بعثت نبوی کا پہلا سال

مضامین سورۂ الم انشرح 

دعوائے نبوت سے قبل مکہ مکرمہ کاسارامعاشرہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کرداروگفتاراورمعاملات کی تعریف وتوصیف کیا کرتاتھا،آپ کوصادق وامین گردانتاتھا، مگراعلان نبوت کے ساتھ ہی وہی معاشرہ آپ کی جان کے درپے ہوگیا،وہی عزیزرشتہ دار،دوست احباب جوپہلے آپ کوعزت کی نگاہ سے دیکھتے اورہاتھوں ہاتھ لیتے تھے گالیاں دینے اورآوازے کسنے لگے، ایسے دل شکن حالات میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کوتسلی دی گئی کہ آپ دل گرفتہ نہ ہوں ،تسلی کے لئے آپ پرکیے گئے مزید تین احسانات جتلائے گئے ہیں ۔

xشرح صدر کی نعمت،یعنی اللہ تبارک وتعالیٰ نے آپؐ کے دل کو نوروحکمت سے بھردیااورہرقسم کے گناہوں اورگندگی سے پاک کردیا۔

xاس بوجھ کوہٹادیاجوآپ صلی اللہ علیہ وسلم کی کمرتوڑے دے رہاتھا۔یعنی نبوت ورسالت کابوجھ اوراس کے واجبات اورذمہ داریوں کی ادائیگی۔

xآپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذکرکی بلندی،جودوسرے کسی بندے کونہیں دی گئی۔یعنی جہاں جہاں اللہ تبارک وتعالیٰ کاذکرہے وہیں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کاذکر ہے ، چاہے اذان ہویا اقامت ، تشہدہویاخطبہ یاقبرمیں سوال وجواب۔

ان تین نعمتوں کے ذکرکے بعداللہ نے مشکلات کوآسان بنانے اورپریشانیوں کودورکرنے کاوعدہ فرمایاکہ یہ سختی وپریشانی کادورطویل نہیں بلکہ مشقت کاعرصہ جلدختم ہونے اور آسانی وفراخی کادورجلدشروع ہونے والاہے ،اس دورکے لئے خصوصی اعمال کی تلقین فرمائی کہ تبلیغ ودعوت کی ذمہ داری اداکرنے کے بعد فراغت کے اوقات میں عبادت کی کثرت کریں کیونکہ رب کے ساتھ لولگانے کا یہی طریق خوب تراورپریشانیوں سے نجات کاذریعہ بھی ہے۔

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

شروع اللہ کے نام سے جو بےحد مہربان نہایت رحم والا ہے

أَلَمْ نَشْرَحْ لَكَ صَدْرَكَ ‎﴿١﴾(الم نشرح )

کیا ہم نے تیرا سینہ نہیں کھول دیا ۔


مکّہ مکرمہ میں اعلان نبوت اوردعوت حق بیان کرنے سے پہلے قریش اوراردگردکے قبائل آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حسن اخلاق کے قائل تھے اورآ پ کوالصادق والامین کالقب بھی دے چکے تھے ،اس معاشرے میں جہاں کسی کی کوئی چیز محفوظ نہ تھی ،طاقتورکمزورپرظلم وستم کرتے ہوئے ذرانہ شرماتاتھا،نامورسردار بھی بے شرمی اورڈھٹائی کے ساتھ یتیموں تک کامال ہڑپ کرنے سے بھی دریغ نہیں کرتے تھے، پورے معاشرے میں جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا قانون نافذ تھا،ان حالات میں لوگ اپنی امانتیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لاکررکھتے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات پر اعتمادویقین کی یہ کیفیت ہرطرح کی عداوت و مخالفت کے باوجود ہجرت مدینہ تک برقراررہی،جب رحمت العالمین صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت فرمائی توجن لوگوں کی امانتیں آپ کے پاس رکھی ہوئی تھیں ان کوسیدنا علی رضی اللہ عنہ کے ذریعہ ان کے مالکوں کو لوٹانے کا باقاعدہ بندوبست کیاگیا،مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم دعوت حق دینے لگے تومکہ مکرمہ کاوہی معاشرہ جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نہایت عزت واحترام کی نگاہ سے دیکھا جاتاتھا ،جس میں آپ کی تعریف وتوصیف کی جاتی تھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے نفرت و عناد کی بھٹی میں تبدیل ہوگیا،بعض قریبی رشتہ دار تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی جان کے درپے ہوگئے ،ان دل شکن حالات میں تین احسانات کا ذکر فرما کر آپ کی دل جوئی کی گئی ،فرمایااے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم ! اللہ تبارک وتعالیٰ نے دین حق( اسلام) کوواضح کرنے ،اسے مکمل طورپرپہچان لینے اورا س کی تعلیمات کودل میں سمو دینے کے لئے آپ کے سینہ کوفراخ او ر منورکر دیاہےتاکہ آپ ہرطرح کے ذہنی خلجان اورترددسے آزاد اور اس بات پرپوری طرح مطمئن ہوجائیں کہ اسلام کاراستہ ہی برحق ہے ،جیسے فرمایا

