ہجرت نبوی کا پہلا سال

تاریخ مدینہ منورہ

 مدینہ میں یہود، اوس وخزرج کی آمد:

تاریخی قرائین سے معلوم ہوتاہے کہ مدینہ منورہ ۲۲۰۰ ق م میں معرض وجودمیں آیاتھا،کیوں کہ ۲۱۸۹ قبل مسیحی میں جب اسماعیل رضی اللہ عنہ شیرخوردگی کے عالم میں والدہ ماجدہ کے ہمراہ مکہ مکرمہ گئے تھے توقبیلہ بنوجرہم وہاں پہلے سے موجودتھااوراسی زمانہ کے قریب عمالقہ میں سے یثرب بن قانیہ نے یہ شہر آباد کیا تھا،

سیدشہاب الدین بن عباس احمد السمہودی لکھتے ہیں :

عن ابن عباس أن مخرج الناس من السفینة نزلوا طرف بابل، وكانوا ثمانین نفسا، فسمى الموضع سوق الثمانین، قال: وطول بابل مسیرة عشرة أیام واثنی عشر فرسخا، فمكثوا بها حتى كثروا، وصار ملكهم نمروذ بن كنعان بن حام، فلما كفروا بلبلوا، فتفرقت ألسنتهم على اثنین وسبعین لسانا، ففهّم الله العربیة منهم عملیق وطسم ابنی لوذا بن سام، وعادا وعبیل ابنی عوص بن أرم بن سام وثمود وجدیس ابنی جاثق بن أرم بن سام، وقنطور بن عابر بن شالخ بن أرفحشذ بن سام، فنزلت عبیل یثرب، ویثرب اسم ابن عبیل،

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کشتی نوح سے اترنے والے افرادکی تعداداسی (۸۰)تھی،بابل کے اطراف میں جس جگہ یہ لوگ آبادہوئے اس بستی کانام سوق الثمانین(اسی لوگوں کابازار)مشہورہوا،ان میں مختلف بہترزبانیں بولی جاتیں تھیں ،پھراللہ تعالیٰ نے انہیں عربی کا فہم وادراک عطافرمایااوروہ عربی بھی بولنے لگے جب ان کی تعدادزیادہ ہوگئی توانہوں نے نمرودبن کنعان بن حام کواپنابادشاہ مقررکردیا،ان ہی میں سے عاداورعبیل بھی تھے جوعوص بن ارم بن سام کے بیٹے تھے جب کہ عبیل کے بیٹے یثرب نے یہ شہرآبادکیاتھا۔[1]

امام ابوجعفرمحمدبن حبیب ابن امیہ بن عمروالہاشمی البغدادی بیان کرتے ہیں

فأرفأت السفینة الى الجُودی. فخرجوا منها. فابتنوا/ ثمانین بیتا، فسمیت سوق ثمانین. فلما كثروا ابتنوا بابل. وهی اثنا عشر فرسخا فی مثلها. فكثروا فیها حتى بلغوا مائة ألف. وملكهم نمروذ ابن كنعان بن سنحاریب بن نمروذ بن كوش بن حام بن نوح. فردهم عن الاسلام. فأمسوا وكلامهم السوریانیة، وأصبحوا ولیس منهم مخلوق یعرف كلام صاحبه. فتبلبلت ألسنتهم. ففهم الله عز وجل العربیة عادا، وعَبیلا، ابنی عُوص بن إرم بن سام بن نوح. فهما أول من تكلم بالعربیة، وثمود، وجدیس، ابنی جاثر بن إرم بن سام، وعملیق، وطسم، وأمیم بن [؟ بنو] لوذ [ان بن ارم] بن سام، وبنى یقطن بن عابر بن شالخ ابن أرفخشد بن سام بن نوح. فافترقوا على اثنین وسبعین لسانا: لبنی سام منها اثنان وثلاثون، وسائرها لبنی حام وبنی یافث. فعقد لهم الألویة، ابنٌ لنوح ولد بعد السفینة یقال له یوناطر . فخرج بنو عاد، فنزلوا الشحر. فعلیه أهلكهم الله عز وجل على واد یقال له المغیث. ونزل بنو عبیل موضع مدینة الرسول صلى الله علیه وسلم.ونزل بنو ثمود الحِجر وما یلیه. ونزلت طسم وجدیس الیمامة. ویا من بنو یقطن بن عابر، فنزلوا إلیمن، فسمیت إلیمن یومئذ لتیمنهم عنهم. ونزلت العمالیق موضع صنعاء قبل أن تكون صنعاء. ونزل بنو أمیم أرض وبار بن أمیم. وقسم الأرض بینهم فالغ بن عابر بن شالخ بن أرفخشد فأقبلت العمالیق فأخرجوا بنی عبیل من المدینة فأنزلوهم موضع الجحفة فنزلوها. فأقبل سیل من اللیل فاجتحفهم فألقاهم فی البحر فسمیت الجحفة بذلك

کشتی نوح سے اترنے کے بعدان لوگوں نے اسی مکانات رہائش کے لئے بنالئے تھے پھرجب ان کی تعدادمیں اضافہ ہوگیاتوانہوں نے بابل شہرآبادکرلیاجوچھیانوے مربع کلومیٹر میں پھیلا ہوا تھا،ان کی افزائش نسل کاسلسلہ جاری رہا حتیٰ کہ ایک لاکھ کی آبادی ہوگئی پھرانہوں نے نمرودبن کنعان بن سحاریب بن نمرودبن کوش بن حام بن نوح کواپنابادشاہ مقررکرلیا،ابتداء میں ان کی زبان سریانی تھی پھر۷۲ مختلف زبانیں بولی جانے لگیں ،اسی اثناء میں اللہ تعالیٰ نے انہیں عربی زبان کافہم بھی نصیب فرمادیااورسب سے پہلے عاد اورعبیل نے عربی زبان میں کلام کیا،یہ دونوں عوص بن ارم بن سام بن نوح کے بیٹے تھے،اسی طرح قبائل میں ثموداورجدلیس،جاثربن ارم بن سام کے بیٹے،عملیق،طسم اورامیم،لوذبن ارم بن سام کے بیٹے تھے۔جب یہ لوگ بابل سے نکل کرمتفرق مقامات پرآبادہوئے توبنوعاد شحر کے مقام پرقیام پذیرہوئے جوبعدمیں اپنی بداعمالیوں کی پاداش میں ہلاک ہوگئے ،بنوعبیل مدینہ منورہ کے مقام پر آباد ہوئے ،بنوثمودالحجر اوراس کے گردونواح میں جابسے،طسم اورجدلیس الیمامہ میں عمالیق صنعا کے مقام پر اور بنو امیم مکہ مکرمہ کے قرب وجوار میں آباد ہوئے ، بعد ازاں عمالیق نے بنوعبیل کومدینہ منورہ سے بیدخل کرکے خودوہاں قابض ہوگئے،بنوعبیل مدینہ منورہ سے نکلنے کے بعدالحجعہ کے مقام پرآبادہوئے مگر کچھ عرصہ بعد سیلاب میں غرق ہوگئے اسی بناپر اس مقام کانام الحجعہ مشہورہوا۔[2]

ابوالقاسم الزجاجی فرماتے ہیں

أول من سكن المدینة عند التفرق یثرب بن قاینة ابن مهلائیل بن أرم بن عبیل بن عوص بن أرم بن سام بن نوح علیه السلام، وبه سمیت یثرب

مدینہ طیبہ میں پہلے پہل آباد ہونے والا شخص یثرب بن قانیہ بن مھلائیل بن ارم بن عبیل بن عوض بن ارم بن سام بن نوح تھااوراسی کے نام کی مناسبت سے بستی کانام یثرب مشہورہوا۔ [3]

امام مسعودی نے بھی یثرب کاسلسلہ نسب اسی طرح بیان کیا ہے۔[4]

اور سہیلی کہتے ہیں کہ نسب نامہ کے بعض اسماء میں اختلاف پایاجاتاہے ،بنابریں سلسلہ نسب اس طرح ہے

یَثْرِبُ بْنُ قاین بْن عِبِیلِ بْنِ مهلایل بْنِ عَوَصِ بْنِ عِمْلَاقِ بْنِ لَاوَذِ بْنِ إرَمَ

یثرب بن قاین بن عبیل بن مھلایل بن عوص بن عملاق بن الاوذبن ارم۔[5]

مدینہ منورہ میں آبادہونے والی سب سے پہلی قوم عمالقہ تھی جس کااصل وطن یمن تھاوہاں سے نکل کرمکہ مکرمہ ،مدینہ منورہ اوردوسرے علاقوں میں آبادہوگئی تھی ،وہ لوگ قوی ہیکل اور دیو پیکر تھے،شام اورشمالی حجازکی زبردست طاقت وراورمضبوط قوم تھی جنہوں نے اپنی قوت بازوسے ان علاقوں کی ساری حکومتوں کوزیرنگیں کرلیاتھا ۔

قوم عمالقہ:

العرب العاربة: ثمود، وجدیس، ابنا جاثر، أخی عوص، أبی عاد وعبیل، ابنی إرم أخی لاوذ أبی طسم وعملیق وأمیم ووبار، ابن سام بن نوح

عرب العاربہ ثمود،جدیس،جاثر کے بیٹے،عوص کے بھائی،ابوعاد وعبیل،ارم کے بیٹے ،لوذ ابی طسم ،عملیق ،امیم ،وبارپرمشتمل تھے اورا بن سام بن نوح کی اولادمیں سے تھے،ان اقوام وقبائل میں سے طسم اور عملیق دونوں حقیقی بھائی لاوذبن سام بن نوح کے بیٹے تھے۔[6]

قوم عمالقہ کااصل وطن یمن اوراطراف یمن تھا،قرآن مجیدمیں اس علاقہ کواحقاف کے نام سے ذکرکیاگیاہے،یمن کے مشرقی پہلومیں واقع صحرائی ریگستان کواحقاف کہا جاتا ہےجس کے جنوب میں حضرموت واقع تھا،تقریبا ًدوہزارسال قبل مسیح یہ قوم وہاں آبادتھی،قوم عمالقہ عظمت وجلالت،جسمانی اورسیاسی برتری میں مشہورتھی ،عالیشان اور خوبصورت عمارتیں بنانے میں بیحدماہر،باغبانی اورزراعت میں بھی خاصی دلچسپی رکھتے تھے،ان کی آبادیوں کامشرقی پہلوصحرائی اورریگستانی تھاجب کہ مغربی وجنوبی علاقہ یمن وحضرموت کے شاداب پہاڑوں اورسبزہ زارسے معمورتھاگویاکہ ایک طرف کے حالات جفاکشی اورمحنت کامزاج پروان چڑھاتے اوردوسری طرف کے حالات ان کے لئے عیش وعشرت اورلطف ونشاط کے ذرائع فراہم کرتے تھے۔

چونکہ یہ واقعات قدیم ترین تاریخ سے تعلق رکھتے ہیں جن کاقطعی ثبوت فراہم کرنامورخین کے لئے جوئے شیرلانے کے مترادف ہے، ابن حزم اندلسی جیسے محقق اورشہرہ آفاق مورخ کوبھی اس تلخ حقیقت کااقرارکرناپڑا۔

وھذاکلہ دعوی لایدریھاالااللہ

اس دعوی کا علم اللہ کے علاوہ کسی بھی نہیں ہے۔[7]

تاہم روایات میں شدیداختلاف واضطراب کے باوجودچندمورخین کے اقوال سپردقرطاس کیے جاتے ہیں ۔

چنانچہ علامہ ابن قتیبہ المتوفی ۲۷۶ ہجری لکھتے ہیں سام بن نوح حجازکے وسط اوراس کے گردونواح میں نیزیمن حضر موت اورعمان وغیرہ میں آبادتھے،قوم عادکامسکن احقاف تھا،طسم اورجدلیس دونوں لاوزبن ارم بنسام بن نوح کے بیٹے تھے اوریمامہ میں مقیم تھے،ان کے بھائی عملیق بن لاوذ کاقبیلہ حجازاورشام میں آبادتھا۔

فمنهم العمالیق، أمم تفرقوا فی البلاد، ومنهم فراعنة مصر والجبابرة

ان ہی میں سے عمالیق تھے وہ متعددقومیں تھیں جومختلف ممالک میں منتشرہوگئی تھیں اوران ہی میں سے مصراوربابل کے بادشاہ تھے۔[8]

علامہ ابن خلدون لکھتے ہیں کہا جاتا ہے کہ بنو حام کی مزاحمت کی وجہ سے عمالقہ بابل سے بھاگ کرجزیرة العرب میں آبادہوگئے تھے۔[9]

قوم عاداورعمالقہ نے عراق پربھی بادشاہی کی تھی ۔[10]

مزیدلکھتے ہیں کہ بنوحام کے بادشاہ کے خوف کی وجہ سے عمالقہ عراق سے بھاگ کرحجازمیں مقیم ہوگئے تھے۔[11]

امام احمدبن ابی یعقوب بیان کرتے ہیں جب مصریوں نے عنان حکمرانی عورتوں کے ہاتھ میں دے دی توشام کے عمالقہ بادشاہ ولیدبن دومنح نے مصرپرحملہ کرکے اسے تباہ وبرباد کر دیا باقی ماندہ اہل مصر نے اس کی اطاعت قبول کرلی اوراس طرح ولیدزمانہ درازتک حکومت کرتارہا،پھراس کے بعدعمالقہ کادوسرابادشاہ ریان بن ولیدتخت نشین ہواجو یوسف کے زمانہ میں مصرکافرعون تھا۔[12]

یہ قوم زبردست طاقت ور،جابراوردیوپیکرتھی

وَقَالَ اللّیْثُ: وهم الجَبابِرَةُ الَّذین كَانُوا بالشّام على عهْدِ موسَى عَلَیْهِ السلامُ، وَقَالَ ابنُ الْأَثِیر: هم الجَبابِرَة الَّذین كَانُوا بالشّام من بقیّة قوْم عَاد، وَقَالَ ابنُ الجَوّانیّ: عِمْلیق: أَبُو العَمالِقَة والفَراعِنَة والجَبابِرة بمِصْر والشّام، وَكَانُوا فبانُوا مُنْقَرِضین، وَقَالَ السُّهَیْلیُّ: من العَمالیقِ مُلوكُ مصر الفَراعِنةُ، مِنْهُم الوَلیدُ بنُ مُصْعَب بن اشمیر بن لَهو بن عِمْلیق، وَهُوَ صاحِبُ مُوسَى عَلَیْهِ السَّلَام، والرّیّانُ بنُ الوَلید صاحبُ یوسُفَ عَلَیْهِ السَّلَام

