بعثت نبوی کا تیرهواں سال

قصہ ام معبد

ام معبدکی داستان کچھ یوں ہے۔

لَمَّا هَاجَرَ مِنْ مَكَّةَ إِلَى الْمَدِینَةِ هُوَ وَأَبُو بَكْرٍ وَعَامِرُ بْنُ فُهَیْرَةَ مَوْلَى أَبِی بَكْرٍ. وَدَلِیلُهُمْ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أُرَیْقِطٍ اللَّیْثِیُّ. فَمَرُّوا بِخَیْمَتَیْ أُمِّ مَعْبَدٍ الْخُزَاعِیَّةِ. وَكَانَتِ امْرَأَةً جَلْدَةً. بَرْزَةً. تَحْتَبِی وَتَقْعُدُ بِفِنَاءِ الْخَیْمَةِ. ثُمَّ تَسْقِی وَتُطْعِمُ،فَسَأَلُوهَا تَمْرًا أَوْ لَحْمًا یَشْتَرُونَ. فَلَمْ یُصِیبُوا عِنْدَهَا شَیْئًا مِنْ ذَلِكَ. وَإِذَا الْقَوْمُ مُرْمِلُونَ مُسْنِتُونَ، فَقَالَتْ: وَاللَّهِ لَوْ كَانَ عِنْدَنَا شَیْءٌ مَا أَعْوَزَكُمُ الْقِرَى

جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےمکہ مدینہ ہجرت فرمائی توآپ صلی اللہ علیہ وسلم اورسیدناابوبکر رضی اللہ عنہ اورمولائے ابوبکرعامربن فہیرہ تھے،اوران کے رہبرعبداللہ بن اریقط تھے،یہ حضرات ام معبدخزاعیہ کے خیمہ پرگزرے تووہ قوی ودلیرتھیں ،وہ اپنے خیمے کے آگے میدان میں چادراوڑھ کے بیٹھی رہتی تھیں اور مسافروں کوکھلاتی پلاتی تھیں ،چنانچہ ان حضرات نے ان سے بہ قیمت کھجوریاگوشت کودریافت کیامگران میں سے کوئی چیزبھی ان کے پاس نہ پائی ،اتفاق سے زادراہ ختم ہوچکاتھااوریہ سب قحط کی حالت میں تھے،ام معبدنے کہا واللہ اگرہمارے پاس کچھ ہوتاتومیں آپ کی مہمانداری کرتی اورآپ کوکسی کامحتاج نہ کرتی،

فَنَظَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ إلى شَاةٍ فِی كَسْرِ الْخَیْمَةِ فَقَالَ: مَا هَذِهِ الشَّاةُ یَا أُمَّ مَعْبَدٍ؟ قَالَتْ: هَذِهِ شَاةٌ خَلَّفَهَا الْجَهْدُ عَنِ الْغَنَمِ ، فَقَالَ: هَلْ بِهَا مِنْ لَبَنٍ؟ قَالَتْ: هِیَ أَجْهَدُ مِنْ ذَلِكَ، قَالَ: أَتَأْذَنِینَ لِی أَنْ أَحْلِبَهَا؟ قَالَتْ: نَعَمْ بِأَبِی أَنْتَ وَأُمِّی. إِنْ رَأَیْتَ بِهَا حَلْبًا! فَدَعَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بالشاة فمسح ضرعها وذكر اللَّهِ وَقَالَ: اللَّهُمَّ بَارِكْ لَهَا فِی شَاتِهَا!اقَالَ: فَتَفَاجَتْ وَدَرَّتْ وَاجْتَرَّتْ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوخیمہ کے ایک گوشہ میں ایک بکری نظرآئی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھاام معبدیہ بکری کیسی ہے ؟اس نے کہایہ لاغری کے سبب بکریوں کے ساتھ نہ جاسکی،پھرفرمایاکہ کیایہ کچھ دودھ بھی دیتی ہے؟ام معبدنے جواب دیایہ دودھ سے معذورہے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایاکہ مجھے اس کادودھ دوہنے کی اجازت ہے؟ عرض کی میرے ماں باپ قربان اگراس کے دودھ ہوتودوھ لیجئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بسم اللہ کہہ کرتھن پر ہاتھ پھیرا اورفرمایاکہ اے اللہ! ام معبدکوان کی بکری سے برکت دے ،بکری نے ٹانگیں پھیلادیں اورکثرت سے دودھ دیااورفرمانبردارہوگئی،

