مکہ: قبل از بعثتِ نبوی ﷺ

توحید اورانسان کاشرک کی طرف سفر

رب کریم نے فرشتوں کے روبرو اپنے اعلان کے مطابق انسان کو عقل وشعورکاشاہکار بناکر ، بار امانت اٹھانے کی صلاحیت دے کراشرف المخلوقات ،احسن تقویم ،احسن تصویراورمکرم بندے کاخطاب دے کرخلیفہ فی الارض بنایا ۔

 وَهُوَالَّذِیْ جَعَلَكُمْ خَلٰۗىِٕفَ الْاَرْضِ ۔۔۔۝۱۶۵ۧ [1]

ترجمہ:وہی ہے جس نے تم کو زمین کا خلیفہ بنایا ۔

 وَلَقَدْ مَكَّنّٰكُمْ فِی الْاَرْضِ وَجَعَلْنَا لَكُمْ فِیْهَا مَعَایِشَ۝۰ۭ قَلِیْلًا مَّا تَشْكُرُوْنَ۝۱۰ۧ  [2]

ترجمہ:اور ہم نے تمہیں زمین میں اختیارات کے ساتھ بسایا اور تمہارے لئے سامان زیست فراہم کیامگر تم لوگ کم ہی شکرگزار ہوتے ہو۔

تواُسے عظیم الشان اور حسین وجمیل کائنات کی ہر چیزپربرتری عطاکرکے فرشتوں سے بھی اونچامقام دیا گیا،فرشتوں نے اللہ کے حکم پر آدم کوسجدہ کرکے اس کی برتری تسلیم کی، خلافت کی یہ ذمہ داری کوئی معمولی ذمے داری نہیں بلکہ فرائض وواجبات کاوہ بارعظیم ہے جس کے تحمل سے پوری کائنات نے اپنے عجزکااظہارکیاہے ۔

اِنَّا عَرَضْنَا الْاَمَانَةَ عَلَی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَالْجِبَالِ فَاَبَیْنَ اَنْ یَّحْمِلْنَهَا وَاَشْفَقْنَ مِنْهَا وَحَمَلَهَا الْاِنْسَانُ۝۰ۭ اِنَّهٗ كَانَ ظَلُوْمًا جَهُوْلًا۝۷۲ۙ [3]

ترجمہ:ہم نے اس امانت کو آسمانوں اور زمین اور پہاڑوں کے سامنے پیش کیاتو وہ اُسے اٹھانے کے لیے تیار نہ ہوئے اور اس سے ڈر گئے ، مگر انسان نے اُسے اٹھا لیا ، بے شک وہ بڑا ظالم اور جاہل ہے۔

یوں انسان کو یہ شرف بخشا گیاکہ وہ کائنات میں کسی کمترحیثیت پرقانع ہونے کے بجائے بااختیار زندگی گزار ے ، وہ کائنات کاغلام بن کرنہیں بلکہ حاکم بن کراس میں اپنامقام پالے ،اس بلند ترین منصب پر فائز رہنے کے لئے ضروری ہے کہ ہم یہ سوچیں کہ ان سب مہربانیوں کے عوض ہمارے ذمے بھی کوئی فرض بنتاہے کہ نہیں ؟ اللہ تعالیٰ کوہم سے کچھ نہیں چاہئے لیکن اس عالم ظاہر میں حکمت ودانائی یہ ہے کہ ہم  اللّٰہ کے سواہرشے کاخوف دل سے نکال دیں ،خالق کی تخلیق سے خالق کوپہچانیں اور اپنے خالق کوتسلیم کریں جوکائنات کابھی مالک ہے اورہمارابھی،اس کی رضاکواپنی رضا بناکر زندگی گزاریں ، دنیاکے تمام خودساختہ خداؤ ں سے منہ پھیر کر خالص اللہ کی عبادت کریں ، ہماری پیشانی صرف اللہ وحدہ لاشریک کے آگے ہی جھکے ،اس کے احکامات پر مکمل طورپرعمل کریں کیونکہ اگرزندگی کامقصداللہ تعالیٰ کی رضا اوراسکاقرب حاصل کرنا ہوگا تو آدمی کے ارادوں اورسعی کی سمت اپنے خالق کی طرف ہوگی،صرف اسی کا شکراداکریں جس نے بے شمارنعمتیں انسان کے لئے پیدافرمائی ہیں ،اسی کی حمدوثناکے گن گائیں جس نے ہمیں یہ مقام عطاکیاہے،یہی کامیاب زندگی ہے جودنیاوی خوف، غم وحزن سے آزادہوکراپنے خالق کے پاس اطمینان سے حاضرہوگی، اگر انسان اپنے خالق کوچھوڑکران چیزوں کے آگے سر جھکائے جواس کی خدمت کے لئے پیداکی گئیں ہیں تو  اللّٰہ نے جواہم ذمہ داری اسے سونپی ہے اسے پوراکرنے کے قابل نہیں ہوسکے گا،پھریہ بھی مالک الملک کااحسان ہے کہ اس نے انسان کوزمین پربھیج کرایسے ہی نہیں چھوڑدیاکہ وہ دردرکی ٹھوکریں کھاتا پھرے،اسے صحیح یاغلط راستے کی پہچان ہی نہ ہو بلکہ وہ اس کی رشدو ہدایت اور اتمام حجت کے لئے وقتاًفوقتاًہربستی میں انبیاء مبعوث فرماتا اور بعض پر کتابیں بھی نازل فرماتا رہا کہ روز قیامت کوئی  اللّٰہ تعالیٰ کے حضوراپنی کجروی کاکوئی عذرپیش نہ کرسکے ۔

قُلْنَا اھْبِطُوْا مِنْهَا جَمِیْعًا۝۰ۚ فَاِمَّا یَاْتِیَنَّكُمْ مِّـنِّىْ ھُدًى فَمَنْ تَبِــعَ ھُدَاىَ فَلَا خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَلَا ھُمْ یَحْزَنُوْنَ۝۳۸وَالَّذِیْنَ كَفَرُوْا وَكَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَآ اُولٰۗىِٕكَ اَصْحٰبُ النَّارِ۝۰ۚ ھُمْ فِیْهَا خٰلِدُوْنَ۝۳۹ۧ [4]

