ہجرت نبوی کا پہلا سال

تعمیرمسجدنبوی

عَنْ أَنَسٍ، فَكَانَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یُصَلِّی حَیْثُ أَدْرَكَتْهُ الصَّلَاةُ، وَیُصَلِّی فِی مَرَابِضِ الْغَنَمِ

انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہےمدینہ منورہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کچھ دن مختلف مقامات پرجہاں نمازکاوقت ہوتانمازپڑھتے رہے اور(بعض اوقات) بکریوں کے باڑہ میں بھی پڑھ لیتے۔[1]

حتی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجدتعمیر کرنے کاپروگرام بنالیا۔[2]

قَالَ فَأَرْسَلَ إِلَى مَلَأِ بَنِی النَّجَّارِ فَجَاءُوا، فَقَالَ:یَا بَنِی النَّجَّارِ، ثَامِنُونِی بِحَائِطِكُمْ هَذَا،قَالُوا: لَا، وَاللهِ لَا نَطْلُبُ ثَمَنَهُ إِلَّا إِلَى اللهِ

اوربنونجار(کے سرداروں )کوبلوایاجب وہ آئے توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایاتم اپناباغ مجھے فروخت کردو،انہوں نے کہااللہ کی قسم !ہم توآپ سے اس باغ کی قیمت نہیں لیں گے ہم اس کامعاوضہ صرف اللہ تعالیٰ سے چاہتے ہیں ۔[3]

مگرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بلامعاوضہ پسندنہ فرمایا، ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کے گھرکے سامنے جس جگہ اونٹنی آکربیٹھ گئی تھی

وَكَانَ مِرْبَدًا لِسَهْلٍ وَسُهَیْلٍ. غُلامَیْنِ یَتِیمَیْنِ مِنَ الأَنْصَارِ. وَكَانَا فِی حِجْرِ أَبِی أُمَامَةَ أَسْعَدَ بْنِ زُرَارَةَ،وَكَانَ جِدَارًا مُجَدَّرًا لَیْسَ عَلَیْهِ سَقْفٌ. وَقِبْلَتُهُ إِلَى بَیْتِ الْمَقْدِسِ. وَكَانَ أَسْعَدُ بْنُ زُرَارَةَ بَنَاهُ فَكَانَ یُصَلِّی بِأَصْحَابِهِ فِیهِ وَیُجَمِّعُ بِهِمْ فِیهِ الْجُمُعَةَ قَبْلَ مَقْدَمِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ

وہ دویتیم انصاری بچے سہل اورسہیل کی تھی جواپنے چچا اسعد رضی اللہ عنہ بن زرارہ کے زیرکفالت تھےاس ناہموار زمین پر وہ اپنی کھجوریں سکھاتے تھے، اور اسعدبن زرارہ رضی اللہ عنہ بغیرچھت کے اس چاردیواری میں جس کاقبلہ بیت المقدس کی جانب تھارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت سے پہلےمسلمانوں کو پنجگانہ نمازاورجمعہ پڑھاتے تھے۔[4]

ثُمَّ دَعَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ الغُلاَمَیْنِ فَسَاوَمَهُمَا بِالْمِرْبَدِ، لِیَتَّخِذَهُ مَسْجِدًا، فَقَالاَ: لاَ، بَلْ نَهَبُهُ لَكَ یَا رَسُولَ اللهِ، فَأَبَى رَسُولُ اللهِ أَنْ یَقْبَلَهُ مِنْهُمَا هِبَةً حَتَّى ابْتَاعَهُ مِنْهُمَا

چند دنوں بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان بھائیوں کوان کے چچا اسعد رضی اللہ عنہ بن زرارہ کے ساتھ بلایااور اللہ وحدہ لاشریک کی عبادت کے لئے جگہ مسجد بنانے کے لئے اس کھلیان کی قیمت دریافت فرمائی توسہل اورسہیل دونوں بھائیوں نے کھلیان کی قیمت لینے سے انکار کر دیا اور بلامعاوضہ ہبہ کرنے کی پیش کش کی مگر محسن انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم کبھی کسی کااحسان گوارانہ فرماتے تھے اس لئے بڑی خوش اسلوبی کے ساتھ اس پیش کش کومستردکردیااورقیمت دے کر خرید لی۔[5]

وقال معمر، عن الزهری:وأمر أبا بكر أن یعطیهما ذلك

امام زہری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو حکم فرمایا کہ اس زمین کی قیمت اداکردیں ۔[6]

فَأَبَى رَسُول اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ ذَلِكَ، وَابْتَاعَهَا مِنْهُمَا بِعَشَرَةِ دَنَانِیرَ أَدَّاهَا مِنْ مَالِ أَبِی بَكْرٍ

ایک اورروایت ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انکارکردیااوران سے یہ زمین دس دینارمیں خریدلی اورابوبکر رضی اللہ عنہ کے مال سے رقم اداکردی۔[7]

عِنْدَ مُوسَى بْنِ عُقْبَةَ عَنِ الزُّهْرِیِّ أَنَّهُ اشْتَرَاهُ مِنْهُمَا بِعَشَرَةِ دَنَانِیرَ وَزَادَ الْوَاقِدِیُّ أَنَّ أَبَا بَكْرٍ دَفَعَهَا لَهُمَا عَنْهُ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ زمین دس دینارمیں خریدلی ،واقدی نے مزیدلکھاہے کہ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے یہ رقم انہیں ادا کردی۔[8]

ایک روایت یہ بھی ہے کہ اس زمین کی قیمت ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ نے اداکی۔

عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ:فَكَانَ فِیهِ مَا أَقُولُ لَكُمْ قُبُورُ المُشْرِكِینَ، وَفِیهِ خَرِبٌ وَفِیهِ نَخْلٌ

انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں اس زمین پر مشرکین کی قبریں تھیں ،اس باغ میں ایک ویران جگہ تھی اورکچھ کھجورکے درخت بھی تھے۔[9]

وكان فی المربد ماء مسحل فسیره

اورشمالاًجنوباًایک برساتی نالہ بھی تھا۔[10]

فَأَمَرَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بِقُبُورِ المُشْرِكِینَ، فَنُبِشَتْ، ثُمَّ بِالخَرِبِ فَسُوِّیَتْ، وَبِالنَّخْلِ فَقُطِعَ، فَصَفُّوا النَّخْلَ قِبْلَةَ المَسْجِدِ

جب زمین کا معاملہ حل ہوگیا توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نےمشرکین کی قبروں اکھاڑوادیا ،ویرانہ کوصاف اور زمین کے نشیب وفرازکو ہموارکرایااوردرختوں کوکٹواکران کی لکڑیوں کو مسجدکے قبلہ کی جانب بچھادیا۔[11]

اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مہاجرین وانصار کو کچی اینٹیں بنانے کاحکم فرمایا اورخودبھی بنفس نفیس اس کام میں شامل ہوگئے،

وضرب لبنه من بقیع الخبخبة ناحیة بئر أبی أیوب

کچی اینٹیں بنانے کاانتظام جنت البقیع کے مشرق میں بئرایوب کے قریب کیاگیاتھا۔[12]

جب اینٹیں تیارہوگئیں توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو گاراتیارکرنے کاحکم فرمایا

فَأَخَذْتُ الْمِسْحَاةَ، فَخَلَطْتُ بِهَا الطِّینَ

وہ پھاولہ لیکر گارا گھولنے کے لئے کھڑے ہوگئے۔[13]

فقلت:یَا رَسُولَ الله أأنقل كما ینقولون؟ قال:لا، ولكن أخلط لهم الطِّینِ، فأنت أعلم به

صحیح ابن حبان میں ہےسیدنا علی رضی اللہ عنہ نے عرض کیااے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم !میں بھی اینٹیں اٹھاکر لاؤں جیسے دوسرے اٹھا کرلارہے ہیں ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں تم گارابناؤتم اس کام سے خوب واقف ہو۔[14]

أَنَّ أَبَاهُ طَلَّقَ بْنَ عَلِیٍّ قَالَ: بَنَیْتُ الْمَسْجِدَ مَعَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، وَكَانَ یَقُولُ:قَرَّبِ الْیَمَامِیَّ مِنَ الطِّینِ، فَإِنَّهُ أَحْسَنُكُمْ لَهُ مَسًّا وَأَشَدُّكُمْ مَنْكِبًا

طلق بن علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں مسجدنبوی کی تعمیرمیں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھاآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاتھا یمامی گارابنانے میں خوب مہارت رکھتا ہے لہذااس سے یہی خدمت لی جائے ۔[15]

وَعَنْ طَلْقِ بْنِ عَلِیٍّ قَالَ: جِئْتُ إِلَى النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَأَصْحَابُهُ یَبْنُونَ الْمَسْجِدَ، قَالَ: فَكَأَنَّهُ لَمْ یُعْجِبْهُ عَمَلُهُمْ قَالَ: فَأَخَذْتُ الْمِسْحَاةَ فَخَلَطْتُ بِهَا الطِّینَ قَالَ: فَكَأَنَّهُ أَعْجَبَهُ أَخْذِی الْمِسْحَاةَ وَعَمَلِی فَقَالَ: دَعُوا الْحَنَفِیَّ وَالطِّینَ فَإِنَّهُ أَضْبَطُكُمْ لِلطِّینِ

ایک اور روایت میں طلق بن علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضرہو ا جبکہ آپ اپنے جاں نثارصحابہ کے ساتھ تعمیر مسجد میں مصروف ومنہمک تھے آپ کوگاراپسندنہ آیا،میں پھاوڑالیکرگارابنانے لگاجب اسے اچھی طرح گوندھ کرتیار کر لیا توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بہت پسند فرمایا اور فرمایا کہ یمامی گارا بنانے میں خوب مہارت رکھتا ہے لہذااس سے یہی خدمت لی جائے۔[16]

السمودی رحمہ اللہ اور امام عمادالدین ابن کثیر رحمہ اللہ کی بیان کردہ روایت کے مطابق بروز سہ شنبہ چارربیع الثانی تیرہ بعثت نبوی مطابق ۱۶ اکتوبر ۶۲۲ء کومسجدکاسنگ بنیاد رکھا گیا ،

امام ابن نجار رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد کی بنیادیں پتھروں سے اٹھائیں اوردیواریں کچی اینٹوں سے بنوائیں ۔

وكانوا رفعوا أساسه قریبا من ثلاثة أذرع بالحجارة

مسجدنبوی کی بنیادیں تقریباًتین ہاتھ پتھروں سے اٹھائی گئیں ۔[17]

وجعلوا الأساس قریبا من ثلاث أذرع على الأرض بالحجارة، ثم بنوه باللبن

مسجدکی بنیادزمین سےتقریباًتین زرع کے قریب نیچے تھی جوپتھروں سے بنائی گئی تھی اوراس کے اوپرکچی اینٹوں سے چنائی کی گئی ۔[18]

وطفق رَسُول اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَنْقُلُ معهم اللبن فی بنیانه ویقول

مسجدکی تعمیرکے لئے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بڑے وقار، انہماک ، ولولہ اورجذبہ کے ساتھ اینٹیں لانے میں مصروف تھے اورسرورعالم بھی ان کے شانہ بشانہ انیٹیں اٹھا اٹھا کرلاتے رہے ،اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان پریہ الفاظ جاری تھے ۔

اللهُمَّ إِنَّهُ لَا خَیْرَ إِلَّا خَیْرَ الْآخِرَةْ ،فَانْصُرِ الْأَنْصَارَ وَالْمُهَاجِرَةْ

اےاللہ!آخرت ہی کی خیر،خیرہے،پس توانصاراورمہاجرین کی مددفرما۔[19]

اورصحابہ کرام رضی اللہ عنہم اپنے دلی جذبات کا اظہار مختلف اشعار سے کررہے تھے اورمحسن انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم ان کی آوازسے آوازملاکردادتحسین دیتے ۔

هَذَا الْحَمَالُ لَا حَمَالَ خَیْبَرْ ، هَذَا أَبَرُّ رَبَّنَا وأطهر

یہ بوجھ جوہم اٹھارہے ہیں خیبر(کی کھجوروں )کابوجھ نہیں       بلکہ یہ تواے ہمارے رب!نیک ترین اورپاکیزہ ترین کام ہے

اللهُمَّ لَا خَیْرَ إِلَّا خَیْرُ الْآخِرَةْ ،فَارْحَمِ الْأَنْصَارَ وَالْمُهَاجِرَةْ

اےاللہ!اصل ثواب وہ ہے جوآخرت میں ملے گا،لہذاانصارومہاجرین پررحم فرما۔[20]

بعض لوگ یہ رجزپڑھ رہے تھے۔

لَئِنْ قَعَدْنَا وَالنَّبِیُّ یَعْمَلُ  ،لَذَاكَ مِنَّا الْعَمَلُ الْمُضَلِّلُ

اگرہم فارغ بیٹھے رہے اوررسول اللہ کام کرتے رہے،تویہ یقیناًبہت غلط کام ہوگا۔[21]

وكان عثمان بن عفان رجلا نظیفا متنظفا وكان یحمل اللبنة فیجا فى بها عن ثوبه فاذا وضعها نفض كمه ونظر الى ثوبه فان أصابه شىء من التراب نفضه فنظر الیه على بن أبى طالب فأنشأ یقول

