلوگوں پرحجت قائم کرنے کے لئے ان کواختیاردے دیاکہ وہ چاہیں تو اس سے ہدایت ورہنمائی حاصل کر کے رب کی خوشنودی حاصل کرلیں اورجنت کے وارث بن جائیں اورجوچاہے نافرمانی کرکےرب کے غضب کوللکارے اور جہنم کاایندھن بن جائے ،مگرانسان اس پر قادر نہیں ہے کہ وہ اپنے کوہدایت کی راہ پرلگالےیااپنے لئے کسی نفع کو جاری کرلےہاں اگراللہ چاہے توایساممکن ہے،اس کی مشیت کے بغیر تم کچھ نہیں کرسکتےالبتہ صحیح قصدو نیت پروہ اجرضرورعطافرماتاہے،ہرآدمی کے لئے وہ ہے جس کی وہ نیت کرے،اللہ علیم وحکیم ہے،

عَلْقَمَةَ بْنَ وَقَّاصٍ اللَّیْثِیَّ، یَقُولُ: سَمِعْتُ عُمَرَ بْنَ الخَطَّابِ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ عَلَى المِنْبَرِ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَقُولُ:إِنَّمَا الأَعْمَالُ بِالنِّیَّاتِ، وَإِنَّمَا لِكُلِّ امْرِئٍ مَا نَوَى، فَمَنْ كَانَتْ هِجْرَتُهُ إِلَى دُنْیَا یُصِیبُهَا، أَوْ إِلَى امْرَأَةٍ یَنْكِحُهَا، فَهِجْرَتُهُ إِلَى مَا هَاجَرَ إِلَیْهِ

علقمہ بن وقاص لیثی رضی اللہ عنہ سے مروی ہےمیں نے مسجدنبوی میں منبررسول صلی اللہ علیہ وسلم پر عمر رضی اللہ عنہ بن خطاب کی زبان سے سناوہ فرمارہے تھے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سناآپ فرما رہے تھے تمام اعمال کادارومدارنیت پرہے اورہرعمل کانتیجہ ہرانسان کو اس کی نیت کے مطابق ہی ملے گاپس جس کی ہجرت اللہ اوراس کے رسول کے لئے ہووہ اللہ اوراس کے رسول کے لئے سمجھی جائے گی اورجس کی ہجرت دنیاکے لئے ہوگی یاکسی عورت سے شادی کرنے کے لئے تویہ ہجرت محض اسی کے لئے ہوگی جس کی نیت سے اس نے ہجرت کی ہے۔[45]

اللہ کے ہرکام میں حکمت ہوتی ہے وہ اپنی حکمت سے جسے چاہتاہے اپنی رحمت میں داخل کرتا ہے ، اور جسے چاہتاہے اپنی رحمت سے دورپھینک دیتاہے ،مگر اللہ ہدایت اورگمراہی کے فیصلے بھی یوں ہی الل ٹپ نہیں کر دیتا بلکہ جس کو ہدایت عطافرماتاہے وہ واقعی اس کامستحق ہوتاہے اور جس کے حصے میں گمراہی آتی ہے وہ حقیقتاًاسی کے لائق ہوتا ہے ، اور ظالموں کے لئے اس نے دردناک عذاب تیار کر رکھا ہے۔

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَقْرَأُ یَوْمَ الجُمُعَةِ فِی صَلاَةِ الفَجْرِ: تَنْزِیلُ السَّجْدَةَ، وَهَلْ أَتَى عَلَى الإِنْسَانِ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کے دن نمازفجرمیں سورہ السجدہ اورسورۂ الدھرپڑھاکرتے تھے۔[46]

[1] الرحمٰن۱۴

[2] تفسیر طبری ۸۹؍۲۴

[3] السجدة۷تا۹

[4] الانبیاء ۱۶

[5] الشمس۶تا۸

[6] البلد۱۰

[7] الملک۲

[8]حم السجدة۱۷

[9] صحیح مسلم کتاب الطھارة بَابُ فَضْلِ الْوُضُوءِ۵۳۴،جامع ترمذی ابواب الدعوات بَاب مَا جَاءَ فِی عَقْدِ التَّسْبِیحِ بِالیَدِ ۳۵۱۷

[10] مسند احمد۱۴۴۴۱،صحیح ابن حبان ۴۵۱۴،مستدرک حاکم۸۳۰۲،الآداب للبیہقی۳۰۰،شعب الایمان ۸۹۵۲،شرح السنة للبغوی ۲۰۲۹،جامع

