ہجرت نبوی کا نواں سال

جنازے کے ساتھ چلنا

جنازے کولے کرجلدی چلناچاہیے:

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:أَسْرِعُوا بِالْجِنَازَةِ، فَإِنْ تَكُ صَالِحَةً فَخَیْرٌ تُقَدِّمُونَهَا، وَإِنْ یَكُ سِوَى ذَلِكَ، فَشَرٌّ تَضَعُونَهُ عَنْ رِقَابِكُمْ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجنازہ لے جانے میں  جلدی کرو،اس لیے کہ اگرمرنے والانیک شخص ہے توتم اس کوبھلائی کی طرف نزدیک کررہے ہو،اوراگراس کے سوا(برا)ہے توایک شرہے جسے تم اپنی گردنوں  سے اتارتے ہو۔[1]

فَلَحِقَنَا أَبُو بَكْرَةَ فَرَفَعَ سَوْطَهُ، فَقَالَ:لَقَدْ رَأَیْتُنَا وَنَحْنُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ نَرْمُلُ رَمَلًا

ابوبکرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ(جنازہ لے کر)دوڑاکرتے تھے۔[2]

أَنَّ أَبَا بُرْدَةَ حَدَّثَهُ، قَالَ: أَوْصَى أَبُو مُوسَى حِینَ حَضَرَهُ الْمَوْتُ، قَالَ:إِذَا انْطَلَقْتُمْ بِجِنَازَتِی فَأَسْرِعُوا بِهِ الْمَشْیَ، وَلَا تَتَّبِعُونِی بِمِجْمَرٍ، وَلَا تَجْعَلُنَّ عَلَى لَحْدِی شَیْئًا یَحُولُ بَیْنِی وَبَیْنَ التُّرَابِ، وَلَا تَجْعَلُنَّ عَلَى قَبْرِی بِنَاءً، وَأُشْهِدُكُمْ أَنِّی بَرِیءٌ مِنْ كُلِّ حَالِقَةٍ، أَوْ سَالِقَةٍ، أَوْ خَارِقَةٍ. قَالُوا لَهُ: سَمِعْتَ فِیهِ شَیْئًا؟ قَالَ: نَعَمْ مِنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ

ابوبردہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نے وصیت کرتے ہوئے فرمایا جب تم لوگ میرے جنازے کو لے روانہ ہو تو تیزی سے چلنا، انگیٹھی ساتھ لے کر نہ جانا،میری قبر میں  کوئی ایسی چیز نہ رکھنا جو میرے اور مٹی کے درمیان حائل ہو،میری قبر پر کچھ تعمیر نہ کرنا، اور میں  تمہیں  گواہ بناتاہوں  کہ میں  ہر اس شخص سے بری ہوں  جو بال نوچے ، واویلا کرے اور گریبان چاک کرے، لوگوں  نے پوچھا کیا آپ نے اس حوالے سے کچھ سن رکھاہے ؟ انہوں  نے فرمایا ہاں  ! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے۔[3]

عَنْ أَبِی مُوسَى، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ رَأَى جِنَازَةً یُسْرِعُونَ بِهَا، فَقَالَ:لِتَكُنْ عَلَیْكُمُ السَّكِینَةُ

ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک جنازہ دیکھاجسے لوگ تیزی سے لے جارہے تھے توفرمایاتم پراطمینان وسکون ہوناچاہیے۔[4]

هَذَا إِسْنَاد ضَعِیف ،لضعف لَیْث وَهُوَ ابْن أبی سلیم ،مَا یُخَالِفهُ أَسْرعُوا بالجنازة

حافظ بوصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں  اس روایت کی اسناد ضعیف ہے،یہ روایت لیث جوابن ابی سلیم ہے کی وجہ سے ضعیف ہے،اوراس حدیث کے مخالف ہے کہ جنازہ کوتیزی سے لے کرچلو۔[5]

عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ، قَالَ: سَأَلْنَا نَبِیَّنَا صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الْمَشْیِ مَعَ الْجَنَازَةِ، فَقَالَ:مَا دُونَ الْخَبَبِ إِنْ یَكُنْ خَیْرًا تَعَجَّلَ إِلَیْهِ، وَإِنْ یَكُنْ غَیْرَ ذَلِكَ فَبُعْدًا لِأَهْلِ النَّارِ، وَالْجَنَازَةُ مَتْبُوعَةٌ، وَلَا تُتْبَعُ لَیْسَ مَعَهَا مَنْ تَقَدَّمَهَا

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما سے مروی ہےہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ جنازہ کے ساتھ کس طرح چلنا چاہئے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا خبب سے کچھ کم (خبب دوڑنے کی ایک قسم ہے) اگر وہ جنازہ نیک آدمی کا ہے تو جلدی پہنچانے کے لیے، اور اگر نیک نہیں  ہے تو جہنم والوں  کا دور ہی رہنا بہتر ہے،اور جنازہ آگے رہنا چاہئے پیچھے نہیں  ، اور جو شخص(کافی فاصلہ دے کر) جنازہ کے آگے چلتا ہے تو گویا وہ اس کے ساتھ ہی نہیں  ہے۔[6]

وَهُوَ ضَعِیفٌ هُوَ یَحْیَى بْنُ عَبْدِ اللهِ وَهُوَ یَحْیَى الْجَابِرُ، قَالَ أَبُو دَاوُدَ:وَهَذَا كُوفِیٌّ وَأَبُو مَاجِدَةَ بَصْرِیٌّ،قَالَ أَبُو دَاوُدَ: أَبُو مَاجِدَةَ، هَذَا لَا یُعْرَفُ

امام ابوداود رحمہ اللہ فرماتے ہیں  یہ ضعیف روایت ہے اس روایت میں  یحییٰ بن عبداللہ ہے جویحییٰ الجابرکہلاتاہے، امام ابوداود رحمہ اللہ فرماتے ہیں  یہ کوفہ کاباشندہ تھااورابوماجدبصرہ کاباشندہ تھا اورامام ابوداود رحمہ اللہ فرماتے ہیں  ابوماجدکوکوئی نہیں  جانتا۔[7]

هَذَا حَدِیثٌ ضَعِیفٌ، یَحْیَى بْنُ عَبْدِ اللهِ الْجَابِرُ ضَعِیفٌ، وَأَبُو مَاجِدٍ، وَقِیلَ أَبُو مَاجِدٍ مَجْهُولٌ

امام بیہقی رحمہ اللہ فرماتے ہیں  یہ حدیث ضعیف ہے،یحییٰ بن عبداللہ الجابراورابوماجدضعیف راوی ہیں  اورکہاجاتاہے کہ ابوماجدمجہول ہے ۔[8]

هَذَا حَدِیثٌ غَرِیبٌ لاَ یُعْرَفُ مِنْ حَدِیثِ عَبْدِ اللهِ بْنِ مَسْعُودٍ إِلاَّ مِنْ هَذَا الوَجْهِ

امام ترمذی رحمہ اللہ فرماتے ہیں  یہ حدیث غریب ہے ،عبداللہ بن مسعودکے سواکسی نے روایت نہیں  کیا۔[9]

وَأَبُو مَاجِدٍ مَجْهُولٌ

امام بغوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں  اس روایت میں  ابوماجدمجہول راوی ہے۔[10]

إسناده ضعیف

حسین سلیم اسدفرماتے ہیں  اس روایت کی اسنادضعیف ہیں  ۔[11]

وقد ضعفه جماعة بأبی ماجد المذكور فی إسناده قیل إنه مجهول وقیل منكر الحدیث, والراوی عنه یحیى الجابری وهو ضعیف

محمدصدیق خاں  رحمہ اللہ فرماتے ہیں  ایک بڑی جماعت نے اس روایت کی اسنادمیں  ابوماجدکوضعیف کہاہے اورکہاہے کہ وہ مجہول ہے، اورکہاہے کہ وہ منکرالحدیث تھا،اوراس کی سندمیں  یحییٰ الجابری ہے جو ضعیف ہے۔[12]

مشروعیة الإسراع لیس المراد بها الإفراط فی المشی الخارج عن حد الاعتدال

جمہورفرماتے ہیں  جنازہ جلدی لے جانامستحب ہےجلدی سے مراد اعتدال ہے۔[13]

الْإِسْرَاعِ مَا لَا یَخْرُجُ عَنِ الْوَقَارِ

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ اسی کوترجیح دیتے ہوئے فرماتے ہیں  ۔[14]

وَاتَّفَقَ الْعُلَمَاءُ عَلَى اسْتِحْبَابِ الْإِسْرَاعِ بِالْجِنَازَةِ إلَّا أَنْ یُخَافَ مِنْ الْإِسْرَاعِ انْفِجَارُ الْمَیِّتِ

امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں  علماء کااتفاق ہے کہ جنازہ جلدی لے جانامستحب ہے الاکہ میت کوکسی نقصان کااندیشہ ہو۔[15]

یَجِبُ الْإِسْرَاعُ بِالْجِنَازَةِ

امام ابن حزم رحمہ اللہ فرماتے ہیں  جنازہ جلدی لے جاناواجب ہے۔[16]

ظاهر الامر الوجوب

شیخ البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں  وجوب ہی راجح ہے۔[17]

جنازے کے ساتھ چلنااوراسے کندھادیناسنت ہے:

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:حَقُّ الْمُسْلِمِ عَلَى الْمُسْلِمِ سِتٌّ قِیلَ: مَا هُنَّ یَا رَسُولَ اللهِ؟، قَالَ:إِذَا لَقِیتَهُ فَسَلِّمْ عَلَیْهِ، وَإِذَا دَعَاكَ فَأَجِبْهُ، وَإِذَا اسْتَنْصَحَكَ فَانْصَحْ لَهُ، وَإِذَا عَطَسَ فَحَمِدَ اللهَ فَسَمِّتْهُ، وَإِذَا مَرِضَ فَعُدْهُ وَإِذَا مَاتَ فَاتَّبِعْهُ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاایک مسلمان کے دوسرے مسلمان پرچھ حق ہیں  ،لوگوں  نے عرض کیااے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !وہ کیا ہیں  ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجب اسے ملے توسلام کرے،جب اس کی دعوت کرے توقبول کرے،جب مشورہ چاہے تواچھی صلاح دے، جب چھینکے اورالحمدللہ کہے تو (یرحمک اللہ کہہ کر)جواب دے، جب وہ بیمارہوتواس کی بیمارپرسی کرے،جب وہ وفات پاجائے تواس کے جنازے میں  شرکت کرے۔[18]

عن أبی سعید رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:عُودُوا المَریضَ واتَّبِعُوا الجَنَائِز تُذكِركُم الآخِرة

ابوسعیدخدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایابیمارکی عیادت کرواورجنازوں  میں  شرکت کرووہ تمہیں  آخرت یاددلائیں  گے۔[19]

دَلِیلٌ عَلَى وُجُوبِ تَشْیِیعِ جِنَازَةِ الْمُسْلِمِ مَعْرُوفًا كَانَ أَوْ غَیْرَ مَعْرُوفٍ

امیرصنعانی رحمہ اللہ پہلی حدیث کے متعلق فرماتے ہیں  یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ مسلمان معروف ہویاغیرمعروف کے جنازے میں  شرکت کرناواجب ہے۔[20]

ویجب حمل اجنازة واتباعها، وذلك من حق المیت المسلم على المسلمین

شیخ البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں  جنازے کواٹھانااوراسےکندھادینااوراس کے پیچھے چلناواجب ہے،یہ مسلمان میت کادوسرے مسلمان پرحق ہے۔[21]

قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْعُودٍ:مَنِ اتَّبَعَ جِنَازَةً فَلْیَحْمِلْ بِجَوَانِبِ السَّرِیرِ كُلِّهَا؛ فَإِنَّهُ مِنَ السُّنَّةِ، ثُمَّ إِنْ شَاءَ فَلْیَتَطَوَّعْ، وَإِنْ شَاءَ فَلْیَدَعْ

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما سے مروی ہےجو کوئی جنازے کے ساتھ چلے تو چارپائی کی چاروں  جانب سے (باری باری) کندھادے کیونکہ یہ سنت ہے،اس کے بعد اگر چاہے تو نفل کے طور پر اٹھا لے اورچاہے تو چھوڑ دے[22]

حكم الألبانی:ضعیف

شیخ البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں  ضعیف روایت ہے [23]

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ، أَنَّهُ قَالَ:مَنْ حَمَلَ الْجِنَازَةَ بِجَوَانِبِهَا الْأَرْبَعِ فَقَضَى الَّذِی عَلَیْهِ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے جس شخص نے جنازے کے چاروں  اطراف کوکندھادیااس نے فرض ادا کردیا ۔[24]

أَبَا الْمُهَزِّمِ قَالَ: صَحِبْتُ أَبَا هُرَیْرَةَ عَشْرَ سِنِینَ سَمِعْتُهُ یَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَقُولُ: مَنْ تَبِعَ جَنَازَةً، وَحَمَلَهَا ثَلاَثَ مَرَّاتٍ، فَقَدْ قَضَى مَا عَلَیْهِ مِنْ حَقِّهَا

ابوالمہزم سے مروی ہےمیں  دس برس تک ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے سا تھ رہامیں  نے ان سے سنافرماتے تھے کہ میں  نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوفرماتے ہوئے سناجوجنازے کے پیچھے چلا اور اس کوتین باراٹھایایعنی تین بارکندھادیاتومیت کاحق پوراکرچکاجواس پرتھا ۔[25]

 هَذَا حَدِیثٌ غَرِیبٌ . وَرَوَاهُ بَعْضُهُمْ بِهَذَا الإِسْنَادِ، وَلَمْ یَرْفَعْهُ.وَأَبُو الْمُهَزِّمِ: اسْمُهُ یَزِیدُ بْنُ سُفْیَانَ وَضَعَّفَهُ شُعْبَةُ

امام ترمذی رحمہ اللہ فرماتے ہیں  یہ حدیث غریب ہے،اوربعضوں  نے اسی اسنادسے روایت کی ہے اورمرفوع نہیں  کی، اورابوالمہزم کانام یزیدبن سفیان ہے، اوران کوشعبہ نے ضعیف کہاہے۔[26]

اس مسئلے میں  فقہاء نے اختلاف کیاہے کہ چارپائی کی تمام جوانب کوکندھادیناچاہیے یاکہ کسی ایک جانب کوکندھادیناہی کافی ہے،

وَالْحَدِیثُ یَدُلُّ عَلَى مَشْرُوعِیَّةِ الْحَمْلِ لِلْمَیِّتِ، وَأَنَّ السُّنَّةَ أَنْ یَكُونَ بِجَمِیعِ جَوَانِبِ السَّرِیرِ

امام شوکانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں  حدیث میت کو چاروں  جانب کندھا دینے کی مشرعیت پر دلیل ہے اور یہی سنت ہے ۔[27]

جنازے کے آگے اورپیچھے چلنے میں  کوئی حرج نہیں  :

عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِیَ اللهُ عَنْهُمَا أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى الله عَلَیْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ , وَأَبَا بَكْرٍ وَعُمَرَ رَضِیَ اللهُ عَنْهُمَا , كَانُوا یَمْشُونَ أَمَامَ الْجِنَازَةِ وَخَلْفَهَا

انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ،سیدناابوبکر رضی اللہ عنہ اورسیدناعمر رضی اللہ عنہ (بعض اوقات)جنازے کے آگے اور(بعض اوقات)پیچھے چلاکرتے تھے۔[28]

عَنِ الْمُغِیرَةِ بْنِ شُعْبَةَ، قَالَ:وَالْمَاشِی یَمْشِی خَلْفَهَا، وَأَمَامَهَا، وَعَنْ یَمِینِهَا، وَعَنْ یَسَارِهَا قَرِیبًا مِنْهَا

مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاپیدل چلنے والاجنازے سے پیچھے،اس کے آگے،اس کے دائیں  اوراس کے بائیں  ، اس کے قریب ہوکرچل سکتا ہے ۔[29]

عَنْ سَالِمٍ، عَنْ أَبِیهِ، قَالَ:رَأَیْتُ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَأَبَا بَكْرٍ وَعُمَرَ یَمْشُونَ أَمَامَ الْجَنَازَةِ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے میں  نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ،سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو دیکھاکہ وہ جنازے کے آگے چل رہے ہیں  ۔[30]

اس مسئلے میں  اختلاف ہے کہ جنازے سے پیچھے چلناافضل ہے یاآگے۔

إنَّ الْمَشْیَ أَمَامَ الْجِنَازَةِ أَفْضُلُ ،وَجَمَاعَةٌ مِنْ الصَّحَابَةِ مِنْهُمْ أَبُو بَكْرٍ وَعُمَرُ وَعُثْمَانُ وَابْنُ عُمَرَ وَأَبُو هُرَیْرَةِ

جمہور،امام احمد رحمہ اللہ امام مالک رحمہ اللہ اورامام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں  جنازے کے سامنے چلناافضل ہے،اورصحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی جماعت میں  سےسیدناابوبکر رضی اللہ عنہ ،سیدناعمر رضی اللہ عنہ اورسیدناعثمان رضی اللہ عنہ ،عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ اورابوہریرہ رضی اللہ عنہ اسی کے قائل ہیں  ۔

إنَّ الْمَشْیَ خَلْفَهَا أَفْضَلُ

امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں  جنازے کے پیچھے چلناافضل ہے۔[31]

عَنِ ابْنِ أَبْزَى، قَالَ: كُنْتُ فِی جِنَازَةٍ وَأَبُو بَكْرٍ وَعُمَرُ أَمَامَهَا وَعَلِیٌّ یَمْشِی خَلْفَهَا قَالَ: فَجِئْتُ إِلَى عَلِیٍّ فَقُلْتُ لَهُ: الْمَشْیُ خَلْفَهَا أَفْضَلُ أَوِ الْمَشْیُ أَمَامَهَا

ابن ابزی سے روایت ہے ایک جنازے میں  سیدناابوبکر رضی اللہ عنہ اورسیدناعمر رضی اللہ عنہ آگے آگے چل رہے تھے اورسیدناعلی رضی اللہ عنہ پیچھے چل رہے تھے،میں  نے سیدناعلی رضی اللہ عنہ سے دریافت کیاکہ جنازے کے آگے چلناافضل ہے یاپیچھے ،سیدناعلی رضی اللہ عنہ نےفرمایاجنازے کے پیچھے چلناآگے چلنے سےافضل ہے۔[32]

وَأَنْ یَكُونَ الْمَاشِی حَیْثُ شَاءَ، عَنْ یَمِینِهَا أَوْ شِمَالِهَا أَوْ أَمَامِهَا أَوْ خَلْفِهَا، وَأَحَبُّ ذَلِكَ إلَیْنَا خَلْفُهَا

امام ابن حزم رحمہ اللہ فرماتے ہیں  پیدل چلنے والاجہاں  چاہے چلے ،چاہے دائیں  چلے یابائیں  ،آگے چلے یاپیچھےلیکن ہمارے نزدیک پسندیدہ پیچھے چلناہی ہے۔[33]

فإذا لم یكن المشی أمام الجنازة أفضل فأقل الأحوال أن یكون مساویا للمشی خلفها فی الفضیلة

صدیق حسن خان رحمہ اللہ فرماتے ہیں  جنازہ میں  آگے چلنااور پیچھے چلناافضلیت میں  برابرہے۔[34]

شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ اسی کے قائل ہیں  ۔[35]

الرَّاكِبُ یَمْشِی خَلْفَهَا وَالْمَاشِی أَمَامَهَا

امام شوکانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں  سوارجنازے کے پیچھے اورپیدل چلنے والاآگے چلے۔[36]

لكن الأَفْضَلُ الْمَشْیَ خَلْفَهَا، لانه مقتضى قوله صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: وَاتَّبِعُوا الْجَنَائِزَ

شیخ البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں  لیکن پیچھے چلناافضل ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجنازوں  کے پیچھے چلو۔[37]

(جنازے کے ساتھ)سوارہوکرجانامکروہ ہے:

عَنْ ثَوْبَانَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، أُتِیَ بِدَابَّةٍ وَهُوَ مَعَ الْجَنَازَةِ فَأَبَى أَنْ یَرْكَبَهَا، فَلَمَّا انْصَرَفَ أُتِیَ بِدَابَّةٍ فَرَكِبَ، فَقِیلَ لَهُ، فَقَالَ:إِنَّ الْمَلَائِكَةَ كَانَتْ تَمْشِی، فَلَمْ أَكُنْ لِأَرْكَبَ وَهُمْ یَمْشُونَ، فَلَمَّا ذَهَبُوا رَكِبْتُ

ثوبان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک جانورلایاگیاجبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جنازے کے ساتھ تھے، توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پرسوارہونے سے انکارکردیا،لیکن جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم جنازے سے واپس ہوئے اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک جانورلایاگیاتوآپ صلی اللہ علیہ وسلم سوارہوگئے،جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے متعلق دریافت کیاگیاتوآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایابے شک فرشتے(جنازے کے ساتھ ) چل رہے تھے تومیں  ایسانہ کرسکاکہ سوارہوجاتااوروہ چل رہے ہوتے، لیکن جب وہ چلے گئے تومیں  سوارہوگیا۔[38]

جَابِرَ بْنَ سَمُرَةَ، قَالَ:صَلَّى النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عَلَى ابْنِ الدَّحْدَاحِ وَنَحْنُ شُهُودٌ، ثُمَّ أُتِیَ بِفَرَسٍ فَعُقِلَ حَتَّى رَكِبَهُ، فَجَعَلَ یَتَوَقَّصُ بِهِ وَنَحْنُ نَسْعَى حَوْلَهُ

جابربن سمرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ابن دحداح رضی اللہ عنہ کا جنازہ پڑھایااورہم اس میں  موجودتھے، پھر(واپسی پر)ایک گھوڑالاکرباندھ دیاگیاحتی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس پرسوارہوگئے،وہ آپ کے ساتھ درمیانی رفتارسے تیزتیزچلنے لگا،اورہم بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اردگردبھی تیزتیزچلنے لگے۔[39]

عَنْ ثَوْبَانَ مَوْلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: رَأَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ نَاسًا رُكْبَانًا عَلَى دَوَابِّهِمْ فِی جِنَازَةٍ، فَقَالَ:أَلَا تَسْتَحْیُونَ أَنَّ مَلَائِكَةَ اللَّهِ یَمْشُونَ عَلَى أَقْدَامِهِمْ، وَأَنْتُمْ رُكْبَانٌ؟

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آزادکردہ غلام ثوبان رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جنازے میں  کچھ لوگوں  کوسواردیکھا،توفرمایاکیاتمہیں  اس بات سے حیانہیں  آتی کہ اللہ کے فرشتے تواپنے قدموں  پرچل رہے ہوں  اورتم سوارہو؟۔[40]

حكم الألبانی:ضعیف

شیخ البانی رحمہ اللہ فرماتے ہی ضعیف روایت ہے۔[41]

یادرہے کہ کراہت کے ساتھ جوازبہرحال موجودہے جیساکہ پیچھے روایت میں  گزراہےالرَّاكِبُ یَسِیرُ خَلْفَ الْجَنَازَةِ سوارجنازے کے پیچھے چلے۔[42]

ویجوز الركوب بشرط أن یسیر وراء ها لقوله صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: الرَّاكِبُ یَسِیرُ خَلْفَ الْجَنَازَةِ

شیخ البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں  سوارہوناجائزہے بشرطیکہ جنازے کے پیچھے چلے جیساکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاسوارجنازے کے پیچھے چلے۔[43]

موت کااعلان کرنااورنوحہ کراناحرام ہے:

نَعَاهُ لَهُ نَعْیًا أَوْ نُعْیَانًا أَخْبَرَهُ بِمَوْتِهِ

نعی سے مرادموت کی اطلاع دینایااعلان کرناہے۔[44]

عَنْ حُذَیْفَةَ قَالَ:نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عَنِ النَّعْیِ

حذیفہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نعی سے منع فرمایاہے۔[45]

عَنْ حُذَیْفَةَ بْنِ الیَمَانِ قَالَ: إِذَا مِتُّ فَلاَ تُؤْذِنُوا بِی، إِنِّی أَخَافُ أَنْ یَكُونَ نَعْیًا، فَإِنِّی سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَنْهَى عَنِ النَّعْیِ

حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ سے مروی ہےجب میں  مرجاؤں  تو کسی کو خبر نہ کرنا کیونکہ مجھے ڈر ہے کہ یہ نعی ہے، میں  نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہےآپ نے موت کی خبر کو مشہور کرنے سے منع فرمایا ہے۔[46]

 عَنْ عَبْدِ اللهِ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: إِیَّاكُمْ وَالنَّعْیَ، فَإِنَّ النَّعْیَ مِنْ عَمَلِ الجَاهِلِیَّةِ.قَالَ عَبْدُ اللهِ: وَالنَّعْیُ: أَذَانٌ بِالمَیِّتِ.

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما سے مروی ہےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاتم نعی سے بچواس لیے کہ’’ نعی ‘‘کفرکےکاموں  میں  سے ہے، اورعبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما نے فرمایا’’نعی‘‘ یہ ہے کہ میت کی موت کااعلان کیاجائے کہ فلاں  شخص مرگیا۔[47]

وَإِنَّمَا نُهِیَ عَمَّا كَانَ أَهْلُ الْجَاهِلِیَّةِ یَصْنَعُونَهُ فَكَانُوا یُرْسِلُونَ مَنْ یُعْلِنُ بِخَبَرِ مَوْتِ الْمَیِّتِ على أَبْوَاب الدّور والأسواق

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں  جس نعی سے شریعت نے منع کیاہے وہ اہل جاہلیت کاطریقہ ہے ،جس کی صورت یہ تھی کہ لوگ موت کی اطلاع دینے والوں  کوبھیجتے جوگھروں  کے دروازوں  اوربازاروں  میں  اعلان کرتے(اس میں  نوحہ ہوتااوراس کے ساتھ میت کے افعال حمیدہ کابیان ہوتا)۔[48]

وَقَدْ كَرِهَ بَعْضُ أَهْلِ العِلْمِ النَّعْیَ، وَالنَّعْیُ عِنْدَهُمْ: أَنْ یُنَادَى فِی النَّاسِ أَنَّ فُلاَنًا مَاتَ لِیَشْهَدُوا جَنَازَتَهُ، وقَالَ بَعْضُ أَهْلِ العِلْمِ: لاَ بَأْسَ أَنْ یُعْلِمَ أَهْلَ قَرَابَتِهِ وَإِخْوَانَهُ وَرُوِیَ عَنْ إِبْرَاهِیمَ أَنَّهُ قَالَ: لاَ بَأْسَ بِأَنْ یُعْلِمَ الرَّجُلُ قَرَابَتَهُ.

بعض اہل علم نے’’ نعی ‘‘سے کراہت کی ہے ان کے مطابق نعی یہ ہے کہ لوگوں  میں  یہ اعلان کیاجائے کہ فلاں  شخص فوت ہوگیاہے اس کے جنازے میں  شرکت کریں  ،اوربعض اہل علم کہتے ہیں  کہ اس میں  کچھ مضائقہ نہیں  کہ اگرکوئی اپنے بھائیوں  اورقرابت داروں  کواطلاع دے، اورابراہیم سے مروی ہے کہ انہوں  نے کہااس میں  کچھ مضائقہ نہیں  کہ آدمی اپنے قرابت داروں  کوخبرکرے۔[49]

محض کسی کی وفات کی اطلاع دینامباح ودرست ہے ،اوراس کے دلائل حسب ذیل ہیں  ۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نجاشی کی وفات کی اطلاع دی۔

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ:أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ نَعَى النَّجَاشِیَّ فِی الیَوْمِ الَّذِی مَاتَ فِیهِ، وَخَرَجَ بِهِمْ إِلَى المُصَلَّى، فَصَفَّ بِهِمْ، وَكَبَّرَ عَلَیْهِ أَرْبَعَ تَكْبِیرَاتٍ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے جس دن نجاشی کاانتقال ہوااسی دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی وفات کی خبردی،اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ساتھ عیدگاہ گئے،پھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صف بندی کرائی، اورچارتکبیریں  کہیں  ۔[50]

مسجدمیں  جھاڑودینے والی خاتون کے بارے میں  نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاتم نے مجھے اطلاع کیوں  نہ دی۔

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ: أَنَّ أَسْوَدَ رَجُلًا أَوِ امْرَأَةً كَانَ یَكُونُ فِی المَسْجِدِ یَقُمُّ المَسْجِدَ، فَمَاتَ وَلَمْ یَعْلَمُ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بِمَوْتِهِ، فَذَكَرَهُ ذَاتَ یَوْمٍ فَقَالَ:مَا فَعَلَ ذَلِكَ الإِنْسَانُ؟ قَالُوا: مَاتَ یَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ : َٔفَلاَ آذَنْتُمُونِی؟فَقَالُوا: إِنَّهُ كَانَ كَذَا وَكَذَا قِصَّتُهُ قَالَ: فَحَقَرُوا شَأْنَهُ، قَالَ:فَدُلُّونِی عَلَى قَبْرِهِ فَأَتَى قَبْرَهُ فَصَلَّى عَلَیْهِ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےایک سیاہ مرد یا عورت مسجد میں  جھاڑو دیتی تھی وہ مر گیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر نہ ہوئی، اس کو ایک دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یاد کیا اور فرمایا کہ وہ آدمی کہاں  گیا ؟لوگوں  نے کہا اے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم ! وہ تو مر گیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے اطلاع کیوں  نہیں  دی؟لوگوں  نے کہا کہ اس کا فلاں  فلاں  واقعہ ہے، گویا اس کے مرتبہ کو لوگوں  نے حقیر سمجھا ، آپ نے فرمایا اسکی قبر مجھے بتلاؤ چنانچہ آپ اس کی قبر پر آئے اور اس پر نماز پڑھی۔[51]

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگ موتہ میں  شہیدہونے والے تین افرادکی اطلاع دی۔

عَنْ أَنَسٍ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ نَعَى زَیْدًا، وَجَعْفَرًا، وَابْنَ رَوَاحَةَ لِلنَّاسِ قَبْلَ أَنْ یَأْتِیَهُمْ خَبَرُهُمْ، فَقَالَ: أَخَذَ الرَّایَةَ زَیْدٌ فَأُصِیبَ، ثُمَّ أَخَذَ جَعْفَرٌ فَأُصِیبَ، ثُمَّ أَخَذَ ابْنُ رَوَاحَةَ فَأُصِیبَ وَعَیْنَاهُ تَذْرِفَانِ:حَتَّى أَخَذَ الرَّایَةَ سَیْفٌ مِنْ سُیُوفِ اللَّهِ، حَتَّى فَتَحَ اللَّهُ عَلَیْهِمْ

انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زید رضی اللہ عنہ ، جعفر رضی اللہ عنہ اور ابن رواحہ رضی اللہ عنہ کے مارے جانے کی خبر (اس سے پہلے کہ میدان جنگ سے ان کی شہادت کی خبر آئے) دے دی تھی،چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سلسلہ میں  فرمایا کہ زید نے جھنڈا ہاتھ میں  لیا اور شہید کیا گیا،پھر علم کو جعفر رضی اللہ عنہ نے سنبھالا اور وہ بھی شہید ہوا،پھر ابن رواحہ رضی اللہ عنہ نے جھنڈے کو لے لیا اور وہ بھی مارا گیا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ واقعہ بیان فرما رہے تھے اور آنکھوں  سے آنسو جاری تھے، پھر فرمایا اس کے بعد علم کو اس شخص نے لیا جو خدا تعالیٰ کی تلواروں  میں  سے ایک تلوار ہے (یعنی خالد رضی اللہ عنہ بن ولید نے)یہاں  تک کہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں  کو دشمنوں  پر فتح عنایت فرمائی۔[52]

قَالَ ابْنُ الْعَرَبِیِّ: یُؤْخَذُ مِنْ مَجْمُوعِ الْأَحَادِیثِ ثَلَاثُ حَالَاتٍ،إعْلَامُ الْأَهْلِ وَالْأَصْحَابِ وَأَهْلِ الصَّلَاحِ فَهَذِهِ سُنَّةٌ،دَعْوَى الْجَمْعِ الْكَثِیرِ لِلْمُفَاخَرَةِ فَهَذِهِ تُكْرَهُ.إعْلَامٌ بِنَوْعٍ آخَرَ كَالنِّیَاحَةِ وَنَحْوِ ذَلِكَ فَهَذَا یَحْرُمُ

ابن عربی رحمہ اللہ فرماتے ہیں  احادیث کے مجموعے سے تین حالتیں  اخذکی جاسکتی ہیں  ،گھروالوں  ،ساتھیوں  اوراہل اصلاح کواطلاع دیناسنت ہے،مفاخرت(تکبروریاء)کے لیے بڑی جماعت کودعوت دینامکروہ ہے،ایسی اطلاع جس میں  نوحہ یااس کی مثل کوئی کام ہوحرام ہے۔[53]

ویجوز إعلان الوفاة إذا لم یقترن به ما یشبه نعی الجاهلیة

شیخ البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں  جاہلیت کے طریقے کے مشابہ نہ ہوتووفات کی اطلاع دیناجائزہے۔[54]