ترجمہ:ہم نے کہا کہ تم سب یہاں سے اتر جاؤ پھر جو میری طرف سے کوئی ہدایت تمہارے پاس پہنچے، تو جو لوگ میری اس ہدایت کی پیروی کریں گے، ان کے لیے کسی خوف اور رنج کا موقع نہ ہوگااور جو اس کو قبول کرنے سے انکار کریں گے اور ہماری آیات کو جھٹلائیں گے وہ آگ میں جانے والے لوگ ہیں جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے ۔

یٰبَنِیْٓ اٰدَمَ اِمَّا یَاْتِیَنَّكُمْ رُسُلٌ مِّنْكُمْ یَـقُصُّوْنَ عَلَیْكُمْ اٰیٰتِیْ۝۰ۙ فَمَنِ اتَّقٰى وَاَصْلَحَ فَلَا خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَلَا هُمْ یَحْزَنُوْنَ۝۳۵وَالَّذِیْنَ كَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَا وَاسْـتَكْبَرُوْا عَنْهَآ اُولٰۗىِٕكَ اَصْحٰبُ النَّارِ۝۰ۚ هُمْ فِیْهَا خٰلِدُوْنَ۝۳۶ [5]

ترجمہ:(اور یہ بات اللہ نے آغاز تخلیق ہی میں صاف فرما دی تھی کہ)اے بنی آدم، یاد رکھو! اگر تمہارے پاس خود تم ہی میں سے ایسے رسول آئیں جو تمہیں میری آیات سنا رہے ہوں ، تو جو کوئی نافرمانی سے بچے گا اور اپنے رویّہ کی اصلاح کرلے گا اس کے لیے کسی خوف اور رنج کا موقع نہیں ہے،اور جو لوگ ہماری آیات کو جھٹلائیں گے اور ان کے مقابلہ میں سرکشی برتیں گے وہی اہل دوزخ ہوں گے جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے۔

وقتِ تخلیق انسان کی فطرت میں یہ بات رکھ دی گئی تھی کہ وہ اپنے خالق ومالک کی عبادت کرے گاجیسے فرمایا۔

وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ۝۵۶ [6]

ترجمہ :میں نے جن اور انسانوں کواس کے سوا کسی کام کے لیے پیدانہیں کیا ہے کہ وہ میر ی بندگی کریں ۔

وَّاَنِ اعْبُدُوْنِیْ۝۰ۭؔ ھٰذَا صِرَاطٌ مُّسْتَــقِیْمٌ۝۶۱ [7]

ترجمہ :اور میری ہی بندگی کرو یہ سیدھا راستہ ہے؟ ۔

فَإِنَّ أَبَا هُرَیْرَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ کَانَ یُحَدِّثُ قَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مَا مِنْ مَوْلُودٍ إِلَّا یُولَدُ عَلَی الْفِطْرَةِ فَأَبَوَاهُ یُهَوِّدَانِهِ أَوْ یُنَصِّرَانِهِ أَوْ یُمَجِّسَانِهِ کَمَا تُنْتَجُ الْبَهِیمَةُ بَهِیمَةً جَمْعَائَ هَلْ تُحِسُّونَ فِیهَا مِنْ جَدْعَائَ ثُمَّ یَقُولُ أَبُو هُرَیْرَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ فِطْرَةَ اللَّهِ الَّتِی فَطَرَ النَّاسَ عَلَیْهَا الْآیَةَ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہر بچہ اسلامی فطرت پر ہی پیدا ہوتا ہے پھر اس کے والدین اسے یہودی، نصرانی، یا مجوسی بنا لیتے ہیں جس طرح جانور صحیح سالم عضو والا بچہ جنتا ہے، کیا تم اس میں سے کوئی عضو کٹا ہوا دیکھتے ہو ؟ پھر ابوہریرہ رضی اللہ عنہ یہ آیت آخر تک تلاوت کرتے ’’اللہ تعالیٰ کی فطرت وہ ہے جس پر لوگوں کو پیدا کیا۔‘‘[8]

عَنِ الْأَسْوَدِ بْنِ سَرِیعٍ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بَعَثَ سَرِیَّةً یَوْمَ حُنَیْنٍ، قَالَ رَوْحٌ: فَأَتَوْا حَیًّا مِنْ أَحْیَاءِ الْعَرَبِ، فَذَكَرَ الْحَدِیثَ، قَالَ: وَالَّذِی نَفْسِی بِیَدِهِ، مَا مِنْ نَسَمَةٍ تُولَدُ إِلَّا عَلَى الْفِطْرَةِ حَتَّى یُعْرِبَ عَنْهَا لِسَانُهَا

اسود بن سریع رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ حنین کے موقع پر ایک دستہ روانہ فرمایا پھر روای نے پوری حدیث ذکر کی اور کہا اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! جو روح بھی دنیا میں جنم لے کر آتی ہے وہ فطرت پر پیدا ہوتی ہے یہاں تک کہ اس کی زبان اپنا ما فی الضمیر ادا کرنے لگے ۔[9]

عبادت کیاہے، عبادت ایسے عمل کو کہتے ہیں جودنیاوی فائدے کے لئے نہیں بلکہ کسی برتر ہستی کی خوشنودی اوررضا جوئی کے لئے کیا جائے،مگر انسان رب سے کئے ہوئے وعدہ الست کو شایدسورج،چانداورزمین کی پیدائش سے بہت پہلے جب  اللّٰہ تعالیٰ نے بیک وقت تمام انسانوں کی ارواح سے جب جنت میں ایک خاص حیثیت میں انسان کا وجود موجودتھا وہیں سے اترکرزمین پرآیا،اس وقت سے یہ سلسلہ جاری ہے اورجوابھی پیدانہیں ہوئے وہ بھی اس وقت عالم ارواح میں موجودہیں اوروہیں سے اترکرعالم ظاہر میں اترتے ہیں وجوداورشعوربخش کراپنے سامنے حاضرکیاتھااوران سے اپنی ربوبیت کی شہادت لی تھی ’’الست بربکم ‘‘کیامیں تمہارارب نہیں اورسب نے برملاکہاہاں توہی ہمارارب ہے ، اس طرح اللہ تعالیٰ نے عالم الغیب میں ہمارے نفوس کواپنی گواہی کاشرف عطا کیاتھافراموش کر بیٹھا، یہ اسی اعتراف کانتیجہ ہے کہ آج بھی نفس اپنے مالک کی یادمیں اطمینان محسوس کرتاہے اوراللہ کونہ ماننے کے باوجوداپنی تنہائیوں اورپریشانیوں میں کبھی نہ کبھی یااللہ کہنے پرمجبورہوجاتاہے ،اگروہ اپنی زبان سے نہ بھی کہے توبھی اپنے انکار کے بارے میں شک وشبہ میں مبتلاہوتاہے۔

