بعثت نبوی کا تیرهواں سال

بیعت عقبہ ثانیہ،بیعت لیلتہ العقبہ،بیعت عقبہ کبیرہ( ۱۳ بعثت نبوی ذی الحجہ جون ۶۲۲ء)

جیسے جیسے دعوت اسلام کی مخالفت بڑھتی جارہی تھی ویسے ویسے تعصبات کے حصارٹوٹ رہے تھے اوردعوت حق کی حقانیت سے اس کے پیروؤں کی تعدادمیں روزبروزاضافہ ہورہاتھا،اس دعوت کی آوازاگرچہ سارے عرب میں پھیل گئی تھی پھربھی اس جماعت کواس کی ضرورت تھی کہ کوئی خطہ میسرآجائے جہاں مسلمام اجتماعی طورپراپنے عقائدکے تقاضے کے مطابق زندگی گزارسکیں اوردنیاکے سامنے اسلام کی عملی زندگی کانمونہ پیش کرسکیں اورایک ایسے تمدن کی بنیادڈالیں جس کی پوری نوع انسانی کوسخت ضرورت تھی،اہل مدینہ نے دل وجان سے آپ کی دعوت قبول کی تھی ،اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت ڈال دی وہ مدینہ منورہ میں مشرکین سے خفیہ ایک دوسرے سے تذکرہ کرتے کہ ہمیں دین اسلام قبول کیے ہوئے اتناعرصہ ہوگیاہے آخرکب تک ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کویونہی مشرکین مکہ کے رحم وکرم پرچھوڑے رہیں گے،آخرکب تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم دعوت حق کوپہنچانے کے لئے مشرکین کے ہاتھوں تکالیف اٹھتے اورچھپ چھپ کرزندگی گزاریں گے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ کے پہاڑوں میں پریشان اورخوف زدہ ہیں ، اور مددکے لئے پکارتے ہیں کہ کون ہے جومجھ کوٹھکانہ دے،کون ہے جومیری مددکرے،یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کاپیغام پہنچاسکوں اوراس کے بدلے جنت ہو لیکن کوئی نہیں سنتا،کوئی ٹھکانہ دینے والااورمددکرنے والانہیں ملتاآخریہ شرمناک منظرکب تک دیکھتے رہیں گے ؟ ہمیں آگے بڑھ کرآپ صلی اللہ علیہ وسلم کاہاتھ بٹانااورمصیبت کی اس زندگی سے آپ کونجات دلاناچاہئے ،بالآخر انہوں نے دل ہی دل میں پختہ عزم کیاکہ اب جب وہ حج کے لئے مکہ جائیں گے تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کومدینہ منورہ بلائیں گے اورآپ کی مدد اور جان پرکھیل کرآپ کی حفاظت کرنے کاعہدکریں گے ،ان کوشدیدخواہش ہوئی کہ کاش آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حمایت کاشرف حاصل ہوجائے ،کاش آپ صلی اللہ علیہ وسلم کاسایہ ہمیں نصیب ہو جائے ،چونکہ مسلمانوں کے لئے الگ قافلہ بنانے میں بہت سے خطرات پوشیدہ تھے اس لئے انہوں نے یہی مناسب خیال کیاکہ اہل یثرب کے اس بڑے قافلے ہی میں شریک ہوجائیں جس میں اکثریت بت پرستوں کی تھی ،ابن اسحاق نے کعب رضی اللہ عنہ سے روایت کیاہے ،اوس وخزرج کے چارسوسے زائد لوگ مکہ حج کے لئے روانہ ہوئے ، جن میں مشہورقول کے مطابق پچھتر (۷۵) مسلمان، تہتر مرد (۷۳)اوردو(۲)عورتیں بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے کی زیارت اوران سے وفاداری وجاں نثاری کا عہدکرنے کے لئے اورحج کی ادائیگی کے لئے مشرکین مدینہ کے قافلہ میں شامل ہو کر مکہ مکرمہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے تشریف لائے،اوربھی بہت سے اہل ایمان موجودتھے مگرکسی وجہ سے اس قافلہ میں شریک نہ ہوسکے ،ان کے راہنما براء رضی اللہ عنہ بن معرورتھے، علامہ ابن جوزی نے اپنی کتاب لیقح میں ۸۸ نام لکھے ہیں ،ابن ہشام اور عیون الاثر میں بھی تقریباً یہی نام لکھے ہیں ،البتہ آٹھ دس ناموں میں تفاوت ہے وہ نام یہ ہیں ۔

اسعد رضی اللہ عنہ بن زرارہ  اسید رضی اللہ عنہ بن حضیر  ابی بن کعب رضی اللہ عنہ
 حسان رضی اللہ عنہ بن ثابت کے بھائی اوس رضی اللہ عنہ بن ثابت  اوس رضی اللہ عنہ بن یزید  براء  رضی اللہ عنہ بن معرور
بشیر رضی اللہ عنہ بن براء بن معرور  بشیر رضی اللہ عنہ بن سعد بہیر رضی اللہ عنہ بن الہیثم
ثابت رضی اللہ عنہ بن الجزع  ثعلبتہ رضی اللہ عنہ بن عدی  ثعلبتہ رضی اللہ عنہ بن غنمتہ
جابربن عبداللہ بن عمروبن حزام جابربن صخر  حارث رضی اللہ عنہ بن قیس
جابربن عبداللہ بن عمروبن حزام جابربن صخر  حارث رضی اللہ عنہ بن قیس
خالد رضی اللہ عنہ بن قیس  خالد رضی اللہ عنہ بن عمروبن ابی کعب خالد رضی اللہ عنہ بن عمروبن عدی(صرف واقدی)
خالد رضی اللہ عنہ بن قیس(ابن اسحاق،واقدی)  خارجہ رضی اللہ عنہ بن زید خدیج  رضی اللہ عنہ بن سلامتہ
خلاد رضی اللہ عنہ بن سویدبن ثعلبہ  ذکوان رضی اللہ عنہ بن عبدقیس  رافع رضی اللہ عنہ بن مالک بن عجلان
رفاعتہ رضی اللہ عنہ بن رافع بن مالک رفاعتہ رضی اللہ عنہ بن عبدالمنذر  رفاعتہ رضی اللہ عنہ بن عمرو
زیاد رضی اللہ عنہ بن لبید زید رضی اللہ عنہ بن سہل ابوطلحہ  سعد رضی اللہ عنہ بن زید بن مالک الاشہلی

(صرف واقدی)

سعد رضی اللہ عنہ بن خثیمہ  سعد رضی اللہ عنہ بن الربیع  سعد رضی اللہ عنہ بن عبادة
سلمتہ بن سلامہ بن وقش  سلیم رضی اللہ عنہ بن عمرو سنان رضی اللہ عنہ بن صیفی
سہل بن عتیک  شمر رضی اللہ عنہ بن سعد  صیفی رضی اللہ عنہ بن سواد
ضحاک رضی اللہ عنہ بن زید  ضحاک رضی اللہ عنہ بن حارثہ  طفیل رضی اللہ عنہ بن نعمان
ظہیر رضی اللہ عنہ بن رافع  عبادة رضی اللہ عنہ بن الصامت  عباد رضی اللہ عنہ بن قیس
عبداللہ رضی اللہ عنہ بن انیس  عباس رضی اللہ عنہ بن نضلہ  عبداللہ رضی اللہ عنہ بن ربیع
عبداللہ رضی اللہ عنہ بن رواحہ  عبداللہ رضی اللہ عنہ بن زید (صاحب الاذان)  عبداللہ رضی اللہ عنہ بن عمروبن حرام
عبس رضی اللہ عنہ بن عامر ابوالہیثم کے بھائی عبید رضی اللہ عنہ یاعتیک بن التیہان  عقبتہ رضی اللہ عنہ بن عمرو
عقبتہ رضی اللہ عنہ بن عامر  عقبتہ رضی اللہ عنہ بن وہب  عبادة رضی اللہ عنہ بن حزم
عمرو رضی اللہ عنہ بن حارث عمرو رضی اللہ عنہ بن غزیہ  عمرو رضی اللہ عنہ بن عمیر
عمیر رضی اللہ عنہ بن الحارث عوف رضی اللہ عنہ بن حارث  عویم رضی اللہ عنہ بن ساعدہ
فروة  رضی اللہ عنہ بن عمرو  قتادہ رضی اللہ عنہ بن النعمان  قطبتہ رضی اللہ عنہ بن عامر
قیس رضی اللہ عنہ بن عامر  قیس رضی اللہ عنہ بن ابی صعصعہ کعب رضی اللہ عنہ بن مالک
مالک رضی اللہ عنہ بن تہیان ابوالہثیم  مالک رضی اللہ عنہ بن عبداللہ بن جعشم مسعود رضی اللہ عنہ بن یزید
معاذ رضی اللہ عنہ بن جبل  معاذ رضی اللہ عنہ بن الحارث  معاذ رضی اللہ عنہ بن عمروالجموح
معقل رضی اللہ عنہ بن المنذر  معن رضی اللہ عنہ بن عدی معوذ رضی اللہ عنہ بن الحارث
 منذر رضی اللہ عنہ بن عمرو  نعمان رضی اللہ عنہ بن حارثہ نعمان رضی اللہ عنہ بن عمرو
ہانئی رضی اللہ عنہ بن نیارابوبردہ  یزید رضی اللہ عنہ بن ثعلبہ  یزید رضی اللہ عنہ بن خذام
یزید رضی اللہ عنہ بن عامر  یزید رضی اللہ عنہ بن المنذر  ام عمارہ نسیبہ رضی اللہ عنہا بنت کعب (بنونجارسے)
 اسماء بنت عمرو(بنوسلمہ سے)

خَرَجْنَا فِی حُجَّاجِ قَوْمِنَا مِنْ الْمُشْرِكِینَ، وَقَدْ صَلَّیْنَا وَفَقِهْنَا، وَمَعَنَا الْبَرَاءُ بْنُ مَعْرُورٍ ، سَیِّدُنَا وَكَبِیرُنَا، فَلَمَّا وَجَّهْنَا لِسَفَرِنَا، وَخَرَجْنَا مِنْ الْمَدِینَةِ، قَالَ الْبَرَاءُ لَنَا: یَا هَؤُلَاءِ، إنِّی قَدْ رَأَیْت رَأیا، فو الله مَا أَدْرِی، أَتُوَافِقُونَنِی عَلَیْهِ، أَمْ لَا؟قَالَ: قُلْنَا: وَمَا ذَاكَ؟قَالَ: قَدْ رَأَیْتُ أَنْ لَا أَدَعَ هَذِهِ الْبَنِیَّةَ مِنِّی بِظَهْرٍ، یَعْنِی الْكَعْبَةَ، وَأَنْ أُصَلِّیَ إلَیْهَا،قَالَ: فَقُلْنَا، وَاَللَّهِ مَا بَلَغَنَا أَنَّ نَبِیَّنَا صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یُصَلِّی إلَّا إلَى الشَّامِ ، وَمَا نُرِیدُ أَنْ نُخَالِفَهُ،قَالَ: فَقَالَ:إنِّی لَمُصَلٍّ إلَیْهَا. قَالَ: فَقُلْنَا لَهُ: لَكِنَّا لَا نَفْعَلُ

کعب رضی اللہ عنہ بن مالک انصاری سے مروی ہےہم اپنی قوم کے مشرکین کے ساتھ حج کے لئے روانہ ہوئے ،اثنائے راہ میں ہمارے امیراوربزرگ براء  رضی اللہ عنہ بن معرورنے ہم سے کہا بھائیو!میری ایک رائے ہے نہ معلوم تم میری موافقت کروگے یانہیں ؟ہم نے پوچھاوہ کیارائے ہے؟انہوں نے کہامیرادل نہیں چاہتاکہ میں کعبہ کی طرف پشت کرکے بیت المقدس کی طرف نمازپڑھوں ،میراتوجی چاہتاہے کہ کعبہ ہی کی طرف نمازپڑھوں ،ان کے ساتھیوں نے کہامگررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم توبیت المقدس کی طرف منہ کرکے نمازپڑھتے ہیں اس لئے ہم ان کے طریقے کے خلاف کیسے جاسکتے ہیں ؟مگربراء رضی اللہ عنہ بن معروراپنی رائے کے مطابق بیت اللہ کی طرف منہ کرکے نمازادافرماتے رہے اورہم انہیں اس پرملائمت کرتے رہے،مکہ پہنچ کربڑی احتیاط سے مشرکین مکہ ومدینہ سے نظر بچا کربراء رضی اللہ عنہ مجھے(کعب رضی اللہ عنہ کو)ساتھ لیکررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضرہوئے تاکہ وہ قبلہ کے بارے میں دریافت کریں

قَالَ: فَدَخَلْنَا الْمَسْجِدَ فَإِذَا الْعَبَّاسُ جَالِسٌ، وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ جَالِسٌ مَعَهُ،فَسَلَّمْنَا ثُمَّ جَلَسْنَا إلَیْهِ،فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ لِلْعَبَّاسِ: هَلْ تَعْرِفُ هَذَیْنِ الرَّجُلَیْنِ یَا أَبَا الْفَضْلِ؟قَالَ: نَعَمْ، هَذَا الْبَرَاءُ بْنُ مَعْرُورٍ، سَیِّدُ قَوْمِهِ، وَهَذَا كَعْبُ (بْنُ) مَالك ، قَالَ: فو الله مَا أَنْسَى قَوْلَ رَسُول الله صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: لشاعر؟قَالَ: نَعَمْ،(قَالَ) :فَقَالَ (لَهُ) الْبَرَاءُ بْنُ مَعْرُورٍ: یَا نَبِیَّ اللَّهِ، إنِّی خَرَجْتُ فِی سَفَرِی هَذَا، وَقَدْ هَدَانِی اللَّهُ لِلْإِسْلَامِ، فَرَأَیْتُ أَنْ لَا أَجْعَلَ هَذِهِ الْبَنِیَّةَ مِنِّی بِظَهْرٍ، فَصَلَّیْتُ إلَیْهَا، وَقَدْ خَالَفَنِی أَصْحَابِی فِی ذَلِكَ، حَتَّى وَقَعَ فِی نَفْسِی مِنْ ذَلِكَ شَیْءٌ، فَمَاذَا تَرَى یَا رَسُولَ اللَّهِ؟قَالَ: (قَدْ) كُنْتَ عَلَى قِبْلَةٍ لَوْ صَبَرْتَ عَلَیْهَا قَالَ: فَرَجَعَ الْبَرَاءُ إلَى قِبْلَةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، وَصَلَّى مَعَنَا إلَى الشَّامِ

