بعثت نبوی کا پہلا سال

مضامین سورۂ القیامہ

منکرین آخرت کے ایک ایک سوال اورایک ایک شبہ کامضبوط دلائل کے ساتھ قیامت اورآخرت کے امکان ،وقوع اوروجوب کاتسلی بخش ثبوت دیاگیا کہ ایک وقت مقررہ پرقیامت قائم ہوکررہے گی،اس دن چمکتاہواچاندبے نورہوجائے گا،دہکتاہواسورج اورچمکتاہواچاندجمع کردیئے جائیں گے ،قیامت کی ہولناکیاں دیکھ کر نگاہ پتھراجائے گی ، انسان بھاگ جانے کی کوشش کرے گامگر اس روزاللہ کی بارگاہ میں حاضری سے کسی صورت بھی فرار ممکن نہ ہوگا،اس روزکراماً کاتبین کا تیارکردہ نامہ اعمال انسان کے ہاتھ میں تھمادیاجائے گاجسے پڑھ کر اسے خودمعلوم ہوجائے گاکہ وہ چندروزہ دنیاوی زندگی میں کیاکیاکارنامے سرانجام دیتارہاہے ،یہ پڑھ کرانسان اپنے نامہ اعمال سے ہی منحرف ہو جائیں گے مگراللہ انسانی اعضاکوزبان عطا فرمائے گا اوروہ انسان کے دنیاوی زندگی کے اعمال پرگواہی دیں گے اوریہ ساری باتیں عقل ودانش کے عین مطابق ہیں ، البتہ خواہشات نفسانی اپنے ہولناک انجام سے ڈرکرانسان کوخودفریبی میں مبتلاکررہی ہیں کہ قیامت کبھی برپانہیں ہوگی اوراگرایساحادثہ رونماہوگیا توتمہارے دنیاوی عزت و وقار کی لاج رکھی جائے گی اوروہاں تمہیں عزت ووقارسے نوازاجائے گا،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوہدایت فرمائی کہ نزول وحی کے دوران جبریل علیہ السلام کے ساتھ ساتھ نہ پڑھا کریں بلکہ وحی کو غوروتوجہ سے سنیں ،اس کلام کوآپ کے قلب مبارک پرجمع کرنا،قیامت تک اس کی حفاظت اوراس کابیان کراناہماری ذمہ داری ہے ،اس روزانسان دو گروہوں میں منقسم ہوں گے ایک گروہ خوش نصیب لوگوں کاہوگاجن کے چہرے روشن ہوں گے اوررب تعالیٰ کی زیارت سے مشرف ہوں گے ،اوردوسراگروہ بدقسمت لوگوں کاہوگا جن کے چہرے سیاہ اوربدرونق ہوں گے اوروہ اپنانامہ اعمال پڑھ کراوراپنے سامنے غیض وغضب سے دھاڑتی جہنم کودیکھ کرجان جائیں گے کہ یہ ان کاٹھکانہ ہوگی جس میں ان کے ساتھ کمرتوڑ برتاؤ کیاجائے گا،سکرات موت کا ذکر فرمایاجب پنڈلی سے پنڈلی جڑجائے گی اورانسان سمجھ لے گاکہ دنیاسے جدائی کادن آگیا اورفرشتوں کے برتاؤ سے مرنے والاسمجھ جائے گاکہ اس کاانجام کیا ہونے والاہے، آخری آیات میں انسان کوباورکرایاگیاکہ تمہاری تخلیق بلاوجہ اوربے مقصدنہیں جیساکہ تم میں سے اکثرلوگوں کا خیال ہے ،اس مقصد کے لئے تخلیق انسانی کے مختلف مدارج پرغوروتدبرکی دعوت بھی دی گئی۔

   بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

شروع اللہ کے نام سے جو بیحد مہربان نہایت رحم والا ہے

لَا أُقْسِمُ بِیَوْمِ الْقِیَامَةِ ‎﴿١﴾‏ وَلَا أُقْسِمُ بِالنَّفْسِ اللَّوَّامَةِ ‎﴿٢﴾‏ أَیَحْسَبُ الْإِنسَانُ أَلَّن نَّجْمَعَ عِظَامَهُ ‎﴿٣﴾‏ بَلَىٰ قَادِرِینَ عَلَىٰ أَن نُّسَوِّیَ بَنَانَهُ ‎﴿٤﴾‏ بَلْ یُرِیدُ الْإِنسَانُ لِیَفْجُرَ أَمَامَهُ ‎﴿٥﴾‏ یَسْأَلُ أَیَّانَ یَوْمُ الْقِیَامَةِ  ﴿٦﴾‏(القیامة)

’’میں قسم کھاتا ہوں قیامت کے دن کی، اور قسم کھاتا ہوں اس نفس کی جو ملامت کرنے والا ہو، کیاانسان یہ خیال کرتاہے کہ ہم اس کی ہڈیاں جمع کریں گے ہی نہیں ،ہاں ضرور کریں گے ہم تو قادر ہیں کہ اس کی پور پور تک درست کردیں ، بلکہ انسان تو چاہتا ہے کہ آگے آگے نافرمانیاں کرتا جائے ،پوچھتا ہے کہ قیامت کا دن کب آئے گا۔


مشرکین مکہ دنیائے فانی کی محبت میں قیامت اور مرنے کے بعدآخروی زندگی کے قائل نہیں تھے ، ان کاخیال تھا

وَقَالُوْا مَا هِىَ اِلَّا حَیَاتُنَا الدُّنْیَا نَمُوْتُ وَنَحْیَا وَمَا یُهْلِكُنَآ اِلَّا الدَّهْرُ۔۔۔ ۝۲۴ [1]

ترجمہ:یہ لوگ کہتے ہیں کہ زندگی بس یہی ہماری دنیا کی زندگی ہے، یہیں ہمارا مرنا اور جینا ہے اور گردش ایام کے سوا کوئی چیز نہیں جو ہمیں ہلاک کرتی ہو ۔

اِنْ هِىَ اِلَّا مَوْتَـتُنَا الْاُوْلٰى وَمَا نَحْنُ بِمُنْشَرِیْنَ۝۳۵ [2]

ترجمہ:یہ لوگ کہتے ہیں ہماری پہلی موت کے سوااورکچھ نہیں اس کے بعدہم دوبارہ اٹھائے جانے والے نہیں ہیں ۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب انہیں دعوت اسلام پیش کی اورانہیں بتلایاکہ اللہ نے انسان کو یوں ہی نہیں پیداکردیابلکہ اس نے ایک مقصد اور منصوبے کے تحت اس کی تخلیق کی ہے ،پھرمرنے کے بعدایک وقت مقررہ پراللہ مالک یوم الدین تمام اگلے پچھلے انسانوں کو دوبارہ زندہ فرمائے گا اوران کے اعمال کا محاسبہ کرے گا،جس انسان نے اللہ وحدہ لاشریک اورسیدالامم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق زندگی گزاری ہو گی وہ اس کی جزاخیرپائے گا اورجس نے نافرمانی اور فسق وفجورمیں زندگی گزاری ہوگی وہ عذاب جہنم میں مبتلاہوگاجس میں وہ نہ جی سکے گااورنہ ہی اسے موت آئے گی،جیسے فرمایا:

ثُمَّ لَا یَمُوْتُ فِیْهَا وَلَا یَحْیٰی۝۱۳ۭ [3]

ترجمہ:پھر نہ اس میں مرے گا نہ جیے گا۔

اِنَّهٗ مَنْ یَّاْتِ رَبَّهٗ مُجْرِمًا فَاِنَّ لَهٗ جَهَنَّمَ۝۰ۭ لَا یَمُوْتُ فِیْهَا وَلَا یَحْیٰی۝۷۴ [4]

ترجمہ :حقیقت یہ ہے کہ جو مجرم بن کر اپنے رب کے حضور حاضر ہوگا اس کے لیے جہنم ہے جس میں وہ نہ جیے گا نہ مرے گا۔

اس حقیقت پرمشرکین انکاراوردعوت کا مذاق اڑانے لگے ، کہنے لگے کہ ہمارے آباؤ اجدادجوصدیوں سے زمین میں دفن ہیں اورمٹی کے ساتھ مٹی ہوچکے ہیں کیاوہ بھی زندہ کیے جائیں گے۔

وَكَانُوْا یَقُوْلُوْنَ۝۰ۥۙ اَىِٕذَا مِتْنَا وَكُنَّا تُرَابًا وَّعِظَامًا ءَ اِنَّا لَمَبْعُوْثُوْنَ۝۴۷ۙاَوَاٰبَاۗؤُنَا الْاَوَّلُوْنَ۝۴۸ [5]

ترجمہ:کہتے تھے کیا جب ہم مرکرخاک ہوجائیں گے اورہڈیوں کاپنجررہ جائیں گے تو پھر اٹھاکھڑے کیے جائیں گے ؟اورکیاہمارے باپ دادابھی اٹھائے جائیں گے جوپہلے گزرچکے ہیں ؟۔

وَقَالُوْٓا اِنْ ھٰذَآ اِلَّا سِحْرٌ مُّبِیْنٌ۝۱۵ۚۖءَ اِذَا مِتْنَا وَكُنَّا تُرَابًا وَعِظَامًا ءَاِنَّا لَمَبْعُوْثُوْنَ۝۱۶ۙاَوَاٰبَاۗؤُنَا الْاَوَّلُوْنَ۝۱۷ۭ [6]

ترجمہ:اور کہتے ہیں یہ تو صریح جادو ہے،بھلا کہیں ایسا ہوسکتا ہے کہ جب ہم مر چکے ہوں اور مٹی بن جائیں اور ہڈیوں کا پنجر رہ جائیں اس وقت ہم پھر زندہ کر کے اٹھا کھڑے کیے جائیں ؟اور کیا ہمارے اگلے وقتوں کے آبا و اجداد بھی اٹھائے جائیں گے ؟۔

وہ اپنے یقین میں اتنے محکم تھے کہ اس حقیقت کوکسی طرح بھی تسلیم کرنے کوتیارنہ تھے،جیسے فرمایا

وَاَقْسَمُوْا بِاللهِ جَهْدَ اَیْمَانِهِمْ۝۰ۙ لَا یَبْعَثُ اللهُ مَنْ یَّمُوْتُ۔۔۔ ۝۳۸ۙ [7]

ترجمہ: یہ لوگ اللہ کے نام سے کڑی کڑی قسمیں کھا کر کہتے ہیں کہ اللہ کسی مرنے والے کو پھر سے زندہ کر کے نہ اٹھائے گا ۔

۔۔۔قَالَ مَنْ یُّـحْیِ الْعِظَامَ وَهِىَ رَمِیْمٌ۝۷۸ [8]

ترجمہ: کہتا ہے کون ان ہڈیوں کوزندہ کرے گاجب کہ وہ بوسیدہ ہوچکی ہوں ؟۔

یَقُوْلُوْنَ ءَ اِنَّا لَمَرْدُوْدُوْنَ فِی الْحَافِرَةِ۝۱۰ۭءَ اِذَا كُنَّا عِظَامًا نَّخِرَةً۝۱۱ۭ [9]

ترجمہ: یہ لوگ کہتے ہیں کیاواقعی ہم پلٹاکرپھرواپس لائے جائیں گے ؟کیاجب ہم کھوکھلی بوسیدہ ہڈیاں بن چکے ہوں گے ؟۔

وَقَالُوْٓا ءَ اِذَا كُنَّا عِظَامًا وَّرُفَاتًا ءَاِنَّا لَمَبْعُوْثُوْنَ خَلْقًا جَدِیْدًا۝۴۹ [10]

ترجمہ:وہ کہتے ہیں جب ہم صرف ہڈیاں اور خاک ہو کر رہ جائیں گے تو کیا ہم نئے سرے سے پیدا کر کے اٹھائے جائیں گے؟۔

سورہ مدثرمیں ان کے تکبر و انکارکوپوری وضاحت اور زجروتوبیخ کے ساتھ بیان فرما دیا تھا،اس سورۂ میں کلام کوموثراوردلنشین بنانے کے لئے معمولی تنبیہ کے ساتھ دلائل دیئے گئے ہیں ، منکرین آخرت کے خیال کی تردید اور قیامت کے دن کی اہمیت وعظمت کو واضح کرنے کے لئے روزمحشراورنفس لوامہ یعنی برائیوں پرملامت کرنے والے نفس کی قسم کھاکرفرمایاکہ یہ لوگ خیال کرتے ہیں کہ مرنے کے بعد کوئی زندگی نہیں ، اللہ اوراس کے رسول کی فرمانبرداری ،اورنیک اعمال پر جزاوانعام اورنافرمانی ، گناہوں وبدکاریوں پرکوئی سزانہیں ،وہ سمجھتے ہیں ہم ان کی بوسیدہ منتشر ہڈیوں کو دوبارہ جمع نہیں کرسکتے ، ان کایہ گمان غلط ہے ایک وقت مقررہ پرجس کاعلم اللہ ہی کوہے قیامت قائم ہوگی ،اس عظیم الشان کائنات کاترتیب دیاہوایہ نظام اللہ کے حکم سے درہم برہم ہوجائے گا ،پھر جب اللہ تعالیٰ چاہے گا تمام انسانوں کے بکھرے ہوئے اجزاجمع کرکے ان کی قبروں سے انہیں کھڑا کرے گااورمیدان محشرمیں ان کے چھوٹے بڑے تمام اعمال کا محاسبہ کرے گا ،جب خالق کائنات اپنی قدرت کاملہ سے جسم کے باریک اور لطیف چیزوں کو جوڑنے پرقادرہے توبڑی بڑی ہڈیوں کوجمع کرکے تمہاراڈھانچہ پھرسے کھڑاکردینا اس کے لئے کیا مشکل ہے،جب اللہ تعالیٰ رنگ وبوسے بھری یہ عظیم الشان کائنات تخلیق کرسکتا ہے، ابتدا میں انسان کو کھنکھناتی مٹی سے پیداکرسکتاہے،پھرماں کے پیٹ میں پانی کے ایک حقیرقطرے سے اسے زندگی بخش سکتا ہے،اسے خوبصورت شکل وصورت اور متناسب جسم عطا فرما سکتا ہے تووہ دوبارہ کھڑاکیوں نہیں کرسکتا،جیسےفرمایا:

