بعثت نبوی کا تیرهواں سال

مضامین سورۂ الحج

اس سورہ میں مشرکین مکہ،مذبذب اورمترددمسلمان اورمومنین صادقین کومخاطب کیاگیاہے ۔

مشرکین مکہ کوپورے زورکے ساتھ تنبیہ کی گئی کہ تمہارے لئے بہتریہی ہے کہ اپنے بے بنیادجاہلانہ عقائدونظریات پراصراراوربے بس ولاچارمعبودوں کی پرستش سے تائب ہو کر رسول  اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم جودعوت دے رہے ہیں اسے قبول کر لو ورنہ جب ہماراعذاب نازل ہوگاتوتمہارے معبودان باطل ہرگزہرگزتمہارے کام نہ آسکیں گے ،تم ان کی طاقت وقدرت کے گن گاتے رہتے ہو،ان کی طاقتوں سے خائف رہتے ہو مگرجب ہمارا عذاب نازل ہوگااس وقت تمہیں ان کی بے بسی ولاچاری کاعلم ہوجائے گا،ہمارے عذاب کامشاہدہ کرنے کے بعد تم ایمان لے آؤگے مگراس وقت تمہاراایمان لانامحض بے کارہوگااورقبول نہیں کیاجائے گا پھر تم حسرت سے ہاتھ ہی ملتے رہ جاؤگے، ہر سورۂ  کی طرح اس میں بھی توحیدباری تعالیٰ اور آخرت کوبڑے پرزوراندازمیں بیان کیاگیاہے تاکہ رب نے جنہیں عقل سلیم عطاکی ہے وہ ان دلائل پر غوروفکر کریں ، مشرکین مکہ پرشدید گرفت کی گئی کہ ہمارایہ گھرجوبیت  اللہ کہلاتاہے تمہاری ذاتی جاگیر نہیں کہ جس کوچاہواس میں آنے کی اجازت دواورجسے نہ چاہواجازت نہ دو،مکہ کے گردونواح میں بسنے والے کفارو مشرکین کوسوچنے کی لئے ایک نقطہ دیاگیاکہ کسی ناخوشگوار حالات کی بنا پر اگر اہل مکہ اس گھرکی زیارت تم پربندکردیں جسے تم بھی بیت  اللہ  مانتے اوراس کا احترام کرتے ہو تو کیا تم اس کی زیارت سے روک جاؤگئے ،یقیناًتم ایسانہیں کروگے توپھر ابھی سے اس غلط رویئے کاتدارک کرو،کچھ کمزورمسلمان ابھی تک تذبذب کے عالم میں تھے اگرانہیں کچھ دنیاوی فائدہ حاصل ہوتاتوعبادت میں لگے رہتے اوردین پرجمے رہتے اور اگر فائدہ کے بجائے کسی آزمائش کاسامناکرناپڑتاتوپیٹھ پھیرجاتے ،ان احمقوں نے گویاایمان اوردین کوکرنسی سمجھ رکھاتھاجس کے کھرایاکھوٹاہونے کا فیصلہ وہ دنیاوی نفع اورنقصان کے اعتبارسے کرتے تھے ان کوحوصلہ دیا گیا کہ ایمان لانے کے بعداپنی اس کیفیت کوختم کرواوراس راہ میں جوبھی تکالیف آئیں انہیں برداشت کرنے کی اپنے اندرہمت پیدا کروجب تم اپنی مصلحتوں سے باہرنکل کر میدان عمل میں قدم رکھوگے تو رب کی رحمت تمہارے ساتھ ہوگی، قریش مکہ کے ظلم وستم کاجواب طاقت سے دینے کے لئے مسلمانوں پر جہاد فرض کیاگیاتاکہ رب کویاد کرنے کے لئے عبادت گاہیں ظالموں کے پنجے میں نہ رہیں ،ساتھ ہی مسلمانوں کوخوشخبری دینے کے ساتھ یہ بھی تنبیہ کردی گئی کہ تم ابراہیم علیہ السلام کے حقیقی وارث ہی بننا اور ہماری زمین کوامن وسکون کاگہوارہ بنانا ، اور جب تمہیں اقتدارمل جائے تو اللہ کاتقوی اختیارکرتے ہوئے جہادفی سبیل  اللہ ، اللہ کی خوشنودی کے لئے اپنی حلال کمائی سے بہترین حصہ خرچ کرنا،نمازقائم کرنا،نیکی کاحکم دینااوربرائی سے روکنا،اورحج جیسے اعمال تمہارازیورہوناچاہیے۔

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

شروع کرتا ہوں اللہ تعالیٰ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے

یَا أَیُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمْ ۚ إِنَّ زَلْزَلَةَ السَّاعَةِ شَیْءٌ عَظِیمٌ ‎﴿١﴾‏ یَوْمَ تَرَوْنَهَا تَذْهَلُ كُلُّ مُرْضِعَةٍ عَمَّا أَرْضَعَتْ وَتَضَعُ كُلُّ ذَاتِ حَمْلٍ حَمْلَهَا وَتَرَى النَّاسَ سُكَارَىٰ وَمَا هُم بِسُكَارَىٰ وَلَٰكِنَّ عَذَابَ اللَّهِ شَدِیدٌ ‎﴿٢﴾(الحج )
’’ لوگو ! اپنے پروردگار سے ڈرو ! بلاشبہ قیامت کا زلزلہ بہت بڑی چیز ہے،جس دن تم اسے دیکھ لو گے ہر دودھ پلانے والی اپنے دودھ پیتے بچے کو بھول جائے گی اور تمام حمل والیوں کے حمل گرجائیں گے اور تو دیکھے گا کہ لوگ مد ہوش دکھائی دیں گے، حالانکہ درحقیقت وہ متوالے نہ ہوں گے، لیکن اللہ کا عذاب بڑاہی سخت ہے۔‘‘

اللہ تعالیٰ کاوعدہ ہے کہ ایک وقت خاص پرقیامت برپاہوگی ، اللہ تعالیٰ نے قیامت کی ابتدائی ہولناک کیفیات سے مختلف سورتوں میں ڈرایاتاکہ لوگ اللہ کے عذاب سے ڈر جائیں اورشرک ،فسق اورنافرمانی ترک کرکے سیدھی راہ اختیارکریں اورجہاں تک استطاعت ہواس کے احکام پرعمل کریں ، چنانچہ جب پہلانفخ پھونکاجائے گاتو فرمایا

فَاِذَا نُفِخَ فِی الصُّوْرِ نَفْخَةٌ وَّاحِدَةٌ۝۱۳ۙوَّحُمِلَتِ الْاَرْضُ وَالْجِبَالُ فَدُكَّتَا دَكَّةً وَّاحِدَةً۝۱۴ۙ [1]

ترجمہ:پس جبکہ صور میں ایک پھونک پھونکی جائے گی اور زمین اورپہاڑاٹھالئے جائیں گے اورایک ہی چوٹ میں ریزہ ریزہ کردیئے جائیں گے ۔

اِذَا زُلْزِلَتِ الْاَرْضُ زِلْزَالَهَا۝۱ۙوَاَخْرَجَتِ الْاَرْضُ اَثْقَالَهَا۝۲ۙوَقَالَ الْاِنْسَانُ مَا لَهَا۝۳ۚ         [2]

ترجمہ: جب زمین اپنی پوری شدت کے ساتھ ہلا ڈالی جائے گی ،اور زمین اپنے اندر کے سارے بوجھ نکال کر باہر ڈال دے گی اور انسان کہے گا کہ یہ اس کو کیا ہو رہا ہے؟۔

اِذَا رُجَّتِ الْاَرْضُ رَجًّا۝۴ۙوَّبُسَّتِ الْجِبَالُ بَسًّا۝۵ۙفَكَانَتْ هَبَاۗءً مُّنْۢبَثًّا۝۶ۙ [3]

ترجمہ:جب کہ زمین زلزلہ کے ساتھ ہلادی جائے گی اورپہاڑریزہ ریزہ ہوکرغبارکی طرح اڑنے لگیں گے ۔

یَوْمَ تَرْجُفُ الرَّاجِفَةُ۝۶ۙتَتْبَعُهَا الرَّادِفَةُ۝۷ۭقُلُوْبٌ یَّوْمَىِٕذٍ وَّاجِفَةٌ۝۸ۙاَبْصَارُهَا خَاشِعَةٌ۝۹ۘ    [4]

ترجمہ:جس روزہلامارے گازلزلے کاایک جھٹکااوراس کے بعددوسراجھٹکا،اس دن دل کانپ رہے ہوں گے اور نگاہیں خوف زدہ ہوں گی ۔

 فَكَیْفَ تَتَّقُوْنَ اِنْ كَفَرْتُمْ یَوْمًا یَّجْعَلُ الْوِلْدَانَ شِیْبَۨا۝۱۷ۤۖالسَّمَاۗءُ مُنْفَطِرٌۢ بِهٖ۝۰ۭ كَانَ وَعْدُهٗ مَفْعُوْلًا۝۱۸ [5]

ترجمہ: اگرتم نے ماننے سے انکارکروگے تواس دن کیسے بچ جاؤگے جوبچوں کو بوڑھا کر دے گااورجس کی سختی سے آسمان پھٹاجارہا ہوگا؟اللہ کایہ وعدہ تو پوراہوکرہی رہناہے ۔

سورج مشرق کے بجائے مغرب سے طلوع ہوگا،سورج اور چاندبے نورہوجائیں گے ،ستارے بکھرجائیں گے،بڑی بڑی سخت چٹانیں پگھل جائیں گی جس کے باعث لوگوں میں سخت خوف،دہشت اورگھبراہٹ طاری ہوگئی اور پھر یہ دنیافناہوجائے گی،یابعض مفسرین کے نزدیک یہ خوف،دہشت اورگھبراہٹ قیامت کے بعداس وقت ہوگی جب لوگ قبروں سے نکل کر میدان محشرمیں جمع ہوں گے،اس کی تائیدمیں وہ احادیث پیش کرتے ہیں ،

عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَیْنٍ قَالَ: كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فِی سَفَرٍ، فَنَزَلَتْ {یَا أَیُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمْ، إِنَّ زَلْزَلَةَ السَّاعَةِ} ،الحج: 1 ] ، قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَحْمَدَ: سَقَطَتْ عَلَى أَبِی كَلِمَةٌ، رَاحِلَتَهُ وَقَفَ النَّاسُ قَالَ:هَلْ تَدْرُونَ أَیَّ یَوْمٍ ذَاكَ؟ قَالُوا: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ.،قَالَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:یَقُولُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ یَوْمَ القِیَامَةِ: یَا آدَمُ، یَقُولُ: لَبَّیْكَ رَبَّنَا وَسَعْدَیْكَ، فَیُنَادَى بِصَوْتٍ: إِنَّ اللَّهَ یَأْمُرُكَ أَنْ تُخْرِجَ مِنْ ذُرِّیَّتِكَ بَعْثًا إِلَى النَّارِ، قَالَ: یَا رَبِّ وَمَا بَعْثُ النَّارِ؟ قَالَ: مِنْ كُلِّ أَلْفٍ – أُرَاهُ قَالَ – تِسْعَ مِائَةٍ ] وَتِسْعَةً وَتِسْعِینَ، فَحِینَئِذٍ تَضَعُ الحَامِلُ حَمْلَهَا، وَیَشِیبُ الوَلِیدُ، وَتَرَى النَّاسَ سُكَارَى وَمَا هُمْ بِسُكَارَى، وَلَكِنَّ عَذَابَ اللَّهِ شَدِیدٌفَشَقَّ ذَلِكَ عَلَى النَّاسِ حَتَّى تَغَیَّرَتْ وُجُوهُهُمْ، فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:مِنْ یَأْجُوجَ وَمَأْجُوجَ تِسْعَ مِائَةٍ وَتِسْعَةً وَتِسْعِینَ، وَمِنْكُمْ وَاحِدٌ، ثُمَّ أَنْتُمْ فِی النَّاسِ كَالشَّعْرَةِ السَّوْدَاءِ فِی جَنْبِ الثَّوْرِ الأَبْیَضِ – أَوْ كَالشَّعْرَةِ البَیْضَاءِ فِی جَنْبِ الثَّوْرِ الأَسْوَدِ – وَإِنِّی لَأَرْجُو أَنْ تَكُونُوا رُبُعَ أَهْلِ الجَنَّةِ فَكَبَّرْنَا، ثُمَّ قَالَ:ثُلُثَ أَهْلِ الجَنَّةِ فَكَبَّرْنَا، ثُمَّ قَالَ:شَطْرَ أَهْلِ الجَنَّةِ

عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے مروی ہےہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک سفرمیں تھے ،آپ کے اصحاب رضی اللہ عنہم تیزتیزچل رہے تھےآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے باآوازبلندان دونوں آیتیوں کی تلاوت کی ’’لوگو!اپنے رب کے غضب سے بچو،حقیقت یہ ہے کہ قیامت کازلزلہ بڑی (ہولناک) چیز ہے۔‘‘صحابہ رضی اللہ عنہم کے کان میں آوازپڑتے ہی وہ سب اپنی سواریاں لے کر آپ کے گردجمع ہوگئے کہ شاید آپ کچھ اور فرمائیں گے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجانتے ہویہ کون سادن ہوگا؟ہم نے کہااللہ اوراس کا رسول بہتر جاتے ہیں ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایااللہ تعالیٰ قیامت کے دن آدم علیہ السلام سے فرمائے گا اے آدم! آدم علیہ السلام عرض کریں گے اے رب !میں تیری فرمانبرداری کے لئے حاضرہوں ،پروردگار آوازسے پکارے گا (یافرشتہ پروردگارکی طرف سے آوازدے گا)اللہ تعالیٰ حکم دیتاہےکہ اپنی ذریت میں سے جہنم کاجتھا نکالو، آدم علیہ السلام عرض کریں گے اے پروردگار!دوزخ کا کتنا جتھانکالوں ؟اللہ فرمائے گا(راوی نے کہامیں سمجھتاہوں )ہر ہزارآدمیوں میں سے نوسوننانوے(گویاایک ہزارمیں ایک جنتی ہوگا)’’وہ ایساسخت وقت ہوگاکہ حمل والی کا حمل گرجائے گا ،اوربچہ(فکرکے مارے) بوڑھا ہوجائے گااورتوقیامت کے دن لوگوں کوایسادیکھے گاجیسے وہ نشہ میں مدہوش ہورہے ہیں حالانکہ وہ مدہوش نہیں ہوں گے ،بلکہ اللہ کاعذاب ایساسخت ہوگا۔‘‘یہ بات حاضر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پرسخت گزری اوران کے چہرے متغیرہوگئے ،اس وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی تسلی کے لئےفرمایا(تم اتناکیوں ڈرتے ہو)اگر یاجوج وماجوج کی(جوکافرہیں )نسل تم سے ملائی جائے توان میں سے نوسوننانوےکے مقابل تم میں سے ایک آدمی پڑے گا،غرض تم لوگ حشرکے دن دوسرے لوگوں کی نسبت (جودوزخی ہوں گے)ایسے ہوں گے جیسے سفیدرنگ کے بیل کے جسم پرایک بال کالاہوتاہے یاجیسے کالے بیل کے جسم پرایک دوبال سفیدہوتے ہیں ، اورمجھے امیدہے کہ تم لوگ سارے جنتیوں کا چوتھائی حصہ ہوگے(باقی تین حصوں میں اورسب امتیں ہوں گی)یہ سن کرہم نے( بطور مسرت) اللہ اکبرکانعرہ بلندکیا، پھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایانہیں بلکہ تم تہائی ہوگے،ہم نے پھرنعرہ تکبیربلندکیاپھرفرمایانہیں بلکہ آدھاحصہ ہوگے(آدھے حصہ میں اورامتیں ہوں گی)ہم نے پھرنعرہ تکبیربلندکیا۔[6]

أَنَّ عَائِشَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ:قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: تُحْشَرُونَ حُفَاةً عُرَاةً غُرْلًا ،قَالَتْ عَائِشَةُ: فَقُلْتُ: یَا رَسُولَ اللَّهِ، الرِّجَالُ وَالنِّسَاءُ یَنْظُرُ بَعْضُهُمْ إِلَى بَعْضٍ؟ فَقَالَ: الأَمْرُ أَشَدُّ مِنْ أَنْ یُهِمَّهُمْ ذَاكِ

ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم ننگے پاؤں ننگے جسم،بے ختنہ اٹھائے جاؤگے،ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں اس پرمیں نے پوچھااے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم !توکیامردوعورتیں ایک دوسرے کودیکھتے ہوں گے ؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااے عائشہ!اس وقت معاملہ اس سے کہیں زیادہ سخت اور خطرناک ہو گا(یعنی اس قدردہشت اورخوف ہوگاکہ)اس کاخیال بھی کوئی نہیں کرسکے گا)[7]

عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: قُلْتُ: یَا رَسُولَ اللَّهِ، هَلْ یَذْكُرُ الْحَبِیبُ حَبِیبَهُ یَوْمَ الْقِیَامَةِ؟ قَالَ: یَا عَائِشَةُ، أَمَّا عِنْدَ ثَلَاثٍ فَلَا، أَمَّا عِنْدَ الْمِیزَانِ حَتَّى یَثْقُلَ، أَوْ یَخِفَّ، فَلَا، وَأَمَّا عِنْدَ تَطَایُرِ الْكُتُبِ، فَإِمَّا أَنْ یُعْطَى بِیَمِینِهِ، أَوْ یُعْطَى بِشِمَالِهِ، فَلَا، وَحِینَ یَخْرُجُ عُنُقٌ مِنَ النَّارِ فَیَنْطَوِی عَلَیْهِمْ، وَیَتَغَیَّظُ عَلَیْهِمْ، وَیَقُولُ ذَلِكَ الْعُنُقُ: وُكِّلْتُ بِثَلَاثَةٍ، وُكِّلْتُ بِثَلَاثَةٍ، وُكِّلْتُ بِثَلَاثَةٍ ٍ: وُكِّلْتُ بِمَنْ ادَّعَى مَعَ اللَّهِ إِلَهًا آخَرَ، وَوُكِّلْتُ بِمَنْ لَا یُؤْمِنُ بِیَوْمِ الْحِسَابِ، وَوُكِّلْتُ بِكُلِّ جَبَّارٍ عَنِیدٍ قَالَ: فَیَنْطَوِی عَلَیْهِمْ وَیَرْمِی بِهِمْ فِی غَمَرَاتٍ

ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا صدیقہ فرماتی ہیں میں نے کہااے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم کیادوست اپنے دوست کو قیامت کے دن یادرکھے گا؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااے عائشہ رضی اللہ عنہا ! تین موقعوں پر کوئی کسی کویادنہ کرے گا، اعمال کے تول کے وقت جب تک کمی زیادتی نہ معلوم ہوجائےاور اعمال ناموں کے اڑائے جانے کے وقت جب تک دائیں یا بائیں ہاتھ میں نہ آ جائیں اوراس وقت جب کہ جہنم میں سے ایک گردن نکلے گی جوگھیرلے گی اورسخت غیظ وغضب میں ہوگی اورکہے گی میں تین قسم کے لوگوں پرمسلط کی گئی ہوں ایک تووہ لوگ جو اللہ کے سوادوسروں کوپکارتے رہتے ہیں ،دوسرے وہ جوحساب کے دن پرایمان نہیں لاتے اورہرسرکش ضدی پر،فرمایاپھرتووہ انہیں سمیٹ لے گی اورچن چن کراپنے پیٹ میں پہنچا دے گی

وَلِجَهَنَّمَ جِسْرٌ أَدَقُّ مِنَ الشَّعْرِ، وَأَحَدُّ مِنَ السَّیْفِ، عَلَیْهِ كَلَالِیبُ وَحَسَكٌ یَأْخُذُونَ مَنْ شَاءَ اللَّهُ، وَالنَّاسُ عَلَیْهِ كَالطَّرْفِ، وَكَالْبَرْقِ، وَكَالرِّیحِ، وَكَأَجَاوِیدِ الْخَیْلِ، وَالرِّكَابِ، وَالْمَلَائِكَةُ یَقُولُونَ: رَبِّ سَلِّمْ، رَبِّ سَلِّمْ، فَنَاجٍ مُسَلَّمٌ، وَمَخْدُوشٌ مُسَلَّمٌ، وَمُكَوَّرٌ فِی النَّارِ عَلَى وَجْهِهِ

جہنم پرپل صراط ہوگی جو بال سے باریک اورتلوارسے تیزہوگی،اس پرآنکس اورکانٹے ہوں گے جسے اللہ چاہے پکڑلے گی،اس پرسے گزرنے والے مثل بجلی کے ہوں گے ،مثل آنکھ جھپکنے کے،مثل ہواکے،مثل تیزرفتارگھوڑوں اوراونٹوں کے،فرشتے ہرطرف کھڑے دعائیں کرتے ہوں گے کہ اللہ سلامتی دے اللہ بچادے بعض توبالکل صحیح سالم گزرجائیں گے ،بعض کچھ چوٹ کھاکربچ جائیں گے ،بعض اوندھے منہ جہنم میں گرجائیں گے۔[8]

لیکن قرآن کا صریح بیان مفسرین کی رائے کو قبول کرنے میں مانع ہے کیونکہ قرآن وہ وقت بتلارہاہے جب مائیں اپنے بچوں کودودھ پلاتے پلاتے(اپنی جبلت کے خلاف) چھوڑ کر بھاگ کھڑی ہوں گی اورکسی ماں کو یہ ہوش نہ رہے گاکہ اس کے لخت جگرپرکیاگزری اورشدت ہول اور سخت گھبراہٹ کے عالم میں حمل والیوں کے حمل گرجائیں گے اورخوف ودہشت سے بچے بوڑھے ہوجائیں گے،جیسے فرمایا

فَكَیْفَ تَتَّقُوْنَ اِنْ كَفَرْتُمْ یَوْمًا یَّجْعَلُ الْوِلْدَانَ شِیْبَۨا۝۱۷ۤۖ    [9]

ترجمہ:اگر تم ماننے سے انکار کرو گے تو اس دن کیسے بچ جاؤ گے جو بچوں کو بوڑھا کر دے گا۔

اورتم لوگ سمجھوگے کہ لوگ شراب کے نشے میں مدہوش ہیں حالانکہ وہ شراب کے نشے میں مدہوش نہیں ہوں گے بلکہ اللہ کے عذاب ہی ایساہوگاکہ عقل ماری جائے گی ،دل خالی ہو کر گھبراہٹ اورخوف سے لبریزہوجائیں گے،دل اچھل کرحلق میں اٹک جائیں گے اور آنکھیں خوف سے کھلی کی کھلی رہ جائیں گی ،بیشک آخرت میں بھی خوف کی یہی کیفیت ہوگی مگروہاں نہ تو کوئی عورت اپنے بچے کودودھ پلارہی ہوگی اورنہ کسی حاملہ کے وضع حمل یااسقاط کا کوئی موقع ہوگا،سب رشتے منقطع ہوچکے ہوں گے ۔جیسے فرمایا

یَوْمَ یَفِرُّ الْمَرْءُ مِنْ اَخِیْهِ۝۳۴ۙوَاُمِّهٖ وَاَبِیْهِ۝۳۵ۙ وَصَاحِبَتِهٖ وَبَنِیْهِ۝۳۶ۭلِكُلِّ امْرِیٍٔ مِّنْهُمْ یَوْمَىِٕذٍ شَاْنٌ یُّغْنِیْهِ۝۳۷ۭوُجُوْهٌ یَّوْمَىِٕذٍ مُّسْفِرَةٌ۝۳۸ۙ [10]

ترجمہ:اس روز بھائی اپنے بھائی سے دور بھاگے گااپنی ماں اورباپ سےاپنی بیوی اوربیٹوں سےاس ر وزہرشخص ایک فکرمیں مبتلاہوگاجواس کودوسروں کے بارے میں بے پرواکردے گی ۔

قیامت کے روز توحسرت وپشیمانی کایہ عالم ہوگا

وَیَوْمَ یَعَضُّ الظَّالِمُ عَلٰی یَدَیْهِ یَقُوْلٍُ یٰلَیْتَنِی اتَّخَذْتُ مَعَ الرَّسُوْلِ سَبِیْلًا۝۲۷یٰوَیْلَتٰى لَیْتَنِیْ لَمْ اَتَّخِذْ فُلَانًا خَلِیْلًا۝۲۸  [11]

ترجمہ: ظالم مارے پشیمانی اورحسرت کے اپنے ہاتھوں کوکاٹے گااورپکاراٹھے گااے کاش! میں نے رسول کاراستہ اختیارکیاہوتا،ہاے میری کمبختی! میں نے فلاں کودوست نہ بنایا ہوتا ۔

اس وقت کچھ چہرے سیاہ پڑجائیں گے اورکچھ چہرے تاروتازہ اورروشن ہوں گے،جیسے فرمایا

یَّوْمَ تَبْیَضُّ وُجُوْہٌ وَّتَسْوَدُّ وُجُوْہٌ۔۔۔۝۰۝۱۰۶ [12]

ترجمہ:جبکہ کچھ لوگ سرخ رو ہوں گے اور کچھ لوگوں کا منہ کالا ہوگا۔

وُجُوْہٌ یَّوْمَىِٕذٍ مُّسْفِرَةٌ۝۳۸ۙضَاحِكَةٌ مُّسْتَبْشِرَةٌ۝۳۹ۚوَوُجُوْہٌ یَّوْمَىِٕذٍ عَلَیْہَا غَبَرَةٌ۝۴۰ۙتَرْہَقُہَا قَتَرَةٌ۝۴۱ۭ  [13]

ترجمہ:کچھ چہرے اس روز دمک رہے ہوں گےہشاش بشاش اور خوش و خرم ہوں گے،جب کہ کچھ چہروں پر اس روز خاک اڑ رہی ہوگی اور کلونس چھائی ہوئی ہوگی۔

وُجُوْہٌ یَّوْمَىِٕذٍ نَّاضِرَةٌ۝۲۲ۙاِلٰى رَبِّہَا نَاظِرَةٌ۝۲۳ۚ وَوُجُوْہٌ یَّوْمَىِٕذٍؚبَاسِرَةٌ۝۲۴ۙ تَظُنُّ اَنْ یُّفْعَلَ بِہَا فَاقِرَةٌ۝۲۵ۭ [14]

ترجمہ:اس روز کچھ چہرے ترو تازہ ہونگے اپنے رب کی طرف دیکھ رہے ہوں گے اور کچھ چہرے اداس ہوں گےاور سمجھ رہے ہوں گے کہ ان کے ساتھ کمر توڑ برتاؤ ہونے والا ہے۔

ترازوعدل نصب کردیاجائے گاجن میں ذرہ بھرنیکی اور بدی کاٹھیک ٹھیک وزن کیاجائے گا،جیسے فرمایا

وَالْوَزْنُ یَوْمَىِٕذِۨ الْحَقُّ۝۰ۚ فَمَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِیْنُہٗ فَاُولٰۗىِٕكَ ہُمُ الْمُفْلِحُوْنَ۝۸وَمَنْ خَفَّتْ مَوَازِیْنُہٗ فَاُولٰۗىِٕكَ الَّذِیْنَ خَسِرُوْٓا اَنْفُسَہُمْ ۝۹ [15]

ترجمہ:اور وزن اس روز عین حق ہوگا، جن کے پلڑے بھاری ہوں گے وہی فلاح پائیں گے،اور جن کے پلڑے ہلکے ہوں گے وہی اپنے آپ کو خسارے میں مبتلا کرنے والے ہوں گے۔

لوگوں کے ہاتھوں میں ان کےاعمال نامے تھمادیے جائیں گے،جیسے فرمایا

فَاَمَّا مَنْ اُوْتِیَ كِتٰبَهٗ بِیَمِیْنِهٖ۝۰ۙ فَیَقُوْلُ هَاۗؤُمُ اقْرَءُوْا كِتٰبِیَهْ۝۱۹اِنِّىْ ظَنَنْتُ اَنِّىْ مُلٰقٍ حِسَابِیَهْ۝۲۰ۚۚ [16]

ترجمہ:اس وقت جس کا نامہ اعمال اس کے سیدھے ہاتھ میں دیا جائے گاوہ کہے گا لو دیکھو، پڑھو میرا نامہ اعمال،میں سمجھتا تھا کہ مجھے ضرور اپنا حساب ملنے والاہے۔

 وَاَمَّا مَنْ اُوْتِیَ كِتٰبَہٗ بِشِمَالِہٖ۝۰ۥۙ فَیَقُوْلُ یٰلَیْتَنِیْ لَمْ اُوْتَ كِتٰبِیَہْ۝۲۵ۚ   [17]

ترجمہ:اور جس کا نامہ اعمال اس کے بائیں ہاتھ میں دیا جائے گاوہ کہے گا کاش میرا اعمال نامہ مجھے نہ دیا گیا ہوتا ۔

فَاَمَّا مَنْ اُوْتِیَ كِتٰبَہٗ بِیَمِیْنِہٖ۝۷ۙفَسَوْفَ یُحَاسَبُ حِسَابًا یَّسِیْرًا۝۸ۙوَّیَنْقَلِبُ اِلٰٓى اَہْلِہٖ مَسْرُوْرًا۝۹ۭوَاَمَّا مَنْ اُوْتِیَ كِتٰبَہٗ وَرَاۗءَ ظَہْرِہٖ۝۱۰ۙفَسَوْفَ یَدْعُوْا ثُبُوْرًا۝۱۱ۙ  [18]

ترجمہ:پھر جس کا نامہ اعمال اس کے سیدھے ہاتھ میں دیا گیا،اس سے ہلکا حساب لیا جائے گا اور وہ اپنے لوگوں کو طرف خوش خوش پلٹے گارہا وہ شخص جس کا نامہ اعمال اس کی پیٹھ کے پیچھے دیا جائے گاتو وہ موت کو پکارے گا ۔

اوران میں اندراج کیے ہوئے تمام اقوال،اعمال اورنیتیں خواہ وہ چھوٹے ہوں یابڑے سامنے ہوں گے،جیسے فرمایا

۔۔۔وَوَجَدُوْا مَا عَمِلُوْا حَاضِرًا۝۰ۭ وَلَا یَظْلِمُ رَبُّكَ اَحَدًا۝۴۹ۧ    [19]

ترجمہ: جو جو کچھ انہوں نے کیا تھا وہ سب اپنے سامنے حاضر پائیں گے اور تیرا رب کسی پر ذرا ظلم نہ کرے گا۔

جہنم کے اوپرپل صراط کوجوبال سے زیادہ باریک اورتلوارکی دھارسے زیادہ تیزہوگانصب کردیاجائے گا ، جنت کوسنوارکراہل تقویٰ کے قریب کردی جائے گی اورجہنم کوبھڑکاکرگمراہ لوگوں کے سامنے کردیاجائے گا،جیسے فرمایا

وَاِذَا الْجَــحِیْمُ سُعِّرَتْ۝۱۲۠ۙوَاِذَا الْجَنَّةُ اُزْلِفَتْ۝۱۳۠ۙ        [20]

ترجمہ:اور جب جہنم دہکائی جائے گی،اور جب جنت قریب لے آئی جائےگی۔

وَاُزْلِفَتِ الْجَنَّةُ لِلْمُتَّقِیْنَ۝۹۰ۙ وَبُرِّزَتِ الْجَحِیْمُ لِلْغٰوِیْنَ۝۹۱ۙ  [21]

ترجمہ:(اس روز) جنت پرہیزگاروں کے قریب لے آئی جائے گی اور دوزخ بہکے ہوئے لوگوں کے سامنے کھول دی جائے گی۔

وَبُرِّزَتِ الْجَحِیْمُ لِمَنْ یَّرٰى۝۳۶           [22]

ترجمہ:اور ہر دیکھنے والے کے سامنے دوزخ کھول کر رکھ دی جائے گی۔

پھرجب اس میں داخل کردیے جائیں گے توعذاب کی شدت کی وجہ سےموت کوپکاریں گے۔

اِذَا رَاَتْهُمْ مِّنْ مَّكَانٍؚبَعِیْدٍ سَمِعُوْا لَهَا تَغَیُّظًا وَّزَفِیْرًا۝۱۲وَاِذَآ اُلْقُوْا مِنْهَا مَكَانًا ضَیِّقًا مُّقَرَّنِیْنَ دَعَوْا هُنَالِكَ ثُبُوْرًا۝۱۳ۭ [23]

ترجمہ: وہ جب دور سے اِن کو دیکھے گی تو یہ اس کے غضب اور جوش کی آوازیں سن لیں گےاور جب یہ دست و پابستہ اس میں ایک تنگ جگہ ٹھونسے جائیں گے تو اپنی موت کو پکارنے لگیں گے۔