کعب کہتے ہیں پھرہم مسجدمیں داخل ہوئے اورہم نے عباس رضی اللہ عنہ کے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوبیٹھے ہوئے دیکھا ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کوسلام کیااورآپ کے پاس بیٹھ گئے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عباس رضی اللہ عنہ سے فرمایااے ابوالفضل!تم ان دونوں کوجانتے ہو؟انہوں نے کہاہاں میں دونوں کوجانتاہوں یہ براء بن معروراپنی قوم کے سردارہیں اوریہ کعب بن مالک ہیں ،کعب بن مالک کہتے ہیں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کایہ فرمان کبھی نہیں بھولوں گاکہ آپ نے فرمایاوہ کعب بن مالک جوشاعرہیں ، عباس رضی اللہ عنہ نے کہا ہاں ، براء رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سےعرض کیااے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم !میں اس سفرمیں جونکلاتواللہ تعالیٰ نے مجھے اسلام کی ہدایت کردی ہے ،میں نے کعبہ کی طرف منہ کرکے نمازپڑھی اورمیرے تمام ساتھی میرے مخالف تھے اب میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کرنے کے لیے حاضرہواہوں آپ اس سلسلہ میں کیافرماتے ہیں ؟ تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ابھی تومیں اپنے قبلہ سابق پرقائم ہوں اس لئے بہترتھاکہ تم ابھی صبرکرتے اورقبلہ بدلنے میں عجلت سے کام نہ لیتے،اس کے بعدبراء رضی اللہ عنہ نے بھی بیت المقدس کی طرف رخ کر کے نمازپڑھنے لگے۔[1]

انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں عرض کیااے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم !آپ سے ملاقات کب اورکہاں ہوسکتی ہے تاکہ ہمارے ساتھ دوسرے مسلمان بھی قدم بوسی کا شرف حاصل کرسکیں اوراپناہاتھ آپ کے ہاتھ میں دے کربیعت بھی کریں اوردین کی باتیں بھی آپ کی زبانی سنیں ،آخریہ طے ہواکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایام تشریق کے درمیانی دن یعنی بارہ ذی الحجہ کو رات کی تاریکی میں خفیہ طورپرجمرہ عقبہ میں جہاں گزشتہ سال بارہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے بیعت کاشرف حاصل کیاتھا بیعت لینے کے لئے تشریف لائیں گے، تمام مسلمان مدینہ بھی ملاقات کے لئے خفیہ طورپروہاں جمع ہو جائیں ،

فَلَمَّا فَرَغْنَا مِنْ الْحَجِّ، وَكَانَتْ اللَّیْلَةُ الَّتِی وَاعَدْنَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ لَهَا، وَمَعَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرِو جابْن حرَام أَبُو جَابِرٌ، سَیِّدٌ مِنْ سَادَاتِنَا، وَشَرِیفٌ مِنْ أَشْرَافِنَا ، أَخَذْنَاهُ مَعَنَا، وَكُنَّا نَكْتُمُ مَنْ مَعَنَا مِنْ قَوْمِنَا مِنْ الْمُشْرِكِینَ أَمْرَنَا فَكَلَّمْنَاهُ وَقُلْنَا لَهُ: یَا أَبَا جَابِرٍ، إنَّكَ سَیِّدٌ مِنْ سَادَاتِنَا، وَشَرِیفٌ مِنْ أَشْرَافِنَا، وَإِنَّا نَرْغَبُ بِكَ عَمَّا أَنْتَ فِیهِ أَنْ تَكُونَ حَطَبًا لِلنَّارِ غَدًا، ثُمَّ دَعَوْنَاهُ إلَى الْإِسْلَامِ، وَأَخْبَرْنَاهُ بِمِیعَادِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ إیَّانَا الْعَقَبَةَ. قَالَ: فَأَسْلَمَ وَشَهِدَ مَعَنَا الْعَقَبَةَ، وَكَانَ نَقِیبًا

جب ہم حج سے فارغ ہوگئے اورملاقات کی شب آئی توہمارے ہمراہ عبداللہ رضی اللہ عنہ بن عمروبن حرام بھی تھے جواپنی قوم کے سرداروں اوراشراف میں سے تھے کیونکہ ان کوہم نے اپنے ساتھ لے لیاتھا( اگرچہ ابھی تک مسلمان نہیں ہوئے تھے)اورہم اپنارازمشرکین سے جوہماری قوم کے تھے ظاہرنہ کرتے تھے مگرہم نے اپنے سردارعبداللہ سے کہا اے ابوجابر! آپ ہماری قوم کے سرداراوربزرگ ہیں ہم نہیں چاہتےکہ روزقیامت آپ جہنم کاایندھن بنیں ،پھرہم نے انہیں نہایت اچھے طریقے پر دین اسلام پیش کیااوران کو بتایا کہ ہم اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملنے جارہے ہیں ،چنانچہ وہ بھی ہمارے ہمراہ آپ کی خدمت میں حاضرہوکر اسلام قبول کرلیا اوروہ نقیب مقررہوئے۔[2]

عُوَیْمِ بْنِ سَاعِدَةَ عَنْ أَبِیهِ قَالَ: لَمَّا قَدِمْنَا مَكَّةَ قَالَ لِی سَعْدُ بْنُ خَیْثَمَةَ وَمَعْنُ بْنُ عَدِیٍّ وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ جُبَیْرٍ: یَا عُوَیْمُ انْطَلِقْ بِنَا حَتَّى نَأْتِیَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَنُسَلِّمَ عَلَیْهِ، فَإِنَّا لَمْ نَرَهْ قَطُّ وَقَدْ آمَنَّا بِهِ، فَخَرَجْتُ مَعَهُمْ، فَقِیلَ لِیَ: هُوَ فِی مَنْزِلِ الْعَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ فَرَحَلْنَا عَلَیْهِ، فَسَلَّمْنَا، وَقُلْنَا لَهُ: مَتَى نَلْتَقِی؟

عویم رضی اللہ عنہ بن ساعدہ فرماتے ہیں جب ہم (مدینہ منورہ کے اہل ایمان)مکہ مکرمہ پہنچے توعبداللہ رضی اللہ عنہ بن جبیر،معن رضی اللہ عنہ بن عدی اورسعد رضی اللہ عنہ بن خیثمہ نے مجھ سے کہااے عویم رضی اللہ عنہ ! ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں لے چلوتاکہ جاکرآپ صلی اللہ علیہ وسلم کوسلام کریں کیونکہ ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم پرایمان لاچکے ہیں لیکن ابھی تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت نہیں کی،میں ان لوگوں کے ساتھ روانہ ہوامجھ سے کہاگیاکہ آپ عباس رضی اللہ عنہ بن عبدالمطلب کے مکان پرتشریف فرماہیں ،ہم لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں پہنچے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کیااورآپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھاکہ ہم (اہل مدینہ ) آپ سے کب اورکہاں ملاقات کرسکیں گے ؟

فَقَالَ الْعَبَّاسُ بْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ: إِنَّ مَعَكُمْ مِنْ قَوْمِكُمْ مَنْ هُوَ مُخَالِفٌ لَكُمْ، فَأَخْفُوا أَمْرَكُمْ حَتَّى یَنْصَدِعَ هَذَا الْحَاجُّ، وَنَلْتَقِیَ نَحْنُ وَأَنْتُمْ فَنُوَضِّحَ لَكُمُ الْأَمْرَ، فَتَدْخُلُونَ عَلَى أَمْرٍ بَیِّنٍ، فَوَعَدَهُمْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ اللَّیْلَةَ الَّتِی فِی صُبْحِهَا النَّفَرُ الْآخِرُ أَنْ یُوَافِیَهُمْ أَسْفَلَ الْعَقَبَةِ حَیْثُ الْمَسْجِدُ الْیَوْمَ، وَأَمَرَهُمْ أَنْ لَا یُنَبِّهُوا نَائِمًا، وَلَا یَنْتَظِرُوا غَائِبًا

عباس رضی اللہ عنہ بن عبدالمطلب نے کہاتمہارے ساتھ تمہاری قوم کے وہ لوگ بھی ہیں جوتم سے مخالفت رکھتے ہیں اس لیے اپنامعاملہ پوشیدہ رکھویہاں تک کہ حج پرآئے ہوئے لوگ منتشرہوجائیں ،اس وقت ہم اورتم ملاقات کریں اورتمہارے لئے اس امرکوواضح کردیں پھرتم لوگ امربین کی بناپرداخل ہوگئے،پھررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ملاقات کے لیے وہ رات تجویزفرمائی جس کی صبح کویوم النفرالآخر(یعنی چودہ ذی الحجہ کادن)کہاجاتاہے اورملاقات کامقام عقبہ کا نشیبی حصہ مقررفرمایاجہاں آج کل مسجدبن ہوئی ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہدایت فرمائی کہ نہ کسی سونے والے کوبیدارکرنا اورنہ کسی غائب کاانتظارکرنا۔[3]

ایام تشریق کی آخری رات بیعت کے لیے اس لیے موزوں خیال کی گئی کیونکہ اگلے روزنمازظہرکے فوراً بعدانہیں اپنے شہرروانہ ہوجاناتھاتاکہ بالفرض اگربیعت کارازکھل جائے توقریش انہیں اس امرسے بازرکھ سکیں نہ روک سکیں جبکہ اس کاخدشہ موجودتھا۔[4]

چنانچہ مقررہ رات کوحسب معمول دوسرے لوگوں کی طرح صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بھی رات کواپنی اپنی جگہ پرلیٹ گئے ،انتظارکی گھڑیاں بڑی کٹھن ہوتی ہیں ،وہ شوق ملاقات میں بے چینی سے کروٹ پرکروٹ بدلتے ہوئے بڑی بے چینی مگرصبر سے مطلوبہ وقت کاانتظار کرنے لگے کہ کب چودویں کاچاندنکلے اوروہ اس کی روشنی کواپنے دلوں میں سمیٹ لیں ، شوق ملاقات میں ان کے دل کی دھڑکنیں تیزتھیں ، آنکھوں سے نینداڑ چکی تھی

حَتَّى إذَا مَضَى ثُلُثُ اللَّیْلِ خَرَجْنَا مِنْ رِحَالِنَا لِمَعَادِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، نَتَسَلَّلُ تَسَلُّلَ الْقَطَا مُسْتَخْفِینَ، حَتَّى اجْتَمَعْنَا فِی الشِّعْبِ عِنْدَ الْعَقَبَةِ، وَنَحْنُ ثَلَاثَةٌ وَسَبْعُونَ رَجُلًا، وَمَعَنَا امْرَأَتَانِ مِنْ نِسَائِنَا: نُسَیْبَةُ بِنْتُ كَعْبٍ، أُمُّ عُمَارَةَ، إحْدَى نِسَاءِ بَنِی مَازِنِ بْنِ النَّجَّارِ، وَأَسْمَاءُ بِنْتُ عَمْرِو بْنِ عَدِیِّ بْنِ نَابِی، إحْدَى نِسَاءِ بَنِی سَلِمَةَ، وَهِیَ أُمُّ مَنِیعٍ،قَالَ: فَاجْتَمَعْنَا فِی الشِّعْبِ نَنْتَظِرُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ

جب انتظارکے لمبے لمحے بیت گئے اور تہائی رات گزر گئی ،ہرطرف گہرا اندھیرا چھاگیا،سارے ہنگامے خاموش ہوگئے ،قریش اوربیرونی حاجی بھی محوخواب ہوگئے تو ایک ایک فرد چپکے چپکے اپنی جگہ سے کھسک کر مطلوبہ جگہ پر پہنچنا شروع ہوگیااورہم اس وقت تہترمردتھے اوردوعورتیں ہمارے ساتھ تھیں ایک نسیبہ بنت کعبہ ام عمارہ جوبنی مازن بن نجازمیں سے تھیں اوردوسری اسماء بنت عمروبن عدی بن نابی جوبنی سلمہ میں سے تھیں اوراسی کوام منیح بھی کہتے تھے،کہتے ہیں اس طرح ہم کل پچھتر (۷۵)افرادگھاٹی میں جمع ہوکررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاانتظارکرنے لگے۔

ایک روایت میں ہے

وَقَدْ سَبَقَهُمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وسلم إلى ذَلِكَ الْمَوْضِعِ وَمَعَهُ الْعَبَّاسُ بْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ لَیْسَ مَعَهُ أَحَدٌ مِنَ النَّاسِ غَیْرُهُ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عباس رضی اللہ عنہ بن عبدالمطلب کے ساتھ پہلے سے موجودتھےاوران کے سوااورکوئی نہیں تھا۔[5]

حَتَّى جَاءَنَا وَمَعَهُ (عَمُّهُ) الْعَبَّاسُ بْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، وَهُوَ یَوْمَئِذٍ عَلَى دِینِ قَوْمِهِ، إلَّا أَنَّهُ أَحَبَّ أَنْ یَحْضُرَ أَمْرَ ابْنِ أَخِیهِ وَیَتَوَثَّقَ لَهُ

آخر دیدار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کالمحہ آہی گیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے چچا عباس رضی اللہ عنہ بن عبدالمطلب کے ہمراہ جوابھی تک اپنے آبائی دین پرقائم تھے مگرفی الحقیقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خیرخواہ تھے اورآپ کی دعوت کی کامیابی کے دل سے متمنی تھے رونق افروزہوئے۔ [6]

اس وقت سیدناعلی رضی اللہ عنہ نے گھاٹی کے کنارے کھڑے ہوکرجاسوسی کے فرائض انجام دیئے اورسیدناابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ گھاٹی کے راستے میں کھڑے ہوکریہ فریضہ انجام دے رہے تھے۔[7]

جب تمام لوگ جمع ہو گئے توایک روایت میں ہے

فَوَاعَدَنَا بَیْعَةَ الْعَقَبَةِ فَقَالَ لَهُ عَمُّهُ الْعَبَّاسُ: یَا ابْنَ أَخِی لَا أَدْرِی مَا هَؤُلَاءِ الْقَوْمُ الَّذِینَ جَاءُوكَ إِنِّی ذُو مَعْرِفَةٍ بِأَهْلِ یَثْرِبَ فَاجْتَمَعْنَا عِنْدَهُ مِنْ رَجُلٍ وَرَجُلَیْنِ فَلَمَّا نَظَرَ الْعَبَّاسُ فِی وُجُوهِنَا قَالَ: هَؤُلَاءِ قَوْمٌ لَا نَعْرِفُهُمْ، هَؤُلَاءِ أَحْدَاثٌ

جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا عباس رضی اللہ عنہ کوعلم ہواتو کہنے لگے بھتیجے !معلوم نہیں آپ کے پاس یہ کون لوگ آنے والے ہیں ؟اہل مدینہ سے میں بھی واقف ہوں ، جب سب اہل مدینہ جمع ہوگئے تو عباس رضی اللہ عنہ نے اہل مدینہ کو دیکھ کرکہامیں آپ لوگوں کونہیں جانتاتم تونوجوان ہو۔[8]

ایک روایت میں ہے کہ عباس رضی اللہ عنہ بن عبدالمطلب انصارکے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے معاہدے کے وقت حاضرہوناچاہتے اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم کے تحفظ کایقین کرناچاہتے تھے۔

فَقَالَ: لِیَتَكَلَّمْ مُتَكَلِّمُكُمْ، وَلَا یُطِیلُ الْخُطْبَةَ، فَإِنَّ عَلَیْكُمْ مِنَ الْمُشْرِكِینَ عَیْنًا، وَإِنْ یَعْلَمُوا بِكُمْ یَفْضَحُوكُمْ

تمہارا متکلم بات کرلے لیکن لمبی بات نہ کرے کیونکہ مشرکین نے تم پر اپنے جاسوس مقرر کر رکھے ہیں اگر انہیں پتہ چل گیا تو وہ تمہیں بدنام کریں گے۔[9]