فَمَنْ یُّرِدِ اللهُ اَنْ یَّهْدِیَهٗ یَشْرَحْ صَدْرَهٗ لِلْاِسْلَامِ ۝۱۲۵ [1]

ترجمہ:پس(یہ حقیقت ہے کہ)جسے اللہ ہدایت بخشنے کاارادہ کرتاہے اس کاسینہ اسلام کے لئے کھول دیتاہے۔

اوراللہ تبارک وتعالیٰ کے نازل کردہ احکام و ہدایات ہی انسان کی سیدھے راستے کی طرف رہنمائی کر سکتے ہیں ،اللہ تبارک وتعالیٰ نے آپ کونبوت کی عظیم ذمہ داریاں سنبھالنے،اورتن تنہا(کسی سروسامان اور ظاہری کسی پشت پناہ کے بغیر)چاروں طرف کفروشرک کی ضلالت کے مقابل ڈٹ جانے کے لئے شرح صدرکی عظیم دولت عطا کر دی کہ آپ ان ابتدائی مشکلات پر ہر گز دل گرفتہ نہ ہوں ،اوراس راہ میں جو تکلیفیں اور دشواریاں درپیش آئیں ان پر صبرکریں ۔

 وَوَضَعْنَا عَنكَ وِزْرَكَ ‎﴿٢﴾‏ الَّذِی أَنقَضَ ظَهْرَكَ ‎﴿٣﴾ (الم نشرح )

اور تجھ پر سے تیرا بوجھ ہم نے اتار دیا جس نے تیری پیٹھ توڑ دی تھی۔


عرب میں جہاں گنتی کے چندلوگوں کوچھوڑکرجن کے دلوں میں فطری شرافت، نیکی وپاکیزگی کاتصور اورحق کی جستجوتھی ،غریبوں ،محتاجوں کے لئے ہمدردی تھی باقی سارامعاشرہ کفروشرک ،فسق وفجور،قتل وغارت ،سودخوری ،حق تلفی وغیرہ جیسی لعنتوں میں مبتلاتھااور یہ افعال ان لوگوں کے لئے کسی شرم وعار کا باعث بھی نہ تھے ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی اسی معاشرے کے ایک فردتھے مگر اللہ تبارک وتعالیٰ نے رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کو بچپن سے ہی کفروشرک ،فسق وفجوراورلایعنی باتوں سے محفوظ فرمادیاتھا،یہ بات تاریخی طورپربھی ثابت ہے کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی کسی باطل معبودکی پرستش نہیں کی ،

قَالَ: حَدَّثَنِی جَارٌ، لِخَدِیجَةَ بِنْتِ خُوَیْلِدٍ أَنَّهُ سَمِعَ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ یَقُولُ لِخَدِیجَةَ: أَیْ خَدِیجَةُ، وَاللَّهِ لَا أَعْبُدُ اللَّاتَ، وَاللَّهِ لَا أَعْبُدُ الْعُزَّى أَبَدًا