مگران کی کوئی سنوائی نہیں ہوگی اوران سے کہاجائے گا

لَا تَدْعُوا الْیَوْمَ ثُبُوْرًا وَّاحِدًا وَّادْعُوْا ثُبُوْرًا كَثِیْرًا۝۱۴     [24]

ترجمہ:( اس وقت ان سے کہا جائے گا ) آج ایک موت کو نہیں بہت سی موتوں کو پکارو۔

اورجب اپنے رب کوپکاریں گے توانہیں دھتکاردیاجائے گا

قَالَ اخْسَـُٔـوْا فِیْهَا وَلَا تُكَلِّمُوْنِ۝۱۰۸    [25]

ترجمہ:اللہ تعالیٰ جواب دے گا دور ہو میرے سامنے سے ، پڑے رہو اسی میں اور مجھ سے بات نہ کرو۔

اس طرح وہ ہربھلائی سے مایوس ہو جائیں گے۔

وَمِنَ النَّاسِ مَن یُجَادِلُ فِی اللَّهِ بِغَیْرِ عِلْمٍ وَیَتَّبِعُ كُلَّ شَیْطَانٍ مَّرِیدٍ ‎﴿٣﴾‏ كُتِبَ عَلَیْهِ أَنَّهُ مَن تَوَلَّاهُ فَأَنَّهُ یُضِلُّهُ وَیَهْدِیهِ إِلَىٰ عَذَابِ السَّعِیرِ ‎﴿٤﴾‏ یَا أَیُّهَا النَّاسُ إِن كُنتُمْ فِی رَیْبٍ مِّنَ الْبَعْثِ فَإِنَّا خَلَقْنَاكُم مِّن تُرَابٍ ثُمَّ مِن نُّطْفَةٍ ثُمَّ مِنْ عَلَقَةٍ ثُمَّ مِن مُّضْغَةٍ مُّخَلَّقَةٍ وَغَیْرِ مُخَلَّقَةٍ لِّنُبَیِّنَ لَكُمْ ۚ وَنُقِرُّ فِی الْأَرْحَامِ مَا نَشَاءُ إِلَىٰ أَجَلٍ مُّسَمًّى ثُمَّ نُخْرِجُكُمْ طِفْلًا ثُمَّ لِتَبْلُغُوا أَشُدَّكُمْ ۖ وَمِنكُم مَّن یُتَوَفَّىٰ وَمِنكُم مَّن یُرَدُّ إِلَىٰ أَرْذَلِ الْعُمُرِ لِكَیْلَا یَعْلَمَ مِن بَعْدِ عِلْمٍ شَیْئًا ۚ وَتَرَى الْأَرْضَ هَامِدَةً فَإِذَا أَنزَلْنَا عَلَیْهَا الْمَاءَ اهْتَزَّتْ وَرَبَتْ وَأَنبَتَتْ مِن كُلِّ زَوْجٍ بَهِیجٍ ‎﴿٥﴾‏ذَٰلِكَ بِأَنَّ اللَّهَ هُوَ الْحَقُّ وَأَنَّهُ یُحْیِی الْمَوْتَىٰ وَأَنَّهُ عَلَىٰ كُلِّ شَیْءٍ قَدِیرٌ ‎﴿٦﴾‏ وَأَنَّ السَّاعَةَ آتِیَةٌ لَّا رَیْبَ فِیهَا وَأَنَّ اللَّهَ یَبْعَثُ مَن فِی الْقُبُورِ ‎﴿٧﴾(الحج)
’’ بعض لوگ اللہ کے بارے میں باتیں بناتے ہیں اور وہ بھی بےعلمی کے ساتھ اور ہر سرکش شیطان کی پیروی کرتے ہیں، جس پر (قضائے الٰہی) لکھ دی گئی ہے کہ جو کوئی اس کی رفاقت کرے گا وہ اسے گمراہ کر دے گا اور اسے آگ کے عذاب کی طرف لے جائے گا،لوگو ! اگر تمہیں مرنے کے بعد جی اٹھنے میں شک ہے تو سوچو ہم نے تمہیں مٹی سے پیدا کیا پھر نطفہ سے پھر خون بستہ سے پھر گوشت کے لوتھڑے سے جو صورت دیا گیا تھا اور وہ بےنقشہ تھا، یہ ہم تم پر ظاہر کردیتے ہیں، اور ہم جسے چاہیں ایک ٹھہرائے ہوئے وقت تک رحم مادر میں رکھتے ہیں پھر تمہیں بچپن کی حالت میں دنیا میں لاتے ہیں تاکہ تم اپنی پوری جوانی کو پہنچو، تم میں سے بعض تو وہ ہیں جو فوت کر لیے جاتے ہیں اور بعض بےغرض عمر کی طرف پھر سے لوٹا دئیے جاتے ہیں کہ وہ ایک چیز سے باخبر ہونے کے بعد پھر بےخبر ہوجائے، تو دیکھتا ہے کہ زمین (بنجر اور) خشک ہے پھر جب ہم اس پر بارشیں برساتے ہیں تو وہ ابھرتی ہے اور پھولتی ہے اور ہر قسم کی رونق دار نباتات اگاتی ہے، یہ اس لیے کہ اللہ ہی حق ہے اور وہی مردوں کو جلاتا ہے اور ہر ہر چیز پر قدرت رکھنے والا ہے، اور یہ کہ قیامت قطعاً آنے والی ہے جس میں کوئی شک و شبہ نہیں اور یقیناً اللہ تعالیٰ قبروں والوں کو دوبارہ زندہ فرمائے گا۔‘‘

مشرکین اللہ وحدہ لاشریک کے بارے میں اپنی بے علمی ،جہالت اورشیطان کی پیروی میں باتیں بناتے ہیں کہ اللہ کس چیزسے بناہواہے

أَبُو كَعْبٍ الْمَكِّیُّ قَالَ:قَالَ خَبِیثٌ مِنْ خُبثاء قُرَیْشٍ: أَخْبِرْنَا عَنْ رَبِّكُمْ، مِنْ ذَهَبٍ هُوَ، أَوْ مِنْ فِضَّةٍ هُوَ، أَوْ مِنْ نُحَاسٍ هُوَ؟ فَقَعْقَعَتِ السَّمَاءُ قَعْقَعَةً

ابوکعب المکی سے روایت ہے قریش کے خبیثوں میں سے ایک خبیث( نضربن حارث )نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھااپنے رب کے بارے میں ہمیں بتلائیں وہ سونے کا ہے یا چاندی کایاتانبے کاہے ؟اس کے اس سوال پرآسمان لرزاٹھااوراس کی کھوپڑی اڑگئی،یہ آیت اسی کے بارے میں اتری۔ [26]

عَنْ مُجَاهِدٍ: جَاءَ یَهُودِیٌّ فَقَالَ: یَا مُحَمَّدُ، أَخْبِرْنَا عَنْ رَبِّكَ: مَنْ أَیِّ شَیْءٍ هُوَ؟ مِنْ دُرٍّ أَمْ مِنْ یَاقُوتٍ؟ قال: فجاءت صاعقة فأخذته.

مجاہد رحمہ اللہ سے مروی ہےایک یہودی (اربدبن ربیعہ) آیا اوراس نے کہااے محمد( صلی اللہ علیہ وسلم )! اپنے رب کے بارے میں ہمیں بتلائیں وہ کس چیزسے بناہواہے؟ وہ موتیوں سے بنا ہواہے یایاقوت سے بناہواہے؟اسی وقت آسمانی کڑاکے نے اسے ہلاک کردیا۔[27]

قیامت کی مختصرکیفیت بیان کرنے کے بعداصل مقصودپرگفتگوفرمائی ، اہل عرب اللہ کے وجودکے منکرنہیں تھے مگرانہوں نے اس کے حقوق اوراختیارات اپنے باطل معبودوں کوسونپ رکھے تھے اس لئے اللہ کی بھیجی ہوئی تعلیمات کے بھی منکرتھے جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت توحیداورآخرت تھی ،اسی عقیدہ پر دونوں فریقوں میں جھگڑاتھاکہ اللہ کیا کرسکتاہے اورکیانہیں کرسکتااور اللہ ایک ہے یاکچھ دوسری ہستیاں بھی اس میں شامل ہیں اوران ہستیوں کے پاس کیاحقوق واختیارات ہیں ، چنانچہ فرمایاکہ بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ وہ مرنے کے بعدمٹی ہوجائیں گےاور اللہ تعالیٰ انسانوں کودوبارہ پیداکرنے پرقادرنہیں ،جیسے فرمایا

۔۔۔قَالَ مَنْ یُّـحْیِ الْعِظَامَ وَہِىَ رَمِیْمٌ۝۷۸          [28]

ترجمہ:کون ان ہڈیوں کو زندہ کرے گا جبکہ یہ بوسیدہ ہوچکی ہوں ؟۔

اورکچھ ایسے بھی ہیں جو(نعوذباللہ)اللہ تعالیٰ کی اولادکے قائل ہیں جیسے یہودعزیز علیہ السلام کواورنصاریٰ عیسیٰ  علیہ السلام کواللہ کابیٹامانتے ہیں ۔

 وَقَالَتِ الْیَہُوْدُ عُزَیْرُۨ ابْنُ اللہِ وَقَالَتِ النَّصٰرَى الْمَسِیْحُ ابْنُ اللہِ۔۔۔۝۳۰         [29]

ترجمہ:یہودی کہتے ہیں کہ عزَیر اللہ کا بیٹا ہے، اور عیسائی کہتے ہیں کہ مسیح اللہ کا بیٹا ہے ۔

یہ لوگ بغیرکسی دلیل کے اللہ کی کتاب اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کو چھوڑکر ہرسرکش شیطان کی پیروی کرتے ہیں ،اورشیطان کی بابت تقدیرالٰہی میں یہ بات لکھ دی گئی ہے کہ جو کوئی اس کواپنادوست بنائے گایہ اسے سیدھی اورصاف راہ سے بہکا کرظلمتوں میں غرق کردے گااورانہیں اپنے ہمراہ عذاب جہنم میں داخل کرکے چھوڑے گا،جیسے فرمایا

۔۔۔اِنَّمَا یَدْعُوْا حِزْبَهٗ لِیَكُوْنُوْا مِنْ اَصْحٰبِ السَّعِیْرِ۝۶ۭ        [30]

ترجمہ:وہ تو اپنے پیرووں کو اپنی راہ پر اس لیے بلا رہا ہے کہ وہ دوزخیوں میں شامل ہو جائیں ۔

پھرانسان کوعلم الجنین کے تفصیلات کے بجائے اپنی تخلیق کے نمایاں تغیرات پرتدبرکی دعوت دی جس سے اس زمانے کے عام بدوبھی واقف تھے کہ اے لوگو! اگرتمہیں مرنے کے بعد روز حشر جی اٹھنے میں شک وشبہ ہے تواپنی تخلیق کی طرف غورکروہم نے نوح انسانی کاآغاز آدم  علیہ السلام کواپنے ہاتھوں سے کنکھناتی مٹی سے بناکرکیا ، پھر مردوعورت کے ملاپ کے بعدنطفہ (پانی کاایک حقیر بد بودارقطرہ)سے کیا،جیسے فرمایا

۔۔۔وَبَدَاَ خَلْقَ الْاِنْسَانِ مِنْ طِیْنٍ۝۷ۚثُمَّ جَعَلَ نَسْلَهٗ مِنْ سُلٰلَةٍ مِّنْ مَّاۗءٍ مَّهِیْنٍ۝۸ۚ    [31]

ترجمہ:اس نے انسان کی تخلیق کی ابتداء گارے سے کی،پھر اس کی نسل ایک ایسے ست سے چلائی جو حقیر پانی کی طرح کا ہے ۔

اورپھراس نطفے کوہم چالیس دن بعدخون بستہ گوشت کے لوتھڑے میں بدل دیتے ہیں جس کی کوئی شکل وصورت واضح نہیں ہوتی،

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ، حَدَّثَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ الصَّادِقُ المَصْدُوقُ،إِنَّ أَحَدَكُمْ یُجْمَعُ فِی بَطْنِ أُمِّهِ أَرْبَعِینَ یَوْمًا، ثُمَّ یَكُونُ عَلَقَةً مِثْلَ ذَلِكَ، ثُمَّ یَكُونُ مُضْغَةً مِثْلَ ذَلِكَ، ثُمَّ یَبْعَثُ اللَّهُ إِلَیْهِ مَلَكًا بِأَرْبَعِ كَلِمَاتٍ، فَیُكْتَبُ عَمَلُهُ، وَأَجَلُهُ، وَرِزْقُهُ، وَشَقِیٌّ أَوْ سَعِیدٌ، ثُمَّ یُنْفَخُ فِیهِ الرُّوحُ

جیسے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اورآپ سچوں کے سچے تھے کہ انسان کی پیدائش اس کی ماں کے پیٹ میں پہلے چالیس دن تک پوری کی جاتی ہے، پھروہ اتنے ہی دن کے بعد غلیظ اورگاڑھا خون کی صورت میں رہتا ہے، پھراتنے ہی دنوں کے بعدیہ گوشت کالوتھڑاکی شکل اختیار کر لیتا ہے،پھر(چوتھے چلہ میں ) اللہ تعالیٰ ایک فرشتے کوچارباتوں کی حکم دے کر بھیجتا ہے،پس وہ فرشتہ اس کے عمل،اس کی مدت زندگی،روزی اوریہ کہ وہ نیک ہے یابدکولکھ لیتاہے،اس کے بعداس میں روح پھونکی جاتی ہے۔[32]

عَنْ حُذَیْفَةَ بْنِ أَسِیدٍ، یَبْلُغُ بِهِ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: یَدْخُلُ الْمَلَكُ عَلَى النُّطْفَةِ بَعْدَ مَا تَسْتَقِرُّ فِی الرَّحِمِ بِأَرْبَعِینَ، أَوْ خَمْسَةٍ وَأَرْبَعِینَ لَیْلَةً، فَیَقُولُ: یَا رَبِّ أَشَقِیٌّ أَوْ سَعِیدٌ؟ فَیُكْتَبَانِ، فَیَقُولُ: أَیْ رَبِّ أَذَكَرٌ أَوْ أُنْثَى؟ فَیُكْتَبَانِ، وَیُكْتَبُ عَمَلُهُ وَأَثَرُهُ وَأَجَلُهُ وَرِزْقُهُ، ثُمَّ تُطْوَى الصُّحُفُ، فَلَا یُزَادُ فِیهَا وَلَا یُنْقَصُ

حذیفہ بن اسیدسے مروی ہےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجب نطفہ بچہ دانی میں چالیس یاپینتالیس دن کے بعدجم جاتاہے تو فرشتہ نطفے کے پاس جاتاہےاورکہتاہے اے رب!اس کوبدبخت لکھوں یانیک بخت؟ پھرپروردگارجوکہتاہے ویساہی لکھ لیتاہے،پھرکہتاہے مردلکھوں یاعورت؟پھر پروردگار جو کہتا ہے ویساہی لکھ لیتاہےاوراس کاعمل اورعمراورروزی لکھتاہے، پھرکتاب لپیٹ دی جاتی ہے ، پھر اس سے نہ کوئی بڑھتی ہےاورنہ گھٹتی ہے۔[33]

اس طرح ہم اپنا کمال قدرت وتخلیق تمہارے لئے بیان کرتے ہیں ،جس روح نے دنیامیں آناہوتاہے اس کوایک وقت تک رحم مادرمیں ٹھیرائے رکھتے ہیں اورجب تخلیق کا عمل مکمل ہوجاتاہے توبچے کوماؤں کے رحموں سے باہرنکال لاتے ہیں تاکہ وہ اپنی بھر پورجوانی کوپہنچے ،اوربعض کوہم اشدعمریعنی بلوغت یاکمال عقل وکمال قوت وتمیزسے پہلے (تیس سے چالیس سال کے درمیان)موت دے دیتے ہیں اوربعض کوبے غرض عمریعنی خسیس ترین عمر کی طرف دھکیل دیتے ہیں جس میں اس کے قوائے میں ضعف وانحطاط پیدا ہو جاتا ہے ، اس کی عقل وحافظہ کمزورہوجاتاہے اوروہی شخص جس کوعلم وواقفیت اورتجربہ کاری اورجہاں دیدگی پرنازتھا،جودوسروں کوعقل وخردکی باتیں بتلاتاتھااس کی یاداشت اورعقل وفہم بچے جیساہوجاتاہے۔جیسےفرمایا

