بعثت نبوی کا تیرهواں سال

زیاد رضی اللہ عنہ بن لبیدانصاری

أَبُو عَبْد اللَّهِ

زیاد بن لبید انصاری کی کنیت ابوعبداللہ تھی۔[1]

وأمه عمرة بِنْت عُبَیْد

ان کی والدہ کانام عمرہ بنت عبیدتھا

وَشَهِدَ زِیَادٌ الْعَقَبَةَ مَعَ السَّبْعِینَ مِنَ الْأَنْصَارِ فِی رِوَایَتِهِمْ جَمِیعًا، وَكَانَ زِیَادٌ لَمَّا أَسْلَمَ یَكْسِرُ أَصْنَامَ بَنِی بَیَاضَةَ هُوَ وَفَرْوَةُ بْنُ عَمْرٍو، وَخَرَجَ زِیَادٌ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صلّى الله علیه وسلم بِمَكَّةَ فَأَقَامَ مَعَهُ حَتَّى هَاجَرَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ إِلَى الْمَدِینَةِ فَهَاجَرَ مَعَهُ، فَكَانَ یُقَالُ: زِیَادٌ مُهَاجِرِیُّ أَنْصَارِیُّ ،وشهد زیاد بدْرًا وأحدًا والخندق والمشاهد كلها مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ

زیاد رضی اللہ عنہ بن لبید ان سترانصاریوں میں شامل تھے جنہوں نے عقبہ کی گھاٹی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کی تھی ،جب انہوں نے دعوت اسلام قبول کرلیاتومدینہ پہنچ کربتوں کو توڑڈالااورواپس مکہ مکرمہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آگئے اورہجرت مدینہ منورہ تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہی رہے،جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت کااذن دیاتوانہوں نے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کی اس لیے انہیں زیاد مہاجرانصاری کہا جاتا ہے، انہوں نے غزوہ بدر،غزوہ احد،غزوہ خندق اوردوسرے تمام غزوات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہمرکابی کاشرف حاصل کیا۔[2]

مدینہ منورہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مستقل قیام کے بعدزیاد رضی اللہ عنہ بن لبید اکثر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوتے اور فیضان نبوی سے خوب خوب بہرہ یاب ہوتے اس طرح وہ فضلاء صحابہ رضی اللہ عنہم میں شمارہونے لگے،

عَنْ زِیَادِ بْنِ لَبِیدٍ، قَالَ: ذَكَر رَسُول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ شَیْئًا، فَقَالَ: ذَاكَ عِنْدَ ذِهَابِ الْعِلْمِ ، قَالُوا: یا رَسُول اللَّهِ، وَكَیْفَ یَذْهَبُ الْعِلْمُ، وَنَحْنَ نَقْرَأُ الْقُرْآنَ وَنُقْرِئُهُ أَبْنَاءَنَا، وَیُقْرِؤُهُ أَبْنَاؤُنَا أَبْنَاءَهُمْ؟فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:ثَكِلَتْكَ أُمُّكَ یَا ابْنَ لَبِیدٍ، قَدْ كُنْتُ أَرَاكَ أَفْقَهَ رَجُلٍ بِالْمَدِینَةِ، أَوَلَیْسَ الْیَهُودُ وَالنَّصَارَى یَقْرَءُونَ التَّوْرَاةَ وَالْإِنْجِیلَ، ثُمَّ لَا یَنْتَفِعُونَ بِهَا؟ قَالَ: بلى یا رَسُول اللَّهِ

زیاد رضی اللہ عنہ بن لبید سے مروی ہےایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااب علم کے اٹھنے کاوقت آپہنچا،زیاد رضی اللہ عنہ کوبارگاہ نبوی میں اتناتقرب حاصل تھاکہ وہ بے تکلفی سے بات کرلیتے تھے انہوں نے عرض کیااے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !اب توعلم لوگوں کے رگ وریشے میں سرایت کرچکاہے اس کے اٹھنے کاوقت کیسے آگیا؟ بے شک ہم اللہ کی کتاب قرآن کریم کی تلاوت کرتے ہیں اوراپنے بچوں کو بھی پڑھاتے ہیں ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی جسارت کوکم فہمی پرمحمول فرمایااورذراسخت الفاظ میں یوں فہمائش کی اے لبیدکے بیٹے ! تیری ماں تجھ کوروئے میں توتم کومدینہ میں بہت داناآدمی سمجھتاتھاکیاتم کونظرنہیں آتاکہ یہوداورنصاریٰ تورات اورانجیل پڑھتے ہیں لیکن اس سے کچھ نفع حاصل نہیں کرتے،زیاد رضی اللہ عنہ اس فہمائش پرلرزاٹھے اورعرض کیابے شک اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !میرے ماں باپ آپ پر قربان آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سچ فرمایا ۔[3]

كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَدِ اسْتَعْمَلَ زِیَادَ بْنَ لَبِیدٍ عَلَى حَضْرَمَوْتَ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زیاد رضی اللہ عنہ بن لبیدکوحضرموت کاعامل بنایا۔[4]

تُوُفِّیَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَعَامِلُهُ عَلَى حضرموت زِیَادُ بْنُ لَبِیدٍ

جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاوصال ہواتوزیاد رضی اللہ عنہ بن لبیدحضرت موت پرعامل تھے۔[5]

فَلَمَّا خَرَجَ النَّاسُ إِلَى الْعِرَاقِ خَرَجَ مَعَهُمْ، فشهد القادسیة والمدائن وجلولاء ونهاوند واختط بالكوفة حین اختطها المسلمون وَنَزَلَ الْكُوفَةُ وَابْتَنَى بِهَا دَارًا فِی كِنْدَةَ وَمَاتَ بِهَا وَالْحَسَنُ بْنُ عَلِیِّ بْنِ أَبِی طَالِبٍ یَوْمَئِذٍ بِالْكُوفَةِ حِینَ صَالَحَ مُعَاوِیَةَ وَهُوَ صَلَّى عَلَیْهِ

جب سعد رضی اللہ عنہ بن ابی وقاص کے ہمراہ مجاہدین جہادفی سبیل اللہ کے لیےعراق کی طرف نکلے توآپ رضی اللہ عنہ بھی ان کے ہمراہ روانہ ہوئے اورسعدبن ابی وقاص کی قیادت میں قادسیہ،المدائن اورجلولااورنہاوندکی جنگوں میں مردانہ وارشریک ہوئے،جب لوگوں میں خلافت کے بارے میں اختلاف برپا ہوا تو پھر کوفہ میں گھربسالیااوروہیں ان کی وفات ہوئی، اورجب حسن بن علی رضی اللہ عنہما بن ابوطالب نے امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ سے صلح فرمائی تھی ان دنوں وہ کوفہ میں تھے انہوں نے ہی ان کی نمازجنازہ پڑھائی۔ [6]

وفدعبداللہ رضی اللہ عنہ وعبدالرحمٰن:

یہ دونوں بھائی بنوکنانہ کے ایک شخص لھیب کے بیٹے تھے ،ہجرت نبوی سے پہلے مکہ گئے اوربارگاہ رسالت میں حاضرہوکراسلام قبول کیا۔[7]

ہجرت کے متعلق خواب :

جس طرح نبوت سے چھ ماہ بیشتررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوسچے خواب نظرآنے لگے تھے اس طرح ہجرت کی ابتدا بھی رویائے صالحہ سے ہوئی،

عَنْ أَبِی مُوسَى،عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: رَأَیْتُ فِی المَنَامِ أَنِّی أُهَاجِرُ مِنْ مَكَّةَ إِلَى أَرْضٍ بِهَا نَخْلٌ، فَذَهَبَ وَهَلِی إِلَى أَنَّهَا الیَمَامَةُ أَوْ هَجَرُ

ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایامیں نے خواب دیکھاتھاکہ میں مکہ مکرمہ سے ایک ایسی زمین کی طرف ہجرت کررہاہوں جہاں کھجوروں کے باغات ہیں (مگراس جگہ کانام نہیں بتایاگیا)میں سوچ میں پڑگیا کہ یہ سر زمین یمامہ یاسرزمین ہجرہوگی۔[8]

اس خواب کے بعدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک اورخواب دیکھا،

أَنَّ عَائِشَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهَا، زَوْجَ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، قَالَتْ: فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ لِلْمُسْلِمِینَ:إِنِّی أُرِیتُ دَارَ هِجْرَتِكُمْ، ذَاتَ نَخْلٍ بَیْنَ لاَبَتَیْنِ

ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا صدیقہ سے مروی ہےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ رضی اللہ عنہم سے فرمایامجھے خواب میں تمہاری ہجرت کی جگہ دکھائی گئی ہے وہاں کھجوروں کے بکثرت باغات ہیں اوروہ جگہ دوسنگلاخ میدانوں کے درمیان ہے ۔[9]

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ترددکودورکرنے کے لئے جبرائیل علیہ السلام نے نازل ہوکرمدینہ منورہ کاتعین کردیا۔

یثرب کوپسندکرنے کی وجہ:

مدینہ منورہ مکہ سے تین سومیل کے فاصلے پرشمال کی جانب واقع ہے،اس زمانے میں عرب کے تجارتی قافلوں کی تین بڑی شاہرائیں مدینہ کے قریب سے ہوکرگزرتی تھیں اس لئے ا شیاء خوردونوش وافرمقدارمیں حاصل ہوجاتی تھیں ،پانی کی افراط کی وجہ سے کافی نخلستان تھے ،ملک کاباقی حصہ ویران اور دشوار گزار تھا ، اس میں صحرا،پہاڑیاں اورگہری وادیاں تھیں جووہاں تک پہنچنے میں حائل ہوتی تھیں یعنی دفاعی لحاظ سے مستحکم اورقدرتی حصارکی وجہ سے ہرطرف سے محفوظ تھا،چنانچہ اشاعت اسلام کے لئے سب سے زیادہ سہولتوں اوراپنی جغرافیائی محل وقوع کے اعتبارسے وہ سارے عرب کادارالخلافہ بنائے جانے کے قابل تھا۔

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی ہجرت :

قد أخبرت بدار هجرتكم وهی یثرب، فمن أراد منكم أن یخرج فلیخرج إلیه

جب جگہ کاتعین ہوگیاتوآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام کومدینہ کی طرف ہجرت کی اجازت فرمائی کہ جو تم میں سے ہجرت کا خواہشمند ہو تووہ اپنے انصاربھائیوں سے جاملیں ۔[10]

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے فرمایاتم لوگ ایک ایک یادودوکرکے ہوشیاری سے مدینہ چلے جاؤتاکہ خامخواہ قریش کی نظریں نہ اٹھیں اوروہ تمہارے ارادوں کوبھانپ لیں ، اورصحابہ کرام رضی اللہ عنہم کوہجرت کے لئے خلوص نیت پرزوردیتے ہوئے فرمایا

إِنَّمَا الأَعْمَالُ بِالنِّیَّاتِ، وَإِنَّمَا لِكُلِّ امْرِئٍ مَا نَوَى، فَمَنْ كَانَتْ هِجْرَتُهُ إِلَى دُنْیَا یُصِیبُهَا، أَوْ إِلَى امْرَأَةٍ یَنْكِحُهَا، فَهِجْرَتُهُ إِلَى مَا هَاجَرَ إِلَیْهِ

تمام اعمال کادارومدارنیت پرہے اورہرعمل کانتیجہ ہرانسان کواس کی نیت کے مطابق ہی ملے گا،پس جس کی ہجرت دولت دنیاحاصل کرنے کے لئے ہویاکسی عورت سے شادی کی غرض ہو،پس اس کی ہجرت ان ہی چیزوں کے لئے ہوگی جن کے حاصل کرنے کی نیت سے اس نے ہجرت کی ہے۔ [11]

حکم نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سنتے ہی پوشیدہ طور پر ہجرت کاسلسلہ شروع ہو گیا ۔

عَنِ البَرَاءِ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ:أَوَّلُ مَنْ قَدِمَ عَلَیْنَا مِنْ أَصْحَابِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مُصْعَبُ بْنُ عُمَیْرٍ، وَابْنُ أُمِّ مَكْتُومٍ فَجَعَلاَ یُقْرِئَانِنَا القُرْآنَ، ثُمَّ جَاءَ عَمَّارٌ، وَبِلاَلٌ، وَسَعْدٌ ثُمَّ جَاءَ عُمَرُ بْنُ الخَطَّابِ فِی عِشْرِینَ، ثُمَّ جَاءَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَمَا رَأَیْتُ أَهْلَ المَدِینَةِ فَرِحُوا بِشَیْءٍ، فَرَحَهُمْ بِهِ حَتَّى رَأَیْتُ الوَلاَئِدَ وَالصِّبْیَانَ، یَقُولُونَ: هَذَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَدْ جَاءَ فَمَا جَاءَ

چنانچہ براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے مروی ہےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے (مہاجر ) صحابہ میں سب سے پہلے ہمارے پاس مدینہ تشریف لانے والے مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ اورابن ام مکتوم صلی اللہ علیہ وسلم تھے ، مدینہ پہنچ کران بزرگوں نے ہمیں قرآن مجیدپڑھاناشروع کردیا،پھرعمار رضی اللہ عنہ ،بلال رضی اللہ عنہ اورسعد رضی اللہ عنہ آئے اورپھر عمر رضی اللہ عنہ بن خطاب بیس صحابہ کوساتھ لے کرآئے،اس کے بعدنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے،میں نے کبھی مدینہ والوں کواتناخوش ہونے والانہیں دیکھاتھاجتناوہ سیدالامم صلی اللہ علیہ وسلم کی آمدپرخوش ہوئے تھے ،بچیاں اوربچے بھی کہنے لگے تھے کہ آپ اللہ کے رسول ہیں ،ہمارے یہاں تشریف لائے ہیں ۔[12]

وَرَجَعَ عَامَّةُ مَنْ كَانَ هَاجَرَ بِأَرْضِ الحَبَشَةِ إِلَى المَدِینَةِ

اس خبرکوسن کربہت سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم جوہجرت کرکے حبشہ چلے گئے تھے مدینہ منورہ آگئے۔[13]

لَمَّا أَجْمَعَ أَبُو سَلَمَةَ الْخُرُوجَ إِلَى الْمَدِینَةِ رَحَّلَ لِی بَعِیرَهُ ثُمَّ حَمَلَنِی عَلَیْهِ، وَجَعَلَ مَعِی ابْنِی سَلَمَةَ بْنِ أَبِی سَلَمَةَ فِی حِجْرِی، ثُمَّ خَرَجَ یَقُودُ بِی بِعِیرَهُ، فَلَمَّا رَأَتْهُ رِجَالُ بَنِی الْمُغِیرَةِ قَامُوا إِلَیْهِ فَقَالُوا: هَذِهِ نَفْسُكَ غَلَبْتَنَا عَلَیْهَا، أَرَأَیْتَ صَاحِبَتَنَا هَذِهِ؟عَلَامَ نَتْرُكُكَ تَسِیرُ بِهَا فِی الْبِلَادِ؟ قَالَتْ فَنَزَعُوا خِطَامَ الْبَعِیرِ مِنْ یَدِهِ وَأَخَذُونِی مِنْهُ،قَالَتْ وَغَضِبَ عِنْدَ ذَلِكَ بَنُو عَبْدِالْأَسَدِ، رهط أبی سلمة، وقالوا: وَاللَّهِ لَا نَتْرُكُ ابْنَنَا عِنْدَهَا إِذْ نَزَعْتُمُوهَا مِنْ صَاحِبِنَا،قَالَتْ فَتَجَاذَبُوا ابْنِی سَلَمَةَ بَیْنَهُمْ حَتَّى خَلَعُوا یَدَهُ،وَانْطَلَقَ بِهِ بَنُو عَبْدُ الْأَسَدِ، وَحَبَسَنِی بَنُو الْمُغِیرَةِ عِنْدَهُمْ وَانْطَلَقَ زَوْجِی أَبُو سَلَمَةَ إِلَى الْمَدِینَةِ، قَالَتْ فَفُرِّقَ بَیْنِی وَبَیْنَ ابْنِی وَبَیْنَ زَوْجِی.

