بعثت نبوی کا پہلا سال

مضامین سورۂ الاعلی

اس سورۂ میں تین مضامین توحید،رسالت اورآخرت کاذکرہوا۔

توحید:اللہ تعالیٰ کی حمدوثناکاحکم ہے جوہرقسم کے عیب،کمزوری ،نقص اورمخلوقات سے تشبیہ سے پاک ہے ،اسی اکیلے نے چنددنوں میں اس عظیم الشان کائنات کوتخلیق فرمایا،اس کاتناسب اورتقدیرمقررفرمائی،اور وہی اپنی قدرت کاملہ سے طرح طرح کی نباتات کوپیدافرماتاہے اورپھراسے خس و خاشاک میں بدل دیتاہے۔

رسالت:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوہدایت فرمائی کہ نوع انسانی کی ہدایت ورہنمائی کے لئے اس عظیم کلام کونازل اوراس کوآپ کے سینہ اطہرمیں محفوظ کر دینا اوراس کی حفاظت کرناہماری ذمہ داری ہے،آپ اس سلسلہ میں قطعاًفکرمندنہ ہوں ،آپ کاکام اس پیغام کولوگوں تک پہنچادیناہے،اس کے بعدجس کا جی چاہے اسے قبول کرکے اللہ کی خوشنودی اورجنتوں کامستحق بن جائے ،اورجواس پرایمان نہ لائیں اس کی آپ پرکسی قسم کی کوئی ذمہ داری نہیں ہے ۔

آخرت:اورآخرت میں کامیابی اورفلاح ان لوگوں کامقدرہوگی جواس کلام پرایمان لائیں گے ،اورعقائدواعمال اوراخلاق میں پاکیزگی اختیارکریں گے،عملی زندگی میں اپنے رب کی یادکے لئے نمازقائم کریں گے،یہ دنیافانی ہے،ایک وقت مقررہ پراسے ختم کردیاجائے گا،اس حقیقت کواس سے قبل ابراہیم خلیل اللہ اورموسیٰ کلیم اللہ کے صحیفوں میں بھی بیان کردیاگیاتھا۔

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

شروع اللہ کے نام سے جو بیحد مہربان نہایت رحم والا ہے

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِیمِ
سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى ‎﴿١﴾‏ الَّذِی خَلَقَ فَسَوَّىٰ ‎﴿٢﴾‏ وَالَّذِی قَدَّرَ فَهَدَىٰ ‎﴿٣﴾‏ وَالَّذِی أَخْرَجَ الْمَرْعَىٰ ‎﴿٤﴾‏ فَجَعَلَهُ غُثَاءً أَحْوَىٰ ‎﴿٥﴾‏(الاعلیٰ)
اپنے بہت ہی بلند اللہ کے نام کی پاکیزگی بیان کرجس نے پیدا کیا اور صحیح سالم بنایا، اور جس نے (ٹھیک ٹھاک) اندازہ کیا اور پھر راہ دکھائی، اور جس نے تازہ گھاس پیدا کی پھر اس نے اس کو (سکھا کر) سیاہ کوڑا کردیا۔

توحیدکاحکم دیتے ہوئے فرمایااے نبی صلی اللہ علیہ وسلم !اپنے وحدہ لاشریک رب کے نام کی عظمت کے لائق پاکیزگی اورحمدوثنابیان کرو،اسے کسی ایسے نام سے یاد نہ کروجواپنے اندرکسی قسم کانقص ،عیب،کمزوری یامخلوقات سے تشبیہ یاشرک کاکوئی پہلورکھتاہو،یاجن میں اس کی ذات ،صفات یاافعال کے بارے میں کوئی غلط عقیدہ پایاجاتاہو،

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: كَانَ إِذَا قَرَأَ: سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى، قَالَ:سُبْحَانَ رَبِّیَ الْأَعْلَى

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى کے جواب میں سُبْحَانَ رَبِّیَ الْأَعْلَى پڑھا کرتے تھے۔[1]

حكم الألبانی : صحیح

شیخ البانی نے اسے صحیح کہاہے ۔

عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ، قَالَ: لَمَّا نَزَلَتْ:فَسَبِّحْ بِاسْمِ رَبِّكَ الْعَظِیمِ ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:اجْعَلُوهَا فِی رُكُوعِكُمْ، فَلَمَّا نَزَلَتْ سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى، قَالَ:اجْعَلُوهَا فِی سُجُودِكُمْ

عقبہ بن عامرجہنی سے مروی ہےجب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ آیت فَسَبِّحْ بِاسْمِ رَبِّكَ الْعَظِیْمِ نازل ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس تسبیح (سبحان ربی العظیم ) کو اپنے رکوع کے لئے کر لو اور جب آیت سَبِّحْ اسْمَ رَبِّکَ الْأَعْلَی اتری تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس تسبیح (سبحان ربی الاعلی) کو اپنے سجود میں اختیار کرلو۔[2]

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کویہ سورۂ بہت محبوب تھی ۔

عَنِ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِیرٍ، قَالَ:كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَقْرَأُ فِی الْعِیدَیْنِ، وَفِی الْجُمُعَةِ بِسَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى، وَهَلْ أَتَاكَ حَدِیثُ الْغَاشِیَةِ، قَالَ:وَإِذَا اجْتَمَعَ الْعِیدُ وَالْجُمُعَةُ، فِی یَوْمٍ وَاحِدٍ، یَقْرَأُ بِهِمَا أَیْضًا فِی الصَّلَاتَیْنِ

نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سورۂ اعلیٰ اورالغاشیہ جمعہ اورعیدین کی نمازمیں پڑھاکرتے تھے،اگرجمعہ کے دن عیدہوتی توعیداورجمعہ دونوں میں انہی دونوں سورتوں کی تلاوت فرماتے۔[3]

عَنْ عَبْدِ الْعَزِیزِ بْنِ جُرَیْجٍ، قَالَ سَأَلْتُ عَائِشَةَ أُمَّ الْمُؤْمِنِینَ بِأَیِّ شَیْءٍ كَانَ یُوتِرُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ؟ قَالَتْ: كَانَ یَقْرَأُ فِی الرَّكْعَةِ الْأُولَى بِ سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى، وَفِی الثَّانِیَةَ قُلْ یَا أَیُّهَا الْكَافِرُونَ، وَفِی الثَّالِثَةِ قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ

عبدالعزیز بن جریخ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں نے ام المومنین عائشہ صدیقہ سے پوچھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم وتروں میں کون سی سورتیں پڑھتے تھے؟ انہوں نے فرمایاآپ صلی اللہ علیہ وسلم وترکی پہلی رکعت میں سورہ الاعلی دوسری میں سورہ الکافرون اورتیسری میں سورہ اخلاص پڑھتے تھے۔[4]

