بعثت نبوی کا تیرهواں سال

دارالندوہ میں مشاورت

یثرب مکہ کی تجارتی راستے کااہم ترین مقام تھا،اس وجہ سے مکہ کے تجارت پیشہ خاندان اس شہرکے مختلف گروہوں سے گہرے تعلقات رکھتے تھے،آپس میں رشتہ داریاں قائم ہوگئی تھیں اوراکثرآناجانارہتاتھا،باہمی لڑائیوں میں ایک دوسرے کے حلیف تھے ،یثرب کے دوبڑے قبیلے اوس وخزرج تھے جویہودیوں کی سیاست گری کی وجہ سے ایک مدت سے آپس میں دست وگریبان چلے آتے تھے،یہ باہمی لڑائیوں میں قریش کے مختلف خاندانوں کواپنی مددپرپکاراکرتے تھے ،دوسری طرف اہل مکہ سمجھتے تھے کہ مسلمانوں کواب ایک ٹھکانہ میسرآرہاہے جہاں اگراسلام پھیلااورمسلمانوں کوقوت حاصل ہوگئی تویہ پرانے نظام کی موت کے علاوہ تجارتی اورسیاسی نقطہ ونظرسے بے حد خطرناک ہوگا،چنانچہ قریش نے بڑی کوشش کی کہ اہل مدینہ کارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی رابطہ نہ ہونے پائےمگربیعت عقبیٰ بڑی رازداری سے ہوئی اورقریش کوکانوں کان خبر نہ ہوئی،یہی وہ اقدام تھاجس نے اس سلسلے میں قریش کوسفارتی میدان میں شکست دی تھی اوراسلام یثرب میں ان کی خواہش کے خلاف تیزی سے پھیلنے لگاتھا،پھرمسلمانوں کی ہجرت کابہت اچھااثرہوا،مسلمانوں کومحفوظ جگہ مل گئی اور انہیں دعوت اسلام کے لئے ایک وسیع میدان ہاتھ آگیا ،لوگ اسلام کی برکتیں دیکھ کربڑے متاثر ہوئے اور بڑی تیزی سے اس کی طرف بڑھنے لگےہرطرف اسلام کاچرچا ہونے لگا،مسلمانوں کازوربڑھنے لگا ، جب قریش نے یہ دیکھاتوبہت گھبرائے ،انہیں محسوس ہوااب شامت سرپرمنڈلارہی ہے اور طرح طرح کے خطرات سراٹھارہے ہیں ،انہوں نے سوچااس طرح تو ہمارا شام کی طرف جانابھی بندہوجائے گا، تجارت بالکل ہی ٹھپ ہوجائے گی اورہم دانہ دانہ کو ترس جائیں گے ،ان خطروں کے پیش نظرانہوں نے تجارتی راستے کی سب سے بڑی منزل کوبچانے اورحلیفوں کو نظریاتی حریفوں کی صف میں شامل ہوجانے سے روکنے کاواحدذریعہ قریش کے نزدیک یہی باقی تھاکہ اس تحریک کی مرکزی شخصیت اوراللہ کے آخری پیغمبر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کاخون بہادیا جائے ، وہ سمجھتے تھے کہ اگرانہوں نے اس زمین کواس مرکزی شخصیت سے محروم کردیاتویہ دنیااللہ کے قانون سے خودبخودخالی ہوجائے گی اوران کانراج ان کے مفادات کی حفاظت کرنے کے لئے قائم رہے گا، اس لئے مکہ کے مختلف گروہوں کاقتل پیغمبرپرمتحداورمتفق ہوجاناجہاں آبائی دین اوربڑے بوڑھوں سے آنے والی روایات کی تحریم وتقدیس کوبچانے کے لئے تھاوہاں اس کی اس بڑی وجہ کوبھی نظراندازنہیں کرناچاہئے کہ مکہ اپنے تجارتی مفادات کوبچانے کی بھرپوراورحتمی تدبیرکررہاتھا ، چنانچہ ایک فریق کی جانب سے اظہارشدت وغضب اوردوسرے کی طرف سے نیک خواہی ،نیک اندیشی اورنیک عملی کے متعددواقعات سے گزرتی ہوئی یہ تحریک اس نقطے پرآئی کہ مکہ کے ارباب حل وعقد بالکل بے بس ہوگئے ، جب قریش کااندیشہ یقین کی حدکوپہنچ گیاکہ اب محمد صلی اللہ علیہ وسلم بھی مدینہ ہجرت کر جائیں گے توایک آخری فیصلہ کرنے کے لئے بیت عقبہ ثانیہ سے تقریباً اڑھائی ماہ بعدچودہ بعثت نبوی کے ماہ صفرکی چھبیس تاریخ (بارہ ستمبر۶۲۲ئ)کوبروزجمعرات دارالندوہ میں ایک عظیم اجتماع کیااوراس امرپرباہم مشاورت کی کہ اس خطرے کا سدباب کس طرح کیا جائے

وَقَدْ اجْتَمَعَ فِیهَا أَشْرَافُ قُرَیْشٍ، مِنْ بَنِی عَبْدِ شَمْسٍ: عُتْبَةُ بْنُ رَبِیعَةَ، وَشَیْبَةُ ابْن رَبِیعَةَ، وَأَبُو سُفْیَانَ بْنُ حَرْبٍ. وَمِنْ بَنِی نَوْفَلِ بْنِ عَبْدِ مَنَافٍ: طُعَیْمَةُ بْنُ عَدِیٍّ، وَجُبَیْرُ بْنُ مُطْعَمٍ، وَالْحَارِثُ بْنُ عَامِرِ بْنِ نَوْفَلٍ. وَمِنْ بَنِی عَبْدِ الدَّارِ بْنِ قُصَیٍّ: النَّضْرُ بْنُ الْحَارِثِ بْنِ كِلْدَةَ. وَمِنْ بَنِی أَسَدِ بْنِ عَبْدِ الْعُزَّى: أَبُو الْبَخْتَرِیِّ ابْن هِشَامٍ، وَزَمْعَةُ بْنُ الْأَسْوَدِ بْنِ الْمُطَّلِبِ، وَحَكِیمُ بْنُ حِزَامٍ. وَمِنْ بَنِی مَخْزُومٍ:أَبُو جَهْلِ بْنِ هِشَامٍ. وَمِنْ بَنِی سَهْمٍ: نُبَیْهٌ وَمُنَبِّهٌ ابْنَا الْحَجَّاجِ، وَمِنْ بَنِی جُمَحٍ:أُمَیَّةُ بْنُ خَلَفٍ، وَمَنْ كَانَ مَعَهُمْ وَغَیْرُهُمْ مِمَّنْ لَا یُعَدُّ مِنْ قُرَیْشٍ

اس اجتماع میں قریش کے تمام اہل رائے عتبہ بن ربیعہ ،شیبہ بن ربیعہ ، ابو سفیان بن حرب ،طعیمتہ بن عدی ، جبیر بن مطعم ، حارث بن عامر،نضربن حارث بن کلدہ ،ابوالنجتری بن ہشام، زمعتہ بن الاسود ،حکیم بن حزام،ابوجہل بن ہشام، نبسیہ اورمتبہ پسران حجاج،امیہ بن خلف وغیرہ دارالندوہ میں جمع ہوئے اور سب سرجوڑ کر کوئی ایسی تدبیر سوچنے لگے جس سے اسلام کا سیل رواں رک جائے اورچمنستان دین میں خاک اڑنے لگے۔

قَالَ ابْنُ إسْحَاقَ:عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ:لَمَّا أَجَمَعُوا لِذَلِكَ، وَاتَّعَدُوا أَنْ یَدْخُلُوا فِی دَارِ النَّدْوَةِ لِیَتَشَاوَرُوا فِیهَا فِی أَمْرِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، غَدَوْا فِی الْیَوْمِ الَّذِی اتَّعَدُوا لَهُ، وَكَانَ ذَلِكَ الْیَوْمُ یُسَمَّى یَوْمَ الزَّحْمَةِ، فَاعْتَرَضَهُمْ إبْلِیسُ فِی هَیْئَةِ شَیْخٍ جَلِیلٍ،عَلَیْهِ بَتْلَةٌ ، فَوَقَفَ عَلَى بَابِ الدَّارِ،فَلَمَّا رَأَوْهُ وَاقِفًا عَلَى بَابِهَا، قَالُوا: مَنْ الشَّیْخُ؟قَالَ: شَیْخٌ مِنْ أَهْلِ نَجْدٍ سَمِعَ بِاَلَّذِی اتَّعَدْتُمْ لَهُ، فَحَضَرَ مَعَكُمْ لِیَسْمَعَ مَا تَقُولُونَ، وَعَسَى أَنْ لَا یُعْدِمَكُمْ مِنْهُ رَأْیًا وَنُصْحًا،قَالُوا: أَجَلْ، فَادْخُلْ، فَدَخَلَ مَعَهُمْ

ابن اسحاق ،عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کرتے ہیں جس روزدارالندوہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف مشاورت کے لیےیہ مجلس منعقدہوئی اس روزکانام یوم الزحمتہ رکھاگیاہے اورجب وہ وقت مقررہ پر دارالندوہ میں جمع ہوئے توابلیس لعین ایک بارعب اورتجربہ کار بوڑھے کی شکل میں قیمتی لباس زیب تن کیے دارالندوہ کے دروازے پرظاہرہوا،جب قریش نے اس کواس طرح دروازہ میں کھڑادیکھاتو اس کے بارے میں پوچھاکہ وہ کون ہے؟ اس نے جواب دیامیں نجد کا رہنے والا ہوں اورتم لوگوں کی تشویش اورتفکرکوسن کرمیں نے مناسب سمجھاکہ تمہاری مجلس میں حاضرہوکراپنی رائے سے تمہاری مددکروں مجھے امیدہے میرے صحیح مشوروں سے تمہیں فائدہ ہی پہنچے گا ، قریش نے کہا بہت بہترآیئے اندرتشریف رکھئے پس وہ ملعون ان کے ساتھ دارالندوہ میں داخل ہوا اوران کے ساتھ میٹنگ میں شریک ہوگیااجلاس کی کاروائی شروع ہوئی تو قریش کے سردارایک دوسرے سے کہنے لگے محمد( صلی اللہ علیہ وسلم )نے جوکچھ کیاہے وہ آپ لوگوں کے سامنے ہے ، واللہ اس کاارادہ اغیارکے تعاون سے ہم پرحملہ کرنے کے سوا اورکچھ نہیں ، اب پانی سرسے گزرگیاہے ،اس کے متعلق حتمی اورآخری فیصلہ کیے بغیرکوئی چارہ نہیں رہااس لئے اپنی اپنی تجویزپیش کرو

ثُمَّ قَالَ قَائِلٌ مِنْهُمْ: احْبِسُوهُ فِی الْحَدِیدِ، وَأَغْلِقُوا عَلَیْهِ بَابًا، ثُمَّ تَرَبَّصُوا بِهِ مَا أَصَابَ أَشْبَاهَهُ مِنْ الشُّعَرَاءِ الَّذِینَ كَانُوا قَبْلَهُ، زُهَیْرًا وَالنَّابِغَةَ، وَمَنْ مَضَى مِنْهُمْ، مِنْ هَذَا الْمَوْتِ، حَتَّى یُصِیبَهُ مَا أَصَابَهُمْ،فَقَالَ الشَّیْخُ النَّجْدِیُّ: لَا وَاَللَّهِ، مَا هَذَا لَكُمْ بِرَأْیٍ. وَاَللَّهِ لَئِنْ حَبَسْتُمُوهُ كَمَا تَقُولُونَ لَیَخْرُجَنَّ أَمْرُهُ مِنْ وَرَاءِ الْبَابِ الَّذِی أَغْلَقْتُمْ دُونَهُ إلَى أَصْحَابِهِ، فَلَأَوْشَكُوا أَنْ یَثِبُوا عَلَیْكُمْ، فَیَنْزِعُوهُ مِنْ أَیْدِیكُمْ، ثُمَّ یُكَاثِرُوكُمْ بِهِ، حَتَّى یَغْلِبُوكُمْ عَلَى أَمْرِكُمْ، مَا هَذَا لَكُمْ بِرَأْیٍ، فَانْظُرُوا فِی غَیْرِهِ، فَتَشَاوَرُوا

کسی ( ابوالبختری بن ہشام )نے کہا محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے ہاتھ پاوں میں بیڑیاں ڈال کرکسی کال کوٹھری میں بندکردیں اورزہیراورنابغہ جیسے شاعرمرگئے ہیں اس کی موت کا انتظارکرو،نجدی بڈھے نے کہاتمہاری یہ معقول تجویز نہیں ہے اگر ہم نے انہیں قیدکرلیا تو ہر طرف چرچا ہو جائے گااوریہ مزیدبراہوگامسلمان فورا ًمکہ پرچڑھائی کر دیں گے اورجب تک ہم سے محمد( صلی اللہ علیہ وسلم ) کوچھین نہیں لیں گے چین سے نہیں بیٹھیں گےلہذاکوئی اوربات سوچو

ثُمَّ قَالَ قَائِلٌ مِنْهُمْ: نُخْرِجُهُ مِنْ بَیْنِ أَظْهُرِنَا، فَنَنْفِیهِ مِنْ بِلَادِنَا، فَإِذَا أخرج عنّا فو الله مَا نُبَالِی أَیْنَ ذَهَبَ، وَلَا حَیْثُ وَقَعَ، إذَا غَابَ عَنَّا وَفَرَغْنَا مِنْهُ، فَأَصْلَحْنَا أَمْرَنَا وَأَلْفَتْنَا كَمَا كَانَتْ، فَقَالَ الشَّیْخُ النَّجْدِیُّ: لَا وَاَللَّهِ، مَا هَذَا لَكُمْ بِرَأْیٍ، أَلَمْ تَرَوْا حُسْنَ حَدِیثِهِ، وَحَلَاوَةَ مَنْطِقِهِ، وَغَلَبَتِهِ عَلَى قُلُوبِ الرِّجَالِ بِمَا یَأْتِی بِهِ، وَاَللَّهِ لَوْ فَعَلْتُمْ ذَلِكَ مَا أَمِنْتُمْ أَنْ یَحِلَّ عَلَى حَیٍّ مِنْ الْعَرَبِ، فَیَغْلِبَ عَلَیْهِمْ بِذَلِكَ مِنْ قَوْلِهِ وَحَدِیثِهِ حَتَّى یُتَابِعُوهُ عَلَیْهِ، ثُمَّ یَسِیرُ بِهِمْ إلَیْكُمْ حَتَّى یَطَأَكُمْ بِهِمْ فِی بِلَادِكُمْ، فَیَأْخُذَ أَمْرَكُمْ مِنْ أَیْدِیكُمْ، ثُمَّ یَفْعَلَ بِكَمْ مَا أَرَادَ، دَبِّرُوا فِیهِ رَأْیًا غَیْرَ هَذَا

