بعثت نبوی کا تیرهواں سال

سراقہ بن جعشم کاتعاقب

امام زہری رحمہ اللہ دوسرے حضرات سے نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں مجھے عبدالرحمان بن مالک بن المدلجی نے جوسراقہ رضی اللہ عنہ بن مالک کے بھتیجے تھے بتایاہے کہ انہوں نے اپنے والد سے سنااورانہوں نے اپنے بھائی سراقہ رضی اللہ عنہ سے وہ فرماتے ہیں

جَاءَنَا رُسُلُ كُفَّارِ قُرَیْشٍ، یَجْعَلُونَ فِی رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَأَبِی بَكْرٍ، دِیَةَ كُلِّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا، مَنْ قَتَلَهُ أَوْ أَسَرَهُ، فَبَیْنَمَا أَنَا جَالِسٌ فِی مَجْلِسٍ مِنْ مَجَالِسِ قَوْمِی بَنِی مُدْلِجٍ، أَقْبَلَ رَجُلٌ مِنْهُمْ، حَتَّى قَامَ عَلَیْنَا وَنَحْنُ جُلُوسٌ، فَقَالَ یَا سُرَاقَةُ: إِنِّی قَدْ رَأَیْتُ آنِفًا أَسْوِدَةً بِالسَّاحِلِ، أُرَاهَا مُحَمَّدًا وَأَصْحَابَهُ،قَالَ سُرَاقَةُ: فَعَرَفْتُ أَنَّهُمْ هُمْ، فَقُلْتُ لَهُ: إِنَّهُمْ لَیْسُوا بِهِمْ، وَلَكِنَّكَ رَأَیْتَ فُلاَنًا وَفُلاَنًا، انْطَلَقُوا بِأَعْیُنِنَا، ثُمَّ لَبِثْتُ فِی المَجْلِسِ سَاعَةً، ثُمَّ قُمْتُ فَدَخَلْتُ فَأَمَرْتُ جَارِیَتِی أَنْ تَخْرُجَ بِفَرَسِی، وَهِیَ مِنْ وَرَاءِ أَكَمَةٍ

ہمارے پاس قریش کے قاصدآئے اورپیش کش کی کہ جوشخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اورسیدناابوبکر رضی اللہ عنہ کوقتل کردے گایاانہیں زندہ گرفتار کرکے لے آئے گاتواسے ہرایک کے بدلے ایک سواونٹ بطورانعام دیئے جائیں گے، سراقہ رضی اللہ عنہ بن مالک کہتے ہیں میں اس وقت اپنی قوم بنومدلج کی ایک مجلس میں بیٹھا ہوا تھا کہ ان کاایک آدمی سامنے آیااورہمارے قریب کھڑاہوگیا،ہم ابھی بیٹھے ہوئے تھے اس نے کہااے سراقہ رضی اللہ عنہ !بیشک میں نے ابھی چندلوگوں کوساحل پردیکھاہے میں سمجھتاہوں کہ وہ محمد( صلی اللہ علیہ وسلم )اوران کے ساتھی ہیں ،سراقہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں سمجھ توگیاکہ یہ وہی ہیں لیکن میں نے اس سے کہہ دیاکہ یہ وہ نہیں ہیں بلکہ تم نے فلاں فلاں شخص کو دیکھا ہوگاوہ ابھی ہمارے پاس سے گزرے ہیں ،اس کے بعدمیں کچھ دیراپنی مجلس میں بیٹھا رہا پھروہاں سے اٹھ کر اپنے مکان میں داخل ہوااور اپنی لونڈی کوحکم دیاکہ میرے گھوڑے (عوذ)لیکرباہرجائے اورٹیلے کے پیچھے اسے لے کرکھڑی ہو جائے اوروہیں میرا انتظار کرے،