حَدَّثَنَا مُحَارِبُ بْنُ دِثَارٍ، قَالَ: سَمِعْتُ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ الأَنْصَارِیَّ، قَالَ:أَقْبَلَ رَجُلٌ بِنَاضِحَیْنِ وَقَدْ جَنَحَ اللَّیْلُ، فَوَافَقَ مُعَاذًا یُصَلِّی، فَتَرَكَ نَاضِحَهُ وَأَقْبَلَ إِلَى مُعَاذٍ، فَقَرَأَ بِسُورَةِ البَقَرَةِ أَوِ النِّسَاءِ فَانْطَلَقَ الرَّجُلُ وَبَلَغَهُ أَنَّ مُعَاذًا نَالَ مِنْهُ ،فَأَتَى النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَشَكَا إِلَیْهِ مُعَاذًا فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:یَا مُعَاذُ، أَفَتَّانٌ أَنْتَ أَوْأَفَاتِنٌ ثَلاَثَ مِرَارٍ:فَلَوْلاَ صَلَّیْتَ بِسَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ، وَالشَّمْسِ وَضُحَاهَا، وَاللَّیْلِ إِذَا یَغْشَى ،فَإِنَّهُ یُصَلِّی وَرَاءَكَ الكَبِیرُ وَالضَّعِیفُ وَذُو الحَاجَةِ

محارب بن دثار رضی اللہ عنہ نے بیان کیا میں نے جابربن عبداللہ انصاری رضی اللہ عنہ سے سناکہ ایک شخص پانی اٹھانے والے دواونٹ لئے ہوئے آیا،رات تاریک ہوچکی تھی اس نے معاذ رضی اللہ عنہ کو نمازپڑھاتے ہوئے پایااس لئے اپنے اونٹوں کوبٹھاکر(نمازمیں شریک ہونے کے لئے) معاذ رضی اللہ عنہ کی طرف پڑھا ، معاذ رضی اللہ عنہ نے نمازمیں سورہ البقرہ یاسورہ النساء شروع کی چنانچہ وہ شخص نیت توڑکرچل دیا،پھراسے معلوم ہواکہ معاذ رضی اللہ عنہ نے تجھ کوبرابھلاکہاہے،اس لئے وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضرہوااورمعاذکی شکایت کی،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایامعاذ!کیاتم لوگوں کوفتنہ میں ڈالتے ہو،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے معاذ رضی اللہ عنہ کو تین مرتبہ فرمایاتونےسورہ الاعلی،سورہ الشمس اورسورہ الیل کے ساتھ نمازکیوں نہ پڑھائی کیونکہ تمہارے پیچھے بوڑھے ،کمزوراورحاجت مندنمازپڑھتے ہیں ۔[5]

دوسری روایت میں ہے سورہ الطارق اورالشمس یاسورہ الاعلی یاسورہ القمر پڑھنے کاحکم فرمایا۔

اس اللہ کی اسمائے حسنیٰ کے ساتھ تسبیح بیان کرو جس نے ایک منصوبے کے تحت سات آسمان وزمین اوران کے درمیان بے حدوحساب چیزوں کو پیدا کیامگر کوئی ایک چیز بھی ایسی نہیں ہے جو بےڈھنگی اور بےتکی ہوبلکہ جو چیز بھی پیدا کی اسے بالکل راست اور درست بنایا، اس کا توازن اور تناسب ٹھیک ٹھیک قائم کیا، اس کو ایسی صورت پر پیدا کیا کہ اس جیسی چیز کے لیے اس سے بہتر صورت کا تصور نہیں کیا جا سکتا،جیسے فرمایا

 الَّذِیْٓ اَحْسَنَ كُلَّ شَیْءٍ خَلَقَهٗ۔۔۔۝۷ۚ [6]

ترجمہ: جس نے ہر چیز جو بنائی خوب بنائی۔

اوران کی تقدیربنائی ،جیسے فرمایا

۔۔۔وَخَلَقَ كُلَّ شَیْءٍ فَقَدَّرَهٗ تَقْدِیْرًا۝۲ [7]

ترجمہ: جس نے ہر چیز کو پیدا کیا پھر اس کی ایک تقدیر مقرر کی۔

عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ، قَالَ:سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، یَقُولُ: كَتَبَ اللهُ مَقَادِیرَ الْخَلَائِقِ قَبْلَ أَنْ یَخْلُقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ بِخَمْسِینَ أَلْفَ سَنَةٍ قَالَ: وَعَرْشُهُ عَلَى الْمَاءِ

عبداللہ بن عمروسے مروی ہےمیں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنازمین وآسمان کی پیدائش سے پچاس ہزارسال پہلے اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق کی تقدیر لکھی،اس وقت پروردگار کا عرش پانی پرتھا۔[8]

انہیں وہ کام انجام دینے کی راہ بتائی جس کے لئے وہ پیداکی گئی ہے،جیسے فرمایا:

۔۔۔رَبُّنَا الَّذِیْٓ اَعْطٰی كُلَّ شَیْءٍ خَلْقَهٗ ثُمَّ هَدٰى۝۵۰ [9]

ترجمہ: ہمارا رب وہ ہے جس نے ہرچیزکواس کی ساخت بخشی پھراس کاراستہ بتایا ۔

یعنی یہ کائنات کسی اتفاقی حادثے کی نتیجے میں وجودمیں نہیں آ گئی بلکہ ایک حکیم ودانااورہادی نے عظیم حکمت کے مطابق اسے تخلیق کیا ہے ، اوراس کے حکم کے تحت زمین ،چاند،سورج ،ستارے اور سیارے اپنے اپنے مدارمیں حرکت کررہے ہیں ،پانی ،ہوا،روشنی ،جمادات ونباتات اور معدنیات وغیرہ وہی خدمات بجالارہے ہیں جن کے لئے ان کوپیداکیاگیاہے ، جانور، پرندے ،درندے اور حشرات الارض سب اپنااپناکام بہ احسن وخوبی اپناکام سرانجام دے رہی ہے اورجب تک اللہ رب العالمین چاہے گا اپنا کام کرتی رہے گی ، اس نے انسان کو پانی کے ایک بدبودارحقیرقطرے سے پیداکیاجب کہ اس سے پہلے اس کاوجودہی نہ تھا ،پھر اسے ایک حسن صورت والا کامل انسان بنا دیا، پھراسے عقل وفہم عطاکی،انسان کی دونوں آنکھیں جن سے وہ دیکھتاہے ،دونوں کان جن سے وہ سنتا ہے ، دونوں ہاتھوں جن سے وہ پکڑتاہے اوردونوں پیروں کوجن سے وہ چلتاہے متناسب بنایا ، اگر انسان کے اعضامیں یہ برابری اورمناسبت نہ ہوتی تواس کے وجودمیں حسن کے بجائے بے دھب پن ہوجاتا،جیسے فرمایا

لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِیْٓ اَحْسَنِ تَقْوِیْمٍ۝۴ۡ [10]

