ہجرت نبوی کا نواں سال

شاہان حمیرسے خط وکتابت

وَقَدِمَ عَلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ كِتَابُ مُلُوكِ حِمْیَرَ، مَقْدَمَهُ مِنْ تَبُوكَ، وَرَسُولُهُمْ إلَیْهِ بِإِسْلَامِهِمْ، الْحَارِثُ بْنُ عَبْدِ كُلَالٍ، وَنُعَیْمُ بْنُ عَبْدِ كُلَالٍ، وَالنُّعْمَانُ قَیْلُ ذِی رُعَیْنٍ وَمَعَافِرَ وَهَمْدَانَ، وَبَعَثَ إلَیْهِ زُرْعَةَ ذُو یزن مَالك ابْنَ مُرَّةَ الرَّهَاوِیَّ بِإِسْلَامِهِمْ، وَمُفَارَقَتِهِمْ الشِّرْكَ وَأَهْلَهُ

ابن اسحاق لکھتے ہیں  جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تبوک سے واپس تشریف لائےتواسی وقت شاہان حمیرکاایلچی حاضرہوا،اور شاہان حمیرحارث بن عبدکلال،نعیم بن عبدکلال،نعمان بن قیل ذی رعین ، ہمدان اورمعافرکےمکتوب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں  پیش کیے،اور زرعہ ذویزن مالک بن مرہ رھاوی کانامہ بھی پیش کیاجس میں  انہوں  نے اپنے اسلام قبول کرنے اورشرک اوراہل شرک سے علیحدگی اختیارکرنے کاحال مرقوم کیاتھا،تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی طرف یہ مکتوب لکھا۔

بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِیمِ

مِنْ مُحَمَّدٍ رَسُولِ اللهِ النَّبِیِّ، إلَى الْحَارِثِ بْنِ عَبْدِ كُلَالٍ، وَإِلَى نُعَیْمِ بْنِ عَبْدِ كُلَالٍ، وَإِلَى النُّعْمَانِ، قَیْلِ ذِی رُعَیْنٍ وَمَعَافِرَ وَهَمْدَانَ.

أَمَّا بَعْدُ ذَلِكُمْ، فَإِنِّی أَحْمَدُ إلَیْكُمْ اللهَ الَّذِی لَا إلَهَ إلَّا هُوَ، أَمَّا بَعْدُ، فَإِنَّهُ قد وَقع بِنَا رَسُولُكُمْ مُنْقَلَبَنَا مِنْ أَرْضِ الرُّومِ، فَلَقِیَنَا بِالْمَدِینَةِ، فَبَلَّغَ مَا أرسلتم بِهِ، وخبّرا مَا قَبْلَكُمْ، وَأَنْبَأْنَا بِإِسْلَامِكُمْ وَقَتْلِكُمْ الْمُشْرِكِینَ، وَأَنَّ اللهَ قَدْ هَدَاكُمْ بِهُدَاهُ،