اَللهُ الَّذِیْ خَلَقَكُمْ مِّنْ ضُؔعْفٍ ثُمَّ جَعَلَ مِنْۢ بَعْدِ ضُؔعْفٍ قُوَّةً ثُمَّ جَعَلَ مِنْۢ بَعْدِ قُوَّةٍ ضُؔعْفًا وَّشَیْبَةً۝۰ۭ یَخْلُقُ مَا یَشَاۗءُ۝۰ۚ وَهُوَالْعَلِیْمُ الْقَدِیْرُ۝۵۴ [34]

ترجمہ:اللہ ہی تو ہے جس نے ضعف کی حالت سے تمہاری پیدائش کی ابتدا کی پھر اس ضعف کے بعد تمہیں قوت بخشی ، پھر اس قوت کے بعد تمہیں ضعیف اور بوڑھا کر دیا وہ جو کچھ چاہتا ہے پیدا کرتا ہے اور وہ سب کچھ جاننے والا ، ہر چیز پر قدرت رکھنے والا ہے۔

وَمَنْ نُّعَمِّرْهُ نُنَكِّسْهُ فِی الْخَلْقِ۝۰ۭ اَفَلَا یَعْقِلُوْنَ۝۶۸   [35]

ترجمہ:جس شخص کو ہم لمبی عمر دیتے ہیں اس کی ساخت کو ہم الٹ ہی دیتے ہیں کیا (یہ حالت دیکھ کر ) انہیں عقل نہیں آتی؟۔

یعنی جوذات عدم سے وجودمیں لاسکتی ہے۔

 ہَلْ اَتٰى عَلَی الْاِنْسَانِ حِیْنٌ مِّنَ الدَّہْرِ لَمْ یَكُنْ شَـیْــــًٔا مَّذْكُوْرًا۝۱    [36]

ترجمہ:کیا انسان پر لامتناہی زمانے کا ایک وقت ایسا بھی گزرا ہے جب وہ کوئی قابل ذکر چیز نہ تھا؟۔

جو ایک حقیرقطرہ پانی سے اس طرح ایک انسانی پیکرتراش کرایک حسین وجودعطاکرسکتاہے۔

الَّذِیْ خَلَقَكَ فَسَوّٰىكَ فَعَدَلَكَ۝۷ۙفِیْٓ اَیِّ صُوْرَةٍ مَّا شَاۗءَ رَكَّبَكَ۝۸ۭ       [37]

ترجمہ:جس نے تجھے پیدا کیا، تجھے نک سک سے درست کیا، تجھے متناسب بنایااور جس صورت میں چاہا تجھ کو جوڑ کر تیار کیا ؟۔

اسے بہترین صلاحیتیں عطاکرسکتاہے،اسے مختلف مراحل سے گزارتاہوابڑھاپے کے ایسے مقام پرپہنچادیتاہے جہاں اس کے جسم سے لے کر اس کی ذہنی ودماغی صلاحتیں تک سب ضعف وانحطاط کاشکارہوجائیں کیااس کے لئے اسے دوبارہ زندگی عطاکردینامشکل کام ہے ؟یقیناًجوذات انسان کوان مراحل سے گزارسکتی ہے وہی ذات مرنے کے بعدبھی اسے دوبارہ زندہ کرکے ایک نیاقالب اورنیاوجودبخش سکتی ہے ،پھراللہ تعالیٰ نے مردوں کو دوبارہ زندہ کرنے کی اپنی قدرت کی دوسری دلیل فرمائی تا کہ انسان یہ جان لے کہ جواللہ ان تمام اشیاء کومختلف اندازدے سکتاہے وہ انسان کو مار کر پھرپیدابھی کرسکتاہے اوردوبارہ پیداکرکے وہ انسان کے اعمال کی جزاوسزاپربھی قادرہے، فرمایاتم دیکھتے ہوزمین بنجریعنی خشک ،چٹیل اوربے آب وگیاہ پڑی ہوتی ہے،اس میں خاک اڑرہی ہوتی ہے لیکن بارش کے بعدیہ کس طرح لہلہاتی اورتروتازہ ہوجاتی ہے اورانواع واقسام کے غلے،کھٹے میٹھے خوش ذائقہ خوبصورت رنگ روپ والے پھل ، اوررنگ برنگ کے پھولوں سے مالامال ہوجاتی ہے ،جودیکھنے والوں کوخوش کرتی ہے،جیسے فرمایا

وَمِنْ اٰیٰتِہٖٓ اَنَّكَ تَرَى الْاَرْضَ خَاشِعَةً فَاِذَآ اَنْزَلْنَا عَلَیْہَا الْمَاۗءَ اہْتَزَّتْ وَرَبَتْ ۔۔۔۝۳۹  [38]

ترجمہ:اور اللہ کی نشانیوں میں سے ایک یہ ہے کہ تم دیکھتے ہو زمین سونی پڑی ہوئی ہےپھر جونہی کہ ہم نے اس پر پانی برسایا یکایک وہ بھبک اٹھتی ہے اور پھول جاتی ہے۔

وَہُوَالَّذِیْ یُرْسِلُ الرِّیٰحَ بُشْرًۢا بَیْنَ یَدَیْ رَحْمَتِہٖ۝۰ۭ حَتّٰٓی اِذَآ اَقَلَّتْ سَحَابًا ثِقَالًا سُقْنٰہُ لِبَلَدٍ مَّیِّتٍ فَاَنْزَلْنَا بِہِ الْمَاۗءَ فَاَخْرَجْنَا بِہٖ مِنْ كُلِّ الثَّمَرٰتِ۔۔۔۝۵۷ [39]

ترجمہ:اور وہ اللہ ہی ہے جو ہواؤں کو اپنی رحمت کے آگے آگے خوشخبری لیے ہوئے بھیجتا ہے، پھر جب وہ پانی سے لدے ہوئے بادل اٹھا لیتی ہیں تو انہیں کسی مردہ سر زمین کی طرف حرکت دیتا ہے اور وہاں مینہ برسا کر( اسی مری ہوئی زمین سے )طرح طرح کے پھل نکال لاتا ہے۔

اَوَلَمْ یَرَوْا اَنَّا نَسُوْقُ الْمَاۗءَ اِلَى الْاَرْضِ الْجُرُزِ فَنُخْرِجُ بِہٖ زَرْعًا تَاْكُلُ مِنْہُ اَنْعَامُہُمْ وَاَنْفُسُہُمْ۔۔۔۝۲۷ [40]

ترجمہ:اور کیا ان لوگوں نے یہ منظر کبھی نہیں دیکھا کہ ہم ایک بےآب گیا ہ زمین کی طرف پانی بہا لاتے ہیں ، پھر اسی زمین سے وہ فصل اگاتے ہیں جس سے ان کے جانوروں کو بھی چارہ ملتا ہے اور یہ خود بھی کھاتے ہیں ؟ ۔

 اَلَمْ تَرَ اَنَّ اللہَ اَنْزَلَ مِنَ السَّمَاۗءِ مَاۗءً فَسَلَكَہٗ یَنَابِیْعَ فِی الْاَرْضِ ثُمَّ یُخْرِجُ بِہٖ زَرْعًا مُّخْتَلِفًا اَلْوَانُہٗ۔۔۔۝۲۱ۧ [41]

ترجمہ:کیا تم نہیں دیکھتے کہ اللہ نے آسمان سے پانی برسایا پھر اس کو سوتوں اور چشموں اور دریاؤں کی شکل میں زمین کے اندر جاری کیا پھر اس پانی کے ذریعہ سے وہ طرح طرح کی کھیتیاں نکالتا ہے جن کی قسمیں مختلف ہیں ۔

 اَلَمْ تَرَ اَنَّ اللہَ اَنْزَلَ مِنَ السَّمَاۗءِ مَاۗءً۝۰ۚ فَاَخْرَجْنَا بِہٖ ثَمَرٰتٍ مُّخْتَلِفًا اَلْوَانُہَا۔۔۔۝۲۷    [42]

ترجمہ:کیا تم دیکھتے نہیں ہو کہ اللہ آسمان سے پانی برساتا ہے اور پھر اس کے ذریعہ سے ہم طرح طرح کے پھل نکال لاتے ہیں جن کے رنگ مختلف ہوتے ہیں ۔

جس طرح چٹیل میدان میں جہاں کچھ نہ تھاوہاں سب کچھ ہوجاتاہے اسی طرح اللہ تعالیٰ قیامت کے دن انسانوں کوان کی قبروں سے اٹھاکھڑاکرے گاسبحان اللہ وبحمدہ سب کچھ اس لئے ہے کہ اللہ ہی حق ہے یعنی وہی رب معبودہے اس کے سواکوئی ہستی عبادت کے لائق نہیں ،اسی کی عبادت حق ہے اوراس کے سواکسی دوسرے کی عبادت باطل ہے ،ایک وقت مقررہ پر قیامت قائم ہوکررہے گی،اس کوبعیدسمجھنے کی کوئی وجہ نہیں ، اوراللہ تعالیٰ اعمال کی جزاوسزاکے لئے ابتدائی تخلیق کی طرح مردوں کوان کی قبروں سے یقیناًزندہ فرمائے گاجس طرح وہ زمین کومردہ ہونے کے بعدزندہ کرتاہے،بیشک اللہ اپنی بدیع قدرت اورعظیم صنعت پرقدرت رکھنے والا ہے ،

عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ قَالَ:مَنْ عَلِمَ أَنَّ اللَّهَ هُوَ الْحَقُّ الْمُبِینُ، وَأَنَّ السَّاعَةَ آتِیَةٌ لَا رَیْبَ فِیهَا، وَأَنَّ اللَّهَ یَبْعَثُ مَنْ فِی الْقُبُورِدَخَلَ الْجَنَّةَ.

معاذبن جبل رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں جواس بات کایقین رکھے کہ اللہ تعالیٰ حق ہے اورقیامت قطعا ًبے شبہ آنے والی ہے اوراللہ تعالیٰ مردوں کوقبروں سے دوبارہ زندہ کرے گا وہ یقیناً جنتی ہے۔[43]

‏ وَمِنَ النَّاسِ مَن یُجَادِلُ فِی اللَّهِ بِغَیْرِ عِلْمٍ وَلَا هُدًى وَلَا كِتَابٍ مُّنِیرٍ ‎﴿٨﴾‏ ثَانِیَ عِطْفِهِ لِیُضِلَّ عَن سَبِیلِ اللَّهِ ۖ لَهُ فِی الدُّنْیَا خِزْیٌ ۖ وَنُذِیقُهُ یَوْمَ الْقِیَامَةِ عَذَابَ الْحَرِیقِ ‎﴿٩﴾‏ ذَٰلِكَ بِمَا قَدَّمَتْ یَدَاكَ وَأَنَّ اللَّهَ لَیْسَ بِظَلَّامٍ لِّلْعَبِیدِ ‎﴿١٠﴾‏ (الحج)
’’ بعض لوگ اللہ کے بارے میں بغیر علم کے بغیر ہدایت کے اور بغیر روشن دلیل کے جھگڑتے ہیںجو اپنی پہلو موڑنے والا بن کر، اس لیے کہ اللہ کی راہ سے بہکا دے، اسے دنیا میں بھی رسوائی ہوگی اور قیامت کے دن بھی ہم اسے جہنم میں جلنے کا عذاب چکھائیں گے،یہ ان اعمال کی وجہ سے جو تیرے ہاتھوں نے آگے بھیج رکھے تھے، یقین مانو کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر ظلم کرنے والا نہیں۔‘‘

گمراہ جاہل مقلدلوگ:

کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جوگمراہی کے راستے پرگامزن ہیں اوربغیرکسی ذاتی تجربہ یاکسی علمی دلیل یااللہ کے نازل کردہ روشن اورواضح کلام سے اللہ کے حقوق ،اختیارات اوراس کی نازل کردہ تعلیمات کےبارے میں باطل دلائل کے ساتھ جھگڑتے ہیں اورباطل کوحق اورحق کوباطل ثابت کرناچاہتے ہیں یعنی ان کے پاس نہ عقلی دلیل ہے اورنہ نقلی دلیل،یہ محض شبہات ہیں جوشیطان ان کی طرف القاء کرتاہے ،جیسے فرمایا

۔۔۔وَاِنَّ الشَّیٰطِیْنَ لَیُوْحُوْنَ اِلٰٓی اَوْلِیٰۗـــِٕــهِمْ لِیُجَادِلُوْكُمْ۔۔۔ ۝۱۲۱ۧ [44]

ترجمہ: شیاطین اپنے ساتھیوں کے دلوں میں شکوک و اعتراضات القا کرتے ہیں تاکہ وہ تم سے جھگڑا کریں ۔

اس لئے یہ حق سے اعراض کرتے ہوئے جاہلانہ ضد اورہٹ دھرمی ،تکبر اور غرور نفس سے اپنی گردن موڑتے ہوئے پھرتاہے،تاکہ دوسروں کوبھی صراط مستقیم سے بھٹکا دیں ، اس کیفیت کومتعددمقامات پربیان فرمایا

وَاِذَا تُتْلٰى عَلَیْهِ اٰیٰتُنَا وَلّٰى مُسْتَكْبِرًا كَاَنْ لَّمْ یَسْمَعْهَا۔۔۔۝۷        [45]

ترجمہ:جب اس کے سامنے ہماری آیتیں تلاوت کی جاتی ہیں توتکبرکرتاہوااس طرح منہ پھیرلیتاہے گویااس نے سنا ہی نہیں ۔

وَاِذَا قِیْلَ لَهُمْ تَعَالَوْا یَسْتَغْفِرْ لَكُمْ رَسُوْلُ اللهِ لَوَّوْا رُءُوْسَهُمْ ۔۔۔۝۵  [46]

ترجمہ:اورجب ان سے کہاجاتاہے کہ آؤتمہارے لئے اللہ کے رسول استغفارکریں تواپنے سرمٹکاتے ہیں ۔

وَاِذَآ اَنْعَمْنَا عَلَی الْاِنْسَانِ اَعْرَضَ وَنَاٰ بِجَانِبِهٖ۔۔۔ ۝۸۳ [47]

ترجمہ:انسان کا حال یہ ہے کہ جب ہم اس کو نعمت عطا کرتے ہیں تووہ اینٹھتا اور پیٹھ موڑ لیتا ہے۔

وہ لوگ جوخودبھی گمراہی میں غرق ہیں اوردوسروں کو بھی سیدھی راہ سے بھٹکانے پر تلے ہوئے ہیں انہیں دنیامیں بھی ذلت ورسوائی نصیب ہوگی اورروزآخرت ان کامستقل قیام جہنم کی ہولناک آگ میں ہوگا ، اورکہاجائے گایہ عذاب اوررسوائی جس کاتوسامناکررہاہے تیری افتراپردارزی اورتکبرکے سبب سے ہے ،ورنہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پرظلم نہیں کرتا،وہ مومن اورکافر،نیک اوربدکے ساتھ مساوی سلوک نہیں کرتاوہ ہرایک کواس کے عمل کی جزادیتاہے۔

‏ وَمِنَ النَّاسِ مَن یَعْبُدُ اللَّهَ عَلَىٰ حَرْفٍ ۖ فَإِنْ أَصَابَهُ خَیْرٌ اطْمَأَنَّ بِهِ ۖ وَإِنْ أَصَابَتْهُ فِتْنَةٌ انقَلَبَ عَلَىٰ وَجْهِهِ خَسِرَ الدُّنْیَا وَالْآخِرَةَ ۚ ذَٰلِكَ هُوَ الْخُسْرَانُ الْمُبِینُ ‎﴿١١﴾‏ یَدْعُو مِن دُونِ اللَّهِ مَا لَا یَضُرُّهُ وَمَا لَا یَنفَعُهُ ۚ ذَٰلِكَ هُوَ الضَّلَالُ الْبَعِیدُ ‎﴿١٢﴾‏ یَدْعُو لَمَن ضَرُّهُ أَقْرَبُ مِن نَّفْعِهِ ۚ لَبِئْسَ الْمَوْلَىٰ وَلَبِئْسَ الْعَشِیرُ ‎﴿١٣﴾‏ (الحج)
’’ بعض لوگ ایسے بھی ہیں کہ ایک کنارے پر (کھڑے) ہو کر اللہ کی عبادت کرتے ہیں،اگر کوئی نفع مل گیا تو دلچسپی لینے لگتے ہیں اور اگر کوئی آفت آگئی تو اسی وقت منہ پھیر لیتے ہیں، انہوں نے دونوں جہان کا نقصان اٹھا لیا، واقع یہ کھلا نقصان ہے، اللہ کے سوا انہیں پکاراکرتے ہیں جو نہ انہیں نقصان پہنچا سکیں نہ نفع، یہی تو دور دراز کی گمراہی ہے، اسے پکارتے ہیں جس کا نقصان اس کے نفع سے زیادہ قریب ہے، یقیناً برے والی ہیں اور برے ساتھی۔‘‘

 مضطرب العقیدہ لوگ :

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: {وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَعْبُدُ اللَّهَ عَلَى حَرْفٍ} ،[48] قَالَ: كَانَ الرَّجُلُ یَقْدَمُ المَدِینَةَ، فَإِنْ وَلَدَتِ امْرَأَتُهُ غُلاَمًا، وَنُتِجَتْ خَیْلُهُ، قَالَ: هَذَا دِینٌ صَالِحٌ، وَإِنْ لَمْ تَلِدِ امْرَأَتُهُ وَلَمْ تُنْتَجْ خَیْلُهُ، قَالَ: هَذَا دِینُ سُوءٍ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ آیت’’اور لوگوں میں کوئی ایسا ہے جو کنارے پر رہ کر اللہ کی بندگی کرتا ہے۔‘‘ کے متعلق فرماتے ہیں بعض لوگ مدینہ منورہ آتے(اوراپنے اسلام کا اظہار کرتے) اس کے بعداگراس کی بیوی کے یہاں لڑکاہوتااورگھوڑی بھی بچہ دیتی توکہتے یہ دین(اسلام) توبہت ہی اچھاہے،اوراگران کے یہاں لڑکانہ پیداہوتااورگھوڑی بھی کوئی بچہ نہ دیتی  توکہتے یہ دین تونہایت ہی براہے،اس پرمذکورہ بالاآیت نازل ہوئی ۔[49]

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللهُ عَنْهُمَا قَالَ: كَانَ ناس مِنَ الأعراب یَأْتُونَ النَّبِیَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَیُسْلِمُونَ، فَإِذَا رَجَعُوا إِلَى بِلَادِهِمْ، فإن وجدوا عَامَ غَیْثٍ وَعَامَ خِصْبٍ وَعَامَ وِلادٍ حَسَنٍ، قالوا: إِنَّ دیننا هَذَا صالح فتمَسَّكُوا بِهِ. وَإِنْ وَجَدُوا عَامَ جُدوبة وَعَامَ وِلَادٍ سَوء وَعَامَ قَحْطٍ، قالوا: مَا فی دیننا هَذَا خیر. فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَلَى نَبِیِّهِ وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَعْبُدُ اللَّهَ عَلَى حَرْفٍ .