وَفِی النِّهَایَةِ: وَالْمَشْهُورُ فِی الْعَرَبِ أَنَّهُمْ كَانُوا إذَا مَاتَ فِیهِمْ شَرِیفٌ أَوْ قُتِلَ بَعَثُوا رَاكِبًا إلَى الْقَبَائِلِ یَنْعَاهُ إلَیْهِمْ یَقُولُ نُعَاءُ فُلَانًا أَوْ یَا نُعَاءَ الْعَرَبِ هَلَكَ فُلَانٌ أَوْ هَلَكَتْ الْعَرَبُ بِمَوْتِ فُلَانٍ انْتَهَى.وَیَقْرَبُ عِنْدِی أَنَّ هَذَا هُوَ الْمَنْهِیُّ عَنْهُ

نہایہ میں  ہے کہ جب عرب میں  کوئی معروف شخصیت فوت ہوجاتی یا قتل کر دی جاتی، تو ایک سوار کو قبائل کی طرف روانہ کر دیا جاتا، جو وہاں  جاکر مرنے والے کے اوصاف وشمائل کوگن گن کربلندآوازسے بیان کرتا، اور روتاپیٹتاوراچھے اورعمدہ کارناموں  کویادکرکے چیخ وپکارکرکے اس کی موت کی خبر دیتاکہ فلاں  فوت ہوگیا یا مر گیا، اور امام صنعانی فرماتے ہیں  کہ یہ وہ محرم ہے جس کی بابت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں  منع فرمایا ہے۔[55]

عَنْ أُمِّ عَطِیَّةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ:أَخَذَ عَلَیْنَا النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عِنْدَ البَیْعَةِ أَنْ لاَ نَنُوحَ

ام عطیہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےبیعت کے موقع پرہم سے یہ عہدلیاتھاکہ ہم نوحہ نہیں  کریں  گی۔[56]

حَدَّثَنِی أَبُو بُرْدَةَ بْنُ أَبِی مُوسَى رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: وَجِعَ أَبُو مُوسَى وَجَعًا شَدِیدًا، فَغُشِیَ عَلَیْهِ وَرَأْسُهُ فِی حَجْرِ امْرَأَةٍ مِنْ أَهْلِهِ، فَلَمْ یَسْتَطِعْ أَنْ یَرُدَّ عَلَیْهَا شَیْئًا، فَلَمَّا أَفَاقَ، قَالَ: أَنَا بَرِیءٌ مِمَّنْ بَرِئَ مِنْهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:بَرِئَ مِنَ الصَّالِقَةِ وَالحَالِقَةِ وَالشَّاقَّةِ

ابوبردہ بن ابوموسی سے مروی ہے ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سخت بیمار ہو گئے اتنے سخت بیمار کہ غشی طاری ہوگئی اور آپ کا سر ایک عورت کی گود میں  تھا،ان کی گھروالوں  میں  سے ایک عورت یہ حالت دیکھ کر چلاپڑیں  ، ابوموسی رضی اللہ عنہ اس وقت کچھ کہنے پر قادر نہ تھے، جب کچھ افاقہ ہواتوفرمایامیں  اس سے بری ہوں  جس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بری ہیں  اوربے شک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مصیبت کے وقت اونچی آوازنکالنے والی،پریشانی کے وقت اپنے سرکے بال منڈوالے والی اورآفت کے وقت اپنے کپڑے پھاڑنے والی عورت سے بری ہوں  ۔[57]

قَالَ أَبُو مَالِكٍ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: إِنَّ فِی أُمَّتِی أَرْبَعًا مِنَ أَمْرِ الْجَاهِلِیَّةِ لَیْسُوا بِتَارِكِیهِنَّ: الْفَخْرُ بِالْأَحْسَابِ، وَالطَّعْنُ فِی الْأَنْسَابِ،وَالِاسْتِسْقَاءُ بِالنُّجُومِ، وَالنِّیَاحَةُ عَلَى الْمَیِّتِ، فَإِنَّ النَّائِحَةَ إِنْ لَمْ تَتُبْ قَبْلَ أَنْ تَمُوتَ فَإِنَّهَا تَقُومُ یَوْمَ الْقِیَامَةِ عَلَیْهَا سَرَابِیلُ مِنْ قَطِرَانٍ، ثُمَّ یُعَلُّ عَلَیْهَا دِرْعٌ مِنْ لَهَبِ النَّارِ

ابومالک اشعری رضی اللہ عنہ سے مروی ہےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا زمانہ جاہلیت کی چار چیزیں  ایسی ہیں  جنہیں  لوگ کبھی ترک نہیں  کریں  گے، اپنے حسب پر فخر کرنا دوسروں  کے حسب نسب میں  عاردلانا، بارش کو ستاروں  سے منسوب کرنا، میت پر نوحہ کرنا،اورفرمایانوحہ کرنے والی عورت اگر اپنے مرنے سے پہلے توبہ نہ کرے تو قیامت کے دن اسے اس حال میں  کھڑا کیا جائے گا کہ اس پر تارکول کی شلواریاخارش والی قمیض ہوگی (جو آگ کے بھڑکتے شعلوں  سے تیارہوگی۔[58]

میت پررونے کی جائزصورت:

میت پررونااس صورت میں  جائزہے کہ جب اس میں  نوحہ کی کوئی آمیزش نہ ہو۔

شیخ البانی رحمہ اللہ اسی کے قائل ہیں  [59]

جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: لَمَّا قُتِلَ أَبِی جَعَلْتُ أَكْشِفُ الثَّوْبَ عَنْ وَجْهِهِ أَبْكِی، وَیَنْهَوْنِی عَنْهُ، وَالنَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ لاَ یَنْهَانِی، فَجَعَلَتْ عَمَّتِی فَاطِمَةُ تَبْكِی، فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:تَبْكِینَ أَوْ لاَ تَبْكِینَ مَا زَالَتِ المَلاَئِكَةُ تُظِلُّهُ بِأَجْنِحَتِهَا حَتَّى رَفَعْتُمُوهُ

جابربن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےجب میرے والدشہیدکردیئے گئے تومیں  ان کے چہرے پرپڑاہواکپڑاکھولتااورروتاتھا، دوسرے لوگ تومجھے اس سے روکتے تھے لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کچھ نہیں  کہہ رہے تھے،آخرمیں  چچی فاطمہ رضی اللہ عنہا بھی رونے لگیں  ، تونبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاتم لوگ روؤیاچپ رہوجب تک تم لوگ میت کواٹھاتے نہیں  ملائکہ توبرابراس پراپنے پروں  کاسایہ کئے ہوئے ہیں  ۔[60]

حَدَّثَنِی أُسَامَةُ بْنُ زَیْدٍ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: أَرْسَلَتِ ابْنَةُ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ إِلَیْهِ إِنَّ ابْنًا لِی قُبِضَ، فَأْتِنَا، فَأَرْسَلَ یُقْرِئُ السَّلاَمَ، وَیَقُولُ:إِنَّ لِلَّهِ مَا أَخَذَ، وَلَهُ مَا أَعْطَى، وَكُلٌّ عِنْدَهُ بِأَجَلٍ مُسَمًّى، فَلْتَصْبِرْ، وَلْتَحْتَسِبْ، فَأَرْسَلَتْ إِلَیْهِ تُقْسِمُ عَلَیْهِ لَیَأْتِیَنَّهَا، فَقَامَ وَمَعَهُ سَعْدُ بْنُ عُبَادَةَ، وَمَعَاذُ بْنُ جَبَلٍ، وَأُبَیُّ بْنُ كَعْبٍ، وَزَیْدُ بْنُ ثَابِتٍ وَرِجَالٌ، فَرُفِعَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ الصَّبِیُّ وَنَفْسُهُ تَتَقَعْقَعُ قَالَ: حَسِبْتُهُ أَنَّهُ قَالَ كَأَنَّهَا شَنٌّ فَفَاضَتْ عَیْنَاهُ، فَقَالَ سَعْدٌ: یَا رَسُولَ اللَّهِ، مَا هَذَا؟ فَقَالَ: هَذِهِ رَحْمَةٌ جَعَلَهَا اللَّهُ فِی قُلُوبِ عِبَادِهِ، وَإِنَّمَا یَرْحَمُ اللَّهُ مِنْ عِبَادِهِ الرُّحَمَاءَ

اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک صاحبزادی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کہلا بھیجا کہ میرا ایک لڑکا وفات پا گیا ہے اس لئے آپ تشریف لائیں  ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا جواب کہلا بھیجا کہ سلام کہتے ہوئے فرماتے ہیں  کہ اللہ کی جو چیز تھی وہ لے لی اور اسی کی ہے وہ چیز جو اس نے دی اور ہر شخص کی ایک مدت مقرر ہے اس لئے صبر کر اور اسے بھی ثواب سمجھ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی نے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آدمی قسم دیتے ہوئے بھیجا کہ آپ ضرور تشریف لائیں  ،تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے اور آپ کے ساتھ سعد بن عبادہ، معاذ بن جبل، ابی بن کعب، زید بن ثابت اور کچھ لوگ تھے، وہ لڑکا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لایا گیا اور اس کی سانس اکھڑ رہی تھی، راوی کا بیان ہے کہ جب اپنی ایک بیٹی کے بچے کوموت وحیات کی کشمکش میں  دیکھاتو آپ کی دونوں  آنکھیں  بہنے لگیں  ،سعد رضی اللہ عنہ نے عرض کیا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !یہ کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا کہ یہ رحمت ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں  کے دلوں  میں  پیدا کی ہے، اور اللہ تعالیٰ رحم کرنے والے بندوں  پر ہی رحم کرتے ہیں  ۔[61]

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: اشْتَكَى سَعْدُ بْنُ عُبَادَةَ شَكْوَى لَهُ، فَأَتَاهُ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَعُودُهُ مَعَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ، وَسَعْدِ بْنِ أَبِی وَقَّاصٍ، وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُمْ، فَلَمَّا دَخَلَ عَلَیْهِ فَوَجَدَهُ فِی غَاشِیَةِ أَهْلِهِ، فَقَالَ:قَدْ قَضَى قَالُوا: لاَ یَا رَسُولَ اللَّهِ، فَبَكَى النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَلَمَّا رَأَى القَوْمُ بُكَاءَ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بَكَوْا، فَقَالَ:أَلاَ تَسْمَعُونَ إِنَّ اللَّهَ لاَ یُعَذِّبُ بِدَمْعِ العَیْنِ، وَلاَ بِحُزْنِ القَلْبِ، وَلَكِنْ یُعَذِّبُ بِهَذَا وَأَشَارَ إِلَى لِسَانِهِ أَوْ یَرْحَمُ، وَإِنَّ المَیِّتَ یُعَذَّبُ بِبُكَاءِ أَهْلِهِ عَلَیْهِ وَكَانَ عُمَرُ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ: یَضْرِبُ فِیهِ بِالعَصَا، وَیَرْمِی بِالحِجَارَةِ، وَیَحْثِی بِالتُّرَابِ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہےسعدبن عبادہ رضی اللہ عنہ کسی مرض میں  مبتلاہوئے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عیادت کے لیے عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ ، سعدبن ابی وقاص رضی اللہ عنہ اورعبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما کے ہمراہ ان کے یہاں  تشریف لے گئے، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم اندرداخل ہوئے توتیمارداروں  کے ہجوم میں  انہیں  پایا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایاکہ کیاوفات ہوگئی؟لوگوں  نے کہانہیں  اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم (ان کے مرض کی شدت کودیکھ کر)روپڑے،لوگوں  نے جورسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کوروتے ہوئے دیکھاتووہ سب بھی رونے لگے،پھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاسنو!اللہ تعالیٰ آنکھوں  سے آنسونکلنے پربھی عذاب نہیں  کرے گااورنہ دل کے غم پر،ہاں  اس کاعذاب اس کی وجہ سے ہوتاہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے زبان کی طرف اشارہ فرمایا(اگراس زبان سے اچھی بات نکلے تو)یہ اس کی رحمت کابھی باعث بنتی ہے، اورمیت کواس کے گھروالوں  کے نوحہ وماتم کی وجہ سے عذاب ہوتاہے،سیدناعمر رضی اللہ عنہ میت پرماتم کرنے پرڈنڈے سے مارتے،پتھرپھینکتے اوررونے والوں  کے منہ میں  مٹی جھونک دیتے۔[62]

عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: شَهِدْنَا بِنْتًا لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ جَالِسٌ عَلَى القَبْرِ، قَالَ: فَرَأَیْتُ عَیْنَیْهِ تَدْمَعَانِ، قَالَ: فَقَالَ:هَلْ مِنْكُمْ رَجُلٌ لَمْ یُقَارِفِ اللَّیْلَةَ؟ فَقَالَ أَبُو طَلْحَةَ: أَنَا، قَالَ: فَانْزِلْ قَالَ: فَنَزَلَ فِی قَبْرِهَا

انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک صاحبزادی کے جنازہ میں  حاضر ہوئے، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قبر پر بیٹھے تھے، میں  نے دیکھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دونوں  آنکھیں  بہہ رہی تھیں  ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم میں  سے کوئی شخص ایسا ہے جس نے رات کو اپنی بیوی سے ہم بستری نہ کی ہو،ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ میں  ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ قبر میں  اترو چنانچہ وہ ان کی قبر میں  اترے۔[63]

أَنَّ عَائِشَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهَا، زَوْجَ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَخْبَرَتْهُ، قَالَتْ: أَقْبَلَ أَبُو بَكْرٍ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ عَلَى فَرَسِهِ مِنْ مَسْكَنِهِ بِالسُّنْحِ حَتَّى نَزَلَ، فَدَخَلَ المَسْجِدَ، فَلَمْ یُكَلِّمِ النَّاسَ حَتَّى دَخَلَ عَلَى عَائِشَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهَا، فَتَیَمَّمَ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ مُسَجًّى بِبُرْدِ حِبَرَةٍ، فَكَشَفَ عَنْ وَجْهِهِ، ثُمَّ أَكَبَّ عَلَیْهِ، فَقَبَّلَهُ، ثُمَّ بَكَى، فَقَالَ:بِأَبِی أَنْتَ یَا نَبِیَّ اللَّهِ، لاَ یَجْمَعُ اللَّهُ عَلَیْكَ مَوْتَتَیْنِ، أَمَّا المَوْتَةُ الَّتِی كُتِبَتْ عَلَیْكَ فَقَدْ مُتَّهَا

ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے(جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہوگئے تو)سیدناابوبکر رضی اللہ عنہ اپنے گھوڑے پر مقام سخ سے آئے(تاکہ جلدی پہنچ سکیں  ) یہاں  تک کہ گھوڑے سے اترے، اور مسجد میں  داخل ہوئے کسی سے گفتگو نہ کی یہاں  تک کہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس پہنچے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا قصد کیا، آپ کو یمنی چادر اڑھائی گئی تھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے سے چادر اٹھائی پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر جھکے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے کو بوسہ دیا، پھر رونے لگے، اور فرمایا اے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ پر میرے ماں  باپ فدا ہوں  ، اللہ آپ پر دو موتوں  کو جمع نہیں  کرے گا، وہ موت آپ کے لئے مقدور تھی تو وہ آپ پر آچکی۔[64]

مومن موت سے پلیدنہیں  ہوجاتابلکہ پاک رہتاہے، لہذااسے بوسہ دینااورچھوناجائزہے، جبکہ بعض فقہاء میت کوپلیدکہتے ہیں  لیکن یہ درست نہیں  ،

وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُمَا:المُسْلِمُ لاَ یَنْجُسُ حَیًّا وَلاَ مَیِّتًا

ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہےانہوں  نے فرمایامومن زندہ ہویافوت شدہ،پلیدنہیں  ہوتا۔[65]

ہاں  کافرمرجائیں  توپلیدہیں  ۔

عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: لَمَّا مَاتَ سَعْدُ بْنُ مُعَاذٍ، بَكَى أَبُو بَكْرٍ، وَبَكَى عُمَرُ رَضِیَ اللهُ عَنْهُمَا،

ام المؤمنین عائشہ فرماتی ہیں  سعدبن معاذ رضی اللہ عنہ کی وفات پرسیدناابوبکر رضی اللہ عنہ اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں  ) روئے۔[66]

ان روایات سے ثابت ہوتاہے کہ میت پرروناجائزہے، تاہم بعض روایات میں  یہ ذکرہے کہ رونے کی وجہ سے میت کوعذاب دیاجاتاہے جیساکہ چندروایات حسب ذیل ہیں  ۔

عَنِ المُغِیرَةِ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: سَمِعْتُ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَقُولُ:إِنَّ كَذِبًا عَلَیَّ لَیْسَ كَكَذِبٍ عَلَى أَحَدٍ، مَنْ كَذَبَ عَلَیَّ مُتَعَمِّدًا، فَلْیَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنَ النَّارِسَمِعْتُ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَقُولُ:مَنْ نِیحَ عَلَیْهِ یُعَذَّبُ بِمَا نِیحَ عَلَیْهِ

مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے میں  نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سناآپ فرماتے تھے میرے متعلق کوئی جھوٹی بات کہناعام لوگوں  سے متعلق جھوٹ بولنے کی طرح نہیں  ہے، جوشخص بھی جان بوجھ کرمیرے اوپرجھوٹ بولے وہ اپناٹھکاناجہنم بنالے، اورمیں  نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بھی سناکہ کسی میت پراگرنوحہ وماتم کیاجائے تواس نوحہ کی وجہ سےاس پرعذاب ہوتاہے۔[67]

عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُبَیْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِی مُلَیْكَةَ، قَالَ: تُوُفِّیَتْ ابْنَةٌ لِعُثْمَانَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ بِمَكَّةَ، وَجِئْنَا لِنَشْهَدَهَا وَحَضَرَهَا ابْنُ عُمَرَ، وَابْنُ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُمْ، وَإِنِّی لَجَالِسٌ بَیْنَهُمَا أَوْ قَالَ: جَلَسْتُ إِلَى أَحَدِهِمَا، ثُمَّ جَاءَ الآخَرُ فَجَلَسَ إِلَى جَنْبِی فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُمَا لِعَمْرِو بْنِ عُثْمَانَ: أَلاَ تَنْهَى عَنِ البُكَاءِ فَإِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:إِنَّ المَیِّتَ لَیُعَذَّبُ بِبُكَاءِ أَهْلِهِ عَلَیْهِ

عبیداللہ بن ابی ملیکہ سے مروی ہے سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی ایک لڑکی مکہ میں  وفات پاگئی تو ہم لوگ جنازہ میں  شریک ہونے کے لئے پہنچے، عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ اور عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بھی حاضر ہوئے، میں  ان دونوں  کے درمیان بیٹھا ہوا تھا، یا یہ کہا کہ میں  ان میں  سے ایک کے پاس بیٹھا ہوا تھا، اور دوسرے آکر میرے پاس بیٹھ گئے، تو عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ سے کہا کہ رونے سے کیوں  نہیں  روکتے ہو، اس لئے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میت کو اس کے گھر والوں  کے رونے کے سبب عذاب ہوتا ہے۔[68]

فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُمَا:قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:إِنَّ المَیِّتَ یُعَذَّبُ بِبَعْضِ بُكَاءِ أَهْلِهِ عَلَیْهِ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سےایک روایت میں  یہ الفاظ ہیں  ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایامیت پراس کے گھروالوں  کے کچھ رونے سے عذاب ہوتاہے [69]

ان احادیث میں  یہ اشکال واعتراض ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا

۔۔۔وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِّزْرَ اُخْرٰی ۔۔۔ ۝۱۶۴ [70]

ترجمہ:کوئی کسی کے گناہ کابوجھ اٹھانے والانہیں  ۔

جبکہ ان احادیث سے ثابت ہوتاہے کہ کسی دوسرے کے رونے سے میت عذاب میں  مبتلاہوجاتی ہے۔

وَذَهَبَ جُمْهُورُ الْعُلَمَاءِ إلَى تَأْوِیلِ هَذِهِ الْأَحَادِیثِ لِمُخَالَفَتِهَا لِلْعُمُومَاتِ الْقُرْآنِیَّةِ وَإِثْبَاتِهَا لِتَعْذِیبِ مَنْ لَا ذَنْبَ لَهُ وَاخْتَلَفُوا فِی التَّأْوِیلِ فَذَهَبَ جُمْهُورُهُمْ كَمَا قَالَ النَّوَوِیُّ إلَى تَأْوِیلِهَا بِمَنْ أَوْصَى بِأَنْ یُبْكَى عَلَیْهِ؛ لِأَنَّهُ بِسَبَبِهِ وَمَنْسُوبٌ إلَیْهِ

علمائے کرام نے اس اشکال کومختلف طریقوں  سے حل کیاہے مثلاًاگرمرنے والاخودنوحہ کرتاہواورگھروالوں  کواس سے نہ روکتاہو،بلکہ اسے برقراررکھتاہویااپنی میت پرنوحہ کرنے کی وصیت کرکے گیاہو،تب اسے عذاب ہوگاورنہ نہیں  ۔[71]

لیس المراد به مطلق البكاء، بل بكاء خاص وهو النیاحة

شیخ البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں  اس سے مرادیہ نہیں  ہے کہ مطلق رونے سے منع کیاگیاہے بلکہ نوحہ کرنے سے منع کیاگیاہے۔[72]

جنازے کے ساتھ آگ لے کرجانا،گریبان پھاڑنااورہلاکت وبربادی کی دعاکرناحرام ہے:

حَدَّثَهُ عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:لَا تُتْبَعُ الْجِنَازَةُ بِصَوْتٍ وَلَا نَارٍ، وَلَا یُمْشَى بَیْنَ یَدَیْهَا

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاآوازاورآگ کے ساتھ جنازے میں  شرکت نہ کی جائے، اورجنازے کے آگے نہ چلاجائے۔[73]

وفی سنده من لم یسم، لكنه یتقوى بشواهده المرفوعة، وبعض الاثار الموقوفة

شیخ البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں  اگرچہ اس کی سندمیں  کچھ ضعف ہے لیکن مرفوع اوربعض موقوف شواہدکی بناپرمضبوط ہوجاتی ہے۔[74]

عَنْ جَابِرٍ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:أَنَّهُ نَهَى أَنْ یَتْبَعَ الْمَیِّتَ صَوْتٌ أَوْ نَارٌ

جابربن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایاہے کہ آوازیاآگ میت کے پیچھے آئے۔[75]

حكم حسین سلیم أسد: إسناده ضعیف

حسین سلیم اسدفرماتے ہیں  اس حدیث کی سند کوضعیف قرار دیتے ہیں  ۔

أنه قال فی وصیته: فَإِذَا أَنَا مُتُّ فَلَا تَصْحَبْنِی نَائِحَةٌ، وَلَا نَارٌ

عمروبن عاص رضی اللہ عنہ نے اپنی وصیت میں  لکھاکہ جب مجھے موت آئے تونہ کوئی نوحہ کرنے والی میرے ساتھ ہواورنہ آگ۔[76]

عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ مِهْرَانَ، أَنَّ أَبَا هُرَیْرَةَ، قَالَ: حِینَ حَضَرَهُ الْمَوْتُ: لَا تَضْرِبُوا عَلَیَّ فُسْطَاطًا، وَلَا تَتْبَعُونِی بِمِجْمَرٍ، وَأَسْرِعُوا بِی، فَإِنِّی سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَقُولُ:إِذَا وُضِعَ الرَّجُلُ الصَّالِحُ عَلَى سَرِیرِهِ قَالَ: قَدِّمُونِی قَدِّمُونِی، وَإِذَا وُضِعَ الرَّجُلُ السُّوءُ عَلَى سَرِیرِهِ قَالَ: یَا وَیْلَهُ أَیْنَ تَذْهَبُونَ بِی؟

عبدالرحمٰن بن مہران سے مروی ہے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی وفات کا وقت قریب آیا تو فرمانے لگے مجھ پر کوئی خیمہ نہ لگانا، میرے ساتھ آگ نہ لے کر جانا اور مجھے جلدی لے جانا،کیونکہ میں  نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے جب کسی نیک آدمی کو چارپائی پر رکھا جاتا ہے تو وہ کہتا ہے مجھے جلدی آگے بھیجو مجھے جلدی آگے بھیجو اور اگر کسی گناہگار آدمی کوچارپائی پر رکھاجائے تو وہ کہتا ہے ہائے افسوس مجھے کہاں  لیے جاتے ہو؟ ۔[77]

رواه أحمد وغیره بسند صحیح

شیخ البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں  امام احمد رحمہ اللہ نے اسے صحیح سندکے ساتھ روایت کیاہے۔[78]

أَوْصَى أَبُو مُوسَى حِینَ حَضَرَهُ الْمَوْتُ، قَالَ: إِذَا انْطَلَقْتُمْ بِجِنَازَتِی فَأَسْرِعُوا بِهِ الْمَشْیَ، وَلَا تَتَّبِعُونِی بِمِجْمَرٍ

ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کی موت کاوقت قریب ہواتوانہوں  نے وصیت فرمائی کہ جب میراجنازہ اٹھاناتواس کے پیچھے چلنااورآگ ساتھ لے کرنہ چلنا۔[79]

لانه بدعة

شیخ البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں  میت کے پیچھے آگ لے کرجانا(جیساکہ یہ اہل جاہلیت کافعل تھا)بدعات میں  سے ہے۔[80]

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:لَیْسَ مِنَّا مَنْ لَطَمَ الخُدُودَ، وَشَقَّ الجُیُوبَ، وَدَعَا بِدَعْوَى الجَاهِلِیَّةِ

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما سے مروی ہےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجو(خواتین)چہروں  کوپیٹیں  ،گریبان چاک کریں  اورجاہلیت کی باتیں  بکیں  وہ ہم میں  سے نہیں  ۔[81]

جنازے کے ساتھ جانے والااس وقت تک نہ بیٹھے جب تک کہ جنازہ رکھ نہ دیاجائے:

عَنْ أَبِی سَعِیدٍ الخُدْرِیِّ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:إِذَا رَأَیْتُمُ الجَنَازَةَ، فَقُومُوا، فَمَنْ تَبِعَهَا فَلاَ یَقْعُدْ حَتَّى تُوضَعَ

ابوسعیدخدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجوجنازے میں  شرکت کرے وہ اس وقت تک نہ بیٹھے جب تک کہ جنازہ رکھ نہ دیاجائے۔[82]

عَنْ سَعِیدٍ، عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ، وَأَبِی سَعِیدٍ، قَالَا:مَا رَأَیْنَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ شَهِدَ جَنَازَةً قَطُّ فَجَلَسَ حَتَّى تُوضَعَ

ابوسعیدخدری رضی اللہ عنہ اورابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ہم نے کبھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کونہیں  دیکھاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کسی جنازے میں  شریک ہوں  اورجنازہ رکھے جانے سے پہلے بیٹھ گئے ہوں  ۔[83]

والقول الراجح عندی هو ما ذهب إلیه الجمهور من أنه یستحب أن لا یجلس التابع والمشیع للجنازة حتى توضع بالأرض. وأن النهی فی قوله: فلا یقعد، محمول على التنزیه. والله تعالى أعلم، ویدل على استحباب القیام إلى أن توضع ما رواه البیهقی من طریق أَبِی حَازِمٍ، قَالَ: مَشَیْتُ مَعَ أَبِی هُرَیْرَةَ، وَابْنِ عُمَرَ , وَابْنِ الزُّبَیْرِ، وَالْحَسَنِ بْنِ عَلِیٍّ أَمَامَ الْجِنَازَةِ حَتَّى انْتَهَیْنَا إِلَى الْمَقْبَرَةِ، فَقَامُوا حَتَّى وُضِعَتْ، ثُمَّ جَلَسُوا فَقُلْتُ لِبَعْضِهِمْ، فَقَالَ: إِنَّ الْقَائِمَ مِثْلُ الْحَامِلِ یعنی فی الأجر

اس بارے میں  بہت کچھ بحث وتمحیص کے بعدشیخ الحدیث مولاناعبیداللہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں  میرے نزدیک قول راجح وہی ہے جدھرجمہورگئے ہیں  ، اوروہ یہ کہ جنازہ کے ساتھ چلنے والوں  اوراس کے رخصت کرنے والوں  کے لیے مستحب ہے کہ وہ جب تک جنازہ زمین پرنہ رکھ دیاجائے نہ بیٹھیں  ، اورحدیث میں  نہ بیٹھنے کی نہی تنزیہی ہے،اوراس قیام کے استحباب پربیہقی کی وہ حدیث بھی دلالت کرتی ہے جسے انہوں  نے ابوحازم کی سندسے روایت کیاہے، فرماتے ہیں  ہم ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اورعبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ اورعبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ اورحسن بن علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ ایک جنازہ کے ہمراہ گئے ،پس یہ جملہ حضرات کھڑے ہی رہے جب تک وہ جنازہ زمین پرنہ رکھ دیاگیا،اس کے بعدوہ سب بھی بیٹھ گئے،میں  نے ان میں  سے بعض سے مسئلہ پوچھاتوانہوں  نے فرمایاکہ کھڑارہنے والابھی اسی کے مثل ہے جو خود جنازہ کواٹھارہاہے، یعنی ثواب میں  یہ دونوں  برابرہیں  ۔[84]

ان تمام احادیث کاحکم منسوخ ہوچکاہے جیساکہ مندرجہ ذیل روایات اس پرشاہدہیں  ۔

عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَقُومُ فِی الْجَنَازَةِ حَتَّى تُوضَعَ فِی اللَّحْدِ، فَمَرَّ بِهِ حَبْرٌ مِنَ الْیَهُودِ، فَقَالَ: هَكَذَا نَفْعَلُ، فَجَلَسَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، وَقَالَ:اجْلِسُوا خَالِفُوهُمْ

عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے مروی ہےجب تک جنازہ قبر میں  نہ رکھ دیا جاتا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تب تک کھڑے رہتے، ایک دن ایک یہودی عالم آپ کے پاس سے گزرا(اس نے آپ کو کھڑے دیکھ کر کہا ) ہم بھی ایسا ہی کرتے ہیں  ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی یہ بات سن کر بیٹھ گئے اور دوسرے لوگوں  سے بھی فرمایا تم بھی اس کی مخالفت کرو اور بیٹھ جاؤ۔[85]

اسماعیل بن مسعودبن الحكم الزرقی عن أبیه قال: شهدت جنازة بالعراق، فرأیت رجالا قیاما نیتظرون أن توضع، ورأیت علی ابن أبی طالب رضی الله عنه یشیر إلیهم أن اجلسوا، فإن النبی صلى الله علیه وسلم قد أمرنا بالجلوس بعد القیام.