اَوَلَیْسَ الَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ بِقٰدِرٍ عَلٰٓی اَنْ یَّخْلُقَ مِثْلَهُمْ۔۔۔ ۝۸۱ [11]

ترجمہ:کیاوہ جس نے آسمانوں اور زمین کوپیداکیااس پرقادرنہیں کہ ان جیسوں کو پیداکر سکے ؟ ۔

یہ بات عقل اوران کا ضمیر بھی مانتاہے مگر انسان کانفس چاہتاہے کہ وہ زمین پرشتربے مہارکی طرح گھومتاپھرے ، اس پرکوئی اخلاقی پابندی نہ ہو ، وہ ظلم ،بے ایمانیاں ،فسق وفجور اور بدکاریاں کرتا پھرے ، اوراس کاکوئی حساب کتاب نہ ہو، اس لئے اطاعت اورتقویٰ سے متکبرانہ اعراض میں قیامت کو ناممکن الوقوع سمجھتے ہوئے بطوراستہزا پوچھتا ہے کہ قیامت کب قائم ہوگی ۔

 فَإِذَا بَرِقَ الْبَصَرُ ‎﴿٧﴾‏ وَخَسَفَ الْقَمَرُ ‎﴿٨﴾‏ وَجُمِعَ الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ ‎﴿٩﴾‏ یَقُولُ الْإِنسَانُ یَوْمَئِذٍ أَیْنَ الْمَفَرُّ ‎﴿١٠﴾‏ كَلَّا لَا وَزَرَ ‎﴿١١﴾‏ إِلَىٰ رَبِّكَ یَوْمَئِذٍ الْمُسْتَقَرُّ ‎﴿١٢﴾‏ یُنَبَّأُ الْإِنسَانُ یَوْمَئِذٍ بِمَا قَدَّمَ وَأَخَّرَ ‎﴿١٣﴾‏ بَلِ الْإِنسَانُ عَلَىٰ نَفْسِهِ بَصِیرَةٌ ‎﴿١٤﴾‏ وَلَوْ أَلْقَىٰ مَعَاذِیرَهُ ‎ ﴿١٥﴾‏ (القیامة )

پس جس وقت کہ نگاہ پتھرا جائے گی اور چاند بےنور ہوجائے گا اور سورج اور چاند جمع کردیئے جائیں گے، اس دن انسان کہے گا کہ آج بھاگنے کی جگہ کہاں ہے، نہیں نہیں کوئی پناہ گاہ نہیں آج تیرے پروردگار کی طرف ہی قرار گاہ ہے،آج انسان کو اس کے آگے بھیجے ہوئے اور پیچھے چھوڑے ہوئے سے آگاہ کیا جائے گا، بلکہ انسان خود اپنے اوپر حجت ہے اگرچہ کتنے ہی بہانے پیش کرے ۔


چنانچہ مشرکین کے سوال کہ قیامت کب آئے گی؟کے جواب میں تاریخ بتلانے کے بجائے اس دن کی جوہولناک حالت ہوگی اس کی تصویران کے سامنے رکھ دی گئی کہ اس روز قیامت کے ہولناک مناظردیکھ کرانسان کی آنکھیں خوف ودہشت اورحیرانی سے پتھراجائیں گی،جیسے فرمایا

یَّوْمَ یُنْفَخُ فِی الصُّوْرِ وَنَحْشُرُ الْمُجْرِمِیْنَ یَوْمَىِٕذٍ زُرْقًا۝۱۰۲ۚۖ [12]

ترجمہ:اس دن جبکہ صور پھونکا جائے گا اور ہم مجرموں کواس حال میں گھیرلائیں گے کہ ان کی آنکھیں (دہشت کے مارے)پتھرائی ہوئی ہوں گی۔

دل دہلادینے والے منظردیکھ کرانسان ہک دک رہے جائے گااسے سمجھ میں نہیں آئے گاکہ اچانک زمین و آسمان کوکیاہوگیاہے،جیسے فرمایا

 اِذَا زُلْزِلَتِ الْاَرْضُ زِلْزَالَهَا۝۱ۙوَاَخْرَجَتِ الْاَرْضُ اَثْقَالَهَا۝۲ۙوَقَالَ الْاِنْسَانُ مَا لَهَا۝۳ۚ [13]

ترجمہ:جب زمین پوری طرح جھنجھوڑ دی جائے گی اور اپنے بوجھ باہر نکال پھینکے گی،انسان کہنے لگے گا اسے کیا ہوگیا ہے۔

بڑے بڑے رنگ برنگے بڑے بڑے پہاڑکیوں ہوامیں اڑرہے ہیں اورآپس میں ٹکراکر ریزہ ریزہ ہوئے جاتے ہیں ،جیسے فرمایا

وَّبُسَّتِ الْجِبَالُ بَسًّا۝۵ۙ [14]

ترجمہ:اور پہاڑ اس طرح ریزہ ریزہ کردیئے جائیں گے ۔

وَّسُیِّرَتِ الْجِبَالُ فَكَانَتْ سَرَابًا۝۲۰ۭ [15]

ترجمہ:اور پہاڑ چلائے جائیں گے یہاں تک کہ وہ سراب ہو جائیں گے۔

یَوْمَ تَرْجُفُ الْاَرْضُ وَالْجِبَالُ وَكَانَتِ الْجِبَالُ كَثِیْبًا مَّهِیْلًا۝۱۴ [16]

ترجمہ: یہ اس دن ہوگا جب زمین اور پہاڑ لرز اٹھیں گے اور پہاڑوں کا حال ایسا ہوجائے گا جیسے ریت کے ڈھیر جو بکھرے جا رہے ہیں ۔

بس اسی گھبراہٹ میں وہ منہ اٹھائے ایک طرف دوڑے چلے جارہے ہوں گے، جیسے فرمایا

۔۔۔ اِنَّمَا یُؤَخِّرُهُمْ لِیَوْمٍ تَشْخَصُ فِیْهِ الْاَبْصَارُ۝۴۲ۙمُهْطِعِیْنَ مُقْنِعِیْ رُءُوْسِهِمْ لَا یَرْتَدُّ اِلَیْهِمْ طَرْفُهُمْ۝۰ۚ وَاَفْــِٕدَتُهُمْ هَوَاۗءٌ۝۴۳ۭ [17]

ترجمہ: اللہ تو انہیں ٹال رہا ہے اس دن کے لیے جب حال یہ ہوگا کہ آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئی ہیں ،سر اٹھائے بھاگے چلے جا رہے ہیں ، نظریں اوپر جمی ہیں اور دل اڑے جاتے ہیں ۔

جب چاندوسورج کی کشش ثقل ختم ہوجائے گی،چمکتاہواچاندگہناجائے گااوردہکتے ہوئےسورج کوبے نورکردیاجائے گااورتمام سیارے اپنے اپنے مدارسے باہرنکل کر آپس میں ٹکرا جائیں گے ،جیسےفرمایا

اِذَا الشَّمْسُ كُوِّرَتْ۝۱۠ۙوَاِذَا النُّجُوْمُ انْكَدَرَتْ۝۲۠ۙ [18]

ترجمہ:جب سورج لپیٹ دیاجائے گااورجب ستارے بکھر جائیں گے ۔

اللہ تعالیٰ چاندوسورج دونوں کوآگ میں پھینک دے گاتاکہ بندے دیکھ لیں کہ یہ بھی اللہ تعالیٰ کے مسخرہیں تاکہ جولوگ ان کی عبادت کرتے ہیں وہ دیکھ لیں کہ وہ جھوٹے تھے ، جب ایسے دہشت ناک واقعات ظہور پذیرہوں گے توانسان جوآج گھمنڈکے نشہ میں اس قیامت اورآخرت کامذاق اڑارہے ہیں اوراس کے لئے جلدی مچارہے ہیں مگر جب وہ سامنے آجائے گی تو وہ ان حوادث سے گلوخاصی اورنجات کے لئے فرارکی راہ ڈھنڈے گا،مگراللہ تعالیٰ کے ٹھکانے کے سوا نہ کوئی پہاڑ اور نہ ہی کوئی مضبوط قلعہ ہوگا جس میں وہ پناہ حاصل کرسکے گا ،اس روزتوصرف اللہ مالک یوم الدین کے دربارکی طرف ہی جاناہوگا کسی کے لئے ممکن نہ ہوگاکہ وہ چھپ سکے یااس جگہ سے بھاگ سکے ، جیسے فرمایا:

۔۔۔ مَا لَكُمْ مِّنْ مَّلْجَاٍ یَّوْمَىِٕذٍ وَّمَا لَكُمْ مِّنْ نَّكِیْرٍ۝۴۷ [19]

ترجمہ:اس دن تمہارے لئے کوئی جائے پناہ نہ ہوگی اورنہ کوئی تمہارے حال کو بدلنے کی کوشش کرنے والا ہو گا۔

میدان محشرمیں ٹھیک ٹھیک تولنے والا انصاف کاترازونصب کردیاجائے گا۔

وَنَضَعُ الْمَوَازِیْنَ الْقِسْطَ لِیَوْمِ الْقِیٰمَةِ فَلَا تُظْلَمُ نَفْسٌ شَـیْــــــًٔا۝۰ۭ وَاِنْ كَانَ مِثْقَالَ حَبَّةٍ مِّنْ خَرْدَلٍ اَتَیْنَابِهَا۝۰ۭ وَكَفٰى بِنَا حٰسِـبِیْنَ۝۴۷ [20]

ترجمہ:قیامت کے روز ہم ٹھیک ٹھیک تولنے والے ترازو رکھ دیں گے ، پھر کسی شخص پر ذرا برابر ظلم نہ ہوگا،جس کا رائی کے دانے برابر بھی کچھ کیا دھرا ہوگا ہو ہم سامنے لے آئیں گے اور حساب لگانے کے لیے ہم کافی ہیں ۔

اوراللہ مالک یوم الدین بندوں کے درمیان فیصلے فرمائے گا،انصاف کے تقاضے پورے کرنے کے لئے انسانوں کوان کے نامہ اعمال تھمادیے جائیں گے ،ہرانسان چاہے دنیامیں پڑھالکھاتھایاان پڑھ اپنے نامہ اعمال کوخودپڑھ لے گا،جیسے فرمایا

اِقْرَاْ كِتٰبَكَ ۭ كَفٰى بِنَفْسِكَ الْیَوْمَ عَلَیْكَ حَسِیْبًا۝۱۴ [21]

ترجمہ: پڑھ اپنا نامہ اعمال، آج اپنا حساب لگانے کے لیے تو خود ہی کافی ہے۔ ۔

انسان جواپنے عیوب کو خودخوب جانتاہے ، اس لئے ہرکافر،ہرمنافق ،ہرفاسق وفاجراورمجرم اس میں ادنیٰ سے ادنیٰ ہرنیکی و بدی کو تاریخ وار درج دیکھ کرحیران رہے جائے گااور انکارنہ کرسکے گااورسمجھ لے گاکہ آج وہ کس حیثیت سے رب کے دربار میں کھڑاہے جیسے فرمایا

وَوُضِـعَ الْكِتٰبُ فَتَرَى الْمُجْرِمِیْنَ مُشْفِقِیْنَ مِمَّا فِیْهِ وَیَقُوْلُوْنَ یٰوَیْلَتَنَا مَالِ هٰذَا الْكِتٰبِ لَا یُغَادِرُ صَغِیْرَةً وَّلَا كَبِیْرَةً اِلَّآ اَحْصٰىهَا۝۰ۚ وَوَجَدُوْا مَا عَمِلُوْا حَاضِرًا۝۰ۭ وَلَا یَظْلِمُ رَبُّكَ اَحَدًا۝۴۹ۧ [22]

ترجمہ: اور نامہ اعمال سامنے رکھ دیاجائے گا اس وقت تم دیکھو گے کہ مجرم لوگ اپنی کتاب زندگی کے اندراجات سے ڈرر ہے ہوں گے اورکہہ رہے ہوں گے کہ ہائے ہماری کم بختی!یہ کیسی کتاب ہے کہ ہماری کوئی چھوٹی بڑی حرکت ایسی نہیں رہی جواس میں درج نہ ہوگئی ہو ،جو جوکچھ انہوں نے کیا تھاوہ سب اپنے سامنے حاضر پائیں گےاور تمہارا پروردگار کسی پر کوئی ظلم نہیں کرے گا ۔

اس نامہ اعمال کوپڑھ کرمجرم اللہ کی قسمیں کھاکھاکربہانے تراشیں گے ، معذرت کریں گے،توبہ کریں گے ، دنیا میں دوبارہ واپس جانے اورنیک عمل کرنے کی باتیں کریں گے،جیسے فرمایا:

وَلَوْ تَرٰٓی اِذِ الْمُجْرِمُوْنَ نَاكِسُوْا رُءُوْسِهِمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ۝۰ۭ رَبَّنَآ اَبْصَرْنَا وَسَمِعْنَا فَارْجِعْنَا نَعْمَلْ صَالِحًا اِنَّا مُوْقِنُوْنَ۝۱۲ [23]