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہےاعراب میں سے لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آتے اوراسلام قبول کر لیتےپھراپنے گھروں کوواپس پلٹے اوروہاں جاکربارش کوپاتے،اپنے جانوروں اورگھربارمیں خیروبرکت محسوس کرتے توبڑے اطمینان سے کہتے یہ دین(اسلام تو)بڑاہی اچھاہے،اوراس کے برعکس ہوتا توجھٹ سے کہہ دیتے کہ اس دین میں کوئی خیروبھلائی نہیں ہے، اس پراللہ تعالیٰ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ آیت’’بعض لوگ ایسے بھی ہیں کہ ایک کنارے پر (کھڑے) ہو کر اللہ کی عبادت کرتے ہیں ۔‘‘ نازل فرمائی۔ [50]

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللهُ عَنْهُمَا فی الآیة قَالَ: كَانَ أَحَدُهُمْ إِذَا قَدم الْمَدِینَةَ، وَهِیَ أَرْضٌ وَبِیئَةٌ ، فَإِنْ صَحَّ بِهَا جِسْمُهُ، ونُتِجت فَرَسُهُ مُهْرًا حَسَنًا، وَوَلَدَتِ امْرَأَتُهُ غُلَامًا، رَضِیَ بِهِ وَاطْمَأَنَّ إِلَیْهِ، وَقَالَ:مَا أَصَبْتُ مُنْذُ كنتُ عَلَى دِینِی هَذَا إِلَّا خَیْرًا وَإِنْ أَصَابَتْهُ فِتْنَةٌ وَالْفِتْنَةُ: الْبَلَاءُأَیْ: وَإِنْ أَصَابَهُ وَجَعُ المدینة، وَوَلَدَتِ امْرَأَتُهُ جَارِیَةً، وَتَأَخَّرَتْ عَنْهُ الصَّدَقَةُ، أَتَاهُ الشَّیْطَانُ فَقَالَ: وَاللَّهِ مَا أَصَبْتُ مُنْذُ كُنْتُ عَلَى دِینِكَ هَذَا إِلَّا شَرًّا. وَذَلِكَ الْفِتْنَةُ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے ایک اور روایت منقول ہےایسے لوگ بھی تھے جومدینہ پہنچتے ہی اگران کے ہاں لڑکاپیداہوجاتایاان کی اونٹنی بچہ دےدیتی توانہیں بہت راحت ہوتی اوروہ خوش ہوتے اوراس دین کی تعریفیں کرنے لگتےاوراگراس کے برعکس کوئی بلامصیبت آجاتی یامدینے کی آب وہواموافق نہ آتی،گھرمیں لڑکے کے بجائے لڑکی پیدا ہو جاتی،یاصدقے کامال میسرنہ آتا توشیطانی وسوسے میں آجاتےاورصاف کہہ دیتے کہ واللہ! اس دین میں تومشکل ہی مشکل ہے۔[51]

ان لوگوں کے بارے میں یہ آیات نازل ہوئیں کہ لوگوں میں کوئی ایساضعیف ایمان ہے جس کے دل میں ایمان کی بشاشت داخل نہیں ہوئی،وہ یاتوخوف سے ایمان لایاہے یامحض عادت کی بناپر، اوروہ بھی اس طریقے سے کہ سچ کے راستے میں جوسختیاں اورمصیبتیں درپیش ہوتی ہیں وہ ان مصائب کو برداشت کرنے کی ہمت وطاقت نہیں رکھتا اگراسے وافررزق مل رہا ہے،اس کی مرادیں پوری ہورہی ہیں ،نہ اللہ کادین اس سے کوئی قربانی کامطالبہ کرے اورنہ دنیامیں اس کی کوئی خواہش اورآرزوپوری ہونے سے رہ جائے تو وہ ایمان پرنہیں بلکہ پہنچنے والی بھلائی پرمطمئن ہوتاہے اوراللہ تعالیٰ بسااوقات اسے عافیت میں رکھتاہے اوراسے ایسے فتنوں میں مبتلانہیں کرتاجواسے اس کے دین سے پھیر دیں ،لیکن اگراس کو کوئی تکلیف، مصیبت اورمشقت پہنچتی ہے یاکوئی محبوب چیزاس سے چھن جاتی ہے تواس مضطرب العقیدہ اوربندہ نفس کواللہ کی خدائی،رسول کی رسالت اوردین کی حقانیت پراطمینان نہیں رہتاوہ سمجھتاہے کہ قسمت کے بناؤ اوربگاڑکے سرشتے اللہ کے سواکسی اورکے ہاتھ میں ہیں ،وہ اللہ کی قدرت سے مایوس ہوکر کفروشرک کی طرف لوٹ جاتا ہے،پھروہ ہراس آستانے پرجھکنے کے لئے تیار ہو جاتا ہے جہاں سے اس کوفائدے کی امیداورنقصان سے بچ جانے کی توقع ہوتی ہے ،ایسے بدنصیب لوگوں اپنی دنیا وآخرت دونوں کوبربادکرلیتے ہیں ،اللہ تعالیٰ نے جنت کوجس کی چوڑائی آسمانوں اورزمین کے برابرہے ایسے لوگوں پرحرام کردی ہےاوروہ جہنم کامستحق قرارپاتاہے،جیسے فرمایا

۔۔۔اِنَّہٗ مَنْ یُّشْرِكْ بِاللہِ فَقَدْ حَرَّمَ اللہُ عَلَیْہِ الْجَنَّةَ وَمَاْوٰىہُ النَّارُ۔۔۔۝۷۲ [52]

ترجمہ: جس نے اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھیرایا اس پر اللہ نے جنّت حرام کر دی اور اس کا ٹھکانا جہنّم ہے ۔

یہ ہے واضح اور کھلاخسارہ۔پھریہ مرتداللہ کوچھوڑکرجس کے قبضہ قدرت میں نفع ونقصان ہے ،جوخودبے نیازہے اوربے نیازکرنے والاہے ایسی ہستیوں کے سامنے سر بسجود ہو کر انہیں پکارتا ہے جواسے کوئی نقصان دے سکتی ہیں نہ نفع،اوریہ انتہاکوپہنچی ہوئی گمراہی ہے،وہ اسے پکارتاہے جس کانقصان اس کے نفع سے زیادہ قریب ہے،قابل مذمت ہے وہ انسان یاشیطان جس نے اسے اس راہ پرچلایااور قابل ملامت ہے یہ کارسازو ہم نشین۔

إِنَّ اللَّهَ یُدْخِلُ الَّذِینَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ جَنَّاتٍ تَجْرِی مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ ۚ إِنَّ اللَّهَ یَفْعَلُ مَا یُرِیدُ ‎﴿١٤﴾‏ مَن كَانَ یَظُنُّ أَن لَّن یَنصُرَهُ اللَّهُ فِی الدُّنْیَا وَالْآخِرَةِ فَلْیَمْدُدْ بِسَبَبٍ إِلَى السَّمَاءِ ثُمَّ لْیَقْطَعْ فَلْیَنظُرْ هَلْ یُذْهِبَنَّ كَیْدُهُ مَا یَغِیظُ ‎﴿١٥﴾‏وَكَذَٰلِكَ أَنزَلْنَاهُ آیَاتٍ بَیِّنَاتٍ وَأَنَّ اللَّهَ یَهْدِی مَن یُرِیدُ ‎﴿١٦﴾‏(الحج )
’’ ایمان اور نیک اعمال والوں کو اللہ تعالیٰ لہریں لیتی ہوئی نہروں والی جنتوں میں لے جائے گا،اللہ جو ارادہ کرے اسے کرکے رہتا ہے،جس کا خیال یہ ہو کہ اللہ تعالیٰ اپنے رسول کی مدد دونوں جہان میں نہ کرے گا وہ اونچائی پر ایک رسہ باندھ کر (اپنے حلق میں پھندا ڈال کر اپنا گلا گھونٹ لے)پھر دیکھ لے کہ اس کی چالاکیوں سے وہ بات ہٹ جاتی ہے جو اسے تڑپا رہی ہے ؟ ہم نے اس طرح اس قرآن کو واضح آیتوں میں اتارا ہے، جسے اللہ چاہے ہدایت نصیب فرماتا ہے۔‘‘

 یقین کے مالک لوگ:

ان لوگوں کے برعکس وہ لوگ جن کے دلوں میں ایمان وتقویٰ محکم ہے ،جوسنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے دلدادہ ہیں ،اورثابت قدمی سے دین حق پرچلنے کی حتی الامکان کوشش کرتے ہیں ،جواللہ کی زمین پرامن قائم کرنے کے لئے نیکی کاحکم دیتے ہیں اوربرائیوں سے روکتے ہیں ،جولوگ اللہ تعالیٰ کے نظام کونافذکرنے کی کوشش کرتے ہیں یہی راہ یافتہ مخلص لوگ ہیں ،جن کوروزمحشراللہ تعالیٰ اعلیٰ درجات عنایت کرکے اپنی نعمتوں بھری جنتوں میں ہمیشہ ہمیشہ کے لئےداخل فرمائے گا،جہاں یہ بلند وبالامحلات میں قیام کریں گے جن کے نیچے ہرطرح کی نہریں بہہ رہی ہوں گی، خوبصورت گھنے سایہ دار درخت اورنباتات ہیں ،اللہ تعالیٰ جوبھی ارادہ فرماتاہے بغیرکسی مانع اورمعارض کے کرگزرتاہے ،اوراس کاایک ارادہ یہ ہے کہ وہ اہل تقویٰ کوجنت میں داخل کرے گا،اورجولوگ اللہ کے نورکواپنی پھونکوں سے بجھاناچاہتے ہیں اوراپنی جہالت کی بناپریہ اعتقاد رکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنے نبی کی مددنہیں فرمائے گااوراس کادین عنقریب ختم ہوجائے گاتواس کایہ محض خیال ہی ہے ، وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف کوئی بھی چال چل لے ،اللہ آسمان سے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مددضرورفرمائے گا،اوراپنے دین ، اپنی کتاب اوراپنے نبی کے اثرونفوذکوترقی دے گا،جیسےفرمایا

 اِنَّا لَنَنْصُرُ رُسُلَنَا وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا وَیَوْمَ یَقُوْمُ الْاَشْهَادُ۝۵۱ۙ   [53]

ترجمہ:یقین جانو کہ ہم اپنے رسولوں اور ایمان لانے والوں کی مدد اس دنیا کی زندگی میں بھی لازماًکرتے ہیں اور اس روز بھی کریں گے جب گواہ کھڑے ہوں گے۔

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُمَا، فِی قَوْلِهِ تَعَالَى:مَنْ كَانَ یَظُنُّ أَنْ لَنْ یَنْصُرَهُ اللَّهُ،قَالَ:مَنْ كَانَ یَظُنُّ أَنْ لَنْ یَنْصُرَ اللَّهُ مُحَمَّدًا فَلْیَرْبِطْ حَبْلًا فِی سَقْفٍ , ثُمَّ لِیَخْتَنِقْ بِهِ حَتَّى یَمُوتَ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں اس آیت کریمہ مَنْ كَانَ یَظُنُّ أَنْ لَنْ یَنْصُرَهُ اللَّهُ کے معنی یہ ہیں جوشخص یہ گمان کرتاہوکہ اللہ تعالیٰ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی دنیاوآخرت میں مدد نہیں فرمائے گاتواس کاچاہیے کہ اوپرکی طرف(اپنے گھرکی چھت میں )ایک رسی باندھے پھر(اس سے اپنا)گلاگھونٹ لے۔[54]

اللہ کے اختیارات غیرمحدودہیں ،وہ دنیامیں یاآخرت میں یادونوں جگہوں پرجس کوجوچاہتاہے عنایت کردیتاہے اورجس سے چاہتا روک دیتاہے ،وہ دیناچاہئے توکوئی روکنے والانہیں اوراگرنہ دیناچاہئے توکوئی دلوانے والا نہیں ، ہاں وہ اپناحتی الامکان زورلگاکردیکھ لے حتی کہ آسمان کوپھاڑکرتھگلی لگاسکتاہے تویہ بھی کرکے دیکھ لے کہ آیااس کی کوئی تدبیرتقدیرالٰہی کے کسی ایسے فیصلے کوبدل سکتی ہے جواس کوناگوارہے ،ایسی ہی صاف اورواضح باتوں کے ساتھ اللہ نے قرآن نازل فرمایاہے ،اوراللہ جسے چاہتاصراط مستقیم پرچلنے کی توفیق عطافرمادیتاہے۔

‏ إِنَّ الَّذِینَ آمَنُوا وَالَّذِینَ هَادُوا وَالصَّابِئِینَ وَالنَّصَارَىٰ وَالْمَجُوسَ وَالَّذِینَ أَشْرَكُوا إِنَّ اللَّهَ یَفْصِلُ بَیْنَهُمْ یَوْمَ الْقِیَامَةِ ۚ إِنَّ اللَّهَ عَلَىٰ كُلِّ شَیْءٍ شَهِیدٌ ‎﴿١٧﴾‏ أَلَمْ تَرَ أَنَّ اللَّهَ یَسْجُدُ لَهُ مَن فِی السَّمَاوَاتِ وَمَن فِی الْأَرْضِ وَالشَّمْسُ وَالْقَمَرُ وَالنُّجُومُ وَالْجِبَالُ وَالشَّجَرُ وَالدَّوَابُّ وَكَثِیرٌ مِّنَ النَّاسِ ۖ وَكَثِیرٌ حَقَّ عَلَیْهِ الْعَذَابُ ۗ وَمَن یُهِنِ اللَّهُ فَمَا لَهُ مِن مُّكْرِمٍ ۚ إِنَّ اللَّهَ یَفْعَلُ مَا یَشَاءُ ‎﴿١٨﴾‏ (الحج)
’’ بیشک اہل ایمان اور یہودی اور صابی اور نصرانی اور مجوسی اور مشرکین ان سب کے درمیان قیامت کے دن خود اللہ تعالیٰ فیصلہ کردے گا، اللہ تعالیٰ ہر ہر چیز پر گواہ ہے ، کیا تو نہیں دیکھ رہا کہ اللہ کے سامنے سجدے میں ہیں سب آسمانوں والے اور سب زمینوں والے اور سورج اور چاند اور ستارے اور پہاڑ اور درخت اور جانور، اور بہت سے انسان بھی، ہاں بہت سے وہ بھی ہیں جن پر عذاب کا مقولہ ثابت ہوچکا ہے ،جسے رب ذلیل کر دے اسے کوئی عزت دینے والا نہیں، اللہ جو چاہتا ہے کرتا ہے۔‘‘