اسماعیل بن مسعودبن حکم زرقی اپنے والدسے روایت کرتے ہیں  میں  عراق میں  ایک جنازے پرحاضرہواتومیں  نے کچھ آدمیوں  کوکھڑے ہوکرجنازہ رکھے جانے کامنتظردیکھا پھرمیں  نے سیدناعلی رضی اللہ عنہ کوان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے دیکھاکہ تم بیٹھ جاؤ،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں  کھڑے ہونے(کاحکم دینے)کے بعدبیٹھنے کاحکم فرمایاتھا۔[86]

عَنْ عَلِیِّ بْنِ أَبِی طَالِبٍ رَضِیَ اللهُ عَنْهُ، قَالَ: قَامَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى الله عَلَیهِ وَسَلَّمَ مَعَ الْجَنَائِزِ حَتَّى تُوضَعَ، وَقَامَ النَّاسُ مَعَهُ، ثُمَّ قَعَدَ بَعْدَ ذَلِكَ، وَأَمَرَهُمْ بِالْقُعُودِ

سیدناعلی رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جنازوں  کے ساتھ کھڑے رہتے جب تک کہ انہیں  رکھ نہ دیاجاتا،اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ لوگ بھی کھڑے رہتے، پھراس کے بعدآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیٹھنا شروع کردیا،اورلوگوں  کوبھی بیٹھنے کاحکم فرمایا۔[87]

جنازے کے لیے کھڑاہونامنسوخ ہے:

مرادیہ ہے کہ جنازہ گزرے تواسے دیکھ کراپنی جگہ پرکھڑے ہوجانا۔پہلے یہی حکم تھاجیساکہ دلائل حسب ذیل ہیں  ۔

عَنْ أَبِی سَعِیدٍ الخُدْرِیِّ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:إِذَا رَأَیْتُمُ الجَنَازَةَ، فَقُومُوا، فَمَنْ تَبِعَهَا فَلاَ یَقْعُدْ حَتَّى تُوضَعَ

ابوسعیدخدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجب تم جنازہ دیکھوتوکھڑے ہوجائے،اورجوشخص جنازہ کے ساتھ چل رہاہووہ اس وقت تک نہ بیٹھے جب تک جنازہ رکھ نہ دیاجائے۔[88]

عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: مَرَّ بِنَا جَنَازَةٌ، فَقَامَ لَهَا النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَقُمْنَا بِهِ، فَقُلْنَا: یَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّهَا جِنَازَةُ یَهُودِیٍّ، قَالَ:إِذَا رَأَیْتُمُ الجِنَازَةَ، فَقُومُوا

جابربن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ہمارے قریب سے ایک جنازہ گزراتونبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس کے لیے کھڑے ہوگئے لہذاہم بھی کھڑے ہوگئے، پھرہم نے کہااے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !یقیناًیہ ایک یہودی کاجنازہ ہے، توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجب تم کوئی جنازہ دیکھوتواس کے لیے کھڑے ہوجاؤ۔[89]

عَنْ عَامِرِ بْنِ رَبِیعَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:إِذَا رَأَیْتُمُ الْجَنَازَةَ، فَقُومُوا لَهَا، حَتَّى تُخَلِّفَكُمْ أَوْ تُوضَعَ

عامربن ربیعہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب تم جنازہ دیکھوتواس کے لیے اس وقت تک کھڑے رہوجب تک کہ وہ تمہیں  پیچھے نہ چھوڑجائے یارکھ نہ دیا جائے۔[90]

والْقِیَامَ لها مَنْسُوخٌ

شیخ البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں  یہ قیام بھی منسوخ ہوچکاہے [91]

إنَّ الْقِیَامَ مَنْسُوخٌ

امام مالک رحمہ اللہ ،امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ اورامام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں  قیام منسوخ ہوچکاہے [92]

نسخ کے دلائل حسب ذیل ہیں  ۔

عَلِیَّ بْنَ أَبِی طَالِبٍ بِرَحَبَةِ الْكُوفَةِ، وَهُوَ یَقُولُ:كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَمَرَنَا بِالْقِیَامِ فِی الْجِنَازَةِ، ثُمَّ جَلَسَ بَعْدَ ذَلِكَ وَأَمَرَنَا بِالْجُلُوسِ

سیدناعلی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں  جنازہ دیکھ کرکھڑے ہونے کاحکم فرمایاکرتے تھے مگربعدمیں  آپ بیٹھ جاتے تھے اورہمیں  بھی بیٹھنے کاکہتے تھے۔ ۔[93]

عَنْ أَبِی مِجْلَزٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، وَالْحَسَنِ بْنِ عَلِیٍّ، مَرَّتْ بِهِمَا جَنَازَةٌ فَقَامَ أَحَدُهُمَا، وَقَعَدَ الْآخَرُ، فَقَالَ الَّذِی قَامَ:أَمَا وَاللَّهِ، لَقَدْ عَلِمْتُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَدْ قَامَ، قَالَ لَهُ الَّذِی جَلَسَ:لَقَدْ عَلِمْتُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَدْ جَلَسَ

ابومجلزسے مروی ہےحسن رضی اللہ عنہ اورعبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے قریب سے ایک جنازہ گزراتوحسن رضی اللہ عنہ کھڑے ہوگئے، لیکن عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کھڑے نہ ہوئے، جب حسن رضی اللہ عنہ نے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے کہااللہ کی قسم !میں  یقیناًجانتاہوں  کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے تھے،عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے ان سے کہااللہ کی قسم !میں  بھی یقیناًجانتاہوں  کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھے بھی رہے۔[94]

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کی بات کامطلب یہ ہے کہ پھر ایسا ہی ہوا،کوئی جنازہ گزرامگرآپ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھے رہے کھڑے نہیں  ہوئے گویابیٹھے رہنے کاجوازبھی ہے۔

بعض علماء ان احادیث کوناسخ نہیں  بلکہ جوازکے لیے دلیل قراردیتے ہیں  یعنی کھڑاہوناہی بہترہے، لیکن ان احادیث کی وجہ سے اگرکوئی بیٹھ جائے تویہ بھی جائزہے۔

أَنَّ الْقِیَامَ لِلْجِنَازَةِ لَمْ یُنْسَخْ

امام احمد رحمہ اللہ ،امام اسحاق رحمہ اللہ فرماتے ہیں  جنازے کودیکھ کرکھڑے ہونے کاحکم منسوخ نہیں  ہوا۔[95]

امام ابن حزم رحمہ اللہ اورامام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں

یَدُلُّ عَلَى أَنَّ الْأَمْرَ لَلنَّدْبِ، وَلَا یَجُوزُ أَنْ یَكُونَ نَسْخًا. قَالَ النَّوَوِیُّ: وَالْمُخْتَارُ أَنَّهُ مُسْتَحَبٌّ وَبِهِ۔[96]

میت اٹھانے والے کے لیے وضومستحب ہے:

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:مَنْ غَسَّلَ الْمَیِّتَ فَلْیَغْتَسِلْ، وَمَنْ حَمَلَهُ فَلْیَتَوَضَّأْ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جومیت کوغسل دے اسے غسل کرناچاہیے اورجواسے اٹھائے اسے وضوکرناچاہیے۔[97]

وَقَدْ اخْتَلَفَ أَهْلُ العِلْمِ فِی الَّذِی یُغَسِّلُ الْمَیِّتَ، فَقَالَ بَعْضُ أَهْلِ العِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِیِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَغَیْرِهِمْ: إِذَا غَسَّلَ مَیِّتًا فَعَلَیْهِ الغُسْلُ.وقَالَ بَعْضُهُمْ: عَلَیْهِ الوُضُوءُ.

علماء کااس میں  اختلاف ہےجومیت کونہلائے،بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں  سے اہل علم فرماتے ہیں  جومیت کو نہلائے اس کوبھی غسل کرناچاہیے اوربعضوں  نے کہااسے وضو کرناچاہیے۔

وقَالَ مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ: أَسْتَحِبُّ الغُسْلَ مِنْ غُسْلِ الْمَیِّتِ، وَلاَ أَرَى ذَلِكَ وَاجِبًا، وَهَكَذَا قَالَ الشَّافِعِیُّ. وقَالَ أَحْمَدُ: مَنْ غَسَّلَ مَیِّتًا أَرْجُو أَنْ لاَ یَجِبَ عَلَیْهِ الغُسْلُ، وَأَمَّا الوُضُوءُ فَأَقَلُّ مَا قِیلَ فِیهِ وقَالَ إِسْحَاقُ: لاَ بُدَّ مِنَ الوُضُوءِ.

اورمالک بن انس رضی اللہ عنہ نے فرمایامیت کونہلانے کے بعدغسل مستحب ہے مگر واجب نہیں  ،اورامام احمد رضی اللہ عنہ اورامام شافعی رحمہ اللہ نے بھی یہی فرمایا جس نے میت کونہلایاامیدہے اس پرغسل واجب نہ ہولیکن وضومیں  کم روایتیں  آئی ہیں  ،اوراسحاق نے فرمایاوضوضرورہے۔

وَقَدْ رُوِیَ عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ الْمُبَارَكِ أَنَّهُ قَالَ: لاَ یَغْتَسِلُ وَلاَ یَتَوَضَّأُ مَنْ غَسَّلَ الْمَیِّتَ.

اورعبداللہ بن مبارک سے مروی ہے انہوں  نے فرمایامیت کے نہلانے کے بعدنہ غسل ہے نہ وضو۔[98]

جنازے کے ساتھ چلتے ہوئے اونچی آوازسے ذکرکرنابدعت ہے:

لانه بدعة

شیخ البانی سمیت متعددعلماء رحمہ اللہ فرماتے ہیں  یہ عمل بدعت ہے۔[99]

عَنْ قَیْسِ بْنِ عَبَّادٍ، قَالَ كَانَ أَصْحَابُ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَكْرَهُونَ رَفْعَ الصَّوْتِ عِنْدَ الْجَنَائِزِ وَعِنْدَ الْقِتَالِ وَعِنْدَ الذِّكْرِ

قیس بن عباد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم جنازوں  کے قریب اونچی آوازکوناپسندفرماتے تھےاورمیدان جنگ میں  اورذکرکے دوران۔[100]

واعلم أن الصوابَ المختارَ ما كان علیه السلفُ رضی الله عنهم: السكوتُ فی حال السیر مع الجنازة، فلا یُرفع صوتا بقراءة، ولا ذكر، ولا غیر ذلك

امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں  مناسب ،پسندیدہ اورجس عمل پرسلف ہیں  وہ جنازے کے ساتھ چلتے ہوئے خاموشی ہی ہے، لہذاقرات ،ذکریااس کے علاوہ کوئی آوازبھی بلندنہ کی جائے۔[101]

وكان رفع الصوت فی هذه المواطن الثلاثة من عادة أهل الكتاب والأعاجم، ثم قد ابتلى بها كثیر من هذه الأمة

شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں  جنازہ کے ساتھ باآوازبلندذکروغیرہ کرنا،یہ اہل کتاب اوراعاجم کی عادت تھی، لیکن اس امت کے بہت سارے لوگ بھی اس میں  مبتلاہوگئے ہیں  ۔[102]

ولان فیه تشبها بالنصارى فإنهم یرفعون أصواتهم بشئ من أنا جیلهم وأذكارهم مع التمطیط والتلحین والتحزین

شیخ البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں  جنازے میں  آواز بلند کرنانصاریٰ سے تشبیہ ہے، وہ اپنی آوازبلندکرتے ہیں  ۔۔۔۔۔۔[103]

میت کی تدفین:

میت کوایسے گھڑے میں  دفن کرناواجب ہے جواسے درندوں  سے بچاسکے۔

عَنْ هِشَامِ بْنِ عَامِرٍ، قَالَ: جَاءَتِ الْأَنْصَارُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَوْمَ أُحُدٍ، فَقَالُوا: أَصَابَنَا قَرْحٌ وَجَهْدٌ، فَكَیْفَ تَأْمُرُنَا، قَالَ:احْفِرُوا وَأَوْسِعُوا

ہشام بن عامر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے احدکے روزانصاری لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں  حاضرہوئے اورکہاہم زخمی ہیں  اورتھکے ہوئے بھی توآپ کیاارشادفرماتے ہیں  ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاقبریں  کھودواورکھلی کھلی بناؤ۔[104]

ولا خلاف فی ذلك, وهو ثابت فی الشریعة ثبوتا ضروریا

صدیق حسن خان رحمہ اللہ فرماتے ہیں  اس مسئلے میں  کوئی اختلاف نہیں  اوریہ شریعت میں  ضروری طورپرثابت ہے۔[105]

 ویجب إعماق القبر، وتوسیعه وتحسینه

شیخ البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں  قبرکوگہرا،وسیع اورعمدہ کھودناواجب ہے۔[106]

ایک قبرمیں  ایک سے زائدافرادکی تدفین:

عَنْ هِشَامِ بْنِ عَامِرٍ، قَالَ: جَاءَتِ الْأَنْصَارُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَوْمَ أُحُدٍ، فَقَالُوا: أَصَابَنَا قَرْحٌ وَجَهْدٌ، فَكَیْفَ تَأْمُرُنَا، قَالَ:احْفِرُوا وَأَوْسِعُوا، وَاجْعَلُوا الرَّجُلَیْنِ وَالثَّلَاثَةَ فِی الْقَبْرِ

ہشام بن عامر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے احدکے روزانصاری لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں  حاضرہوئے اورکہاہم زخمی ہیں  اورتھکے ہوئے بھی توآپ کیاارشادفرماتے ہیں  ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاقبریں  کھودواورکھلی کھلی بناؤ،اورایک قبرمیں  دویاتین آدمیوں  کورکھو۔[107]

ولا بأس من أن یدفن فیه اثنان أو أكثر عند الضرورة

شیخ البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں  حسب ضرورت ایک قبرمیں  ایک سے زیادہ افرادکودفن کیاجاسکتاہے۔[108]

سیدھی قبرمیں  کوئی حرج نہیں  لیکن لحد(بغلی قبرکھودنا)زیادہ بہترہے:

وَسُمِّیَ اللحْدَ لِأَنَّهُ فِی نَاحِیَةٍ، وَكُلُّ جَائِرٍ مُلْحِدٌ {مُلْتَحَدًا} مَعْدِلًا، وَلَوْ كَانَ مُسْتَقِیمًا كَانَ ضَرِیحًا

امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں  بغلی قبرکولحداس لیے کہتے ہیں  کہ یہ ایک کونے میں  ہوتی ہے اوراپنی جگہ سے ہٹی ہوئی ہرچیزکوملحدکہیں  گے اسی سے لفظ مُلْتَحَدًا ہے یعنی پناہ کاکونہ ، اوراگرقبرسیدھی ہوتواسے ضریع کہتے ہیں  ۔[109]

عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: لَمَّا تُوُفِّیَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ كَانَ بِالْمَدِینَةِ رَجُلٌ یَلْحَدُ، وَآخَرُ یَضْرَحُ، فَقَالُوا: نَسْتَخِیرُ رَبَّنَا، وَنَبْعَثُ إِلَیْهِمَا، فَأَیُّهُمَا سُبِقَ تَرَكْنَاهُ، فَأُرْسِلَ إِلَیْهِمَا، فَسَبَقَ صَاحِبُ اللَّحْدِ «فَلَحَدُوا لِلنَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ

انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہےجب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہوئے مدینہ میں  ایک آدمی بغلی قبربناتاتھااوردوسراسیدھی قبربناتاتھا،لوگوں  نے کہاکہ ہم استخارہ کرتے ہیں  اوران دونوں  کی طرف آدمی بھیج دیتے ہیں  ان میں  سے جوبھی پیچھے رہ گیاہم اسے چھوڑدیں  گے ، پھران دونوں  کی طرف پیغام بھیج دیاگیاتوبغلی قبربنانے والا(ابوطلحہ رضی اللہ عنہ )پہلے آن پہنچا،لہذاانہوں  نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے بغلی قبربنائی۔[110]

مدینہ منورہ میں  دونوں  طرح کی قبربنانے والے آدمی موجودتھے ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کاان دونوں  کوبرقراررکھنااس بات کاثبوت ہے کہ دونوں  طرح قبربنانا جائز ہے، لیکن مندرجہ ذیل دلائل کی بناپرمعلوم ہوتاہے کہ لحدزیادہ بہترہے۔

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:اللَّحْدُ لَنَا وَالشَّقُّ لِغَیْرِنَا

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے بغلی قبرہمارے لیے ہے اورسیدھی قبردوسروں  کے لیے ہے ۔[111]

قَالَ أَبُو عِیسَى: حَدِیثُ ابْنِ عَبَّاسٍ حَدِیثٌ حَسَنٌ غَرِیبٌ

ابوعیسیٰ فرماتے ہیں  عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی حدیث حسن غریب ہے۔[112]

الْحَدُوا لِی لَحْدًا، وَانْصِبُوا عَلَیَّ اللبِنَ نَصْبًا، كَمَا صُنِعَ بِرَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ

سعدبن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نےمرض میں  جس میں  ان کی وفات ہوئی کہا میرے لیے بغلی قبربنانا،اورمجھ پرکچی اینٹیں  چنناجیساکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کیاگیا۔[113]

إجْمَاعَ الْعُلَمَاءِ عَلَى جَوَازِ اللحْدِ وَالشَّقِّ

امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں  قبرچاہے بغلی بنائی جائے یاسیدھی علماء کااس بات پراتفاق ہے۔[114]

الْبَابِ تَدُلُّ عَلَى اسْتِحْبَابِ اللحْدِ وَأَنَّهُ أَوْلَى مِنْ الضَّرْحِ

امام شوکانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں  مذکورہ احادیث اس بات کاثبوت ہیں  کہ لحد،ضرح سے زیادہ بہترہے۔[115]

ویجوز فی القبر اللحد والشق لجریان العمل علیهما فی عهد النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، ولكن الأول أفضل

شیخ البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں  بغلی قبر اور سیدھی قبردونوں  نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہدمیں  تیارکی جاتی تھیں  لیکن لحدافضل ہے۔[116]

میت کوقبرکے پچھلے(یعنی نچلے)حصے سے داخل کیاجائے:

عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ، قَالَ: أَوْصَى الْحَارِثُ أَنْ یُصَلِّیَ عَلَیْهِ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ یَزِیدَ، فَصَلَّى عَلَیْهِ، ثُمَّ أَدْخَلَهُ الْقَبْرَ مِنْ قِبَلِ رِجْلَیِ الْقَبْرِ، وَقَالَ: هَذَا مِنَ السُّنَّةِ

ابواسحاق سے مروی ہےحارث نے وصیت کی کہ اس کی نمازجنازہ عبداللہ بن یزیدپڑھائیں  ،انہوں  نے اس کی نمازجنازہ پڑھائی پھر میت کوقبرکے پاؤں  کی جانب سے داخل کیا،اورفرمایایہ سنت طریقہ ہے۔[117]

عَنْ ابْنِ سِیرِینَ، أَنَّ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ، شَهِدَ جِنَازَةَ رَجُلٍ مِنَ الْأَنْصَارِ، قَالَ:فَأَظْهَرُوا الِاسْتِغْفَارَ فَلَمْ یُنْكِرْ ذَلِكَ أَنَسٌ، قَالَ هُشَیْمٌ: قَالَ خَالِدٌ، فِی حَدِیثِهِ وَأَدْخَلُوهُ مِنْ قِبَلِ رِجْلِ الْقَبْرِ

ابن سیرین رحمہ اللہ فرماتے ہیں  ایک مرتبہ انس رضی اللہ عنہ کسی انصاری کے جنازے میں  شریک ہوئے، لوگوں  نے وہاں  بلند آواز سے استغفار کرنا شروع کر دیا لیکن انس رضی اللہ عنہ نے اس پر کوئی نکیر نہیں  فرمائی، دوسرے راوی کے مطابق لوگوں  نے اسے قبر کی پائنتی کی جانب سے

داخل کیا۔[118]

عَنْ مُحَمَّدٍ، قَالَ:كُنْتُ مَعَ أَنَسٍ فِی جِنَازَةٍ فَأَمَرَ بِالْمَیِّتِ فَسُلَّ، مِنْ قِبَلِ رِجْلَ الْقَبْرِ

محمدسے مروی ہےانس رضی اللہ عنہ کسی انصاری کے جنازے میں  شریک ہوئے، ان کے حکم پر میت کو لوگوں  نے قبر کی پائنتی کی جانب سے داخل کیا۔[119]

عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ سَلَّ مِنْ قِبَلِ رَأْسِهِ سَلًّا

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کوآپ کے سرکی جانب(یعنی قبرکے پاؤں  کی جانب)سے داخل کیاگیا۔[120]

ویستحب ان یضع رأس المیت عند رجل القبر

امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں  میت کوقبرمیں  پاؤں  کی جانب سے داخل کرنامستحب ہے ۔[121]

 أَنَّهُ یُسْتَحَبُّ أَنَّ یَدْخُلَ الْمَیِّتُ مِنْ قِبَلِ رِجْلَیْ الْقَبْرِ

امام شافعی رحمہ اللہ اورامام احمد رحمہ اللہ فرماتے ہیں  یہ مستحب ہے کہ میت کوپائنتی کی جانب سے قبرمیں  داخل کیاجائے۔[122]

أَنَّهُ یَدْخُلُ الْقَبْرَ مِنْ جِهَةِ الْقِبْلَةِ مُعَرَّضًا

امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں  میت کوقبلہ کی جانب سے چوڑائی کے رخ قبرمیں  داخل کیاجائے گا۔[123]

وَاتِّبَاعُ السُّنَّةِ أَوْلَى مِنْ الرَّأْیِ

امام شوکانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں  سنت کی پیروی کرنارائے سے زیادہ بہترہے (یعنی قبرکے پاؤں  کی جانب سے میت کوداخل کرناچوڑائی کی طرف سے داخل کرنے سے بہتر ہے ) ۔[124]

اورمیت کودائیں  پہلوپرقبلہ رخ رکھاجائے:

هذا معلوم فی الشریعة الإسلامیة لا یحتاج إلی الاستدلال علیه

امام شوکانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں  شریعت اسلامیہ میں  یہ ایسامعروف فعل ہے کہ جودلیل کامحتاج نہیں  ۔[125]

هو مما لا أعلم فیه خلافا

صدیق حسن خان رحمہ اللہ فرماتے ہیں  اس میں  کوئی اختلاف نہیں  ۔[126]

یُجْعَلُ الْمَیِّتُ فِی قَبْرِهِ عَلَى جَنْبِهِ الْیَمِینِ، وَوَجْهُهُ قُبَالَةَ الْقِبْلَةِ

امام ابن حزم رحمہ اللہ فرماتے ہیں  میت کوقبرمیں  دائیں  پہلوپرقبلہ رخ رکھاجائے۔[127]

على هذا جرى عمل أهل الاسلام من عهد رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ إلى یومنا هذا وهكذا

شیخ البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں  عہدرسالت سے آج تک اہل اسلام اسی پرعمل پیراہیں  ۔[128]

ہرحاضرشخص پرتین لپ مٹی ڈالنامستحب ہے:

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ،صَلَّى عَلَى جِنَازَةٍ، ثُمَّ أَتَى قَبْرَ الْمَیِّتِ، فَحَثَى عَلَیْهِ مِنْ قِبَلِ رَأْسِهِ ثَلَاثًا

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک نمازجنازہ پڑھائی پھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم میت کی قبرکے پاس آئے، اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے سرکی جانب سے تین لپ مٹی ڈالی۔[129]

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَامِرِ بْنِ رَبِیعَةَ , عَنْ أَبِیهِ , قَالَ: رَأَیْتُ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ حِینَ دُفِنَ عُثْمَانُ بْنُ مَظْعُونٍ صَلَّى عَلَیْهِ وَكَبَّرَ عَلَیْهِ أَرْبَعًا , وَحَثَى عَلَى قَبْرِهِ بِیَدِهِ ثَلَاثَ حَثَیَاتٍ مِنَ التُّرَابِ وَهُوَ قَائِمٌ عِنْدَ رَأْسِهِ

عامربن ربیعہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ کی نمازجنازہ پڑھائی اوران پرچارتکبیریں  کہیں  پھرقبرپرتشریف لائے اوران کے سرکے پاس کھڑے ہوکران پرتین لپ مٹی ڈالی [130]

میت کوقبرمیں  داخل کرتے وقت یہ دعاپڑھی جائے:

عَنِ ابْنِ عُمَرَ، أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ كَانَ إِذَا أَدْخَلَ الْمَیِّتَ الْقَبْرَ، قَالَ:بِسْمِ اللَّهِ، وَبِاللَّهِ، وَعَلَى مِلَّةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجب تم اپنے مرنے والوں  کوقبرمیں  اتاروتوکہوبِسْمِ اللهِ، وَبِاللهِ، وَعَلَى مِلَّةِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ ایک روایت میں  یہ الفاظ ہیں  بِسْمِ اللهِ وَبِاللَّهِ وَعَلَى سُنَّةِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ.۔[131]

میت خواہ عورت ہواسے قبرمیں  صرف مردہی اتاریں  گے:

أنه المعهود فی عهد النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، وجرى علیه عمل المسلمین حتى الیوم ویأتی فیه، أَنَّ الرِّجَالَ أَقْوَى وَأَشَدُّ بَطْشًا،لو تولته النساء أفضى ذلك إلى انْكِشَافِ شئ من أبدانهن أمام الاجانب وهو غیر جائز

شیخ البابی رحمہ اللہ فرماتے ہیں  کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہدسے آج تک مسلمانوں  کااسی پرعمل ہے،مرداس عمل کے لیے زیادہ قوی اورحوصلہ مندہیں  ،اگرخواتین ایساکریں  توان کے جسموں  کاکوئی حصہ اجنبیوں  کے سامنے ظاہرہوسکتاہے جوکہ ناجائز ہے۔[132]

میت کے اولیااسے قبرمیں  اتارنے کے زیادہ مستحق ہیں  :

ارشادباری تعالیٰ ہے

 وَاُولُوا الْاَرْحَامِ بَعْضُهُمْ اَوْلٰى بِبَعْضٍ ۝۷۵ۧ [133]

ترجمہ:اوررشتے ناتے والے ان میں  سے بعض بعض کے زیادہ نزدیک ہیں  ۔

خاونداپنی بیوی کودفن کرسکتاہے:

عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: دَخَلَ عَلَیَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فِی الْیَوْمِ الَّذِی بُدِئَ فِیهِ، فَقُلْتُ:وَارَأْسَاهْ، فَقَالَ:وَدِدْتُ أَنَّ ذَلِكَ كَانَ وَأَنَا حَیٌّ، فَهَیَّأْتُكِ وَدَفَنْتُكِ قَالَتْ: فَقُلْتُ غَیْرَى: كَأَنِّی بِكَ فِی ذَلِكَ الْیَوْمِ عَرُوسًا بِبَعْضِ نِسَائِكَ. قَالَ:وَأَنَا وَارَأْسَاهْ، ادْعُوا لِی أَبَاكِ وَأَخَاكِ حَتَّى أَكْتُبَ لِأَبِی بَكْرٍ كِتَابًا، فَإِنِّی أَخَافُ أَنْ یَقُولَ قَائِلٌ، وَیَتَمَنَّى مُتَمَنٍّ: أَنَا أَوْلَى، وَیَأْبَى اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ وَالْمُؤْمِنُونَ إِلَّا أَبَا بَكْر

ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہےجس دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مرض الوفات کی ابتداء ہوئی، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم میرے یہاں  تشریف لائےمیرے سر میں  درد ہو رہا تھا اس لئے میں  نے کہا ہائے میرا سر، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مذاق میں  فرمایا میری خواہش ہے کہ جو ہونا ہے وہ زندگی میں  ہو جائے تو میں  اچھی طرح تمہیں  تیار کر کے دفن کر دوں  ، میں  نے کہا کہ آپ کا مقصد کچھ اور ہے؟ آپ اسی دن کسی اور عورت کے ساتھ دولہا بن کر شب باشی کریں  گے،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہائے میرا سر، اپنے والد اور بھائی کو میرے پاس بلاؤ تاکہ میں  سیدنا ابوبکر کے لئے ایک تحریر لکھ دوں  ،کیونکہ مجھے اندیشہ ہے کہ کوئی کہنے والا کہے گا اور کوئی تمنا کرنے والا تمنا کرے گا کہ خلافت کا زیادہ مستحق میں  ہوں  ،اور اللہ اور تمام مسلمان سیدنا ابوبکر کے علاوہ کسی کو نہیں  مانیں  گے۔[134]

غیرعورت کوقبرمیں  کیسامرداتارے؟:

عَنْ أَنَسٍ قَالَ: شَهِدْنَا ابْنَةً لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ جَالِسٌ عَلَى الْقَبْرِ، فَرَأَیْتُ عَیْنَیْهِ تَدْمَعَانِ، فَقَالَ:هَلْ فِیكُمْ رَجُلٌ لَمْ یُقَارِفِ اللَّیْلَةَ؟فَقَالَ أَبُو طَلْحَةَ: نَعَمْ، أَنَا. قَالَ:فَانْزِلْ. قَالَ: فَنَزَلَ فِی قَبْرِهَا

انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہےہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی کے جنازے میں  حاضرہوئے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قبرپربیٹھے ہوئے تھے،میں  نے دیکھاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھوں  سے آنسو جاری ہیں  ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت کیاکیاایساآدمی بھی یہاں  کوئی ہے جوآج رات کوعورت کے پاس نہ گیاہو؟یہ سن کرابوطلحہ رضی اللہ عنہ نے کہامیں  ہوں  ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاپھرتم قبرمیں  اترو،انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں  کہ وہ اترے اور میت کودفن کیا۔[135]

وَمِمَّا یُحْتَجُّ بِهِ مِنْ الْأَحَادِیثِ فِی كَوْنِ الرِّجَالِ هُمْ الَّذِینَ یَتَوَلَّوْنَ الدَّفْنَ وَإِنْ كَانَ الْمَیِّتُ امْرَأَةً

امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں  یہ حدیث ان احادیث میں  سے ہے جن سے یہ دلیل پکڑی جاتی ہے کہ صرف مردہی دفن کریں  گے خواہ میت عورت ہی ہو۔[136]

وَأَحَقُّ النَّاسِ بِإِنْزَالِ الْمَرْأَةِ فِی قَبْرِهَا مَنْ لَمْ یَطَأْ تِلْكَ اللیْلَةَ، وَإِنْ كَانَ أَجْنَبِیًّا، حَضَرَ زَوْجُهَا أَوْ أَوْلِیَاؤُهَا أَوْ لَمْ یَحْضُرُوا، وَأَحَقُّهُمْ بِإِنْزَالِ الرَّجُلِ أَوْلِیَاؤُهُ؟

امام ابن حزم رضی اللہ عنہ اسی کے قائل ہیں  ۔[137]

قبرکوایک بالشت سے زیادہ بلندنہ کیاجائے:

عَنْ أَبِی الْهَیَّاجِ الْأَسَدِیِّ، قَالَ: قَالَ لِی عَلِیُّ بْنُ أَبِی طَالِبٍ: أَلَا أَبْعَثُكَ عَلَى مَا بَعَثَنِی عَلَیْهِ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ؟أَنْ لَا تَدَعَ تِمْثَالًا إِلَّا طَمَسْتَهُ وَلَا قَبْرًا مُشْرِفًا إِلَّا سَوَّیْتَهُ

ابی الہیاج اسدی رحمہ اللہ سے مروی ہےسیدناعلی رضی اللہ عنہ نے مجھے فرمایاکیامیں  تمہیں  اس کام کے لیے نہ بھیجوں  جس کام کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے بھیجاتھا؟ تم ہرذی روح کی تصویرکومٹادو،اورہر(شرعی مقدارسے)بلندقبرکوبرابرکردو۔[138]

عَنْ جَابِرٍأَنَّ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أُلْحِدَ لَهُ لَحْدًا، وَنُصِبَ عَلَیْهِ اللَّبِنَ نَصْبًا،وَرُفِعَ قَبْرُهُ مِنَ الْأَرْضِ نَحْوًا مِنْ شِبْرٍ.

