مکہ: قبل از بعثتِ نبوی ﷺ

بہترین اوصاف

مگران میں تمام طرح کی برائیوں کے باوجودکچھ قابل قدراوصاف بھی موجودتھیں جودنیامیں اورکہیں موجودنہ تھیں اورتھوڑی سی کوشش سے انسانیت کی فلاح وبہبودکے لئے بہترین سرمایہ ثابت ہوسکتے تھے جیسے،

زمین کے وسط میں آبادتھے:

جزیرہ نماعرب کوایشیا،یورپ ،افریقہ اوراوقیانوس کے براعظموں میں ایک مرکزی حیثیت حاصل ہے ،یہی تین براعظم پرانی دنیاتھے ،اس کے باوجودآریوں ،یونانیوں اوردیگرفاتحین کے ریلے کے ریلے جزیرہ نماعرب میں داخل ہونے کے بجائے اس کے جھلسے ہوئے صحراکے آس پاس سے گزرگئے ،انہوں نے نہ تو عرب قوم کواہمیت دی اورنہ اس کے تپتے صحراکوکسی گنتی میں شمارکیا،جزیرہ نماعرب ایشیامیں ہوتے ہوئے بھی افریقہ اور یورپ سے بہت قریب ہے ،خاص کرمصر اور روماسے بھی مرکزیت تھی ،جوعرب کے مرکزمکہ مکرمہ کوناف زمین دینے کاموجب بنا،کیونکہ یہ شہرناف زمین پرآباد تینوں براعظموں کے وسط میں آبادہے توکسی عالمگیرتحریک وتبلیغ کے لئے اس سے بہترموزوں مرکزکوئی نہیں ہوسکتاتھایہی وجہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت دین کی مرکزیت کاسہرااسی شہرکے سر ہے ، اس وقت تجارت کے تین راستے تھے ، ایک راستہ توخشکی کاتھاجو ایران کی طرف سے عراق اورشام سے ہوتاہواجاتا تھادوسراخلیج کابحری راستہ تھا جس سے تمام تجارتی سامان عرب کے مشرقی سواحل پراترتا اور دومتہ الجندل یاتدمرسے ہوتاہواجاتاتھااورتیسرابحرہندکاراستہ تھااس راستہ سے آنے والاتمام سامان تجارت حضر موت اوریمن سے گزرتاتھا ، ان تینوں راستوں پرعرب ہی آبادتھے،اس صورت حال سے فائدہ اٹھاکر عرب کے تاجرحضرات سامان کی نقل وحمل کاکام بھی کرتے اورساتھ ساتھ سامان تجارت خریدکردوسری طرف فروخت بھی کردیتے،اس کے علاوہ جوقافلہ سامان تجارت لے کر ان کے علاقوں سے گزرتاان کواپنے علاقوں سے بحفاظت گزرنے کاذمہ لے کران پربھاری ٹیکس بھی لگاتے،ان تجارتی تعلقات کے ساتھ ساتھ اہل عرب کے اس وقت کی مہذب دنیاسے سیاسی اورثقافتی رابطے بھی تھے۔

آزادی :