امام لیث کاقول ہے یہی جابرہ قوم ملک شام میں موسیٰ علیہ السلام کے عہد میں آباد تھی، امام ابن اثیر رحمہ اللہ کاکہناہے کہ یہ جبابرہ قوم عادکی بقیہ نسل تھی جوملک شام میں اقامت گزین تھے،امام ابن الجوانی رحمہ اللہ کہتے ہیں عملیق ابوالعمالقہ،فراعنہ اوربابل ، مصر اور شام میں مقیم تھے،امام سہیلی رحمہ اللہ کے بقول ولیدبن مصعب بن اشمیربن لھوبن عملیق مصرکے عمالقہ بادشاہوں میں سے تھاجوموسیٰ علیہ السلام کے زمانہ میں بادشاہ تھااورالریان بن الولید بھی مصر کے عمالقہ بادشاہوں میں سے یوسف علیہ السلام کے زمانہ کافرعون تھا۔[13]

العِمْلاق كقِرْطاس: من یخْدَعُكَ بظَرْفِهالعِمْلاق كقِرْطاس: من یخْدَعُكَ بظَرْفِه

عملاق مثل قرطاس کامعنی ہے لوگوں کودھوکا دینے والا، مکار، مکروفریب کی کہاوت سنانے والااورعملیق جوروستم اورزبردستی کرنے والا۔[14]

ومن هؤلاء العمالقة فیما یزعمون عمالقة مصر وأنّ بعض ملوك القبط استنصر بملك العمالقة بالشام لعهده واسمه الولید بن دومغ، ویقال ثوران بن أراشة بن فادان بن عمرو بن عملاق فجاء معه ملك مصر واستعبد القبط، قال الجرجانی ومن ثم ملك العمالیق مصر ویقال أنّ منهم فرعون إبراهیم وهو سنان بن الأشل بن عبید بن عولج بن عملیق، وفرعون یوسف أیضا منهم وهو الریّان بن الولید بن فوران، وفرعون موسى كذلك وهو الولید بن مصعب بن أبی أهون بن الهلوان

شاہان عمالقہ میں سے شام میں ولیدبن دومغ اوربقول بعض مورخین کے ثوران بن اراشہ بن فادان بن عمروبن عملاق مصرکے بادشاہ سے قبطی قوم کوغلام بنالیا، جرجانی نے کہا اس کے بعد مصر کے عمالقہ بادشاہوں میں سے ابراہیم علیہ السلام کے زمانہ میں سنان بن الاشل بن عبیدبن عولج بن عملیق یوسف علیہ السلام کے زمانہ میں الریان بن الولید بن فوران اورموسیٰ علیہ السلام کے زمانہ میں ولیدبن مصعب بن ابی اھون بن الھلوان تھے۔[15]

مدینہ منورہ میں عمالقہ کی آمد:

مورخین کی تصریحات سے معلوم ہوتاہے کہ مدینہ منورہ سولہ سوسال قبل مسیح( ۱۶۰۰ق م) اوردوہزارسال قبل مسیح(۲۲۰۰ق م) کے درمیانی زمانہ میں قوم عمالقہ نے آبادکیاتھا۔[16]

اگرچہ غالب خیال یہ ہے کہ بائیس سوقبل مسیح( ۲۲۰۰ق م) میں یہ شہروجودمیں آیا،جیساکہ ہم پہلے بیان کرچکے ہیں

ولما تبلبلت الألسن نزلت العمالقة بصنعاء من الیمن، ثم تحولوا إِلى الحرم، وأهلكوا من قاتلهم من الأمم وكان منهم من ملك یثرب وخیبر وتلك النواحی

قوم عمالقہ کااصل وطن یمن کاشہر صنعا تھا، جب ان میں متعدد زبانیں بولی جانے لگیں تو وہ مختلف علاقوں میں منتشرہوگئے،کچھ قبائل مکہ المکرمہ میں آبادہوئے اوربہت سی قوموں کوتباہ وبربادکرکے اس علاقہ پرقبضہ کرلیا ، ان ہی میں سے یثرب ،خیبراورگردونواح کا بادشاہ تھا۔[17]

بعض روایات کے مطابق قوم عمالقہ اورجرہم یمن میں آبادتھے جہاں شدیدقحط میں مبتلاہوجانے کی وجہ سے پانی چارہ اورسرسبزوشاداب علاقوں کی تلاش میں تہامہ کی طرف چلے گئے ان ہی کے چندخاندان یثرب میں آباد ہوئے تھے۔[18]

علاوہ ازیں ایک مرتبہ پھر قوم عمالقہ عراق میں بنوحام کے ظلم وتشددکاشکارہونے کی وجہ سے ترک وطن پر مجبور ہوگئی اورحجازمیں جاکرپناہ لی اورتیسری مرتبہ قبائل عمالقہ مدینہ منورہ میں اس وقت واردہوئے جب مکہ مکرمہ میں سمیدع بن لاوذبن عملیق اورقحطانی قبائل کے درمیان زبردست جنگ ہوئی،سمیدع ظفریاب ہوااورقحطانی قبائل کومکہ چھوڑکردوسرے علاقوں میں آبادہونا پڑا، ان میں سے بنوعبیل بن مہلائل بن عوض بن عملیق مدینہ منورہ میں مقیم ہوئے[19]

امام ابوالفرج الاصبہائی لکھتے ہیں

مدینہ میں بنی اسرائیل سے پہلے قوم عمالقہ آبادتھی جوبڑی طاقت وراورسرکش قوم تھی ،دوردورتک ان کی بستیاں آبادتھیں ،چندقبائل بنوھف،بنوسعد،بنوالازرق اوربنومطروق مدینہ منورہ (یثرب)میں بھی آبادتھے،ان ہی میں سے الارقم حجازکابادشاہ تھا ، عمالقہ تیماء سے فدک تک تمام سرسبزوشاداب علاقوں پرقابض تھے،مدینہ میں باغبانی اور زراعت ان کاپیشہ تھا۔[20]

مدینہ منورہ میں بنی اسرائیل کی آمد:

یوسف علیہ السلام کے بعدایک عرصہ تک بنی اسرائیل کومصرمیں اثرورسوخ حاصل رہا مگرایک عوامی انقلاب میں ان کاسارااثرورسوخ جاتا رہا اور ان کی تعدادجوبہتر(۷۲)تھی سے بڑھ کرچھ لاکھ یااس سے زیادہ ہوچکی تھی غلام بنالئے گئے اورانہوں نے توحیدکی راہ چھوڑکراپنے آقاؤں کامشرکانہ دین اختیارکرلیا، اور فرعون کے ہرطرح کے ظلم وستم سہنے کے باوجود کبھی فرعون یااس کے سرداروں کے خلاف کوئی بغاوت نہیں کی،آخررب کریم کوان کی حالت زارپررحم آیااوراس نے موسیٰ اور ہارون علیہ السلام کوان کی طرف مبعوث فرمایا اور انہوں نے اپنی قوم کودعوت توحیددی مگر

فَمَآ اٰمَنَ لِمُوْسٰٓى اِلَّا ذُرِّیَّةٌ مِّنْ قَوْمِهٖ عَلٰی خَوْفٍ مِّنْ فِرْعَوْنَ وَمَلَا۟ىِٕهِمْ اَنْ یَّفْتِنَھُمْ۝۰ۭ وَاِنَّ فِرْعَوْنَ لَعَالٍ فِی الْاَرْضِ۝۰ۚ وَاِنَّهٗ لَمِنَ الْمُسْرِفِیْنَ۝۸۳ [21]

ترجمہ: موسیٰ پر کوئی ایمان نہ لایا مگر اس کی قوم میں سے چند لڑکے (اور وہ بھی) فرعون اور اس کے اہل دربار سے ڈرتے ڈرتے کہ کہیں وہ ان کو آفت میں نہ پھنسا دے اور فرعون ملک میں متکبر اور متغلب اور (کبر وکفر میں ) حد سے بڑھا ہوا تھا۔

بالآخر موسیٰ علیہ السلام و ہارون علیہ السلام بنی اسرائیل کی ایک بڑی تعدادکوفرعون کے چنگل سے چھڑا کر دریائے نیل ،دجلہ وفرات کے درمیان ارض فلسطین کی طرف لے آئے،اوراپنی قوم کواللہ کی نعمتیں یاددلاکرحکم فرمایاکہ ارض مقدس میں داخل ہوجاؤجسے اللہ نے تمہاری میراث میں دیاہے اورہرگزپیٹھ مت پھیروکیونکہ پیٹھ پھیرنے والے ہمیشہ نامرادرہاکرتے ہیں مگربنی اسرائیل پردہشت بیٹھی ہوئی تھی،صدیوں کی غلامی نے ان کوپست ہمت اوربزدل بنادیاتھا انہوں نے جواب دیا

قَالُوْا یٰمُوْسٰٓى اِنَّ فِیْهَا قَوْمًا جَبَّارِیْنَ۝۰ۤۖ وَاِنَّا لَنْ نَّدْخُلَهَا حَتّٰی یَخْرُجُوْا مِنْهَا۝۰ۚ فَاِنْ یَّخْرُجُوْا مِنْهَا فَاِنَّا دٰخِلُوْنَ۝۲۲ [22]

ترجمہ:انہوں نے کہا اے موسیٰ !بیشک وہاں ایک زبردست قوم ہے اور ہم وہاں ہرگز نہ جائیں گے یہاں تک کہ وہ وہاں سے نکل جائیں پھراگروہ وہاں سے نکل جائیں تو ہم ضرور داخل ہوں گے ۔

ان کی ہی قوم کے دوجوانمردوں نے جن پراللہ نے انعام فرمایاتھاقوم کومشورہ دیاکہ تم بے خوف ہوکربستی کے اندر داخل ہوجاؤ،تم ہی غالب رہوگے اوراگرتمہیں دولت ایمان حاصل ہے تواللہ پرتوکل کرناچاہیے ،مگروہ ڈرپوک اورذلت پرقانع رہنے والی قوم انسانوں کے خوف سے کانپتی ہی رہی اورانہوں نے صاف کہہ دیا

قَالُوْا یٰمُوْسٰٓى اِنَّا لَنْ نَّدْخُلَهَآ اَبَدًا مَّا دَامُوْا فِیْهَا فَاذْهَبْ اَنْتَ وَرَبُّكَ فَقَاتِلَآ اِنَّا ھٰهُنَا قٰعِدُوْنَ۝۲۴ [23]

ترجمہ:وہ بولےاے موسیٰ! ہم ہر گز وہاں کبھی بھی داخل نہ ہوں گے جب تک وہ لوگ وہاں موجود ہیں ،پس تم اور تمہارا رب (دونوں ) جاؤ اور (ان لوگوں سے) لڑو، ہم تو یہیں بیٹھے رہیں گے ۔

آخراس بزدلی کی بدولت قدرت الٰہی نے یہ فیصلہ صادرفرمایاکہ وہ چالیس برس تک دربدرکی خاک چھانتے پھریں اورکہیں ان کوٹھکانہ نصیب نہ ہو۔

قَالَ فَاِنَّهَا مُحَرَّمَةٌ عَلَیْهِمْ اَرْبَعِیْنَ سَـنَةً۝۰ۚ یَتِیْھُوْنَ فِی الْاَرْضِ۝۰ۭ فَلَا تَاْسَ عَلَی الْقَوْمِ الْفٰسِقِیْنَ۝۲۶ۧ [24]

ترجمہ:ارشاد ہوااچھاتو وہ سر زمین ان پر چالیس سال تک کے لئے حرام کر دی گئی ہے، یہ زمین میں بھٹکتے پھریں گےسو تم ان (نافرمان لوگوں کی حالت) پر ذرا بھی ترس نہ کھانا ۔

الغرض موت کے خوف سے انہوں نے جہادفی سبیل اللہ کاراستہ ترک کردیا،

بہرحال ان کے بارے میں امام ابوالفرج بیان کرتے ہیں موسیٰ علیہ السلام کلیم اللہ نے مختلف ممالک میں آبادسرکش اورجابروظالم قوم عمالقہ سے جہادکرنے کے لئے فوج کشی کی توایک لشکرحجازمیں آباد عمالقہ کوقتل کرنے پر مامور کیااوراسے حکم دیاکہ بادشاہ سمیت تمام مردوزن قتل کردیئے جائیں چنانچہ اسرائیلی فوج نے بھرپورحملہ کرکے سب کوموت کی نیندسلادیامگرایک حسین وجمیل شہزادے کوقتل نہ کیااورطے پایاکہ اس کے متعلق موسیٰ علیہ السلام جوفیصلہ کریں گے اس پرعمل کیاجائے گالیکن اس فوج کی واپسی سے پہلے ہی موسیٰ علیہ السلام کاوصال ہوچکا تھااورقوم نے فوج کی اس غلطی کاناقابل معافی جرم قراردے کرملک میں داخلے پر پابندی لگادی بالآخرلشکرحالات سے مجبورہوکراپنے مفتوحہ علاقوں میں لوٹ گیااوران میں سے ایک قبیلہ مدینہ منورہ میں بھی آبادہوا

وکان ذلک الجیش اول سکنی الیھودالمدینہ

اوریہ یہودکاپہلالشکرتھاجوپہلی مرتبہ مدینہ میں آبادہوا۔

مزیدلکھتے ہیں وہ لوگ زمانہ دراز تک مدینہ منورہ میں عیش وعشرت اورامن وسکون کی زندگی گزارتے رہے ،انہوں نے کئی قلعے بنالئے ،جاگیریں بنائیں اورزراعت کوفروغ دیاپھر جب شاہ روم نے بنی اسرائیل کی شان وشوکت کوتاخت وتاراج کردیا،یہودیوں کے ملک شام پرقبضہ کرلیا،بنی اسرائیل کوبیدردی سے قتل کیااوران کی عورتیں لونڈیاں بنالیں تو لٹے پٹے اسرائیل کے قبائل بنونضیر،بنوقریظہ اوربنوبہدل ذلیل وخوار ہوکر کسمپرسی کے عالم میں

