بعثت نبوی کا تیرهواں سال

سعید رضی اللہ عنہ بن العاص

سعید رضی اللہ عنہ بن عاص کاشماران صغارصحابہ میں ہوتاہے جواپنی بعض خصوصیات ،خدادصلاحیتوں اورکارناموں کی بدولت ناموری اورشہرت کے آسمان پرآفتاب بن کر چمکے ، سعید رضی اللہ عنہ کا تعلق بنوامیہ سے تھااوران کے آباؤاجدادبڑے بااثراورذی وجاہت رئیس تھے

وكان جده أَبُو أحیحة، إذا اعتم بمكة لا یعتم أحد بلون عمامته، إعظامًا له،وكان یقال له: ذو التاج

سعید رضی اللہ عنہ کے داداابواحیحہ سعید رضی اللہ عنہ بن عاص کے رعب اوردبدبہ کایہ عالم تھاکہ وہ جس رنگ کاعمامہ باندھتاتھامکہ مکرمہ میں کوئی دوسراشخص اس رنگ کاعمامہ نہیں باندھ سکتاتھا،اہل مکہ نے اس شخص کوذوالتاج (تاج والا)کالقب دے رکھاتھا۔[1]

ابوحیحہ سعیدبن عاص ذوالتاج کی اولادمیں اس کی پانچ بیٹوں خالد رضی اللہ عنہ ،عمرو رضی اللہ عنہ ،ابان رضی اللہ عنہ ،عبیدہ اورعاص نے تاریخ میں بڑی شہرت پائی،خالد رضی اللہ عنہ ،عمرو رضی اللہ عنہ اورابان رضی اللہ عنہ کواللہ تعالیٰ نے شرف اسلام سے بہرہ ورکیاجبکہ عبیدہ(ابوذات الکرش)اورعاص اپنے کفرپرقائم رہے،یہ دونوں غزوہ بدرمیں زبیر رضی اللہ عنہ بن العوام اورسیدناعلی رضی اللہ عنہ کے ہاتھ سے مارے گئے،سعید رضی اللہ عنہ اسی عاص مقتول بدرکے فرزند تھے

ولد عام الهجرة. وقیل: بل ولد سنة إحدى

سعید رضی اللہ عنہ ہجرت مدینہ منورہ کے دنوں میں پیداہوئے اوریہ بھی کہاجاتاہے کہ ایک ہجری میں پیداہوئے۔ [2]

وأمه أم كلثوم بِنْت عَمْرو بْن عَبْد اللَّه بْن أَبِی قَیْس

ان کی والدہ کانام ان کلثوم بنت عمروبن عبداللہ بن ابی قیس تھا۔[3]

إنَّ عَرَبِیَّةَ القُرْآنِ أُقِیمَتْ عَلَى لِسَانِ سَعِیْدِ بنِ العَاصِ؛ لأَنَّهُ كَانَ أَشْبَهَهُم لَهْجَةً برَسُول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ

سعید رضی اللہ عنہ بن العاص کوعربی زبان پرغیرمعمولی قدرت حاصل تھی اوران کالحجہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لہجے سے مشابہت رکھتاتھا۔[4]

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سعید رضی اللہ عنہ بن العاص پرغیرمعمولی شفقت فرماتے تھے ،سعید رضی اللہ عنہ بن العاص کے بچپن کاایک واقعہ یوں مذکورہے

عَنِ ابْن عُمَر، قال: جَاءَت امرأةٌ إِلَى رَسُول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بِبرد فَقَالَت إنّی نَوَیْت أَن أعطی هَذَا الثَّوْب أكْرم الْعَرَب ، فَقَالَ أعْطِیه هَذَا الْغُلَام یَعْنِی سعید بن الْعَاصِ وَهُوَ وَاقِف فَلذَلِك، سُمّیت الثِّیَاب السعیدیّة

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہےایک عورت نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک کپڑاپیش کیااورساتھ ہی عرض کی اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !میں نے یہ نیت کررکھی تھی کہ یہ کپڑاعرب میں سب سے بزرگ ہستی کودوں گی،اب یہ آپ کی خدمت میں لائی ہوں ،اس وقت سعید رضی اللہ عنہ بن عاص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کھڑے تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس عورت کاہدیہ قبول فرمایا اور پھراس سے فرمایایہ کپڑااس لڑکے یعنی سعید رضی اللہ عنہ بن العاص کودے دے، اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی تعمیل کی ، اس وجہ سے اس کپڑے کانام سعدیہ مشہورہوگیا۔[5]