وَأَخَذْتُ رُمْحِی، فَخَرَجْتُ بِهِ مِنْ ظَهْرِ البَیْتِ، فَحَطَطْتُ بِزُجِّهِ الأَرْضَ، وَخَفَضْتُ عَالِیَهُ،حَتَّى أَتَیْتُ فَرَسِی فَرَكِبْتُهَا، فَرَفَعْتُهَا تُقَرِّبُ بِی، حَتَّى دَنَوْتُ مِنْهُمْ، فَعَثَرَتْ بِی فَرَسِی،فَاسْتَخْرَجْتُ مِنْهَا الأَزْلاَمَ فَاسْتَقْسَمْتُ بِهَا: أَضُرُّهُمْ أَمْ لاَ،فَخَرَجَ الَّذِی أَكْرَهُ، فَرَكِبْتُ فَرَسِی، وَعَصَیْتُ الأَزْلاَمَ، تُقَرِّبُ بِی حَتَّى إِذَا سَمِعْتُ قِرَاءَةَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، وَهُوَ لاَ یَلْتَفِتُ، وَأَبُو بَكْرٍ یُكْثِرُ الِالْتِفَاتَ، فَقُلْتُ: أُتِینَا یَا رَسُولَ اللَّهِ، فَقَالَ:لاَ تَحْزَنْ إِنَّ اللَّهَ مَعَنَا

اس کے بعدمیں نے اپنانیزہ اٹھایااورگھرکی پشت کی طرف سے باہرنکل آیا،میں نیزے کی نوک سے زمین پرلکیرکھینچتاہواچلاگیااوراوپرکے حصے کوچھپائے ہوئے تھا (سراقہ رضی اللہ عنہ یہ سب کچھ اس لئے کررہاتھاکہ کسی کوخبرنہ ہوورنہ وہ بھی میرے انعام میں شریک ہوجائے گا)میں گھوڑے کے پاس آکراس پرسوارہوا پہنچے اورصبارفتاری کے ساتھ اسے لے چلاجتنی جلدی کے ساتھ بھی میرے لئے ممکن تھا ،آخرمیں نے ان کو( مقام قدیہ پر)پاہی لیا ،اسی وقت گھوڑے نے ٹھوکر کھائی اورمجھے زمین پرگرا،لیکن میں کھڑاہوگیااوراپناہاتھ ترکش کی طرف بڑھایااس میں سے تیرنکال کر فال نکالی کہ آیامیں انہیں نقصان پہنچاسکتاہوں یا نہیں ،فال(اب بھی) وہ نکلی جسے میں پسندنہیں کرتا تھا ، لیکن میں دوبارہ اپنے گھوڑے پرسوارہوگیا اورتیروں کےفال کی پرواہ نہ کی،پھرمیرا گھوڑامجھے تیزی کے ساتھ دوڑائے لئے جارہاتھا،آخرمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اتناقریب پہنچ گیاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قرات سنائی دینے لگی ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میری طرف کوئی توجہ نہیں کررہے تھے لیکن سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ مستعدی سے چاروں اطراف دیکھتے جارہے تھے،انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیاکہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! یہ سوارہمارے قریب آگیاہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاڈرونہیں اللہ ہمارے ساتھ ہے،

فَدَعَا عَلَیْهِ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، سَاخَتْ یَدَا فَرَسِی فِی الأَرْضِ، حَتَّى بَلَغَتَا الرُّكْبَتَیْنِ، فَخَرَرْتُ عَنْهَا، ثُمَّ زَجَرْتُهَا فَنَهَضَتْ، فَلَمْ تَكَدْ تُخْرِجُ یَدَیْهَا،فَلَمَّا اسْتَوَتْ قَائِمَةً، إِذَا لِأَثَرِ یَدَیْهَا عُثَانٌ سَاطِعٌ فِی السَّمَاءِ مِثْلُ الدُّخَانِ، فَاسْتَقْسَمْتُ بِالأَزْلاَمِ، فَخَرَجَ الَّذِی أَكْرَهُ، فَنَادَیْتُهُمْ بِالأَمَانِ،فَوَقَفُوا، فَرَكِبْتُ فَرَسِی حَتَّى جِئْتُهُمْ، وَوَقَعَ فِی نَفْسِی حِینَ لَقِیتُ مَا لَقِیتُ مِنَ الحَبْسِ عَنْهُمْ، أَنْ سَیَظْهَرُ أَمْرُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ

یہ کہہ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پیچھے مڑکردیکھا اور اس کے لئے بددعاکی، سراقہ رضی اللہ عنہ کے گھوڑے کے اگلے دونوں پاؤں گھٹنوں تک زمین میں دھنس گئے تومیں اس پر سے گر پڑااوراسے اٹھنے کے لئے ڈانٹا،میں نے اسے اٹھانے کی کوشش کی لیکن وہ اپنے پاؤں زمین سے نہیں نکال سکا،بڑی مشکل سے جب اس نے پوری طرح کھڑے ہونے کی کوشش کی تواس کے آگے کے پاؤں سےمنتشرساغباراٹھ کردھوئیں کی طرح آسمان کی طرف چڑھنے لگا،میں نے تیروں سے فال نکالی لیکن اس مرتبہ بھی وہی فال نکلی جسے میں پسندنہیں کرتاتھا،اس وقت میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوامان کے لئے پکارا،میری آوازپر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اورآپ کے ساتھی ٹھہر گئےاورمیں اپنے گھوڑے پرسوارہوکران کے پاس آیاان تک برے ارادے کے ساتھ پہنچنے سے جس طرح مجھے روک دیاگیاتھااسی سے مجھے یقین ہوگیاتھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت غالب ہوکررہے گی،

فَقُلْتُ لَهُ: إِنَّ قَوْمَكَ قَدْ جَعَلُوا فِیكَ الدِّیَةَ، وَأَخْبَرْتُهُمْ أَخْبَارَ مَا یُرِیدُ النَّاسُ بِهِمْ، وَعَرَضْتُ عَلَیْهِمُ الزَّادَ وَالمَتَاعَ، فَلَمْ یَرْزَآنِی وَلَمْ یَسْأَلاَنِی إِلَّا أَنْ قَالَ:أَخْفِ عَنَّا، فَسَأَلْتُهُ أَنْ یَكْتُبَ لِی كِتَابَ أَمْنٍ، فَأَمَرَ عَامِرَ بْنَ فُهَیْرَةَ فَكَتَبَ فِی رُقْعَةٍ مِنْ أَدِیمٍ،ثُمَّ مَضَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ

اس لئے میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیاکہ آپ کی قوم نے آپ کومارنے کے لئے سواونٹوں کے انعام کااعلان کیاہے اور آپ کوقریش کے ارادوں کی اطلاع دی ،میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں کچھ توشہ اورسامان پیش کیالیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے قبول نہیں فرمایااورمجھ سے کسی اورچیزکابھی مطالبہ نہیں کیاصرف اتناکہاکہ ہمارے متعلق رازداری سے کام لینا،لیکن میں نے عرض کی کہ آپ میرے لئے ایک پروانہ امن تحریرکردیں ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عامر رضی اللہ عنہ بن فہیرہ کوحکم دیاانہوں نے چمڑے کے ایک رقعہ پر تحریر امن لکھ دی، اس کے بعدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آگے بڑھے۔[1]

ارْجِعُوا فَقَدِ اسْتَبْرَأْتُ لَكُمْ مَا هَهُنَا وَقَدْ عَرَفْتُمْ بَصَرِی بِالأَثَرِ. فَرَجَعُوا عَنْه

پھروہ واپس چلے گئے ،انہوں نے لوگوں کورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تلاش میں پایاتوکہاواپس لوٹ چلومیں تمہاری براء ت چاہ لوں گاکہ یہاں کوئی نہیں ہے تم لوگ نقش قدم میں میری مہارت کوجانتے ہو،چنانچہ سب لوگ واپس لوٹ گئے۔[2]

فَكَانَ أَوَّلَ النَّهَارِ جَاهِدًا عَلَى نَبِیِّ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، وَكَانَ آخِرَ النَّهَارِ مَسْلَحَةً لَهُ