فَلَمَّا جَلَسْنَا كَانَ الْعَبَّاسُ بْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ أَوَّلَ مُتَكَلِّمٍ، فَقَالَ: یَا مَعْشَرَ الْخَزْرَجِ إنَّ مُحَمَّدًا مِنَّا حَیْثُ قَدْ عَلِمْتُمْ وَقَدْ مَنَعْنَاهُ مِنْ قَوْمِنَا، مِمَّنْ هُوَ عَلَى مِثْلِ رَأْیِنَا فِیهِ، فَهُوَ فِی عِزٍّ مِنْ قَوْمِهِ وَمَنَعَةٍ فِی بَلَدِهِ، وَإِنَّهُ قَدْ أَبَى إلَّا الِانْحِیَازَ إلَیْكُمْ، وَاللُّحُوقَ بِكُمْ، فَإِنْ كُنْتُمْ تَرَوْنَ أَنَّكُمْ وَافُونَ لَهُ بِمَا دَعَوْتُمُوهُ إلَیْهِ، وَمَانِعُوهُ مِمَّنْ خَالَفَهُ، فَأَنْتُمْ وَمَا تَحَمَّلْتُمْ مِنْ ذَلِكَ، وَإِنْ كُنْتُمْ تَرَوْنَ أَنَّكُمْ مُسْلِمُوهُ وَخَاذِلُوهُ بَعْدَ الْخُرُوجِ بِهِ إلَیْكُمْ، فَمِنْ الْآنَ فَدَعُوهُ، فَإِنَّهُ فِی عِزٍّ وَمَنَعَةٍ مِنْ قَوْمِهِ وَبَلَدِهِ

جب سب لوگ بیٹھ گئے تو عباس رضی اللہ عنہ بن عبدالمطلب نے معاملہ کی نزاکت کوواضح کرنے کے لئے بات چیت کاآغازکیا اور کہا اے گروہ خزرج !(اس وقت اوس وخزرج کے مجموعے کاخزرج کہا جاتا تھا ) ہمارے اندرمحمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی جو عزت ووقعت ہے اس سے تم سب اچھی طرح واقف ہو ،ہم (بنی ہاشم وبنی مطلب)نے ان کے مخالفین کے مقابلے میں ہمیشہ ان کی حمایت اور حفاظت کی ہے (اس لئے وہ اپنی قوم میں انتہائی عزت واحترام اور پوری حفاظت کے ساتھ رہ رہے ہیں )مگران کاخودیہ ارادہ ہے کہ یہ اس شہر کوچھوڑکرتمہارے شہرمیں جانے کے لئے بے تاب اورتمہارے پاس رہنے کے آرزومندہیں ،اگرتم ان کی پوری پوری حمایت اور حفاظت کرسکواوران کے دشمنوں سے ان کومحفوظ رکھوگے توٹھیک ہے خوشی سے انہیں اپنے ہمراہ لے جاؤاوراگرتم سے یہ بات نہ ہوسکے توبہترہےتم اسی وقت جواب دے دوکیونکہ محمد( صلی اللہ علیہ وسلم )اس وقت ہماری حفاظت میں ہیں ،ایسانہ ہوکہ تم یہاں سے ان کولے جاکرپھران کے دشمنوں کے سپردکردو۔[10]

ابن سعد میں  عباس رضی اللہ عنہ کی تقریراس طرح نقل کی گئی ہے

یَا مَعْشَرَ الْخَزْرَجِ إِنَّكُمْ قَدْ دَعَوْتُمْ مُحَمَّدًا إِلَى مَا دَعَوْتُمُوهُ إِلَیْهِ. وَمُحَمَّدٌ مِنْ أَعَزِّ النَّاسِ فِی عَشِیرَتِهِ. یَمْنَعُهُ وَاللَّهِ مِنَّا مَنْ كَانَ عَلَى قَوْلِهِ. وَمَنْ لَمْ یَكُنْ مِنَّا عَلَى قَوْلِهِ یَمْنَعُهُ لِلْحَسَبِ وَالشَّرَفِ. وَقَدْ أَبَى مُحَمَّدٌ النَّاسَ كُلَّهُمْ غَیْرَكُمْ، فَإِنْ كُنْتُمْ أَهْلَ قُوَّةٍ وَجَلَدٍ وَبَصَرٍ بِالْحَرْبِ وَاسْتِقْلالٍ بِعَدَاوَةِ الْعَرَبِ قَاطِبَةً تَرْمِیكُمْ عَنْ قَوْسٍ واحدة. فارتأوا رأیكم وأتمروا بَیْنَكُمْ وَلا تَفْتَرِقُوا إِلا عَنْ مَلإٍ مِنْكُمْ وَاجْتِمَاعٍ

اے گروہ خزرج !تم نے محمد( صلی اللہ علیہ وسلم )کواپنے ہاں آنے کی دعوت دی ہے توصورت حال یہ ہے کہ محمد( صلی اللہ علیہ وسلم )اپنے خاندان اوررشتہ داروں کے درمیان بڑی مضبوط حیثیت کے مالک ہیں ،ہم میں سے جنہوں نے ان کادین قبول کرلیاہے اوروہ بھی جنہوں نے ان کادین اختیارنہیں کیاسب ان کے حسب ونسب کی بناپران کی حفاظت کررہے ہیں مگرمحمد( صلی اللہ علیہ وسلم )سب کوچھوڑکرتمہارے پاس ہی جاناچاہتے ہیں ، اب تم اچھی طرح سوچ لوکہ کیاتم میں اتنی طاقت،ہمت اورجنگی صلاحیت ہے کہ سارے عرب کے مقابلے میں کھڑے ہوسکو،محمد( صلی اللہ علیہ وسلم )کی حمایت کرنے پرہوسکتاہے کہ سارے عرب متحدہوکرتم پر یلغار کردیں لہذامعاملے کے تمام پہلوؤں پرخوب غوروخوض کرکے ایسافیصلہ کروجس پرتم سب کااتفاق ہوکیونکہ سب سے اچھی سچی بات ہے۔[11]

اس کے بعدانہوں نے اہل وفدسے پوچھا

كیف تقاتلون عدوّكم،تكلم عبد الله بن عمرو بن حزام فقال نحن والله أهل الحرب غذینا بها ومرّینا وورثناها عن آبائنا كابرا عن كابر نرمى بالنسل حتى تفنى ثم نطاعن بالرماح حتى تكسر ثم نمشى بالسیوف فنضرب بها حتى یموت الاعجل منا أو من عدوّنا

کیاتم مجھے بتلاؤ گے کہ تمہارے لڑنے کاکیاطریقہ ہے؟ ابوجابرعبداللہ رضی اللہ عنہ بن عمروبن حرام نے جواب دیااللہ کی قسم!ہم جنگ آزمالوگ ہیں ، جنگ ہماری فطرت میں ودیعت کی گئی ہے اورہم اس کے عادی ہوچکے ہیں ،ہم نے اپنے آباؤاجدادسے اسے ورثے میں پایا ہے،پہلے ہم دشمنوں پرتیروں کی بوچھاڑکرتے ہیں جب تیرختم ہوجاتے ہیں تو پھر ہم نیزوں سے لڑتے ہیں ،جب نیزے ٹوٹ جاتے ہیں توپھرہم تلواریں سونت کردشمن سے نبردآزماہوتے ہیں یہاں تک کہ جس فریق کی موت آجائے وہ مرجاتاہے، عباس رضی اللہ عنہ نے کہاواقعی تم جنگ آزمالوگ ہو۔[12]

فَقَالَ الْبَرَاءُ بْنُ مَعْرُورٍ: قَدْ سَمِعْنَا مَا قُلْتَ وَإِنَّا وَاللَّهِ لَوْ كَانَ فِی أَنْفُسِنَا غَیْرُ مَا تَنْطِقُ بِهِ لَقُلْنَاهُ وَلَكِنَّا نُرِیدُ الْوَفَاءَ وَالصِّدْقَ وَبَذْلَ مُهَجِ أَنْفُسِنَا دُونَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ

پھربراء رضی اللہ عنہ بن معرورنے کہااے عباس رضی اللہ عنہ !ہم نے آپ کی بات سن لی واللہ! اگرہمارے دلوں میں کچھ اورہوتاتوہم برملااس کا اظہارکردیتے مگرہم تواپنی جانوں کی بازی لگا کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ وفاداری کاحق نباہناچاہتے ہیں ۔[13]

فَقُلْنَا لَهُ: قَدْ سَمِعْنَا مَا قُلْتُ

کعب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں ہم نے جواب دیا اے عباس بن عبدالمطلب !ہم نے آپ کی بات سن لی ۔

انصارکوخوب معلوم تھاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کومدینہ منورہ میں پناہ دینااوران کی حفاظت کرنا ان کے لئے اوران کے کنبوں کے لئے کتنا پرخطر ہوسکتا ہے ،اس پر عباس رضی اللہ عنہ کی دوٹوک گفتگونے بھی انہیں سوچنے پرمجبورکیاہوگا،جسے سن کر انہوں نے مشرکین اوراپنی طاقت کا اندازہ کیاہوگا،اپنی قوت ایمانی کو جانچا ہوگا مگر انہوں نے اپنی کم مائیگی ، افرادی قوت ،بے سروسامانی کے خوف سے سرنہیں جھکائے بلکہ جوش ایمانی اورعزم محکم سے سراٹھا کر ادب سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف مخاطب ہوکر عرض کیا

فَتَكَلَّمْ یَا رَسُولَ اللَّهِ، فَخُذْ لِنَفْسِكَ وَلِرَبِّكَ مَا أَحْبَبْتُ ، قَالَ فَتَكَلّمَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَتَلَا الْقُرْآنَ وَدَعَا إلَى اللهِ وَرَغّبَ فِی الْإِسْلَامِ،ثُمّ قَالَ: أُبَایِعُكُمْ عَلَى أَنْ تَمْنَعُونِی مِمَّا تَمْنَعُونَ مِنْهُ نِسَاءَكُمْ وَأَبْنَاءَكُمْ

اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم آپ ہم سے کیا چاہتے ہیں ، آپ ہم سے جوعہدوپیمان پسندکریں ہم اس کے لئے حاضر ہیں ،ہم مرتے دم تک ہرحال میں آپ کے ساتھ ہوں گے،انصار کا جواب سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے انہیں اسلام پرپختگی کی ترغیب دی پھر قرآن مجیدسے چندآیات تلاوت فرماکر ارشادفرمایاکہ صرف اللہ تعالیٰ کی عبادت وبندگی کرواوراس کی ذات وصفات میں کسی کو شریک نہ کرواوراپنے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے لئے یہ چاہتاہوں کہ ہم کوٹھکانہ دو،اورپھر فرمایااس بات پربیعت کروکہ جس طرح اپنے اہل وعیال کی حفاظت کرتے ہواسی طرح ہماری حفاظت کرتے ہو۔[14]

ابن اسحاق نے عبادہ رضی اللہ عنہ بن صامت سے روایت کرتے ہوئے مزید ایک شق کا اضافہ کیاہے

وَأَنْ لَا نُنَازِعَ الْأَمْرَ أَهْلَهُ

ہم اہل حکومت سے حکومت کے لئے نزاع نہ کریں گے۔[15]

ایک اورروایت میں ہے

عَنْ جَابِرٍ، قَالَ: فَاجْتَمَعْنَا فِیهِ مِنْ رَجُلٍ وَرَجُلَیْنِ حَتَّى تَوَافَیْنَا فِیهِ عِنْدَهُ، فَقُلْنَا: یَا رَسُولَ اللَّهِ، علَامَ نُبَایِعُكَ؟ قَالَ:تُبَایِعُونِی عَلَى السَّمْعِ وَالطَّاعَةِ فِی النَّشَاطِ وَالْكَسَلِ، وَالنَّفَقَةِ فِی الْعُسْرِ وَالْیُسْرِ، وَعَلَى الْأَمْرِ بِالْمَعْرُوفِ، وَالنَّهْیِ عَنِ الْمُنْكَرِ، وَأَنْ تَقُولُوا فِی اللَّهِ، لَا تَخَافُونَ فِی اللَّهِ لَوْمَةَ لَائِمٍ، وَعَلَى أَنْ تَنْصُرُونِی، فَتَمْنَعُونِی إِذَا قَدِمْتُ عَلَیْكُمْ مِمَّا تَمْنَعُونَ مِنْهُ أَنْفُسَكُمْ، وَأَزْوَاجَكُمْ، وَأَبْنَاءَكُمْ ، وَلَكُمُ الْجَنَّةُ

جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں جب جب لوگ جمع ہوگئے اور بیعت کاوقت آیاتو ہم نے عرض کیااے اللہ کے رسول !ہم کس بات پربیعت کریں ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اس بات پرکہ خواہ تم اچھے حال میں ہویابرے میں ہمیشہ حکم سنوگے اوراطاعت کروگے ،اس بات پرکہ تنگی اورخوشحالی میں راہ للہ میں خرچ کرتے رہوگے ،آؤمجھ سے بیعت کرواس بات پرکہ میری سنوگے اورمیری مانتے رہو گے ، اوراس بات پرکہ بھلائی کی باتوں کاحکم کرتے رہوگے اوربری باتوں سے لوگوں کوروکتے رہوگے،اوراس بات پر کہ اللہ تعالیٰ کے دین کوپھیلانے کے لئے اٹھ کھڑے ہوگے اوراللہ کے معاملے میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کی مطلقا ًپرواہ نہ کرو گے،میری برابرمددکرتے رہوگے اورجب میں آؤں توجس طرح اپنے اہل وعیال کی،بال بچوں کی اورخوداپنی نگرانی کرتے ہواسی طرح میری بھی کرتے رہوگے،ہاں سن لواس کے بدلے میں اللہ تعالیٰ تمہیں جنت الفردوس عطافرمائے گا[16]

فَأَخَذَ الْبَرَاءُ بْنُ مَعْرُورٍ بِیَدِهِ ثُمَّ قَالَ: وَالَّذِی بَعَثَكَ بِالْحَقِّ، لَنَمْنَعَنَّكَ مِمَّا نَمْنَعُ مِنْهُ أُزُرَنَا، فَبَایِعْنَا یَا رَسُولَ اللَّهِ، فَنَحْنُ وَاللَّهِ أَهْلُ الْحَرْبِ وَأَهْلُ الْحَلَقَةِ، وَرِثْنَاهَا كَابِرًا عَنْ كَابِرٍ

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد سن کر براء رضی اللہ عنہ بن معرورنے جوقوم کے بڑے سرداروں میں سے تھے اورسب لوگ ان کی عزت و احترام کرتے تھے بے تکلف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دست مبارک تھاما اورکہااس ذات کی قسم جس نے آپ کونبی برحق بناکر مبعوث کیاہے ہم یقیناًان تمام آفات سے آپ کی حفاظت کریں گے جس سے اپنے بال بچوں کی حفاظت کرتے ہیں ،اس شرط پرہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیعت کی ، بخدا !ہم نے تلواروں کی گودمیں پرورش پائی ہے،ہم تولڑائی کے شہسوارہیں اورہم اہل جماعت ہیں اوریہ فخرہم کووراثتاًاپنے بزرگوں سے ملتارہاہے۔[17]

جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب ہم بیعت کے لئے مستعدہوئے تو