ترجمہ: ہم نے انسان کوبہترین ساخت پرپیداکیا۔

پھراسی خالق نے دنیا میں پاکیزہ زندگی گزارنے اورآخرت میں کامیابی کے لئے انسان کونیکی اور بدی کی تمیز عطا فرمائی ، جیسے فرمایا

فَاَلْهَمَهَا فُجُوْرَهَا وَتَقْوٰىهَا۝۸۠ۙ [11]

ترجمہ:پھر اس کی بدی اور اس کی پرہیزگاری اس پر الہام کر دی۔

موسی ٰ علیہ السلام نے بھی فرعون کے سوال پریہی جواب دیاتھا۔

قَالَ فَمَنْ رَّبُّكُمَا یٰمُوْسٰى۝۴۹قَالَ رَبُّنَا الَّذِیْٓ اَعْطٰی كُلَّ شَیْءٍ خَلْقَهٗ ثُمَّ هَدٰى۝۵۰ [12]

ترجمہ:فرعون نے کہا اچھا تو پھر تم دونوں کا رب کون ہے اے موسی؟ موسی ٰ علیہ السلام نے جواب دیا ہمارا رب وہ ہے جس نے ہر چیز کو اس کی ساخت بخشی پھر اس کو راستہ بتایا۔

اسی طرح جسمانی ضروریات کے لئے دنیاوی نعمتوں کی انواع وصفات اور خصوصیات کا اندازہ فرما کر ان کی طرف رہنمائی فرمادی ،اللہ جس کی قدرت کمال تم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہو، اللہ جو آسمان سے پانی برسا کرتمہاری ضروریات کی مختلف نباتات اور تمہارے پینے کے لئے خوش ذائقہ دودھ ، کھانے کے لئے گوشت ، سواری اورمال برداری والے جانوروں اور حیوانات کے لئے تازہ گھاس پیدافرماتاہے ،جن کی تازگی وشادابی دیکھ کردل خوش ہوتاہے پھروہی اس تازہ اورشاداب نباتات اورگھاس کا جتنا جوبن مقدر ہوتاہے اس کے مکمل کر لینے کے بعد سکھاکرخس وخاشاک کردیتاہے،جسے ہوائیں اڑاتی پھرتی ہیں ،اس کے سواکوئی ایسی ہستی نہیں جوبہارلانے پر قادر ہویا خزاں کوآنے سے روک سکتی ہو،اسی مضمون کو متعدد مقامات پربیان فرمایا:

اِنَّمَا مَثَلُ الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا كَمَاۗءٍ اَنْزَلْنٰهُ مِنَ السَّمَاۗءِ فَاخْتَلَطَ بِهٖ نَبَاتُ الْاَرْضِ مِمَّا یَاْكُلُ النَّاسُ وَالْاَنْعَامُ۝۰ۭ حَتّٰٓی اِذَآ اَخَذَتِ الْاَرْضُ زُخْرُفَهَا وَازَّیَّنَتْ وَظَنَّ اَهْلُهَآ اَنَّھُمْ قٰدِرُوْنَ عَلَیْهَآ۝۰ۙ اَتٰىھَآ اَمْرُنَا لَیْلًا اَوْ نَهَارًا فَجَعَلْنٰھَا حَصِیْدًا كَاَنْ لَّمْ تَغْنَ بِالْاَمْسِ۔۔۔۰ ۝۲۴ [13]

ترجمہ:دنیا کی یہ زندگی (جس کے نشے میں مست ہو کر تم ہماری نشانیوں سے غفلت برت رہے ہو) اس کی مثال ایسی ہے جیسے آسمان سے ہم نے پانی برسایا تو زمین کی پیداوار ، جسے آدمی اور جانور سب کھاتے ہیں ، خوب گھنی ہوگئی ، پھر عین اس وقت جبکہ زمین اپنی بہار پر تھی اور کھیتیاں بنی سنوری کھڑی تھیں اور ان کے مالک سمجھ رہے تھے کہ اب ہم ان سے فائدہ اٹھا پر قادر ہیں ، یکا یک رات کو یا دن کو ہمارا حکم آگیاا ور ہم نے اسے ایسا غارت کر کے رکھ دیا کہ گویا کل وہاں کچھ تھا ہی نہیں ۔

وَاضْرِبْ لَهُمْ مَّثَلَ الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا كَمَاۗءٍ اَنْزَلْنٰهُ مِنَ السَّمَاۗءِ فَاخْتَلَطَ بِهٖ نَبَاتُ الْاَرْضِ فَاَصْبَحَ هَشِیْمًا تَذْرُوْهُ الرِّیٰحُ۔۔۔۝۰۝۴۵ [14]

ترجمہ:اور اے نبی! انہیں حیاتِ دنیا کی حقیقت اس مثال سے سمجھاؤ کہ آج ہم نے آسمان سے پانی برسا دیا تو زمین کی پودخوب گھنی ہو گئی، اور کل وہی نباتات بھُس بن کر رہ گئی جسے ہوائیں اڑائے لیے پھرتی ہیں ۔

اِعْلَمُوْٓا اَنَّمَا الْحَیٰوةُ الدُّنْیَا لَعِبٌ وَّلَهْوٌ وَّزِیْنَةٌ وَّتَفَاخُرٌۢ بَیْنَكُمْ وَتَكَاثُرٌ فِی الْاَمْوَالِ وَالْاَوْلَادِ۝۰ۭ كَمَثَلِ غَیْثٍ اَعْجَبَ الْكُفَّارَ نَبَاتُهٗ ثُمَّ یَهِیْجُ فَتَرٰىهُ مُصْفَرًّا ثُمَّ یَكُوْنُ حُطَامًا۔۔۔۝۰۝۲۰ [15]

ترجمہ:خوب جان لو کہ یہ دنیا کی زندگی اس کے سوا کچھ نہیں کہ ایک کھیل اور دل لگی اور ظاہری ٹیپ ٹاپ اور تمہارا آپس میں ایک دوسرے پر فخر جتانا اور مال و اولاد میں ایک دوسرے سے بڑھ جانے کی کوشش کرنا ہے،اس کی مثال ایسی ہے جیسے ایک بارش ہوگئی تو اسے پیدا ہونے والی نباتات کو دیکھ کر کاشت کار خوش ہوگئے،پھر وہی کھیتی پک جاتی ہے اور تم دیکھتے ہو کہ وہ زرد ہوگئی، پھر وہ بھس بن کر رہ جاتی ہے۔