فَدَعَا بِإِنَاءٍ لَهَا یربض الرهط فحلب فیه ثجا حتى غلبه الثُّمَالِ فَسَقَاهَا فَشَرِبَتْ حَتَّى رَوَیَتْ وَسَقَى أَصْحَابَهُ حَتَّى رَوَوْا وَشَرِبَ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ آخِرَهُمْ وَقَالَ: سَاقِی الْقَوْمِ آخِرُهُمْ، فَشَرِبُوا جَمِیعًا عَلَلا بَعْدَ نَهَلٍ حَتَّى أَرَاضُوا ثُمَّ حَلَبَ فِیهِ ثَانِیًا عَوْدًا عَلَى بَدْءٍ فَغَادَرَهُ عِنْدَهَا ثُمَّ ارْتَحُلُوا عَنْهَا، فَقَلَّمَا لَبَثَتْ أَنْ جَاءَ زوجها أبو معبد یسوق أعنزا حیلا عِجَافٌا هَزْلَى مَا تُسَاوَقُ. مُخُّهُنَّ قَلِیلٌ لا نِقْیَ بِهِنَّ. فَلَمَّا رَأَى اللَّبَنَ عَجِبَ وَقَالَ: مِنْ أَیْنَ لَكُمْ هَذَا وَالشَّاةُ عَازِبَةٌ وَلا حَلُوبَةَ فِی الْبَیْتِ؟ قَالَتْ: لا وَاللَّهِ إِلا أَنَّهُ مَرَّ بِنَا رَجُلٌ مُبَارَكٌ كَانَ مِنْ حدیثه كیت وكیت

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کاوہ برتن مانگاجوساری قوم کوسیراب کردے،اس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دودھ کوسیلاب کی طرح دوہایہاں تک کہ کف اس کے اوپرآگیا،ام معبدنے دودھ پیایہاں تک کہ وہ بھی سیراب ہوگئیں اورآپ نے اپنے صحابہ کوپلایاوہ بھی سیراب ہوگئے سب سے آخرمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی نوش فرمایاکہ قوم کے ساقی کوسب سے آخرمیں پینا چاہیے،سب نے ایک بارپینے کے بعددوبارہ پیااورسب سیراب ہوگئے،پھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے ابتدائی طریقہ پردوبارہ دوہااوراس کوام معبدکے پاس چھوڑدیااور قافلہ نبوی آگے روانہ ہوا،کچھ ہی دیر کے بعد ابومعبداپنی بکریاں ہنکاتے ہوئے آگیا، گھرمیں دودھ رکھاہوادیکھاتوتعجب سے پوچھایہ دودھ کہاں سے آیا؟بکریاں توسب میرے ساتھ تھیں اورگھرمیں کوئی دودھ والی بکری نہ تھی،ام معبدنے کہاواللہ اس کے سواکچھ نہیں ہواکہ ہمارے پاس ایک بابرکت بزرگ گزرے جن کی یہ باتیں تھیں ،