کسی( اسودبن ربیعہ بن عمیر) نے رائے دی محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کا یہاں مکہ میں رہنا ٹھیک نہیں انہیں کسی دوردراز علاقہ میں چھوڑآیاجائے پھر وہ جہاں چاہے جائے اور جس جگہ چاہے رہے ہم روز روز کی مصیبت سے نجات پا لیں گے اورباہمی اختلاف دورکرکے پہلی سی پرامن زندگی بسرکرنے لگیں گےاس کے جواب میں بڈھا بولاپہلی تجویزکی طرح یہ تجویزبھی کوئی معقول تجویزنہیں ،تم اس کی فصاحت وبلاغت اورشریں کلامی جانتے ہی ہوجس سے وہ لوگوں کے دل موہ لیتاہے ،تمہاری رائے میں توخطرہ ہی خطرہ ہے یاتووہ کسی دوسرے قبیلے میں پہنچ جائے گااوراپنی جادوبیانی سے انہیں اپنا ہمنوا بنا لے گا یا پھر مدینہ میں اپنے ساتھیوں کے پاس جاپہنچے گااوراس کاوہاں پہنچنا تواور خطرناک ہوگاوہاں پہنچتے ہی وہ اپنے ساتھیوں کوساتھ لیکرمکہ پرچڑھائی کر دے گااورہمیں پیس کررکھ دے گااورتمہارے تمام اختیارات اپنے قبضہ میں کرلیں گےلہذاتم کوئی ایسی رائے نکالوجوہرپہلوسے صحیح اوردرست ہو،کسی نے کہامحمد صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کر دیا جائے مگرلوگوں نے کہا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کاخاندان مکہ کاممتازخاندان ہے انہیں قتل کردینااتناآسان نہیں ہےاگرانہیں قتل کردیاگیاتویہ خاندان اس کاانتقام لینے پراترآئے گا اور مکہ کے اندرایک خون آشام خانہ جنگی کاخطرہ پیداہوجائے گا،اسی طرح کی باتیں کرتے ہوئے سب گھبراہٹ اورمایوسی سے بولے آخرہم کیا کریں ،

قَالَ: فَقَالَ أَبُو جَهْلِ بْنُ هِشَامٍ: وَاَللَّهِ إنَّ لِی فِیهِ لَرَأْیًا مَا أَرَاكُمْ وَقَعْتُمْ عَلَیْهِ بَعْدُ قَالُوا: وَمَا هُوَ یَا أَبَا الْحَكَمِ؟أَرَى أَنْ نَأْخُذَ مِنْ كُلِّ قَبِیلَةٍ فَتًى شَابًّا جَلِیدًا نَسِیبًا وَسِیطًا فِینَا، ثُمَّ نُعْطِی كُلَّ فَتًى مِنْهُمْ سَیْفًا صَارِمًا، ثُمَّ یَعْمِدُوا إلَیْهِ، فَیَضْرِبُوهُ بِهَا ضَرْبَةَ رَجُلٍ وَاحِدٍ، فَیَقْتُلُوهُ، فَنَسْتَرِیحَ مِنْهُ. فَإِنَّهُمْ إذَا فَعَلُوا ذَلِكَ تَفَرَّقَ دَمُهُ فِی الْقَبَائِلِ جَمِیعًا، فَلَمْ یَقْدِرْ بَنُو عَبْدِ مَنَافٍ عَلَى حَرْبِ قَوْمِهِمْ جَمِیعًا، فَرَضُوا مِنَّا بِالْعَقْلِ، فَعَقَلْنَاهُ لَهُمْ،قَالَ: فَقَالَ الشَّیْخُ النَّجْدِیُّ: الْقَوْلُ مَا قَالَ الرَّجُلُ، هَذَا الرَّأْیُ الَّذِی لَا رَأْیَ غَیْرُهُ، فَتَفَرَّقَ الْقَوْمُ عَلَى ذَلِكَ وَهُمْ مُجْمِعُونَ لَهُ

ابوجہل بن ہشام جو سب کی رائے سن رہاتھا آخر میں بولاایک شکل ہے جواب تک کسی نے نہیں سوچی،سب اہل مجلس نے بڑی بے تابی سے پوچھااے ابوالحکم وہ کیاہے؟ابوجہل بولامیری رائے میں ہرقبیلہ سے ایک ایک جوان چن لیں ،جوبہادراوردلیرہوپھرہرایک کو تیزدھار تلواردے کر حکم دیں کہ جب محمد( صلی اللہ علیہ وسلم ) سورہے ہوں تو وہ سب بیک وقت ان پرٹوٹ پڑیں تاکہ اس کا خون تمام خاندانوں پرمنقسم ہوجائے پھراگران کی قوم قصاص لیناچاہے گی توہمارے اتنے قبائل سے نہ لڑسکے گی اورلامحالہ خون بہاپرراضی ہوجائے گی لہذاہم خون بہادے کراس قصہ کوفیصل کردیں گے اورہمیشہ کے لیے اس خدشے سے نجات پاجائیں گےشیخ نجدی بولاواقعی ابوالحکم کے کیاکہنے ہیں بس یہی رائے نہایت قوی اورہرپہلوسے صحیح ہے اسی پرعملدآمدکرو اس قرار داد کے بعد مجلس برخاست ہوگئی۔[1]

اس واقعہ کودوسرے لفظوں میں اس طرح بھی بیان کیاجاسکتاہے کہ مکہ متفق ہوچکاتھاکہ سردجنگ کوگرم جنگ میں بدل دیا جائے اورقریش کے تمام خاندان مل کرگرم جنگ کا آغاز کریں ، سب کے دل خوشی سے ناچ رہے تھے گویاکہ محمد( صلی اللہ علیہ وسلم ) دنیا سے چلے گئے ہیں اوران کی دعوت کا نام ونشاں ہی مٹ گیا،ان کی یاد بھی ذہنوں سے محو ہو گئی ، ان کی دعوت سے دنیاناشناہو گئی اور اس پرگردش زمانہ کی کئی تہیں پڑگئیں ،چنانچہ ہرایک نے کمرکس لی اور خوشی مگرخفیہ طور پر مختلف قبائل سے ایسے نوجوانوں کا انتخاب کرنے لگے جو محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کاکام تمام کر دیں ۔

مگر اللہ قادرمطلق کافیصلہ تھاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پرذرابھی آنچ نہ آئے،چنانچہ قریش کی تمام تدابیرالٹی پڑگئیں اوروہ خوداپنی سازش کاشکارہوگئے اللہ نے آپ کی رہنمائی فرمائی اور قریش اپنا سا منہ لیے رہ گئے۔

وَاِذْ یَمْكُرُ بِكَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا لِیُثْبِتُوْكَ اَوْ یَقْتُلُوْكَ اَوْ یُخْرِجُوْكَ۝۰ۭ وَیَمْكُـرُوْنَ وَیَمْكُرُ اللهُ۝۰ۭ وَاللهُ خَیْرُ الْمٰكِـرِیْنَ۝۳۰   [2]

ترجمہ:وہ وقت بھی یادکرنے کے قابل ہے جب کہ منکرین حق تیرے خلاف تدبیریں سوچ رہے تھے کہ تجھے قیدکردیں یاقتل کرڈالیں یاجلاوطن کر دیں ،وہ اپنی چالیں چل رہے تھے اوراللہ اپنی چال چل رہاتھااوراللہ سب سے بہترچال چلنے والاہے۔

اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کوہجرت کی اجازت فرمائی ،

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، بِمَكَّةَ ثُمَّ، أُمِرَ بِالْهِجْرَةِ، وَأُنْزِلَ عَلَیْهِ: {وَقُلْ رَبِّ أَدْخِلْنِی مُدْخَلَ صِدْقٍ وَأَخْرِجْنِی مُخْرَجَ صِدْقٍ، وَاجْعَلْ لِی مِنْ لَدُنْكَ سُلْطَانًا نَصِیرًا} ،[3]

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے قول کے مطابق ہجرت کی اجازت اس آیت میں نازل ہوئی ۔’’اوردعاکروکہ پروردگار!مجھ کوجہاں بھی تولے جاسچائی کے ساتھ لے جااورجہاں سے بھی نکال سچائی کے ساتھ نکال اوراپنی طرف سے ایک اقتدار کو میرا مدد گاربنادے۔‘‘[4]

عَنْ قَتَادَةَ، {مُدْخَلَ صِدْقٍ} ،[5]قَالَ: الْمَدِینَةُ {وَمُخْرَجَ صِدْقٍ} قَالَ: مَكَّةُ

حسن رحمہ اللہ اورقتادہ رحمہ اللہ کہتے ہیں ’’مجھ کوجہاں بھی تولے جاسچائی کے ساتھ لیجا۔‘‘ سے مدینہ منورہ اور’’جہاں سے بھی نکال سچائی لے ساتھ نکال۔‘‘ سے مکہ مکرمہ مرادہے ۔

قَالَ قَتَادَةُ فِیهَا أَنَّ نَبِیَّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، عَلِمَ أَلَّا طَاقَةَ لَهُ بِهَذَا الْأَمْرِ إِلَّا بِسُلْطَانٍ، فَسَأَلَ سُلْطَانًا نَصِیرًا

قتادہ رحمہ اللہ کہتے ہیں اللہ تعالیٰ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کومعلوم تھاکہ آپ دین اسلام کو سوائے مضبوط حکومت کے آگے نہیں بڑھاسکتے اس لئے آپ نے یہ دعافرمائی اے اللہ ! یاتومجھے خودمستحکم حکومت عطاکریاکسی حکومت کومیرامددگاربنادے۔

تاکہ اس کی طاقت سے میں دنیامیں اللہ تعالیٰ کی کتاب کوپھیلانے ،حدوداللہ کوجاری کرنے ،اس کے فرائض کوبجالانے،فواحش ومعاصی کے سیلاب کوروکنے اور اورتیرے قانون عدل کوجاری کرکے دین اسلام کومضبوط بنیادوں پرکھڑاکرسکوں ۔

لَمَّا اجْتَمَعُوا لَهُ، وَهُمْ: أَبُو جَهْلٍ. وَالْحَكَمُ بْنُ أَبِی الْعَاصِ. وَعُقْبَةُ بْنُ أَبِی مُعَیْطٍ. وَالنَّضْرُ بْنُ الْحَارِثِ. وَأُمَیَّةُ بْنُ خَلَفٍ. وَابْنُ الْغَیْطَلَةِ. وَزَمْعَةُ بْنُ الأَسْوَدِ. وَطُعَیْمَةُ بْنُ عَدِیٍّ. وَأَبُو لَهَبٍ. وَأُبَیُّ بْنُ خَلَفٍ. وَنُبَیْهٌ وَمُنَبِّهٌ ابْنَا الْحَجَّاجِ، إنَّ مُحَمَّدًا یَزْعُمُ أَنَّكُمْ إنْ تَابَعْتُمُوهُ عَلَى أَمْرِهِ، كُنْتُمْ مُلُوكَ الْعَرَبِ وَالْعَجَمِ، ثُمَّ بُعِثْتُمْ مِنْ بَعْدِ مَوْتِكُمْ، فَجُعِلَتْ لَكُمْ جِنَانٌ كَجِنَانِ الْأُرْدُنِّ، وَإِنْ لَمْ تَفْعَلُوا كَانَ لَهُ فِیكُمْ ذَبْحٌ، ثُمَّ بُعِثْتُمْ مِنْ بَعْدِ مَوْتِكُمْ، ثُمَّ جُعِلَتْ لَكُمْ نَارٌ تُحْرَقُونَ فِیهَا

ابن اسحاق ،محمدبن کعب قرظی رحمہ اللہ کی روایت نقل کرتے ہیں قریش کے سب نوجوان آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دروازے پرجمع ہوئے،ان میں ابوجہل بن ہشام،حکم بن ابی العاص،عقبہ بن ابی معیط،نضربن الحارث،امیہ بن خلف،ابن الغیطلہ،زمعہ بن الاسود،طعیمہ بن عدی،ابولہب،ابی بن خلف،نبیہ ،منبہ پسران حجاج شامل تھے،ابوجہل کہنے لگامحمد( صلی اللہ علیہ وسلم )کہتاہے کہ اگر تم اس کادین قبول کرلوگے توعرب وعجم کے بادشاہ بن جاؤگے پھرمرنے کے بعداٹھوگے توتمہیں اردن کے باغوں جیسے باغات ملیں گے،اور اگریہ نہ کروگے توذبح ہوجاؤ گے پھرمرنے کے بعداٹھوگے توآگ میں گروگے جہاں ہمیشہ جلتے رہوگے

وَخَرَجَ عَلَیْهِمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَأَخَذَ حَفْنَةً مِنْ تُرَابٍ فِی یَدِهِ، ثُمَّ قَالَ أَنَا أَقُولُ ذَلِكَ، أَنْتَ أَحَدُهُمْ، وَأَخَذَ اللَّهُ تَعَالَى عَلَى أَبْصَارِهِمْ عَنْهُ، فَلَا یَرَوْنَهُ،فَجَعَلَ یَنْثُرُ ذَلِكَ التُّرَابَ عَلَى رُءُوسِهِمْ وَهُوَ یَتْلُو هَؤُلَاءِ الْآیَاتِ مِنْ یس:یس وَالْقُرْآنِ الْحَكِیمِ. إلَى قَوْلِهِ: فَأَغْشَیْناهُمْ فَهُمْ لَا یُبْصِرُونَ