وَأَخَذَ بِیَدِهِ أَسْعَدُ بْنُ زُرَارَةَ، وَهُوَ مِنْ أَصْغَرِهِمْ، فَقَالَ: رُوَیْدًا یَا أَهْلَ یَثْرِبَ، فَإِنَّا لَمْ نَضْرِبْ أَكْبَادَ الْإِبِلِ إِلَّا وَنَحْنُ نَعْلَمُ أَنَّهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، وَإِنَّ إِخْرَاجَهُ الْیَوْمَ مُفَارَقَةُ الْعَرَبِ كَافَّةً، وَقَتْلُ خِیَارِكُمْ، وَأَنَّ تَعَضَّكُمُ السُّیُوفُ، فَإِمَّا أَنْتُمْ قَوْمٌ تَصْبِرُونَ عَلَى ذَلِكَ، وَأَجْرُكُمْ عَلَى اللَّهِ، وَإِمَّا أَنْتُمْ قَوْمٌ تَخَافُونَ مِنْ أَنْفُسِكُمْ جَبِینَةً، فَبَیِّنُوا ذَلِكَ، فَهُوَ أَعْذَرَ لَكُمْ عِنْدَ اللَّهِ، قَالُوا: أَمِطْ عَنَّا یَا أَسْعَدُ، فَوَاللَّهِ لَا نَدَعُ هَذِهِ الْبَیْعَةَ أَبَدًا، وَلَا نَسْلُبُهَا أَبَدًا

اسعد رضی اللہ عنہ بن زرارہ نے جوہم سب میں چھوٹے تھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کادست مبارک اپنے ہاتھ میں لیااوراپنے ساتھیوں سے مخاطب ہوکرکہاٹھیرواے اہل یثرب ! ہم اپنے اونٹ دوڑاتے ہوئے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اس لئے آئے ہیں کہ ہمیں یقین کامل ہے کہ آپ اللہ کے رسول ہیں اورآج آپ کومکہ سے نکال کراپنے ساتھ لے جاناسارے عرب کی دشمنی مول لیناہے اس کے نتیجے میں تمہارے فرزندقتل ہوں گے اورتلواریں تمہاراخون چاٹیں گی، اگرتم یہ سب کچھ برداشت کرنے کاحوصلہ رکھتے ہوتوآپ کاہاتھ تھام لواس کا اجر تمہیں اللہ دے گالیکن اگرتمہیں اپنی جانوں کاخوف ہے توپھریہ معاملہ یہیں رہنے دواورصاف صاف عذرکردوکیونکہ اس وقت عذرکردینااللہ کے ہاں زیادہ قابل قبول ہوگا،اس پرسب نے کہااے سعد! ہمارے راستے سے پرے ہوجاؤ،اللہ کی قسم! ہم آپ کی بیعت ضرور کریں گے اوراس سے ہرگزدست بردارنہ ہوں گے ۔[18]

قَالَ: فَاعْتَرَضَ الْقَوْلَ، وَالْبَرَاءُ یُكَلِّمُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَبُو الْهَیْثَمِ بْنُ التَّیِّهَانِ حَلِیفُ بَنِی عَبْدِ الْأَشْهَلِ، فَقَالَ: یَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ بَیْنَنَا وَبَیْنَ الرِّجَالِ حِبَالًا، وَإِنَّا قَاطِعُوهَا یَعْنِی الْعُهُودَ فَهَلْ عَسَیْتَ إِنْ نَحْنُ فَعَلْنَا ذَلِكَ، ثُمَّ أَظْهَرَكَ اللَّهُ أَنْ تَرْجِعَ إِلَى قَوْمِكَ، وَتَدَعَنَا؟ قَالَ: فَتَبَسَّمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ،ثُمَّ قَالَ: بَلْ الدَّمَ الدَّمَ، وَالْهَدْمَ الْهَدْمَ، أَنَا مِنْكُمْ وَأَنْتُمْ مِنِّی، أُحَارِبُ مَنْ حَارَبْتُمْ، وَأُسَالِمُ مَنْ سَالَمْتُمْ

ابھی اسعد بن زرارہ رضی اللہ عنہ بات کرہی رہے تھے کہ ابوالہیشم رضی اللہ عنہ بن التہیان نے جوبنوعبدالاشہل کے حلیف تھے اورمدینہ کے معززلوگوں میں شمارہوتے تھے نے اسعد بن زرارہ رضی اللہ عنہ کی بات کاٹ کررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنے اندیشوں کا ذکر کیا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! ہمارے اور یہود کے درمیان تعلقات ہیں جو بیعت کے بعدمنقطع ہو جائیں گے ، کہیں ایساتونہیں ہوگاکہ ہم ان سے تعلقات توڑڈالیں پھر اللہ تعالیٰ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کوکفارپرغلبہ عطافرمائے گا توکیاآپ ہمیں بے سہارا چھوڑ کر اپنی قوم کی طرف لوٹ آئیں گے،ابوالہیشم رضی اللہ عنہ بن التیہان کااندیشہ سن کررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بے اختیار مسکرائے،اورپھرفرمایانہیں بلکہ میرا خون تمہاراخون ہے ، میری آبرو تمہاری آبروہے ،میری امان تمہاری امان ہے ،تم میرے اورمیں تمہاراہوں ،جس کوتم معاف کروگے اس کومیں بھی معاف کروں گا اور جس سے تمہاری جنگ ہوگی اس سے میری بھی جنگ ہوگی ،جس سے تمہاری صلح ہوگی اس سے میری بھی صلح ہوگی۔[19]

ایک روایت میں ہے

وَلَغَطُوا. فَقَالَ الْعَبَّاسُ بْنُ عَبْدِ المطلب وهو آخذ بیدرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: أَخْفُوا جَرْسَكُمْ فَإِنَّ عَلَیْنَا عُیُونًا

جب گفتگوہورہی تھی کہ کچھ لوگوں کی آوازیں قدرے بلندہوگئیں اس پر عباس رضی اللہ عنہ نے جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاہاتھ تھام رکھاتھا انصار سے کہا آوازپست کروکیونکہ مشرکین کے جاسوس تمہاری کھوج میں لگے ہوں گے۔[20]

أَنَّ الْقَوْمَ لَمَّا اجْتَمَعُوا لِبَیْعَةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ الْعَبَّاسُ بْنُ عُبَادَةَ بْنِ نَضْلَةَ الْأَنْصَارِیُّ، أَخُو بَنِی سَالِمِ بْنِ عَوْفٍ: یَا مَعْشَرَ الْخَزْرَجِ، هَلْ تَدْرُونَ عَلَامَ تُبَایِعُونَ هَذَا الرَّجُلَ؟ قَالُوا: نَعَمْ، قَالَ: إنَّكُمْ تُبَایِعُونَهُ عَلَى حَرْبِ الْأَحْمَرِ وَالْأَسْوَدِ مِنْ النَّاسِ، فَإِنْ كُنْتُمْ تَرَوْنَ أَنَّكُمْ إِذَا أنهكت أموالكم مصیبة، وأشرافكم قتلاً أَسْلَمْتُمُوهُ فَمِنَ الْآنَ فَهُوَ وَاللَّهِ إِنْ فَعَلْتُمْ خِزْیُ الدُّنْیَا وَالْآخِرَةِ، وَإِنْ كُنْتُمْ تَرَوْنَ أَنَّكُمْ وافون له لَهُ بِمَا دَعَوْتُمُوهُ إِلَیْهِ عَلَى نَهْكَةٍ الْأَمْوَالِ وَقَتْلِ الْأَشْرَافِ فَخُذُوهُ، فَهُوَ وَاللَّهِ خَیْرُ الدُّنْیَا وَالْآخِرَةِ

ابن اسحاق سے مروی ہےلوگ بیعت کے لئے بڑھنا ہی چاہتے تھے کہ عباس رضی اللہ عنہ بن عبادہ بن نضلہ بیعت کوپختہ اورمستحکم کرنے کی غرض سے بول اٹھے اورکہااے اوس وخزرج کے بھائیو! تمہیں خبربھی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کس بات پربیعت کرنے جارہے ہو؟سب صحابہ کرام نے جواب دیاہاں ہمیں خوب معلوم ہے کہ ہم کیابیعت کرنے جارہے ہیں ، عباس رضی اللہ عنہ بن عبادہ بن نضلہ نے اپنی بات پرزوردیتے ہوئے کہاسن لویہ اس بات کی بیعت ہے کہ ہرایک سرخ وسیاہ سے تم کولڑناہوگااگرتم یہ دیکھوکہ جب تمہارے مال بربادہوں گے اورتمہارے اشراف قتل ہوجائیں گے اس وقت تم ان سے پھرجاؤگے تواسی وقت اس بیعت کوترک کردو،اللہ کی قسم! اگراس وقت تم نے ایساکیا تو دنیاوآخرت کی ذلت تم کونصیب ہوگی،اوراگرتم یہ جانتے ہوکہ چاہئے کیسی ہی مصیبت تم کوپہنچے ،مال ودولت برباد ہویااشراف قتل ہوجائیں تم اپنی بیعت پرقائم رہوگے توبسم اللہ ،بیعت کروکیونکہ اس عہدمیں تمہارے لئے دنیاوآخرت دونوں میں کامیابی وکامرانی اوراللہ کی خوشنودی شامل ہےوفدکے سب اراکین نے بیک آوازکہا ہاں ہم ان سب باتوں کی بیعت کر تے ہیں ۔[21]

(اصطلاح شریعت میں بیعت کامعنی ہے انتہائی شوق ورغبت سے اپنی جان ومال کوبلا معاوضہ اللہ تبارک وتعالیٰ کے ہاتھوں فروخت کردینا ہے )

قَالُوا: فَإِنّا نَأْخُذُهُ عَلَى مُصِیبَةِ الْأَمْوَالِ وَقَتْلِ الْأَشْرَافِ فَمَا لَنَا بِذَلِكَ یَا رَسُولَ اللهِ إنْ نَحْنُ وَفّیْنَا؟قَالَ: الْجَنَّةُ،قالوا ربح البیع لا نقیل ولا نستقیل، ابْسُطْ یَدَكَ فَبَسَطَ یَدَهُ فَبَایَعُوهُ

عبداللہ رضی اللہ عنہ بن رواحہ نے عرض کیااے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم  اگرہم پرکیسی کسی ہی مصیبت پہنچے مال بربادہوں یااشراف قتل ہوں اورہم اپنے عہد پرقائم رہیں توہمارا معاوضہ کیاہوگا؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایاجنت ملے گی جنت،یعنی جنت کی نعمتوں کے حقداربن جاؤ گے ،یہ سن کر عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہما نے عرض کیا اے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم یہ تو بڑے نفع والی خریدوفروخت ہے،ہم اس کے فسخ پر ہرگزراضی نہ ہوں گے،آپ بیعت لینے کے لئے اپناہاتھ بڑھائیے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا دایاں دست مبارک بڑھا دیا اور سب اہل وفدنے نہایت ذوق وشوق سے بیعت کرلی۔[22]

کعب رضی اللہ عنہ بن مالک کی حاکم میں اورجابر رضی اللہ عنہ کی مسنداحمدمیں روایت ہے کہ اس پریہ آیات نازل ہوئیں ۔

اِنَّ اللهَ اشْتَرٰی مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ اَنْفُسَھُمْ وَاَمْوَالَھُمْ بِاَنَّ لَھُمُ الْجَنَّةَ۝۰ۭ یُقَاتِلُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللهِ فَیَقْتُلُوْنَ وَیُقْتَلُوْنَ۝۰ۣ وَعْدًا عَلَیْهِ حَقًّا فِی التَّوْرٰىةِ وَالْاِنْجِیْلِ وَالْقُرْاٰنِ۝۰ۭ وَمَنْ اَوْفٰى بِعَهْدِهٖ مِنَ اللهِ فَاسْـتَبْشِرُوْا بِبَیْعِكُمُ الَّذِیْ بَایَعْتُمْ بِهٖ۝۰ۭ وَذٰلِكَ ھُوَالْفَوْزُ الْعَظِیْمُ۝۱۱۱     [23]

ترجمہ:حقیقت یہ ہے کہ اللہ نے مومنوں سے ان کے نفس اوران کے مال جنت کے بدلے خریدلیے ہیں ،وہ اللہ کی راہ میں لڑتے اورمارتے اورمرتے ہیں ، ان سے (جنت کاوعدہ)اللہ کے ذمہ ایک پختہ وعدہ ہے توراة اورانجیل اورقرآن میں ،اورکون ہے جواللہ سے بڑھ کراپنے عہدکاپوراکرنے والاہو؟پس خوشیاں مناؤاپنے اس سودے پرجوتم نے اللہ سے چکالیاہے ،یہی سب سے بڑی کامیابی ہے۔

کیونکہ مدینہ منورہ میں اسعد بن زرارہ رضی اللہ عنہ ہی پرجوش کارکن تھے جنہوں نے اسلام کے اولین سفیر مصعب کے ساتھ مل کرتبلیغ اسلام کے لئے بڑی جدوجہد کی تھی اور ان ہی کی کوششوں سے اس وقت انصارکی ایک بڑی جماعت حاضرخدمت تھی اورسب لوگ انہیں ہی اپنالیڈرتسلیم کرتے تھے اس لیےسب سے پہلے اسعد رضی اللہ عنہ بن زرارہ نے جوستر انصار میں سب سے کم عمرتھے بیعت کی پھر براء  رضی اللہ عنہ بن معرورپھر اسید رضی اللہ عنہ بن حضیرنے بیعت کی۔

تَفَاخَرَتِ الأَوْسُ وَالْخَزْرَجُ فِیمَنْ ضَرَبَ عَلَى یَدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ لَیْلَةَ الْعَقَبَةِ أَوَّلَ النَّاسِ فَقَالُوا: لا أَحَدَ أَعْلَمُ بِهِ مِنَ الْعَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ. فَسَأَلُوا الْعَبَّاسَ فَقَالَ: مَا أَحَدٌ أَعْلَمَ بِهَذَا مِنِّی. أَوَّلُ مَنْ ضَرَبَ عَلَى یَدِ النَّبِیِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مِنْ تِلْكِ اللَّیْلَةِ أَسْعَدُ بْنُ زُرَارَةَ ثُمَّ الْبَرَاءُ بْنُ مَعْرُورٍ ثُمَّ أُسَیْدُ بْنُ الْحُضَیْرِ

اوس اورخزرج میں اس بات پرتفاخرت ہوئی کہ عقبہ کی رات کوسب سے پہلے کس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پربیعت کی تھی لوگوں نے کہااس بات کو عباس رضی اللہ عنہ بن عبدالمطلب سے زیادہ کوئی نہیں جان سکتاچنانچہ عباس رضی اللہ عنہ سے اس کے بارے میں دریافت کیاگیاتوانہوں نے کہامجھ سے پہلے کسی نے مجھ سے نہیں پوچھافرمایاسب سے پہلے اسعد رضی اللہ عنہ بن زرارہ نے جوستر انصار میں سب سے کم عمرتھے بیعت کی پھر براء  رضی اللہ عنہ بن معرورپھر اسید رضی اللہ عنہ بن حضیرنے بیعت کی۔[24]

فَبَنُو النَّجَّارِ یَزْعُمُونَ أَنَّ أَبَا أُمَامَةَ، أَسْعَدَ بْنَ زُرَارَةَ، كَانَ أَوَّلَ مَنْ ضَرَبَ عَلَى یَدِهِ، وَبَنُو عَبْدِ الْأَشْهَلِ یَقُولُونَ: بَلْ أَبُو الْهَیْثَمِ بْنُ التَّیِّهَانِ، كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: كَانَ أَوَّلَ مَنْ ضَرَبَ عَلَى یَدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ الْبَرَاءُ بْنُ مَعْرُورٍ، ثُمَّ بَایَعَ بَعْدُالْقَوْمُ