قال: والله لأَرَاهُ صَاحِبَ قُرَیْشٍ الَّذِی یُطْلَبُ، صِفِیهِ لِی یَا أُمَّ مَعْبَدٍ، قَالَتْ: رَأَیْتُ رَجُلا ظَاهِرَ الْوَضَاءَةِ. مُتَبَلِّجَ الْوَجْهِ. حَسَنَ الْخُلُقِ. لَمْ تَعِبْهُ ثَجْلَةٌ وَلَمْ تُزْرِ بِهِ صَعْلَةٌ. وَسِیمٌ قَسِیمٌ. فِی عَیْنَیْهِ دَعَجٌ. وَفِی أَشْفَارِهِ وَطْفٌ. وَفِی صَوْتِهِ صَحَلٌ. أَحْوَرُ أَكْحَلُ أَزَجُّ أَقْرَنُ. شَدِیدُ سَوَّادِ الشَّعْرِ. فِی عُنُقِهِ سَطَعٌ. وَفِی لِحْیَتِهِ كَثَافَةٌ. إِذَا صَمَتَ فَعَلَیْهِ الْوَقَارُ. وَإِذَا تَكَلَّمَ سَمَا وَعَلاهُ الْبَهَاءُ وَكَأَنَّ مَنْطِقَهُ خَرَزَاتُ نَظْمٍ یَتَحَدَّرْنَ. حُلْوُ الْمِنْطَقِ. فَصْلٌ. لا نَزْرَ وَلا هَذْرَ. أَجْهَرُ النَّاسِ وَأَجْمَلُهُ مِنْ بَعِیدٍ.وَأَحْلاهُ وَأَحْسَنَهُ مِنْ قَرِیبٍ. رَبْعَةٌ لا تَشْنَؤُهُ مِنْ طُولٍ وَلا تَقْتَحِمُهُ عَیْنٌ مِنْ قِصَرٍ. غُصْنٌ بَیْنَ غُصْنَیْنِ. فَهُوَ أَنْضَرُ الثَّلاثَةِ مَنْظَرًا. وَأَحْسَنُهُمْ قَدْرًا. لَهُ رُفَقَاءُ یَحُفُّونَ بِهِ. إِذَا قَالَ اسْتَمَعُوا لِقَوْلِهِ. وَإِذَا أَمَرَ تَبَادَرُوا إِلَى أَمْرِهِ. مَحْفُودٌ مَحْشُودٌ. لا عَابِثَ وَلا مُفَنِّدَ

ابومعبدنے کہاکہ میں انہیں قریش کاوہی ساتھی خیال کرتاہوں جن کی تلاش کی جارہی ہے،ابومعبدنے کہااے ام معبد!ذرا اس شخص کی شکل وصورت توبیان کرو؟ام معبدنے کہامیں نے ایک ایسے شخص کودیکھاجن کی صفائی وپاکیزگی بہت صاف اورکھلی ہوئی ہے،وہ ایک خوبصورت اورپاکیزہ اخلاق انسان تھا،جس کوبڑی توندنے عیب نہیں لگایاتھااورنہ گنجے سرنے اس کوحقیربنایاتھا،اس کی گردن چاندی کی صراحی جیسی تھی ، خوبصورت اور قد آور تھا،اس کی آنکھیں موٹی موٹی تھیں اورپلکیں لمبی اورگھنی تھیں ،آوازگرجدارتھی ،آنکھوں کاسفیدحصہ بہت سفیداورسیاہ حصہ بہت سیاہ تھا،سرمگیں آنکھیں ، لمبے ابرو اورسر کے بال سیاہ اوردرازتھے ،گردن چمکداراورداڑھی بھاری تھی ،جب خاموش ہوتے توان پروقارچھاجاتاہےاورجب ہنستے ہیں توحسن کاغلبہ ہوتاہے،گفتگوایسی جیسے منہ سے موتی جھڑرہے ہوں ،قول فیصل کہنے والے ہیں ،ایسے کم گونہیں جس سے مقصدادانہ ہواورنہ فضول گوہیں ، دورسے دیکھوتوسب سے زیادہ بارعب وحسین ہیں قریب سے سب سے زیادہ شیریں گفتاروجمیل ہیں ایسے متوسط اندام ہیں تم درازی قدکاعیب نہ لگاؤگے اورنہ کوئی آنکھ کوتاہ قدہونے کی وجہ سے انہیں حقیرجانے گی وہ دوشاخوں کے درمیان ایک شاخ تھے ،دیکھنے میں وہ تینوں میں سب سے زیادہ بارونق اورمقدارمیں حسین تھے،ان کے رفقاء ایسے تھے جوکہ انہیں گھیرے ہوئے تھے،جب وہ کچھ فرماتے تولوگ اچھی طرح آپ کاکلام سنتے تھے ،اگرکوئی حکم دیتے تھے توفوراًحکم بجالاتے ،اوروہ ایسےمخدوم تھے جس کی مجلس ہروقت بھری رہتی ہے ،وہ ترش روتھے اورنہ زیادہ گوتھے