اس نے ابھی اتنی بات کہی تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گھرسے نکلے اور مٹی کی مٹھی لیکرہاں ہاں !میں یہ کہتا ہوں اورتوان میں سے ایک ہے،پھراللہ تعالیٰ نے ان کی آنکھیں بندکردیں اوروہ لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کونہ دیکھ سکے،ان کے سروں پرمٹی ڈالتے اورسورہ یٰسین کی ابتدائی چند آیات پڑھتے ہوئے نکل گئے اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم کوجاتے ہوئے کوئی نہیں دیکھ سکا۔

فَقَالَ قَائِلٌ لَهُمْ: مَا تَنْتَظِرُونَ؟قَالُوا:مُحَمَّدًا، قَالَ: خِبْتِمْ وَخَسِرْتُمْ. قَدْ وَاللَّهِ مَرَّ بِكُمْ وذر على رؤوسكم التُّرَابَ، قَالُوا:وَاللَّهِ مَا أَبْصَرْنَاهُ! وَقَامُوا یَنْفُضُونَ التُّرَابَ عن رؤوسهم،ثُمَّ جَعَلُوا یَتَطَلَّعُونَ فَیَرَوْنَ عَلِیًّا عَلَى الْفِرَاشِ مُتَسَجِّیًا بِبُرْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَیَقُولُونَ: وَاَللَّهِ إنَّ هَذَا لَمُحَمَّدٌ نَائِمًا، عَلَیْهِ بُرْدُهُ. فَلَمْ یَبْرَحُوا كَذَلِكَ حَتَّى أَصْبَحُوا فَقَامَ عَلِیٌّ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ عَنْ الْفِرَاشِ فَقَالُوا: وَاَللَّهِ لَقَدْ كَانَ صَدَقَنَا الَّذِی حَدَّثَنَا

کسی نے ان سے آکرپوچھاتم یہاں کس کاانتظارکررہے ہو؟ بولے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کاانتظارکررہے ہیں ،اس نے کہااللہ تعالیٰ تمہیں ناکام کرے بخدا!محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم )توتمہارے پاس سے نکل گیاہے اورتم میں سے ہرایک آدمی کے سرپرمٹی ڈال گیاہے اورجہاں جانا تھا چلا گیاہے ،تم اپنے سرپرمٹی نہیں دیکھتے ہو؟پھرکہنے لگے واللہ!ہم نے انہیں نہیں دیکھااور اپنے سروں پر مٹی جھاڑنے لگے،پھران لوگوں نے جھانک جھانک کراندردیکھناشروع کیاتودیکھاکہ واقعی کوئی شخص سوتاہے اوروہی چادراوڑھے ہوئے ہے جورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اوڑھتے تھے ،کہنے لگے کہ محمدسوتے ہیں اورصبح تک اسی انتظارمیں کھڑے رہے،جب صبح ہوئی تودیکھاکہ سیدناعلی رضی اللہ عنہ بسترپرسے اٹھے تب کہنے لگے واللہ! رات کووہ شخص ہم سے سچ کہتاتھا۔ [6]

فَلَمَّا أَصْبَحُوا قَامَ عَلِیٌّ عَنِ الْفِرَاشِ فَسَأَلُوهُ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ،فَقَالَ: لا عِلْمَ لِی بِهِ

جب صبح ہوئی توسیدناعلی رضی اللہ عنہ بسترسے اٹھے ان لوگوں نے ان سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں دریافت کیاتوسیدناعلی رضی اللہ عنہ نے کہامجھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق علم نہیں ۔[7]

ابن اسحاق نے کہاہے کہ اس رات اس مقصدکے لئے جولوگ جمع ہوئے تھے ان کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا

وَاِذْ یَمْكُرُ بِكَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا لِیُثْبِتُوْكَ اَوْ یَقْتُلُوْكَ اَوْ یُخْرِجُوْكَ۝۰ۭ وَیَمْكُـرُوْنَ وَیَمْكُرُ اللهُ۝۰ۭ وَاللهُ خَیْرُ الْمٰكِـرِیْنَ۝۳۰ [8]

ترجمہ:اوروہ وقت یادکروجب کافرتمہارے بارے میں چالیں چل رہے تھے کہ تمہیں قیدکردیں یاتمہیں قتل کردیں یاتمہیں جلاوطن کردیں ،وہ اپنی چالیں چل رہے تھے اوراللہ اپنی چال چل رہاتھااوراللہ سب سے عمدہ چال چلنے والاہے۔

اوریہ آیت بھی نازل ہوئی

 أَمْ یَقُوْلُوْنَ شَاعِرٌ نَّتَرَبَّصُ بِهٖ رَیْبَ الْمَنُوْنِ۝۳۰قُلْ تَرَبَّصُوْا فَاِنِّىْ مَعَكُمْ مِّنَ الْمُتَرَبِّصِیْنَ۝۳۱ۭ [9]

ترجمہ:بلکہ کہتے ہیں یہ شاعرہے ہم اس کی موت کاانتظارکرتے ہیں تم ان سے کہہ دوکہ انتظار کرومیں بھی تمہارے ساتھ منتظرہوں ۔

فَأَتَى جِبْرِیلُ عَلَیْهِ السِّلَامُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: لَا تَبِتْ هَذِهِ اللَّیْلَةَ عَلَى فِرَاشِكَ الَّذِی كُنْتَ تَبِیتُ عَلَیْهِ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں جبرائیل علیہ السلام تشریف لائے (کفارکے مشورے کی خبردی،ہجرت کاحکم ہوااور)فرمایاآج رات کوآپ اس جگہ نہ سوئیں جہاں ہمیشہ سویاکرتے ہیں ۔[10]

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ٹھیک دوپہر کے وقت جاکرسیدناابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو ہجرت کی خبردے دی تھی(بعض کتابوں میں ہے کہ دوتین دن پہلے جاکراطلاع دے دی تھی)

قَالَ: فَلَمَّا كَانَتْ عَتَمَةٌ مِنْ اللَّیْلِ اجْتَمَعُوا عَلَى بَابِهِ یَرْصُدُونَهُ مَتَى یَنَامُ، فَیَثِبُونَ عَلَیْهِ، فَلَمَّا رَأَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مَكَانَهُمْ، قَالَ لِعَلِیِّ بْنِ أَبِی طَالِبٍ: نَمْ عَلَى فِرَاشِی وَتَسَجَّ بِبُرْدِی هَذَاالْحَضْرَمِیِّ الْأَخْضَرِ، فَنَمْ فِیهِ، فَإِنَّهُ لَنْ یَخْلُصَ إلَیْكَ شَیْءٌ تَكْرَهُهُ مِنْهُمْ، وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَنَامُ فِی بُرْدِهِ ذَلِكَ إذَا نَامَ

شب کے وقت کفار دروازے پرجمع ہوگئے اورمکان گھیرلیا،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوجب یہ اطلاع ہوئی کہ دشمن اس بات کے منتظرہیں توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ بن ابی طالب سے فرمایاکہ تم میرے بسترپرمیری سبزچادراوڑھ کرسورہواورکچھ فکرنہ کرویہ لوگ تمہیں کچھ ایذانہ پہنچاپائیں گے،اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب سوتے تھے تواسی چادرمیں سوتے تھے۔[11]

اور یہ آیت تلاوت فرمائی

 وَجَعَلْنَا مِنْۢ بَیْنِ اَیْدِیْهِمْ سَدًّا وَّمِنْ خَلْفِهِمْ سَدًّا فَاَغْشَیْنٰهُمْ فَهُمْ لَا یُبْصِرُوْنَ۝۹   [12]

ترجمہ:ہم نے ایک دیواران کے آگے کھڑی کردی ہے اورایک دیواران کے پیچھے ،ہم نے انہیں ڈھانک دیاہے ،انہیں اب کچھ نہیں سوجھتا۔

اورایک مٹھی بطحاکی خاک لے کرپھینکی جوتمام کفارکے سروں پرپڑی اورآپ نکل کرچلے گئے کسی کافرنے آپ کونہ دیکھا ۔

فَذَكَرَ بَعْضُ أَهْلِ التّفْسِیرِ السّبَبَ الْمَانِعَ لَهُمْ مِنْ التّقَحّمِ عَلَیْهِ فِی الدّارِ مَعَ قِصَرِ الْجِدَارِ وَأَنّهُمْ إنّمَا جَاءُوا لِقَتْلِهِ فَذَكَرَ فِی الْخَبَرِ أَنّهُمْ هَمّوا بِالْوُلُوجِ عَلَیْهِ فَصَاحَتْ امْرَأَةٌ مِنْ الدّارِ فَقَالَ بَعْضُهُمْ لِبَعْضِ وَاَللهِ إنّهَا لَلسّبّةُ فِی الْعَرَبِ أَنْ یُتَحَدّثَ عَنّا أَنّا تَسَوّرْنَا الْحِیطَانَ عَلَى بَنَاتِ الْعَمّ وَهَتَكْنَا سِتْرَ حُرْمَتِنَا فَهَذَا هُوَ الّذِی أَقَامَهُمْ بِالْبَابِ حَتّى أَصْبَحُوا یَنْتَظِرُونَ خُرُوجَهُ ثُمّ طُمِسَتْ أَبْصَارُهُمْ

علامہ سہیلی رحمہ اللہ نے لکھاہےبعض مفسرین نے یہ اشکال دورکرنے کی کوشش کی ہے کہ باوجوددیوارچھوٹی ہونے کے کفاردیواپھلانگ کراندرکیوں نہیں گئے؟وہ باہرکھڑے انتظارکیوں کرتے رہے؟جبکہ ان کامقصدہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کوقتل کرناتھا؟اس کاجواب یہ دیاہے کہ انہوں نے دیوارپھلانگنے کاارادہ کیاتھامگرگھرکے اندرسے کوئی خاتون للکارنے لگی، وہ ایک دوسرے کوکہنے لگے اللہ کی قسم!یہ توبڑے عاراورذلت کی بات ہے کہ ہمارے بارے میں یہ عرب میں یہ مشہورہوجائے کہ ہم نے اپنے قبیلے کی چچا زاد عورتوں کی دیوارپھلانگی اورہم نے چادراورچاردیواری کاتقدس پامال کیا یہی وجہ تھی جس کی بناپروہ دروازے ہی پرکھڑے رہے اورصبح تک آپ کے نکلنے کاانتظارکرتے رہے لیکن جب آپ تشریف لائے توان کی آنکھیں جواب دے گئیں ۔[13]

سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے دروازے سے ان کے مکان میں گئے اورسیدناابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کوساتھ لے کردوسری طرف کھڑکی کے راستے روانہ ہوگئے ،کفاررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دروازے پر جمع تھے ایک شخص نے آکرکہاکہ اب کیاکررہے ہووہ توتمہارے سروں پرخاک ڈال کرچلے گئے ،کفارنے دیکھاتوسب کے سروں پرخاک تھی وہ صاف کرنے لگے ۔

إِلَى مَنْزِلِ أَبِی بَكْرٍ. فَكَانَ فِیهِ إِلَى اللَّیْلِ.ثُمَّ خَرَجَ هُوَ وَأَبُو بَكْرٍ فَمَضِیَا إِلَى غَارِ ثَوْرٍ فَدَخَلاهُ. وَضَرَبَتِ الْعَنْكَبُوتُ عَلَى بَابِهِ بِعِشَاشٍ بَعْضُهَا عَلَى بَعْضٍ. وَطَلَبَتْ قُرَیْشٌ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَشَدَّ الطَّلَبِ حَتَّى انْتَهَوْا إِلَى بَابِ الْغَارِ فَقَالَ بَعْضُهُمْ: إِنَّ عَلَیْهِ الْعَنْكَبُوتَ قَبْلَ مِیلادِ محمد فانصرفوا

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے مکان پرچلے گئے رات تک اسی میں رہے پھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم اورسیدناابوبکر رضی اللہ عنہ نکلے اور غارثورکوروانہ ہوگئے،اس کے اندرداخل ہوئے تومکڑی نے اس کے راستے پر جالاتان دیاجس کابعض حصہ بعض پرتھا،قریش نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی انتہائی جستجوکی یہاں تک غارکے منہ تک پہنچ گئے،ان میں سے بعض نے کہاکہ اس پرتومحمد( صلی اللہ علیہ وسلم )کی ولادت سے بھی پہلے کی مکڑی ہےوہ سب واپس ہوگئے۔[14]

ابوالمعصب المکی سے مروی ہے میں نے زیدبن ارقم،انس بن مالک اورمغیرہ بن شعبہ کازمانہ پایاہےمیں نے ان کوبیان کرتے ہوئے سنا

لَیْلَةَ الْغَارِ أَمَرَ اللَّهُ شَجَرَةً فَنَبَتَتْ فِی وَجْهِ النَّبِیِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَسَتَرَتْهُ،وَأَمَرَ اللَّهُ الْعَنْكَبُوتَ فَنَسَجَتْ عَلَى وَجْهِهِ فَسَتَرَتْهُ، وَأَمَرَ اللَّهُ حَمَامَتَیْنِ وَحْشِیَّتَیْنِ فَوَقَعَتَا بِفَمِ الْغَارِ، وَأَقْبَلَ فَتَیَانُ قُرَیْشٍ. مِنْ كُلِّ بَطْنٍ رَجُلٌ. بِأَسْیَافِهِمْ وَعِصِیِّهِمْ وَهِرَاوَاتِهِمْ حَتَّى إِذَا كَانُوا مِنَ النَّبِیِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَدْرَ أَرْبَعِینَ ذِرَاعًا. نَظَرَ أَوَّلُهُمْ فَرَأَى الْحَمَامَتَیْنِ فَرَجَعَ،فَقَالَ لَهُ أَصْحَابُهُ: مَا لَكَ لَمْ تَنْظُرْ فِی الْغَارِ؟ قَالَ: رَأَیْتُ حَمَامَتَیْنِ وَحْشِیَّتَیْنِ بِفَمِ الْغَارِ فَعَرَفْتُ أَنْ لَیْسَ فِیهِ أَحَدٌ