وَاِذْ اَخَذَ رَبُّكَ مِنْۢ بَنِیْٓ اٰدَمَ مِنْ ظُهُوْرِهِمْ ذُرِّیَّــتَهُمْ وَاَشْهَدَهُمْ عَلٰٓی اَنْفُسِهِمْ۝۰ۚ اَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ۝۰ۭ قَالُوْا بَلٰی۝۰ۚۛ شَهِدْنَا۝۰ۚۛ اَنْ تَقُوْلُوْا یَوْمَ الْقِیٰمَةِ اِنَّا كُنَّا عَنْ هٰذَا غٰفِلِیْنَ۝۱۷۲ [10]

ترجمہ:اور اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم !لوگوں کو یاد دلاؤ وہ وقت جب کہ تمہارے رب نے بنی آدم کی پشتوں سے ان کی نسل کو نکالا تھا اور انہیں خود ان کے اوپر گواہ بناتے ہوئے پوچھا تھا کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں ؟ انہوں نے کہا ضرور آپ ہی ہمارے رب ہیں ، ہم اس پر گواہی دیتے ہیں ،یہ ہم نے اس لیے کیا کہ کہیں تم قیامت کے روز یہ نہ کہہ دو کہ ہم تو اس بات سے بے خبر تھے۔

اَلَمْ اَعْهَدْ اِلَیْكُمْ یٰبَنِیْٓ اٰدَمَ اَنْ لَّا تَعْبُدُوا الشَّیْطٰنَ۝۰ۚ اِنَّهٗ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِیْنٌ۝۶۰ۙوَّاَنِ اعْبُدُوْنِیْ۝۰ۭؔ ھٰذَا صِرَاطٌ مُّسْتَــقِیْمٌ۝۶۱ [11]

ترجمہ آدم کے بچو!کیا میں نے تم کوہدایت نہ کی تھی کہ شیطان کی بندگی نہ کرو وہ تمہارا کھلا دشمن ہے،اور میری ہی بندگی کرو، یہ سیدھا راستہ ہے ۔

اس عہد کے بعدعالم ازل میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے ہرپیغمبرسے اس امرکاخصوصی عہدبھی لیاگیاتھاکہ وہ اپنی امت کو اپنے بعدآنے والے نبی کی خبرکردے اورساتھ دینے کی ہدایت بھی کرے ،اسی بناپرہرنبی نے اپنی امت کو بعدکے آنے والے نبی کی خبردی ہے اوراس کاساتھ دینے کی ہدایت کی ہے، لیکن نہ قرآن میں اورنہ حدیث میں کہیں بھی اس امرکاپتہ نہیں چلتاکہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی ایسا عہدلیاگیاہو،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کوکسی بعدکے آنے والے نبی کی خبردے کراس پرایمان لانے کی ہدایت فرمائی ہو ، بلکہ قرآن مجید صراحت کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم النبیین فرماتاہے۔

مَا كَانَ مُحَمَّدٌ اَبَآ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِكُمْ وَلٰكِنْ رَّسُوْلَ اللهِ وَخَاتَمَ النَّـبِیّٖنَ۝۰ۭ وَكَانَ اللهُ بِكُلِّ شَیْءٍ عَلِــیْمًا۝۴۰ۧ [12]

ترجمہ: (لوگو) محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں ، مگر وہ اللہ کے رسول اور خاتم النبیین ہیں ، اور اللہ ہر چیز کا علم رکھنے والا ہے۔

اوربکثرت احادیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایامیرے بعدکوئی نبی آنے والانہیں ہے ۔

عَنْ ثَوْبَانَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: لاَ تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى تَلْحَقَ قَبَائِلُ مِنْ أُمَّتِی بِالمُشْرِكِینَ، وَحَتَّى یَعْبُدُوا الأَوْثَانَ، وَإِنَّهُ سَیَكُونُ فِی أُمَّتِی ثَلاَثُونَ كَذَّابُونَ كُلُّهُمْ یَزْعُمُ أَنَّهُ نَبِیٌّ وَأَنَا خَاتَمُ النَّبِیِّینَ لاَ نَبِیَّ بَعْدِی

ثوبان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہوگی جب تک میری امت کے کئی قبائل مشرکین کے ساتھ الحاق نہیں کریں گے اور بتوں کی پوجا نہیں کریں گے، پھر فرمایا میری امت میں تیس جھوٹے پیدا ہوں گے ہر ایک کا یہی دعوی ہوگا کہ وہ نبی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ میں خاتم النبیین ہوں میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا۔[13]

وَاِذْ اَخَذَ اللهُ مِیْثَاقَ النَّبِیّٖنَ لَمَآ اٰتَیْتُكُمْ مِّنْ كِتٰبٍ وَّحِكْمَةٍ ثُمَّ جَاۗءَكُمْ رَسُوْلٌ مُّصَدِّقٌ لِّمَا مَعَكُمْ لَتُؤْمِنُنَّ بِهٖ وَلَتَنْصُرُنَّهٗ۝۰ۭ قَالَ ءَ اَقْرَرْتُمْ وَاَخَذْتُمْ عَلٰی ذٰلِكُمْ اِصْرِیْ۝۰ۭ قَالُوْٓا اَقْرَرْنَا۝۰ۭ قَالَ فَاشْهَدُوْا وَاَنَا مَعَكُمْ مِّنَ الشّٰهِدِیْنَ۝۸۱فَمَنْ تَوَلّٰى بَعْدَ ذٰلِكَ فَاُولٰۗىِٕكَ ھُمُ الْفٰسِقُوْنَ۝۸۲ [14]