خدیجہ رضی اللہ عنہا کے ایک پڑوسی کا کہنا ہے کہ انہوں نے نبی کریم کو خدیجہ رضی اللہ عنہا سے یہ فرماتے ہوئے سنا ہے اے خدیجہ ! اللہ کی قسم! میں لات کی عبادت کبھی نہیں کروں گا، اللہ کی قسم ! میں عزی کی عبادت کبھی نہیں کروں گا۔[2]

کبھی مشرکانہ رسوم میں شریک نہیں ہوئے ،زبان مبارک سے کبھی شرک کا کوئی کلمہ ادانہیں ہوا آپ کبھی فسق وفجورکی کسی محفل میں شریک نہیں ہوئے،جس کاایک واضح ترین ثبوت یہ ہے کہ بد ترین مخالفین نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پرشاعر، مجنون کاہن ،جادوگر وغیرہ ہونے کے الزامات تو ضرورلگائے مگرکسی کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر اخلاقی کمزوریوں پر مبنی کسی قسم کا کوئی الزام عائدکرنے کی ہمت نہیں ہوئی، بیشک اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی توفیق سے آپ ہر طرح کی اخلاقی برائیوں اور کفروشرک سے پاک وصاف رہے مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کوبھی دین وشریعت علم نہ تھا، اللہ تبارک وتعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کونہایت حساس اور درد مند دل عطا کیا تھا،آپ بتوں کی پرستش، معاشرے میں بے حیائی، ظلم و فساد دیکھتے اورکسی کی جان،مال وآبروکومحفوظ نہ پاتے تودل ہی دل میں کڑھتے،جب معاشرے کی اصلاح کی کوئی سبیل نظرنہ آتی توروزمرہ کے ایسے واقعات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے احساس وشعور پربھاری بوجھ بن جاتے ،بعض مفسرین کہتے ہیں کہ پچھلی چالیس سالہ زندگی میں عدم عبادت وعدم اطاعت کابوجھ تھا،جوحقیقت میں تونہیں تھالیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے احساس وشعورنے اسے بوجھ بنارکھاتھا،جیسے فرمایا:

لِّیَغْفِرَ لَكَ اللهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْۢبِكَ وَمَا تَاَخَّرَ ۝۲ۙ [3]

ترجمہ: تاکہ اللہ تمہاری اگلی پچھلی ہرکوتاہی سے درگزرفرمائے ۔

بعض مفسرین کہتے ہیں کہ یہ نبوت ورسالت کابوجھ تھاجسے اللہ عزوجل نے ہلکاکردیایعنی دعوت دین پیش کرنے میں آسانیاں پیدافرمادیں اور اس راہ کی سختیوں اور ومشکلات کوبرداشت کرنے کی ہمت اورحوصلہ بھی عطافرمادیااوراللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کوصراط مستقیم (اسلام) دکھاکر اس بوجھ کواتاردینے کا اعلان فرمایا، اللہ تعالیٰ کے اس احسان سے آپ کومعلوم ہوگیاکہ اسلام کے ذریعہ معاشرے کوہرطرح کی گندگی وفسادسے پاک کیاجاسکتاہے ،جس سے آپ کے دل و دماغ کاسارابوجھ اترگیا اورآپ بالکل مطمئن ہوگئے ۔

 وَرَفَعْنَا لَكَ ذِكْرَكَ ‎﴿٤﴾(الم نشرح )