جابربن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے لحدتیارکی گئی، اوراس پرکچھی اینٹیں  چنی گئیں  ، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبرزمین سے ایک بالشت برابراونچی بنائی گئی ۔ [139]

حَدَّثَنَا صَالِحُ بْنُ أَبِی الْأَخْضَرِ، قَالَ:رَأَیْتُ قَبْرَ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ شِبْرًا أَوْ نَحْوًا مِنْ شِبْرٍ

اس روایت کے لیے ایک مرسل روایت شاہدہے ،صالح بن ابی الاخضر رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں  میں  نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبرکوایک بالشت برابریابالشت کے قریب (بلند) دیکھا ۔ [140]

وَلَا نُحِبُّ أَنْ یُزْدَادَ فِی الْقَبْرِ أَكْثَرُ مِنْ تُرَابِهِ لَیْسَ لِأَنَّهُ یَحْرُمُ ذَلِكَ، وَلَكِنْ لِئَلَّا یَرْتَفِعَ جِدًّا، وَیُشَخَّصُ الْقَبْرُ عَنْ وَجْهِ الْأَرْضِ نَحْوَ مِنْ شِبْر

امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں  قبرمیں  صرف وہی مٹی ڈالی جائے گی جواس سے نکلی ہو،ورنہ زائدمٹی ڈالنے سے قبربہت بلندہوجائے گی ،نیزاسے صرف ایک بالشت برابرہی بلند رکھاجائے۔[141]

فإن من المعلوم أنه یبقى بعد الدفن على القبر التراب الذی أخرج من القبر، فإن من المعلوم أنه یبقى بعد الدفن على القبر التراب الذی أخرج من اللحد الذی شغله جسم المیت، وذلك یساوی القدر

شیخ البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں  یہ معلوم ہونا چاہیے کہ بعد از تدفین قبر سے نکالی ہوئی مٹی قبر ہی کے اوپر ڈالی جائے گی،اور یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ تدفین کے بعد لحد سے نکالی ہوئی مٹی قبر ہی پر ڈالی جائے گی جس قدر اس کا جسم اندرونی جگہ گھیرے۔[142]

یُسْتَحَبُّ أَنْ یُرْفَعَ الْقَبْرُ عَنْ الْأَرْضِ قَدْرَ شِبْرٍ هَكَذَا نَصَّ عَلَیْهِ الشَّافِعِیُّ وَالْأَصْحَابُ وَاتَّفَقُوا عَلَیْهِ

امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں  اصحاب شافعی متفق ہیں  کہ ایک بالشت کے برابرقبربلندکرنامستحب ہے۔[143]

أن یرفِعَ الْقَبْرُ عن الْأَرْضِ قلیلا نَحْو شِبْرٍ، ولا یسوى بالارض

شیخ البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں  قبرکوزمین سےتھوڑاسابلندرکھاجائے یعنی ایک بالشت برابراور قبر کو زمین کے برابرنہ کیاجائے۔[144]

عَنِ الْقَاسِمِ، قَالَ: دَخَلَتْ عَلَى عَائِشَةَ، فَقُلْتُ: یَا أُمَّهِ اكْشِفِی لِی عَنْ قَبْرِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَصَاحِبَیْهِ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُمَا، فَكَشَفَتْ لِی عَنْ ثَلَاثَةِ قُبُورٍ لَا مُشْرِفَةٍ، وَلَا لَاطِئَةٍ مَبْطُوحَةٍ بِبَطْحَاءِ الْعَرْصَةِ الْحَمْرَاءِقَالَ أَبُو عَلِیٍّ: یُقَالُ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مُقَدَّمٌ وَأَبُو بَكْرٍ عِنْدَ رَأْسِهِ، وَعُمَرُ عِنْدَ رِجْلَیْهِ، رَأْسُهُ عِنْدَ رِجْلَیْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ

امام قاسم رحمہ اللہ سے مروی ہےمیں  ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے پاس گیا اور ان سے عرض کیا اے میری ماں  ! میرے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے دونوں  اصحاب کی قبر کھول دیجئے،پس انھوں  میرے لیے تینوں  قبریں  کھول دیں  ، جو نہ تو بہت بلند تھیں  اور نہ بالکل زمین سے ملی ہوئی اور ان پر میدان کی سرخ کنکریاں  بچھی ہوئی تھیں  ، ابوعلی نے کہا لوگ کہتے ہیں  کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر آگے ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سر مبارک کے پاس سیدنا ابوبکر کی قبر ہے، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاؤں  کے پاس سیدنا عمر فاروق کی قبر ہے، اس طرح سیدنا عمر کا سر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قدم مبارک کی طرف ہے۔[145]

حكم الألبان : ضعیف

شیخ البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں  ضعیف روایت ہے۔[146]

قبرکوکوہان نماں  بنانامستحب ہے:

عَنْ سُفْیَانَ التَّمَّارِ، أَنَّهُ حَدَّثَهُ:أَنَّهُ رَأَى قَبْرَ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مُسَنَّمًا

سفیان تمار رضی اللہ عنہ سے مروی ہے میں  نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبرکوہان نماں  بنی ہوئی دیکھی۔

قبرپرپتھریااس جیسی کوئی نشانی رکھی جاسکتی ہے:

عَنِ الْمُطَّلِبِ، قَالَ: لَمَّا مَاتَ عُثْمَانُ بْنُ مَظْعُونٍ، أُخْرِجَ بِجَنَازَتِهِ فَدُفِنَ، فَأَمَرَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ رَجُلًا أَنْ یَأْتِیَهُ بِحَجَرٍ، فَلَمْ یَسْتَطِعْ حَمْلَهُ، فَقَامَ إِلَیْهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، وَحَسَرَ عَنْ ذِرَاعَیْهِ، قَالَ كَثِیرٌ: قَالَ الْمُطَّلِبُ: قَالَ الَّذِی یُخْبِرُنِی ذَلِكَ: عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: كَأَنِّی أَنْظُرُ إِلَى بَیَاضِ ذِرَاعَیْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، حِینَ حَسَرَ عَنْهُمَا ثُمَّ حَمَلَهَا فَوَضَعَهَا عِنْدَ رَأْسِهِ، وَقَالَ:أَتَعَلَّمُ بِهَا قَبْرَ أَخِی، وَأَدْفِنُ إِلَیْهِ مَنْ مَاتَ مِنْ أَهْلِی

مطلب سے مروی ہےجب عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ کا انتقال ہوا تو ان کا جنازہ (بقیع میں  ) لایا گیا اور وہیں  ان کو دفن کیا گیا،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو پتھر لانے کا حکم فرمایا (تاکہ قبر پر بطور نشان نصب فرمائیں  )،لیکن وہ اسکو اٹھا نہ سکا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود ہی اسکو اٹھانے کے لیے کھڑے ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی دونوں  آستینیں  اوپر چڑھا لیں  ، مطلب کہتے ہیں  کہ جس شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ واقعہ نقل کیا ہے وہ کہتا ہے کہ گویا میں  اب بھی اپنی آنکھوں  سے آپ کے ہاتھوں  کی سفیدی کی طرف دیکھ رہا ہوں  ، جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھوں  کو کھولا تھا، اور پھر پتھر اٹھا کر عثمان کی قبر کے سرہانے نصب فرمایا تھا،اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پتھر سے مخاطب ہو کر فرمایا تھا کہ تو جانتا ہے کہ یہ میرے بھائی (عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ ) کی قبر ہے،اور میرے اہل خانہ میں  سے جب کسی کا انتقال ہوگا، تو میں  اسکو بھی اس کے آس پاس ہی دفن کروں  گا۔[147]

بَابٌ فِی جَمْعِ الْمَوْتَى فِی قَبْرٍ وَالْقَبْرُ یُعَلَّمُ

امام ابوداود رحمہ اللہ نے اس حدیث پریہ باب قائم کیاہےایک قبرمیں  زیادہ مردوں  کوجمع کیاجاسکتاہے اورقبرکی علامت مقررکی جاسکتی ہے۔

بَابُ إِعْلَامِ الْقَبْرِ بِصَخْرَةٍ أَوْ عَلَامَةٍ مَا كَانَتْ

امام بیہقی رحمہ اللہ نے یہ باب قائم کیاہے پتھریاکسی بھی علامت کے ذریعے قبرکی نشانی مقررکرنا۔

وله شاهدان ذكرتهما

شیخ البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں  اس روایت کے دوشاہدہیں  جن کے ساتھ یہ قوی ہوجاتی ہے۔[148]

قبرپرلکھناجائزنہیں  :

عَنْ جَابِرٍ قَالَ: نَهَى النَّبِیُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَنْ تُجَصَّصَ القُبُورُ، وَأَنْ یُكْتَبَ عَلَیْهَا، وَأَنْ یُبْنَى عَلَیْهَا، وَأَنْ تُوطَأَ.

جابربن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبروں  کو پختہ کرنے، اور ان پر لکھنے، ان پر تعمیر کرنے، اور ان پر چلنے سے منع فرمایا ہے۔[149]

تدفین کے بعدمیت کے لیے استغفارکرنامشروع ہے:

عَنْ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ، قَالَ: كَانَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، إِذَا فَرَغَ مِنْ دَفْنِ الْمَیِّتِ وَقَفَ عَلَیْهِ، فَقَالَ:اسْتَغْفِرُوا لِأَخِیكُمْ، وَسَلُوا لَهُ بِالتَّثْبِیتِ، فَإِنَّهُ الْآنَ یُسْأَلُ

سیدناعثمان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب میت کی تدفین سے فارغ ہوتے تواس پرٹھہرتے اورفرماتے اپنے بھائی کے لیے بخشش طلب کرو،اوراس کے لیے ثابت قدمی کاسوال کرویقیناًاس سے اب سوال کیاجارہاہے۔[150]

دفن کے بعدقبرپراذان کہنابدعت سیئہ ہے ،قرآن وحدیث میں  اس کی کوئی اصل نہیں  ہے، اس کانبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ،خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم ،صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ،تابعین عظام رحمہ اللہ ،تبع تابعین رحمہ اللہ ،ائمہ دین رحمہ اللہ اورسلف صالحین کے زمانہ میں  وجودنہیں  ملتاہے بلکہ یہ بعدکی ایجادہے،بعض حنفی اماموں  نے قبرپراذان کے عدم جوازاوربدعت ہونے کی صراحت بیان کی ہے۔

وَعَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ:سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَقُولُ:إِذَا مَاتَ أَحَدُكُمْ فَلَا تَحْبِسُوهُ، وَأَسْرِعُوا بِهِ إِلَى قَبْرِهِ، وَلْیُقْرَأْ عِنْدَ رَأْسِهِ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ، وَعِنْدَ رِجْلَیْهِ بِخَاتِمَةِ سُورَةِ الْبَقَرَةِ فِی قَبْرِهِ.

رَوَاهُ الطَّبَرَانِیُّ فِی الْكَبِیرِ، وَفِیهِ یَحْیَى بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْبَابِلُتِّیُّ، وَهُوَ ضَعِیفٌ

عبد اللہ بن عمر سے مروی ہے میں  نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ جب تم میں  کوئی فوت ہوجائے تو اسے زیادہ دیر تک نہ روکے رکھے بلکہ جلد از جلد اسے دفن کیاجائے ،اور اس کے سرانے فاتحہ الکتاب اور پاؤں  کی جانب سورۂ  بقرہ کی آخری آیات کی تلاوت کرو۔[151]

رَوَاهُ الطَّبَرَانِیُّ فِی الْكَبِیرِ، وَفِیهِ یَحْیَى بْنُ عَبْدِ اللهِ الْبَابِلُتِّیُّ، وَهُوَ ضَعِیفٌ.

امام طبرانی نے المعجم الکبیر میں  یحیٰ بن عبد اللہ البابلتی سے روایت نقل کی ہے جوکہ ضعیف ہے۔

وَعَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْعَلَاءِ بْنِ اللَّجْلَاجِ قَالَ:قَالَ لِی أَبِی: یَا بُنَیَّ، إِذَا مِتُّ فَالْحَدْ لِی لَحْدًا، فَإِذَا وَضَعْتَنِی فِی لَحْدِی فَقُلْ: بِسْمِ اللَّهِ وَعَلَى مِلَّةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ شَنِّ التُّرَابَ عَلِیَّ شَنًّا، ثُمَّ اقْرَأْ عِنْدَ رَأْسِی بِفَاتِحَةِ الْبَقَرَةِ وَخَاتِمَتِهَا، فَإِنِّی سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَقُولُ ذَلِكَ.

عبدالرحمٰن بن خالدبن اللجلاج فرماتے ہیں  مجھے میرے والد نے فرمایا اے میرے پیارے بیٹے! جب میں  فوت ہوجاؤں  تو مجھے تدفن کر دینا، اور جب مجھے میری قبر میں  رکھو تو یہ دعا پڑھنا بِسْمِ اللهِ وَعَلَى مِلَّةِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، پھر میری قبر پر مٹی ڈالنے کے بعد میرے سرانے سورۂ  بقرہ کی ابتدائی اور آخری آیات تلاوت کرنا یہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان میں  نے اپنے کانوں  سے سماعت کی ہے۔[152]

فهو مع كونه موقوفاً ففیه عبد الرحمن بن العلاء بن اللجلاج؛ وهو مجهول

امام بیہقی فرماتے ہیں  یہ روایت موقوف ہےاور اس میں  عبد الرحمن بن العلاء بن اللجاج راوی مجہول ہے۔[153]

قبرکے سرہانے یاپاؤں  کی جانب سورۂ البقرہ کی ابتدائی اورآخری آیات کاپڑھناکسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں  ہے ۔

وهو مذهب جمهور السلف كأبی حنیفة ومالك، وقال هذا ما علمت أحداً یفعل ذلك

جمہور علمائے سلف ابو حنیفہ اور مالک کا یہی مذہب ہے اور کہتے ہیں  کہ ہم نے ایسا کرتے کسی بھی نہیں  دیکھا۔ [154]

تدفین کے وقت قبرکے قریب بیٹھناجائزہے:

عَنِ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ، قَالَ:خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فِی جَنَازَةِ رَجُلٍ مِنَ الْأَنْصَارِ فَانْتَهَیْنَا إِلَى الْقَبْرِ، وَلَمْ یُلْحَدْ بَعْدُ فَجَلَسَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مُسْتَقْبِلَ الْقِبْلَةِ وَجَلَسْنَا مَعَهُ

براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے مروی ہےہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک انصاری کے جنازے میں  نکلے ہم قبرتک پہنچ گئےلیکن ابھی تک لحدنہیں  بنائی گئی تھی،تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قبلہ رخ ہوکربیٹھ گئے اورہم بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اردگردبیٹھ گئے۔[155]

میت کوکسی شرعی عذرکی بناپرقبرسے نکالاجاسکتاہے:

ویجوز إخراج المیت من القبر لغرض صحیح

شیخ البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں  میت کوکسی شرعی عذرکی بناپرقبرسے نکالاجاسکتاہے۔[156]

جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: أَتَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ أُبَیٍّ بَعْدَ مَا أُدْخِلَ حُفْرَتَهُ فَأَمَرَ بِهِ، فَأُخْرِجَ، فَوَضَعَهُ عَلَى رُكْبَتَیْهِ وَنَفَثَ عَلَیْهِ مِنْ رِیقِهِ، وَأَلْبَسَهُ قَمِیصَهُ، فَاللَّهُ أَعْلَمُ وَكَانَ كَسَا عَبَّاسًا قَمِیصًا

جابربن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو(رئیس المنافقین)عبداللہ بن ابی کواس کی قبرمیں  ڈالاجاچکاتھالیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم پراسے قبرسے نکلاگیا، پھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اپنے گھٹنوں  پررکھ کرلعاب دہن اس کے منہ میں  ڈالااوراپناکرتہ اسے پہنایا،اب اللہ تعالیٰ ہی بہترجانتاہے (غالباًمرنے کے بعدمنافق کے ساتھ ایسے سلوک کی وجہ یہ تھی کہ)اس نے عباس رضی اللہ عنہ کوایک قمیض پہنائی تھی۔[157]

عَنْ جَابِرٍ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ:دُفِنَ مَعَ أَبِی رَجُلٌ، فَلَمْ تَطِبْ نَفْسِی حَتَّى أَخْرَجْتُهُ، فَجَعَلْتُهُ فِی قَبْرٍ عَلَى حِدَةٍ

جابربن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے میرے والدکے ساتھ قبرمیں  ایک اورصحابی رضی اللہ عنہ دفن تھے،لیکن میرادل اس پرراضی نہیں  ہورہاتھا اس لیے میں  نے ان کی لاش نکال کردوسری قبرمیں  دفن کردی۔[158]

فِیهِ دَلِیلٌ عَلَى جَوَازِ إخْرَاجِ الْمَیِّتِ مِنْ قَبْرِهِ إذَا كَانَ فِی ذَلِكَ مَصْلَحَةٌؒ

امام شوکانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں  یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ میت کوکسی شرعی وجہ سے قبرسے نکالاجاسکتاہے[159]

تدفین سے پہلے میت کوکسی دوسرے شہرمنتقل کرنا:

 كانت السنة العملیة فی عهد النبی، صلى الله علیه وسلم، وفی عهد أصحابه أن یدفن الموتى فی مقابر البلد الذی ماتوا فیه، وأن یدفن الشهداء حیث ماتوا، ولم یثبت فی حدیث ولا أثر صحیح أن أحداً من الصحابة نقل إلى غیر مقابر البلد الذی مات فیه أو فی ضاحیته أو مكان قریب منه.۔۔۔۔۔۔لا یجوز أن ینقل المیت قبل دفنه إلى غیر البلد الذی مات فیه إلا لغرض صحیح

سعودی مجلس افتاء کافتوی ہے عہدنبوی اورعہدصحابہ میں  عملی سنت یہی تھی کہ وفات پانے والوں  کواسی شہرکے قبرستان میں  دفن کیاجاتاجہاں  وہ فوت ہوتے اورشہداء کواسی جگہ دفن کیاجاتاجہاں  وہ شہیدہوتے،نیزکسی صحیح حدیث یااثرسے یہ بات ثابت نہیں  کہ کسی صحابی کواپنے علاقے سے باہرمنتقل کیاگیاہو۔۔۔ لہذاکسی صحیح ضرورت(یعنی شرعی عذر)کے بغیرمیت کوایک شہرسے دوسرے شہرمیں  منتقل نہ کیاجائے۔[160]

وفات سے پہلے اپنی قبرخودکھودلینا:

ولا یستحب للرجل أن یحفر قبره قبل أن یموت، فإن النبی صلى الله علیه وسلم لم یفعل ذلك هو ولا أصحابه، والعبد لا یدری أین یموت

شیخ البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں  کسی شخص کوایساکرنادرست نہیں  کیونکہ نہ تونبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایساکیااورنہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے ایسا کیا، مزیدبرآں  انسان کویہ علم بھی نہیں  کہ وہ کہاں  فوت ہوگا۔[161]

شیخ الاسلام ابن تیمیة رحمه الله تعالى كذا فی

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ اسی کے قائل ہیں  ۔[162]

تین اوقات میں  تدفین ممنوع ہے:

عُقْبَةَ بْنَ عَامِرٍ الْجُهَنِیَّ، یَقُولُ: ثَلَاثُ سَاعَاتٍ كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَنْهَانَا أَنْ نُصَلِّیَ فِیهِنَّ، أَوْ أَنْ نَقْبُرَ فِیهِنَّ مَوْتَانَا:حِینَ تَطْلُعُ الشَّمْسُ بَازِغَةً حَتَّى تَرْتَفِعَ، وَحِینَ یَقُومُ قَائِمُ الظَّهِیرَةِ حَتَّى تَمِیلَ الشَّمْسُ، وَحِینَ تَضَیَّفُ الشَّمْسُ لِلْغُرُوبِ حَتَّى تَغْرُبَ

عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ الجہنی سے مروی ہے تین اوقات میں  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں  نمازپڑھنے اورمیت کی تدفین سے روکتے تھے،جب آفتاب طلوع ہورہاہوتاآنکہ بلند ہو جائے ، جب سورج نصف آسمان پرہوتاتاوقتکہ ڈھل جائے،جس وقت سورج غروب ہوناشروع ہو۔[163]

رات کودفن کرنا:

وَعَنْ جَابِرٍ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:لَا تَدْفِنُوا مَوْتَاكُمْ بِاللَّیْلِ إلَّا أَنْ تَضْطَرُّوا

جابربن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااپنے مرنے والوں  کورات میں  دفن نہ کروالاکہ تم اس کے لیے مجبورکردیے جاؤ۔[164]

جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللهِ، یُحَدِّثُ، أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ خَطَبَ یَوْمًا، فَذَكَرَ رَجُلًا مِنْ أَصْحَابِهِ قُبِضَ فَكُفِّنَ فِی كَفَنٍ غَیْرِ طَائِلٍ، وَقُبِرَ لَیْلًا، فَزَجَرَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَنْ یُقْبَرَ الرَّجُلُ بِاللَّیْلِ حَتَّى یُصَلَّى عَلَیْهِ، إِلَّا أَنْ یُضْطَرَّ إِنْسَانٌ إِلَى ذَلِكَ، وَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:إِذَا كَفَّنَ أَحَدُكُمْ أَخَاهُ، فَلْیُحَسِّنْ كَفَنَهُ

جابربن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےایک دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ دیا تو اپنے صحابہ میں  سے ایک آدمی کا ذکر کیا کہ ان کا انتقال ہوا اور ان کومعمولی کفن دیا گیا اور رات ہی میں  دفن کردیا گیا،تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات پر ڈانٹاکہ رات کے وقت کسی کودفن نہ کیاجائے حتی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کاجنازہ پڑھ لیں  الا یہ کہ کوئی مجبوری ہو،اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب تم میں  سے کوئی اپنے بھائی کو کفن دے تو اچھا کفن دے۔[165]

رات میں  میت کودفن کرنے کی ممانعت صرف اس گمان کی وجہ سے ہے کہ نمازجنازہ میں  رات کے وقت لوگ کم تعدادمیں  شریک ہوں  گے، لہذااگرنمازجنازہ دن میں  پڑھ لی گئی ہولیکن کسی عذرکی وجہ سے رات کودفن کرناپڑے تویہ ممنوع نہیں  ،جوازکے دلائل حسب ذیل ہیں  ۔

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَدْخَلَ رَجُلًا قَبْرَهُ لَیْلًا، وَأَسْرَجَ فِی قَبْرِهِ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رات کے وقت ایک آدمی کوقبرمیں  داخل کیا،اور دفن کرتے وقت روشنی کی۔[166]

دُفِنَ أَبُو بَكْرٍ رَضِیَ اللهُ عَنْهُ لَیْلًا

ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے سیدناابوبکر رضی اللہ عنہ کورات کے وقت دفن کیاگیا۔[167]

عَنْ عُرْوَةَ،أَنَّ عَلِیًّا دَفَنَ فَاطِمَةَ لَیْلًا

عروہ سے مروی ہےسیدناعلی رضی اللہ عنہ نے فاطمہ رضی اللہ عنہا کورات کے وقت دفن کیا۔[168]

الْأَحَادِیثُ الْمَذْكُورَةُ فِی الْبَابِ تَدُلُّ عَلَى جَوَازِ الدَّفْنِ بِاللیْلِ

امام شوکانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں  مذکورہ احادیث اس بات کاثبوت ہیں  کہ رات کے وقت دفن کرنا جائزہے۔[169]

وَبِهِ قَالَ الْجُمْهُورُ

جمہوراسی بات کے قائل ہیں  ۔[170]

وَلَا یَحِلُّ دَفْنُ الْمَوْتَى فِی هَذِهِ السَّاعَاتِ أَلْبَتَّةَ

امام ابن حزم رحمہ اللہ فرماتے ہیں  کسی مجبوری کے بغیررات کودفن نہ کیاجائے۔[171]

مسلمانوں  کوکفارکے قبرستان میں  دفن کرنے کاحکم:

ابن باز رحمہ اللہ فرماتے ہیں  ایساکرناہرگزجائزنہیں  ، کیونکہ عہدنبوی اورعہدخلفائے راشدین میں  اہل اسلام نے کبھی ایسانہیں  کیا۔ [172]

مردوں  (یعنی قبروں  )زیارت مشروع ہے اورزائرقبلہ رخ کھڑاہو:

عَنْ سُلَیْمَانَ بْنِ بُرَیْدَةَ، عَنْ أَبِیهِ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: قَدْ كُنْتُ نَهَیْتُكُمْ عَنْ زِیَارَةِ القُبُورِ، فَقَدْ أُذِنَ لِمُحَمَّدٍ فِی زِیَارَةِ قَبْرِ أُمِّهِ، فَزُورُوهَا فَإِنَّهَا تُذَكِّرُ الآخِرَةَ

بریدہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایابے شک میں  نے تمہیں  قبروں  کی زیارت سے روکاتھاپس محمد صلی اللہ علیہ وسلم کوان کی والدہ کی قبرکی زیارت کی اجازت دے دی گئی ہے، لہذاتم بھی قبروں  کی زیارت کرویقیناًیہ آخرت یاددلاتی ہے۔[173]

حَدَّثَنِی عَبْدُ اللَّهِ بْنُ بُرَیْدَةَ، عَنْ أَبِیهِ،وَنَهَیْتُكُمْ عَنْ زِیَارَةِ الْقُبُورِ، فَمَنْ أَرَادَ أَنْ یَزُورَ فَلْیَزُرْ، وَلَا تَقُولُوا هُجْرًا

بریدہ رضی اللہ عنہ سے مروی ایک روایت میں  یہ لفظ ہیں  میں  نے تم کوزیارت قبورسے منع کیا تھا جوشخص (قبروں  کی)زیارت کاارادہ رکھتاہے اسے زیارت کرنی چاہیے لیکن(وہاں  )تم کوئی باطل کلام نہ کرو۔[174]

وَعَنْ زَیْدِ بْنِ ثَابِتٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:زُورُوا الْقُبُورَ، وَلَا تَقُولُوا هَجْرًا.

زیدبن ثابت رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا قبورکی زیارت کیا کرو لیکن(وہاں  )تم کوئی باطل کلام نہ کرو۔[175]

وَعَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:نَهَیْتُكُمْ عَنْ زِیَارَةِ الْقُبُورِ فَزُورُوهَا، وَلَا تَقُولُوا هُجْرًا

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہےمیں  نے تم کوزیارت قبورسے منع کیا تھالیکن اب چلے جایا کرو لیکن (وہاں  )تم کوئی باطل کلام نہ کرو۔[176]

عَنْ أَبِی سَعِیدٍ الْخُدْرِیِّ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:إِنِّی نَهَیْتُكُمْ عَنْ زِیَارَةِ الْقُبُورِ فَزُورُوهَا ; فَإِنَّ فِیهَا عِبْرَةً.

ابوسعیدخدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں  نے تمہیں  قبرستان جانے سے منع کیا تھا لیکن اب چلے جایا کرو کیوں  کہ اس میں  سامانِ عبرت موجود ہے۔[177]

الْأَمْرُ لِلرُّخْصَةِ أَوْ لِلِاسْتِحْبَابِ وَعَلَیْهِ الْجُمْهُورُ

جمہورعلماء فرماتے ہیں  اس حکم کی وجہ سے قبروں  کی زیارت کی رخصت ہےاور قبروں  کی زیارت مستحب ہے۔[178]

وَذَهَبَ ابْنُ حَزْمٍ إلَى أَنَّ زِیَارَةَ الْقُبُورِ وَاجِبَةٌ وَلَوْ مَرَّةً وَاحِدَةً فِی الْعُمْرِ

ابن حزم رحمہ اللہ فرماتے ہیں  قبروں  کی زیارت واجب ہے، خواہ عمرمیں  ایک مرتبہ کی جائے۔[179]

عَنِ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ، قَالَ:خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فِی جَنَازَةِ رَجُلٍ مِنَ الْأَنْصَارِ فَانْتَهَیْنَا إِلَى الْقَبْرِ، وَلَمْ یُلْحَدْ بَعْدُ فَجَلَسَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مُسْتَقْبِلَ الْقِبْلَةِ وَجَلَسْنَا مَعَهُ

براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ ایک انصاری کے جنازے کے لیے نکلے ،ہم قبرپرپہنچے مگرابھی تک قبرتیارنہیں  ہوئی تھی تونبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم قبلہ رخ ہوکربیٹھ گئے اورہم بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھ گئے۔[180]

اس حدیث کی وجہ سے یہ عمل مستحب ہے ضروری نہیں  ۔

خواتین بھی قبروں  کی زیارت کرسکتی ہیں  بشرطیکہ۔۔۔:کثرت کے ساتھ نہ کریں  ،اس کے دلائل حسب ذیل ہیں  ۔

هَذَا خِطَابٌ لِلرِّجَالِ دُونَ النِّسَاءِ

رخصت کے الفاظ’’ فَزُورُوهَا‘‘میں  مردوں  کے ساتھ خواتین بھی شامل ہیں  ۔

عَنْ أَبِی سَعِیدٍ الْخُدْرِیِّ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:إِنِّی نَهَیْتُكُمْ عَنْ زِیَارَةِ الْقُبُورِ فَزُورُوهَا

ابوسعیدخدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں  نے تمہیں  قبرستان جانے سے منع کیا تھا لیکن اب تم قبروں  کی زیارت کرو ۔[181]

جس سبب کی وجہ سے قبروں  کی زیارت جائزہے، اس میں  عورتیں  بھی مردوں  کی شریک ہیں  یعنی

 فَإِنَّهَا تُذَّكِرُ الْآخِرَةَ

قبریں  آخرت کی یاددلاتی ہیں  ۔[182]

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِی مُلَیْكَةَ، أَنَّ عَائِشَةَ أَقْبَلَتْ ذَاتَ یَوْمٍ مِنَ الْمَقَابِرِ فَقُلْتُ لَهَا: یَا أُمَّ الْمُؤْمِنِینَ، مِنْ أَیْنَ أَقْبَلْتِ؟ قَالَتْ: مِنْ قَبْرِ أَخِی عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِی بَكْرٍ، فَقُلْتُ لَهَا: أَلَیْسَ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ نَهَى عَنْ زِیَارَةِ الْقُبُورِ؟ قَالَتْ: نَعَمْ، كَانَ قَدْ نَهَى، ثُمَّ أُمِرَ بِزِیَارَتِهَا

عبداللہ بن ابی ملیکہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےایک روزعائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا قبرستان سے واپس تشریف لائیں  تو انہوں  نے کہااے ام المومنین رضی اللہ عنہا کہاں  سے تشریف لارہی ہیں  ؟عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے جواب دیامیں  اپنے بھائی عبدالرحمٰن بن ابی بکر رضی اللہ عنہ کی قبرکی زیارت کرکے واپس آرہی ہوں  ، عبداللہ بن ابی ملیکہ رضی اللہ عنہ نے انہیں  کہاکیارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبروں  کی زیارت سے منع نہیں  فرمایا؟انہوں  نے

جواب دیاہاں  ،لیکن پھران کی زیارت کی اجازت دے دی۔[183]

قَالَتْ عَائِشَةُ: قُلْتُ: كَیْفَ أَقُولُ لَهُمْ یَا رَسُولَ اللهِ؟ قَالَ “ قُولِی: السَّلَامُ عَلَى أَهْلِ الدِّیَارِ مِنَ الْمُؤْمِنِینَ وَالْمُسْلِمِینَ، وَیَرْحَمُ اللهُ الْمُسْتَقْدِمِینَ مِنَّا وَالْمُسْتَأْخِرِینَ، وَإِنَّا إِنْ شَاءَ اللهُ بِكُمْ لَلَاحِقُونَ

ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیااے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !جب میں  قبروں  کی زیارت کروں  توکیاکہوں  ؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاتم یہ دعاپڑھاکرو’’ سلام ہے ایماندارگھروالوں  پراورمسلمانوں  پر،رحمت کرے گاہم سے آگے جانے والوں  پراورپیچھے جانے والوں  پراوراللہ نے چاہاتوہم تم سے ملنے والے ہیں  ۔‘‘[184]

عَنْ عَلِیِّ بْنِ الْحُسَیْنِ، عَنْ أَبِیهِ، أَنَّ فَاطِمَةَ بِنْتَ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، كَانَتْ «تَزُورُ قَبْرَ عَمِّهَا حَمْزَةَ كُلَّ جُمُعَةٍ

علی بن حسین اپنے والدسے روایت کرتے ہیں  نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی فاطمہ رضی اللہ عنہا ہرجمعہ کواپنے چچاسیدالشہداء حمزہ رضی اللہ عنہ کی قبرکی زیارت کرتی تھیں  ۔[185]

عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: مَرَّ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بِامْرَأَةٍ عِنْدَ قَبْرٍ وَهِیَ تَبْكِی، فَقَالَ:اتَّقِی اللَّهَ وَاصْبِرِی

انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک عورت کے پاس سے گزرے جوقبرکے قریب بیٹھی رورہی تھی توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے کہااللہ تعالیٰ سے ڈرجااورصبرکر ۔[186]

بَابُ زِیَارَةِ القُبُورِ

اس حدیث پرامام بخاری رحمہ اللہ نے یہ باب قائم کیاہےقبروں  کی زیارت کابیان۔[187]

الْجَوَازَ حَدِیثُ الْبَابِ وَمَوْضِعُ الدَّلَالَةِ مِنْهُ أَنَّهُ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ لَمْ یُنْكِرْ عَلَى الْمَرْأَةِ قُعُودَهَا عِنْدَ الْقَبْرِ وَتَقْرِیرُهُ حجَّة

امام ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں  (اس حدیث میں  )محل شایدیہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس عورت کوقبرکے پاس بیٹھنے سے نہیں  روکااورآپ صلی اللہ علیہ وسلم کاکسی کام کوبرقراررکھناقابل حجت ہے۔[188]

فَلَمَّا رخص دخل فِی رخصته الرِّجَال وَالنِّسَاء

علامہ عینی رحمہ اللہ فرماتے ہیں  اس حدیث میں  مطلق قبروں  کی زیارت کاجوازہے خواہ زائرمردہوں  یاعورت۔[189]

لیکن خواتین کے لیے کثرت سے قبروں  کی زیارت جائزنہیں  ۔

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ، قَالَ:لَعَنَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ زُوَّارَاتِ الْقُبُورِ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بہت زیادہ قبروں  کی زیارت کرنے والی خواتین پرلعنت فرمائی ہے[190]

هَذَا اللعْنُ إِنَّمَا هُوَ لِلْمُكْثِرَاتِ مِنَ الزِّیَارَةِ لِمَا تَقْتَضِیهِ الصِّفَةُ مِنَ الْمُبَالَغَة

امام قرطبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں  حدیث میں  مذکورہ لعنت ایسی خواتین کے لیے ہے جوبہت زیادہ زیارت کرتی ہیں  کیونکہ مبالغے کاصیغہ اسی کاتقاضاکرتاہے۔[191]

لَعَلَّ الْمُرَادَ كَثِیرَاتُ الزِّیَارَةِ

ملاعلی قاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں  امیدیہی ہے کہ اس سے مرادکثرت سے زیارت کرنے والی خواتین ہیں  ۔[192]

ویمكن أن یجاب عنه بأن النهی محمول على تكثیر الزیارة

اس کا جواب ممکن ہے کہ یہ نہی کثرت زیارت پر محمول ہے۔[193]

عبدالرحمٰن مبارکپوری اسی کے قائل ہیں  ۔[194]

لكن لا یجوز لهن الاكثار من زیارة القبور

شیخ البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں  (خواتین کے لیے)کثرت سے زیارت کرناجائزنہیں  ۔[195]

أَنَّهُ نَهَى زَوَّارَاتِ الْقُبُورِ

امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں  صحیح بات یہ ہے کہ عورتوں  کے لیے قبروں  کی زیارت جائزہی نہیں  ۔[196]

لَعَنَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ زَائِرَاتِ الْقُبُورِ

امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں  جس روایت میں  یہ لفظ ہیں  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبروں  کی زیارت کرنے والی عورتوں  پرلعنت فرمائی ہے وہ ضعیف ہے۔[197]

اگریہ روایت کسی طرح قابل حجت ہوجائے تواس سے مرادایسی عورتیں  ہوں  گی جوبناؤسنگھارکرکے جاتی ہیں  یانوحہ کرتی ہیں  ، ورنہ کبھی کبھارزیارت کے لیے جاناعورتوں  کے لیے یقیناًجائزہے۔

صرف عبرت کے لیے مشرک کی قبرکی زیارت جائزہے:

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کواپنی والدہ کی قبرکی زیارت کے لیے اجازت دی گئی۔

عَنْ سُلَیْمَانَ بْنِ بُرَیْدَةَ، عَنْ أَبِیهِ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: قَدْ كُنْتُ نَهَیْتُكُمْ عَنْ زِیَارَةِ القُبُورِ، فَقَدْ أُذِنَ لِمُحَمَّدٍ فِی زِیَارَةِ قَبْرِ أُمِّهِ، فَزُورُوهَا فَإِنَّهَا تُذَكِّرُ الآخِرَةَ.