اینٹیں اٹھا لانے والوں میں عثمان رضی اللہ عنہ بن مظعون بھی شامل تھے،وہ فطری طورپرنظیف الطبع واقع تھے، مزاج میں صفائی اور ستھرائی زیادہ تھی اس لئے جب کچی انیٹیں اٹھا کر لاتے تو اپنے کپڑوں سے دوررکھتے اوراگرکہیں مٹی لگ جاتی تواسے جھاڑتے تھے،سیدنا علی رضی اللہ عنہ بن ابوطالب نے انہیں مٹی جھاڑتے ہوئے دیکھاتو انہیں چھڑتے ہوئے کہا

لَا یَسْتَوِی مَنْ یَعْمُرُ الْمَسَاجِدَا یَدْأَبُ فِیهَا قَائِمًا وَقَاعِدًا، وَمَنْ یُرَى عَنِ التُّرَابِ حَائِدًا

یقیناًجوشخص مسجدیں تعمیرکرتااوران میں کھڑایابیٹھامسلسل عبادت میں مصروف رہتاہے اوروہ شخص جومٹی سے بچنے کی کوشش کرتاہے یعنی تعمیرمیں بھی حصہ نہیں لیتااورعبادت بھی نہیں کرتایہ دونوں برابرنہیں ہوسکتے۔[22]

مسجدکی تعمیربارہ دن جاری رہی۔

عن خارجة بن زید أحد فقهاء المدینة: بنى رسول الله صلّى الله علیه وسلّم مسجده سبعین ذراعا فی ستین أو یزید

خارجہ بن زیدفقیہ مدینہ کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجدکی کچی انیٹوں کی دیواریں سترہ گزلمبی اورساٹھ گزچوڑی رکھی تھیں ،

امام مالک رحمہ اللہ کے تلمیذمحمدبن یحی کے مطابق شرقا ً غرباً تریسٹھ گزتھے اور شمالاً وجنوباًچون گز اور دوثلیث تھے۔

بعض کہتے ہیں مسجدنبوی کی پہلی تعمیرکاحدوداربعہ ایک سوپانچ مربع فٹ تھا۔

بعض کہتے ہیں مسجدمربع شکل کی تھی جس کوطول وعرض ۷۰x۷۰ ذرائع تھا۔

مُؤَخَّرِهِ مِائَةَ ذِرَاعٍ، وَالْجَانِبَیْنِ مِثْلَ ذَلِكَ أَوْ دُونَهُ، وَجَعَلَ أَسَاسَهُ قَرِیبًا مِنْ ثَلَاثَةِ أَذْرُعٍ

بعض کہتے ہیں سوگزلمبی اور تقریباًسوگزہی عریض تھیں جن کی بنیادیں تقریبا ًتین ہاتھ گہری تھیں ۔[23]

دیواروں کی بلندی ایک قدآدم سے کچھ زائد تھی۔

وَجَعَلَ قِبْلَتَهُ إِلَى بَیْتِ الْمَقْدِسِ، وَجَعَلَ لَهُ ثَلاثَةَ أَبْوَابٍ: بَابًا فِی مُؤَخَّرِهِ. وَبَابًا یُقَالُ لَهُ بَابُ الرَّحْمَةِ. وَهُوَ الْبَابُ الَّذِی یُدْعَى بَابُ عَاتِكَةَ. وَالْبَابُ الثَّالِثُ الَّذِی یَدْخُلُ فِیهِ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وهو الْبَابُ الَّذِی یَلِی آلَ عُثْمَانَ

قبلہ بیت المقدس کی جانب رکھا گیامسجدکے تین دروازے رکھے ایک جنوب میں دوسرامغرب کی طرف جسے باب عاتکہ اورباب الرحمت کہاجاتاہے اور تیسرا دروازہ مشرق کی جانب باب عثمان جس سے آپ مسجدمیں تشریف لاتے تھے۔[24]

اب اسے باب جبرئیل کہتے ہیں ، ابتدا میں مسجد چھت کے بغیر صرف دیواروں پرمشتمل تھی ،

اسْتَنَاخَتْ عِنْدَ مَوْضِعِ الْمِنْبَرِ مِنَ الْمَسْجِدِ

حافظ ابن حجر نے روایت نقل کی ہےعمیرمسجد کے بعدجس جگہ اونٹنی بیٹھی تھی اس جگہ منبرنصب فرمایا۔[25]

عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: كُنَّا نُصَلِّی مَعَ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَیَضَعُ أَحَدُنَا طَرَفَ الثَّوْبِ مِنْ شِدَّةِ الحَرِّ فِی مَكَانِ السُّجُودِ

انس رضی اللہ عنہ بن مالک فرماتے ہیں ہم( سخت گرمی میں ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھتے تھے توسخت گرمی کی وجہ سے ہم میں سے کوئی(تپش کی وجہ سے اپنی پیشانی کوزمین پررکھنے کی طاقت نہ رکھتا)تووہ اپنے کپڑے کوبچھاکراس پرسجدہ کرتا ۔[26]

جب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم گرمی کی شدت سے دوچارہوئے تو اس تکلیف کا اظہارکرتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے چھت بنانے کی اجازت چاہی،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چھت بنانے کی اجازت مرحمت فرمائی،چنانچہ صحابہ نے تھوڑے تھوڑے فاصلے پر کھجورکے تنے کھڑے کیے اوران کے اوپرکھجورکی شاخیں اوراذخرکی گھاس وغیرہ ڈال کرچھت بنادی ،چھت کیونکہ دھوپ سے بچاوکے خاطرڈالی گئی تھی مگراس سے بارش کا پانی نہیں رک سکتاتھااس لئے جب پانی ٹپکنے کے باعث صحابہ رضی اللہ عنہم کو دشواری کا سامنا کرنا پڑاتوپھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کی کہ اگراجازت ہوتو چھت پرمٹی ڈال دی جائے کیونکہ بارش کی وجہ سے پانی ٹپکتاہے اور نماز کی ادائیگی میں دقت پیش آتی ہے،

أَنَّ الْأَنْصَارَ، جَمَعُوا مَالًا فَأَتَوْا بِهِ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَقَالُوا: یَا رَسُولَ اللهِ، ابْنِ لَنَا هَذَا الْمَسْجِدَ وَزَیِّنْهُ، إِلَى مَتَى نُصَلِّی تَحْتَ هَذَا الْجَرِیدِ؟ فَقَالَ: مَا بِی رَغْبَةٌ عَنْ أَخِی مُوسَى، عَرِیشٌ كَعَرِیشِ مُوسَى

ابن کثیر رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں انصارنے کچھ مال جمع کیااوراسے لے کررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچےاورعرض کیااے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !اس سے مسجدکی زیب وزینت فرمائیں ، آپ نے فرمایامیں اپنے بھائی موسیٰ کے طریق سے اعراض نہیں کرنا چاہتا ، بس یہ ایک چھپڑہے موسیٰ کے چھپڑکی طرح (موسیٰ علیہ السلام کا چھپڑ ایساتھاکہ جب آپ علیہ السلام کھڑے ہوتے تو سر چھت کے ساتھ لگ جاتاتھا)۔[27]

امام زین الدین المراغی رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ بالآخر حالات اور ضرورت کے پیش نظرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مٹی، گارا لگانے کی اجازت دے دی جس کے باعث لوگوں نے چھت پرمٹی ڈال کربہتربنادیا۔[28]

اس طرح مدینہ منورہ میں اسلام کاپہلامرکزتکمیل پذیر ہوگیا ، قبلہ اول بیت المقدس کی دیوارکے متصل چھوٹی سی جگہ فقراء وغرباء کے ٹھیرنے کے لئے ایک چھوٹاساچبوترہ بنایا گیا جہاں اصحاب صفہ رہائش پذیر ہوتے ، اللہ کایہ گھراپنی سادگی میں بے مثل تھااور موسیٰ علیہ السلام کے چھپڑسے کچھ زیادہ ہی سادہ تھا،جب بارش ہوتی چھت سے پانی ٹپکنے لگتا اور مسجد کیچڑ سے بھر جاتی لیکن صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اسی میں ہی خالق کائنات کے حضورجبیں نیازجھکا دیتے اوراسی میں ہی انہیں کیف وسرورحاصل ہوتاتھا ۔

عَنْ أَبِی سَعِیدٍ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: اعْتَكَفْنَا مَعَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، العَشْرَ الأَوْسَطَ،فَلَمَّا كَانَ صَبِیحَةَ عِشْرِینَ نَقَلْنَا مَتَاعَنَافَأَتَانَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:مَنْ كَانَ اعْتَكَفَ، فَلْیَرْجِعْ إِلَى مُعْتَكَفِهِ، فَإِنِّی رَأَیْتُ هَذِهِ اللیْلَةَ وَرَأَیْتُنِی أَسْجُدُ فِی مَاءٍ وَطِینٍ، فَلَمَّا رَجَعَ إِلَى مُعْتَكَفِهِ وَهَاجَتِ السَّمَاءُ، فَمُطِرْنَا، فَوَالَّذِی بَعَثَهُ بِالحَقِّ لَقَدْ هَاجَتِ السَّمَاءُ مِنْ آخِرِ ذَلِكَ الیَوْمِ، وَكَانَ المَسْجِدُ عَرِیشًا، فَلَقَدْ رَأَیْتُ عَلَى أَنْفِهِ وَأَرْنَبَتِهِ أَثَرَ المَاءِ وَالطِّینِ

ابو سعید خذری رضی اللہ عنہ اس کیفیت کواس طرح بیان کیاہےہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی معیت میں دوسرے عشرے میں مسجدنبوی میں اعتکاف کے لئے بیٹھے،بیسویں کی صبح کوہم نے اپناسامان (مسجدسے )اٹھالیا،پھررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اورفرمایاکہ جس نے(دوسرے عشرہ میں )اعتکاف کیاہے وہ دوبارہ اعتکاف کی جگہ چلےکیونکہ میں نے آج کی رات(شب قدرکو)خواب میں دیکھاہےمیں نے یہ بھی دیکھاکہ میں کیچڑمیں سجدہ کررہاہوں ، پھرجب اپنے اعتکاف کی جگہ(مسجدمیں )آپ دوبارہ آگئے تو اچانک بادل منڈلائے اوربارش ہوئی،اس ذات کی قسم جس نے حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کوحق کے ساتھ بھیجاہے!آسمان پراسی دن کے آخری حصہ میں ابرہواتھااسی اثنامیں رات کوبارش ہو گئی،کیونکہ چھت کھجور کی شاخوں کی تھی( اس سے پانی ٹپکنے لگا)اسی حالت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز فجراداکی تومیں نے دیکھاکہ آپ کی ناک اور پیشانی پر کیچڑ کے نشانات نظرآرہے تھے۔[29]

عَنْ أَبِی الْوَلِیدِ، سَأَلْتُ ابْنَ عُمَرَ، عَنِ الْحَصَى الَّذِی فِی الْمَسْجِدِ؟ مُطِرْنَا ذَاتَ لَیْلَةٍ فَأَصْبَحَتِ الْأَرْضُ مُبْتَلَّةً،فَجَعَلَ الرَّجُلُ یَأْتِی بِالْحَصَى فِی ثَوْبِهِ، فَیَبْسُطُهُ تَحْتَهُ،فَلَمَّا قَضَى رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ الصَّلَاةَ، قَالَ:مَا أَحْسَنَ هَذَا

ابوالولیدکہتے ہیں میں نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مسجدمیں کنکریوں کے بارے میں پوچھاانہوں نے کہاایک مرتبہ رات کوبارش ہوئی اورزمین گیلی ہوگئی (فجرکی نماز کیچڑ میں ہی پڑھی جارہی تھی کہ) ہر آدمی باہر سے کنکریاں کپڑے میں ڈال کر لایا اوراپنی نشست گاہ پر بچھالیتا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز سے فارغ ہوکرکنکریاں دیکھیں توفرمایایہ کس قدراچھاکام ہے۔[30]

چنانچہ اس کے بعد کنکریاں ڈالنے کاعام رجحان ہوگیا۔

أنه أسرج فی مسجد النبی صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بالقندیل والزیت، وكانوا لا یسرجون قبل ذَلِكَ إلا بسعف النخل، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: من أسرج مسجدنا؟ فَقَالَ تمیم الداری: غلامی هذا، فَقَالَ: ما اسمه؟فَقَالَ: فتح،فَقَالَ النبی صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: بل اسمه سراج قَالَ: فسمانی رَسُول اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ سراجا

جب مسجد تیارہوگئی تو عشاء کی نمازکے لئے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کھجورکی شاخوں کی مشعل بناکر لاتے اورمسجدمیں روشنی کرتے،یہ سلسلہ کافی عرصہ تک چلتا رہا پھر تمیم داری کا فتح نامی ایک تجارت پیشہ غلام بیت المقدس سے زیتون کا تیل اور قندیل لایاجسے مسجد میں روشن کیاگیا،جب سیدالامم صلی اللہ علیہ وسلم نے قندیل کی روشنی دیکھی تو خوشی کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا یہ کس کا کارنامہ ہے؟تمیم الدارمی نے عرض کیا میرا غلام یہ چیزیں بیت المقدس سے لایا ہے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااس کاکیانام ہے؟ انہوں نے عرض کیا اس کانام فتح ہے، اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایابلکہ اس کا نام سراج ہے جس کے معنی چراغ جلانے والے کے ہیں ۔ [31]