اورہم نے تیرا ذکر بلند کردیا۔


ہم نے آپ کی قدرومنزلت بلندکی ،ہم نے آپ کوثنائے حسن اورذکربلندسے سرفرازکیاجہاں آج تک مخلوق میں سے کوئی ہستی نہیں پہنچ سکی،مثلاًجب آدم علیہ السلام کی پشت سے اس دنیامیں پیداہونے والی تمام روحو ں کونکال کرعام انسانوں کے بعد مبعوث ہونے والے تمام پیغمبروں سے عہدلیاگیاکہ وہ سب آپ صلی اللہ علیہ وسلم پرایمان لائیں گے،اوراپنی اپنی امتوں کوبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم پرایمان لانے کاحکم کریں گے،چنانچہ انبیاء پرنازل شدہ صحیفوں ،کتابوں میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کاذکرہوتارہا،اس طرح اگلوں پچھلوں میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کاذکر بلند کیاگیا،مکہ مکرمہ کے محدودمعاشرے اورباہرکے چندلوگوں کے سواآپ صلی اللہ علیہ وسلم کوکوئی نہیں جانتاتھا،اللہ تبارک وتعالیٰ کے حکم پرآپ صلی اللہ علیہ وسلم تن تنہادعوت حق کو لے کر کھڑے ہوئے ، آپ کی دعوت پرچند پاکیزہ نفوس ایمان لائے مگر مشرکین مکہ نے دعوت حق کوروکنے پرکمرکس لی،آپ کی دعوت حق کوسننے سے روکنے کے لئے کے حاجیوں ، تاجروں ، مسافروں کو ورغلانے کے لئے ہر طرح کے ہتھکنڈوں سے کام لینے کی کوشش کی مگراللہ تعالیٰ کے آگے کس کی تدبیرچل سکتی ہے،یوں کفار کے پروپیگنڈے کے باوجود اسلام کی دعوت مزید تیزی سے دوردورتک پھیلنے لگی اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم کاذکربلندہوتاچلاگیا،نبی کیونکہ بندوں تک اللہ ہی کے فرامین واحکامات پہنچاتے ہیں اس لئے ان کی اطاعت دراصل اللہ ہی کی اطاعت ہے ،نبی کی اطاعت سے منہ موڑکربندہ کسی طورپراللہ کی اطاعت نہیں کرسکتا،اس لئے اللہ تعالیٰ نے خاتم النبیین محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کواپنی اطاعت قراردیا،جیسے فرمایا

وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا لِیُطَاعَ بِـاِذْنِ اللهِ۔۔۔ ۝۶۴ [4]

ترجمہ:اورہم نے جس رسول کوبھی بھیجااسی لئے بھیجا کہ حکم خداوندی کے تحت اس کی اطاعت کی جائے۔

مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللهَ۔۔۔ ۝۸۰ۭ [5]

ترجمہ:جس نے رسول کی اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی۔

یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَطِیْعُوا اللهَ وَرَسُوْلَهٗ وَلَا تَوَلَّوْا عَنْهُ وَاَنْتُمْ تَسْمَعُوْنَ۝۲۰ۚۖ [6]

ترجمہ:اے ایمان والو!اللہ اوراس کے رسول کی اطاعت کرو اورحکم سننے کے بعد اس سے سرتابی نہ کرو۔

اوراپنی اطاعت کے ساتھ ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کابھی حکم فرمایا،اس لئے جہاں اللہ تبارک وتعالیٰ کی وحدانیت کا ذکر ہوتا ہے وہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کابھی ذکر ہوتا ہے،مثلا ً کلمہ شہادت میں اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کے ساتھ محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کی گواہی اشھدان الاالہ الااللہ واشھدان محمدرسول اللہ(میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سواکوئی الٰہ نہیں اورمحمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کے رسول ہیں )ساری دنیامیں پانچ وقت اذان میں اشھدان الاالہ الااللہ واشھدان محمدرسول اللہ ،اللہ کی توحیدکے ساتھ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کی آواز بلند ہوتی ہے ،اسی طرح تکبیراور نماز وغیرہ میں بھی آپ کا ذکرخیرکیاجاتاہے،

عَنْ قَتَادَةَ، {وَرَفَعْنَا لَكَ ذِكْرَكَ} رَفَعَ اللَّهُ ذِكْرَهُ فِی الدُّنْیَا وَالْآخِرَةِ فَلَیْسَ خَطِیبٌ وَلَا مُتَشَهِّدٌ وَلَا صَاحِبُ صَلَاةٍ إِلَّا یُنَادِی بِهَا:أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ

قتادہ رحمہ اللہ آیت کریمہ ’’ اور تمہاری خاطر تمہارے ذکر کا آوازہ بلند کردیا ۔‘‘کے بارے میں فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ نے دنیاوآخرت میں آپ کے ذکرکوبلندفرمادیاہے،چنانچہ جب بھی کوئی خطیب خطبہ دیتاہے یاکوئی تشہد پڑھتا ہےیاکوئی نمازادا کرتا ہے تووہ اشھدان لاالہ الااللہ کے ساتھ واشھدان محمدرسول اللہ بھی ضرور پکارتا ہے۔[7]

عَنْ أَبِی سَعِیدٍ الْخُدْرِیِّ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ قَالَ: أَتَانِی جِبْرِیلُ فَقَالَ: إِنَّ رَبِّی وَرَبَّكَ یَقُولُ: كَیْفَ رَفَعْتُ لَكَ ذِكْرَكَ؟ قَالَ: اللَّهُ أَعْلَمُ، قَالَ: إِذَا ذُكِرْتُ ذُكِرْتَ مَعِی

ابوسعیدخدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجبریل تشریف لائے اورکہامیرااورآپ کارب فرماتاہے ہم نے تمہاراذکرکیسے بلندکیاہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا اللہ تعالیٰ ہی بہترجانتاہے، فرمایاجب میراذکرکیاجاتاہے توآپ کاذکربھی میرے ساتھ کیاجاتاہے۔[8]

فرشتوں میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر خیر ہے،اس کے علاوہ امت کے دلوں میں اللہ تعالیٰ کے بعدآپ کے لئے جومحبت،تعظیم اوراجلال ہے وہ کسی اورکے لئے نہیں ۔

فَإِنَّ مَعَ الْعُسْرِ یُسْرًا ‎﴿٥﴾‏ إِنَّ مَعَ الْعُسْرِ یُسْرًا ‎﴿٦﴾‏ فَإِذَا فَرَغْتَ فَانصَبْ ‎﴿٧﴾‏ وَإِلَىٰ رَبِّكَ فَارْغَب ‎﴿٨﴾‏ (الم نشرح)

پس یقیناً مشکل کے ساتھ آسانی ہے، بیشک مشکل کے ساتھ آسانی ہے، پس جب تو فارغ ہو تو عبادت میں محنت کراور اپنے پروردگار ہی کی طرف دل لگا ۔


ان تین نعمتوں کے ذکرکے بعداللہ تبارک وتعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم اورصحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو یہ خوشخبری عنایت فرمائی کہ سختی ،پریشانی اورتنگ دستی کا دورزیادہ طویل نہیں ،اس لئے گھبرائیں نہیں مشکلات کا دورختم ہو کرآسانی وفراخی کادور بہت جلد شروع ہونے والاہے ،جیسے فرمایا

۔۔۔سَیَجْعَلُ اللّٰهُ بَعْدَ عُسْرٍ یُّسْرًا [9]

ترجمہ:بعیدنہیں کہ اللہ تنگ دستی کے بعدفراخ دستی بھی عطافرمادے ۔

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ،فَقَالَ:وَأَنَّ الْفَرَجَ مَعَ الْكَرْبِ، وَأَنَّ مَعَ الْعُسْرِ یُسْرًا

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکشادگی تنگی کے ساتھ ہے اور آسانی سختی کے ساتھ ہے۔[10]

چنانچہ ایساہی ہوا،ظلم کی آندھیاں تھم گئیں اوررحمت کی ٹھنڈی ہوائیں چلنے لگیں ، اس دورکے لئے خصوصی اعما ل کی تلقین فرمائی گئی کہ پریشانیوں ،سختیوں اورمشکلات کامقابلہ کرنے کے لئے فراغت کی اوقات میں ہرچیزسے بے نیازہوکراپنے اکیلے رب پراعتمادوبھروسہ کر کے انتھک عبادت وریاضت میں منہمک ہوجائیں ،

عَنْ مُجَاهِدٍ، قَوْلُهُ:فَإِذَا فَرَغْتَ فَانْصَبْ ، قَالَ: إِذَا قُمْتَ إِلَى الصَّلَاةِ فَانْصَبْ فِی حَاجَتِكَ إِلَى رَبِّكَ