ھاربین منھم الیٰ من بالحجازمن بنی اسرائیل

رومیوں سے بھاگ کرحجاز میں مقیم بنی اسرائیل کے پاس جاکرپناہ لی۔

وہاں کے سبزہ زار زمین اورلہلہاتے باغات دیکھ کران کے منہ میں پانی آگیا،اس طرح بنونضیراوران کے ہمنوالوگ بطحان میں اور بنوقریظہ ،بنوبہدل اوران کے ساتھی مہزورمیں آباد ہو گئے۔[25]

ان کے بیان کے مطابق یہودی قبائل دومختلف زمانوں میں مدینہ منورہ میں آبادہوئے ،پہلی مرتبہ موسیٰ علیہ السلام کے وصال کے فوراًبعدچودہ سوقبل مسیح(۱۴۰۰ق م) میں چندقبائل اوردوسری مرتبہ بخت نصرکی غارت گری کے بعدپانچ سوچھیاسی قبل مسیح(۵۸۶ق م) میں کچھ قبائل واردہوئے تھے،

امام اسماعیل ابوالفداء لکھتے ہیں

عمالقہ کی ایک قوم ملک شام میں آبادتھی جس سے موسیٰ علیہ السلام اوران کے بعد یوشع علیہ السلام نے جہادکیا،اسی قوم سے مصرکے فراعنہ اور یثرب ،خیبراورنواحی علاقوں کابادشاہ بھی تھا، موسیٰ علیہ السلام نے اپنی قوم کوحکم دیاکہ ملک حجازکے بادشاہ اوراس کی قوم کوقتل کرکے نیست ونابودکردو،چنانچہ بنی اسرائیل نے عمالقہ کے ساتھ جنگ کرکے سب کوفناکردیالیکن ایک شہزادے کاقتل موسیٰ علیہ السلام کے مشورہ تک موخررکھاجب فاتحانہ شان سے شام واپس پہنچے تومعلوم ہواکہ موسیٰ علیہ السلام کاانتقال ہوچکاہے اوربنی اسرائیل نے شہزادے کوقتل نہ کرنے کے جرم میں اس لشکرکوملک بدر کردیا چنانچہ انہوں نے باہمی مشورہ سے اپنے مفتوحہ علاقوں میں واپس جانے کا فیصلہ کرلیا اس طرح بنی اسرائیل یثرب خیبراورحجازکے دوسرے علاقوں میں آبادہوگئے،یہودی ان شہروں میں زمانہ درازتک آبادرہے یہاں تک کہ سیل عرم کے باعث اوس وخزرج یمن سے نکل کریثرب میں قیام پذیرہوئے ،

وقیل إِن الیهود إِنما سكنوا الحجاز لما تفرقوا الیمن حین غزاهم بخت نصر وخرب بیت المقدس

یہ بھی کہاجاتاہے جب بخت نصرنے بیت المقدس تباہ وبرباد کیا اور یہودیوں پر ظلم وستم کیا تو وہ وہاں سے نقل مکانی کرکے یثرب میں آبادہوئے.[26]

علامہ ابن خلدون نے قدرے اختصارکے ساتھ ان واقعات کواسی طرح بیان کیاہے۔[27]

علامہ احمدبن یحیٰی بن جابرالبلاذری رحمہ اللہ لکھتے ہیں

لما هدم بختنصر بیت المقدس، وأجلى من أجلى وسبى من سبى من بنی إسرائیل لحق قوم منهم بناحیة الحجاز فنزلوا وادی القرى، وتیماء ویثرب، وكان بیثرب قوم من جرهم، وبقیة منَ العمالیق قَدِ اتخذوا النخل والزرع، فأقاموا معهم وخالطوهم فلم یزالوا یكثرون وتقل جرهم والعمالیق، حَتَّى نفوهم عن یثرب واستولوا علیها

جب بخت نصر نے بیت المقدس کوتاخت وتاراج کردیااوربنی اسرائیل میں سے بعض کوجلاوطن اوربعض پابند سلاسل کردیئے تو جلاوطن بنی اسرائیل کی ایک جماعت حجازمیں وادی القریٰ،تیماء اوریثرب میں آبادہوگئی،یثرب میں جرہم اورعمالیق پہلے آبادتھے جن کاپیشہ کھیتی باڑی اورباغبانی تھا،بنی اسرائیل بھی ان کے ساتھ رہنے سہنے لگے اوران سے شیروشکرہوگئے رفتہ رفتہ ان کی تعدادبڑھتی گئی اورجرہم وعمالیق کی طاقت کمزورہوتی گئی ، بالآخرانہیں بزوربازوشہرسے نکال کربنی اسرائیل قابض ہوگئے۔[28]

اس روایت کے اعتبارسے یہودکامدینہ منورہ میں آبادہونے کاواقعہ چھ سوچھیاسی قبل مسیح( ۵۸۶ ق م) کاہے کیونکہ بخت نصر نے یروشلم پرحملہ کرکے یہودکو چھ سوچھیاسی قبل مسیح(۵۸۶ق م) میں تباہ وبرباد کیا تھا۔ (دائرہ معارف اسلامیہ اردو ۱۲۹؍۴،عنوان بخت نصر)

عمالقہ جیسی قوی ہیکل اورناقابل تسخیرقوم پربنی اسرائیل نے کیسے غلبہ حاصل کیااس کی تفصیل امام ابن زبالہ عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہ سے بیان کرتے ہیں ،

قوم عمالقہ مختلف شہروں میں پھیل گئی اورمکہ معظمہ،مدینہ منورہ اورحجازکے دیگرشہروں میں سکونت اختیارکرلی،پھریہ لوگ سرکشی اورفسق وفجورمیں مبتلا ہوگئے اسی اثنامیں جب موسیٰ علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے فرعون پرفتح عطافرمائی توانہوں نے شام پرلشکرکشی کی وہاں بھی فتح وکامرانی نے آپ کی قدم بوسی کی ،اس کے بعدحجازمیں مقیم قوم عمالقہ کی سرکوبی کے لئے ایک لشکر بھیجا اور اسے حکم دیاکہ بادشاہ اوررعایاسب کوتہہ تیغ کردیں ،چنانچہ وہاں پہنچ کراسرائیلی فوج نے قتل وغارت کابازارگرم کر دیایہاں تک کہ عمالقہ کے بادشاہ الارقم بن الارقم کو بھی موت کی نیند سلا دیا ، البتہ شاہی خاندان کے ایک نوجوان کی قابل رشک جوانی اورحسن وجمال کودیکھ کراسے قتل کرنے میں توقف کیااورطے پایاکہ موسیٰ علیہ السلام سے اس کے متعلق مشورہ کیاجائے اگروہ اس پری پیکرنوجوان کوقتل کرنے کاہی حکم دیں توقتل کردیاجائے گاجب یہ لشکرفاتحانہ شان وشوکت کے ساتھ ملک شام واپس لوٹاتواس وقت موسیٰ علیہ السلام رحلت فرماچکے تھے تاہم ان کی کامرانی اورظفریابی کے باعث لوگ بڑی خوشی اورگرمجوشی سے ان کے استقبال کو نکلے لیکن جب فوج نے اس بات کا انکشاف کیا کہ ایک جوں سال شہزادے کے قتل کو موسیٰ علیہ السلام کے مشورہ پرموقوف رکھاگیاہے تویہ سنتے ہی قوم سیخ پاہوگئی اورسخت برہم ہوکرکہنے لگی کہ تم نے نبی کے حکم کی صریح نافرمانی کی ہے لہذاتمہیں اس ملک میں داخل ہونے کی اجازت ہرگزنہیں دی جائے گی ،قوم کی ہٹ دھرمی سے مجبورہوکریہ لوگ حجازکی طرف لوٹ گئے اوراپنے مفتوحہ علاقوں میں جا کر آباد ہوگئے،

بل كان علماؤهم یجدون فی التوراة أن نبیاً یهاجر من العرب إلى بلد فیه نخل بین حرتین، فأقبلوا من الشام یطلبون صفة البلد، فنزل طائفة تیماء وتوطنوا نخلاً، ومضى طائفة فلما رأوا خیبر ظنوا أنها البلدة التی یهاجر إلیها، فأقام بعضهم بها، ومضى أكثرهم وأشرفهم فلما رأوا یثرب سبخةً وحرةً ونخلاً قالوا: هذا البلد الذی یكون له مهاجر النبی إلیها، فنزلوه، فنزل النضیر بمن معه بطحان فنزلوا منها حیث شاءوا وكان جمعیهم بزهرة

چونکہ بنی اسرائیل علم تورات سے بہرہ یاب تھے جس میں انہوں نے خاتم النبین رحمت کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کے دارالحجرت کے اوصاف میں یہ بھی پڑھا تھاکہ وہ سرسبز و شاداب شہرہوگااس لئے ان کی ایک جماعت نے پہلے تیماء میں قیام کیالیکن جب اسے مذکورہ اوصاف کے مطابق نہ پایاتوکچھ لوگ وہاں مقیم رہے اورباقی خیبرمیں آباد ہوگئے ،لیکن وہاں بھی ان اوصاف کافقدان پاکرایک جماعت یثرب چلی گئی جس کامحل وقوع تورات کی تصریحات کے مطابق سبزہ نخلتان وغیرہ دیکھ کرانہوں نے یقین کرلیا کہ یہی خاتم النبین صلی اللہ علیہ وسلم کادارالحجرت ہوگا،یہ نوواردلوگ خاندان نضیرسے تعلق رکھتے تھے،جنہوں نے یثرب میں سکونت اختیارکرکے زراعت اور باغبانی کے کام کو فروغ دیا ، بنونضیروادی بطحان میں اوروادی زہرہ میں سارے آبادہوئے۔[29]

اللہ عزوجل نے بنی اسرائیل کو جہانوں پرعظمت وفضیلت عطا فرماکر اس قوم میں لگاتار پیغمبربھیجے تاکہ وہ اسلام کی دعوت ساری دنیاتک پہنچائیں مگرہربارانہوں نے پستی ، بدکرداری ،تنگ نظری ،تعصب کامظاہرہ کیااوراپنی جہالت میں پیام ربانی کے ارتقائی سلسلے کوتسلیم کرنے سے انکارکردیا ،ہربارہی یہ اپنی سرکشی میں انبیاء کوجھٹلادیتے اور اگر

مانتے بھی تھے تووہ نہ ماننے کے برابرہی ہوتاتھا،جیسے اللہ تعالی نے فرمایا

۔۔۔اَفَتُؤْمِنُوْنَ بِبَعْضِ الْكِتٰبِ وَتَكْفُرُوْنَ بِبَعْضٍ۔۔۔۝۸۵ [30]

ترجمہ: تو کیا تم کتاب کے ایک حصے پر ایمان لاتے ہو اور دوسرے حصے کے ساتھ کفر کرتے ہو ؟ ۔

