ہجرت نبوی کا نواں سال

نمازجنازہ اوراس سے متعلق مسائل

مریض کی عیادت کرنامسنون ہے:

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: “ خَمْسٌ مِنْ حَقِّ الْمُسْلِمِ عَلَى الْمُسْلِمِ: رَدُّ التَّحِیَّةِ، وَإِجَابَةُ الدَّعْوَةِ، وَشُهُودُ الْجِنَازَةِ، وَعِیَادَةُ الْمَرِیضِ، وَتَشْمِیتُ الْعَاطِسِ إِذَا حَمِدَ اللَّهَ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایامسلمان کے مسلمان پر پانچ حق ہیں  ،سلام کاجواب دینا،مریض کی عیادت کرنا،جنازے میں  شرکت کرنا،دعوت قبول کرنا ،چھینک کاجواب دیناجب وہ الحمدللہ کہے۔[1]

ایک روایت میں  چھ حقوق کاذکرہے،

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:حَقُّ الْمُسْلِمِ عَلَى الْمُسْلِمِ سِتٌّ قِیلَ: مَا هُنَّ یَا رَسُولَ اللهِ؟، قَالَ:إِذَا لَقِیتَهُ فَسَلِّمْ عَلَیْهِ، وَإِذَا دَعَاكَ فَأَجِبْهُ، وَإِذَا اسْتَنْصَحَكَ فَانْصَحْ لَهُ، وَإِذَا عَطَسَ فَحَمِدَ اللهَ فَسَمِّتْهُ، وَإِذَا مَرِضَ فَعُدْهُ وَإِذَا مَاتَ فَاتَّبِعْهُ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایامسلمان کے مسلمان پرچھ حق ہیں  ،لوگوں  نے عرض کیااے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !وہ کیاہیں  ؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجب تومسلمان کوملو تواسے سلام کرو،اورجب وہ تمہاری دعوت کرے توقبول کرو،اورجب تجھ سے مشورہ چاہے تواچھی صلاح دے،جب وہ چھینکے اورالحمدللہ کہے توتم بھی جواب دو(یعنی یرحمک اللہ کہو)اورجب بیمارہوتواس کی مزاج پرسی کے لیے جاؤ،اورجب وہ فوت ہوجائے تواس کے جنازے کے ساتھ رہو۔[2]

عَنْ أَبِی مُوسَى الأَشْعَرِیِّ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:أَطْعِمُوا الجَائِعَ، وَعُودُوا المَرِیضَ، وَفُكُّوا العَانِیَ

ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایامریض کی عیادت کرو اور بھوکے کوکھاناکھلاؤاورقیدی کوچھڑاؤ۔[3]

عَنْ زَیْدِ بْنِ أَرْقَمَ، قَالَ:عَادَنِی رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مِنْ وَجَعٍ كَانَ بِعَیْنِی

زیدبن ارقم رضی اللہ عنہ سے مروی ہے میری آنکھ میں  تکلیف تھی تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میری عیادت کی۔[4]

عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ:لَمَّا أُصِیبَ سَعْدُ بْنُ مُعَاذٍ یَوْمَ الْخَنْدَقِ، رَمَاهُ رَجُلٌ فِی الْأَكْحَلِ فَضَرَبَ عَلَیْهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ خَیْمَةً فِی الْمَسْجِدِ لِیَعُودَهُ مِنْ قَرِیبٍ

ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہےسعدبن معاذ رضی اللہ عنہ غزوہ خندق میں  زخمی ہوگئے،ایک آدمی نے ان کے بازوکی رگ(رگ ہفت اندام)پرنشانہ ماراتھا، تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لیے مسجدمیں  خیمہ لگوالیاتھاتاکہ قریب سے ان کی عیادت کرتے رہیں  ۔[5]

مریض کے احوال کوملحوظ رکھتے ہوئے عیادت کے لیے باربارآناحب اسلامی اوراخلاق حسنہ کاحصہ ہے نہ کہ کوئی معیوب بات۔

عَنْ ثَوْبَانَ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:إِنَّ الْمُسْلِمَ إِذَا عَادَ أَخَاهُ الْمُسْلِمَ لَمْ یَزَلْ فِی خُرْفَةِ الْجَنَّةِ حَتَّى یَرْجِعَ

ثوبان رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجب کوئی مسلمان آدمی اپنے مسلمان بھائی کی عیادت کرتا ہے، تو وہ جنت کے باغات کی سیر کرتا ہے جب تک کہ وہ لوٹ آئے۔[6]

عَنْ عَلِیٍّ، قَالَ:مَا مِنْ رَجُلٍ یَعُودُ مَرِیضًا مُمْسِیًا، إِلَّا خَرَجَ مَعَهُ سَبْعُونَ أَلْفَ مَلَكٍ یَسْتَغْفِرُونَ لَهُ حَتَّى یُصْبِحَ، وَكَانَ لَهُ خَرِیفٌ فِی الْجَنَّةِ، وَمَنْ أَتَاهُ مُصْبِحًا، خَرَجَ مَعَهُ سَبْعُونَ أَلْفَ مَلَكٍ یَسْتَغْفِرُونَ لَهُ حَتَّى یُمْسِیَ، وَكَانَ لَهُ خَرِیفٌ فِی الْجَنَّةِ

سیدناعلی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجوشخص شام کے وقت کسی مریض کی عیادت کے لیے نکلتاہے تواس کے ساتھ سترہزارفرشتے بھی نکلتے ہیں  جواس کے لیے صبح تک بخشش طلب کرتے رہتے ہیں  ،اورجنت میں  اسے ایک باغ بھی حاصل ہوگا،اورجوکوئی صبح کے وقت عیادت کے لیے نکلے تواس کے ساتھ سترہزارفرشتے بھی نکلتے ہیں  جواس کے لیے شام تک بخشش مانگتے رہتے ہیں  ، اورجنت میں  اسے ایک باغ بھی حاصل ہوگا۔[7]

حكم الألبانی:صحیح موقوف

قَالَ عَلِیٌّ:سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَقُولُ:مَا مِنْ مُسْلِمٍ عَادَ أَخَاهُ إِلا ابْتَعَثَ اللَّهُ لَهُ سَبْعِینَ أَلْفَ مَلَكٍ یُصَلُّونَ عَلَیْهِ مِنْ أَیِّ سَاعَاتِ النَّهَارِ، كَانَ حَتَّى یُمْسِیَ، وَمِنْ أَیِّ سَاعَاتِ اللَّیْلِ كَانَ حَتَّى یُصْبِحَ

سیدناعلی رضی اللہ عنہ سے مروی ہےمیں  نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوفرماتے ہوئے سناجب کوئی مسلمان دن کی کسی گھڑی میں  اپنے(مسلمان)بھائی کی عیادت کرے تواللہ تعالیٰ ستر ہزار فرشتے بھیجتے ہیں  جوشام تک اس پردرودبھیجتے رہتے ہیں  ،اوراگررات کے کسی وقت تیمارداری کرے تووہ فرشتے صبح تک اس پردرودپڑھتے رہتے ہیں  ۔[8]

فَقَالَ عَلِیٌّ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَقُولُ:مَنْ عَادَ مَرِیضًا بَكَرًا شَیَّعَهُ سَبْعُونَ أَلْفَ مَلَكٍ، كُلُّهُمْ یَسْتَغْفِرُ لَهُ حَتَّى یُمْسِیَ، وَكَانَ لَهُ خَرِیفٌ فِی الْجَنَّةِ، وَإِنْ عَادَهُ مَسَاءً شَیَّعَهُ سَبْعُونَ أَلْفَ مَلَكٍ كُلُّهُمْ یَسْتَغْفِرُ لَهُ، حَتَّى یُصْبِحَ وَكَانَ لَهُ خَرِیفٌ فِی الْجَنَّةِ

سیدناعلی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے میں  نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوارشادفرماتے ہوئے سنا،جوصبح سویرے مریض کی عیادت کی غرض سے نکلے توسترہزارفرشتے اس کے ساتھ چلتے ہیں  اور وہ شام تک اس کے لیے دعائے مغفرت کرتے رہتے ہیں  ، اوراس کاجنت میں  ایک باغ عطاکیاجاتاہے،اوراگرشام کے وقت اس کی بیمارپرسی کے لیے روانہ ہوتو ستر ہزار فرشتے اس کے ساتھ چلتے ہیں  اوروہ سب صبح تک اس کے لیے استغفارکرتے رہتے ہیں  ،اورجنت میں  ایک باغ اس کوعطاکیاجاتاہے۔[9]

عیادت کرنے والاصرف جاتے وقت ہی رحمت الٰہی کی آغوش میں  نہیں  رہتابلکہ اپنے گھرواپس لوٹتے ہوئے بھی رحمت الٰہی ہی میں  پلٹتاہے،

عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:مَنْ عَادَ مَرِیضًا، لَمْ یَزَلْ یَخُوضُ فِی الرَّحْمَةِ حَتَّى یَجْلِسَ، فَإِذَا جَلَسَ اغْتَمَسَ فِیهَا

جابربن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجس نے مریض کی عیادت کی وہ پلٹنے تک رحمت میں  داخل رہا،اورجب (مریض کے پاس)بیٹھ گیاتورحمت میں  غوطہ زن ہوگیا۔[10]

عَنْ عَمْرِو بْنِ حَزْمٍ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَقُولُ:۔۔۔۔۔۔۔۔۔وَإِذَا قَامَ مِنْ عِنْدِهِ فَلَا یَزَالُ یَخُوضُ فِیهَا حَتَّى یَرْجِعَ مِنْ حَیْثُ خَرَجَ

عمروبن حزم انصاری رضی اللہ عنہ سے مروی ہےمیں  نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوفرماتے ہوئے سنا۔۔۔۔۔اورجب وہ مریض کے ہاں  سے اٹھتاہے تورحمت ہی میں  رہتاہے یہاں  تک کہ وہ وہاں  لوٹ کرچلاجائے جہاں  سے آیاتھا۔[11]

عیادت کے وقت مریض کودعادینا :

عَنِ ابْنِ عَمْرٍو، قَالَ: قَالَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:إِذَا جَاءَ الرَّجُلُ یَعُودُ مَرِیضًا، فَلْیَقُلْ: اللَّهُمَّ اشْفِ عَبْدَكَ یَنْكَأُ لَكَ عَدُوًّا، أَوْ یَمْشِی لَكَ إِلَى جَنَازَةٍ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجب کوئی آدمی کسی مریض کی عیادت کے لیے آئے توکہےاے اللہ!اپنے بندے کوشفاعنایت فرما،یہ تیری راہ میں  کسی دشمن کوزخمی کرے گا،یاتیری رضاکے لیے کسی جنازہ میں  شریک ہوگا۔[12]

قَالَ أَبُو دَاوُدَ: وَقَالَ ابْنُ السَّرْحِ: إِلَى صَلَاةٍ

امام ابوداود رحمہ اللہ فرماتے ہیں  کہ ابن السرح(احمدبن عمروبن عبداللہ)نے إِلَى جَنَازَةٍ کی بجائے إِلَى صَلَاةٍ روایت کیاہے یعنی یہ بندہ نمازکے لیے جائے گا۔

 عَنْ عَائِشَةَ بِنْتِ سَعْدٍ، أَنَّ أَبَاهَا، قَالَ: اشْتَكَیْتُ بِمَكَّةَ فَجَاءَنِی النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَعُودُنِی، وَوَضَعَ یَدَهُ عَلَى جَبْهَتِی، ثُمَّ مَسَحَ صَدْرِی وَبَطْنِی، ثُمَّ قَالَ:اللَّهُمَّ اشْفِ سَعْدًا وَأَتْمِمْ لَهُ هِجْرَتَهُ

سعدبن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کی دخترعائشہ اپنے والدسے روایت کرتی ہیں  میں  مکہ مکرمہ میں  بیمارہوگیاتورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیمارپرسی کے لیے میرے ہاں  تشریف لائے ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپناہاتھ مبارک میری پیشانی پر رکھا ،پھرمیرے سینے اورپیٹ پرپھیرااورفرمایااے اللہ!سعد رضی اللہ عنہ !کوشفاعنایت فرمااوراس کی ہجرت مکمل فرمادے۔[13]

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:مَنْ عَادَ مَرِیضًا، لَمْ یَحْضُرْ أَجَلُهُ فَقَالَ عِنْدَهُ سَبْعَ مِرَارٍ: أَسْأَلُ اللَّهَ الْعَظِیمَ رَبَّ الْعَرْشِ الْعَظِیمِ أَنْ یَشْفِیَكَ، إِلَّا عَافَاهُ اللَّهُ مِنْ ذَلِكَ الْمَرَضِ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجس نے کسی ایسے مریض کی عیادت کی جس کی ابھی اجل نہ آئی ہو توسات باراس کے پاس یہ دعا’’میں  اللہ سے سوال کرتاہوں  جوعظمت اوربڑائی والااورعرش عظیم کارب ہے کہ تجھے شفاعنایت فرمائے۔‘‘ پڑھے تواللہ تعالیٰ اسے اس بیماری سے عافیت دے دے گا۔[14]

عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ، قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:إِذَا حَضَرْتُمُ الْمَرِیضَ أَوِ الْمَیِّتَ، فَقُولُوا خَیْرًا، فَإِنَّ الْمَلَائِكَةَ یُؤَمِّنُونَ عَلَى مَا تَقُولُونَ

ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجب تم مریض یامیت کے پاس موجودہوتواچھی بات کہوکیونکہ فرشتے تمہاری کہی ہوئی بات پرآمین کہتے ہیں  ۔[15]

فِیهِ النَّدْبُ إِلَى قَوْلِ الْخَیْرِ، حِینَئِذٍ مِنَ الدُّعَاءِ وَالِاسْتِغْفَارِ لَهُ وَطَلَبِ اللُّطْفِ بِهِ وَالتَّخْفِیفِ عَنْهُ وَنَحْوِهِ ، وَفِیهِ حضور الملائكة حینئذ وتأمینهم ،

امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں  اس حدیث میں  اس بات کی ترغیب ہے کہ ایسے موقع پربھلی بات کہی جائے،اللہ تعالیٰ سے اس(مریض یامیت)کے لیے مغفرت کاسوال کیاجائے اوراس کے ساتھ شفقت ،نرمی اورآسانی کامعاملہ کرنے کی دعاکی جائے، علاوہ ازیں  اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوتاہے کہ ایسے موقع پرفرشتے حاضرہوتے ہیں  اورجوبات کہی جائے اس پرآمین کہتے ہیں  ۔[16]

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُمَا: أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ دَخَلَ عَلَى أَعْرَابِیٍّ یَعُودُهُ، قَالَ: وَكَانَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ إِذَا دَخَلَ عَلَى مَرِیضٍ یَعُودُهُ قَالَ:لاَ بَأْسَ، طَهُورٌ إِنْ شَاءَ اللَّهُ فَقَالَ لَهُ:لاَ بَأْسَ طَهُورٌ إِنْ شَاءَ اللَّهُ قَالَ: قُلْتُ: طَهُورٌ؟ كَلَّا، بَلْ هِیَ حُمَّى تَفُورُ، أَوْ تَثُورُ، عَلَى شَیْخٍ كَبِیرٍ، تُزِیرُهُ القُبُورَ، فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:فَنَعَمْ إِذًا

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے (ایک دن) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عیادت کرنے کے لئے ایک اعرابی کے پاس تشریف لے گئے اور جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کسی کی عیادت کو جاتے تو فرماتے اللہ نے چاہا تو یہ اچھا ہو جائے گا اور اس کے گناہ دھل گئے، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے بھی کہااگر اللہ نے چاہا تو کچھ حرج نہیں  گناہ کی معافی کا سبب ہے،اور اعرابی نے کہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم (طہور) کہتے ہیں  ہرگز طہور نہیں  بلکہ یہ تو ایک مارنے والا بخار ہے جو مجھ بوڑھے کو قبر تک پہنچا دے گا تونبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں  اب یہی ہوگا ۔ [17]

عَنْ عَائِشَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهَا: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، كَانَ إِذَا أَتَى مَرِیضًا أَوْ أُتِیَ بِهِ، قَالَ:أَذْهِبِ البَاسَ رَبَّ النَّاسِ، اشْفِ وَأَنْتَ الشَّافِی، لاَ شِفَاءَ إِلَّا شِفَاؤُكَ، شِفَاءً لاَ یُغَادِرُ سَقَمًا

ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی مریض کے پاس تشریف لے جاتے یا آپ کے پاس کوئی مریض لایا جاتا تو فرماتے’’ اے لوگوں  کے پروردگار! تکلیف کو دور کر کے شفا دے کہ تو ہی شفا دینے والا ہے، تیری شفا شفا ہے، ایسی شفا جو مرض کو نہ چھوڑے۔‘‘[18]

قریب الموت شخص کوکلمہ شہادت کی تلقین کرنا :

عَنْ أَبِی سَعِیدٍ الْخُدْرِیِّ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:لَقِّنُوا مَوْتَاكُمْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ

ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاقریب المرگ آدمی کو لاالٰہ الااللہ کی تلقین کرو۔[19]

ان کولاالٰہ الااللہ کی تلقین کروتاکہ ان کاآخری کلام لاالٰہ الااللہ ہوکیونکہ حدیث میں  آیاہے کہ جس کایہ آخری کلام ہوگا

حَرَّمَهُ اللهُ عَلَى النَّارِ

اللہ نےاس پرجہنم کی آگ کو حرام کردیا ہے۔

یعنی وہ جنت میں  جائے گا،اورتلقین کاحکم مستحب ہے اورعلماکااس پراجماع ہے ،اوربیمارکوباربارتلقین کرنامکروہ ہے کہیں  تنگ آکروہ انکارنہ کربیٹھے، بلکہ لازم ہے کہ اس کے پاس اس کلمہ کوپڑھیں  تاکہ وہ بھی سن کرپڑھنے لگے اورجب وہ ایک بارپڑھ لے پھرچپ ہوجائیں  ،ہاں  اگرپھرکچھ اوربات کرے توپھرتلقین کردیں  تاکہ اس کاآخری کلمہ کلمہ توحیدہو۔

عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ قَالَ:سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَقُولُ:مَنْ كَانَ آخِرُ كَلَامِهِ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَجَبَتْ لَهُ الْجَنَّةُ

معاذبن جبل رضی اللہ عنہ سے مروی ہے میں  نےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کویہ فرماتے سناآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجس کاآخری کلام لاالٰہ الااللہ ہوگا،وہ جنت میں  داخل ہوگا۔[20]

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے بھی انہی الفاظ میں  حدیث مروی ہے۔

اسے قبلہ رخ کرنااور(وفات کے بعد)اس کی آنکھیں  بندکرنا :

قریب المرگ انسان کوقبلہ رخ کرناتاکہ اسی حالت میں  اس کی وفات ہوکسی صحیح مرفوع حدیث سے ثابت نہیں  ہے،البتہ جولوگ قبلہ رخ کرنے کے قائل ہیں  وہ مندرجہ ذیل احادیث سے استدلال کرتے ہیں  ۔

عَنْ عُبَیْدِ بْنِ عُمَیْرٍ، عَنْ أَبِیهِ، أَنَّهُ حَدَّثَهُ وَكَانَتْ لَهُ صُحْبَةٌ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ فِی حَجَّةِ الْوَدَاعِ:ثُمَّ إِنَّ رَجُلًا سَأَلَهُ فَقَالَ: یَا رَسُولَ اللَّهِ، مَا الْكَبَائِرُ؟ فَقَالَ:هُوَ تِسْعٌ: الشِّرْكُ بِاللَّهِ، وَقَتْلُ نَفْسِ مُؤْمِنٍ بِغَیْرِ حَقٍّ، وَفِرَارٌ یَوْمَ الزَّحْفِ، وَأَكْلُ مَالِ الْیَتِیمِ، وَأَكْلُ الرِّبَا، وَقَذْفُ الْمُحْصَنَةِ، وَعُقُوقُ الْوَالِدَیْنِ الْمُسْلِمَیْنِ، وَاسْتِحْلَالُ الْبَیْتِ الْحَرَامِ قِبْلَتِكُمْ أَحْیَاءً وَأَمْوَاتًا

عبیدبن عمیراپنے والدسے بیان کرتے ہیں  جوصحابی تھے، حجة الوادع کے موقع پرایک شخص نے پوچھااے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !کبیرہ گناہ کیاہیں  ؟رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کبیرہ گناہ نوہیں  اللہ کے ساتھ شرک ٹھیرانا،جادو،ناحق کسی جان کاقتل،سودکھانا،یتیم کامال کھانا،جنگ کے وقت پیٹھ پھیرکربھاگ جانا،پاک دامنہ عورتوں  پرتہمت لگانا،والدین کی نافرمانی کرنا ،اوربیت الحرام کوحلال سمجھ لیناحالانکہ وہ توزندہ اورمردہ حالت میں  تمہاراقبلہ ہے۔[21]

وفیه نظر؛ لأن المراد بقوله: أحیاء عند الصلاة، وبقوله: أمواتا فی اللحد، والمحتضر حی غیر مصل، فلا یتناوله الحدیث، وإلا لزم وجوب التوجه إلى القبلة على كل حی، وعدم اختصاصه بحال الصلاة! وهو خلاف الإجماع

اس حدیث میں  محل شاہد یہ ہے کہ زندوں  کے لیے بیت اللہ نماز کے وقت قبلہ ہے اور مردوں  کے لیے قبر میں  ، لہٰذا قریب المرگ انسان ان دونوں  میں  شامل نہیں  ہے تاہم اگر اس فلسفہ کو تسلیم کر لیا جائے تو ہر زندہ شخص پر قبلہ رخ ہونا لازم ہوگا، قطع نظر اس بات سے کہ نماز کا وقت ہو یا نہ ہو، تو یقیناً یہ بات نقل وعقل کے خلاف ہے۔[22]

وللحدیث شواھدیحییٰ بن ابی کثیرمدلس وعنعن ،وللحدیث شواھد ضعیفة۔

عَنْ أَبِی قَتَادَةَ أَنَّ الْبَرَاءَ بْنَ مَعْرُورٍ أَوْصَى أَنْ یُوَجَّهَ لِلْقِبْلَةِ إذَا اُحْتُضِرَ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَصَابَ الْفِطْرَةَ

ابوقتادہ سے مروی ہےبراء بن معرور رضی اللہ عنہ نے وصیت کی کہ جب ان کی وفات کاوقت آئے توانہیں  قبلہ رخ کیاجائے ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے متعلق فرمایایہ توفطرت کوپہنچ گیاہے۔[23]

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اسے نقل توکیاہے لیکن اس پرسکوت فرمایاہے۔

ومن ذلك فعل البتول رَضِیَ اللهُ عَنْهَا ولا وجه لاختیار الاستلقاء إلا وهم أنه أكمل

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی لخت جگرفاطمہ رضی اللہ عنہا نے وفات کے وقت قبلہ رخ ہوکراپنے دائیں  ہاتھ کاتکیہ بنالیا۔[24]

وقد ذكره ابن الجوزی فی الموضوعات، وقال: لا یصح، وكیف یصح الغسل للموت قبل الموت؟ ! هذا لا یصح إضافته إلى فاطمة وعلی؛ بل ینزهان عن مثل هذا

ابن جوزی رحمہ اللہ نے اسے الموضوعات میں  لکھاہےاورکہاہے یہ صحیح نہیں  ہےاوریہ صحیح کیسے ہوسکتاہے کہ مرنے سے پہلے میت کوغسل دیے دیاجائے!یہ صحیح نہیں  ہے یہ فاطمہ رضی اللہ عنہا اورسیدناعلی رضی اللہ عنہ کی طرف اضافہ کیاگیاہے حالانکہ وہ ان باتوں  سے منزہ ہیں  ۔[25]

حَدَّثَنِی زُرْعَةُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أَنَّهُ شَهِدَ سَعِیدَ بْنَ الْمُسَیِّبِ فِی مَرَضِهِ وَعِنْدَهُ أَبُو سَلَمَةَ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، فَغُشِیَ عَلَى سَعِیدٍ، فَأَمَرَ أَبُو سَلَمَةَ، أَنْ یُحَوَّلَ فِرَاشُهُ إِلَى الْكَعْبَةِ

زرعہ بن عبد الرحمن سے مروی ہے میں  سعیدبن مسیب کی بیماری کے وقت وہاں  موجودتھااوروہ ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن کے ہاں  تھے،سعید رضی اللہ عنہ پرموت کی غشی طاری ہوئی تو ابوسلمہ نے سلمہ سے کہاکہ ان کابسترکارخ قبلہ کی طرف کردو۔[26]

بل كره سعید بن المسیب توجیهه إلیها،

تاہم سعیدبن مسیب رضی اللہ عنہ کے متعلق مروی ہے انہوں  نے قریب المرگ انسان کوقبلہ رخ کرناناپسندکیاہے۔[27]

میت کی آنکھیں  بندکردینا :

عَنْ شَدَّادِ بْنِ أَوْسٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:إِذَا حَضَرْتُمْ مَوْتَاكُمْ، فَأَغْمِضُوا الْبَصَرَ؛ فَإِنَّ الْبَصَرَ یَتْبَعُ الرُّوحَ، وَقُولُوا خَیْرًا؛ فَإِنَّ الْمَلَائِكَةَ تُؤَمِّنُ عَلَى مَا قَالَ أَهْلُ الْبَیْتِ