مختلف مذاہب کافیصلہ روزقیامت ہوگا:

جولوگ ایمان لائے اوریہودی ہوئے(جوعزیز علیہ السلام کواللہ بیٹاکہتے ہیں )

وَقَالَتِ الْیَهُوْدُ عُزَیْرُۨ ابْنُ اللهِ۔۔۔ ۝۳۰   [55]

ترجمہ: یہودی کہتے ہیں کہ عزیر علیہ السلام اللہ کا بیٹا ہے۔

اورصابئی(یحییٰ علیہ السلام کے پیروکاریاستارہ پرست جوخودکوشیث اور ادریس علیہ السلام کی طرف منسوب کرتے ہیں ) اورنصاری( جوعیسیٰ  علیہ السلام کواللہ کا بیٹا مانتے ہیں )

۔۔۔وَقَالَتِ النَّصٰرَى الْمَسِیْحُ ابْنُ اللهِ۔۔۔ ۝۳۰     [56]

ترجمہ: اور عیسائی کہتے ہیں کہ مسیح اللہ کا بیٹا ہے۔

اورمجوس( جوزردشت کے پیروکارہیں اورآگ کی پرستش کرتے ہیں ، یہ دوخداؤں کے قائل ہیں ایک ظلمت کا (اہرمن) اور دوسرا نورکا (یزداں )ان کے نزدیک رشتوں کی کوئی حرمت نہیں یہ اپنی سگی بہن سے بھی نکاح کر لیتے ہیں ۔اورجتنے لوگ بھی اللہ وحدہ لاشریک کے ساتھ عقائدواعمال میں شرک کرنے والے ہیں ،اللہ تعالیٰ ان سب کومیدان محشرمیں جمع کرے گااوران درمیان اللہ تعالیٰ عدل وانصاف کے ساتھ دوٹوک فیصلہ کردے گاکہ کون حق پرتھااورکون گمراہیوں میں بھٹک رہاتھابیشک اللہ تعالیٰ چیزکودیکھ رہا ہے ،مشرکین سورج ،چاند،ستاروں ،لکڑی پتھر اور دھاتوں سے تراشے دیوی دیوتاؤں اورفرشتوں کی پرستش کرتے تھے ،ان کی تنبیہ کے لئے فرمایاکہ کائنات کے ہرذرے پر تعصب سے پاک دل ودماغ اورکھلی آنکھوں سے غوروفکرکروتوتمہیں معلوم ہوجائے گاکہ ہرشے اللہ تعالیٰ کے حضورسربسجودہے ، چاہئے عالم بالا پررہنے والے بے چوں وچرا اطاعت گزارفرشتے ہوں ،آسمان کی بلندیوں پر چمکنے والے اجرام فلکی(سورج ،چاند، ستارے) ہوں ،گھنے جنگلوں میں رہنے والے خونخواردرندے ہوں یاحیوانات ،زمین پررینگنے والے حشرات الارض ہوں ،ہوامیں اڑتے رنگارنگ پرندے ہوں یانباتات ،جمادات ہوں ،ہوااوربجلی ہوں ،سب اللہ کی مخلوق ہیں اورسب ہی اللہ کے احکام کے تابع ہوکرزندگی بسرکررہے ہیں ۔

تُـسَبِّحُ لَهُ السَّمٰوٰتُ السَّـبْعُ وَالْاَرْضُ وَمَنْ فِیْهِنَّ۝۰ۭ وَاِنْ مِّنْ شَیْءٍ اِلَّا یُسَبِّحُ بِحَمْدِهٖ وَلٰكِنْ لَّا تَفْقَهُوْنَ تَسْبِیْحَهُمْ۝۰ۭ اِنَّهٗ كَانَ حَلِــیْمًا غَفُوْرًا۝۴۴        [57]

ترجمہ: اس کی پاکی تو ساتوں آسمان اور زمین اور وہ ساری چیزیں جو ان میں ہیں سب اس کی تسبیح کرتے ہیں ،کوئی چیز ایسی نہیں جو اس کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح نہ کر رہی ہو ۔

اَوَلَمْ یَرَوْا اِلٰى مَا خَلَقَ اللہُ مِنْ شَیْءٍ یَّتَفَیَّؤُا ظِلٰلُہٗ عَنِ الْیَمِیْنِ وَالشَّمَاۗىِٕلِ سُجَّدًا لِّلہِ وَہُمْ دٰخِرُوْنَ۝۴۸(النحل۴۸)

ترجمہ:اور کیا یہ لوگ اللہ کی پیدا کی ہوئی کسی چیز کو بھی نہیں دیکھتے کہ اس کا سایہ کس طرح اللہ کے حضور سجدہ کرتے ہوئے دائیں اور بائیں گرتا ہے؟ سب کے سب اس طرح اظہار عجز کر رہے ہیں ۔

مگرتم ان کو اپنا معبودسمجھ کرسجدہ کرتے ہوجوخوداللہ کے ماتحت اوراس کے حضور سربسجودہیں ،اس لئے بے عقل وبے اختیارمخلوقات جن کے پاس اختیارات کاادنیٰ شائبہ تک نہیں کوسجدہ کرنے کے بجائے اپنے خالق ومالک کی پرستش کرو، جس کے پاس ہرطرح کی قدرت واختیارات ہیں ،جوتمام مخلوقات کارزاق ہے ،جوتمہاری پکارکوسنتااورپوراکرنے کی قدرت رکھتاہے یہی سیدھی راہ ہے ،

عَنْ أَبِی ذَرٍّ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: لِأَبِی ذَرٍّ حِینَ غَرَبَتِ الشَّمْسُ:أَتَدْرِی أَیْنَ تَذْهَبُ؟، قُلْتُ: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، قَالَ: فَإِنَّهَا تَذْهَبُ حَتَّى تَسْجُدَ تَحْتَ العَرْشِ، فَتَسْتَأْذِنَ فَیُؤْذَنُ لَهَا وَیُوشِكُ أَنْ تَسْجُدَ، فَلاَ یُقْبَلَ مِنْهَا، وَتَسْتَأْذِنَ فَلاَ یُؤْذَنَ لَهَا یُقَالُ لَهَا: ارْجِعِی مِنْ حَیْثُ جِئْتِ، فَتَطْلُعُ مِنْ مَغْرِبِهَا

ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہےجب سورج غروب ہواتونبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھاتم کومعلوم ہے یہ سورج کہاں جاتاہے؟میں نے عرض کی کہ اللہ اوراس کارسول صلی اللہ علیہ وسلم بہترجانتے ہیں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایاسورج جاتاہے اورعرش کے نیچے جاکرپہلے سجدہ ریز ہو جاتا ہے ،پھر(دوباہ طلوع ہونے کی)اجازت چاہتاہے،اوراسے پھر اسے (طلوع ہونے کی)اجازت دی جاتی ہے،اوروہ دن بھی قریب ہے جب یہ سجدہ کرے گاتواس کاسجدہ قبول نہ ہوگااوراجازت چاہے گالیکن اجازت نہ ملے گی بلکہ اس سے کہاجائے گاکہ جہاں سے آیاتھاوہیں واپس چلاجا،چنانچہ اس دن وہ مغرب ہی سے نکلے گا۔[58]

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ إِلَى النَّبِیِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: یَا رَسُولَ اللهِ، إِنِّی رَأَیْتُنِی اللَّیْلَةَ وَأَنَا نَائِمٌ كَأَنِّی أُصَلِّی خَلْفَ شَجَرَةٍ، فَسَجَدْتُ، فَسَجَدَتِ الشَّجَرَةُ لِسُجُودِی، فَسَمِعْتُهَا وَهِیَ تَقُولُ: اللَّهُمَّ اكْتُبْ لِی بِهَا عِنْدَكَ أَجْرًا، وَضَعْ عَنِّی بِهَا وِزْرًا، وَاجْعَلْهَا لِی عِنْدَكَ ذُخْرًا، وَتَقَبَّلْهَا مِنِّی كَمَا تَقَبَّلْتَهَا مِنْ عَبْدِكَ دَاوُدَ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہےایک شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیااورکہااے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !میں نے خواب میں دیکھاکہ گویامیں ایک درخت کے پیچھے نماز پڑھ رہاہوں ،میں جب سجدے میں گیاتودرخت نے بھی میرے ساتھ سجدے کے ساتھ سجدہ کیا اورمیں نے سناکہ وہ اپنے سجدے میں یہ پڑھ رہاتھا’’اے اللہ اس سجدے کی وجہ سے میرے لئے اپنے پاس اجروثواب لکھ، اور میرے گناہ معاف فرما اورمیرے لئے اسے ذخیرہ آخرت کرا ور اسے قبول فرماجیسے کہ تونے اپنے بندے داؤد علیہ السلام کاسجدہ قبول فرمایاتھا۔‘‘[59]

قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ، فَقَرَأَ النَّبِیُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ سَجْدَةً ثُمَّ سَجَدَ، قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: فَسَمِعْتُهُ وَهُوَ یَقُولُ مِثْلَ مَا أَخْبَرَهُ الرَّجُلُ عَنْ قَوْلِ الشَّجَرَةِ.

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کابیان ہےپھرمیں نے دیکھاکہ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سجدے کی آیت پڑھی ، سجدہ کیااورمیں سن رہاتھاآپ صلی اللہ علیہ وسلم اس دعاکوپڑھ رہے تھے جس کی خبراس شخص نے دی تھی جودرخت نے پڑھی تھی۔[60]

عَنِ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِیرٍ، قَالَ: انْكَسَفَتِ الشَّمْسُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَخَرَجَ فَزِعًا یَجُرُّ ثَوْبَهُ، حَتَّى أَتَى الْمُسْجِدَ، فَلَمْ یَزَلْ یُصَلِّی حَتَّى انْجَلَتْ، ثُمَّ قَالَ:إِنَّ أُنَاسًا یَزْعُمُونَ أَنَّ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ لَا یَنْكَسِفَانِ إِلَّا لِمَوْتِ عَظِیمٍ مِنَ الْعُظَمَاءِ، وَلَیْسَ كَذَلِكَ، إِنَّ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ لَا یَنْكَسِفَانِ لِمَوْتِ أَحَدٍ وَلَا لِحَیَاتِهِ، فَإِذَا تَجَلَّى اللَّهُ لِشَیْءٍ مِنْ خَلْقِهِ خَشَعَ لَهُ

نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں سورج گرہن لگا آپ صلی اللہ علیہ وسلم گھبراکر اپناکپڑاسمیٹتے ہوئےنکلے اورمسجدمیں پہنچ گئے اوربرابر نماز (کسوف) پڑھتے رہے (اور طویل قرات فرمائی)یہاں تک کہ سورج صاف ہوگیا پھرفرمایاکہ بعض لوگ گمان کرتے ہیں کہ کسی بڑے آدمی کے مرنے کی وجہ سے سورج اورچاندگرہن لگتاہےحالانکہ ایسانہیں ہے، سورج چانداللہ کی مخلوق ہے وہ کسی کی موت پیدائش سے گرہن میں نہیں آتے،بلکہ اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق میں سے جس کسی پرتجلی ڈالتاہے تووہ عاجزی سے اطاعت کرتی ہے۔[61]

ابوقلابہ کانعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے سماع ثابت نہیں ۔

حكم الألبانی:ضعیف

شیخ البانی رحمہ اللہ کہتے ہیں یہ ضعیف روایت ہے۔

اورپہاڑوں اوردرختوں کے سجدے میں اس کے سایوں کادائیں بائیں پھرنا یا جھکنا بھی شامل ہے جیسے فرمایا

وَلِلهِ یَسْجُدُ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ طَوْعًاوَّكَرْهًا وَّظِلٰلُهُمْ بِالْغُدُوِّ وَالْاٰصَالِ۝۱۵    [62]

ترجمہ: اللہ ہی کے لئے زمین اورآسمانوں کی سب مخلوق خوشی اورناخوشی سے سجدہ کرتی ہے اوران کے سائے بھی صبح وشام ۔

اَوَلَمْ یَرَوْا اِلٰى مَا خَلَقَ اللهُ مِنْ شَیْءٍ یَّتَفَیَّؤُا ظِلٰلُهٗ عَنِ الْیَمِیْنِ وَالشَّمَاۗىِٕلِ سُجَّدًا لِّلهِ وَهُمْ دٰخِرُوْنَ۝۴۸وَلِلهِ یَسْجُدُ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ مِنْ دَاۗبَّـةٍ وَّالْمَلٰۗىِٕكَةُ وَهُمْ لَا یَسْتَكْبِرُوْنَ۝۴۹       [63]

ترجمہ:کیاانہوں نے اللہ کی مخلوق میں سے کسی کوبھی نہیں دیکھا؟کہ اس کے سائے دائیں بائیں جھک جھک کراللہ تعالیٰ کے سامنے سربسجدہوتے اورعاجزی کااظہارکرتے ہیں ،یقیناًآسمان وزمین کے کل جانداراورتمام فرشتے اللہ تعالیٰ کے سامنے سجدہ کرتے ہیں اور ذرابھی تکبر نہیں کرتے۔

تُـسَبِّحُ لَهُ السَّمٰوٰتُ السَّـبْعُ وَالْاَرْضُ وَمَنْ فِیْهِنَّ۝۰ۭ وَاِنْ مِّنْ شَیْءٍ اِلَّا یُسَبِّحُ بِحَمْدِهٖ وَلٰكِنْ لَّا تَفْقَهُوْنَ تَسْبِیْحَهُمْ۝۰ۭ اِنَّهٗ كَانَ حَلِــیْمًا غَفُوْرًا۝۴۴    [64]

ترجمہ: اس کی پاکی تو ساتوں آسمان اور زمین اور وہ ساری چیزیں بیان کر رہی ہیں جو آسمان و زمین میں ہیں ،کوئی چیز ایسی نہیں جو اس کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح نہ کر رہی ہو مگر تم ان کی تسبیح سمجھتے نہیں ہو، حقیقت یہ ہے کہ وہ بڑا ہی بردبار اور درگزر کرنے والا ہے۔

اور انسانوں کی ایک بڑی تعداد بھی سجدہ اطاعت وعبادت کے طورپرکرتے ہیں ،اوراللہ کی رضاکے مستحق قرارپاتے ہیں ،اورجولوگ سجدہ اطاعت سے انکارکرکے کفر اختیار کرتے ہیں ،وہ بھی دوسری بے اختیارمخلوقات کی طرح قانون فطرت کی گرفت سے آزادنہیں ہیں اورسب کے سب مجبوراسجدہ کرنے والوں میں شامل ہے،اس کے مستحق عذاب ہونے کی وجہ یہی ہے کہ وہ اپنے دائرہ اختیارمیں بغاوت کی روش اختیارکرتاہے ان پرعذاب کامقولہ ثابت ہوچکاہے،جوشخص کھلے کھلے اورروشن حقائق کواپنی آنکھوں سے دیکھنے کے باوجودحق کاانکار کرےوہ خودہی ذلت وخواری کواپنے اوپردعوت دیتاہے ،جیسے فرمایا

فَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنْ كَذَبَ عَلَی اللہِ وَكَذَّبَ بِالصِّدْقِ اِذْ جَاۗءَہٗ۝۰ۭ اَلَیْسَ فِیْ جَہَنَّمَ مَثْوًى لِّلْكٰفِرِیْنَ۝۳۲ [65]

ترجمہ:پھر اس شخص سے بڑا ظالم اور کون ہوگا جس نے اللہ پر جھوٹ باندھا اور جب سچائی اس کے سامنے آئی تو اسے جھٹلا دیا۔

چنانچہ جب اس نے خودہی وہ راہ اختیارکی جس میں ذلت ورسوائی اورآخرت کادائمی عذاب ہے تو پھراسے کون عزت سے سرفرازکرنے والاہے،اللہ جوچاہتاہے کرگزرتا ہے ، اسے کوئی روکنے یاٹوکنے والا نہیں ہے اورنہ ہی اسے کچھ کرنے کے لئے مادی اسباب ووسائل کی حاجت درپیش ہوتی ہے ۔