 إنْ أَصْلَحْتُمْ وَأَطَعْتُمْ اللهَ وَرَسُولَهُ، وَأَقَمْتُمْ الصَّلَاةَ، وَآتَیْتُمْ الزَّكَاةَ، وَأَعْطَیْتُمْ مِنْ الْمَغَانِمِ خُمُسَ اللهِ، وَسَهْمَ الرَّسُولِ وَصَفِیَّهُ ، وَمَا كُتِبَ عَلَى الْمُؤْمِنِینَ مِنْ الصَّدَقَةِ مِنْ الْعَقَارِ ، عُشْرَ مَا سَقَتْ الْعَیْنُ وَسَقَتْ السَّمَاءُ، وَعَلَى مَا سَقَى الْغَرْبُ نِصْفُ الْعُشْرِ، وَأَنَّ فِی الْإِبِلِ الْأَرْبَعِینَ ابْنَةَ لَبُونٍ، وَفِی ثَلَاثِینَ مِنْ الْإِبِلِ ابْنُ لَبُونٍ ذَكَرٍ، وَفِی كُلِّ خُمُسٍ مِنْ الْإِبِلِ شَاةٌ، وَفِی كُلِّ عَشْرٍ مِنْ الْإِبِلِ شَاتَانِ، وَفِی كُلِّ أَرْبَعِینَ مِنْ الْبَقَرِ بَقَرَةٌ، وَفِی كُلِّ ثَلَاثِینَ مِنْ الْبَقَرِ تَبِیعٌ، جَذَعٌ أَوْ جَذَعَةٌ، وَفِی كُلِّ أَرْبَعِینَ مِنْ الْغَنَمِ سَائِمَةٌ وَحْدَهَا، شَاةٌ، وَأَنَّهَا فَرِیضَةُ اللهِ الَّتِی فَرَضَ عَلَى الْمُؤْمِنِینَ فِی الصَّدَقَةِ، فَمَنْ زَادَ خَیْرًا فَهُوَ خَیْرٌ لَهُ، وَمَنْ أَدَّى ذَلِكَ وَأَشْهَدَ عَلَى إسْلَامِهِ، وَظَاهَرَ الْمُؤْمِنِینَ عَلَى الْمُشْرِكِینَ، فَإِنَّهُ مِنْ الْمُؤْمِنِینَ، لَهُ مَا لَهُمْ، وَعَلَیْهِ مَا عَلَیْهِمْ، وَلَهُ ذِمَّةُ اللهِ وَذِمَّةُ رَسُولِهِ، وَإِنَّهُ مَنْ أَسْلَمَ مِنْ یَهُودِیٍّ أَوْ نَصْرَانِیٍّ، فَإِنَّهُ مِنْ الْمُؤْمِنِینَ، لَهُ مَا لَهُمْ، وَعَلَیْهِ مَا عَلَیْهِمْ، وَمَنْ كَانَ عَلَى یَهُودِیَّتِهِ أَوْ نَصْرَانِیَّتِهِ فَإِنَّهُ لَا یُرَدُّ عَنْهَا، وَعَلَیْهِ الْجِزْیَةُ، عَلَى كُلِّ حَالٍ ذَكَرٍ أَوْ أُنْثَى، حُرٍّ أَوْ عَبْدٍ، دِینَارٌ وَافٍ، مِنْ قِیمَةِ الْمَعَافِرِ أَوْ عِوَضُهُ ثِیَابًا، فَمَنْ أَدَّى ذَلِكَ إلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَإِنَّ لَهُ ذِمَّةُ اللهِ وَذِمَّةُ رَسُولِهِ، وَمَنْ مَنَعَهُ فَإِنَّهُ عَدُوٌّ للَّه وَلِرَسُولِهِ.

أَمَّا بَعْدُ، فَإِنَّ رَسُولَ اللهِ مُحَمَّدًا النَّبِیَّ أَرْسَلَ إلَى زُرْعَةَ ذِی یَزَنٍ أَنْ إذَا أَتَاكُمْ رُسُلِی فَأُوصِیكُمْ بِهِمْ خَیْرًا: مُعَاذُ بْنُ جَبَلٍ، وَعَبْدُ اللهِ بْنُ زَیْدٍ، وَمَالِكُ بْنُ عُبَادَةَ، وَعُقْبَةُ بْنُ نَمِرٍ، وَمَالِكُ بن مرّة، وأصحابهم وَأَنْ اجْمَعُوا مَا عِنْدَكُمْ مِنْ الصَّدَقَةِ وَالْجِزْیَةِ مِنْ مُخَالِیفِكُمْ، وَأَبْلِغُوهَا رُسُلِی، وَأَنَّ أَمِیرَهُمْ مُعَاذُ بْنُ جَبَلٍ، فَلَا یَنْقَلِبَنَّ إلَّا رَاضِیًا،