انہوں نے اللہ کے غضب سے بے خوف ہوکر پیغمبروں کو قتل تک کردیاتھا،طالوت کے بعد داود علیہ السلام اوران کے بیٹے سلیمان رضی اللہ عنہ جیسے پیغمبر بھی مبعوث فرمائے جوپیغمبرکے ساتھ بادشاہ بھی تھے ، رب کریم نے ان کی بادشاہت کوہرطرح کے مادی اورروحانی اسباب کے ذریعہ مستحکم کردیا،داود علیہ السلام اوران کے بعد سلیمان علیہ السلام اپنے دورحکومت میں اپنے پیشروطالوت کے مشن کولیکراردگردکے کافرومشرک قوموں کے خلاف جہادفرماتے رہے اور ان کے عہدمیں بنی اسرائیل کی دولت مند سلطنت فلسطین جوقلیل رقبہ اورکم آبادی پرمشتمل تھی اپنی شان وشوکت کی معراج پرپہنچ گئی مگرسلیمان علیہ السلام کی وفات کے بعدان کی سلطنت یہودیہ اوربنی اسرائیل کے نام سے دو حصوں میں تقسیم ہوگئی ،جب بنی اسرائیل نے توحیدپرستی کوچھوڑکربے شماردیوی دیوتاؤں کے آگے سرجھکایا،اپنی من مانی خواہشات کوپوراکرنے کے لئے الہامی کتاب تورات میں تحریفات روارکھیں یہاں تک کہ موجودہ تورات میں حیات بعدالموت،یوم حساب اورجزاوسزاکاذکرتک نہیں ملتا، گزشتہ انبیاء کی طرح الیسع علیہ السلام بنی اسرائیل کو دعوت توحید دے کر اپنا فرض منصبی بڑے احسن اندازسے پوراکرتے رہے ،انہوں نے بھی بنی اسرائیل کوہرطرح کی دلیل سے رب کی الوہیت اورربوبیت پرقائل کرنے کی کوشش کی مگروہ لوگ توحیدکی راہ اپنانے کے بجائے شرک وکفرکی راہ پرگامزن رہے،باطل معبودوں کی محبت میں سرشارہوکران کی عبادات اوران کے حضورقربانیاں وغیرہ پیش کرنے لگے ،انہوں نے الله تعالیٰ کے اس شرف عظیم کااحساس تک نہ کیا اور مسلسل اس رحمت کی ناقدری ہی کرتے رہے، انہوں نے اس فریضے سے روگردانی کی جس پر ان کومامورکیاگیاتھا چنانچہ بھیجی ہوئی رحمت کی ناشکری کے جرم میں اللہ نے ان کو اس مسندفضیلت سے اتاردیااورانکی نافرنیوں ، سرکشیوں کی سزاکے طورپراشوریوں نے سلطنت بنی اسرائیل کوملیامیٹ کرکے سلطنت یہودیہ پرحملہ کرکے ان کے پایہ تخت کامحاصرہ کرلیا،آشوریوں نے ہزاروں بنی اسرائیلیوں کوتہہ تیغ اورہزاروں کوغلام بناکرسلطنت یہودیہ کواپناباج گزاربنالیا ،اپنے بلند مرتبے سے گرنے اوراتنی ذلت کے باوجود سلطنت یہودیہ بھی نہ چونکی ، یسعیاہ اور یرمیاہ نے بھی بنی اسرائیل کوان کے شرک پرستی کے سبب اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے غیض وغضب پرباربارمتنبہ کیامگرجب وہ توحیدکی طرف نہ پلٹےتوپانچ سواٹھانوےقبل مسیح( ۵۹۸ ق م) میں شاہ بابل بخت نصرنے جس کے پاس بڑی فوجی طاقت تھی اس نے قرب وجوار کی کمزورحکومتوں کوزیر کر کے فلسطین پر یکے بعد دیگرے حملے کیے اور فلسطین و یروشلم کاتمام علاقہ تہہ وبالا کر ڈالا ،یہودیہ کے بادشاہ کوگرفتارکرکے بابل لے گیا،مگربنی اسرائیل اپنی بداعمالیوں اورکفروشرک سے بازنہ آئےاور یہودیہ کے لوگ اپنی قسمت بدلنے کے لئے شاہ بابل کے خلاف بغاوت کی تیاری کرنے لگے، یرمیاہ نے انہیں سمجھایاکہ ایساکرنے سے تمہاری مکمل تباہی وبربادی میں کوئی کسرباقی نہیں رہے گی شاہ بابل تمہیں پیس کررکھ دے گامگر بنی اسرائیل ظلم وفساد کا بازار گرم کرتے ہوئے سرکشی وبغاوت کی تمام حدودکوپارکرچکی تھی اس نے ہمیشہ کی طرح یرمیاہ کی بات کو بھی سنی ان سنی کردیا اورشاہ بابل کے خلاف بغاوت کردی ،جب شاہ بابل بخت نصرکویہودیہ کے لوگوں کی اس حرکت کاعلم ہواتو غضب ناک ہوگیااورباغی لوگوں کوقرارواقعی سزا دینے کے لئے پانچ سوستاسی قبل مسیح( ۵۸۷ ق م) کوسلطنت یہودیہ پرحملہ کرکے ان کی حکومت کی اینٹ سے اینٹ بجادی ، یروشلم ،ہیکل سلیمانی اوردوسرے شہروں کو پیوند خاک کردیا ،بنی اسرائیل کی مقدس کتاب تورات کے تمام نسخوں کوجلا ڈالا، اب بنی اسرائیل کے پاس اپنی کتاب کاکوئی نسخہ نہیں تھاچنانچہ بنی اسرائیل بخت نصرکے اسیری کے دورمیں تورایت سے محروم رہے ، ہزاروں لوگوں کوقتل کردیااوربچ جانے والوں کو غلام بناکربابل لے گیا کچھ لوگ منتشرہوگئے ، جولوگ وہاں رہ گئے وہ دوسری ہمسایہ قوموں کے ہاتھوں ذلیل وپامال ہو کر رہے،مگران میں کچھ لوگ ایسے موجودرہے جوراستی پرقائم رہے اوریہودیہ ،بابل اوردوسرے علاقوں میں جلاوطن لوگوں کواس کی طرف دعوت بھی دیتے رہے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے وقت یہ حجازسے شام تک پھیلے ہوئے تھے،قبائل حمیر،بنوکنانہ ،بنوحرث بن کعب اورکندہ یہودی تھے جبکہ مدینہ منورہ پران کامکمل قبضہ تھاجہاں انہوں نے اپنے دین کے فروغ کے لئے درسگاہیں جن کوبیت المدارس کہتے تھے قائم کررکھی تھیں ،جس کی وجہ سے اس لئے ان کی مذہبی روایت عرب میں پھیلی ہوئی تھیں ۔ امیرالمومنین سیدنا عمر رضی اللہ عنہ بن خطاب کے دورخلافت میں مدینہ منورہ سے بے دخل ہونے کے بعدایک عرصہ درازتک مختلف جگہوں پرمنتشررہنے کے بعدمغربی طاقتوں نے انہیں دوبارہ فلسطین میں آبادکرنے کی کوشش کی ہے ۔

جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ مکرمہ سے ہجرت فرماکرمدینہ منورہ میں داخل ہوئے تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے اوس وخزرج سے اورپھریہودیوں سے بھائی چارے کامعاہدہ فرمایا مگر بہت جلدیہودیوں نے اس سے صاف انحراف کیا اور دشمنوں کے ساتھ مل کرمسلمانوں کومٹانے کی کوششیں کرنے لگے جس کے نتیجے میں پہلے وادی مذنیت سے بنی نضیر ، پھر وادی مہروزسے بنی قریظہ اورپھر خیبرسے ان کوبے دخل کر دیاگیا،جب خیبرفتح ہواتوابتدارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہودیوں کی صلح اس شرط پرہوئی تھی کہ آپ ان کی جان بخشی کر دیں گے اوروہ اس علاقہ کوچھوڑکرکہیں اورچلے جائیں گے

حَتَّى إذَا أَیْقَنُوا بِالْهَلَكَةِ، سَأَلُوهُ أَنْ یُسَیِّرَهُمْ وَأَنْ یَحْقِنَ لَهُمْ دِمَاءَهُمْ، فَفَعَلَ

جب ان قلعوں کے لوگوں کواپنی ہلاکت کایقین ہوگیاتب انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوپیغام بھیجاکہ ہم یہاں سے چلے جاتے ہیں آپ ہماری جان بخشی کردیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات کومنظورفرمالیا۔[31]

عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُمَا:كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ لَمَّا ظَهَرَ عَلَى أَهْلِ خَیْبَرَ، أَرَادَ أَنْ یُخْرِجَ الیَهُودَ مِنْهَا، وَكَانَتِ الأَرْضُ لَمَّا ظَهَرَ عَلَیْهَا لِلْیَهُودِ وَلِلرَّسُولِ وَلِلْمُسْلِمِینَ، فَسَأَلَ الیَهُودُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَنْ یَتْرُكَهُمْ عَلَى أَنْ یَكْفُوا العَمَلَ وَلَهُمْ نِصْفُ الثَّمَرِ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:نُقِرُّكُمْ عَلَى ذَلِكَ مَا شِئْنَا

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب خیبرفتح کیاتوآپ کا بھی ارادہ ہواتھاکہ یہودیوں کویہاں سے نکال دیاجائے،جب آپ نے فتح پائی تواس وقت وہاں کی کچھ زمین یہودیوں کے قبضے میں ہی تھی اوراکثرزمین پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں کے قبضے میں تھی،( جب زمین کے باقاعدہ بندوبست کا موقع آیاتو)اہل خیبر نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے درخواست کی آپ زمین انہیں کے پاس رہنے دیں (کیونکہ ہم زراعت اورنخلستان کے کام سے خوب واقف ہیں )،ہم(کھیتوں اورباغوں میں )کام کیاکریں گے اورآدھی پیداوارلیں گے، (آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی یہ درخواست قبول فرمالی اور)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجب تک ہم چاہیں گے اس وقت تک کے لئے تمہیں اس شرط پریہاں رہنے دیں گے (چنانچہ عارضی طور پر نصف خراج پران سے معاملہ کرکے کچھ زمین ان کو کاشت پر دی گئی )۔[32]

لیکن معاملہ کی شرائط تحریرکرتے وقت صاف طور پرتصریح کردی

نُقِرُّكُمْ مَا أَقَرَّكُمُ الله

جب تک اللہ تم کوبرقراررکھے گاہم بھی قائم رکھیں گے۔[33]

یعنی تم کومستقل طورپرنہیں رکھاجائے گابلکہ جب تک احکام خداوندی کے مطابق ہمارے قومی مصالح تمہیں رکھنے کی اجازت دیں گے اس وقت تک تمہیں رہنے دیاجائے گااورجب تمہاراطرزعمل نامناسب ہوگاتوہمیں آزادی ہوگی کہ اس صلح نامہ کی شرائط کو نافذکرکے تمہیں جلاوطن کردیں ۔ابن حجر رحمہ اللہ نے اس جملہ کی تشریح کی ہے

وَأَنَّ الْمُرَادَ بِقَوْلِهِ مَا أَقَرَّكُمُ اللهُ مَا قَدَّرَ اللهُ أَنَّا نَتْرُكُكُمْ فِیهَا فَإِذَا شِئْنَا فَأَخْرَجْنَاكُمْ تَبَیَّنَ أَنَّ اللهَ قَدَّرَ إِخْرَاجَكُمْ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ جب تک اللہ تم کورکھے گاتواس کامطلب یہ تھاکہ جب تک اللہ نے تمہارایہاں رہنامقدرکر رکھا ہے ہم تم کورہنے دیں گے اورجب ہم تمہیں نکالناچاہیں گے اور نکال دیں گے تویہ فعل خوداس بات کی دلیل ہوگاکہ تمہارے اخراج کے لئے اللہ کی تقدیرپوری ہوچکی ہے۔[34]

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ،أَنَّ عُمَرَ، قَالَ: أَیُّهَا النَّاسُ، إِنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ كَانَ عَامَلَ یَهُودَ خَیْبَرَ عَلَى أَنَّا نُخْرِجُهُمْ إِذَا شِئْنَا

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہےسیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہالوگو!بے شک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبرکے یہودیوں سے یہ طے کیاتھاکہ جب ہم چاہیں گے انہیں نکال باہرکریں گے[35]

مگر یہود اپنی سازشوں سے کیسے بازرہ سکتے تھے ،صلح کو چند روز ہی گزرے تھے کہ ان میں سے ایک عورت نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کی اوراس میں زہرکھلا دیا ،

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ، أَنَّهُ قَالَ: لَمَّا فُتِحَتْ خَیْبَرُ، أُهْدِیَتْ لِرَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ شَاةٌ فِیهَا سَمٌّ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:اجْمَعُوا لِی مَنْ كَانَ هَا هُنَا مِنَ الیَهُودِ، فَجُمِعُوا لَهُ،فَقَالَ لَهُمْ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:إِنِّی سَائِلُكُمْ عَنْ شَیْءٍ، فَهَلْ أَنْتُمْ صَادِقِیَّ عَنْهُ،قَالُوا: نَعَمْ،فَقَالَ:هَلْ جَعَلْتُمْ فِی هَذِهِ الشَّاةِ سَمًّا؟فَقَالُوا: نَعَمْ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےجب خیبرفتح ہواتورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو (ایک یہودی عورت زینب بنت حرث نے)ایک بکری ہدیہ میں پیش کی جس میں زہربھراہواتھا،اس پررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ یہاں پرجتنے یہودی ہیں انہیں میرے پاس جمع کرو،چنانچہ سب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جمع کیے گئےآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے دریافت فرمایاکیااگرمیں تم سے ایک بات پوچھوں توتم مجھے اس کے متعلق صحیح صحیح بتادوگے ؟انہوں نے کہاکہ ہاں ؟رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایاکیاتم نے اس بکری میں زہر ملایا تھا؟انہوں نے کہاکہ ہاں ۔[36]

أُصِیبَ عَبْدُ اللهِ بْنُ سَهْلٍ بِخَیْبَرِ، وَكَانَ خَرَجَ إلَیْهَا فِی أَصْحَابٍ لَهُ یَمْتَارُ مِنْهَا تَمْرًا، فَوُجِدَ فِی عَیْنٍ قَدْ كُسِرَتْ عُنُقه، ثمَّ طُرِحَ فِیهَا، قَالَ: فَأَخَذُوهُ فَغَیَّبُوهُ

(پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ہی) عبداللہ بن سہل بن زیدالانصاری اپنے چندساتھیوں کے ساتھ کھجوریں دیکھنے خیبرمیں گئے تھے ، پھرساتھیوں سے الگ ہوگئے اور ان کی گردن کو توڑ کر ان کی لاش ایک نہر میں پھینک دیا،جب اس کی گردن ٹوٹ گئی تو اسے اسی میں ہی پھینک دیا ،راوی کہتاہےیہودنے ان کو شہید کر کے ان کی لاش کوغائب کردیاتھا ۔[37]

چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کوتنبیہ کرنے کے لئے تشریف لے گئے،

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: بَیْنَمَا نَحْنُ فِی المَسْجِدِ، خَرَجَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ:انْطَلِقُوا إِلَى یَهُودَفَخَرَجْنَا حَتَّى جِئْنَا بَیْتَ المِدْرَاسِ،فَقَالَ:أَسْلِمُوا تَسْلَمُوا، وَاعْلَمُوا أَنَّ الأَرْضَ لِلَّهِ وَرَسُولِهِ، وَإِنِّی أُرِیدُ أَنْ أُجْلِیَكُمْ مِنْ هَذِهِ الأَرْضِ، فَمَنْ یَجِدْ مِنْكُمْ بِمَالِهِ شَیْئًا فَلْیَبِعْهُ،وَإِلَّا فَاعْلَمُوا أَنَّ الأَرْضَ لِلَّهِ وَرَسُولِهِ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےہم ابھی مسجدنبوی میں موجودتھے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور فرمایاکہ یہودیوں کی طرف چلو، چنانچہ ہم روانہ ہوئے اورجب بیت المدارس(یہودیوں کامدرسہ)پہنچے، تونبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایااسلام لاؤتو سلامتی کے ساتھ رہوگے اورسمجھ لوکہ زمین اللہ اوراس کے رسول کی ہے،اورمیراارادہ ہے کہ تمہیں اس زمین سے نکال دوں ،پھر تم میں سے جوکوئی اپنے پاس کوئی مال رکھتاہووہ اسے فروخت کر دے اوراگرتم اس پرتیارنہیں ہوتوتمہیں معلوم ہوناچاہیے کہ زمین اللہ اوراس کے رسول ہی کی ہے۔[38]

پھرامیرالمومنین سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ خلافت میں علانیہ برسر بغاوت ہو گئے،