حَمَلَ تَمِیمٌ یَعْنِی الدَّارِیَّ مِنَ الشَّأْمِ إِلَى الْمَدِینَةِ قَنَادِیلَ وَزَیْتًا وَمُقُطًا، فَلَمَّا انْتَهَى إِلَى الْمَدِینَةِ وَافَقَ ذَلِكَ لَیْلَةَ الْجُمُعَةِ فَأَمَرَ غُلَامًا یُقَالُ لَهُ أَبُو الْبَزَادِ فَقَامَ فَنَشَطَ الْمُقُطَ وَعَلَّقَ الْقَنَادِیلَ وَصَبَّ فِیهَا الْمَاءَ وَالزَّیْتَ فَلَمَّا غَرَبَتِ الشَّمْسُ أَمَرَ أَبَا الْبَزَادِ فَأَسْرَجَهَا، وَخَرَجَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ إِلَى ال مسجد فَإِذَا هُوَ بِهَا تُزْهِرُ، فَقَالَ: (مَنْ فَعَلَ هَذَا)؟ قَالُوا: تَمِیمٌ الدَّارِیُّ یَا رَسُولَ اللهِ، فَقَالَ:نَوَّرْتَ الْإِسْلَامَ نَوَّرَ اللهُ عَلَیْكَ فِی الدُّنْیَا وَالْآخِرَةِ أَمَا إِنَّهُ لَوْ كَانَتْ لِی ابْنَةٌ لَزَوَّجْتُكَهَا، قَالَ نَوْفَلُ بْنُ الْحَارِثِ: لِی ابْنَةٌ یَا رَسُولَ اللهِ تُسَمَّى الْمُغِیرَةَ بِنْتَ نَوْفَلٍ فَافْعَلْ بِهَا مَا أَرَدْتَ، فَأَنْكَحَهُ إِیَّاهَا

ایک روایت ہےتمیم داری رضی اللہ عنہ شام سے مدینہ کے سفر میں قندیل اور تیل لادے ہوئے جب مدینہ میں داخل ہوئے وہ جمعہ کی رات کا وقت تھا تو انہوں نے اپنے غلام کو جسے ابو بزادکہا جاتاتھا قندیل میں پانی اور تیل ڈال کر لٹکا دیا جب سورج غروب ہونے لگا تواپنے غلام کو قندیل روشن کرنے کا حکم دیا،جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد کی طرف نکلے تو وہ قندیل سے جگمگا رہی تھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام سے پوچھایہ انتظام کس نے کیاہے؟تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیااے اللہ کےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ انتظام تمیم الداری نے کیا ہے،سیدالمرسلین صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاتم نے مسجداسلام کومنورکیاہے اللہ تعالیٰ تمہاری دنیاوآخرت دونوں جہاں منور فرمائے،افسوس! اگرمیری کوئی بیٹی باقی ہوتی تواس خوشی میں میں تمہارے ساتھ اس کا نکاح کردیتا،یہ سنکر نوفل بن الحارث رضی اللہ عنہ نے عرض کیااے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم ! میرے ہاں بیٹی ہے جس کانام مغیرہ ہے اگرآپ اس کانکاح تمیم داری کے ساتھ کردیں توکیاہی اچھا ہو،چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مغیرہ سے ان کانکاح کر دیا۔ [32]

عَنْ أَبِی سَعِیدٍ الْخُدْرِیِّ قَالَ: أَوَّلُ مَنْ أَسْرَجَ فِی الْمَسَاجِدِ تَمِیمٌ الدَّارِیُّ

ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے تمیم داری رضی اللہ عنہ کویہ سعادت حاصل ہے کہ انہوں نے سب سے پہلے مساجدمیں روشنی کاانتظام کیاتھا۔[33]

عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ: رَأَى رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ نُخَامَةً فِی قِبْلَةِ الْمَسْجِدِ فَغَضِبَ حَتَّى احْمَرَّ وَجْهُهُ، فَقَامَتِ امْرَأَةٌ مِنَ الْأَنْصَارِ فَحَكَّتْهَا وَجَعَلَتْ مَكَانَهَا خَلُوقًا، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:مَا أَحْسَنَ هَذَا

انس رضی اللہ عنہ بن مالک بیان کرتے ہیں ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجدنبوی کی قبلہ والی دیوارکے قریب بلغم پڑی دیکھی، جس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سخت غصہ ہوئے حتی کہ آپ کاچہرہ مبارک سرخ ہوگیایہ دیکھ کرایک انصاری خاتون کھڑی ہوئی اور اسے کھرچ کرصاف کردیااوراس جگہ کوخوشبو لگا کر معطر کر دیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خوشی کے لہجے میں ارشادفرمایااس خاتون نے کتناہی عمدہ کام کیاہے[34]

أَنَّ أَبَا هُرَیْرَةَ، وَأَبَا سَعِیدٍ حَدَّثَاهُ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ رَأَى نُخَامَةً فِی جِدَارِ المَسْجِدِ فَتَنَاوَلَ حَصَاةً فَحَكَّهَافَقَالَ:إِذَا تَنَخَّمَ أَحَدُكُمْ فَلاَ یَتَنَخَّمَنَّ قِبَلَ وَجْهِهِ، وَلاَ عَنْ یَمِینِهِ وَلْیَبْصُقْ عَنْ یَسَارِهِ، أَوْ تَحْتَ قَدَمِهِ الیُسْرَى

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اورابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجدکی دیوارپربلغم دیکھا پھررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک کنکری لے کر بلغم کو خوداپنے ہاتھ مبارک سے کھرچ دیااور فرمایا کہ جب تم میں سے کوئی شخص بلغم تھوکے تو نہ اپنے منہ کے سامنے تھوکے نہ اپنی داہنی جانب، بلکہ بائیں جانب یا اپنے بائیں قدم کے نیچے تھوکے۔ [35]

عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: أَمَرَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بِبِنَاءِ الْمَسَاجِدِ فِی الدُّورِ، وَأَنْ تُنَظَّفَ، وَتُطَیَّبَ

ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایامحلوں میں مسجدیں بناؤاورانہیں پاک وصاف اورمعطر ر کھو۔[36]

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ:أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:صَلاَةٌ فِی مَسْجِدِی هَذَا خَیْرٌ مِنْ أَلْفِ صَلاَةٍ فِیمَا سِوَاهُ مِنَ الْمَسَاجِدِ إِلاَّ الْمَسْجِدَ الحَرَامَ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایامیری اس مسجدمیں ایک نمازمسجدحرام کے سوادوسری تمام مسجدوں میں پڑھی جانے والی ایک ہزارنمازوں سے بہتر ہے (کیونکہ مسجدحرام میں ایک نمازلاکھ نمازوں سے افضل ہے)۔[37]

حجرات امہات المومنین

مدینہ منورہ کے باشندے اپنے پرانے تمدن میں فخروغرورمحسوس کرتے تھے ،سادگی عربوں کی عادت ثانیہ بن چکی تھی ،خوراک ،لباس اوررہائش ہر چیز میں سادگی کارفرماتھی ، سیدالامم صلی اللہ علیہ وسلم کے حجرات نے اسے اوربھی تقویت پہنچائی ،گھراوراس کے سازوسامان کے متعلق آپ صلی اللہ علیہ وسلم کانقطہ نظریہ تھا کہ اس فانی دنیامیں زندگی اس طرح گزاری جائے جیسے ایک مسافراپناسفرمختصرترین سامان کے ساتھ گزارتاہے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایامیری مثال اس مسافرکی سی ہے جوتھوڑی دیرکے لئے سائے میں آرام کرے او ر پھراپنی راہ لے ،مرادیہ ہے کہ جولوگ آخرت کوانجام بنائیں اوردنیاوی زندگی کو ادائے فرض یاامتحان کے طورپرگزاریں اورجنہیں یہاں کسی بڑے نصب العین کے لئے جدوجہدکرنی ہو ان کے لئے کیاموقعہ ہے کہ اعلی درجے کے گھر بنائیں اوران کوسازوسامان سے آراستہ کریں اورپھران میں مگن رہ کرلطف اٹھائیں ،چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے نہ اعلی درجے کی عمارتیں بنائیں اورنہ ان میں اسباب جمع کیے اورنہ ان کی زینت وآرائش کی،ان کے گھربس بہترین مسافرانہ قیام گاہیں تھیں ،ان میں سردی گرمی سے بچنے کا اہتمام تھا،جانوروں کی مداخلت سے بچاؤکابندوبست تھا،پردہ داری کاانتظام تھااورحفظان صحت کے ضروری پہلوملحوظ تھے، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی حرم سراوں کے لئے جومکانات تعمیر کیے وہ سادگی کاایسانادرالوجودنمونہ تھاجس کی مثال دنیاکے سلاطین وامراء کے مکانات میں ملنے کاوہم وگمان بھی نہیں ہو سکتا،مسجدنبوی کی تعمیرکے بعدام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہ بنت ابوبکر اورام المومنین سودہ رضی اللہ عنہا بنت زمعہ کے حجروں کی بنیادڈالی گئی،ام المومنین سودہ رضی اللہ عنہا بنت زمعہ کاحجرہ ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہ کے حجرہ کے جنوب مغرب میں تعمیر ہوا۔

حتى فرغ من المسجد وبنى له فیه مسكن، فانتقل رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ حین فرغ من المسجد ومسكنه إلیه

جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسجدنبوی کی تعمیراورحجرے کی تعمیرسے فارغ ہوئے توابوایوب رضی اللہ عنہ کے گھرسے اپنے گھرمنتقل ہوگئے۔[38]

أَنَّهُ أَقَامَ بِمَنْزِلِ أَبِی أَیُّوبَ سَبْعَةَ أَشْهُرٍ حَتَّى بَنَى بُیُوتَهُ

ابن سعدکے مطابق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ابوایوب انصاری کے گھرپرسات ماہ تک قیام پذیررہے یہاں تک کہ ازواج مطہرات کے حجرے تعمیرہوگئے۔[39]

بعدمیں جب کوئی خاتون حرم نبوی میں داخل ہوتی تواس کے لئے علیحدہ حجرابنوا لیاجاتا ، یہ حجرے مسجد نبوی کے جنوب ، مشرق اورشمال میں تھے۔

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ،عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:مَا بَیْنَ بَیْتِی وَمِنْبَرِی رَوْضَةٌ مِنْ رِیَاضِ الْجَنَّةِ، وَمِنْبَرِی عَلَى حَوْضِی

ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے حجرے( جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبرمبارک ہے ) کے بارے میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایامیرے منبر اورمیرے حجرے تک جنت کے باغات میں سے ایک باغ ہے اور میرامنبرقیامت کے دن میرے حوض پرہوگا۔[40]

وَكَانَتْ لِحَارِثَةَ بْنِ النعمان منازل قرب منازل النبی بِالْمَدِینَةِ،فَكَانَ كُلَّمَا أَحْدَثَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَهْلا تَحَوَّلَ لَهُ حَارِثَةُ بْنُ النُّعْمَانِ عَنْ مَنْزِلٍ بَعْدَ مَنْزِلٍ، وكانَ بیتُ فاطمةَ لحارثةَ بنِ النعمانِ، فسألَتْ فاطمةُ النبیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَن یحوِّلَه، فقالَ لها:لقد استَحییتُ مِن حارثةَ مِما یتحوَّلُ لنا عن بیوتِهِ،فلمَّا سمعَ بذلكَ حارثةُ انتقَلَ مِنه وأسكنَهُ فاطمةَ

محمدبن عمر کہتے ہیں مدینہ منورہ میں مسجد نبوی سے متصل حارثہ رضی اللہ عنہ بن نعمان انصاری کے مکانات تھے،جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ضرورت پیش آتی وہ اپنا مکان آپ کے نذر کر دیتے اوردوسرے مکان میں منتقل ہوجاتے،جب فاطمہ رضی اللہ عنہا الزہرا کاعقدسیدنا علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ ہوگیا تو انہوں نے مسجدنبوی سے کچھ فاصلہ پرایک مکان کرائے پرلے لیاجبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی چاہت تھی کہ وہ ان کے قریب رہیں اس لئے اپنے مکان میں منتقل کرنے کا ارادہ ظاہر فرمایا،فاطمہ الزہرہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیاکہ حارثہ بن نعمان رضی اللہ عنہ سے ہمارے لئے مکان کی جگہ حاصل کرلی جائے،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاحارثہ بن نعمان رضی اللہ عنہ نے پہلے ہی ہمیں بہت زیادہ اراضی دی ہے مجھے حارثہ بن نعمان رضی اللہ عنہ سے مزیدطلب کرنے میں ہچکچاہٹ محسوس ہوتی ہے، مگر جب حارثہ بن نعمان رضی اللہ عنہ کواس بات کاعلم ہواتووہ خودحاضرخدمت اقدس ہوکرعرض کرنے لگے کہ میرامال ودولت آپ ہی کاہے جو چیزآپ قبول فرمالیتے ہیں میرے نزدیک ترکہ میں چھوڑنے سے بدرجہ ہا بہتر ہے ، سیدالامم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں خیروبرکت کی دعاسے نوازااور عائشہ صدیقہ طاہرہ رضی اللہ عنہا کے حجرہ کے قریب شمال میں اپنی لخت جگر فاطمہ الزہرہ رضی اللہ عنہا کے لئے ایک قطعہ اراضی حاصل کر لیا ، اس طرح فاطمہ الزہرہ رضی اللہ عنہا کے حجرے سمت تمام حجرے انہی کی اراضی پرتعمیر ہوئے۔[41]