بنی نجارکایہ قول ہے کہ سب سے پہلے ابوامامہ رضی اللہ عنہ اسعدبن زرارہ نے بیعت کی،جبکہ بنی عبدالاشہل کہتے ہیں کہ ابوالہیثم بن تیہان رضی اللہ عنہ نے سب سے پہلے بیعت کی،جبکہ کعب رضی اللہ عنہ بن مالک کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پر اول بیعت براء رضی اللہ عنہ بن معرورنے کی پھرسب نے باری باری نہایت رضا ورغبت سے بیعت کے لئے ہاتھ بڑھایا۔[25]

كَانَ أَوَّلَ مَنْ ضَرَبَ عَلَى یَدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ الْبَرَاءُ بْنُ مَعْرُورٍ، ویقال أَوَّلَ مَنْ ضَرَبَ عَلَى یَدِه أَبُو الْهَیْثَمِ بْنُ التَّیِّهَانِ، ویقالأَسْعَدَ بْنَ زُرَارَةَ

سب سے پہلے براء بن معرور رضی اللہ عنہ نے بیعت کی اوریہ بھی کہاجاتاہے کہ سب سے پہلے ابوالہیثم رضی اللہ عنہ نے بیعت کی اوریہ بھی کہاجاتاہے سب سے پہلے اسعدبن زرارہ رضی اللہ عنہ نے بیعت کی۔[26]

بہرحال ابن اسحاق کی روایت ہویا جابر رضی اللہ عنہ کی ،جب اتنے بڑے خطرات کی نشان دہی کردی گئی توانصارنے بیک زبان کہا

یَا أَسْعَدُ أَمِطْ عَنَّا یَدَكَ فَوَاللَّهِ لَا نَذَرُ هَذِهِ الْبَیْعَةَ وَلَا نَسْتَقِیلُهَا، قَالَ: فَقُمْنَا إِلَیْهِ رَجُلًا رَجُلًا فَأَخَذَ عَلَیْنَا لِیُعْطِیَنَا بِذَلِكَ الْجَنَّةَ

اےاسعد رضی اللہ عنہ بن زرارہ !رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہاتھ چھوڑ دو اللہ کی قسم! ہم اس بیعت کونہ توچھوڑسکتے ہیں اورنہ ہی توڑسکتے ہیں چنانچہ باری باری سب انصارآگے بڑھتے گئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان سے بیعت لیتے رہے جس کے عوض انہیں جنت کی بشارت دی ۔[27]

قَالَ ابْنُ إسْحَاقَ: وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ لَا یُصَافِحُ النِّسَاءَ، إنَّمَا كَانَ یَأْخُذُ عَلَیْهِنَّ، فَإِذَا أَقْرَرْنَ، قَالَ: اذْهَبْنَ فَقَدْ بَایَعَتْكُنَّ

محمدبن اسحاق کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صرف مردوں سے ہی مصافحہ فرماتے تھے اورغیرمحرم عورتوں سے مصافحہ نہیں فرماتے تھےبلکہ صرف زبانی اقرار اور عہدلیکریہ فرماتے تھے کہ جاؤتم سے بیعت ہوگئی۔[28]

أَنَّ عَائِشَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهَا، زَوْجَ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَتْ:كَانَتِ المُؤْمِنَاتُ إِذَا هَاجَرْنَ إِلَى النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَمْتَحِنُهُنَّ بِقَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى:یَا أَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا، إِذَا جَاءَكُمُ المُؤْمِنَاتُ مُهَاجِرَاتٍ فَامْتَحِنُوهُنَّ إِلَى آخِرِ الآیَةِ، قَالَتْ عَائِشَةُ: فَمَنْ أَقَرَّ بِهَذَا الشَّرْطِ مِنَ المُؤْمِنَاتِ فَقَدْ أَقَرَّ بِالْمِحْنَةِ، فَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ إِذَا أَقْرَرْنَ بِذَلِكَ مِنْ قَوْلِهِنَّ، قَالَ لَهُنَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:انْطَلِقْنَ فَقَدْ بَایَعْتُكُنَّ،

ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہےمومن عورتیں جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ہجرت کر کے آتیں تھیں تو اللہ تعالیٰ کے اس قول کی بناء پر ان کا امتحان لیا کرتے تھے کہ اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم !جب تمہارے پاس مومن عورتیں بیعت کرنے کے لیے آئیں اور اس بات کا عہد کریں کہ وہ اللہ کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ کریں گی، چوری نہ کریں گی ، زنا نہ کریں گی ، اپنی اولاد کو قتل نہ کریں گی اپنے ہاتھ پاؤں کے آگے کوئی بہتان گھڑ کر نہ لائیں گی ،اور کسی امرِ معروف میں تمہاری نافرمانی نہ کریں گی، تو ان سے بیعت لے لو اور ان کے حق میں اللہ سے دعائے مغفرت کرو ، یقینا اللہ درگزر فرمانے والا اور رحم کرنے والا ہے، عائشہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے کہ مومن عورتوں میں سے جو اس کا اقرار کرلیتیں تو وہ اس آزمائش میں پوری سمجھی جاتیں تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان سے کہتے کہ جاؤ میں تم لوگوں سے بیعت لے چکا،

لاَ وَاللَّهِ مَا مَسَّتْ یَدُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَدَ امْرَأَةٍ قَطُّ، غَیْرَ أَنَّهُ بَایَعَهُنَّ بِالكَلاَمِ، وَاللَّهِ مَا أَخَذَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عَلَى النِّسَاءِ إِلَّا بِمَا أَمَرَهُ اللَّهُ، یَقُولُ لَهُنَّ إِذَا أَخَذَ عَلَیْهِنَّ:قَدْ بَایَعْتُكُنَّ كَلاَمًا

اللہ کی قسم کبھی بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہاتھ کسی عورت کے ہاتھ سے مس نہیں ہوا بجز اس کے کہ ان سے صرف گفتگو کے ذریعہ بیعت لی، اللہ کی قسم! نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی عورت کا ہاتھ نہیں پکڑا مگر جس کا اللہ نے آپ کو حکم دیا جب آپ ان سے بیعت لیتے تھے تو فرما دیتے کہ میں نے تم سے بیعت لی ہے۔[29]

عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ یَزِیدَ، قَالَتْ:فَقَالَ:إِنِّی لَا أُصَافِحُ النِّسَاءَ، وَلَكِنْ آخُذُ عَلَیْهِنَّ مَا أَخَذَ اللهُ عَلَیْهِنَّ

اسماء رضی اللہ عنہا بنت یزید سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایامیں عورتوں سے مصافحہ نہیں کرتاصرف اللہ کی اطاعت کا عہد لیتا ہوں ۔ [30]

أُمَیْمَةَ بِنْتَ رُقَیْقَةَ، تَقُولُ: جِئْتُ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فِی نِسْوَةٍ نُبَایِعُهُ، فَقَالَ لَنَا:فِیمَا اسْتَطَعْتُنَّ وَأَطَقْتُنَّ، إِنِّی لَا أُصَافِحُ النِّسَاءَ

امیمہ رضی اللہ عنہا بنت رفیقہ فرماتی ہیں میں چند عورتوں کیساتھ بیعت کرنے کیلئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں فرمایا بقدر طاقت واستطاعت اطاعت کرو میں عورتوں سے مصافحہ نہیں کرتا۔[31]

اس لئے اس موقع پربھی موجود دوعورتوں کی زبانی بیعت ہوئی۔

نقباء کاانتخاب:

فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّ مُوسَى أَخَذَ مِنْ بَنِی إِسْرَائِیلَ اثْنَیْ عشر نقیبا فلا یجدن أَحَدٌ فِی نَفْسِهِ أَنْ یُؤْخَذَ غَیْرُهُ فَإِنَّمَا یَخْتَارُ لِی جِبْرِیلُ. فَلَمَّا تَخَیَّرَهُمْ قَالَ لِلنُّقَبَاءِ: أَنْتُمْ كُفَلاءُ عَلَى غَیْرِكُمْ كَكَفَالَةِ الْحَوَارِیِّینَ لِعِیسَى ابْنِ مَرْیَمَ وَأَنَا كَفِیلٌ عَلَى قَوْمِی

جب بیعت مکمل ہوچکی تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انصارسے فرمایاموسیٰ  علیہ السلام نے بنی اسرائیل میں بارہ نقیب منتخب فرمائے تھے،تم میں سے کوئی شخص اپنے دل میں یہ خیال نہ کرے کہ اس کے سوااورکوانتخاب کرلیاگیاہے ،میرے لئے (نقیبوں کا) جبرائیل امین کے اشارہ سے تم میں سے بارہ نقیب منتخب کریں گےجواپنی قوم کے کفیل اورذمہ دار ہوں گے،جیسے حوارین عیسیٰ  علیہ السلام کے کفیل تھے اورمیں اپنی قوم کاکفیل ہوں ۔[32]

عَنْ الزّهْرِیّ أَنّهُ قَالَ قَالَ النّبِیّ عَلَیْهِ السّلَامُ لِلْأَوْسِ وَالْخَزْرَجِ حِین قَدِمَ عَلَیْهِمْ النّقَبَاءُ: لَا یَغْضَبَنّ أَحَدُكُمْ فَإِنّی أَفْعَلُ مَا، وَأَنّ جِبْرِیلَ هُوَ الّذِی وَلّاهُمْ وَأَشَارَ عَنْ النّبِیّ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بِهِمْ

امام زہری رحمہ اللہ فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اوس وخزرج سے مخاطب ہوکرفرمایاکہ میں تم میں سے بارہ نقیب منتخب کروں گاتم میں سے کوئی یہ خیال نہ کرے کہ مجھ کونقیب کیوں نہیں بنایا،جبرائیل علیہ السلام نبی کریم کے پاس تشریف فرماتھے جس جس کونقیب بنانے کاحکم تھااس کی طرف اشارہ کرتے جاتے تھے۔[33]

اس طرح نوافرادخزرج سے اورتین افراداوس سے نقیب منتخب ہوئے ، جن کے نام یہ تھے۔

فَكَانَ نَقِیبَ بَنِی النَّجَّارِ: أَسْعَدُ بْنُ زُرَارَةَ،

اسعد رضی اللہ عنہ بن زرارہ،بنی نجار

وَكَانَ نَقِیبَ بَنِی سَلِمَةَ: الْبَرَاءُ بْنُ مَعْرُورَ، وَعَبْدُ اللهِ بْنُ عَمْرِو بْنِ حَرَامٍ.

براء  رضی اللہ عنہ بن معروربن صخر،بنی سلمہ

عبداللہ رضی اللہ عنہ بن عمروبن حرام،بنی سلمہ

وَكَانَ نَقِیبَ بَنِی سَاعِدَةَ: سَعْدُ بْنُ عُبَادَةَ، وَالْمُنْذِرُ بْنُ عَمْرٍو.

سعد رضی اللہ عنہ بن عبادہ ،بنی ساعدہ

منذر رضی اللہ عنہ بن عمرو،بنی ساعدہ

وَكَانَ نَقِیبَ بَنِی زُرَیْقٍ: رَافِعُ بْنُ مَالِكِ بْنِ الْعَجْلَانِ،

رافع رضی اللہ عنہ بن مالک بن عجلان،بنی زریق

وَكَانَ نَقِیبَ بَنِی الْحَارِثِ بْنِ الْخَزْرَجِ: عَبْدُ اللهِ بْنُ رَوَاحَةَ، وَسَعْدُ بْنُ الرَّبِیعِ،

عبداللہ رضی اللہ عنہ بن رواحہ بن ثعلبہ،بنی حارث بن خزرج

سعد رضی اللہ عنہ بن ربیع،بنی حارث بن خزرج

وَكَانَ نَقِیبَ الْقَوَافِلِ بَنِی عَوْفِ بْنِ الْخَزْرَجِ: عُبَادَةُ بْنُ الصَّامِتِ،

عبادہ رضی اللہ عنہ بن صامت بن قیس،قوقل بن عوف بن خزرج

وَفِی الْأَوْسِ مِنْ بَنِی عَبْدِ الْأَشْهَلِ: أُسَیْدُ بْنُ حُضَیْرٍ، وَأَبُو الْهَیْثَمِ بْنُ التَّیِّهَانِ.

اسید رضی اللہ عنہ بن حضیر،بنی عبدالشہل

ابوالہیثم رضی اللہ عنہ بن تیہان،بنی عبدالشہل

وَكَانَ نَقِیبَ بَنِی عَمْرِو بْنِ عَوْفٍ، سَعْدُ بْنُ خَیْثَمَةَ،

سعد رضی اللہ عنہ بن خیثمہ بن حارث،بنی عمروبن عوف

 فَكَانُوا اثْنَیْ عَشَرَ نَقِیبًا: تِسْعَةٌ مِنَ الْخَزْرَجِ، وَثَلَاثَةٌ مِنَ الْأَوْسِ

یہ بارہ نقیب مقررہوئے جن میں نوخزرج سے اورتین اوس سے تھے۔[34]

اورابن ہشام نے یہ نام لکھے ہیں ۔

اسعد رضی اللہ عنہ بن زرارہ خزرج  سعد رضی اللہ عنہ بن ربیع بن عمرو خزرج
عبداللہ رضی اللہ عنہ بن رواحہ بن ثعلبہ  خزرج  رافع رضی اللہ عنہ بن مالک بن عجلان خزرج
براء  رضی اللہ عنہ بن معروربن صخر خزرج  عبداللہ رضی اللہ عنہ بن عمروبن حرام خزرج
 عبادہ رضی اللہ عنہ بن صامت بن قیس خزرج سعد رضی اللہ عنہ بن عبادہ بن دلیم خزرج
 منذر رضی اللہ عنہ بن عمروبن خنیس خزرج  اسید رضی اللہ عنہ بن حضیربن سماک اوس
سعد رضی اللہ عنہ بن خیثمہ بن حارث اوس  رفاعہ رضی اللہ عنہ بن عبدالمنذر بن زبیریازنیر اوس

۔[35]

نوٹ :اس فہرست میں ابوالہیثم رضی اللہ عنہ بن تیہان کی جگہ رفاعہ رضی اللہ عنہ بن عبدالمنذر بن زبیریازنیر کانام درج ہے مگراہل علم ابوالہیثم رضی اللہ عنہ بن تیہان کوشمارکرتے ہیں ۔

ان تمام نقیبوں پر اسعد رضی اللہ عنہ بن زرارہ کونقیب اعلیٰ مقررفرمایا،

عَنْ جَابِرٍ، قَالَ: النُّقَبَاءُ كُلُّهُمْ مِنَ الْأَنْصَارِ: أُسَیْدُ بْنُ حُضَیْرٍ

جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہےانصارکے تمام نقیبوں پراسیدبن حضیر رضی اللہ عنہ کومقررفرمایا۔[36]

جب نقباء منتخب ہوچکے تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی اپنی قوم کے مکلف اورذمہ دارہونے کی حیثیت سے ان نقباء سے ایک عہدلیااورفرمایا