ام سلمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں ان لوگوں کے بعد مدینہ منورہ ہجرت کرنے والے صحابی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے رضاعی بھائی ابوسلمہ رضی اللہ عنہ بن عبدالاسدمخزومی نے مدینہ منورہ کے لیے سامان سفر تیار کرلیاتواپنے اونٹ کوبٹھاکرمجھے اس پربٹھایااورمیرے ساتھ میرے بیٹے سلمہ بن ابی سلمہ کوبھی سوارکردیااورخوداس کی مہارپکڑکرآگے آگے چلنے لگے،پھرمیں نے دیکھاکہ بنی مغیرہ کے کچھ لوگوں نے انہیں روک کرکہااس بوڑھی عورت اوراس لڑکے کواس اونٹ پربٹھاکرکس کس شہرکی سیرکرانے لے جارہے ہو؟ تم ہمیں دھوکہ دے کرچل تودیئے ہومگرہم تمہیں یہ مال سمیٹ کریہاں سے ایک قدم آگے نہیں جانے دیں گےیہ کہہ کرانہوں نے مجھے کجاوے سے نیچے اتارلیااورپھربولے یہ لڑکابھی ہماراہی ہے ہم اسے بھی نہیں چھوڑیں گے یہ کہہ کرانہوں نے میرے بیٹے کوبھی اونٹ سے اتارلیااوراونٹ کی مہارابوسلمہ کے ہاتھ سے چھین کر اسے ایک طرف ہانکنے لگے،لیکن اس وقت بنی اسدکے کچھ لوگ وہاں آگئے اوران کے ساتھ بنی سلمہ کے لوگ بھی تھے وہ بنی مغیرہ کے لوگوں سے تکرارکرنے لگے توانہوں نے ابوسلمہ اوراونٹ کوتوچھوڑدیالیکن مجھے اورمیرے بیٹے کوان کے ساتھ جانے کی اجازت نہیں دی چنانچہ میرے خاوندتنہاہی مدینے کی طرف روانہ ہوگئےاس طرح ماں ،باپ اوربچے ایک دوسرے سے جداہو گئے،

قَالَتْ فَكُنْتُ أَخْرُجُ كُلَّ غَدَاةٍ فَأَجْلِسُ فِی الْأَبْطَحِ فَمَا أَزَالُ أَبْكِی حَتَّى أُمْسِیَ سَنَةً أَوْ قَرِیبًا مِنْهَا حتى مرَّ بی رجل من بنی عَمِّی أَحَدُ بَنِی الْمُغِیرَةِ فَرَأَى مَا بِی فَرَحِمَنِی، فَقَالَ لِبَنِی الْمُغِیرَةِ: أَلَا تُخْرِجُونَ هَذِهِ الْمِسْكِینَةَ؟ فَرَّقْتُمْ بَیْنَهَا وَبَیْنَ زَوْجِهَا وَبَیْنَ وَلَدِهَا؟ قَالَتْ فَقَالُوا لِی: الْحَقِی بِزَوْجِكِ إِنْ شِئْتِ، قَالَتْ فردَّ بَنُو عَبْدِ الْأَسَدِ إِلَیَّ عِنْدَ ذَلِكَ ابْنِی، قَالَتْ فَارْتَحَلْتُ بَعِیرِی، ثُمَّ أَخَذْتُ ابْنِی فَوَضَعْتُهُ فِی حِجْرِی، ثُمَّ خَرَجْتُ أُرِیدُ زَوْجِی بِالْمَدِینَةِ،

مگربچوں کے بغیرماں کوکب قرار آسکتا تھاوہ صبح کوالبطح میں جابیٹھتیں اورشام تک اپنے بچوں کو یادکرکے روتی رہتیں ،اس طرح تقریباً ایک سال گزرگیاتوایک روزوہاں جہاں ہمیں بنی مغیرہ نے قیدکررکھاتھامیرے چچاکے بیٹوں میں سے ایک کابنی مغیرہ کی طرف سے گزرہواتووہ مجھے اورمیرے بیٹے سلمہ کوان کی قیدمیں دیکھ کربولابڑے افسوس کی بات ہے کہ آپ لوگوں نے اس غریب دکھیاکواس کے خاوندسے اوراس لڑکے کواس کے باپ سے بے قصور جدا کر رکھا ہے؟ بنی مغیرہ کومجھ پرشایدکچھ ترس آگیاتووہ بولے توجہاں چاہے جاسکتی ہے،لیکن اسی وقت بنی اسدکے کچھ اورلوگ بھی وہاں آگئے اورانہوں نے بنی مغیرہ سے کہہ سن کرمجھے اونٹ پرسوارکرایااورمیرے بیٹے کوبھی میرے ساتھ بٹھادیاچنانچہ ہم دونوں فوراً وہاں سے تن تنہامدینہ منورہ اپنے خاوندکی طرف روانہ ہوئے،

قَالَتْ: وَمَا مَعِی أَحَدٌ مِنْ خَلْقِ اللَّهِ.حَتَّى إِذَا كُنْتُ بِالتَّنْعِیمِ لَقِیتُ عُثْمَانَ بْنَ طَلْحَةَ بْنِ أَبِی طَلْحَةَ، أَخَا بَنِی عَبْدِ الدَّارِ، فَقَالَ: إِلَى أَیْنَ یَا ابْنَةَ أَبِی أُمَیَّةَ؟ قُلْتُ: أُرِیدُ زَوْجِی بِالْمَدِینَةِ، قَالَ: أَوْ مَا مَعَكِ أَحَدٌ؟ قُلْتُ: مَا معی أحد إلا الله وبنی هذا، فقال: والله مالك مِنْ مَتْرَكٍ فَأَخَذَ بِخِطَامِ الْبَعِیرِ، فَانْطَلَقَ مَعِی یَهْوِی بِی، كَانَ إِذَا بَلَغَ الْمَنْزِلَ أَنَاخَ بِی، ثُمَّ اسْتَأْخَرَ عَنِّی حَتَّى إِذَا نَزَلْتُ اسْتَأْخَرَ بِبَعِیرِی فحط عنه ثم قیده فی الشجرة ثم تنحى [عنی ] إِلَى شَجَرَةٍ فَاضْطَجَعَ تَحْتَهَا

توہمیں راستے میں اللہ کی مخلوق میں سے ایک شخص بھی ایسانہ ملاجوہماری کچھ مددکرتااس طرح کافی دنوں کی مسافت طے کرنے کے بعدہمیں مقام تغیم میں جوپہلے شخص ملے وہ عثمان بن ابی طلحہ بنی عبدالدارکے بھائی تھے وہ ہمیں دیکھ کربولے ابی امیہ کی بیٹی!کہاں کاارادہ ہے ؟میں نے جواب دیامیں اپنے شوہرکے پاس مدینہ طیبہ جارہی ہوں ،یہ سن کربولے اورتمہارے ساتھ کوئی ہمراہی نہیں ہے؟میں نے جواب دیامیرے ساتھ اللہ تعالیٰ یامیراصغیرسن بیٹاہے،ایک کمزورعورت کایہ حال دیکھ کرعثمان رضی اللہ عنہ بن طلحہ کا دل بھرآیاوہ بولے بہرحال میں اس طرح توتمہیں تنہانہیں جانے دوں گایہ کہہ کرانہوں نے میرے اونٹ کی مہار پکڑلی اورآگے آگے چلنے لگے، اسی طرح وہ منزل بمنزل چلتےرہے جب منزل پرپہنچتے تووہ مجھے کسی درخت کے نیچے بٹھاکراونٹ کی مہاراسی درخت کی کسی شاخ سے باندھ دیتے اورہم سے دورہٹ کر ہمارے لیے کھانا تیارکرنے لگتے،

فَإِذَا دَنَا الرَّوَاحُ قَامَ إِلَى بَعِیرِی فَقَدَّمَهُ فَرَحَّلَهُ ثُمَّ اسْتَأْخَرَ عَنِّی، وَقَالَ: ارْكَبِی فَإِذَا رَكِبْتُ فَاسْتَوَیْتُ عَلَى بَعِیرِی أَتَى فَأَخَذَ بِخِطَامِهِ، فَقَادَنِی حَتَّى یَنْزِلَ بِی، فَوَاللَّهِ مَا صَحِبْتُ رَجُلًا مِنَ الْعَرَبِ قَطُّ أَرَى أَنَّهُ كَانَ أَكْرَمَ مِنْهُ،فَلَمْ یَزَلْ یَصْنَعُ ذَلِكَ بِی حَتَّى أَقْدَمَنِی الْمَدِینَةَ فَلَمَّا نَظَرَ إِلَى قَرْیَةِ بَنِی عَمْرِو بْنِ عَوْفٍ بِقُبَاءٍ قَالَ: زَوْجُكِ فِی هَذِهِ الْقَرْیَةِ وَكَانَ أَبُو سَلَمَةَ بِهَا نَازِلًا فَادْخُلِیهَا عَلَى بَرَكَةِ اللَّهِ، ثُمَّ انْصَرَفَ رَاجِعًا إِلَى مَكَّةَ