الشیخ ابراہیم رفعت پاشا امہات المومنین رضی اللہ عنہن کے حجروں کی کیفیت اس طرح بیان کرتے ہیں سیدالامم صلی اللہ علیہ وسلم کاحجرہ مبارکہ جو بیعت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے نام سے شہرت رکھتا تھا مسجد نبوی کے جنوب مشرقی کونے میں تھااس کے جنوب میں ام المومنین حفصہ رضی اللہ عنہا کاحجرہ تھا،ان دونوں کے درمیان ایک تنگ ساراستہ تھااس طرح جنوب میں محراب نبوی کے برابر تک ،مشرق میں باب النساء کی طرف اور شمال میں باب النساء اورباب الرحمت کے مابین منبرنبوی کے محاذات تک حجرے بنے ہوئے تھے،حجرہ ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہ کے سواکوئی بھی حجرہ مسجدکے ساتھ ملاہوانہیں تھا۔[42]

فاطمہ الزہرا رضی اللہ عنہا کے حجرہ میں عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے حجرہ کی طرف ایک کھڑکی تھی جس سے رحمت للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم ان کی اوران کے اہل وعیال کی خبرگیری فرماتے تھے۔ [43]

سیدالامم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات کے شاہی محلات (حجروں ) میں ہرایک دس ذراع لمبا (۱۵فٹ ) اورچھ ذراع چوڑا (۹فٹ) تھا،اورچھت اتنی اونچی تھی کہ آدمی بسہولت چھو لیتاتھا۔

قَالَ الْحَسَنُ بْنُ أَبِی الْحَسَنِ الْبَصْرِیُّ وَكَانَ غُلَامًا مَعَ أُمِّهِ خَیْرَةَ مُوْلَاةِ أُمِّ سَلَمَةَ – لَقَدْ كُنْتُ أَنَالُ أَطْوَلَ سَقْفٍ فِی حِجر النَّبیّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بِیَدِی

جیسے حسن بن ابی الحسن البصری بیان کرتے ہیں جب میں بالغ ہونے کے قریب تھا تو اپنی والدہ خیرہ رضی اللہ عنہا جوام المومنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی کنیز تھیں کے ساتھ ان حجروں میں جاتا تھا میں باآسانی چھت کوچھولیتاتھا۔[44]

عَنْ عَائِشَةَ زَوْجِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهَا قَالَتْ:كُنْتُ أَنَامُ بَیْنَ یَدَیْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَرِجْلاَیَ فِی قِبْلَتِهِ، فَإِذَا سَجَدَ غَمَزَنِی، فَقَبَضْتُ رِجْلَیَّ، فَإِذَا قَامَ بَسَطْتُهُمَاقَالَتْ: وَالبُیُوتُ یَوْمَئِذٍ لَیْسَ فِیهَا مَصَابِیحُ

حجروں کے طول وعرض کے بارے میں ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہ فرماتی ہیں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے سوجایاکرتی تھی میرے پاؤں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے(پھیلے ہوئے)ہوتے،جب آ پ صلی اللہ علیہ وسلم سجدہ کرتے تومیرے پیرکوہلکے سےدبادیاکرتے میں پیرسمیٹ لیتی ،پھر جب آپ علیہ السلام قیام فرماتے تومیں پیرپھیلادیاکرتی تھی، فرماتی ہیں اس زمانہ میں گھروں کے اندرچراغ نہیں ہوتے تھے۔[45]

یعنی عورت کے چھونے سے وضونہیں ٹوٹتابعض فقہاء مثلا ً امام شافعی رحمہ اللہ اس بات کے قائل ہیں کہ عورت کے چھونے سے وضوٹوٹ جاتاہے مگرذخیرہ حدیث میں توکوئی ایک حدیث بھی ایسی نہیں ہے جس میں عورت کے چھونے سے وضوٹوٹنے کاصراحتاً یااشارتاً ذکرہوبلکہ اس کے خلاف بہت ساری احادیث ہیں البتہ قرآن مجیدکی آیت آیت

۔۔۔ اَوْ لٰمَسْتُمُ النِّسَاۗءَ۔۔۔ ۝۶ [46]

کے الفاظ سے استدلال کیاجاتاہےمگریہ استدلال عقلا ًاورنقلاًبعیدہے یہاں یہ لفظ جماع کامفہوم مرادلینے کے لیے آئے ہیں نہ کہ مطلق چھونے کے لیے ،نیزیہ معنی مرادلینے سے ان تمام احادیث کی دورازکارتاویلیں کرنی پڑیں گی یاانہیں چھوڑنا پڑے گا،دونوں صورتیں اچھی نہیں ۔ اورجمہورعلماکے نزدیک ٹوٹ جاتاہے وہ یہ تاویل کرتے ہیں کہ یہ چھوناکپڑے وغیرہ کے اوپرسے ہوگااوراس سے وضونہیں ٹوٹتا۔

قال عمران بن أبی أنس: كان فیها أربعة أبیات بلبن، لها حجر من جرید، وكانت خمسة أبیات من جرید مطینة لا حجر لها، على أبوابها مسوح الشعر، ذرعت الساتر فوجدته ثلاثة أذرع فی ذراع وعظم الذراع أو أدنى من العظم،وكان لبیت عائشة رضی الله عنها مصراعٌ واحدٌ من عرعر أو ساج

عمران بن ابی انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں چار حجرے کچی اینٹوں کے جن کی چھت کھجورکی ٹہنیوں سے بنائی گئی تھی جبکہ پانچ حجرے صرف مٹی اورکھجورکی ٹہنیوں کے تھے ،ان حجروں کے دروازے نہیں تھے بلکہ دروازوں کی جگہ پرکمبل اورٹاٹ کے پردے لٹکے ہوئے تھےجو تین ذراع لمبے (ساڑھے چارفٹ)اورایک ذراع چوڑے (ڈیڑھ فٹ) تھے ، تمام حجرات کے دروازے مسجدکی طرف کھلتے تھے جبکہ ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے حجرہ کے دو دروازے تھے ایک مغرب کی طرف مسجدمیں اوردوسراشمال کی طرف تھا ، عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کادروازہ ایک کواڑ عرعر یاساج کی لکڑی کاتھا،دوسرے حجروں کے کواڑ نہیں تھے۔[47]

ام المومنین کے حجرے کیاتھے زہدو قناعت کی تصویراور دنیاکی بے ثباتی کا نقشہ تھے اکثر و بیشتر ان حجروں میں روشی کرنے کے لئے چراغ نہیں جلتاتھا۔

سازو سامان میں چندبرتن نہایت سادہ قسم کے تھے مثلاًلکڑی کاپیالہ (بادیہ)تھاجس پرلوہے کے پترلگے ہوئے تھے اورکھانے پینے میں اس کا بکثرت استعمال ہوتا تھا ، خوراک کاسامان جمع توکیاہوتاروزکاروزبھی کافی مقدارمیں میسرنہ ہوتا، اور بسترچمڑے کے گدے پرمشتمل تھاجس میں کھجورکی چھال بھری ہوئی تھی ،بان کی بنی ہوئی چارپائی رکھتے ،ٹاٹ کابستربھی استعمال میں رہاجودوہراکرکے بچھایاجاتا،زمین پرچٹائی بچھاکرلیٹنے کامعمول تھا،بعض اوقات کھری چارپائی کے نشانات بدن پردیکھ کر رفقائے خاص رو دیتے ، سیدالا مم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعدام المومنین سودہ رضی اللہ عنہا بنت زمعہ نے اپناحجرہ ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو ہبہ کردیاتھا، عائشہ رضی اللہ عنہ نے وہ حجرہ کاتب وحی امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ کو ایک لاکھ یااسی ہزار درہم میں فروخت کر دیا تھا لیکن ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی قابل رشک فیاضی کاکیاکہناانہوں نے اسی مجلس میں وہ خطیر رقم غر با ومساکین میں بانٹ دی اور اپنے لئے کچھ بھی نہ رکھا۔

ولیدبن عبدالملک کے دورخلافت میں یہ حجرے مسجدنبوی میں شامل کر دیئے گئے۔

 صفہ اوراصحاب صفہ

صفہ سائبان اورسایہ دارجگہ کاکہاجاتاہے اوراس سے مرادمسجدنبوی میں واقع وہ سایہ دارجگہ ہے جہاں فقراء مہاجرین اقامت پذیرتھے جن کاکوئی ٹھکانہ نہ تھا ،

أصحاب الصفة زهاد من الصحابة رضی الله تعالى عنهم، وهم الفقراء الغرباء الذین كانوا یأوون إلى مسجد النبی صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وكانت لهم فی آخره صفة، وهی مكان مقتطع من المسجد مظلل علیه یبیتون فیه ویأوون إلیه

امام نودی رحمہ اللہ فرماتے ہیں اصحاب صفہ زہدوتقویٰ کے پیکر،غریب ونادرہونے کی وجہ سے مسجدنبوی میں اقامت گزین تھے ،مسجد کے

آخرمیں مسجدسے علیحدہ ایک سایہ دارجگہ بنی ہوئی تھی جس میں وہ رہتے اورسوتے تھے۔[48]

توحیدکے ان سرمستوں کونہ بھوک کی پرواہ تھی نہ لباس کاہوش،وہ بادہ الست سے محمور،ابدی وسرمدی کیف سے سرشاررہتے تھے،دینوی ہوس اوراس عارضی عیش ونشاط کاخیال ان کے قلب مطہرہ پراثراندازنہ ہوسکا،انہوں نے اپنی زندگی کی متاع عزیزاسلام کی سربلندی وسرفرازی اورسیدالامم صلی اللہ علیہ وسلم کی خوشنودی کے لئے وقف کررکھی تھی ،علائق دنیاسے اس طرح کنارہ کشی اختیارکی کہ پھردنیاوی عیش وطرب،جاہ وجلال اورمال ومتاع انہیں اپنی طرف راغب نہ کر سکا،وہ قدسی نفوس اورصاحب تقویٰ برگزیدہ انسان اس سادہ سی مسجدکی زینت تھے ،جن کے دامن ایمان کی تابانیوں ،دین کی سرشاریوں ، ذکروفکرکی لذتوں ،تسبیح وتہلیل کی حلاوتوں اورزیارت سیدالامم صلی اللہ علیہ وسلم کی کیف سامانیوں سے جگمگارہے تھے ،مسجدنبوی کے شمال مشرق میں مساکین مہاجرین کے لئے ایک چھپڑ بناہواتھاجسے صفہ کہا جاتا تھا اوروہاں قیام کرنے والے غرباء کواصحاب صفہ کالقب ملا،ضعفاء مہاجرین مسلمین اورفقراشاکرین جواپنے فقرپرفقط صابرہی نہیں بلکہ امراواغنیاء سے کہیں زیادہ رضاالٰہی پر شاکراور مسرور تھے ۔ ان کی رہائش کے لئے رحمت کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ جگہ مخصوص فرمائی تھی ،چونکہ ان کے نہ تواہل وعیال تھے اورنہ ہی کوئی جائے پناہ ،نہ انہیں تجارت کے گورکھ دھندوں سے سروکارتھااورنہ ہی زراعت وباغبانی کی روح فرسامشقت سے شناسائی،دوسرے لفظوں میں سید کونین صلی اللہ علیہ وسلم جن کاطرہ امتیازالفقرفخری تھاان کی یہ خانقاہ تھی اوراصحاب صفہ ارباب توکل اورارباب تبتل کی ایک فاقہ مست جماعت تھی جوتزکیہ نفس اورعلم ودانش کے حصول کی خاطرفیضان مصطفوی صلی اللہ علیہ وسلم سے فیض بارہونے کی غرض سے ہرگھڑی خدمت عالیہ نبویہ میں حاضررہتی تھی ،علوم قرآن وحدیث کے حصول کاشوق انہیں کشاں کشاں معلم انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ معارف پناہ میں لاتااوروہ روحانی غذااور لذت سے ایسے محفوظ ہوتے کہ پھراس درکوچھوڑنے کانام ہی نہیں لیتے تھے ،ان قدسی نفوس نے اپنی آنکھوں کورحمت العالمین صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ مبارک کے دیدار پر انوار کے لئے ، کانوں کوآپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کلمات طیبات کی سماعت کی خاطراورجسم وجان کوآپ کی صحبت ومعیت کے لئے وقف کررکھاتھا۔

وَأهل الصّفة أَضْیَافِ الْإِسْلَامِ

وہ اسلام کے معززمہمان تھے۔[49]

وہ زمین پرنہایت وقاراورطمانیت اورسکون کے ساتھ چلتے ،ان میں تکبروغروراورخودآرائی کانام ونشان تک نہیں تھابلکہ ان کی چال سے تواضع ،انکساری اور مسکنت جھلکتی تھی ،وہ دل کے اغنیااورایمان کے اصفیاء جن کے افلاس وناداری کے وجدآفرین اورفکرانگیزداستان ان ہی میں سے ایک فردیوں بیان فرماتے ہیں