مجاہد رحمہ اللہ اس آیت کریمہ ’’ لہٰذا جب تم فارغ ہو تو عبادت کی مشقت میں لگ جاؤ ۔‘‘کے بارے میں فرماتے ہیں جب امردنیاسے فارغ ہوجائیں اورنمازکے لیے کھڑے ہونے لگیں توپھراپنے رب کی عبادت میں خوب محنت کیا کریں ۔[11]

اور تمام مقاصد و حاجات کے لئے خوب دعائیں کریں کیونکہ رب کے ساتھ لولگانے کایہی طریق خوب تر اور پریشانیوں سے نجات کا ذریعہ بھی ہے ۔

سعید رضی اللہ عنہ بن زیدبن عمروبن نفیل

اللہ تبارک وتعالیٰ نے زیدبن عمرو بن نفیل کی دعاکوشرف قبولیت سے نوازا، سعید رضی اللہ عنہ بن عمروبن نفیل اس باپ کے بیٹے تھے جنہوں نے تلاش حق میں کوئی دقیقہ نہیں چھوڑاتھا ، آپ نے ان ہی کی گودمیں پرورش پائی تھی ،اپنے والدہی سے تربیت حاصل کی تھی اس لئے بچپن ہی سے عرب میں پھیلی ہوئی گمراہیوں سے متنفر تھے ،جب یہ بیس سال کے ہوئے تو انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مبعوث ہونے کا علم ہواتوبغیرکسی تاخیرکے اپنی اہلیہ فاطمہ رضی اللہ عنہا بنت خطاب ( سیدناعمر فاروق رضی اللہ عنہ کی حقیقی ہمشیرہ)کے ہمراہ پہلے مرحلے میں دعوت اسلام قبول کرکے سابقین اولین میں داخل ہوکران دس خوش نصیبوں میں شامل ہوگئے جن کوان کی زندگی میں ہی جنت کی بشارت دے دی گئی تھی ،

عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ، قَالَ:قَالَ:قَالَ: قَالَ رَسُول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: أَبُو بَكْرٍ فِی الْجَنَّةِ، وَعُمَرُ فِی الْجَنَّةِ، وَعُثْمَانُ فِی الْجَنَّةِ، وَعَلِیٌّ فِی الْجَنَّةِ، وَطَلْحَةُ فِی الْجَنَّةِ، وَالزُّبَیْرُ فِی الْجَنَّةِ، وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَوْفٍ فِی الْجَنَّةِ، وَسَعْدُ بْنِ أَبِی وَقَّاصٍ فِی الْجَنَّةِ، وَسَعِیدُ بْنُ زَیْدٍ فِی الْجَنَّةِ، وَأَبُو عُبَیْدَةَ بْنُ الْجَرَّاحِ فِی الْجَنَّةِ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا یہ دس لوگ جنتی ہیں ،سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ جنتی ہیں ،سیدنا عمر رضی اللہ عنہ جنتی ہیں ،سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ جنتی ہیں اورسیدنا علی رضی اللہ عنہ جنتی ہیں اورطلحہ رضی اللہ عنہ جنتی ہیں اورزبیر بن عوام رضی اللہ عنہ جنتی ہیں ،اورعبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ جنتی ہیں اورسعدبن ابی وقاص رضی اللہ عنہ جنتی ہیں اورسعیدبن زید رضی اللہ عنہ جنتی ہیں اورابوعبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ جنتی ہیں ۔[12]

اس پاکیزہ دعوت کوقبول کرنے کے جرم میں انہوں نے بڑی تکالیف اٹھائیں مگرقریش کاکوئی جبروستم انہیں اس راہ سے برگشتہ نہ کرسکا، جب غزوہ بدرواقع ہواتویہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی خاص کام سے گئے ہوئے تھے اس لئے اس غزوہ میں شریک نہ ہوسکے ،آپ قیصروکسریٰ کی سلطنتوں کوتہس نہس کر نے میں پیش پیش تھے ، غزوہ یرموک میں جس میں مجاہدین کی تعدادچوبیس ہزاراور رومیوں کی ایک لاکھ بیس ہزارفوج تھی میں بے خوف وخطربڑی بہادری کے جوہردکھائےیہاں تک کہ اللہ تبارک وتعالیٰ فتح ونصرت مجاہدین کے حق میں لکھ دی،آپ دمشق کی فتح میں شامل رہے اورپھر ابوعبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ نے آپ کووہاں کا پہلا گورنربنا دیا،