شدادبن اوس سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاتم اپنے مردوں  کے پاس حاضرہوتوان کی آنکھیں  بندکر دیا کرو بے شک نظرروح کا پیچھا کرتی ہے ،اوراچھی بات کہو کیونکہ (میت کے)گھروالوں  کی کہی ہوئی بات پرآمین کہی جاتی ہے۔[28]

عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ، قَالَتْ: دَخَلَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عَلَى أَبِی سَلَمَةَ وَقَدْ شَقَّ بَصَرُهُ، فَأَغْمَضَهُ، ثُمَّ قَالَ:إِنَّ الرُّوحَ إِذَا قُبِضَ تَبِعَهُ الْبَصَرُ

ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ابوسلمہ رضی اللہ عنہ کی وفات کے وقت تشریف لائے تواس وقت اس کی آنکھ کھلی تھی توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے بندکردیاپھرفرمایاجب روح قبض کرلی جاتی ہوتوآنکھ اس کاپیچھاکرتی ہے۔[29]

دَلِیلٌ عَلَى اسْتِحْبَابِ إِغْمَاضِ الْمَیِّتِ وَأَجْمَعَ الْمُسْلِمُونَ عَلَى ذَلِكَ

امام شوکانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں  اس سے ثابت ہواکہ میت کی آنکھیں  بندکرنامشروع ہے اورمسلمانوں  کااس پراجماع ہے۔[30]

قَالَ النَّوَوِیُّ: وَأَجْمَعَ الْمُسْلِمُونَ عَلَى ذَلِكَ

امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں  اس پرمسلمانوں  کااجماع ہے۔[31]

مرنے والے پرسورہ یٰسین کی تلاوت کرنا :

عَنْ مَعْقِلِ بْنِ یَسَارٍ، قَالَ: قَالَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:اقْرَءُوا یس عَلَى مَوْتَاكُمْ

معقل بن یسار رضی اللہ عنہ سے مروی ہےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااپنے مرنے والوں  کے قریب سورۂ  یٰسین پڑھاکرو۔[32]

قَالَ الدَّارَقُطْنِیّ: هَذَا حَدِیثٌ ضَعِیفُ الْإِسْنَادِ مَجْهُولُ الْمَتْنِ ، وَلَا یَصِحُّ فِی الْبَابِ

امام دارقطنی رحمہ اللہ فرماتے ہیں  یہ حدیث اسناد کے لحاظ سے ضعیف اورمتن کے لحاظ سےمجہول ہے اوراس بارے میں  صحیح نہیں  ہے۔[33]

عَنْ أَبِی الدَّرْدَاءَ وَأَبِی ذَرٍّ قَالَا:قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ :مَا مِنْ مَیِّتٍ یَمُوتُ فَیُقْرَأُ عِنْدَهُ یس إلَّا هَوَّنَ اللهُ عَلَیْهِ

ابودرداء اورابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجس مردے پرسورۂ یٰسین کی تلاوت کی جاتی ہے اللہ تعالیٰ اس پرآسانی فرمادیتاہے۔[34]

اس روایت کی سندمیں  مروان بن سالم راوی ثقہ نہیں  ہے۔

قال أحمد وغیره: لیس بثقة.وقال الدارقطنی: متروك.وقال البخاری، ومسلم، وأبو حاتم: منكر الحدیث.وقال أبو عروبة الحرانی: یضع الحدیث.وقال ابن عدی: عامة أحادیثه لا یتابعه الثقات علیه

امام احمدبن حنبل رحمہ اللہ فرماتے ہیں  مروان بن سالم ثقہ نہیں  ہے،امام دارقطنی رحمہ اللہ فرماتے ہیں  یہ متروک ہے،امام بخاری رحمہ اللہ ،امام مسلم رحمہ اللہ اورامام ابوحاتم رحمہ اللہ فرماتے ہیں  یہ منکرحادیث ہے، اورابوعروبہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں  یہ حدیثیں  گھڑاکرتاتھا،اورابن عدی نے فرمایااحادیث کاعلم رکھنے والے اسے ثقہ شمارنہیں  کرتے ۔[35]

كَانَ مِمَّن یَرْوِی الْمَنَاكِیر عَن الْمَشَاهِیر وَیَأْتِی عَن الثِّقَات مَا لَیْسَ من حَدِیث الْأَثْبَات فَلَمَّا كثر ذَلِك فِی رِوَایَته بَطل

یہ مشاہیرسے مناکیرروایت کرتاہے اور ثقہ راویوں  سے ایسی روایات لاتا جس کا کوئی سر پیر نہ ہوتا چنانچہ اس کی اکثرروایات باطل ہیں  ۔[36]

 وأما قراءة سورة (یس) عنده، وتو جیهه نحو القبلة فلم یصح فیه حدیث

شیخ البابی رحمہ اللہ فرماتے ہیں  میت کے قریب سورۂ یٰسین پڑھنے، اوراس کارخ قبلہ کی طرف کردینےکی کوئی صحیح حدیث نہیں  ہے۔[37]

تجہیزوتکفین میں  جلدی کرنا :

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:أَسْرِعُوا بِالْجِنَازَةِ، فَإِنْ تَكُ صَالِحَةً فَخَیْرٌ تُقَدِّمُونَهَا، وَإِنْ یَكُ سِوَى ذَلِكَ، فَشَرٌّ تَضَعُونَهُ عَنْ رِقَابِكُمْ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجنازے کے ساتھ(تجہیزوتکفین میں  )جلدی کرواگروہ نیک اورصالح ہے توتم اسے بھلائی کی طرف آگے لے جارہے ہو،اوراگروہ اس کے سواہے تووہ ایک شرہے جسے تم اپنی گردنوں  سے اتارپھینک رہے ہو۔[38]

وفات ہوجانے کے بعدمیت کودفن کرنے میں  جلدی کرنی چاہیے،دوردرازکے اقارب واحباب کوجمع کرنااوران کی آمدکے انتظارمیں  تاخیرکرناایک غیرشرعی اورنامناسب عمل ہے۔

أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ثَلاثَةٌ یَا عَلِیُّ لَا تُؤَخِّرْهُنَّ: الصَّلاةُ إِذَا أَتَتْ، وَالْجَنَازَةُ إِذَا حَضَرَتْ، وَالْأَیِّمُ إِذَا وَجَدَتْ كُفُؤًا

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدناعلی رضی اللہ عنہ کوتین چیزوں  میں  تاخیرنہ کرنے کی وصیت فرمائی ،جب نمازکاوقت ہوجائے توتاخیرنہ کرنا،جب جنازہ حاضرہوجائے(تواسے لے جانے میں  تاخیرنہ کی جائے)اوربیوہ عورت کے نکاح میں  تاخیرنہ کرنا جب اس کی ذات والامل جائے۔[39]

حَدِیثُ أُمِّ فَرْوَةَ لاَ یُرْوَى إِلاَّ مِنْ حَدِیثِ عَبْدِ اللهِ بْنِ عُمَرَ العُمَرِیِّ، وَلَیْسَ هُوَ بِالقَوِیِّ عِنْدَ أَهْلِ الحَدِیثِ، وَاضْطَرَبُوا فِی هَذَا الحَدِیثِ، وَقَدْ تَكَلَّمَ فِیهِ یَحْیَى بْنُ سَعِیدٍ مِنْ قِبَلِ حِفْظِهِ

امام ترمذی رحمہ اللہ فرماتے ہیں  ام فروہ کی حدیث سوائے عبداللہ بن عمرعمری سے روایت نہیں  کی گئی، اوروہ اہل حدیث کے نزدیک کچھ ایسی قوی نہیں  ،انہوں  نے اس حدیث میں  اضطراب کیاہے اوریحییٰ بن سعیدکے بارے میں  کلام کیاہے۔[40]

عَنِ الْحُصَیْنِ بْنِ وَحْوَحٍ، أَنَّ طَلْحَةَ بْنَ الْبَرَاءِ، مَرِضَ فَأَتَاهُ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَعُودُهُ، فَقَالَ:إِنِّی لَا أَرَى طَلْحَةَ إِلَّا قَدْ حَدَثَ فِیهِ الْمَوْتُ فَآذِنُونِی بِهِ وَعَجِّلُوا فَإِنَّهُ، لَا یَنْبَغِی لِجِیفَةِ مُسْلِمٍ أَنْ تُحْبَسَ بَیْنَ ظَهْرَانَیْ أَهْلِهِ

الحصین بن وحوح سے مروی ہےطلحہ بن براء رضی اللہ عنہ مرض الموت میں  مبتلاہوئے تونبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان کی عیادت کے لیے تشریف لائے اورفرمایامجھے اس کی اطلاع دے دینا اور جلدی کروکیونکہ مسلمان کے مردہ جسم کواس کے گھروالوں  کے درمیان روکے رکھناجائزنہیں  ۔[41]

وهذا إسناد ضعیف مظلم؛ من دون حصین بن وحوح لا یعرفون. وقد قال الحافظ فی كل من عروة بن سعید الأنصاری وأبیه:مجهول

اس روایت کی اسنادمظلم کی وجہ سےضعیف ہے، اس کے ساتھ حصین بن وحوح کونہیں  جانتے، اورحافظ رحمہ اللہ نے فرمایاعروہ بن سعیداوراس کے والدسب راوی مجہول ہیں  ۔[42]

أَنَّ أَبَا بُرْدَةَ حَدَّثَهُ قَالَ: أَوْصَى أَبُو مُوسَى حِینَ حَضَرَهُ الْمَوْتُ فَقَالَ: إِذَا انْطَلَقْتُمْ بِجِنَازَتِی فَأَسْرِعُوا الْمَشْیَ

ابوبردہ سے مروی ہےابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے وصیت کی کہ جب تم میراجنازہ لے کرجاؤگے تومجھے جلدی لے کرچلنا۔[43]

میت کاقرض اداکرنا :

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:نَفْسُ الْمُؤْمِنِ مُعَلَّقَةٌ بِدَیْنِهِ حَتَّى یُقْضَى عَنْهُ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایامومن کی روح قرض کے ساتھ اس وقت تک معلق رہتی ہے جب تک کہ اسے ادانہیں  کردیاجاتا۔[44]

عَنْ سَعْدِ بْنِ الْأَطْوَلِ، قَالَ: مَاتَ أَخِی وَتَرَكَ ثَلَاثَ مِائَةِ دِینَارٍ، وَتَرَكَ وَلَدًا صِغَارًا، فَأَرَدْتُ أَنْ أُنْفِقَ عَلَیْهِمْ، فَقَالَ لِی رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:إِنَّ أَخَاكَ مَحْبُوسٌ بِدَیْنِهِ، فَاذْهَبْ، فَاقْضِ عَنْهُ

سعدبن أطول رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ان کابھائی تین سودرہم ترکہ چھوڑکرفوت ہوگیاچونکہ میت کے اہل وعیال بھی تھے توسعد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں  کہ میں  نے اس کے عیال پریہ درہم خرچ کرنے کاارادہ کیا،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھےفرمایابے شک تمہارابھائی اپنے قرض کی وجہ سے روک دیاگیاہے، اس کی طرف سے قرض اداکرو۔[45]

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ كَانَ یُؤْتَى بِالرَّجُلِ المُتَوَفَّى، عَلَیْهِ الدَّیْنُ، فَیَسْأَلُ:هَلْ تَرَكَ لِدَیْنِهِ فَضْلًا؟، فَإِنْ حُدِّثَ أَنَّهُ تَرَكَ لِدَیْنِهِ وَفَاءً صَلَّى، وَإِلَّا قَالَ لِلْمُسْلِمِینَ:صَلُّوا عَلَى صَاحِبِكُمْ، فَلَمَّا فَتَحَ اللَّهُ عَلَیْهِ الفُتُوحَ، قَالَ:أَنَا أَوْلَى بِالْمُؤْمِنِینَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ، فَمَنْ تُوُفِّیَ مِنَ المُؤْمِنِینَ فَتَرَكَ دَیْنًا، فَعَلَیَّ قَضَاؤُهُ، وَمَنْ تَرَكَ مَالًا فَلِوَرَثَتِهِ

ابوہرہرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے عہدرسالت میں  اگرکوئی مقروض فوت ہوجاتاتورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دریافت فرماتے کہ کیااس نے قرض کی ادائیگی کے لیے کچھ چھوڑاہے،اگرلوگ کہتے ہاں  توآپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی نمازجنازہ پڑھادیتے، اوراگرلوگ کہتے نہیں  توآپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے اپنے ساتھی کی نمازجنازہ خودہی پڑھ لو،پھرجب اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کوفتوحات سے نوازا،توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایامیں  مومنوں  کے اپنے نفسوں  سے بھی ان کے زیادہ قریب ہوں  ، لہذاجوفوت ہوجائے اوراس پرقرض ہوتواس کی ادائیگی میرے ذمے ہے، اورجس نے ترکے میں  کوئی مال چھوڑاہے تووہ اس کے ورثاء کے لیے ہے۔[46]

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:مَنْ أَخَذَ أَمْوَالَ النَّاسِ یُرِیدُ أَدَاءَهَا أَدَّى اللَّهُ عَنْهُ، وَمَنْ أَخَذَ یُرِیدُ إِتْلاَفَهَا أَتْلَفَهُ اللَّهُ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجس شخص نے لوگوں  سے اداکردینے کے ارادے سے مال حاصل کیا(پھرکسی وجہ سے وہ زندگی میں  ادانہ کرسکا)تواللہ تعالیٰ اس کی طرف سے ادافرمادے گا، اورجس نے لوگوں  سے ہلاک(یاضبط)کرلینے کی نیت سے مال لیاتواللہ تعالیٰ بھی اسے ہلاک کردیں  گے۔[47]

میت کوکسی کپڑے سے ڈھانپنا :

أَنَّ عَائِشَةَ، رَضِیَ اللَّهُ عَنْهَا زَوْجَ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَخْبَرَتْهُ:أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ حِینَ تُوُفِّیَ سُجِّیَ بِبُرْدٍ حِبَرَةٍ

ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہوئے توآپ صلی اللہ علیہ وسلم کودھاری دارچادرسے ڈھانپ دیاگیا۔[48] اورجوشخص حالت احرام میں  فوت ہوگیااس کاسراورچہرہ نہیں  ڈھانپاجائے گا:

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُمْ، قَالَ: بَیْنَمَا رَجُلٌ وَاقِفٌ بِعَرَفَةَ ، إِذْ وَقَعَ عَنْ رَاحِلَتِهِ، فَوَقَصَتْهُ أَوْ قَالَ: فَأَوْقَصَتْهُ قَالَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:اغْسِلُوهُ بِمَاءٍ وَسِدْرٍ، وَكَفِّنُوهُ فِی ثَوْبَیْنِ، وَلاَ تُحَنِّطُوهُ، وَلاَ تُخَمِّرُوا رَأْسَهُ، فَإِنَّهُ یُبْعَثُ یَوْمَ القِیَامَةِ مُلَبِّیًا

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہےایک شخص میدان عرفہ میں  (احرام باندھے ہوئے)کھڑاہواتھاکہ اپنی سواری سے گرااورسواری نے انہیں  کچل دیایا وَقَصَتْهُ کے بجائے یہ لفظ أَوْقَصَتْهُ کہا ،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لیے فرمایاپانی اور بیری کے پتوں  سے غسل دے کردوکپڑوں  میں  انہیں  کفن دواوریہ بھی ہدایت فرمائی کہ انہیں  خوشبونہ لگاؤاوراس کےسر(اورچہرے کو) مت ڈھانپو کیونکہ یہ قیامت کے دن لبیک کہتاہوااٹھے گا۔[49]

ثابت ہواکہ محرم کودوکپڑوں  میں  دفنایاجائے کیونکہ وہ حالت احرام میں  ہے، اورمحرم کے لئے احرام کی صرف دوہی چادریں  ہیں  برخلاف اس کے دیگرمسلمانوں  کے لئے مردے کے لئے تین چادریں  اورعورت کے لئے پانچ کپڑے مسنون ہیں  ۔

میت کابوسہ لیناجائزہے :

عَنْ عَائِشَةَ، وَابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ أَبَا بَكْرٍ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ «قَبَّلَ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بَعْدَ مَوْتِهِ

ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا اورعبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے بے شک سیدناابوبکر رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعدآپ صلی اللہ علیہ وسلم کابوسہ لیا۔[50]

عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ:رَأَیْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یُقَبِّلُ عُثْمَانَ بْنَ مَظْعُونٍ وَهُوَ مَیِّتٌ، حَتَّى رَأَیْتُ الدُّمُوعَ تَسِیلُ

ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہےمیں  نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کودیکھاآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ کابوسہ لیااوراس وقت وہ فوت ہوچکے تھے حتی کہ میں  نے دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے آنسوبہہ رہے ہیں  ۔[51]

مریض کواللہ تعالیٰ سے اچھاگمان رکھناچاہیے :

عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَقُولُ قَبْلَ مَوْتِهِ بِثَلَاثٍ: قَالَ:لَا یَمُوتُ أَحَدُكُمْ إِلَّا وَهُوَ یُحْسِنُ الظَّنَّ بِاللَّهِ

جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہےمیں  نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوسناآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی وفات سے تین روزپہلے فرمایاتھا،تم میں  سے ہرگزکوئی فوت نہ ہومگرصرف اس حال میں  کہ وہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ اچھاگمان رکھتاہو۔[52]

یعنی بوقت رحلت امیدکاپہلوغالب رکھناچاہیے کہ وہ الرحمٰن اورالرحیم اپنے خاص فضل سے عفووسترکامعاملہ فرمائے گا۔

عَنْ أَنَسٍ، أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، دَخَلَ عَلَى شَابٍّ وَهُوَ فِی الْمَوْتِ، فَقَالَ:كَیْفَ تَجِدُكَ؟ قَالَ: أَرْجُو اللَّهَ یَا رَسُولَ اللَّهِ وَأَخَافُ ذُنُوبِی، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:لَا یَجْتَمِعَانِ فِی قَلْبِ عَبْدٍ فِی مِثْلِ هَذَا الْمَوْطِنِ، إِلَّا أَعْطَاهُ اللَّهُ مَا یَرْجُو، وَآمَنَهُ مِمَّا یَخَافُ

انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک ایسے نوجوان کے پاس گئے جوقریب المرگ تھاتوآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت کیاتم اپنے آپ کوکیسامحسوس کرتے ہو؟تواس نے کہا میں  اللہ تعالیٰ سے امیدرکھتاہوں  اوراپنے گناہوں  سے خائف ہوں  ،(یہ سن کر)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجس بندے کے دل میں  اس وقت یہ دونوں  چیزیں  جمع ہو جائیں  اللہ تعالیٰ اسے وہی عطافرمادیتے ہیں  جس کی وہ امیدرکھتاہے اوراسے اس چیزسے امن بخش دیتے ہیں  جس سے وہ خائف ہوتاہے۔[53]

اس مسئلے میں  یہ آیات کافی ہیں  ۔

۔۔۔وَتُوْبُوْٓا اِلَى اللهِ جَمِیْعًا اَیُّهَ الْمُؤْمِنُوْنَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ۝۳۱ [54]

ترجمہ:اے مومنو!تم سب اکٹھے اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کروتاکہ فلاح پاجاؤ۔

وَّاَنِ اسْتَغْفِرُوْا رَبَّكُمْ ثُمَّ تُوْبُوْٓا اِلَیْهِ ۔۔۔۝۳ [55]

ترجمہ:اپنے رب سے بخشش طلب کروپھراس کی طرف رجوع کرو۔

یٰٓاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا تُوْبُوْٓا اِلَى اللهِ تَوْبَةً نَّصُوْحًا۔۔۔۝۸ [56]

ترجمہ:تم اللہ کے سامنے سچی خالص توبہ کرو۔

(موت سے پہلے)اپنی تمام ترذمہ داریوں  سے عہدہ براہوجاناچاہیے :

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:مَنْ كَانَتْ لَهُ مَظْلَمَةٌ لِأَخِیهِ مِنْ عِرْضِهِ أَوْ شَیْءٍ، فَلْیَتَحَلَّلْهُ مِنْهُ الیَوْمَ، قَبْلَ أَنْ لاَ یَكُونَ دِینَارٌ وَلاَ دِرْهَمٌ، إِنْ كَانَ لَهُ عَمَلٌ صَالِحٌ أُخِذَ مِنْهُ بِقَدْرِ مَظْلَمَتِهِ، وَإِنْ لَمْ تَكُنْ لَهُ حَسَنَاتٌ أُخِذَ مِنْ سَیِّئَاتِ صَاحِبِهِ فَحُمِلَ عَلَیْهِ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااگرکسی شخص کاظلم کسی دوسرے کی عزت پرہویاکسی طریقے(سے بھی ظلم کیاہو)تواسے آج ہی اس دن کے آنے سے پہلے معاف کرالے کہ جس دن نہ دینارہوں  گے نہ درہم، بلکہ اگراس کاکوئی نیک عمل ہوگاتواس کے ظلم کے بدلے میں  وہی لے لیاجائے گا،اوراگرکوئی نیک عمل اس کے پاس نہیں  ہوگاتواس کے ساتھی(مظلوم)کی برائیاں  اس پرڈال دی جائیں  گی۔[57]

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: أَتَدْرُونَ مَنِ الْمُفْلِسُ؟ قَالُوا: الْمُفْلِسُ فِینَا یَا رَسُولَ اللهِ مَنْ لاَ دِرْهَمَ لَهُ وَلاَ مَتَاعَ، قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: الْمُفْلِسُ مِنْ أُمَّتِی مَنْ یَأْتِی یَوْمَ القِیَامَةِ بِصَلاَتِهِ وَصِیَامِهِ وَزَكَاتِهِ، وَیَأْتِی قَدْ شَتَمَ هَذَا وَقَذَفَ هَذَا، وَأَكَلَ مَالَ هَذَا، وَسَفَكَ دَمَ هَذَا، وَضَرَبَ هَذَا فَیَقْعُدُ فَ یَقْتَصُّ هَذَا مِنْ حَسَنَاتِهِ، وَهَذَا مِنْ حَسَنَاتِهِ، فَإِنْ فَنِیَتْ حَسَنَاتُهُ قَبْلَ أَنْ یُقْتَصّ مَا عَلَیْهِ مِنَ الخَطَایَا أُخِذَ مِنْ خَطَایَاهُمْ فَطُرِحَ عَلَیْهِ ثُمَّ طُرِحَ فِی النَّارِ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایاکیاتمہیں  علم ہے کہ مفلس شخص کون ہے؟صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیااے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !ہم میں  مفلس وہ ہے جس کے پاس درہم ودیناراورمال ومتاع نہیں  ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایامیری امت میں  سے مفلس وہ ہے جوروزقیامت نماز،روزے اورزکوٰة کے ساتھ آئے گا لیکن اس نے کسی کوگالی دی ہوگی اورکسی کوتہمت لگائی ہوگی،کسی کاخون بہایاہوگا،اورکسی کوبے جاماراہوگا،اسے بٹھادیاجائے گااوراس کی نیکیاں  ان لوگوں  کودی جائیں  گی (جن پراس نے زیادتی کی ہوگی)اوراگراپنی غلطیوں  کابدلہ دینے سے پہلے اس کی نیکیاں  ختم ہوجائیں  گی تولوگوں  سے ان کی غلطیاں  لے کراس پرڈال دی جائیں  گی، پھراسے جہنم میں  پھینک دیاجائے گا۔[58]

وإذا كان علیه حقوق فلیؤدها إلى، أصحابها، إن تیسر له ذلك.وإلا أوصى بذلك

شیخ البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں  اگرایسے شخص پرلوگوں  کے حقوق(یعنی قرض ، امانت،غصب شدہ مال وغیرہ)ہوں  تواسے چاہیے کہ مستحقین کی طرف انہیں  لوٹادےاوراگربروقت اس کی طاقت نہ ہوتواس کی وصیت کردے۔[59]

عَنِ ابْنِ عُمَرَ، أَنَّهُ قَالَ:حَقٌّ عَلَى كُلِّ مُسْلِمٍ أَنْ یَبِیتَ لَیْلَتَیْنِ، وَلَهُ مَا یُوصِی فِیهِ إِلَّا وَوَصِیَّتُهُ مَكْتُوبَةٌ عِنْدَهُ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکسی بھی مسلمان کے لیے جس کے پاس قابل وصیت کوئی مال ہودرست نہیں  کہ دوراتیں  بھی وصیت کولکھ کراپنے پاس محفوظ کیے بغیرگزارے۔[60]

مگروصیت ثلث مال سے زائدنہ ہو :