یہ لوگ کسی ایک جگہ رہنے کے بجائے بدویانہ زندگی گزارتے اور صحراکی ہرطرح کی تکلیفیں اورسختیاں برداشت کرتے تھے ،مال ومویشی پالنا،چندعلاقوں میں کھیتی باڑی اور تجارت ان کا پیشہ تھاوہ اسی میں مگن تھے ،ان کے چاروں طرف بڑی بڑی حبشہ ،فار س اور روم کی حکومتیں تھیں جن کی کوشش تھی کہ کسی طرح زمین کے اس ٹکڑے پرقبضہ جمایا جائے مگریہ صدیوں سے ہمیشہ آزاد ہی رہے تھے جس سے ان میں خودسری، جرات ،شجاعت وغیرت اورپختگی عزم کا جوہرپیدا ہوگیا تھااس لئے جب وہ کسی کام کو انجام دینے پرتل جاتے تو اسے اپنی جان پرکھیل کربھی سرانجام دیتے ، وہ کسی بڑے حکمراں کو بھی خاطرمیں نہ لاتے اور نہ کسی سے مرعوب ہی ہوتے تھے ،ان کے لئے کسی کی اطاعت کرنے سے زیادہ دشوار کوئی اوربات نہ تھی،اس چیز نے ایک جذبہ کی حدسے گزرکران کی طبیعت ثانیہ کی حیثیت حاصل کرلی تھی جس کی وجہ سے وہ معمولی معمولی باتوں پرذلت واہانت کی بومحسوس کرکے فورا ًبھڑک اٹھتے اورخونریز جنگ شروع کر دیتے ،ان کے اکثراخلاقی محاسن کاسرچشمہ ان کی یہی چیزتھی، مگر کوئی انسانی حقوق یا زندگی گزارنے کاضابطہ نہ ہونے کی بناپریہ جوہر آپس کی بے فائدہ جنگوں ،قتل و غارت ،تجارتی قافلوں پرلوٹ مار،دشمنوں کوحبس بے جامیں رکھنے، یتیموں کی املاک پرناجائز تصرف ، دوسرے لوگوں یا قبیلوں میں بے جا مداخلت میں ضائع ہورہا تھا۔

بہترین زبان :

اسماعیل علیہ السلام نے عربی بنوجرہم سے سیکھی،یہ اعلیٰ درجے کی زبان بعدمیں پورے عرب کی زبان بن گئی ،جس میں فصاحت وبلاغت ، شیرینی اوربلند خیالات کو ادا کرنے کی غیر معمولی صلاحیت ہے جس کامقابلہ دنیاکی کوئی اور زبان نہیں کرسکتی قرآن کی زبان بن گئی،جس زبان میں ۱۴۰۰ سوسال گزرنے کے باوجودکوئی تغیر نہیں ہواجبکہ دوسری زبانیں یاتو مٹ گئیں یابالکل ہی بدل گئیں ،عربوں کواپنی زبان دانی پربڑانازتھازبان کے معاملے میں وہ اپنے مقابلہ میں سب کوگونگاسمجھتے تھے،مگر زبان کی ساری فصاحت و بلاغت صرف اپنی خودستائی اوردوسروں کی ہجو،تحقیراوراپنی محبوبہ کے فحش کارناموں کی تشہیر میں استعمال کرتے ،مگرجب قرآن جس کی فصاحت وبلاغت کی کوئی انتہاء نہیں انہی کی زبان میں نازل ہواتوعرب کے مشہور شعراء جواپنے کلام میں ماہرتھے اس کااندازبیاں ،قابل غوروفکر مضامین،گذشتہ اقوام کے عبرت انگیز واقعات اور مختصر ترین الفاظ میں جامع بیان سن کرکنگ ہوگئے اور چیلنج کے باوجود اس جیسی یک آیت تک نہ بناسکے،اورنہ اب تک بناسکے ہیں اورنہ ہی قیامت تک بناسکیں گے ۔

حسب و نسب :

اہل مکہ اسماعیل علیہ السلام کے بیٹے قیدارکی اولادمیں سے تھے ،اورایک محدودعلاقہ میں الگ تھلگ رہنے اورآپس میں شادی بیاہ کرنے کی وجہ سے ان کا نسب کھرااور خاندانی خصوصتیں موجودتھیں اس لئے وہ خودکو دوسروں کے حسب ونسب سے برتر سمجھتے اورنہ ہی کسی کواپنے حقوق کے برابرجانتے اوراس پر جان دیتے تھے،وہ اپنے آباء و اجداد کے سلسلہ وار نام اوران کے فضائل کوفرض سمجھ کریادرکھتے تھے ، اوران کے ہرقبیلہ میں قبائل کے نسبی تعلقات کویادرکھنے والے لوگ بھی موجود ہوتے تھے ، انہیں اردگرد کے قبائل کے بارے میں معلوم رہتاتھاکہ کون ایک آزادعورت سے پیداہواہے اورکون ایک کنیز باندی سے،کس شخص نے کس شریف عورت کادودھ پیاہے اور کس نے اس سے کم درجے کی عورت کادودھ پیاہے ،نسب کے معاملہ میں وہ اتنے حساس تھے کہ ایسے جانورتک نہیں پالتے تھے جن کا ان کو حسب ونسب معلوم نہ ہو ۔