اسی طرح جب روانگی کاوقت آتاتواونٹ کوام سلمہ رضی اللہ عنہا کے قریب لاکربٹھلادیتے اور یہ کہہ کرکہ وہ سوارہوجائیں خوددورچلے جاتے جب ام سلمہ رضی اللہ عنہا سوارہوجاتیں توعثمان بن طلحہ اونٹ کی مہارپکڑکرآگے چلنے لگتے،ام سلمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں واللہ!میں نے اس شخص سے زیادہ پورے عرب میں کوئی نیک اوررحم دل آدمی نہیں دیکھا، فرماتی ہیں اسی طرح وہ ہمیں مدینہ طیبہ تک لے گئے لیکن جب ہم لوگ قباکے نزدیک بنی عمروبن عوف کی بستی میں پہنچےتوام سلمہ رضی اللہ عنہا سے کہااس بستی میں کہیں تمہارے شوہرمقیم ہیں اللہ کی رحمت وبرکت کے ساتھ اس بستی میں داخل ہوجاؤمجھے اس کاعلم نہیں تھالیکن اتفاق سے وہ وہیں ٹھیرے ہوئے تھے،چنانچہ وہ مجھے اورمیرے بیٹے کوان کے سپردکرکے خودمکہ مکرمہ کی طرف لوٹ گئے،

فَكَانَتْ تَقُولُ: مَا أَعْلَمُ أَهْلَ بَیْتٍ فِی الْإِسْلَامِ أَصَابَهُمْ مَا أَصَابَ آلَ أَبِی سَلَمَةَ، وَمَا رَأَیْتُ صَاحِبًا قَطُّ كَانَ أَكْرَمَ مِنْ عُثْمَانَ بْنِ طَلْحَةَ، أَسْلَمَ عُثْمَانُ بْنُ طَلْحَةَ بْنِ أَبِی طَلْحَةَ الْعَبْدَرِیُّ هَذَا بَعْدَ الْحُدَیْبِیَةِ، وَهَاجَرَ هُوَ وَخَالِدُ بْنُ الْوَلِیدِ مَعًا، وَقُتِلَ یَوْمَ أُحُدٍ أَبُوهُ وَإِخْوَتُهُ، الْحَارِثُ وَكِلَابٌ وَمُسَافِعٌ، وَعَمُّهُ عُثْمَانُ بْنُ أَبِی طَلْحَةَ

یہ واقعہ بیان کرنے کے بعدفرماتی ہیں مجھے نہیں معلوم کہ اہل عرب کے کسی گھرانے پراس سے زیادہ کبھی پہلے کوئی مصیبت پڑی ہوجیساکہ آل ابوسلمہ پرپڑی،اورمیں نے عثمان بن طلحہ سے زیادہ رحم دل آدمی کوئی نہیں دیکھا،عثمان رضی اللہ عنہ بن طلحہ بن ابی طلحہ العبدری صلح حدیبیہ کے بعدمسلمان ہوئے تھے اورانہوں نے خالد رضی اللہ عنہ بن ولیدکے ساتھ مکہ مکرمہ سے مدینہ طیبہ کوہجرت کی تھی،ان کے والداوربھائی حارث،کلاب اورمسافح غزوہ احدمیں قتل ہوگئے تھے۔[14]

ثُمَّ كَانَ أَوَّلَ مَنْ قدمها من المهاجرین بعد أبی سلمة عمار بْنُ رَبِیعَةَ حَلِیفُ بَنِی عَدِیٍّ، مَعَهُ امْرَأَتُهُ لَیْلَى بِنْتُ أَبِی حَثْمَةَ الْعَدَوِیَّةُ،ثُمَّ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ جَحْشِ، حَلِیفُ بَنِی أُمَیَّةَ بْنِ عَبْدِ شَمْسٍ، احْتَمَلَ بِأَهْلِهِ وَبِأَخِیهِ عَبْدٍ، أَبِی أَحْمَدَ

ابی سلمہ رضی اللہ عنہ کے بعدہجرت میں پہل کرنے والے بنی حدی کے حلیف عامربن ربیعہ تھے جنہوں نے اپنی اہلیہ لیلیٰ بنت ابی حثمہ عدویہ کے ساتھ ہجرت فرمائی،ان کے بعدبنی امیہ بن عبدشمس کے حلیف عبداللہ بن جحش رضی اللہ عنہ نے اپنے اہل خانہ اوراپنے بھائی عبدابی احمدکے ہمراہ ہجرت کی۔[15]

فَنَظَرَ إِلَیْهَا عُتْبَةُ تَخْفِقُ أَبْوَابُهَا یَبَابًا لَیْسَ بِهَا سَاكِنٌ، فَلَمَّا رَآهَا كَذَلِكَ تَنَفَّسَ الصُّعَدَاءَ وَقَالَ: وَكُلُّ دَارٍ وَإِنْ طَالَتْ سَلَامَتُهَا * یَوْمًا سَتُدْرِكُهَا النَّكْبَاءُ وَالْحُوبُ،هَذَا مِنْ عَمَلِ ابْنِ أَخِیكَ، هَذَا فَرَّقَ جَمَاعَتَنَا، وَشَتَّتَ أَمْرَنَا، وَقَطَّعَ بَیْنَنَا

عتبہ اورابوجہل ان جانے والوں کو دیکھ رہے تھے جو ایک ایک کرکے جارہے تھےیہ منظردیکھ کرعتبہ کادل بھرآیاایک ٹھنڈی سانس بھرکربولاہرمکان خواہ وہ کتنے ہی عرصہ تک آباداور عشرت کدہ بنارہے لیکن ایک نہ ایک دن وہ غم کدہ اورماتم کدہ بن جاتاہےاورپھرکہایہ سب کچھ ہمارے بھتیجے کاکام ہے جس نے ہماری جماعت میں تفر یق ڈال دی ہے۔[16]

ثُمَّ قَدِمَ الْمُهَاجِرُونَ أَرْسَالًا، قَالَ: وَكَانَ بَنُو غَنْمِ بْنِ دُودَانَ أَهْلَ إِسْلَامٍ، قَدْ أَوْعَبُوا إِلَى الْمَدِینَةِ هجرة، رجالهم ونساؤهم

اس طرح بہت سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم یکے بعددیگرےخاموشی سے مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ ہجرت کرتے گئے جن میں اکثریت بنی غنم بن دودان کے قبیلے کے مردوں اورعورتوں کی تھی۔

قریش اس بات سے بے خبر رہےلیکن یہ بات زیادہ عرصہ تک چھپنے والی نہ تھی آخرکارقریش کوعلم ہوگیا اور وہ ساری صورت حال بھانپ گئے جس سے ان کاغصہ اور بڑھا اورسینہ جوش انتقام سے کھولنے لگااب تووہ ہاتھ دھوکر مسلمانوں کے پیچھے پڑگئے ،دن رات گھات میں رہنے لگے کہ کوئی مسلمان ہجرت کرکے مدینہ نہ جا سکے تاکہ ہجرت کی ساری اسکیم ہی فیل ہو جائے لیکن کسی نہ کسی طرح عکاشہ رضی اللہ عنہ بن محصن، عقبہ رضی اللہ عنہ بن وہب،شجاع رضی اللہ عنہ بن وہب،اربد رضی اللہ عنہ بن جمیرہ،منقذ رضی اللہ عنہ بن نباتہ،سعید رضی اللہ عنہ بن رقیش،محرز رضی اللہ عنہ بن نضلہ،یزید رضی اللہ عنہ بن رقیش،قیس رضی اللہ عنہ بن جابر،عمرو رضی اللہ عنہ بن محصن ، مالک رضی اللہ عنہ بن عمرو،صفوان رضی اللہ عنہ بن عمرو،ثقیف رضی اللہ عنہ بن عمرو،ربیعہ رضی اللہ عنہ بن اکثم،زبیر رضی اللہ عنہ بن عبید،تمام رضی اللہ عنہ بن عبیدہ،سنجرہ رضی اللہ عنہ بن عبیدہ،محمد رضی اللہ عنہ بن عبداللہ بن جحش اورعورتوں میں زینب رضی اللہ عنہا بنت جحش رضی اللہ عنہ ، ام حبیبہ رضی اللہ عنہا بنت جحش،جدامہ رضی اللہ عنہا بنت جندل،ام قیس رضی اللہ عنہ بنت محصن،ام حبیب رضی اللہ عنہا بنت ثمامہ ،آمنہ رضی اللہ عنہا بنت رقیش،سنجرہ رضی اللہ عنہا بنت تمیم،حمنہ رضی اللہ عنہا بن جحش نے ہجرت فرمائی۔[17]