أَمَّا بَعْدُ. فَإِنَّ مُحَمَّدًا یَشْهَدُ أَنْ لَا إلَهَ إلَّا اللهُ وَأَنَّهُ عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ، ثُمَّ إنَّ مَالِكَ بْنَ مُرَّةَ الرَّهَاوِیَّ قَدْ حَدَّثَنِی أَنَّكَ أَسْلَمْتَ مِنْ أَوَّلِ حِمْیَرَ، وَقَتَلْتَ الْمُشْرِكِینَ، فَأَبْشِرْ بِخَیْرِ وَآمُرُكَ بِحِمْیَرَ خَیْرًا، وَلَا تَخُونُوا وَلَا تَخَاذَلُوا، فَإِنَّ رَسُولَ اللهِ هُوَ وَلِیُّ غَنِیِّكُمْ وَفَقِیرِكُمْ، وَأَنَّ الصَّدَقَةَ لَا تَحِلُّ لِمُحَمَّدِ وَلَا لِأَهْلِ بَیْتِهِ، إنَّمَا هِیَ زَكَاةٌ یُزَكَّى بِهَا عَلَى فُقَرَاءِ الْمُسْلِمِینَ وَابْنِ السَّبِیلِ، وَأَنَّ مَالِكًا قَدْ بَلَّغَ الْخَبَرَ، وَحَفِظَ الْغَیْبَ، وَآمُرُكُمْ بِهِ خَیْرًا، وَإِنِّی قَدْ أَرْسَلْتُ إلَیْكُمْ مِنْ صَالِحِی أَهْلِی وَأُولِی دِینِهِمْ وَأُولِی عِلْمِهِمْ، وَآمُرُكَ بِهِمْ خَیْرًا، فَإِنَّهُمْ مَنْظُورٌ إلَیْهِمْ،

 وَالسَّلَامُ عَلَیْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ.

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

یہ مکتوب اللہ کے رسول اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے حارث بن کلال،نعیم بن عبدکلال،نعمان قیل ذی رعین،معافراورہمدان کی طرف ہے۔

امابعد!میں  اس اللہ کی حمدسناتاہوں  ہوں  جس کے سواکوئی عبادت کے لائق نہیں  ،پھراس کے بعدتم کومعلوم ہوکہ تمہاراقاصدہمارے پاس اس وقت پہنچاجب رومیوں  کے ساتھ جنگ سے واپس آئے اورمدینہ منورہ میں  ہماری تمہارے قاصدسے ملاقات ہوئی اورہم نے تمہارے مکتوب کوہم ملاحظہ کیا اورتمہارے حلقہ بگوش اسلام ہونے اورمشرکین کوقتل کرنے کی خبرمعلوم ہوئی،بے شک اللہ تعالیٰ نے اپنی ہدایت تمہارے شامل حال فرمائی ۔

یادرکھو!اب تم کولازم ہے کہ عمل صالحہ اختیارکرواور اللہ اوراس کے رسول کی اطاعت میں  سرگرم رہو اورنمازقائم کرو اورزکوٰة اداکرواورجومال غنیمت تمہیں  حاصل ہواس میں  سے پانچواں  حصہ اللہ اوررسول کانکالواورنہری اوربارانی زمینوں  میں  سے عشراورچاہی میں  سے نصف عشراداکرو(اس کے بعدآپ نے کھیتی،اونٹوں  ،گائیوں  اوربکریوں  کی زکوٰة کی تفصیل بیان فرمائی)اورچالیس اونٹوں  میں  سےایک بنت لبون (وہ مادہ جودوسال کی عمرپوری کرکے تیسرے سال میں  داخل ہوچکی ہوکیونکہ اس کی ماں  دودھ دینے لگتی ہے)اورتیس میں  سے ایک ابن لبون(ایسے ہی نرکوکہتے ہیں  )اورپھرہرپانچ اونٹوں  میں  سے ایک بکری زکوٰة دیاکرواورہر دس اونٹوں  پر دو بکریاں  اورچالیس گائیوں  میں  سے ایک گائے اورتیس گائیوں  میں  سے ایک تبیع یا جذعہ(وہ گائے جس کی عمر چارسال ہوچکی ہواورپانچواں  سال شروع ہوگیاہو)اداکرواورچالیس بکریوں  میں  سے ایک بکری اداکروبشرطیکہ یہ سب جانورجنگل میں  چرتے ہوں  ،یہ اللہ کافریضہ ہے جواس نے مسلمانوں  پرقائم کیاہے اوراس سےزیادہ دے گاوہ اس کے لئے بہترہوگا اور جو فقط اسی کواداکرے گااوراسلام پرقائم رہ کرمسلمانوں  کی مشرکین کے مقابلہ میں  مددکرے گااس کے لیے وہی فائدے ہیں  جومسلمانوں  کے لیے ہیں  اوروہی سزائیں  ہیں  جوان کے لیے ہیں  اوراللہ اوررسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اس کے لیے ذمہ داری ہےوہ مومن ہے،اورجویہودی یانصرانی مسلمان ہوگااس پربھی وہی احکام جاری ہوں  گے جومسلمانوں  پرجاری ہوتے ہیں  ،اورجوشخص اپنے یہودی یاعیسائی دین پرقائم رہناچاہئے اس کواس کے چھوڑنے پرمجبورنہیں  کیاجائے گاہاں  اسے جزیہ دیناپڑے گا جس کی مقدارہربالغ مردوعورت ،آزادوغلام پرایک دینارپورا یااس کی قیمت کے مساوی کپڑے ہیں  یااورکوئی چیز،پس جویہ جزیہ اللہ کے رسول کواداکرے گااس کے ساتھ اللہ اوراس کے رسول کاعہدہے ،اس کوتحفظ دیاجائے گااورجوادانہیں  کرے گاوہ اللہ اوراس کے رسول کادشمن ہے ۔