ترجمہ: یاد کرو، اللہ نے پیغمبروں سے عہد لیا تھا کہ آج میں نے تمہیں کتاب و حکمت ودانش سے نوازاہے،کل اگرکوئی دوسرارسول تمہارے پاس اسی تعلیم کی تصدیق کرتاہواآئےجوپہلے سے تمہارے پاس موجود ہے توتم کو اس پرایمان لاناہوگااوراس کی مدد کرنی ہوگی ،یہ ارشاد فرما کر اللہ نے پوچھا کیا تم اس کا اقرار کرتے ہو اوراس پرمیری طرف سے عہد کی بھاری ذمہ داری اٹھاتے ہو؟انہوں نے کہا ہاں ہم اقرار کرتے ہیں ، اللہ نے فرمایااچھا تو گواہ رہو اورمیں بھی تمہارے ساتھ گواہ ہوں ،اس کے بعد جو اپنے عہد سےپھرجائے وہی فاسق ہے۔

شروع شروع میں سب انسان ایک ہی امت رہےاورلوگوں نے علم آجانے کے بعداختلافات کیے۔جیسے قرآن مجیدنے متعددمقام پر فرمایا۔

كَانَ النَّاسُ اُمَّةً وَّاحِدَةً۝۰ۣ فَبَعَثَ اللهُ النَّبِیّٖنَ مُبَشِّرِیْنَ وَمُنْذِرِیْنَ۝۰۠ وَاَنْزَلَ مَعَهُمُ الْكِتٰبَ بِالْحَقِّ لِــیَحْكُمَ بَیْنَ النَّاسِ فِـیْمَا اخْتَلَفُوْا فِیْهِ۝۰ۭ وَمَا اخْتَلَفَ فِیْهِ اِلَّا الَّذِیْنَ اُوْتُوْهُ مِنْۢ بَعْدِ مَا جَاۗءَتْهُمُ الْبَیِّنٰتُ بَغْیًۢا بَیْنَهُمْ۝۰ۚ فَهَدَى اللهُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لِمَا اخْتَلَفُوْا فِیْهِ مِنَ الْحَقِّ بِـاِذْنِهٖ۝۰ۭ وَاللهُ یَهْدِیْ مَنْ یَّشَاۗءُ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَـقِیْمٍ۝۲۱۳ [15]

ترجمہ:ابتدامیں سب لوگ ایک ہی طریقے پرتھے (پھریہ حالت باقی نہ رہی اوراختلافات رونماہوئے)تب اللہ نے نبی بھیجے جوراست روی پربشارت دینے والے اورکجروی کے نتائج سے ڈرانے والے تھے اوران کے ساتھ کتاب برحق نازل کی تاکہ حق کے بارے میں لوگوں کے درمیان جواختلافات رونماہوگئے تھے ان کافیصلہ کرے،اوران اختلافات کے رونماہونے کی وجہ یہ نہ تھی کہ ابتدامیں لوگوں کوحق بتایانہیں گیاتھا،نہیں ،اختلاف ان لوگوں نے کیاجنہیں حق کاعلم دیاجاچکاتھا،انہوں نے روشن ہدایات پالینے کے بعدمحض اس لئے حق کوچھوڑکرمختلف طریقے نکالے کہ وہ آپس میں زیادتی کرناچاہتے تھے،پس جولوگ انبیاء پرایمان لے آئے انہیں اللہ نے اپنے اذن سے اس حق کاراستہ دکھادیاجس میں لوگوں نے اختلاف کیاتھا،اللہ جسے چاہتاہے راہ راست دکھادیتاہے۔

تِلْكَ اٰیٰتُ اللهِ نَتْلُوْھَا عَلَیْكَ بِالْحَقِّ۝۰ۭ وَاِنَّكَ لَمِنَ الْمُرْسَلِیْنَ۝۲۵۲تِلْكَ الرُّسُلُ فَضَّلْنَا بَعْضَھُمْ عَلٰی بَعْضٍ۝۰ۘ مِنْھُمْ مَّنْ كَلَّمَ اللهُ وَرَفَعَ بَعْضَھُمْ دَرَجٰتٍ۝۰ۭ وَاٰتَیْنَا عِیْسَى ابْنَ مَرْیَمَ الْبَیِّنٰتِ وَاَیَّدْنٰهُ بِرُوْحِ الْقُدُسِ۝۰ۭ وَلَوْ شَاۗءَ اللهُ مَا اقْتَتَلَ الَّذِیْنَ مِنْۢ بَعْدِھِمْ مِّنْۢ بَعْدِ مَا جَاۗءَتْھُمُ الْبَیِّنٰتُ وَلٰكِنِ اخْتَلَفُوْا فَمِنْھُمْ مَّنْ اٰمَنَ وَمِنْھُمْ مَّنْ كَفَرَ۝۰ۭ وَلَوْ شَاۗءَ اللهُ مَا اقْتَتَلُوْا۝۰ۣ وَلٰكِنَّ اللهَ یَفْعَلُ مَا یُرِیْدُ۝۲۵۳ۧ [16]

ترجمہ :یہ اللہ کی آیات ہیں جو ہم ٹھیک ٹھیک تم کو سنا رہے ہیں اوراے محمد! تم یقینا ً ان لوگوں میں سے ہوجورسول بناکر بھیجے گئے ہیں ،یہ رسول(جوہماری طرف سے انسانوں کی ہدایت پرمامورہوئے) ہم نےان کوایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کرمرتبے عطاکیے،ان میں کوئی ایساتھاجس سے اللہ خودہمکلام ہوا،کسی کواس نے دوسری حیثیتوں سے بلند درجے دیے اورآخرمیں عیسیٰ بن مریم کوروشن نشانیاں عطاکیں اور روح پاک سے اس کی مددکی، اگر اللہ چاہتا توممکن نہ تھاکہ ان رسولوں کے بعدجولوگ روشن نشانیاں دیکھ چکے ےتھےوہ آپس میں لڑتے،مگر(اللہ کی مشیت یہ نہ تھی کہ وہ لوگوں کوجبراًاختلاف سے روکے،اس وجہ سے) انہوں نے باہم اختلاف کیاپھرکوئی ایمان لایا اورکسی نے کفرکی راہ اختیارکی،ہاں اللہ چاہتا تووہ ہرگزنہ لڑتے مگراللہ جو چاہتا ہے کرتا ہے۔