 سَنُقْرِئُكَ فَلَا تَنسَىٰ ‎﴿٦﴾‏ إِلَّا مَا شَاءَ اللَّهُ ۚ إِنَّهُ یَعْلَمُ الْجَهْرَ وَمَا یَخْفَىٰ ‎﴿٧﴾‏ وَنُیَسِّرُكَ لِلْیُسْرَىٰ ‎﴿٨﴾‏ فَذَكِّرْ إِن نَّفَعَتِ الذِّكْرَىٰ ‎﴿٩﴾‏ سَیَذَّكَّرُ مَن یَخْشَىٰ ‎﴿١٠﴾‏ وَیَتَجَنَّبُهَا الْأَشْقَى ‎﴿١١﴾‏ الَّذِی یَصْلَى النَّارَ الْكُبْرَىٰ ‎﴿١٢﴾‏ ثُمَّ لَا یَمُوتُ فِیهَا وَلَا یَحْیَىٰ ‎﴿١٣﴾(الاعلیٰ)
ہم تجھے پڑھائیں گے پھر تو نہ بھولے گا مگر جو کچھ اللہ چاہے، وہ ظاہر اور پوشیدہ کو جانتا ہے، ہم آپ کیلئے آسانی پیدا کردیں گے تو آپ نصیحت کرتے رہیں اگر نصیحت کچھ فائدہ دے،ڈرنے والا تو نصیحت لے گا (ہاں ) بدبخت اس سے گریز کرے گاجو بڑی آگ میں جائے گا، جہاں پھر نہ مرے گانہ جیئے گا (بلکہ حالت نزع میں پڑا رہے گا)۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوابھی وحی کانیانیاتجربہ ہورہاتھااس لئے جب جبرائیل علیہ السلام وحی لے کرآتے تو اس خیال سے کہ کہیں آپ بھول نہ جائیں وحی کو جبرائیل علیہ السلام کے ساتھ جلدی جلدی پڑھتے،خالق کائنات نے فرمایااے نبی صلی اللہ علیہ وسلم !ہم نے جووحی آپ کی طرف نازل کی ہے اس کی تکمیل سے پہلے اسے بھولنے کی خوف سے جلدی جلدی اپنی زبان کوحرکت نہ دیں ،اسے آپ کی زبان مبارک پرجاری کر دینا ،آپ کے سینے میں اسے لفظ بلفظ محفوظ کرنایقیناًہماری ذمہ داری ہے پھر آپ اسے کبھی فراموش نہیں کریں گے،مگرجسے اللہ اپنی مشیت ،مصلحت اوروحکمت بالغہ سے فراموش کرا دے (مگراللہ نے ایسانہیں چاہااس لئے آپ کو سب کچھ یادہی رہا) لہذاجب ہم اسے پڑھ رہے ہوں اس وقت آپ اس کی قرات کو غور سے سنتے رہیں ،

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، فَكَانَ إِذَا أَتَاهُ جِبْرِیلُ أَطْرَقَ، فَإِذَا ذَهَبَ قَرَأَه

چنانچہ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے اس کے بعدجب آپ کے پاس جبرائیل وحی لے کر آتے توآپ صلی اللہ علیہ وسلم توجہ سے سنتے ،جب وہ چلے جاتے تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس وحی کو اس طرح پڑھتے جس طرح جبرائیل نے اسے پڑھاتھا۔[16]

آپ تلاوت قرآن اونچی آوازسے پڑھیں یاپست آوازسے،رات کے اندھیروں میں چھپ کرکوئی عمل کریں گے یا دن کے اجالے میں کریں سب اللہ علام الغیوب جانتاہے،جیسے فرمایا

وَاَسِرُّوْا قَوْلَكُمْ اَوِ اجْهَرُوْا بِهٖ۝۰ۭ اِنَّهٗ عَلِیْمٌۢ بِذَاتِ الصُّدُوْرِ۝۱۳

ترجمہ: تم خواہ چپکے سے بات کرو یا اونچی آواز سے (اللہ کے لیے یکساں ہے) وہ تو دلوں کا حال تک جانتا ہے ۔

یَعْلَمُ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَیَعْلَمُ مَا تُسِرُّوْنَ وَمَا تُعْلِنُوْنَ۝۰ۭ وَاللهُ عَلِیْمٌۢ بِذَاتِ الصُّدُوْرِ۝۴ [17]

ترجمہ:زمین اور آسمانوں کی ہر چیز کا اسے علم ہے،جو کچھ تم چھپاتے ہو اور جو کچھ تم ظاہر کرتے ہو سب اس کو معلوم ہے ، اور وہ دلوں کا حال تک جانتا ہے۔

۔۔۔یَعْلَمُ مَا یُسِرُّوْنَ وَمَا یُعْلِنُوْنَ۝۰ۚ اِنَّهٗ عَلِیْمٌۢ بِذَاتِ الصُّدُوْرِ۝۵ [18]

ترجمہ:اللہ ان کے چھپے کو بھی جانتا ہے اور کھلے کو بھی، وہ تو ان بھیدوں سے بھی واقف ہے جو سینوں میں ہیں ۔

وہ تو سینوں کے چھپے بھیدکے علاوہ آنکھوں کی خیانت کوبھی جانتا ہے،جیسے فرمایا:

یَعْلَمُ خَاۗىِٕنَةَ الْاَعْیُنِ وَمَا تُخْفِی الصُّدُوْرُ۝۱۹ [19]

ترجمہ:اللہ نگاہوں کی چوری تک سے واقف ہے اور راز تک جانتا ہے جو سینوں نے چھپا رکھے ہیں ۔

اورسب دیکھ اورسن رہاہے، اور اس کے علاوہ خواہ تم کوئی عمل اندھیرے میں ، خلوتوں میں ، سنسان جنگلوں میں کرو،کراماً کاتبین جو کسی سے نہ ذاتی محبت رکھتے ہیں نہ عداوت اللہ کے حکم سے تمہارے ہر چھوٹے بڑے،اچھے یابرے ہرطرح کے اعمال کوتحریرمیں لارہے ہیں ،جیسے فرمایا:

وَاِنَّ عَلَیْكُمْ لَحٰفِظِیْنَ۝۱۰ۙكِرَامًا كَاتِبِیْنَ۝۱۱ۙیَعْلَمُوْنَ مَا تَفْعَلُوْنَ۝۱۲ [20]

ترجمہ:حالانکہ تم پر نگراں مقرر ہیں ایسے معزز کاتب جو تمہارے ہر فعل کو جانتے ہیں ۔

اوران کاتیارکردہ یہ نامہ اعمال ایسامکمل ہوگاکہ روزقیامت ہرکوئی اسے دیکھ کردنگ رہے جائے گااورانکارنہیں کرسکے گا،جیسے فرمایا

وَوُضِـعَ الْكِتٰبُ فَتَرَى الْمُجْرِمِیْنَ مُشْفِقِیْنَ مِمَّا فِیْهِ وَیَقُوْلُوْنَ یٰوَیْلَتَنَا مَالِ هٰذَا الْكِتٰبِ لَا یُغَادِرُ صَغِیْرَةً وَّلَا كَبِیْرَةً اِلَّآ اَحْصٰىهَا۝۰ۚ وَوَجَدُوْا مَا عَمِلُوْا حَاضِرًا۝۰ۭ وَلَا یَظْلِمُ رَبُّكَ اَحَدًا۝۴۹ۧ [21]