ترجمہ:کاش تم دیکھو وہ وقت جب یہ مجرم سر جھکائے اپنے رب کے حضور کھڑے ہوں گے (اس وقت یہ کہہ رہے ہونگے) اے ہمارے رب!ہم نے خوب دیکھ لیا اور سن لیا اب ہمیں واپس بھیج دے تاکہ ہم نیک عمل کریں ہمیں اب یقین آگیا ہے۔ ۔

لیکن کچھ بھی قبول نہ کیاجائے گا،جیسےفرمایا:

فَیَوْمَىِٕذٍ لَّا یَنْفَعُ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا مَعْذِرَتُهُمْ وَلَا هُمْ یُسْتَعْتَبُوْنَ۝۵۷ [24]

ترجمہ:پس وہ دن ہوگا جس میں ظالموں کوان کی معذرت کوئی نفع نہ دے گی اورنہ ان سے معافی مانگنے کے لئے کہاجائے گا۔

یَوْمَ لَا یَنْفَعُ الظّٰلِـمِیْنَ مَعْذِرَتُهُمْ وَلَهُمُ اللَّعْنَةُ وَلَهُمْ سُوْۗءُ الدَّارِ۝۵۲ [25]

ترجمہ:جب ظالموں کو ان کی معذرت کچھ بھی فائدہ نہ دے گی اور ان پر لعنت پڑے گی اور بد ترین ٹھکانا ان کے حصے میں آئے گا۔

وَیَوْمَ نَبْعَثُ مِنْ كُلِّ اُمَّةٍ شَهِیْدًا ثُمَّ لَا یُؤْذَنُ لِلَّذِیْنَ كَفَرُوْا وَلَا هُمْ یُسْتَعْتَبُوْنَ۝۸۴ [26]

ترجمہ: (انہیں کچھ ہوش بھی ہے کہ اس روزکیابنے گا)جب کہ ہم ہرامت میں سے ایک گواہ کھڑاکریں گے ،پھرکافروں کونہ حجتیں پیش کرنے کاموقع دیا جائے گانہ ان سے توبہ واستغفارکامطالبہ کیاجائے گا۔

مجرموں کوخودپرشدیدغصہ آرہاہوگا،جیسے فرمایا

اِنَّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا یُنَادَوْنَ لَمَقْتُ اللهِ اَكْبَرُ مِنْ مَّقْتِكُمْ اَنْفُسَكُمْ اِذْ تُدْعَوْنَ اِلَى الْاِیْمَانِ فَتَكْفُرُوْنَ[27]۝۱۰

ترجمہ:جن لوگوں نے کفر کیاہے قیامت کے روز ان کوپکاراجائے گاآج تمہیں جتنا شدیدغصہ اپنے اوپرآرہاہے اللہ تم پراس سے زیادہ غضب ناک اس وقت ہوتاتھاجب تمہیں ایمان کی طرف بلایاجاتاتھااورتم کفر کرتے تھے۔

آخرکوئی معقول عذرنہ پاکر مجرم اپنے کفروشرک اور دوسرے جرائم سے انکار کریں گے،جیسے فرمایا:

ثُمَّ لَمْ تَكُنْ فِتْنَتُهُمْ اِلَّآ اَنْ قَالُوْا وَاللهِ رَبِّنَا مَا كُنَّا مُشْرِكِیْنَ۝۲۳ [28]

ترجمہ: تو وہ اس کے سوا کوئی فتنہ نہ اٹھا سکیں گےکہ (یہ جھوٹا بیان دیں کہ)اے ہمارے آقا ! تیری قسم ہم ہرگز مشرک نہ تھے ۔

چنانچہ اللہ تعالیٰ ان کے اعضاکوزبان عطا فرمائے گا اور انسان کے ہاتھ، پاؤ ں ، زبان اوراس کاایک ایک بال ان کے جرائم کی گواہی دے گا، تمام گواہ میدان محشر میں حاضرہوں گے وہ بھی ان کے جرائم کی گواہی دیں گےجس سے اس کاجرم ثابت ہو جائے گا۔جیسے فرمایا:

اَلْیَوْمَ نَخْتِمُ عَلٰٓی اَفْوَاهِهِمْ وَتُكَلِّمُنَآ اَیْدِیْهِمْ وَتَشْهَدُ اَرْجُلُهُمْ بِمَا كَانُوْا یَكْسِبُوْنَ۝۶۵ [29]

ترجمہ: آج ہم ان کے منہ بند کیے دیتے ہیں ، ان کے ہاتھ ہم سے بولیں گے اور ان کے پاؤں گواہی دیں گے کہ یہ دنیا میں کیا کمائی کرتے رہے ہیں ۔

حَتّٰٓی اِذَا مَا جَاۗءُوْهَا شَهِدَ عَلَیْهِمْ سَمْعُهُمْ وَاَبْصَارُهُمْ وَجُلُوْدُهُمْ بِمَا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ۝۲۰وَقَالُوْا لِجُلُوْدِهِمْ لِمَ شَهِدْتُّمْ عَلَیْنَا۝۰ۭ قَالُوْٓا اَنْطَقَنَا اللهُ الَّذِیْٓ اَنْطَقَ كُلَّ شَیْءٍ وَّهُوَخَلَقَكُمْ اَوَّلَ مَرَّةٍ وَّاِلَیْهِ تُرْجَعُوْنَ۝۲۱وَمَا كُنْتُمْ تَسْـتَتِرُوْنَ اَنْ یَّشْهَدَ عَلَیْكُمْ سَمْعُكُمْ وَلَآ اَبْصَارُكُمْ وَلَا جُلُوْدُكُمْ وَلٰكِنْ ظَنَنْتُمْ اَنَّ اللهَ لَا یَعْلَمُ كَثِیْرًا مِّمَّا تَعْمَلُوْنَ۝۲۲ [30]

ترجمہ:پھرجب سب وہاں پہنچ جائیں گے توان کے کان اوران کی آنکھیں اوران کے جسم کی کھالیں ان پرگواہی دیں گی کہ وہ دنیا میں کیاکچھ کرتے رہے ہیں ،وہ اپنے جسم کی کھالوں سے کہیں گے تم نے ہمارے خلاف کیوں گواہی دی؟وہ جواب دیں گی ہمیں اسی اللہ نے گویائی دی ہے جس نے ہر چیزکوگویاکردیاہے ،اسی نے تم کوپہلی مرتبہ پیدا کیا تھااوراسی کی طرف تم واپس لائے جارہے ہو،تم دنیامیں جرائم کرتے وقت جب چھپتے تھے توتمہیں یہ خیال نہ تھاکہ کبھی تمہارے اپنے کان اورتمہاری آنکھیں اور تمہارے جسم کی کھالیں تم پرگواہی دیں گی بلکہ تم نے تویہ سمجھاتھاکہ تمہارے بہت سے اعمال کی اللہ کوبھی خبرنہیں ہے۔

 لَا تُحَرِّكْ بِهِ لِسَانَكَ لِتَعْجَلَ بِهِ ‎﴿١٦﴾‏ إِنَّ عَلَیْنَا جَمْعَهُ وَقُرْآنَهُ ‎﴿١٧﴾‏ فَإِذَا قَرَأْنَاهُ فَاتَّبِعْ قُرْآنَهُ ‎﴿١٨﴾‏ ثُمَّ إِنَّ عَلَیْنَا بَیَانَهُ ‎﴿١٩﴾‏(القیامة)

(اے نبی) آپ قرآن کو جلدی (یاد کرنے) کے لیے اپنی زبان کو حرکت نہ دیں ، اسکا جمع کرنا اور (آپ کی زبان سے)پڑھنا ہمارے ذمہ ہے، ہم جب اسے پڑھ لیں تو آپ اس کے پڑھنے کی پیروی کریں ، پھر اس کا واضح کردینا ہمارا ذمہ ہے۔


ابتدائی دورمیں جبکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کووحی اخذکرنے کی عادت ومشق پوری طرح نہ ہوئی تھی ،اس لئے جب جبرائیل علیہ السلام وحی لے کرآتے تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم محسوس کرتے کہ یہ ایک عظیم الشان ذمہ داری اورایک بہت بڑی امانت ہے جوآپ کے سپردکی جارہی ہے ،اگراس میں کوئی ادنیٰ کوتاہی بھی ہوئی یااس کاایک نقطہ بھی ضائع ہواتوآپ کواس کاجواب دہ ہوناپڑے گا،ساتھ ہی آپ کواس وحی کی زیادتی کی بھی تمناتھی کہ شایدآپ کی قوم اس کے کسی حصے کی برکت سے راہ یاب ہوجائے ،اس لئے جبرائیل علیہ السلام کے فارغ ہونے سے پہلے ہی ان کے ساتھ عجلت میں تلاوت کرناشروع کردیتے ،قیامت کے سلسلہ کلام کوبیچ میں توڑکراللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوتعلیم فرمائی کہ آپ فرشتے کے ساتھ ساتھ اس طرح نہ پڑھیں ،

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ:كَانَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ إِذَا نَزَلَ عَلَیْهِ الوَحْیُ حَرَّكَ بِهِ لِسَانَهُ وَوَصَفَ سُفْیَانُ یُرِیدُ أَنْ یَحْفَظَهُ فَأَنْزَلَ اللَّهُ:لاَ تُحَرِّكْ بِهِ لِسَانَكَ لِتَعْجَلَ بِهِ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہےجب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پروحی نازل ہوتی توآپ صلی اللہ علیہ وسلم اس پراپنی زبان ہلایاکرتے تھے ،سفیان نے کہاکہ اس ہلانے سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کامقصدوحی کویادکرناہوتاتھااس پراللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی’’اے نبی!اس وحی کوجلدی جلدی یادکرنے کے لئے اپنی زبان کوحرکت نہ دواس کویادکرادینااورپڑھوادیناہمارے ذمہ ہے۔‘‘[31]

اورتسلی دیتے ہوئے فرمایا اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! بھول جانے کے خوف سے جبرائیل علیہ السلام کے ساتھ ساتھ اپنی زبان مبارک کوجلدی جلدی حرکت مت دیں بلکہ جب فرشتہ وحی لے کرآئے توغورسے سنتے رہیں ، اس کاآپ کے سینے میں جمع کردیناتاکہ اس کاکوئی حصہ آپ کے ذہن سے محونہ ہو،آپ کی زبان پر اس کی قراء ت کوجاری کر دینا اوراس کی حفاظت ہماری ذمے داری ہے،جیسے فرمایا

اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَاِنَّا لَهٗ لَحٰفِظُوْنَ۝۹ [32]

ترجمہ:بیشک ہم نے اس ذکر کونازل کیاہے اورہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں ۔

یعنی جس کلام کی حفاظت کاذمہ خوداللہ لے رہاہے تواس میں کچھ حصہ غائب کردیناتودورکی بات ہے اس میں ایک نقطہ یاایک شوشہ کمی بیشی یا تبدیلی یازیادتی کاکوئی امکان نہیں چنانچہ جب جبرائیل علیہ السلام کے ذریعے سے ہم اس کی قراء ت آپ پرپوری کرلیں تب آپ اس کی قراء ت کریں ،اس کا اتباع کریں اوراس کے شرائع واحکام لوگوں کوپڑھ کرسنائیں ،اس کے معنی، مشکل مقامات کی تشریح اور حلال وحرام کی توضیح بھی ہماری ذمہ داری ہے،یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کام صرف یہی نہیں تھاکہ لوگوں کوکلام الٰہی سے آگاہ کردیں بلکہ ان کی تعلیم وتربیت بھی شامل تھی جیسے فرمایا:

۔۔۔ وَاَنْزَلْنَآ اِلَیْكَ الذِّكْرَ لِتُبَیِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ اِلَیْهِمْ وَلَعَلَّهُمْ یَتَفَكَّرُوْنَ۝۴۴ [33]

ترجمہ:اوراب یہ ذکرتم پرنازل کیاہے تاکہ تم لوگوں کے سامنے اس کی تعلیم کی تشریح وتوضیح کرتے جاؤ جوان کے لئے اتاری گئی ہے ، اور تاکہ لوگ (خود بھی ) غوروفکرکریں ۔

رَبَّنَا وَابْعَثْ فِیْهِمْ رَسُوْلًا مِّنْھُمْ یَتْلُوْا عَلَیْهِمْ اٰیٰـتِكَ وَیُعَلِّمُهُمُ الْكِتٰبَ وَالْحِكْمَةَ وَیُزَكِّیْهِمْ۔۔۔۝۰۝۱۲۹ۧ [34]

ترجمہ:اے رب ! ان لوگوں میں خودانہی کی قوم سے ایک رسول اٹھائیو،جوانہیں تیری آیات سنائے ،ان کوکتاب اورحکمت کی تعلیم دے اوران کی زندگیاں سنوارے۔

لَقَدْ مَنَّ اللهُ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ اِذْ بَعَثَ فِیْھِمْ رَسُوْلًا مِّنْ اَنْفُسِھِمْ یَتْلُوْا عَلَیْھِمْ اٰیٰتِهٖ وَیُزَكِّیْھِمْ وَیُعَلِّمُھُمُ الْكِتٰبَ وَالْحِكْمَةَ۔۔۔ ۝۱۶۴ [35]

ترجمہ:درحقیقت اہل ایمان پرتواللہ نے یہ بہت بڑااحسان کیا ہے کہ ان کے درمیان خودانہی میں سے ایک ایساپیغمبراٹھایاجواس کی آیات انہیں سناتاہے ،ان کی زندگیوں کوسنوارتاہے اوران کوکتاب اوردانائی کی تعلیم دیتاہے۔

هُوَالَّذِیْ بَعَثَ فِی الْاُمِّیّٖنَ رَسُوْلًا مِّنْهُمْ یَتْلُوْا عَلَیْهِمْ اٰیٰتِهٖ وَیُزَكِّیْهِمْ وَیُعَلِّمُهُمُ الْكِتٰبَ وَالْحِكْمَةَ۔۔۔۝۲ [36]