عَنْ سَعْدِ بْنِ أَبِی وَقَّاصٍ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: جَاءَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَعُودُنِی وَأَنَا بِمَكَّةَ، وَهُوَ یَكْرَهُ أَنْ یَمُوتَ بِالأَرْضِ الَّتِی هَاجَرَ مِنْهَا، قَالَ:یَرْحَمُ اللَّهُ ابْنَ عَفْرَاءَ، قُلْتُ: یَا رَسُولَ اللَّهِ، أُوصِی بِمَالِی كُلِّهِ؟ قَالَ:لاَ، قُلْتُ: فَالشَّطْرُ، قَالَ: لاَ، قُلْتُ: الثُّلُثُ، قَالَ:فَالثُّلُثُ، وَالثُّلُثُ كَثِیرٌ، إِنَّكَ أَنْ تَدَعَ وَرَثَتَكَ أَغْنِیَاءَ خَیْرٌ مِنْ أَنْ تَدَعَهُمْ عَالَةً یَتَكَفَّفُونَ النَّاسَ فِی أَیْدِیهِمْ، وَإِنَّكَ مَهْمَا أَنْفَقْتَ مِنْ نَفَقَةٍ، فَإِنَّهَا صَدَقَةٌ، حَتَّى اللُّقْمَةُ الَّتِی تَرْفَعُهَا إِلَى فِی امْرَأَتِكَ، وَعَسَى اللَّهُ أَنْ یَرْفَعَكَ، فَیَنْتَفِعَ بِكَ نَاسٌ وَیُضَرَّ بِكَ آخَرُونَ، وَلَمْ یَكُنْ لَهُ یَوْمَئِذٍ إِلَّا ابْنَةٌ

سعدبن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے بیان کیارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (حجة الودع میں  )میری عیادت کوتشریف لائے اورمیں  اس وقت مکہ مکرمہ میں  تھا،رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اس سرزمین پرموت کو پسند نہیں  فرماتے تھے جہاں  سے کوئی ہجرت کرچکاہو،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااللہ ابن عفرائ(سعدبن خولہ رضی اللہ عنہ )پررحم فرمائے، میں  نے عرض کیااے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !میں  اپنے سارے مال ودولت کی وصیت کردوں  ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں  ،میں  نے پوچھاپھرآدھے کی کردوں  ؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پربھی یہی فرمایاکہ نہیں  میں  نے پوچھاپھرتہائی کی کر دوں  ؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاتہائی کی کرسکتے ہواوریہ بھی بہت ہے، اگرتم اپنے وارثوں  کواپنے پیچھے مال دارچھوڑوتویہ اس سے بہترہے کہ انہیں  محتاج چھوڑدوکہ لوگوں  کے سامنے ہاتھ پھیلاتے پھریں  ،اس میں  کوئی شبہ نہیں  کہ جب تم اپنی کوئی چیز(اللہ کے لیے خرچ کرو گے)تووہ خیرات ہے یہاں  تک کہ وہ لقمہ بھی جوتم اپنی بیوی کے منہ میں  ڈالوگے(وہ بھی خیرات ہے)، اور(ابھی وصیت کرنے کی کوئی ضرورت بھی نہیں  )ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہیں  شفادے اوراس کے بعدتم سے بہت سے لوگوں  کوفائدہ ہو،اوردوسرے بہت سے لوگ (اسلام کے مخالف)نقصان اٹھائیں  ،اس وقت سعد رضی اللہ عنہ کی صرف ایک بیٹی تھی۔[61]

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: لَوْ أَنَّ النَّاسَ غَضُّوا مِنَ الثُّلُثِ إِلَى الرُّبُعِ، فَإِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:الثُّلُثُ كَثِیرٌ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں  مجھے یہ پسندہے کہ لوگ وصیت میں  ثلث سے ربع کی طرف مائل ہوجائیں  کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ثلث کوبھی بہت زیادہ قراردیاہے۔[62]

ورثاء کے لیے وصیت کرناجائزنہیں  :

سَمِعْتُ أَبَا أُمَامَةَ، سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَقُولُ:إِنَّ اللَّهَ قَدْ أَعْطَى كُلَّ ذِی حَقٍّ حَقَّهُ فَلَا وَصِیَّةَ لِوَارِثٍ

ابوامامہ سے مروی ہے میں  نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوفرماتے ہوئے سنابے شک اللہ تعالیٰ نے ہرحق والے کواس کاحق عطاکردیاہے لہذاکسی وارث کے لیے وصیت کرنا جائز نہیں  ۔[63]

 متفرقات :

عَنْ أَنَسٍ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: لاَ یَتَمَنَّیَنَّ أَحَدٌ مِنْكُمُ المَوْتَ لِضُرٍّ نَزَلَ بِهِ، فَإِنْ كَانَ لاَ بُدَّ مُتَمَنِّیًا لِلْمَوْتِ فَلْیَقُلْ: اللَّهُمَّ أَحْیِنِی مَا كَانَتِ الحَیَاةُ خَیْرًا لِی، وَتَوَفَّنِی إِذَا كَانَتِ الوَفَاةُ خَیْرًا لِی

انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے تم میں  سے کوئی بھی کسی درپیش مصیبت وتکلیف کے سبب ہرگزموت کی تمنانہ کرے،اوراگرضرورہی تمناکرناچاہتاہواس طرح کہہ لے اے اللہ!مجھے اس وقت تک زندہ رکھ جب تک میرے لیے زندگی بہترہے، اوراس وقت مجھے فوت کردیناجب میرے لیے وفات بہترہوگی۔[64]

عَنْ أُمِّ الْفَضْلِ، أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ دَخَلَ عَلَى الْعَبَّاسِ وَهُوَ یَشْتَكِی، فَتَمَنَّى الْمَوْتَ، فَقَالَ:یَا عَبَّاسُ، یَا عَمَّ رَسُولِ اللَّهِ، لَا تَتَمَنَّ الْمَوْتَ، إِنْ كُنْتَ مُحْسِنًا تَزْدَادُ إِحْسَانًا إِلَى إِحْسَانِكَ خَیْرٌ لَكَ، وَإِنْ كُنْتَ مُسِیئًا، فَإِنْ تُؤَخَّرْ تَسْتَعْتِبْ خَیْرٌ لَكَ، فَلَا تَتَمَنَّ الْمَوْتَ

ام الفضل رضی اللہ عنہا سے مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عباس رضی اللہ عنہ کے پاس تشریف لائے جواس وقت بیمارتھےانہوں  نے موت کی تمناکی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااے چچاجان!موت کی تمنامت کیجئے کیونکہ اگرآپ نیک ہیں  توآپ(بقیہ زندگی میں  )اپنی نیکیوں  میں  اضافہ کریں  گے یہ آپ کے لیے بہترہے،اوراگرآپ گنہگارہیں  توآپ اپنے گناہوں  سے تائب ہوسکتے ہیں  یہ بھی آپ کے لیے بہترہے،لہذاآپ ہرگزموت کی تمنانہ کریں  ۔[65]

شیخ البانی رحمہ اللہ نے کہا یہ حدیث بخاری ومسلم کی شرط پرہے۔[66]

اہل وعیال کووفات کے وقت رونے سے روکنا :

فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُمَا:فَقُلْتُ: ارْتَحِلْ فَالحَقْ أَمِیرَ المُؤْمِنِینَ، فَلَمَّا أُصِیبَ عُمَرُ دَخَلَ صُهَیْبٌ یَبْكِی یَقُولُ: وَا أَخَاهُ وَا صَاحِبَاهُ، فَقَالَ عُمَرُ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ: یَا صُهَیْبُ، أَتَبْكِی عَلَیَّ، وَقَدْ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:إِنَّ المَیِّتَ یُعَذَّبُ بِبَعْضِ بُكَاءِ أَهْلِهِ عَلَیْهِ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہےجب سیدنا عمر رضی اللہ عنہ زخمی کئے گئے توصہیب رضی اللہ عنہ روتے ہوئے اندرداخل ہوئے اوروہ کہہ رہے تھے ہائے میرے بھائی !ہائے میرے صاحب،اس پرسیدناعمر رضی اللہ عنہ نے فرمایاصہیب رضی اللہ عنہ !تم مجھ پرروتے ہوتم نہیں  جانتے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاتھاکہ میت پراس کے گھروالوں  کے رونے سے عذاب ہوتاہے۔[67]

اس لئے وفات کے بعدگھروالوں  کومیت پرنوحہ نہیں  کرناچاہیے، البتہ مجردآنسوبہہ جانے میں  کوئی حرج نہیں  ہے۔

اہل وعیال کووفات کے وقت رونے سے روکنا :

ولا بأس فی أن یحضر المسلم وفاة الكافر لیعرض الاسلام علیه ، رجاء أن یسلم

شیخ البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں  اس میں  کوئی حرج نہیں  کہ مسلمان کسی کافرکے وفات کے وقت اس کو دعوت اسلام پیش کریں  کہ وہ اسلام قبول کرلے۔[68]

عَنْ أَنَسٍ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: كَانَ غُلاَمٌ یَهُودِیٌّ یَخْدُمُ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَمَرِضَ، فَأَتَاهُ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَعُودُهُ، فَقَعَدَ عِنْدَ رَأْسِهِ، فَقَالَ لَهُ:أَسْلِمْ، فَنَظَرَ إِلَى أَبِیهِ وَهُوَ عِنْدَهُ فَقَالَ لَهُ: أَطِعْ أَبَا القَاسِمِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَأَسْلَمَ، فَخَرَجَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ یَقُولُ:الحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِی أَنْقَذَهُ مِنَ النَّارِ(فلما مات، قال: صلوا على صاحبكم)

انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہےایک یہودی بچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کیاکرتاتھا،وہ بیمارہواتونبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس کی عیادت کے لیے اس کے پاس تشریف لے گئے اوراس کے سرکے پاس بیٹھ گئے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے کہامسلمان ہوجا،اس نے اپنے قریب موجودوالدکی طرف دیکھا،تواس نے بچے کوکہاابوالقاسم صلی اللہ علیہ وسلم کی بات مان لو،پھروہ بچہ مسلمان ہوگیالہذانبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یہ کہتے ہوئے باہرنکل گئے کہ تمام تعریفیں  اس اللہ تعالیٰ کے لیے ہیں  جس نے اسے آگ سے بچالیا،جب وہ بچہ فوت ہوگیاتوآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااپنے ساتھی کی نمازجنازہ پڑھو۔[69]

میت کے اقرباء پرلازم ہے کہ صبرکریں  اور إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَیْهِ رَاجِعُونَ پڑھیں  :

ارشادباری تعالیٰ ہے

 وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَیْءٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَالْجُوْعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الْاَمْوَالِ وَالْاَنْفُسِ وَالثَّمَرٰتِ۝۰ۭ وَبَشِّرِ الصّٰبِرِیْنَ۝۱۵۵ۙالَّذِیْنَ اِذَآ اَصَابَتْهُمْ مُّصِیْبَةٌ۝۰ۙ قَالُوْٓا اِنَّا لِلهِ وَاِنَّآ اِلَیْهِ رٰجِعُوْنَ۝۱۵۶ۭ [70]

ترجمہ:ہم کسی نہ کسی طرح تمہاری آزمائش ضرورکریں  گے ،دشمن کے ڈرسے،بھوک پیاس سے،مال وجان اورپھلوں  کی کمی سے اوران صبرکرنے والوں  کوخوش خبری دے دیں  جنہیں  جب کوئی مصیبت آتی ہے توکہہ دیاکرتے ہیں  ہم توخوداللہ تعالیٰ کی ملکیت ہیں  اورہم اسی کی طرف لوٹنے والے ہیں  ۔

حَدَّثَنَا ثَابِتٌ البُنَانِیُّ، قَالَ سَمِعْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ یَقُولُ لِامْرَأَةٍ مِنْ أَهْلِهِ: تَعْرِفِینَ فُلاَنَةَ؟ قَالَتْ: نَعَمْ، قَالَ: فَإِنَّ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مَرَّ بِهَا وَهِیَ تَبْكِی عِنْدَ قَبْرٍ، فَقَالَ:اتَّقِی اللَّهَ، وَاصْبِرِی، فَقَالَتْ: إِلَیْكَ عَنِّی، فَإِنَّكَ خِلْوٌ مِنْ مُصِیبَتِی، قَالَ: فَجَاوَزَهَا وَمَضَى، فَمَرَّ بِهَا رَجُلٌ فَقَالَ: مَا قَالَ لَكِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ؟ قَالَتْ: مَا عَرَفْتُهُ؟ قَالَ: إِنَّهُ لَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: فَجَاءَتْ إِلَى بَابِهِ فَلَمْ تَجِدْ عَلَیْهِ بَوَّابًا، فَقَالَتْ: یَا رَسُولَ اللَّهِ، وَاللَّهِ مَا عَرَفْتُكَ، فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:إِنَّ الصَّبْرَ عِنْدَ أَوَّلِ صَدْمَةٍ

ثابت بنانی سے مروی ہےمیں  نے سناکہ انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے اپنے گھرکی ایک عورت سے کہہ رہے تھےفلانی کوپہچانتی ہو؟انہوں  نے کہاہاں  ، بتلایاکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس کے پاس سے گزرے اوروہ ایک قبرکے پاس بیٹھی رورہی تھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااللہ سے ڈراورصبرکر،اس عورت نے جواب دیاآپ میرے پس سے چلے جاؤ،میری مصیبت آپ پرنہیں  پڑی ہے، بیان کیاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وہاں  سے ہٹ گئے اورچلے گئے،پھرایک صاحب ادھرسے گزرے اور ان سے پوچھاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تم سے کیاکہاتھا؟اس عورت نے کہاکہ میں  نے انہیں  پہچانانہیں  ،ان صاحب نے کہاوہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تھے،پھروہ عورت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں  حاضرہوئی ، انہوں  نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں  کوئی دربان نہیں  پایاپھرعرض کیااے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !واللہ!میں  نے آپ کوپہچانانہیں  ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاحقیقی صبرتوصدمہ کے شروع میں  ہی ہوتاہے۔[71]

إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَیْهِ رَاجِعُونَ کے ساتھ یہ الفاظ پڑھنابھی مسنون ہےاللهُمَّ أْجُرْنِی فِی مُصِیبَتِی وَاخْلُفْنِی خَیْرًا مِنْهُ۔[72]

میت کے چہرے سے کپڑاہٹانا :

وفات کے وقت حاضرافرادکے لیے میت کے چہرے سے کپڑاہٹانادرست ہے۔

ویجوز لهم كشف وجه المیت

شیخ البانی رحمہ اللہ کہتے ہیں  میت کے چہرے سے کپڑاہٹانادرست ہے۔[73]

جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: لَمَّا قُتِلَ أَبِی، قَالَ: جَعَلْتُ أَكْشِفُ الثَّوْبَ عَنْ وَجْهِهِ، قَالَ: فَجَعَلَ الْقَوْمُ یَنْهَوْنِی وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، لَا یَنْهَانِی

جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے جب میرے والدقتل کردیے گئے تومیں  نے ان کے چہرے سے کپڑاہٹانے لگااس وقت میں  رورہاتھا،لوگوں  نے مجھے روکالیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے نہیں  روک رہے تھے۔[74]

أَنَّ عَائِشَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهَا، زَوْجَ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَخْبَرَتْهُ، قَالَتْ: أَقْبَلَ أَبُو بَكْرٍ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ عَلَى فَرَسِهِ مِنْ مَسْكَنِهِ بِالسُّنْحِ حَتَّى نَزَلَ، فَدَخَلَ المَسْجِدَ، فَلَمْ یُكَلِّمِ النَّاسَ حَتَّى دَخَلَ عَلَى عَائِشَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهَا، فَتَیَمَّمَ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ مُسَجًّى بِبُرْدِ حِبَرَةٍ، فَكَشَفَ عَنْ وَجْهِهِ، ثُمَّ أَكَبَّ عَلَیْهِ، فَقَبَّلَهُ، ثُمَّ بَكَى، فَقَالَ:بِأَبِی أَنْتَ یَا نَبِیَّ اللَّهِ، لاَ یَجْمَعُ اللَّهُ عَلَیْكَ مَوْتَتَیْنِ، أَمَّا المَوْتَةُ الَّتِی كُتِبَتْ عَلَیْكَ فَقَدْ مُتَّهَا

ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے(جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوگئی)سیدناابوبکر رضی اللہ عنہ اپنے گھرسے جوسخ میں  تھاگھوڑے پرسوارہوکرآئےاترتے ہی مسجدمیں  تشریف لے گئے، پھرکسی سے گفتگوکئے بغیرام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے حجرہ میں  آئے(جہاں  نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کاجسم مبارک رکھاہواتھا)اورنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف گئے،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کوبردحبرہ(یمن کی بنی ہوئی دھاری دارچادر)سے ڈھانک دیاگیاتھا، پھرانہوں  نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کاچہرہ مبارک کھولااورجھک کراس کابوسہ لیااوررونے لگے آپ رضی اللہ عنہ نے کہامیرے باپ آپ پرقربان ہوں  اے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! اللہ تعالیٰ دوموتیں  آپ پرکبھی جمع نہیں  کرے گاسوائے ایک موت کے جوآپ کے مقدرمیں  تھی، سوآپ وفات پاچکے۔[75]

عَنْ عَائِشَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ دَخَلَ عَلَى عُثْمَانَ بْنِ مَظْعُونٍ وَهُوَ مَیِّتٌ فَأَكَبَّ عَلَیْهِ فَقَبَّلَهُ، ثُمَّ بَكَى حَتَّى رَأَیْتُ الدُّمُوعَ تَسِیلُ عَلَى وَجْنَتَیْهِ

ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہےعثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے چہرے سے کپڑا ہٹایا اور بوسہ لیااوررونے لگے یہاں  تک کہ میں  نے آنسوآپ صلی اللہ علیہ وسلم کے رخساروں  پربہتے ہوئےدیکھے۔[76]

 حسن خاتمہ کی علامات

وفات کے وقت کلمہ شہادت پڑھنا :

عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:مَنْ كَانَ آخِرُ كَلَامِهِ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ دَخَلَ الْجَنَّةَ

معاذبن جبل رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجس کاآخری کلمہ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ ہوگاوہ جنت میں  داخل ہوگا۔[77]

وفات کے وقت پیشانی پرپسینہ نمودارہونا :

عَنِ ابْنِ بُرَیْدَةَ وَهُوَ عَبْدُ اللهِ، عَنْ أَبِیهِ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَقُولُ:الْمُؤْمِنُ یَمُوتُ بِعَرَقِ الْجَبِینِ

ابوبریدہ اپنے والدسے روایت کرتے ہیں  میں  نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سناآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایامومن کی موت پیشانی کے پسینے کے ساتھ ہوتی ہے ۔[78]

جمعہ کی رات یادن میں  فوت ہونا :

عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: مَا مِنْ مُسْلِمٍ یَمُوتُ یَوْمَ الجُمُعَةِ أَوْ لَیْلَةَ الجُمُعَةِ إِلاَّ وَقَاهُ اللَّهُ فِتْنَةَ القَبْرِ.

عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجوبھی مسلمان جمعہ کے دن یاجمعہ کی رات کوفوت ہوگااللہ تعالیٰ اسے قبرکے فتنے سے بچالے گا۔[79]

میدان قتال میں  شہادت کی موت حاصل کرنا :

عَنِ الْمِقْدَامِ بْنِ مَعْدِیكَرِبَ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:لِلشَّهِیدِ عِنْدَ اللَّهِ سِتُّ خِصَالٍ: یَغْفِرُ لَهُ فِی أَوَّلِ دُفْعَةٍ مِنْ دَمِهِ، وَیُرَى مَقْعَدَهُ مِنَ الْجَنَّةِ، وَیُجَارُ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ، وَیَأْمَنُ مِنَ الْفَزَعِ الْأَكْبَرِ، وَیُحَلَّى حُلَّةَ الْإِیمَانِ، وَیُزَوَّجُ مِنَ الْحُورِ الْعِینِ، وَیُشَفَّعُ فِی سَبْعِینَ إِنْسَانًا مِنْ أَقَارِبِهِ

مقدام بن معدیکرب سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاشہیدکواللہ تعالیٰ کے پاس سے چھ انعامات ملتے ہیں  ،خون کا پہلا قطرہ نکلتے ہی اس کی مغفرت ہوجاتی ہے اوروہ اپناٹھکاناجنت میں  دیکھ لیتاہے،ِوہ عذاب قبرسے محفوظ رہتاہے، حشرکے دن کی بڑی گھبراہٹ سے محفوظ رہے گا،اسے ایمان کاجوڑاپہنایاجاتاہے،اس کابڑی آنکھوں  والی حوروں  سے نکاح کردیاجاتاہے،اوراس کے عزیزواقارب میں  سے ستراس کی شفاعت سے بخشے جاتے ہیں  ۔[80]

اور اللہ تعالیٰ نے ارشادفرمایا

وَلَا تَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ قُتِلُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللهِ اَمْوَاتًا۝۰ۭ بَلْ اَحْیَاۗءٌ عِنْدَ رَبِّھِمْ یُرْزَقُوْنَ۝۱۶۹ۙفَرِحِیْنَ بِمَآ اٰتٰىھُمُ اللهُ مِنْ فَضْلِهٖ۝۰ۙ وَیَسْـتَبْشِرُوْنَ بِالَّذِیْنَ لَمْ یَلْحَقُوْا بِھِمْ مِّنْ خَلْفِھِمْ۝۰ۙ اَلَّا خَوْفٌ عَلَیْھِمْ وَلَا ھُمْ یَحْزَنُوْنَ۝۱۷۰ۘیَسْتَبْشِرُوْنَ بِنِعْمَةٍ مِّنَ اللهِ وَفَضْلٍ۝۰ۙ وَّاَنَّ اللهَ لَا یُضِیْعُ اَجْرَ الْمُؤْمِنِیْنَ۝۱۷۱ۚۛۧ [81]

ترجمہ:جو لوگ اللہ کی راہ میں  قتل ہوئے ہیں  انہیں  مردہ نہ سمجھو وہ تو حقیقت میں  زندہ ہیں  اپنے رب کے پاس رزق پا رہے ہیں  ،جو کچھ اللہ نے اپنے فضل سے انہیں  دیا ہے اس پر خوش و خرم ہیں  اور مطمئن ہیں  کہ جو اہل ایمان ان کے پیچھے دنیا میں  رہ گئے ہیں  اور ابھی وہاں  نہیں  پہنچے ہیں  ان کے لیے بھی کسی خوف اور رنج کا موقع نہیں  ہے،وہ اللہ کے انعام اور اس کے فضل پر شاداں  و فرحاں  ہیں  اور ان کو معلوم ہو چکا ہے کہ اللہ مومنوں  کے اجر کو ضائع نہیں  کرتا۔

فی سبیل اللہ غزوہ کے لیے جاتے ہوئے طبعی موت سے وفات پاجانا :

اللہ تعالیٰ نے ارشادفرمایا

وَمَنْ یُّھَاجِرْ فِیْ سَبِیْلِ اللهِ یَجِدْ فِی الْاَرْضِ مُرٰغَمًا كَثِیْرًا وَّسَعَةً۝۰ۭ وَمَنْ یَّخْرُجْ مِنْۢ بَیْتِهٖ مُھَاجِرًا اِلَى اللهِ وَرَسُوْلِهٖ ثُمَّ یُدْرِكْهُ الْمَوْتُ فَقَدْ وَقَعَ اَجْرُهٗ عَلَی اللهِ۝۰ۭ وَكَانَ اللهُ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا۝۱۰۰ۧ [82]

ترجمہ: جو کوئی اللہ کی راہ میں  ہجرت کرے گا وہ زمین میں  پناہ لینے کے لیے بہت جگہ اور بسر اوقات کے لیے بڑی گنجائش پائے گا اور جو اپنے گھر سے اللہ اور رسول کی طرف ہجرت کے لیے نکلے پھر راستہ ہی میں  اُسے موت آجائے اس کا اجر اللہ کے ذمے واجب ہوگیا ، اللہ بہت بخشش فرمانے والا اور رحیم ہے۔

طاعون کے مرض سے موت آنا :

عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:الطَّاعُونُ شَهَادَةٌ لِكُلِّ مُسْلِمٍ

انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاطاعون ہرمسلمان کے لیے شہادت ہے۔[83]

پیٹ کی بیماری سے،غرق ہوکر،ملبے کے نیچے دب کر،جل کر،عورت کوحالت نفاس میں  اورفالج کے سبب موت آنا :

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:مَا تَعُدُّونَ الشَّهِیدَ فِیكُمْ؟ قَالُوا: یَا رَسُولَ اللهِ، مَنْ قُتِلَ فِی سَبِیلِ اللهِ فَهُوَ شَهِیدٌ، قَالَ:إِنَّ شُهَدَاءَ أُمَّتِی إِذًا لَقَلِیلٌ، قَالُوا: فَمَنْ هُمْ یَا رَسُولَ اللهِ؟ قَالَ:مَنْ قُتِلَ فِی سَبِیلِ اللهِ فَهُوَ شَهِیدٌ، وَمَنْ مَاتَ فِی سَبِیلِ اللهِ فَهُوَ شَهِیدٌ، وَمَنْ مَاتَ فِی الطَّاعُونِ فَهُوَ شَهِیدٌ، وَمَنْ مَاتَ فِی الْبَطْنِ فَهُوَ شَهِیدٌ، قَالَ ابْنُ مِقْسَمٍ: أَشْهَدُ عَلَى أَبِیكَ فِی هَذَا الْحَدِیثِ أَنَّهُ قَالَ:وَالْغَرِیقُ شَهِیدٌ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاتم شہیدکس کوسمجھتے ہو؟انہوں  نے کہااے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !جواللہ تعالیٰ کی راہ میں  ماراجائے وہ شہیدہے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجب تومیری امت میں  بہت کم شہیدہوں  گے،لوگوں  نے عرض کیااے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !پھرشہیدکون کون لوگ ہیں  ؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجواللہ کی راہ میں  ماراجائے وہ شہیدہے،جوطاعون میں  مرجائے وہ شہیدہے،جوپیٹ کے عارضے سے مرے وہ بھی شہیدہے،جو ڈوب کرمرے وہ بھی شہید ہے ۔[84]