قَالَ:هَذَا وَاللَّهِ صَاحِبُ قُرَیْشٍ الَّذِی ذُكِرَ لَنَا مِنْ أَمْرِهِ مَا ذُكِرَ. وَلَوْ كُنْتُ وَافَقْتُهُ یَا أُمَّ مَعْبَدٍ لالْتَمَسْتُ أَنْ أَصْحَبَهُ. وَلأَفْعَلَنَّ إِنْ وَجَدْتُ إِلَى ذَلِكَ سَبِیلا

ابومعبد نے کہایہ تواللہ کی قسم قریش والاآدمی معلوم ہوتاہے جس کاکچھ حال میں سن چکاہوں ،اے ام معبد!اگرمیں ان کے وقت میں آجاتاتوضروردرخواست کرتاکہ میں آپ کی صحبت میں رہوں ،اگرتم اس کاموقعہ پاناتوضرورایساکرنا۔[1]

لَمَّا خَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَأَبُو بَكْرٍ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، أَتَانَا نَفَرٌ مِنْ قُرَیْشٍ، فِیهِمْ أَبُو جَهْلِ ابْن هِشَامٍ، فَوَقَفُوا عَلَى بَابِ أَبِی بَكْرٍ، فَخَرَجْتُ إلَیْهِمْ ،فَقَالُوا: أَیْنَ أَبُوكَ یَا بِنْتَ أَبِی بَكْرٍ؟قَالَتْ: قُلْتُ: لَا أَدْرِی وَاَللَّهِ أَیْنَ أَبِی؟قَالَتْ: فَرَفَعَ أَبُو جَهْلٍ یَدَهُ، وَكَانَ فَاحِشًا خَبِیثًا، فَلَطَمَ خَدِّی لَطْمَةً طُرِحَ مِنْهَا قُرْطِی، قَالَتْ: ثُمَّ انْصَرَفُوا

اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہما بیان کرتی ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اورسیدناابوبکر رضی اللہ عنہ کے جانے کے بعدقریش کے کچھ لوگ جن میں ابوجہل بن ہشام بھی تھاہمارے ہاں آئے اوردروازے پر کھڑے ہوگئے، ان کے دستک دینے پرباہرنکلی، توانہوں نے پوچھااے ابوبکر رضی اللہ عنہ کی بیٹی! تیراباپ کہاں ہے ؟میں نے کہاواللہ!میں نہیں جانتی کہ میراباپ کہاں ہے ؟اس پرابوجہل نے جو بہت ہی خبیث اوردرشت خوانسان تھامیرے گال پر اس زورکاطمانچہ ماراکہ میرے کان سے بالی نکل کر دورجاپڑی،اس کے بعدوہ واپس چلے گئے،