[11] مسند احمد ۸۲۸۶

[12] الحاقة۳۲

[13] المومن ۷۱تا۷۲

[14] النساء ۵۶

[15] البقرة۱۷۷

[16] آل عمران۹۲

[17] صحیح بخاری کتاب الزکاة بَابُ فَضْلِ صَدَقَةِ الشَّحِیحِ الصَّحِیحِ۱۴۱۹،صحیح مسلم کتاب الزکاة بَابُ بَیَانِ أَنَّ أَفْضَلَ الصَّدَقَةِ صَدَقَةُ الصَّحِیحِ الشَّحِیحِ۲۳۸۲،سنن ابوداودکتاب الوصایا بَابُ مَا جَاءَ فِی كَرَاهِیَةِ الْإِضْرَارِ فِی الْوَصِیَّةِ ۲۸۶۵،سنن نسائی کتاب الزکوٰة بَابُ أَیُّ الصَّدَقَةِ أَفْضَلُ۲۵۴۳

[18] الزخرف۶۸

[19] الإنسان: 6

[20] تفسیرطبری۹۴؍۲۴

[21] یٰسین۵۷

[22] الزخرف۷۱

[23]صحیح بخاری کتاب الایمان والنذور بَابُ النَّذْرِ فِی الطَّاعَةِ ۶۶۹۶ ،سنن ابوداودكِتَاب الْأَیْمَانِ وَالنُّذُورِ بَابُ مَا جَاءَ فِی النَّذْرِ فِی الْمَعْصِیَةِ ۳۲۸۹،صحیح ابن خزیمة۲۲۴۱،سنن الدارمی ۲۳۸۳،مصنف ابن ابی شیبة۱۲۱۴۶

[24]سنن ابن ماجہ کتاب الوصایا بَابُ هَلْ أَوْصَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ۲۶۹۸،مسنداحمد۱۲۱۶۹

[25] الانبیاء ۱۰۳

[26] النمل۸۹

[27] الحج۲۳

[28] الحاقة۲۳

[29] الإنسان: 14

[30] تفسیرطبری۱۰۳؍۲۴

[31] الواقعة ۱۵ تا ۲۱

[32] الطور۲۴

[33] تفسیرابن کثیر۲۹۲؍۸

[34] صحیح بخاری کتاب الرقاق بَابُ صِفَةِ الجَنَّةِ وَالنَّارِ ۶۵۷۱، ۷۵۱۱، صحیح مسلم کتاب الایمان بَابُ آخَرِ أَهْلِ النَّارِ خُرُوجًا۴۶۱،جامع ترمذی ابواب الجہنم بَابُ مَا جَاءَ أَنَّ لِلنَّارِ نَفَسَیْنِ، وَمَا ذُكِرَ مَنْ یَخْرُجُ مِنَ النَّارِ مِنْ أَهْلِ التَّوْحِیدِ ۲۵۹۵،سنن ابن ماجہ کتاب الدھدبَابُ صِفَةِ الْجَنَّةِ ۴۳۳۹،مسنداحمد۴۳۹۱

[35]الکہف۳۱

[36] الحج۲۳

[37] فاطر۳۳

[38] الحاقة۲۴

[39] الاعراف۴۳

[40] المزمل۲

[41] بنی اسرائیل۷۹

[42]القمر ۸

[43]  النساء ۱۳۳

[44] ابراہیم ۱۹،۲۰

[45] صحیح بخاری کتاب الوحی باب كَیْفَ كَانَ بَدْءُ الوَحْیِ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ؟۱،وکتاب العتق بَابُ الخَطَإِ وَالنِّسْیَانِ فِی العَتَاقَةِ وَالطَّلاَقِ وَنَحْوِهِ، وَلاَ عَتَاقَةَ إِلَّا لِوَجْهِ اللَّهِ ۲۵۲۹،مسنداحمد۱۶۸،صحیح ابن حبان ۳۸۹،سنن دارقطنی ۱۳۱،سنن الکبری للبیہقی ۲۲۵۴،۷۳۷۰،۸۱۰۸،۸۹۹۲

[46] صحیح مسلم کتاب الجمعةبَابُ مَا یُقْرَأُ فِی صَلَاةِ الْجُمُعَةِ ۲۰۳۱،سنن ابوداودکتاب الصلاة بَابُ مَا یَقْرَأُ فِی صَلَاةِ الصُّبْحِ یَوْمَ الْجُمُعَةِ۱۰۷۴،جامع ترمذی ابواب الجمعة بَابُ مَا جَاءَ فِیمَا یَقْرَأُ فِی صَلاَةِ الصُّبْحِ یَوْمَ الْجُمُعَةِ ۵۲۰،سنن نسائی کتاب الافتتاع الْقِرَاءَةُ فِی الصُّبْحِ یَوْمَ الْجُمُعَةِ۹۵۷،سنن ابن ماجہ کتاب اقامة الصلوٰة باب القراة فی صلاة الفجریوم الجمعة ۸۲۱

Related Articles