امابعد!اللہ کے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے زرعہ ذویزن کوہدایت کی جاتی ہے کہ جب میری طرف سے میرے قاصد تمہارے پاس آئیں  توتم ان کے ساتھ اچھاسلوک کرنایہ لوگ معاذ رضی اللہ عنہ بن جبل ،عبداللہ رضی اللہ عنہ بن زید،مالک رضی اللہ عنہ بن عبادہ ،عقبہ رضی اللہ عنہ بن عامر،مالک رضی اللہ عنہ بن مرہ اوران کے دیگررفقاء ہیں  اوران سب کے امیرمعاذبن جبل رضی اللہ عنہ ہیں  ،جب یہ لوگ تمہارے پاس پہنچیں  توتم اپنے اپنے علاقے سے زکوٰة اوراپنے مخالفین سےجزیہ وصول کرکے میرے قاصدوں  کے ہاتھ میرے پاس روانہ کرنااوران لوگوں  کواپنےسے راضی رکھنا ۔

امابعد!میں  یقیناًاس بات کی شہادت دیتاہوں  کہ اللہ کے سواکوئی معبودبرحق نہیں  اورمیں  اللہ کابندہ اوراس کارسول ہوں  ،اورمالک بن مرہ رھاوی کومعلوم ہوکہ مجھے یہ خبرپہنچی ہے کہ تم قوم حمیرمیں  سے سب سے پہلے مسلمان ہوئے اورتم نے مشرکین کوقتل کیاہے پس تم کو بہتراجرکی بشارت ہو اورمیں  تمہیں  تمہاری حمیرکے ساتھ اچھاسلوک کرنے کاحکم دیتاہوں  ،اورتم آپس میں  ایک دوسرے کی خیانت اورایک دوسرے کی امدادترک نہ کرنا،اوراللہ کارسول صلی اللہ علیہ وسلم تمہارے اغنیاء اورفقراء سب کامولیٰ ہے،اوریہ جان لوکہ زکوٰة کامال محمداورآل محمدکے لئے حلال نہیں  ہے ،یہ فقیروں  ،مسکینوں  اورمسافروں  کاحق ہے اوران پرخرچ کیاجائے گا،اورمیں  نے تمہاری طرف اپنے صحابہ رضی اللہ عنہم میں  سے صالح ،دین داراوراللہ کے احکام پرعمل کرنے والے لوگ بھیجے ہیں  ان کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آنا۔

والسلام ورحمة اللہ وبرکاتہ۔[1]

قیصرروم ہرقل کاخط :