اس طرح سراقہ رضی اللہ عنہ بن مالک جو دن کے اول حصہ میں دشمن تھے اوران دونوں کوپھنسانے کے لئے کوشاں تھے دن کے آخری حصہ میں پہریداراورمحافظ بن گئے۔[3]

جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم غزوہ حنین اورطائف سے واپس تشریف لائے

ثُمَّ قُلْتُ: یَا رَسُولَ اللَّهِ، هَذَا كِتَابُكَ (لِی) ، أَنَا سُرَاقَةُ بْنُ جُعْشُمٍ،فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: یَوْمُ وَفَاءٍ وَبِرٍّ، ادْنُهْ

توانہوں نے یہ امان نامہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کیااورکہامیں سراقہ بن جعشم ہوں ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھ کر فرمایایہ ایفائے عہداوروفاشعاری کادن ہے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے اپنا وعدہ پورا فرمایا۔[4]

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ اورابن عبدالبر رحمہ اللہ نے ایک روایت نقل کی ہے

أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لِسُرَاقَةَ بْنِ مَالِكٍ: كَیْفَ بِكَ إِذَا لَبِسْتَ سِوَارَیْ كِسْرَى؟ قَالَ: فَلَمَّا أُتِیَ عُمَرُ بِسِوَارَیْ كِسْرَى وَمِنْطَقَتِهِ وَتَاجِهِ دَعَا سُرَاقَةَ بْنَ مَالِكٍ فَأَلْبَسَهُ إِیَّاهُمَا، وَكَانَ سُرَاقَةُ رَجُلا أَزَبَّ كَثِیرَ شَعْرِ السَّاعِدَیْنِ،وَقَالَ لَهُ: ارْفَعْ یَدَیْكَ،فَقَالَ: اللَّهُ أَكْبَرُ، الْحَمْدُ للَّه الَّذِی سلبهما كسرى ابن هُرْمُزَ الَّذِی كَانَ یَقُولُ: أَنَا رَبُّ النَّاسِ، وَأَلْبَسَهُمَا سُرَاقَةَ بْنَ مَالِكِ بْنِ جُعْشُمٍ أَعْرَابِیٌّ رَجُلٌ مِنْ بَنِی مُدْلِجٍ، وَرَفَعَ بِهَا عُمَرُ صَوْتَهُ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سراقہ سے فرمایاتھااس وقت تمہاری کیاکیفیت ہوگی جب تمہیں کسریٰ کے کنگن پہنائے جائیں گے؟جب سیدناعمر رضی اللہ عنہ کے پاس (فتح ایران کے بعد) کسریٰ کے کنگن ،پیٹی اورتاج لائے گئے توانہوں نے سراقہ کوبلایااورانہیں وہ کنگن پہنائے،سراقہ گھنے بالوں والے تھے ،بازوؤں پربھی گھنے بال تھےسیدناعمر رضی اللہ عنہ نے انہیں فرمایاہاتھ اونچے کرو، پھربآوازبلندفرمایااللہ اکبر!تعریف اس اللہ کی جس نے یہ کنگن شاہ کسریٰ کے ہاتھوں سے اتارے جواپنے آپ کولوگوں کارب کہتاتھااوربنومدلج کے اعرابی سراقہ بن مالک بن جعشم کوپہنادیئے۔[5]

لَمَّا هَاجَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مِنْ مَكَّةَ إِلَى الْمَدِینَةِ فَانْتَهَى إِلَى الْغَیَمِ أَتَاهُ بُرَیْدَةُ بْنُ الْحُصَیْبِ فَدَعَاهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ إِلَى الإِسْلامِ فَأَسْلَمَ هُوَ وَمَنْ مَعَهُ. وَكَانُوا زُهَاءَ ثَمَانِینَ بَیْتًا. فَصَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ العشاء فصلوا خلفه ،انه لما جعلت قریش مائة من الابل ان أخذ النبىّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ ویردّه علیهم حین توجه الى المدینة سمع بریدة بذلك فحمله الطمع على الخروج لقصده صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فركب فى سبعین من أهل بیته من بنى سهم فتلقى رَسُولَ اللَّه