ترجمہ:وہی ہے جس نے امیوں کے اندرایک رسول خودانہی میں سے اٹھایاجوانہیں اس کی آیات سناتاہے ،ان کی زندگی سنوارتاہے اوران کوکتاب اورحکمت کی تعلیم دیتا ہے۔

كَلَّا بَلْ تُحِبُّونَ الْعَاجِلَةَ ‎﴿٢٠﴾‏ وَتَذَرُونَ الْآخِرَةَ ‎﴿٢١﴾‏ وُجُوهٌ یَوْمَئِذٍ نَّاضِرَةٌ ‎﴿٢٢﴾‏ إِلَىٰ رَبِّهَا نَاظِرَةٌ ‎﴿٢٣﴾‏ وَوُجُوهٌ یَوْمَئِذٍ بَاسِرَةٌ ‎﴿٢٤﴾‏ تَظُنُّ أَن یُفْعَلَ بِهَا فَاقِرَةٌ ‎﴿٢٥﴾‏ كَلَّا إِذَا بَلَغَتِ التَّرَاقِیَ ‎﴿٢٦﴾‏ وَقِیلَ مَنْ ۜ رَاقٍ ‎﴿٢٧﴾‏ وَظَنَّ أَنَّهُ الْفِرَاقُ ‎﴿٢٨﴾‏ وَالْتَفَّتِ السَّاقُ بِالسَّاقِ ‎﴿٢٩﴾‏ إِلَىٰ رَبِّكَ یَوْمَئِذٍ الْمَسَاقُ ‎  ‎﴿٣٠﴾(القیامة)

نہیں نہیں تم جلدی ملنے والی (دنیا) کی محبت رکھتے ہو اور آخرت کو چھوڑ بیٹھے ہو، اس روز بہت سے چہرے ترو تازہ اور بارونق ہونگےاپنے رب کی طرف دیکھتے ہوں گے، اور کتنے چہرے اس دن (بد رونق اور) اداس ہوں گے سمجھتے ہوں گے کہ ان کے ساتھ کمر توڑ دینے والا معاملہ کیا جائے گا ،نہیں نہیں جب روح ہنسلی تک پہنچے گی اور کہا جائے گا کہ کوئی جھاڑ پھونک کرنے والا ہے ؟ اور جان لیا اس نے کہ یہ وقت جدائی ہے، اور پنڈلی سے پنڈلی لپٹ جائے گی،آج تیرے پروردگار کی طرف چلنا ہے۔


یہاں سے سلسلہ کلام پھراسی مضمون کی ساتھ جوڑدیاگیافرمایاتمہارے انکارآخرت کی اصل وجہ یہ نہیں کہ تم خالق کائنات کوقیامت برپاکرنے،موت کے بعددوبارہ زندہ کر دینے سے عاجزسمجھتے ہوبلکہ اصل وجہ یہ ہے کہ اپنی تنگ نظری اورکوتاہ بینی سے دنیاوی فوری نتائج کواہمیت دیتے ہویعنی نقدسوداچاہتے ہواورروزآخرت جیسی دورکی چیزمیں جو نتائج ظاہرہوں گے انہیں کوئی اہمیت نہیں دیتے حالانکہ انسان اپنے دل کے اندرخودبصیرت کی آنکھیں رکھتاہے جوان حقائق کودیکھ سکتی ہیں ، اللہ تعالیٰ نے ہرامت میں رسول مبعوث فرمائے ،جیسے فرمایا

وَمَا كَانَ رَبُّكَ مُهْلِكَ الْقُرٰى حَتّٰى یَبْعَثَ فِیْٓ اُمِّهَا رَسُوْلًا یَّتْلُوْا عَلَیْهِمْ اٰیٰتِنَا ۚ وَمَا كُنَّا مُهْلِــكِی الْقُرٰٓى اِلَّا وَاَهْلُهَا ظٰلِمُوْنَ ۝۵۹ [37]

ترجمہ:اور تیرارب بستیوں کو ہلاک کرنے والانہ تھا جب تک ان کے مرکز میں ایک رسول نہ بھیج دیتا جو ان کو ہماری آیات سناتا اور ہم بستیوں کو ہلاک کرنے والے نہ تھے جب تک کہ ان کے رہنے والے ظالم نہ ہوجاتے۔

انسان کی ہدایت و رہنمائی کے لئے کتابیں نازل فرمائیں ،مگرہمیشہ ایک معمولی تعدادکے سوا اکثریت ان پرایمان نہ لائی،اکثریت نے دعوت حق کامذاق اڑایا،طاغوت کو سربلند کرنے اورکلمة اللہ کودبانے اورمٹانے کے لئے رسولوں سے مقابلہ کیا،مگرچندنیک فطرت غریب ،کمزوراورمفلس لوگوں نے رسول کی تعلیم پرلبیک کہا اور مرتے دم تک اسی راہ پرگامزن رہے،یعنی جنہوں نے آخرت کودنیاپرترجیح دی ،جب اللہ انہیں قبروں سے اٹھائے گااوروہ دیکھیں گے کہ جوکچھ رسولوں نے فرمایاتھاسچ تھا اور ہم نے ان کی دعوت پربالکل صحیح فیصلہ کیاتھا،مرنے کے بعددوبارہ زندہ ہوناحق تھاتواپنے فیصلے پروہ مطمئن ہوں گے ،ان کے چہرے خوشی سے چاندکی طرح دمک رہے ہوں گے اور اپنے مراتب کے مطابق رب حقیقی کی زیارت سے شادکام ہوں گے ،

عَنْ صُهَیْبٍ، تَلَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ هَذِهِ الْآیَةَ: لِلَّذِینَ أَحْسَنُوا الْحُسْنَى وَزِیَادَةٌ ، وَقَالَ: إِذَا دَخَلَ أَهْلُ الْجَنَّةِ الْجَنَّةَ، وَأَهْلُ النَّارِ النَّارِ، نَادَى مُنَادٍ: یَا أَهْلَ الْجَنَّةِ إِنَّ لَكُمْ عِنْدَ اللَّهِ مَوْعِدًا یُرِیدُ أَنْ یُنْجِزَكُمُوهُ ، فَیَقُولُونَ: وَمَا هُوَ؟ أَلَمْ یُثَقِّلِ اللَّهُ مَوَازِینَنَا، وَیُبَیِّضْ وُجُوهَنَا، وَیُدْخِلْنَا الْجَنَّةَ، وَیُنْجِنَا مِنَ النَّارِ؟ قَالَ: فَیَكْشِفُ الْحِجَابَ، فَیَنْظُرُونَ إِلَیْهِ، فَوَاللَّهِ مَا أَعَطَاهُمُ اللَّهُ شَیْئًا أَحَبَّ إِلَیْهِمْ مِنَ النَّظَرِ – یَعْنِی إِلَیْهِ – وَلَا أَقَرَّ لِأَعْیُنِهِمْ

صہیب رضی اللہ عنہ سے مروی ہےنبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت لِلَّذِینَ أَحْسَنُوا الْحُسْنَى وَزِیَادَةٌ [38]کی تلاوت فرمائی،پھر فرمایاجب جنت والے جنت میں اوردوزخ والے دوزخ میں داخل ہو جائیں گے توایک پکارنے والاپکارے گاکہ اے جنت والو!اللہ کے پاس تمہاراایک وعدہ ہے اوروہ اس کوپوراکرناچاہتاہے، لوگ کہیں گے کہ وہ کیا ہے؟کیااللہ تعالیٰ نے ہمارے نیک اعمال بھاری نہیں کیے اور ہمارے چہرے روشن نہیں کردیئے،اور ہمیں جنت میں داخل نہیں کردیااورجہنم سے نجات نہیں دی،یعنی اب کون سی نعمت باقی رہی ہے، پھراللہ تعالیٰ ان کی آنکھوں سے پردہ ہٹادے گااوروہ اللہ شانہ کی طرف دیکھیں گے،سوقسم ہے اللہ تعالیٰ کی! ان لوگوں کوجوانعامات ملے تھے ان میں سے کوئی انعام انہیں اس سے زیادہ محبوب نہ ہوگا کہ وہ اپنے رب کی دیدسے مشرف ہوں ۔[39]

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ:أَنَّ النَّاسَ قَالُوا: یَا رَسُولَ اللَّهِ، هَلْ نَرَى رَبَّنَا یَوْمَ القِیَامَةِ؟فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:هَلْ تُضَارُّونَ فِی القَمَرِ لَیْلَةَ البَدْرِ؟ قَالُوا: لاَ یَا رَسُولَ اللَّهِ،قَالَ:فَهَلْ تُضَارُّونَ فِی الشَّمْسِ، لَیْسَ دُونَهَا سَحَابٌ؟قَالُوا: لاَ یَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ:فَإِنَّكُمْ تَرَوْنَهُ كَذَلِكَ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے لوگوں نے پوچھا اے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم ! کیاہم قیامت کے روزاپنے رب کودیکھیں گے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکیاچودھویں رات کے چاند کو دیکھنے میں تمہیں کوئی دقت ہوتی ہے؟لوگوں نے عرض کیانہیں اے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم !پھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کیاجب بادل نہ ہوں توتمہیں سورج کودیکھنے میں کوئی دشواری ہوتی ہے؟ لوگوں نے عرض کیانہیں اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !آپ نے فرمایااسی طرح تم قیامت کے روزاپنے رب کودیکھوگے۔[40]

عَنْ جَرِیرٍ، قَالَ: كُنَّا جُلُوسًا عِنْدَ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ إِذْ نَظَرَ إِلَى القَمَرِ لَیْلَةَ البَدْرِ قَالَ:إِنَّكُمْ سَتَرَوْنَ رَبَّكُمْ كَمَا تَرَوْنَ هَذَا القَمَرَ، لاَ تُضَامُونَ فِی رُؤْیَتِهِ ، فَإِنِ اسْتَطَعْتُمْ أَنْ لاَ تُغْلَبُوا عَلَى صَلاَةٍ قَبْلَ طُلُوعِ الشَّمْسِ، وَصَلاَةٍ قَبْلَ غُرُوبِ الشَّمْسِ، فَافْعَلُوا

جریر رضی اللہ عنہ سے مروی ہےہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بیٹھے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چاندکی طرف دیکھا ، چودھویں رات کاچاندتھااور فرمایاتم لوگ اپنے رب کواسی طرح دیکھوگے جس طرح اس چاندکودیکھ رہے ہواوراس کے دیکھنے میں کوئی دھکاپیل نہیں ہوگی،پس اگرتم سے ہوسکے توسورج نکلنے سے پہلے کی نماز (فجر)اورسورج ڈوبنے سے پہلے کی نماز(عصر)میں کسی طرح سستی نہ کرو۔[41]

ابْنَ عُمَرَ یَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّ أَدْنَى أَهْلِ الجَنَّةِ مَنْزِلَةً لَمَنْ یَنْظُرُ إِلَى جِنَانِهِ وَأَزْوَاجِهِ وَخَدَمِهِ وَسُرُرِهِ مَسِیرَةَ أَلْفِ سَنَةٍ، وَأَكْرَمُهُمْ عَلَى اللهِ مَنْ یَنْظُرُ إِلَى وَجْهِهِ غُدْوَةً وَعَشِیَّةً ثُمَّ قَرَأَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ {وُجُوهٌ یَوْمَئِذٍ نَاضِرَةٌ إِلَى رَبِّهَا نَاظِرَةٌ}

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اہل جنت میں کم سے کم درجے کاجوآدمی ہوگاوہ اپنے باغ اوربیویوں اورخادموں اورتختوں کو(یعنی اپنی سلطنت کی وسعت کو) ایک ہزارسال کی مسافت تک دیکھے گا،اوران میں سب سے زیادہ فضیلت رکھنے والے لوگ ہر روز دو مرتبہ اپنے رب کودیکھیں گے،پھررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت’’اس روز بہت سے چہرے تروتازہ ہوں گے اور اپنے رب کی طرف دیکھ رہے ہوں گے۔‘‘ تلاوت فرمائی۔[42]

عَبْدِ اللهِ بْنِ قَیْسٍ، عَنْ أَبِیهِ،عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: جَنَّتَانِ مِنْ فِضَّةٍ آنِیَتُهُمَا، وَمَا فِیهِمَا، وَجَنَّتَانِ مِنْ ذَهَبٍ آنِیَتُهُمَا، وَمَا فِیهِمَا، وَمَا بَیْنَ الْقَوْمِ وَبَیْنَ أَنْ یَنْظُرُوا إِلَى رَبِّهِمْ إِلَّا رِدَاءُ الْكِبْرِیَاءِ عَلَى وَجْهِهِ فِی جَنَّةِ عَدْنٍ

عبداللہ بن قیس (ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ )سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایادوجنتیں چاندی کی ہوں گی ،اس کے برتن اورسب چیزیں چاندی کی ہوں گی اوردوجنتیں سونے کی ہوں گی اس کے برتن اورسب چیزیں سونے کی ہوں گی اورلوگوں کواپنے پروردگارکودیکھنے میں کوئی آڑنہ ہوگی ،جنت العدن میں سوائے ایک بزرگی کی چادرکے جواللہ کے منہ پرہوگی۔[43]

عَنِ ابْنِ عُمَرَ، رَفَعَهُ إِلَى النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:إِنَّ أَدْنَى أَهْلِ الْجَنَّةِ مَنْزِلَةً الَّذِی یَنْظُرُ إِلَى جِنَانِهِ وَنَعِیمِهِ وَخَدَمِهِ وَسُرُرِهِ مِنْ مَسِیرَةِ أَلْفِ سَنَةٍ، وَإِنَّ أَكْرَمَهُمْ عَلَى اللَّهِ، مَنْ یَنْظُرُ إِلَى وَجْهِهِ غُدْوَةً وَعَشِیَّةً ، ثُمَّ تَلَا هَذِهِ الْآیَةَ {وُجُوهٌ یَوْمَئِذٍ نَاضِرَةٌ إِلَى رَبِّهَا نَاظِرَةٌ}