أَنْتُمْ عَلَى قَوْمِكُمْ بِمَا فِیهِمْ كُفَلَاءُ، كَكَفَالَةِ الْحَوَارِیِّینَ لِعِیسَى ابْنِ مَرْیَمَ، وَأَنَا كَفِیلٌ عَلَى قَوْمِی یَعْنِی الْمُسْلِمِینَ

آپ لوگ اپنی اپنی قوم کے تمام معاملات کے کفیل ہیں جیسے عیسیٰ  علیہ السلام کی جانب سے ان کے حواری کفیل ہوئے تھے اورمیں تمام مسلمانوں کاکفیل ہوں ، سب نقباء نے اس عہد کااقرارکیا۔[37]

یہ بیعت تاریخ اسلام میں سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے ،یہ بیعت کیاتھی فی الحقیقت عرب وعجم اورتمام مشرک جن وانس سے عداوت مول لینے کے مترادف تھی،اس وقت جزیرہ العرب کی ریت کازرہ زرہ دین حق کے پرستاروں کے خون کاپیاسابناہواتھااورعرب کے کسی چھوٹے بڑے قبیلے میں اتنی جرات ،حوصلہ اورطاقت نہ تھی کہ رحمت للعالمین محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حمایت کااعلان کرسکے یاانہیں پناہ دے سکے،مگراس مشکل ترین گھڑی میں اللہ تعالیٰ نے مدینہ منورہ کی اس مقدس جماعت کے دلوں میں ایمان راسخ فرمادیاوہ بے خوف وخطردین حق کاجھنڈالے کرکھڑے ہوئے اوراپنی جانوں ومال واولادہرچیزکورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں پرنچھاورکردیا، اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم سے التجاکی کہ وہ مدینہ طیبہ میں قدم رنجہ فرمائیں ،چنانچہ آپ وہاں تشریف لے گئے اورانصارنے ہادی برحق سے رات کے وقت جوعہدوپیمان باندھاتھااسے پوراکرنے میں کسی قربانی سے دریغ نہ کیا،کسی ملائمت کرنے والے کی پرواہ نہ کی،مشکل سے مشکل گھڑی میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم پرپروانہ وارنچھاورہوتے رہے ، سیدالامم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس جہاں سے رخصت ہوتے وقت تک ان جاں نثاروں کاساتھ نہ چھوڑا۔

 گھاٹی کے شیطان کی ایک کوشش:

فَلَمَّا بَایَعْنَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ صَرَخَ الشَّیْطَانُ مِنْ رَأْسِ الْعَقَبَةِ بِأَنْفَذِ صَوْتٍ سَمِعْتُهُ قَطُّ: یَا أَهْلَ الْجُبَاجِبِ- وَالْجُبَاجِبُ: الْمَنَازِلُ هَلْ لَكُمْ فِی مُذَمَّمٍ وَالصُّبَاةُ مَعَهُ، قَدْ اجْتَمَعُوا عَلَى حَرْبِكُمْ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وسلَّم: هذا أَزَبُّ الْعَقَبَةِ، هَذَا ابْنُ أَزْیَبَ، أَتَسْمَعُ أَیْ عدوَّ الله؟ أما والله لا تفرغن لَكَ، ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:ارْفَضُّوا إِلَى رِحَالِكُمْ

اس ساری کاروائی کے بعدانصاراپنی اپنی جگہوں پرجانے کے لئے تیارہی ہورہے تھے کہ رات کے اس سناٹے میں عقبہ کی پہاڑی کے اوپرسے شیطان نے روزکے ساتھ آوازلگائی جوخاموشی کوچیرتی ہوئی ساری فضامیں پھیل گئی،میں نے ایسی بلندآوازکبھی نہیں سنی ،کہنے لگااے مکانوں کے رہنے والو!مذمم کی تم کوکیاضرورت ہے کہ اس کے ساتھ ہوکراپنے دین سے گمراہ ہوجاؤاورجنگ کے لیے جمع ہوجاؤ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آوازسن کرانصارسے فرمایایہ اس گھاٹی کاشیطان ہے جس کانام ازب بن ازیب ہے ، پھرشیطان کومخاطب کرکے فرمایا اے اللہ کے دشمن ! کان کھول کرسن لے ،واللہ !میں عنقریب تیرے لئے فارغ ہونے والاہوں ، پھرصحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے فرمایاکہ سب اپنے اپنے ڈیروں پرچلے جائیں ۔[38]

ایک روایت میں ہے

لما بایع الأنصار بالعقبة صاح الشیطان من رأس الجبل: یا معشر قریش هذه بنو الأوس والخزرج تحالف على قتال

جب انصارنے عقبہ میں بیعت کی توشیطان نے پہاڑکی چوٹی پرکھڑے ہوکرچیخااے گروہ قریش!یہ بنواوس اورخزرج تمہارے قتال پرجمع ہورہے ہیں ۔[39]

ایک روایت ہے کہ جب گفتگوکے مراحل طے ہوچکے توقریش کے ایک جاسوس کو ان باتوں کاعلم ہوگیااس نے زورسے آوازلگائی اے اہل المنازل !یہ بے دین تم سے لڑنے کے لئے تیارہورہے ہیں ،اس پررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انصارسے فرمایااب تم اپنی قیام گاہ پرواپس جاؤ ۔

رات کے سناٹے میں آوازکیاتھی ایک خطرے کی گھنٹی تھی لیکن وہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے عزم وحوصلہ کونہ ہلاسکی ،فکروتشویش تودرکنارایک صحابی رضی اللہ عنہ نے یوں کہا

فَقَالَ لَهُ الْعَبَّاسُ بْنُ عُبَادَةَ بْنِ نَضْلَةَ: وَاَللَّهِ الَّذِی بَعَثَكَ بِالْحَقِّ: إنْ شِئْتَ لَنَمِیلَنَّ عَلَى أَهْلِ مِنًى غَدًا بِأَسْیَافِنَا؟قَالَ: فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: لَمْ نُؤْمَرْ بِذَلِكَ، وَلَكِنْ ارْجِعُوا إلَى رِحَالِكُمْ. قَالَ: فَرَجَعْنَا إلَى مَضَاجِعِنَا

عباس رضی اللہ عنہ بن عبادہ بن نضلہ نے جوش سے کہااے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم !اس ذات کی قسم جس نے آپ کوحق کے ساتھ مبعوث فرمایا ہے اگرآپ چاہیں توہم کل ہی اپنی تلواروں کے ساتھ اہل منیٰ پرٹوٹ پڑیں اور انہیں نیندہی میں موت کے گھات اتار دیں ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہمیں اس بات کاحکم نہیں دیاگیاہے ،آپ لوگ اپنی اپنی جگہوں پرچلے جائیں ، سب انصار نہایت احتیاط سے واپس اپنی اپنی جگہوں پرپہنچ کرآنکھیں بندکرکے لیٹ گئے۔ [40]

رات کوشیطان کی پکارمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے انصارکی بیعت کاسن کرقریش کے دل رنج والم سے بھرگئےکیونکہ قریش محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی زبردست شخصیت اورغیرمعمولی قابلیتوں سے اچھی طرح واقف تھے ،اگرقبیلہ اوس وخزرج کے لوگ ان کے ہمراہ کھڑے ہوگئے ہیں تو انہیں ایک مضبوط ٹھکانہ میسرآرہاتھا،اوران کی قیادت ورہنمائی میں پیروان اسلام جن کی عزیمت واستقامت اورفدائیت کوبھی قریش ایک حدتک آزماچکے تھے ایک منظم جتھے کی صورت میں مجتمع ہوئے جاتے تھے ،اوریہ صورت حال پرانے نظام کے لئے موت کاپیغام تھا،اس کے علاوہ مدینہ منورہ جیسے مقام پرمسلمانوں کی اس طاقت کے مجتمع ہونے سے قریش کو مزیدخطرہ تھاکہ یمن سے شام کی طرف جوتجارتی شاہراہ ساحل بحراحمرکے کنارے کنارے جاتی تھی جس کے محفوظ رہنے پرقریش اوردوسرے بڑے بڑے مشرک قبائل کی معاشی زندگی کاانحصارتھاوہ مسلمانوں کی زدمیں آجاتی تھی اوراس شہہ رگ پرہاتھ ڈال کرمسلمان نظام جاہلی کی زندگی دشوارکرسکتے تھے ،صرف اہل مکہ کی وہ تجارت جواس شہراہ کے بل پرچل رہی تھی ڈھائی لاکھ اشرفی سالانہ تک پہنچتی تھی ،طائف اوردوسرے مقامات کی تجارت اس کے ماسواتھی ،قریش ان نتائج کوخوب سمجھتے تھے ، چنانچہ رات کو جیسے ہی اہل مکہ کے کانوں میں اس معاملہ کی بھنک پڑی ایک کھلبلی مچ گئی، صبح ہوتے ہی قریش کے ایک وفدنے اہل یثرب کے روساء سے ملاقات کی اوران پر آنکھیں لال پیلی کرتے ہوئے کہا

یَا مَعْشَرَ الْخَزْرَجِ، إنَّهُ قَدْ بَلَغَنَا أَنَّكُمْ قَدْ جِئْتُمْ إلَى صَاحِبِنَا هَذَا تَسْتَخْرِجُونَهُ مِنْ بَیْنِ أَظْهُرِنَا، وَتُبَایِعُونَهُ عَلَى حَرْبِنَا، وَإِنَّهُ وَاَللَّهِ مَا مِنْ حَیٍّ مِنْ الْعَرَبِ أَبْغَضُ إلَیْنَا، أَنْ تَنْشَبَ الْحَرْبُ بَیْنَنَا وَبَیْنَهُمْ، مِنْكُم

اے اہل خزرج ! ہمیں خبرملی ہے کہ تم ہمارے آدمی(محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) کے پاس آئے ہواوراس کواپنے ساتھ لے جاناچاہتے ہواورہمارے ساتھ لڑنے کے لئے اس کے ہاتھ پر بیعت کی ہے،اللہ گواہ ہے کہ ہمیں عرب کے ہرقبیلہ سے جنگ کرناگواراہے لیکن تم سے جنگ کرناگوارا نہیں (کیونکہ قریش مکہ اہل مدینہ کوان کے زراعت پیشہ ہونے کی وجہ سے حقیرسمجھتے تھے) پھرتم ہمارے خلاف یہ کیسے منصوبے بنارہے ہو،محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم )کوکیوں یہاں سے لے جانا چاہتے ہو ؟کیوں ہمارے مقابلہ میں تلواریں تولناچاہتے ہو ۔[41]

اہل قریش جس بیعت کاشکوہ کرنے حاضرہوئے تھے یثرب کے روساء کوسرے سے اس کاعلم ہی نہ تھاکیونکہ اس بیعت کے سلسلہ میں مکمل رازداری اوراحتیاط برتی گئی تھی اس لئے قریش کی باتیں سن کربہت چکرائے اور انہوں نے قسمیں کھاکرقریش کویقین دلایاکہ ایسا کوئی واقعہ نہیں ہوااورنہ ہی وہ محمد( صلی اللہ علیہ وسلم ) کواپنے ہاں لے جانے کے لئے یہاں مکہ معظمہ آئے ہیں ،پھرقریش کایہ وفدعبداللہ بن ابی بن سلول کے پاس جاپہنچااوراس سے بھی شکوہ شکایت کی ،اس نے قریش کی بات سن کرکہاکسی نے تمہیں یہ غلط خبر پہنچائی ہے محمد( صلی اللہ علیہ وسلم )سے بیعت کاایساکوئی واقعہ نہیں ہوا ہے ، ایسا تو ہوہی نہیں سکتاکہ میری قوم مجھے چھوڑ کراتنا بڑا کام کرڈالے ،اگر میں یثرب میں بھی ہوتاتب بھی میری قوم مجھ سے مشورہ کیے بغیراتنا بڑا قدم کبھی نہ اٹھاتی، مسلمان بھی قریش کے وفدکے گرداگردجمع تھے مگرانہوں نے ہاں یانہیں میں زبان نہیں کھولی اورکوشش کرتے رہے کہ کسی طرح اس بات کارخ بدل جائے اورکوئی دوسری گفتگو چھڑ جائے

وَفِیهِمْ الْحَارِثُ بْنُ هِشَامِ بْنِ الْمُغِیرَةِ الْمَخْزُومِیُّ، وَعَلَیْهِ نَعْلَانِ لَهُ جَدِیدَانِ، قَالَ فَقُلْتُ لَهُ كَلِمَةً كَأَنِّی أُرِیدُ أَنْ أَشْرَكَ الْقَوْمَ بِهَا فِیمَا یَا أَبَا جَابِرٍ، أَمَا تَسْتَطِیعُ أَنْ تَتَّخِذَ، وَأَنْتَ سَیِّدٌ مِنْ سَادَاتِنَا، مِثْلَ نَعْلَیْ هَذَا الْفَتَى مِنْ قُرَیْشٍ؟قَالَ: فَسَمِعَهَا الْحَارِثُ، فَخَلَعَهُمَا مِنْ رِجْلَیْهِ ثُمَّ رَمَى بِهِمَا إلَیَّ، وَقَالَ: وَاَللَّهِ لِتَنْتَعِلَنَّهُمَا، قَالَ: یَقُولُ: أَبُو جَابِرٍ: مَهْ، أَحْفَظْتَ وَاَللَّهِ الْفَتَى، فَارْدُدْ إلَیْهِ نَعْلَیْهِ، قَالَ: قُلْتُ: وَاَللَّهِ لَا أَرُدُّهُمَا، فَأْلٌ وَاَللَّهِ صَالِحٌ، لَئِنْ صَدَقَ الْفَأْلُ لَأَسْلُبَنَّهُ

قریش کے وفدمیں حارث بن ہشام بن مغیرہ مخزومی بھی تھااس نے نئے جوتے پہن رکھے تھے،کعب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں میں نے گفتگوکارنگ بدلنے کے لئے اپنے ساتھی سے کہااے ابوجابر رضی اللہ عنہ !آپ ہمارے سردار ہیں ،آپ قریش کے اس نوجوان جیسے جوتے پہن سکتے ہیں ؟ حارث بن ہشام بن مغیرہ مخزومی نے میری بات سن لی اور اپنے جوتے اتارکرمیری طرف پھینکے اوربولاتمہیں اللہ کی قسم !یہ پہن لو، ابوجابر رضی اللہ عنہ نے مجھ سے کہاتم نے اس نوجوان کوناراض کردیاہے اس لئے یہ جوتے اسے واپس کردو، میں نے کہابخدا!میں ہرگزواپس نہیں کروں گا،یہ نیک فال ہے ،واللہ اگر فال درست ہے تومیں ایک دن ضروراس کے سارے کپڑے چھین لوں گا۔[42]

جب ہرطرف سے اس واقعہ کا انکار ہوااورکوئی چشم دیدگواہ بھی نہ ملاتووہ ناکام ونامرادہوکرواپس چلے گئے مگران کے ذہن پریشان تھے ،وہ برابراس بات کی تحقیق میں لگے رہے، وہ باربار سوچتے کیاواقعی ہی رات کوایسا واقعہ ہواہے ،کیامخبرنے ہم کوصحیح خبردی ہے اوراہل مدینہ جھوٹ بول رہے ہیں یایہ خبرہی غلط ہے اورمدینہ والے سچ بول رہے ہیں ؟