ارباب سیرنے سعید رضی اللہ عنہ کی شرافت ،شجاعت ، شہامت ، عقل وحزم،وقاروحلم،حق پسندی اورجودوسخاکی بڑی تعریف وتوصیف کی ہے،

حافظ ذہبی رحمہ اللہ کابیان ہے امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ فرمایاکرتے تھے کہ سعید رضی اللہ عنہ بن العاص اپنی ذہانت ، قابلیت اورفہم وتدبرکی بناپرخلیفہ بننے کے لائق ہیں ۔

عہدرسالت اورعہدصدیقی میں نابالغ تھے اورعہدفاروقی میں جوان ہوئے،قرآن کریم کی کتابت اوران کے کئی شاندارعسکری کارنامے امیرالمومنین سیدناعثمان رضی اللہ عنہ بن عفان کے عہدمیں نظرآتی ہیں ،علامہ ابن اثیر رحمہ اللہ نے لکھاہے۔

وقتل أبوه العاص بن سعید بن العاص یوم بدر كافرا، قتله علی بن أبی طالب رضی الله عنه، روى عن عمر بن الخطاب رضی الله عنه أنه قَالَ: رأیته یوم بدر یبحث التراب عنه كالأسد، فصمد إلیه علی بن أبی طالب رضی الله عنه فقتله. وَقَالَ عمر لابنه سعید یوما: لم أقتل أباك، وإنما قتلت خالی العاص بن هشام، وما بی أن أكون أعتذر من قتل مشرك! فَقَالَ له سعید:لو قتلته كنت على الحق، وكان على الباطل، فتعجب عمر من قوله

سعید رضی اللہ عنہ کاوالدغزوہ بدرمیں سیدناعلی رضی اللہ عنہ کے ہاتھ سے ماراگیااس غزوہ میں اس کاہمنام عاص (بن مغیرہ)اپنے بھانجے سیدناعمر رضی اللہ عنہ کے ہاتھ سے قتل ہواتھا،اس اشتراک نام کی وجہ سے دھوکاہوتاتھاکہ سیدناعمر رضی اللہ عنہ نے سعید رضی اللہ عنہ کے والدعاص کوماراہے چونکہ بنوامیہ میں خاندانی عصبیت بہت زیادہ تھی اس لیے سیدناعمر رضی اللہ عنہ کوخیال پیداہواکہ شاید سعید رضی اللہ عنہ انہیں اپنے باپ کاقاتل سمجھ کردل میں ان کے خلاف کدورت رکھتے ہوں ،اس غلط فہمی کودورکرنے کے لیے ایک دن انہوں نے سعید رضی اللہ عنہ سے کہاسعید!میں نے غزوہ بدرمیں تمہارے والدکونہیں بلکہ اپنے مشرک ماموں عاص بن ہشام کوقتل کیاتھا،سعید رضی اللہ عنہ نے فوراجواب دیا اگر آپ نے میرے والدکوبھی قتل کیاہوتاتوکیامضائقہ تھاآپ حق پرتھے اوروہ حق کادشمن تھا،سیدناعمر رضی اللہ عنہ کوان کے جواب پرخوشگوارحیرت ہوئی۔[6]

ولما قتل عثمان لزم بیته واعتزل الفتنة

۳۵ہجری میں باغیوں نے امیرالمومنین سیدناعثمان ذوالنورین رضی اللہ عنہ کے مکان کامحاصرہ کیاتو سعید رضی اللہ عنہ بن عاص نے کچھ دوسرے نوجوان صحابہ کے ساتھ مل کرکاشانہ خلافت کی حفاظت کافرض انجام دیا،اس سلسلہ میں باغیوں کے ساتھ جھڑپ میں وہ شدیدمجروح ہوگئے۔[7]

كان سعید ابن العاص كریما إذا سأله سائل فلم یكن عنده ما یعطیه كتب له بما یرید إلى أیام یسره