مہمان نوازی :

مہمان نوازی عربوں کے بہترین خصائل میں سے رہی ہے ،بیت  اللّٰہ کی تعمیرکے بعدسے انہوں نے ہمیشہ اپنی کمائی میں سے ایک حصہ نکال کراپنے سردار کو پیش کیا تاکہ وہ حاجیوں کے لیے بغیرقیمت کھانے اورپانی کاانتظام کرے ،اس کے علاوہ اگرکسی شخص کے ہاں کوئی مہمان آجاتاتواس کی ضیافت لئے کے لئے اپنااکلوتا سالم اونٹ ، بھیڑ ، بکری ذبح کر ڈالتے تھے، اگرکوئی اس کی سکت نہ رکھتاتواپناسادہ ساکھانامہمان کوپیش کردیتا اورخودبیوی بچوں سمیت بھوکارہناپسند کرتا ،عربوں کے درسے کسی مہمان کا بھوکا چلا جاناعیب کی بات تھی،اسی جوش سخاوت میں وہ مالی ذمہ داریاں اوردیت کابوجھ ہنسی خوشی برداشت کرکے دوسروں کے مقابل فخرکرتے۔قدیم عرب میں یہ دستورتھاکہ اپنی طبعی فیاضی کے اقتضاء سے لوگ بلندپہاڑوں کی چوٹیوں پرآگ جلایاکرتے تھے تاکہ بھوکے لوگ آگ کی روشنی دیکھ کرادھرکارخ کریں اورانہیں کھانا کھلایا جائے ،اسی لحاظ سے شاعرنے بطورافتخارکہا۔

وإنْ یَلتَقِ الحَیُّ الجَمیعُ تُلاقِنی،إلى ذِرْوَةِ البَیتِ الرَّفیِعِ المُصمَّدِ

اوراگرساراقبیلہ جمع ہوتوبلنداورمصمدمکان کی چوٹی پرمجھ سے ملاقات کرسکے گا۔[1]

عہدکی پابندی:

اہل عرب عہدکے بڑے پابندتھے ،وہ جب کسی سے کوئی عہدکرتے تواسے ہرحال میں پوراکرتے اوراس راہ میں کسی چیزکی پرواہ نہ کرتے، عہد کاتوڑ دینا گویا انکی موت تھا۔

تہذیب وتمدن :

عرب میں چاروں طرف بڑی بڑی حکومتیں تھیں ،جنوبی عرب خصوصاًیمن میں تمدنی ترقی عروج پرتھی،شمالی علاقوں میں سرحدعراق پرحیرہ یعنی مناذرہ(آل لخم) کی حکومت تھی،جوایرانیوں کی طفیلی ریاست تھی ،یہ شہرتمدن کے ایک خاص معیارتک پہنچ گیاتھا،اورآراستگی اورخوبی میں دارالسلطنت ایران اورقسطنطنیہ کامقابلہ کرتاتھا، شام کی سرحدپرغساسنہ(آل جفنہ)کی حکومت رومیوں کے زیراثرقائم تھی،قحطان کی ایک شاخ کہلان کے عربوں کی یہ ایک نیم خودمختارحکومت تھی،جس کاپایہ تخت بصریٰ تھا،یہ بھی اپنے وقت کی خاصی متمدن حکومت تھی، ان ممالک میں ان کاآنا جانا تھا ، ان سے تجارتی مراسم اور معاہدات بھی تھے ، مگر اہل عرب جوبدویانہ نظام زندگی کے خوگر تھے نے ان سے لکھنا پڑھنا سیکھناپسندنہیں کیا اس لئے وہ علوم وفنون سے عاری اورتمدن کی آلائشوں سے ناواقف تھے ،اس لئے ان میں منافقانہ عادات واطورکے بجائے بدوی سادگی تھی ،جھوٹ اور مکرو فریب کے بجائے سچ بولناپسندکرتے ،اس لئے اگر آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مکی دورپرنظردوڑائیں توآپ کوکوئی شخص ایسا نظرنہیں آئے گاکہ جس نے منافقانہ اندازسے اسلام قبول کیا ہو یہ مرض تومدینہ منورہ میں یہودیوں کی خصلت تھی، اس لئے ان میں امانت ودیانت کے جوہرتھے ۔