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ، قَالَ:لَقَدْ رَأَیْتُ سَبْعِینَ مِنْ أَصْحَابِ الصُّفَّةِ مَا مِنْهُمْ رَجُلٌ عَلَیْهِ رِدَاءٌ، إِمَّا إِزَارٌ وَإِمَّا كِسَاءٌ، قَدْ رَبَطُوا فِی أَعْنَاقِهِمْ، فَمِنْهَا مَا یَبْلُغُ نِصْفَ السَّاقَیْنِ، وَمِنْهَا مَا یَبْلُغُ الكَعْبَیْنِ، فَیَجْمَعُهُ بِیَدِهِ، كَرَاهِیَةَ أَنْ تُرَى عَوْرَتُهُ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں میں نے ستراصحاب صفہ کودیکھا ان میں سے کوئی ایسانہ تھاجس کے پاس چادرہو فقط پرانا اوربوسیدہ تہ بندہوتایارات کواوڑھنے کاکپڑاجنہیں یہ لوگ اپنی گردنوں سے باندھ کرلٹکالیتے تھے، اوروہ کپڑااس قدرچھوٹاہوتاکہ کسی کے آدھی پنڈلی تک پہنچتا اورکسی کے ٹخنوں تک،یہ حضرات ان کپڑوں کو اپنے ہاتھوں سے تھامے رکھتے کہ کہیں سترنہ کھل جائے۔[50]

عَنْ وَاثِلَةَ بْنِ الْأَسْقَعِ، قَالَ:كُنْتُ مِنْ أَصْحَابِ الصُّفَّةِ، وَمَا مِنَّا أَحَدٌ عَلَیْهِ ثَوْبٌ تَامٌّ، قَدِ اتَّخَذَ الْعَرَقُ فِی جُلُودِنَا طُرُقًا مِنَ الْوَسَخِ وَالْغُبَارِ

واثلہ بن اسقح رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں بھی اصحاب صفہ میں تھاہم میں سے کسی کے پاس ایک کپڑابھی پورانہ تھا،پسینہ کی وجہ سے بدن پرمیل کچیل جمارہتاتھا۔[51]

مگریہ وہی پرگندسر اور گردآلودتھے کہ اگراللہ کی قسم کھابیٹھتے تواللہ ان کی قسم کوپوراکرتاتھا، بھوک کی شدت کایہ عالم ہوتاکہ پیٹ میں آگ لگی ہوتی اورسیدھاکھڑا رہنامشکل ہوجاتا، ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ایک رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم باہرتشریف لائے اورفرمایامیرے دوستوں یعنی اہل صفہ کوبلالاؤمیں نے جاکرایک ایک شخص کوجگایااورسب کوجمع کیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دراقدس تک پہنچے اور حاضری کی اجازت چاہی ، آپ نے اجازت دے دی ،پھرآپ نے ہمارے سامنے ایک بڑاپیالہ رکھ دیاجس میں جوسے تیارکردہ کھانا تھا اورپیالہ پر اپنا دست مبارک رکھ دیااورفرمایااس میں سے اللہ کانام لے کرکھاؤ،پس ہم نے خوب سیرہوکرکھایاپھرآپ نے اپنے ہاتھ اٹھالئے ،جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پیالہ رکھاتھاتویہ فرمایاتھااس ذات اقدس کی قسم جس کے قبضہ میں محمد علیہ السلام کی جان ہے محمد علیہ السلام کے گھرانہ میں شام کوجوکھاناتیارہواوہ ناقابل ذکرہے جیساکہ تم دیکھ رہے ہو،ہم نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے پوچھاجب تم لوگ فارغ ہوئے تواس وقت کتناباقی رہ گیاتھا ، فرمایا جتنامیں نے شروع میں رکھاتھااتناہی باقی تھاہاں مگراس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی انگلیوں کے نشانات موجودتھے اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی ذات اورمتعلقین پردوسروں کوترجیح دیتے تھے ،پس آپ کے پاس جوبھی ہوتامحتاجوں میں تقسیم فرمادیاکرتے تھے ،ایک مرتبہ آپ کی صاحبزادی فاطمہ رضی اللہ عنہا نے سناکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کچھ غلام اسیرہوکرآئے ہیں ،اس لئے خدمت اقدس میں حاضرہوکرآپ سے چکی پیسنے اورگھریلو کاموں کی تکلیف کی شکایت کی اورایک خادم طلب کیاتوآپ نے جواب دیامیں اہل صفہ کوچھوڑکرجن کے پیٹ بھوک کی شدت سے سمٹ جاتے ہیں تمہیں خادم نہیں دے سکتا ، اس کے بجائے انہیں مشورہ دیاکہ وہ کلمات اللہ اکبراورالحمدللہ کے ورد سے مددحاصل کریں ،

أَنَّ أَبَا هُرَیْرَةَ، كَانَ یَقُولُ: أَللَّهِ الَّذِی لاَ إِلَهَ إِلَّا هُوَ، إِنْ كُنْتُ لَأَعْتَمِدُ بِكَبِدِی عَلَى الأَرْضِ مِنَ الجُوعِ، وَإِنْ كُنْتُ لَأَشُدُّ الحَجَرَ عَلَى بَطْنِی مِنَ الجُوعِ، وَلَقَدْ قَعَدْتُ یَوْمًا عَلَى طَرِیقِهِمُ الَّذِی یَخْرُجُونَ مِنْهُ، فَمَرَّ أَبُو بَكْرٍ، فَسَأَلْتُهُ عَنْ آیَةٍ مِنْ كِتَابِ اللَّهِ، مَا سَأَلْتُهُ إِلَّا لِیُشْبِعَنِی، فَمَرَّ وَلَمْ یَفْعَلْ، ثُمَّ مَرَّ بِی عُمَرُ، فَسَأَلْتُهُ عَنْ آیَةٍ مِنْ كِتَابِ اللَّهِ، مَا سَأَلْتُهُ إِلَّا لِیُشْبِعَنِی، فَمَرَّ فَلَمْ یَفْعَلْ، ثُمَّ مَرَّ بِی أَبُو القَاسِمِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَتَبَسَّمَ حِینَ رَآنِی، وَعَرَفَ مَا فِی نَفْسِی وَمَا فِی وَجْهِی، ثُمَّ قَالَ:یَا أَبَا هِرٍّ قُلْتُ: لَبَّیْكَ یَا رَسُولَ اللَّهِ،

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں اللہ کی قسم جس کے سواکوئی معبود نہیں ،میں بسااوقات بھوک کی شدت کے باعث اپناشکم اور سینہ زمین پرلگا دیتا (تاکہ زمین کی نمی اور ٹھنڈک سے بھوک کی حرارت میں کچھ کمی آجائے)اوربعض اوقات پیٹ پرپتھرباندھ لیتا(تاکہ سیدھا کھڑا ہو سکوں )ایک روز میں اس راستے پربیٹھ گیاجس سے صحابہ نکلتے تھے، سیدنا ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کا ادھر سے گزر ہوا تومیں نے ان سے ایک آیت قرآنی کامطلب دریافت کیا،میرے پوچھنے کامقصدصرف یہ تھاکہ وہ( میری صورت اور ہیئت دیکھ کر)کھانا کھلادیں لیکن وہ (میری بھوک کی حالت کومحسوس نہ کرسکے اورجس راہ پرجارہے تھے)چلے گئےاورکچھ نہیں کیا،(کچھ دیر بعد )سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ میرے پاس سےگزرے میں نے ان سے بھی قرآن مجید کی ایک آیت کا مطلب دریافت کیااورپوچھنے کا مقصدصرف یہ تھاکہ وہ مجھے کچھ کھلادیں مگروہ بھی(میری حالت کومحسوس نہ کرسکے اور) چلے گئے اورکچھ نہیں کیا،اس کے بعدابوالقاسم صلی اللہ علیہ وسلم گزرے اورآپ نے جب مجھے دیکھاتوآپ صلی اللہ علیہ وسلم مسکرادیئے اورآپ میرے دل کی بات سمجھ گئے اورمیرے چہرے کوآپ نے تاڑلیااور شگفتہ دہن ہوئے اے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ !میں نے عرض کیااے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم !میں حاضرہوں ،

قَالَ:الحَقْ وَمَضَى فَتَبِعْتُهُ، فَدَخَلَ، فَاسْتَأْذَنَ، فَأَذِنَ لِی، فَدَخَلَ، فَوَجَدَ لَبَنًا فِی قَدَحٍ، فَقَالَ: مِنْ أَیْنَ هَذَا اللَّبَنُ؟ قَالُوا: أَهْدَاهُ لَكَ فُلاَنٌ أَوْ فُلاَنَةُ، قَالَ:أَبَا هِرٍّ قُلْتُ: لَبَّیْكَ یَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: الحَقْ إِلَى أَهْلِ الصُّفَّةِ فَادْعُهُمْ لِی قَالَ: وَأَهْلُ الصُّفَّةِ أَضْیَافُ الإِسْلاَمِ، لاَ یَأْوُونَ إِلَى أَهْلٍ وَلاَ مَالٍ وَلاَ عَلَى أَحَدٍ، إِذَا أَتَتْهُ صَدَقَةٌ بَعَثَ بِهَا إِلَیْهِمْ وَلَمْ یَتَنَاوَلْ مِنْهَا شَیْئًا، وَإِذَا أَتَتْهُ هَدِیَّةٌ أَرْسَلَ إِلَیْهِمْ وَأَصَابَ مِنْهَا وَأَشْرَكَهُمْ فِیهَا، فَسَاءَنِی ذَلِكَ، فَقُلْتُ: وَمَا هَذَا اللَّبَنُ فِی أَهْلِ الصُّفَّةِ، كُنْتُ أَحَقُّ أَنَا أَنْ أُصِیبَ مِنْ هَذَا اللَّبَنِ شَرْبَةً أَتَقَوَّى بِهَا، فَإِذَا جَاءَ أَمَرَنِی، فَكُنْتُ أَنَا أُعْطِیهِمْ، وَمَا عَسَى أَنْ یَبْلُغَنِی مِنْ هَذَا اللَّبَنِ، وَلَمْ یَكُنْ مِنْ طَاعَةِ اللَّهِ وَطَاعَةِ رَسُولِهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بُدٌّ، فَأَتَیْتُهُمْ فَدَعَوْتُهُمْ فَأَقْبَلُوا، فَاسْتَأْذَنُوا فَأَذِنَ لَهُمْ، وَأَخَذُوا مَجَالِسَهُمْ مِنَ البَیْتِ،

ارشادہوا میرے ساتھ آجاؤاورآپ چلنے لگے ،میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے چل دیا پھررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اندرگھرمیں تشریف فرما ہوئےپھرمیں نے اجازت چاہی اورمجھے اجازت ملی،جب آپ داخل ہوئے توایک پیالہ دودھ رکھا پایا، دریافت فرمایاکہ یہ دودھ کہاں سے آیاہے؟اہل بیت نے جواب دیافلاں یافلانی نے آپ کے لئے تحفہ بھیجا ہے، آپ نے ارشاد فرمایا ابوہریرہ !میں نے عرض کیامیں حاضرہوں یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !فرمایااصحاب صفہ کے پاس جاؤاورانہیں بھی میرے پاس بلا لاؤ ، ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں اوراصحاب صفہ اسلام کے مہمان تھےوہ نہ توکسی کے گھرپناہ ڈھونڈتےنہ کسی کے مال میں اورنہ کسی کے پاس (غرض یہ کہ ان کاٹھکانہ نہیں تھا)رحمت کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جب کہیں سے صدقہ آتاتو اصحاب صفہ کے پاس بھیج دیتے (کیونکہ صدقہ آپ پرحرام تھااس لئے ) خوداس میں سے کچھ بھی نہیں لیتے تھےالبتہ اگرآپ کے پاس تحفہ آتاتوانہیں بلابھیجتے اورخودبھی اس میں سے کچھ تناول فرماتے تھے اوراصحاب صفہ کوبھی اس میں شریک کرتے،(اس وقت آپ کایہ حکم کہ اصحاب صفہ کوبلا لاؤ) میرے نفس کوکچھ شاق گزرااورمیں نے سوچاکہ یہ دودھ ہے ہی کتناکہ سارے اصحاب صفہ میں تقسیم ہو،اس دودھ کاتوسب سے زیادہ حق دارمیں تھاکہ کچھ پی کرطاقت اور توانائی حاصل کرتا،پھرجب اصحاب صفہ آئیں گے تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھ سے فرمائیں گے اورمیں انہیں اسے دے دوں گااورتقسیم کے بعد یہ امیدنہیں کہ میرے لئے اس میں سے کچھ بچ جائے گالیکن اللہ اوراس کے رسول کی حکم برداری کے سوااور چارہ بھی نہیں تھا،چنانچہ میں اصحاب صفہ کے پاس آیااوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت پہنچائی،وہ آگئے اوراجازت چاہی،انہیں اجازت مل گئی پھروہ گھرمیں اپنی اپنی جگہ بیٹھ گئے ،