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سراقہ رضی اللہ عنہ کوپروانہ امن عنایت فرماکروہاں سے روانہ ہوئے ،جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت فرمائی توراستے میں غمیم کے مقام پربریدہ بن حصیب ملے وہ اپنی قوم کے سردارتھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اورسیدناابوبکر رضی اللہ عنہ کی تلاش میں نکلے تھے تاکہ قریش کااعلان کردہ انعام حاصل کرسکیں ، جب قریش نے یہ اعلان کیاکہ جوشخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو گرفتار کرکے لائے گااسے ایک سواونٹ انعام میں دیئے جائیں گے توآپ صلی اللہ علیہ وسلم کوگرفتارکرنے کے لئے اپنی قوم بنی سہم کے سترلوگوں کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کوگرفتارکرنے کے لئےنکلے اورراستے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جا لیا۔[6]

فَدَعَاهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ إِلَى الإِسْلامِ فَأَسْلَمَ هُوَ وَمَنْ مَعَهُ. وَكَانُوا زُهَاءَ ثَمَانِینَ بَیْتًا. فَصَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ العشاء فصلوا خلفه.

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں دعوت اسلام پیش کی تووہ اپنی قوم کے ستریااسی گھرانوں سمیت مسلمان ہوگئے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عشاکی نماز ادافرمائی توانہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امامت میں نمازاداکی۔[7]

فلما أصبح قال بریدة یا رَسُولَ اللَّه لا تدخل المدینة الا معك لواء فحل عمامته ثم شدّها فى رمح ثم مشى بین یدیه حتى دخلوا المدینة

بریدہ رضی اللہ عنہ نے رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بسرکی ،صبح ہوئی توبریدہ رضی اللہ عنہ نے عرض کیااے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !آپ مدینہ منورہ میں داخل ہوں تو اس وقت آپ کے پاس اپناجھنڈاضرورہوناچاہیے،پھرانہوں نے اپنی پگڑی ایک نیزے سے باندھی اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم کے آگے آگے چلناشروع کردیااس شان کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ میں داخل ہوئے۔[8]

قَالَ ابْنُ شِهَابٍ، فَأَخْبَرَنِی عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَیْرِ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ لَقِیَ الزُّبَیْرَ فِی رَكْبٍ مِنَ المُسْلِمِینَ، كَانُوا تِجَارًا قَافِلِینَ مِنَ الشَّأْمِ، فَكَسَا الزُّبَیْرُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَأَبَا بَكْرٍ ثِیَابَ بَیَاضٍ

امام زہری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ مجھ سے عروة بن الزبیرنے بیان کیااثنائے راہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو زبیرمع چند مسلم تاجروں کے ملک شام سے آتے ہوئے ملے(عروہ ان ہی زبیر رضی اللہ عنہ کے صاحبزادے ہیں اورزبیر رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پھوپھی ذادبھائی اورسیدناابوبکر رضی اللہ عنہ کے دامادہیں ان کے نکاح میں عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی بڑی بہن اسماء رضی اللہ عنہا ،اس رشتہ سے سیدناابوبکر رضی اللہ عنہ عروہ کے نانااورام المومنین خالہ ہیں ) زبیر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کوپہننے کے لئے سفید کپڑے پیش کئے۔[9]