سجدہ تلاوت:

قرآن مجیدمیں چودہ مقامات پرسجدہ کرنے کاحکم ہے ،جس میں ایک مقام یہ ہے ۔

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: إِذَا قَرَأَ ابْنُ آدَمَ السَّجْدَةَ فَسَجَدَ اعْتَزَلَ الشَّیْطَانُ یَبْكِی، یَقُولُ: یَا وَیْلَهُ وَفِی رِوَایَةِ أَبِی كُرَیْبٍ: یَا وَیْلِی أُمِرَ ابْنُ آدَمَ بِالسُّجُودِ فَسَجَدَ فَلَهُ الْجَنَّةُ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجب انسان سجدے کی آیت پڑھ کرسجدہ کرتاہے توشیطان الگ ہٹ کررونے لگتاہے کہ افسوس ابن آدم کوسجدے کاحکم ملااس نے سجدہ کرلیا،اب اس کوجنت ملے گی

وَأُمِرْتُ بِالسُّجُودِ فَأَبَیْتُ فَلِیَ النَّارُ

اورمجھے سجدہ کاحکم ہوامیں نے انکارکردیامیرے لئے جہنم ہے۔[66]

نبی صلی اللہ علیہ وسلم بسااوقات ایک بڑے مجمع میں تلاوت فرماتے اورجب آیت سجدہ آتی توآپ سجدہ میں گرجاتے اورآپ کے ساتھ جوشخص جہاں ہوتاوہ بھی سجدہ ریز ہو جاتا تھا ، مجمع کی وجہ سے کسی کوزمین پرسجدہ کرنے کی جگہ نہ ملتی تووہ اپنے آگے والے شخص کی پیٹھ پرسررکھ دیتا،فتح مکہ کے موقع پرآپ نے قرآن کی تلاوت فرمائی اوراس میں جب آیت سجدہ آئی توجولوگ زمین پرکھڑے تھے انہوں نے زمین پرسجدہ کیااورجوگھوڑوں اور اونٹوں پرسوارتھے وہ اپنی سواریوں ہی پرجھک گئے،

أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَرَأَ وَهُوَ عَلَى الْمِنْبَرِ فَلَمَّا بَلَغَ السَّجْدَةَ نَزَلَ فَسَجَدَ وَسَجَدَ النَّاسُ مَعَهُ

کبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوران خطبہ آیت سجدہ پڑھی ہے تومنبرسے اترکرسجدہ کیاہےاور صحابہ نے بھی آپ کے ساتھ سجدہ کیاپھراوپرجاکرخطبہ شروع کردیاہے،

جمہورعلماء کہتے ہیں کہ سجدہ تلاوت کے لئے باوضوہونا،قبلہ رخ ہونا،نمازکی طرح سجدے میں زمین پرسررکھناضروری ہےمگرجتنی احادیث تلاوت ہیں ان میں کہیں ان شرطوں کے لئے کوئی دلیل موجودنہیں ،ان میں صرف یہ ہے کہ جوشخص جہاں جس حال میں ہوجھک جائے خواہ باوضوہویانہ ہو،خواہ استقبال قبلہ ممکن ہویانہ ہو،خواہ زمین پرسررکھنے کا موقع ہویانہ ہو

وَكَانَ بن عُمَرَ یَسْجُدُ عَلَى غَیْرِ وُضُوءٍ كَذَا لِلْأَكْثَرِ أَبِی عَبْدِ الرَّحْمَنِ السُّلَمِیِّ أَنَّهُ كَانَ یقْرَأ السَّجْدَة ثمَّ یسلم وَهُوَ عَلَى غَیْرِ وُضُوءٍ إِلَى غَیْرِ الْقِبْلَةِ وَهُوَ یَمْشِی یُومِئُ إِیمَاءً

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بغیروضوکے سجدہ تلاوت کرتے تھے،ابوعبدالرحمٰن سلمی راستے چلتے ہوئے قرآن مجیدپڑھتے جاتے تھے اور اگر کہیں آیت سجدہ آجاتی تو بس سرجھکالیتے تھےخواہ باوضوہوں یانہ ہوں اورخواہ قبلہ رخ بھی ہوں یانہ ہوں ۔[67]

بہرحال اگرکوئی باوضواورقبلہ رخ ہوکرزمین پرسجدہ تلاوت کرے تو بہتر ہے لیکن اگرکوئی ایسانہ کرسکے تواس پرملامت بھی نہیں ۔

هَٰذَانِ خَصْمَانِ اخْتَصَمُوا فِی رَبِّهِمْ ۖ فَالَّذِینَ كَفَرُوا قُطِّعَتْ لَهُمْ ثِیَابٌ مِّن نَّارٍ یُصَبُّ مِن فَوْقِ رُءُوسِهِمُ الْحَمِیمُ ‎﴿١٩﴾‏ یُصْهَرُ بِهِ مَا فِی بُطُونِهِمْ وَالْجُلُودُ ‎﴿٢٠﴾‏ وَلَهُم مَّقَامِعُ مِنْ حَدِیدٍ ‎﴿٢١﴾‏ كُلَّمَا أَرَادُوا أَن یَخْرُجُوا مِنْهَا مِنْ غَمٍّ أُعِیدُوا فِیهَا وَذُوقُوا عَذَابَ الْحَرِیقِ ‎﴿٢٢﴾‏ إِنَّ اللَّهَ یُدْخِلُ الَّذِینَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ جَنَّاتٍ تَجْرِی مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ یُحَلَّوْنَ فِیهَا مِنْ أَسَاوِرَ مِن ذَهَبٍ وَلُؤْلُؤًا ۖ وَلِبَاسُهُمْ فِیهَا حَرِیرٌ ‎﴿٢٣﴾‏وَهُدُوا إِلَى الطَّیِّبِ مِنَ الْقَوْلِ وَهُدُوا إِلَىٰ صِرَاطِ الْحَمِیدِ ‎﴿٢٤﴾‏(الحج)
’’ یہ دونوں اپنے رب کے بارے میں اختلاف کرنے والے ہیں، پس کافروں کے لیے تو آگ کے کپڑے بیونت کر کاٹے جائیں گے، اور ان کے سروں کے اوپر سے سخت کھولتا ہوا پانی بہایا جائے گا جس سے ان کے پیٹ کی سب چیزیں اور کھالیں گلا دی جائیں گی، اور ان کی سزا کے لیے لوہے کے ہتھوڑے ہیں یہ جب بھی وہاں کے غم سے نکل بھاگنے کا ارادہ کریں گے وہیں لوٹا دیئے جائیں گے اور (کہا جائے گا) جلنے کا عذاب چکھو !ایمان والوں اور نیک کام والوں کو اللہ تعالیٰ ان جنتوں میں لے جائے گا جن کے درختوں تلے سے نہریں لہریں بہہ رہی ہیں، جہاں وہ سونے کے کنگن پہنائے جائیں گے اور سچے موتی بھی، وہاں ان کا لباس خالص ریشم کا ہوگا، ان کی پاکیزہ بات کی رہنمائی کردی گئی اور قابل صد تعریف راہ کی ہدایت کردی گئی ۔‘‘

عَنْ أَبِی ذَرٍّ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ:أَنَّهُ كَانَ یُقْسِمُ قَسَمًا، إِنَّ هَذِهِ الآیَةَ:هَذَانِ خَصْمَانِ اخْتَصَمُوا فِی رَبِّهِمْ نَزَلَتْ فِی حَمْزَةَ وَصَاحِبَیْهِ وَعُتْبَةَ وَصَاحِبَیْهِ، یَوْمَ بَرَزُوا فِی یَوْمِ بَدْرٍ

ابوذرغفاری رضی اللہ عنہ سے مروی ہےاوروہ قسم کھاکرفرماتے تھے کہ یہ آیت سیدالشہداحمزہ بن عبدالمطلب،اورآپ کے دونوں ساتھیوں (سیدناعلی رضی اللہ عنہ بن ابی طالب اور عبیدہ رضی اللہ عنہ بن حارث) اوران کے مقابلے میں بدرکے دن عتبہ اوراس کے جودوساتھیوں ( شیبہ اورولیدبن عتبہ) مقابلہ کے لئے آئے تھے ان کے بارےمیں اتری ہے۔[68]

قَالَ قَیْسٌ: وَفِیهِمْ نَزَلَتْ: {هَذَانِ خَصْمَانِ اخْتَصَمُوا فِی رَبِّهِمْ} [69] قَالَ: هُمُ الَّذِینَ بَارَزُوا یَوْمَ بَدْرٍ عَلِیٌّ، وَحَمْزَةُ، وَعُبَیْدَةُ، وَشَیْبَةُ بْنُ رَبِیعَةَ، وَعُتْبَةُ بْنُ رَبِیعَةَ، وَالوَلِیدُ بْنُ عُتْبَةَ

قیس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں انہی کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی تھی بیان کیاکہ یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے غزوہ بدرمیں دعوت مقابلہ دی تھی ،یعنی مسلمانوں کی طرف سے سیدنا علی رضی اللہ عنہ بن ابی طالب اورسیدالشہداء حمزہ بن عبدالمطلب اورعبیدہ اورکفارکی طرف سےشیبہ بن ربیعہ ،عتبہ بن ربیعہ اورولیدبن عتبہ۔[70]

عَنْ عَلِیِّ بْنِ أَبِی طَالِبٍ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: أَنَا أَوَّلُ مَنْ یَجْثُو بَیْنَ یَدَیِ الرَّحْمَنِ لِلْخُصُومَةِ یَوْمَ القِیَامَةِ

سیدناعلی رضی اللہ عنہ بن ابی طالب فرماتے ہیں قیامت کے دن میں سب سے پہلے اللہ کے سامنے اپنادعویٰ پیش کرنے کے لئے گھٹنوں کے بل گرجاؤں گا۔[71]

یہ دوفریق جواپنے رب کے بارے میں جھگڑتے ہیں ان میں ہرفریق یہ دعویٰ کرتاہے کہ وہ حق پرہے،ایک فریق مسلمان تواللہ کی کی وحدانیت اوراس کی قدرت علی البعث کے قائل ہیں ،اورانبیاء کی بات مان کراللہ کی صحیح بندگی اختیارکرتے ہیں ،جبکہ دوسرافریق یہودونصاریٰ،مجوس ،صائبین،دہرئے اورمشرکین وغیرہ ہیں جو مختلف گمراہیوں میں مبتلاہیں ، انہیں گندھک کالباس پہناکر جہنم میں داخل کیاجائے گا تاکہ عذاب ان کوہرجانب سے پوری طرح گھیر لے،جیسے فرمایا

سَرَابِیْلُهُمْ مِّنْ قَطِرَانٍ وَّتَغْشٰى وُجُوْهَهُمُ النَّارُ۝۵۰ۙ [72]

ترجمہ:تار کول کے لباس پہنے ہوئے ہوں گے اور آگ کے شعلے ان کے چہروں پر چھائے جارہے ہوں گے۔

مزیدان کے پرغرور سروں پرسخت کھولتاہواپانی انڈیلاجائے گا،جیسے فرمایا

خُذُوْہُ فَاعْتِلُوْہُ اِلٰى سَوَاۗءِ الْجَحِیْمِ۝۴۷ۖۤثُمَّ صُبُّوْا فَوْقَ رَاْسِہٖ مِنْ عَذَابِ الْحَمِیْمِ۝۴۸ۭ ذُقْ ۝۰ۚۙ اِنَّكَ اَنْتَ الْعَزِیْزُ الْكَرِیْمُ۝۴۹ [73]

ترجمہ:پکڑو اسے اور گھسیٹتے ہوئے لے جاؤ اس کو جہنم کے بیچوں بیچ،اور انڈیل دو اس کے سر پر کھولتے پانی کا عذاب،چکھ اس کا مزا بڑا زبردست عزت دار آدمی ہے تو۔

جس کی شدت حرارت سے ان کے پیٹ کے اندر گوشت ، چربی ، انتڑیاں گل جائیں گی اورکھال جھلس کر جھڑجائے گی ،

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ،عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:إِنَّ الحَمِیمَ لَیُصَبُّ عَلَى رُءُوسِهِمْ فَیَنْفُذُ الحَمِیمُ، حَتَّى یَخْلُصَ إِلَى جَوْفِهِ فَیَسْلِتُ مَا فِی جَوْفِهِ، حَتَّى یَمْرُقَ مِنْ قَدَمَیْهِ وَهُوَ الصَّهْرُثُمَّ یُعَادُ كَمَا كَانَ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاگرم کھولتاہوپانی ان کے سروں پرڈالاجائے گااوروہ نفوذکرجائے گاجوان کے پیٹ میں اوران کی آنتوں اورکلیجے اورگردوں کوکاٹ ڈالے گا یہاں تک کہ ان کی آنتیں وغیرہ دبر سے نکل کرپیروں پرگرپڑیں گی، پھرجیسے تھے ویسے ہوجائیں گے پھر یہی عمل ہوگا۔[74]

سَمِعْتُ عَبْدَ الله ابن السُّرِّیّ قَالَ: یَأْتِیهِ الْمَلَكُ یَحْمِلُ الْإِنَاءَ بِكَلْبتین مِنْ حَرَارَتِهِ، فَإِذَا أَدْنَاهُ مِنْ وَجْهِهِ تَكَرَّهَهُ، قال: فیرفع مِقْمَعَة معه فیضرب بِهَا رَأْسَهُ، فَیُفرغ دِمَاغَهُ، ثُمَّ یُفرغ الْإِنَاءَ مِنْ دِمَاغِهِ،فَیَصِلُ إِلَى جَوْفِهِ مِنْ دِمَاغِهِ، فَذَلِكَ قَوْلُهُ:یُصْهَرُ بِهِ مَا فِی بُطُونِهِمْ وَالْجُلُودُ

عبداللہ بن سری سے روایت ہے اس کے پاس فرشتہ آئے گاجس نے شدت حرارت کی وجہ سے برتن کودوچمٹوں کے ساتھ اٹھایاہواہوگاجب وہ برتن کواس کے منہ کے قریب کرے گاتویہ اس سے نفرت کرے گا پھرفرشتہ ہتھوڑااٹھاکراس کے سرپردے مارے گاجس سے اس کادماغ پھٹ جائے گا پھروہ اس کے دماغ پراس برتن کوانڈیل دے گا تووہ گرم پانی دماغ سے ہوکراس کے پیٹ تک پہنچ جائے گاپس اس ارشادباری تعالیٰ کے یہ معنی ہیں ، جس سے ان کی کھالیں ہی نہیں پیٹ کے اندرکے حصے تک گل جائیں گے۔[75]

ان کے لئے لوہے کے گرزہوں گے جوسخت اور درشت خوفرشتوں کے ہاتھوں میں ہوں گے جن کے ساتھ وہ ان کوماریں گے ،جب بھی وہ اس عذاب سے بچنے کے لئے جہنم سے نکلنے کا ارادہ کریں گے تووہ اسی میں لوٹا دیئے جائیں گے،

عَنْ سَلْمَانَ قَالَ: النَّارُ سَوْدَاءُ مُظْلِمَةٌ، لَا یُضِیءُ لَهَبُهَا وَلَا جَمْرُهَا ثُمَّ قَرَأَ:{كُلَّمَا أَرَادُوا أَنْ یَخْرُجُوا مِنْهَا مِنْ غُمٍّ أَعِیدُوا فِیهَا [76]

سلیمان رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں جہنم کی آگ سخت سیاہ،بہت اندھیرے والی ہے جس کے شعلے بھی روشن نہیں نہ اس کے انگارے روشنی والے ہیں ،پھرانہوں نے اسی آیت کریمہ’’ یہ جب بھی وہاں کے غم سے نکل بھاگنے کا ارادہ کریں گے وہیں لوٹا دیئے جائیں گے۔‘‘ کی تلاوت کی۔[77]

أَخْبَرَنِی زَیْدُ بْنُ أَسْلَمَ أَنَّ أَهْلَ النَّارِ فِی النَّارِ لَا یَتَنَفَّسُونَ

زید رضی اللہ عنہ کاقول ہےجہنمی اس میں سانس بھی نہ لے سکیں گے۔[78]

اوران سے کہاجائے گااب اس سخت عذاب کامزہ چکھوجسے آج تک اپنی زبان اوراعمال سے جھٹلاتے رہے ہو ،جیسے فرمایا