اس کے بعدہجرت کرنے والوں کاایک تناتابندھ گیا

وَنَزَلَ حَمْزَةُ بْنُ عَبْدِ الْمُطَّلَبِ، وَزَیْدُ بْنُ حَارِثَةَ، وَأَبُو مَرْثَدٍ كَنَّازُ بْنُ حِصْنٍ. قَالَ ابْنُ هِشَامٍ: وَیُقَالُ، ابْنُ حُصَیْنٍ وَابْنُهُ مَرْثَدٌ الْغَنَوِیَّانِ، حَلِیفَا حَمْزَةَ ابْن عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، وَأَنَسَةُ ، وَأَبُو كَبْشَةَ ، مَوْلِیَّا رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، عَلَى كُلْثُومِ بْنِ هِدْمٍ، أَخِی بَنِی عَمْرِو بْنِ عَوْفٍ بقُباءٍ : وَیُقَالُ: بَلْ نَزَلُوا عَلَى سَعْدِ بْنِ خَیْثمةَ، وَیُقَالُ: بَلْ نَزَلَ حَمْزَةُ بْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ عَلَى أَسْعَدِ بْنِ زُرَارَةَ، أَخِی بَنِی النَّجَّارِ

سیدالشہداء حمزہ رضی اللہ عنہ بن عبدالمطلب ، زید رضی اللہ عنہ بن حارثہ ، ابومرثد رضی اللہ عنہ کناز بن حصن غنوی،ان کے بیٹے مرثدغنوی (حلیف حمزہ بن عبدالمطلب) انسہ رضی اللہ عنہ مولی ٰ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ، ابوکبشہ رضی اللہ عنہ مولیٰ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کلثوم رضی اللہ عنہا بن ہدم (جو بنو عمرو بن عوف سے تعلق رکھتےتھے ) کے گھرقباء میں یاسعد رضی اللہ عنہ بن خثیمہ رضی اللہ عنہ کے گھراترےایک قول ہے کہ حمزہ رضی اللہ عنہ اسعدبن زرارہ نجاری کے ہاں فروکش ہوئے ۔

وَنَزَلَ عُبَیْدَةُ بْنُ الْحَارِثِ بْنِ الْمُطَّلِبِ، وَأَخُوهُ الطُّفَیْلُ بْنُ الْحَارِثِ، وَالْحُصَیْنُ ابْن الْحَارِثِ، وَمِسْطَحُ بْنُ أُثَاثَةَ بْنِ عَبَّادِ بْنِ الْمُطَّلِبِ، وَسُوَیْبِطُ بْنُ سَعْدِ بْنِ حُرَیْمِلَةَ، أَخُو بَنِی عَبْدِ الدَّارِ، وَطُلَیْبُ بْنُ عُمَیْرٍ، أَخُو بَنِی عَبْدِ بْنِ قُصَیٍّ، وَخَبَّابٌ ، مَوْلَى عُتْبَةَ بْنِ غَزْوَانَ، عَلَى عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَلَمَةَ، أَخِی بَلْعِجْلَانَ بقُباءٍ.

اوربنی عبدالدارمیں سےعبیدہ بن حارث بن مطلب اوران کے دونوں بھائی طفیل بن حارث اورحصین بن حارث اورمسطح رضی اللہ عنہ بن اثاثہ بن عبادبن مطلب اورسویبط رضی اللہ عنہ بن سعد بن حریملہ اور بنی عبدقصی میں سےطلیب رضی اللہ عنہ بن عمیر اورعقبہ بن غزوان کے آزادکردہ غلام بنی عجلان کے گھرقباء میں اترے ۔

وَنَزَلَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَوْفٍ فِی رِجَالٍ مِنْ الْمُهَاجِرِینَ عَلَى سَعْدِ بْنِ الرَّبِیعِ أَخِی بَلْحَارِثِ بْنِ الْخَزْرَجِ، فِی دَارِ بَلْحَارِثِ بْنِ الْخَزْرَجِ

عبدالرحمٰن رضی اللہ عنہ بن عوف اورکچھ دوسرے مہاجرین سعدبن ربیع خزرجی کے گھر ٹھیرے ۔

وَنَزَلَ الزُّبَیْرُ بْنُ الْعَوَّامِ، وَأَبُو سَبْرَةَ بْنُ أَبِی رُهْمِ بْنِ عَبْدِ الْعُزَّى، عَلَى مُنْذِرِ ابْن مُحَمَّدِ بْنِ عُقْبَةَ بْنِ أُحَیْحَةَ بْنِ الْجُلَاحِ بِالْعُصْبَةِ، دَارِ بَنِی جَحْجَبَى

زبیر رضی اللہ عنہ بن العوام ، ابوسبرة رضی اللہ عنہ بن ابی رھم منذربن محمدبن عقبہ کے ہاں مقام عقبہ بن ججبی کے ہاں ٹھیرے۔

وَنَزَلَ مُصْعَبُ بْنُ عُمَیْرِ بْنِ هَاشِمٍ، أَخُو بَنِی عَبْدِ الدَّارِ عَلَى سَعْدِ بْنِ مُعَاذِ بْنِ النُّعْمَانِ، أَخِی بَنِی عَبْدِ الْأَشْهَلِ، فِی دَارِ بَنِی عَبْدِ الْأَشْهَلِ

مصعب رضی اللہ عنہ بن عمیر بن ہاشم بنی عبدالدارمیں سے سعدبن معاذ اشہلی کے گھربنی عبدالاشہل میں ٹھیرے۔

وَنَزَلَ عُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ عَلَى أَوْسِ بْنِ ثَابِتِ بْنِ الْمُنْذِرِ، أَخِی حَسَّانِ بْنِ ثَابِتٍ فِی دَارِ بَنِی النَّجَّارِ، فَلِذَلِكَ كَانَ حَسَّانٌ یُحِبُّ عُثْمَانَ وَیَبْكِیهِ حَیْنَ قُتِلَ

عثمان رضی اللہ عنہ بن عفان اوس بن ثابت (حسان رضی اللہ عنہ بن ثابت کے بھائی ) کے گھر بنونجارمیں ٹھیرے ، یہی وجہ ہے کہ حسان رضی اللہ عنہ کو عثمان رضی اللہ عنہ سے بڑی محبت تھی ان کے قتل پرروئے اوران کے فراق میں دلدوز مرثیے کہے۔

نَزَلَ طَلْحَةُ بْنُ عُبَیْدِ اللَّهِ عَلَى أَسْعَدِ بْنِ زُرَارَةَ، أَخِی بَنِی النَّجَّارِ

طلحہ رضی اللہ عنہ بن عبیداللہ بن عثمان نے اسعدبن زرارہ نجاری کے گھر آباد ہوئے۔

اورعیاش رضی اللہ عنہ بن ابی ربیعہ، طلحہ رضی اللہ عنہ بن عبیداللہ بن عثمان اورصہیب رضی اللہ عنہ بن سنان نے ہجرت فرمائی

أَنَّ صُهیباً حِینَ أَرَادَ الْهِجْرَةَ قَالَ لَهُ كُفَّارُ قُرَیْشٍ: أَتَیْتَنَا صُعْلُوكًا حَقِیرًا فَكَثُرَ مَالُكَ عِنْدَنَا وَبَلَغْتَ الَّذِی بَلَغْتَ، ثُمَّ تُرِیدُ أَنْ تَخْرُجَ بِمَالِكِ وَنَفْسِكَ، وَاللَّهِ لَا یَكُونُ ذَلِكَ، فَقَالَ لَهُمْ صُهَیْبٌ: أَرَأَیْتُمْ إِنْ جَعَلْتُ لَكُمْ مَالِی أَتُخَلُّونَ سَبِیلِی؟قَالُوا: نَعَمْ،قَالَ فَإِنِّی قَدْ جَعَلْتُ لَكُمْ مَالِی،فَبَلَغَ ذَلِكَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: رَبِحَ صُهَیْبٌ، رَبِحَ صُهَیْبٌ

جب صہیب رضی اللہ عنہ بن سنان نے ہجرت کاارادہ کیاتوکفارقریش نے ان سے کہا کہ تم ایک فقیرحقیرکی حالت میں ہمارے پاس آئے تھے،پھرہمارے پاس رہ کرتم نے بہت مال کمایا اب تم اپنامال اوراپنی جان لے کریہاں سے جاناچاہتے ہوواللہ! ایسا کبھی نہ ہو گا،صہیب رضی اللہ عنہ بن سنان نے کہانہیں ا اگرمیں اپناسارامال تمہیں دے دوں توپھر مجھے جانے دو گے ؟قریش کہنے لگے ہاں پھرجانے دیں گے،صہیب رضی اللہ عنہ بن سنان نے کہاگواہ رہومیں نے اپنا سارامال تمہیں دے رہاہوں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب سناتوفرمایا صہیب رضی اللہ عنہ بن سنان نے نفع کمایا،صہیب رضی اللہ عنہ بن سنان نے نفع کمایا۔[18]