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: “ الشُّهَدَاءُ خَمْسَةٌ: المَطْعُونُ، وَالمَبْطُونُ، وَالغَرِقُ، وَصَاحِبُ الهَدْمِ، وَالشَّهِیدُ فِی سَبِیلِ اللَّهِ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاشہیدپانچ قسم کے ہوتے ہیں  ،طاعون میں  ہلاک ہونے والا،پیٹ کی بیماری میں  ہلاک ہونے والا،ڈوب کرمرنے والا،دب کرمرجانے والا،اوراللہ عزوجل کے راستے میں  شہادت پانے والا ۔[85]

أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عَادَ عَبْدَ اللهِ بْنَ رَوَاحَةَ، فَمَا تَحَوَّزَ لَهُ عَنْ فِرَاشِهِ، فَقَالَ: أَتَدْرُونَ مَنْ شُهَدَاءُ أُمَّتِی؟قَالُوا: قَتْلُ الْمُسْلِمِ شَهَادَةٌ،قَالَ: إِنَّ شُهَدَاءَ أُمَّتِی إِذًا لَقَلِیلٌ: الْقَتْلُ فِی سَبِیلِ اللهِ عَزَّ وَجَلَّ شَهَادَةٌ، وَالطَّاعُونُ شَهَادَةٌ، وَالْغَرَقُ شَهَادَةٌ، وَالْبَطْنُ شَهَادَةٌ، وَالنُّفَسَاءُ یَجُرُّهَا وَلَدُهَا بِسُرَرِهِ إِلَى الْجَنَّةِ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ کے پاس غرض عیادت تشریف لائےتوآپ صلی اللہ علیہ وسلم نےوہاں  کے حاضرین سے پوچھاکیاتم جانتے ہومیری امت کاشہیدکون ہے؟ انہوں  نے کہامسلمان کاقتل شہادت ہے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاپھرتومیری امت میں  شہیدبہت کم ہوں  گے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااللہ عزوجل کی راہ میں  قتال کرنے والاشہیدہے،طاعون میں  مبتلاہونے والاشہیدہے،ڈوب کرمرنے والاشہدہے،پیٹ کی بیماری سے ہلاک ہونے والاشہیدہے، اور نفاس کی حالت میں  مرنے والی عورت اس کا بچہ اپنے ہاتھ سے کھینچ کر جنت میں  لے جائے گا۔[86]

جَابِرَ بْنَ عَتِیكٍ،وَمَا تَعُدُّونَ الشَّهَادَةَ؟ قَالُوا: الْقَتْلُ فِی سَبِیلِ اللَّهِ تَعَالَى، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:الشَّهَادَةُ سَبْعٌ سِوَى الْقَتْلِ فِی سَبِیلِ اللَّهِ: الْمَطْعُونُ شَهِیدٌ، وَالْغَرِقُ شَهِیدٌ، وَصَاحِبُ ذَاتِ الْجَنْبِ شَهِیدٌ، وَالْمَبْطُونُ شَهِیدٌ، وَصَاحِبُ الْحَرِیقِ شَهِیدٌ، وَالَّذِی یَمُوتُ تَحْتَ الْهَدْمِ شَهِیدٌ، وَالْمَرْأَةُ تَمُوتُ بِجُمْعٍ شَهِیدٌ

جابربن عتک رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھاتم لوگ شہادت کسے سمجھتے ہو؟لوگوں  نے کہاکہ اللہ کی راہ میں  قتل ہوجانا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااللہ کی راہ میں  قتل کے علاوہ بھی شہادت کے ساتھ اسباب ہیں  ،طاعون سے مرنے والاشہیدہے،پانی میں  ڈوب جانے والاشہیدہے،ذات الجنب(یہ ایک سخت قسم کی بیماری ہے جس میں  پسلی کے اندرایک پھوڑاہوجاتاہے ،اکثرطورپرآدمی اس سے ہلاک ہوجاتاہے) سے مرجانے والاشہیدہے، پیٹ کی تکلیف سے مرجانے والاشہیدہے،آگ سے جل مرنے والاشہیدہے،کسی مکان یادیوارکے نیچے آکرمرجانے والاشہیدہے،اوروہ عورت جوولادت کی تکلیف(دردزہ)میں  وفات پاجائے شہیدہے۔[87]

سل کی بیماری سے موت آنا :

عَنْ سَلْمَانَ قَالَ: أَتَیْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بِالزَّكاةِ ثَلَاثَ مِرَارٍ، فَقَالَ:مَا تَعُدُّونَ الشَّهِیدَ فِیكُمْ؟» قَالُوا: الَّذِی یُقْتَلُ فِی سَبِیلِ اللهِ، قَالَ:إِنَّ شُهَدَاءَ أُمَّتِی إِذَنْ لَقَلِیلٌ، الْقَتْلُ فِی سَبِیلِ اللهِ شَهَادَةٌ، وَالطَّاعُونُ شَهَادَةٌ، وَالنُّفَسَاءُ شَهَادَةٌ، وَالْحَرْقُ شَهَادَةٌ، وَالْغَرَقُ شَهَادَةٌ، وَالسُّلُّ شَهَادَةٌ، وَالْبَطْنُ شَهَادَةٌ

سلمان فارسی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے میں  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تین مرتبہ زکاة لے کر آیااورفرمایاتم لوگ اپنے میں  سے کس کوشہیدسمجھتے ہو،لوگوں  نے عرض کیاجواللہ کی راہ میں  ماراجائے وہ شہیدہے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاپھرتومیری امت میں  شہیدبہت کم ہوں  گے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجواللہ کی راہ میں  ماراجائے وہ شہادت ہے،جوطاعون کی وباسے مرجائے وہ شہادت ہے،جوعورت بچے کی پیدائش کی تکلیف سے مرجائے وہ شہادت ہے،جوجل کرمرجائےشہادت ہے،جوڈوب کرمرجائےشہادت ہے،سل(ٹی بی کے مرض)کے باعث موت آناشہادت ہے،اورجوپیٹ کی تکلف سے مرجائے وہ شہادت ہے۔[88]

اپنی جان،مال،دین،اہل وعیال اورعزت کے دفاع میں  موت آنا :

عَنْ سَعِیدِ بْنِ زَیْدٍ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:مَنْ قُتِلَ دُونَ مَالِهِ فَهُوَ شَهِیدٌ، وَمَنْ قُتِلَ دُونَ أَهْلِهِ، أَوْ دُونَ دَمِهِ، أَوْ دُونَ دِینِهِ فَهُوَ شَهِیدٌ

سعیدبن زید رضی اللہ عنہ سے مروی ہےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجوشخص اپنے مال کی حفاظت میں  قتل کردیاگیاوہ شہید ہے جواپنے اہل وعیال کے دفاع میں  قتل کردیاگیاوہ شہید ہے ، جو اپنا دین بچاتے ہوئے قتل کردیاگیاوہ شہیدہے،اورجواپنی جان بچاتے ہوئے قتل کردیاگیاوہ شہیدہے۔[89]

پہرے کی حالت میں  موت آنا:

عَنْ سَلْمَانَ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَقُولُ:رِبَاطُ یَوْمٍ وَلَیْلَةٍ خَیْرٌ مِنْ صِیَامِ شَهْرٍ وَقِیَامِهِ، وَإِنْ مَاتَ جَرَى عَلَیْهِ عَمَلُهُ الَّذِی كَانَ یَعْمَلُهُ، وَأُجْرِیَ عَلَیْهِ رِزْقُهُ، وَأَمِنَ الْفَتَّانَ

سلمان رضی اللہ عنہ فارسی سے مروی ہےمیں  نےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سناآپ صلی اللہ علیہ وسلم فرمارہے تھےایک دن اوررات پہرہ دیناایک ماہ کے روزے اوراس کے قیام سے بہتر ہے، اوراگروہ شخص (پہرے کی حالت میں  )فوت ہوجائے تواس کاوہ عمل جسے وہ کیاکرتاتھااس پرجاری ہوجاتاہے اوراس کارزق بھی اس کے لیے جاری کردیاجاتاہے اور دوفتنے میں  ڈالنے والے(فرشتوں  یعنی منکرنکیر)سے بھی محفوظ کرلیاجاتاہے۔[90]

کسی بھی نیک عمل پرموت آنا:

عَنْ حُذَیْفَةَ قَالَ: أَسْنَدْتُ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ إِلَى صَدْرِی فَقَالَ:مَنْ قَالَ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ ـ قَالَ حَسَنٌ: ابْتِغَاءَ وَجْهِ اللَّهِ خُتِمَ لَهُ بِهَا دَخَلَ الْجَنَّةَ، وَمَنْ صَامَ یَوْمًا ابْتِغَاءَ وَجْهِ اللَّهِ خُتِمَ لَهُ بِهَا دَخَلَ الْجَنَّةَ، وَمَنْ تَصَدَّقَ بِصَدَقَةٍ ابْتِغَاءَ وَجْهِ اللَّهِ خُتِمَ لَهُ بِهَا دَخَلَ الْجَنَّةَ

حذیفہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے سینے پرہاتھ مارکرفرمایاجس شخص نے رضائے الٰہی کے لیے کلمہ لاالٰہ الااللہ کہاپھراسی کے ساتھ اس کاخاتمہ کردیاگیاتووہ جنت میں  داخل ہوگا،اورجس نے رضائے الٰہی کے لیے ایک دن روزہ رکھاپھراسی کے ساتھ اس کاخاتمہ کردیاگیاوہ جنت میں  داخل ہوگا،اورجس نے رضائے الٰہی کی خاطرکوئی چیزصدقہ کی پھراسی کے ساتھ اس کاخاتمہ کردیاگیاتووہ جنت میں  داخل ہوگا۔[91]

لوگوں  کامیت کی تعریف کرنا:

عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: مُرَّ بِجَنَازَةٍ فَأُثْنِیَ عَلَیْهَا خَیْرًا، فَقَالَ نَبِیُّ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:وَجَبَتْ، وَجَبَتْ، وَجَبَتْ، وَمُرَّ بِجَنَازَةٍ فَأُثْنِیَ عَلَیْهَا شَرًّا، فَقَالَ نَبِیُّ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:وَجَبَتْ، وَجَبَتْ، وَجَبَتْ، قَالَ عُمَرُ: فِدًى لَكَ أَبِی وَأُمِّی، مُرَّ بِجَنَازَةٍ، فَأُثْنِیَ عَلَیْهَا خَیْرٌ، فَقُلْتَ:وَجَبَتْ، وَجَبَتْ، وَجَبَتْ، وَمُرَّ بِجَنَازَةٍ، فَأُثْنِیَ عَلَیْهَا شَرٌّ، فَقُلْتَ:وَجَبَتْ، وَجَبَتْ، وَجَبَتْ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:مَنْ أَثْنَیْتُمْ عَلَیْهِ خَیْرًا وَجَبَتْ لَهُ الْجَنَّةُ، وَمَنْ أَثْنَیْتُمْ عَلَیْهِ شَرًّا وَجَبَتْ لَهُ النَّارُ، أَنْتُمْ شُهَدَاءُ اللهِ فِی الْأَرْضِ، أَنْتُمْ شُهَدَاءُ اللهِ فِی الْأَرْضِ، أَنْتُمْ شُهَدَاءُ اللهِ فِی الْأَرْضِ

انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہےایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے ایک جنازہ گزراتولوگوں  نے اس کی تعریف کی ،اس پرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین مرتبہ فرمایاواجب ہوگئی اسی طرح پھرایک جنازہ گزراتولوگوں  نے اس کی برائی بیان کی ،اس پرنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تین مرتبہ پھر فرمایا واجب ہوگئی،سیدناعمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیامیرے ماں  باپ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پرقربان ہوں  آپ کے پاس سے جنازہ گزرااورلوگوں  نے اس کی تعریف کی توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین مرتبہ فرمایاواجب ہوگئی، آپ کے پاس سے جنازہ گزرااورلوگوں  نے اس کی برائی کی توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین مرتبہ فرمایا واجب ہوگئی (اس کا مطلب کیاہے؟کیاچیزواجب ہوگئی)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجس شخص کی تم لوگوں  نے اچھی تعریف کی ہے اس کے لیے جنت واجب ہوگئی،اورجس کی تم نے بری تعریف کی ہے اس کے لیے آگ واجب ہوگئی،تم زمین میں  اللہ کے گواہ ہو، تم زمین میں  اللہ کے گواہ ہو، تم زمین میں  اللہ کے گواہ ہو۔[92]

میت کوغسل دینا:

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: بَیْنَا رَجُلٌ وَاقِفٌ مَعَ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بِعَرَفَةَ، إِذْ وَقَعَ عَنْ رَاحِلَتِهِ، فَوَقَصَتْهُ أَوْ قَالَ: فَأَقْعَصَتْهُ، فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:اغْسِلُوهُ بِمَاءٍ وَسِدْرٍ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے میدان عرفات میں  ایک شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ٹھہراہواتھاکہ اپنی اونٹنی سے گرپڑااوراس اونٹنی نے اس کی گردن توڑڈالی،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااسے پانی اوربیری کے پتوں  کے ساتھ غسل دو۔[93]

عَنْ أُمِّ عَطِیَّةَ الأَنْصَارِیَّةِ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: دَخَلَ عَلَیْنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ حِینَ تُوُفِّیَتِ ابْنَتُهُ، فَقَالَ: اغْسِلْنَهَا ثَلاَثًا، أَوْ خَمْسًا، أَوْ أَكْثَرَ مِنْ ذَلِكَ إِنْ رَأَیْتُنَّ ذَلِكَ

ام عطیہ انصاریہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی(زینب یاام کلثوم) کی وفات ہوئی آپ وہاں  تشریف لائے اورفرمایاتین یاپانچ مرتبہ غسل دے دو اور اگر مناسب سمجھوتواس سے بھی زیادہ کے سکتی ہو۔[94]

قَالَ الْقَاضِی عِیَاضٌ وَقَالَ بَعْضُ أَهْلِ السِّیَرِ إِنَّهَا أُمُّ كُلْثُومٍ وَالصَّوَابُ زَیْنَبُ كَمَا صَرَّحَ بِهِ مُسْلِمٌ فِی رِوَایَتِهِ

قاضی عیاض رحمہ اللہ اوربعض اصحاب السیرفرماتے ہیں  وہ ام کلثوم رضی اللہ عنہا تھیں  ، مگرصحیح یہ ہے کہ وہ زینب رضی اللہ عنہا زوجہ ابوالعاص تھیں  جیساکہ مسلم نے اپنی روایت میں  اس کی وضاحت کردی ہے۔

وَالْمُرَادُ اغْسِلْنَهَا وِتْرًا وَلْیَكُنْ ثَلَاثًا فَإِنِ احْتَجْتُنَّ إِلَى زِیَادَةٍ عَلَیْهَا لِلْإِنْقَاءِ فَلْیَكُنْ خَمْسًا فَإِنِ احْتَجْتُنَّ إِلَى زِیَادَةِ الْإِنْقَاءِ فَلْیَكُنْ سَبْعًا وَهَكَذَا أَبَدًا وَحَاصِلُهُ أَنَّ الْإِیتَارَ مَأْمُورٌ بِهِ وَالثَّلَاثَ مَأْمُورٌ بِهَا نَدْبًا فَإِنْ حَصَلَ الْإِنْقَاءُ بِثَلَاثٍ لَمْ تُشْرَعِ الرَّابِعَةُ

تین بارغسل دیناتوضروری ہے، اوراگردیکھیں  کہ ابھی اورطہارت کے لیے ضرورت ہے توپانچ باریاسات بارنہلائیں  مگرطاق ہو،اوراگرتین ہی بارصفائی حاصل ہوتوچوتھی کی ضرورت نہیں  ۔[95]

قَالَ النَّوَوِیُّ: الْإِجْمَاعُ عَلَى أَنَّ غُسْلَ الْمَیِّتِ فَرْضُ كِفَایَةٍ ،قَالَ الْمُصَنِّفُ بَعْدَ نَقْلِهِ فِی الْفَتْحِ، وَهُوَ ذُهُولٌ شَدِیدٌ فَإِنَّ الْخِلَافَ فِیهِ مَشْهُورٌ عِنْدَ الْمَالِكِیَّةِ ،إنَّ الْقُرْطُبِیَّ رَجَّحَ فِی شَرْحِ مُسْلِمٍ أَنَّهُ سُنَّةٌ ،وَقَدْ رَدَّ ابْنُ الْعَرَبِیِّ عَلَى مَنْ لَمْ یَقُلْ بِذَلِكَ، وَقَالَ: قَدْ تَوَارَدَ الْقَوْلُ وَالْعَمَلُ

امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں  میت کوغسل دینافرض کفایہ ہے اوراس پراجماع ہے۔حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اس پراعتراض کیاہے کہ اجماع کادعوی کیسے درست ہوسکتاہے جبکہ مالکیہ اس کے مخالف ہیں  ۔امام قرطبی رحمہ اللہ شرح مسلم سے متفق ہیں  کہ یہ سنت ہے۔ابن عربی رحمہ اللہ مالکیہ کاردکرتے ہوئے فرماتے ہیں  کہ یہ عمل قولاً اور فعلا ً متواترہے۔امیرصنعانی رحمہ اللہ حدیث’’ اسے پانی اوربیری کے پتوں  کے ساتھ غسل دو،اوراحرام ہی کے دوکپڑوں  کاکفن دو‘‘ کے متعلق فرماتے ہیں  یہ میت کوغسل دینے کے وجوب کی دلیل ہے۔[96]

الْإِجْمَاعِ عَلَى أَنَّ الْوَاجِبَ

جمہورکہتے ہیں  میت کوغسل دیناواجب ہے۔[97]

أَنْ یَغْتَسِلَ فَرْضًا

ابن حزم رحمہ اللہ فرماتے ہیں  میت کوغسل دینافرض ہے۔[98]

الإجماع على أنهم یغسلون

صدیق حسن خاں  رحمہ اللہ فرماتے ہیں  غسل میت کاوجوب متفق علیہ مسئلہ ہے۔[99]

والعمل على هذا عند أهل العلم

شیخ البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں  اہل علم کااسی پرعمل ہے۔[100]

میت کوغسل دینے کے لیے قریبی رشتہ داردوسروں  سے زیادہ مستحق ہیں  جبکہ میت اس کی جنس (یعنی صنف)سے ہو:

عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:لِیَلِهِ أَقْرَبُكُمْ مِنْهُ إِنْ كَانَ یَعْلَمُ، فَإِنْ كَانَ لَا یَعْلَمُ فَمَنْ تَرَوْنَ أَنَّ عِنْدَهُ حَظًّا مِنْ وَرَعٍ وَأَمَانَةٍ

ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایامیت کوغسل دینے کاسب سے زیادہ مستحق اس کاسب سے زیادہ قریبی ہے بشرطیکہ اسے(اس کاصحیح طریقہ کارکا)علم ہو،لیکن اگرعلم نہ ہوتوپھرجسے تم سمجھوکہ اس کے پاس تقوی وامانت کاکچھ حصہ موجودہے(وہ غسل دے) ۔[101]

وفی إسناده جابر الجعفی، والحدیث إن كان لا یصلح للاحتجاج به

اس کی سندمیں  جابرجعفی راوی ہے جس میں  بہت زیادہ کلام ہے۔

اگرچہ یہ حدیث قابل حجت نہیں  لیکن یہ بات درست ہے کہ قریبی رشتہ دارہی محبت ،شفقت ،رازکی باتیں  چھپانے میں  زیادہ امین اورمکمل توجہ کے حامل ہونے کی وجہ سے زیادہ مستحق ہیں  ۔

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:مَنْ سَتَرَ مُسْلِمًا سَتَرَهُ اللَّهُ فِی الدُّنْیَا وَالْآخِرَةِ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجوکسی مسلمان کاعیب چھپائے گا،اللہ تعالیٰ دیناوآخرت میں  اس کاعیب چھپائے گا۔[102]

عَنْ مَسْلَمَةَ بْنِ مُخَلَّدٍ، أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:مَنْ سَتَرَ مُسْلِمًا فِی الدُّنْیَا، سَتَرَهُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ فِی الدُّنْیَا وَالْآخِرَةِ، وَمَنْ نَجَّى مَكْرُوبًا فَكَّ اللَّهُ عَنْهُ كُرْبَةً مِنْ كُرَبِ یَوْمِ الْقِیَامَةِ، وَمَنْ كَانَ فِی حَاجَةِ أَخِیهِ كَانَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ فِی حَاجَتِهِ

مسلمہ بن مخلد سے مروی ہےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجومسلمان دینامیں  دوسرے مسلمان کاعیب چھپائے گااللہ عزوجل دنیاوآخرت میں  اسے عیب چھپائے گا،جوکوئی اس سے پریشانی کودورکرے گااللہ تعالیٰ قیامت کے روزاس سے پریشانی کودورفرمائے گا،جواپنے بھائی کی حاجت روی کرے گااللہ عزوجل اس کی حاجت روی فرمائے گا۔ [103]

فإنه كان فی زمن النبوة وما بعدها فی عصر الصحابة یغسل الرجل الرجال والمرأة النساء

امام شوکانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں  دورنبوی اوردورصحابہ میں  مردوں  کومرداورعورتوں  کوعورتیں  ہی غسل دیاکرتی تھیں  ۔[104]

أن یتولى غسل الذكر الرجال، والانثى النساء إلا ما استثنی

شیخ البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں  استثنائی صورتوں  کے علاوہ مردمردوں  کواورعورتیں  عورتوں  کوغسل دیں  ۔[105]

میاں  بیوی ایک دوسرے کوغسل دینے کے زیادہ مستحق ہیں  :

عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ رَجَعَ إِلَیَّ النَّبِیُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ یَوْمٍ مِنْ جَنَازَةٍ مِنْ الْبَقِیعِ فَوَجَدَنِی وَأَنَا أَجِدُ صُدَاعًا وَأَنَا أَقُولُ وَا رَأْسَاهُ قَالَ بَلْ أَنَا یَا عَائِشَةُ وَا رَأْسَاهُ قَالَ وَمَا ضَرَّكِ لَوْ مُتِّ قَبْلِی فَغَسَّلْتُكِ وَكَفَّنْتُكِ وَصَلَّیْتُ عَلَیْكِ وَدَفَنْتُكِ

ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے ایک دن رسول اللہ جنت البقیع میں  جنازے میں  شرکت کرنے کے بعد میرے ہاں  تشریف لائے تو مجھے اس حالت میں  پایا کہ میرے سرمیں  درد تھا اور(سردردکی وجہ سے) یہ کہہ رہی تھی ہائے میرا سر، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا نہیں  بلکہ عائشہ رضی اللہ عنہا مجھے یہ کہنا چاہیے کہ ہائے میرا سر،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا تمہیں  کیا نقصان ہے اگر تم مجھ سے پہلے فوت ہوجاؤ تو میں  تمہیں  غسل دو ں  گا،اورتمہیں  کفن دوں  گا ،اور تمہاری نماز جنازہ پڑھوں  گا اور تمہیں  دفن کروں  گا ۔[106]

وَكَانَتْ عَائِشَةُ تَقُولُ:لَوْ اسْتَقْبَلْتُ مِنْ أَمْرِی مَا اسْتَدْبَرْتُ، مَا غَسَلَهُ إِلَّا نِسَاؤُهُ

ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں  اگرمجھے اپنے اس معاملے کاپہلے علم ہوجاتاکہ جس کامجھے تاخیرسے علم ہواتورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوصرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویاں  ہی غسل دیتیں  ۔[107]

عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ عُمَیْسٍ , أَنَّ فَاطِمَةَ أَوْصَتْ أَنْ یُغَسِّلَهَا زَوْجُهَا عَلِیٌّ وَأَسْمَاءُ فَغَسَّلَاهَا

اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا سے مروی ہے فاطمہ رضی اللہ عنہا نے وصیت کی کہ انہیں  سیدناعلی رضی اللہ عنہ غسل دیں  ،چنانچہ سیدناعلی رضی اللہ عنہ نے ہی فاطمہ رضی اللہ عنہا کوغسل دیا۔[108]

عَنْ أُمِّ جَعْفَرٍ، أَنَّ فَاطِمَةَ بِنْتَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَتْ: یَا أَسْمَاءُ، إِذَا أَنَا مِتُّ فَاغْسِلِینِی أَنْتِ وَعَلِیُّ بْنُ أَبِی طَالِبٍ . فَغَسَّلَهَا عَلِیٌّ، وَأَسْمَاءُ رَضِیَ اللهُ عَنْهُمَا

ام جعفرفرماتی ہیں  فاطمہ رضی اللہ عنہا بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہااے اسماء جب میں  فوت ہوجاؤں  توتم اورسیدناعلی رضی اللہ عنہ بن ابوطالب مجھے غسل دینا ، چنانچہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ اوراسماء رضی اللہ عنہا نے انہیں  غسل دیا۔[109]

عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ عُمَیْسٍ قَالَتْ:لَمَّا مَاتَتْ فَاطِمَةُ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهَا غَسَّلَهَا عَلِیُّ بْنُ أَبِی طَالِبٍ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ

اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا سے مروی ہے جب فاطمہ رضی اللہ عنہا فوت ہوئیں  توسیدناعلی رضی اللہ عنہ نے انہیں  غسل دیا۔[110]

حَدَّثَتْنِی أَسْمَاءُ بِنْتُ عُمَیْسٍ قَالَتْ:غَسَّلْتُ أَنَا وَعَلِیٌّ رَضِیَ اللهُ عَنْهُ فَاطِمَةَ بِنْتَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ

اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا سے مروی ہےمیں  نے اورسیدناعلی رضی اللہ عنہ نے فاطمہ رضی اللہ عنہا بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوغسل دیاتھا۔ [111]

عَنْ عَائِشَةَ رَضِیَ اللهُ عَنْهَا قَالَتْ: فَفُعِلَ ذَلِكَ بِأَبِی بَكْرٍ، غَسَّلَتْهُ امْرَأَتُهُ أَسْمَاءُ بِنْتُ عُمَیْسٍ الْأَشْجَعِیَّةُ

ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں  سیدناابوبکر رضی اللہ عنہ نے اپنی بیوی اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا کو غسل دیا[112]

امام بیہقی رحمہ اللہ فرماتے ہیں  اس روایت کی سندضعیف ہے۔

أَنَّ أَبَا بَكْرٍ الصِّدِّیقَ رَضِیَ اللهُ عَنْهُ أَوْصَى إلَى امْرَأَتِهِ أَسْمَاءَ بِنْتِ عُمَیْسٍ أَنْ تُغَسِّلَهُ بَعْدَ وَفَاتِهِ

سیدناابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ نے اپنی زوجہ اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا کووصیت کی کہ ان کی وفات کے بعدوہ انہیں  غسل دیں  ۔[113]

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: الرَّجُلُ أَحَقُّ بِغُسْلِ امْرَأَتِهِ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں  مرداپنی بیوی کوغسل دینے کازیادہ حقدار ہے۔[114]

وَلَمْ یَقَعْ مِنْ سَائِرِ الصَّحَابَةِ إنْكَارٌ عَلَى عَلِیٍّ وَأَسْمَاءَ فَكَانَ إجْمَاعًا

امام شوکانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں  تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے سیدناعلی رضی اللہ عنہ اوراسماء رضی اللہ عنہا (کے اس عمل)پرکوئی انکار نہیں  کیاتویہ اجماع (کی مانند)ہے۔[115]

جمہوراسی کے قائل ہیں  ۔

أَنَّهُ كَانَ مَعْرُوفًا بَیْنَهُمْ أَنَّ الرَّجُلَ لَا یُغَسِّلُ زَوْجَتَهُ وَإِذَا لَمْ تُغَسَّلْ یَمَّمَهَا

امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں  مرداپنی بیوی کوغسل نہیں  دے سکتاحتی کہ اگرخاوندکے سواغسل دینے کے لیے کوئی اورنہ ہوتوپھربھی اسے غسل نہ دے بلکہ تیمم کرادے، تاہم بیوی اپنے خاوندکوغسل دے سکتی ہے۔[116]

راجح یہ ہے کہ بلاشبہ گزشتہ صحیح احادیث جمہورکے موقف (یعنی میاں  بیوی دونوں  ایک دوسرے کوغسل دے سکتے ہیں  )کوترجیح دیتی ہیں  ۔

غسل تین مرتبہ یاپانچ مرتبہ یااس سے زیادہ مرتبہ پانی اوربیری کے پتوں  کے ساتھ دیاجائے اورآخری مرتبہ کافوربھی استعمال کیاجائے:

عَنْ أُمِّ عَطِیَّةَ الأَنْصَارِیَّةِ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: دَخَلَ عَلَیْنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ حِینَ تُوُفِّیَتِ ابْنَتُهُ، فَقَالَ: اغْسِلْنَهَا ثَلاَثًا، أَوْ خَمْسًا، أَوْ أَكْثَرَ مِنْ ذَلِكَ إِنْ رَأَیْتُنَّ ذَلِكَ، بِمَاءٍ وَسِدْرٍ، وَاجْعَلْنَ فِی الآخِرَةِ كَافُورًا

ام عطیہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس اس وقت تشریف لائے جب ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی کوغسل دے رہی تھیں  ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااسے تین مرتبہ یاپانچ مرتبہ یااس سے بھی زیادہ مرتبہ غسل دواگرتم ضرورت محسوس کرو،غسل پانی اوربیری کے پتوں  کے ساتھ دواورآخرمیں  کافورڈالو۔[117]

ایک روایت میں  یہ لفظ ہیں  ثَلاَثًا أَوْ خَمْسًا أَوْ سَبْعًا تین مرتبہ یاپانچ مرتبہ یاسات مرتبہ غسل دو،اوراس میں  یہ لفظ بھی ہیں  اغْسِلْنَهَا وِتْرًا اوراسے طاق عددمیں  غسل دو۔[118]

عَنْ أُمِّ عَطِیَّةَ، بِنَحْوِ هَذَا وَزَادَتْ فِیهِ أَوْ سَبْعًا، أَوْ أَكْثَرَ مِنْ ذَلِكَ إِنْ رَأَیْتُنَّهُ

ام عطیہ رضی اللہ عنہا سےایک روایت میں  یہ لفظ ہیں  ،یاسات مرتبہ یااس سے بھی زیادہ مرتبہ غسل دواگرتم اس کی ضرورت محسوس کرو۔[119]

یعنی میت کوکم ازکم تین مرتبہ ضرورغسل دیناچاہیے، اوربوقت ضرورت پانچ،سات یااس سے بھی زیادہ مرتبہ طاق عددکالحاظ رکھتے ہوئے غسل دیاجاسکتاہے،بیری کے پتے استعمال کرنے کاحکم محض نظامت وصفائی کی غرض سے ہے اگراس کے قائم مقام کوئی چیزمثلاً صابن وغیرہ استعمال کرلیاجائے تووہ بھی درست ہے۔

غسل کے لیے عورت کے بال کھولنا:

حَدَّثَتْنَا أُمُّ عَطِیَّةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهَا:أَنَّهُنَّ جَعَلْنَ رَأْسَ بِنْتِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، ثَلاَثَةَ قُرُونٍ نَقَضْنَهُ، ثُمَّ غَسَلْنَهُ، ثُمَّ جَعَلْنَهُ ثَلاَثَةَ قُرُونٍ

ام عطیہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی کے بالوں  کوتین لٹوں  میں  تقسیم کردیاتھا،پہلے بال کھولے گئے پھرانہیں  دھوکران کی تین چوٹیاں  کردیں  گئیں  ۔[120]

میت کے بالوں  میں  کنگھی کرنابالخصوص عورت کے:

ایساکرنابالخصوص اگرمیت خاتون ہوتواس کے بالوں  کی تین مینڈھیاں  بناکے پیچھے ڈال دینامسنون ہے۔

عَنْ أُمِّ عَطِیَّةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ:فَضَفَرْنَا شَعَرَهَا ثَلاَثَةَ قُرُونٍ، وَأَلْقَیْنَاهَا خَلْفَهَا

ام عطیہ رضی اللہ عنہا سے مروی ایک روایت میں  یہ لفظ بھی ہیں  ’’ہم نے ان اس کے بالوں  کوتین حصوں  میں  تقسیم کردیااوران کی پشت پرڈال دیئے‘‘۔[121]

 أَنَّ أُمَّ عَطِیَّةَ قَالَتْ: وَمَشَطْنَاهَا ثَلاَثَةَ قُرُونٍ

ام عطیہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں  ہم نے کنگھی کرکے ان کے بالوں  کوتین لٹوں  میں  تقسیم کردیاتھا۔[122]

إنَّهُ یُرْسِلُ شَعْرَ الْمَرْأَةِ خَلْفَهَا وَعَلَى وَجْهِهَا

احناف ،اوزاعی رحمہ اللہ کہتے ہیں  عورت کے بال اس کی پشت پراوراس کے چہرے پرڈالے جائیں  گے۔[123]

وَإِنَّمَا یُرْسَلُ شَعْرُهَا شِقَّیْنِ عَلَى ثَدْیَیْهَا، وَسُنَّةُ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَحَقُّ بِالْإِتْبَاعِ

امام ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں  صحیح اورواضح سنت طریقہ یہ ہے کہ تین منڈھیاں  بناکرمیت کے پیچھے ڈالی جائیں  ،اورحق یہ ہے کہ سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کی جائے ۔[124]

داہنے اعضاء کو پہلے دھویاجائے:

عَنْ أُمِّ عَطِیَّةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فِی غَسْلِ ابْنَتِهِ:ابْدَأْنَ بِمَیَامِنِهَا، وَمَوَاضِعِ الوُضُوءِ مِنْهَا

ام عطیہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیٹی کے غسل کے وقت فرمایادائیں  جانب سے اوراعضائے وضوسے غسل شروع کرو۔[125]

شہیدکوغسل نہیں  دیاجائے گا:

عَنْ جَابِرٍ، قَالَ:رُمِیَ رَجُلٌ بِسَهْمٍ فِی صَدْرِهِ أَوْ فِی حَلْقِهِ فَمَاتَ فَأُدْرِجَ فِی ثِیَابِهِ كَمَا هُوَ، قَالَ: وَنَحْنُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ

جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ایک آدمی کوسینے میں  یاحلق میں  تیرلگااوروہ مرگیا،اسے اس کے اپنے کپڑوں  سمیت کہ جن میں  وہ تھادفن کردیاگیا،اور ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے۔[126]

امام شوکانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں  اس کی سندمسلم کی شرط پر ہے۔[127]

أَخَرَجَهُ أَبُو دَاوُد بِإِسْنَادٍ عَلَى شَرْطِ مُسْلِمٍ

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں  امام ابوداود رحمہ اللہ نے اسے مسلم کی شرط پرکہاہے۔[128]

عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ فِی قَتْلَى أُحُدٍ:لَا تُغَسِّلُوهُمْ، فَإِنَّ كُلَّ جُرْحٍ أَوْ كُلَّ دَمٍ یَفُوحُ مِسْكًا یَوْمَ الْقِیَامَةِ، وَلَمْ یُصَلِّ عَلَیْهِمْ

جابربن عبداللہ رضی اللہ عنہ سےایک روایت میں  یہ لفظ ہیں  ’’انہیں  غسل نہ دوکیونکہ روزقیامت (ان کا)ہرزخم خوشبوپھینک رہاہوگا،اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی نمازجنازہ بھی نہیں  پڑھی۔[129]

فِیهِ دَلِیلٌ عَلَى أَنَّ الشَّهِیدَ لَا یُغَسَّلُ

امام شوکانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں  یہ دلیل ہے کہ شہیدکوغسل نہیں  دیاجائے گا۔[130]

فَإِنَّهُ لَا یَلْزَمُ غُسْلُهُ

ابن حزم رحمہ اللہ فرماتے ہیں  شہیدکوغسل نہیں  دیاجائے گا۔[131]

وَقَالَ الشَّافِعِیُّ وَمَالِكٌ وَأَبُو یُوسُفَ وَمُحَمَّدٌ وَإِلَیْهِ ذَهَبَ الْهَادِی وَالْقَاسِمُ وَالْمُؤَیَّدُ بِاَللَّهِ وَأَبُو طَالِبٍ: إنَّهُ لَا یُغَسَّلُ لِعُمُومِ الدَّلِیلِ وَهُوَ الْحَقُّ، إنَّهُ یُغَسَّلُ الشَّهِیدُ إذَا كَانَ جُنُبًا

جمہور،امام شافعی رحمہ اللہ اورامام مالک رحمہ اللہ فرماتے ہیں  شہیدکوکسی حال میں  بھی غسل نہیں  دیاجائے گا،امام یوسف رحمہ اللہ اور امام محمد رحمہ اللہ وغیرہ کابھی یہی موقف ہے،اورامام ابوحنیفہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں  شہیدکوصرف حالت جنابت میں  غسل دیاجائے گا۔[132]

جن حضرات کے نزدیک حالت جنابت میں  شہیدہونے والے شخص کوغسل دیناضروری ہے ان کی دلیل یہ حدیث ہے،

فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:إِنَّ صَاحِبَكُمْ حَنْظَلَةَ تُغَسِّلُهُ الْمَلَائِكَةُ، فَسَلُوا صَاحِبَتَهُ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاتمہارے ساتھی حنظلہ رضی اللہ عنہ کوفرشتوں  نے غسل دیاہے، تم ساتھی کی نمازجنازہ پڑھو[133]

إنَّهُ لَا یُغَسَّلُ لِعُمُومِ الدَّلِیلِ وَهُوَ الْحَقُّ؛ لِأَنَّهُ لَوْ كَانَ وَاجِبًا عَلَیْنَا مَا اكْتَفَى فِیهِ بِغُسْلِ الْمَلَائِكَةِ، وَفِعْلُهُمْ لَیْسَ مِنْ تَكْلِیفِنَا وَلَا أُمِرْنَا بِالِاقْتِدَاءِ بِهِمْ

راجع یہ ہےشہیدکوغسل نہیں  دیاجائے گاخواہ جنبی ہی کیوں  نہ ہو،کیونکہ اگرانسانوں  پرشہیدکوغسل دینافرض ہوتاتومحض فرشتوں  کے غسل دینے سے یہ فرض ساقط نہ ہوتا،بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کوحکم فرماتے کہ وہ حنظلہ رضی اللہ عنہ کوغسل دیں  ، لیکن ایساکچھ منقول نہیں  ۔[134]

شیخ البانی اسی کوترجیح دیتے ہیں  [135]

جن پرشہیدکالفظ بولاگیاہے انہیں  غسل دینا:

وَیَجُوزُوَأَمَّا سَائِرُ مَنْ یُطْلَقُ عَلَیْهِ اسْمُ الشَّهِیدِ كَالطَّعِینِ وَالْمَبْطُونِ وَالنُّفَسَاءِ وَنَحْوِهِمْ فَیُغَسَّلُونَ إجْمَاعًا

مثلاًطاعون کی بیماری سے فوت ہونے والا،غرق ہوکرمرنے والا،جل کرفوت ہونے والاوغیرہ ان سب کوبالاجماع غسل دیاجائے گا۔

جیساکہ سیدناعمر رضی اللہ عنہ ،سیدناعثمان رضی اللہ عنہ اور سیدناعلی رضی اللہ عنہ تمام شہیدہیں  لیکن انہیں  غسل دیا گیا ، کفن بھی پہنایاگیااوران کی نمازجنازہ بھی اداکی گئی۔

امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں  تمام لوگوں  کوبلااختلاف غسل بھی دیاجائے گااوران کی نمازجنازہ بھی پڑھی جائے گی۔[136]

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کوکپڑوں  سمیت غسل دیاگیا:

عَائِشَةَ، تَقُولُ: لَمَّا أَرَادُوا غَسْلَ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالُوا: وَاللَّهِ مَا نَدْرِی أَنُجَرِّدُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مِنْ ثِیَابِهِ كَمَا نُجَرِّدُ مَوْتَانَا، أَمْ نَغْسِلُهُ وَعَلَیْهِ ثِیَابُهُ؟ فَلَمَّا اخْتَلَفُوا أَلْقَى اللَّهُ عَلَیْهِمُ النَّوْمَ حَتَّى مَا مِنْهُمْ رَجُلٌ إِلَّا وَذَقْنُهُ فِی صَدْرِهِ، ثُمَّ كَلَّمَهُمْ مُكَلِّمٌ مِنْ نَاحِیَةِ الْبَیْتِ لَا یَدْرُونَ مَنْ هُوَ:أَنْ اغْسِلُوا النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَعَلَیْهِ ثِیَابُهُ، فَقَامُوا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَغَسَلُوهُ وَعَلَیْهِ قَمِیصُهُ، یَصُبُّونَ الْمَاءَ فَوْقَ الْقَمِیصِ وَیُدَلِّكُونَهُ بِالْقَمِیصِ دُونَ أَیْدِیهِمْ

ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہےصحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کوغسل دیناچاہاتوانہوں  نے کہااللہ کی قسم !ہمیں  معلوم نہیں  کہ آیاہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کپڑے اتاریں  جیسے کہ ہم اپنی میتوں  کے اتاردیتے ہیں  یاانہیں  انہیں  ان کے کپڑوں  سمیت ہی غسل دیں  ،پس جب لوگوں  کے درمیان اختلاف ہوگیاتواللہ تعالیٰ نے ان پرنیندڈال دی،ان میں  سے کوئی بھی نہ بچامگراس کی ٹھوڑی اس کے سینے سے جالگی،پھرگھرکی جانب سے کلام کرنے والے نے کلام کیا ،کسی کوخبرنہیں  کہ وہ کون تھاکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کوان کے کپڑوں  سمیت ہی غسل دو،چنانچہ وہ اٹھے اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوآپ کی قمیص سمیت غسل دیا، وہ قمیص کے اوپرہی پانی ڈالتے جاتے تھے اورآپ کی قمیص ہی سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کوملتے جاتے تھے بغیراس کے کہ آپ کے جسم کوان کے ہاتھ لگیں  ۔ [137]

میت کوکفن دینا

میت کوایساکفن دیناواجب ہے جواسے چھپالے خواہ وہ اس کے علاوہ کسی چیزکامالک نہ ہو:

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: بَیْنَا رَجُلٌ وَاقِفٌ مَعَ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بِعَرَفَةَ، إِذْ وَقَعَ عَنْ رَاحِلَتِهِ، فَوَقَصَتْهُ أَوْ قَالَ: فَأَقْعَصَتْهُ، فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:اغْسِلُوهُ بِمَاءٍ وَسِدْرٍ، وَكَفِّنُوهُ فِی ثَوْبَیْنِ أَوْ قَالَ: ثَوْبَیْهِ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے میدان عرفات میں  ایک شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ٹھہراہواتھاکہ اپنی اونٹنی سے گرپڑااوراس اونٹنی نے اس کی گردن توڑڈالی،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااسے پانی اوربیری کے پتوں  کے ساتھ غسل دواوراسے احرام کے دوکپڑوں  کاکفن دو۔[138]

جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللهِ، یُحَدِّثُ،وَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:إِذَا كَفَّنَ أَحَدُكُمْ أَخَاهُ، فَلْیُحَسِّنْ كَفَنَهُ

جابر رضی اللہ عنہ بن عبداللہ سے مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجب تم میں  سے کوئی اپنے بھائی کوکفن دے تواسے اچھاکفن دیناچاہیے۔[139]

عمدہ اوراچھاکفن دینے سے مرادیہ ہے کہ کفن کاکپڑاصاف ستھرا،عمدہ،وسیع اوراس قدرہوکہ میت کے جسم کواچھی طرح ڈھانپ سکے ،اس سے یہ ہرگزمرادنہیں  ہے کہ کفن کاکپڑابہت زیادہ قیمتی ہو۔

قال العلماء: وَالْمُرَادُ بِإِحْسَانِ الْكَفَنِ: نَظَافَتُهُ وَنَقَاؤُهُ وَكَثَافَتُهُ وَسِتْرُهُ وَتَوَسُّطُهُ

علماء فرماتے ہیں  اچھے کفن سے مرادیہ ہے کہ کفن کاکپڑاصاف ستھرا،عمدہ،وسیع اوراس قدرہوکہ میت کے جسم کواچھی طرح ڈھانپ سکے۔[140]

یہ حدیث بھی اس کی تائیدکرتی ہے

أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُمَا، أَخْبَرَهُ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:المُسْلِمُ أَخُو المُسْلِمِ لاَ یَظْلِمُهُ وَلاَ یُسْلِمُهُ، وَمَنْ كَانَ فِی حَاجَةِ أَخِیهِ كَانَ اللَّهُ فِی حَاجَتِهِ، وَمَنْ فَرَّجَ عَنْ مُسْلِمٍ كُرْبَةً، فَرَّجَ اللَّهُ عَنْهُ كُرْبَةً مِنْ كُرُبَاتِ یَوْمِ القِیَامَةِ، وَمَنْ سَتَرَ مُسْلِمًا سَتَرَهُ اللَّهُ یَوْمَ القِیَامَةِ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے روایت کیاہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاایک مسلمان دوسرے مسلمان کابھائی ہے،پس اس پرظلم نہ کرے اورنہ ظلم ہونے دے،جوشخص اپنے بھائی کی ضرورت پوری کرے گااللہ تعالیٰ اس کی ضرورت پوری کرے گا،جوشخص کسی مسلمان کی ایک مصیبت کودورکرے گااللہ تعالیٰ اس کی قیامت کی مصیبتوں  میں  سے ایک بڑی مصیبت کودورفرمائے گا، اورجوشخص کسی مسلمان کے عیب کوچھپائے گا اللہ تعالیٰ قیامت میں  اس کے عیب چھپائے گا۔[141]

والكفن أو ثمنه من مال المیت، ولو لم یخلف غیره

شیخ البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں  مرادیہ ہے کہ کفن کاانتظام وانصرام میت کے ترکہ سے ہی کیاجائے گا۔خواہ میت کاترکہ صرف اس قدرہی ہوکہ جس سے صرف کفن کابندوبست ہی کیاجاسکے۔[142]

عَنْ سَعْدٍ، عَنْ أَبِیهِ، قَالَ: أُتِیَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَوْفٍ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ یَوْمًا بِطَعَامِهِ، فَقَالَ:قُتِلَ مُصْعَبُ بْنُ عُمَیْرٍ وَكَانَ خَیْرًا مِنِّی، فَلَمْ یُوجَدْ لَهُ مَا یُكَفَّنُ فِیهِ إِلَّا بُرْدَةٌ، وَقُتِلَ حَمْزَةُ أَوْ رَجُلٌ آخَرُ خَیْرٌ مِنِّی، فَلَمْ یُوجَدْ لَهُ مَا یُكَفَّنُ فِیهِ إِلَّا بُرْدَةٌ، لَقَدْ خَشِیتُ أَنْ یَكُونَ قَدْ عُجِّلَتْ لَنَا طَیِّبَاتُنَا فِی حَیَاتِنَا الدُّنْیَا ثُمَّ جَعَلَ یَبْكِی

ابراہیم بن عبدالرحمٰن سے مروی ہےعبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ کے سامنے ایک دن کھانارکھاگیاتوانہوں  نے فرمایامصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ (غزوہ احد میں  ) شہیدکردیے گئے اوروہ مجھ سے بہترتھے ،ایک چادرکے سواان کی کوئی ایسی چیزنہیں  ملی کہ جس میں  انہیں  کفن دیاجاسکے، اورحمزہ رضی اللہ عنہ یادوسراشخص شہیدہواایک چادرکے سوااس کی کوئی ایسی چیزنہ مل سکی جس میں  اسے کفن دیاجاسکے، مجھے توڈرلگتاہے کہ کہیں  ایسانہ ہوہمارے چین وآرام کے سامان ہم کوجلدی سے دنیامیں  دے دیئے گئے ہوں  ، پھررونے لگے۔[143]

یعنی مصعب رضی اللہ عنہ اورسیدالشہداء حمزہ رضی اللہ عنہ بن عبدالمطلب کاکل متاع ایک چادرہی تھی ،وہ بھی تنگ تھی ،وہی ان کے کفن میں  دے دی گئی ۔

عَنْ خَبَّابٍ،مِنْهُمْ: مُصْعَبُ بْنُ عُمَیْرٍ، قُتِلَ یَوْمَ أُحُدٍ، فَلَمْ نَجِدْ مَا نُكَفِّنُهُ فِیهِ إِلَّا نَمِرَةً، كُنَّا إِذَا غَطَّیْنَا بِهَا رَأْسَهُ خَرَجَتْ رِجْلَاهُ، وَإِذَا غَطَّیْنَا رِجْلَیْهِ خَرَجَ رَأْسُهُ،فَأَمَرَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَنْ نُغَطِّیَ بِهَا رَأْسَهُ، وَنَجْعَلَ عَلَى رِجْلَیْهِ إِذْخِرًا

خباب بن ارت رضی اللہ عنہ سے مروی ہےمصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ غزوہ احدکے دن شہیدکردیے گئے ، ہمیں  ان کے کفن میں  ایک چادرکے سوااورکوئی چیزنہ ملی اوروہ بھی ایسی کہ ہم ان کاسرڈھاپنتے توان کے قدم ظاہرہوجاتے اورجب ان کے قدم ڈھانپتے توان کاسرظاہرہوجاتا، بالآخررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں  ان کاسرڈھانپنے اورقدموں  پرکچھ اذخر(گھاس)ڈال دینے کاحکم فرمایا۔[144]

وَقَدْ یُسْتَدَلُّ بِهَذَا الْحَدِیثِ عَلَى أَنَّ الْوَاجِبَ فِی الْكَفَنِ سَتْرُ الْعَوْرَةِ فَقَطْ۔۔۔،وَلَوْ كَانَ سَتْرُ جَمِیعِ الْبَدَنِ وَاجِبًا لَوَجَبَ عَلَى الْمُسْلِمِینَ الْحَاضِرِینَ تَتْمِیمُهُ إنْ لَمْ یَكُنْ لَهُ قَرِیبٌ یَلْزَمُهُ نَفَقَتُهُ

یہ حدیث اس بات کابھی ثبوت ہے کہ میت کے پورے جسم کوڈھانپناواجب نہیں  ہے کیونکہ اگرایساہوتاتونبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم دوسرے ساتھیوں  سے کپڑالے کران کے قدموں  کوڈھانپ دیتے حالانکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایساکچھ نہیں  کیا۔[145]