وَكَتَبَ إِلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ مُسْلِمٌ، وَبَعَثَ بِدَنَانِیرَ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ حِینَ قَرَأَ الْكِتَابَ: كَذَبَ عَدُوُّ اللهِ، لَیْسَ بِمُسْلِمٍ وَلَكِنَّهُ عَلَى النَّصْرَانِیَّةِ

قیصرروم ہرقل نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوخط لکھاکہ میں  نے اسلام قبول کرلیاہے اور اس نے دنانیر بھی بھیجے ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خط پڑھنے کے بعد فرمایاجھوٹ بولتاہے وہ ابھی تک نصرانیت پرقائم ہے۔ [2]

ابوعبیدہ نے صحیح سندکے ساتھ اسی طرح روایت کی ہے اس کے الفاظ یہ ہیں  ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

كَذَبَ عَدُوُّ الله، لَیْسَ بِمُسْلِم، وَهُوَ عَلَى النَّصْرَانیَّة

اللہ کے دشمن نے جھوٹ بولاہے وہ مسلمان نہیں  ہوا۔[3]

وفدبنی فزارہ:

یہ قبیلہ بنوغطفان کے بطن بنی ذبیان کی ایک شاخ تھااورسب سے بڑاغطفانی قبیلہ تھا،یہ لوگ حجازکے شمال میں  آبادتھے ،بقول بعض یہ نجداوروادی القریٰ میں  رہتے تھے

وَلَمَّا رَجَعَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مِنْ تَبُوكَ، قَدِمَ عَلَیْهِ وَفْدُ بَنِی فَزَارَةَ بِضْعَةَ عَشَرَ رَجُلًا، فِیهِمْ خَارِجَةُ بْنُ حِصْنٍ، والحرّ بن قیس ابْنُ أَخِی عُیَیْنَةُ بْنُ حِصْنٍ، وَهُوَ أَصْغَرُهُمْ، فَنَزَلُوا فِی دَارِ رَمْلَةَ بِنْتِ الْحَارِثِ، وَجَاءُوا رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مُقِرِّینَ بِالْإِسْلَامِ،وَهُمْ مُسْنِتُونَ عَلَى رِكَابٍ عِجَافٍ، فَسَأَلَهُمْ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عَنْ بِلَادِهِمْ،فَقَالَ أَحَدُهُمْ: یَا رَسُولَ اللهِ أَسْنَتَتْ بِلَادُنَا، وَهَلَكَتْ مَوَاشِینَا، وَأَجْدَبَ جَنَابُنَا، وَغَرِثَ عِیَالُنَا، فَادْعُ لَنَا رَبَّكَ یُغِیثُنَا، وَاشْفَعْ لَنَا إِلَى رَبَّكَ، وَلْیَشْفَعْ لَنَا رَبُّكَ إِلَیْكَ

غزوہ تبوک سے واپسی پربنی فزارہ کاایک چودہ یاپندرہ رکنی وفدبارگاہ نبوت میں  حاضرہوا،وفدمیں  خارجہ رضی اللہ عنہ بن حصن اوروفدکے سب سے کم عمررکن حر رضی اللہ عنہ بن قیس بھی شامل تھے،یہ رملہ بنت الحارث کے گھر میں  ٹھیرے، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں  آکر اپنے اسلام کا اقرار کیا ،یہ لوگ بڑی دبلی پتلی کمزورسواریوں  پرسوارتھے،ان لوگوں  نے اپنے اسلام کااقرارکیاتورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے ان کے علاقے کے بارے میں  دریافت کیا، انہوں  نے عرض کیااے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم !ہمارے علاقے میں  قحط پڑگیاہےجس سے ہمارے کھیت خشک ہوگئے ہیں  اورمویشی ہلاک ہوگئے ہیں  اورہمارے عیال تباہی کی زدمیں  ہیں  آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے رب سے ہمارے لئے دعافرمائیں  کہ ہم پرباران رحمت نازل فرمائے،آپ اپنے رب کے پاس ہماری سفارش کریں  اورآپ کارب آپ کے پاس سفارش کرے،

فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:سُبْحَانَ اللهِ! وَیْلَكَ، هَذَا إِنَّمَا شَفَعْتُ إِلَى رَبِّی عَزَّ وَجَلَّ، فَمَنِ الَّذِی یَشْفَعُ رَبُّنَا إِلَیْهِ؟لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ الْعَظِیمُ، وَسِعَ كُرْسِیُّهُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ، فَهِیَ تَئِطُّ مِنْ عَظَمَتِهِ وَجَلَالِهِ، كَمَا یَئِطُّ الرَّحْلُ الْجَدِیدُ،وَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّ اللهَ عَزَّ وَجَلَّ لَیَضْحَكُ مِنْ شَغَفِكُمْ وَأَزْلِكُمْ وَقُرْبِ غِیَاثِكُمْ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاسبحان اللہ!تم پرافسوس ہے ،میں  نے اپنے رب کے پاس سفارش کردی ہے، مگرایسی کون سی ہستی ہے جس کے پاس ہمارارب سفارش کرے؟

اس کے سواکوئی عبادت کے لائق نہیں  ،وہ بڑی عظمت والاہے،اس کی کرسی نے تمام آسمانوں  اورزمینوں  کوگھیررکھاہے ،وہ اس کی عظمت اورجلال سے اس طرح چرچرکرتی ہے جیسے ایک نئی زین سوارکے بوجھ سے چرچرکرتی ہے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااللہ تمہاری تنگی میں  جلدمددکرنے اورتم پرشفقت کرنے پر ہنستا ہے،

فَقَالَ الْأَعْرَابِیُّ: یَا رَسُولَ اللهِ، وَیَضْحَكُ رَبُّنَا عَزَّ وَجَلَّ؟قَالَ: نَعَمْ،فَقَالَ الْأَعْرَابِیُّ: لَنْ نَعْدَمَ مِنْ رَبٍّ یَضْحَكُ خَیْرًا،فَضَحِكَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مِنْ قَوْلِهِ،وَصَعِدَ الْمِنْبَرَ فَتَكَلَّمَ بِكَلِمَاتٍ، وَكَانَ لَا یَرْفَعُ یَدَیْهِ فِی شَیْءٍ مِنَ الدُّعَاءِ إِلَّا رَفْعَ الِاسْتِسْقَاءِ، فَرَفَعَ یَدَیْهِ حَتَّى رُئِیَ بَیَاضُ إِبْطَیْهِ، وَكَانَ مِمَّا حُفِظَ مِنْ دُعَائِهِ:

وفدکاایک رکن کہنے لگااے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم !ہمارارب ہنستابھی ہے؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاہاں  !وہ بولاپھرہم اپنے ہنسنے والے رب کی خیرسے محروم نہیں  رہیں  گے،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس بدوی کی بات سن کرہنس پڑے،پھرمنبرپرچڑھ کرچندکلمات کہے جس قدرآپ استسقاء میں  ہاتھ اٹھاتے تھے ،دوسری کسی دعا میں  اتنے اونچے ہاتھ نہیں  اٹھاتے تھے،چنانچہ آپ نے اتنے اونچے ہاتھ اٹھائے کہ آپ کی بغلوں  کی سفیدی نظرآنے لگی،پھررحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے یوں  دعافرمائی۔

اللهُمَّ اسْقِنَا غَیْثًا مُغِیثًا مَرِیئًا مَرِیعًا طَبَقًا وَاسِعًا، عَاجِلًا غَیْرَ آجِلٍ، نَافِعًا غَیْرَ ضَارٍّ، اللهُمَّ سُقْیَا رَحْمَةٍ لَا سُقْیَا عَذَابٍ، وَلَا هَدْمٍ، وَلَا غَرَقٍ، وَلَا مَحْقٍ، اللهُمَّ اسْقِنَا الْغَیْثَ وَانْصُرْنَا عَلَى الْأَعْدَاءِ