سعید رضی اللہ عنہ بن ابوالعاص بہت فیاض تھے ان کی سخاوت اوردریادلی کی کوئی حدونہایت نہیں تھی ،یہ ممکن ہی نہ تھاکہ کوئی سائل ان کے دروازے پرآئے اورخالی ہاتھ واپس چلاجائے،ان کی فیاضی دست سوال درازکرنے والوں تک ہی محدودنہیں تھی بلکہ ایسے حاجت مندشرفابھی جوغیرت کی وجہ سے کسی کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلاسکتے تھے ان کی سخاوت سے متمتع ہوتے تھے وہ ایسے لوگوں کو ڈھونڈ ڈھونڈکران کے پاس پہنچتے اوربلاسوال ان کی حاجتیں پوری کرتے تھے اگرکوئی سائل ایسے وقت آجاتاجب ان کے پاس روپیہ نہ ہوتاتواس کوایک تحریری یادداشت دے دیتے کہ جب روپیہ آجائے تووصول کرلے۔[8]

وكان سَعِید كثیر الجود والسخاء

سعید رضی اللہ عنہ بہت سحخی اوربہت صدقہ وخیرات کرنے والے تھے۔[9]

وذكر الزبیر قَالَ:لما عزل سعید بن العاص عن المدینة انصرف عن المسجد، فرأى رجلا یتبعه فَقَالَ له: ألك حاجة؟ قَالَ لا، ولكنی رأیتك وحدك فوصلت جناحك ، فَقَالَ له: وصلك الله یا بن أخی، اطلب لی دواة وجلدا، وادع لی مولای فلانا، فأتى بذلك، فكتب له بعشرین ألف درهم دینا علیه  وقال:إذا جاءت غلتنا دفعنا ذَلِكَ إلیك، فمات فی تلك السنة، وأتى بالكتاب إلى ابنه، فدفع إلیه عشرین ألف درهم

زبیرسے مروی ہےامارت مدینہ منورہ سے معزول ہونے کے بعدایک دن مسجدسے باہرنکلے توایک شخص کودیکھاجوان کے پیچھے پیچھے چل رہاتھااس نے واضح الفاظ میں توسوال نہ کیالیکن سعید رضی اللہ عنہ بھانپ گئے کہ حاجتمندہے تواس سے پوچھاکیاتمہیں کچھ حاجت ہے؟اس نے کہانہیں میں حاجت مندتونہیں ہوں مگرایک ضرورت آپڑی ہے اورمیں چاہتاہوں کہ آپ اسے پوری کردیں ، انہوں نے اس شخص سے کہااے میرے بھتیجے!ابھی تومیرے پاس کچھ نہیں ہے میں تمہیں وثیقہ لکھ دیتاہوں جب میرے پاس روپیہ ہوگاتومجھ سے لے لینا، انہوں نے اپنے ایک غلام کوبلایاجب وہ آگیاتواس سے بیس ہزاردرہم کاوثیقہ لکھواکراس شخص کے حوالے کرتے ہوئے فرمایاجب میراوظیفہ ملے گاتواس وثیقہ میں لکھی ہوئی رقم تمہیں مل جائے گی، لیکن ابھی اس رقم کواداکرنے کی نوبت نہ آئی تھی کہ سعید رضی اللہ عنہ فوت ہوگئے ، اس شخص نے یہ وثیقہ ان کے فرزندعمروکودیاانہوں نے اسے فوراًبیس ہزاردرہم اداکردیئے۔[10]

وكان یبعث مولى له إِلَى المسجد بالكوفة فی كل لیلة جمعه ومعه الصرر فیها الدنانیر، فیضعها بین یدی المصلین، وكان قد كثر المصلون بالمسجد بالكوفة فی كل لیلة جمعة، إلا أَنَّهُ كان عظیم الكبر، وكان یجمع إخوانه كل جمعة یومًا فیصنع لهم الطعام، ویخلع علیهم، ویرسل إلیهم بالجوائز، ویبعث إِلَى عیالاتهم بالبر الكثیر،

ابن اثیر رحمہ اللہ کابیان ہے سعید رضی اللہ عنہ امارت کوفہ کے زمانے میں ہرجمعہ کی رات کوکوفہ کی مسجدمیں نمازیوں میں دیناروں سے بھری ہوئی تھیلیاں تقسیم کیاکرتے تھے ،اس کام پرایک خاص غلام مقررکررکھاتھاچنانچہ شب جمعہ کومسجدمیں نمازیوں کاغیرمعمولی ہجوم ہوتاتھا،اپنے اعزہ واقارب کے ساتھ بھی ان کاسلوک بہت فیاضانہ تھا،کپڑے ،غلے ،نقدی اوردوسری اشیائےضرورت سے اکثران کی مددکرتے رہتے تھے،ہفتہ میں ایک دن اپنے تمام بھائی بھتیجیوں کواپنے ساتھ بٹھاکرکھاناکھلاتے تھے۔[11]