شب کوغارمیں اللہ تعالیٰ نے ایک درخت کوحکم دیاوہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب اگ آیااس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آڑکرلی ،اللہ تعالیٰ نے مکڑی کوحکم دیاتواس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے روبروجالاتان دیااورآڑکرلی،اللہ تعالیٰ نے دوجنگلی کبوتروں کوحکم دیاجوغارکے منہ پربیٹھ گئے، قریش کے نوجوان جن میں ہرخاندان کاایک ایک آدمی تھااپنی اپنی تلواریں لاٹھیاں اورلٹھ لئے ہوئے آئے یہاں تک کہ جب وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے چالیس ہاتھ کے فاصلہ پرتھاتوان کے آگے والے شخص نے نظرڈالی ان دونوں کبوتروں کودیکھ کرواپس ہوگیا،اس کے ساتھیوں نے کہاکہ تجھے کیاہواکہ غارمیں نہیں دیکھتا،اس نے کہاکہ غارکے منہ پردووحشی کبوترہیں میں سمجھاکہ اس میں کوئی نہیں ہے۔[15]

ان روایات سے یہ معلوم ہوتاہے۔

x رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت کے روز سیدناابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کے گھرپہلے دوپہرکے وقت ہجرت کی اطلاع دینے کے لئے تشریف لے گئے اورپھررات کو سفر ہجرت شروع کرنے کے لئےدوبارہ تشریف لے گئے۔

بعض کتابوں میں ہے کہ دوتین دن پہلے جاکراطلاع دے دی تھی۔

x رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت رات کے وقت اپنے گھرسے شروع فرمائی حالانکہ رات کے وقت ہجرت فرماناتوانتہائی خطرناک ہوسکتاتھاچونکہ اہل مکہ صحرا کی گرمی کی شدت کی وجہ سے رات کے وقت ہی سفرکرتے جب ریت ٹھنڈی ہوجاتی تھی اوررات میں ہی ان کاکاروبار ہوتا تھا،کاروباری اوقات میں جب خوب آمدورفت ہو ہجرت کرنامشکل کام تھا،ہجرت کے لئے تووہ وقت مناسب ہوسکتاتھاجب اہل مکہ گرمی کی شدت سے گھبراکر گھروں میں بندہوں اورلوگوں کی آمدورفت بھی کم سے کم ہو۔

xرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھرپر اس وقت تنہاسیدنا علی رضی اللہ عنہ بن ابی طالب ہی نہ تھے بلکہ فاطمہ رضی اللہ عنہا ، ام کلثوم رضی اللہ عنہا ،آپ کی دائی ام ایمن رضی اللہ عنہا ،ام المومنین سودا رضی اللہ عنہا اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم کے متبنیٰ اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ موجود تھے،جب اہل عرب زنانہ مکان میں داخل ہونامعیوب سمجھتے تھے تو سیدناعلی رضی اللہ عنہ کوگھرمیں کوئی خطرہ ہی نہ تھاپھران کواپنے بسترپرسبزچادراوڑھ کر سلانے میں کیا حکمت پوشیدہ تھی۔

xمشرکین مکہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھرکوگھیرلیامگرآپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے سروں پرمٹی ڈال کرنکل گئے،اگررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کومٹی ہی ڈالنی تھی توپھرآنکھوں میں ڈالنی چاہی تھی تاکہ وہ دیکھ ہی نہ سکیں ،جیسے غزوہ بدر میں ایساواقعہ ہواخاص طورپرہرایک کے سر پرمٹی ڈالنے کاکیافائدہ ہوسکتا ہے ۔

xجب غارثورمیں پہنچے تومکڑی نے جالاتن دیااورپرندوں نے انڈے دے دیئے۔

اس روایت کی اسناد:

مشہوریہی ہے کہ جب کفارغارثورکے قریب پہنچ گئے تواللہ نے حکم دیاوفقاً ببول کادرخت اگا اور اس کی تہنیوں نے پھیل کررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو چھپالیا ، ساتھ ہی دوکبوترآئے اورگھونسلابناکرانڈے دیئے حرم کے کبوتران ہی کبوتروں کی نسل سے ہیں ،اس روایت کومواہب لدینہ میں تفصیل سے نقل کیاہے اورزرقانی نے بزار وغیرہ سے اس کے ماخذبتائے ہیں لیکن یہ تمام روایتیں غلط ہیں ،اس روایت کا اصل راوی عون بن عمروہےجس کی نسبت امام فن رجال یحییٰ بن معین رحمہ اللہ کاقول ہے

لاشی،وقال البخاری:عون بن عمرو القیسی جلیس لمعتمر. منكر الحدیث.مجهول،أبو مصعب لا یعرف

یعنی یہ ہیچ ہے،امام بخاری رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ وہ منکرالحدیث اورمجہول ہے،اس روایت کاایک راوی ابومصعب مکی ہے وہ مجہول الحال ہے ،چنانچہ علامہ ذہبی رحمہ اللہ نے میزان الاعتدال میں عون بن عمروکے حال میں یہ تمام اقوال نقل کیے ہیں اورخوداس روایت کابھی ذکرکیاہے۔[16]

سید سلیمان ندوی لکھتے ہیں مشہورہے

أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ لَیْلَةَ الْغَارِ أَمَرَ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ بِشَجَرَةٍ فَنَبَتَتْ فِی وَجْهِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَسَتَرَتْهُ، وَأَمَرَ اللهُ الْعَنْكَبُوتَ فَنَسَجَتْ فِی وَجْهِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَسَتَرَتْهُ، وَأَمَرَ اللهُ حَمَامَتَیْنِ وَحْشِیَّتَیْنِ فَوَقَفَتَا بِفَمِ الْغَارِ

ہجرت کے وقت جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے غارثورمیں پناہ لی تواللہ کے حکم سے فوراًغارکی منہ پربنولے یاببول کادرخت اگ آیا جس کی ڈالیاں پھیل کرغارپرچھاگئیں ،کبوتروں کے ایک جوڑے نے وہاں آکر انڈے دیئے اورمکڑی نے جالے تن دیئے تاکہ مشرکین کورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں اس کے اندرہونے کا گمان نہ ہو۔

درخت کے اگنے،کبوتروں کے انڈے دینے اور مکڑی کے جالاتننے ان تینوں کا ذکرابومصعب مکی کی روایت میں ہے بقیہ روایتوں میں صرف کبوتروں کے انڈے دینے اورمکڑی کے جالاتننے کابیان ہے بہرحال یہ واقعہ کتب سیر ابن سعد۱۷۷؍۱،دلائل النبوة للبیہقی ۴۸۱؍۲،دلائل النبوة لابی نعیم۳۲۵؍۱ میں اورکتب حدیث میں سے ابن مردویہ اوربزاز میں ہے ۔ابن مردویہ ،بزازاوربیہقی میں جوروایت ہے نیزابن سعد اور ابونعیم کی ایک روایت ابومصعب مکی سے ہے جومتعددصحابہ سے اس واقعہ کاسننا ظاہر کرتا ہے ، ابومصعب سے عون بن عمروالقیسی اس کی روایت کرتاہےلیکن یہ دونوں پایہ اعتبارسے گرے ہوئے ہیں ،ابومصعب مکی مجہول ہے

قال ابن معین: لا شئ.

اورعون بن عمروکی نسبت یحییٰ بن معین کہتے ہیں کہ وہ کچھ نہیں

وقال البخاری: عون بن عمرو القیسی جلیس لمعتمر.منكر الحدیث.مجهول.

امام بخاری فرماتے ہیں وہ منکرالحدیث اور مجہول ہے ۔ ابو نعیم میں عون بن عمروکے بجائےعَوَیْنُ بْنُ عَمْرٍو الْقَیْسِیُّ لکھاہے،یہ عوین بن عمروبھی بے اعتبارہے ،عقیلی نے اس کاضعفاء میں شمارکیاہے اورلکھاہے کہ اس کی روایتوں کی تصدیق نہیں ہوتی اوراس روایت کونقل کر کے لکھاہے کہ ابومصعب مجہول ہے۔

سید سلیمان ندوی نے واقعہ ہجرت میں صرف ابومصعب مکی کی روایت پرتنقیدکی ہے مگرواقعہ یہ ہے کہ ابو مصعب مکی کے علاوہ اور دوسرے سلسلوں سے بھی یہ مروی ہے،چنانچہ ابن سعد نے ایک اورطریقہ سے اس واقعہ کی روایت کی ہے مگراس روایت کا سر سلسلہ واقدی ہے جس نے متعددروایتوں کو یکجا کرکے ان کی ایک مشترک روایت ہجرت تیارکی ہے ،اس واقعہ کی بہترین روایت وہ ہے جو عبداللہ بن عباس سے مروی ہے

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ: فَرَأَوْا عَلَى بَابِهِ نَسْجَ الْعَنْكَبُوتِ، فَقَالُوا: لَوْ دَخَلَ هَاهُنَا، لَمْ یَكُنْ نَسْجُ الْعَنْكَبُوتِ عَلَى بَابِهِ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں وہ لوگ غارپرسے گزرے توانہوں نے غارکے منہ پرمکڑی کاجالا دیکھاتو کہنے لگے اگریہ لوگ اس میں داخل ہوتے توغارکے منہ پر یہ مکڑی کاجالانہ ہوتا ۔[17]

لیکن ان الفاظ سے اس واقعہ کاغیرمعمولی ہوناظاہرنہیں ہوتاالبتہ اس روایت کی بناء پراس کوتائیدات میں جگہ دی جاسکتی ہے تاہم یہ روایت بھی قائم نہیں اس کے راوی مقسم ہیں جواپنے کومولیٰ ابن عباس کہتے ہیں اوران سے عثمان الخبرری نام ایک شخص روایت کرتاہے،مقسم کی اگرچہ متعددمحدثین نے توثیق کی ہے اورامام بخاری رحمہ اللہ نے صحیح میں ان سے جماعت کی روایت نقل کی ہے مگرانہوں نے خودکتاب الضعفاء میں ان کوضعیف کہاہے،ابن سعد نے بھی ان کوضعیف کہاہے ،ساجی رحمہ اللہ نے لکھاہے کہ محدثین نے ان کی روایت میں کلام کیاہے،ابن حزم رحمہ اللہ نے لکھاہے کہ وہ قوی نہیں ،عثمان الخبرری جوعثمان بن عمروبن ساج الخبری ہے اورکہیں عثمان بن ساج کے نام سے مشہورہے گوابن حبان رحمہ اللہ نے اپنے مشہورتساہل کی بناء پراس کوثقات میں داخل کیاہے

وقال أبو حاتم:یكتب حدیثه، ولا یحتج به

مگرمحدث ابوحاتم رحمہ اللہ کہتے ہیں اس کی حدیث لکھی جائے حجت میں پیش نہ کی جائے۔[18]

علامہ ذہبی رحمہ اللہ نے میزان الاعتدال میں اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لسان المیزان میں صرف ابوحاتم کاقول نقل کیاہے جس سے معلوم ہوتاہے کہ اس کی نسبت محدثین کاآخری فیصلہ یہی ہے۔[19]

عثمان ابن ساج کے بارے میں ذہبی نے ابوحاتم کایہ قول میزان الاعتدال ۳۹؍۳ پرنقل کیاہے لیکن صفحہ ۳۴؍۳پرلکھتے ہیں

عن خصیف لا یتابع

خصیف کہتے ہیں کہ اس کی روایت کی کوئی تصدیق نہیں کرتا۔

جہاں تک ابو مصعب مکی کی روایت کاتعلق ہے تووہ اس روایت کو

أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ وَزَیْدَ بْنَ أَرْقَمَ وَالْمُغِیرَةِ بْنَ شُعْبَةَ

انس بن مالک رضی اللہ عنہ ،زید رضی اللہ عنہ بن ارقم اور مغیرہ رضی اللہ عنہ بن شعبہ سے نقل کرتاہے۔

أبو مصعب لا یعرف

علامہ ذہبی رحمہ اللہ کہتے ہیں ابومصعب مجہول ہے۔[20]

جب تک یہ معلوم نہ ہوکہ یہ ابومصعب مکی کون شخص ہے اس کانام کیاہے،یہ کب پیداہوااورکب فوت ہوا؟تواس کایہ دعویٰ کے اس نے ان تینوں صحابہ سے یہ روایت سنی ہے کیسے قبول کیا جا سکتا ہے؟پھرابومصعب مکی کایہ دعویٰ اس لحاظ سے بھی جھوٹ ہے کہ ان تینوں صحابہ میں سے کوئی صحابی ایسانہیں جواس واقعہ کے وقت موجودہومثلاً انس رضی اللہ عنہ بن مالک اس وقت دس سال کے بچہ تھے اورمدینہ میں مقیم تھے ، زید رضی اللہ عنہ بن ارقم چندسال کے بچہ تھے اورمدینہ میں مقیم تھے اور مغیرہ رضی اللہ عنہ بن شعبہ چھ ہجری میں اسلام لائےاس وقت کافرتھے اورطائف میں مقیم تھے، اورجوحضرات ہجرت کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے یعنی سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ اور عامر رضی اللہ عنہ بن فہیرہ وہ اس قسم کاکوئی واقعہ بیان نہیں کرتے ااور نہ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے بیٹے عبداللہ رضی اللہ عنہ جوغارمیں رات کوساتھ سویا کرتے تھے ان سے بھی اس سلسلہ میں کوئی واقعہ مروی نہیں اسی طرح عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما اس وقت مکہ مکرمہ میں تھے اوروہ دوسال کے بچہ تھے۔