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ قَالَ:خَرَجْتُ أَنَا وَالزُّبَیْرُ وَالْمِقْدَادُ بْنُ الْأَسْوَدِ إلَى أَمْوَالِنَا بِخَیْبَرِ نَتَعَاهَدُهَا، فَلَمَّا قَدِمْنَا تَفَرَّقْنَا فِی أَمْوَالِنَا، قَالَ: فَعُدِیَ عَلَیَّ تَحْتَ اللیْلِ، وَأَنَا نَائِمٌ عَلَى فِرَاشِی، فَفُدِعَتْ یَدَایَ مِنْ مِرْفَقَیَّ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے میں اورمقداد رضی اللہ عنہ بن اسوداور زبیر رضی اللہ عنہ ہم تینوں خیبرمیں اپنا مال دیکھنے کے لئے گئے اورہم تینوں متفرق ہوگئے،رات کاوقت تھااورمیں اپنے بچھونے پرسورہاتھاکہ ایک شخص نے مجھ پرحملہ کیااوراس کی ضرب سے میراہاتھ کہنی کے جوڑپرسے اترگیا۔[39]

اورایک روایت میں ہاتھ پاؤں دونوں کاذکرہےعبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے لَمَّا فَدَعَ أَهْلُ خَیْبَرَ عَبْدَ اللهِ بْنَ عُمَرَجب خیبروالوں نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پاؤں توڑڈالے۔[40]

یہ صورت حال دیکھ کرسیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اس معاملہ کوصحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی مجلس میں پیش کیا۔

عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: لَمَّا فَدَعَ أَهْلُ خَیْبَرَ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ، قَامَ عُمَرُ خَطِیبًا، فَقَالَ: إِنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ كَانَ عَامَلَ یَهُودَ خَیْبَرَ عَلَى أَمْوَالِهِمْ، وَقَالَ:نُقِرُّكُمْ مَا أَقَرَّكُمُ اللهُ، وَإِنَّ عَبْدَ اللهِ بْنَ عُمَرَ خَرَجَ إِلَى مَالِهِ هُنَاكَ، فَعُدِیَ عَلَیْهِ مِنَ اللیْلِ، فَفُدِعَتْ یَدَاهُ وَرِجْلاَهُ، وَلَیْسَ لَنَا هُنَاكَ عَدُوٌّ غَیْرَهُمْ، هُمْ عَدُوُّنَا وَتُهْمَتُنَا وَقَدْ رَأَیْتُ إِجْلاَءَهُمْ

نافع سے اوران سے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سےمروی ہے جب ان کے ہاتھ پاؤں خیبرکے یہودیوں نے توڑڈالے توسیدنا عمر رضی اللہ عنہ خطبہ دینے کے لیے کھڑے ہوئے اورفرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر کے یہودیوں سے ان کے مالوں کی بابت ایک معاملہ کیا تھا اور فرمایا تھا کہ جب تک اللہ تم کو قائم رکھے گا ہم بھی تم کو قائم رکھیں گے، اور یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنی جائیداد پر گئے تھے، جہاں ان پر شب کے وقت ظلم کیا گیا، اور ان کے ہاتھ پاؤں توڑ دیئے گئے، انہوں نے کہا ان یہودیوں کے علاوہ کوئی ہمارا دشمن وہاں نہیں ہے ہمارا شبہ انہیں پر ہے اور اب میں ان کو جلا وطن کردینا مناسب سمجھتا ہوں ۔[41]

خلیفہ دوئم سیدناعمرفاروق رضی اللہ عنہ کی اس تجویزسے تمام مجلس نے اتفاق کیااوریہودیوں کے اخراج کا فیصلہ ہوگیا

فَلَمَّا أَجْمَعَ عُمَرُ عَلَى ذَلِكَ أَتَاهُ أَحَدُ بَنِی أَبِی الحُقَیْقِ، فَقَالَ: یَا أَمِیرَ المُؤْمِنِینَ، أَتُخْرِجُنَا وَقَدْ أَقَرَّنَا مُحَمَّدٌ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، وَعَامَلَنَا عَلَى الأَمْوَالِ وَشَرَطَ ذَلِكَ لَنَا، فَقَالَ عُمَرُ: أَظَنَنْتَ أَنِّی نَسِیتُ قَوْلَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ،كَیْفَ بِكَ إِذَا أُخْرِجْتَ مِنْ خَیْبَرَ تَعْدُو بِكَ قَلُوصُكَ لَیْلَةً بَعْدَ لَیْلَةٍ، فَقَالَ: كَانَتْ هَذِهِ هُزَیْلَةً مِنْ أَبِی القَاسِمِ، قَالَ: كَذَبْتَ یَا عَدُوَّ اللهِ، فَأَجْلاَهُمْ عُمَرُ وَأَعْطَاهُمْ قِیمَةَ مَا كَانَ لَهُمْ مِنَ الثَّمَرِ، مَالًا وَإِبِلًا، وَعُرُوضًا مِنْ أَقْتَابٍ وَحِبَالٍ وَغَیْرِ ذَلِكَ

جب سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اس کاپختہ عزم کرلیا تو ابوالحقیق قبیلہ کے ایک آدمی نے آکرکہا اےامیرالمومنین !کیاآپ ہمیں جلاوطن کردیں گے حالانکہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں یہاں ٹھیرایاتھا اورہم سے جائدادکاایک معاملہ بھی کیا تھا ؟اوراس کی ہمیں خیبرمیں رہنے کی شرط بھی آپ نے لگائی تھی، یدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اس پر فرمایا کیاتم یہ سمجھتے ہوکہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کافرمان بھول گیاہوں جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ نے تجھے فرمایاتھاکہ اس وقت تمہاراکیاحال ہوگا جب تم خیبرسے نکالے جاؤگےاورتمہارے اونٹ تمہیں راتوں رات لئے پھریں گے ؟اس نے کہایہ توابوالقاسم صلی اللہ علیہ وسلم نے بطورمذاق کہاتھا، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایااللہ کے دشمن توجھوٹ کہتاہے،چنانچہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے انہیں شہربدکردیا(لیکن ان مجرموں کوبھی اس طرح جلاوطن نہیں کیا گیاکہ ان کے اموال واراضی پرقبضہ کرکے انہیں بیک بینی ودوگوش نکال دیا گیا ہو ، بلکہ)ان کے پھلوں کی کچھ نقدقیمت،کچھ مال اوراونٹ اوردوسرے سامان یعنی کجاوے اوررسیوں کی صورت میں اداکردی۔[42]

بعض روایات میں یہودکے اخراج کی وجہ یہ حدیث بیان کی جاتی ہے کہ جب سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے یہ حدیث سنی ۔

 لَا یَجْتَمِعُ فِی جَزِیرَةِ الْعَرَبِ دِینَانِ

ترجمہ:جزیرہ العرب میں دودین جمع نہ ہونے پائیں ۔[43]

توانہوں نے اس کی تحقیق کی اورصحیح ثابت ہوجانے کے بعد یہودیوں کے اخراج کافیصلہ کرلیا،بلاذری نے اس روایت کوابن شہاب کے طریق سے نقل کیاہے۔[44]

اورامام زہری رحمہ اللہ نے عبید اللہ بن عبداللہ بن عتبہ کے طریق سے۔[45]

لیکن اس حدیث کامنشاہرگزیہ نہ تھاکہ غیرمسلم قوموں کوبلاقصورعرب سے نکال دیا جائے ،امام زہری نے اس روایت کی تصریح کی ہے کہ جب اس حدیث کی صحت ثابت ہوگئی توسیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اعلان کرایا

مَنْ كَانَ لَهُ مِنْ أَهْلِ الْكِتَابَیْنِ عَهْدٌ فَلْیَأْتِ بِهِ أَنْفُذُهُ لَهُ

دونوں کتابوں (انجیل وتوراة) کے متبعین میں سے جس کسی کے پاس کوئی معاہدہ ہووہ لے آئے تاکہ میں اسے نافذکروں ۔[46]

اگراس حدیث کامنشایہ ہوتاکہ بلاامتیازتمام غیرمسلم جزیرہ العرب سے نکال دیئے جائیں توسیدنا عمر رضی اللہ عنہ یہ اعلان ہرگزنہ کراتے بلکہ تمام غیرمسلموں کویک قلم خارج البلادکردیتے ، خواہ ان سے معاہدہ ہوتایانہ ہوتا مگر انہوں نے ایسانہیں کیا، مگر جب انہوں نے ایسانہیں کیابلکہ اہل معاہدہ سے ان کے عہدنامے طلب کیے اوروعدہ کیاکہ ان عہدناموں کا نفاذ کیا جائے گا تو اس کامطلب یہی ہو سکتاہے کہ اس حدیث سے مطلقاًاخراج مقصودنہ تھابلکہ ایک عام پالیسی کی تعین مقصودتھی جس پردوسرے واجبات کالحاظ رکھتے ہوئے عمل درآمد کیا جانا چاہیے تھا،پس یہ سمجھنے کی کوئی وجہ نہیں ہے کہ ایک ذمی قوم محض اس بناپرملک سے نکال دی گئی کہ عرب میں دودینوں کااجتماع مرغوب نہ تھابلکہ زیادہ قرین قیاس یہ معلوم ہوتا ہے کہ جب یہودخیبرکی مسلسل بدعنوانیوں سے تنگ آکرسیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے انہیں جلاوطن کرنے کاخیال کیاہوگاتولازمی طورپرانہیں ایک ذمی قوم کے ساتھ یہ معاملہ کرنے میں تامل ہوا ہوگااوروہ کسی شرعی حجت کی تلاش میں ہوں گے ،اسی دوران میں یہ حدیث ان کوپہنچی ہوگی اوراس کی اچھی طرح تحقیق کرنے کے بعدمطمئن ہوکر انہوں نے اپنی رائے کوعمل میں لانے کافیصلہ کیا ہو گا ،بعدمیں راویوں نے اپنے اپنے رجحان طبع کے موافق اس ایک واقعہ کودوالگ الگ واقعے بنالئے اوردومختلف روایتوں کی صورت میں بیان کرنے لگے ۔

 اوس وخزرج کی مدینہ منورہ میں آمد:

اوس وخزرج کاسلسلہ نسب یوں بیان کیاگیاہے

حارثة بن ثعلبة بن عمرو بن عامر بن امرئ القیس بن ثعلبة بن مازن بن الأزد بن الغوث بن نبت بن مالك بن زید بن كهلان بن سبإ بن یشجب بن یعرب بن قحطان

حارثہ بن ثعلبہ بن عمروبن عامر بن امریٰ لقیس بن ثعلبہ بن مازن بن الازدبن الغوث بن نبت بن مالک ابن زید بن کہلان بن سبابن یشجب بن یعرب بن قحطان۔[47]

امام سہیلی رحمہ اللہ نے بھی یہی نسب نامہ بیان کیا ہے۔ [48]

اورامام ابن خلدون رحمہ اللہ نے اسی کواصح قراردیاہے۔[49]

قحطان هو الّذی انتسب جمیع الأنصار إلیه والیمن كلها، وهم بنو یعرب بن یشجب بن قحطان

امام عبدالکریم بن ابوبکرالسمعانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں اوس وخزرج اوراہل یمن کاسلسلہ نسب قطحان سے جا ملتاہے اوروہ سب یعرب بن یشجب بن قحطان کی نسل میں سے تھے۔[50]

اوس وخزرج کے قبائل بھی متعددبڑے بڑے خاندانوں پر مشتمل تھے اورہرایک قبیلہ کثیرالتعداد افرادپرمبنی پانچ پانچ خاندانوں پرمشتمل تھا۔

اوس کے پانچ قبائل یہ تھے

عوف بن مالك بن الأوس، وهم أهل قباء: وعمرو بن مالك بن الأوس، وهو النبیت؛ ومرة بن مالك بن الأوس، وهم الجعادرة؛ وجشم بن مالك بن الأوس؛ وامرؤ القیس بن مالك بن الأوس: أمهم كلهم هند بنت الخزرج أخی الأوس.

عوف بن مالک ،عمروبن مالک اوراسی کوالنبیت کہا جاتاتھا،مرة بن مالک جثم بن مالک اورامراؤ القیس بن مالک ان کی والدہ ہندتھی جواوس کے بھائی فزرج کی بیٹی تھی ۔[51]

خزرج بھی پانچ بڑے قبائل پر مشتمل تھے

عمرو، وعوف، وجشم، وكعب، والحارث وهؤلاء بنو عمرو بن الخزرج بن حارثة

عمروبن الخزرج،عوف بن الخزرج،جثم بن الخزرج،کعب بن الخزرج اورالحارث بن الخزرج اوران کی نسلیں بھی عظیم خاندانوں میں منقسم ہوچکی تھیں ۔[52]

ثُمَّ إن من كان بالیمن من ولد سبأ ابن یشجب بْن یعرب بْن قحطان بغوا وطغوا وكفروا نعمة ربهم فیما آتاهم منَ الخصب ورفاهة العیش، فخلق الله جرذانا جعلت تنقب سدا كان لهم بَیْنَ جبلین فیه أنابیب یفتحونها إذا شاءوا فیأتیهم الماء منها عَلَى قدر حاجتهم وإرادتهم، والسد العرم، فلم تزل تلك الجرذان تعمل فی ذلك العرم حَتَّى خرقته، فأغرق الله تعالى جنانهم، وذهب بأشجارهم وأبدلهم خمطا وأثلا وشیئا من سدر قلیلا، فلما رأى ذلك مزیقیا، وهو عُمَر بْن عَامِر بْن حارثة بْن ثعلبة بْن امرئ القیس ابن مازن بْن الأزد بْن غوث بْن نبت بْن مَالِك بْن زید بْن كهلان بْن سبأ ابن یشجب بْن یعرب بْن قحطان، باع كل شیء له من عقار وماشیة وغیر ذلك ودعا الأزد متى صاروا معه إلى بلادعك فأقاموا بها.