اِنَّ الدِّیْنَ عِنْدَ اللهِ الْاِسْلَامُ۝۰ۣ وَمَا اخْتَلَـفَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ اِلَّا مِنْۢ بَعْدِ مَا جَاۗءَھُمُ الْعِلْمُ بَغْیًۢا بَیْنَھُمْ۝۰ۭ وَمَنْ یَّكْفُرْ بِاٰیٰتِ اللهِ فَاِنَّ اللهَ سَرِیْعُ الْحِسَابِ۝۱۹ [17]

ترجمہ:اللہ کے نزدیک دین صرف الاسلام ہے، اس دینِ اسلام سے ہٹ کر جو مختلف طریقے ان لوگوں نے اختیار کیےجنہیں کتاب دی گئی تھی ، ان کے اس طرز ِ عمل کی کوئی وجہ اس کے سوا نہ تھی کہ انہوں نے علم آ جانے کے بعد آپس میں ایک دوسرے پر زیادتی کرنے کے لیے ایسا کیا اور جو کوئی اللہ کے احکام و ہدایات کی اطاعت سے انکار کر دے ، اللہ کو اس سے حساب لیتے کچھ دیر نہیں لگتی۔

وَمَا كَانَ النَّاسُ اِلَّآ اُمَّةً وَّاحِدَةً فَاخْتَلَفُوْا۝۰ۭ وَلَوْلَا كَلِمَةٌ سَبَقَتْ مِنْ رَّبِّكَ لَقُضِیَ بَیْنَھُمْ فِیْمَا فِیْهِ یَخْتَلِفُوْنَ۝۱۹ [18]

ترجمہ:ابتداء میں سارے انسان ایک ہی امت تھے بعدمیں انہوں نے مختلف عقیدے اورمسلک بنالیے، اور اگرتیرے رب کی طرف سے پہلے ہی ایک بات طے نہ کرلی گئی ہوتی توجس چیزمیں وہ باہم اختلاف کررہے ہیں اس کافیصلہ کردیاجاتا۔

وَلَقَدْ بَوَّاْنَا بَنِیْٓ اِسْرَاۗءِیْلَ مُبَوَّاَ صِدْقٍ وَّرَزَقْنٰھُمْ مِّنَ الطَّیِّبٰتِ۝۰ۚ فَمَا اخْتَلَفُوْا حَتّٰى جَاۗءَھُمُ الْعِلْمُ۝۰ۭ اِنَّ رَبَّكَ یَقْضِیْ بَیْنَھُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ فِیْمَا كَانُوْا فِیْهِ یَخْتَلِفُوْنَ۝۹۳ [19]

ترجمہ: ہم نے بنی اسرائیل کو بہت اچھا ٹھکانا دیا اور انہیں نہایت عمدہ وسائل زندگی انہیں عطاکیے، پھر انہوں نےباہم اختلاف نہیں کیا مگر اس وقت جب کہ علم ان کے پاس آ چکا تھا،یقیناتیرارب قیامت کے روز ان کے درمیان اس چیز کا فیصلہ کردے گا جس میں وہ اختلاف کرتے رہے ہیں ۔

شَرَعَ لَكُمْ مِّنَ الدِّیْنِ مَا وَصّٰى بِهٖ نُوْحًا وَّالَّذِیْٓ اَوْحَیْنَآ اِلَیْكَ وَمَا وَصَّیْنَا بِهٖٓ اِبْرٰهِیْمَ وَمُوْسٰى وَعِیْسٰٓى اَنْ اَقِیْمُوا الدِّیْنَ وَلَا تَتَفَرَّقُوْا فِیْهِ۝۰ۭ كَبُرَ عَلَی الْمُشْرِكِیْنَ مَا تَدْعُوْهُمْ اِلَیْهِ۝۰ۭ اَللهُ یَجْتَبِیْٓ اِلَیْهِ مَنْ یَّشَاۗءُ وَیَهْدِیْٓ اِلَیْهِ مَنْ یُّنِیْبُ۝۱۳وَمَا تَفَرَّقُوْٓا اِلَّا مِنْۢ بَعْدِ مَا جَاۗءَهُمُ الْعِلْمُ بَغْیًۢا بَیْنَهُمْ۝۰ۭ وَلَوْلَا كَلِمَةٌ سَبَقَتْ مِنْ رَّبِّكَ اِلٰٓى اَجَلٍ مُّسَمًّی لَّقُضِیَ بَیْنَهُمْ۝۰ۭ وَاِنَّ الَّذِیْنَ اُوْرِثُوا الْكِتٰبَ مِنْۢ بَعْدِهِمْ لَفِیْ شَكٍّ مِّنْهُ مُرِیْبٍ۝۱۴فَلِذٰلِكَ فَادْعُ۝۰ۚ وَاسْتَقِمْ كَـمَآ اُمِرْتَ۝۰ۚ وَلَا تَتَّبِـعْ اَهْوَاۗءَهُمْ۝۰ۭ وَقُلْ اٰمَنْتُ بِمَآ اَنْزَلَ اللهُ مِنْ كِتٰبٍ۝۰ۚ وَاُمِرْتُ لِاَعْدِلَ بَیْنَكُمْ۝۰ۭ اَللهُ رَبُّنَا وَرَبُّكُمْ۝۰ۭ لَنَآ اَعْمَالُنَا وَلَكُمْ اَعْمَالُكُمْ۝۰ۭ لَا حُجَّةَ بَیْنَنَا وَبَیْنَكُمْ۝۰ۭ اَللهُ یَجْمَعُ بَیْنَنَا۝۰ۚ وَاِلَیْهِ الْمَصِیْرُ۝۱۵ۭ [20]