پھر ان حضرات کے سن وفات میں بھی زبردست فرق ہے مغیرہ رضی اللہ عنہ بن شعبہ نے کوفہ میں ۵۸ ہجری میں انتقال فرمایاجبکہ زید رضی اللہ عنہ بن ارقم کی وفات ۸۵ ہجری میں ہوئی اور انس رضی اللہ عنہ بن مالک کاانتقال بصرہ میں ۹۳ ہجری میں ہوا اور عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کی وفات طائف میں ۶۵ ہجری میں ہوئی ،یہ کوئی ضروری نہیں کہ جس نے انس رضی اللہ عنہ بن مالک کودیکھاہو اس نے بقیہ صحابہ کوبھی دیکھاہو،مثلاًامام زہری رحمہ اللہ اورقتادہ رحمہ اللہ نے انس رضی اللہ عنہ بن مالک کودیکھاہے لیکن ان حضرات نے بقیہ صحابہ میں سے کسی کونہیں دیکھاکیونکہ ۸۰ ہجری تک پیداہونے والے اشخاص کے لئے انس رضی اللہ عنہ بن مالک کودیکھناممکن تھالیکن مغیرہ رضی اللہ عنہ بن شعبہ کو تو وہی شخص دیکھ سکتاہے جس کی پیدائش ۴۰ ہجری کے قریب ہوئی ہواوران تمام امورکے جوابات اس پرموقوف ہیں کہ یہ ابومصعب مکی کون ہے ،کب پیداہوا،کہاں کاباشندہ ہے اوراس نے کہاں کی سکونت اختیارکی تھی اورکس کس جگہ کاسفرکس کس سن میں کیااورکس کس سے استفادہ کیا لیکن ان میں سے کسی ایک بات کابھی کسی کوعلم نہیں ،ایسامحسوس ہوتاہے کہ یہ کوئی فرضی کردارہے جواس کہانی کے پلاٹ کے لئے تیارکیاگیاہے اس لئے اس کا وجود کہیں نظر نہیں آتا۔

وَعَنْ أَبِی بَكْرٍ الصِّدِّیقِ قَالَ:جَاءَ رَجُلٌ مِنَ الْمُشْرِكِینَ حَتَّى اسْتَقْبَلَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بِعَوْرَتِهِ یَبُولُ، قُلْتُ: یَا رَسُولَ اللَّهِ، أَلَیْسَ الرَّجُلُ یَرَانَا؟قَالَ: لَوْ رَآنَا لَمْ یَسْتَقْبِلْنَا بِعَوْرَتِهِ . یَعْنِی وَهُوَ بِالْغَارِ

سیدناابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ سے مروی ہےکھوج لگانے والے مشرکین میں سے ایک شخص عین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیشاب کرنے لگا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے پوچھااے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! کیایہ ہمیں دیکھ نہیں رہا؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااگریہ ہمیں دیکھتاتوکبھی ہماری طرف برہنہ ہوکرپیشاب نہ کرتا۔[21]

وَفِیهِ مُوسَى بْنُ مُطَیْرٍ، وَهُوَمَتْرُوكٌ.

اس روایت کی سندمیں موسیٰ بن مطیرہے جومتروک ہے۔

ہجرت کاصحیح واقعہ :

ہجرت مدینہ کے قریب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں سے فرمایامجھے ہجرت کامقام دکھایاگیاہے ،یہ ایک ایسی سرزمین ہے جس میں کھجوریں ہیں اس کے دوطرف دو پتھریلے میدان ہیں ، نتیجہ بہت سے مسلمان مدینہ طیبہ ہجرت کرکے چلے گئے اورجنہوں نے حبشہ ہجرت کی تھی ان میں سے بہت سے افرادمدینہ منورہ ہجرت کر گئے

اسْتَأْذَنَهُ أَبُو بَكْرٍ وَقَالَ لَهُ: انْظُرْنِی، فَإِنِّی لا أَدْرِی، لَعَلِّی یُؤْذَنُ لِی بِالْخُرُوجِ، قَالَ أَبُو بَكْرٍ: أَتَطْمَعُ أَنْ یُؤْذَنَ لَكَ؟قَالَ: نَعَمْ

سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے بھی مدینہ جانےکے لیےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت مانگی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے ارشادفرمایا تم میراانتظارکروممکن ہے مجھے بھی ہجرت کی اجازت مل جائے،سیدناابوبکر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا میرے ماں باپ قربان کیا آپ کوبھی عنقریب اجازت ملنے کی امیدہے ؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاہاں ۔[22]

پس سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رفاقت کی خاطررک گئے،

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: كَانَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بِمَكَّةَ، ثُمَّ أُمِرَ بِالْهِجْرَةِ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى اسْمُهُ {وَقُلْ رَبِّ أَدْخِلْنِی مُدْخَلَ صِدْقٍ وَأَخْرِجْنِی مُخْرَجَ صِدْقٍ وَاجْعَلْ لِی مِنْ لَدُنْكَ سُلْطَانًا نَصِیرً ]

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کابیان ہےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مکہ معظمہ میں تھے توآپ کوہجرت کاحکم دیاگیااوراللہ تعالیٰ نےیہ آیت نازل فرمائی ’’ اور دعا کرو کہ پروردگار!مجھ کو جہاں بھی تو لے جا سچائی کے ساتھ لے جا اور جہاں سے بھی نکال سچائی کے ساتھ نکال، اور اپنی طرف سے ایک اقتدار کو میرا مددگار بنادے ۔‘‘

عَنْ قَتَادَةَ، فِی قَوْلِهِ: {وَاجْعَلْ لِی مِنْ لَدُنْكَ سُلْطَانًا نَصِیرًا} ،[23] وَإِنَّ نَبِیَّ اللَّهِ عَلِمَ أَنْ لَا طَاقَةَ لَهُ بِهَذَا الْأَمْرِ إِلَّا بِسُلْطَانٍ، فَسَأَلَ سُلْطَانًا نَصِیرًا

قتادہ رحمہ اللہ آیت کریمہ’’ اور اپنی طرف سے ایک اقتدار کو میرا مددگار بنادے۔‘‘کے بارے میں فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کومکہ سے مدینہ کی طرف اچھی جگہ نکال دیااورنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کواس کاعلم تھاکہ یہ کام بغیراللہ تعالیٰ کی نصرت وقوت کے نہیں ہو سکتا تھا اسی لئے آپ نے سلطان نصیرکے لئے دعامانگی۔

سیدناابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس دواونٹنیاں تھیں جنہیں وہ چارماہ تک بیری کے پتے کھلاتے رہے،

أَنَّ عَائِشَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهَا، زَوْجَ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، قَالَتْ: وَكَانَ لا یُخْطِئُهُ یَوْمًا أَنْ یَأْتِیَ بَیْتَ أَبِی بَكْرٍ أَوَّلَ النَّهَارِ وَآخِرَهُ ، فَبَیْنَمَا نَحْنُ یَوْمًا جُلُوسٌ فِی بَیْتِ أَبِی بَكْرٍ فِی نَحْرِ الظَّهِیرَةِ، قَالَ قَائِلٌ لِأَبِی بَكْرٍ: هَذَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مُتَقَنِّعًا، فِی سَاعَةٍ لَمْ یَكُنْ یَأْتِینَا فِیهَافَقَالَ أَبُو بَكْرٍ: فِدَاءٌ لَهُ أَبِی وَأُمِّی، وَاللَّهِ مَا جَاءَ بِهِ فِی هَذِهِ السَّاعَةِ إِلَّا أَمْرٌ،قَالَتْ: فَجَاءَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَاسْتَأْذَنَ، فَأُذِنَ لَهُ فَدَخَلَ، فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ لِأَبِی بَكْرٍ:أَخْرِجْ مَنْ عِنْدَكَ، فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ: إِنَّمَا هُمْ أَهْلُكَ، بِأَبِی أَنْتَ یَا رَسُولَ اللَّهِ

ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سیدناابوبکر رضی اللہ عنہ کے گھرہرروزبلاناغہ ایک بارصبح کویاشام کوتشریف لاتے تھے،ایک دن ہم سیدناابوبکر رضی اللہ عنہ کے گھربیٹھے ہوئے تھے ،بھری دوپہرتھی کہ کسی نےسیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ سے کہارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سرپررومال ڈالے تشریف لارہے ہیں ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کامعمول ہمارے یہاں اس وقت آنے کانہیں تھا،سیدناابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پرمیرے ماں باپ فداہوں ایسے وقت میں آپ کسی خاص وجہ سے ہی تشریف لائے ہوں گے،پھررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اوراندرآنے کی اجازت چاہی ،سیدناابوبکر رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کواجازت دی توآپ اندر داخل ہوئے،رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم نےسیدنا ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ سے فرمایایہاں جولوگ موجودہیں انہیں کچھ دیرکے لئے یہاں سے ہٹادوتاکہ میں کچھ کہوں ،ابوبکر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا اے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم !میرے ماں باپ آپ پرقربان ہوں یہاں اس وقت توسب گھرکے ہی آدمی ہیں ،

قَالَ:فَإِنِّی قَدْ أُذِنَ لِی فِی الخُرُوجِ، فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ: الصَّحَابَةُ بِأَبِی أَنْتَ یَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:نَعَمْ،قَالَت: فو الله مَا شَعُرْتُ قَطُّ قَبْلَ ذَلِكَ الْیَوْمِ أَنَّ أَحَدًا یَبْكِی مِنْ الْفَرَحِ، حَتَّى رَأَیْتُ أَبَا بَكْرٍ یَبْكِی یَوْمئِذٍ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایامجھے یہاں سے ہجرت کاحکم مل گیاہے،سیدناابوبکر رضی اللہ عنہ نے عرض کی اے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم ! میرے باپ آپ پرفداہوں !کیامجھے رفاقت سفرکاشرف حاصل ہوسکے گا؟رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ ہاں ، عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان سے خوشی کے مارے ابوبکر رضی اللہ عنہ رونے لگے اوراس دن مجھے معلوم ہواکہ خوشی میں بھی رونا آتا ہے،سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے عرض کیااے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم ! میں نے اسی دن کے لئے دواونٹنیاں تیارکررکھی ہیں ،اوریہ دونوں اونٹنیاں ابوبکر رضی اللہ عنہ نے بنی وائل کے ایک شخص عبداللہ بن ارقط کے پاس چرنے کے لئے چھوڑرکھی تھیں ،

قَالَ أَبُو بَكْرٍ: فَخُذْ بِأَبِی أَنْتَ یَا رَسُولَ اللَّهِ إِحْدَى رَاحِلَتَیَّ هَاتَیْنِ ،قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:بِالثَّمَنِ،قَالَ: فَهِیَ لَكَ یَا رَسُولَ اللَّهِ، بِأَبِی أَنْتَ وَأُمِّی،قَالَ: لَا، وَلَكِنْ مَا الثَّمَنُ الَّذِی ابْتَعْتهَا بِهِ؟قَالَ:كَذَا وَكَذَا، وَكَانَ أَبُو بكر اشتراهما بثمانِ مائَةدِرْهَم من نَعَمِ بنی قُشَیر. فَأعْطى النبیَّ [صلى الله عَلَیْهِ وَسلم إِحْدَاهمَا بالثَّمنِ، وَهِی القَصْواء، قَالَتْ عَائِشَةُ: فَجَهَّزْنَاهُمَا أَحَثَّ الجِهَازِ، وَصَنَعْنَا لَهُمَا سُفْرَةً فِی جِرَابٍ

سیدناابوبکر رضی اللہ عنہ نے عرض کیامیرے ماں باپ آپ پرقربان ان دونوں اونٹنیوں میں سے ایک اونٹنی آپ لے لیجئے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا قیمت سے لوں گا،سیدناابوبکر رضی اللہ عنہ نے عرض کیااے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم ! یہ آپ ہی کااونٹ ہے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایایوں نہیں تم اس کی قیمت بتاؤکہ کتنے میں تم نے اس کوخریدا ہے؟انہوں نے قیمت عرض کی، سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ان دونوں سواریوں کوبنی قشیر کے مویشی میں سے آٹھ سودرہم میں خریداتھاچنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک اونٹنی چارسودرہم میں خریدلی جس کانام قصویٰ تھا،عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیاکہ پھرہم نے جلدی جلدی ان کے لئے تیاریاں شروع کردیں اورکچھ توشہ ایک تھیلے میں رکھ دیا۔[24]

اس اونٹنی کے دوسرے نام الْجَدْعَاءُاورالْعَضْبَاءَ بتائے جاتے ہیں ، اس کے کان کا کنارہ کٹاہواتھااور یہ نہایت تیزرفتارتھی اور دوڑ میں ہمیشہ آگے ہی رہتی تھی،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حجةالودع تک اس پرسفرفرماتے رہے،حجة الوداع کاخطبہ بھی اسی پربیٹھ کردیا تھا اور جب آخری وحی نازل ہوئی اس وقت بھی اسی پرسوارتھے ۔

قَالَتْ عَائِشَةُ: فَجَهَّزْنَاهُمَا أَحَثَّ الجِهَازِ، وَصَنَعْنَا لَهُمَا سُفْرَةً فِی جِرَابٍ ،فَقُلْتُ لِأَبِی بَكْرٍ:وَاللَّهِ مَا أَجِدُ شَیْئًا أَرْبِطُ بِهِ إِلَّا نِطَاقِی، قَالَ: فَشُقِّیهِ بِاثْنَیْنِ، فَارْبِطِیهِ: بِوَاحِدٍ السِّقَاءَ، وَبِالْآخَرِ السُّفْرَةَ، فَفَعَلْتُ، فَلِذَلِكَ سُمِّیَتْ ذَاتَ النِّطَاقَیْنِ

ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں پھر ہم نےجلدی جلدی ان کے لئے تیاریاں شروع کردیں اورسفرمیں کھانے کے لئے کچھ کھانا پکاکرچمڑے کے ایک تھیلے میں رکھ دیا، اسماء رضی اللہ عنہا بنت ابوبکرنے سیدنا ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ سے کہااللہ کی قسم!میرے پاس تھیلا باندھنے کے لئے سوائے میرے ازار بند کے اورکچھ نہیں ہے، سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایااس کے دوٹکڑے کرلواورایک ٹکڑے سے مشکیزہ اور تھیلے کامنہ باندھ دو،اسماء رضی اللہ عنہا نے ایساہی کیاایک ٹکڑے سے مشکیزہ اورتھیلے کامنہ بندکردیاور دوسرے ٹکڑے سے اپنے ازاربند کوباندھ لیا، اسی وجہ سے ان کالقب دوکمربندوالی ہوگیاپھررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اورسیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ اپنی اپنی سواریوں پرروانہ ہو گئے۔[25]