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ادنی درجے کا جنتی بھی اپنے باغوں ، بیویوں ، نعمتوں ، خدمت گاروں اور تختوں کو ایک ہزار برس کی مسافت تک دیکھے گا،ان میں سے سب سے زیادہ اکرام والا وہ ہوگا جو صبح و شام اللہ تعالیٰ کے چہرے کی طرف دیکھے گا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت پڑھی ’’اس روز بہت سے چہرے تروتازہ ہوں گے اور اپنے رب کی طرف دیکھ رہے ہوں گے۔‘‘[44]

عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:بَیْنَا أَهْلُ الْجَنَّةِ فِی نَعِیمِهِمْ، إِذْ سَطَعَ لَهُمْ نُورٌ، فَرَفَعُوا رُءُوسَهُمْ، فَإِذَا الرَّبُّ قَدْ أَشْرَفَ عَلَیْهِمْ مِنْ فَوْقِهِمْ، فَقَالَ: السَّلَامُ عَلَیْكُمْ یَا أَهْلَ الْجَنَّةِ قَالَ: وَذَلِكَ قَوْلُ اللَّهِ: {سَلَامٌ قَوْلًا مِنْ رَبٍّ رَحِیمٍ} [45] ، قَالَ فَیَنْظُرُ إِلَیْهِمْ، وَیَنْظُرُونَ إِلَیْهِ، فَلَا یَلْتَفِتُونَ إِلَى شَیْءٍ مِنَ النَّعِیمِ، مَا دَامُوا یَنْظُرُونَ إِلَیْهِ، حَتَّى یَحْتَجِبَ عَنْهُمْ، وَیَبْقَى نُورُهُ وَبَرَكَتُهُ عَلَیْهِمْ فِی دِیَارِهِمْ

جابربن عبداللہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااہل جنت اپنی نعمتوں میں ہوں گے کی یکبارگی ان پرایک نورچمکے گااوروہ اپناسراٹھائیں گے اوردیکھیں گے کہ ان کا رب اوپرسے جھانک رہاہے،اورپروردگارفرمائے گااے جنت والوتم پرسلام ہے اوراللہ تعالیٰ ان کواپنے کلام میں خبردیتاہے’’رب رحیم کی طرف سے ان کوسلام کہاگیا ہے۔‘‘فرمایاوہ ان کی طرف نظرکرتارہے گا ،پھرجب تک اللہ ان سے پردہ نہ فرمالے اس وقت تک وہ جنت کی کسی نعمت کی طرف توجہ نہ کریں گے اوراسی کی طرف دیکھتے رہیں گے ، اورنوراوربرکت ان کے گھروں میں باقی رہے گا۔[46]

مگرفاجرقیامت کے روزاپنے پروردگارکے دیدارسے محروم رہیں گے،جیسے فرمایا:

كَلَّآ اِنَّهُمْ عَنْ رَّبِّهِمْ یَوْمَىِٕذٍ لَّمَحْجُوْبُوْنَ۝۱۵ۭ [47]

ترجمہ:ہرگزنہیں ،بالیقین اس روز یہ اپنے رب کے دیدار سے محروم رکھے جائیں گے۔

اس کے برعکس وہ لوگ جنہوں نے دولت ،حیثیت اورطاقت کے غرورو گھمنڈ میں مبتلارہے ، دنیاکی لذت وشہوات میں کوشاں رہے ، رسولوں کی دعوت اسلام کوماننے کے بجائے مذاق اڑایا، رب حقیقی کی بندگی کے بجائے طاغوت کی پرستش میں لگے رہے ،اللہ کو وحدہ لاشریک سمجھنے کے بجائے اس کی اولادگھڑنے لگے،مشکل کشا،حاجت روا جاننے کے بجائے بے شمار الٰہ بنالئے اوردردرپرپیشانی ٹکتے رہے ،دعوت حق کودبانے اورمٹانے کے لئے ہر طرح کے ہتکنڈے استعمال کیے،اس کے ساتھ ساتھ دوسروں کو بھی اس راستہ پرچلنے سے روکا،جب میدان محشرمیں تمام حقیقتوں کومجسم پائیں گے،اعمال کوتولتاہودیکھیں گے ،اپنی آنکھوں کےسامنےجہنم کوغیض وغضب سے بھڑکتے ہوئے دیکھیں گے تودل میں سوچیں گے کاش ہم نے بھی ایک صاحب بصیرت اورعقل مندانسان کی طرح دنیاپرآخرت کوترجیح دی ہوتی توآج ہمیں بھی کوئی خوف ورنج نہ ہوتا،وہ اچھی طرح جان چکے ہوں گے کہ اللہ نے جورحمت ہماری طرف بھیجی تھی اسے نہ مان کرہم نے بڑی بھول کی،ہم دولت ،حیثیت اورطاقت پر اتراتے رہے، ابلیس کے چیلے بن کرپھرتے رہے، اسی کی دعوت کوپھیلانے اور حقیقی دعوت کودبانے اورمٹانے کی درپے رہے،لہذا رہائی کی اب کوئی صورت نظر نہیں آتی اب توہمیں ذلت آمیزاوردردناک عذاب دیاجانے والاہے،یہ سوچ کران کے چہرے خوف ودہشت اورحسرت سے سیاہ اورمتغیر ہوں گے،جیسےفرمایا:

یَّوْمَ تَبْیَضُّ وُجُوْهٌ وَّتَسْوَدُّ وُجُوْهٌ۝۰ۚ فَاَمَّا الَّذِیْنَ اسْوَدَّتْ وُجُوْھُھُمْ۝۰ۣ اَكَفَرْتُمْ بَعْدَ اِیْمَانِكُمْ فَذُوْقُوا الْعَذَابَ بِمَا كُنْتُمْ تَكْفُرُوْنَ۝۱۰۶ [48]

ترجمہ:جبکہ کچھ لوگ سرخ روہوں گے اورکچھ لوگوں کامنہ کالاہوگا،جن کامنہ کالاہوگا(ان سے کہاجائے گاکہ)نعمت ایمان پانے کے بعد بھی تم نے کافرانہ رویہ اختیار کیا ؟ اچھا تواب اس کفران نعمت کے صلہ میں عذاب کامزہ چکھو۔

 وُجُوْهٌ یَّوْمَىِٕذٍ خَاشِعَةٌ۝۲ۙ [49]

ترجمہ:کچھ چہرے اس روزخوفزدہ ہوں گے ۔

وُجُوْهٌ یَّوْمَىِٕذٍ نَّاعِمَةٌ۝۸ۙلِّسَعْیِهَا رَاضِیَةٌ۝۹ۙ [50]

ترجمہ:کچھ چہرے اس روزبارونق ہوں گے ،اپنی کارگزاری پرخوش ہوں گے ۔

اس لئے لوگو!اللہ نے تمہیں دونوں راستے بتلادیئے ہیں ، ابھی وقت ہے،سانسوں کی ڈورباقی ہےسنبھل جاؤ ،ہرطرف سے منہ موڑکراپنے رب کی طرف پلٹ آؤ ،اس سے معافی چاہو،وہ غفوررحیم ہےمعاف کردینے کوپسندکرتاہے،

عَنْ عَائِشَةَ، أَنَّهَا قَالَتْ: أَنَّهَا قَالَتْ: یَا رَسُولَ اللَّهِ، أَرَأَیْتَ إِنْ وَافَقْتُ لَیْلَةَ الْقَدْرِ مَا أَدْعُو؟ قَالَ: تَقُولِینَ: اللَّهُمَّ إِنَّكَ عَفُوٌّ تُحِبُّ الْعَفْوَ فَاعْفُ عَنِّی

ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہےمیں نے عرض کی اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !اگرمیں لیلة القدرکی رات کوپالوں تومیں اللہ تعالیٰ سے کیامانگوں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاتم یوں دعامانگنااے اللہ!تومعاف کرنے والاہے ،معاف کردینے کوپسندفرماتاہے پس مجھے معاف فرمادے۔[51]

اس کی رحمت اس کے غضب پرحاوی ہےوہ تمہیں معاف فرمادے گا۔

قُلْ لِّمَنْ مَّا فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ۝۰ۭ قُلْ لِّلهِ۝۰ۭ كَتَبَ عَلٰی نَفْسِهِ الرَّحْمَةَ۝۱۲ [52]

ترجمہ: ان سے پوچھو، آسمانوں اور زمین میں جو کچھ ہے وہ کس کا ہے؟ کہو سب کچھ اللہ ہی کا ہے، اس نے رحم و کرم کا شیوہ اپنے اوپر لازم کرلیا ہے ۔

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: إِنَّ اللَّهَ لَمَّا قَضَى الخَلْقَ، كَتَبَ عِنْدَهُ فَوْقَ عَرْشِهِ: إِنَّ رَحْمَتِی سَبَقَتْ غَضَبِی

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااللہ تعالیٰ نے جب مخلوق پیداکی توعرش کے اوپراپنے پاس لکھ دیاکہ میری رحمت میرے غصہ سے بڑ ھ کرہے۔[53]

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ، قَالَ:: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: كَتَبَ رَبُّكُمْ عَلَى نَفْسِهِ بِیَدِهِ قَبْلَ أَنْ یَخْلُقَ الْخَلْقَ: رَحْمَتِی سَبَقَتْ غَضَبِی

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاتمہارے رب نے مخلوق کی پیدائش سے قبل اپنے لیے اپنے ہاتھ سے لکھ دیاکہ میری رحمت میرے غضب پرحاوی ہے ۔[54]

تمہارا یہ خیال ہرگز صحیح نہیں کہ مرنے کے بعدتم فناہوجاؤ گے اورحیات بعدالموت نہیں ،روزمحشررب کے دربارمیں پیشی نہیں ،اعمال کی جزاوسزانہیں ،آج تم اپنے فخروغرور اور دنیاوی مفادات کی بناپرآخرت کوتسلیم نہیں کرتے مگرتم اچھی طرح جانتے ہوکہ جب قریب المرگ شخص کی جان حلق میں پہنچ جاتی ہے یعنی جب سکرات موت طاری ہوجاتی ہے اورموت کاآہنی پنجہ اسے اپنی گرفت میں لے لیتاہے توپھر کوئی بھی ڈاکٹر،یاجھاڑپھونک کرنے والا مرنے والے کی مددنہیں کرسکتا،جیسے فرمایا:

فَلَوْلَآ اِذَا بَلَغَتِ الْحُلْقُوْمَ۝۸۳ۙوَاَنْتُمْ حِیْـنَىِٕذٍ تَنْظُرُوْنَ۝۸۴ۙوَنَحْنُ اَقْرَبُ اِلَیْهِ مِنْكُمْ وَلٰكِنْ لَّا تُبْصِرُوْنَ۝۸۵فَلَوْلَآ اِنْ كُنْتُمْ غَیْرَ مَدِیْـنِیْنَ۝۸۶ ۙ تَرْجِعُوْنَهَآ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ۝۸۷ [55]

ترجمہ:اب اگرتم کسی کے محکوم نہیں ہواوراپنے اس خیال میں سچے ہو تو جب مرنے والے کی جان حلق تک پہنچ چکی ہوتی ہے اورتم آنکھوں دیکھ رہے ہوتے ہوکہ وہ مررہاہے ، اس وقت اس کی نکلتی ہوئی جان کوواپس کیوں نہیں لے آتے؟

خنساء نے ایک شعرمیں کہا۔

لكن سهام المنایا من نصبن له

جس کوموت کے تیرلگ گئے    

لم ینجه طب ذی طب وَلا رَاق

اس کونہ کسی طبیب کی حذاقت شفادے سکتی ہے نہ کسی جھاڑپھونک والے کی جھاڑپھونک۔[56]

عدی بن زیدنے کہا۔

أو تكن وجهة فتلك سبیل الن

یاوہ راہ کھل جائے گی جوسب کی راہ ہے

اس لا تمنع الحتوف الرواقی

    موت سے تعویذگنڈے نجات نہیں دلاسکتے۔[57]

چنانچہ اس وقت جب ناعاقبت ،بدقسمت انسان کویقین ہوجاتاہے کہ اب جبکہ پنڈلیاں خشک ہوگئی ہیں ، جدوجہدکی طاقت ختم ہوگئی ہے اوراب مہلت کی گھڑیاں ختم ہوئیں ، اب کسی بھی لمحہ سانسوں کی ڈورٹوٹنے کوہے ،اب اپنی اولاد، جائزوناجائزطریقوں سے حاصل ہونے والی دولت،مرتبہ اورطاقت کوجس پر مجھے بہت مان تھا،جن کی وجہ سے میں حق سے منہ موڑتارہا،لوگوں پرظلم وستم کرتارہاکوچھوڑکراس دنیا فانی سے کوچ کرنا ہے ، اس وقت اس انسان کو مال وجاہ کی جدائی اورعالم آخرت میں ایک مجرم کی حیثیت سے گرفتار ہو کر جانے کی مصیبت ،اورانجام بدکاخوف ہوتاہے۔

 فَلَا صَدَّقَ وَلَا صَلَّىٰ ‎﴿٣١﴾‏ وَلَٰكِن كَذَّبَ وَتَوَلَّىٰ ‎﴿٣٢﴾‏ ثُمَّ ذَهَبَ إِلَىٰ أَهْلِهِ یَتَمَطَّىٰ ‎﴿٣٣﴾‏ أَوْلَىٰ لَكَ فَأَوْلَىٰ ‎﴿٣٤﴾‏ ثُمَّ أَوْلَىٰ لَكَ فَأَوْلَىٰ  (القیامة)﴿٣٤﴾