ترجمہ:اور نامہ اعمال سامنے رکھ دیا جائے گااس وقت تم دیکھو گے کہ مجرم لوگ اپنی کتاب زندگی کے اندراجات سے ڈر رہے ہوں گے اور کہہ رہے ہوں گے کہ ہائے ہماری کم بختی!یہ کیسی کتاب ہے کہ ہماری کوئی چھوٹی بڑی حرکت ایسی نہیں رہی جو اس میں درج نہ کی گئی ہو، جو جو کچھ انہوں نے کیا تھا وہ سب اپنے سامنے حاضر پائیں گے اور تیرا رب کسی پر ذرا ظلم نہ کرے گا۔

اوریہ اعمال نامہ روز قیامت نیک بختوں کوسیدھے ہاتھ میں اور بدبختوں کوپیٹھ کے پیچھے سے الٹے ہاتھ میں تھمایاجائے گاجسے وہ خودپڑھ لیں گے اور اسی کے مطابق جزا یاسزا دی جائے گی،جیسے فرمایا:

اِقْرَاْ كِتٰبَكَ۝۰ۭ كَفٰى بِنَفْسِكَ الْیَوْمَ عَلَیْكَ حَسِیْبًا۝۱۴ۭ [22]

ترجمہ:پڑھ اپنا نامہ اعمال، آج اپنا حساب لگانے کے لیے تو خود ہی کافی ہے۔

خوشخبری سنائی کہ ہم آپ کے لئے افعال واقوال آسان کردیں گے جن میں خیرہو،اورہم آپ کے لئے ایسی شریعت مقررکریں گے جو سہل ، مستقیم اور معتدل ہوگی ،جس میں کوئی کجی ،عسراورتنگی نہیں ہوگی ،وعظ ونصیحت اورتعلیم کے لئے ایک اصول اورادب بیان فرمایا:

أَیْ: ذكِّر حَیْثُ تَنْفَعُ التَّذْكِرَةُ

آپ وعظ ونصیحت وہاں کریں جہاں محسوس ہوکہ فائدہ مندہوگی۔[23]

قول عبد الله بن مسعود:مَا أَنْتَ بمحدِّث قَوْمًا حَدِیثًا لَا تَبْلُغُهُ عُقُولُهُمْ إِلَّا كَانَ فِتْنَةً لِبَعْضِهِمْ ، وَقَالَ: حَدِّثِ النَّاسَ بِمَا یَعْرِفُونَ، أَتُحِبُّونَ أَنْ یُكَذَّبَ اللَّهُ وَرَسُولُهُ؟

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کاقول ہےاگرتم دوسروں کے ساتھ وہ باتیں کروگے جوان کی سمجھ میں نہ آسکیں تواس کانتیجہ یہ ہوگاکہ وہ تمہاری اچھی باتیں ان کے لئے بری اور باعث فتنہ بن جائیں گی، بلکہ لوگوں سے ان کی سمجھ بوجھ کے مطابق گفتگوکرو،کیاتم یہ پسند کروگےکہ لوگ اللہ اوراس کے رسول کو جھٹلائیں ۔[24]

بعض کہتے ہیں آپ نصیحت کرتے رہیں چاہے فائدہ دے یانہ دے۔(امام شوکانی رحمہ اللہ )

یہ دعوت وہ شخص قبول کرے گاجوہرسوپھیلی اللہ کی قدرتوں کو پہچانتا ہو گا،جورب کی بے شمارنعمتوں کا شکر گزار ہوگا، جو تباہ شدہ اقوام کے احوال سے عبرت حاصل کرکے اللہ سے ڈرتا ہوگا ، جوہدایت اورگمراہی کافرق سمجھتاہوگا ، جسے اپنے انجام کاخوف ہوگااوراللہ کی پکڑسے بچنا چاہتا ہو گا،یہ دعوت وہی قبول کرے گا جو سمجھتاہوگاکہ یہ دنیادارالفناہے ،یہ زندگی دائمی نہیں بلکہ سانسوں کی ایک مختصرڈور ہے اورایک وقت مقرر پررب کے حضورکھڑا ہونا ہے ، جواچھی طرح جانتاہوگاکہ ایک گھڑی کی لذت حاصل کرنے کے لئے ابدی رنج وغم کونہیں خریداجاسکتا،جو اعمال صالح کرکے رب کی نعمتوں بھری جنتوں میں داخل ہونا چاہتا ہوگا،جہاں انعام ہی انعام ہیں ،جہاں نہ کوئی دکھ ہوگانہ کوئی رنج ،اوراس پاکیزہ دعوت سے وہی منہ موڑے گاجوجانوروں کی طرح آنکھیں بندکرکے زندگی گزاررہے ہیں ، جن کے پاس دعوت حق پہنچی مگر حق بات سنناانہیں گوارانہیں ،جیسے فرمایا:

تَكَادُ تَمَیَّزُ مِنَ الْغَیْظِ۝۰ۭ كُلَّمَآ اُلْقِیَ فِیْهَا فَوْجٌ سَاَلَهُمْ خَزَنَــتُهَآ اَلَمْ یَاْتِكُمْ نَذِیْرٌ۝۸قَالُوْا بَلٰی قَدْ جَاۗءَنَا نَذِیْرٌ۝۰ۥۙ فَكَذَّبْنَا وَقُلْنَا مَا نَزَّلَ اللهُ مِنْ شَیْءٍ۝۰ۚۖ اِنْ اَنْتُمْ اِلَّا فِیْ ضَلٰلٍ كَبِیْرٍ۝۹ [25]

ترجمہ:ہر بار جب کوئی انبوہ اس میں ڈالا جائے گا، اس کے کارندے ان لوگوں سے پوچھیں گے کیا تمہارے پاس کوئی خبردار کرنے والا نہیں آیا تھا ؟وہ جواب دیں گے ہاں ، خبردار کرنے والا ہمارے پاس آیا تھا مگر ہم نے اسے جھٹلا دیا اور کہا اللہ نے کچھ بھی نازل نہیں کیا ہےتم بڑی گمراہی میں پڑے ہوئے ہو ۔

جورب کے احکامات سے پہلوتہی کرتے ہیں ،جومشرکین مکہ اورمنافقین مدینہ کی طرح اللہ کانام تو لیتے ہیں مگراپنے رب حقیقی کی بندگی کے بجائے طاغوت کی بندگی کوپسند کرتے ہیں ، جواللہ وحدہ لاشریک کی بارگاہ پرسرجھکانے کے بجائے دردراس کی مخلوق کی چوکٹوں پرسرجھکاناپسندکرتے ہیں ،جن کامقصدحیات صرف عئش وآرام ،مال وجاہ اورفسق وفجور ہے ، جوروزجزا کااقرارتوکرتے ہیں مگران کی عملی زندگی اس بات پرشاہدہوتی ہے کہ وہ اس دن پر یقین نہیں رکھتے،ایسے بدبخت لوگ جہنم کا ایندھن بنیں گے ، جس کی آگ ان کے دلوں سے لپٹ جائے گی ،جس میں نہ وہ جی سکیں گے اورنہ ہی انہیں موت آئے گی یعنی موت اورزندگی کے درمیان میں ہی لٹکتارہے گاجس سے اس کی زندگی قلبی، روحانی اور جسمانی عذاب سے لبریز ہوگی، جیسےفرمایا:

وَالَّذِیْنَ كَفَرُوْا لَهُمْ نَارُ جَهَنَّمَ۝۰ۚ لَا یُقْضٰى عَلَیْهِمْ فَیَمُوْتُوْا وَلَا یُخَـفَّفُ عَنْهُمْ مِّنْ عَذَابِهَا۔۔۔۝۳۶ۚ [26]

ترجمہ:اور جن لوگوں نے کفر کیا ہے ان کے لیے جہنّم کی آگ ہے، نہ ان کا قصہ پاک کر دیا جائے گا کہ مر جائیں اور نہ ان کے لیے جہنّم کے عذاب میں کوئی کمی کی جائے گی۔

اِنَّهٗ مَنْ یَّاْتِ رَبَّهٗ مُجْرِمًا فَاِنَّ لَهٗ جَهَنَّمَ۝۰ۭ لَا یَمُوْتُ فِیْهَا وَلَا یَحْیٰی۝۷۴ [27]

ترجمہ:حقیقت یہ ہے کہ جو مجرم بن کر اپنے رب کے حضور حاضر ہوگا اس کے لیے جہنم ہے جس میں وہ نہ جیے گا نہ مرے گا ۔

جہنم کے ہولناک سے بدحال ہوکر یہ لوگ موت کو پکاریں گے مگر موت نہ آئے گی،جیسے فرمایا

 وَنَادَوْا یٰمٰلِكُ لِیَقْضِ عَلَیْنَا رَبُّكَ۝۰ۭ قَالَ اِنَّكُمْ مّٰكِثُوْنَ۝۷۷لَقَدْ جِئْنٰكُمْ بِالْحَقِّ وَلٰكِنَّ اَكْثَرَكُمْ لِلْحَقِّ كٰرِهُوْنَ۝۷۸ [28]

ترجمہ: وہ پکاریں گے اے مالک ! تیرا رب ہماراکام ہی تمام کردے تواچھاہے ،وہ جواب دے گا تم یوں ہی پڑے رہوگے ہم تمہارے پاس حق لے کر آئے تھے مگرتم میں سے اکثر کو حق ہی ناگوارتھا ۔

آج یہ لوگ کفروشرک،فسق وفجور میں ڈوبے ہوئے ہیں مگروہاں اعمال صالح کاوعدہ کریں گے جوقبول نہ کیاجائے گا،جیسے فرمایا

 وَهُمْ یَصْطَرِخُوْنَ فِیْهَا۝۰ۚ رَبَّنَآ اَخْرِجْنَا نَعْمَلْ صَالِحًا غَیْرَ الَّذِیْ كُنَّا نَعْمَلُ۝۰ۭ اَوَلَمْ نُعَمِّرْكُمْ مَّا یَتَذَكَّرُ فِیْهِ مَنْ تَذَكَّرَ وَجَاۗءَكُمُ النَّذِیْرُ۝۰ۭ فَذُوْقُوْا فَمَا لِلظّٰلِمِیْنَ مِنْ نَّصِیْرٍ۝۳۷ۧ [29]

ترجمہ: وہ وہاں چیخ چیخ کرکہیں گے اے ہمارے رب!ہمیں یہاں سے نکال لے تاکہ ہم نیک عمل کریں ،ان اعمال سے مختلف جوپہلے کرتے رہے تھے(انہیں جواب دیا جائے گا) کیا ہم نے تم کواتنی عمرنہ دی تھی جس میں کوئی سبق لینا چاہتا تو سبق لے سکتاتھا؟ اور تمہارے پاس متنبہ کرنے والابھی آچکاتھا،اب مزا چکھو ظالموں کایہاں کوئی مددگارنہیں ۔

البتہ گنہگاروں کوکچھ عرصہ بعدجہنم سےنکال لیاجائے گا۔

عَنْ أَبِی سَعِیدٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: أَمَّا أَهْلُ النَّارِ الَّذِینَ هُمْ أَهْلُهَا، فَإِنَّهُمْ لَا یَمُوتُونَ فِیهَا وَلَا یَحْیَوْنَ، وَلَكِنْ نَاسٌ أَصَابَتْهُمُ النَّارُ بِذُنُوبِهِمْ – أَوْ قَالَ بِخَطَایَاهُمْ – فَأَمَاتَهُمْ إِمَاتَةً حَتَّى إِذَا كَانُوا فَحْمًا، أُذِنَ بِالشَّفَاعَةِ، فَجِیءَ بِهِمْ ضَبَائِرَ ضَبَائِرَ، فَبُثُّوا عَلَى أَنْهَارِ الْجَنَّةِ، ثُمَّ قِیلَ: یَا أَهْلَ الْجَنَّةِ، أَفِیضُوا عَلَیْهِمْ، فَیَنْبُتُونَ نَبَاتَ الْحِبَّةِ تَكُونُ فِی حَمِیلِ السَّیْلِ ، فَقَالَ: رَجُلٌ مِنَ الْقَوْمِ، كَأَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَدْ كَانَ بِالْبَادِیَةِ

ابو سعید رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاوہ لوگ جوجہنم والے ہیں (یعنی جووہاں ہمیشہ رہنے والے ہیں جیسے کافر،مشرک)وہ نہ تومریں گے نہ جئیں گے، لیکن کچھ لوگ یاجس طرح آپ نے فرمایاجنہیں ان کےگناہوں یاآپ نے فرمایاکہ خطاؤ ں کی وجہ سے دوزخ میں ڈالاجائے گا تواللہ تعالیٰ ایک بارانہیں موت دے دے گاحتی کہ جب وہ کوئلے کی طرح ہوجائیں گے، توپھران کے بارے میں شفاعت کی اجازت دے دی جائے گی،چنانچہ انہیں گروہ درگروہ لایاجائے گااور جنت کی نہروں پر پھیلا دیا جائے گا،حکم ہوگااے جنت کے لوگو!ان پرپانی ڈالو،تب وہ اس طرح جی اٹھیں گے جیسے دانہ مٹی میں اگتاہے جس کوپانی بہاکرلاتاہے،ایک شخص بولامعلوم ہوتاہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جنگل میں رہے ہیں (اس لئے توآپ کویہ معلوم ہے کہ بہاؤ میں جومٹی جمع ہوتی ہے اس میں دانہ خوب اگتاہے)۔[30]