الغرض رفتہ رفتہ تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ہجرت فرماکر مدینہ جاپہنچے اورمکہ مکرمہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ، سیدناابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ، سیدنا علی رضی اللہ عنہ بن ابی طالب اور وہ مسلمان رہ گئے جو بدقسمتی سے ہجرت کا موقعہ نہ پا سکے اور دھرلئے گئے تھے،قریش نے انہیں بڑی بے رحمی سے ستایااورخوب خوب ظلم کی بھٹی میں تپایاتاکہ وہ تاب نہ لاکردین سے بیزار ہو جائیں ، ایمان سے ان کا دل کھٹا ہو جائے اوروہ بھولے سے بھی اس کانام نہ لیں ، اس طرح یہ بے بس مسلمان تڑپ تڑپ کر مظلومی کے دن کاٹ رہے تھےمگرانہیں اس مقصد میں ناکامی ہی ہوئی ، عورتوں بوڑھوں پر اتنے ظلم وستم کے باوجود ایک فردبھی دین اسلام سے متنفر نہ ہوسکابلکہ جتنا قریش ان پر جبرکرتے وہ اتنا ہی دین اسلام سے چمٹ جاتے ، اللہ پران کا یقین واعتماد اور بڑھ جاتااور ان کے دلوں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت دو چند ہو جاتی ، قریش کی ہرچال ناکام ہوگئی اوران کی ہر کوشش اکارت گئی کڑی نگرانی کے باوجودمکہ مکرمہ اہل توحیدسے خالی ہوتا گیا

وَلَمَّا قَدِمَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ الْمَدِینَةَ هُوَ وَمَنْ لَحِقَ بِهِ من أهله وقومه وأخوه زَیْدُ بْنُ الْخَطَّابِ وَعَمْرٌو وَعَبْدُ اللَّهِ ابْنَا سُرَاقَةَ بْنِ الْمُعْتَمِرِ، وَخُنَیْسُ بْنُ حُذَافَةَ السَّهْمِیُّ زَوْجُ ابْنَتِهِ حَفْصَةَ وَابْنُ عَمِّهِ سَعِیدِ بْنِ زَیْدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ نُفَیْلٍ وَوَاقِدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ التَّمِیمِیُّ حَلِیفٌ لَهُمْ وَخَوْلِیُّ بْنُ أَبِی خَوْلِیٍّ، وَمَالِكُ بْنُ أَبِی خَوْلِیٍّ حَلِیفَانِ لَهُمْ مِنْ بَنِی عِجْلٍ وَبَنُو الْبُكَیْرِ إِیَاسٌ وَخَالِدٌ وَعَاقِلٌ وَعَامِرٌ وَحُلَفَاؤُهُمْ مِنْ بَنِی سَعْدِ بْنِ لَیْثٍ، فَنَزَلُوا عَلَى رَفَاعَةَ بْنِ عَبْدِ المنذر بن زنیر فِی بَنِی عَمْرِو بْنِ عَوْفٍ بِقُبَاءَ

جب سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے بیس صحابہ کے ساتھ ہجرت فرمائی تواس قافلہ میں ان کے بڑے بھائی زید رضی اللہ عنہ بن خطاب،عمرو رضی اللہ عنہ بن سراقہ ، عبداللہ رضی اللہ عنہ بن سراقہ،خنیس رضی اللہ عنہ بن حذافہ سہمی ، سعید رضی اللہ عنہ بن عمروبن نفیل ، واقد رضی اللہ عنہ بن عبداللہ التمیمی ،خولی رضی اللہ عنہ بن خولی،مالک رضی اللہ عنہ بن ابی خولی ،بکیرکے چاروں بیٹے ایاس رضی اللہ عنہ بن بکیر، عامر رضی اللہ عنہ بن بکیر،عاقل رضی اللہ عنہ بن بکیر، خالد رضی اللہ عنہ بن بکیر ، عیاش رضی اللہ عنہ بن ابی ربیعہ تھے،یہ سب لوگ قباء میں رفاعہ بن عبدالمنذرکے ہاں فروکش ہوئے۔[19]

ہشام رضی اللہ عنہ بن العاص کا بھی سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے ہمراہ ہجرت کا ارادہ تھا مگروہ اپنی کوشش میں کامیاب نہ ہوسکے اورمشرکوں کے پنجے میں پھنس گئے،

 لَمَّا أَرَدْنَا الْهِجْرَةَ إلَى الْمَدِینَةِ، أَنَا وَعَیَّاشُ بْنُ أَبِی رَبِیعَةَ، وَهِشَامُ بْنُ الْعَاصِی بْنِ وَائِلٍ السَّهْمِیُّ التَّناضِبَ مِنْ أَضَاةِ بَنِی غِفَارٍ، فَوْقَ سَرِفٍ ،

سیدناعمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں نے اورعیاش اورہشام بن عاص بن وائل نے رات کومشورہ کیاکہ صبح کے وقت ہم تینوں مقام تناضب میں اکٹھے ہوجائیں

(قال البلادی: التناضب وأضاة بنی غفار، موضع واحد: الأضاة: أرض تمسك الماء فیتكون فیها الطین. والتناضب: شجرات فی هذه الأضاة، وهی لا زالت مشاهدة على جانب وادی سرف الشمالی إلى جوار قبر أم المؤمنین میمونة. وقام بجانبها الغربی حیّ على بعد ثلاثة عشر كیلا من مكة، نحو الشمال)

بلاذری کاکہناہےتناضب اوراضاة بنی غفارایک ہی جگہ کانام ہے ، اضاة ایساعلاقہ جہاں پانی کھڑارہنے سے وہاں کی مٹی گارابن جائے،تناضب اس علاقہ میں اگے ہوئے درختوں کوکہتے ہیں ،وادی سرف کے شمالی کنارے ام المومنین میمونہ رضی اللہ عنہا کی قبرکے پہلومیں یہ علاقہ اب بھی اپنے درختوں سمیت موجودہے ،اس کے مغربی حصے میں شمال کی جانب مکہ مکرمہ سے تیرہ کلومیٹرکے فاصلے پرایک قبیلہ آبادتھا۔[20]

وَقُلْنَا: أَیُّنَا لَمْ یُصْبِحْ عِنْدَهَا فَقَدْ حُبِسَ فَلْیَمْضِ صَاحِبَاهُ.قَالَ: فَأَصْبَحْتُ أَنَا وَعَیَّاشُ بْنُ أَبِی رَبِیعَةَ عِنْدَ التَّنَاضُبِ، وَحُبِسَ عَنَّا هِشَامٌ، وَفُتِنَ فَافْتُتِنَ، فَلَمَّا قَدِمْنَا الْمَدِینَةَ نَزَلْنَا فِی بَنِی عَمْرِو بْنِ عَوْفٍ بقُباءٍ، وَخَرَجَ أَبُو جَهْلِ بْنِ هِشَامٍ وَالْحَارِثُ بْنُ هِشَامٍ إلَى عَیَّاشِ بْنِ أَبِی رَبِیعَةَ، وَكَانَ ابْنَ عَمِّهِمَا وَأَخَاهُمَا لِأُمِّهِمَا، حَتَّى قَدِمَا عَلَیْنَا الْمَدِینَةَ، وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بِمَكَّةَ،

اورکہاجوصبح کووہاں نہ آسکے گاوہ ضرورقیدمیں پھنس جائے گا، چنانچہ میں اورعیاش ہم دونوں تووہاں پہنچ کرمدینہ منورہ کی طرف روانہ ہوگئے اورہشام بے چارہ قیدمیں پھنس گیا اور مشرکوں نے خوب اپنے دلوں کا بخار نکالا انہیں اتنی تکالیف پہنچائی گئیں کہ دین پرقائم رہنا مشکل ہوگیا،جب ہم مدینہ طیبہ میں پہنچ گئے تومقام قباء میں بنی عمروبن عوف کے ہاں ٹھیرے،ابوجہل بن ہشام اور حارث بن ہشام(جوابھی تک مسلمان نہیں ہوئے تھے) کے ہمراہ عیاش کی تلاش میں مدینہ منورہ آئے کیونکہ یہ دونوں اس کے چچازاد اور ماں شریک بھائی تھے اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت مکہ مکرمہ ہی میں تشریف فرماتھے