اس نے نہ تو تصدیق کی نہ نماز ادا کی بلکہ جھٹلایا اور روگردانی کی، پھر اپنے گھر والوں کے پاس اتراتا ہوا گیا، افسوس ہے تجھ پر حسرت ہے تجھ پر، وائے ہے اور خرابی ہے تیرے لیے۔


قَالَ ابْنُ زَیْدٍ، فِی قَوْلِهِ: {فَلَا صَدَّقَ وَلَا صَلَّى وَلَكِنْ كَذَّبَ وَتَوَلَّى ثُمَّ ذَهَبَ إِلَى أَهْلِهِ یَتَمَطَّى} [58]قَالَ: هَذَا فِی أَبِی جَهْلٍ

انسان کے متکبرانہ سوال کے بعد مجاہد،قتادہ،اورابن زیدکے مطابق یہ آیت’’مگراس نے نہ سچ مانااورنہ نمازپڑھی،بلکہ جھٹلایااورپلٹ گیا،پھراکڑتا ہوااپنے گھروالوں کی طرف چل دیا۔ ‘‘ابوجہل کے بارے میں نازل ہوئی۔[59]

چنانچہ ابوجہل کےمتکبرانہ اعراض کاذکرفرمایاکہ اس نے دعوت حق کوسنامگراس پر غوروتدبر کرنے کے بجائے اللہ کی کتابوں ،فرشتوں ،اچھی بری تقدیر،یوم آخرت ، جزاوسزا، اورجنت ودوزخ کی تصدیق نہ کی اورنہ ہی اللہ کے رسول کی اطاعت کی،یعنی تکذیب اورایمان و اطاعت سے روگرانی کی ،اللہ جس نے اسے صحیح سالم بنایا، زندگی بخشی ، اولاد ، مال ودولت ،عزت ومرتبہ بخشا ، پاکیزہ رزق عطافرمایا،اس مالک حقیقی کاشکرگزار ہونے اور اس کی عبودیت کے لئے نمازقائم کرنے کے بجائے انکار کیا، اور تمسخراڑاتے ہوئے منہ پھیرکربے خوف وخطراتراتااوراکڑتاہوااپنے لوگوں کی طرف چل دیا، جیسے فرمایا:

وَاِذَا انْقَلَبُوْٓا اِلٰٓى اَهْلِهِمُ انْقَلَبُوْا فَكِهِیْنَ۝۳۱ۡۖ [60]

ترجمہ: اور اپنے گھروالوں کی طرف پلٹتے تومزے لیتے ہوئے پلٹتے تھے۔

اِنَّهٗ كَانَ فِیْٓ اَهْلِهٖ مَسْرُوْرًا۝۱۳ۭاِنَّهٗ ظَنَّ اَنْ لَّنْ یَّحُوْرَ۝۱۴ۚۛبَلٰٓى۝۰ۚۛ اِنَّ رَبَّهٗ كَانَ بِهٖ بَصِیْرًا۝۱۵ۭۚۛ [61]

ترجمہ:وہ اپنے گھر والوں میں مگن تھا اس نے سمجھا تھا کہ اسے کبھی پلٹنا نہیں ہے،پلٹنا کیسے نہ تھا اس کا رب اس کے کرتوت دیکھ رہا تھا ۔

پھران کی اس حالت پر طنزیہ طورپرفرمایا جب تواپنے خالق سے کفرکرنے کی جرات کر چکا تو پھر تجھ جیسے آدمی کویہی چال زیب دیتی ہے جوتو چل رہاہے، جیسا کہ حسرت کی مثال فرمائی۔

یٰحَسْرَةً عَلَی الْعِبَادِ۝۰ۚؗ مَا یَاْتِیْهِمْ مِّنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا كَانُوْا بِهٖ یَسْتَهْزِءُوْنَ۝۳۰ [62]

ترجمہ: افسوس بندوں کے حال پر جورسول بھی ان کے پاس آیااس کاوہ مذاق ہی اڑاتے رہے۔

دوزخ میں عذاب دیتے ہوئے مجرم انسان سے طنزیہ کہاجائے گا۔

 ذُقْ ۝۰ۚۙ اِنَّكَ اَنْتَ الْعَزِیْزُ الْكَرِیْمُ۝۴۹ [63]

ترجمہ:لے چکھ اس کامزا،بڑازبردست عزت دارآدمی ہے تو۔

حق سے روگردانی کے نتیجے میں پھراللہ بھی اسے لوگوں کے ساتھ ایک شیطان مسلط کردیتاہے جو اسے نیکی وہدایت کی طرف راغب ہی نہیں ہونے دیتا،جیسے فرمایا:

وَمَنْ یَّعْشُ عَنْ ذِكْرِ الرَّحْمٰنِ نُـقَیِّضْ لَهٗ شَیْطٰنًا فَهُوَلَهٗ قَرِیْنٌ۝۳۶ [64]

ترجمہ: جو شخص رحمن کی نصیحت سے تغافل برتتا ہے ہم اس پر ایک شیطان مسلط کر دیتے ہیں اور وہ اس کا رفیق بن جاتا ہے۔

۔۔۔ اَضَاعُوا الصَّلٰوةَ وَاتَّـبَعُوا الشَّهَوٰتِ فَسَوْفَ یَلْقَوْنَ غَیًّا۝۵۹ۙ [65]

ترجمہ: جنہوں نے نماز کو ضائع کیااورخواہشات نفس کی پیروی کی ،پس قریب ہے کہ وہ گمراہی کے انجام سے دوچارہوں ۔

جب کوئی انسان اللہ اوراس کے رسول کی اطاعت نہیں کرے گا،رب کی بندگی سے منہ موڑے گاتواس کا لازمی نتیجہ جہنم ہی ہے ،جیسے فرمایا

یَتَسَاۗءَلُوْنَ۝۴۰ۙعَنِ الْمُجْرِمِیْنَ۝۴۱ۙمَا سَلَكَكُمْ فِیْ سَقَرَ۝۴۲قَالُوْا لَمْ نَكُ مِنَ الْمُصَلِّیْنَ۝۴۳ۙ وَلَمْ نَكُ نُطْعِمُ الْمِسْكِیْنَ۝۴۴ۙوَكُنَّا نَخُوْضُ مَعَ الْخَاۗىِٕضِیْنَ۝۴۵ۙوَكُنَّا نُكَذِّبُ بِیَوْمِ الدِّیْنِ۝۴۶ۙحَتّٰٓی اَتٰىنَا الْیَقِیْنُ۝۴۷ۭفَمَا تَنْفَعُهُمْ شَفَاعَةُ الشّٰفِعِیْنَ۝۴۸ۭ [66]

ترجمہ:وہ مجرموں سے پوچھیں گےتمہیں کیاچیزدوزخ میں لے گئی؟وہ کہیں گے ہم نمازپڑھنے والوں میں سے نہ تھے،اورمسکین کوکھانانہیں کھلاتے تھے ،اورحق کے خلاف باتیں بنانے والوں کے ساتھ مل کرہم بھی باتیں بنانے لگتے تھے اورروزجزاکوجھوٹ قراردیتے تھے یہاں تک کہ ہمیں اس یقینی چیزسے سابقہ پیش آگیا،اس وقت سفارش کرنے والوں کی کوئی سفارش ان کے کسی کام نہ آئے گی۔

 أَیَحْسَبُ الْإِنسَانُ أَن یُتْرَكَ سُدًى ‎﴿٣٦﴾‏ أَلَمْ یَكُ نُطْفَةً مِّن مَّنِیٍّ یُمْنَىٰ ‎﴿٣٧﴾‏ ثُمَّ كَانَ عَلَقَةً فَخَلَقَ فَسَوَّىٰ ‎﴿٣٨﴾‏ فَجَعَلَ مِنْهُ الزَّوْجَیْنِ الذَّكَرَ وَالْأُنثَىٰ ‎﴿٣٩﴾‏ أَلَیْسَ ذَٰلِكَ بِقَادِرٍ عَلَىٰ أَن یُحْیِیَ الْمَوْتَىٰ ‎ ﴿٤٠﴾‏(القیامة)

کیا انسان یہ سمجھتا ہے کے اسے بیکار چھوڑ دیا جائے گا،کیا وہ ایک گاڑھے پانی کا قطرہ نہ تھا جو ٹپکایا گیا تھا ؟پھر لہو کا لوتھڑا ہوگیا پھر اللہ نے اسے پیدا کیا اور درست بنادیا، پھر اس سے جوڑے یعنی نر مادہ بنائے، کیا (اللہ تعالیٰ ) اس (امر) پر قادر نہیں کہ مردے کو زندہ کر دے۔


کیاانسان یہ سمجھتاہے کہ اسے شتربے مہارکی طرح یونہی مہمل چھوڑدیاجائے گا،نہ اسے نیکی وبھلائی کاحکم دیاجائے گااورنہ برائی سے روکاجائے گا،،نہ اس کامحاسبہ ہوگانہ معاقبہ ، یااس کوقبرمیں ہمیشہ کے لئے چھوڑدیاجائے گا،جیسے فرمایا:

اَفَحَسِبْتُمْ اَنَّمَا خَلَقْنٰكُمْ عَبَثًا وَّاَنَّكُمْ اِلَیْنَا لَا تُرْجَعُوْنَ۝۱۱۵ [67]

ترجمہ:کیاتم نے یہ سمجھ رکھا تھا کہ ہم نے تمہیں فضول ہی پیداکیاہے اورتمہیں ہماری طرف کبھی پلٹنا ہی نہیں ہے۔

ایساہرگزنہیں بلکہ دنیامیں اسے حکم وممانعت اورآخرت میں اپنے اپنے اعمال کے بموجب جزا و سزا ضرورملے گی، پھراللہ تعالیٰ نےاپنی قدرت کاملہ اورحکمت کی دلیل فرمائی کہ انسان ابتدائی طورپر ایک نطفہ کی شکل میں بے جان وبے بنیادتھا،بدبودارپانی کاایک حقیرقطرہ تھاجوپیٹھ سے رحم مادرمیں ٹپکایاگیا،پھرہم نے اس قطرے کو خون کی پھٹکی بنایا ، پھٹکی کوپھر گوشت کالوتھڑابنادیا ،پھراس لوتھڑے کو ہم نے شکل وصورت اور متناسب اعضا عطا فرما کراس میں روح پھونکی، اور ایک تناسب میں مردیاعورت کی شکل میں پیدا کر دیا ،کیاوہ اللہ جس نے اس طرح مختلف اطوارسے گزارکراسے پیدا فرمایا ہے،کیاوہ اس پرقادر نہیں کہ اسے فنا ہو جانے کے بعد دوبارہ کھڑاکردے؟یقیناپہلی مرتبہ پیداکرنے والادوبارہ بنانے پربہت زیادہ اوربطوراولی قادر ہے ، جیسے فرمایا:

وَهُوَالَّذِیْ یَبْدَؤُا الْخَــلْقَ ثُمَّ یُعِیْدُهٗ وَهُوَاَهْوَنُ عَلَیْهِ۔۔۔۝۰۝۲۷ۧ [68]

ترجمہ:وہی ہے جوتخلیق کی ابتداکرتاہے پھروہی اس کااعادہ کرے گااوریہ اس کے لئے آسان تر ہے ۔

 اَفَعَیِیْنَا بِالْخَلْقِ الْاَوَّلِ ۭ بَلْ هُمْ فِیْ لَبْسٍ مِّنْ خَلْقٍ جَدِیْدٍ۝۱۵ [69]

ترجمہ:کیاپہلی بارکی تخلیق سے ہم عاجزتھے ؟مگرایک نئی تخلیق کی طرف سے یہ لوگ شک میں پڑے ہوئے ہیں ۔

أَبَا هُرَیْرَةَ یَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: “ مَنْ قَرَأَ مِنْكُمْ وَالتِّینِ وَالزَّیْتُونِ، فَانْتَهَى إِلَى آخِرِهَا: {أَلَیْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحَاكِمِینَ} [70]، فَلْیَقُلْ: بَلَى، وَأَنَا عَلَى ذَلِكَ مِنَ الشَّاهِدِینَ، وَمَنْ قَرَأَ: لَا أُقْسِمُ بِیَوْمِ الْقِیَامَةِ، فَانْتَهَى إِلَى {أَلَیْسَ ذَلِكَ بِقَادِرٍ عَلَى أَنْ یُحْیِیَ الْمَوْتَى} [71]، فَلْیَقُلْ: بَلَى، وَمَنْ قَرَأَ: وَالْمُرْسَلَاتِ، فَبَلَغَ: {فَبِأَیِّ حَدِیثٍ بَعْدَهُ یُؤْمِنُونَ} [72]، فَلْیَقُلْ: آمَنَّا بِاللَّهِ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص تم میں سے سورۂ التین کی آخری آیت’’کیا(اللہ تعالیٰ)اس(امر)پرقادرنہیں کہ مردے کوزندہ کردے۔ پڑھے وہ کہے ہاں میں بھی اس پر گواہ ہوں ،اور جوشخص سورۂ قیامہ کی آخری آیت’’ کیا(اللہ تعالیٰ)اس(امر)پرقادرنہیں کہ مردے کوزندہ کردے۔‘‘پڑھے،تووہ کہے ہاں ،اورجوسورۂ المرسلات کی آخری آیت ’’اب اس (قرآن)کے بعداورکونسا کلام ایساہوسکتاہے جس پریہ ایمان لائیں ۔‘‘پڑھے وہ امناباللہ کہے ۔[73]

ضعیف روایت ہے ،اس میں راوی الاعرابی مجہول ہے۔[74]