وَاَمَّا الَّذِیْنَ فَسَقُوْا فَمَاْوٰىہُمُ النَّارُ۝۰ۭ كُلَّمَآ اَرَادُوْٓا اَنْ یَّخْـرُجُوْا مِنْہَآ اُعِیْدُوْا فِیْہَا وَقِیْلَ لَہُمْ ذُوْقُوْا عَذَابَ النَّارِ الَّذِیْ كُنْتُمْ بِہٖ تُكَذِّبُوْنَ۝۲   [79]

ترجمہ:اور جنہوں نے فسق اختیار کیا ہے ان کا ٹھکانا دوزخ ہے جب کبھی وہ اس سے نکلنا چاہیں گے اسی میں دھکیل دیے جائیں گے اور ان سے کہا جائے گا کہ چکھو اب آگ کے عذاب کا مزا جس کو تم جھٹلایا کرتے تھے ۔

اوران کے برعکس جو لوگ اللہ ، اس کے رسولوں ، تمام منزل کتابوں ،فرشتوں اورآخرت پرایمان لائے ،تقویٰ اختیارکیااورسنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق اعمال صالحہ اختیار کیے،انہیں موتیوں سے تیارکیے ہوئے ایسے محلات اور باغات میں داخل کیا جائے گاجن کے چاروں اطراف انواح واقسام (پانی ، دودھ، شہد،شراب وغیرہ)کی صاف وشفاف نہریں بہتی ہیں ،وہ جہاں چاہیں گے وہیں خودبخود ان کارخ ہو جایا کرے گا،وہاں انہیں (مرد و عورتوں ) کو شاہانہ نرم چمکیلا، سبزریشم کالباس اورسونے،چاندی وجواہرکے کنگن پہنائے جائیں گے ،

أَبُو زُرْعَةَ، قَالَ: دَخَلْتُ مَعَ أَبِی هُرَیْرَةَ، دَارًا بِالْمَدِینَةِ، فَرَأَى أَعْلاَهَا مُصَوِّرًا یُصَوِّرُ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَقُولُ:وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنْ ذَهَبَ یَخْلُقُ كَخَلْقِی،فَلْیَخْلُقُوا حَبَّةً، وَلْیَخْلُقُوا ذَرَّةً، ثُمَّ دَعَا بِتَوْرٍ مِنْ مَاءٍ، فَغَسَلَ یَدَیْهِ حَتَّى بَلَغَ إِبْطَهُ ،فَقُلْتُ: یَا أَبَا هُرَیْرَةَ، أَشَیْءٌ سَمِعْتَهُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ؟ قَالَ: مُنْتَهَى الحِلْیَةِ

ابوزرعہ کہتے ہیں میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ مدینہ کے ایک مکان میں داخل ہو تو دیکھا کہ اس کے اوپر ایک مصور تصویریں بنارہاہےتو انہوں نے کہا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ اس سے بڑھ کر ظالم کون ہےجو میرے پیدا کرنے کی طرح پیدا کرنے کی کوشش کرے ، اگر ایسا ہے تو ایک دانہ پیدا کرکے دیکھے اور ایک ذرہ پیدا کرکے دیکھے،پھرانہوں نے پانی کاایک طشت منگوایااوراپنے ہاتھ اس میں دھوئے جب بغل دھونے لگے تومیں نے عرض کیاابوہریرہ !کیا(بغل تک دھونے کے بارے میں )تم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ سناہے؟انہوں نے کہامیں نے وہاں تک دھویاہے جہاں تک زیور پہنا جا سکتاہے(یعنی روز قیامت مومن کا زیور وہاں تک پہنچے گا جہاں تک وضوکاپانی پہنچتاہے ۔ [80]

عَنْ أَبِی عُثْمَانَ، قَالَ: كُنَّا مَعَ عُتْبَةَ فَكَتَبَ إِلَیْهِ عُمَرُ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:لاَ یُلْبَسُ الحَرِیرُ فِی الدُّنْیَا إِلَّا لَمْ یُلْبَسْ فِی الآخِرَةِ مِنْهُ

ابوعثمان نے بیان کیاکہ ہم عتبہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھے سیدناعمر رضی اللہ عنہ نے انہیں لکھانبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاتم ریشم نہ پہنوجوشخص اسے دنیامیں پہن لے گاوہ آخرت کے دن اس سے محروم رہے گا۔[81]

جنتیوں کااستقبال سلامتی کی مبارک بادسے ہوگا،جیسے فرمایا

۔۔۔ تَحِیَّتُهُمْ فِیْهَا سَلٰمٌ         [82]

ترجمہ:اور وہاں ان کا استقبال سلامتی کی مبارک باد سے ہوگا ۔

جنت کے ہرہردروازے سے فرشتے ان کے پاس آکرسلام کہیں گے،

لَا یَسْمَعُوْنَ فِیْهَا لَغْوًا وَّلَا تَاْثِیْمًا۝۲۵ۙاِلَّا قِیْلًا سَلٰمًا سَلٰمًا۝۲۶   [83]

ترجمہ:وہاں وہ کوئی بیہودہ کلام یا گناہ کی بات نہ سنیں گے،جوبات بھی ہوگی ٹھیک ٹھیک ہوگی ۔

عَنْ جَابِرٍ، قَالَ:سَمِعْتُ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، یَقُولُ:إِنَّ أَهْلَ الْجَنَّةِ یَأْكُلُونَ فِیهَا وَیَشْرَبُونَ، وَلَا یَتْفُلُونَ وَلَا یَبُولُونَ وَلَا یَتَغَوَّطُونَ وَلَا یَمْتَخِطُونَ، قَالُوا: فَمَا بَالُ الطَّعَامِ؟ قَالَ:جُشَاءٌ وَرَشْحٌ كَرَشْحِ الْمِسْكِ، یُلْهَمُونَ التَّسْبِیحَ وَالتَّحْمِیدَ، كَمَا تُلْهَمُونَ النَّفَسَ

مجابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہےیں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ جنت والے جنت میں کھائیں گے اور پئیں گے اور تھوکیں گے نہیں اور نہ ہی پیشاب کریں گے اور نہ ہی پاخانہ کریں گے اور نہ ہی ناک صاف کریں گے، صحابہ کرام نے عرض کیا تو پھر کھانا کدھر جائے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ڈکار اور پسینہ آئے گا اور پسینہ مشک کی طرح خوشبودار ہوگا اور ان کو تسبیح یعنی سبحان اللہ اور تحمید یعنی الحمدللہ کا الہام ہوگا جس طرح کہ انہیں سانس کا الہام ہوتا ہے۔[84]

یہ اس سبب سے عطاہوگاکہ ان کی رہنمائی دین اسلام اور عقیدہ صالح کی طرف کی گئی ۔

[1] الحاقة۱۳،۱۴

[2] الزلزلة۱تا۳

[3] الواقعة۴تا۶

[4] النازعات۶تا۹

[5] المزمل۱۷،۱۸

[6] صحیح بخاری کتاب تفسیرسورة الحج بَابُ وَتَرَى النَّاسَ سُكَارَى ۴۷۴۱ ،مسند احمد ۱۱۲۸۴، ۱۹۹۰۱،۱۹۸۸۴،سنن ترمذی کتاب تفسیرالقران بَابٌ وَمِنْ سُورَةِ الحَجِّ ۳۱۶۹،مستدرک حاکم۲۹۱۷

[7] ۔ صحیح بخاری کتاب الرقاق بَابٌ كَیْفَ الحَشْرُ۶۵۲۷، صحیح مسلم کتاب الجنة بَابُ فَنَاءِ الدُّنْیَا وَبَیَانِ الْحَشْرِ یَوْمَ الْقِیَامَةِ۷۱۹۸،سنن نسائی کتاب الجنائزباب الْبَعْثُ ۲۰۸۵،مسنداحمد۲۴۲۶۵

[8] مسنداحمد۲۴۷۹۳

[9] المزمل۱۷

[10] عبس ۳۴تا۳۸

[11] الفرقان ۲۷،۲۸

[12] آل عمران۱۰۶

[13] عبس۳۸

[14] القیامة۲۲تا۲۵

[15] الاعراف۸

[16]الحاقة۱۹،۲۰

[17] الحاقة۲۵

[18] الانشقاق۷تا۱۱

[19] الکہف۴۹

[20] التکویر۱۳

[21] الشعرائ۹۰،۹۱

[22] النازعات۳۶

[23] الفرقان۱۲،۱۳

[24] الفرقان۱۴

[25] المومنون۱۰۸

[26] تفسیرالدرالمنشور۶۲۶؍۴،تفسیرابن کثیر ۳۹۴؍۵

[27] تفسیرابن کثیر۳۹۴؍۵،اللباب فی علوم الکتاب۲۷۶؍۱۱

[28] یٰسین۷۸

[29] التوبة۳۰

[30] فاطر۶

[31] السجدة۷،۸

[32] صحیح بخاری كِتَابُ أَحَادِیثِ الأَنْبِیَاءِ بَابُ خَلْقِ آدَمَ صَلَوَاتُ اللَّهِ عَلَیْهِ وَذُرِّیَّتِهِ۳۳۳۲ ،وکتاب بدئ الخلق بَابُ ذِكْرِ المَلاَئِكَةِ ۳۲۰۸ ، صحیح مسلم کتاب القدر بَابُ كَیْفِیَّةِ خَلْقِ الْآدَمِیِّ فِی بَطْنِ أُمِّهِ وَكِتَابَةِ رِزْقِهِ وَأَجَلِهِ وَعَمَلِهِ وَشَقَاوَتِهِ وَسَعَادَتِهِ ۶۷۲۳

[33] صحیح مسلم کتاب القدربَابُ كَیْفِیَّةِ خَلْقِ الْآدَمِیِّ فِی بَطْنِ أُمِّهِ وَكِتَابَةِ رِزْقِهِ وَأَجَلِهِ وَعَمَلِهِ وَشَقَاوَتِهِ وَسَعَادَتِهِ ۶۷۲۴

[34] الروم۵۴

[35] یٰسین۶۸

[36] الدھر۱

[37] الانفطار۷،۸

[38] حم السجدة۳۹

[39] الاعراف۵۷

[40] السجدة۲۷

[41] الزمر۲۱

[42] فاطر۲۷

[43] الدر المنثور۱۱؍۶،تفسیرابن کثیر۳۹۹؍۵

[44] الانعام۱۲۱

[45] لقمان۷

[46] المنافقون۵

[47] بنی اسرائیل۸۳

[48]الحج: 11

[49] صحیح بخاری کتاب التفسیرسورة الحج بَابُ وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَعْبُدُ اللَّهَ عَلَى حَرْفٍ ۴۷۴۲

[50]  تفسیر  ابن ابی حاتم محققا ۱۳۷۹۸

[51] تفسیرابن ابی حاتم محققا۱۳۷۹۹، تفسیرطبری ۵۷۶؍۱۸، تفسیرالمراغی ۹۴؍۱۷

[52] المائدة۷۲

[53] المومن۵۱

[54] تفسیر طبری ۵۸۱؍۱۸،مستدرک حاکم ۳۴۵۳

[55] التوبة۳۰

[56] التوبة۳۰

[57] بنی اسرائیل۴۴

[58] صحیح بخاری بدء الخلق بَابُ صِفَةِ الشَّمْسِ وَالقَمَرِ بِحُسْبَانٍ ۳۱۹۹،وكِتَابُ التَّوْحِیدِ بَابُ وَكَانَ عَرْشُهُ عَلَى المَاءِ ۷۴۲۴،صحیح مسلم کتاب الایمان بَابُ بَیَانِ الزَّمَنِ الَّذِی لَا یُقْبَلُ فِیهِ الْإِیمَانُ ۳۹۹

[59] جامع ترمذی ابواب السفربَابُ مَا یَقُولُ فِی سُجُودِ القُرْآنِ ۵۷۹،سنن ابن ماجہ کتاب اقامة الصلوٰة بَابُ سُجُودِ الْقُرْآنِ ۱۰۵۳

[60] جامع ترمذی کتاب الدعوات بَاب مَا یَقُولُ فِی سُجُودِ القُرْآنِ ۳۴۲۴،سنن ابن ماجہ کتاب اقامة الصلوٰة بَابُ سُجُودِ الْقُرْآنِ ۱۰۵۳

[61] سنن ابن ماجہ کتاب اقامة الصلوات بَابُ مَا جَاءَ فِی صَلَاةِ الْكُسُوفِ ۱۲۶۲، مسند احمد۱۸۳۵۱

[62] الرعد۱۵

[63] النحل۴۸،۴۹

[64] بنی اسرائیل۴۴

[65] الزمر۳۲

[66] صحیح مسلم کتاب الایمان بَابُ بَیَانِ إِطْلَاقِ اسْمِ الْكُفْرِ عَلَى مَنْ تَرَكَ الصَّلَاةَ۲۴۴،سنن ابن ماجہ کتاب اقامة الصلوٰة بَابُ سُجُودِ الْقُرْآنِ ۱۰۵۲،مسنداحمد۹۷۱۳،صحیح ابن خزیمة۵۴۹،صحیح ابن حبان ۲۷۵۹، شعب الایمان ۱۴۰۷، السنن الکبری للبیہقی ۳۷۰۰،شرح السنة للبغوی ۶۵۳

[67] فتح الباری۵۵۴؍۲

[68] صحیح بخا ری کتاب التفسیرسورة الحج بَابُ هَذَانِ خَصْمَانِ اخْتَصَمُوا فِی رَبِّهِمْ ۴۷۴۳ ،و کتاب المغازی بَابُ قَتْلِ أَبِی جَهْلٍ۳۹۶۶،۳۹۶۹،صحیح مسلم کتاب التفسیر بَابٌ فِی قَوْلِهِ تَعَالَى هَذَانِ خَصْمَانِ اخْتَصَمُوا فِی رَبِّهِمْ ۷۵۶۲،سنن ابن ماجہ کتاب الجہادبَابُ الْمُبَارَزَةِ وَالسَّلَبِ۲۸۳۶

[69] الحج: 19

[70] صحیح بخاری کتاب التفسیرسورة الحج بَابُ هَذَانِ خَصْمَانِ اخْتَصَمُوا فِی رَبِّهِمْ ۴۷۴۴

[71] صحیح بخاری کتاب التفسیرسورة الحج بَابُ هَذَانِ خَصْمَانِ اخْتَصَمُوا فِی رَبِّهِمْ ۴۷۴۴

[72] ابراہیم۵۰

[73] الدخان۴۹

[74] جامع ترمذی کتاب صفة جہنم بَابُ مَا جَاءَ فِی صِفَةِ شَرَابِ أَهْلِ النَّارِ۲۵۸۲،مسنداحمد۸۸۶۴،مستدرک حاکم ۳۴۵۸

[75] تفسیرابن ابی حاتم۲۴۸۱؍۸

[76]الحج: 22

[77] تفسیرطبری۵۹۳؍۱۸

[78] تفسیرطبری۷۷؍۱۹

[79] السجدة۲۰

[80] صحیح بخاری کتاب اللباس بَابُ نَقْضِ الصُّوَرِ ۵۹۵۳، صحیح مسلم کتاب الطھارة بَابٌ تَبْلُغُ الْحِلْیَةُ حَیْثُ یَبْلُغُ الْوُضُوءُ۵۸۶ ،مسندابی یعلی ۶۰۸۶

[81] صحیح بخاری کتاب اللباس بَابُ لُبْسِ الحَرِیرِ وَافْتِرَاشِهِ لِلرِّجَالِ، وَقَدْرِ مَا یَجُوزُ مِنْهُ ۵۸۳۰،صحیح مسلم كتاب اللِّبَاسِ وَالزِّینَةِ بَابُ تَحْرِیمِ اسْتِعْمَالِ إِنَاءِ الذَّهَبِ وَالْفِضَّةِ عَلَى الرِّجَالِ وَالنِّسَاءِ، وَخَاتَمِ الذَّهَبِ وَالْحَرِیرِ عَلَى الرَّجُلِ، وَإِبَاحَتِهِ لِلنِّسَاءِ، وَإِبَاحَةِ الْعَلَمِ وَنَحْوِهِ لِلرَّجُلِ مَا لَمْ یَزِدْ عَلَى أَرْبَعِ أَصَابِعَ ۵۴۰۱

[82] ابراہیم ۲۳

[83] الواقعة۲۵،۲۶

[84] صحیح مسلم کتاب الجنة بَابٌ فِی صِفَاتِ الْجَنَّةِ وَأَهْلِهَا وَتَسْبِیحِهِمْ فِیهَا بُكْرَةً وَعَشِیًّا عن جابر۷۱۵۲،مسندابی یعلی ۱۹۰۶

Related Articles