سلیمان بن بریدہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں  نے تمہیں  قبروں  کی زیارت سے منع کیا تھا بلاشبہ اب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی والدہ کی قبر کی زیارت کی اجازت مل گئی پس تم بھی قبروں  کی زیارت کیا کرو کیونکہ یہ آخرت کی یاد دلاتی ہے۔[198]

فیه جواز زیارة المشركین فی الحیاة، وقبورهم بعد الوفاة

امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں  اس حدیث میں  مشرکین کی زندگی میں  ملاقات اورمرنے کے بعد قبروں  کی زیارت کاجوازہے۔[199]

کافرکی قبرکی زیارت کرتے ہوئے اسے دعانہیں  بلکہ آگ کی بشارت دی جائے:

عَنْ سَالِمٍ، عَنْ أَبِیهِ، قَالَ: جَاءَ أَعْرَابِیٌّ إِلَى النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: یَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ أَبِی كَانَ یَصِلُ الرَّحِمَ، وَكَانَ وَكَانَ، فَأَیْنَ هُوَ؟ قَالَ فِی النَّارِ قَالَ: فَكَأَنَّهُ وَجَدَ مِنْ ذَلِكَ، فَقَالَ: یَا رَسُولَ اللَّهِ فَأَیْنَ أَبُوكَ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: حَیْثُمَا مَرَرْتَ بِقَبْرِ مُشْرِكٍ فَبَشِّرْهُ بِالنَّارِ قَالَ: فَأَسْلَمَ الْأَعْرَابِیُّ بَعْدُ، وَقَالَ: لَقَدْ كَلَّفَنِی رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ تَعَبًا، مَا مَرَرْتُ بِقَبْرِ كَافِرٍ إِلَّا بَشَّرْتُهُ بِالنَّارِ

سالم اپنے والدسےسے مروی ہےایک دیہاتی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں  آئے اور عرض کیا اے اللہ کے رسول ! میرے والد صلہ رحمی کرتے تھے اور ایسے ایسے تھے (بھلائیاں  گنوائیں  ) بتایئے وہ کہاں  ہیں  ؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا دوزخ میں  ہے، راوی کہتے ہیں  شاید ان کو اس سے رنج ہوا کہنے لگے اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! تو آپ کے والد کہاں  ہیں  ؟ جہاں  کہیں  بھی تم کسی کافرکی قبرکے قریب سے گزروتواسے آگ کی بشارت دو، وہ دیہاتی بعد میں  اسلام لے آئے، اور کہنے لگے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے مشکل کام دیدیا ،میں  جس کافر کی قبر کے پاس سے گزرتا ہوں  اس کو دوزخ کی خوشخبری ضرور دیتا ہوں  ۔[200]

زیارت کے دوران قرآن کی قرات یکسرثابت نہیں  :

وأما قراءة القرآن عند زیارتها، فمما لا أصل له فی السنة بل الاحادیث المذكورة فی المسألة السابقة تشعر بعدم مشروعیتها، إذ لو كانت مشروعة، لفعلهارَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وعلمها أصحابه، لا سیما وقد سألته عائشة رضی الله عنها وهی من أحب الناس إلیه صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عما تقول إذا زارت القبور؟ فعلمها السلام والدعاء ،ومما یقوی عدم المشروعیة قوله صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:لَا تَجْعَلُوا بُیُوتَكُمْ مَقَابِرَ، فَإِنَّ الشَّیْطَانَ یَفِرُّ مِنَ الْبَیْتِ الَّذِی یُقْرَأُ فِیهِ سُورَةُ الْبَقَرَة

شیخ البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں  قبروں  کی زیارت کے وقت قرآن پڑھنے کے بارے میں  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت میں  کوئی دلیل موجودنہیں  ہے، بلکہ مذکورہ حدیث قرات قرآن کی عدم مشروعیت کاظاہرکرتی ہےاگرقبروں  پرقرات مشروع ہوتی تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اوراصحابہ کرام بھی قرات کرتے، اورام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا یہ دریافت نہ کرتیں  کہ جب میں  قبروں  کی زیارت کروں  توکیاکہوں  ؟چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاسلام اوردعاکرو،اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کایہ فرمان بھی عدم مشروعیہ کاثبوت ہے کہ اپنے گھروں  کوقبریں  مت بناؤ،بے شک شیطان اس گھرسے فراراختیارکرتاہے جس گھرمیں  سورۂ  بقرہ کی تلاوت کی جاتی ہے۔[201]

فقد أشار صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ إلى أن القبور لیست موضعا للقراءة شرعا، فلذلك حض على قراءة القرآن فی البیوت ونهی عن جعلها كالمقابر التی لا یقرأ فیها

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث میں  بھی یہ اشارہ موجودہے کہ قبروں  پرقرات شرعاجائزنہیں  ، بلکہ قرآن مجیدکی قرات گھروں  میں  کرو،اوراس بات سے منع کیاگیاہے کہ قبروں  پرقرات کی جائے۔[202]

ولذلك كان مذهب جمهور السلف كأبی حنیفة ومالك وغیرهم كراهة للقراءة عند القبور،وهو قول الامام أحمد فقال أبو داود فی مسائله :سمعت أحمد سئل عن القراءة عند القبر؟ فقال: لا

اور جمہورائمہ جن میں  امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ اورامام مالک رحمہ اللہ وغیرہ شامل ہیں  قبروں  پرقرآن مجیدکی قرات کوناپسندکرتے تھے ،اورامام احمد رحمہ اللہ کابھی یہی قول ہے،ابوداود رحمہ اللہ نے اس مسئلہ میں  فرمایامیں  نے امام احمد رحمہ اللہ سے پوچھاکیاقبروں  پرقرآن مجیدکی قرات کی جاسکتی ہے؟ توانہوں  نے کہانہیں  ۔[203]

قِرَاءَةَ الْقُرْآنِ هُنَاكَ تِلَاوَتَهُ فَبِدْعَةٌ مُنْكَرَةٌ لَمْ یَفْعَلْهَا أَحَدٌ مِنْ السَّلَفِ

امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں  قرآن کی قرات کرنا بدعت ہے اصحاب سلف میں  سے کسی نے قبروں  پرتلاوت نہیں  کی۔[204]

قبروں  کی زیارت کرنے والایہ دعاپڑھے:

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَتَى الْمَقْبُرَةَ، فَقَالَ:السَّلَامُ عَلَیْكُمْ دَارَ قَوْمٍ مُؤْمِنِینَ، وَإِنَّا إِنْ شَاءَ اللهُ بِكُمْ لَاحِقُونَ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قبرستان میں  تشریف لائے توفرمایاتم پرسلام ہے ،یہ مسلمانوں  کاگھرہےاورہم اللہ چاہے توتم سے ملنے والے ہیں  ۔[205]

عَنْ سُلَیْمَانَ بْنِ بُرَیْدَةَ، عَنْ أَبِیهِ، قَالَ:كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یُعَلِّمُهُمْ إِذَا خَرَجُوا إِلَى الْمَقَابِرِ، فَكَانَ قَائِلُهُمْ یَقُولُ السَّلَامُ عَلَیْكُمْ أَهْلَ الدِّیَارِ مِنَ الْمُؤْمِنِینَ وَالْمُسْلِمِینَ، وَإِنَّا، إِنْ شَاءَ اللهُ لَلَاحِقُونَ، أَسْأَلُ اللهَ لَنَا وَلَكُمُ الْعَافِیَةَ

سلمان بن بریدہ سے مروی ہے جب وہ قبرستان کی طرف نکلتے تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کوسکھلاتے، اے مسلمانوں  اورمومنوں  کے گھروالوتم پرسلام ہے ،اورتحقیق ہم اگر اللہ نے چاہا توتمہارے ساتھ ملنے والے ہیں  ہم اپنے اورتمہارے لیے عافیت مانگتے ہیں  ۔[206]

مسلمانوں  کی قبروں  کے درمیان جوتیاں  پہن کرنہیں  چلناچاہیے:

ولا یمشی بین قبور المسلمین فی نعلیه

شیخ البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں  مسلمانوں  کی قبروں  کے درمیان جوتیاں  پہن کرنہیں  چلناچاہیے۔[207]

عَنْ بَشِیرٍ، مَوْلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ،وَحَانَتْ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ نَظْرَةٌ، فَإِذَا رَجُلٌ یَمْشِی فِی الْقُبُورِ عَلَیْهِ نَعْلَانِ، فَقَالَ:یَا صَاحِبَ السِّبْتِیَّتَیْنِ، وَیْحَكَ أَلْقِ سِبْتِیَّتَیْكَ فَنَظَرَ الرَّجُلُ فَلَمَّا عَرَفَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ خَلَعَهُمَا فَرَمَى بِهِمَا

بشیر سے مروی ہے اتنے میں  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر ایک شخص پر پڑی جو قبروں  کے درمیان جوتوں  سمیت گزرہا تھا، آپ نے فرمایا اے جوتوں  والے تجھ پر افسوس ہے اپنے جوتے اتار ڈال، اس شخص نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب دیکھا، جب اس نے پہچان لیا کہ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں  تو اس نے اپنے جوتے اتار کر پھینک ڈالے۔[208]

یَحْرُمُ الْمَشْیُ بَیْنَ الْقُبُورِ بِالنِّعَالِ

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں  اس حدیث سے ثابت ہوتاہے کہ قبروں  کے درمیان جوتیاں  پہن کرچلنامکروہ ہے۔[209]

قبروں  کومسجدیں  بنالیناحرام ہے:

عَنْ عَائِشَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهَا، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ فِی مَرَضِهِ الَّذِی مَاتَ فِیهِ:لَعَنَ اللَّهُ الیَهُودَ وَالنَّصَارَى، اتَّخَذُوا قُبُورَ أَنْبِیَائِهِمْ مَسْجِدًا، قَالَتْ: وَلَوْلاَ ذَلِكَ لَأَبْرَزُوا قَبْرَهُ غَیْرَ أَنِّی أَخْشَى أَنْ یُتَّخَذَ مَسْجِدًا

ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مرض الموت میں  فرمایااللہ تعالیٰ یہودونصاریٰ پرلعنت کرے انہوں  نے اپنے انبیاء کی قبروں  کومسجدیں  بنالیا۔[210]

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:قَاتَلَ اللَّهُ الیَهُودَ، اتَّخَذُوا قُبُورَ أَنْبِیَائِهِمْ مَسَاجِدَ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ یہودیوں  کو تباہ وبرباد کر دے کہ انہوں  نے اپنے انبیاء کی قبروں  کو سجدہ گاہ بنا لیا۔ [211]

عَنْ عَائِشَةَ، أَنَّ أُمَّ حَبِیبَةَ، وَأُمَّ سَلَمَةَ ذَكَرَتَا كَنِیسَةً رَأَیْنَهَا بِالْحَبَشَةِ فِیهَا تَصَاوِیرُ لِرَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:إِنَّ أُولَئِكَ، إِذَا كَانَ فِیهِمُ الرَّجُلُ الصَّالِحُ، فَمَاتَ، بَنَوْا عَلَى قَبْرِهِ مَسْجِدًا، وَصَوَّرُوا فِیهِ تِلْكِ الصُّوَرَ، أُولَئِكِ شِرَارُ الْخَلْقِ عِنْدَ اللهِ یَوْمَ الْقِیَامَةِ

ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہےام المومنین ام حبیبہ اور ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک گرجا کا ذکر کیا جس کو انہوں  نے حبشہ میں  دیکھا تھا اور اس میں  تصویریں  لگی ہوئی تھیں  ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ان لوگوں  کا یہی حال تھا کہ جب ان میں  کوئی نیک مر جاتا تھا تو وہ لوگ اس کی قبر پر مسجد بناتے اور وہیں  تصویر بناتے،یہی لوگ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے ہاں  بدترین مخلوق ہوں  گے۔[212]

عَنْ عَبْدِ اللهِ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَقُولُ:إِنَّ مِنْ شِرَارِ النَّاسِ مَنْ تُدْرِكُهُمُ السَّاعَةُ وَهُمْ أَحْیَاءٌ، وَمَنْ یَتَّخِذُ الْقُبُورَ مَسَاجِدَ

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایابے شک بدترین لوگ وہ ہیں  جن زندہ افرادپرقیامت قائم ہوگی اورجوقبروں  کومسجدیں  بنالیتے ہیں  ۔[213]

إسناده جید

امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے فرمایااس کی سندجیدہے۔

وَكَوْنُ هَذَا الْفِعْلِ كَبِیرَةً

ابن حجرہیثمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں  قبروں  کومسجدیں  بنالیناکبیرہ گناہ ہے۔[214]

أن اتخاذ القبور مساجد حرام،الصلاة إلى القبور مستقبلا لها، السجود على القبور،بناء المساجد علیها

شیخ البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں  قبروں  کومسجدیں  بنالیناحرام ہے ،مزیدیہ کہ قبروں  کومسجدیں  بنانے میں  تین امورشامل ہیں  ، قبروں  کی طرف رخ کرکے نمازپڑھنا،قبروں  پرسجدے کرنا،قبروں  پرمسجدیں  بنانا۔[215]

قبروں  کومزین کرنااورچراغوں  سے روشن کرنابھی(حرام ہے):

قبروں  کومزین کرناچونکہ لوگوں  کے لیے فتنہ ،اہل قبرکی تعظیم اورشرک کادروازہ کھولنے کے مترادف ہے اس لیے حرام ہے۔

تزیین القبر بدعة

شیخ البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں  قبرکومزین کرنابدعت ہے۔[216]

فرجع الضمیر إلى المساجد ؛ وهو خطأ؛ بدلیل السیاق، وبدلیل قوله بعد: وتسریجها؛ فهنا لا یحتمل إرجاع الضمیر إلا إلى المساجد صدیق حسن خان رحمہ اللہ نے یہاں  مساجدکی تزئین وآرائش مرادلی ہے جوکہ خطاہے،سیاق کلام اورآئندہ الفاظ وتسریجھا اس کی دلیل ہیں  جیساکہ شیخ البانی رحمہ اللہ نے یہ وضاحت فرمائی ہے۔[217]

چراغ روشن کرنامندرجہ ذیل وجوہ کی بناپرحرام ہے۔

كونه بدعة محدثة لا یعرفها السلف الصالح ،أن فیه إضاعة للمال وهو منهی عنه بالنص،أن فیه تشبها بالمجوس عباد النار

شیخ البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں  یہ ایسی بدعت ہے جس سے سلف ناواقف تھے اورہربدعت گمراہی ہے،اس میں  مال کاضیاع ہے جوکہ نصاًممنوع ہے،اس میں  مجوسیوں  کی مشابہت ہے جوآگ کی پرستش کرتے ہیں  ۔[218]

صرح أصحابنا بحرمة السراج على القبر وإن قل، حیث لم ینتفع به مقیم ولا زائر، وعللوه بالاسراف وإضاعة المال،والتشبه بالمجوس، فلا یبعد فی هذا أن یكون كبیرة

ابن حجرہیثمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں  صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے صاف طورپرقبروں  پرچراغ جلانے کومنع فرمایاہے اورکہاہے کہ اس سے وہاں  مقیم اورزائرین کوکوئی فائدہ نہیں  ہوتا،اس عمل میں  اسراف اور مال کاضیاع ہے اوراس میں  مجوسیوں  کی مشابہت ہے،اوریہ کبیرہ گناہ ہے۔[219]

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ:لَعَنَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ زَائِرَاتِ الْقُبُورِ، وَالْمُتَّخِذِینَ عَلَیْهَا الْمَسَاجِدَ وَالسُّرُجَ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبروں  کی زیارت کرنے والی عورتوں  ان پرمسجدبنانے والوں  اورچراغ روشن کرنے والوں  پرلعنت فرمائی ہے۔[220]

أن هذا الحدیث مع شھرته ضعیف الاسناد

اس مشہورحدیث کی اسنادضعیف ہے۔[221]

قبروں  پربیٹھنااورمرنے والوں  کوگالیاں  دینا(حرام ہے):

عَنْ جَابِرٍ، قَالَ:نَهَى رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَنْ یُجَصَّصَ الْقَبْرُ، وَأَنْ یُقْعَدَ عَلَیْهِ، وَأَنْ یُبْنَى عَلَیْهِ

جابربن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبروں  کوپختہ کرنے،اس پربیٹھنے اوران پرگنبدبنانے سے منع فرمایاہے۔[222]

عَنْ أَبِی مَرْثَدٍ الْغَنَوِیِّ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:لَا تَجْلِسُوا عَلَى الْقُبُورِ، وَلَا تُصَلُّوا إِلَیْهَا

ابومرثدغنوی سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاقبرپرنہ بیٹھواورنہ اس کی طرف نمازپڑھو۔[223]

عَنْ جَابِرٍ قَالَ: نَهَى النَّبِیُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَنْ تُجَصَّصَ القُبُورُ، وَأَنْ یُكْتَبَ عَلَیْهَا، وَأَنْ یُبْنَى عَلَیْهَا، وَأَنْ تُوطَأَ.

جابربن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبروں  کو پختہ کرنے اور ان پر لکھنے ان پر تعمیر کرنے اورقبرکوروندنے سے منع فرمایا ہے۔[224]

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:لَأَنْ یَجْلِسَ أَحَدُكُمْ عَلَى جَمْرَةٍ فَتُحْرِقَ ثِیَابَهُ، فَتَخْلُصَ إِلَى جِلْدِهِ، خَیْرٌ لَهُ مِنْ أَنْ یَجْلِسَ عَلَى قَبْرٍ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاتم میں  سے کوئی شخص انگارے پربیٹھے اوروہ اس کے کپڑوں  کوجلاکرجلدتک پہنچ جائے یہ اس کے لیے قبرپربیٹھنے سے زیادہ بہترہے۔[225]

فِیهِ دَلِیلٌ عَلَى تَحْرِیمِ الْقُعُودِ عَلَى الْقَبْرِ

جمہورعلماء فرماتے ہیں  یہ حدیث دلیل ہے کہ قبرپربیٹھناحرام ہے۔[226]

الكراهة فقط

امام شافعی رحمہ اللہ اورامام ابوحنیفہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں  یہ عمل مکروہ ہے۔[227]

والحق القول بالتحریم

شیخ البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں  حرمت کاقول برحق ہے۔[228]

وَالنَّهْیُ ظَاهِرٌ فِی التَّحْرِیمِ

امیرصنعائی رحمہ اللہ فرماتے ہیں  یہ دلیل حرمت کاتقاضاکرتی ہے۔[229]

امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کافتویٰ :

وَقَالَ أَبُو حَنِیفَةَ: لَا یُجَصَّصُ الْقَبْرُ وَلَا یُطَیَّنُ وَلَا یُرْفَعُ عَلَیْهِ بِنَاءٌ،

امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں  قبرنہ توپختہ بنائی جائے اورنہ مٹی سے لیپی جائے، اورقبرپرنہ توکوئی عمارت(گنبد،قبہ،میناروغیرہ)کھڑی کی جائے۔[230]

وكره أبو حنیفة أن یبنى على القبر أو یوطأ علیه، أو یجلس علیه، أو ینام علیه، أو یقضى علیه حاجة الإنسان من بول أو غائط، أو یعلم بعلامة، أو یصلى إلیه، أو یصلى بین القبور.

اورامام ابوحنیفہ اس بات پرکراہت کرتے ہیں  کہ قبروں  پرعمارت کھڑی کی جائےیا روندا جائےیاقبروں  پربیٹھاجائےیاقبروں  پرسویاجائے،یا انسان ان پر بول وبراز کی حاجت پوری کرے،یا پہچان کے لیےنشان لگایا جائے(چاہے وہ نام کی صورت میں  ہو یا کوئی اور )، یاقبروں  پرنمازپڑھی جائے،یاقبروں  کے درمیان نمازپڑھی جائے ۔[231]

وَفِی هَذَا الْحَدِیثِ كَرَاهَةُ تَجْصِیصِ القبر والبناء عیه وَتَحْرِیمُ الْقُعُودُ وَالْمُرَادُ بِالْقُعُودِ الْجُلُوسُ عَلَیْهِ هَذَا مَذْهَبُ الشَّافِعِیِّ وَجُمْهُورِ الْعُلَمَاءِ وَقَالَ مَالِكٌ فِی الْمُوَطَّأِ الْمُرَادُ بِالْقُعُودِ الْجُلُوسُ وَمِمَّا یُوَضِّحُهُ الرِّوَایَةُ الْمَذْكُورَةُ بَعْدَ هَذَا لَا تَجْلِسُوا عَلَى الْقُبُورِ وَفِی الرِّوَایَةِ الْأُخْرَى لَأَنْ یَجْلِسَ أَحَدُكُمْ عَلَى جَمْرَةٍ فَتَحْرِقَ ثِیَابَهُ فَتَخْلُصَ إِلَى جِلْدِهِ خَیْرٌ لَهُ مِنْ أَنْ یَجْلِسَ عَلَى قَبْرٍ قَالَ أَصْحَابُنَا تَجْصِیصُ الْقَبْرِ مَكْرُوهٌ وَالْقُعُودُ عَلَیْهِ حَرَامٌ وَكَذَا الِاسْتِنَادُ إِلَیْهِ وَالِاتِّكَاءُ عَلَیْهِ وَأَمَّا الْبِنَاءُ عَلَیْهِ، قَالَ الشَّافِعِیُّ فِی الْأُمِّ وَرَأَیْتُ الْأَئِمَّةَ بِمَكَّةَ یَأْمُرُونَ بِهَدْمِ مَا یُبْنَى

امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں  اس حدیث سے پختہ قبروں  کی نہی ثابت ہوئی،اوراس کے اوپرعمارتوں  کابنانامنع ہوا،اورقبروں  پربیٹھناحرام ہوا،یہی مذہب ہے امام شافعی رحمہ اللہ کا اورجمہورعلماء کا،اورامام مالک رحمہ اللہ نے موطامیں  کہاہےاس سے مراد قبروں  کے اوپرقضائے حاجت کرنے کے لیے بیٹھناہے،اوراسی طرح تکیہ لگانا،اورمکان بنانا،اوردوسری روایت کہ تم میں  سے کوئی شخص انگارے پربیٹھے اوروہ اس کے کپڑوں  کوجلاکرجلدتک پہنچ جائے یہ اس کے لیے قبرپربیٹھنے سے زیادہ بہترہے۔اصحاب نے قبروں  کوپختہ بنانامکروہ اوران پربیٹھناحرام کہاہے،اورامام شافعی رحمہ اللہ نے الام میں  کہاہے کہ میں  نے بہت سے اماموں  کودیکھاہے کہ قہ قبروں  کے گنبدوں  وغیرہ کوگرانے کاحکم دیتے تھے ، اورفقہانے وہ مٹی جوقبرسے نکلے اس سے زیادہ مٹی لگاناتک قبرمیں  مکروہ کہاہے ،پختہ بنانااورعمارت کھڑی کرنے کاتوکیاذکرہے۔[232]

عَنْ عَائِشَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: قَالَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:لاَ تَسُبُّوا الأَمْوَاتَ، فَإِنَّهُمْ قَدْ أَفْضَوْا إِلَى مَا قَدَّمُوا

ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایامردوں  کاگالی مت دوکیونکہ انہوں  نے جوآگے بھیجاہے (یعنی جوعمل کیے ہیں  )اسے حاصل کرلیاہے۔[233]

الْمُغِیرَةَ بْنَ شُعْبَةَ یَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: لاَ تَسُبُّوا الأَمْوَاتَ فَتُؤْذُوا الأَحْیَاءَ.

مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایامردوں  کوگالی نہ دواس سے زندہ لوگوں  کوتکلیف پہنچتی ہے(کیونکہ مرنے والوں  سے ان کاقریبی تعلق ہے)۔[234]

جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ، یَقُولُ: سَمِعْتُ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:یَنْهَى أَنْ یُقْعَدَ عَلَى الْقَبْرِ، وَأَنْ یُقَصَّصَ، أَوْ یُبْنَى عَلَیْهِ

جابربن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےمیں  نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سناآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایاکہ قبرپربیٹھاجائے،انہیں  پختہ کیاجائے ،ان پرعمارت تعمیرکی جائے اوراس پر(قبرکی مٹی سے) زائدمٹی ڈالی جائے۔[235]

قبرکوعیدبنالیناممنوع ہے:

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:لَا تَجْعَلُوا بُیُوتَكُمْ قُبُورًا، وَلَا تَجْعَلُوا قَبْرِی عِیدًا، وَصَلُّوا عَلَیَّ فَإِنَّ صَلَاتَكُمْ تَبْلُغُنِی حَیْثُ كُنْتُمْ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اپنے گھروں  کو قبریں  اور میری قبر کو عید مت بنانا بلکہ مجھ پر درود بھیجنا، تم جہاں  بھی ہو گے وہیں  سے تمہارا درود مجھ تک پہنچ جائے گا۔[236]

قصد هذه القبور فی وقت معین، أو الاجتماع العام عندها فی وقت معین، هو اتخاذها عیدا

امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں  معین اوقات اوراجتماع عام کر کے معروف موسموں  میں  عبادت کے لیے قبرکے پاس جانایہ ان پرعیدمناناہے۔

اتخاذها عیدا، تقصد فی أوقات معینة، ومواسم معروفة، للتعبد عندها، أو لغیرها

شیخ البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں  عیدسے مرادیہ ہے کہ معین اوقات اورمعروف موسموں  میں  عبادت کے لیے قبرکے پاس جانا۔[237]

ووجه الدلالة أن قبر النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أفضل قبر على وجه الارض وقد نهى عن اتخاذه عیدا، فقبر غیره أولى بالنهی كائنا من كان

شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں  (اس حدیث میں  )محل شاہدیہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبرروئے زمین پرتمام قبروں  سے افضل ہے،جب اسے عیدبنانے سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایاہے تودوسری کسی بھی قبرکوعیدبنانابالاولی ممنوع ہے۔[238]

والحدیث دلیل على تحریم اتخاذ قبور الانبیاء والصالحین عیدا

شیخ البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں  یہ حدیث دلیل ہے کہ انبیاء وصالحین کی قبروں  کوعیدبناناحرام ہے۔[239]

قبروں  کی طرف سفرکرکے جاناممنوع ہے:

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:لاَ تُشَدُّ الرِّحَالُ إِلَّا إِلَى ثَلاَثَةِ مَسَاجِدَ: المَسْجِدِ الحَرَامِ، وَمَسْجِدِ الرَّسُولِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، وَمَسْجِدِ الأَقْصَى

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاتین مسجدوں  کے سواکسی کے لیے رخت سفرنہ باندھاجائے ایک مسجدحرام دوسری مسجدنبوی اورتیسری مسجداقصیٰ۔[240]

مردے کی ہڈی توڑناجائزنہیں  :

عَنْ عَائِشَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:كَسْرُ عَظْمِ الْمَیِّتِ كَكَسْرِهِ حَیًّا

ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا میّت کی ہڈی توڑنا زندگی میں  اس کی ہڈی توڑنے کے مترادف ہے۔[241]

عَنْ أَمِّ سَلَمَةَ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:كَسْرُ عَظْمِ الْمَیِّتِ كَكَسْرِ عَظْمِ الْحَیِّ فِی الْإِثْمِ

ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا میّت کی ہڈی کو توڑنا گناہ میں  زندہ کی ہڈی توڑنے کی مانند ہے۔[242]

فی الزوائد فی إسناده عبد الله بن زیاد مجهول. ولعله عبد الله بن زیاد بن سمعان المدنی أحد المتروكین

اس روایت کی سندمیں  عبداللہ بن زیادمجہول ہے،شایدیہ عبداللہ بن زیادبن سمعان المدنی ہے جومتروکین میں  ہے۔

حكم الألبانی:ضعیف

شیخ البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں  یہ ضعیف روایت ہے۔[243]

وَیَحْرُمُ قَطْعُ شَیْءٍ مِنْ أَطْرَافِ الْمَیِّتِ وَإِتْلَافُ ذَاتِهِ، وَإِحْرَاقُهُ ،وَلَوْ أَوْصَى بِهِ

حنابلہ کہتے ہیں  میت کے اعضاء میں  سے کسی کوکاٹنا،اس کی ذات کوہلاک کرنااوراسے جلادیناحرام ہے خواہ اس نے اس کی وصیت ہی کی ہو۔[244]

(فَكَذَلِكَ نَحْنُ نَأْخُذُ كَوْنَهُ كَبِیرَةً) (بِأَنَّهُ مِنْ الْكَبَائِرِ)

ابن حجرہیثمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں  یہ کبیرہ گناہوں  میں  سے ہے۔[245]

والحدیث دلیل على تحریم كسر عظم المیت المؤمن

شیخ البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں  یہ حدیث دلیل ہے کہ کسی مومن مردے کی ہڈی توڑناجائزنہیں  ۔[246]

علاوہ ازیں  علمائے کرام نے جرم کی تحقیق وتفتیش کے لیے پوست مارٹم اورعلاج معالجے کے لیے چیرپھاڑکرنے کی اجازت دی ہے۔

قبروں  پرجانورذبح کرناحرام ہے:

عَنْ أَنَسٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:لَا عَقْرَ فِی الْإِسْلَامِ

انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااسلام میں  عقر(یعنی قبرپرذبح)نہیں  ہے۔[247]

قَالَ عَبْدُ الرَّزَّاقِ:كَانُوا یَعْقِرُونَ عِنْدَ الْقَبْرِ بَقَرَةً أَوْ شَاة

امام عبدالرزاق رحمہ اللہ فرماتے ہیں  کہ (جاہلیت میں  )لوگ قبرکے پاس گائے یابکری ذبح کرتے تھے(اسے عقرکہتے ہیں  )۔[248]

عن ابن عباس، مَلْعُونٌ مَنْ سَبَّ أَبَاهُ مَلْعُونٌ مَنْ سَبَّ أُمَّهُ مَلْعُونٌ مَنْ ذَبَحَ لِغَیْرِ الله مَلْعُونٌ مَنْ غَیَّرَ تُخُومَ الأَرْضِ مَلْعُونٌ مَنْ كَمَّهَ أَعْمَى عَنْ طَرِیقٍ مَلْعُونٌ مَنْ وَقَعَ عَلَى بَهِیمَةٍ مَلْعُونٌ مَنْ عَمِلَ بِعَمَلِ قَوْمِ لُوطٍ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں  جواپنے باپ کوگالی دے وہ ملعون ہے،جواپنی ماں  کوگالی دے وہ ملعون ہے، جوغیراللہ کے نام پرجانورذبح کرے وہ ملعون ہے،وہ ملعون ہے جو کسی کی زمین ہتھیا لے،وہ بھی ملعون ہے جو کسی نابینا کو غلط راستے کی طرف راہنمائی کرے، وہ بھی ملعون ہے جو کسی جانور سے بدفعلی کرے،جوعمل لوط(ہم جنس پرستی) کرے وہ ملعون ہے۔[249]

وأما الذبح هناك فمنهی عنه مطلقا

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں  قبروں  پرذبح کرنامطلقاًمنع ہے[250]

ذَلِكَ فَهُوَ مَذْمُومٌ

امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں  قبروں  پرذبح کرنامذموم فعل ہے۔[251]

تعزیت کرنامشروع ہے:

لفظ تعزیت کامعنی تسلی دیناہے، جوکہ باب عُزَّى یُعْزَى(تفعیل )کامصدرہے۔

مُعَاوِیَةَ بْنَ قُرَّةَ، عَنْ أَبِیهِ، قَالَ: كَانَ نَبِیُّ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ إِذَا جَلَسَ یَجْلِسُ إِلَیْهِ نَفَرٌ مِنْ أَصْحَابِهِ، وَفِیهِمْ رَجُلٌ لَهُ ابْنٌ صَغِیرٌ یَأْتِیهِ مِنْ خَلْفِ ظَهْرِهِ، فَیُقْعِدُهُ بَیْنَ یَدَیْهِ، فَهَلَكَ فَامْتَنَعَ الرَّجُلُ أَنْ یَحْضُرَ الْحَلْقَةَ لِذِكْرِ ابْنِهِ، فَحَزِنَ عَلَیْهِ، فَفَقَدَهُ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ:مَالِی لَا أَرَى فُلَانًا؟قَالُوا: یَا رَسُولَ اللَّهِ، بُنَیُّهُ الَّذِی رَأَیْتَهُ هَلَكَ، فَلَقِیَهُ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَسَأَلَهُ عَنْ بُنَیِّهِ، فَأَخْبَرَهُ أَنَّهُ هَلَكَ، فَعَزَّاهُ عَلَیْهِ، ثُمَّ قَالَ:یَا فُلَانُ، أَیُّمَا كَانَ أَحَبُّ إِلَیْكَ أَنْ تَمَتَّعَ بِهِ عُمُرَكَ، أَوْ لَا تَأْتِی غَدًا إِلَى بَابٍ مِنْ أَبْوَابِ الْجَنَّةِ إِلَّا وَجَدْتَهُ قَدْ سَبَقَكَ إِلَیْهِ یَفْتَحُهُ لَكَ، قَالَ: یَا نَبِیَّ اللَّهِ، بَلْ یَسْبِقُنِی إِلَى بَابِ الْجَنَّةِ فَیَفْتَحُهَا لِی لَهُوَ أَحَبُّ إِلَیَّ، قَالَ:فَذَاكَ لَكَ

قرہ مزنی رضی اللہ عنہ سے مروی روایت میں  ہےرسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جس وقت بیٹھے تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس چند صحابہ کرام بھی تشریف رکھتے تھے، ان میں  ایک شخص تھا کہ جس کا ایک چھوٹا بچہ اس کی پشت کی جانب سے آتا تھا اور وہ اس کو اپنے سامنے بٹھلایا کرتا تھا،اتفاق سے وہ بچہ مر گیا، اس شخص نے جلسہ میں  حاضری چھوڑ دی اس خیال سے کہ بچہ یاد آئے گا،رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو نہیں  دیکھا توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ اس کی کیا وجہ ہے کہ میں  فلاں  آدمی کو نہیں  دیکھ رہا ہوں  ،لوگوں  نے عرض کیا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اس شخص کا چھوٹا بچہ جس کو کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا تھا اس کا انتقال ہوگیا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سن کر اس شخص سے ملاقات کی اور اس کے بچہ کی خیریت دریافت فرمائی، اس شخص نے جواب دیا کہ وہ بچہ تو مر چکا ہے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی تعزیت فرمائی اور اس کی وفات پر اظہار افسوس فرمایا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اے شخص! تجھ کو کونسی بات پسند ہے کہ تو تمام زندگی اس سے نفع حاصل کرتا یا یہ کہ تو جس وقت تک قیامت کے دن جنت کے کسی دروازے پر جائے گا اس کو اپنے سے پہلے وہاں  پائے گا، اور وہ تیرے واسطے دروازہ کھولے گا، اس شخص نے عرض کیا کہ اے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم ! یہ بات کہ وہ شخص جنت کے دروازہ پر مجھ سے پہلے ہی پہنچ جائے، اور میرے واسطے دوازہ کھولےمجھ کو زیادہ محبوب ہے اس کے زیادہ رہنے سے،اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ تیرے واسطے یہی ہوگا۔[252]

عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:مَنْ عَزَّى أَخَاهُ الْمُسْلِمَ فِی مُصِیبَةٍ، كَسَاهُ اللهُ حُلَّةً خَضْرَاءَ یُحْبَرُ بِهَاقِیلَ: یَا رَسُولَ اللهِ، مَا یُحْبَرُ بِهَا؟ قَالَ: یُغْبَطُ بِهَا

انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجس نے اپنے کسی مومن بھائی کومصیبت میں  تسلی دی، تواللہ تعالیٰ اسے ایساسبزلباس پہنائیں  گے جس کے ذریعے روزقیامت اس پررشک کیاجائے گا،لوگوں  نے عرض کیااے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! کسی چیز کے ساتھ رشک کرنا چاہیے،فرمایا خوشی کا اظہار کرے۔[253]

شیخ البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں  یہ حدیث شواھدکی بناپرحسن درجہ تک پہنچ جاتی ہے۔

عَنْ عَبْدِ اللهِ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: مَنْ عَزَّى مُصَابًا فَلَهُ مِثْلُ أَجْرِهِ.