وكان مجاب الدعوة، فمن ذلك أن أروى بنت أویس، شكته إِلَى مروان بْن الحكم، وهو أمیر المدینة لمعاویة، وقالت: إنه ظلمنی أرضی فأرسل إلیه مروان، فقال سَعِید: أترونی ظلمتها، وقد سمعت رَسُول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یقول: من ظلم شبرًا من أرض طوقه یَوْم القیامة من سبع أرضین؟اللهم إن كانت كاذبة فلا تمتها حتى تعمی بصرها، وتجعل قبرها فی بئرها، فلم تمت حتى ذهب بصرها، وجعلت تمشی فی دارها فوقعت فی بئرها فكانت قبرها

مروان بن حکیم جب وہ امیرمدینہ تھے کے دورمیں ایک بڑھیااروی بنت اویس نے ان پرایک گھناونا الزام لگایا کہ انہوں نے اس کی زمین ہتھیالی ہے،مروان بن حکم نے صورت حال معلوم کرنے کے لئے ان کے پاس کچھ افرادکوروانہ کیا،سعید رضی اللہ عنہ بن زید کویہ الزام سن کربہت دکھ ہوااور کہنے لگے بھلامیں ایساکیسے کرسکتا ہوں جبکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سناہے کہ جس نے کسی کی ایک بالشت زمین بھی ناجائز طور سے اپنے قبضہ میں کرلی توقیامت کے روز ساتوں زمینوں کاطوق اس کے گلے میں ڈالاجائے گا اس کے بعداللہ سبحانہ وتعالیٰ سے دعاگو ہو کر عرض کی اے اللہ توجانتاہے کہ میں بے گناہ ہوں ،اوروہ عورت جھوٹی ہے ،میں نے اس عورت پرکوئی ظلم نہیں کیاہے، تو اس عورت کواس کے جھوٹ کی سزادے اوراسے اندھا کرکے اس کنوئیں میں گرادے جس کے متعلق ان نے میرے خلاف دعویٰ دائر کیا ہے اور میری بے گناہی واضع کردے کہ میں نے اس عورت پرکوئی ظلم نہیں کیاہے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایامظلوم کی آہ سے بچوکیونکہ اللہ تبارک وتعالیٰ اورمظلوم کے درمیان کوئی پردہ حائل نہیں ہوتاچنانچہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے مظلوم سعید رضی اللہ عنہ بن زید کی درخواست قبول فرمائی اورکچھ ہی عرصہ بعدوادی عقیق میں زوردارسیلاب بھیجاجس کے نتیجے میں اس عورت اورسعید رضی اللہ عنہ بن زیدمیں متنازع زمین کی حدبندی واضع ہوگئی جس سے مسلمانوں میں ان کی بے گناہی واضع ہوگئی،اس واقعہ کے ایک ماہ بعدوہ عورت اندھی ہوگئی اور اپنی زمین پر گھومتے ہوئے اسی کنوئیں میں گرکرہلاک ہوگئی۔[13]

[1] الانعام۱۲۵

[2] مسنداحمد۱۷۹۴۷

[3] الفتح۲

[4]النساء ۶۴

[5] النساء ۸۰

[6] الانفال ۲۰

[7] تفسیرطبری۴۹۴؍۲۴

[8] تفسیرطبری۴۹۵؍۲۴

[9] الطلاق۷

[10] مسنداحمد۲۸۰۳

[11] تفسیرطبری۴۹۶؍۲۴

[12] اسدالغابة۴۷۵؍۳

[13] أسدالغابة فی معرفة الصحابة۴۷۶؍۲، تهذیب الكمال فی أسماء الرجال۴۵۲؍۱۰، سیر أعلام النبلاء۷۴؍۳

Related Articles