ایسی ہی فیاضیوں اوردادوہیش کی وجہ سے ان پراسی ہزاردرہم کاقرضہ ہوگیا

ولما حضرته الوفاة، قال لبنیه: أیكم یقبل وصیتی؟ قال ابنه الأكبر: أنا یا أبه،قال: إن فیها وفاء دینی، قال: وما دینك؟ قال: ثمانون ألف دینار،قال: وفیم أخذتها؟ قال: یا بنی فی كریم سددت خلته، وفی رجل جاءنی ودمه ینزوی فی وجهه من الحیاء، فبدأته بحاجته قبل أن یسألنیها

وفات سے پہلے تمام بیٹوں کوبلاکرپوچھاتم میں سے کون میراوصی بنناچاہتاہے؟ بڑے لڑکے نے کہااے میرے باپ !میں آپ کاوصی بنوں گا،فرمایامیرے ذمہ کچھ قرضہ ہے،لڑکے نے پوچھاکتناقرضہ ہے؟فرمایااسی ہزاردرہم،بیٹے نے حیرت سے پوچھااتناقرض کیسے ہوگیا؟فرمایااے میرے بیٹے!ان سفیدپوش شرفاء اورغیورلوگوں کی حاجتیں پوری کرنے میں جوگردش زمانہ سے مجبورہوکرمیرے پاس آتے تھے لیکن سوال کرنے سے اس قدرشرماتے تھے کہ منہ سے بات نہ نکلتی تھی ،میں ان کاچہرہ دیکھ کرہی سمجھ جاتاتھاکہ حاجت مندہیں ،انہیں سوال کرنے کاموقع ہی نہ دیتاتھااوران کی حاجت پوری کردیتاتھا۔[12]

سعید رضی اللہ عنہ کی عقل ودانش کااندازہ اس بات سے کیاجاسکتاہے کہ ان کے بہت سے اقوال ضرب المثل کی حیثیت اختیارکرگئے ہیں ۔

قال سَعِید بْن العاص لابنه: یَا بنی، لا تمازح الشّریف فیحقد علیك،ولا تمازح الدنئ فیجترئ علیك

سعیدبن العاص نے اپنے بیٹے سے کہااے میرے بیٹے!شریف سے مذاق نہ کرو کہ وہ تم سے نفرت کرنے لگے گا(خارکھانے لگے گا)۔[13]

اوریہ بھی ان کے اقوال ہیں

 موطنان لا أعتذر من العیّ فیهما، إذا خاطبت جاهلا، أو طلبت حاجة لنفسی، ذكره فی المجالسة من طریق الأصمعیّ۔[14]

ودفن بالبقیع

انہیں ان کی وصیت کے مطابق بقیع کے قبرستان میں لاکر دفن کیاگیا۔[15]

[1] اسدالغابة۴۸۱؍۲

[2] عثمان بن عفان ذوالنورین۸۰؍۱

[3] ابن سعد۲۱؍۵

[4] عثمان بن عفان ذوالنورین۸۰؍۱، الاصحابة فی تمیزاصحابة۹۰؍۳،سیراعلام النبلائ۴۴۶؍۴

[5] تاریخ دمشق لابن عساکر۱۰۹؍۲۱، تهذیب الكمال فی أسماء الرجال۵۰۴؍۱۰،الوافی بالوفیات۱۴۲؍۱۵

[6] أسد الغابة فی معرفة الصحابة۴۸۱؍۲

[7] اسدالغابة ۴۸۲؍۲

[8] الاستیعاب فی معرفة اصحاب۶۲۳؍۲

[9] اسدالغابة۴۸۱؍۲

[10] الاستیعاب فی معرفة اصحاب۶۲۳؍۲

[11] اسدالغابة  ۴۸۱؍۲

[12] اسدالغابة۴۸۱؍۲،تاریخ دمشق لابن عساکر۱۳۵؍۲۱،عثمان بن عفان ذوالنورین۸۰؍۱

[13] تاریخ دمشق لابن عساکر ۱۳۷؍۲۱

[14] الإصابة فی تمییز الصحابة ۹۲؍۳

[15] مختصرتاریخ دمشق۳۱۶؍۹

Related Articles