قَالَ:یَا أَبَا هِرٍّ قُلْتُ: لَبَّیْكَ یَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: خُذْ فَأَعْطِهِمْ قَالَ: فَأَخَذْتُ القَدَحَ، فَجَعَلْتُ أُعْطِیهِ الرَّجُلَ فَیَشْرَبُ حَتَّى یَرْوَى، ثُمَّ یَرُدُّ عَلَیَّ القَدَحَ، فَأُعْطِیهِ الرَّجُلَ فَیَشْرَبُ حَتَّى یَرْوَى، ثُمَّ یَرُدُّ عَلَیَّ القَدَحَ فَیَشْرَبُ حَتَّى یَرْوَى، ثُمَّ یَرُدُّ عَلَیَّ القَدَحَ، حَتَّى انْتَهَیْتُ إِلَى النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَقَدْ رَوِیَ القَوْمُ كُلُّهُمْ، فَأَخَذَ القَدَحَ فَوَضَعَهُ عَلَى یَدِهِ، فَنَظَرَ إِلَیَّ فَتَبَسَّمَ، فَقَالَ: أَبَا هِرٍّ قُلْتُ: لَبَّیْكَ یَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: بَقِیتُ أَنَا وَأَنْتَ قُلْتُ: صَدَقْتَ یَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ:اقْعُدْ فَاشْرَبْ فَقَعَدْتُ فَشَرِبْتُ، فَقَالَ: اشْرَبْ فَشَرِبْتُ، فَمَا زَالَ یَقُولُ:اشْرَبْ حَتَّى قُلْتُ: لاَ وَالَّذِی بَعَثَكَ بِالحَقِّ، مَا أَجِدُ لَهُ مَسْلَكًا، قَالَ:فَأَرِنِی فَأَعْطَیْتُهُ القَدَحَ، فَحَمِدَ اللَّهَ وَسَمَّى وَشَرِبَ الفَضْلَةَ

فرمایااے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ !میں نے عرض کیامیں حاضرہوں اے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم !لو اور اسے ان سب حاضرین کودے دو، بیان کیاکہ پھرمیں نے پیالہ پکڑلیااور آپ کے ارشاد کے مطابق ایک ایک کو پلانا شروع کیاایک شخص دودھ پی کرجب سیراب ہوجاتاتومجھے پیالہ واپس کردیتا،پھردوسرے شخص کودیتاوہ بھی سیرہوکرپیتاپھرپیالہ مجھ کوواپس کردیتااوراسی طرح تیسراپی کرپھرمجھے پیالہ واپس کردیتا،اس طرح میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچالوگ پی کرسیراب ہوچکے تھے،آخرمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پیالہ پکڑااوراپنے ہاتھ پررکھ کرآپ نے میری طرف دیکھااور مسکرا کر فرمایااے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ !میں نے عرض کیالبیک اے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم !فرمایا اب صرف میں اورتم باقی رہ گئے،میں نے عرض کیا اے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم !آپ نے سچ فرمایا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایابیٹھ جاؤاورپینا شروع کرو،میں بیٹھ گیا اور میں نےدودھ پینا شروع کیا اور آپ برابر فرماتے رہے اور پیواورپیو یہاں تک کہ میں بول اٹھا اس ذات کی قسم جس نے آپ کوحق کے ساتھ بھیجا ہےاب بالکل گنجائش نہیں ہے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پھرمجھے دے دو،میں نے پیالہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کودے دیا،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کی حمدوثنابیان فرمائی اوربسم اللہ پڑھ کرباقی ماندہ سب نوش فرما لیا۔[52]

وَعَنْ أَبِی حَازِمٍ، عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ، أَصَابَنِی جَهْدٌ شَدِیدٌ، فَلَقِیتُ عُمَرَ بْنَ الخَطَّابِ، فَاسْتَقْرَأْتُهُ آیَةً مِنْ كِتَابِ اللَّهِ، فَدَخَلَ دَارَهُ وَفَتَحَهَا عَلَیَّ، فَمَشَیْتُ غَیْرَ بَعِیدٍ فَخَرَرْتُ لِوَجْهِی مِنَ الجَهْدِ وَالجُوعِ، فَإِذَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَائِمٌ عَلَى رَأْسِی، فَقَالَ:یَا أَبَا هُرَیْرَةَ فَقُلْتُ: لَبَّیْكَ رَسُولَ اللَّهِ وَسَعْدَیْكَ، فَأَخَذَ بِیَدِی فَأَقَامَنِی وَعَرَفَ الَّذِی بِی، فَانْطَلَقَ بِی إِلَى رَحْلِهِ، فَأَمَرَ لِی بِعُسٍّ مِنْ لَبَنٍ فَشَرِبْتُ مِنْهُ، ثُمَّ قَالَ:عُدْ یَا أَبَا هِرٍّ فَعُدْتُ فَشَرِبْتُ، ثُمَّ قَالَ:عُدْ فَعُدْتُ فَشَرِبْتُ، حَتَّى اسْتَوَى بَطْنِی فَصَارَ كَالقِدْحِ،

ابوحازم رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے(بیان کیاکہ فاقہ کی وجہ سے)میں سخت مشقت میں مبتلاتھاپھرمیری ملاقات سیدنا عمر رضی اللہ عنہ بن خطاب سے ہوئی اوران سے میں نے قرآن مجیدکی ایک آیت پڑھنے کے لئے کہا،انہوں نے مجھے وہ آیت پڑھ کرسنائی اورپھراپنے گھرمیں داخل ہوگئے،اس کے بعدمیں بہت دورتک چلتارہا آخرمشقت اوربھوک کی وجہ سے میں منہ کے بل گرپڑا،اچانک میں نے دیکھاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے سرہانے کھڑے ہیں ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااے ابوہریرہ!میں نے کہا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !میں حاضرہوں اورسعادت حاصل کرتاہوں ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میراہاتھ پکڑکرکھڑاکیااورآپ سمجھ گئے کہ میں کس تکلیف میں مبتلاہوں ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے اپنے گھرلے گئے اورمیرے لئے دودھ کاایک بڑا پیالہ منگوایامیں نے اس میں سے دودھ پیا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اورپیو،میں نے اورپی لیا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااورپیومیں نے اورپی لیایہاں تک کہ میراپیٹ بھرکرپیالاساہوگیا

قَالَ: فَلَقِیتُ عُمَرَ، وَذَكَرْتُ لَهُ الَّذِی كَانَ مِنْ أَمْرِی، وَقُلْتُ لَهُ: فَوَلَّى اللَّهُ ذَلِكَ مَنْ كَانَ أَحَقَّ بِهِ مِنْكَ یَا عُمَرُ، وَاللَّهِ لَقَدِ اسْتَقْرَأْتُكَ الآیَةَ، وَلَأَنَا أَقْرَأُ لَهَا مِنْكَ، قَالَ عُمَرُ: وَاللَّهِ لَأَنْ أَكُونَ أَدْخَلْتُكَ أَحَبُّ إِلَیَّ مِنْ أَنْ یَكُونَ لِی مِثْلُ حُمْرِ النَّعَمِ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیاکہ پھرمیں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے ملا اوران سے اپناساراواقعہ بیان کیااورکہاکہ اے سیدنا عمر!اللہ تعالیٰ نے اسے اس ذات کے ذریعہ پوراکرادیاجوآپ سے زیادہ مستحق تھی ،اللہ کی قسم ! میں نے تم سےوہ آیت پوچھی تھی حالانکہ میں اسے تم سے بھی زیادہ بہترطریقہ پرپڑھ سکتاتھا، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہااللہ کی قسم !اگرمیں نے تم کواپنے گھرمیں داخل کرلیاہوتااورتم کوکھاناکھلادیتاتویہ مجھے سرخ اونٹوں سے زیادہ پسندیدہ ہوتی ۔[53]

عَبْدِ اللهِ بْنِ شَقِیقٍ أَقَمْتُ مَعَ أَبِی هُرَیْرَةَ سَنَةً فَقَالَ لَوْ رَأَیْتَنَا وَإِنَّهُ لَیَأْتِی عَلَى أَحَدِنَا الْأَیَّامُ مَا یَجِدُ طَعَامًا یُقِیمُ بِهِ صُلْبَهُ حَتَّى إِنْ كَانَ أَحَدُنَا لَیَأْخُذُ الْحَجَرَ فَیَشُدُّ بِهِ عَلَى أَخْمَصِ بَطْنِهِ ثُمَّ یَشُدُّهُ بِثَوْبِهِ لِیُقِیمَ بِهِ صُلْبَهُ

عبداللہ بن شفیق کہتے ہیں کہ میں ایک سال ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ رہاایک دن فرمانے لگے کاش تووہ ہمارا زمانہ دیکھتاکہ جب کئی کئی دن ہم پر ایسے گزرتے تھے کہ اتناکھانابھی میسر نہ آتا تھا جس سے ہم کمرسیدھی کرلیں یہاں تک کہ مجبور ہوکرپیٹ سے پتھرباندھتے تاکہ کمر سیدھی ہو سکے۔ [54]

عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِی بَكْرٍ، أَنَّ أَصْحَابَ الصُّفَّةِ، كَانُوا أُنَاسًا فُقَرَاءَ ، وَأَنَّ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:مَنْ كَانَ عِنْدَهُ طَعَامُ اثْنَیْنِ فَلْیَذْهَبْ بِثَالِثٍ، وَإِنْ أَرْبَعٌ فَخَامِسٌ أَوْ سَادِسٌ

عبدالرحمٰن بن ابوبکر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں اصحاب صفہ نادارمسکین لوگ تھے،اس لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (ان کی خوراک کے لئے) انہیں صحابہ پرتقسیم فرما دیتے تھے ، جس شخص کے گھرمیں دو آدمیوں کاکھاناہووہ تیسرے(اصحاب صفہ میں سے کسی) کواپنے ساتھ لیتاجائےاورجس کے ہاں چار آدمیوں کا کھاناہے وہ پانچویں یاچھٹے آدمی کوسائبان والوں میں سےاپنے ہمراہ لے جائے۔[55]

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ كُنْتُ مِنْ أَهْلِ الصُّفَّةِ وَكُنَّا إِذَا أَمْسَیْنَا حَضَرَنَا رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَیَأْمُرُ كُلَّ رَجُلٍ فَیَنْصَرِفُ بِرَجُلٍ أَوْ أَكْثَرَ فَیَبْقَى مَنْ بَقِیَ عَشَرَةٌ أَوْ أَقَلُّ أَوْ أَكْثَرُ فَیَأْتِی النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بِعَشَائِهِ فَنَتَعَشَّى مَعَهُ فَإِذَا فَرَغْنَا قَالَ نَامُوا فِی الْمَسْجِدِ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں بھی اہل صفہ میں شامل تھا شام کے وقت ہم سب سیدالامم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضرہوجاتے آپ ایک ایک دوددو کو اغنیاء صحابہ کے سپرد فرما دیتے اورجوباقی رہ جاتے انہیں اپنے ساتھ شریک طعام فرماتے ، کھانے سے فارغ ہو کر ہم لوگ مسجدمیں سوجاتے۔[56]

 عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِیرِینَ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ إِذَا أَمْسَى قَسَمَ نَاسًا مِنْ أَهْلِ الصُّفَّةِ بَیْنَ نَاسٍ مِنْ أَصْحَابِهِ، فَكَانَ الرَّجُلُ یَذْهَبُ بِالرَّجُلِ، وَالرَّجُلُ یَذْهَبُ بِالرَّجُلَیْنِ، وَالرَّجُلُ یَذْهَبُ بِالثَّلَاثَةِ، حَتَّى ذَكَرَ عَشَرَةً، فَكَانَ سَعْدُ بْنُ عُبَادَةَ یَرْجِعُ كُلَّ لَیْلَةٍ إِلَى أَهْلِهِ بِثَمَانِینَ مِنْهُمْ یُعَشِّیهِمْ

محمد بن سیرین رحمہ اللہ فرماتے ہیں جب شام ہوتی تورسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اصحاب صفہ کولوگوں پر تقسیم فرمادیتے کوئی دوآدمی لے جاتا اور کوئی تین اورکوئی دس آدمی لے جاتایونہی سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ ہرروزاسی اسی آدمی اپنے ہمراہ لے جاکر کھانا کھلاتے۔[57]

مُعَاوِیَةَ بْنِ الْحَكَمِ بَیْنَا أَنَا مَعَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فِی الصُّفَّةِ فَجَعَلَ یُوَجِّهُ الرَّجُلَ مَعَ الرَّجُلِ مِنَ الْأَنْصَارِ وَالرَّجُلَیْنِ وَالثَّلَاثَةَ حَتَّى بَقِیتُ فِی أَرْبَعَةٍ وَرَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ خَامِسُنَا فَقَالَ انْطَلِقُوا بِنَا

معاویہ بن الحکم رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں بھی اصحاب صفہ میں شامل تھا،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے فارغ ہوکر اصحاب صفہ کوانصار پر تقسیم فرمادیتے تھے ایک ایک دو دو اورتین تین ایک انصاری کے ساتھ چلے جاتے جب چار فقراء اورپانچویں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم باقی رہ جاتے توآپ ارشاد فرماتے تم میرے ساتھ چلو۔[58]

عَبْدُ اللَّهِ بْنُ بُسْرٍ، قَالَ: كَانَ لِلنَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَصْعَةٌ یُقَالُ لَهَا الْغَرَّاءُ یَحْمِلُهَا أَرْبَعَةُ رِجَالٍ، فَلَمَّا أَضْحَوْا وَسَجَدُوا الضُّحَى أُتِیَ بِتِلْكَ الْقَصْعَةِ – یَعْنِی وَقَدْ ثُرِدَ فِیهَا – فَالْتَفُّوا عَلَیْهَا، فَلَمَّا كَثَرُوا جَثَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ أَعْرَابِیٌّ: مَا هَذِهِ الْجِلْسَةُ؟ قَالَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ اللَّهَ جَعَلَنِی عَبْدًا كَرِیمًا، وَلَمْ یَجْعَلْنِی جَبَّارًا عَنِیدًا ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:كُلُوا مِنْ حَوَالَیْهَا، وَدَعُوا ذِرْوَتَهَا، یُبَارَكْ فِیهَا