ایک روایت میں ہے اس وقت ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی عمرچودہ سال کی تھی۔

جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ مکرمہ سے روانہ ہوئے توآپ کی زبان مبارک پریہ کلمات تھے

الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِی خَلَقَنِی وَلَمْ أَكُ شَیْئًا، اللَّهُمَّ أَعْنِی عَلَى هَوْلِ الدُّنْیَا، وَبَوَائِقِ الدَّهْرِ، وَمَصَائِبِ اللَّیَالِی وَالْأَیَّامِ.اللَّهُمَّ اصْحَبْنِی فِی سَفَرِی.وَاخْلُفْنِی فِی أَهْلِی، وَبَارِكْ لِی فِیمَا رَزَقْتَنِی وَلَكَ فذلِّلنی.وَعَلَى صَالِحِ خُلُقِی فَقَوِّمِنِی، وَإِلَیْكَ رَبِّ فَحَبِّبْنِی، وَإِلَى النَّاسِ فَلَا تَكِلْنِی، رَبُّ الْمُسْتَضْعَفِینَ وَأَنْتَ رَبِّی أَعُوذُ بِوَجْهِكَ الْكَرِیمِ الذی أشرقت له السموات وَالْأَرْضُ، وَكُشِفَتْ بِهِ الظُّلُمَاتُ، وَصَلَحَ عَلَیْهِ أَمْرُ الْأَوَّلِینَ وَالْآخِرِینَ، أَنْ تُحِلَّ علیَّ غَضَبَكَ، وَتُنْزِلَ بِی سَخَطَكَ، أَعُوذُ بِكَ مِنْ زَوَالِ نِعْمَتِكَ، وَفَجْأَةِ نِقْمَتِكَ، وَتَحَوُّلِ عَافِیَتِكَ وَجَمِیعِ سَخَطِكَ.لَكَ العقبى عِنْدِی خَیْرَ مَا اسْتَطَعْتُ، لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِك

اےاللہ! تونے مجھے پیداکیاہے ،تیرے سوامیرے پاس دنیاکی کوئی چیزنہیں ہے ،میں ہول دنیا،زمانے کی حادثات اوردن رات کی تکالیف سے نجات حاصل کرنے کے لئے تیرے حکم سے تیری راہ میں ہجرت کررہاہوں تواس سفرمیں میرے ساتھ رہنا،مجھے میرے اہل وعیال میں پہنچادے،میرے رزق میں برکت دے ،مجھے تجھ پربھروسہ ہے،مجھے اسی نیکی پرقائم رکھ جس پرتونے مجھے پیداکیاہے،میں صرف تجھ ہی کوچاہتاہوں توبھی مجھے محبوب رکھ،تواپنے بندوں کوتکلیف نہیں دیتا،تومظلوموں کارب ہےمیرارب بھی توہی ہے ،میں تیرے نورعظیم وکریم کی پناہ چاہتاہوں جس سے زمین وآسمان روشن ہیں اورجس سے اندھیروں کاپردہ چاک ہواہے،میرے لئے جملہ اموراول وآخرکودرست فرمادے تاکہ تیرے کرم سے میری تکالیف دورہوجائیں ،میں زوال نعمت سے تیری پناہ چاہتاہوں ،میں تیرے غضب سے ڈرتاہوں اورحوادث عالم سے تیری پناہ چاہتاہوں تاکہ میں انہیں برداشت کرسکوں ،مجھ سے جوکچھ ہوسکاوہ بھی تیرے ہی کرم سے ہوسکا،جوزوروقوت کسی کوحاصل ہے وہ تیرے ہی کرم سے ہے۔[26]

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کومکہ مکرمہ سے نکلنے کابڑارنج تھاجب آپ مجبورہوکرشہرسے باہرنکلے تواپناچہرہ مبارک مکہ مکرمہ کی طرف کرکے فرمایااے مکہ!

وَاللَّهِ إِنَّكِ لَخَیْرُ أَرْضِ اللهِ، وَأَحَبُّ أَرْضِ اللهِ إِلَى اللهِ، وَلَوْلاَ أَنِّی أُخْرِجْتُ مِنْكِ مَا خَرَجْتُ

اللہ کی قسم ! تواللہ کی ساری زمین سے بہترہے اوراللہ کی ساری زمین سے سب سے زیادہ محبوب ہے،اگرمشرکوں نے مجھے نہ نکالاہوتاتومیں تجھے چھوڑکرکبھی نہ نکلتا۔[27]

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ:قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ لِمَكَّةَ: مَا أَطْیَبَكِ مِنْ بَلَدٍ، وَأَحَبَّكِ إِلَیَّ، وَلَوْلاَ أَنَّ قَوْمِی أَخْرَجُونِی مِنْكِ مَا سَكَنْتُ غَیْرَكِ

اورعبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ مکرمہ سے مخاطب ہوکرفرمایاتوکیااچھاشہرہے اورمجھ کوسب سے زیادہ پیاراہےاگرمیری قوم مجھے نہ نکالتی تومیں تیرے سواکہیں نہ رہتا۔[28]

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس رنج کوختم کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے پچھلی قوموں کاحوالہ دے کرتسلی فرمائی

وَكَاَیِّنْ مِّنْ قَرْیَةٍ هِىَ اَشَدُّ قُوَّةً مِّنْ قَرْیَتِكَ الَّتِیْٓ اَخْرَجَتْكَ۝۰ۚ اَهْلَكْنٰهُمْ فَلَا نَاصِرَ لَهُمْ۝۱۳   [29]

ترجمہ:اے نبی!کتنی ہی بستیاں ایسی گزرچکی ہیں جوتمہاری اس بستی سے بہت زیادہ زورآورتھیں جس نے تمہیں نکال دیاہے ، انہیں ہم نے اس طرح ہلاک کردیاکہ کوئی ان کا بچانے والانہ تھا۔

اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! اہل مکہ آپ کواورآپ کے جانثاروں کواس مقدس شہرسے نکال کراپنی کوئی بڑی کامیابی سمجھ رہے ہیں حالانکہ درحقیقت انہوں نے اپنی شامت کوآوازدی ہے،کتنی ہی بستیاں اسی گزرچکی ہیں جواس بستی سے زیادہ زورآورتھیں جس نے آپ کوہجرت کرنے پرمجبور کر دیا ہے،مگرجب ہماری دی ہوئی ڈھیل کاوقت ختم ہواتو اپنا عذاب نازل کرکےانہیں عبرت کانشان بنادیا،اسی طرح بہت جلدانہیں بھی حقیقت معلوم ہوجائے گی مگراس وقت انہیں کوئی بچانے والابھی نہ ہوگا۔

اور مکہ معظمہ سے ساڑھے چارکلومیڑجنوب میں غارثورمیں جاکر چھپ گئے

فَكَمَنَا فِیهِ ثَلاَثَ لَیَالٍ، یَبِیتُ عِنْدَهُمَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِی بَكْرٍ، وَهُوَ غُلاَمٌ شَابٌّ، ثَقِفٌ لَقِنٌ، فَیُدْلِجُ مِنْ عِنْدِهِمَا بِسَحَرٍ، فَیُصْبِحُ مَعَ قُرَیْشٍ بِمَكَّةَ كَبَائِتٍ، فَلاَ یَسْمَعُ أَمْرًا، یُكْتَادَانِ بِهِ إِلَّا وَعَاهُ، حَتَّى یَأْتِیَهُمَا بِخَبَرِ ذَلِكَ حِینَ یَخْتَلِطُ الظَّلاَمُ،وَیَرْعَى عَلَیْهِمَا عَامِرُ بْنُ فُهَیْرَةَ، مَوْلَى أَبِی بَكْرٍ مِنْحَةً مِنْ غَنَمٍ، فَیُرِیحُهَا عَلَیْهِمَا حِینَ تَذْهَبُ سَاعَةٌ مِنَ العِشَاءِ، فَیَبِیتَانِ فِی رِسْلٍ، وَهُوَ لَبَنُ مِنْحَتِهِمَا وَرَضِیفِهِمَا، حَتَّى یَنْعِقَ بِهَا عَامِرُ بْنُ فُهَیْرَةَ بِغَلَسٍ، یَفْعَلُ ذَلِكَ فِی كُلِّ لَیْلَةٍ مِنْ تِلْكَ اللَّیَالِی الثَّلاَثِ

سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ تین رات اسی غارمیں رہے،عبداللہ رضی اللہ عنہ بن ابی بکر بھی رات غارہی میں گزارتے تھے اوروہ اس زمانہ میں ایک سمجھ داراورذہین نوجوان تھے ،صبح کے وقت وہاں سے چلے جاتے تھے اورمکہ مکرمہ میں قریش کے ساتھ اس طرح صبح کرتے تھے گویارات کوبھی وہیں رہے ہوں ، پس جوبات ان دونوں کے خلاف وہ مکہ میں سنتے اس کومحفوظ کر لیتے تھے یہاں تک کہ اندھیراہوجانے کے بعدغارمیں آکروہ پوری کاروائی ان دونوں کوپہنچایاکرتے تھے، سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے غلام عامر رضی اللہ عنہ بن فہیرہ غارکے قریب بکریاں چرایاکرتے تھے جب کچھ رات گزرجاتی تووہ ان بکریوں کوان دونوں کے پاس لے جاتے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ رات کوان ہی بکریوں کا دودھ پی لیاکرتے تھے، صبح کو اندھیرے ہی میں عامر رضی اللہ عنہ بکریوں کوہانک کرلے جایاکرتے تھے تینوں راتوں میں انہوں نے ایساہی کیا، ان کی اس بات سے کوئی دوسرا چرواہا واقف نہ تھا

وَاسْتَأْجَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَأَبُو بَكْرٍ رَجُلًا مِنْ بَنِی الدِّیلِ، وَهُوَ مِنْ بَنِی عَبْدِ بْنِ عَدِیٍّ، هَادِیَا خِرِّیتًا، وَالخِرِّیتُ المَاهِرُ بِالهِدَایَةِ، قَدْ غَمَسَ حِلْفًا فِی آلِ العَاصِ بْنِ وَائِلٍ السَّهْمِیِّ، وَهُوَ عَلَى دِینِ كُفَّارِ قُرَیْشٍ، فَأَمِنَاهُ فَدَفَعَا إِلَیْهِ رَاحِلَتَیْهِمَا، وَوَاعَدَاهُ غَارَ ثَوْرٍ بَعْدَ ثَلاَثِ لَیَالٍ ،بِرَاحِلَتَیْهِمَا صُبْحَ ثَلاَثٍ، وَانْطَلَقَ مَعَهُمَا عَامِرُ بْنُ فُهَیْرَةَ، وَالدَّلِیلُ، فَأَخَذَ بِهِمْ طَرِیقَ السَّوَاحِلِ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اورسیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے قبیلہ بنی وایل میں سے ایک شخص کواپنی اجرت پرملازم رکھ لیاتھا،جس کانام عبداللہ بن اریقط لیثی تھا،یہ شخص عاص بن وائل سہمی کاحلیف تھااورابھی تک کفار قریش کے دین پرتھااور کٹھن اورناواقف راستوں کوخوب جانتاتھا ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اورسیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اسے اپنا امین بنالیااوراجرت طے کرکے (غار ثورپہنچ کر) دونوں اونٹنیاں اس کے حوالہ کردیں اوراس سے تین رات بعدبوقت صبح اونٹنیاں لانے کاوعدہ لے لیا، تیسرے روزوہ اونٹنیاں لے کرحاضرہوگیااوریہ دونوں حضرات اوران کے ساتھ عامر رضی اللہ عنہ بن فہیرہ اور رہبر چلے اور ساحل کارخ اختیارکیا۔[30]

عَنِ ابْنِ أَبِی مُلَیْكَةَ: أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ لَمَّا خَرَجَ هُوَ وَأَبُو بَكْرٍ إِلَى ثَوْرٍ، فَجَعَلَ أَبُو بَكْرٍ یَكُونُ أَمَامَ النَّبِیِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مَرَّةً، وَخَلْفَهُ مَرَّةً، فَسَأَلَهُ النَّبِیُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عَنْ ذَلِكَ فَقَالَ: إِذَا كُنْتُ خَلْفَكَ خَشِیتُ أَنْ تُؤْتَى مِنْ أَمَامِكَ، وَإِذَا كُنْتُ أَمَامِكَ خَشِیتُ أَنْ تُؤْتَى مِنْ خَلْفِكَ،فَسَأَلَهُ النَّبیّ صلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عَنْ ذَلِكَ فَقَالَ: إِذَا كُنْتُ خَلْفَكَ خَشِیتُ أَنْ تُؤْتَى مِنْ أَمَامِكَ، وَإِذَا كُنْتُ أَمَامِكَ خَشِیتُ أَنْ تُؤْتَى مِنْ خَلْفِكَ

ابن ابوملیکہ سے مروی ہےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے ہمراہ غارثورکی طرف چلے توراستہ میں سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دائیں طرف اورکبھی بائیں طرف ،کبھی آگے اورکبھی پیچھے چلتے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے اس کاسبب دریافت فرمایاتوعرض کیااے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ پرخطرے کے پیش نظر کہ کہیں آگے دشمن نہ ہومیں آپ کے آگے ہوجاتاہوں اوریہ سمجھ کرکہ پیچھے سے دشمن نہ آجائے میں آپ کے پیچھے چلنے لگتاہوں اورایسے ہی کبھی آپ کے دائیں اورکبھی بائیں ہوجاتاہوں ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااے ابوبکر رضی اللہ عنہ ! اگرکوئی(تکلیف)آئے توکیاتم یہ چاہتے ہوکہ میری بجائے تم اس سے دوچارہو؟سیدناابوبکر رضی اللہ عنہ نے عرض کیابے شک!قسم ہے اس کی جس نے آپ کوحق کے ساتھ مبعوث فرمایاہے۔[31]