ترجمہ: اس نے تمہارے لیے دین کا وہی طریقہ مقرر کیا ہے جس کا حکم اس نے نوح ( علیہ السلام ) کو دیا تھا، اور جسے (اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) اب تمہاری طرف ہم نے وحی کے ذریعہ سے بھیجا ہے، اور جس کی ہدایت ہم ابراہیم علیہ السلام اور موسیٰ علیہ السلام اور عیسیٰ علیہ السلام کو دے چکے ہیں ، اس تاکید کے ساتھ کہ قائم کرو اس دین کو اور اس میں متفرق نہ ہو جاؤ، یہی بات ان مشرکین کو سخت ناگوار ہوئی ہے جس کی طرف( اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) تم انہیں دعوت دے رہے ہو۔ اللہ جسے چاہتا ہے اپنا کرلیتا ہے، اور وہ اپنی طرف آنے کا راستہ اسی کو دکھاتا ہے جو اس کی طرف رجوع کرے ،لوگوں میں جو تفرقہ رونما ہوا وہ اس کے بعد ہوا کہ ان کے پاس علم آ چکا تھا، اور اس بنا پر ہوا کہ وہ آپس میں ایک دوسرے پر زیادتی کرنا چاہتے تھے ، اگر تیرا رب پہلے ہی یہ نہ فرما چکا ہوتا کہ ایک وقت مقرر تک فیصلہ ملتوی رکھا جائے گا تو ان کا قضیہ چکا دیا گیا ہوتا اور حقیقت یہ ہے کہ اگلوں کے بعد جو لوگ کتاب کے وارث بنائے گئے وہ اس کی طرف سے بڑے اضطراب انگیز شک میں پڑے ہوئے ہیں ، (چونکہ یہ حالت پیدا ہوچکی ہے )اس لیے اے محمد، اب تم اسی دین کی طرف دعوت دو ، اور جس طرح تمہیں حکم دیا گیا ہے اس پر مضبوطی کے ساتھ قائم ہوجاؤاور ان لوگوں کی خواہشات کا اتباع نہ کرو، اور ان سے کہہ دو کہ اللہ نے جو کتاب بھی نازل کی ہے میں اس پر ایمان لایا مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں تمہارے درمیان انصاف کروں ،اللہ ہی ہمارا رب بھی ہے اور تمہارا رب بھی، ہمارے اعمال ہمارے لیے ہیں اور تمہارے اعمال تمہارے لیے ہمارے اور تمہارے درمیان کوئی جھگڑا نہیں اللہ ایک روز ہم سب کو جمع کرے گا اور اسی کی طرف سب کو جانا ہے۔

وَلَقَدْ اٰتَیْنَا بَنِیْٓ اِسْرَاۗءِیْلَ الْكِتٰبَ وَالْحُكْمَ وَالنُّبُوَّةَ وَرَزَقْنٰهُمْ مِّنَ الطَّیِّبٰتِ وَفَضَّلْنٰهُمْ عَلَی الْعٰلَمِیْنَ۝۱۶ۚوَاٰتَیْنٰهُمْ بَیِّنٰتٍ مِّنَ الْاَمْرِ۝۰ۚ فَمَا اخْتَلَفُوْٓا اِلَّا مِنْۢ بَعْدِ مَا جَاۗءَهُمُ الْعِلْمُ۝۰ۙ بَغْیًۢا بَیْنَهُمْ۝۰ۭ اِنَّ رَبَّكَ یَقْضِیْ بَیْنَهُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ فِــیْمَا كَانُوْا فِیْهِ یَخْتَلِفُوْنَ۝۱۷ثُمَّ جَعَلْنٰكَ عَلٰی شَرِیْعَةٍ مِّنَ الْاَمْرِ فَاتَّبِعْهَا وَلَا تَتَّبِعْ اَهْوَاۗءَ الَّذِیْنَ لَا یَعْلَمُوْنَ۝۱۸ [21]

ترجمہ:اس سے پہلے بنی اسرائیل کو ہم نے کتاب اور حکم اور نبوت عطا کی تھی،ان کو ہم نے عمدہ سامان زیست سے نوازا، دنیا بھر کے لوگوں پر انہیں فضیلت عطا کی اور دین کے معاملہ میں انہیں واضح ہدایات دے دیں ، پھر جو اختلاف ان کے درمیان رو نما ہوا وہ (نا واقفیت کی وجہ سے نہیں بلکہ) علم آجانے کے بعد ہوا اور اس بنا پر ہوا کہ وہ آپس میں ایک دوسرے پر زیادتی کرنا چاہتے تھے، اللہ قیامت کے روز ان معاملات کا فیصلہ فرما دے گا جن میں وہ اختلاف کرتے رہے ہیں ،اس کے بعد اب اے نبی! ہم نے تم کو دین کے معاملہ میں ایک صاف شاہراہ (شریعت) پر قائم کیا ہے لہٰذا تم اسی پر چلو اور ان لوگوں کی خواہشات کا اتباع نہ کرو جو علم نہیں رکھتے۔