ملک یمن میں ایک عظیم ڈیم سدمارب تعمیرکیاگیاتھاجس سے قوم سباکے باغات اورکھیت سیراب ہوتے ، پانی کی فراوانی کی وجہ سے زمین بے پناہ پھل وغلہ کی پیداوار دے رہی تھی،ایک دفعہ کاذکرہے کہ عمرومزیقیابن عامربن حارثہ بن ثعلبہ بن امرالقیس بن مازن بن الازوبن غوث بن مالک بن زید کہلان بن سبابن یشجب بن یغرب بن قطحان نے بندکی دیوارمیں چوہے کوسوراخ کرتے دیکھاجس پراسے بندکے ٹوٹنے کا خطرہ لاحق ہوا،اس لئے جان ومال کی حفاظت کے پیش نظراس نے خفیہ طور پرہجرت کرنے کی تیاری شروع کردی ،طے شدہ پروگرام کے مطابق وہ اپنی آل واولادکے ساتھ یمن سے چل نکلااورقبیلہ ازدبھی ان کے ساتھ ہولیا

ثُمَّ إنه بدا لهم الانتقال عن بلادهم فانتقلوا وبقیت طائفة منهم معهم، ثُمَّ أتوا نجران فحاربهم أهلها فنصروا علیهم فأقاموا بنجران ثُمَّ رحلوا عنها إلا قوم منهم تخلفوا بها لأسباب دعتهم إِلَى ذلك فأتوا مكة وأهلها جرهم فنزلوا بطن مر، وسأل ثعلبة بْن عَمْرو مزیقیا جرهم أن یعطوهم سَهْل مكة فأبوا، فقاتلهم حَتَّى غلب عَلَى السهل، ثُمَّ أنه والأزد استؤبوا مكانهم ورأوا شدة العیش به فتفرقوا. فأنت طائفة منهم عمان، وطائفة السراة وطائفة الأنبار والحیرة، وطائفة الشام، وأقامت طائفة منهم بمكة، فقال جذع! كلما صرتم یا معاشر الأزد إِلَى ناحیة انخزعت منكم جماعة یوشك أن تكونوا أذنابا فی العرب، فسمى من أقام بمكة خزاعة، وأتى ثعلبة بْن عَمْرو، مزیقیا وولده ومن تبعه یثرب، وسكانها الیهود فأقاموا بها خارج المدینة، ثُمَّ إنهم عفوا وكثروا وعزوا حَتَّى أخرجوا الیهود منها ودخلوها فنزلت الیهود خارجها، فالأوس والخزرج ابنا حارثة ابن ثعلبة بْن عَمْرو مزیقیا بْن عَامِر وأمهما قیلة بنت الأرقم بْن عَمْرو، ویقال أنها غسانیة منَ الأزد ویقال أنها عذریة، وكانت للأوس والخزرج قبل الإِسْلام وقائع وأیام تدربوا فیها بالحروب واعتادوا اللقاء، حَتَّى شهر بأسهم، وعرفت نجدتهم، وذكرت شجاعتهم، وجل فی قلوب العرب أمرهم، وهابوا حدهم فامتنعت حوزتهم وعز جارهم

یہ لوگ نجران اور پھر مکہ مکرمہ میں جاکرآباد ہوئے ،اس وقت مکہ مکرمہ میں قوم جرہم آبادتھی،پھرمعاش کی تنگی کے باعث ثعلبہ بن عمرومزیقیابن عامراپنی اولادحارثہ اوراس کے بیٹوں اوس وخزرج اور دیگر لوگوں کے ہمراہ یثرب میں آگیاجہاں یہودآبادتھے،یہ لوگ شہرکے باہراقامت گزین ہوئے ،اللہ تعالیٰ نے ان کی تعدادمیں افزائش بخشی اور انہیں عزت سے نوازا،ان کی شوکت وسطوت میں اس قدر اضافہ ہواکہ انہوں نے اپنی قوت بازوسے یہودکوشہرسے نکال دیااورخودقابض ہو گئے۔[53]

ابتدامیں اوس وخزرج مدینہ منورہ کے باہرقیام پذیر تھے لیکن وہاں بھی معاشی مشکلات سے دوچارہوئے ،نہ توان کے قبضہ میں باغات تھے نہ زراعت ،نہ ہی ان کے پاس اونٹ تھے اورنہ ہی کوئی اورچیزتھی ،وہ یہودیوں کے دست نگر ہوکر مظلومیت کے ساتھ وقت گزارتے تھے بالآخرمالک بن عجلان کی حکمت عملی اورخرد و دانش کے باعث شاہ غسان ابوجبلیہ کے ہاتھوں یہودکی بربریت اورمعاشی تنگی سے نجات حاصل ہو سکی۔[54]

علامہ احمد بن ابی یعقوب اورعلامہ ابن کثیرنے بھی یہ روایت نقل کی ہے اورلکھاہے

أَنَّ عَمْرَو بْنَ عَامِرٍ كَانَ كَاهِنًا وَقَالَ غَیْرُهُ كَانَتِ امْرَأَتُهُ طَرِیفَةُ بِنْتُ الْخَیْرِ الْحِمْیَرِیَّةُ كَاهِنَةً فَأُخْبِرَتْ بِقُرْبِ هَلَاكِ بِلَادِهِمْ وَكَأَنَّهُمْ رَأَوْا شَاهِدَ ذَلِكَ فِی الْفَأْرِ الَّذِی سُلِّطَ عَلَى سَدِّهِمْ فَفَعَلُوا مَا فَعَلُوا

عمروبن عامریااس کی بیوی کاہن تھی اوراس نے بندکے ٹوٹنے کی پیش گوئی کی تھی جس کے باعث انہوں نے قلب مکانی کا فیصلہ کیا تھا۔[55]

امام ابوالولیدمحمدبن عبداللہ بن احمدالازرئی نے بھی اسی طرح یہ روایت بیان کی ہے۔[56]

امام ابی محمدعبدالملک بن ہشام مذکورہ واقع بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں

قَالَتِ الْأَزْدُ لَا نَتَخَلَّفُ عَنْ عَمْرِو بْنِ عَامِرٍ فَبَاعُوا أَمْوَالَهُمْ وَخَرَجُوا مَعَهُ فَسَارُوا حَتَّى نَزَلُوا بِلَادَ عَكٍّ مُجْتَازِینَ یَرْتَادُونَ الْبُلْدَانَ فَحَارَبَتْهُمْ عَكٌّ فَكَانَتْ حَرْبُهُمْ سِجَالًا،فَارْتَحَلُوا عَنْهُمْ فَتَفَرَّقُوا فِی الْبِلَادِ فَنَزَلَ آلُ جَفْنَةَ بْنِ عَمْرِو بْنِ عَامِرٍ الشَّامَ وَنَزَلَ الْأَوْسُ وَالْخَزْرَجُ یَثْرِبَ وَنَزَلَتْ خُزَاعَةُ مَرًّا وَنَزَلَتْ أَزْدُ السَّرَاةِ السَّرَاةَ وَنَزَلَتْ أُزْدُ عُمَانَ عُمَانَ

عمروبن عامراورقبیلہ ازدیمن سے نکلنے کے بعدپہلے بلادعک میں آبادہوئے وہاں کے باشندوں سے جنگ ہوئی نتیجے میں یہ لوگ مغلوب ہوکرمختلف شہروں کی طرف چلدیئے ، چنانچہ آل جفنہ بن عمروبن عامرملک شام، اوس اورخزرج یثرب میں ، غزاء مرا میں ،ازوالسراة سراہ میں ،اورآزوعمان بلادعمان میں آبادہوگئے تھے۔[57]

جدیدتحقیقات کے مطابق مذکورہ ڈیم ٹوٹنے کاواقع ایک سوپندرہ قبل مسیح( ۱۱۵ق م) کے قریب پیش آیاتھاکیونکہ ملوک سباکی ابتدانویں صدی ق م اورانتہا ایک سوپندرہ قبل مسیح(۱۱۵ق م) ہے۔[58]

بنابریں اوس وخزرج کامدینہ منورہ میں وردد ایک سوپندرہ قبل مسیح( ۱۱۵ق م) کے قریب ثابت ہوتاہے

كان ممن بقی بالمدینة من الیهود حین نزلت علیهم الأوس والخزرج بنو قریظة، وبنو النضیر، وبنو محمحم، وبنو زعورا، وبنو قینقاع، وبنو ثعلبة وأهل زهرة وأهل زبالة وأهل یثرب وبنو القصیص، وبنو فاعصة، وبنو ماسكة، وبنو القمعة، وبنو زید اللات وبنو عكوة، وبنو مرانة

جس زمانہ میں قبائل اوس وخزرج یثرب میں واردہوئے تووہاں یہودکے قبائل بنوقریظہ، بنونضیر، بنومحمحم، بنوزعورا، بنوقینقاع، بنوثعلبہ، اھل زہرہ،اھل زبالہ اور اہل یثرب ،بنو القصیص ،بنو فاعصہ،بنوماسکہ،بنوقمعہ ،بنوزیداللات ، بنو عکوہ اور بنو مرانہ کہا جاتا ہے آبادتھے۔[59]

سكنها منهم بنو عكرمة وبنو ثعلبة وبنو محمر وبنو زعورا وبنو قینقاع وبنو النضیر وبنو قریظة وبنو بهدل وبنو عوف وبنو القصیص وبنو ماسلة

قبائل بنوعکرمہ، بنو ثعلبہ،بنومحمر ،بنوزعورا، بنو قینقاع،بنونضیر،بنوقریظہ،بنوبہدل ،بنوعوف ، بنو القصیص اور بنو ماسلہ کاذکرکیاہے۔[60]

یہ لوگ یثرب سے شام تک تمام سرسبز و شاداب بستیوں خیبر،فدک،تیما،مدین،وادی القریٰ اور حجر وغیرہ میں آبادتھے،جن کااہم پیشے تجارت،زرگری،مہاجنی اورسودی لین دین تھے

إِذَا أَتَى الْمَدِینَةَ الْمدَارِس فَفَسَّرَهُ فِی الْمَطَالِعِ بِالْبَیْتِ الَّذِی تُقْرَأُ فِیهِ التَّوْرَاةُ

انہوں نے یثرب میں علمی درسگاہیں بھی قائم کررکھیں تھیں جوبیت المدارس کے نام سے مشہورتھیں ،اوران میں توراة کی تعلیم دی جاتی تھی۔[61]

پرشکوہ اورمستحکم قلعوں میں محفوظ جاہ وجلال کے مالک یہودپرمظلوم ومقہوراوس وخزرج کوکیسے غلبہ حاصل ہوا؟ یہ انقلاب آفرین اورحیرت انگیزداستان پیش خدمت ہے، یہودصاحب ثروت وصاحب اقتدار تھے،مال ودولت کی فراوانی نے انہیں درندہ صفت بنادیا تھا ، شرافت واخلاص سے بے نیازہوکراوس وخزرج کی مظلوم عورتوں کی عزت وناموس سے کھیلناان کامحبوب مشغلہ تھا اوراپنے اس فعل بدپرفخرمحسوس کرتے تھے

الفیطوان ملك الیهود بزهرة، وكانت لا تهدى عروس بیثرب من الحیین الأوس والخزرج حتى تدخل علیه فیكون هو الذی یفتضها قبل زوجها، فتزوجت أخت مالك بن العجلان رجلا من قومها، فبینا مالك فی نادی قومه إذ خرجت أخته فضلا، فنظر إلیها أهل المجلس، فشق ذلك على مالك، ودخل فعنّفها وأنبها، فقالت: ما یصنع بی غدا أعظم من ذلك، أهدى إلى غیر زوجی، فلما أمسى مالك اشتمل على السیف ودخل على الفطیون متنكرا مع النساء، فلما خف من عنده عدا علیه فقتله

ان کارئیس فطیون سخت بدکار اور بدمعاش تھا،اوس وخزرج کی کوئی دوشیزہ شب زفاف اس کے پاس بسر کیے بغیراپنے شوہرکے گھر نہیں جاسکتی تھی، ایک دفعہ کاذکرہے کہ اوس وخزرج کے سردارمالک بن عجلان کی بہن عین شادی کے دن گھرسے بالکل ننگی ہو کر بھائی کے سامنے سے گزری ،یہ منظردیکھ کر مالک شرم کے مارے پانی پانی ہوگیااورغیض و غضب سے آگ بگولہ ہوکربہن کے پاس آیااور اسے ملامت کرنے لگا،لیکن بہن نے جواب میں کہاکہ کل جوکچھ میرے ساتھ پیش آنے والا ہے کیااس سے بھی میری یہ حرکت زیادہ بری ہے؟مالک بن عجلان نے بہن کاجواب سن کردل ہی دل میں فطیون کے قتل کافیصلہ کر لیا ، چنانچہ دوسرے روزحسب دستورجب اس کی بہن دلہن بن کرفطیون کی خلوت گاہ میں گئی تووہ بھی زنانہ لباس پہن کرسہلیوں کے ساتھ اندرچلاگیااورموقع پاکر فطیون کوقتل کر دیا ۔[62]

علاوہ ازیں اوس وخزرج کے قبضہ میں نہ کاشت کاری تھی اورنہ ہی چراگاہیں جس کی وجہ سے ان کی گزران سخت تنگ تھی ، چنانچہ اس واقعہ کے بعدمالک بن عجلان نے ایک وفد اپنے ہم نسب شاہ غسان ابوجیلہ بن جفنہ بن عمرو بن عامرکے پاس اردن بھیجاجس نے شاہ کواپنی قوم کی معاشی زبوں حالی اور یہود کے جوروستم کی دلگذارداستان سنائی اوراس سے مددطلب کی ،بعض روایات میں ہے کہ مالک بن عجلان،فطیون یہودی کوقتل کرکے وفدکے ساتھ خودشاہ غسان کے پاس گیا اور اسے واقعات سے اگاہ کیاتھا ،مالک بن عجلان کی دردبھری داستان سن کر شاہ غسان نے اسے بھرپورتعاون کایقین دلایااوریہودکونیست ونابودکرنے کی تیاری میں مصروف ہوگیا