اے اللہ!اپنے بندوں  اورچوپایوں  کوسیراب کردے،اپنی رحمت کوعام کردے اوراپنے مردہ شہر کوزندگی بخش دے،اے اللہ!ہمیں  سیراب کرنے والی اور وسیع،ہمہ گیر ، خوشگواراورتازگی بخشنے والی بارش عطافرما،وہ بارش جونفع دینے والی ہواورنقصان پہنچانے والی نہ ہو،اے اللہ!ہمیں  باران رحمت سے سیراب کر جونہ باعث عذاب ہو اور نہ گرانے والی،تباہ کرنے والی اورغرق کرنے والی نہ ہو،اے اللہ!ہمیں  بارش سے سیراب کراوردشمنوں  پرفتح دے ۔[4]

فَمَطَرَتْ فَمَا رَأَوْا السَّمَاءَ سِتًّافَصَعِدَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ الْمِنْبَرَ فَدَعَافَقَالَ:اللهُمَّ حَوَالَیْنَا وَلَا عَلَیْنَا عَلَى الْآكَامِ وَالظِّرَابِ وَبُطُونِ الْأَوْدِیَةِ وَمَنَابِتِ الشَّجَرِ ، قَالَ: فَانْجَابَتِ السَّمَاءُ عَنِ الْمَدِینَةِ انْجِیَابَ الثَّوْبِ

اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعاقبول فرمائی اورخوب بارش ہوئی اور اگلے چھ دن تک لوگوں  نے آسمان نہ دیکھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پھرمنبرپرتشریف فرماہوئے اور دعاکی،اے اللہ!ہمارے اردگردبارش ہوہم پرنہ ہو،ٹیلوں  ، پتھروں  ،وادیوں  کے نشیب اوردرختوں  کے اگنے کی جگہوں  میں  ہو،راوی کابیان ہے مدینہ منورہ کے اوپرسے بادل اس طرح دورہوگئے جیسے کپڑاپھٹ جاتاہے(بنوفزارہ کے علاقے میں  بھی یہی صورت حال پیش آئی)۔[5]

ربیعہ بن ذی مرحب الحضرمی (حضرموت)کوخط

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ربیعہ بن ذی مرحب الحضرمی ،ان کے بھائیوں  اورچچاؤں  کوخط تحریرفرمایا۔

أَنَّ لَهُمْ أَمْوَالَهُمْ وَنِحَلَهُمْ وَرَقِیقَهُمْ وَآبَارَهُمْ وَشَجَرَهُمْ وَمِیَاهَهُمْ وَسَوَاقِیَهُمْ وَنَبْتَهُمْ وَشَرَاجِعَهُمْ بِحَضْرَمَوْتَ. وَكُلَّ مَالٍ لآلِ ذِی مَرْحَبٍ. وَأَنَّ كُلَّ مَا كَانَ فِی ثِمَارِهِمْ مِنْ خَیْرٍ فَإِنَّهُ لا یَسْأَلُهُ أَحَدٌ عَنْهُ. وَأَنَّ اللهَ وَرَسُولَهُ بَرَاءٌ مِنْهُ. وَأَنَّ نَصْرَ آلِ ذِی مَرْحَبٍ عَلَى جَمَاعَةِ الْمُسْلِمِینَ. وَأَنَّ أَرْضَهُمْ بَرِیئَةٌ مِنَ الْجَوْرِ. وَأَنَّ أَمْوَالَهُمْ وَأَنْفُسَهُمْ وَزَافِرَ حَائِطَ الْمَلِكِ الَّذِی كَانَ یَسِیلُ إِلَى آلِ قَیْسٍ وَأَنَّ اللهَ وَرَسُولَهُ جَارٌ عَلَى ذَلِكَ.