مگر وقت کے ساتھ ساتھ انسان جس کوفرشتوں سے بڑھ کرعلم دیاگیاتھااس کایہ جذبہ فطرت خارجی اثرات سے دب گیا،اس نے کائنات میں اپنے مقام کونہ سمجھااور نہ ہی کائنات کے شاندارنظام کی تخلیق کے مقصدسے کلی طورپرہم آہنگ ہوا،اس نے خالق کائنات کے ساتھ اپنے رشتے کومضبوط ترکرنے کے بجائے اللہ تعالیٰ سے کیے ہوئے سب وعدے و اقرار بھول کر اس دنیاکی رنگینیوں اوردلفریبیوں میں گم ہو گیا، اور کارخانہ قدرت کے ذرّے ذرّے سے جو توحید باری تعالیٰ کی گواہی دیتا ہے بصیرت و ہدایت حاصل کرنے کے بجائے حقوق ،فائدے اور امتیازات حاصل کرنے کے لئے دین کے عقائد، اصول اوراحکام میں ردوبدل کرکے خود ساختہ شریعتیں تصنیف کرنے لگا،اور توحیدکاراستہ چھوڑکر کفروشرک کی راہ اختیار کر کے بلندی کی انتہا سے پستیوں میں گرتا چلا گیا، پھر اس کی رذالت کایہ حال ہوا کہ وہ ہر حقیرسے حقیر چیزسے ڈرنے لگا،اللہ نے جو چیزیں اس کی اطاعت اورفائدے کے لئے پیدا کی تھیں ،جواس کی خادم تھیں ان کے اندرکسی قسم کی طاقت مضرت یامنفعت دیکھ کر خودان سے ڈرنے ،انکی تابعداری کرنے اوراپنے ہی جیسے انسانوں میں کوئی قوت دیکھ کررب ، آقا ،حاکم مطلق مان کران کے حضور جھکنے لگا ،یہاں تک کہ زندوں سے گزر کر مردوں کو بھی اپنی درخواستیں اور التجائیں پیش کرنے لگا اور بالآخر ہر چمکتے پتھر اور ہراونچے درخت کواپنا معبود بناکر وہ اپنا شرف کھو بیٹھا،کہیں انسان نے مظاہر فطرت( سورج چاند اور ستاروں کو) برتر مان کر انسانی یا انسانی وحیوانی ملی جلی شکل کے بت بنا کران کے ہیکل تعمیر کیے، پھران بتوں کوخود ہی قدرت واختیارات کے حقوق عطاکرکے مراسم عبودیت کے ذریعہ ان سے اپنے دنیاوی مقاصد میں خوشنودی حاصل کرنے کی کوششیں کرنے لگا ،کہیں اس نے آگ کی جلانے کی قوت کوبرتر سمجھ کراس کی عبادت میں مگن ہوگیا،توکہیں پانی کی قوت دیکھ کر یا بجلی کی چمک اورکڑک سے ڈرکرانہیں اپنامبعود بنالیا،اور کہیں کسی نیک آدمی کے گزر جانے کے بعد ان کی اندھی محبت و عقیدت ،تعظیم میں اسی کو معبود کا درجہ دے دیاگیا،ان کی عظمت وبزرگی کے گیت گانے لگا،اللہ کی نعمتوں کو  اللّٰہ کے سوا دوسروں سے منسوب کرنے اور ہر مشکل میں  اللّٰہ کے سوا انہی سے مددمانگنے لگا ،ان کے آگے دست سوال دراز کرنے اوران سے اپنی مددکی التجاکرنے لگاجو نہ تواس پکارکوسن سکتے تھے اور نہ منتیں اور مرادیں پوراکرنے کی قوت و اختیار رکھتے تھے۔جیسے فرمایا:

وَالَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللهِ لَا یَخْلُقُوْنَ شَـیْـــًٔـا وَّهُمْ یُخْلَقُوْنَ۝۲۰ۭاَمْوَاتٌ غَیْرُ اَحْیَاۗءٍ۝۰ۚ وَمَا یَشْعُرُوْنَ۝۰ۙ اَیَّانَ یُبْعَثُوْنَ۝۲۱ۧ [22]

ترجمہ:اور وہ دوسری ہستیاں جنہیں اللہ کو چھوڑ کر لوگ پکارتے ہیں ، وہ کسی چیز کی بھی خالق نہیں ہیں بلکہ خود مخلوق ہیں ، مردہ ہیں نہ کہ زندہ، اور ان کو کچھ معلوم نہیں ہے کہ انہیں کب(دوبارہ زندہ کر کے)اٹھایا جائے گا۔

وَاتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِهٖٓ اٰلِهَةً لَّا یَخْلُقُوْنَ شَـیْـــــًٔا وَّهُمْ یُخْلَقُوْنَ وَلَا یَمْلِكُوْنَ لِاَنْفُسِهِمْ ضَرًّا وَّلَا نَفْعًا وَّلَا یَمْلِكُوْنَ مَوْتًا وَّلَا حَیٰوةً وَّلَا نُشُوْرًا۝۳ [23]

ترجمہ: لوگوں نے اسے چھوڑ کر ایسے معبود بنا لیے جو کسی چیز کو پیدا نہیں کرتے بلکہ خود پیدا کیے جاتے ہیں ، جو خود اپنے لیے بھی کسی نفع یا نقصان کا اختیار نہیں رکھتے، جو نہ مار سکتے ہیں نہ جلا سکتے ہیں ، نہ مرے ہوئے کو پھر اٹھا سکتے ہیں ۔

وَیَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللهِ مَا لَا یَنْفَعُهُمْ وَلَا یَضُرُّهُمْ۝۰ۭ وَكَانَ الْكَافِرُ عَلٰی رَبِّهٖ ظَهِیْرًا۝۵۵(الفرقان۵۵)

ترجمہ:اس خدا کو چھوڑ کر لوگ ان کو پوج رہے ہیں جو نہ ان کو نفع پہنچا سکتے ہیں نہ نقصان، اور اوپر سے مزید یہ کہ کافر اپنے رب کے مقابلے میں ہر باغی کا مددگار بنا ہوا ہے۔

اس طرح انسان نے اپنامرتبہ گرادیا، خود کو ذلیل کرکے خادموں کاخادم اورغلاموں کاغلام بن کرنیابت الہٰی کے منصب سے خوددست بردارہوگیا۔

اِنَّمَا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ اَوْثَانًا وَّتَخْلُقُوْنَ اِفْكًا ۭ اِنَّ الَّذِیْنَ تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ لَا یَمْلِكُوْنَ لَكُمْ رِزْقًا فَابْتَغُوْا عِنْدَ اللّٰهِ الرِّزْقَ وَاعْبُدُوْهُ وَاشْكُرُوْا لَهٗ ۭ اِلَیْهِ تُرْجَعُوْنَ  [24]

ترجمہ: ( ابراہیم علیہ السلام نے اپنی قوم سے فرمایا)تم اللہ کو چھوڑ کر جنہیں پوج رہے ہو وہ تو محض بت ہیں اور تم ایک جھوٹ گھڑ رہے ہو، درحقیقت اللہ کے سوا جن کی تم پرستش کرتے ہو وہ تمہیں کوئی رزق بھی دینے کا اختیار نہیں رکھتے، اللہ سے رزق مانگو اور اسی کی بندگی کرو اور اس کا شکر ادا کرو، اسی کی طرف تم پلٹائے جانے والے ہو۔

شرک ہمیشہ اندھی محبت وعقیدت میں ہی ہوتا ہے، جیسا کہ مفسرین نے لکھا ہے یغوث ،یعوق،اورنسرقوم نوح کے نیک وصالح لوگ تھے۔[25]