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما سے مروی ہےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجس نے کسی مصیبت زدہ کوتسلی دی، تواس کے لیے بھی اس(مصیبت زدہ)کے اجرکی مثل(اجر)ہے۔[254]

حكم الألبانی:ضعیف

شیخ البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں  یہ روایت ضعیف ہے۔

الحدیث أورده ابن الجوزی فی الموضوعات

ابن جوذی رحمہ اللہ نے اس روایت کوموضوعات میں  لکھاہے۔[255]

تعزیت کے الفاظ:

تعزیت کے لیے ایسے تمام الفاظ استعمال کیے جاسکتے ہیں  جن کے ذریعے تسلی ہوجائے ،غم رک جائے اورصبرآجائے،

إِنَّ لِلَّهِ مَا أَخَذَ وَمَا أَعْطَى، وَكُلُّ شَیْءٍ عِنْدَهُ إِلَى أَجَلٍ مُسَمًّى، فَلْتَصْبِرْ وَلْتَحْتَسِبْ

البتہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ سے مروی روایت میں  یہ الفاظ ثابت ہیں  اللہ کی جو چیز تھی وہ لے لی اور اسی کی ہے وہ چیز جو اس نے دی، اور ہر شخص کی ایک مدت مقرر ہےاس لئے صبر کر اور اسے بھی ثواب سمجھ۔[256]

وهذا الحدیث أحسن ما یعزی به

امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں  جن الفاظ کے ساتھ تعزیت کی جائے ان میں  یہ حدیث سب سے عمدہ ہے۔[257]

مصیبت زدہ شخص ابتدائی طورپرصبرکامظاہرہ کرے:

عَنْ أَنَسٍ، قَالَ: أَتَى نَبِیُّ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عَلَى امْرَأَةٍ تَبْكِی عَلَى صَبِیٍّ لَهَا، فَقَالَ لَهَا: اتَّقِی اللَّهَ، وَاصْبِرِی، فَقَالَتْ: وَمَا تُبَالِی أَنْتَ بِمُصِیبَتِی، فَقِیلَ لَهَا: هَذَا النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَأَتَتْهُ، فَلَمْ تَجِدْ عَلَى بَابِهِ بَوَّابِینَ، فَقَالَتْ: یَا رَسُولَ اللَّهِ، لَمْ أَعْرِفْكَ، فَقَالَ:إِنَّمَا الصَّبْرُ عِنْدَ الصَّدْمَةِ الْأُولَى أَوْ: عِنْدَ أَوَّلِ صَدْمَةٍ

انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک عورت کے پاس پہنچے جو اپنے بچہ کی موت پر آہ و زاری کر رہی تھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا اللہ سے ڈر اور صبر کر، وہ بولی جو افتاد مجھ پر پڑی ہے وہ تم پر نہیں  پڑی، لوگوں  نے اس کو بتایا یہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم تھے، پس وہ (معذرت کی غرض سے) آپ کے پاس گئی اس نے آپ کے دروازے پر (امراء و حکام کی عادت کے مطابق) دربان نہیں  پائے،وہ بولی اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! میں  آپ کو پہچان نہ سکی تھی (اسی بنا پر میری زبان سے نا مناسب کلمات نکل گئے تھے )آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا صبر تو صدمہ کے شروع ہی میں  ہے یا یہ فرمایا کہ صبر تو پہلے صدمہ میں  ہے۔[258]

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:یَقُولُ اللَّهُ تَعَالَى: مَا لِعَبْدِی المُؤْمِنِ عِنْدِی جَزَاءٌ، إِذَا قَبَضْتُ صَفِیَّهُ مِنْ أَهْلِ الدُّنْیَا ثُمَّ احْتَسَبَهُ، إِلَّا الجَنَّةُ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااللہ تعالیٰ فرماتاہے میرے (اس)مومن بندے کے لیے بہشت ہے جس کے پیارے کومیں  اہل دنیاسے قبض کرتاہوں  اوروہ (اس کی موت پر)صبرکرے۔[259]

مصیبت زدہ شخص مندرجہ ذیل دعائیں  پڑھے:

الَّذِیْنَ اِذَآ اَصَابَتْهُمْ مُّصِیْبَةٌ۝۰ۙ قَالُوْٓا اِنَّا لِلهِ وَاِنَّآ اِلَیْهِ رٰجِعُوْنَ۝۱۵۶ۭ [260]

ترجمہ: اِن حالات میں  جو لوگ صبر کریں  اور جب کوئی مصیبت پڑے تو کہیں  کہ ہم اللہ ہی کے ہیں  اور اللہ ہی کی طرف ہمیں  پلٹ کر جانا ہے، انہیں  خوشخبری دے دو ۔

اللهُمَّ أْجُرْنِی فِی مُصِیبَتِی وَاخْلُفْنِی خَیْرًا مِنْهُ

اے اللہ!ہم اپنی مصیبت کا ثواب تجھ ہی سے طلب کرتے ہیں  تومجھ کواس کابہترین اجردے[261]

میت کے گھروالوں  کے لیے کھانابھیجنابھی مشروع ہے:

عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ جَعْفَرٍ قَالَ: لَمَّا جَاءَ نَعْیُ جَعْفَرٍ، قَالَ النَّبِیُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: اصْنَعُوا لأَهْلِ جَعْفَرٍ طَعَامًا، فَإِنَّهُ قَدْ جَاءَهُمْ مَا یَشْغَلُهُمْ.

عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہ سے مروی ہےجب جعفر رضی اللہ عنہ بن ابی طالب کی خبرشہادت موصول ہوئی تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجعفرکے گھروالوں  کے لیے کھاناتیارکروان کوایسی (تکلیف دہ) اطلاع ملی ہے جوانہیں  کھاناپکانے سے مشغول رکھے گی۔[262]

میت کے قریبی رشتہ داروں  ،پڑوسیوں  اوردوستوں  کوچاہیے کہ وہ میت کے گھروالوں  کے لیے تین دن تک کھاناتیارکریں  ،لیکن معاملہ اس کے برعکس ہے کہ کسی انسان کی موت کوبہترین شکم پروری کاذریعہ سمجھاجاتاہے ،بعض لوگ ایصال ثواب کابہانہ بناکریتیموں  اوربیواؤں  کاسارامال ہڑپ کرجاتے ہیں  ۔

تعزیت کے لیے کسی ایک جگہ پراکٹھے ہونا:

(مثلاًگھر،قبرستان یامسجدوغیرہ میں  )اوراہل میت کاآنے والوں  کے لیے کھاناتیارکرنادرست نہیں  ۔

عَنْ جَرِیرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الْبَجَلِیِّ، قَالَ:كُنَّا نَرَى الِاجْتِمَاعَ إِلَى أَهْلِ الْمَیِّتِ وَصَنْعَةَ الطَّعَامِ مِنَ النِّیَاحَةِ

جریربن عبداللہ بجلی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ہم میت کے گھروالوں  کے پاس جمع ہونے اورتدفین کے بعدکھاناتیارکرنے کونوحہ شمارکرتے تھے۔[263]

وإسناده صحیح على شرط الشیخین

حافظ بوصیری رحمہ اللہ فرماتے ہیں  اس روایت کی اسنادشیخین کی شرط پر صحیح ہے۔[264]

وَأَمَّا إصْلَاحُ أَهْلِ الْمَیِّتِ طَعَامًا وَجَمْعُ النَّاسِ عَلَیْهِ فَلَمْ یُنْقَلْ فیه شئ وَهُوَ بِدْعَةٌ غَیْرُ مُسْتَحَبَّةٍ

صاحب الشامل فرماتے ہیں  میت کے اہل خانہ بذات خود کھانا تیار کریں  ، اور لوگوں  کو جمع کریں  ،اور اس میں  سے کسی چیز کوتقسیم نہ کرنا بدعت ہے، اور غیر مستحب فعل ہے۔[265]

یتیم کے سرپرہاتھ پھیرنااوراس کااکرام کرنامستحب ہے:

أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ جَعْفَرٍ، قَالَ: لَوْ رَأَیْتَنِی وَقُثَمَ وَعُبَیْدَ اللَّهِ ابْنَیْ عَبَّاسٍ ، وَنَحْنُ صِبْیَانٌ نَلْعَبُ، إِذْ مَرَّ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عَلَى دَابَّةٍ، فَقَالَ:ارْفَعُوا هَذَا إِلَیَّ قَالَ: فَحَمَلَنِی أَمَامَهُ، وَقَالَ لِقُثَمَ: ارْفَعُوا هَذَا إِلَیَّ فَجَعَلَهُ وَرَاءَهُ، وَكَانَ عُبَیْدُ اللَّهِ أَحَبَّ إِلَى عَبَّاسٍ مِنْ قُثَمَ، فَمَا اسْتَحَى مِنْ عَمِّهِ أَنْ حَمَلَ قُثَمًا وَتَرَكَهُ، قَالَ: ثُمَّ مَسَحَ عَلَى رَأْسِی ثَلاثًا، وَقَالَ كُلَّمَا مَسَحَ:اللَّهُمَّ اخْلُفْ جَعْفَرًا فِی وَلَدِهِ قَالَ: قُلْتُ لِعَبْدِ اللَّهِ: مَا فَعَلَ قُثَمُ؟ قَالَ: اسْتُشْهِدَ، قَالَ: قُلْتُ: اللَّهُ أَعْلَمُ بِالْخَیْرِ وَرَسُولُهُ بِالْخَیْرِ، قَالَ: أَجَلْ

عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہ (جعفر رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد) فرماتے ہیں  کاش! تم نے اس وقت مجھے اور عباس رضی اللہ عنہ کے دو بیٹوں  قثم اور عبیداللہ کو دیکھا ہوتا جب کہ ہم بچے آپس میں  کھیل رہے تھےکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنی سواری پر وہاں  سے گذر ہوا،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس بچے کو اٹھا کر مجھے پکڑاؤ اور اٹھا کر مجھے اپنے آگے بٹھا لیا،پھر قثم کو پکڑانے کے لئے کہا اور انہیں  اپنے پیچھے بٹھالیا، جبکہ عباس رضی اللہ عنہ کی نظروں  میں  قثم سے زیادہ عبیداللہ محبوب تھا، لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے چچا سے اس معاملے میں  کوئی عار محسوس نہ ہوئی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قثم کو اٹھا لیا اور عبیداللہ کو چھوڑ دیا،پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تین مرتبہ میرے سر پر ہاتھ پھیرا ،اور فرمایا اے اللہ! جعفر کا اس کی اولاد کے لئے کوئی نعم البدل عطاء فرما، راوی کہتے ہیں  کہ میں  نے عبداللہ سے پوچھا کہ قثم کا کیا بنا؟انہوں  نے فرمایا کہ وہ شہید ہوگئے،میں  نے کہا کہ اللہ اور اس کا رسول ہی خیر کو بہت طور پر جانتے ہیں  ،انہوں  نے فرمایا بالکل ایسا ہی ہے۔[266]

وفات کے بعدمیت کوجن اشیاکافائدہ ہوتاہے

مسلمانوں  کی دعا:

جبکہ اس میں  قبولیت کی شرائط موجودہوں  ۔ارشادباری تعالیٰ ہے

وَالَّذِیْنَ جَاۗءُوْ مِنْۢ بَعْدِهِمْ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلِاِخْوَانِنَا الَّذِیْنَ سَبَقُوْنَا بِالْاِیْمَانِ وَلَا تَجْعَلْ فِیْ قُلُوْبِنَا غِلًّا لِّلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا رَبَّنَآ اِنَّكَ رَءُوْفٌ رَّحِیْمٌ [267]

ترجمہ:(اور وہ ان لوگوں  کے لیے بھی ہے) جو اِن اگلوں  کے بعد آئے ہیں  جو کہتے ہیں  کہ اے ہمارے رب ! ہمیں  اور ہمارے ان سب بھائیوں  کو بخش دے جو ہم سے پہلے ایمان لائے ہیں  اور ہمارے دلوں  میں  اہل ایمان کے لیے کوئی بُغض نہ رکھ ، اے ہمارے رب تو بڑا مہربان اور رحیم ہے۔

ولی کامیت کے روزوں  کی قضائی دینا:

عَنْ عَائِشَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهَا، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:مَنْ مَاتَ وَعَلَیْهِ صِیَامٌ صَامَ عَنْهُ وَلِیُّهُ

ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجوشخص فوت ہوجائے اوراس کے ذمے کچھ روزے ہوں  تواس کاولی اس کی طرف سے روزے رکھے۔[268]

میت کی نذرپوری کرنا:

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُمَا: أَنَّ سَعْدَ بْنَ عُبَادَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ اسْتَفْتَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: إِنَّ أُمِّی مَاتَتْ وَعَلَیْهَا نَذْرٌ، فَقَالَ:اقْضِهِ عَنْهَا

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہےسعدبن عبادہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیابے شک میری والدہ وفات پاگئی ہیں  اوراس کے ذمے نذرہے (تومیں  کیاکروں  ) ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاتم اس کی طرف سے نذرپوری کردو۔[269]

میت کی طرف سے کوئی بھی شخص قرض اداکرسکتاہے:

عَنْ سَلَمَةَ بْنِ الأَكْوَعِ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: كُنَّا جُلُوسًا عِنْدَ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، إِذْ أُتِیَ بِجَنَازَةٍ، فَقَالُوا: صَلِّ عَلَیْهَا، فَقَالَ:هَلْ عَلَیْهِ دَیْنٌ؟، قَالُوا: لاَ، قَالَ:فَهَلْ تَرَكَ شَیْئًا؟، قَالُوا: لاَ، فَصَلَّى عَلَیْهِ، ثُمَّ أُتِیَ بِجَنَازَةٍ أُخْرَى، فَقَالُوا: یَا رَسُولَ اللَّهِ، صَلِّ عَلَیْهَا، قَالَ:هَلْ عَلَیْهِ دَیْنٌ؟قِیلَ: نَعَمْ، قَالَ:فَهَلْ تَرَكَ شَیْئًا؟، قَالُوا: ثَلاَثَةَ دَنَانِیرَ، فَصَلَّى عَلَیْهَا، ثُمَّ أُتِیَ بِالثَّالِثَةِ، فَقَالُوا: صَلِّ عَلَیْهَا، قَالَ:هَلْ تَرَكَ شَیْئًا؟، قَالُوا: لاَ، قَالَ:فَهَلْ عَلَیْهِ دَیْنٌ؟، قَالُوا: ثَلاَثَةُ دَنَانِیرَ، قَالَ:صَلُّوا عَلَى صَاحِبِكُمْ، قَالَ أَبُو قَتَادَةَ صَلِّ عَلَیْهِ یَا رَسُولَ اللَّهِ وَعَلَیَّ دَیْنُهُ، فَصَلَّى عَلَیْهِ

سلمہ بن اکوع سے مروی ہےہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے اس اثناء میں  ایک جنازہ لایا گیا، لوگوں  نے عرض کیا اس پر نماز پڑھ دیں  ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس پر کوئی قرض ہے؟ہم نے کہا نہیں  ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایااس نے کوئی چیزچھوڑی ہے، ہم نے کہا نہیں  ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر نماز پڑھی،پھر ایک دوسرا جنازہ لایا گیا، لوگوں  نے عرض کیا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اس پر نماز پڑھ دیں  ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا اس پر کوئی قرض ہے؟لوگوں  نے جواب دیا ہاں  ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس نے کوئی چیز چھوڑی ہے،لوگوں  نے کہا تین دینار، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر نماز پڑھی،پھر ایک تیسرا جنازہ لایا گیا تو لوگوں  نے عرض کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس پر نماز پڑھ دیں  ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس نے کوئی چیز چھوڑی ہے؟ لوگوں  نے کہا نہیں  ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس پر قرض ہے؟لوگوں  نے کہا تین دینار،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم اپنے ساتھی پر نماز پڑھ لو،ابوقتادہ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ اس پر نماز پڑھیں  میں  اس کے قرض کا ذمہ دار ہوں  ، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر نماز جنازہ پڑھی۔[270]

صالح اولادجوبھی نیک اعمال سرانجام دے:

ارشادباری تعالیٰ ہے

 وَاَنْ لَّیْسَ لِلْاِنْسَانِ اِلَّا مَا سَعٰى۝۳۹ۙ [271]

ترجمہ:اور یہ کہ انسان کے لیے کچھ نہیں  ہے مگر وہ جس کی اس نے سعی کی ہے۔

اوراولادانسان کی کوشش وکمائی میں  سے ہے ،

عَنْ عَائِشَةَ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ:إِنَّ أَطْیَبَ مَا أَكَلَ الرَّجُلُ مِنْ كَسْبِهِ، وَإِنَّ وَلَدَهُ مِنْ كَسْبِهِ

ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایابے شک سب سے پاکیزہ چیزجسے انسان کھاتاہے وہ اس کی(اپنے ہاتھوں  کی)کمائی ہے، اوربے شک اس کی اولادبھی اس کی کمائی میں  سے ہی ہے۔[272]

صدقہ جاریہ اوراچھے اثرات:

ارشادباری تعالیٰ ہے

 اِنَّا نَحْنُ نُـحْیِ الْمَوْتٰى وَنَكْتُبُ مَا قَدَّمُوْا وَاٰثَارَهُمْ۝۰ۭوَكُلَّ شَیْءٍ اَحْصَیْنٰهُ فِیْٓ اِمَامٍ مُّبِیْنٍ۝۱۲ۧ [273]

ترجمہ:ہم یقینا ایک روز مُردوں  کو زندہ کرنے والے ہیں  ،جو کچھ افعال انہوں  نے کیے ہیں  وہ سب ہم لکھتے جا رہے ہیں  اور جو کچھ آثار انہوں  نے پیچھے چھوڑے ہیں  وہ بھی ہم ثبت کر رہے ہیں  ، ہر چیز کو ہم نے ایک کھلی کتاب میں  درج کر رکھا ہے ۔

 یٰٓاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللهَ وَلْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ لِغَدٍ۝۰ۚ وَاتَّقُوا اللهَ۝۰ۭ اِنَّ اللهَ خَبِیْرٌۢ بِمَا تَعْمَلُوْنَ۝۱۸وَلَا تَكُوْنُوْا كَالَّذِیْنَ نَسُوا اللهَ فَاَنْسٰـىهُمْ اَنْفُسَهُمْ۝۰ۭ اُولٰۗىِٕكَ هُمُ الْفٰسِقُوْنَ۝۱۹ [274]

ترجمہ:اے لوگو جو ایمان لائے ہو ! اللہ سے ڈرو اور ہر شخص یہ دیکھے کہ اس نے کل کے لیے کیا سامان کیا ہے اللہ سے ڈرتے رہو اللہ یقینا تمہارے ان سب اعمال سے باخبر ہے جو تم کرتے ہو،ان لوگوں  کی طرح نہ ہو جاؤ جو اللہ کو بُھول گئےتو اللہ نے انہیں  خود اپنا نفس بُھلا دیایہی لوگ فاسق ہیں  ۔

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:إِذَا مَاتَ الْإِنْسَانُ انْقَطَعَ عَنْهُ عَمَلُهُ إِلَّا مِنْ ثَلَاثَةٍ: إِلَّا مِنْ صَدَقَةٍ جَارِیَةٍ، أَوْ عِلْمٍ یُنْتَفَعُ بِهِ، أَوْ وَلَدٍ صَالِحٍ یَدْعُو لَهُ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجب انسان فوت ہوجاتاہے توتین اعمال کے سوااس کے تمام اعمام منقطع ہوجاتے ہیں  ، صدقہ جاریہ،ایساعلم جس سے لوگ فائدہ اٹھاتے ہوں  ،نیک وصالح اولادجواس کے لیے دعاکرتی رہے۔[275]

قَالَ الْعُلَمَاءُ مَعْنَى الْحَدِیثِ أَنَّ عَمَلَ الْمَیِّتِ یَنْقَطِعُ بِمَوْتِهِ وَیَنْقَطِعُ تَجَدُّدُ الْثوَابِ لَهُ إِلَّا فِی هَذِهِ الْأَشْیَاءِ الثَّلَاثَةِ لِكَوْنِهِ كَانَ سَبَبَهَا فَإِنَّ الْوَلَدَ مِنْ كَسْبِهِ ،وَكَذَلِكَ الْعِلْمُ الَّذِی خَلَّفَهُ مِنْ تَعْلِیمٍ أَوْ تَصْنِیفٍ وَكَذَلِكَ الصَّدَقَةُ الْجَارِیَةُ وَهِیَ الْوَقْفُ، وَقَدْ سَبَقَ بَیَانُ اخْتِلَافِ أَحْوَالِ النَّاسِ فِیهِ وَأَوْضَحْنَا ذَلِكَ فِی كِتَابِ النِّكَاحِ وَفِیهِ دَلِیلٌ لِصِحَّةِ أَصْلِ الْوَقْفِ وَعَظِیمِ ثَوَابِهِ وَبَیَانُ فَضِیلَةِ الْعِلْمِ وَالْحَثُّ عَلَى الِاسْتِكْثَارِ مِنْهُ وَالتَّرْغِیبُ فِی تَوْرِیثِهِ بِالتَّعْلِیمِ وَالتَّصْنِیفِ وَالْإِیضَاحِ وَأَنَّهُ یَنْبَغِی أَنْ یَخْتَارَ مِنَ الْعُلُومِ الْأَنْفَعَ فَالْأَنْفَعَ ، وَفِیهِ فَضِیلَةُ الزَّوَاجِ لِرَجَاءِ وَلَدٍ صَالِحٍ

امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں  علماء نے کہاہے کہ اس حدیث کامطلب یہ ہے کہ جب آدمی فوت ہوجاتاہے تواس کاعمل موقوف ہوجاتاہے اوراب اس کوتین چیزوں  کے علاوہ نیاثواب حاصل نہیں  ہوتاکیونکہ میت ان کاسبب بنتی ہے اولادتواس کی کمائی ہے ، اسی طرح وہ علم تعلیم ہویاتصنیف ہو جس کووہ دنیامیں  چھوڑگیا،اسی طرح صدقہ جاریہ جیسے وقف،اوراس حدیث سے اس نکاح کی بڑی فضیلت ثابت ہوئی جوولدصالح کی امیدسے کیاجائے،اوراس میں  صحت وقف اورکثرت ثواب کی دلیل ہے اورعلم کی فضیلت ظاہرہے، اورعلم حاصل کرنے اس کے پھیلانے اورچھوڑجانےکی تعلیم یاتصنیف سے یاشرح سے کی ترغیب ہے،اورانسان کے لیے ضروری ہے کہ تمام علموں  میں  سے وہ علم اختیارکرے جوسب سے زیادہ مفیدہے،

وَفِیهِ أَنَّ الدُّعَاءَ یَصِلُ ثَوَابُهُ إِلَى الْمَیِّتِ وَكَذَلِكَ الصَّدَقَةُ وَهُمَا مُجْمَعٌ عَلَیْهِمَا وَكَذَلِكَ قَضَاءُ الدَّیْنِ كَمَا سَبَقَ وَأَمَّا الْحَجُّ فَیَجْزِی عَنِ الْمَیِّتِ عِنْدَ الشَّافِعِیِّ وَمُوَافِقِیهِ وَهَذَا دَاخِلٌ فِی قَضَاءِ الدَّیْنِ إِنْ كَانَ حَجًّا وَاجِبًا وَإِنْ كَانَ تَطَوُّعًا وصى به فهو مِنْ بَابِ الْوَصَایَا ، وَأَمَّا إِذَا مَاتَ وَعَلَیْهِ صِیَامٌ فَالصَّحِیحُ أَنَّ الْوَلِیَّ یَصُومُ عَنْهُ وَسَبَقَتِ الْمَسْأَلَةُ فِی كِتَابِ الصِّیَامِ وَأَمَّا قِرَاءَةُ الْقُرْآنِ وَجَعْلُ ثَوَابِهَا لِلْمَیِّتِ وَالصَّلَاةُ عَنْهُ وَنَحْوُهُمَا فَمَذْهَبُ الشَّافِعِیِّ وَالْجُمْهُورِ أَنَّهَا لَا تَلْحَقُ الْمَیِّتَ

اوریہ بھی ثابت ہواکہ دعاکاصدقہ کااوراسی طرح ادائے قرض کاثواب میت کوپہنچتاہےاور میت کی طرف سے حج کرنا کفایت کرجاتاہے فرض حج ہو اگر نفلی حج ہوگا تو وہ وصیت کے زمرہ میں  آئے گااس پراجماع ہے، اور روزہ میت کاولی اس کی طرف سے رکھ سکتاہے، لیکن قرآن کاپڑھنااوراس کاثواب میت کوپہنچانایانمازپڑھناتوامام شافعی رحمہ اللہ اورجمہورعلماء کایہ مذہب ہے کہ ان چیزوں  کاثواب میت کونہیں  پہنچتا۔[276]

نقش اسم المیت وتاریخ موته على القبر

قبرپرمیت کانام اورتاریخ وفات لکھنا:

شیخ البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں  یہ بدعت ہے۔[277]

 قال أصحابنا: وسواء كان المكتوب على القبر فی لوح عند رأسه كما جرت عادة بعض الناس، أم فی غیره، فكله مكروه لعموم الحدیث ،واستثنى بعض العلماء كتابة اسم المیت لا على وجه الزخرفة، بل للتعرف قیاسا على وضع النبی صلى الله علیه وسلم الحجر على قبر عثمان بن مظعون كما تقدم فی المسألة المشار إلیها آنفا . قال الشوكانی:وهو من التخصیص بالقیاس وقد قال به الجمهور، لا أنه قیاس فی مقابلة النص

امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں  شوافع کہتے ہیں  بعض لوگوں  رسم ورواج کے مطابق قبر کے سرانے تختی وغیرہ لگاتے ہیں  جوکہ حدیث کے مطابق مکروہ ہے۔بعض علماء استثنائی صورت میں  میت کا نام زیب وزینت کے طور پر لکھنےکی اجازت دیتے ہیں  ، اور اس بات سے قیاس پکڑتے ہیں  کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ کی قبرپر پتھر نشانی کے طور پر رکھا تھا، جیسا کہ پہلے مسئلہ میں  اس بات کی طرف اشارہ ہوچکا ہے، اور امام شوکانی فرماتے ہیں  جمہور کے مطابق یہ قیاس کے ساتھ مخصوص ہے ، نصوص کی موجودگی میں  قیاس کی کوئی حیثیت نہیں  ہوتی۔[278]

لیس العمل علیه، فإن أئمة المسلمین من الشرق إلى الغرب مكتوب على قبورهم وهو عمل أخذ به الخلف عن السلف

امام حاکم رحمہ اللہ فرماتے ہیں  اس پر کسی کا عمل نہیں  مشرق ومغرب کے ائمہ کرام کی قبروں  پر یہ لوحات لکھے ہوئے ہیں  اسی بناء پر خلف نے سلف سے یہی طریقہ اخذ کیا ہے۔[279]

ما قلت طائلا، ولا نعلم صحابیا فعل ذلك، وإنما هو شئ أحدثه بعض التَّابِعین فمن بعدهم – ولم یبلغهم النهی

امام ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں  سلف سے یہ فعل ثابت نہیں  بلکہ یہ بعض تابعین اور ان کے بعد کی بدعت ہےاور انہیں  نہی کا حکم نہیں  پہنچا تھا۔[280]

وفات کے تیسرے اورچالیسویں  دن ختم وغیرہ کی مجالس:

لم یثبت عن النبی صلى الله علیه وسلم، ولا عن أصحابه رضی الله عنهم ولا عن السلف الصالح إقامة حفل للمیت مطلقًا لا عند وفاته ولا بعد إسبوع أو أربعین یومًا أو سنة من وفاته، بل ذلك بدعة وعادة قبیحة كانت عند قدماء المصریین وغیرهم من الكافرین

ابن باز رحمہ اللہ فرماتے ہیں  ایسے پروگرام جمعرات ، چالیسواں  ،برسی منعقدکرنانبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام اور سلف صالحین سے ثابت نہیں  بلکہ

یہ بدعت گندی عادت ہےایسے پروگرام منعقد کرنا تو قدیم مصریوں  اور کافروں  کا کام تھا۔[281]

اتِّخَاذُ الضِّیَافَةِ مِنْ الطَّعَامِ مِنْ أَهْلِ الْمَیِّتِ لِأَنَّهُ شُرِعَ فِی السُّرُورِ لَا فِی الشُّرُورِ، وَهِیَ بِدْعَةٌ مُسْتَقْبَحَةٌ

ابن ہمام حنفی رحمہ اللہ لکھتے ہیں  میت کے گھرکھاناکھانابری بدعت ہے۔[282]

ابن الهمام فی شرح الهدایة على كراهة اتخاذ الضیافة من الطعام من أهل المیت وقال: وهی بدعة قبیحة۔

ابن ہمام حنفی رحمہ اللہ شرح ہدایہ میں  لکھتے ہیں  میت کے گھرکھاناکھانابہت بری بدعت ہے۔[283]

ملاعلی قاری حنفی رحمہ اللہ لکھتے ہیں  اہل میت کے گھرمیں  ضیافت کاکھانامکروہ ہے اس لیے کہ ضیافت خوشی میں  ہوتی ہے غمی میں  نہیں  ہوتی یہ انتہائی بری بدعت ہے۔[284]

[1] صحیح بخاری کتاب الجنائزبَابُ السُّرْعَةِ بِالْجِنَازَةِ۱۳۱۵، صحیح مسلم کتاب الجنائز بَابُ الْإِسْرَاعِ بِالْجَنَازَةِ ۲۱۸۶،سنن ابوداودکتاب الجنائزبَابُ الْإِسْرَاعِ بِالْجَنَازَةِ ۳۱۸۱،جامع ترمذی ابواب الجنائز بَابُ مَا جَاءَ فِی الإِسْرَاعِ بِالجَنَازَةِ ۱۰۱۵،سنن نسائی کتاب الجنائزباب السُّرْعَةُ بِالْجَنَازَةِ۱۰۱۲،سنن ابن ماجہ کتاب الجنائز بَابُ مَا جَاءَ فِی شُهُودِ الْجَنَائِزِ ۱۴۷۷،مسنداحمد۷۲۶۷،شرح السنة للبغوی۱۴۸۱،معرفة السنن والآثار۷۴۸۱،السنن الکبری للبیہقی۶۸۴۴،مصنف ابن ابی شیبة۱۱۲۶۳،احکام الجنائز۷۱؍۱

[2] سنن ابوداودکتاب الجنائزبَابُ الْإِسْرَاعِ بِالْجَنَازَةِ ۳۱۸۲،سنن نسائی کتاب الجنائز باب السُّرْعَةُ بِالْجَنَازَةِ۱۹۱۴،مسنداحمد۲۰۳۸۸،مستدرک حاکم۵۸۸۴، السنن الکبری للبیہقی۶۸۴۸

[3] السنن الکبری للبیہقی۶۶۵۴،صحیح ابن حبان ۳۱۵۰،شرح السنة للبغوی۱۵۲۳،مسنداحمد۱۹۵۴۷،احکام الجنائز۸؍۱