حَتَّى قَدِمَ الْمَدِینَةَ فَنَزَلَ بِذِی حُرُضٍ، وَأَعْلَمَ الْأَوْسَ وَالْخَزْرَجَ مَا عَزَمَ عَلَیْهِ، ثُمَّ أَرْسَلَ إِلَى وُجُوهِ الْیَهُودِ یَسْتَدْعِیهِمْ إِلَیْهِ، وَأَظْهَرَ لَهُمْ أَنَّهُ یُرِیدُ الْإِحْسَانَ إِلَیْهِمْ، فَأَتَاهُ أَشْرَافُهُمْ فِی حَشَمِهِمْ وَخَاصَّتِهِمْ، فَلَمَّا اجْتَمَعُوا بِبَابِهِ أَمَرَ بِهِمْ فَأُدْخِلُوا رَجُلًا رَجُلًا وَقَتَلَهُمْ عَنْ آخِرِهِمْ

چنددن بعد ایک لشکر جرار کے ساتھ مدینہ منورہ روانہ ہواوہاں پہنچ کرشہرسے باہرجبل احدکے شمال مغرب میں ذی حرض کے مقام پر خیمہ زن ہوا، ادھریہودلشکرکی آمدکی اطلاع ملتے ہی قلعہ بندہوگئے مگر ابوجبیلہ نے کمال دانشمندی اورعقلمندی سے کام لیا اور یہود کو دام فریب میں پھنسانے کے لئے ایک عالیشان مکان بنوایا جس میں بے حدپرتکلف دعوت کا انتظام کیااوراوس وخزرج کوبیشمارقیمتی تحفے عطا کیے ، پھر یہودکے روساکوبھی دعوت دی وہ لالچ وطمع کاشکارہوکرشاہ غسان کے دام میں آ گئے ، اس نے ایک ایک سردار کو چن چن کرقتل کیااس طرح تین سوپچاسی نامورسردارموت کے گھاٹ اتار دیئے گئےجس سے یہودکی شان وشوکت خاک میں مل گئی۔[63]

بچے کھچے سرداروں کومالک بن عجلان نے تہ تیغ کر دیا اورعام لوگ جوزندہ بچے انہوں نے مدینہ سے بھاگ جانے میں عافیت سمجھی اوربعض نے اوس وخزرج سے امان طلب کی اوران کے دست نگرہوکرمدینہ منورہ میں رہناگوارہ کر لیا(ایک روایت کے مطابق یثرب پراوس وخزرج کاتسلط چارسوبیانوے عیسوی( ۴۹۲ء )میں قائم ہوا۔[64]

اس طرح مدینہ منورہ میں اوس وخزرج کی حکومت کاسورج طلوع ہوا اور انہیں ہرلحاظ سے سکون وطمانیت نصیب ہوئی ، یہود کی کمرٹوٹ گئی اوران کی تعداد انتہائی کم ہو گئی،اب جو گردش ایام نے پلٹاکھایاتوذلت ورسوائی،تباہی وبربادی یہودکا مقدر بن گئی اورعزت وثروت اورشوکت وتوانائی اوس وخزرج کے قدم چومنے لگی،اوس وخزرج کثیرمال وجائیدادکے مالک ہوئے ، ہر دو خاندانوں نے بڑی کثرت سے قلعے تعمیرکرلئے،ان کی مختلف شاخوں نے یثرب میں اپنے محلے آبادکرلئے اورہرشاخ نے متعددقلعے تعمیر کیے،اللہ نے ان کی اولادمیں بڑی برکت دی اوران کی تمام شاخیں عرصہ تک اتفاق واتحاد اوریگانیت کے ساتھ خوشحالی ،فارغ البالی اوردم خم سے پرلطف زندگی گزارتی رہیں ۔

 قبائل اوس وخزرج کے قیام کی جگہیں :

مدینہ منورہ میں قبائل اوس میں بنوعبدالاشہل بن جثم بن الحارث اوربنوحارثہ بن الخزرج الاصغربن عمروبن مالک بن اوس شرقی سمت مقیم تھے جہاں ان کے مکانات اورقلعے پائے جاتے تھے،بنوظفرجوکعب بن الخزرج الاصغرمیں سے تھے بقیع کے مشرق میں آبادتھے جہاں ان کی مسجدالبفلہ مشہورہے ،ان کے قریب ہی بنوخیم زعوربن جثم آبادتھے،بنوعمروبن عوف بن مالک بن الاوس قباء میں آبادتھے اوران کی بہت سی شاخیں تھیں ،بنومعاویہ بن مالک بقیع الغرقدکے پیچھے مسجداجابہ کے قریب آبادتھے،امراء القیس بن مالک بن اوس کے بیٹے واقف اوربنواسلم مسجدفضیخ کے قبلہ سمت آبادتھے اوربنوسعدبن مرہ بن مالک بن اوس رائج میں آبادتھے۔[65]

جبکہ خزرج میں بنو حارث بن خراج الاکبروادی بطحان کے مشرق میں جبکہ حارث کے بیٹے جثم اورزیدشخ میں آبادتھے،بنوحطمہ وادی بطحان کے مغرب میں ،بنوحدارہ بن عوف بن الحارث جرارسعد شامی میں ،بنوحدارہ بن عوف بن حارث بصہ (موجودہ نام بوصہ ہے، اورباب العوالی کے قریب واقع ہے)کے قریب ،بنوسام اوربنوغنم بن عوف بن عمربن عوف بن الخزرج الاکبر حرہ غربیہ کی جانب مسجدجمعہ کے قریب آبادتھے ،اس جگہ ان کاایک قلعہ القوافل کے نام سے مشہورتھا جومسجدبنی عطیہ کے پاس قبا میں واقع تھا،بنوسلمہ بن سعد بن علی بن اسد بن شاردہ بن تزیدمسجد قبلتین اوراطم بنی حرام کے درمیان آبادتھے۔بنوسواربن غنم بن سلمہ مسجد قبلتین کے پاس آباد تھے ، بنوعبید بن عدی بن غنم بن کعب بن سلمہ مسجدخربہ کے قریب پہاڑکی جانب اوربنوحرام بن کعب بن غنم بن کعب بن سلمہ قاع کے مقام پرآبادتھے،بنووقش اوربنوعنان جوثعلبہ بن ظریف بن الخزرج کی شاخیں تھیں مسجد راٗیہ کے قریب آبادتھے،بنومالک بن النجاراوربنوغنم بن مالک مسجدنبوی کے مشرق میں آبادتھے۔[66]

تہذیب وتمدن کے معاملے میں اوس وخزرج قبل ازاسلام عرب کے اکثردوسرے قبائل سے ممتازتھے،وہ بالعموم جمہوری اصولوں کے مطابق زندگی بسرکرتے تھے،ان کی قیادت ایک سرداراورایک سپہ سالارکے سپردہوتی تھی جنہیں وہ باہم مشورے سے اوراتفاق سے منتخب کرتے تھے،کبھی کبھارایسابھی ہوتاکہ ان دونوں عہدوں کی ذمہ داریاں ایک شخص کوتفویض کردی جاتیں تھیں ،جب تک اوس وخزرج میں باہم اتحادرہاان کاسرداربالعموم قبیلہ خزرج سے منتخب کیاجاتاتھامگرجب ان میں انتشار، افتراق کاسلسلہ شروع ہواتودونوں قبیلے اپناالگ الگ سردارمنتخب کرنے لگے،سپہ سالاری کے عہدے کابھی یہی حشرہواپھران بڑے قبائل کے اندربھی تفریق پیداہوگئی اوران کی مختلف شاخوں نے اپنے الگ الگ رئیس چن لئے۔

اوس وخزرج کی معاش کاانحصارزراعت پرتھا،وہ زمینیں کاشت کرتے تھے اورباغات لگاتے تھے،یثرب کی زمین زرخیزتھی اس لئے معاشی اعتبارسے وہ عام طورپرخوشحال تھے ،بعض لوگوں نے تجارت کوبھی ذریعہ معاش بنایاتھالیکن تجارت کامیدان عام طورپریہودیوں کے ہاتھ میں تھا۔

اوس وخزرج میں صنعت وحرفت کارواج شاذونادرتھاالبتہ بعض لوگوں نے آہن گری،بافندگی،نجاری،حجام اورقصاب وغیرہ کے پیشوں کواختیارکررکھاتھا،لڑائیوں میں استعمال ہونے والے ہتھیاروہ خودبناتے تھے یایہودسے خریدتے تھے جواسلحہ سازی کے ماہرتھے۔

ان میں تعلیم کارواج بہت کم تھااوروہ عام طورپرجاہل تھے البتہ کچھ لوگ عربی میں لکھ پڑھ لیتے تھے اورکچھ عبرانی بھی جانتے تھے،اسلام سے قبل اوس وخزرج کی مذہبی حالت عام اہل عرب سے چنداں مختلف نہ تھی،ابن ہشام کابیان ہے

 وَالْأَوْسُ وَالْخَزْرَجُ أَهْلُ شِرْكٍ یَعْبُدُونَ الْأَوْثَانَ. لَا یَعْرِفُونَ جَنَّةً وَلَا نَارًا، وَلَا بَعْثًا وَلَا قِیَامَةً، وَلَا كِتَابًا، وَلَا حَلَالًا وَلَا حَرَامًا

اوس وخزرج مشرک تھے اوربتوں کے پرستارتھےوہ جنت ودوزخ ،بعث نشرقیامت اورحلال وحرام سے ناواقف تھے۔[67]

اوس وخزرج میں بھی بت پرستی کارواج عام تھا،ان کاخاص معبود مناة تھا مگراس کے علاوہ لات ،العزیٰ اور ودوغیرہ کی بھی پوجاکرتے تھے،اس مقصدکے لئے انہوں نے یثرب میں اپنی بہت سی عبادت گاہیں بنارکھی تھیں اوریہ سب کچھ ایک مستقل نظام کے ماتحت تھا،ان عبادت گاہوں کی نگرانی اورانتظام ہرقبیلے کاکوئی ممتازاورمذہبی شخص کرتا تھا ، مدینہ منورہ کے مندروں کے علاوہ اوس وخزرج کے تمام سربرآوردہ لوگوں کے گھروں میں بت موجودتھے ،جیسے

عمر بْنِ قَیْسٍ، أَحَدِ بَنِی غَنْمِ بْنِ مَالِكِ بْنِ النَّجَّارِ كَانَ صَاحِبَ آلِهَتِهِمْ فِی الْجَاهِلِیَّةِ

غنم بن مالک بن نجارکے بت خانہ میں بہت سے بت موجود تھے اور عمربن قیس ان کامتولی تھا۔[68]

چنانچہ جب اسلام مدینہ منورہ میں طلوع ہوااس وقت اس عہدہ پر عمروبن قیس فائز تھاتاہم بعض لوگ اللہ تعالیٰ کی عبادت کی طرف بھی مائل تھے جس کی مختلف صورتیں اختیارکررکھی تھیں ،بعض لوگوں نے خیبرکے یہود ،قبیلہ قریظہ اورقبیلہ نضرکے میل جول کے اثرسے بت پرستی چھوڑکریہودی مذہب اختیارکرلیاتھا،رفتہ رفتہ اوس وخزرج میں یہودی مذہب بے حدمقبول ہوگیا

كَانَتَ الْمَرْأَةُ مِنَ الْأَنْصَارِ لَا یَكَادُ یَعِیشُ لَهَا وَلَدٌ، فَتَحْلِفُ: لَئِنْ عَاشَ لَهَا وَلَدٌ أَنْ تُهَوِّدَهُ

یہاں تک کہ جب کسی انصاری عورت کا لڑکا زندہ نہ رہتاتووہ منت مانتی کہ اگر اولاد پیداہوئی اورزندہ رہی تواسے یہودی بناؤں گی۔

اس طرح انصارمیں یہودی مذہب اختیارکرنے والوں کی ایک خاصی تعداد ہوگئی تھی جن میں قبائل عوف ،نجار ، حارث،ساعدہ،چشم،اوس اورثعلبہ شامل تھےچنانچہ رجب چارہجری میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنی نضیرکوان کی حرکات کی وجہ سے جلاوطن کیاتوان میں انصارکے وہ بچے بھی شامل تھے جویہودی مذہب کے پیروتھے ،انصارنے کہاہم اپنے بچوں کونہیں چھوڑیں گے ،ہم نے ان کواس وقت یہودی بنایا تھا جب ہم ان کے دین کواپنے دین سے بہترسمجھتے تھے مگراب جبکہ اسلام کا آفتاب طلوع ہوچکاہے اورتمام ادیان سے افضل دین ہمارے پاس ہے توہم اپنے بچوں کویہودی نہ رہنے دیں گے اور انہیں اسلام پر مجبور کریں گے ،اس پریہ حکم نازل ہوا

لَآ اِكْرَاهَ فِی الدِّیْنِ۔۔۔ ۝۲۵۶ [69]

ترجمہ:انہیں جبراًمسلمان نہ بناؤکیونکہ دین میں اکراہ نہیں ہے۔[70]

ایک دوسری روایت میں ہے کہ ایک شخص کے دوبیٹے نصرانی تھے اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضرہوکرعرض کی کہ میرے بیٹے نصرانیت کوچھوڑنے پر راضی نہیں ہوتے کیامیں انہیں مجبورکرسکتاہوں ؟اس پر آیت’’ دین میں اکراہ نہیں ہے۔‘‘نازل ہوئی۔

وَمِنْ یَهُودِ بَنِی زُریق: لَبِید بْنُ أعْصم، وَهُوَ الَّذِی أخذَ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ علیه وسلم عن نسائِه وَمِنْ یهودِ بَنِی حَارِثَةَ: كِنَانَةُ بْنُ صُورِیا.وَمِنْ یَهُودِ بَنِی عَمْرِو بْنِ عَوْف: قَرْدم بن عمرو.وَمِنْ یَهُودِ بَنِی النَّجَّارِ: سِلْسِلة بْنُ بَرْهام.