اسلام عتبہ رضی اللہ عنہ بن غزوان

وكان طوالًا جمیلًا

عتبہ رضی اللہ عنہ بن غزوان لمبے قدکے خوبصورت جوان تھے۔[75]

وقیل: كنیته أَبُو عبد الله

ان کی کنیت ابوعبداللہ تھی۔[76]

جب رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کوحق کی طرف بلاناشروع کیاتوقریش مکہ پردعوت حق بجلی بن کرگری کیونکہ وہ صدیوں سے جن اوہام وتعصبات اورغلط کاریوں میں مبتلا تھےاسلام ان کی جڑکاٹ کررکھ دیتاتھا،چنانچہ قریش نے دین حق کی مخالفت کواپنااوڑھنابچھونابنالیااوراس کی اشاعت کوروکنے کے لیے ایسی ایسی حرکتیں کرنے لگے کہ انسانیت سرپیٹ کررہ گئی، جس شخص کوقبول اسلام کی سعادت نصیب ہوتی وہ ان کی ستم رانیوں کاہدف بن جاتااورزندگی اس پردوبھرہوجاتی ، عتبہ رضی اللہ عنہ کواللہ تعالیٰ نے فطرت سعیدسے نوازاتھاجونہی دعوت حق کی صداان کے کانوں تک پہنچی ان کے دل ودماغ نے گواہی دی کہ یہ دعوت سراسرخیرہے اوراسی میں انسانیت کی فلاح ہے،لیکن دوسری طرف دیکھاکہ اس دعوت کوقبول کرناآگ کے آلاؤ میں کودنے کےمترادف ہے، جوشخص اس کوقبول کرتاہے وہ کفارمکہ کے ہولناک مظالم کاشکاربن جاتاہے لیکن ان کی ہمت مردانہ نے گوارہ نہ کیاکہ کفارکے جوروستم سے ڈرکرقبول حق کی سعادت سے محروم رہیں ،چنانچہ انہوں نے کسی تامل کے بغیرآگے بڑھ کرلوائے توحیدکوتھام لیااورچرخ نیلی فام کے تلے ان مقدس ترین بندوں میں شامل ہونے کاشرف حاصل کیاجس کوقرآن کریم میں رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ کاعظیم لقب دے کرکھلے لفظوں میں جنت کی بشارت دی ہے،

عتبة بْن غزوان ،وهو سابع سبعة فِی الْإِسْلَام مَعَ رَسُول اللَّه صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ

اس وقت تک ایک قلیل تعدادہی سعادت اندوزایمان ہوئی تھی ان میں عتبہ رضی اللہ عنہ بن غزوان کوصرف چھ مسلمانوں کاعلم تھااوران کاخیال تھاکہ وہ ساتویں مسلمان ہیں ۔

تاہم اہل سیرکااندازہ ہے کہ اس وقت مسلمانوں کی تعدادچھ سے بڑھ چکی تھی۔

یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پرایمان لانے والوں میں چھٹے نمبرپرتھے،اس وقت ان کی عمرتیس برس تھی،

وهاجر إِلَى أرض الحبشة

جب مشرکین مکہ کوعتبہ رضی اللہ عنہ کے اسلام کاعلم ہواتووہ ان کے خون کے پیاسے بن گئے ،نہ صرف ان پرمعاش کے دروازے بندکردیئے بلکہ جسمانی اذیتیں دینے سے بھی گریزنہ تھا،جب مشرکین کاظلم وستم حدسے بڑھ گیاتوبیاسی مردوں اوربیس خواتین کے ساتھ یہ بھی حبشہ کی طرف ہجرت کرگئے،

ثُمَّ عاد إِلَى رَسُول اللَّه صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وهو بمكة، فأقام معه حتَّى هَاجَر إِلَى الْمَدِینَة مَعَ الْمِقْدَادوَإِنما خرجا مَعَ الكفار یتوصلان إِلَى المدینة، وكان الكفار سریة علیهم عكرمة بْن أَبِی جهل، فلقیهم سریة للمسلمین علیهم عبیدة بْن الحارث، فالتحق المقداد، وعتبة بالمسلمین

اورابھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ مکرمہ میں ہی تھے کہ حبش کے دارالامن سے مکہ مکرمہ واپس آگئے اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہے اورجب ہجرت مدینہ منورہ کاحکم ہواتو مقداد رضی اللہ عنہ کے ساتھ مدینہ منورہ ہجرت کرگئے، شوال ایک ہجری میں قریش کاایک فوجی دستہ عکرمہ بن ابی جہل یاابوسفیان کی قیادت میں مسلمانوں کی سرگرمیوں کی ٹوہ لینے مدینہ منورہ کی طرف روانہ ہوا، عتبہ رضی اللہ عنہ بن غزوان ور مقداد رضی اللہ عنہ بن اسودبھی اس دستے میں شامل ہوگئے ،قریش نے یہ سمجھ کرانہیں اس دستے میں شامل ہونے کی اجازت دے دی کہ شایدوہ قومی حمیت کی بناپراہل مدینہ سے لڑناچاہتے ہیں ،اس دستے کی مٹھ بھیڑ رابغ کے مقام پرساٹھ یااسی شترسواروں پرمشتمل مسلمانوں کے اس فوجی دستے سے ہوئی جس کورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عبیدہ رضی اللہ عنہ بن حارث کی قیادت میں گشت لگانے کے لیے بھجاتھا،دونوں طرف سے تھوڑی دیرتک ایک دوسرے پرتیرباری ہوتی رہی اس کے بعدقریش مکہ نے پسپاہوکرمکہ مکرمہ کارخ کیا،اس اثنامیں عتبہ رضی اللہ عنہ بن غزوان اورمقداد رضی اللہ عنہ بن اسودموقع پاکرلشکراسلام میں جاملےاوراسی کے ساتھ مدینہ منورہ پہنچ کراپنے مہاجربھائیوں میں شامل ہوگے،

نَزَلَ عُتْبَةُ بْنُ غَزْوَانَ حِینَ هَاجَرَ إِلَى الْمَدِینَةِ عَلَى عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَلَمَةَ الْعَجْلَانِیِّ

عتبہ رضی اللہ عنہ بن غزوان جب مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کی توعبداللہ رضی اللہ عنہ بن سلمہ عجلانی نے انہیں اپنامہمان بنایا۔[77]

آخَى رَسُولُ اللَّهِ صلّى الله علیه وسلم بَیْنَ عُتْبَةَ بْنِ غَزْوَانَ وَأَبِی دُجَانَةَ

جب سیدالامم صلی اللہ علیہ وسلم نے مہاجرین اورانصارکے مابین مواخات قائم کرائی تو عتبہ رضی اللہ عنہ بن غزوان کومشہوربہادرابودجانہ سماک بن خرشہ کااسلامی بھائی بنایا،

ثُمَّ شهد بدرًا، والمشاهد مَعَ رَسُول اللَّه صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ

آپ رضی اللہ عنہ حق وباطل کی جنگ غزوہ بدرمیں اوردوسرے تمام غزوات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمرکاب رہے۔

جب امیرالمومنین سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے سعد رضی اللہ عنہ بن ابی وقاص کوقادسیہ کی مہم پرروانہ کیاتو

وسیره عُمَر بْن الخطاب رَضِی اللَّه عَنْهُمَا إِلَى أرض البصرة، لیقاتل من بالأبلة من فارس، فَقَالَ لَهُ لما سیره انطلق أنت ومن معك حتَّى تأتوا أقصى مملكة العرب وأدنى مملكة العجم، فسر عَلَى بركة اللَّه تَعَالى ویمنه، اتق اللَّه ما استطعت، واعلم أنك تأتی حومة العدو، وأرجو أن یعینك اللَّه علیهم وَقَدْ كتبت إِلَى العلاء بْن الحضرمی أن یمدك بعرفجة بْن هرثمة، وهو ذو مجاهدة للعدو وذو مكایدة، فشاوره، وادع إِلَى اللَّه، فمن أجابك فاقبل مِنْهُ، ومن أبی فالجزیة عَنْ ید مذلة وصغار، وَإِلا فالسیف فِی غیر هوادة. واستنفر من مررت بِهِ من العرب، وحثهم عَلَى الجهاد، وكابد العدوّ، واتّق الله ربك

سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے آپ رضی اللہ عنہ کو شہربصرہ کا امیر مقرر فرمایااورفرمایاکہ وہ عراق عرب کے جنوبی حصے کو دوبارہ مفتوح بنائیں جوعہدصدیقی کے اواخرمیں باغی ہوچکاتھاابلہ ،دست میسان وغیرہ اسی علاقے میں واقع تھے، عتبہ رضی اللہ عنہ کواس مہم پربھجتے وقت سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے یہ ہدایات دیں اللہ کے فضل وکرم پربھروسہ کرتے ہوئے تم عرب کے انتہائی حدودکی طرف جہاں سے مملکت عجم شروع ہوتی ہے اپنے ساتھیوں کولے کرروانہ ہوجاؤ ،ہرحال میں خوف خدااورپرہیزگاری سے کام لینااوریہ بات ذہن میں رکھناکہ تم ایک مکار دشمن کی سرزمین میں جارہے ہو،مجھے امیدہے کہ اللہ تعالیٰ تمہاری مددفرمائے گا، میں نے علاء بن عبداللہ حضرمی کولکھ بھیجاہے کہ بعرفجة بْن هرثمة کی قیادت میں تمہیں کمک بھیجیں وہ ایک صاحب تدبیر اور جانبازآدمی ہیں تم ان سے تمام معاملات میں مشورہ کرنا،تمہارے راستے میں جوعرب قبائل آبادہیں ابن کوبھی جہادپرآمادہ کرواوراپنے ساتھ لے لو،اہل عجم کوپہلے اسلام کی دعوت دووہ قبول کرلیں توان کواپنابھائی سمجھواوراگراسلام قبول نہ کریں توان کوجزیہ دینے پرمجبورکرواگراس پربھی تیارنہ ہوں توتلوارسے کام لو،اللہ تمہاراحامی وناصرہو۔[78]

فسار عتبة وافتتح الأبلة

عتبہ رضی اللہ عنہ فارس کے شہرابلہ کی طرف روانہ ہوئے ،ایرانیوں نے مسلمانوں کابڑی پامردی اوراستقلال سے مقابلہ کیااورکئی ہفتوں تک مسلمانوں کوشہرپرقابض نہ ہونے دیا بالآخرایک خونریزمعرکے میں مسلمانوں نے ایرانیوں کے سارے کس بل نکال دیئے اوروہ اپنے سینکڑوں آدمی کٹواکربھاگ کھڑے ہوئے۔[79]

فتح الأبله فوجد فیها غنائم كثیرة، فكتب بخبرها إلى عمر، وأرسل الكتاب مع نافع وبعث بالكتاب مع نافع بن الحارث بن كلده الثقفى

عتبہ رضی اللہ عنہ فاتحانہ شہرمیں داخل ہوئے ،بے انتہامال غنیمت ان کے ہاتھ آیا، کسی تاخیرکے بغیرانہوں نے فوراً نافع بن حارث بن کلدہ ثقفی کو امیرالمومنین سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو اس فتح کی اطلاع دینے کے لیے خط دے کرروانہ کیا ۔ عتبہ رضی اللہ عنہ بن غزوان نے امیرالمومنین سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کوفتح کی اطلاع ان الفاظ میں دی۔

اما بعد، فان الله، وله الحمد، فتح علینا الأبله، وهی مرقى سفن البحر من عمان، والبحرین، وفارس، والهند، والصین، واغنمنا ذهبهم وفضتهم وذراریهم، وانا كاتب إلیك ببیان ذلك ان شاء الله

امابعد!اللہ عزوجل کاہزارشکرہے کہ اس نے ابلہ ہمارے لیے مسخرکردیا،یہ مقام عمان ،بحرین،فارس،ہنداورچین سے آنے والے جہازوں کی لنگرگاہ ہے ،ہم نے مال غنیمت میں بہت کچھ حاصل کیاہے میں ان شاء اللہ اس کی تفصیل عنقریب آپ کولکھوں گا۔

فلما قدم على عمر رضى الله عنه تباشر المسلمون بذلك

جب وہ امیرالمومنین سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے پاس اس خط کولے کرپہنچے تو فتح کی اطلاع پڑھ کرامیرالمومنین سیدنا عمر رضی اللہ عنہ اورمسلمان بے حدمسرورہوئے۔[80]

لما نزل عتبة بْن غزوان الخریبة كتب إِلَى عُمَر بْن الخطاب یعلمه نزوله إیاها وأنه لا بد للمسلمین من منزل یشتون به إذا شتوا، ویكنسون فیه إذا انصرفوا من غزوهم،فكتب إلیه اجمع أصحابك فی موضع واحد ولیكن قریبا منَ الماء والرعی واكتب إِلَى بصفته،فكتب إلیه إنی وجدت أرضا كثیرة القصبة فی طرف البر إِلَى الریف ودونها مناقع ماء فیها قصباء، فلما قرأ الكتاب، قَالَ: هَذِهِ أرض نضرة قریبة منَ المشارب والمراعی والمختطب وكتب إلیه أن أنزلها الناس

جب عتبہ رضی اللہ عنہ بن غزوان ابلہ اوردجلہ کے تمام ساحلی علاقے اسلام کے زیرنگیں لاچکے توانہوں نے امیرالمومنین سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کولکھاکہ مسلمانوں کوایک ایسے مستقرکی ضرورت ہے جہاں وہ سردی سے محفوظ رہ سکیں اورجنگ سے واپس آئیں توقیام کریں ، امیرالمومنین سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے جواب فرمایااپنے ساتھیوں کوایک جگہ جمع کرلو،یہ جگہ پانی اورسبزہ زارکے قریب ہونی چاہیے پھرمجھے اس کی مفصل کیفیت لکھو،جب عتبہ رضی اللہ عنہ نے پوری تفصیلات لکھ بھیجیں توامیرالمومنین سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے بصرہ کے محل وقوع کوپسندفرمایااورشہربسانے کی اجازت فرمادی۔[81]