[4] سنن ابن ماجہ کتاب الجنائزبَابُ مَا جَاءَ فِی شُهُودِ الْجَنَائِزِ ۱۴۷۹، مسند احمد ۱۹۶۹۵

[5] مصباح الزجاجة۲۸؍۲

[6] سنن ابوداودکتاب الجنائزبَابُ الْإِسْرَاعِ بِالْجَنَازَةِ ۳۱۸۴،مشکاة المصابیح ۱۶۶۹،جامع ترمذی ابواب الجنائز بَابُ مَا جَاءَ فِی الْمَشْیِ خَلْفَ الجَنَازَةِ ۱۰۱۱،السنن الکبری للبیہقی ۶۸۴۹،مسنداحمد۳۹۳۹،معرفة السنن والآثار۷۵۰۶،شرح السنة للبغوی۱۴۸۸،مسندابی یعلی۵۰۳۸

[7] سنن ابوداودکتاب الجنائزبَابُ الْإِسْرَاعِ بِالْجَنَازَةِ ۳۱۸۴

[8] السنن الکبری للبیہقی۶۸۴۹

[9] جامع ترمذی ابواب الجنائز بَابُ مَا جَاءَ فِی الْمَشْیِ خَلْفَ الجَنَازَةِ ۱۰۱۱

[10] شرح السنة للبغوی۱۴۸۸

[11] مسندابی یعلی۵۰۳۸

[12] الروضة الندیة۱۷۳؍۱

[13] الروضة الندیة۱۷۲؍۱

[14] فتح الباری۱۸۳؍۳

[15] المجموع شرح المہذب ۲۷۱؍۵

[16] المحلی۳۸۱؍۳

[17] احکام الجنائز۷۱

[18] صحیح مسلم کتاب السلام بَابُ مِنْ حَقِّ الْمُسْلِمِ لِلْمُسْلِمِ رَدُّ السَّلَامِ ۵۶۵۱، مسند احمد ۸۸۴۵،صحیح ابن حبان۲۴۲،شعب الایمان۸۷۳۷،شرح السنة للبغوی۱۴۰۵،مسندابی یعلی۶۵۰۴،السنن الکبری للبیہقی۱۰۹۰۹

[19] بخاری فی الادب المفرد۵۱۸، مصنف ابن ابی شیبة۱۰۸۴۱،شرح السنة للبغوی ۱۵۰۳، مسنداحمد۱۱۲۷۰،صحیح ابن حبان ۲۹۵۵،شعب الایمان ۸۷۵۰،مسندابی یعلی ۱۱۱۹،السنن الکبری للبیہقی ۶۵۷۸،احکام الجنائز۶۶؍۱

[20] سبل السلام۶۱۴؍۲

[21] احکام الجنائز۶۶؍۱

[22] ۔سنن ابن ماجہ کتاب الجنائز بَابُ مَا جَاءَ فِی شُهُودِ الْجَنَائِزِ ۱۴۷۸، مسند ابوداود الطیالسی ۳۳۰،السنن الکبری للبیہقی ۶۸۳۴، شرح السنة للبغوی۱۴۸۸،مصنف ابن ابی شیبة۱۱۲۸۱

[23] سنن ابن ماجہ کتاب الجنائز بَابُ مَا جَاءَ فِی شُهُودِ الْجَنَائِزِ ۱۴۷۸

[24] مصنف عبدالرزاق۶۵۱۸

[25] جامع ترمذی ابواب الجنائز بَابُ مَا جَاءَ فِی القِیَامِ لِلْجَنَازَةِ ۱۰۴۱، شرح السنة للبغوی۱۵۰۱

[26] جامع ترمذی ابواب الجنائز بَابُ مَا جَاءَ فِی القِیَامِ لِلْجَنَازَةِ۱۰۴۱

[27] نیل الاوطار ۸۵؍۴

[28] شرح معانی الآثار ۲۷۵۵،سنن ابن ماجہ کتاب الجنائزبَابُ مَا جَاءَ فِی الْمَشْیِ أَمَامَ الْجِنَازَةِ۱۴۸۲،احکام الجنائز۷۴؍۱

[29] سنن ابوداودکتاب الجنائزبَابُ الْمَشْیِ أَمَامَ الْجَنَازَةِ ۳۱۸۰،سنن ابن ماجہ کتاب الجنائز بَابُ الْمَشْیِ أَمَامَ الْجَنَازَةِ ۳۱۸۰، مسند احمد ۱۸۱۸۱،السنن الکبری للبیہقی ۶۷۷۹،شرح السنة للبغوی۱۴۸۸،معرفة السنن والآثار۷۵۰۳، مسند البزار ۵۹۹۹،احکام الجنائز۷۳؍۱

[30] سنن ابوداودکتاب الجنائزبَابُ الْمَشْیِ أَمَامَ الْجَنَازَةِ ۳۱۷۹،جامع ترمذی ابواب الجنائز بَابُ مَا جَاءَ فِی الْمَشْیِ أَمَامَ الجَنَازَةِ ۱۰۰۷،سنن نسائی کتاب الجنائز باب مَكَانُ الْمَاشِی مِنَ الْجَنَازَةِ۱۹۴۶،سنن ابن ماجہ کتاب الجنائز بَابُ مَا جَاءَ فِی الْمَشْیِ أَمَامَ الْجِنَازَةِ ۱۴۸۲،شرح معانی الآثار۲۷۴۲،سنن الدارقطنی۱۸۰۹،السنن الکبری للبیہقی۶۸۵۷،مصنف ابن ابی شیبة۱۱۲۲۴،شرح السنة للبغوی ۱۴۸۸،صحیح ابن حبان ۳۰۴۵،مسنداحمد۴۵۳۹،مسندابی یعلی ۵۴۲۱

[31] الام للشافعی۳۱۰؍۱،بدائع الصنائع۳۱۰؍۱، المبسوط ۵۷؍۲، المغنی۳۵۴؍۲، نیل الاوطار۸۸؍۴

[32] مصنف ابن ابی شیبة۱۱۲۳۹،السنن الکبری للبیہقی۶۸۶۸، مسند احمد۷۵۴،المحلی بالآثار۳۹۴؍۳

[33] المحلی بالآثار ۳۹۳؍۳

[34] الروضة الندیة۱۷۳؍۱

[35] حجة اللہ البالغة۵۸؍۲

[36] نیل الاوطار۸۸؍۴

[37] احکام الجنائز۷۴؍۱

[38] سنن ابوداودکتاب الجنائزبَابُ الرُّكُوبِ فِی الْجَنَازَةِ۳۱۷۷

[39]سنن ابوداودکتاب الجنائزبَابُ الرُّكُوبِ فِی الْجَنَازَةِ۳۱۷۸،صحیح مسلم کتاب الجنائزبَابُ رُكُوبِ الْمُصَلِّی عَلَى الْجَنَازَةِ إِذَا انْصَرَفَ۲۲۳۸

[40] سنن ابن ماجہ کتاب الجنائزبَابُ مَا جَاءَ فِی شُهُودِ الْجَنَائِزِ۱۴۸۰

[41] سنن ابن ماجہ کتاب الجنائزبَابُ مَا جَاءَ فِی شُهُودِ الْجَنَائِزِ۱۴۸۰

[42] سنن ابوداود کتاب الجنائزبَابُ الْمَشْیِ أَمَامَ الْجَنَازَةِ ۳۱۸۰

[43] احکام الجنائز۷۴؍۱

[44] القاموس المحیط ۱۳۳۹

[45] مسنداحمد۲۳۲۷۰

[46] جامع ترمذی ابواب الجنائز بَابُ مَا جَاءَ فِی كَرَاهِیَةِ النَّعْیِ۹۸۴،سنن ابن ماجہ کتاب الجنائزبَابُ مَا جَاءَ فِی النَّهْیِ عَنِ النَّعْیِ۱۴۷۶،السنن الکبری للبیہقی۷۱۷۹،مصنف ابن ابی شیبة ۱۱۲۰۵، مسنداحمد۲۳۲۷۰، احکام الجنائز۳۰؍۱

[47] جامع ترمذی ابواب الجنائز بَابُ مَا جَاءَ فِی كَرَاهِیَةِ النَّعْیِ۹۸۴،مصنف ابن ابی شیبة۱۱۲۰۶

[48] فتح الباری ۱۱۶؍۳،سبل السلام ۴۸۲؍۱،احکام الجنائز۳۲؍۱

[49] جامع ترمذی ابواب الجنائز بَابُ مَا جَاءَ فِی كَرَاهِیَةِ النَّعْیِ۹۸۵،شرح السنة للبغوی۱۴۹۰،سبل السلام۴۸۱؍۱

[50] صحیح بخاری کتاب الجنائزبَابُ التَّكْبِیرِ عَلَى الجَنَازَةِ أَرْبَعًا ۱۳۳۳، صحیح مسلم کتاب الجنائز بَابٌ فِی التَّكْبِیرِ عَلَى الْجَنَازَةِ ۲۲۰۴، سنن ابوداودکتاب الجنائزبَابٌ فِی الصَّلَاةِ عَلَى الْمُسْلِمِ یَمُوتُ فِی بِلَادِ الشِّرْكِ ۳۲۰۴

[51] صحیح بخاری کتاب الجنائزبَابُ الصَّلاَةِ عَلَى القَبْرِ بَعْدَ مَا یُدْفَنُ ۱۳۳۷

[52] صحیح بخاری کتاب المغازی بَابُ غَزْوَةِ مُؤْتَةَ مِنْ أَرْضِ الشَّأْمِ ۴۲۶۲

[53] سبل السلام ۴۸۲؍۱

[54] احکام الجنائز۳۲؍۱

[55] سبل السلام۴۸۲؍۱

[56] صحیح بخاری کتاب الجنائزبَابُ مَا یُنْهَى مِنَ النَّوْحِ وَالبُكَاءِ وَالزَّجْرِ عَنْ ذَلِكَ۱۳۰۶،صحیح مسلم کتاب الجنائز بَابُ التَّشْدِیدِ فِی النِّیَاحَةِ۲۱۶۳،سنن ابوداودکتاب الجنائز بَابٌ فِی النَّوْحِ ۳۱۲۷،مسنداحمد۲۰۷۹۸،السنن الکبری للبیہقی۷۱۰۷

[57] صحیح مسلم کتاب الایمان بَابُ تَحْرِیمِ ضَرْبِ الْخُدُودِ وَشَقِّ الْجُیُوبِ وَالدُّعَاءِ بِدَعْوَى الْجَاهِلِیَّةِ۲۸۷،صحیح بخاری کتاب الجنائز بَابُ مَا یُنْهَى مِنَ الحَلْقِ عِنْدَ المُصِیبَةِ۱۲۹۶،صحیح ابن حبان۳۱۵۲،السنن الکبری للبیہقی۷۱۱۹،احکام الجنائز۳۰؍۱

[58] مسنداحمد۲۲۹۰۴،صحیح مسلم کتاب الجنائز بَابُ التَّشْدِیدِ فِی النِّیَاحَةِ۲۱۶۰

[59] احکام الجنائز۲۸

[60] صحیح بخاری کتاب الجنائزبَابُ الدُّخُولِ عَلَى المَیِّتِ بَعْدَ المَوْتِ إِذَا أُدْرِجَ فِی أَكْفَانِهِ۱۲۴۴،صحیح مسلم کتاب الافضائل بَابُ مِنْ فَضَائِلِ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ حَرَامٍ وَالِدُ جَابِرٍ رَضِیَ اللهُ تَعَالَى عَنْهُمَا۶۳۵۵،السنن الکبری للنسائی ۱۹۸۱،السنن الکبری للبیہقی۶۷۱۳

[61] صحیح بخاری کتاب الجنائزبَابُ قَوْلِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: یُعَذَّبُ المَیِّتُ بِبَعْضِ بُكَاءِ أَهْلِهِ عَلَیْهِ إِذَا كَانَ النَّوْحُ مِنْ سُنَّتِهِ۱۲۸۴،صحیح مسلم کتاب الجنائز بَابُ الْبُكَاءِ عَلَى الْمَیِّتِ۲۱۳۵،سنن ابوداودکتاب الجنائز بَابٌ فِی الْبُكَاءِ عَلَى الْمَیِّتِ ۳۱۲۵،سنن ابن ماجہ کتاب الجنائزبَابُ مَا جَاءَ فِی الْبُكَاءِ عَلَى الْمَیِّتِ ۱۵۸۸،السنن الکبری للنسائی ۲۰۰۷،مسنداحمد۲۱۷۷۶،صحیح ابن حبان۴۶۱،مصنف عبدالرزاق۶۶۷۰،السنن الکبری للبیہقی۷۱۲۹،احکام الجنائز۱۶۴؍۱

[62] صحیح بخاری کتاب الجنائزبَابُ البُكَاءِ عِنْدَ المَرِیضِ۱۳۰۴،صحیح مسلم کتاب الجنائزبَابُ الْبُكَاءِ عَلَى الْمَیِّتِ۲۱۳۷،صحیح ابن حبان۳۱۵۹،شعب الایمان۹۶۸۶،شرح السنة للبغوی ۱۵۲۹،السنن الکبری للبیہقی۷۱۵۲

[63] صحیح بخاری کتاب الجنائزبَابُ قَوْلِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یُعَذَّبُ المَیِّتُ بِبَعْضِ بُكَاءِ أَهْلِهِ عَلَیْهِ إِذَا كَانَ النَّوْحُ مِنْ سُنَّتِهِ۱۲۸۵ ،مسند احمد ۱۳۳۸۳، مستدرک حاکم۶۸۵۳،شرح السنة للبغوی۱۵۱۳،السنن الکبری للبیہقی۷۰۴۶،احکام الجنائز۱۴۸؍۱

[64] صحیح بخاری کتاب الجنائز بَابُ الدُّخُولِ عَلَى المَیِّتِ بَعْدَ المَوْتِ إِذَا أُدْرِجَ فِی أَكْفَانِهِ۱۲۴۱،وکتاب المغازی بَابُ مَرَضِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَوَفَاتِهِ ۴۴۵۲،سنن نسائی کتاب الجنائز باب تَقْبِیلُ الْمَیِّتِ۱۸۴۳،مستدرک حاکم ۱۴۲۲،مسنداحمد۴

[65] صحیح بخاری کتاب الجنائزبَابُ غُسْلِ المَیِّتِ وَوُضُوئِهِ بِالْمَاءِ وَالسَّدْرِ،بعدالحدیث ۱۲۵۲

[66] المعجم الکبیر للطبرانی ۵۳۳۰، سبل الہدی والرشاد فی سیرة خیر العباد ۶۴؍۱۲

[67] صحیح بخاری کتاب الجنائزبَابُ مَا یُكْرَهُ مِنَ النِّیَاحَةِ عَلَى المَیِّتِ ۱۲۹۱،صحیح مسلم مقدمہ بَابُ فِی التَّحْذِیرِ مِنَ الْكَذِبِ عَلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ تَعَالَى عَلَیْهِ وَسَلَّمَ۵

[68] صحیح بخاری کتاب الجنائزبَابُ قَوْلِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یُعَذَّبُ المَیِّتُ بِبَعْضِ بُكَاءِ أَهْلِهِ عَلَیْهِ إِذَا كَانَ النَّوْحُ مِنْ سُنَّتِهِ ۱۲۸۶،صحیح مسلم کتاب الجنائز بَابُ الْمَیِّتِ یُعَذَّبُ بِبُكَاءِ أَهْلِهِ عَلَیْهِ۲۱۵۰،مصنف عبدالرزاق۶۶۷۵،مسندشافعی۱۸۲؍۱،السنن الکبری للبیہقی۷۱۷۶،مسنداحمد ۲۹۰،شرح السنة للبغوی۱۵۳۷،معرفة السنن والآثار۷۷۸۶

[69] صحیح بخاری کتاب الجنائزبَابُ قَوْلِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یُعَذَّبُ المَیِّتُ بِبَعْضِ بُكَاءِ أَهْلِهِ عَلَیْهِ إِذَا كَانَ النَّوْحُ مِنْ سُنَّتِهِ۱۲۸۷،صحیح مسلم کتاب الجنائزبَابُ الْمَیِّتِ یُعَذَّبُ بِبُكَاءِ أَهْلِهِ عَلَیْهِ۲۰۵۰،السنن الکبری للنسائی ۱۹۹۷،معرفة السنن والآثار۷۷۸۶،السنن الکبری للبیہقی ۷۱۷۶،مسنداحمد۲۸۸

[70] الانعام۱۶۴

[71] فتح الباری۵۰۰؍۳،نیل الاوطار۱۲۵؍۴،معالم السنن۳۰۴؍۱

[72] احکام الجنائز۲۸؍۱

[73] مسند احمد ۱۰۸۸۰، سنن ابوداودکتاب الجنائزبَابٌ فِی النَّارِ یُتْبَعُ بِهَا الْمَیِّتُ ۳۱۷۱

[74]احکام الجنائز۷۰؍۱

[75] مسند ابی یعلی الموصلی ۲۶۲۷

[76] صحیح مسلم کتاب الایمان بَابُ كَوْنِ الْإِسْلَامِ یَهْدِمُ مَا قَبْلَهُ وَكَذَا الْهِجْرَةِ وَالْحَجِّ۳۲۱،السنن الکبری للبیہقی ۷۰۶۷

[77] مسنداحمد۷۹۱۴،احکام الجنائز۷۰؍۱

[78] احکام الجنائز۷۰؍۱

[79] السنن الکبری للبیہقی۶۶۵۴

[80] احکام الجنائز۷۲؍۱

[81] صحیح بخاری کتاب الجنائزبَابٌ لَیْسَ مِنَّا مَنْ شَقَّ الجُیُوبَ۱۲۹۴،صحیح مسلم کتاب الایمان بَابُ تَحْرِیمِ ضَرْبِ الْخُدُودِ وَشَقِّ الْجُیُوبِ وَالدُّعَاءِ بِدَعْوَى الْجَاهِلِیَّةِ۲۸۵،جامع ترمذی ابواب الجنائز بَابُ مَا جَاءَ فِی النَّهْیِ عَنْ ضَرْبِ الخُدُودِ، وَشَقِّ الجُیُوبِ عِنْدَ الْمُصِیبَةِ۹۹۹،سنن ابن ماجہ کتاب الجنائز بَابُ مَا جَاءَ فِی النَّهْیِ عَنْ ضَرْبِ الْخُدُودِ، وَشَقِّ الْجُیُوبِ ۱۵۸۴،سنن نسائی کتاب الجنائز باب دَعْوَى الْجَاهِلِیَّةِ۱۸۶۱،مسنداحمد۳۶۵۸،مسندابی یعلی۵۲۰۱،السنن الکبری للبیہقی۷۱۱۵،شرح السنة للبغوی۱۵۳۳،صحیح ابن حبان۳۱۴۹

[82] صحیح بخاری کتاب الجنائزبَابٌ مَنْ تَبِعَ جَنَازَةً، فَلاَ یَقْعُدُ حَتَّى تُوضَعَ عَنْ مَنَاكِبِ الرِّجَالِ، فَإِنْ قَعَدَ أُمِرَ بِالقِیَامِ۱۳۱۰،صحیح مسلم کتاب الجنائز بَابُ الْقِیَامِ لِلْجَنَازَةِ۲۲۲۱،جامع ترمذی ابواب الجنائز بَابُ مَا جَاءَ فِی القِیَامِ لِلْجَنَازَةِ۱۰۴۳،سنن نسائی کتاب الجنائزبَابُ الْأَمْرِ بِالْقِیَامِ لِلْجَنَازَةِ۱۹۱۸،مسنداحمد۱۱۱۹۵

[83] سنن نسائی کتاب الجنائزالْأَمْرُ بِالْقِیَامِ لِلْجِنَازَةِ۱۹۱۹

[84] مرعاة المفاتیح شرح مشکاة المصابیح۳۶۵؍۵،السنن الکبری للبیہقی۶۸۸۳

[85] سنن ابوداودکتاب الجنائزبَابُ الْقِیَامِ لِلْجَنَازَةِ۳۱۷۶،جامع ترمذی ابواب الجنائزبَابُ مَا جَاءَ فِی الجُلُوسِ قَبْلَ أَنْ تُوضَعَ ۱۰۲۰،سنن ابن ماجہ کتاب الجنائزبَابُ مَا جَاءَ فِی الْقِیَامِ لِلْجِنَازَةِ ۱۵۴۵،شرح السنة للبغوی۱۴۸۷،السنن الکبری للبیہقی۶۸۹۰

[86] احکام الجنائز۷۸؍۱

[87] احکام الجنائز۷۸؍۱،السنن الکبری للبیہقی۶۸۸۶

[88] صحیح بخاری کتاب الجنائزبَابٌ مَنْ تَبِعَ جَنَازَةً، فَلاَ یَقْعُدُ حَتَّى تُوضَعَ عَنْ مَنَاكِبِ الرِّجَالِ، فَإِنْ قَعَدَ أُمِرَ بِالقِیَامِ۱۳۰۹

[89] صحیح بخاری کتاب الجنائزبَابُ مَنْ قَامَ لِجَنَازَةِ یَهُودِیٍّ۱۳۱۱

[90] صحیح مسلم کتاب الجنائزبَابُ الْقِیَامِ لِلْجَنَازَةِ،سنن ابوداودکتاب الجنائزبَابُ الْقِیَامِ لِلْجَنَازَةِ۳۱۷۲،صحیح بخاری کتاب الجنائزبَابُ القِیَامِ لِلْجَنَازَةِ ۱۳۰۷،جامع ترمذی ابواب الجنائزبَابُ مَا جَاءَ فِی القِیَامِ لِلْجَنَازَةِ ۱۰۴۲،سنن نسائی کتاب الجنائزبَابُ الْأَمْرِ بِالْقِیَامِ لِلْجَنَازَةِ۱۹۱۷ ،سنن ابن ماجہ کتاب الجنائزبَابُ مَا جَاءَ فِی الْقِیَامِ لِلْجِنَازَةِ ۱۵۴۲،السنن الکبری للبیہقی۶۸۶۹، مسند احمد ۱۵۶۸۷،صحیح ابن حبان۳۰۵۱،مسندابی یعلی۷۲۰۰

[91] احکام الجنائز۷۷؍۱

[92] نیل الاوطار۹۴؍۴

[93] سنن ابوداودکتاب الجنائز بَابُ الْقِیَامِ لِلْجَنَازَةِ۳۱۷۵،سنن ابن ماجہ کتاب الجنائز بَابُ مَا جَاءَ فِی الْقِیَامِ لِلْجِنَازَةِ ۱۵۴۴،مسنداحمد۶۲۳،موطاامام مالک کتاب الجنائز الْوُقُوفُ لِلجَنَائِزِ وَالْجُلُوسِ عَلَى الْمَقَابِرِ،صحیح ابن حبان ۳۰۵۶،السنن الکبری للبیہقی ۶۸۸۴،احکام الجنائز۷۸؍۱

[94] سنن نسائی کتاب الجنائزباب الرُّخْصَةُ فِی تَرْكِ الْقِیَامِ۱۹۲۷،مسنداحمد۱۷۲۸ ،مصنف عبدالرزاق۶۳۱۳،السنن الکبری للبیہقی۶۸۸۹

[95] سنن نسائی کتاب الجنائزباب الرُّخْصَةُ فِی تَرْكِ الْقِیَامِ۱۹۲۷،مسنداحمد۱۷۲۸ ،مصنف عبدالرزاق۶۳۱۳،السنن الکبری للبیہقی۶۸۸۹

[96] نیل الاوطار۹۲؍۴

[97] سنن ابوداودکتاب الجنائزبَابٌ فِی الْغُسْلِ مِنْ غَسْلِ الْمَیِّتِ ۳۱۶۱

[98] جامع ترمذی ابواب الجنائزبَابُ مَا جَاءَ فِی الغُسْلِ مِنْ غُسْلِ الْمَیِّتِ۹۹۳

[99] احکام الجنائز۷۱؍۱

[100] السنن الکبری للبیہقی۷۱۸۲

[101] الاذکارللنووی ۱۶۰؍۱

[102] اقتضاء الصراط المستقیم لمخالفة اصحاب الجحیم۳۵۸؍۱

[103] احکام الجنائز۷۲؍۱

[104] سنن ابوداودکتاب الجائزبَابٌ فِی تَعْمِیقِ الْقَبْرِ ۳۲۱۵،جامع ترمذی ابواب الجہاد بَابُ مَا جَاءَ فِی دَفْنِ الشُّهَدَاءِ ۱۷۱۳، سنن ابن ماجہ کتاب الجنائز بَابُ مَا جَاءَ فِی حَفْرِ الْقَبْرِ ۱۵۶۰،السنن الکبری للنسائی ۲۱۴۸،مسنداحمد۱۶۲۶۲،احکام الجنائز۱۴۲؍۱

[105] الروضة الندیة۱۷۶؍۱،الدررالبھیہ۴۶۵؍۱

[106] احکام الجنائز۱۴۲؍۱

[107] سنن ابوداودکتاب الجنائزبَابٌ فِی تَعْمِیقِ الْقَبْرِ۳۲۱۵

[108] احکام الجنائز۱۴۶؍۱

[109] صحیح بخاری کتاب الجنائزبَابُ مَنْ یُقَدَّمُ فِی اللحْدِ قبل الحدیث ۱۳۴۷

[110] سنن ابن ماجہ کتاب الجنائزبَابُ مَا جَاءَ فِی الشَّقِّ ۱۵۵۷،مسنداحمد۱۲۴۱۵،شرح السنة للبغوی۱۵۱۰،احکام الجنائز۱۴۴؍۱

[111] سنن ابوداودکتاب الجنائز بَابٌ فِی اللحْدِ ۳۲۰۸،جامع ترمذی ابواب الجنائز بَابُ مَا جَاءَ فِی قَوْلِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ اللحْدُ لَنَا، وَالشَّقُّ لِغَیْرِنَا۱۰۴۵،سنن ابن ماجہ کتاب الجنائزبَابُ مَا جَاءَ فِی اسْتِحْبَابِ اللحْدِ ۱۵۴۵،السنن الکبری للنسائی ۲۱۴۷،السنن الکبری للبیہقی ۶۷۱۸،احکام الجنائز۱۴۴؍۱

[112] شرح السنة للبغوی۱۵۱۱

[113] صحیح مسلم کتاب الجنائزبَابٌ فِی اللحْدِ وَنَصْبِ اللبِنَ عَلَى الْمَیِّتِ ۲۲۴۰،سنن ابن ماجہ کتاب الجنائز بَابُ مَا جَاءَ فِی اسْتِحْبَابِ اللحْدِ ۱۵۵۶،السنن الکبری للنسائی ۲۱۴۶، مسند احمد ۱۴۵۰،شرح السنة للبغوی۱۵۱۲،السنن الکبری للبیہقی ۶۶۱۵، احکام الجنائز۱۴۵؍۱

[114] شرح النووی فی مسلم ۳۴؍۷، الدررالبھیمہ۴۶۶؍۱،نیل الاوطار۹۷؍۴

[115] نیل الاوطار۹۷؍۴

[116]احکام الجنائز۱۴۵؍۱

[117] سنن ابوداودکتاب الجنائز بَابٌ فِی الْمَیِّتِ یُدْخَلُ مِنْ رِجْلَیْهِ ۳۲۱۱،السنن الکبری للبیہقی ۷۰۵۲، احکام الجنائز۱۵۰؍۱

[118] مسنداحمد۴۰۸۰

[119] مسنداحمد۴۰۸۱،احکام الجنائز۱۵۱؍۱

[120] نیل الاوطار۹۸؍۴،مسندشافعی۳۶۰؍۱،شرح السنة للبغوی ۱۵۱۴،السنن الکبری للبیہقی ۷۰۵۴،احکام الجنائز۱۵۱؍۱

[121] المجموع شرح المھذب۲۸۹؍۵

[122] نیل الوطار۹۹؍۴

[123] نیل الاوطار۹۹؍۴،الام للشافعی۳۱۱؍۱ ،المبسوط۶۱؍۲

[124] نیل الاوطار۹۸؍۴

[125] السیل الجرار۲۲۰؍۱

[126] الروضة الندیة۱۷۷؍۱

[127] المحلی۴۰۴؍۳

[128] احکام الجنائز۱۵۰؍۱

[129] سنن ابن ماجہ کتاب الجنائزبَابُ مَا جَاءَ فِی حَثْوِ التُّرَابِ فِی الْقَبْرِ ۱۵۶۵

[130]۔ سنن الدارقطنی۱۸۳۶

[131] سنن ابوداودکتاب الجنائزبَابٌ فِی الدُّعَاءِ لِلْمَیِّتِ إِذَا وُضِعَ فِی قَبْرِهِ۳۲۱۳،جامع ترمذی ابواب الجنائز بَابُ مَا یَقُولُ إِذَا أُدْخِلَ الْمَیِّتُ القَبْرَ۱۰۴۶،سنن ابن ماجہ کتاب الجنائز بَابُ مَا جَاءَ فِی إِدْخَالِ الْمَیِّتِ الْقَبْرَ ۱۵۵۰، مسنداحمد۴۹۹۰، شرح السنة للبغوی۱۵۱۴،صحیح ابن حبان ۳۱۰۹،مستدرک حاکم ۱۳۵۳،احکام الجنائز۱۵۲؍۱

[132] احکام الجنائز۱۴۷؍۱،المجموع شرح المھذب۲۸۸؍۵

[133] الانفال۷۵

[134] مسنداحمد۲۵۱۱۳،السنن الکبری للنسائی ۷۰۴۴،سنن الدارقطنی ۱۸۲۷،احکام الجنائز ۱۴۸؍۱

[135] مسنداحمد۱۲۲۷۵،صحیح بخاری کتاب الجنائزبَابُ مَنْ یَدْخُلُ قَبْرَ المَرْأَةِ ۱۳۴۲، مستدرک حاکم۶۸۵۳، شرح السنة للبغوی۱۵۱۳،السنن الکبری للبیہقی۷۰۴۶،احکام الجنائز۱۴۹؍۱

[136] المجموع شرح المھذب۲۸۹؍۵

[137] المحلی۳۷۰؍۳

[138] صحیح مسلم کتاب الجنائز بَابُ الْأَمْرِ بِتَسْوِیَةِ الْقَبْرِ۲۲۴۳،سنن ابوداودکتاب الجنائز بَابٌ فِی تَسْوِیَةِ الْقَبْرِ۳۲۱۸،جامع ترمذی ابواب الجنائز بَابُ مَا جَاءَ فِی تَسْوِیَةِ القُبُورِ۱۰۴۹،السنن الکبری للنسائی ۲۱۶۹،مستدرک حاکم ۱۳۶۶،شرح السنة للبغوی ۱۵۱۶،مصنف عبدالرزاق ۶۴۸۷،السنن الکبری للبیہقی۶۷۵۷،مسنداحمد۱۰۶۴،احکام الجنائز۲۰۷؍۱

[139] السنن الکبری للبیہقی۶۷۳۶،صحیح ابن حبان۶۶۳۵،احکام الجنائز۱۵۳؍۱

[140] المراسیل لابی داود۴۲۱

[141] الام للشافعی۳۲۲؍۱

[142] احکام الجنائز۱۵۵؍۱

[143] المجموع شرح المھذب۲۹۳؍۵

[144] احکام الجنائز۱۵۳؍۱

[145] سنن ابوداودکتاب الجنائز بَابٌ فِی تَسْوِیَةِ الْقَبْرِ ۳۲۲۰،مستدرک حاکم۱۳۶۸،شرح السنة للبغوی۱۵۱۵،السنن الکبری للبیہقی۶۷۵۸

[146] سنن ابوداودکتاب الجنائز بَابٌ فِی تَسْوِیَةِ الْقَبْرِ ۳۲۲۰

[147] سنن ابوداود کتاب الجنائزبَابٌ فِی جَمْعِ الْمَوْتَى فِی قَبْرٍ وَالْقَبْرُ یُعَلَّمُ ۳۲۰۶،السنن الکبری للبیہقی۶۷۴۴

[148] احکام الجنائز۱۵۵؍۱

[149] جامع ترمذی ابواب الجنائز بَابُ مَا جَاءَ فِی كَرَاهِیَةِ تَجْصِیصِ القُبُورِ، وَالكِتَابَةِ عَلَیْهَا ۱۰۵۲،سنن ابوداودکتاب الجنائزبَابٌ فِی الْبِنَاءِ عَلَى الْقَبْرِ ۳۲۲۶

[150] سنن ابوداودکتاب الجنائزبَابُ الِاسْتِغْفَارِ عِنْدَ الْقَبْرِ لِلْمَیِّتِ فِی وَقْتِ الِانْصِرَافِ۳۲۲۱

[151] مجمع الزوائد ومنبع الفوائد ۴۲۴۲

[152] مجمع الزوائد ومنبع الفوائد ۴۲۴۳

[153] سلسلة الاحادیث الضعیفة والموضوعة ۱۵۳؍۹

[154] سلسلة الاحادیث الضعیفة والموضوعة ۱۵۵؍۹

[155] سنن ابوداودکتاب الجنائزبَابُ الِاسْتِغْفَارِ عِنْدَ الْقَبْرِ لِلْمَیِّتِ فِی وَقْتِ الِانْصِرَافِ۳۲۱۲

[156] احکام الجنائز۱۶۰؍۱

[157] صحیح بخاری کتاب الجنائزبَابٌ هَلْ یُخْرَجُ المَیِّتُ مِنَ القَبْرِ وَاللحْدِ لِعِلَّةٍ۱۳۵۰،مصنف عبدالرزاق۹۹۳۸،السنن الکبری للبیہقی۶۶۸۵،نیل الاوطار۱۳۶؍۴،احکام الجنائز۱۶۰؍۱