حَتَّى إِذَا انْتَهَى إِلَى الْغَارِ مِنْ ثَوْرٍ قَالَ أَبُو بَكْرٍ: كَمَا أَنْتَ حَتَّى أُدْخِلَ یَدِی فَأُحِسَّهُ وَأَقُصَّهُ فَإِنْ كَانَتْ فِیهِ دَابَّةٌ أَصَابَتْنِی قَبْلَكَ. قَالَ نَافِعٌ: فَبَلَغَنِی أَنَّهُ كَانَ فِی الْغَارِ جُحْرٌ فَأَلْقَمَ أَبُو بَكْرٍ رِجْلَهُ ذَلِكَ الْجُحْرَ تَخَوُّفًا أَنْ یَخْرُجَ مِنْهُ دَابَّةٌ أَوْ شَیْءٌ یُؤْذِی رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ،

یہاں تک کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غارثورکے دہانےپرپہنچے تو ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اس سے قبل کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس میں داخل ہوتے پہلے اپناپاؤں ٹخنے تک اس کے اندرڈال کردیکھاکہ اس کے اندرکوئی درندہ یاکوئی موذی جانورنہ ہو،پھراس غارمیں خودداخل ہوئے اوروہاں دونوں طرف اس طرح صفائی کی کہ ایک تنکاکسی طرف نہ چھوڑا،پھراس کے بعدعرض کیاکہ آپ اندتشریف لے آئیں ،جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی غارکے اندرتشریف لے گئے توابوبکر رضی اللہ عنہ نے ایک دیوارمیں سوراخ دیکھاتواس پراپناپاؤں رکھ دیاتاکہ وہاں سے کوئی کیڑاکانٹایعنی سانپ ،بچھووغیرہ نکل کرآپ کوتکلیف نہ پہنچائے۔

اسی مستندروایت میں ہے کہ سیدنا ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کواسی سوراخ سے بچھونے ڈنک ماراتھالیکن وہ صبرکیے رہے تاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے آرام میں خلل واقع نہ ہو۔[32]

غاروالے دن خیروعافیت سے گزرے البتہ

عَنْ جُنْدُبِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ:كَانَ أَبُو بَكْرٍ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فِی الْغَارِ، فَأَصَابَ یَدَهُ حَجَرٌ فَقَالَ: إِنْ أَنْتِ إِلَّا أصْبع دمیت * وَفِی سَبِیل الله مَا لقِیت

جندب بن عبداللہ سے مروی ہےسیدناابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ تھے کہ ایک پتھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دست مبارک پرآلگاجس سے انگلی زخمی ہوگئی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااے انگلی!کوئی بڑی تکلیف نہیں آئی صرف توزخمی ہوئی ہے اورپھریہ تکلیف توتجھے اللہ کے راستے میں پہنچی ہے۔[33]

مخالفین اسلام اس ہجرت کوفرارکانام دیتے ہیں حالانکہ اگریہ انسانیت سوزمظالم سے فرارہی تھاتواس کے لئے مدینہ منورہ کے بجائے حبشہ بہترین مقام تھاجہاں مسلمان پہلے ہجرت کرچکے تھے اوروہاں کے حکمران نجاشی نے اراکین دربارکی مخالفت کے باوجودمسلمانوں کی پشت پناہی کی تھی،اگرباقی ماندہ مسلمان بھی وہاں ہجرت کرجاتے توآزادی کے ساتھ اپنے مذہبی عقائدکے مطابق رسوم عبادت بجالاسکتے تھے اورکہہ سکتے تھے کہ اب ہم پراس سے زیادہ کی ذمہ داری نہیں ہے،مگرحقیقت یہ ہے کہ فراروہ جماعت کرتی ہے جس کے سامنے کوئی عظیم مقصدنہ ہویاجس میں کوئی عملی قدم اٹھانے کی ہمت وطاقت نہیں ہوتی جس کانتیجہ رہبانیت یاخودکشی ہوتی ہے،جبکہ کلمہ لاالٰہ الااللہ  کامقصدہی فلاح دنیااورنجات آخرت بتلایاگیاہے،اگریہ فرارہوتاتواس کے نتائج وہ نہ ہوتے جوپندرہ سولہ سال میں جزیرہ العرب کے مسلمان ہونے کی صورت میں ظاہر ہوئے اور آج بھی تاریخ کے اوراق اورمسلمانوں کی زندگی یہ شہادت دے رہی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت ایک بلندمقصدکے لئے تھی ،اگرآپ صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت نہ فرماتے یا مقام ہجرت کوئی دوسرااختیارفرماتے تواس قدرجلدچارلاکھ مربع میل کارقبہ اسلام کاحلقہ بگوش نہ ہوتابلکہ ہجرت ایک سوچاسمجھاانقلابی قدم تھاجس کے نتائج جلدہی نظرآنے لگے،یہ دراصل اسلامی تمدن کی بنیادتھا،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ ہجرت کرنے والے مہاجرین محض اپنے لئے سکون وآرام تلاش کرنے والے لوگ نہ تھے اورنہ تبدیلی وطن کااقدام حصول معاش یاکسی مادی مفادکے لئے تھابلکہ انہوں نے ایک عظیم مقصدکے حصول کے لئے اپنے محبوب وطن جوجس میں بیت اللہ واقع تھاخیربادکہا اورہجرت کے بعدوہ لوگ بیت اللہ کوفراموش کرکے اپنے لئے ٹھکانہ حاصل کرنے اوراقتصادی عروج کے لئے راہیں تلاش کرنے میں گم نہیں ہوگئے تھے بلکہ انہوں نے پہلاکام یہ کیاکہ اللہ کاپیغام دنیامیں پہنچانے کے لئے ایک سادہ سا مرکزقائم کیاجس کی پاکیزہ شعاعیں دنیامیں پھیل گئیں ۔

قریش کاغارتک پہنچنا :

قریش کوجیسے ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت کاعلم ہواانہوں نے آپ کی تلاش میں ایڑی چوٹی کازورلگایاکہ شکارکہیں ہاتھوں سے نکل نہ جائےاورہرطرف سے تلاش کرتے کرتے آخر غارثورکے منہ تک پہنچ گئے،

أَبُو بَكْرٍ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: كُنْتُ مَعَ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فِی الغَارِ فَرَأَیْتُ آثَارَ المُشْرِكِینَ ، قُلْتُ: یَا رَسُولَ اللَّهِ، لَوْ أَنَّ أَحَدَهُمْ رَفَعَ قَدَمَهُ رَآنَا،قَالَ:مَا ظَنُّكَ بِاثْنَیْنِ اللَّهُ ثَالِثُهُمَا

سیدناابوبکر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے میں غارثورمیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا،میں نے اپنے سرکے اوپرتلاش کرنے والوں کے قدموں کودیکھ کرکہااے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم ! اگران میں سے کسی نے ذرابھی قدم اٹھائے تووہ ہمیں غار کے اندردیکھ لے گا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااے ابوبکر رضی اللہ عنہ !’’آپ کاان دوآدمیوں کے بارے میں کیاخیال ہے جن کے ساتھ تیسرااللہ تعالیٰ ہے۔‘‘یعنی آپ غم وفکرنہ کریں بے شک اللہ تعالیٰ ہمارے ساتھ ہے۔[34]

ایک اورروایت میں اس طرح ہے

فَعِنْدَمَا رَأَى أَبُو بَكْرٍ رَضِیَ اللهُ عَنْهُ الْقَافَةَ اشْتَدّ حُزْنُهُ عَلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَقَالَ إنْ قُتِلْت فَإِنّمَا، أَنَا رَجُلٌ وَاحِدٌ وَإِنْ قُتِلْت أَنْت هَلَكَتْ الْأُمّةُ فَعِنْدَهَا قَالَ لَهُ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:لَا تَحْزَنْ إنّ اللهَ مَعَنَا

جب سیدنا ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ نے تلاش کرنے والوں کو دیکھا توان کورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وجہ سے سخت غم وفکر ہوا اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیااے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم !اگرمیں قتل ہواتومیری موت ایک آدمی کی موت ہے لیکن اگراللہ نہ کرے آپ قتل ہوگئے توایک پوری قوم ہلاک ہوجائے گی، یہ سن کررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااے ابوبکر رضی اللہ عنہ ! گھبراونہیں بلاشبہ اللہ تعالیٰ ہمارے ساتھ ہے۔[35]

عَنِ الْحَسَنِ الْبَصْرِیِّ، قَالَ:وَكَانَ النَّبِیُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَائِمًا یُصَلِّی وَأَبُو بَكْرٍ یَرْتَقِبُ

حسن بصری کی روایت میں ہے اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نمازپڑھ رہے تھے اورسیدناابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ پہرہ دے رہے تھے۔[36]

اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ان الفاظ کواپنی کتاب میں نازل فرمایا

اِلَّا تَنْصُرُوْهُ فَقَدْ نَــصَرَهُ اللهُ اِذْ اَخْرَجَهُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا ثَانِیَ اثْـنَیْنِ اِذْ هُمَا فِی الْغَارِ اِذْ یَقُوْلُ لِصَاحِبِهٖ لَا تَحْزَنْ اِنَّ اللهَ مَعَنَا۝۰ۚ فَاَنْزَلَ اللهُ سَكِیْـنَتَهٗ عَلَیْهِ وَاَیَّدَهٗ بِجُنُوْدٍ لَّمْ تَرَوْهَا وَجَعَلَ كَلِمَةَ الَّذِیْنَ كَفَرُوا السُّفْلٰى۝۰ۭ وَكَلِمَةُ اللهِ هِىَ الْعُلْیَا۝۰ۭ وَاللهُ عَزِیْزٌ حَكِیْمٌ۝۴۰   [37]

ترجمہ: تم نے اگر نبی کی مدد نہ کی تو کچھ پروا نہیں ، اللہ اس کی مدد اس وقت کر چکا ہے جب کافروں نے اسے نکال دیا تھا جب وہ صرف دو میں کا دوسرا تھا جب وہ دونوں غار میں تھے، جب وہ اپنے ساتھی(سیدناابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ ) سے کہہ رہا تھا کہ غم نہ کر اللہ ہمارے ساتھ ہے،اس وقت اللہ نے اس پر اپنی طرف سے سکون ِقلب نازل کیا اور اس کی مدد ایسے لشکروں سے کی جو تم کو نظر نہ آتے تھے اور کافروں کا بول نیچا کر دیا اور اللہ کا بول تو اونچا ہی ہے، اللہ زبر دست اور دانا و بینا ہے۔

سیدناابوبکر رضی اللہ عنہ مطمئن ہوگئے ، جب قریش آپ صلی اللہ علیہ وسلم اورسیدناابوبکر رضی اللہ عنہ کی تلاش میں بری طرح ناکام ہوگئے توانہوں نے ان دونوں کوپکڑلانے یاقتل کرنے والے کے لئے بطور انعام سو سو اونٹ دینے کااعلان کردیا،اتنے بڑے لالچ میں لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تلاش کرنے کی انتہائی کوشش کی مگراللہ تعالیٰ کی تدبیر سب پرغالب ہے لیکن اکثرلوگ نہیں جانتے ۔

عَنْ عَائِشَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهَا:وَوَاعَدَاهُ غَارَ ثَوْرٍ بَعْدَ ثَلاَثِ لَیَالٍ

ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے وعدہ کے مطابق عبداللہ بن یقط تیسری رات کے آخری حصہ میں دونوں اونٹنیاں لے کرغارثورپرحاضرہوگیا۔[38]

موسیٰ بن عقبہ نے مغازی میں لکھاہے

وَأَنَّ خُرُوجَهُ هو وأبو بكر إلى الغار وكان لَیْلًا

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اورسیدناابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ دونوں نے غارثورمیں ایک رات قیام کیا۔[39]

مدینہ کاراستہ :

قدیم زمانہ میں مدینہ منورہ اورمکہ مکرمہ کے درمیان چارمختلف راستوں سے سفرکیاجاتاتھاجوقافلہ جس راستہ کوچاہتااختیارکرتا،ایک راستہ طریق السُّلْطَانِیِّ تھایہ سفرکے لئے نہایت موزوں تھااورجابجاپانی بھی دستیاب تھا۔ایک راستہ طریق الفرعی تھاجونقرالغارکے بعدرابغ سے جاملتاتھا،ایک راستہ طریق الْغَابِرُتھااگرچہ یہ دشوار گزار تھا اورجبل غایر سے شمال کی جانب مدینہ منورہ کاراستہ نسبتاًقریب تھا،ایک راستہ طریق الْمَشْرِقِیِّ تھامگررہبرنے مدینہ منورہ کے ان عام راستوں کو چھوڑ کر سمندرکا ساحلی راستہ اختیار کیا،ایک روایت میں ہے

فَأَجَازَ بِهِمَا فِی أَسْفَلِ مَكَّةَ، ثُمَّ مَضَى بِهِمَا حَتَّى حَاذَى بِهِمَا السَّاحِلَ، أَسْفَلَ مِنْ عُسْفَانَ، ثُمَّ اسْتَجَازَ بِهِمَا حَتَّى عَارَضَ الطَّرِیقَ بَعْدَ مَا جَاوَزَ قَدِیدًا، ثُمَّ سَلَكَ الْخَرَّارَ، ثُمَّ أَجَازَ عَلَى ثَنِیَّةِ الْمُرَّةِ،ثُمَّ أَخَذَ عَلَى طَرِیقٍ یُقَالُ لَهَا الْمُدْلَجَةِ بَیْنَ طَرِیقِ عمق وَطَرِیقِ الرَّوْحَاءِ،حَتَّى تَوَافَوْا طَرِیق الْعرجِ، وَسَلَكَ مَاءً یُقَالُ لَهُ الْغَابِرُ عَنْ یَمِینِ رَكُوبَةَ، حَتَّى یَطْلُعَ عَلَى بَطْنِ رِئْمٍ، ثُمَّ جَاءَ حَتَّى قَدِمَ الْمَدِینَةِ عَلَى بَنِی عَمْرِو بْنِ عَوْفٍ قِبَلَ الْقَائِلَةِ