عبداللہ بن بسر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھرایک بہت بڑاطشت تھاجسے غراء کہاجاتاتھاجوکافی وزنی تھااوراسے چارآدمی اٹھاتے تھے،جب چاشت کاوقت ہوااورانہوں نے ضحیٰ کی نمازپڑھ لی تواس طشت کولایاگیاجبکہ اس میں ثریدبنایاگیاتھا،اصحاب صفہ اس طشت کے گرداگرد کھانے کے لئے گھیراڈال کربیٹھ گئے،جب زیادہ لوگ جمع ہوجاتے اورجگہ تنگ ہوجاتی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کوجگہ دینے کے لئے خود گھٹنے ٹیک لیتےایک بدوی نے کہابیٹھنے کایہ کیااندازہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااللہ نے مجھے نیک خوبندہ بنایاہے نہ کہ متکبرسرکش،پھررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااس کی اطراف سے کھاؤاورچوٹی کوچھوڑدواس میں برکت ہوگی۔[59]

عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَمَرَ مِنْ كُلِّ جَادٍّ عَشْرَةُ أَوْسُقٍ مِنَ التَّمْرِ بِقِنْوٍ یُعَلَّقُ فِی الْمَسْجِدِ لِلْمَسَاكِینِ

جب کھجوروں پرپھل آجاتاتو جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھجوروں کاپھل توڑنے والے سب لوگوں کوحکم دیاتھاکہ جوکوئی دس وسق کھجورکاٹے وہ ایک خوشہ مساکین کے لئے مسجدمیں لٹکادیا کرے۔[60]

أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَمَرَ مِنْ كُلِّ حَائِطٍ بِقِنْوٍ یُعَلَّقُ فِی الْمَسْجِدِ یَعْنِی لِلْمَسَاكِینِ

ایک دوسری روایت میں ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیاتھاکہ ہرباغ والا ایک ایک خوشہ لاکرمساکین کے لئے مسجدمیں لٹکائے۔[61]

چنانچہ حکم کے مطابق انصاراپنے باغات سے فقراء و مساکین اصحاب صفہ کے لئے کھجورکے خوشے لاکرمسجدمیں لٹکادیتے

وكان معاذ بن جبل رضی الله عنه یقوم علیه ،وكان یجعل علیه حبلاً بین الساریتین،ثم یعلق الأقناء على الحبل، ویجمع العشرین أو أكثر، فیهش علیهم بعصاه من الأقناء فیأكلون حتى یشبعوا

معاذبن جبل رضی اللہ عنہ ان کے نگران اور منتظم تھےوہ ان خوشوں کوصفہ ہی کے قریب دو ستونوں سے بندھی ہوئی ایک رسی سے لٹکادیتے جنہیں اصحاب صفہ چھڑی سے جھاڑکربوقت ضرورت کھاتے تھے۔[62]

عَنِ البَرَاءِ،كُنَّا أَصْحَابُ نَخْلٍ فَكَانَ الرَّجُلُ یَأْتِی مِنْ نَخْلِهِ عَلَى قَدْرِ كَثْرَتِهِ وَقِلَّتِهِ،وَكَانَ الرَّجُلُ یَأْتِی بِالقِنْوِ وَالقِنْوَیْنِ فَیُعَلِّقُهُ فِی الْمَسْجِدِ وَكَانَ أَهْلُ الصُّفَّةِ لَیْسَ لَهُمْ طَعَامٌ، فَكَانَ أَحَدُهُمْ إِذَا جَاعَ أَتَى القِنْوَ فَضَرَبَهُ بِعَصَاهُ فَیَسْقُطُ مِنَ البُسْرِ وَالتَّمْرِ فَیَأْكُلُ

براء بن عازب مروی ہےہم انصاری جو کھجوروں کے باغات والے تھےہم میں سے ہرشخص اپنے مقدورکے موافق تھوڑی یازیادہ لاتے تھے، اوربعض ایک گھچا یا دو گھچے لاتے اورمسجدمیں لٹکادیتے،اہل صفہ کاکہیں سے کھانامقررنہیں تھاچنانچہ ان میں سے جوکوئی گھچے کے پاس آتاتواپنی لاٹھی گھچے پرمارتاجس سے پکی ہوئی کھجوریں گر پڑتیں پس وہ انہیں اٹھا کر کھا لیتا۔[63]

کبھی ایسابھی ہوتاکہ کوئی شخص کچھ زیادہ اچھاخوشہ نہ لاتا توآپ تنبیہ فرماتے ۔

 عَنْ عَوْفِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ:خَرَجَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَبِیَدِهِ عَصًا وَقَدْ عَلَّقَ رَجُلٌ قَنَا حَشَفٍ فَجَعَلَ یَطْعَنُ فِی ذَلِكَ الْقِنْوِ

چنانچہ عوف بن مالک اشجعی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ایک روز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم برآمد ہوئے اورآپ کے دست مبارک میں عصا تھا آپ نے دیکھا کہ اصحاب صفہ کے لئے ایک خراب خوشہ لٹکاہواہے آپ نے اس خراب خوشہ پرعصا لگا کر فرمایا اگریہ صدقہ دینے والاچاہتاتواس سے بہتر خوشہ صدقہ میں لاسکتا تھا۔[64]

اللہ تعالیٰ نے فرمایا

لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتّٰى تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَ۝۰ۥۭ وَمَا تُنْفِقُوْا مِنْ شَیْءٍ فَاِنَّ اللهَ بِهٖ عَلِیْمٌ۝۹۲ [65]

ترجمہ:تم نیکی کونہیں پہنچ سکتے جب تک کہ اپنی وہ چیزیں (اللہ کی راہ میں )خرچ نہ کروجنہیں تم عزیزرکھتے ہواورجوکچھ تم خرچ کروگے اللہ اس سے بے خبرنہ ہوگا۔

أَبُو هُرَیْرَةَ فِی الكَتَّانِ، لَقَدْ رَأَیْتُنِی وَإِنِّی لَأَخِرُّ فِیمَا بَیْنَ مِنْبَرِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَحُجْرَةِ عَائِشَةَ مِنَ الجُوعِ مَغْشِیًّا عَلَیَّ، فَیَجِیءُ الجَائِی فَیَضَعُ رِجْلَهُ عَلَى عُنُقِی یَرَى أَنَّ بِیَ الجُنُونَ وَمَا بِی جُنُونٌ وَمَا هُوَ إِلَّا الجُوعُ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کابیان ہےایک زمانہ تھاکہ جب منبرنبوی اورام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہ کے حجرے کے درمیان بھوک اورفاقہ کی شدت کے مارے بے ہوش پڑاتھااورلوگ مجھے جنون زدہ سمجھ کر (بطور علاج) پاؤں سے میری گردن دباتے تھے حالانکہ مجھے جنون نہیں ہوتاتھاوہ محض بھوک کاعالم ہوتاتھا۔[66]

عَنْ فَضَالَةَ بْنِ عُبَیْدٍ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ كَانَ إِذَا صَلَّى بِالنَّاسِ یَخِرُّ رِجَالٌ مِنْ قَامَتِهِمْ فِی الصَّلاَةِ مِنَ الخَصَاصَةِ وَهُمْ أَصْحَابُ الصُّفَّةِ حَتَّى تَقُولَ الأَعْرَابُ هَؤُلاَءِ مَجَانِینُ أَوْ مَجَانُونَ ،فَإِذَا صَلَّى رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ انْصَرَفَ إِلَیْهِمْ، فَقَالَ: لَوْ تَعْلَمُونَ مَا لَكُمْ عِنْدَ اللهِ لأَحْبَبْتُمْ أَنْ تَزْدَادُوا فَاقَةً وَحَاجَةً

فضالہ بن عبید رضی اللہ عنہ سے مروی ہےاصحاب صفہ بعض اوقات بھوک کی شدت کے باعث اس قدر لاغر اورضعیف ہوجاتے تھے کہ نمازکی حالت میں بھی بے ہوش ہوکرگر جاتے تھے باہرسے آنے والے بدوی انہیں دیوانہ او ر مجنون سمجھتے،لیکن محسن کائنات صلی اللہ علیہ وسلم انہیں اپنے دامان شفقت میں پناہ دینے اور ان کی دلجوئی اور دلداری سے عزم وثبات میں پختگی سے ہمکنار فرماتے اورانہیں ان وجدآفرین اورایمان افروز کلمات سے نوازتے کہ اگر تمہیں یہ معلوم ہوجائے کہ اللہ کریم نے تمہارے لئے کیسے کیسے انعامات تیار کر رکھے ہیں توتم آرزو کرتے کہ یہ فقروفاقہ کاسلسلہ اوربھی طویل ہو جائے۔[67]

ان حضرات کادن تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رفاقت میں بسرہو جاتا مگررواتوں کو فکر آخرت انہیں سونے نہ دیتااس لئے راتوں کابیشترحصہ انہی پرانے ،بوسیدہ اورمختصر کپڑوں میں ذکروفکر اور تلاوت قرآن میں مصروف ومشغول اور منہمک ہوکررب کریم کی خصوصی رحمتوں سے مالا مال ہوتے رہتے تھے ، دنیاکی عارضی خوشیوں میں دل لگانے کے بجائے وہ اللہ تعالیٰ سے ملاقات کے لئے قبروآخرت کے لئے ہر وقت سفر باندھنے کو تیار کھڑے نظر آتے ، اصحاب صفہ کی تعداد میں کمی بیشی ہوتی رہتی تھی ان میں سے کسی کی شادی ہوجانے ، سفر اختیارکرلینے اورموت ومرگ کے باعث کمی ہوجاتی تھی اوراسی طرح نئےطالبان حق غربت ومسکنت کے باعث ان میں شامل ہوتے رہتے تھے، اس لئے مختلف روایات کے پیش نظراگرایک وقت میں ان کی تعداد ستر تھی توکسی وقت وہ چارسوکی عظیم جماعت پر مشتمل ہوتے تھے ۔

ان میں سے بعض کے نام یہ ہیں ۔

ابھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسجدنبوی کی تعمیرسے جسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھجورکی شاخوں اورکوکرموتھے کے پتوں سے پاٹاتھا فارغ نہیں ہوئے تھے کہ

أَنّهُ لَمّا مَاتَ أَبُو أُمَامَةَ أَسْعَدُ بْنُ زُرَارَةَ

بنونجارکے نقیب ابوامامہ اسعدبن زرارہ رضی اللہ عنہ انتقال فرماگئے۔[68]

اجْتَمَعَتْ بَنُو النّجّارِ إلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَكَانَ أَبُو أُمَامَةَ نَقِیبَهُمْ فَقَالُوا لَهُ یَا رَسُولَ اللهِ إنّ هَذَا قَدْ كَانَ مِنّا حَیْثُ قَدْ عَلِمْت، فَاجْعَلْ مِنّا رَجُلًا مَكَانَهُ یُقِیمُ مِنْ أَمْرِنَا مَا كَانَ یُقِیمُ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ لَهُمْ ،أَنْتُمْ أَخْوَالِی، وَأَنَا بِمَا فِیكُمْ، وَأَنَا نَقِیبُكُمْ

ابوامامہ اسعدبن زرارہ رضی اللہ عنہ کےانتقال کے بعدبنونجار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے ابو امامہ ان کے نقیب اور سردار تھے اورعرض پردازہوئے کہ آپ کومعلوم ہے کہ اس شخص کی ہم میں کیامرتبت تھی،آپ ہم میں سے کسی دوسرے کوان کی جگہ نقیب مقررفرمادیں تاکہ جوخدمات وہ انجام دیتے تھےیہ ہمارے لئے انجام دینے لگے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم میرے ننھیالی رشتہ دارہو ،میں تم میں سے ہوں اوراب میں تمہارانقیب بن جاتاہوں ۔[69]

فَكَانَ مِنْ فَضْلِ بَنِی النَّجَّارِ الَّذِی یَعُدُّونَ عَلَى قَوْمِهِمْ، أَنْ كَانَ رَسُولُ الله صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ كَانَ نَقِیبَهُمْ

اس لئے بنوالنجاراس بات کوبھی اپنے اورقبیلوں کے سامنے فخریہ بیان کرتے تھے کہ خودرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے نقیب بنے۔[70]

[1] صحیح مسلم كِتَابُ الْمَسَاجِدِ وَمَوَاضِعِ الصَّلَاةَبَابُ ابْتِنَاءِ مَسْجِدِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ۱۱۷۴،صحیح بخاری کتاب الصلواة بَابٌ هَلْ تُنْبَشُ قُبُورُ مُشْرِكِی الجَاهِلِیَّةِ، وَیُتَّخَذُ مَكَانُهَا مَسَاجِدَ ۴۲۸،مسندابی یعلی ۴۱۸۰،صحیح ابن حبان ۲۳۲۸،السنن الکبری للبیہقی ۴۲۹۵،مسنداحمد۱۳۲۰۸