وصدقوا لأنهم لم یعلموه كما علم مما تقدم: أی ونفر الناس من منى وبحثت قریش عن خبر الأنصار فوجدوه حقا، فلما تحققوا الخبر اقتفوا آثارهم فلم یدركوا إلا سعد بن عبادة والمنذر بن عمرو، فأما سعد فأمسك وعذب فی الله، وأما المنذر فأفلت ثم أنقذ الله سعدا من أیدی المشركین

جب یثرب کے حجاج کرام فارغ ہوکرواپس اپنے وطن کولوٹ گئے توکسی طرح قریش کویقینی طور پر علم ہوگیاکہ جوخبر انہوں نے سنی تھی وہ سچ تھی اوراہل یثرب نے ہمارے خلاف محمد( صلی اللہ علیہ وسلم )کے ہاتھ پربیعت کرلی ہے توان کے ہوش اڑگئے ،غصہ سے بوکھلاگئے ،انہوں نے فورا ًتیز رفتار سواروں کواہل یثرب کے تعاقب میں روانہ کیا کہ وہ جانے نہ پائیں مگر کافی دیرہوچکی تھی قافلہ تودورنکل چکاتھا مگرسعد رضی اللہ عنہ بن عبادہ اورمنذر رضی اللہ عنہ بن عمروجواپنے اپنے قبیلہ کے نقیب تھے کسی طرح پیچھے رہ گئے تھے سواروں نے انہیں گھیرلیا، منذر رضی اللہ عنہ بن عمروتوکسی طرح ان کے گھیرے سے نکل جانے میں کامیاب ہوگئے مگرسعد رضی اللہ عنہ بن عبادہ گرفتار کر لئے گئے۔[43]

قریش کے سواروں نے ان کے پلان کی رسی سے ان کی مشکیں باندھ دیں اور انہیں ذدو کوب کرتے ہوئے واپس مکہ مکرمہ لے آئے اوران پرظلم وستم کی مشق کرتے رہے ،

 قَالَ سَعْدٌفو الله إنِّی لَفِی أَیْدِیهمْ إذْ طَلَعَ عَلَیَّ نَفَرٌ مِنْ قُرَیْشٍ، فِیهِمْ رَجُلٌ وَضِیءٌ أَبْیَضُ، شَعْشَاعٌ، حُلْوٌ مِنْ الرِّجَالِ، قَالَ: فَقُلْتُ فِی نَفْسِی: إنْ یَكُ عِنْدَ أَحَدٍ مِنْ الْقَوْمِ خَیْرٌ، فَعِنْدَ هَذَا قَالَ:فَلَمَّا دَنَا مِنِّی رَفَعَ یَدَهُ فَلَكَمَنِی لَكْمَةً شَدِیدَةً،قَالَ: فَقُلْتُ فِی نَفْسِی: لَا وَاَللَّهِ مَا عِنْدَهُمْ بَعْدَ هَذَا مِنْ خیر،قَالَ: فو الله إنِّی لَفِی أَیْدِیهِمْ یَسْحَبُونَنِی إذْ أَوَى لِی رَجُلٌ مِمَّنْ كَانَ مَعَهُمْ، فَقَالَ وَیْحَكَ! أَمَا بَیْنَكَ وَبَیْنَ أَحَدٍ مِنْ قُرَیْشٍ جِوَارٌ وَلَا عَهْدٌ؟قَالَ: قُلْتُ: بَلَى، وَاَللَّهِ، لَقَدْ كُنْتُ أُجِیرُ لِجُبَیْرِ بْنِ مُطْعِمِ بْنِ عَدِیِّ ابْن نَوْفَلِ بْنِ عَبْدِ مَنَافٍ تِجَارَةً ، وَأَمْنَعُهُمْ مِمَّنْ أَرَادَ ظُلْمَهُمْ بِبِلَادِی، وَلِلْحَارِثِ ابْن حَرْبِ بْنِ أُمَیَّةَ بْنِ عَبْدِ شَمْسِ بْنِ عَبْدِ مَنَافٍ،قَالَ: وَیْحَكَ! فَاهْتِفْ بِاسْمِ الرَّجُلَیْنِ، وَاذْكُرْ مَا بَیْنَكَ وَبَیْنَهُمَاقَالَ: فَفَعَلْتُ

سعد رضی اللہ عنہ بن عبادہ کابیان ہےجب یہ لوگ مجھے مکہ معظمہ میں لئے جارہے تھے کہ قریش کے چندلوگوں کاایک گروہ آیااوراس میں ایک خوب صورت شخص تھاجس کی پیشانی سے خوش اخلاقی ظاہرہوتی تھی ،اس کے ہاتھ چھوٹے چھوٹے تھے،اس کی صورت دیکھ کرمجھے امیدہوئی کہ یہ شخص ضرورمیرے ساتھ نیک سلوک کرے گااوراگراس سے نیک سلوک نہ ہواتوپھرکسی سے ایسی امید نہیں ہوسکتی،مگراس شخص نے آتے ہی مجھے زورسےایک گھونسہ مارا،میں نے اپنے دل میں کہاواللہ !جب ایسے شخص سے بھلائی نہ ہوئی تو اور کسی سے کیاہوگی،اسی حال میں ایک رحمدل مشرک (ابوالبختری بن ہشام)نے ان سے کہااللہ کے بندے کیامکہ میں تیری کسی سے شناسائی نہیں ؟سعد رضی اللہ عنہ بن عبادہ نے جواب دیا مکہ کے دوسوداگرجبیربن مطعم یا مطعم بن عدی اورحارث بن امیہ بن عبدشمس یا حارث بن حرب بن امیہ تجارت کی سلسلے میں یثرب جاتے ہیں اورمیں نے کئی بار ان کے تجارتی قافلوں کوپناہ دی ہے وہ مجھے جانتے ہیں ،میرانام سعد رضی اللہ عنہ بن عبادہ ہے اورمیں قبیلہ خزرج سے تعلق رکھتاہوں ،اس نے کہاان دونوں کانام لے کرزورزورسے پکارو یعنی ان کے ناموں کی دہائی دوچنانچہ سعد رضی اللہ عنہ نے ایساہی کیا،

وَخَرَجَ ذَلِكَ الرَّجُلُ إلَیْهِمَا، فَوَجَدَهُمَا فِی الْمَسْجِدِ عِنْدَ الْكَعْبَةِ، فَقَالَ لَهُمَا: إنَّ رَجُلًا مِنْ الْخَزْرَجِ الْآنَ یُضْرَبُ بِالْأَبْطَحِ وَیَهْتِفُ بِكُمَا، وَیَذْكُرُ أَنَّ بَیْنَهُ وَبَیْنَكُمَا جِوَارًا، قَالَا: وَمَنْ هُوَ؟قَالَ سَعْدُ بْنُ عُبَادَةَ، قَالَا: صَدَقَ وَاَللَّهِ، إنْ كَانَ لَیُجِیرُ لَنَا تِجَارَنَا، وَیَمْنَعُهُمْ أَنْ یُظْلَمُوا بِبَلَدِهِ،الَ: فَجَاءَا فَخَلَّصَا سَعْدًا مِنْ أَیْدِیهِمْ، فَانْطَلَقَ

دوسری طرف ابوالبختری بن ہشام نے ان دونوں کوتلاش کرکے کہاکہ البطع (مکہ اورمنٰی کے درمیان محصب کی وادی کوالبطع کہاجاتاہے)میں خزرج کاایک آدمی بری طرح پیٹاجارہاہے اوروہ تم دونوں کانام لے کردہائی دے رہاہے اورکہتاہے کہ تمہارے اوراس کے درمیان جوارکا تعلق ہے،انہوں نے پوچھااس کانام کیاہے ؟اس نے کہاسعد رضی اللہ عنہ بن عبادہ،وہ بولے غضب ہوگیاسعدبن عبادہ توخزرج کارئیس اعظم ہے ،وہ ہمارے قافلوں کوپناہ دیتارہاہے اوراس نے کبھی کسی کوان پرظلم نہیں کرنے دیا،یہ کہہ کرفوراًالبطع پہنچے اوراحسان کے بدلے سعد رضی اللہ عنہ بن عبادہ کو ظالموں کے پنجہ ستم سے نجات دلائی اور وہ نہایت تیزرفتاری سے اپنے وطن کی طرف روانہ ہوگئے۔[44]

دوسری طرف انصارکوجب اپنے ساتھی سعد رضی اللہ عنہ بن عبادہ کی قریش کے سواروں کے ہاتھوں گرفتاری کی خبرہوئی تووہ بھی آپس میں مشورہ کرنے لگے کہ اپنے ساتھی کو چھڑانے کے لئے کیوں نہ قریش کے سواروں پر دھاوا بول دیاجائے ، اسی اثنامیں سعد رضی اللہ عنہ بن عبادہ انہیں دورسے آتے ہوئے نظر آگئے اوروہ اپنے ارادوں سے بازرہے اور بخیریت واپس یثرب پہنچ گئے۔

قریش کوحقیقی خطرات کااندازہ تھاوہ دارالندوہ میں گھنٹوں سر جوڑکربیٹھے کہ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے سلسلے میں کیاکیاجائے ،اس کی دعوت کوکس طرح ناکام کیا جا سکتاہے ،اب تک تو محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) ہمارے درمیان تھے لیکن ہم عاجزآگئے الٹاہم کوہی نقصان ہی پہنچامگراب تو دوطاقتوارقبائل اوس وخزرج بھی ان کے ساتھ ہیں کیاان کی مددسے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) ہم پرغالب آجائیں گے ،اس کادین مدینہ طیبہ میں پھیل گیاہے کیادوسرے قبائل بھی ان کے دین میں داخل ہوجائیں گے ؟اوراس طرح وہ ہم کومٹادے گا،ہمارے محبوب شہرکو جس سے ہماری عظمت وابستہ ہے مٹادے گاہمارے معبودوں کومسمارکردے گاجبکہ ہم اسی کے لئے برسوں لڑتے اورمقابلہ کرتے رہے ہیں ؟قریش کی دارالندوہ میں اسی سوچ و بچارمیں نشست وبرخاست ہوتی رہی لیکن مسئلہ کاکوئی حل نہ نکل سکا،جبکہ اہل مدینہ کا عالم ہی کچھ اورتھابیعت عقبہ ان کے لئے ایک نئی زندگی کا آغازتھی ،ان کے سینوں میں سکون واطمینان کی ٹھنڈک تھی،ان کے دل اللہ تعالیٰ پریقین واعتمادسے لبریزتھے ،ان کے عزائم میں پختگی آرہی تھی ،وہ اسلام کے پرجوش مجاہدتھے جہاں ہوتے اسلام کانعرہ لگاتے اورجس سے ملتے اس کے سامنے اسلام کے گن گاتے،پھران کی دینی غیرت کو اورجوش آیا،اخلاص ویقین میں اوربرکت ہوئی، گھرگھرانہ کے جولوگ ابھی تک شرک پر سختی سے قائم تھے ان کے بتوں پردست درازی شروع کردی

 فَلَمَّا قَدِمُوا الْمَدِینَةَ أَظْهَرُوا الْإِسْلَامَ بِهَا، وَفِی قَوْمِهِمْ بَقَایَا مِنْ شُیُوخٍ لَهُمْ عَلَى دِینِهِمْ مِنْ الشِّرْكِ مِنْهُمْ عَمْرُو بْنُ الْجَمُوحِ بْنِ زَیْدِ بْنِ حَرَامِ بْنِ كَعْبِ بْنِ غَنْمِ ابْن كَعْبِ بْنِ سَلَمَةَ، وَكَانَ ابْنُهُ مُعَاذُ بْنُ عَمْرٍو شَهِدَ الْعَقَبَةَ، وَبَایَعَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بِهَاوَكَانَ عَمْرُو بْنُ الْجَمُوحِ سَیِّدًا مِنْ سَادَاتِ بَنِی سَلِمَةَ، وَشَرِیفًا مِنْ أَشْرَافِهِمْ،وَكَانَ قَدْ اتَّخَذَ فِی دَارِهِ صَنَمًا مِنْ خَشَبٍ، یُقَالُ لَهُ: مَنَاةُ ، كَمَا كَانَتْ الْأَشْرَافُ یَصْنَعُونَ، تَتَّخِذُهُ إلَهًا تُعَظِّمُهُ وَتُطَهِّرُهُ،

پھرجب یہ لوگ مدینہ منورہ میں آئے توانہوں اسلام کی خوب اشاعت کی اوران کی قوم کےجوجوبوڑھے اورپرانے لوگ تھے انہیں بھی مسلمان کیا ان میں ایک شخص عمروبن الجموع بھی تھا اوران کابیٹامعاذبن عمروعقبہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پربیعت کرآیاتھااور عمروبن الجموع قبیلہ بنی سلمہ کا سرداراوراشراف میں سےتھااور اس نے عبادت کی غرض سے گھرمیں لکڑی کاایک بت بنا رکھا تھا جس کانام مناة تھا اورپورے عرب میں ایساہی قاعدہ تھاوہ مناة کی بڑی تعظیم وتکریم کرتاتھا،اوراس کی مدح میں زمین وآسمان کے قلابے ملایاکرتاتھا

فَلَمَّا أَسْلَمَ فِتْیَانُ بَنِی سَلِمَةَ: مُعَاذُ بْنُ جَبَلٍ، وَابْنُهُ مُعَاذُ بْنُ عَمْرِو (بْنِ الْجَمُوحِ)، فِی فِتْیَانٍ مِنْهُمْ مِمَّنْ أَسْلَمَ وَشَهِدَ الْعَقَبَةَ، كَانُوا یُدْلِجُونَ بِاللَّیْلِ عَلَى صَنَمِ عَمْرٍو ذَلِكَ، فَیَحْمِلُونَهُ فَیَطْرَحُونَهُ فِی بَعْضِ حُفَرِ بَنِی سَلِمَةَوَفِیهَا عِذَرُ النَّاسِ، مُنَكَّسًا عَلَى رَأْسِهِ، فَإِذَا أَصْبَحَ عَمْرٌو، قَالَ: وَیْلَكُمْ! مَنْ عَدَا عَلَى آلِهَتِنَا هَذِهِ اللَّیْلَةَ؟قَالَ:ثُمَّ یَغْدُو یَلْتَمِسُهُ، حَتَّى إذَا وَجَدَهُ غَسَلَهُ وَطَهَّرَهُ وَطَیَّبَهُ، ثُمَّ قَالَ: أَمَا وَاَللَّهِ لَوْ أَعْلَمُ مَنْ فَعَلَ هَذَا بِكَ لَأُخْزِیَنَّهُ

جب اس کی قوم بنی سلمہ کے چندنوجوان جیسے کہ ان کے بیٹے معاذ رضی اللہ عنہ بن عمروبن الجموع اورمعاذبن جبل وغیرہ مسلمان ہوگئےتووہ یہ کرنے لگے کہ جب عمروبن جموع سوجاتے تواس لکڑی کے بت کواٹھاکرلے جاتے اورکسی غلاظت کے گڑھے میں اوندھاڈال کر آگئے،جب صبح کے وقت عمروبن الجموع عبادت کے لئے بت کی جگہ پر پہنچا تو اپنے معبود کو غائب پایا،وہ بڑاگھبرایااورکہنے لگاہمارے معبودپرکس نے زیادتی کی ہے ، اس کے معبودکوکون اٹھا کر لے گیاگیاہے اورادھرادھراس کی تلاش شروع کردی ،آخر تلاش کرتے کرتے وہ چوبچہ پرجاپہنچا جہاں اس کامعبودغلاظت میں لت پت اوندھے منہ پڑاہواتھا،اپنے معبودکی یہ درگت دیکھ کروہ تلملااٹھااور کہنے لگااگرمجھے معلوم ہو جائے کہ یہ حرکت کس نے کی ہے تومیں اسے رسواکن سزادوں گا،پھراسے چوبچہ سے اٹھاکر دوبارہ گھرلے آیا، اسے صاف ستھراکرنے کے لئے غسل دیا،خوشبولگائی اوردوبارہ اسے اس کی جگہ پر رکھ دیا