فَمَكَثْنَا ثَلَاثَ لَیَالٍ. وَمَا نَدْرِی أَیْنَ وَجْهُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ ، حَتَّى أَقْبَلَ رَجُلٌ مِنْ الْجِنِّ مِنْ أَسْفَلِ مَكَّةَ، یَتَغَنَّى بِأَبْیَاتٍ مِنْ شَعَرِ غِنَاءِ الْعَرَبِ، وَإِنَّ النَّاسَ لَیَتْبَعُونَهُ، یَسْمَعُونَ صَوْتَهُ وَمَا یَرَوْنَهُ، حَتَّى خَرَجَ مِنْ أَعَلَى مَكَّةَ وَهُوَ یَقُولُ

تین دن تک ہمیں کچھ خبر نہیں ملی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کہاں گئے حتی کہ مکہ کی نچلی طرف سے ایک آدمی آیاجویہ شعر پڑھتاتھا،لوگ اس کے پیچھے پیچھے تھےاس کی آوازسنتے تھے لیکن وہ خودنظرنہیں آتاتھا،ان اشعارمیں ام معبدکے واقعہ کابیان تھااس طرح وہ ان اشعارکوگاتاہوامکہ اعلیٰ سے گزرگیا۔

جَزَى الله رب الناس خیر جزائه ، رفیقین حلا خَیْمَتَیْ أُمِّ مَعْبَدِ

اللہ ان دونوں ساتھیوں کوبہترین جزاء دے، جنہوں نے کہاکہ ام معبدکے خیموں کوچلو۔

هُمَا نَزَلاهَا بِالْهُدَى وَاغْتَدَوْا بِهِ ، فَأَفْلَحَ مَنْ أَمْسَى رَفِیقَ مُحَمَّدِ

وہ دونوں ہدایت لے کروہاں اترپڑے اورجارہے     اورجس شخص نے محمدکی رفاقت اختیارکی تھی وہ کامیاب ہوگیا

لِیَهْنَ بَنِی كَعْبٍ مَكَانُ فَتَاتِهِمْ ،وَمَقْعَدُهَا لِلْمُؤْمِنِینَ بِمَرْصَدِ

بنوکعب کومبارک ہوکہ ان کے جواں مرد،مومنین کی حفاظت کے لئے گھات میں بیٹھے ہیں ۔

فَلَمَّا سَمِعْنَا قَوْلَهُ، عَرَفْنَا حَیْثُ وَجْهُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، وَأَنَّ وَجْهَهُ إلَى الْمَدِینَةِ،وَكَانُوا أَرْبَعَةً: رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، وَأَبُو بَكْرٍ الصِّدِّیقُ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، وَعَامِرُ ابْن فُهَیْرَةَ مَوْلَى أَبِی بَكْرٍ، وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَرْقَطَ دَلِیلُهُمَا،قَالَ ابْنُ هِشَامٍ: وَیُقَالُ: عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أُرَیْقِطٍ

ان اشعارسے ہمیں معلوم ہوگیاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ تشریف لے گئے ہیں ،اس سفرمیں یہ چارافرادتھے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ، سیدناابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ ، عامربن فہیرہ رضی اللہ عنہ اوران کارہبرعبداللہ بن ارقط، مگرابن ہشام کہتے ہیں ان کانام عبداللہ بن اریقط تھا۔[2]

حسان رضی اللہ عنہ نے جب ہاتف کی یہ آوازسنی توان اشعارکے جواب میں اشعارکہے ،یہ جوابی اشعاربھی روایت میں مذکورہیں ۔