قوت حافظہ وذکاوت :

عرب میں نہ توکوئی مدرسہ تھااورنہ ہی کوئی کتب خانہ اورنہ ہی لوگوں میں تعلیم کاچرچا تھا جس کی وجہ سے اتنی بڑی آبادی میں گنتی کے چندلوگ ہی برائے نام لکھناپڑھناجانتے تھے ، وہ اپنے تمام معاملات ،لین دین اورمختلف قبائل کے واقعات اپنے ذہن میں محفوظ رکھتے تھے اس لئے ان کی قوت حافظہ وذکاوت غیر معمولی طورپرتیزتھی وہ شعراء کے قبائلی تعصب میں ڈوبے، عشق ومحبت اورزن ومردکے اختلاط کے فحش کلام سن کر زبانی یادکر لیتے اوراسے دہرالیتے تھے ،اس لئے جیسے ہی قرآن مجیدنازل ہوناشروع ہوا ان کے اکثر لوگوں نے اس ذہنی قوت کے بل پربڑی بڑی سورتوں کویادکرلیاتھااورکئی ایسے بھی تھے جن کوپوراقرآن حفظ تھا۔

غیرت وخودداری:

غیرت اورخودداری عربوں کی فطرت کاخاص جوہررہی ہے ،اس لئے اپنی معمولی بے عزتی یاقتل کے انتقام یااپنے قبیلہ کے نام و ناموس کے لئے اپنی جان کی پرواہ نہیں کرتے تھے،وہ تو یہ بھی پسند نہیں کرتے تھے کہ ان کا گھوڑا فریق مخالف سے ہارجائے،جیساکہ عبس اور ذبیان قبائل کی سب سے مشہور لڑائی حرب داحس محض گھوڑدوڑ میں ایک گھوڑے کے آگے نکل جانے پر شروع ہوئی ، اس کاواقعہ یوں ہوا،گھوڑدوڑعربوں میں بڑی مقبول تھی اس میں عام طورپرتین یا سات گھوڑے دوڑتے جسے رہان کہتے تھے ، اور ان گھوڑوں پربڑی بڑی بازیاں لگتیں ،

عَبْسٍ الْعَبْسِیُّ، وَهُوَ وَالِدُ قَیْسِ بْنِ زُهَیْرٍ صَاحِبِ حَرْبِ دَاحِسَ وَالْغَبْرَاءِ

بنی عبس کے سردارقیس بن زہیرکے پاس داحس اورغبرا نامی دوگھوڑے تھے جن کی تیزرفتاری عرب میں مشہور تھی،بنی بدرکے سردارحذیفہ بن بدرکویہ بات ناگوارہوئی کہ اس کے ایک ہم چشم کے گھوڑوں کواتنی شہرت نصیب ہو،اس نے اپنے دوگھوڑوں سے ان کی شرط باندھی اورفریقین کے درمیان یہ بات طے ہوئی کہ جس کے گھوڑے آگے آئیں وہ سواونٹ لے لے،شرط اور قواعدو ضوابط کے مطابق دوڑکامقابلہ ہوا جب داحس آگے نکلنے لگاتوحذیفہ کے ایک آدمی نے اس کے منہ پرقمچی مارکراسے ایک وادی کی طرف موڑ دیا اور حذیفہ کاگھوڑاجیت گیااس بات پرفریقین میں جنگ شروع ہوگئی

قَدْ قَتَلْتُ نُدْبَةَ بْنَ حُذَیْفَةَثُمَّ إِنَّ بَنِی بَدْرٍ قَتَلُوا مَالِكَ بْنَ زُهَیْرٍ أَخَا قَیْسٍ