فَإِذَا أَمْسَى وَنَامَ عَمْرٌو، عَدَوْاعَلَیْهِ، فَفَعَلُوا بِهِ مِثْلَ ذَلِكَ، فَیَغْدُو فَیَجِدُهُ فِی مِثْلِ مَا كَانَ فِیهِ مِنْ الْأَذَى، فَیَغْسِلُهُ وَیُطَهِّرُهُ وَیُطَیِّبُهُ، ثُمَّ یَعْدُونَ عَلَیْهِ إذَا أَمْسَى، فَیَفْعَلُونَ بِهِ مِثْلَ ذَلِكَ. فَلَمَّا أَكْثَرُوا عَلَیْهِ، ثُمَّ قَالَ: إنِّی وَاَللَّهِ مَا أَعْلَمُ مَنْ یَصْنَعُ بِكَ مَا تَرَى، فَإِنْ كَانَ فِیكَ خَیْرٌ فَامْتَنِعْ، فَهَذَا السَّیْفُ مَعَكَ

دوسری رات کوبھی ان نوجوانوں نے یہی عمل دہرایااوربت لے جاکر ایک گھڑے میں پھینک آئے ،عمروبن الجموع نے صبح کوپھر ڈھنڈنکالا اورصاف ستھرا کر کے اس کواس کی جگہ پررکھ دیا،اسی طرح کئی روزگزرگئے اوریہ عمل اسی طرح ہوتا رہا،آخر تنگ آکرعمروبن الجموع،اپنے بت مناة سے کہنے لگاواللہ مجھے نہیں معلوم کہ تمہارے ساتھ کون شخص اس طرح کامعاملہ کررہاہے اگر تیرے میں کچھ بھی طاقت وقوت ہے تو یہ تلوارلو اورجوتیرے ساتھ گستاخی کرتاہے اس کے ٹکڑے ٹکڑے کردو ،یہ کہہ کرتلواراس کے گلے میں ڈال دی اورخودسورہے،

فَلَمَّا أَمْسَى وَنَامَ عَمْرٌو، عَدَوْا عَلَیْهِ، فَأَخَذُوا السَّیْفَ مِنْ عُنُقِهِ، ثُمَّ أَخَذُوا كَلْبًا مَیِّتًا فَقَرَنُوهُ بِهِ بِحَبْلِ، ثُمَّ أَلْقَوْهُ فِی بِئْرٍ مِنْ آبَارِ بَنِی سَلِمَةَ، فِیهَا عِذَرٌ مِنْ عِذَرِ النَّاسِ، ثُمَّ غَدَا عَمْرُو بْنُ الْجَمُوحِ فَلَمْ یَجِدْهُ فِی مَكَانِهِ الَّذِی كَانَ بِهِ،فَخَرَجَ یَتْبَعُهُ حَتَّى وَجَدَهُ فِی تِلْكَ الْبِئْرِ مُنَكَّسًا مَقْرُونًا بِكَلْبِ مَیِّتٍ،فَلَمَّا رَآهُ وَأَبْصَرَ شَأْنَهُ وَكَلَّمَهُ مَنْ أَسْلَمَ مِنْ (رِجَالِ) قَوْمِهِ، فَأَسْلَمَ بِرَحْمَةِ اللَّهِ، وَحَسُنَ إسْلَامُهُ،فَقَالَ حِینَ أَسْلَمَ وَعَرَفَ مِنْ اللَّهِ مَا عَرَفَ، وَهُوَ یَذْكُرُ صَنَمَهُ ذَلِكَ وَمَا أَبْصَرَ مِنْ أَمْرِهِ، وَیَشْكُرُ اللَّهَ تَعَالَى الَّذِی أَنْقَذَهُ مِمَّا كَانَ فِیهِ مِنْ الْعَمَى وَالضَّلَالَةِ

جب عمروسوگئے توان مجاہدین نے رات کوموقعہ پاکرتلوارتواٹھالی اوراس بت کو مرے ہوئے کتے کے ساتھ باندھ کر ایک پرانے کنوئیں میں جس میں لوگوں کی نجاستیں ڈالی جاتی تھیں اس بت کواوندھاپھینک آئے، صبح کوحسب معمول عمروبن الجموع اٹھے تو پھراپنے بت کوغائب پایا،توانہوں نے پھر اپنے معبودکی تلاش شروع کی اوراسے مرے ہوئے کتے کے ساتھ بندھے ہوئے ایک گھڑے میں غلاظت سے لتھڑا ہوالٹکتاہواپایا،اپنے معبودکی یہ ذلت دیکھی تواس کی آنکھیں کھل گئیں ،اوران کی قوم کے لوگوں نے بھی ان کواسلام کی ترغیب دی کہ اتنے حقیروبے بس معبود پرلعنت کیوں نہیں بھیجتے ؟اوراللہ اوراس کے رسول پرایمان کیوں نہیں لاتے ؟اس مسلمان کے جملے نے گرم لوہے پرچوٹ کاکام کیا،آخر وہ سوچنے پرمجبورہوگیا کہ جن کوہم نے اپنامعبود بنایا ہواہے وہ کتنابے بس اورحقیرہے جوخوداپنے نفع ونقصان پرقادرنہیں ،جوخوداپنی حفاظت نہیں کر سکتا وہ ہماری کیادادرسی کرے گا،اس طرح اس کی عقل سے پردے ہٹ گئے اوراللہ کی رحمت سے دین اسلام میں داخل ہوگیااوراس کااسلام بہت اچھارہا، پھرانہوں نے گمراہی سے نکلنے اورشاہراہ ہدایت پرآنے کا اللہ تعالیٰ کاشکراداکیا۔[45]

منکرروایت ہے۔[46]

جب غزوہ بدرپیش آیاتو عمروبن جموع رضی اللہ عنہ اپنے فرزندوں کے ساتھ اس میں شریک ہوئے اوربہت بہادری سے لڑے ،اس لڑائی میں فرعون ملت ابوجہل کوجن دوبچوں نے قتل کیاان میں ایک کانام معاذ رضی اللہ عنہ تھایہ عمرو رضی اللہ عنہ ہی کے بیٹے تھے ،آپ بہت سادہ مزاج اورسخی تھے،

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: یَا بَنِی سَلِمَةَ مَنْ سَیِّدُكُمَ الْیَوْمَ؟ وَفِی رِوَایَةِ الْفَقِیهِ: مَنْ سَیِّدُكُمْ یَا بَنِی سَلِمَةَ؟ قَالُوا: الْجَدُّ بْنُ قَیْسٍ، وَلَكِنَّا نُبَخِّلُهُ. قَالَ:أَیُّ دَاءٍ أَدْوَى مِنَ الْبُخْلِ؟ وَلَكِنَّ سَیِّدَكُمْ عَمْرُو بْنُ الْجَمُوح

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےایک مرتبہ بنوسلمہ کے کچھ لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضرہوئے ،آپ نے ان سے پوچھاتمہاراسردارکون ہے؟انہوں نے بتایااے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! ہمارا سردارجدبن قیس ہے اوروہ ایک بخیل آدمی ہے،اس پرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایابخیلی سے بدتر تو کوئی بات نہیں ، آج سے تمہارے سردار عمروبن جموع رضی اللہ عنہ ہیں ۔[47]

اسی روزوہ بنوسلمہ کے رئیس بن گئے ،لوگ انہیں سیدالانصارکہنے لگے،بنوسلمہ کوان کے سردار بننے پربہت خوشی ہوئی ،اللہ ان پررحمتیں نازل فرمائے ،آمین۔

اس طرح مدینہ منورہ کی فضابالکل تیارہوگئی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ آجائیں توانہیں سرآنکھوں پر بٹھائیں ،مسلمان آئیں تو ہاتھوں ہاتھ لیئے جائیں اوروہاں ایک نئے دورکاآغازہوسکے۔

[1] ابن ہشام۴۳۹؍۱،الروض الانف۶۶؍۴،السیرة النبویة لابن کثیر۱۹۲؍۲

[2] مسند احمد ۱۵۷۹۸،تاریخ طبری۳۶۱؍۲ ،ابن ہشام۴۴۱؍۱،الروض الانف ۶۹؍۴،عیون الآثر۱۹۰؍۱،البدایة والنہایة۱۹۴؍۳،السیرة النبویة لابن کثیر ۱۹۴؍۲

[3] ابن سعد۷؍۴

[4] الھجرة النبویة المبارکة للدکتورعبدالرحمٰن البرصفحہ ۶۷

[5] ابن سعد۵؍۴

[6] ابن ہشام۴۳۹؍۱

[7] التربیة القیادیة للدکورالغضبان۱۰۹؍۲

[8] مستدرک حاکم۴۲۵۱

[9] مسند احمد۱۷۰۷۸، دلائل النبوة للبیہقی۴۵۰؍۲

[10] ابن ہشام۴۴۱؍۱،الروض الانف۷۱؍۴،عیون الآثر۱۹۰؍۱،تاریخ طبری ۳۶۲؍۲، البدایة والنہایة۱۹۵؍۳،السیرة النبویة لابن کثیر۱۹۷؍۲

[11] ابن سعد ۱۷۲؍۱

[12]تاریخ الخمیس۳۱۸؍۱

[13] ابن سعد۱۷۲؍۱

[14] ابن ہشام۴۴۲؍۱،تاریخ طبری۳۶۲؍۲،الروض الانف۷۲؍۴،عیون الآثر۱۹۱؍۱، مسنداحمد۱۵۷۹۸

[15] ابن ہشام۴۵۴؍۱

[16] ۔مسنداحمد۱۴۴۵۶،مستدرک حاکم ۴۲۵۱،السنن الکبری للبیہقی ۱۷۷۳۵،دلائل النبوة للبیہقی ۴۴۲؍۲، البدایة والنہایة ۱۹۴؍۳

[17] تاریخ طبری۳۶۲؍۲،ابن ہشام۴۴۲؍۱،الروض الانف۷۲؍۴،البدایة والنہایة۱۹۶؍۳، مسند احمد ۱۵۷۹۸

[18] مسنداحمد۱۴۴۵۶، مستدرک حاکم۴۲۵۱ ، دلائل النبوة للبیہقی ۴۴۲؍۲،السنن الکبری للبیہقی ۱۷۷۳۵، عیون الآثر ۱۹۲؍۱،البدایة والنہایة ۱۹۴؍۳

[19] مسنداحمد۱۵۷۹۸،تاریخ طبری ۳۶۳؍۲،ابن ہشام۴۴۲؍۱، الروض الانف ۷۳؍۴، عیون الاثر۱۹۱؍۱

[20] ابن سعد۱۷۲؍۱

[21] ابن ہشام۴۴۷؍۱،الروض الانف۷۷؍۴،تاریخ طبری۳۶۳؍۲، البدایة والنہایة۱۹۸؍۳

[22] تاریخ طبری۳۶۳؍۲،ابن ہشام۴۴۶؍۱،الروض الانف۷۷؍۴، البدایة والنہایة۱۹۸؍۳، فی ظلال القرآن ۳۰؍۱، السیرة الحلبیة ۲۲؍۲

[23] التوبة ۱۱۱

[24] ابن سعد۶؍۴،شرح الزرقانی علی المواھب ۸۷؍۲، السیرة النبویة على ضوء القرآن والسنة۴۵۱؍۱

[25] ابن ہشام۴۴۷؍۱،الروض الانف۷۸؍۴،البدایة والنہایة۱۹۸؍۳

[26] الموسوعة فی صحیح السیرة النبویة ۴۹۱؍۱،ابن سعد۱۷۱؍۱

[27] مسنداحمد۱۴۶۵۳،مستدرک حاکم ۴۲۵۱، السنن الکبری للبیہقی ۱۷۷۳۵،دلائل النبوة للبیہقی۴۴۲؍۲

[28] ابن ہشام ۴۶۶؍۱ ،الروض الانف۹۸؍۴

[29] صحیح بخاری كِتَابُ الطَّلاَقِ بَابُ إِذَا أَسْلَمَتِ المُشْرِكَةُ أَوِ النَّصْرَانِیَّةُ تَحْتَ الذِّمِّیِّ أَوِ الحَرْبِیِّ ۵۲۸۸، صحیح مسلم كِتَابُ الْإِمَارَةِ بَابُ كَیْفِیَّةِ بَیْعَةِ النِّسَاء۴۸۳۴،مسند احمد۲۶۳۲۶

[30] المعجم الکبیر للطبرانی ۴۱۷،۴۳۷، ابن سعد۸؍۸

[31] سنن ابن ماجہ كِتَابُ الْجِهَادِ بَابُ بَیْعَةِ النِّسَاءِ۲۸۷۴

[32] ابن سعد۱۷۴؍۱

[33] الروض الانف۷۶؍۴

[34] دلائل النبوة للبیہقی۴۴۴؍۲،المعجم الکبیرللطبرانی۱۷۴

[35] ابن ہشام۴۴۳؍۱

[36] معرفة الصحابة لابی نعیم۸۷۵،۲۵۸؍۱

[37] ابن ہشام۴۴۶؍۱،الروض الانف۷۶؍۴،تاریخ طبری۳۶۳؍۲،البدایة والنہایة۱۹۸؍۳،ابن سعد۴۵۲؍۳

[38] البدایة والنہایة ۲۰۰؍۳، تاریخ طبری ۳۶۴؍۲،الروض الانف ۷۸؍۴،ابن ہشام ۴۴۷؍۱، زادالمعاد۴۳،۴۴؍۳، مسند احمد ۱۵۷۹۸

[39] السیرة الحلبیة۲۴؍۲

[40] ابن ہشام ۴۴۷؍۱، الروض الانف ۷۹؍۴،تاریخ طبری۳۶۵؍۲،البدیة والنہایة۲۰۰؍۳،ابن سعد۱۷۳؍۱

[41] ابن ہشام۴۴۸؍۱ ،الروض الانف ۸۰؍۴،تاریخ طبری ۳۶۵؍۲،البدیة والنہایة۲۰۰؍۳،ابن سعد۱۷۳؍۱

[42] ابن ہشام۴۴۸؍۱، الروض الانف ۸۰؍۴،تاریخ طبری ۳۶۵؍۲،البدایة والنہایة۲۰۰؍۳

[43] السیرة الحلبیة۲۴؍۲

[44] ابن ہشام ۴۴۹؍۱،الروض الانف ۸۱؍۴،البدایة والنہایة۲۰۱؍۳،السیرة النبویة لابن کثیر۲۰۶؍۲

[45] ابن ہشام۴۵۲؍۱،الروض الانف۸۵؍۴،عیون الآثر۱۹۳؍۱،البدایة والنہایة۲۰۲؍۳

[46] مشہورواقعات کی حقیقت۱۵۳

[47] شعب الایمان ۱۰۳۵۸،المعجم الاوسط للطبرانی۳۶۵۰

Related Articles