فلبس منها النبی صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وأبو بكر

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اورسیدناابوبکر رضی اللہ عنہ نےوہ کپڑے پہن لئے۔[10]

xصحیح بخاری کی اس روایت سے کئی امورخودبخودثابت ہوگئے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت رات کے وقت اپنے گھرسے نہیں فرمائی تھی بلکہ ہجرت سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے گھرسے عین دوپہر کے وقت ہوئی اوراس رازمیں سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے گھرانہ کے علاوہ کوئی اورفردشریک نہیں تھا ۔

xہجرت سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے گھرسے ہوئی لہذاسیدنا علی رضی اللہ عنہ کوبسترپرلٹانے اورقتل کے خوف کی کہانی سب بے سروپاداستان ہے۔

xکیونکہ یہ ہجرت عین دوپہرکے وقت ہوئی ہے نہ کہ رات کے وقت بلکہ ہوایہ کہ ادھررسول اللہ کوہجرت کاحکم ہوااورفوراًآپ صلی اللہ علیہ وسلم عین دوپہرکے وقت سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے گھر تشریف لے گئے اور ہجرت فرمائی کئی روز قبل سے کوئی منصوبہ بندی نہیں ہوئی تھی۔

xیہ دعوی بھی غلط ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سیدناابوبکر رضی اللہ عنہ کے گھردودفعہ تشریف لے گئے ایک باردن اورایک بارشب میں اوریہ بھی غلط ہے کہ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے گھردوتین روزقبل گئے تھے اوراسی وقت زاد راہ لے آئے تھے،زادراہ صرف اسماء رضی اللہ عنہا نے ہی اکیلے تیارنہیں کیاتھابلکہ ام المومنین فرمارہی ہیں ہم نے جلدی جلدی سامان سفرتیارکیایعنی اس تیاری میں ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بھی برابرکی شریک تھیں ۔

xرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوقتل کے منصوبے کاعلم سراقہ کی زبانی ہواجواس بات کاثبوت ہے کہ قریش کاپہلے سے قتل کاکوئی منصوبہ نہ تھابلکہ جب آپ نے مکہ مکرمہ سے ہجرت فرمالی تواب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں قتل یاگرفتاری کے دوفیصلے کیے گئے۔

xیہ فیصلے صرف رسول اللہ کی ذات کے لئے نہ تھے بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اورسیدنا ابوبکردونوں کے لئے تھے گویایہ دونوں حضرات لازم وملزوم تھے،ان دونوں کے علاوہ کسی کے قتل یاگرفتاری کاکوئی فیصلہ نہ تھاجوکسی کے لئے خطرہ کاباعث ہوتا۔

xیہ تمام سفراوراس کی تیاری سب کی سب سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ اوران کے گھرانہ کی مرہون منت تھی اوراس فضیلت میں سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ اوران کے گھرانے کے علاوہ کوئی دوسرا فرد ہرگز شریک نہ تھا۔

xیہ پہلا پروانہ امن تھاجوسیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے غلام عامر رضی اللہ عنہ بن فہیرہ نے سراقہ رضی اللہ عنہ کے لئے تحریرکیا۔

[1] صحیح بخاری کتاب مناقب الانصاربَابُ هِجْرَةِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَأَصْحَابِهِ  إِلَى المَدِینَةِ۳۹۰۶ ، وکتاب المناقب بَابُ عَلاَمَاتِ النُّبُوَّةِ فِی الإِسْلاَمِ ۳۶۱۵

[2]ابن سعد۱۷۹؍۱

[3] صحیح بخاری کتاب مَنَاقِبِ الأَنْصَارِ بَابُ هِجْرَةِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَأَصْحَابِهِ إِلَى المَدِینَةِ۳۹۱۱

[4] ابن ہشام۴۹۰؍۱

[5]۔الاستیعاب فی معرفة الأصحاب۵۸۱؍۲،الإصابة فی تمییز الصحابة۳۵؍۳

[6] تاریخ الخمیس۳۳۵؍۱

[7] ابن سعد۱۸۲؍۴،الاستیعاب فی معرفة الاصحاب۱۸۵؍۱،اسدالغابة۳۸۷؍۱،الإصابة فی تمییز الصحابة ۴۱۸؍۱

[8] تاریخ الخمیس۳۳۵؍۱

[9]صحیح بخاری كتاب مناقب الأنصار بَابُ هِجْرَةِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَأَصْحَابِهِ إِلَى المَدِینَةِ ۳۹۰۶

[10] وفاء الوفاء بأخبار دار المصطفى۱۹۰؍۱

Related Articles