سیدسلیمان ندوی اس روایت کی اسناد پریوں تبصرہ کرتے ہیں ۔

یہ روایت بغوی،ابن شاہین،ابن سکن،ابن مندہ،ابونعیم،طبرانی،بیہقی اورمستدرک حاکم میں ام معبدکے بھائی جیش بن خالدکی زبانی منقول ہے ،حاکم رحمہ اللہ نے نہ صرف یہ کہ اسے صحیح کہا ہے بلکہ اوردیگرطریقوں سے اسے ثابت کرنے کی کوشش بھی کی ہےمگرحاکم رحمہ اللہ کے صحیح کہنے کی علماء کی نگاہ میں کوئی قدروقیمت نہیں ،چنانچہ حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے اس روایت پر تنقید کرتے ہوئے تصریح کردی ہے کہ ان میں سے کوئی طریقہ سندصحیح کی شرائط کے مطابق نہیں ،حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے مجملاًاس قدرلکھاہے مگرواقعہ یہ ہے کہ یہ روایت حاکم کے علاوہ اور کتابوں میں بھی سلسلہ سندسے مذکورہے اوروہ یہ ہے کہ حزام اپنے باپ ہشام سے اورہشام اپنے باپ جیش بن خالدخزاعی سے ناقل ہیں ،حزام مجہول ہے ،جیش بن خالد سے صرف یہی ایک روایت کتب حدیث میں مذکورہے ،جیش اصل واقعہ کے وقت موجودنہ تھےمعلوم نہیں انہوں نے کس سے سنااس لئے اگریہ روایت ثابت بھی ہو تو مرسل ہے ،حاکم نے دوطریقوں سے اس واقعہ کونقل کیاہے ایک ان ہی حزام اورہشام بن جیش کے زریعہ سے اوردوسرے حربن صباح سے اوروہ ام معبدکے شوہر ابومعبدسے راوی ہیں ، پہلے طریقہ میں حاکم نے یہ کمال کیاہے کہ جیش کے بجائے اس کے بیٹے ہشام بن جیش کواصل راوی اورصحابی قراردے دیاظاہرہے کہ اس طریق سے روایت کا ارسال اور بڑھ گیا(یعنی اب درمیان سے دوراوی چھوٹ گئے)ہشام کاصحابی ہوناثابت نہیں ۔

دوسرے طریقہ میں حربن صباح گوثقہ ہیں مگرابومعبدسے ان کی سماعت ثابت نہیں ، چنانچہ ابن حجرنے تہذیب میں لکھاہے

حر بن الصباح أرسل عن أبی معبد

حربن صباح ام معبدسے مرسل روایتیں کرتے ہیں (یعنی درمیان سے راوی غائب کردیتے ہیں )۔[3]

یہ توان تمام روایتوں کے اوپرکے راویوں کاحال ہے ،نیچے کے راویوں میں اکثرمجہول لوگ ہیں ،حربن صباح والی روایت میں نیچے ایک شخص بشیربن محمد سکری ہے،

منكر الحدیث قاله الأزدی

جس کوابوالفتح ازدی نے منکر الحدیث کہا ہے۔[4]

ابونعیم نے دلائل میں ایک اورصحابی سلیط ابوسلیمان انصاری بدری سے اس کی روایت کی ہے ،سلیط سے ان کے بیٹے سلیمان اوران سے ان کے بیٹے محمدبن سلیمان بن سلیط انصاری روایت کرتے ہیں لیکن ان سلیط کانام صرف اسی روایت کی روسے بعض مؤلفین سیرصحابہ نے ،صحابہ میں داخل کرلیاورنہ ان کاکوئی حال ہم کومعلوم نہیں ۔سلیط انصاری جوبدری صحابہ ہیں وہ سلیط بن قیس انصاری خزرجی ہیں ،ان کے بیٹے کانام عبداللہ تھاجس سے نسل چلی ،ان کی روایت سنن نسائی میں موجودہے مگر ابو سلیمان سلیط انصاری بدری سے اس کے علاوہ کوئی روایت موجودنہیں ،اسی لئے اسماء الرجال اورمؤلفین رجال صحابہ میں سے بعض نے ان کواورسلیط بن قیس انصاری کوایک سمجھا ہےاگرایساہے توسلیمان ان کے بیٹے اورمحمدان کے پوتے کاہرگزنام نہ تھا،اگریہ دوشخص ہیں تواصحاب بدرکے نام سب گنے ہوئے ہیں ،ان میں سلیط بن قیس رضی اللہ عنہ خزرجی کے سواکوئی دوسراسلیط نامی نہیں ،پھریہ مدینہ کے باشندہ تھے اورام معبدقبیلہ خزاعہ کی تھیں جومکہ اورمدینہ کے بیچ میں آبادتھا،معلوم نہیں کہ سلیط انصاری رضی اللہ عنہ نے کس سے سنا ، پھران کے بیٹے سلیمان اورپوتے محمدسے کوئی واقف نہیں ،حافظ ابن حجرلسان المیزان میں محمدبن سلیمان بن سلیط انصاری کے حال میں لکھتے ہیں