فإن ضاق الكفن عن ذلك، ولم یتیسر السابغ، ستر به رأسه وما طال من جسده ، وما بقی منه مكشوفا جعل علیه شئ من الاذخر أو غیره من الحشیش

شیخ البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں  لہذااگرکفن کم پڑجائے توسرکوڈھانپ لیاجائے گااورقدموں  پراذخرگھاس کاکوئی اورگھاس وغیرہ ڈال دی جائے گی۔[146]

مذکورہ مسئلے کے لیے اس حدیث سے بھی استدلال کیاجاسکتاہے۔

عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: كَانَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَجْمَعُ بَیْنَ الرَّجُلَیْنِ مِنْ قَتْلَى أُحُدٍ فِی ثَوْبٍ وَاحِدٍ

جابربن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم شہدائے احدکے دودوآدمیوں  کوایک کپڑے میں  جمع کرتے تھے۔[147]

حسب توفیق عمدہ کفن پہنانے میں  کوئی حرج نہیں  لیکن بہت زیادہ قیمتی نہ ہو:

عَنْ أَبِی قَتَادَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:إِذَا وَلِیَ أَحَدُكُمْ أَخَاهُ، فَلْیُحْسِنْ كَفَنَهُ

ابوقتادہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجب تم میں  سے کوئی اپنے بھائی کاوالی بنے تواسے اچھاکفن پہنائے۔[148]

عَنْ عَلِیِّ بْنِ أَبِی طَالِبٍ، قَالَ: لَا تُغَالِ لِی فِی كَفَنٍ، فَإِنِّی سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَقُولُ:لَا تَغَالَوْا فِی الْكَفَنِ، فَإِنَّهُ یُسْلَبُهُ سَلْبًا سَرِیعًا

سیدناعلی رضی اللہ عنہ سے مروی ہےکفن مہنگانہیں  ہوناچاہئے،بےشک میں  نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سناہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کفن مہنگامت بنایاکروبلاشبہ یہ بہت جلدچھین لیاجاتاہے۔[149]

حكم الألبانی: ضعیف

ولا یجوز المغالاة فی الكفن

اورشیخ البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں  بہت زیادہ قیمتی کفن پہنا ناجائز نہیں  کیونکہ اس میں  مال کاضیاع ہے جوکہ صحیح حدیث میں  ممنوع ہے۔[150]

عَنِ الْمُغِیرَةِ بْنِ شُعْبَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: “ إِنَّ اللَّهَ كَرِهَ لَكُمْ ثَلَاثًا: قِیلَ وَقَالَ، وَكَثْرَةَ السُّؤَالِ، وَإِضَاعَةَ الْمَالِ

مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایابلاشبہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے تین چیزوں  کوناپسندکیاہے ،بہت زیادہ باتیں  کرنا، مال کوضیاع کرنا اورکثرت سے سوال کرنا۔[151]

فَقَالَ: اغْسِلُوا ثَوْبِی هَذَا وَزِیدُوا عَلَیْهِ ثَوْبَیْنِ، فَكَفِّنُونِی فِیهَا، قُلْتُ: إِنَّ هَذَا خَلَقٌ، قَالَ: إِنَّ الحَیَّ أَحَقُّ بِالْجَدِیدِ مِنَ المَیِّت، إِنَّمَا هُوَ لِلْمُهْلَةِ

سیدناابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایامیرے اس کپڑے کو(جس پرزعفران کادھبہ تھا)دھولینا،اوراس کے ساتھ دواورکپڑے ملاکرمجھے کفن دینا،ام المومنین عائشہ صدیقہ فرماتی ہیں  میں  نے کہایہ توپراناہے،توانہوں  نے جواب دیاکہ زندہ آدمی نئے کپڑے کامردہ سے زیادہ حق دارہے،یہ توپیپ اورخون کے نذرہوجائے گا۔[152]

شہیدکوانہی کپڑوں  میں  کفن دیاجائے جن میں  وہ شہیدہوا:

حَدَّثَنِی عَبْدُ اللَّهِ بْنُ ثَعْلَبَةَ بْنِ صُعَیْرٍ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ یَوْمَ أُحُدٍ:زَمِّلُوهُمْ فِی ثِیَابِهِمْ

عبداللہ بن ثعلبہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شہدائے احدکے متعلق فرمایاانہیں  ان کے کپڑوں  میں  ہی لپیٹ دو۔[153]

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ ثَعْلَبَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ لِقَتْلَى أُحُدٍ:زَمِّلُوهُمْ بِدِمَائِهِمْ، فَإِنَّهُ لَیْسَ كَلْمٌ یُكْلَمُ فِی اللَّهِ إِلَّا یَأْتِی یَوْمَ الْقِیَامَةِ یَدْمَى، لَوْنُهُ لَوْنُ الدَّمِ، وَرِیحُهُ رِیحُ الْمِسْكِ

عبداللہ بن ثعلبہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شہدائے احدکے متعلق فرمایاانہیں  ان کے خون آلودجسموں  اورکپڑوں  سمیت کفن دو،کیونکہ جوزخم بھی اللہ تعالیٰ کے راستے میں  لگاہوقیامت کے دن اس کی یہ حالت ہوگی کہ رنگ توخون جیساہی ہوگا،مگرخوشبوکستوری جیسی ہوگی ۔[154]

یہ بات متفق علیہ ہے کہ شہیدکوغسل نہیں  دیاجائے گابلکہ اسی خون آلودحالت میں  مناسب کپڑے میں  کفن دے کردفن کردیاجائے گاتاکہ اس پرمظلومیت کے نشان باقی رہیں  نیزقیامت کے دن اس کاامتیازقائم رہے اورسب حاضرین کے سامنے اس کی فضیلت ظاہوہو،کیونکہ قیامت کے دن ہرمیت کواس حال میں  اٹھایاجائے گاجس پروہ فوت اوردفن ہوا،البتہ احناف نے اس کے لیے چندشرطیں  لگائی ہیں  مثلاً اس نے زخمی ہونے کے بعدنہ کچھ کھایاپیاہو،نہ سایہ حاصل کیاہو،نہ اس کاعلاج کیاگیاہوحتی کہ نہ اس نے وصیت کی ہو،مگریہ تمام شرطیں  بلادلیل بلکہ باطل ہیں  بلکہ شہادت کے ساتھ مذاق اورشہیدپرظلم ہے ،گویااسے دھوپ میں  پیاسارکھ کرتڑپاتڑپاکرماراجائے یامرنے دیاجائے ، لطف تویہ ہے کہ اسے بات کرنے کی بھی اجازت نہ دی جائے، اسْتَغْفِرْالله۔

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ:أَمَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بِقَتْلَى أُحُدٍ أَنْ یُنْزَعَ عَنْهُمُ الْحَدِیدُ وَالْجُلُودُ، وَأَنْ یُدْفَنُوا بِدِمَائِهِمْ وَثِیَابِهِمْ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شہدائے احدکے متعلق حکم ارشادفرمایاکہ ان سے لوہااورچمڑے اتارلیے جائیں  اورفرمایاانہیں  ان کے خون آلود جسموں  اورکپڑوں  سمیت ہی دفن کر دو۔[155]

حكم الألبانی : ضعیف

وَالظَّاهِرُ أَنَّ الْأَمْرَ بِدَفْنِ الشَّهِیدِ بِمَا قُتِلَ فِیهِ مِنْ الثِّیَابِ لِلْوُجُوبِ

امام شوکانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں  ظاہربات یہی ہے کہ شہیدکوانہی کپڑوں  میں  دفن کرنے کاحکم کہ جن میں  وہ قتل کیاگیاہے ،وجوب کے لیے ہے۔[156]

ولا یجوز نزع ثیاب الشهید الذی قتل فیها، بل یدفن وهی علیه لقوله صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فی قتلى أحد: زَمِّلُوهُمْ فی ثِیَابِهِمْ

شیخ البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں  شہیدکے ان کپڑوں  کواتارناجائزنہیں  جن میں  وہ قتل کیاگیاہے بلکہ اسے انہی کپڑوں  میں  دفن کیاجائے گاجیساکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے احدکے شہداء کے لیے فرمایاانہیں  ان کے کپڑوں  سمیت ہی دفن کردو۔[157]

میت کے جسم اورکفن کوخوشبولگانابہترہے:

عَنْ جَابِرٍ، قَالَ: قَالَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:إِذَا أَجْمَرْتُمُ الْمَیِّتَ، فَأَجْمِرُوهُ ثَلَاثًا

جابر رضی اللہ عنہ بن عبداللہ سے مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجب تم میت کودھونی دو(یعنی خوشبولگاؤ)توتین مرتبہ دو۔[158]

أَنَّهُ فِی الصَّحِیحَیْنِ

امام نووی رحمہ اللہ نے اس کی سندکوصحیح کہا ہے۔[159]

قَالَ الْحَاكِمُ هُوَ صَحِیحٌ عَلَى شرط مسلم

امام حاکم رحمہ اللہ فرماتے ہیں  یہ حدیث مسلم کی شرط پرصحیح ہے۔

ووافقه الذهبی

اورامام ذہبی رحمہ اللہ نے بھی اس کی موافقت کی ہے۔[160]

یہ حکم محرم شخص کے لیے نہیں  ہے کیونکہ وہ محرم جواپنی سواری سے گرکرموت سے دوچارہواتھااس کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاتھاولا تطیبوهاسے خوشبومت لگاؤ،ایک روایت میں  یہ لفظ ہیں  وَلَا تُحَنِّطُوهُ اسے حنوط (مردوں  کی خوشبو)نہ لگاؤ۔ایک اورروایت میں  یہ ہےوَلاَ تُمِسُّوهُ طِیبًا اوراسے خوشبونہ لگاؤ۔[161]

ایک روایت میں  خوشبوسے ممانعت کاسبب یہ بتلایاگیاہے،

فَإِنَّهُ یُبْعَثُ یَوْمَ الْقِیَامَةِ مُلَبِّیًا

بے شک اللہ تعالیٰ اسے تلبیہ کہتے ہوئے ہی روزقیامت اٹھائیں  گے۔[162]

چونکہ وہ شخص حالت احرام میں  اٹھایاجائے گااورحالت احرام میں  خوشبولگانامنع ہے، اس لیے اس کی میت کوبھی خوشبولگانے سے روکاگیاہے۔

کفن کارنگ سفیدہو:

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:الْبَسُوا مِنْ ثِیَابِكُمُ الْبَیَاضَ فَإِنَّهَا مِنْ خَیْرِ ثِیَابِكُمْ، وَكَفِّنُوا فِیهَا مَوْتَاكُمْ،

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاسفیدلباس زیب تن کیاکرویہ تمہارے ملبوسات میں  بہترین اورعمدہ لباس ہے اوراپنے مرنے والوں  کوبھی اسی میں  کفن دیاکرو۔[163]

وَالْحَدِیثُ یَدُلُّ عَلَى مَشْرُوعِیَّةِ لُبْسِ الْبَیَاضِ وَتَكْفِینُ الْمَوْتَى بِهِ

امام شوکانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں  یہ حدیث سفیدلباس کی مشروعیت اورمیت کوکفن دینے کی دلیل ہے۔[164]

وَهُوَ مُجْمَعٌ عَلَیْهِ

امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں  اس کے استحباب پراجماع ہے۔[165]

تین کپڑوں  میں  کفن دینا:

عَنْ عَائِشَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهَا:أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ كُفِّنَ فِی ثَلاَثَةِ أَثْوَابٍ یَمَانِیَةٍ بِیضٍ، سَحُولِیَّةٍ مِنْ كُرْسُفٍ لَیْسَ فِیهِنَّ قَمِیصٌ وَلاَ عِمَامَةٌ

ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوسحولیہ کے ساختہ،سوتی،سفیدرنگ کے تین کپڑوں  میں  کفن دیاگیاجن میں  قمیض اورپگڑی نہیں  تھی۔[166]

عَنْ عَائِشَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: دَخَلْتُ عَلَى أَبِی بَكْرٍ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، فَقَالَ: فِی كَمْ كَفَّنْتُمُ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ؟ قَالَتْ:فِی ثَلاَثَةِ أَثْوَابٍ بِیضٍ سَحُولِیَّةٍ، لَیْسَ فِیهَا قَمِیصٌ وَلاَ عِمَامَةٌ وَقَالَ لَهَا: فِی أَیِّ یَوْمٍ تُوُفِّیَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ؟ قَالَتْ:یَوْمَ الِاثْنَیْنِ قَالَ: فَأَیُّ یَوْمٍ هَذَا؟ قَالَتْ:یَوْمُ الِاثْنَیْنِ قَالَ: أَرْجُو فِیمَا بَیْنِی وَبَیْنَ اللَّیْلِ، فَنَظَرَ إِلَى ثَوْبٍ عَلَیْهِ، كَانَ یُمَرَّضُ فِیهِ بِهِ رَدْعٌ مِنْ زَعْفَرَانٍ، فَقَالَ: اغْسِلُوا ثَوْبِی هَذَا وَزِیدُوا عَلَیْهِ ثَوْبَیْنِ، فَكَفِّنُونِی فِیهَا، قُلْتُ: إِنَّ هَذَا خَلَقٌ، قَالَ: إِنَّ الحَیَّ أَحَقُّ بِالْجَدِیدِ مِنَ المَیِّتِ، إِنَّمَا هُوَ لِلْمُهْلَةِ

ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہےمیں  سیدناابوبکر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں  (ان کی مرض الموت میں  )حاضرہوئی توآپ رضی اللہ عنہ نے پوچھاکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کوتم لوگوں  نے کتنے کپڑوں  کاکفن دیاتھا؟میں  نے جواب دیاکہ تین سفیددھلے ہوئے کپڑوں  کا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کفن میں  قمیص اورعمامہ نہیں  دیاگیاتھا،اورسیدناابوبکر رضی اللہ عنہ نے مجھ سے یہ بھی پوچھاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کس دن ہوئی تھی؟ میں  نے جواب دیاکہ پیرکے دن،سیدناابوبکر رضی اللہ عنہ نے پوچھاآج کونسادن ہے؟ میں  نے جواب دیاکہ آج پیرکادن ہے ، سیدناابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایاپھرمجھے بھی امیدہے کہ اب سے رات تک میں  بھی رخصت ہوجاؤں  گا،اس کے بعدآپ رضی اللہ عنہ نے اپناکپڑادیکھاجسے مرض کے دوران میں  آپ پہن رہے تھے اس کپڑے پرزعفران کادھبہ لگاہواتھا،آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایامیرے اس کپڑے کودھولینااوراس کے ساتھ دواورملالیناپھرمجھے کفن انہیں  کادینا،میں  نے کہایہ تو پرانا ہے، سیدناابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایازندہ آدمی نئے کامردے سے زیادہ مستحق ہے یہ توپیپ اورخون کے نذرہوجائے گا۔[167]

هَذَا الْحَدِیثِ اسْتِحْبَابُ التَّكْفِینِ فِی الثِّیَابِ الْبِیضِ وَتَثْلِیثِ الْكَفَنِ ،وَقَالَ أَبُو عُمَرَ فِیهِ أَنَّ التَّكْفِینَ فِی الثَّوْبِ الْجَدِیدِ وَالْخَلَقِ سَوَاءٌ

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں  یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ سفید کفن دینااورتین کپڑے کفن میں  استعمال کرنامستحب ہے ، اورابوعمرنے کہاکہ اس سے یہ بھی ثابت ہواکہ نئے اورپرانے کپڑوں  کاکفن دینابرابرہے۔[168]

كُفِّنَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فِی سَبْعَةِ أَثْوَابٍ

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کوسات کپڑوں  میں  کفن دیاگیا۔[169]

وَفِی إسْنَادِهِ عَبْدُ اللهِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عَقِیلٍ وَهُوَ سَیِّئُ الْحِفْظِ ِ

اس روایت کی سندمیں  عبداللہ بن محمدبن عقیل ہے جس کا حافظہ خراب ہے۔[170]

قَالَ: بِاسْتِحْبَابِ الْقَمِیصِ فِی الْكَفَنِ وَهُمْ الْحَنَفِیَّةُ وَمَالِكٌ وَذَهَبَ الْجُمْهُورُإلَى أَنَّهُ غَیْرُ مُسْتَحَبٍّ وَاسْتَدَلُّوا بِقَوْلِ عَائِشَةَ: لَیْسَ فِیهَا قَمِیصٌ وَلَا عِمَامَةٌ

احناف اورمالک رحمہ اللہ کہتے ہیں  یہ مستحب ہے کہ کفن میں  قمیض بھی ہوجمہورکہتے ہیں  یہ مستحب نہیں  ہے،اوروہ ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی روایت سے استدلال کرتے ہیں  کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کفن میں  قمیص اورعمامہ نہیں  تھا۔[171]

وَقَالَ الشَّافِعِیُّ: لَا یُسَنُّ الْقَمِیصُ فِی الْكَفَنِ

امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں  کفن میں  قمیص کی ضرورت نہیں  ۔[172]

قَالَ الشَّافِعِیُّ رَحِمَهُ اللهُ تَعَالَى ، وَیُكَفَّنُ الْمَیِّتُ فِی ثَلَاثَةِ أَثْوَابٍ بِیضٍ ، وَكَذَلِكَ بَلَغَنَاأَنَّ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ كُفِّنَ، وَلَا أُحِبُّ أَنْ یُقَمَّصَ، وَلَا یُعَمَّمَ

امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں  میت کوتین سفیدکپڑوں  کاکفن دیاجائے،اورروایت کی گئی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کوجوکفن دیاگیاتھااس میں  قمیص اورعمامہ نہیں  تھا۔[173]

فَذَهَبَ الْجُمْهُورُ إلَى أَنَّ أَفْضَلَهَا ثَلَاثَةُ أَثْوَابٍ بِیضٍ

جمہورکاموقف تین سفیدکپڑےراجح ہے کیونکہ احناف کی دلیل ضعیف روایت ہے۔[174]

کفن میں  ایک کپڑابھی ثابت ہے:

عَنْ أَبِیهِ إِبْرَاهِیمَ، أَنَّ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ عَوْفٍ، أُتِیَ بِطَعَامٍ، وَكَانَ صَائِمًا، فَقَالَ: قُتِلَ مُصْعَبُ بْنُ عُمَیْرٍ وَهُوَ خَیْرٌ مِنِّی، كُفِّنَ فِی بُرْدَةٍ: إِنْ غُطِّیَ رَأْسُهُ بَدَتْ رِجْلاَهُ، وَإِنْ غُطِّیَ رِجْلاَهُ بَدَا رَأْسُهُ، وَأُرَاهُ قَالَ: وَقُتِلَ حَمْزَةُ وَهُوَ خَیْرٌ مِنِّی، ثُمَّ بُسِطَ لَنَا مِنَ الدُّنْیَا مَا بُسِطَ، أَوْ قَالَ: أُعْطِینَا مِنَ الدُّنْیَا مَا أُعْطِینَا، وَقَدْ خَشِینَا أَنْ تَكُونَ حَسَنَاتُنَا عُجِّلَتْ لَنَا، ثُمَّ جَعَلَ یَبْكِی حَتَّى تَرَكَ الطَّعَامَ

ابراہیم رضی اللہ عنہ سے مروی ہےعبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ (جوعشرہ مبشرہ میں  سے تھے) کے پاس کھانالایاگیااوروہ روزے سے تھے،انہوں  نے کہا مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ (غزوہ احدمیں  )شہیدکردیے گئے،وہ مجھ سے افضل اوربہترتھے لیکن انہیں  جس چادرمیں  کفن دیاگیا(وہ اتنی چھوٹی تھی کہ)اگراس سے ان کا سر چھپایا جاتاتوپاؤں  کھل جاتے اور اگر پاؤں  چھپایاجاتاتوسرکھل جاتا، میراخیال ہے کہ انہوں  نے کہاسیدالشہداء حمزہ رضی اللہ عنہ بھی(اسی جنگ میں  )شہیدکیے گئے وہ مجھ سے بہتراورافضل تھے (اورانہیں  بھی ایک چھوٹی سی چادرمیں  کفن دیاگیا) پھرجیساکہ تم دیکھ رہے ہوہمارے لیے دنیامیں  کشادگی دی گئی، یاانہوں  نے یہ کہاکہ پھرجیساکہ تم دیکھتے ہوتمہیں  دنیادی گئی ،ہمیں  تواس کاڈرہے کہ کہیں  یہی ہماری نیکیوں  کابدلہ نہ ہوجواسی دنیامیں  ہمیں  دیاجارہاہے،اس کے بعد آپ اتناروئے کہ کھانانہ کھا سکے۔[175]

کفن میں  دوکپڑے بھی ثابت ہیں  :

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُمْ: أَنَّ رَجُلًا وَقَصَهُ بَعِیرُهُ وَنَحْنُ مَعَ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، وَهُوَ مُحْرِمٌ، فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:اغْسِلُوهُ بِمَاءٍ وَسِدْرٍ، وَكَفِّنُوهُ فِی ثَوْبَیْنِ، وَلاَ تُمِسُّوهُ طِیبًا، وَلاَ تُخَمِّرُوا رَأْسَهُ، فَإِنَّ اللَّهَ یَبْعَثُهُ یَوْمَ القِیَامَةِ مُلَبِّیًا

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہےایک مرتبہ ہم لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ احرام باندھے ہوئے تھے کہ ایک شخص کی گردن اس کے اونٹ نے توڑڈالی،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاانہیں  پانی اوربیری کے پتوں  سے غسل دے دو،اوردوکپڑوں  کاکفن دو،خوشبونہ لگاؤ اورنہ ان کاسراورچہرہ ڈھکو، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ انہیں  اس حالت میں  اٹھائے گاکہ وہ لبیک پکارتاہوگا۔[176]

اورتین کپڑے بھی ثابت ہیں  :

عَنْ عَائِشَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهَا:أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ كُفِّنَ فِی ثَلاَثَةِ أَثْوَابٍ یَمَانِیَةٍ بِیضٍ، سَحُولِیَّةٍ مِنْ كُرْسُفٍ لَیْسَ فِیهِنَّ قَمِیصٌ وَلاَ عِمَامَةٌ

ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کویمن کے تین سفیدسوتی دھلے ہوئے کپڑوں  میں  کفن دیاگیاان میں  نہ قمیص تھی نہ عمامہ۔[177]

بلکہ ایک ازارتھی ایک چادراورایک لفافہ پس سنت یہی تین کپڑے ہیں  ،عمامہ باندھنابدعت ہے ۔اس سے زیادہ کسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں  ،

ولا الزیادة فیه على الثلاثة لانه خلاف ما كفن

اس لیے شیخ البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں  تین کپڑوں  سے زائدکپڑوں  میں  کفن دیناناجائزہے [178]

میت کاسوگ :

ثُمَّ دَخَلْتُ عَلَى زَیْنَبَ بِنْتِ جَحْشٍ حِینَ تُوُفِّیَ أَخُوهَا، فَدَعَتْ بِطِیبٍ، فَمَسَّتْ بِهِ، ثُمَّ قَالَتْ: مَا لِی بِالطِّیبِ مِنْ حَاجَةٍ، غَیْرَ أَنِّی سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عَلَى المِنْبَرِ یَقُولُ:لاَ یَحِلُّ لِامْرَأَةٍ تُؤْمِنُ بِاللهِ وَالیَوْمِ الآخِرِ، تُحِدُّ عَلَى مَیِّتٍ فَوْقَ ثَلاَثٍ، إِلَّا عَلَى زَوْجٍ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا

زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا کابھائی فوت ہوگیاتین دن بعدانہوں  نے خوشبومنگوائی اوراسے ملا،پھرکہامجھے خوشبوکی ضرورت نہیں  تھی مگرمیں  نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کومنبر پر فرماتے ہوئے سناہے جوعورت اللہ تعالیٰ اورقیامت پرایمان رکھتی ہواس کے لیے حلال نہیں  کہ تین دن سے زیادہ کسی میت پرسوگ کرے، سوائے شوہرکے جس کاسوگ چارماہ دس دن ہے۔[179]

عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِیرِینَ، قَالَ: تُوُفِّیَ ابْنٌ لِأُمِّ عَطِیَّةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهَا، فَلَمَّا كَانَ الیَوْمُ الثَّالِثُ دَعَتْ بِصُفْرَةٍ، فَتَمَسَّحَتْ بِهِ، وَقَالَتْ: نُهِینَا أَنْ نُحِدَّ أَكْثَرَ مِنْ ثَلاَثٍ إِلَّا بِزَوْجٍ

محمدبن سیرین رحمہ اللہ سے مروی ہے ام عطیہ رضی اللہ عنہا کالڑکافوت ہوگیا،تیسرے دن انہوں  نے زردی منگواکربدن پرملی اورکہاہمارے لیے شوہرکے علاوہ کسی اور(کی وفات)پرتین سے زیادہ سوگ کرناممنوع ہے۔[180]