[2] فتح الباری۱۷۹؍۱

[3] صحیح مسلم كِتَابُ الْمَسَاجِدِ وَمَوَاضِعِ الصَّلَاةَ بَابُ ابْتِنَاءِ مَسْجِدِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عن انس ۱۱۷۳، مسنداحمد۱۳۲۰۸،صحیح بخاری کتاب الصلواة باب ھل ینبش قبورمشرکی الجاھلیة ۴۲۸،مسندابی یعلی ۴۱۸۰،صحیح ابن حبان ۲۳۲۸،السنن الکبری للبیہقی ۴۲۹۵

[4] وفاء الوفا ۲۵۲؍۱ ، ابن سعد ۱۸۴؍۱،زادالمعاد۵۵؍۳

[5] صحیح بخاری باب هِجْرَةِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَأَصْحَابِهِ إِلَى المَدِینَةِ ۳۹۰۶

[6] فتح الباری ۲۰۷؍۳

[7] عیون الآثر۲۲۵؍۱،البدایة والنہایة ۵۵؍۳، ابن سعد۱۸۴؍۱

[8] فتح الباری۲۶۶؍۷

[9]صحیح بخاری کتاب الصلواةبَابٌ هَلْ تُنْبَشُ قُبُورُ مُشْرِكِی الجَاهِلِیَّةِ، وَیُتَّخَذُ مَكَانُهَا مَسَاجِدَ۴۲۸

[10] وفاء الوفاء بأخبار دار المصطفى ۲۵۲؍۱

[11] صحیح بخاری کتاب الصلواة باب ھل ینبش قبور مشرکی الجاھلیة۴۲۸،شرح السنة للبغوی ۳۷۶۵

[12] وفاء الوفاء بأخبار دار المصطفى۲۵۷؍۱

[13] مسنداحمد ۴۶۵؍۳۹

[14] شرح الزرقانی علی المواھب ۳۶۸؍۱

[15] مسنداحمد۴۶۳؍۳۹،فتح الباری۵۴۳؍۱

[16] مجمع الزوائد۱۹۵۲،وفاء الوفاء بأخبار دار المصطفى۲۵۷؍۱،مسنداحمد۴۶۵؍۳۹

[17] وفاء الوفاء بأخبار دار المصطفى۲۵۸؍۱

[18] فتح الباری۲۰۸؍۳

[19] صحیح بخاری کتاب مَنَاقِبِ الأَنْصَارِ بَابُ مَقْدَمِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَأَصْحَابِهِ المَدِینَةَ۳۹۳۲

[20] دلائل النبوة للبیہقی۵۳۸؍۲،عیون الآثر۲۱۵؍۱،امتاع الاسماع۳۲۴؍۸، شرح الزرقانی علی الموھب۱۷۹؍۲

[21] ابن ہشام۴۹۶؍۱،الروض الانف ۱۶۰؍۴،دلائل النبوہ للبیہقی۴۱۲؍۳

[22]تاریخ الخمیس۳۴۵؍۱،فتح الباری ۲۴۷؍۷،الموھب الدینة۱۸۸؍۱

[23] زادالمعاد۵۶؍۳

[24] فتح الباری۲۰۹؍۳،ابن سعد۱۸۵؍۱، زادالمعاد۵۶؍۳

[25] فتح الباری ۲۴۶؍۷

[26]صحیح بخاری کتاب الصلوة بَابُ السُّجُودِ عَلَى الثَّوْبِ فِی شِدَّةِ الحَرِّ۳۸۵، صحیح مسلم كِتَابُ الْمَسَاجِدِ وَمَوَاضِعِ الصَّلَاةَ بَابُ اسْتِحْبَابِ تَقْدِیمِ الظُّهْرِ فِی أَوَّلِ الْوَقْتِ فِی غَیْرِ شِدَّةِ الْحَرِّ۱۴۰۷

[27] وفاء الوفا ۲۶۱؍۱،البدایة والنہایة ۲۶۲؍۳،شرف مصطفیٰ ۳۸۸؍۲

[28] معالم دارالحجرة ۴۵

[29] صحیح بخاری کتاب العتکاف بَابُ مَنْ خَرَجَ مِنَ اعْتِكَافِهِ عِنْدَ الصُّبْحِ۲۰۴۰ ،وکتاب الاذان بَابٌ هَلْ یُصَلِّی الإِمَامُ بِمَنْ حَضَرَ؟ وَهَلْ یَخْطُبُ یَوْمَ الجُمُعَةِ فِی المَطَرِ؟ ۶۶۹،وبَابُ مَنْ لَمْ یَمْسَحْ جَبْهَتَهُ وَأَنْفَهُ حَتَّى صَلَّى ۸۳۶،صحیح مسلم کتاب الصیام بَابُ فَضْلِ لَیْلَةِ الْقَدْرِ، وَالْحَثِّ عَلَى طَلَبِهَا، وَبَیَانِ مَحَلِّهَا وَأَرْجَى أَوْقَاتِ طَلَبِهَا ۲۷۷۱

[30] سنن ابوداود کتاب الاصلوٰة بَابٌ فِی حَصَى الْمَسْجِدِ۴۵۸،شرح النسة للبغوی ۴۷۷

[31] الاستیعاب فی معرفة الاصحاب ۲/۶۸۳

[32] تفسیرالقرطبی ۲۷۴؍۱۲

[33] سنن ابن ماجہ كِتَابُ الْمَسَاجِدِ وَالْجَمَاعَاتِ بَابُ تَطْهِیرِ الْمَسَاجِدِ وَتَطْیِیبِهَا۷۶۰

[34] سنننسائی کتاب الصلوٰة باب تَخْلِیقُ الْمَسَاجِدِ۷۲۹،سنن ابن ماجہ كِتَابُ الْمَسَاجِدِ وَالْجَمَاعَاتِ بَابُ كَرَاهِیَةِ النُّخَامَةِ فِی الْمَسْجِدِ۷۶۲ ،السنن الکبریٰ للنسائی ۸۰۹

[35]صحیح بخاری کتاب الصلوٰة بَابُ حَكِّ المُخَاطِ بِالحَصَى مِنَ المَسْجِدِ ۴۰۸، سنن ابن ماجہ كِتَابُ الْمَسَاجِدِ وَالْجَمَاعَاتِ بَابُ كَرَاهِیَةِ النُّخَامَةِ فِی الْمَسْجِدِ۷۶۱

[36] جامع ترمذی کتاب ابواب السفر بَابُ مَا ذُكِرَ فِی تَطْیِیبِ الْمَسَاجِدِ ۵۹۴،سنن ابوداودکتاب الصلٰوة بَابُ اتِّخَاذِ الْمَسَاجِدِ فِی الدُّورِ۴۵۵

[37] صحیح بخاری کتاب التھجد بَابُ فَضْلِ الصَّلاَةِ فِی مَسْجِدِ مَكَّةَ وَالمَدِینَةِ۱۱۹۰، صحیح مسلم کتاب الحجبَابُ فَضْلِ الصَّلَاةِ بِمَسْجِدَیْ مَكَّةَ وَالْمَدِینَةَ۳۳۷۵،سنن ابن ماجہ کتاب اقامة الصلوٰةبَابُ مَا جَاءَ فِی فَضْلِ الصَّلَاةِ فِی الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَمَسْجِدِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ ۱۴۰۴،جامع ترمذی أَبْوَابُ الصَّلاَةِ بَابُ مَا جَاءَ فِی أَیِّ الْمَسَاجِدِ أَفْضَلُ۳۲۵،مسنداحمد۱۶۰۵،سنن الدارمی۱۴۵۸،مسندالبزار۷۸۰۸،مسندابی یعلی۵۸۵۷،صحیح ابن حبان۱۶۲۵،شعب الایمان۳۸۴۳،شرح السنة للبغوی۴۴۹

[38] السیرة النبویة وأخبار الخلفاء لابن حبان۱۴۳؍۱

[39] فتح الباری ۲۵۲؍۷

[40] صحیح بخاری کتاب التھجدباب فضل مابین القبروالمنبر ۱۱۹۶،صحیح مسلم کتاب الحج باب مابین القبروالمنبرہ ۳۳۷۰، مسنداحمد۷۲۲۳،مسندالبزار۱۲۰۶،صحیح ابن حبان ۳۷۵۰،شرح السنة للبغوی۴۵۲، کنزالعمال ۳۴۸۳۵،البدایة والنہایة۲۶۷؍۳،ابن سعد۱۹۵؍۱

[41] الإیماء إلى زوائد الأمالی والأجزاء ۲۰۰؍۵، ابن سعد ۳۷۲؍۳

[42]مراة الحرمین ۴۷۲؍۱

[43] اخبار مدینہ ۷۵

[44] البدایة والنہایة ۳۶۸؍۳

[45] صحیح بخاری کتاب الصوٰة بَابُ التَّطَوُّعِ خَلْفَ المَرْأَةِ۵۱۳،صحیح مسلم كِتَابُ الصَّلَاةِ بَابُ الِاعْتِرَاضِ بَیْنَ یَدَیِ الْمُصَلِّی۱۱۴۵ ،سنن ابوداودکتاب باب ۷۱۳،سنن نسائی کتاب باب تَرْكُ الْوُضُوءِ مِنْ مَسِّ الرَّجُلِ امْرَأَتَهُ مِنْ غَیْرِ شَهْوَةٍ۱۶۸

[46] المائدة۶

[47] سبل الھدی والرشادفی سیرة خیرالعباد۳۴۹؍۳،شفاء الغرام بأخبار البلد الحرام ۴۲۱؍۲

[48] تہذیب الاسماء واللغات ۹۱۷؍۳

[49] فتح الباری۲۸۶؍۱۱

[50] صحیح بخاری کتاب الصلوٰةبَابُ نَوْمِ الرِّجَالِ فِی المَسْجِدِ ۴۴۲،المعجم الاوسط ۳۲۶۹،شرح السنة للبغوی ۴۰۸۱،اخبارالمدینة۱۰۳؍۱،وفاء الوفا۴۹؍۲،امتاع الاسماع۱۵۹؍۱۰

[51] حلیة الاولیاء ۳۴۱؍۱

[52] صحیح بخاری کتاب الرقاق باب کیف کان عیش النبی صلی اللہ علیہ وسلم واصحابہ ۶۴۵۲ ،اخبارمدینہ ۱۰۳؍۱،خلاق النبی لابی الشیخ الاصبھانی۴۵۷؍۱

[53] صحیح بخاری کتاب الاطعمة باب قول اللہ تعالیٰ کلوامن طیبات عن ابی ہریرہ۵۳۷۵، مسندابی یعلی۶۱۷۳،صحیح ابن حبان۷۱۵۱

[54] فتح الباری ۲۸۴؍۱۱

[55] صحیح بخاری کتاب مواقیت الصلوٰة بَابُ السَّمَرِ مَعَ الضَّیْفِ وَالأَهْلِ ۶۰۲،وکتاب المناقب بَابُ عَلاَمَاتِ النُّبُوَّةِ فِی الإِسْلاَمِ۳۵۸۱ ، مسنداحمد۱۷۰۴،فتح الباری۶۰۲، ۱۶۵؍۵،حلیة الاولیاء۳۳۸؍۱

[56] فتح الباری ۲۸۶؍۱۱

[57]حلیة الاولیاء ۳۴۱؍۱

[58] فتح الباری ۲۸۶؍۱۱

[59] سنن ابوداودکتاب الاطعمة بَابُ مَا جَاءَ فِی الْأَكْلِ مِنْ أَعْلَى الصَّحْفَةِ۳۷۷۳،السنن الکبریٰ للبیہقی ۱۴۶۵۳،شعب الایمان۵۴۶۱

[60] فتح الباری ۳۵۱؍۳،سنن ابوداود کتاب الزکوٰة بَابٌ فِی حُقُوقِ الْمَالِ۱۶۶۲

[61] فتح الباری باب القسمة وتعلیق القنوفی المسجد ۵۱۶؍۱

[62] اخبارمدینہ ۱۰۴؍۱ ، وفاء الوفا ۵۱؍۲

[63] جامع ترمذی ابواب تفسیرالقرآن بَابٌ وَمِنْ سُورَةِ البَقَرَةِ۲۹-۸۷،فتح الباری ۱۵۴؍۳

[64] فتح الباری۵۱۶؍۱ ،وفاء الوفا۵۱؍۲،سنن بوداودكِتَاب الزَّكَاةِ بَابُ مَا لَا یَجُوزُ مِنَ الثَّمَرَةِ فِی الصَّدَقَةِ ۱۶۰۸

[65] آل عمران ۹۲

[66]جامع ترمذی ابواب الزھد بَابُ مَا جَاءَ فِی مَعِیشَةِ أَصْحَابِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ۲۳۶۷

[67] جامع ترمذی ابواب الزہدبَابُ مَا جَاءَ فِی مَعِیشَةِ أَصْحَابِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ۲۳۶۸

[68] الروض الانف ۱۸۱؍۴،تاریخ طبری ۳۹۸؍۲

[69] الروض الانف ۱۸۱؍۴،ابن ہشام ۵۰۸؍۱،البدایة والنہایة۲۸۱؍۳،تاریخ طبری ۳۹۸؍۲،وفاء الوفا۱۸۱؍۱

[70] تاریخ طبری۳۹۸؍۲،البدایة والنہایة۲۸۱؍۳

Related Articles