واختط البصرة ، وأمر محجن ابن الأدرع فخط مسجد البصرة الأعظم

تو عتبہ رضی اللہ عنہ بن غزوان نے بصرہ شہرکی بنیادرکھی اورمحجن ابن درع کوحکم دیاکہ وہ بصرہ میں جامع مسجدتیاکریں ۔[82]

خَطَبَنَا عُتْبَةُ بْنُ غَزَوَانَ فكان أول خطبة خطبها بالبصرة فَحَمِدَ اللَّهَ، وَأَثْنَى عَلَیْهِ ثُمَّ قَالَ: أَمَّا بَعْدُ فَإِنَّ الدُّنْیَا قَدْ آذَنَتْ بِصِرْمٍ، وَوَلَّتْ حَذَّاءً .وَإِنَّمَا بَقِیَ مِنْهَا صُبَابَةٌ كَصُبَابَةِ الإِنَاءِ. وَأَنْتُمْ مُنْتَقِلُونَ عَنْهَا إِلَى دَارٍ لا زَوَالَ لَهَا، فَانْتَقِلُوا مِنْهَا بِخَیْرِ مَا بِحَضْرَتِكُمْ، فَإِنَّهُ ذُكِرَ لَنَا أَنَّ الْحَجَرَ یُلْقَى مِنْ شَفِیرِ جَهَنَّمَ، فَیَهْوِی سَبْعِینَ عَامًا لا یُدْرِكُ لَهَا قَعْرًا، وَاللَّهِ لَتُمْلأَنَّ ،فَعَجِبْتُمْ،وَلَقَدْ ذُكِرَ لَنَا أَنَّ مَا بَیْنَ مِصْرَاعَیْنِ مِنْ مَصَارِیعِ الْجَنَّةِ مَسِیرَةُ أَرْبَعِینَ عَامًا، وَلَیَأْتِیَنَّ عَلَیْهَا یَوْمٌ، وَلِلْبَابِ كَظِیظٌ مِنَ الزِّحَامِ

جب مسجدتیارہوگئی تو عتبہ رضی اللہ عنہ بن غزوان نے خطبہ ارشادفرمایااوریہ شہربصرہ میں نوتعمیرجامع مسجدمیں جمعہ کا پہلاخطبہ تھاجس میں انہوں نے پہلے اللہ تعالیٰ کی حمدوثنابیان کی اس کے بعدفرمایالوگو!یہ دنیاچندروزہ ہے یہ بہت جلدہم سے اپنی پیٹھ پھیرنے والی ہے،اس کابڑاحصہ گزرچکاہے اورتھوڑاباقی رہ گیا ہےجس طرح کسی برتن کاپانی پھینک دینے کے بعدآخرمیں کچھ دیرتک اس سے قطرہ قطرہ پانی ٹپکتاہے، بے شک تم اس دارفانی سے جلدایک ایسی جگہ جانے والے ہوجس کوکبھی زوال نہیں پھراس ابدی ٹھکانے کے لیے سامان کیوں تیارنہیں کرتے؟یہ سامان توبس نیکی ہے،لوگو!مجھے میرے آقامحمد صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایاہے کہ جہنم اس قدروسیع اورعمیق ہے کہ اس کے کنارے سے ایک پتھر پھینکا جائے توسترسال میں بھی اس کی تہہ تک نہیں پہنچتااوراللہ کی قسم !ایک دن یہ جہنم ضروربھری جائے گی کیا تمہیں یہ تعجب ہے ؟ اللہ کی قسم !مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایاہے کہ جنت اس قدروسیع ہوگی کہ اس کاایک دروازہ دوسرے دروازے سے چالیس سال کی مسافت پرہوگا لیکن ایک دن ایسابھی آئے گاکہ جنت کے حق داروں کاان پربے پناہ ہجوم ہوگا،

وَلَقَدْ رَأَیْتُنِی وَأَنَا سَابِعُ سَبْعَةٍ مَعَ رَسُول اللَّه صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، ما لنا طَعَامٌ إِلا وَرَقُ الشَّجَرِ، حَتَّى تَقَرَّحَتْ أَشْدَاقُنَا فالتقط بردة فاشتققتها بنى وَبَیْنَ سَعْدِ بْنِ مَالِكٍ، فَأْتَزَرْتُ بِبَعْضِهَا وَأْتَزَرَ بِبَعْضِهَا فَمَا أَصْبَحَ الْیَوْمَ مِنَّا وَاحِدٌ إِلا وَهُوَ أَمِیرٌ عَلَى مِصْرٍ مِنَ الأَمْصَارِوَإِنِّی أَعُوذُ باللَّه أَنْ أَكُونَ فِی نَفْسِی عَظِیمًا وعند الناس صغیرا فإنّها لم تكن نُبُوَّةٌ إِلا تَنَاسَخَتْ، حَتَّى تَكُونَ عَاقِبَتُهَا مُلْكًا، وَسَتَبْلُونَ الأُمَرَاءَ، أَوْ قَالَ:سَتُجَرِّبُونَ الأُمَرَاءَ بَعْدِی

لوگو!ایک دن وہ تھاکہ میرے علاوہ صرف چھ آدمی اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے اور ہماری عسرت اورناداری کایہ عالم تھاکہ درختوں کے پتوں کے سواہمیں کھانے کے لیے کوئی چیزمیسرنہیں تھی یہاں تک کہ ہمارے جبڑے چھل گئے تھے، اور ہمارا لباس؟ تو اس کی کیفیت یہ تھی کہ ایک دن میں نے ایک چادرپڑی پائی تواس کاپھاڑکردوحصے کیے ایک کامیں نے تہبندبنایااوردوسرے کا سعد رضی اللہ عنہ بن مالک(ابی وقاص)نے، آج اللہ نے ہم پریہ فضل کیاہے کہ ہم میں سے ہرایک کسی نہ کسی شہرکاامیرہےمیں اللہ سے اس بات کی پناہ چاہتاہوں کہ اپنے آپ کوبڑاسمجھوں ؟حالانکہ اس کے نزدیک میں حقیرترین مخلوق ہوں ،لوگو!اچھی طرح سن لوکہ نبوت ختم ہوچکی ہے اورمجھے یوں معلوم ہوتاہے کہ انجام کاربادشاہت قائم ہوگی ،تم میرے بعدآنے والے امیروں کوآزماکردیکھ لینا (یہ خطبہ کیاتھاایک تازیانہ عبرت تھاجس نے سامعین پررقت طاری کردی اورشدت جذبات سے اکثرکی چیخیں نکل گئیں )۔[83]

[1] الجاثیةہ۲۴

[2] الدخان۳۵

[3] الاعلی۱۳

[4] طہ۷۴

[5] الواقعة۴۷،۴۸

[6] الصافات۱۵تا۱۷

[7] النحل ۳۸

[8] یٰسین ۷۸

[9]النازعات۱۰،۱۱

[10] بنی اسرائیل۴۹

[11] یٰسین۸۱

[12] طہ۱۰۲

[13] الزلزال۱تا۳

[14] الواقعة۵

[15] النبا۲۰

[16] المزمل۱۴

[17]ابراہیم۴۲، ۴۳

[18] التکویر۱،۲

[19] الشوریٰ۴۷

[20] الانبیاء ۴۷

[21] بنی اسرائیل۱۴

[22] الکہف ۴۹

[23] السجدة۱۲

[24]الروم ۵۷

[25] المومن۵۲

[26] النحل۸۴

[27]المومن ۱۰

[28] الانعام۲۳

[29] یٰسین۶۵

[30] حم السجدة۲۰تا۲۲

[31] صحیح بخاری کتاب تفسیرسورۂ القیامة باب وَقَوْلُهُ لاَ تُحَرِّكْ بِهِ لِسَانَكَ لِتَعْجَلَ بِهِ۴۹۲۷

[32] الحجر۹

[33] النحل۴۴

[34] البقرة۱۲۹

[35] آل عمران۱۶۴

[36] الجمعة۲

[37] القصص۵۹

[38] یونس۲۶

[39] صحیح مسلم کتاب الایمان بَابُ إِثْبَاتِ رُؤْیَةِ الْمُؤْمِنِینَ فِی الْآخِرَةِ رَبَّهُمْ سُبْحَانَهُ وَتَعَالَى۴۴۹،جامع ترمذی ابواب الجنة بَابُ مَا جَاءَ فِی رُؤْیَةِ الرَّبِّ تَبَارَكَ وَتَعَالَى۲۵۵۲،سنن ابن ماجہ کتاب السنة بَابٌ فِیمَا أَنْكَرَتِ الْجَهْمِیَّةُ۱۸۷، مسند احمد ۱۸۹۴۱،صحیح ابن حبان ۷۴۴۱

[40] صحیح بخاری کتاب التوحید بَابُ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى وُجُوهٌ یَوْمَئِذٍ نَاضِرَةٌ إِلَى رَبِّهَا نَاظِرَةٌ۷۴۳۷، صحیح مسلم کتاب الایمان بَابُ مَعْرِفَةِ طَرِیقِ الرُّؤْیَةِ۴۵۱

[41] صحیح بخاری کتاب التوحیدبَابُ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى وُجُوهٌ یَوْمَئِذٍ نَاضِرَةٌ إِلَى رَبِّهَا نَاظِرَةٌ ۷۴۳۴، ۵۵۴،۴۸۵۱۵۷ ۳،۷۴۳ ۴،صحیح مسلم کتاب المساجدبَابُ فَضْلِ صَلَاتَیِ الصُّبْحِ وَالْعَصْرِ، وَالْمُحَافَظَةِ عَلَیْهِمَا ۱۴۳۴ ،سنن ابوداودکتاب السنة بَابٌ فِی الرُّؤْیَةِ ۴۷۲۹،جامع ترمذی ابواب الجنة بَابُ مَا جَاءَ فِی رُؤْیَةِ الرَّبِّ تَبَارَكَ وَتَعَالَى ۲۵۵۱،سنن ابن ماجہ کتاب السنة بَابٌ فِیمَا أَنْكَرَتِ الْجَهْمِیَّةُ ۱۷۷

[42] جامع ترمذی کتاب تفسیرالقرآن بَاب وَمِنْ سُورَةِ القِیَامَةِ ۳۳۳۰،وبَابُ مَا جَاءَ فِی رُؤْیَةِ الرَّبِّ تَبَارَكَ وَتَعَالَى ۲۵۵۳، مسند احمد ۵۳۱۷،مستدرک حاکم۳۸۸۰، البعث والنشور للبیہقی ۴۳۲

[43] صحیح مسلم کتاب الایمانبَابُ إِثْبَاتِ رُؤْیَةِ الْمُؤْمِنِینَ فِی الْآخِرَةِ رَبَّهُمْ سُبْحَانَهُ وَتَعَالَى ۴۴۸

[44] مسنداحمد۵۳۱۷

[45] یس: 58

[46] سنن ابن ماجہ کتاب السنة بَابٌ فِیمَا أَنْكَرَتِ الْجَهْمِیَّةُ۱۸۴

[47]المطففین ۱۵

[48] آل عمران۱۰۶

[49]الغاشیة۲

[50] الغاشیة۸،۹

[51] سنن ابن ماجہ كِتَابُ الدُّعَاءِ بَابُ الدُّعَاءِ بِالْعَفْوِ وَالْعَافِیَةِ۳۸۵۰

[52] الانعام۱۲

[53] صحیح بخاری كِتَابُ التَّوْحِیدِ بَابُ وَكَانَ عَرْشُهُ عَلَى المَاءِ۷۴۲۲،شرح السنة للبغوی۴۱۷۸

[54] سنن ابن ماجہ افتتاح الكتاب فی الإیمان وفضائل الصحابة والعلم بَابٌ فِیمَا أَنْكَرَتِ الْجَهْمِیَّةُ۱۸۹

[55] الواقعة۸۳تا۸۷

[56] بلاغات  النساء ۱۷۸؍۱

[57] الحورالعین۷۹؍۱

[58] القیامة: 32

[59] تفسیرطبری ۵۲۴؍۲۳

[60] المطففین۳۱

[61]الانشقاق ۱۳تا۱۵

[62] یٰسین ۳۰

[63] الدخان۴۹

[64]الزخرف ۳۶

[65] مریم۵۹

[66]المدثر۴۰تا۴۸

[67] المومنون۱۱۵

[68] الروم ۲۷

[69] ق۱۵

[70] التین: 8

[71] القیامة: 40

[72] المرسلات: 50

[73] سنن ابوداودکتاب الصلاة بَابُ مِقْدَارِ الرُّكُوعِ وَالسُّجُودِ۸۸۷،جامع ترمذی کتاب تفسیر القرآن بَاب وَمِنْ سُورَةِ التِّینِ ۳۳۴۷

[74] مسنداحمد۷۳۹۱

[75] الإصابةفی تمییز الصحابة۳۶۴؍۴

[76] تاریخ اسلام بشار۸۰؍۳

[77] ابن سعد ۹۹؍۳

[78] اسدالغابة۴۶۲؍۳

[79] اسدالغابة۵۵۸؍۳

[80] اخبارالطوال۱۱۷؍۱

[81] فتوع البلدان۳۳۲؍۱

[82] اسدالغابة۴۶۱؍۳

[83] الاستیعاب فی معرفة الأصحاب۱۰۲۸؍۳،سیر السلف الصالحین لإسماعیل بن محمد الأصبهانی۵۷۹؍۱،تهذیب الكمال فی أسماء الرجال۱۴۶؍۸

Related Articles