وہ مکہ مکرمہ کے زیرین سے ان کونکال کرلے گیاپھروہ ان کوعسفان کے اسفل میں ساحل سمندرکے مقابل لے آیایہاں سے بڑھ کرقدیدگزرجانے کے بعداب وہ پھران صاحبوں کوعام راستے کے قریب لے آیا، پھر خرار ہوتا ہوا مرہ کے درے پرسے گزرا،یہاں سے اس نے عمق اورروحاء کے راستوں کے درمیان والہ مدلحہ والاراستہ اختیارکیا ، اس کے بعداس نے عرج کاراستہ پکڑااورکوبہ کے داہنے جانب غابرنام چشمہ پرسے گزرکربطن رئم کے سامنے سے ہوتاہوادوپہرسے قبل مدینہ میں بنوعمروبن عوف کے مکانات کوآگیا۔[40]

أَسْرَیْنَا لَیْلَتَنَا وَمِنَ الغَدِ، حَتَّى قَامَ قَائِمُ الظَّهِیرَةِ وَخَلاَ الطَّرِیقُ لاَ یَمُرُّ فِیهِ أَحَدٌ، فَرُفِعَتْ لَنَا صَخْرَةٌ طَوِیلَةٌ لَهَا ظِلٌّ، لَمْ تَأْتِ عَلَیْهِ الشَّمْسُ، فَنَزَلْنَا عِنْدَهُ، وَسَوَّیْتُ لِلنَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مَكَانًا بِیَدِی یَنَامُ عَلَیْهِ، وَبَسَطْتُ فِیهِ فَرْوَةً، وَقُلْتُ: نَمْ یَا رَسُولَ اللَّهِ وَأَنَا أَنْفُضُ لَكَ مَا حَوْلَكَ، فَنَامَ وَخَرَجْتُ أَنْفُضُ مَا حَوْلَهُ

براء رضی اللہ عنہ بن عازب کے واسطے سے سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے جب ہم مکہ مکرمہ سے روانہ ہوئے توساری رات اوردن چلتے رہے ،لیکن جب دوپہر کاوقت ہوااورراستہ بالکل سنسان پڑگیاکہ کوئی بھی آدمی گزرتاہوادکھائی نہیں دیتاتھاتوہمیں ایک لمبی چٹان دکھائی دی اس کے سائے میں دھوپ نہیں تھی ہم وہاں اترگئے اورمیں نے خودنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے ایک جگہ اپنے ہاتھ سے ٹھیک کردی اورایک چادروہاں بچھادی، اورپھررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیااے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم !آپ یہاں آرام فرمائیں میں نگرانی کروں گا،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سوگئے اورمیں چاروں طرف حالات دیکھنے کے لئے نکلا،

البَرَاءَ بْنَ عَازِبٍ، یَقُولُ: جَاءَ أَبُو بَكْرٍ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، فَإِذَا أَنَا بِرَاعٍ مُقْبِلٍ بِغَنَمِهِ إِلَى الصَّخْرَةِ، یُرِیدُ مِنْهَا مِثْلَ الَّذِی أَرَدْنَا،فَقُلْتُ لَهُ: لِمَنْ أَنْتَ یَا غُلاَمُ، فَقَالَ: لِرَجُلٍ مِنْ أَهْلِ المَدِینَةِ، أَوْ مَكَّةَ، قُلْتُ: أَفِی غَنَمِكَ لَبَنٌ؟قَالَ: نَعَمْ،قُلْتُ: أَفَتَحْلُبُ،قَالَ: نَعَمْ،فَأَخَذَ شَاةً، فَقُلْتُ: انْفُضِ الضَّرْعَ مِنَ التُّرَابِ وَالشَّعَرِ وَالقَذَى، فَحَلَبَ فِی قَعْبٍ كُثْبَةً مِنْ لَبَنٍ، وَمَعِی إِدَاوَةٌ حَمَلْتُهَا لِلنَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَرْتَوِی مِنْهَا، یَشْرَبُ وَیَتَوَضَّأ

اتفاق سے مجھے ایک چرواہاملاوہ بھی اپنی بکریوں کے ریوڑکواسی چٹان کے سائے میں لاناچاہتاتھاجس کے نیچے ہم نے پڑاؤڈالاتھا،میں نے اس سے پوچھاتم کس کے غلام ہو؟اس نے بتایاکہ مدینہ یا(راوی نے کہاکہ)مکہ کے فلاں شخص کا، میں نے اس سے پوچھاکیا تیری بکریوں سے دودھ مل سکتا ہے؟اس نے کہاہاں ،میں نے کہاکیاہمارے لئے تو دودھ نکال سکتاہے ؟اس نے کہاکہ ہاں ،چنانچہ وہ ایک بکری پکڑکرلایامیں نے اس سے کہاکہ پہلے تھن کومٹی ،بال اور دوسری گندگیوں سے صاف کرلے،اس نے لکڑی کے ایک پیالے میں دودھ نکالا،میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے ایک برتن اپنے ساتھ رکھ لیاتھاآپ صلی اللہ علیہ وسلم اس سے پانی پیاکرتے تھے اوروضوبھی کرلیتے،

فَأَتَیْتُ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَكَرِهْتُ أَنْ أُوقِظَهُ، فَوَافَقْتُهُ حِینَ اسْتَیْقَظَ، فَصَبَبْتُ مِنَ المَاءِ عَلَى اللَّبَنِ حَتَّى بَرَدَ أَسْفَلُهُ،فَقُلْتُ: اشْرَبْ یَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: فَشَرِبَ حَتَّى رَضِیتُ، ثُمَّ قَالَ:أَلَمْ یَأْنِ لِلرَّحِیلِ،قُلْتُ: بَلَى، قَالَ: فَارْتَحَلْنَا بَعْدَمَا مَالَتِ الشَّمْسُ، وَاتَّبَعَنَا سُرَاقَةُ بْنُ مَالِكٍ؟

پھرمیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا(آپ صلی اللہ علیہ وسلم سورہے تھے)میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کوجگاناپسندنہیں کرتاتھالیکن بعدمیں جب میں آیاتوآپ صلی اللہ علیہ وسلم بیدارہوچکے تھے ،میں نے پہلے دودھ کے برتن پرپانی بہایاجب اس کے نیچے کاحصہ ٹھنڈاہوگیاتومیں نے عرض کیا اے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم ! دودھ نوش فرمائیں ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیرہوکرپیاجس سے مجھے بڑی خوشی ہوئی،پھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکیاابھی کوچ کرنے کاوقت نہیں آیا،میں نے عرض کیاکہ آگیاہے،جب سورج ڈھل گیاتوہم نے کوچ کیا بعدمیں سراقہ رضی اللہ عنہ بن مالک مدلجی ہمارا پیچھا کرتا ہوا یہیں پہنچا۔[41]

أَنَّ أَبَا بَكْرٍ الصِّدِّیقَ كَانَ رَدِیفَ النَّبِیِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بَیْنَ مَكَّةَ وَالْمَدِینَةِ. وَكَانَ أَبُو بَكْرٍ یَخْتَلِفُ إِلَى الشَّامِ فَكَانَ یُعْرَفَ. وَكَانَ النَّبِیُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ لا یُعْرَفُ، فَكَانُوا یَقُولُونَ: یَا أَبَا بَكْرٍ مَنْ هَذَا الْغُلامُ بَیْنَ یَدَیْكَ؟فَقَالَ: هَذَا یَهْدِینِی السَّبِیلَ

اس جگہ سے پھر سفرشروع ہوامکہ مکرمہ اورمدینہ منورہ کے درمیان سفرہجرت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سواری پرآگے تشریف فرماتھے اورسیدناابوبکر رضی اللہ عنہ آپ کے پیچھے بیٹھے ہوئے تھے، سیدناابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ دیکھنے سے بوڑھے لگتے تھے اورلوگ بھی انہیں پہچانتے تھے جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جوان لگتے تھے اورانہیں کوئی پہچانتا نہ تھا،قریش نے جولوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تلاش کے لئے روانہ کیے تھے وہ جب ان کے قریب ہوتے توسیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ سے پوچھتے کہ یہ تمہارے آگے کون بیٹھاہواہےتو سیدناابوبکر رضی اللہ عنہ بڑا خوبصورت جواب دیتے یہ شخص مجھے(رشدوہدایت کا) راستہ بتاتاہے اوروہ لوگ راہ سفرسمجھ کر واپس لوٹ جاتے۔[42]

[1] ابن ہشام۴۸۲؍۱،الروض الانف ۱۲۴؍۴، عیون الآثر ۲۰۵؍۱،ابن سعد۱۷۶؍۱، زادالمعاد ۴۵؍۳،دلائل النبوة لأبی نعیم الأصبهانی ۲۰۰؍۱، دلائل النبوة للبیہقی۴۶۷؍۲،سیرة الحلبیة۳۵؍۲

[2] الانفال ۳۰

[3]الإسراء: 80

[4] مسنداحمد۱۹۴۸

[5] الإسراء: 80

[6]ابن سعد۴۶؍۳،زادالمعاد۴۶؍۳،ابن ہشام۴۸۳؍۱

[7] ابن سعد۴۶؍۳

[8] الانفال۳۰

[9] الطور ۳۰

[10] ابن ہشام۴۸۲؍۱،الروض الانف۱۲۵؍۴،عیون الآثر۲۰۶؍۱،شرف المصطفی۳۵۳؍۳،دلائل النبوة لأبی نعیم الأصبهانی۲۰۰؍۱

[11] ابن ہشام۴۸۴؍۱،الروض الانف۱۲۶؍۴،عیون الآثر۲۰۶؍۱،تاریخ طبری ۳۷۲؍۲، البدایة والنہایة ۲۱۶؍۳، السیرة النبویة لابن کثیر۲۲۹؍۲

[12] یٰسین ۹

[13] الروض الانف۱۲۶؍۴

[14] ابن سعد۱۷۷؍۱

[15] ابن سعد ۱۷۷؍۱، دلائل النبوة للبیہقی۴۸۱؍۲،دلائل النبوة لابی نعیم۳۲۵؍۱

[16] سیرت النبی ۲۷۲؍۱

[17] مسنداحمد۳۲۵۱

[18] نثل النبال بمعجم الرجال۴۷۷؍۲

[19] سیرت النبی ۷۶۶؍۳

[20]میزان الاعتدال ۳۰۷؍۳

[21] مسند أبی یعلى۴۶،مجمع الزوائد ومنبع الفوائد ۹۹۰۶

[22] تاریخ طبری۳۷۵؍۲

[23]الإسراء: 80

[24] صحیح بخاری کتاب مناقب الانصاربَابُ هِجْرَةِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَأَصْحَابِهِ إِلَى المَدِینَةِ۳۹۰۵، ابن ہشام۹۲؍۲،ابن سعد ۱۲۹؍۳،الروض الانف ۱۲۸؍۴،عیون الآثر ۲۰۹؍۱،تاریخ طبری ۳۷۷؍۲

[25] صحیح بخاری کتاب مناقب الانصاربَابُ هِجْرَةِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَأَصْحَابِهِ إِلَى المَدِینَةِ۳۹۰۷،۳۹۰۵، وکتاب الجہادبَابُ حَمْلِ الزَّادِ فِی الغَزْوِ ۲۹۷۹، مسنداحمد۲۵۶۲۶

[26] البدایة والنہایة۲۱۹؍۳

[27] مسنداحمد۱۸۷۱۵،سنن الدارمی ۲۵۵۲،السنن الکبری للنسائی ۴۲۳۸،صحیح ابن حبان ۳۷۰۸،المستدرک حاکم ۴۲۷۰،جامع ترمذی ابواب المناقب بَابٌ فِی فَضْلِ مَكَّةَ۳۹۲۵،سنن ابن ماجہ کتاب المناسک بَابُ فَضْلِ مَكَّةَ ۳۱۰۹،البدایة والنہایة۲۵۱؍۳

[28] جامع ترمذی ابواب المناقب بَابٌ فِی فَضْلِ مَكَّةَ۳۹۲۶

[29] محمد۱۳

[30] صحیح بخاری کتاب مناقب الانصاربَابُ هِجْرَةِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَأَصْحَابِهِ إِلَى المَدِینَةِ۳۹۰۵

[31] البدایة والنہایة۱۷۶؍۳

[32] البدایة والنہایة۲۲۰؍۳

[33] السیرة النبوة لابن کثیر۲۳۸؍۲

[34] صحیح بخاری تفسیرالقرآن سورة التوبةبَابُ قَوْلِهِ ثَانِیَ اثْنَیْنِ إِذْ هُمَا فِی الغَارِ إِذْ یَقُولُ لِصَاحِبِهِ: لاَ تَحْزَنْ إِنَّ اللَّهَ مَعَنَا۴۶۶۳

[35] الروض الانف۱۳۵؍۴، المواھب اللدینہ۱۷۴؍۱

[36] السیرة النبوة لابن کثیر۲۴۰؍۲

[37] التوبة ۴۰

[38] صحیح بخاری کتاب الاجارة بَابُ اسْتِئْجَارِ المُشْرِكِینَ عِنْدَ الضَّرُورَةِ، أَوْ: إِذَا لَمْ یُوجَدْ أَهْلُ الإِسْلاَمِ ۲۲۶۳ ،۳۹۰۵،السنن الکبری للبیہقی۱۱۶۴۳،شرح السنة للبغوی ۳۷۶۳،عیون الآثر۲۱۳؍۱،البدایة والنہایة ۲۲۶؍۳

[39] البدایة والنہایة ۲۲۴؍۳

[40] تاریخ طبری۳۷۷؍۲

[41] صحیح بخاری كِتَابُ المَنَاقِبِ بَابُ عَلاَمَاتِ النُّبُوَّةِ فِی الإِسْلاَمِ۳۶۱۵، صحیح مسلم كِتَابُ الزُّهْدِ وَالرَّقَائِقِ بَابٌ فِی حَدِیثِ الْهِجْرَةِ وَیُقَالُ لَهُ حَدِیثُ الرَّحْلِ بِالْحَاءِ۷۵۲۱ ، مسنداحمد۳، صحیح ابن حبان ۶۲۸۱،مصنف ابن ابی شیبة۳۶۶۱۰،مسندابی یعلی ۱۱۶،شرح السنة للبغوی ۳۷۶۶،البدایة والنہایة۲۳۰؍۳،ابن سعد۲۷۰؍۴

[42] ابن سعد۱۷۶؍۱

Related Articles