[1]مسنداحمد۸۳۹۷،صحیح بخاری کتاب الجنائز بَابُ الأَمْرِ بِاتِّبَاعِ الجَنَائِزِ ۱۲۴۰،صحیح مسلم کتاب السلام بَابُ مِنْ حَقِّ الْمُسْلِمِ لِلْمُسْلِمِ رَدُّ السَّلَامِ۵۶۵۰ ،سنن ابوداودکتاب الادب بَابٌ فِی الْعُطَاسِ ۵۰۳۰،سنن ابن ماجہ کتاب الجنائز بَابُ مَا جَاءَ فِی عِیَادَةِ الْمَرِیضِ ۱۴۳۵،شرح السنة للبغوی۱۴۰۴،السنن الکبری للبیہقی

[2]صحیح مسلم کتاب السلام بَابُ مِنْ حَقِّ الْمُسْلِمِ لِلْمُسْلِمِ رَدُّ السَّلَامِ ۵۶۵۱

[3] صحیح بخاری کتاب المرضی بَابُ وُجُوبِ عِیَادَةِ المَرِیضِ۵۶۴۹،سنن ابوداودکتاب الجنائز بَابُ الدُّعَاءِ لِلْمَرِیضِ بِالشِّفَاءِ عِنْدَ الْعِیَادَةِ ۳۱۰۵،السنن الکبری للنسائی ۸۶۱۳،صحیح ابن حبان ۳۳۲۴،شرح السنة للبغوی۱۴۰۷،السنن الکبری للبیہقی۶۵۷۵،مسنداحمد۱۹۵۱۷

[4] سنن ابوداودکتاب الجنائزبَابٌ فِی الْعِیَادَةِ مِنَ الرَّمَدِ۳۱۰۲،مستدرک حاکم ۱۲۶۵،السنن الکبری للبیہقی۶۵۸۸،الادب المفردفی بخاری۵۳۲

[5] سنن ابوداودکتاب الجنائز بَابٌ فِی الْعِیَادَةِ مِرَارًا ۳۱۰۱

[6] صحیح مسلم کتاب البروالصللة بَابُ فَضْلِ عِیَادَةِ الْمَرِیضِ۶۵۵۱ ،جامع ترمذی ابواب الجنائز بَابُ مَا جَاءَ فِی عِیَادَةِ الْمَرِیضِ ۹۶۷،الادب المفردفی بخاری ۵۲۱،مسنداحمد۲۲۴۴۴

[7] جامع ترمذی ابواب الجنائز بَابُ مَا جَاءَ فِی عِیَادَةِ الْمَرِیضِ ۹۶۹،سنن ابوداودکتاب الجنائز بَابٌ فِی فَضْلِ الْعِیَادَةِ عَلَى وُضُوءٍ ۳۰۹۸،سنن ابن ماجہ کتاب الجنائز بَابُ مَا جَاءَ فِی ثَوَابِ مَنْ عَادَ مَرِیضًا ۱۴۴۲،شعب الایمان ۸۷۴۲،سنن الکبری للنسائی ۷۴۵۲،شرح السنة للبغوی۱۴۱۰،السنن الکبری للبیہقی۶۵۸۵ ، مستدرک حاکم ۱۲۶۴ ،مسنداحمد۹۷۶

[8] مسند احمد ۷۵۴، صحیح ابن حبان۲۹۵۸

[9] مسنداحمد۹۷۵

[10] مسنداحمد۱۴۲۶۰

[11] مجمع الزوائد ومنبع الفوائد۳۷۷۰،المعجم الاوسط للطبرانی۵۲۹۶

[12] سنن ابوداودکتاب الجنائزبَابُ الدُّعَاءِ لِلْمَرِیضِ عِنْدَ الْعِیَادَةِ ۳۱۰۷،مسنداحمد۶۶۰۰،صحیح ابن حبان ۲۹۷۴،مستدرک حاکم ۱۲۷۳

[13] سنن ابوداودکتاب الجنائزبَابُ الدُّعَاءِ لِلْمَرِیضِ بِالشِّفَاءِ عِنْدَ الْعِیَادَةِ ۳۱۰۴،صحیح بخاری کتاب المرضی بَابُ وَضْعِ الیَدِ عَلَى المَرِیضِ ۵۶۵۹،السنن الکبری للنسائی ۶۲۸۴،مستدرک حاکم ۱۲۶۷،السنن الکبری للبیہقی۶۵۸۹،مسنداحمد۱۴۷۴

[14] سنن ابوداودکتاب الجنائزبَابُ الدُّعَاءِ لِلْمَرِیضِ عِنْدَ الْعِیَادَةِ ۳۱۰۶،جامع ترمذی ابواب الطب بَابُ مَا جَاءَ فِی التَّدَاوِی بِالعَسَلِ ۲۰۸۳،السنن الکبری للنسائی ۱۰۸۱۶،صحیح ابن حبان۲۹۷۵، مستدرک حاکم ۱۲۶۸

[15] احکام الجنائزللالبانی۱۰؍۱،سنن ابن ماجہ کتاب الجنائزبَابُ مَا جَاءَ فِیمَا یُقَالُ عِنْدَ الْمَرِیضِ إِذَا حُضِرَ ۱۴۴۷،جامع ترمذی ابواب الجنائزبَابُ مَا جَاءَ فِی تَلْقِینِ الْمَرِیضِ عِنْدَ الْمَوْتِ، وَالدُّعَاءِ لَهُ عِنْدَهُ ۹۷۷،السنن الکبری للنسائی ۱۹۶۴،مصنف ابن ابی شیبة۱۰۸۴۷،مسنداحمد۲۶۶۰۸

[16] شرح النووی علی مسلم۲۲۲؍۶

[17]صحیح بخاری کتاب المناقب بَابُ عَلاَمَاتِ النُّبُوَّةِ فِی الإِسْلاَمِ۳۶۱۶

[18] صحیح بخاری کتاب المرضی بَابُ دُعَاءِ العَائِدِ لِلْمَرِیضِ ۵۶۷۵

[19] صحیح مسلم کتاب الجنائزبَابُ تَلْقِینِ الْمَوْتَى لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ۲۱۲۳، سنن ابوداودکتاب الجنائز بَابٌ فِی التَّلْقِینِ ۳۱۱۷،جامع ترمذی ابواب الجنائز بَابُ مَا جَاءَ فِی تَلْقِینِ الْمَرِیضِ عِنْدَ الْمَوْتِ، وَالدُّعَاءِ لَهُ عِنْدَهُ ۹۷۶،سنن ابن ماجہ کتاب الجنائز بَابُ مَا جَاءَ فِی تَلْقِینِ الْمَیِّتِ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ ۱۴۴۵،السنن الکبری للنسائی ۱۹۶۵، السنن الکبری للبیہقی۶۵۹۸،صحیح ابن حبان ۳۰۰۳،مسندابویعلی۱۰۹۶،شرح السنة للبغوی ۱۴۶۵،مسنداحمد۱۰۹۹۳

[20] احکام الجنائز۳۴؍۱،سنن ابوداودکتاب الجنائز بَابٌ فِی التَّلْقِینِ۳۱۱۶،مستدرک حاکم۱۲۹۹،مسنداحمد۲۲۰۳۴

[21] سنن ابوداودکتاب الوصایابَابُ مَا جَاءَ فِی التَّشْدِیدِ فِی أَكْلِ مَالِ الْیَتِیمِ ۲۸۷۵، مستدرک حاکم۱۹۷،السنن الکبری للبیہقی۶۷۲۳،شرح مشکل الااثار۸۹۸

[22] الموسوعة الفقهیة المیسرة فی فقه الكتاب والسنة المطهرة ۴۰؍۴

[23] تلخیص الحبیر ۲۳۸؍۲، مستدرک حاکم۱۳۰۵

[24] الدررالبھیہ ۴۲۴؍۱

[25] الدررالبھیہ ۴۲۴؍۱

[26] احکام الجنائز۱۱؍۱،مصنف ابن ابی شیبة۱۰۸۷۷

[27] احکام الجنائز۱۱؍۱

[28] سنن ابن ماجہ کتاب الجنائز بَابُ مَا جَاءَ فِی تَغْمِیضِ الْمَیِّتِ ۱۴۵۵، مستدرک حاکم ۱۳۰۱، مسند البزار ۳۴۷۸، المعجم الکبیرللطبرانی ۷۱۶۸،مسنداحمد۱۷۱۳۶

[29] صحیح مسلم کتاب الجنائز بَابٌ فِی إِغْمَاضِ الْمَیِّتِ وَالدُّعَاءِ لَهُ إِذَا حُضِرَ۲۱۳۰ ،سنن ابوداودکتاب الجنائز بَابُ تَغْمِیضِ الْمَیِّتِ ۳۱۱۷، سنن ابن ماجہ کتاب الجنائز بَابُ مَا جَاءَ فِی تَغْمِیضِ الْمَیِّتِ ۱۴۵۴،السنن الکبری للبیہقی ۶۶۰۶،شرح السنة للبغوی۱۴۶۸،صحیح ابن حبان۷۰۴۱، مسند احمد۲۶۵۴۳

[30]شرح النووی علی مسلم۲۲۳؍۶

[31] نیل الاوطار۲۸؍۴

[32] سنن ابوداودکتاب الجنائز بَابُ الْقِرَاءَةِ عِنْدَ الْمَیِّتِ ۳۱۲۱، سنن ابن ماجہ کتاب الجنائز بَابُ مَا جَاءَ فِیمَا یُقَالُ عِنْدَ الْمَرِیضِ إِذَا حُضِرَ ۱۴۴۸،مستدرک حاکم ۲۰۷۴،شعب الایمان ۲۲۳۰،السنن الکبری للبیہقی۶۶۰۰،مصنف ابن ابی شیبة۱۰۸۵۳،مسنداحمد۲۰۳۰۱

[33] نیل الاوطار۲۹؍۴

[34] اخبار اصبہان ۲۲۹؍۱

[35] میزان الاعتدال۸۴۲۵،۹۰؍۴

[36] المجروحین۱۳؍۳

[37] احکام الجنائز۱۱؍۱

[38] صحیح بخاری کتاب الجنائزبَابُ السُّرْعَةِ بِالْجِنَازَةِ ۱۳۱۵،صحیح مسلم کتاب الجنائز بَابُ الْإِسْرَاعِ بِالْجَنَازَةِ۲۱۸۶،سنن ابوداودکتاب الجنائز بَابُ الْإِسْرَاعِ بِالْجَنَازَةِ ۳۱۸۱،جامع ترمذی ابواب الجنائز بَابُ مَا جَاءَ فِی الإِسْرَاعِ بِالجَنَازَةِ ۱۰۱۵،سنن ابن ماجہ کتاب الجنائز بَابُ مَا جَاءَ فِی شُهُودِ الْجَنَائِزِ ۱۴۷۷،السنن الکبری للنسائی ۲۰۴۸،مسندالبزار۷۶۳۱،مسنداحمد۷۲۷۱،شرح معانی الآثار۲۷۳۵،شرح السنة للبغوی۱۴۸۱،السنن الکبری للبیہقی۶۸۴۴،مصنف ابن ابی شیبة۱۱۲۶۳

[39] جامع ترمذی ابواب الصلاة بَابُ مَا جَاءَ فِی الوَقْتِ الأَوَّلِ مِنَ الفَضْلِ ۱۷۱،سنن ابن ماجہ کتاب الجنائز بَابُ مَا جَاءَ فِی الْجِنَازَةِ، لَا تُؤَخَّرُ إِذَا حَضَرَتْ، وَلَا تُتْبَعُ بِنَارٍ ۱۴۸۶،مسنداحمد۸۲۸،مستدرک حاکم ۲۶۸۶،شرح السنة للبغوی۳۵۱،السنن الکبری للبیہقی۱۳۷۵۷

[40] جامع ترمذی ابواب الصلاة بَابُ مَا جَاءَ فِی الوَقْتِ الأَوَّلِ مِنَ الفَضْلِ ۱۷۱

[41] سنن ابوداودکتاب الجنائزبَابُ التَّعْجِیلِ بِالْجَنَازَةِ وَكَرَاهِیَةِ حَبْسِهَا ۳۱۵۹،السنن الکبری للبیہقی۶۶۲۰

[42] سلسلہ الاحادیث الضعیفة۲۲۳؍۷

[43]احکام الجنائز۸؍۱،السنن الکبری للبیہقی۶۶۵۴، مسنداحمد۱۹۵۴۷،صحیح ابن حبان۳۱۵۰،شرح السنة للبغوی۱۵۲۳

[44] سنن ابن ماجہ کتاب الصدقات بَابُ التَّشْدِیدِ فِی الدَّیْنِ ۲۴۱۳،جامع ترمذی ابواب الجنائز بَابُ مَا جَاءَ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ: نَفْسُ الْمُؤْمِنِ مُعَلَّقَةٌ بِدَیْنِهِ حَتَّى یُقْضَى عَنْهُ ۱۰۷۸،مسنداحمد۱۰۵۹۹،مستدرک حاکم۲۲۱۹،السنن الکبری للبیہقی ۷۰۹۹، مسندالبزار۸۶۶۴،شعب الایمان۵۱۵۵،شرح السنة للبغوی۲۱۴۷

[45] احکام الجنائز۱۵؍۱،سنن ابن ماجہ کتاب الصدقات بَابُ أَدَاءِ الدَّیْنِ عَنِ الْمَیِّتِ ۲۴۳۳،مسنداحمد۱۷۲۲۷،السنن الکبری للبیہقی ۲۰۴۹۹، المعجم الکبیرللطبرانی۵۴۶۶

[46] صحیح بخاری کتاب الکفالةبَابُ مَنْ تَكَفَّلَ عَنْ مَیِّتٍ دَیْنًا، فَلَیْسَ لَهُ أَنْ یَرْجِعَ ۲۲۹۸،صحیح مسلم کتاب الفرائض بَابُ مَنْ تَرَكَ مَالًا فَلِوَرَثَتِهِ ۴۱۵۷،سنن ابن ماجہ کتاب الصدقات بَابُ مَنْ تَرَكَ دَیْنًا أَوْ ضَیَاعًا فَعَلَى اللهِ وَعَلَى رَسُولِهِ۲۴۱۵،جامع ترمذی ابواب الجنائز بَابُ مَا جَاءَ فِی الصَّلاَةِ عَلَى الْمَدْیُونِ ۱۰۷۰،السنن الکبری للنسائی ۲۱۰۱،صحیح ابن حبان ۴۸۵۴،مسنداحمد۹۸۴۸،شرح السنة للبغوی ۲۱۵۴،السنن الکبری للبیہقی۱۳۳۴۵

[47] صحیح بخاری کتاب فی الاستقراص واداء الدیون والحجروالتظیس بَابُ مَنْ أَخَذَ أَمْوَالَ النَّاسِ یُرِیدُ أَدَاءَهَا أَوْ إِتْلاَفَهَا ۲۳۸۷،مسنداحمد۸۷۳۳،شرح السنة للبغوی۲۱۴۶،السنن الکبری للبیہقی۱۰۹۵۵

[48]صحیح بخاری کتاب اللباس بَابُ البُرُودِ وَالحِبَرَةِ وَالشَّمْلَةِ ۵۸۱۴،سنن ابوداودکتاب الجنائز بَابٌ فِی الْمَیِّتِ یُسَجَّى ۳۱۲۰ ،شرح السنة للبغوی۱۴۶۹،السنن الکبری للبیہقی۶۶۱۲، مسنداحمد۲۵۱۹۹، صحیح ابن حبان۶۶۲۵،مصنف عبدالرزاق۶۱۷۴، السنن الکبری للبیہقی۶۶۱۳

[49] صحیح بخاری کتاب الجنائزبَابُ الكَفَنِ فِی ثَوْبَیْنِ ۱۲۶۵،صحیح مسلم کتاب الحج بَابُ مَا یُفْعَلُ بِالْمُحْرِمِ إِذَا مَاتَ۲۸۹۱،سنن ابوداودکتاب الجنائز بَابُ الْمُحْرِمِ یَمُوتُ كَیْفَ یُصْنَعُ بِهِ ۳۲۳۸،السنن الکبری للبیہقی۶۶۳۷،احکام الجنائز۱۳؍۱،سنن الدارمی۱۸۹۴،السنن الکبری للنسائی ۳۸۲۲، مسند احمد ۱۸۵۰،صحیح ابن حبان ۳۹۵۹، سنن الدارقطنی۲۷۷۱، شرح السنة للبغوی۱۴۸۰

[50] صحیح بخاری کتاب المغازی بَابُ مَرَضِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَوَفَاتِهِ ۴۴۵۵، ۴۴۵۶،۴۴۵۷،جامع ترمذی ابواب الجنائز بَابُ مَا جَاءَ فِی تَقْبِیلِ الْمَیِّتِ ۹۸۹،سنن ابن ماجہ کتاب الجنائز بَابُ مَا جَاءَ فِی تَقْبِیلِ الْمَیِّتِ ۱۴۵۷،السنن الکبری للنسائی ۱۹۷۹،شرح السنة للبغوی۱۴۷۱، مسند احمد ۲۰۲۶،مستدرک حاکم ۱۳۳۴،مصنف عبدالرزاق ۱۲۰۶۶

[51] سنن ابوداودکتاب الجنائزبَابٌ فِی تَقْبِیلِ الْمَیِّتِ ۳۱۶۳،سنن ابن ماجہ کتاب الجنائز بَابُ مَا جَاءَ فِی تَقْبِیلِ الْمَیِّتِ ۱۴۵۶،السنن الکبری للبیہقی ۷۶۱۲، مسند احمد ۲۴۲۸۶،مصنف عبدالرزاق ۶۷۷۵،احکام الجنائز۲۱؍۱

[52] صحیح مسلم کتاب الجنة وصفة نعیمھاواھلھا بَابُ الْأَمْرِ بِحُسْنِ الظَّنِّ بِاللهِ تَعَالَى عِنْدَ الْمَوْتِ۷۲۲۹ ،سنن ابوداودکتاب الجنائز بَابُ مَا یُسْتَحَبُّ مِنْ حُسْنِ الظَّنِّ بِاللهِ عِنْدَ الْمَوْتِ ۳۱۱۳،سنن ابن ماجہ کتاب الزھد بَابُ التَّوَكُّلِ وَالْیَقِینِ ۴۱۶۷،مسنداحمد۱۴۵۸۰

[53] سنن ابن ماجہ کتاب الزھد بَابُ ذِكْرِ الْمَوْتِ وَالِاسْتِعْدَادِ لَهُ ۴۲۶۱،جامع ترمذی ابواب الجنائزبَابُ مَا جَاءَ أَنَّ الْمُؤْمِنَ یَمُوتُ بِعَرَقِ الجَبِینِ۹۸۳،السنن الکبری للنسائی ۱۰۸۳۴،الترغیب والترھیب ۵۱۲۵،شرح السنة للبغوی۱۴۵۶، احکام الجنائز۳؍۱

[54] النور۳۱

[55] ھود۳

[56] التحریم۸

[57] صحیح بخاری کتاب المظالم والغضب بَابُ مَنْ كَانَتْ لَهُ مَظْلَمَةٌ عِنْدَ الرَّجُلِ فَحَلَّلَهَا لَهُ، هَلْ یُبَیِّنُ مَظْلَمَتَهُ ۲۴۴۹، مسنداحمد۱۰۵۷۳،شرح مشکل الآثار۱۸۷،شرح السنة للبغوی۴۱۶۳،السنن الکبری للبیہقی۶۵۱۳،الترغیب والترھیب للمنذری۳۳۶۵

[58] صحیح مسلم کتاب البروالصلة والادب بَابُ تَحْرِیمِ الظُّلْمِ ۶۵۷۹،جامع ترمذی ابواب صفة القیامة والرقاق والورع بَابُ مَا جَاءَ فِی شَأْنِ الْحِسَابِ وَالْقَصَاصِ ۲۴۱۸،صحیح ابن حبان ۷۳۵۹،شعب الایمان ۳۳۸،السنن الکبری للبیہقی۱۱۵۰۴،مسنداحمد۸۴۱۴،شرح السنة للبغوی۴۱۶۴

[59] احکام الجنائز۴؍۱

[60] مسنداحمد ۴۵۷۸،صحیح بخاری کتاب الوصایابَابُ الوَصَایَا وَقَوْلِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:وَصِیَّةُ الرَّجُلِ مَكْتُوبَةٌ عِنْدَهُ ۲۷۳۸،صحیح مسلم كِتَابُ الْوَصِیَّةِ باب وَصِیَّتُهُ الرجل مَكْتُوبَةٌ عِنْدَهُ ۴۲۰۴ ،سنن ابوداودکتاب الوصایا بَابُ مَا جَاءَ فِی مَا یُؤْمَرُ بِهِ مِنَ الْوَصِیَّةِ ۲۸۶۲،سنن ابن ماجہ کتاب الوصایا بَابُ الْحَثِّ عَلَى الْوَصِیَّةِ ۲۶۹۹،جامع ترمذی ابواب الوصایا بَابُ مَا جَاءَ فِی الحَثِّ عَلَى الوَصِیَّةِ ۲۱۱۸،السنن الکبری للنسائی ۶۴۰۹،صحیح ابن حبان ۶۰۲۴،سنن الدارقطنی۴۲۹۰،شرح السنة للبغوی۱۴۵۷،السنن الکبری للبیہقی۱۲۵۸۸

[61] صحیح بخاری کتاب الوصایابَابُ أَنْ یَتْرُكَ وَرَثَتَهُ أَغْنِیَاءَ خَیْرٌ مِنْ أَنْ یَتَكَفَّفُوا النَّاسَ۲۷۴۲،صحیح مسلم کتاب الوصایا بَابُ الْوَصِیَّةِ بِالثُّلُثِ۴۲۱۵،السنن الکبری للنسائی ۶۴۲۲،السنن الکبری للبیہقی۱۵۶۹۶، مسند احمد۱۴۸۸،مصنف عبدالرزاق ۱۶۳۵۸،شرح السنة للبغوی۱۴۵۸

[62] مسنداحمد ۲۰۳۴، مصنف ابن ابی شیبة ۳۰۹۱۴،السنن الکبری للبیہقی۱۲۵۷۳،احکام الجنائز۶؍۱

[63] سنن ابوداودکتاب الوصایابَابُ مَا جَاءَ فِی الْوَصِیَّةِ لِلْوَارِثِ ۲۸۷۰،السنن الکبری للنسائی ۶۴۳۵،سنن الدارمی۳۳۰۳،مسنداحمد۱۷۶۶۳

[64] صحیح بخاری کتاب الدعوات بَابُ الدُّعَاءِ بِالْمَوْتِ وَالحَیَاةِ ۶۳۵۱،صحیح مسلم کتاب الذکرودعاوتوبة واستغفار بَابُ كَرَاهَةِ تَمَنِّی الْمَوْتِ لِضُرٍّ نَزَلَ بِهِ۶۸۱۴،سنن ابوداودکتاب الجنائز بَابٌ فِی كَرَاهِیَةِ تَمَنِّی الْمَوْتِ ۳۱۰۸،جامع ترمذی ابواب الجنائز بَابُ مَا جَاءَ فِی النَّهْیِ عَنِ التَّمَنِّی لِلْمَوْتِ ۹۷۰،السنن الکبری للنسائی۷۴۷۵،سنن ابن ماجہ کتاب الزھد بَابُ ذِكْرِ الْمَوْتِ وَالِاسْتِعْدَادِ لَهُ ۴۲۶۵،صحیح ابن حبان ۳۰۰۱،مسنداحمد۱۲۰۱۵

[65] مسنداحمد۲۶۸۷۴،مستدرک حاکم۱۲۵۴،احکام الجنائز۴؍۱

[66] احکام الجنائز۴؍۱

[67] صحیح بخاری کتاب الجنائزبَابُ قَوْلِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یُعَذَّبُ المَیِّتُ بِبَعْضِ بُكَاءِ أَهْلِهِ عَلَیْهِ إِذَا كَانَ النَّوْحُ مِنْ سُنَّتِهِ ۱۲۸۷،صحیح مسلم کتاب الجنائزبَابُ الْمَیِّتِ یُعَذَّبُ بِبُكَاءِ أَهْلِهِ عَلَیْهِ۲۱۴۶ ،مصنف عبدالرزاق ۶۶۷۵، معرفة السنن والآثار۷۷۸۶

[68] احکام الجنائز۱۱؍۱

[69] صحیح بخاری کتاب الجنائزبَابُ إِذَا أَسْلَمَ الصَّبِیُّ فَمَاتَ، هَلْ یُصَلَّى عَلَیْهِ، وَهَلْ یُعْرَضُ عَلَى الصَّبِیِّ الإِسْلاَمُ ۱۳۵۶،شرح السنة للبغوی۵۷،صحیح ابن حبان ۴۸۸۴،مسنداحمد۱۳۹۷۷،احکام الجنائز۱۱؍۱

[70] البقرة۱۵۵،۱۵۶

[71] صحیح بخاری کتاب الحکام بَابُ مَا ذُكِرَ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ لَمْ یَكُنْ لَهُ بَوَّابٌ۷۱۵۴،صحیح مسلم کتاب الجنائز بَابٌ فِی الصَّبْرِ عَلَى الْمُصِیبَةِ عِنْدَ أَوَّلِ الصَّدْمَةِ۲۱۴۱، جامع ترمذی ابواب الجنائز بَابُ مَا جَاءَ أَنَّ الصَّبْرَ فِی الصَّدْمَةِ الأُولَى ۹۸۷،السنن الکبری للبیہقی ۷۱۲۷،مسنداحمد۱۲۴۵۸