اس وجہ سے لوگ ان کی پیروی کرتے تھے ،ان کے وصال سے پیرو کاروں کو صدمہ ہواتووہ ان کی قبروں پر جھک پڑے،تو ابلیس نے ان کے اعمال انہیں خوش نما بنا کر دکھائے اور ان کے دلوں میں یہ خیال ڈالا کہ وہ اپنے بزرگوں کے بت بنا کر اپنے سامنے رکھیں تاکہ ان کا شوق عبادت تیز ہواور وہ ان کے فیوض وبرکات سے بہرہ مند ہو سکیں کہ یہی  اللّٰہ تک پہنچنے کا ذریعہ ہیں ، یوں اکثر لوگ ابلیس کے جھانسے میں آگئے پھرابلیس نے ان کے بعدوالوں کے دلوں میں بھی یہ بات پختہ کی کہ یہ بت  اللّٰہ کے دربارمیں بڑے مقرب ہیں اوران کی سفارش سے لوگوں کو عظمت و برتری ملتی ہے، چنانچہ لوگ ان بتوں کی باضابطہ عبادت کرنے لگے کہ یہ ہمیں  اللّٰہ تک پہنچا دیں گے اورہماری سفارش بھی کریں گے جیسےفرمایا۔

۔۔۔ وَالَّذِیْنَ اتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِهٖٓ اَوْلِیَاۗءَ۝۰ۘ مَا نَعْبُدُهُمْ اِلَّا لِیُقَرِّبُوْنَآ اِلَى اللهِ زُلْفٰى۔۔۔۝۳ [26]

ترجمہ: رہے وہ لوگ جنہوں نے اس کے سوا دوسرے سرپرست بنا رکھے ہیں (اور اپنے اس فعل کی توجیہ یہ کرتے ہیں کہ) ہم تو ان کی عبادت صرف اس لیے کرتے ہیں کہ وہ اللہ تک ہماری رسائی کرا دیں ۔

وَیَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللهِ مَا لَا یَضُرُّھُمْ وَلَا یَنْفَعُھُمْ وَیَقُوْلُوْنَ هٰٓؤُلَاۗءِ شُفَعَاۗؤُنَا عِنْدَ اللهِ۔۔۔۝۱۸ [27]

ترجمہ: یہ لوگ اللہ کے سوا ان کی پرستش کر رہے ہیں جو ان کو نہ نقصان پہنچا سکتے ہیں نہ نفع اور کہتے یہ ہیں کہ یہ اللہ کے ہاں ہمارے سفارشی ہیں ۔

 اِذْ قَالَ لِاَبِیْہِ یٰٓاَبَتِ لِمَ تَعْبُدُ مَا لَا یَسْمَعُ وَلَا یُبْصِرُ وَلَا یُغْنِیْ عَنْكَ شَـیْــــــًٔــا۝۴۲ [28]

ترجمہ:(انہیں ذرا اس موقع کی یاد دلاؤ) جبکہ اس نے اپنے باپ سے کہا ابا جان!آپ کیوں ان چیزوں کی عبادت کرتے ہیں جو نہ سنتی ہیں نہ دیکھتی ہیں اور نہ آپ کا کوئی کام بنا سکتی ہیں ؟

الغرض انسان کی فطرت میں  اللّٰہ کااعتراف روزاول کاوہ عہدو پیمان ہے جو خالق ومخلوق کے درمیان ہوا تھااوریہ اسی عہدو پیمان کا احساس ہے جوانسان کی رگ وپے میں سرایت کیے ہوئے ہے کہ ہزار انکار کے بعدبھی کسی نہ کسی رنگ میں وہ اعتراف نمایاں ہوجاتاہے، چنانچہ صدیوں سے متمدن سے متمدن اوروحشی سے وحشی انسان نے جوبھی خود ساختہ مذاہب تخلیق کئے اس میں کسی نہ کسی طرح ایک برتر ہستی کا تصو ر ضرور رہاہے ،یعنی ہر مذہب کی تعلیمات کسی ایک برترہستی کے گرد گھومتی ہیں لہذااس برتر ہستی کی خوشنودی حاصل کرنا صدیوں سے انسانی زندگی کا ایک اہم مقصد چلا آ رہاہے ۔

[1]الانعام ۱۶۵

[2] الاعراف۱۰

[3] الاحزاب ۷۲

[4] البقرة۳۸،۳۹

[5] الاعراف۳۵،۳۶

[6]الزاریات۵۶

[7] یٰسین ۶۱

[8] صحیح بخاری كِتَابُ الجَنَائِزِ بَابُ إِذَا أَسْلَمَ الصَّبِیُّ فَمَاتَ، هَلْ یُصَلَّى عَلَیْهِ، وَهَلْ یُعْرَضُ عَلَى الصَّبِیِّ الإِسْلاَمُ۱۳۵۸،صحیح مسلم كتاب الْقَدَرِ بَابُ مَعْنَى كُلِّ مَوْلُودٍ یُولَدُ عَلَى الْفِطْرَةِ وَحُكْمِ مَوْتِ أَطْفَالِ الْكُفَّارِ وَأَطْفَالِ الْمُسْلِمِینَ ۶۷۵۵

[9] مسنداحمد۱۶۲۹۹

[10] الاعراف ۱۷۲

[11] یٰسین۶۱،۶۰

[12] الاحزاب۴۰

[13] جامع ترمذی أَبْوَابُ الْفِتَنِ بَابُ مَا جَاءَ لاَ تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى یَخْرُجَ كَذَّابُونَ۲۲۱۹

[14] آل عمران ۸۱،۸۲

[15] البقرة ۲۱۳

[16] البقرة۲۵۲،۲۵۳

[17] آل عمران ۱۹

[18] یونس۱۹

[19] یونس ۹۳

[20] الشوریٰ ۱۳تا۱۵

[21] الجاثیة ۱۶تا۱۸

[22] النحل۲۰،۲۱

[23] الفرقان۳

[24] العنکبوت۱۷

[25] الروض الأنف۲۱۳؍۱

[26] الزمر ۳

[27] یونس ۱۸

[28] مریم۴۲

Related Articles