 قَدْ أَفْلَحَ مَن تَزَكَّىٰ ‎﴿١٤﴾‏ وَذَكَرَ اسْمَ رَبِّهِ فَصَلَّىٰ ‎﴿١٥﴾‏ بَلْ تُؤْثِرُونَ الْحَیَاةَ الدُّنْیَا ‎﴿١٦﴾‏ وَالْآخِرَةُ خَیْرٌ وَأَبْقَىٰ ‎﴿١٧﴾‏ إِنَّ هَٰذَا لَفِی الصُّحُفِ الْأُولَىٰ ‎﴿١٨﴾‏ صُحُفِ إِبْرَاهِیمَ وَمُوسَىٰ ‎﴿١٩﴾ (الاعلٰی)
بیشک اس نے فلاح پائی جو پاک ہوگیا اور جس نے اپنے رب کا نام یاد رکھا اور نماز پڑھتا رہا، لیکن تم تودنیا کی زندگی کو ترجیح دیتے ہواور آخرت بہت بہتر اور بہت بقا والی ہے ، یہ باتیں پہلی کتابوں میں بھی ہیں  (یعنی) ابراہیم اور موسیٰ کی کتابوں میں ۔

ان لوگوں نے حقیقی کامیابی حاصل کرلی جنہوں نے عقائدواعمال میں پاکیزگی اختیارکی ،یعنی اپنے نفس کواخلاق رذیلہ سے اوردلوں کے شرک ومعصیت کی آلودگیوں سے پاک کرلیا،اورجو زبان اوردل میں ذکرالٰہی کرتے رہے اورعملی زندگی میں اپنے رب حقیقی کی بندگی کے اظہارکے لئے مقررہ وقت پرسب سے مقدم عبادت جس کے بارے میں سب سے پہلے پوچھاجائے گا فرض نمازاوررب کی رضاو خوشنودی حاصل کرنے کے لئے نفلی نمازوں کااہتمام اور اپنے مالوں کویتیموں ،بیواؤ ں اورضرورت مندوں میں تقسیم کرتے رہے جیسے فرمایا:

۔۔۔ ثُمَّ اِلَیْنَا مَرْجِعُكُمْ فَنُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ۝۲۳ [31]

ترجمہ:پھر تمہیں ہماری ہی طرف لوٹ کر آنا ہے اس وقت ہم تمہیں بتا دیں گے کہ تم دنیا میں کیا کچھ کرتے رہے ہو۔

قَدْاَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَ۝۱ [32]

ترجمہ: یقیناًفلاح پائی ایمان والوں نے ۔

الَّذِیْنَ یَرِثُوْنَ الْفِرْدَوْسَ۝۰ۭ هُمْ فِیْهَا خٰلِدُوْنَ۝۱۱ [33]

ترجمہ:یہی لوگ وہ وارث ہیں جومیراث میں فردوس پائیں گے اوراس میں ہمیشہ رہیں گے ۔

اورجنت میں داخل کرنے والی کیا باتیں ہیں فرمایا۔

یٰبُنَیَّ اَقِـمِ الصَّلٰوةَ وَاْمُرْ بِالْمَعْرُوْفِ وَانْهَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَاصْبِرْ عَلٰی مَآ اَصَابَكَ۝۰ۭ اِنَّ ذٰلِكَ مِنْ عَزْمِ الْاُمُوْرِ۝۱۷ۚوَلَا تُصَعِّرْ خَدَّكَ لِلنَّاسِ وَلَا تَمْشِ فِی الْاَرْضِ مَرَحًا۝۰ۭ اِنَّ اللهَ لَا یُحِبُّ كُلَّ مُخْـتَالٍ فَخُــوْرٍ۝۱۸ۚوَاقْصِدْ فِیْ مَشْیِكَ وَاغْضُضْ مِنْ صَوْتِكَ۝۰ۭ اِنَّ اَنْكَرَ الْاَصْوَاتِ لَصَوْتُ الْحَمِیْرِ۝۱۹ۧ [34]

ترجمہ: بیٹا،نمازقائم کر،نیکی کا حکم دے ،بدی سے منع کراورجومصیبت بھی پڑے اس پرصبرکر،یہ وہ باتیں ہیں جن کی بڑی تاکیدکی گئی ہے ، اور لوگوں سے منہ پھیرکربات نہ کر،نہ زمین میں اکڑکرچل،اللہ کسی خودپسنداورفخرجتانے والے شخص کوپسندنہیں کرتا،اپنی چال میں اعتدال اختیارکراوراپنی آوازذراپست رکھ سب آوازوں سے زیادہ بری آوازگدھوں کی آوازہوتی ہے ۔

لیکن تمہاری ساری تگ ودواس فانی زندگی کی راحت وآسائش ،اس کے فائدوں اورلذتوں کے لئے ہے جبکہ آخروی زندگی کی راحتیں اورلذتیں دنیاکی تمام نعمتوں سے بڑھ کر ہیں جو دائمی اورابدی ہے ،اورعاقل فانی چیزکوباقی رہنے والی پرترجیح نہیں دیتا،

عَنْ أَبِی مُوسَى الْأَشْعَرِیِّ،أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:مَنْ أَحَبَّ دُنْیَاهُ أَضَرَّ بِآخِرَتِهِ، وَمَنْ أَحَبَّ آخِرَتَهُ أَضَرَّ بِدُنْیَاهُ، فَآثِرُوا مَا یَبْقَى عَلَى مَا یَفْنَى

ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سےمروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجس نے دنیاسے محبت کی اس نے اپنی آخرت کونقصان پہنچایااورجس نے آخرت سے محبت رکھی اس نے دنیاکونقصان پہنچایا،اے لوگو!تم باقی رہنے والی کوفناہونے والی پرترجیح دو۔[35]

عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ:قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:الدُّنْیَا دَارُ مَنْ لَا دَارَ لَهُ، وَمَالُ مَنْ لَا مَالَ لَهُ، وَلَهَا یَجْمَعُ مَنْ لَا عَقْلَ لَهُ

ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایادنیااس کاگھرہے جس کاآخرت میں گھرنہ ہو،دنیااس کامال ہے کس کامال وہاں نہ ہو،اس کے جمع کرنے کے پیچھے وہ لگتے ہیں جوبیوقوف ہوں ۔[36]

نصیحت کی یہ باتیں انبیاء ومرسلین میں سب سے زیادہ شرف کے حامل رسول ابراہیم علیہ السلام اورموسیٰ علیہ السلام پر نازل صحف ابراہیم علیہ السلام اورتورات میں بھی نازل کی گئیں تھیں ۔ان صحیفوں میں کیانازل فرمایاگیاتھافرمایا:

اَمْ لَمْ یُنَبَّاْ بِمَا فِیْ صُحُفِ مُوْسٰى۝۳۶ۙوَاِبْرٰهِیْمَ الَّذِیْ وَفّٰٓی۝۳۷ۙاَلَّا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِّزْرَ اُخْرٰى۝۳۸ۙوَاَنْ لَّیْسَ لِلْاِنْسَانِ اِلَّا مَا سَعٰى۝۳۹ۙوَاَنَّ سَعْیَهٗ سَوْفَ یُرٰى۝۴۰۠ثُمَّ یُجْزٰىهُ الْجَزَاۗءَ الْاَوْفٰى۝۴۱ۙ [37]

ترجمہ:کیااسے ان باتوں کی کوئی خبر نہیں پہنچی جوموسیٰ علیہ السلام کے صحفوں اوراس ابراہیم علیہ السلام کے صحیفوں میں بیان ہوئی ہیں جس نے وفاکاحق اداکردیا؟یہ کہ کوئی بوجھ اٹھانے والا دوسرے کابوجھ نہیں اٹھائے گا،اوریہ کہ انسان کے لئے کچھ نہیں ہے مگروہ جس کی اس نے سعی کی ہے ،اوریہ کہ اس کی سعی عنقریب دیکھی جائے گی پھراس کی پوری جزااسے دی جائے گی۔

عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَدْ أَفْلَحَ مَنْ تَزَكَّى قَالَ:مَنْ شَهِدَ أَنْ لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ، وَخَلَعَ الأَنْدَادَ، وَشَهِدَ أَنِّی رَسُولُ اللَّهِ وَذَكَرَ اسْمَ رَبِّهِ فَصَلَّى قَالَ: هِیَ الصَّلَوَاتُ الْخَمْسُ وَالْمُحَافَظَةُ عَلَیْهَا وَالِاهْتِمَامُ بِهَا

جابربن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیتقَدْ أَفْلَحَ مَنْ تَزَكَّى کی تلاوت کرکے فرمایا جوشخص اللہ تعالیٰ کے وحدہ لاشریک ہونے کی گواہی دے،اس کے سواکسی کی عبادت نہ کرے اورمیری رسالت کوتسلیم کرے اورپانچوں وقت کی نمازوں کی پوری طرح حفاظت کرے وہ نجات پاگیا۔[38]

[1] سنن ابوداود کتاب الصلوٰة بَابُ الدُّعَاءِ فِی الصَّلَاةِ ۸۸۳ ،مسنداحمد۲۰۶۶

[2] سنن ابوداودکتاب الصلاة بَابُ مَا یَقُولُ الرَّجُلُ فِی رُكُوعِهِ وَسُجُودِهِ۸۶۹،سنن ابن ماجہ کتاب اقامة السلوات بَابُ التَّسْبِیحِ فِی الرُّكُوعِ وَالسُّجُودِ۸۸۷ ،مسنداحمد۱۷۴۱۴

[3] صحیح مسلم کتاب الجمعة بَابُ مَا یُقْرَأُ فِی صَلَاةِ الْجُمُعَةِ ۲۰۲۸ ، سنن ابوداودکتاب الصلوٰة بَابُ مَا یُقْرَأُ بِهِ فِی الْجُمُعَةِ ۱۱۲۲،جامع ترمذی ابواب العیدین بَابُ الْقِرَاءَةِ فِی الْعِیدَیْنِ۵۳۳،سنن نسائی کتاب الجمعة ذِكْرُ الِاخْتِلَافِ عَلَى النُّعْمَانِ بْنِ بَشِیرٍ فِی الْقِرَاءَةِ فِی صَلَاةِ الْجُمُعَةِ ۱۴۲۵،۱۵۷۱،۱۵۹۳ ،سنن ابن ماجہ کتاب اقامة الصلوة بَابُ مَا جَاءَ فِی الْقِرَاءَةِ فِی صَلَاةِ الْعِیدَیْنِ۱۲۸۱ ،مسنداحمد۱۸۴۰۹

[4] مسند احمد ۲۵۹۰۶

[5] صحیح بخاری کتاب الاذان بَابُ مَنْ شَكَا إِمَامَهُ إِذَا طَوَّلَ۷۰۵،صحیح مسلم کتاب الصلاة بَابُ الْقِرَاءَةِ فِی الْعِشَاءِ ۱۰۴۰،سنن ابوداودکتاب الصلوة بَابٌ فِی تَخْفِیفِ الصَّلَاةِ ۷۹۰،مسنداحمد۱۴۱۹۰

[6] السجدة۷

[7] الفرقان۲

[8] صحیح مسلم کتاب القدربَابُ حِجَاجِ آدَمَ وَمُوسَى عَلَیْهِمَا السَّلَامُ ۶۷۴۸، جامع ترمذی ابواب القدربَابُ مَا جَاءَ فِی الرِّضَا بِالقَضَاءِ۲۱۵۶

[9]طہ۵۰

[10] التین ۴

[11] الشمس۸

[12] طہ۴۹،۵۰

[13] یونس۲۴

[14] الکہف۴۵

[15] الحدید۲۰

[16] صحیح بخاری کتاب الوحی باب ۵، ح۵،۴۹۲۷ ،۴۹۲۹،۷۵۲۴،۵۰۴۴،۴۹۲۹

[17] التغابن۴

[18] ھود۵

[19] المومن۱۹

[20] الانفطار۱۰تا۱۲

[21] الکہف۴۹

[22] بنی اسرائیل۱۴

[23]تفسیرابن کثیر۳۷۸؍۸

[24]صفوة التفاسیر۵۲۲؍۳،البحر المحیط فی التفسیر۷۱؍۲، الأساس فی التفسیر۳۴۲؍۱

[25] الملک۸،۹

[26] فاطر۳۶

[27] طہ۷۴

[28] الزخرف۷۷، ۷۸

[29] فاطر۳۷

[30] صحیح مسلم کتاب الایمان بَابُ إِثْبَاتِ الشَّفَاعَةِ وَإِخْرَاجِ الْمُوَحِّدِینَ مِنَ النَّارِ۴۵۹،سنن ابن ماجہ کتاب الزھد بَابُ ذِكْرِ الشَّفَاعَةِ ۴۳۰۹، مسند احمد ۱۱۰۷۷،صحیح ابن حبان۱۸۴،مسندابی یعلی۱۳۷۰

[31] یونس ۲۳

[32] المومنون۱

[33] المومنون۱۱

[34] لقمان۱۷تا۱۹

[35] مسنداحمد۱۹۶۹۷، مستدرک حاکم ۷۸۵۳،صحیح ابن حبان ۷۰۹،شعب الایمان ۹۸۵۴،السنن الکبری للبیہقی ۶۵۱۶،شرح السنة للبغوی ۴۰۳۸

[36] مسنداحمد۲۴۴۱۹،شعب الایمان ۱۰۱۵۳،مصنف ابن ابی شیبة ۳۵۷۰۷

[37] النجم۳۶تا۴۱

[38] كشف الأستار عن زوائد البزار ۲۲۸۴

Related Articles