نیز بنو زریق سے لبید بن اعصم ، بنو حارثہ سے کنانہ بن صوریا ، بنوعمروبن عوف سے قردم بن عمرواور سلسلہ بن برہام بنونجارمیں سے ، ان سب قبائل کے سرداراورمشہورآدمی یہودی تھے۔ [71]

مہمات امورمیں مشورہ کے لئے اوس وخزرج نے ایک بڑی حویلی تعمیرکی تھی جوستیفہ بنی ساعدہ کے نام سے مشہورتھی،یہ حویلی سعدبن عبادہ رئیس خزرج کے مکان سے متصل تھی اورانہی کی ملکیت سمجھی جاتی تھی ،اس حویلی کی حیثیت دارالشوریٰ کی تھی۔

مکہ مکرمہ ایک منظم ریاست تھی وہاں فوج،محاصل،عبادت،تعلقات خارجہ،عدل گستری وغیرہ کے کوئی پچیس سرکاری عہدے تھے،اس کے برخلاف یثرب جس کی آبادی تقریبا ًدس ہزارتھی میں نراج کی کیفیت تھی اورکوئی مرکزی شہری نظام نہ تھا ،ہرقبیلے کاالگ رواج تھااوروہ اپنے اپنے سقیفے یاسائبان میں اپنے امورطے کرتاتھا،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیعت عقبہ میں بارہ قبائل میں بارہ مسلمانوں کواپنی طرف سے نقیب مقررکرکے مرکزیت پیداکرنے کی کوشش پیدافرمائی تھی ،ان مبلغوں کی کوشش سے تین سال کے اندرشہرمیں معتدبہ لوگ مسلمان ہوچکے تھے مگرمذہب ابھی تک خانگی ادارہ تھااس کی سیاسی حیثیت وہاں کچھ نہ تھی اورایک ہی گھرمیں مختلف مذاہب کے لوگ رہتے تھے ، لین دین اورکاروباربالعموم اشیاکے باہمی تبادلے کے ذریعے ہوتاتھا،یثرب کے قرب وجوارمیں بہت سے چشمے اورنہریں بہتی تھیں ،اوس وخزرج نے آمدورفت میں سہولت کے لئے ان پرجابجاپل بنارکھے تھے۔

اوس وخزرج اپنے مردوں کودفناتے تھے اورشہرکے مختلف حصوں میں انہوں نے کئی قبرستان بنارکھے تھے،وہ حج بیت اللہ اورقربانی کے قائل تھے اورہرسال ان کی ایک بڑی تعدادحج کے لئے مکہ معظمہ جاتی ،حج کے ایام میں ہتھیارنہیں اٹھاتے تھے اوراشہرحرم کی دل سے عزت کرتے تھے،ان کی اخلاقی حالت عرب کے دوسرے قبائل کی نسبت قدرے بہترتھی،فوحش کوبراجانتے تھے اوراخلاقی جرائم کاکسی نہ کسی صورت میں محاسبہ کرتے تھے۔

اس کے بعدبدویانہ فطرت کے مطابق ان کے درمیان خانہ جنگیوں کاایک طویل سلسلہ شروع ہوگیاجس کی ابتداجنگ سمیرسے ہوئی جس میں وہ بھی انتشار، افتراق اورخانہ جنگی کاشکارہوکراپنی تمام ترتوانائی اورنامورسردارباہمی جنگ وجدال میں تباہ کردیئےیہ سلسلہ ایک سوبیس برس تک جاری رہا،

امام زین الدین مراغی رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ اوس وخزرج کے درمیان ایک سوبیس سال تک جنگ کاسلسلہ جاری رہا۔[72]

آخر اس کااختتام انتہائی تباہ کن جنگ بعاث پرہواجوہجرت نبوی سے صرف پانچ سال پہلے واقع ہوئی جس میں دونوں خاندان تباہ وبربادہوئےاوران میں کسی اورجنگ کی سکت نہ رہی بالآخرجنگ سے تھک ہارکربچے کھچے لوگ آپس میں صلح کرنے پرمجبور ہو گئے اورطے پایاکہ کسی ایک سردارکودونوں خاندانوں کو متفقہ طورپربادشاہ تسلیم کرکے آمن وآتشی اورراحت ورافت کی زندگی بسرکریں ، چنانچہ قبیلہ عوف بن خزرج کے رئیس عبداللہ بن ابی بن سلول پردونوں خاندان متفق ہوگئے اور اس کی تاج پوشی کے لئے جشن منانے کی تیاریاں کرنے لگے۔[73]

اوس وخزرج میں بھی تاج پوشی کارواج تھا اوررئیس تاج کے ساتھ کچھ پٹیاں بھی استعمال کرتاتھا،

قَالَ سَعْدُ بْنُ عُبَادَةَ: یَا رَسُولَ اللَّهِ، لَقَدِ اصْطَلَحَ أَهْلُ هَذِهِ البُحَیْرَةِ عَلَى أَنْ یُتَوِّجُوهُ فَیُعَصِّبُوهُ بِالعِصَابَةِ

سعدبن عبادہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اس بستی (مدینہ منورہ)کے لوگ(پہلے) اس پرمتفق ہوچکے تھے کہ اس(عبداللہ ابن ابی کو)تاج پہنادیں اور(شاہی)عمامہ اس کے سرپرباندھ دیں ۔ [74]

سُمِّیَ الرَّئِیسُ مُعَصَّبًا لِمَا یَعْصِبُ بِرَأْسِهِ من الْأُمُور أَو لأَنهم یعصبون رؤوسهم بِعِصَابَةٍ لَا تَنْبَغِی لِغَیْرِهِمْ یَمْتَازُونَ بِهَا

امام ابن حجرعسقلانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں یعنی رئیس کومصعب کہنے کی وجہ یہ ہے کہ اس کے سرپرایک پٹی علامت کے طورپرہوتی تھی جودوسرے نہیں باندھ سکتے تھے۔[75]

فیعمموه بعمامة الْمُلُوك

پٹی باندھنے کامطلب یہ ہے کہ اس کے بادشاہ ہونے کا عمامہ باندھا جائے۔[76]

اوس وخزرج اگرچہ مشرک اوربت پرست تھے مگریہودکے ساتھ میل جول کی وجہ سے کتب آسمانی اورنبی آخرالزمان صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی کے تذکرہ سے آشنا تھے ، یہودسے رقابت وعداوت کے باوجودان کے علمی فضل وکمال کے قائل تھے

فَإِذَا نِلْنَا مِنْهُمْ بَعْضَ مَا یَكْرَهُونَ، قَالُوا لَنَا: إنَّهُ (قَدْ) تَقَارَبَ زَمَانُ نَبِیٍّ یُبْعَثُ الْآنَ نَقْتُلُكُمْ مَعَهُ قَتْلَ عَادٍ وَإِرَمٍ

یہودکاجب کبھی اوس وخزرج سے جھگڑاہوتاتووہ دھمکی دیتے کہ عنقریب نبی آخرالزمان صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث ہونے والے ہیں پھرہم ان کے ساتھ مل کرتمہیں قوم عادوارم کی طرح تباہ وبرباد کر دیں گے۔[77]

اورفتح ونصرت کی دعائیں نانگاکرتے تھے کہ وہ نبی جلدی سے آجائے توکفار کا غلبہ ٹوٹے اور پھرہمارے عروج کا دور شروع ہو۔

[1] وفاء الوفاء بأخبار دار المصطفى۱۲۵؍۱

[2] کتاب المحبر ۳۸۴،۳۸۵

[3]وفاءالوفاء ۱۲۵ ؍ ۱

[4] مروج الذھب ۱۲۷؍۲

[5] الروض الانف ۱۷۲؍۴

[6] جمہرة انساب العرب لابن حزم۴۸۶

[7] جمہرة انساب العرب۴۶۲

[8] معارف ۲۷؍۱

[9] کتاب العبرج ۱۹؍۲

[10] کتاب العبر ج۲۹۵؍۲

[11] کتاب العبرج۲۷؍۲

[12] تاریخ یعقوبی ۱۵۱؍۱

[13] تاج العروس۲۰۷؍۲۶

[14] تاج العروس ،عملق ۲۰۸؍۲۶،لسان العرب ،عملق، ۲۷۱؍۱۰

[15] تاریخ ابن خلدون ۳۱؍۲

[16] دائرة المارف فریدوجدی ۵۲۹؍۸

[17] المختصر فی أخبار البشر ۹۸؍۱

[18] مروج الذھب ،ذکرمکہ واخبارھا ۴۶؍۲

[19] کتاب العبرج ،قلب جزیرة العرب۲۷؍۲

[20] کتاب الاغالی ۹۵؍۱۹

[21] یونس۸۳

[22] المائدة ۲۲

[23] المائدة ۲۴

[24] المائدة ۲۶

[25] کتاب الاغالی ۹۵؍۱۹

[26]المختصر فی اخبار البشر ۹۸؍۱

[27] کتاب العبرج ۸۷،۸۸؍۲

[28] فتوح البلدان ۲۵؍۱

[29] الدرة الثمینةفی أخبار المدینة ۲۷

[30] البقرة۸۵

[31] فتوح البلدان۳۴؍۱،ابن ہشام۳۳۷؍۲

[32] صحیح بخاری کتاب الخمس بَابُ مَا كَانَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یُعْطِی المُؤَلَّفَةَ قُلُوبُهُمْ وَغَیْرَهُمْ مِنَ الخُمُسِ وَنَحْوِهِ ۳۱۵۲،صحیح مسلم کتاب المساقاة بَابُ الْمُسَاقَاةِ، وَالْمُعَامَلَةِ بِجُزْءٍ مِنَ الثَّمَرِ وَالزَّرْعِ

[33] صحیح بخاری کتاب الشروط بَابُ إِذَا اشْتَرَطَ فِی المُزَارَعَةِ إِذَا شِئْتُ أَخْرَجْتُكَ۲۷۳۰

[34] فتح الباری۳۲۷؍۵

[35] سنن ابوداودکتاب الخراج والفئی والامارة بَابُ مَا جَاءَ فِی حُكْمِ أَرْضِ خَیْبَرَ ۳۰۰۷

[36] صحیح بخاری کتاب الطب بَابُ مَا یُذْكَرُ فِی سُمِّ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ ۵۷۷۷

[37] اسد الغابة ۲۷۰؍۳،ابن ہشام ۳۵۵؍۲

[38] صحیح بخاری کتاب الجزیة الموادعةبَابُ إِخْرَاجِ الیَهُودِ مِنْ جَزِیرَةِ العَرَبِ۳۱۶۷ ، صحیح مسلم کتاب الجھادوالسیر بَابُ إِجْلَاءِ الْیَهُودِ مِنَ الْحِجَازِ ۴۵۹۱

[39] ابن ہشام۲۵۷؍۲

[40] صحیح بخاری کتاب الشروط بَابُ إِذَا اشْتَرَطَ فِی المُزَارَعَةِ إِذَا شِئْتُ أَخْرَجْتُكَ۲۷۳۰

[41] صحیح بخاری کتاب الشروط بَابُ إِذَا اشْتَرَطَ فِی المُزَارَعَةِ إِذَا شِئْتُ أَخْرَجْتُكَ۲۷۳۰

[42]صحیح بخاری کتاب الشروط بَابُ إِذَا اشْتَرَطَ فِی المُزَارَعَةِ إِذَا شِئْتُ أَخْرَجْتُكَ۲۷۳۰

[43] السنن الکبری للبیہقی۱۱۶۲۹

[44] فتوح البلدان۳۷

[45] فتح الباری۳۶۲؍۵

[46] فتح الباری۳۲۸؍۵

[47] الأنساب للسمعانی۲۸۵؍۶

[48]الروض الانف ۲۵؍۱

[49] کتاب العبرج ۲۸۶؍۱۲

[50] الانساب للسمعانی۳۴۴؍۱۰

[51] جمہرة انساب العرب ۲۳۲

[52] جمہرة انساب العرب ۳۴۶

[53] فتوح البلدان ۲۶،۲۵

[54] کتاب الاغالی ۹۵،۹۶؍۱۹

[55] البدایہ والنہایہ ۱۹۶؍۲

[56] اخبارمکہ ۹۲؍۱

[57] ابن ھشام۱۳؍۱، البدایة والنہایة۲۶۱؍۲

[58] تاریخ ارض القرآن ۱۸۹؍۱

[59] شفاء الغرام، بأخبار البلد الحرام۳۸۹؍۲

[60] المفصّل فی تاریخ العرب قبل الإسلام۹۵؍۱۲

[61]فتح الباری ۳۱۸؍۱۲

[62] وفاء الوفاء ۱۴۲،۱۴۳؍۱، کامل ابن اثیر۵۸۴؍۱، معجم البلدان ۸۵؍۵

[63] الکامل۵۸۵؍۱، معجم البلدان ۸۵؍۵،وفاء الوفاء ۱۴۳؍۱

[64] تاریخ العرب العالم،ترجمہ عادل زعتیرصفحہ۵۱

[65] عمدة الاخبار ۲۶تا۲۸

[66] عمدة الاخبار۲۹تا۳۲

[67] السیرة النبویة۵۴۰؍۱

[68] ابن ہشام ۵۲۸؍۱

[69]البقرة۲۵۶

[70] سنن ابوداود کتاب الجہادبَابٌ فِی الْأَسِیرِ یُكْرَهُ عَلَى الْإِسْلَامِ ۲۶۸۲،صحیح ابن حبان۱۴۰

[71] ابن ہشام ۱۱۷؍۲

[72] معالم دارالھجرہ ۲۴

[73] ابن ہشام ۵۸۴؍۱

[74] صحیح بخاری کتاب تفسیرالقرآن سورة آل عمران بَابُ وَلَتَسْمَعُنَّ مِنَ الَّذِینَ أُوتُوا الكِتَابَ مِنْ قَبْلِكُمْ وَمِنَ الَّذِینَ أَشْرَكُوا أَذًى كَثِیرًا۴۵۶۶،و کتاب المرضیٰ بَابُ عِیَادَةِ المَرِیضِ، رَاكِبًا وَمَاشِیًا، وَرِدْفًا عَلَى الحِمَارِ۵۶۶۳

[75] فتح الباری ۲۳۲؍۸

[76] عمدة القاری ۱۵۶؍۱۸

[77]ابن ہشام۲۱۱؍۱

Related Articles