[158] صحیح بخاری کتاب الجنائزبَابٌ هَلْ یُخْرَجُ المَیِّتُ مِنَ القَبْرِ وَاللحْدِ لِعِلَّةٍ۱۳۵۲،السنن الکبری للنسائی ۲۱۵۹،السنن الکبری للبیہقی۷۰۷۶

[159] نیل الاوطار۱۳۶؍۴

[160] فتاوی الاسلامیة۳۱؍۲

[161] احکام الجنائز۱۶۰؍۱

[162] احکام الجنائز۱۶۰؍۱

[163] صحیح مسلم کتاب صلاة المسافرین بَابُ الْأَوْقَاتِ الَّتِی نُهِیَ عَنِ الصَّلَاةِ فِیهَا۱۹۲۹،سنن ابوداودکتاب الجنائز بَابُ الدَّفْنِ عِنْدَ طُلُوعِ الشَّمْسِ وَعِنْدَ غُرُوبِهَا ۳۱۹۲،جامع ترمذی ابواب الجنائزبَابُ مَا جَاءَ فِی كَرَاهِیَةِ الصَّلاَةِ عَلَى الجَنَازَةِ عِنْدَ طُلُوعِ الشَّمْسِ وَعِنْدَ غُرُوبِهَا ۱۰۳۰،سنن ابن ماجہ کتاب الجنائز بَابُ مَا جَاءَ فِی الْأَوْقَاتِ الَّتِی لَا یُصَلَّى فِیهَا عَلَى الْمَیِّتِ وَلَا یُدْفَنُ ۱۵۱۹،السنن الکبری للنسائی ۱۵۵۵،سنن الدارمی ۱۴۷۲،مسنداحمد۱۷۳۷۷،صحیح ابن حبان ۱۵۴۶،شرح السنة للبغوی ۷۷۸،مسندابی یعلی۱۷۵۵،السنن الکبری للبیہقی۴۳۸۲

[164] سنن ابن ماجہ کتاب الجنائزبَابُ مَا جَاءَ فِی الْأَوْقَاتِ الَّتِی لَا یُصَلَّى فِیهَا عَلَى الْمَیِّتِ وَلَا یُدْفَنُ ۱۵۲۱، سنن ابوداودکتاب الجنائز بَابٌ فِی الْكَفَنِ ۳۱۴۸،سبل السلام۵۰۷؍۱

[165] صحیح مسلم کتاب الجنائزبَابٌ فِی تَحْسِینِ كَفَنِ الْمَیِّتِ ۲۱۸۵،سنن ابوداودکتاب الجنائزبَابٌ فِی الْكَفَنِ ۳۱۴۸،صحیح ابن حبان۳۱۰۳،مستدرک حاکم ۱۳۶۴،مصنف عبدالرزاق ۶۵۴۹، السنن الکبری للبیہقی۶۶۹۴،مسنداحمد۱۴۱۴۵

[166] سنن ابن ماجہ کتاب الجنائزبَابُ مَا جَاءَ فِی الْأَوْقَاتِ الَّتِی لَا یُصَلَّى فِیهَا عَلَى الْمَیِّتِ وَلَا یُدْفَنُ۱۵۲۰

[167]صحیح بخاری کتاب الجنائزبَابُ الدَّفْنِ بِاللیْلِ

[168] مصنف ابن ابی شیبة۱۱۸۲۷،مصنف عبدالرزاق۶۵۵۶،فتح الباری ۳۰۸؍۳

[169] نیل الاوطار۱۰۸؍۴

[170] نیل الاوطار۱۰۸؍۴

[171] المحلی بالآثار۷۵؍۲

[172]الفتاوی الاسلامیة۲۴؍۲

[173] صحیح مسلم کتاب الجنائزبَابُ اسْتِئْذَانِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ رَبَّهُ عَزَّ وَجَلَّ فِی زِیَارَةِ قَبْرِ أُمِّهِ۲۲۶۰، جامع ترمذی ابواب الجنائز بَابُ مَا جَاءَ فِی الرُّخْصَةِ فِی زِیَارَةِ القُبُورِ ۱۰۵۴،سنن ابوداودکتاب الجنائز بَابٌ فِی زِیَارَةِ الْقُبُورِ ۳۲۳۵،صحیح حبان۹۸۱،مستدرک حاکم ۱۳۸۵ ،السنن الکبری للبیہقی۱۷۴۸۶،سنن الدارقطنی ۴۶۷۹، مسند البزار ۴۳۷۳، احکام الجنائز۱۷۸؍۱

[174] سنن نسائی کتاب الجنائز باب زِیَارَةُ الْقُبُورِ۲۰۳۳

[175] مجمع الزائد۴۳۰۵

[176] مجمع الزائد۴۳۰۶

[177] مجمع الزوائد۴۲۹۹، مستدرک حاکم ۱۳۸۶،مسنداحمد۱۱۳۲۹، شرح مشکل الآثار ۴۷۴۴،معرفة السنن والآثار۷۸۰۰،السنن الکبری للبیہقی۷۱۹۶

[178] تحفة الاحوذی۱۳۵؍۴

[179] نیل الاوطار۱۳۳؍۴،تحفة الاحوذی ۱۳۶؍۴

[180] سنن ابوداودکتاب الجنائزبَابُ الْجُلُوسِ عِنْدَ الْقَبْرِ ۳۲۱۲

[181] مسنداحمد۱۱۳۲۹،شرح مشکل الآثار ۴۷۴۴، مستدرک حاکم ۱۳۸۶،معرفة السنن والآثار۷۸۰۰،السنن الکبری للبیہقی۷۱۹۶

[182] صحیح مسلم کتاب الجنائزبَابُ اسْتِئْذَانِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ رَبَّهُ عَزَّ وَجَلَّ فِی زِیَارَةِ قَبْرِ أُمِّهِ۲۲۶۰، جامع ترمذی ابواب الجنائز بَابُ مَا جَاءَ فِی الرُّخْصَةِ فِی زِیَارَةِ القُبُورِ ۱۰۵۴،سنن ابوداود کتاب الجنائز بَابٌ فِی زِیَارَةِ الْقُبُورِ ۳۲۳۵،صحیح حبان۹۸۱،مستدرک حاکم ۱۳۸۵ ،السنن الکبری للبیہقی۱۷۴۸۶،سنن الدارقطنی ۴۶۷۹، مسندالبزار ۴۳۷۳، احکام الجنائز۱۷۸؍۱

[183] مستدرک حاکم۱۳۹۲،السنن الکبری للبیہقی۷۲۰۷

[184] صحیح مسلم کتاب الجنائزبَابُ مَا یُقَالُ عِنْدَ دُخُولِ الْقُبُورِ وَالدُّعَاءِ لِأَهْلِهَا۲۲۵۶،سنن ابن ماجہ کتاب الجنائز بَابُ مَا جَاءَ فِیمَا یُقَالُ إِذَا دَخَلَ الْمَقَابِرَ۱۵۴۶،السنن الکبری للبیہقی۷۲۱۱،السنن الکبری للنسائی ۲۱۷۵،شرح السنة للبغوی۱۵۵۵،مصنف عبدالرزاق۶۷۱۲،احکام الجنائز۱۸۹؍۱

[185] مستدرک حاکم۱۳۹۶،نیل الاوطار۱۳۳؍۴

[186] صحیح بخاری کتاب الجنائزبَابُ قَوْلِ الرَّجُلِ لِلْمَرْأَةِ عِنْدَ القَبْرِ اصْبِرِی ۱۲۵۲،صحیح مسلم کتاب الجنائز بَابٌ فِی الصَّبْرِ عَلَى الْمُصِیبَةِ عِنْدَ أَوَّلِ الصَّدْمَةِ۲۱۴۰،سنن ابوداودکتاب الجنائز بَابُ الصَّبْرِ عِنْدَ الصَّدْمَةِ ۳۱۲۴، السنن الکبری للبیہقی ۷۱۲۷،مسنداحمد۱۲۴۵۸

[187] صحیح بخاری کتاب الجنائز بَابُ زِیَارَةِ القُبُورِ۱۲۸۳

[188] فتح الباری۱۴۹؍۳

[189] عمدة القاری۶۹؍۸

[190]۔سنن ابن ماجہ کتاب الجنائز بَابُ مَا جَاءَ فِی النَّهْیِ عَنْ زِیَارَةِ النِّسَاءِ الْقُبُورَ ۱۵۷۶،جامع ترمذی ابواب الجنائزبَابُ مَا جَاءَ فِی كَرَاهِیَةِ زِیَارَةِ القُبُورِ لِلنِّسَاءِ۱۰۵۶،مسنداحمد۸۴۴۹،مسندالبزار۸۶۶۶،شرح السنة للبغوی۱۵۵۴، السنن الکبری للبیہقی۷۲۰۴

[191] فتح الباری ۱۴۹؍۳،نیل الاوطار۱۳۳؍۴،تحفة الاحوذی۱۳۶؍۴

[192] مرعاة المفاتیح شرح مشکاة المصابیح۵۱۸؍۵،تحفة الاحوذی ۱۳۶؍۴

[193] مرعاة المفاتیح شرح مشکاة المصابیح۵۱۸؍۵

[194] تحفة الاحوذی۱۳۷؍۴

[195] احکام الجنائز۱۸۵؍۱

[196] مجموع الفتاوی۳۶۰؍۲۴

[197] احکام الجنائز۱۸۶؍۱

[198] جامع ترمذی ابواب الجنائزبَابُ مَا جَاءَ فِی الرُّخْصَةِ فِی زِیَارَةِ القُبُورِ ۱۰۵۴

[199]احکام الجنائز۱۸۸؍۱

[200] سنن ابن ماجہ کتاب الجنائز بَابُ مَا جَاءَ فِی زِیَارَةِ قُبُورِ الْمُشْرِكِینَ ۱۵۷۳،المعجم الکبیرللطبرانی ۳۲۶،احکام الجنائز۱۹۸؍۱،عمل الیوم واللیلة،ابن السنی۵۹۵

[201] صحیح مسلم کتاب صلاة المسافرین وقصرھا بَابُ اسْتِحْبَابِ صَلَاةِ النَّافِلَةِ فِی بَیْتِهِ، وَجَوَازِهَا فِی الْمَسْجِدِ ۱۸۲۴،مسنداحمد۷۸۲۱، السنن الکبری للنسائی۷۹۶۱، شعب الایمان۲۱۶۴،شرح السنة للبغوی۱۱۹۲

[202] احکام الجنائز۱۹۱؍۱

[203] احکام الجنائز۱۹۱؍۱

[204]مجموع الفتاوی۳۰۰؍۲۴

[205] صحیح مسلم کتاب الطھارة بَابُ اسْتحْبَابِ إِطَالَةِ الْغُرَّةِ وَالتَّحْجِیلِ فِی الْوُضُوءِ ۵۸۴،سنن ابوداودکتاب الجنائز بَابُ مَا یَقُولُ إِذَا زَارَ الْقُبُورَ أَوْ مَرَّ بِهَا ۳۲۳۷،سنن ابن ماجہ کتاب الزھد بَابُ ذِكْرِ الْحَوْضِ ۴۳۰۶،السنن الکبری للنسائی ۱۴۳،مسنداحمد۸۸۷۸،صحیح ابن حبان۱۰۴۶،مسندالبزار۸۳۲۲،عمل الیوم واللیلة،ابن السنی۵۸۸

[206] صحیح مسلم کتاب الجنائز بَابُ مَا یُقَالُ عِنْدَ دُخُولِ الْقُبُورِ وَالدُّعَاءِ لِأَهْلِهَا۲۲۵۷، سنن ابن ماجہ کتاب الجنائز بَابُ مَا جَاءَ فِیمَا یُقَالُ إِذَا دَخَلَ الْمَقَابِرَ ۱۵۴۷،شرح السنة للبغوی ۱۵۵۵، مسند احمد۲۲۹۸۵،السنن الکبری للبیہقی۷۲۱۲

[207] احکام الجنائز۱۹۹؍۱

[208] سنن ابن ماجہ کتاب الجنائز بَابُ الْمَشْیِ فِی النَّعْلِ بَیْنَ الْقُبُورِ ۳۲۳۰، صحیح ابن حبان ۳۱۷۰،مستدرک حاکم ۱۳۸۰،السنن الکبری للبیہقی ۷۲۱۶،احکام الجنائز۱۹۹؍۱

[209] فتح الباری۲۰۶؍۳

[210] صحیح بخاری کتاب الجنائزبَابُ مَا یُكْرَهُ مِنَ اتِّخَاذِ المَسَاجِدِ عَلَى القُبُورِ ۱۳۳۰،مسنداحمد۲۴۵۱۳

[211] صحیح بخاری کتاب الصلاة بَابُ الصَّلاَةِ فِی البِیعَةِ۴۳۴،صحیح مسلم كِتَابُ الْمَسَاجِدِ وَمَوَاضِعِ الصَّلَاةَ بَابُ النَّهْیِ عَنْ بِنَاءِ الْمَسَاجِدِ، عَلَى الْقُبُورِ وَاتِّخَاذِ الصُّوَرِ فِیهَا وَالنَّهْیِ عَنِ اتِّخَاذِ الْقُبُورِ مَسَاجِدَ ۱۱۸۵،سنن ابوداودکتاب الجنائز بَابٌ فِی الْبِنَاءِ عَلَى الْقَبْرِ ۳۲۲۷،مسنداحمد۷۸۲۶،صحیح ابن حبان۲۳۲۶،مصنف عبدالرزاق۱۵۸۹، السنن الکبری للبیہقی۷۲۱۸

[212] صحیح مسلم كِتَابُ الْمَسَاجِدِ وَمَوَاضِعِ الصَّلَاةَ بَابُ النَّهْیِ عَنْ بِنَاءِ الْمَسَاجِدِ، عَلَى الْقُبُورِ وَاتِّخَاذِ الصُّوَرِ فِیهَا وَالنَّهْیِ عَنِ اتِّخَاذِ الْقُبُورِ مَسَاجِدَ۱۱۸۱،صحیح بخاری کتاب الجنائزبَابُ بِنَاءِ المَسْجِدِ عَلَى القَبْرِ۱۳۴۱،السنن الکبری للنسائی۷۸۵،السنن الکبری للبیہقی۷۲۲۰،مسنداحمد۲۴۲۵۲،شرح السنة للبغوی۵۰۹

[213] احکام الجنائز ۲۱۷؍۱، المعجم الکبیرللطبرانی۱۰۴۱۳،مصنف ابن ابی شیبة۱۱۸۱۶،صحیح ابن حبان۲۳۲۵،صحیح ابن خزیمة۷۸۹،مسنداحمد۳۸۴۴،مسندالبزار۱۷۲۴

[214] الزواجر۲۴۶؍۱

[215] احکام الجنائز۲۱۹؍۱

[216] احکام الجنائز۲۶۲

[217] التعلیقات الرضیة علی الروضة الندیة۴۷۶؍۱

[218] احکام الجنائز۲۳۲؍۱

[219] احكام الجنائز ۲۳۲؍۱

[220] سنن ابوداودکتاب الجنائزبَابٌ فِی زِیَارَةِ النِّسَاءِ الْقُبُورَ ۳۲۳۶، جامع ترمذی ابواب الصلاة بَابُ مَا جَاءَ فِی كَرَاهِیَةِ أَنْ یَتَّخِذَ عَلَى القَبْرِ مَسْجِدًا ۳۲۰،السنن الکبری للنسائی۲۱۸۱،مسنداحمد۲۰۳۰،صحیح ابن حبان ۳۱۷۹، المعجم الکبیرللطبرانی ۱۲۷۲۵،مستدرک حاکم ۱۳۸۴،شرح السنة للبغوی ۵۱۰،السنن الکبری للبیہقی ۷۲۰۶،احکام الجنائز۲۳۲؍۱

[221] احکام الجنائز۲۳۲؍۱

[222] صحیح مسلم کتاب الجنائزبَابُ النَّهْیِ عَنْ تَجْصِیصِ الْقَبْرِ وَالْبِنَاءِ عَلَیْهِ۲۲۴۵،مصنف ابن ابی شیبة ۱۱۷۶۴،مسنداحمد۱۴۱۴۸،احکام الجنائز۲۰۴؍۱

[223] صحیح مسلم کتاب الجنائزبَابُ النَّهْیِ عَنِ الْجُلُوسِ عَلَى الْقَبْرِ وَالصَّلَاةِ عَلَیْهِ۲۲۵۰،سنن ابوداودکتاب الجنائزبَابٌ فِی كَرَاهِیَةِ الْقُعُودِ عَلَى الْقَبْرِ ۳۲۲۹،جامع ترمذی ابواب الجنائزبَابُ مَا جَاءَ فِی كَرَاهِیَةِ الْمَشْیِ عَلَى القُبُورِ، وَالجُلُوسِ عَلَیْهَا، وَالصَّلاَةِ إِلَیْهَا ۱۰۵۰،مسنداحمد۱۷۲۱۶،صحیح ابن خزیمة۷۹۳،صحیح ابن حبان۲۳۲۰،مستدرک حاکم۴۹۶۹،شرح السنة للبغوی ۱۵۱۹، مسندابی یعلی۱۵۱۴،السنن الکبری للبیہقی۴۲۷۶

[224] جامع ترمذی ابواب الجنائز بَابُ مَا جَاءَ فِی كَرَاهِیَةِ تَجْصِیصِ القُبُورِ، وَالكِتَابَةِ عَلَیْهَا۱۰۵۲،شرح السنة للبغوی۱۵۱۷

[225] صحیح مسلم کتاب الجنائزبَابُ النَّهْیِ عَنِ الْجُلُوسِ عَلَى الْقَبْرِ وَالصَّلَاةِ عَلَیْهِ۲۲۴۸،سنن ابوداودکتاب الجنائز بَابٌ فِی كَرَاهِیَةِ الْقُعُودِ عَلَى الْقَبْرِ۳۲۲۸،سنن نسائی کتاب الجنائز التَّشْدِیدُ فِی الْجُلُوسِ عَلَى الْقُبُورِ۲۰۴۶،سنن ابن ماجہ کتاب الجنائز بَابُ مَا جَاءَ فِی النَّهْیِ عَنِ الْمَشْیِ عَلَى الْقُبُورِ، وَالْجُلُوسِ عَلَیْهَا ۱۵۶۶،السنن الکبری للبیہقی۷۲۱۴،مسنداحمد۸۱۰۸،صحیح ابن حبان۳۱۶۶،معرفة السنن والآثار۷۸۰۸،مصنف ابن ابی شیبة۱۱۷۷۷،احکام الجنائز۲۰۹؍۱

[226] نیل الاوطار۱۰۴؍۴

[227] احکام الجنائز۲۱۰؍۱

[228] احکام الجنائز۲۱۰؍۱

[229] سبل السلام۵۱۱؍۱

[230] المدخل لابن الحاج۲۶۴؍۳

[231] البنایة شرح الھدایة۲۵۹؍۳

[232] شرح النووی علی مسلم۲۷؍۷

[233] صحیح بخاری کتاب الجنائز بَابُ مَا یُنْهَى مِنْ سَبِّ الأَمْوَاتِ ۱۳۹۳،وکتاب الرقاق بَابُ سَكَرَاتِ المَوْتِ ۶۵۱۶، السنن الکبری للنسائی۲۰۷۴،مسنداحمد۲۵۴۷۰،سنن الدارمی۲۵۵۳،صحیح ابن حبان۳۰۲۱

[234] جامع ترمذی ابواب البروصلةبَابُ مَا جَاءَ فِی الشَّتْمِ ۱۹۸۲،صحیح ابن حبان ۳۰۲۲،المعجم الکبیرللطبرانی۱۰۱۳،مسنداحمد۱۸۲۰۹

[235] سنن ابوداودکتاب الجنائز بَابٌ فِی الْبِنَاءِ عَلَى الْقَبْرِ ۳۲۲۵،سنن الکبری للنسائی۲۱۶۵،السنن الکبری للبیہقی۶۷۳۵،احکام الجنائز۲۰۴؍۱

[236] سنن ابوداودکتاب المناسک بَابُ زِیَارَةِ الْقُبُورِ۲۰۴۲،شعب الایمان ۳۸۶۵، مسند احمد ۸۸۰۴،مصنف عبدالرزاق ۶۷۲۶،احکام الجنائز ۲۱۹؍۱

[237] احکام الجنائز ۲۱۹؍۱

[238] اقتضاء الصراط المستقیم۱۷۲؍۲،احکام الجنائز ۲۱۹؍۱

[239] احکام الجنائز ۲۱۹؍۱

[240]صحیح بخاری كتاب فضل الصلاة فی مسجد مكة والمدینة بَابُ فَضْلِ الصَّلاَةِ فِی مَسْجِدِ مَكَّةَ وَالمَدِینَةِ ۱۱۸۹

[241] سنن ابوداودکتاب الجنائزبَابٌ فِی الْحَفَّارِ یَجِدُ الْعَظْمَ هَلْ یَتَنَكَّبُ ذَلِكَ الْمَكَانَ؟ ۳۲۰۷،سنن ابن ماجہ کتاب الجنائز بَابٌ فِی النَّهْیِ عَنْ كَسْرِ عِظَامِ الْمَیِّتِ۱۶۱۶،السنن الکبری للبیہقی۷۰۷۸، مسنداحمد۲۴۷۳۹،ارواء الغلیل۷۶۳،معرفة السنن والآثار۷۷۵۲،صحیح ابن حبان۳۱۶۷،سنن الدارقطنی۳۴۱۵،شرح السنة للبغوی۱۵۱۲،مسندالبزار۲۸۵

[242] سنن ابن ماجہ کتاب الجنائز بَابٌ فِی النَّهْیِ عَنْ كَسْرِ عِظَامِ الْمَیِّتِ۱۶۱۷

[243] سنن ابن ماجہ کتاب الجنائز بَابٌ فِی النَّهْیِ عَنْ كَسْرِ عِظَامِ الْمَیِّتِ۱۶۱۷

[244] کشاف القناع۱۴۳؍۲،احکام الجنائز۲۳۴؍۱

[245] الزواجرعن افتراف الکبائز۱۴۹؍۱،احکام الجنائز۲۳۴؍۱

[246] احکام الجنائز ۲۳۴؍۱

[247] سنن ابوداودکتاب الجنائز بَابُ كَرَاهِیَةِ الذَّبْحِ عِنْدَ الْقَبْرِ۳۲۲۲، مسند احمد ۱۳۰۳۲، صحیح ابن حبان۳۱۴۶،شرح السنة للبغوی۱۵۵۲، السنن الکبری للبیہقی۷۰۶۹

[248] سنن ابوداودکتاب الجنائز بَابُ كَرَاهِیَةِ الذَّبْحِ عِنْدَ الْقَبْرِ۳۲۲۲،السنن الکبری للبیہقی۷۰۶۹،اقتضاء الصراط المستقیم۲۶۶؍۲

[249] الجامع الصغیروزیادتہ۱۰۸۳۱

[250] اقتضاء الصراط المستقیم۲۶۶؍۲

[251] المجموع شرح المھذب۲۳؍۱

[252] سنن نسائی کتاب الجنائز باب فِی التَّعْزِیَةِ۲۰۸۸،السنن الکبری للبیہقی۷۰۸۹،شعب الایمان ۹۲۹۸،احکام الجنائز۱۶۲؍۱

[253] شعب الایمان ۸۸۴۳،احکام الجنائز۱۶۳؍۱، ارواالغلیل ۲۱۷؍۳،تاریخ بغداد۴۰۳؍۸،تاریخ دمشق۲۱۸؍۵۲

[254] جامع ترمذی ابواب الجنائزبَابُ مَا جَاءَ فِی أَجْرِ مَنْ عَزَّى مُصَابًا۱۰۷۳،سنن ابن ماجہ کتاب الجنائز بَابُ مَا جَاءَ فِی ثَوَابِ مَنْ عَزَّى مُصَابًا۱۶۰۲،مسندالبزار۱۶۳۲،شعب الایمان ۸۸۴۴،شرح السنة للبغوی ۱۵۵۱،السنن الکبری للبیہقی ۷۰۸۸، ارواالغلیل ۲۱۷؍۳، احکام الجنائز۱۶۳؍۱

[255] سنن ابن ماجہ کتاب الجنائز بَابُ مَا جَاءَ فِی ثَوَابِ مَنْ عَزَّى مُصَابًا۱۶۰۲

[256] صحیح بخاری کتاب الجنائزبَابُ قَوْلِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یُعَذَّبُ المَیِّتُ بِبَعْضِ بُكَاءِ أَهْلِهِ عَلَیْهِ إِذَا كَانَ النَّوْحُ مِنْ سُنَّتِهِ۱۲۸۴،صحیح مسلم کتاب الجنائز بَابُ الْبُكَاءِ عَلَى الْمَیِّتِ۲۱۳۵،سنن ابن ماجہ کتاب الجنائز بَابُ مَا جَاءَ فِی الْبُكَاءِ عَلَى الْمَیِّتِ ۱۵۸۸،السنن الکبری للنسائی ۲۰۰۷،مسنداحمد۲۱۷۷۶،صحیح ابن حبان۴۶۱،شرح السنة للبغوی۱۵۲۷،مصنف عبدالرزاق۶۶۷۰، السنن الکبری للبیہقی۷۱۲۹، احکام الجنائز۱۶۴؍۱

[257] الاذکارکماذکرہ الالبانی فی احکام الجنائز۱۶۴؍۱

[258] صحیح بخاری کتاب الجنائز بَابُ زِیَارَةِ القُبُورِ۱۲۸۳،صحیح مسلم کتاب الجنائز بَابٌ فِی الصَّبْرِ عَلَى الْمُصِیبَةِ عِنْدَ أَوَّلِ الصَّدْمَةِ۲۱۴۰،سنن ابوداودکتاب الجنائز بَابُ الصَّبْرِ عِنْدَ الصَّدْمَةِ۳۱۲۴،جامع ترمذی ابواب الجنائز بَابُ مَا جَاءَ أَنَّ الصَّبْرَ فِی الصَّدْمَةِ الأُولَى۹۸۸،سنن ابن ماجہ کتاب الجنائز بَابُ مَا جَاءَ فِی الصَّبْرِ عَلَى الْمُصِیبَةِ ۱۵۹۶،السنن الکبری للنسائی۱۰۸۴۰

[259] صحیح بخاری کتاب الرقاق بَابُ العَمَلِ الَّذِی یُبْتَغَى بِهِ وَجْهُ اللهِ ۶۴۲۴

[260] البقرة۱۵۶

[261] ۔صحیح مسلم کتاب الجنائز بَابُ مَا یُقَالُ عِنْدَ الْمُصِیبَةِ۲۱۲۶،۲۱۲۷ ،سنن ابن ماجہ کتاب الجنائز بَابُ مَا جَاءَ فِی الصَّبْرِ عَلَى الْمُصِیبَةِ ۱۵۹۸،مسنداحمد۱۶۳۴۴،شعب الایمان۹۲۴۷،شرح السنة للبغوی۱۴۶۲،احکام الجنائز۲۳؍۱

[262] جامع ترمذی ابواب الجنائز بَابُ مَا جَاءَ فِی الطَّعَامِ یُصْنَعُ لأَهْلِ الْمَیِّتِ۹۹۸،سنن ابوداودکتاب الجنائزبَابُ صَنْعَةِ الطَّعَامِ لِأَهْلِ الْمَیِّتِ۳۱۳۲،سنن ابن ماجہ کتاب الجنائز بَابُ مَا جَاءَ فِی الطَّعَامِ یُبْعَثُ إِلَى أَهْلِ الْمَیِّتِ ۱۶۱۰،مسنداحمد۱۷۵۱،سنن الدارقطنی۱۸۵۰، مسندحمیدی۵۴۷،مصنف عبدالرزاق۶۶۶۵،مسندالبزار۲۲۴۵،مستدرک حاکم۱۳۷۷،شرح السنة للبغوی۱۵۵۲، مسندابی یعلی۶۸۰۱،احکام الجنائز۱۶۷؍۱

[263]سنن ابن ماجہ کتاب الجنائزبَابُ مَا جَاءَ فِی النَّهْیِ عَنْ الِاجْتِمَاعِ إِلَى أَهْلِ الْمَیِّتِ وَصَنْعَةِ الطَّعَامِ ۱۶۱۲، مسند احمد۶۹۰۵

[264] احکام الجنائز۱۶۷؍۱

[265] المجموع شرح المھذب۳۲۰؍۵

[266] مسنداحمد۱۷۶۰،احکام الجنائز۱۶۸؍۱،مستدرک حاکم۱۳۷۸،السنن الکبری للبیہقی۷۰۹۳

[267] الحشر۱۰

[268] صحیح بخاری کتاب الصوم بَابُ مَنْ مَاتَ وَعَلَیْهِ صَوْمٌ ۱۹۵۲، صحیح مسلم کتاب الصیام بَابُ قَضَاءِ الصِّیَامِ عَنِ الْمَیِّتِ۲۶۹۲،سنن ابوداودکتاب الصوم بَابٌ فِیمَنْ مَاتَ وَعَلَیْهِ صِیَامٌ۲۴۰۰ ،السنن الکبری للنسائی ۲۹۳۱، السنن الکبری للبیہقی۸۲۲۱،مسنداحمد۲۴۴۰۲،صحیح ابن خزیمة۲۰۵۲،صحیح ابن حبان۳۵۶۹،سنن الدارقطنی۲۳۳۵،مسندابی یعلی۴۴۱۷، معرفة السنن والآثار ۸۸۲۷، احکام الجنائز۱۶۹؍۱

[269] صحیح بخاری كِتَابُ الوَصَایَابَابُ مَا یُسْتَحَبُّ لِمَنْ تُوُفِّیَ فُجَاءَةً أَنْ یَتَصَدَّقُوا عَنْهُ، وَقَضَاءِ النُّذُورِ عَنِ المَیِّتِ ۲۷۶۱،سنن ابن ماجہ كِتَابُ الْكَفَّارَاتِ بَابُ مَنْ مَاتَ وَعَلَیْهِ نَذْرٌ ۲۱۳۲،سنن ابوداودكِتَاب الْأَیْمَانِ وَالنُّذُورِ بَابٌ فِی قَضَاءِ النَّذْرِ عَنِ الْمَیِّتِ ۳۳۰۷،السنن الکبری للنسائی ۴۷۴۰،السنن الکبری للبیہقی۸۲۳۲،مسنداحمد۱۸۹۳،۳۵۰۶،صحیح ابن حبان۴۳۹۳،شرح السنة للبغوی۲۴۴۹،مسندابی یعلی۲۳۸۳،احکام الجنائز ۱۷۰؍۱

[270] صحیح بخاری كِتَاب الحَوَالاَتِ بَابُ إِنْ أَحَالَ دَیْنَ المَیِّتِ عَلَى رَجُلٍ جَازَ۲۲۸۹،السنن الکبری للنسائی۲۰۹۹،سنن ابن ماجہ كِتَابُ الصَّدَقَاتِ بَابُ الْكَفَالَةِ۲۴۰۷،السنن الکبری للبیہقی ۱۱۴۰۴، مسند احمد۱۶۵۱۰

[271] النجم۳۹

[272]مسنداحمد۲۴۰۳۲،احکام الجنائز۱۷۱؍۱،سنن ابوداودکتاب الْإِجَارَةِ بَابٌ فِی الرَّجُلِ یَأْكُلُ مِنْ مَالِ وَلَدِهِ۳۵۲۸ ،سنن ابن ماجہ كِتَابُ التِّجَارَاتِ بَابُ الْحَثِّ عَلَى الْمَكَاسِبِ۲۱۳۷،السنن الکبری للنسائی۶۰۰۰،مستدرک حاکم۲۲۹۵،مسندالبزار۳۲۳،صحیح ابن حبان۴۲۵۹،شرح السنة للبغوی۲۳۹۸، السنن الکبری للبیہقی۱۵۷۴۷

[273] یٰسین۱۲

[274] الحشر۱۸،۱۹

[275] صحیح مسلم کتاب الوصیة بَابُ مَا یَلْحَقُ الْإِنْسَانَ مِنَ الثَّوَابِ بَعْدَ وَفَاتِهِ۴۲۲۳ ،الادب المفردللبخاری۳۸،سنن ابوداودكِتَاب الْوَصَایَا بَابُ مَا جَاءَ فِی الصَّدَقَةِ عَنِ الْمَیِّتِ۲۸۸۰ ،جامع ترمذی أَبْوَابُ الأَحْكَامِ عَنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بَابٌ فِی الوَقْفِ ۱۳۷۶،السنن الکبری للنسائی۶۴۴۵،السنن الکبری للبیہقی۱۲۶۳۵،مسنداحمد۸۸۴۴،صحیح ابن خزیمة۲۴۹۴،صحیح ابن حبان۳۰۱۶،شرح السنة للبغوی۱۳۹،معجم ابن عساکر۵۱۹،مسندابی یعلی۶۴۵۷،احکام الجنائز۱۷۶؍۱

[276] شرح النووی علی مسلم۸۵؍۱۱

[277] احکام الجنائز۱۷۶؍۱

[278]احکام الجنائز۲۰۶؍۱

[279] احکام الجنائز۲۰۶؍۱

[280] احکام الجنائز۲۰۶؍۱

[281] فتاوی اسلامیة۱۲۰؍۱

[282] فتح القدیر۱۴۲؍۲

[283] احکام الجنائز۱۶۷؍۱

[284] شرح النقایہ

Related Articles