[72] مسنداحمد۱۶۳۴۴،صحیح مسلم کتاب الجنائزبَابُ مَا یُقَالُ عِنْدَ الْمُصِیبَةِ۲۱۲۶ ،سنن ابن ماجہ کتاب الجنائزبَابُ مَا جَاءَ فِی الصَّبْرِ عَلَى الْمُصِیبَةِ ۱۵۹۸،شرح السنة للبغوی ۱۴۶۳،السنن الکبری للبیہقی۷۱۲۵

[73] احکام الجنائز۲۰؍۱

[74] مسنداحمد۱۴۱۸۷،صحیح بخاری کتاب الجنائز بَابُ الدُّخُولِ عَلَى المَیِّتِ بَعْدَ المَوْتِ إِذَا أُدْرِجَ فِی أَكْفَانِهِ ۱۲۴۴،السنن الکبری للبیہقی۶۷۱۳

[75] صحیح بخاری کتاب الجنائزبَابُ الدُّخُولِ عَلَى المَیِّتِ بَعْدَ المَوْتِ إِذَا أُدْرِجَ فِی أَكْفَانِهِ ۱۲۴۱،۱۲۴۲،صحیح ابن حبان۶۶۲۰،السنن الکبری للبیہقی۶۷۱۰

[76] مصنف عبدالرزاق ۶۷۷۵،السنن الکبری للبیہقی۶۷۱۲،احکام الجنائز۲۱؍۱

[77] سنن ابوداودکتاب الجنائزبَابٌ فِی التَّلْقِینِ ۳۱۱۶،مستدرک حاکم ۱۲۹۹،شعب الایمان۹۳،احکام الجنائز۳۴؍۱

[78] السنن الکبری للنسائی ۱۹۶۸،سنن ابن ماجہ کتاب الجنائز بَابُ مَا جَاءَ فِی الْمُؤْمِنِ یُؤْجَرُ فِی النَّزْعِ ۱۴۵۲،جامع ترمذی ابواب الجنائزبَابُ مَا جَاءَ أَنَّ الْمُؤْمِنَ یَمُوتُ بِعَرَقِ الجَبِینِ ۹۸۲، صحیح ابن حبان ۳۰۱۱،مستدرک حاکم ۱۳۳۳،مسند احمد ۲۳۰۲۲،احکام الجنائز۳۵؍۱

[79] جامع ترمذی ابواب الجنائز بَابُ مَا جَاءَ فِیمَنْ مَاتَ یَوْمَ الجُمُعَةِ ۱۰۷۴،مسنداحمد۶۵۸۲،احکام الجنائز۳۵؍۱

[80] احکام الجنائز ۳۵؍۱،جامع ترمذی ابواب فضائل الجہاد بَابٌ فِی ثَوَابِ الشَّهِیدِ ۱۶۶۳،سنن ابن ماجہ کتاب الجہاد بَابُ فَضْلِ الشَّهَادَةِ فِی سَبِیلِ اللهِ ۲۸۰۰،مسند احمد ۱۷۱۸۲

[81] آل عمران۱۶۹تا۱۷۱

[82] النسائ۱۰۰

[83] صحیح بخاری کتاب الجہادبَابٌ الشَّهَادَةُ سَبْعٌ سِوَى القَتْلِ ۲۸۳۰، صحیح مسلم کتاب الامارة بَابُ بَیَانِ الشُّهَدَاءِ۴۹۴۴ ،مسنداحمد۱۲۵۱۹،شرح السنة للبغوی ۱۴۴۱،احکام الجنائز۳۷؍۱

[84] صحیح مسلم کتاب الامارةبَابُ بَیَانِ الشُّهَدَاءِ۴۹۴۱

[85] صحیح بخاری کتاب الجہادوالسیر بَابٌ الشَّهَادَةُ سَبْعٌ سِوَى القَتْلِ۲۸۲۹،صحیح مسلم کتاب الامارة بَابُ بَیَانِ الشُّهَدَاءِ،جامع ترمذی ابواب الجنائز بَابُ مَا جَاءَ فِی الشُّهَدَاءِ مَنْ هُمْ۱۰۶۳،السنن الکبری للنسائی ۷۴۸۶، مسنداحمد۸۳۰۵،احکام الجنائز۳۸؍۱

[86] سنن الدارمی۲۴۵۷، مسند احمد۱۵۹۹۸،مسندابوداود الطیالسی۵۷۹، احکام الجنائز۳۹؍۱

[87] سنن ابوداودکتاب الجنائز بَابٌ فِی فَضْلِ مَنْ مَاتَ فِی الطَّاعُونِ۳۱۱۱،صحیح ابن حبان۳۱۸۹،مستدرک حاکم۱۳۰۰، مسنداحمد۲۳۷۵۳،شرح السنة للبغوی۱۵۳۲،احکام الجنائز۳۹؍۱

[88] مجمع الزوائد ۳۸۷۸،المعجم الکبیرللطبرانی ۶۱۱۵، احکام الجنائز۴۰؍۱

[89] سنن ابوداودکتاب السنة بَابٌ فِی قِتَالِ اللُّصُوصِ۴۷۷۲،شرح السنة للبغوی ۲۵۶۴،معرفة السنن والآثار۱۷۵۴۱

[90] صحیح مسلم کتاب الامارة بَابُ فَضْلِ الرِّبَاطِ فِی سَبِیلِ اللهِ عَزَّ وَجَلَّ۴۹۳۸،السنن الکبری للنسائی ۴۳۶۱،احکام الجنائز۴۲؍۱

[91] احکام الجنائز۴۳؍۱،مسنداحمد۲۳۳۲۴

[92] صحیح مسلم کتاب الجنائزبَابُ فِیمَنْ یُثْنَى عَلَیْهِ خَیْرٌ أَوْ شَرٌّ مِنَ الْمَوْتَى۲۲۰۰،السنن الکبری للنسائی ۲۰۷۰، مسند ابوداود الطیالسی۲۱۷۵، مسند احمد ۱۲۹۳۸، احکام الجنائز۴۴؍۱

[93] صحیح بخاری کتاب الحج بَابُ المُحْرِمِ یَمُوتُ بِعَرَفَةَ، وَلَمْ یَأْمُرِ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَنْ یُؤَدَّى عَنْهُ بَقِیَّةُ الحَجِّ ۱۸۴۹،صحیح مسلم کتاب الحج بَابُ مَا یُفْعَلُ بِالْمُحْرِمِ إِذَا مَاتَ۲۸۹۱،سنن ابوداودکتاب الجنائز بَابُ الْمُحْرِمِ یَمُوتُ كَیْفَ یُصْنَعُ بِهِ ۳۲۳۸،جامع ترمذی ابواب الحج بَابُ مَا جَاءَ فِی الْمُحْرِمِ یَمُوتُ فِی إِحْرَامِهِ ۹۵۱،سنن ابن ماجہ کتاب المناسک بَابُ الْمُحْرِمِ یَمُوتُ ۳۰۸۴،السنن الکبری للنسائی۳۶۷۹، مسند ابوداود الطیالسی ۲۷۴۵،سنن الدارمی۱۸۹۴، مسنداحمد۱۸۵۰

[94] صحیح بخاری کتاب الجنائزبَابُ غُسْلِ المَیِّتِ وَوُضُوئِهِ بِالْمَاءِ وَالسَّدْرِ۱۲۵۳،صحیح مسلم کتاب الجنائز بَابٌ فِی غَسْلِ الْمَیِّتِ۲۱۶۸،سنن ابوداودکتاب الجنائزبَابُ كَیْفَ غُسْلُ الْمَیِّتِ ۳۱۴۲،جامع ترمذی ابواب الجنائز بَابُ مَا جَاءَ فِی غُسْلِ الْمَیِّتِ ۹۹۰،سنن ابن ماجہ کتاب الجنائز بَابُ مَا جَاءَ فِی غُسْلِ الْمَیِّتِ ۱۴۵۸،السنن الکبری للنسائی۲۰۲۰ ، مسنداحمد۲۰۷۹۰

[95] شرح النووی علی مسلم۲؍۷

[96] سبل السلام ۴۶۹؍۱

[97] نیل الاوطار۳۹؍۴

[98] المحلی الآثار۲۷۰؍۱

[99] الروضة الندیة۱۶۳؍۱

[100] احکام الجنائز۴۸؍۱

[101] مسنداحمد۲۴۸۸۱،المعجم الاوسط للطبرانی ۷۵۴۵،معجم ابی یعلی۹۲

[102] سنن ابن ماجہ کتاب الحدود بَابُ السِّتْرِ عَلَى الْمُؤْمِنِ وَدَفْعِ الْحُدُودِ بِالشُّبُهَاتِ ۲۵۴۴

[103] مسنداحمد۱۶۹۵۹،مصنف عبدالرزاق۱۸۹۳۶

[104] السیل الجرار۲۰۹؍۱

[105] احکام الجنائز۴۷؍۱

[106] سنن ابن ماجہ کتاب الجنائز بَابُ مَا جَاءَ فِی غَسْلِ الرَّجُلِ امْرَأَتَهُ، وَغَسْلِ الْمَرْأَةِ زَوْجَهَا ۱۴۶۵،مسنداحمد۲۵۹۰۸،سنن الدارمی۸۱، السنن الکبری للبیہقی۶۶۵۹،سنن الدارقطنی۱۸۲۸، معرفة السنن والآثار۷۳۶۲،ارواء الغلیل۷۰۰،احکام الجنائز۵۰؍۱

[107] سنن ابوداودکتاب الجنائز بَابٌ فِی سَتْرِ الْمَیِّتِ عِنْدَ غُسْلِهِ ۳۱۴۱، مسند احمد ۲۶۳۰۶، مستدرک حاکم ۴۳۹۸،السنن الکبری للبیہقی ۶۶۲۱،معرفة السنن ولآثار۷۳۵۴،ارواء الغلیل۷۰۲ ، احکام الجنائز۴۹؍۱

[108] سنن الدارقطنی۱۸۵۱،السنن الکبری للبیہقی ۶۶۶۱،معرفة السنن والآثار۷۳۵۶،التلخیص الحبیر۳۲۶؍۲

[109] السنن الکبری للبیہقی۶۶۶۰

[110] معرفة السنن والآثار۷۳۶۱

[111] السنن الکبری للبیہقی۶۶۶۱،معرفة السنن والآثار۷۳۵۹

[112]۔السنن الکبری للبیہقی ۶۶۶۴

[113]السنن الکبری للبیہقی۶۶۶۳

[114] السنن الکبری للبیہقی۶۶۶۲

[115] نیل الاوطار۳۵؍۴

[116]المغنی۳۹۰؍۲،بدائع الصنائع ۳۰۴؍۱،المبسوط۷۱؍۲،نیل الاوطار۳۵؍۴

[117] صحیح بخاری کتاب الجنائزبَابُ غُسْلِ المَیِّتِ وَوُضُوئِهِ بِالْمَاءِ وَالسَّدْرِ ۱۲۵۳،صحیح مسلم کتاب الجنائز بَابٌ فِی غَسْلِ الْمَیِّتِ۲۱۶۸،سنن ابوداودکتاب الجنائز بَابُ كَیْفَ غُسْلُ الْمَیِّتِ ۳۱۴۲،جامع ترمذی ابواب الجنائز بَابُ مَا جَاءَ فِی غُسْلِ الْمَیِّتِ ۹۹۰،سنن ابن ماجہ کتاب الجنائزبَابُ مَا جَاءَ فِی غُسْلِ الْمَیِّتِ ۱۴۵۸،السنن الکبری للنسائی ۲۰۲۰،صحیح ابن حبان ۳۰۳۲،مسنداحمد۲۰۷۹۰،شرح السنة للبغوی۱۴۷۲،السنن الکبری للبیہقی۶۶۳۱

[118] صحیح بخاری کتاب الجنائزبَابُ مَا یُسْتَحَبُّ أَنْ یُغْسَلَ وِتْرًا۱۲۵۴

[119] سنن ابوداودکتاب الجنائز بَابُ كَیْفَ غُسْلُ الْمَیِّتِ ۳۱۴۶

[120] صحیح بخاری کتاب الجنائزبَابُ نَقْضِ شَعَرِ المَرْأَةِ ۱۲۶۰

[121] صحیح بخاری کتاب الجنائزبَابُ یُلْقَى شَعَرُ المَرْأَةِ خَلْفَهَا ۱۲۶۳

[122] صحیح بخاری کتاب الجنائزبَابُ مَا یُسْتَحَبُّ أَنْ یُغْسَلَ وِتْرًا۱۲۵۴

[123] نیل الاوطار۴۱؍۴

[124] اعلام الموقعین۲۸۹؍۲

[125] صحیح بخاری کتاب الجنائزبَابُ یُبْدَأُ بِمَیَامِنِ المَیِّتِ ۱۲۵۵،صحیح مسلم کتاب الجنائز بَابٌ فِی غَسْلِ الْمَیِّتِ ،سنن ابوداودکتاب الجنائز بَابُ كَیْفَ غُسْلُ الْمَیِّتِ۳۱۴۵،السنن الکبری للبیہقی ۶۶۲۹، مسنداحمد۲۷۳۰۲

[126] سنن ابوداودکتاب الجنائزبَابٌ فِی الشَّهِیدِ یُغَسَّلُ ۳۱۳۳،السنن الکبری للبیہقی ۶۸۱۱،مسنداحمد۱۴۹۵۲

[127] نیل الاوطار۳۷؍۴

[128] تلخیص الحبیر ۲۷۷؍۲

[129] احکام الجنائز۵۴؍۱، مسند احمد ۱۴۱۸۹، نیل الاوطار۳۶؍۴

[130] نیل الاوطار۳۷؍۴

[131] المحلی الآثار۲۶۹؍۱

[132] نیل الاوطار ۳۸؍۴، المغنی ۳۹۴؍۲

[133] ۔السنن الکبری للبیہقی۶۸۱۴،صحیح ابن حبان۷۰۲۵، مستدرک حاکم ۴۹۱۷،ارواء الغلیل۱۶۷؍۳

[134]نیل الاوطار۳۸؍۴

[135] احکام الجنائز۶۳

[136] نیل الاوطار۳۶؍۴

[137]سنن ابوداودکتاب الجنائزبَابٌ فِی سَتْرِ الْمَیِّتِ عِنْدَ غُسْلِهِ۳۱۴۱

[138] صحیح بخاری کتاب الحج بَابُ المُحْرِمِ یَمُوتُ بِعَرَفَةَ، وَلَمْ یَأْمُرِ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَنْ یُؤَدَّى عَنْهُ بَقِیَّةُ الحَجِّ ۱۸۴۹،صحیح مسلم کتاب الحج بَابُ مَا یُفْعَلُ بِالْمُحْرِمِ إِذَا مَاتَ۲۸۹۱،سنن ابوداودکتاب الجنائز بَابُ الْمُحْرِمِ یَمُوتُ كَیْفَ یُصْنَعُ بِهِ ۳۲۳۸،جامع ترمذی ابواب الحج بَابُ مَا جَاءَ فِی الْمُحْرِمِ یَمُوتُ فِی إِحْرَامِهِ ۹۵۱،سنن ابن ماجہ کتاب المناسک بَابُ الْمُحْرِمِ یَمُوتُ ۳۰۸۴،السنن الکبری للنسائی۳۶۷۹،مسندابوداودالطیالسی۲۷۴۵،سنن الدارمی۱۸۹۴، مسنداحمد۱۸۵۰،شرح السنة للبغوی۱۴۸۰،احکام الجنائز۵۸؍۱

[139] صحیح مسلم کتاب الجنائزبَابٌ فِی تَحْسِینِ كَفَنِ الْمَیِّتِ۲۱۸۵،سنن ابوداودکتاب الجنائز بَابٌ فِی الْكَفَنِ ۳۱۴۸،السنن الکبری للنسائی۲۰۳۳ ،مسنداحمد۱۴۱۴۵،شرح السنة للبغوی۱۴۷۸

[140] نیل الاوطار۴۳؍۴،تحفة الاحوذی۶۳؍۴، احکام الجنائز۵۸؍۱

[141] صحیح بخاری کتاب المظالم والغضب بَابٌ لاَ یَظْلِمُ المُسْلِمُ المُسْلِمَ وَلاَ یُسْلِمُهُ ۲۴۴۲،صحیح مسلم کتاب البروصلة والادب بَابُ تَحْرِیمِ الظُّلْمِ۶۵۷۸،سنن ابوداودکتاب الادب بَابُ الْمُؤَاخَاةِ ۴۸۹۳،السنن الکبری للنسائی ۷۲۵۱،مسنداحمد۵۶۴۶،شرح السنة للبغوی ۳۵۱۸

[142] احکام الجنائز۵۷؍۱

[143] صحیح بخاری کتاب الجنائز بَابٌ الكَفَنُ مِنْ جَمِیعِ المَالِ ۱۲۷۴

[144] صحیح بخاری کتاب الجنائز بَابُ إِذَا لَمْ یَجِدْ كَفَنًا إِلَّا مَا یُوَارِی رَأْسَهُ، أَوْ قَدَمَیْهِ غَطَّى رَأْسَهُ ۱۲۷۶،صحیح مسلم کتاب الجنائز بَابٌ فِی كَفَنِ الْمَیِّتِ۲۱۷۷،سنن ابوداودکتاب الجنائزبَابُ كَرَاهِیَةِ الْمُغَالَاةِ فِی الْكَفَنِ ۳۱۵۵،سنن نسائی کتاب الجنائز باب الْقَمِیصُ فِی الْكَفَنِ۱۹۰۴،شرح السنة للبغوی۱۴۷۹، معرفة السنن والآثار۷۳۸۰،السنن الکبری للبیہقی۶۶۸۲،مسنداحمد۲۱۰۵۸

[145] نیل الاوطار۴۲؍۴

[146] احکام الجنائز۵۷؍۱

[147]صحیح بخاری کتاب الجنائزبَابُ الصَّلاَةِ عَلَى الشَّهِیدِ۱۳۴۳،۱۳۴۵،سنن ابوداودکتاب الجنائز بَابٌ فِی الشَّهِیدِ یُغَسَّلُ ۳۱۳۸،جامع ترمذی ابواب الجنائز بَابُ مَا جَاءَ فِی تَرْكِ الصَّلاَةِ عَلَى الشَّهِیدِ ۱۰۳۶،سنن ابن ماجہ کتاب الجنائز بَابُ مَا جَاءَ فِی الصَّلَاةِ عَلَى الشُّهَدَاءِ وَدَفْنِهِمْ۱۵۱۴

[148] سنن ابن ماجہ کتاب الجنائز بَابُ مَا جَاءَ فِیمَا یُسْتَحَبُّ مِنَ الْكَفَنِ ۱۴۷۴،جامع ترمذی ابواب الجنائز بَابُ مَا یُسْتَحَبُّ مِنَ الأَكْفَانِ ۹۹۵،صحیح ابن حبان ۳۰۳۴،مستدرک حاکم ۱۳۶۵

[149] سنن ابوداودکتاب الجنائز بَابُ كَرَاهِیَةِ الْمُغَالَاةِ فِی الْكَفَنِ ۳۱۵۴،شرح السنة للبغوی ۱۴۷۸،السنن الکبری للبیہقی ۶۶۹۵،مشکاة المصابیح ۱۶۳۹

[150] احکام الجنائز۶۴؍۱

[151] مسنداحمد۱۸۱۴۷،صحیح بخاری کتاب الادب بَابٌ عُقُوقُ الوَالِدَیْنِ مِنَ الكَبَائِرِ ۵۹۷۵،صحیح مسلم کتاب الاقضیة بَابُ النَّهْیِ عَنْ كَثْرَةِ الْمَسَائِلِ مِنْ غَیْرِ حَاجَةٍ، وَالنَّهْیِ عَنْ مَنْعٍ وَهَاتِ، وَهُوَ الِامْتِنَاعُ مِنْ أَدَاءِ حَقٍّ لَزِمَهُ، أَوْ طَلَبِ مَا لَا یَسْتَحِقُّهُ۴۴۸۳

[152] صحیح بخاری کتاب الجنائزبَابُ مَوْتِ یَوْمِ الِاثْنَیْنِ ۱۳۸۷

[153]مسنداحمد۲۳۶۵۷

[154] سنن نسائی کتاب الجنائز مُوَارَاةُ الشَّهِیدِ فِی دَمِهِ ۲۰۰۲،مسنداحمد۲۳۶۶۰،مسندابی یعلی۱۹۵۱،السنن الکبری للبیہقی۶۸۰۱

[155] سنن ابوداودکتاب الجنائز بَابٌ فِی الشَّهِیدِ یُغَسَّلُ ۳۱۳۴،سنن ابن ماجہ کتاب الجنائز بَابُ مَا جَاءَ فِی الصَّلَاةِ عَلَى الشُّهَدَاءِ وَدَفْنِهِمْ ۱۵۱۵،مسنداحمد۲۲۱۷،شرح السنة للبغوی ۱۵۰۰،السنن الکبری للبیہقی۶۸۱۲

[156] نیل الاوطار۵۰؍۴

[157] احکام الجنائز۶۰؍۱

[158] مسنداحمد۱۴۵۴۰،مسندابی یعلی۲۳۰۰،مستدرک حاکم۱۳۱۰،السنن الکبری للبیہقی۶۷۰۲،مصنف ابن ابی شیبة۱۱۱۲۰

[159] المجموع۱۹۶؍۵

[160] المجمع۱۹۶؍۵

[161] صحیح بخاری کتاب الجنائزبَابٌ كَیْفَ یُكَفَّنُ المُحْرِمُ؟ ۱۲۶۷،سنن ابوداودکتاب الجنائز بَابُ الْمُحْرِمِ یَمُوتُ كَیْفَ یُصْنَعُ بِهِ ۳۲۳۹،سنن الکبری للنسائی۳۸۲۳،سنن ابن ماجہ کتاب الجنائز بَابُ الْمُحْرِمِ یَمُوتُ ۳۰۸۴،سنن الدارمی۱۸۹۴،مسنداحمد۲۳۹۴،سنن الدارقطنی ۲۷۶۵،السنن الکبری للبیہقی۶۶۴۴

[162] صحیح بخاری کتاب الجنائزبَابٌ كَیْفَ یُكَفَّنُ المُحْرِمُ؟ ۱۲۶۵،سنن الدارقطنی ۲۷۶۵، مسند احمد ۱۸۵۰

[163] سنن ابوداودکتاب الطب بَابٌ فِی الْأَمْرِ بِالْكَحْلِ۳۸۷۸،جامع ترمذی ابواب الجنائز بَابُ مَا یُسْتَحَبُّ مِنَ الأَكْفَانِ ۹۹۴،سنن ابن ماجہ کتاب الجنائز بَابُ مَا جَاءَ فِیمَا یُسْتَحَبُّ مِنَ الْكَفَنِ ۱۴۷۲،مسنداحمد۲۲۱۹،مصنف عبدالرزاق۶۲۰۰،مستدرک حاکم۱۳۰۸،السنن الکبری للبیہقی۸۹۵۱ ،شرح السنة للبغوی۱۴۷۷،صحیح ابن حبان۵۴۲۳

[164] نیل الاوطار۱۱۶؍۲

[165] نیل الاوطار۴۶؍۴،النووی شرح مسلم۵۶؍۱۴

[166] صحیح بخاری کتاب الجنائز بَابُ الثِّیَابِ البِیضِ لِلْكَفَنِ ۱۲۶۴،صحیح مسلم کتاب الجنائزبَابٌ فِی كَفَنِ الْمَیِّتِ۲۱۷۹ ،سنن ابوداودکتاب الجنائز بَابٌ فِی الْكَفَنِ ۳۱۵۱،جامع ترمذی ابواب الجنائز بَابُ مَا جَاءَ فِی كَفَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ ۹۹۶،سنن ابن ماجہ کتاب الجنائزبَابُ مَا جَاءَ فِی كَفَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ۱۴۶۹،السنن الکبری للنسائی۲۰۳۶،صحیح ابن حبان۳۰۳۷،شرح السنة للبغوی۱۴۷۶،السنن الکبری للبیہقی۶۶۷۲،مسندابی یعلی۴۴۰۲

[167] صحیح بخاری کتاب الجنائز بَابُ مَوْتِ یَوْمِ الِاثْنَیْنِ ۱۳۸۷

[168] فتح الباری ۲۵۴؍۳

[169] مسنداحمد۷۲۸،مصنف ابن ابی شیبة۱۱۰۸۴،نیل الاوطار۴۶؍۴،احکام الجنائز۶۴؍۱،نصب الرایة

[170] نیل الاوطار۴۶؍۱

[171] نیل الاوطار۴۶؍۴

[172] بدائع الصنائع۳۰۶؍۱

[173] الام للشافعی ۳۰۳؍۱

[174] نیل الاوطار۴۷؍۴

[175]

[176] صحیح بخاری کتاب الجنائزبَابٌ كَیْفَ یُكَفَّنُ المُحْرِمُ؟ ۱۲۶۷

[177] صحیح بخاری کتاب الجنائزبَابُ الثِّیَابِ البِیضِ لِلْكَفَنِ ۱۲۶۴

[178] احکام الجنائز۶۳؍۱

[179] صحیح بخاری کتاب الجنائزبَابُ إِحْدَادِ المَرْأَةِ عَلَى غَیْرِ زَوْجِهَا ۱۲۸۲

[180] صحیح بخاری کتاب الجنائزبَابُ إِحْدَادِ المَرْأَةِ عَلَى غَیْرِ زَوْجِهَا ۱۲۷۹

Related Articles