قال العقیلی مجهول بالنقل روى عن أبیه عن جده فذكر قصة أم معبد وعنه عبد العزیز ویحیى وهو واه انتهى وقال لیس هذا الطریق محفوظا فی حدیث أم معبد، قال ابن مندة: مجهول

عقیلی کہتے ہیں یہ نقل میں مجہول ہے ،یہ اپنے باپ کے ذریعہ داداسے نقل کرتاہے ،اس نے ام معبدکاقصہ ذکرکیاہے جوواہی ہے اورام معبدکے قصہ میں یہ سندمحفوظ نہیں ، ابن مندہ کہتے ہیں یہ مجہول ہے۔[5]

علاوہ ازیں ان روایتوں کے الفاظ ، ام معبداوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے باہم طرزتخاطب اوراشعارکی زبان اورابومعبدکی گفتگومیں ایک خاص قسم کی غرابت ہے جس کوناقدین حدیث اچھی طرح سمجھ سکتے ہیں ۔یہ بھی عجیب بات ہے کہ ہاتف غیب نے اشعارتومکہ میں لوگوں کوسنائے اورحسان رضی اللہ عنہ نے جوابھی مسلمان نہ ہوئے تھےمدینہ میں بیٹھے بیٹھے ان کاجواب دیا،ہجرت کے سال مکہ مکرمہ کے آس پاس قحط کاپڑنااورخشک سالی ہونابھی ثابت نہیں ،ہمیں حیرت تواس پرہے کہ ام معبدآپ صلی اللہ علیہ وسلم سے واقف بھی نہیں اورہربات بات پر پھر کہہ رہی ہے میرے ماں باپ آپ پرقربان اورآخرمیں اپنے خاوندکے سامنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے لاعلیمت کااظہارکررہی ہے۔یہ بھی تعجب انگیزہے کہ بقول راوی ابومعبدبکریاں خیمے میں چھوڑگیاتھا لیکن آگے کہتاہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کووہاں ایک دبلی بکری نظرآئی،آخربقیہ دبلی بکریاں کہاں غائب ہوگئی تھیں ، گویا اس راوی کواپنے جھوٹ میں اتنابھی ہوش نہیں کہ قصہ جمع سے شروع کیا تھا اورختم واحدپرہوابقیہ بکریوں کاکارنامہ بھی توسامنے آناچاہیے تھا۔راوی یہ بھی بیان کرتاہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اورسیدناابوبکر ابومعبدکے خیمے پرپہنچے حالانکہ ان دونوں حضرات کے ساتھ عامر رضی اللہ عنہ بن فہیرہ اوررہبربھی تھے وہ دونوں کہاں گئے کیاوہ دودھ کے محتاج نہ تھے؟

تاریخ ہجرت:

تواریخ ہجرت میں بہت اختلاف ہے ،امام حاکم رحمہ اللہ نے ذکرکیاہے

كَانَ بَیْنَ لَیْلَةِ الْعَقَبَةِ وَبَیْنَ مُهَاجَرِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ ثَلَاثَةُ أَشْهُرٍ، أَوْ قَرِیبًا مِنْهَاوَكَانَتْ بَیْعَةُ الْأَنْصَارِ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ لَیْلَةَ الْعَقَبَةِ فِی ذِی الْحِجَّةِ، وَقَدِمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ الْمَدِینَةَ فِی شَهْرِ رَبِیعٍ الْأَوَّلِ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیعت عقبہ سے تقریباًتین یاپورے تین ماہ بعدمکہ مکرمہ سے نکلے ذی الحجہ میں انصار نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پر بیعت کی تھی جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد ربیع الاول میں ہوئی ۔[6]