فَكَلَّمَاهُ وَقَالَا:إنَّ أُمَّكَ قَدْ نَذَرَتْ أَنْ لَا یَمَسَّ رَأْسَهَا مُشْطٌ حَتَّى تَرَاكَ، وَلَا تَسْتَظِلَّ مِنْ شَمْسٍ حَتَّى تَرَاكَ، فَرَقَّ لَهَا، فَقُلْتُ لَهُ: یَا عَیَّاشُ، إنَّهُ وَاَللَّهِ إنْ یُرِیدَكَ الْقَوْمُ إلَّا لِیَفْتِنُوكَ عَنْ دینك فَاحْذَرْهُمْ، فو الله لَوْ قَدْ آذَى أُمَّكَ الْقَمْلُ لَامْتَشَطَتْ، وَلَوْ قَدْ اشْتَدَّ عَلَیْهَا حَرُّ مَكَّةَ لَاسْتَظَلَّتْ، قَالَ: فَقَالَ: أَبَرُّ قَسَمَ أُمِّی، وَلِی هُنَالِكَ مَالٌ فَآخُذُهُ

اور عیاش رضی اللہ عنہ بن ابی ربیعہ سے کہاکہ تیری ماں نے قسم کھائی ہے کہ جب تک تجھے دیکھ نہیں لے گی اس وقت تک نہ سائے میں بیٹھے گی اور نہ ہی اپنے سر میں کنگھی کرے گی ،پس تواس پررحم کراورہمارے ساتھ چلا چل،سیدناعمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں نے کہااے عیاش!یہ لوگ تمہیں تمہارے دین کے بارے میں فتنے میں مبتلاکریں گے تمہاری ماں کوجب جوئیں ستائیں گی تووہ ضرورکنگھی کرے گی اورجب مکہ مکرمہ کی دھوپ اس کوبے چین کرے گی تووہ خود بخودسایہ میں چلی آئے گی اورتمہارے آنے کی راہ ہرگزنہیں دیکھے گی،مگروہ ان کے دھوکے میں آگئے اورمجھ سے کہنے لگے اول تومجھ کواپنی ماں کی قسم پوری کرنی ہے ،دوسرے یہ کہ میرامال ہے اس کووہاں سے لے کرچلاآؤں گا

قَالَ: فَقُلْتُ: وَاَللَّهِ إنَّكَ لَتَعْلَمُ أَنِّی لَمِنْ أَكْثَرِ قُرَیْشٍ مَالًا، فَلَكَ نِصْفُ مَالِی وَلَا تَذْهَبْ مَعَهُمَا قَالَ: فَأَبَى عَلَیَّ إلَّا أَنْ یَخْرُجَ مَعَهُمَا، فَلَمَّا أَبَى إلَّا ذَلِكَ، قَالَ:قُلْتُ لَهُ: أَمَّا إذْ قَدْ فَعَلْتَ مَا فَعَلْتَ، فَخُذْ نَاقَتِی هَذِهِ، فَإِنَّهَا نَاقَةٌ نَجِیبَةٌ ذَلُولٌ، فَالْزَمْ ظَهْرَهَا، فَإِنْ رَابَكَ مِنْ الْقَوْمِ رَیْبٌ، فَانْجُ عَلَیْهَافَخَرَجَ عَلَیْهَا مَعَهُمَا

اورمال کاجوتم کوخیال ہے توسمجھوکہ تمہارامال میرے مال سے نصف حصہ کے برابربھی نہیں ہے جس کومیں چھوڑاآیاہوں اوراس کاخیال تک نہیں کرتاحالانکہ میں قریش میں اول درجہ کامال دارہوں ، مگرعیاش رضی اللہ عنہ پرمیری اس نصیحت نے کچھ اثرنہ کیا،جب میں نے دیکھاکہ یہ بغیرجائے نہ رہے گاتوکہااے عیاش رضی اللہ عنہ !میری ناقہ پرسوارہوکرجاناکیونکہ یہ اونٹنی بڑی اصیل ہے اگرراستے میں یہ دونوں تمہارے ساتھ کچھ بدی کریں توفوراًادھربھاگ کرآجانا، عیاش رضی اللہ عنہ نے یہ بات مان لی اورمیری اونٹنی پرسوارہوکرابوجہل اورحرث کے ہمراہ واپس مکہ مکرمہ روانہ ہوگئے،

حَتَّى إذَا كَانُوا بِبَعْضِ الطَّرِیقِ، قَالَ لَهُ أَبُو جَهْلٍ: یَا بن أَخِی، وَاَللَّهِ لَقَدْ اسْتَغْلَظْتُ بَعِیرِی هَذَا، أَفَلَا تُعْقِبَنِی عَلَى نَاقَتِكَ هَذِهِ؟ قَالَ: بَلَى،قَالَ: فَأَنَاخَ، وَأَنَاخَا لِیَتَحَوَّلَ عَلَیْهَا، فَلَمَّا اسْتَوَوْا بِالْأَرْضِ عَدَوْا عَلَیْهِ، فَأَوْثَقَاهُ وَرَبَطَاهُ، ثُمَّ دَخَلَا بِهِ مَكَّةَ، وَفَتَنَاهُ فَافْتُتِن أَنَّهُمَا حَیْنَ دَخَلَا بِهِ مَكَّةَ دَخَلَا بِهِ نَهَارًا مُوثَقًا، ثُمَّ قَالَا: یَا أَهْلَ مَكَّةَ، هَكَذَا فَافْعَلُوا بِسُفَهَائِكُمْ، كَمَا فَعَلْنَا بِسَفِیهِنَا هَذَا

جب یہ لوگ کچھ راستہ طے کرچکے توابوجہل نے عیاش رضی اللہ عنہ سے کہااے بھائی دیکھنا میرااونٹ ٹھک گیاہے اگرتم چاہوتواپنی اونٹنی پرمجھے بھی بٹھالو،عیاش رضی اللہ عنہ بالکل سیدھے سادھے تھے اوران کی سمجھ میں آگیااورانہوں نے کہابہت اچھا،پھرانہوں نے اپنی اونٹنی کو ٹھیرایا اوریہ دونوں بھی اپنے اونٹوں پرسے اترے اوریہ بھی اترے،ان دونوں نے موقعہ پاکر عیاش رضی اللہ عنہ بن ابی ربیعہ کی مشکیں کس لیں اورمکہ میں لے آئے اورجوکوئی ملتااس سے کہتے کہ دیکھوجس طرح سے ہم اپنے اس جاہل کوگرفتارکرکے لائے ہیں تم بھی اپنے جاہلوں کوگرفتارکرلاؤاورپھران ظالموں نے عیاش رضی اللہ عنہ کوگھرمیں قیدکرلیا اور انہیں مختلف تکلیفیں پہنچاتے رہے۔[21]

أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ، وَهُوَ بِالْمَدِینَةِ: مَنْ لِی بِعَیَّاشِ بْنِ أَبِی رَبِیعَةَ، وَهِشَامِ بْنِ الْعَاصِی؟فَقَالَ الْوَلِیدُ بْنُ الْوَلِیدِ بْنِ الْمُغِیرَةِ: أَنَا لَكَ یَا رَسُولَ اللَّهِ بِهِمَافَخَرَجَ إلَى مَكَّةَ، فَقَدِمَهَا مُسْتَخْفِیًافَلَقِیَ امْرَأَةً تَحْمِلُ طَعَامًا، فَقَالَ لَهَا: أَیْنَ تُرِیدِینَ یَا أَمَةَ اللَّهِ؟قَالَتْ: أُرِیدُ هَذَیْنِ الْمَحْبُوسَیْنِ تَعْنِیهِمَا فَتَبِعَهَا حَتَّى عَرَفَ مَوْضِعَهُمَاوَكَانَا مَحْبُوسَیْنِ فِی بَیْتٍ لَا سَقْفَ لَهُ، فَلَمَّا أَمْسَى تَسَوَّرَ عَلَیْهِمَا، ثُمَّ أَخَذَ مَرْوَةَ فَوَضَعَهَا تَحْتَ قَیْدَیْهِمَا، ثُمَّ ضَرَبَهُمَا بِسَیْفِهِ فَقَطَعَهُمَا، فَكَانَ یُقَالُ لِسَیْفِهِ:ذُو الْمَرْوَةِ لِذَلِكَ، ثُمَّ حَمَلَهُمَا عَلَى بَعِیرِهِ، وَسَاقَ بِهِمَا، فَعَثَرَ فَدَمِیَتْ أُصْبُعُهُ

جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ میں جلوہ افروزہوئے توفرمایاایساکون بہادرہے جوعیاش بن ابی ربیعہ اورہشام بن عاص کومیرے پاس لے آئے ؟ولید رضی اللہ عنہ بن الولیدبن مغیرہ نے عرض کیااے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم ! غلام حاضرہے،چنانچہ ولیداسی وقت مکہ مکرمہ روانہ ہوئے اورپوشیدہ طورپروہاں پہنچے،ایک عورت کودیکھاکہ کھانا سر پر رکھے ہوئے چلی جارہی ہے ،ولیدنے پوچھااے اللہ کی بندی توکہاں جارہی ہے؟ اس نے کہاان دونوں قیدیوں کوکھاناکھلانے جارہی ہوں ،یہ بھی اس عورت کے پیچھے ہوگئے اوراس کے ساتھ جاکروہ مکان دیکھ کرآئے جہاں یہ دونوں قیدتھے اوراس مکان کی چھت نہ تھی صرف ایک احاطہ تھاجس کادروازہ مقفل رہتاتھا،پھررات کوولیددیوارپرچڑھ کراس مکان کے اندرگئے اوران دونوں کی زنجیرکے نیچے ایک پتھررکھ کراپنی تلوارسے ضرب لگائی کہ زنجیرکٹ گئی ،پھران کوباہرلاکراپنے اونٹ پرسوارکیااوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پہنچادیا[22]

قریش کا مسلمانوں کے ساتھ یہی انداز اوربرتاو رہا، بد قسمتی سے جوبھی ان کے ہاتھ لگ جاتا اسے بڑی بے دردی سے پیس کررکھ دیاجاتا بالآخروہ تڑپ تڑپ کردم توڑدیتا،اس طرح کتنی ہی عورتیں بیوہ ہوگئیں اور کتنے ہی بچے یتیم ہو گئے، اتناظلم وستم کرنے پربھی ان کو اطمینان نہ تھاوہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے سخت فکرمندتھے،وہ خودبھی سوچتے اورجس سے ملتے اس سے بھی یہی سوال کرتے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ساتھیوں کو تومدینہ طیبہ بھیج دیا لیکن کیا وہ خودبھی وہاں چلاجائے گاکہیں ایساتو نہیں وہ خودیہاں رہے اوراس کے ساتھی سکون کے ساتھ مدینہ منورہ میں رہیں ،ہجرت حبشہ میں بھی ایساہی ہوا تھا؟قریش کے دل ودماغ پریہی سوالات چھائے ہوئے تھے ،وہ بڑی بے تابی سے چہ میگوئیاں کررہے تھے لیکن ہوگاکیااس سے بے خبر تھے، قریش صرف چہ میگوئیاں ہی کر کے نہیں رہ گئے بلکہ برابر فکر مند رہے اورمسلسل سوچتے رہے کہ محمد( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے مقابلہ میں کونسی انوکھی چال چلی جائے ،کون سی تیر بہدف تدبیرکی جائے کہیں ایسانہ ہو اپنے ساتھیوں کی طرح وہ بھی ہاتھ سے نکل جائے ،اس کے ساتھی توپہلے ہی مدینہ پہنچ چکے ہیں اور سارامدینہ بھی اس کا وفادار اور جانثار ہے ، اگرمحمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) ہاتھ سے نکل گیا تو بڑی ہی آفت برپاہو جائے گی وہ ان کے ہمراہ ہم پرچڑھائی کردے گا،ایسی باتیں سوچ کروہ خود ہی خوفزدہ ہو جاتے۔

وَكَانَ أَبُو بَكْرٍ كَثِیرًا مَا یَسْتَأْذِنُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فِی الْهِجْرَةِ، فَیَقُولُ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: لَا تَعْجَلْ لَعَلَّ اللَّهَ یَجْعَلُ لَكَ صَاحِبًا،قَدْ طَمِعَ بِأَنْ یَكُونَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، إنَّمَا یَعْنِی نَفْسَهُ

آخرمیں سیدنا ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضرہوئے اورہجرت مدینہ کی اجازت چاہی،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایاجلدی نہ کروشایداللہ کوئی ساتھی دے دے، سیدناابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ اس تمناسے ٹھیرجاتےکہ شایدوہ ساتھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی ہوں اورسفر کی تیاریوں میں لگ گئے۔[23]

عَنْ عَلِیٍّ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لِجِبْرِیلَ عَلَیْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ:مَنْ یُهَاجِرُ مَعِی؟ قَالَ: أَبُو بَكْرٍ الصِّدِّیقُ

سیدناعلی رضی اللہ عنہ سے مروی ہےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جبریل علیہ السلام سے پوچھامیرے ساتھ کون ہجرت کرے گا؟انہوں نے جواب دیاابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ ۔[24]

وَأَقَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بِمَكَّةَ یَنْتَظِرُ أَنْ یَأْذَنَ لَهُ رَبُّهُ فِی الْخُرُوجِ مِنْ مَكَّةَ وَالْهِجْرَةِ إِلَى الْمَدِینَةِ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جو ظالموں کا اصل نشانہ تھے مکہ معظمہ میں اپنے لئے حکم الہٰی کا انتظارفرمارہے تھے،ان کی خواہش تھی کہ جیسے ہی رب کی اجازت ملے مکہ کوخیرباد کہہ کرمدینہ منورہ میں اپنے مخلص ساتھیوں سے جاملیں ۔[25]

وہ مخلص ساتھی جنہوں نے اللہ کے لئے اپناوطن ، مال ودولت،اولاد اور عزیز و اقارب چھوڑے تھے اورنجانے کن کن نعمتوں سے ہاتھ دھوئے تھے اورکیسی کیسی چیزوں پر صبرکیا تھا اور انصار کے پاس جا پہنچیں جنہوں نے آپ کی حفاظت کی خدمات پیش کی تھیں ،جنہوں نے دست مبارک میں ہاتھ دے کرراہ اللہ سرفروشی کاعہدکیاتھا ۔

[1] التاریخ الكبیر المعروف بتاریخ ابن أبی خیثمة – السفر الثانی۲۳۵؍۱

[2] ابن سعد۴۴۸؍۳

[3] مسند احمد ۱۷۴۷۳، اسد الغابة ۳۳۹؍۲،تھذیب الکمال فی اسماء الرجال۵۰۸؍۹،معجم الصحابة للبغوی ۴۹۷؍۲، معرفة الصحابة لابی نعیم ۱۲۰۵؍۳، طبقات الحنابلة۳۷۱؍۱،التاریخ الكبیر المعروف بتاریخ ابن أبی خیثمة – السفر الثانی۲۳۵؍۱

[4] ابن سعد ۶۷۳؍۱

[5] ابن سعد۴۴۸؍۳

[6] ابن سعد۹۹؍۶

[7] ابن سعد

[8] صحیح بخاری کتاب المناقب بَابُ عَلاَمَاتِ النُّبُوَّةِ فِی الإِسْلاَمِ ۳۶۲۲،صحیح مسلم کتاب الرویا بَابُ رُؤْیَا النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عن ابی موسیٰ ۵۹۳۴

[9] صحیح بخاری کتاب مَنَاقِبِ الأَنْصَارِبَابُ هِجْرَةِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَأَصْحَابِهِ إِلَى المَدِینَةِ۳۹۰۵

[10] شرح الزرقانی علی المواھب۸۹؍۲

[11]صحیح بخاری کتاب الوحی كَیْفَ كَانَ بَدْءُ الوَحْیِ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ؟  ۱

[12] صحیح بخاری کتاب تفسیرالقرآن سُورَةُ سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الأَعْلَى۴۹۴۱

[13] صحیح بخاری کتاب مناقب الانصاربَابُ هِجْرَةِ الحَبَشَةِ عن عائشہ

[14] البدایة والنہایة ۲۰۷؍۳ ،ابن ہشام۴۶۹؍۱،الروض الانف۱۰۲؍۴، السیرة النبویة لابن کثیر۲۱۶؍۲،سُبُل السَّلام مِن صَحیح سیرة خَیر الأنَامِ عَلیه الصَّلاة وَالسَّلام۲۱۴؍۱، الصَّحیِحُ من أحادیث السّیرة النبویة۱۳۸؍۱

[15] البدایة والنہایة۲۰۷؍۳

[16] ابن ہشام۴۷۱؍۱

[17] البدایة والنہایة۲۰۸؍۳

[18] البدایة والنہایة۲۱۲؍۳،ابن سعد۱۷۱؍۳

[19] البدایة والنہایة۲۱۲؍۳

[20] المعالم الأثیرة فی السنة والسیرة۷۲؍۱

[21] ابن ہشام۴۷۵؍۱

[22]۔ابن ہشام۴۷۶؍۱

[23] ابن ہشام ۴۸۴؍۱،الروض الانف۱۲۸؍۴

[24] مستدرک حاکم۴۲۶۶

[25] السیرة النبویة لابن کثیر۲۱۵؍۲

Related Articles