قیس نے حذیفہ کے بیٹے ندبہ کوقتل کردیاحذیفہ نے قیس کے بھائی مالک کومارڈالا،نتیجہ یہ ہواکہ بنی عبس اوربنی ذبیان میں ایسی شدیدجنگ برپاہوئی جس میں بے شمارآدمی جان سے گئے اور اس کاسلسلہ نصف صدی تک جاری رہا اوراس وقت تک نہ رکاجب تک فریقین کے گھوڑوں اوراونٹوں کی نسل منقطع ہونے کے قریب نہ پہنچ گئی۔[2]

اس طرح کی دوسری مشہورجنگ بسوس ہے

الْحَرْبِ الَّتِی وَقَعَتْ بَیْنَ بَكْرٍ وَتَغْلِبَ

جوبنی تغلب اوربنی بکربن وائل کے درمیان کامل چالیس برس تک جاری رہی ،جوایک معمولی واقعہ سے شروع ہوئی ،ہوایہ کہ بنی تغلب کے سردارکلیب بن ربیعہ کی چراگاہ میں بنی بکربن وائل کے ایک مہمان کی اونٹنی گھس گئی اورکلیب کے اونٹوں کے ساتھ چرنے لگی،کلیب کاقاعدہ تھاکہ وہ نہ اپنی چراگاہ میں کسی کے جانورچرنے دیتانہ اپنی شکارگاہ میں کسی کوشکارکھیلنے دیتا،نہ اپنے جانوروں کے ساتھ کسی کے جانوروں کوپانی پینے دیتاحتی کہ اپنی آگ کے سامنے کسی کی آگ بھی جلتی نہ دیکھ سکتاتھا،جب اس نے ایک غیرکی اونٹنی کواپنے جانوروں کے ساتھ چرتے دیکھا اسے واپس ہنکانے کے بجائے غصہ میں آکرایک تیرچلایاجو اس کے تھن میں آکرلگا۔

فَلَمَّا رَأَى مَا بِهَا صَرَخَ بِالذُّلِّ

اونٹنی کے مالک نے جواس کوزخمی دیکھاتواس نے فریادکی ہائے یہ کیسی ذلت ہے، اس بات پربنی بکرمیں آگ لگ گئی اوران کے ایک نوجوان جساس بن مرہ نے جاکرکلیب کو جو اس کاحقیقی بہنوئی تھاقتل کرڈالا،کلیب کے بھائی مہلہل کوجب اس کی خبرہوئی تووہ اپنے بھائی کاانتقام لینے کھڑاہوااوردفعتہ دونوں قبیلوں میں ایسی جنگ ٹھن گئی کہ جب تک دونوں تباہ نہ ہوگئے تلواریں نیام میں نہ گئیں ۔[3]

سوق عکاظ میں قبیلہ کنانہ کاایک شخص بدربن معشرپاؤ ں پھیلاکربیٹھ گیااورپکارکربولاکہ میں عرب کاسب سے معزز آدمی ہوں جس کسی کومجھ سے زیادہ معزز ہونے کادعویٰ ہو میرے پاؤ ں پرتلوارمارے،اس پربنودھمان کاایک منچلاجوان آگے بڑھااوراس نے بدرکے پاؤ ں پر تلوار مار دی ، یہ چنگاری دونوں قبیلوں میں جنگ کی آگ بھڑکانے کے لئے کافی تھی،تلواریں کھنچ گئیں اوروہ جنگ برپاہوئی جوپہلی حرب فجارکہلاتی ہے،اس کے بعدکنانہ اورہوزن میں کبھی صفائی نہ ہوئی اوران کی عداوتیں یہاں تک بڑھیں کہ دونوں قبیلوں کے حلیف قبائل بھی ان میں شریک ہوگئے،آخری حرب فجاربھی اسی جذبہ فخروغرورکانتیجہ تھی ۔چھبیس (۲۶)قبل بعثت میں نعمان بن منذربادشاہ حیرہ نے اپنے ہاں سے ایک تجارتی قافلہ سوق عکاظ میں بھیجنے کاارادہ کیااورروسائے عرب سے پوچھاکہ کون اس کواپنی حفاظت میں لے جانے کا ذمہ لیتاہے؟براض بن قیس کنانی نے کہاکہ میں اس کوبنوکنانہ سے محفوظ رکھنے کاذمہ لیتاہوں ،ہوزان کے ایک سردارعروة الرحال نے کہاکہ میں اس کوتمام عرب سے محفوظ رکھنے کاذمہ لیتاہوں ،براض اس بات کوبرداشت نہ کرسکااورجب عروہ قافلہ لے کرچلاتوراستہ میں اس نے عروہ کاکام تمام کردیا،اس واقعہ سے کنانہ اورہوزان کی عداوت پھر تازہ ہوگئی،دونوں قبیلوں میں جنگ چھڑی ، قریش نے کنانہ کااوربنوثقیف نے ہوازن کاساتھ دیا،چارسال تک شدیدخونریزی کاسلسلہ جاری رہااوریوم شمطہ،یوم العبلاء ،یوم شرب اوریوم الحریرہ کے ہولناک معرکے برپاہوئے ،جنہوں نے عرب کے تمام پچھلے معرکوں کوبھلادیا۔[4]