اور پیر کے دن مکہ مکرمہ سے نکلے اورپیرکے دن ہی مدینہ منورہ میں داخل ہوئے ۔

اموی نے اپنے مغازی میں ابن اسحاق سے نقل کیاہے کہ آپ مکہ مکرمہ سے بیعت عقبہ کے دومہینے اورکچھ راتیں بعدربیع الاول کی پہلی تاریخ کونکلے اوربارہ ربیع الاول کومدینہ منورہ پہنچے ۔

محمدبن موسیٰ خوارزمی نے لکھاہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ مکرمہ سے جمعرات کونکلے اورتین رات جمعہ ،ہفتہ اوراتوارکی رات غارثورمیں گزاری اور پیرکی آدھی رات وہاں سے مدینہ منورہ کی طرف سفرپرروانہ ہوئے۔

فَلَمَّا كَانَ الْیَوْمُ الَّذِی قَدِمَ فِیهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وهو یوم الاثْنَیْنِ لِلَیْلَتَیْنِ خَلَتَا مِنْ شَهْرِ رَبِیعٍ الأَوَّلِ وَیُقَالُ لاثْنَتَیْ عَشْرَةَ لَیْلَةً خَلَتْ مِنْ شَهْرِ رَبِیعٍ الأَوَّلِ

ابن سعدکہتے ہیں آپ دوربیع الاول شب دوشنبہ غار ثورسے روانہ ہوئے اوریہ بھی کہاجاتاہے کہ بارہ ربیع الاول دوشنبہ قبامیں پہنچے۔[7]

اگربارہ ربیع الاول کودوشنبہ ماناجائے جیساکہ ابن ہشام نے بھی کہاہے تو پھر چارربیع الاول کودوشنبہ نہیں بلکہ یک شنبہ آتاہے ہوسکتاہے کہ آپ یک شنبہ کادن گزارکردوشنبہ کی رات میں روانہ ہوئے ہوں ۔

علامہ شبلی نعمانی نے لکھاہے کہ آپ غارثورسے یکم ربیع الاول دوشنبہ کوروانہ ہوئے اورآٹھ ربیع الاول دوشنبہ کوقبامیں پہنچے۔[8]

مشرکین کی ہرطرح کی کوششوں کے باوجودرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کامکہ سے خیروعافیت سے نکل جاناقریش کی فیصلہ کن شکست تھی،اس نے قریشیوں کے تمام منصوبے خاک میں ملادئے اورانہیں مجبورکردیاکہ وہ مسلمانوں سے عہدہ برآ ہونے کے لئے اپنی پوری پالیسی کویکسرتبدیل کریں ،پہلے یہ مکہ مکرمہ کاداخلی معاملہ تھااورخاندان کی باہمی سیاست تک محدودتھااب اس کادائرہ وسیع ہوگیا،پہلے چندآدمیوں کوتیارکرنے کی ضرورت تھے اب یہ ناکافی تھا۔

[1] ابن سعد۱۷۷؍۱

[2] ابن ہشام۴۸۷؍۱،الروض الانف۱۳۹؍۴،عیون الآثر۲۱۸؍۱،تاریخ طبری۳۷۹؍۲، البدایة والنہایة۱۷۹؍۳

[3] تہذیب التہذیب۲۲۱؍۲

[4] لسان المیزان ۳۹؍۲

[5] لسان المیزان۱۹۰؍۵

[6] مستدرک حاکم ۴۲۵۲

[7] ابن سعد ۱۸۰؍۱

[8] سیرة النبی ﷺ ۱۸۴؍۱

Related Articles