قبائل کاسرمایہ اونٹ اور بھیڑ بکریاں ہوا کرتی تھیں جوان کی اپنی اپنی چراگاہ میں چرائی جاتی تھیں ، جب وہ چراگاہ اس قابل نہ رہتی تویہ بدودوسری چراگاہ کارخ کرتے چنانچہ کسی چراگاہ کے مسئلہ پرقبائل بکراورتمیم میں ایک خوفناک جنگ برپا ہو گئی اور جوانوں کاخون زمین پربہہ گیا،مدینہ منورہ کے دونوں قبائل اوس وخزرج میں تواکثر وبیشتر لڑائیوں کا سلسلہ جاری رہتا تھا مگران دونوں قبائل کی مشہورجنگ بعاث تھی جن کاسلسلہ کامل ایک صدی تک جاری رہاجن میں وہ لڑلڑکرتھک چکے تھے اور ان کے اکثر سردار مارے گئے، اوس وخزرج کی مشہور لڑائیاں محض تفاخرکے ایک نہایت ہی حقیرواقعہ سے شروع ہوئی تھیں ،بنی سعدکاایک شخص ایک خزرجی سردارمالک بن عجلان کے جوارمیں رہتاتھاایک مرتبہ اس نے بنی قینقاع کے بازار میں دعویٰ کی کہ میرا حلیف مالک بن رجلان سب سے زیادہ اشرف وافضل ہے،یہ بات قبیلہ اوس کے ایک شخص کو بہت بری معلوم ہوئی اوراس نے قائل کوقتل کر دیا ،اس پراوس اور خزرج کے درمیان قتل وخون کاایساخوفناک سلسلہ شروع ہواکہ اگراسلام نہ آتاتودونوں قبیلے لڑ لڑ کر فنا ہو جاتے۔ [5]

اوربالآخرجنگ کاخاتمہ انصار مدینہ کی بیت پرہوا مگران کے دلوں کایہ عالم تھاکہ ابتدائے اسلام میں دونوں قبیلے ایک دوسرے کے پیچھے نمازتک پڑھنے کوعارسمجھتے تھے اس لئے کسی اورقبیلہ کے فردکو بلوا کر نماز کی امامت کرائی گئی تھی ۔

اہل عرب میں اپنی صدیوں کی آزادی کی وجہ سے خودسری، جرات ،شجاعت وغیرت اورپختگی عزم کا جوہرپیدا ہوگیا تھااس لئے جب وہ کسی کام کوانجام دینے پرتل جاتے تو اسے اپنی جان پرکھیل کربھی سرانجام دیتے ، وہ کسی بڑے حکمراں کو بھی خاطرمیں نہ لاتے اور نہ کسی سے مرعوب ہی ہوتے تھے۔

[1] جمھرةاشعارالعرب۳۲۲؍۱

[2] الکامل فی التاریخ ۵۱۰تا۵۱۸؍۱

[3] الکامل فی التاریخ ۴۷۲تا۴۸۵؍۱

[4] الکامل فی التاریخ ۵۲۹؍۱

[5]الکامل فی التاریخ

Related Articles