وَكَتَبَ مُعَاوِیَةُ

ان کے اموال ،نخلستان،غلام،کنوئیں  ،درخت ،پانی کے ذخیرے،کھیتیاں  اوراونٹ کوحضرموت میں  ہیں  سب ان کے رہیں  گے ،یہ سب آل ذی مرحب کامال ہوگا،ان کی زمین میں  جوگروی رکھی ہوئی ہیں  اورجس کاپھل ،لکڑی،گھاس وغیرہ اس کے ہیں  جس کے پاس وہ ہے اوراس کے سارے پھل بھی،اس میں  کوئی دعوی نہیں  کرے گااوراللہ اوراس کے رسول اس سے بری ہوں  گے ،آل ذی مرحب پرواجب ہوگاکہ مسلمانوں  کی مددکریں  اوران کاعلاقہ ظلم سے پاک رہے گا اوران کے جان ومال بھی اسی طرح ان کے علاقے کی وہ باڑھ جوآل قیس تک چلی گئی ہے اوراللہ اوراس کے رسول اس کے محافظ ہیں  ۔

اسے تحریرکومعاویہ رضی اللہ عنہ نے لکھا۔[6]

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لخحم کے قبیلہ حدس کوفرمان تحریرفرمایا

مِنْ حَدَسٍ مِنْ لَخْمٍ وَأَقَامَ الصَّلاةَ وَآتَى الزَّكَاةَ. وَأَعْطَى حَظَّ اللهِ وَحَظَّ رَسُولِهِ. وَفَارَقَ الْمُشْرِكِینَ. فَإِنَّهُ آمِنٌ بِذِمَّةِ اللهِ وَذِمَّةِ رَسُولِهِ مُحَمَّدٍ. وَمَنْ رَجَعَ عَنْ دِینِهِ فَإِنَّ ذِمَّةَ اللهِ وَذِمَّةَ مُحَمَّدٍ رَسُولِهِ مِنْهُ بَرِیئَةٌ. وَمَنْ شَهِدَ لَهُ مُسْلِمٌ بِإِسْلامِهِ فَإِنَّهُ آمِنٌ بِذِمَّةِ مُحَمَّدٍ وَإِنَّهُ مِنَ الْمُسْلِمِینَ.

وَكَتَبَ عَبْدُ اللهِ بْنُ زَیْدٍ

لخم کے خاندان حدس کے جولوگ ایمان لائیں  ،نمازپڑھیں  ،زکوٰة دیں  اللہ اوراس کے رسول کاحصہ اداکریں  ،مشرکوں  سے قطع تعلق کرلیں  وہ اللہ اوراس کے رسول محمدکے ذمہ وامان میں  رہیں  گے ،جواپنے دین سے پھرجائے گااس سے اللہ اوراس کے رسول کاذمہ بھی اٹھ جائے گااورجوگواہی دے کسی مسلمان کے اسلام کی اسے بھی امان ہے اوروہ مسلمانوں  میں  شمارکیاجائے گا۔

اس خط کوعبداللہ بن زیدنے لکھا۔[7]

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کایزید رضی اللہ عنہ بن الطفیل الحارثی کے لیے فرمان

أَنَّ لَهُ الْمَضَّةَ كُلَّهَا. لا یُحَاقُّهُ فِیهَا أَحَدٌ مَا أَقَامَ الصَّلاةَ. وَآتَى الزَّكَاةَ. وَحَارَبَ الْمُشْرِكِینَ.

وَكَتَبَ جُهَیْمُ بْنُ الصَّلْتِ

المضہ کاتمام علاقہ ان کے لیے ہے ،وہ جب تک نمازپڑھیں  ،زکوٰة دیں  اورمشرکین سے جنگ کریں  اس علاقے پرکوئی دوسرادعویدارنہ ہو۔

اس دستاویزکوجہیم بن الصلت نے لکھا۔[8]

وفدداریین:

یہ قبیلہ کہلان بن سباء کے بطن لخم کی ایک شاخ تھا،یہ لوگ شام کی سرحدکے قریب رہتے تھے،

قَدِمَ وَفْدُ الدَّارِیِّینَ عَلَى رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مُنْصَرَفَهُ مِنْ تَبُوكَ وَهُمْ عَشَرَةُ نَفَرٍ فِیهِمْ: تَمِیمٌ وَنُعَیْمٌ ابْنَا أَوْسِ بْنِ خَارِجَةَ بْنِ سَوَّادِ بْنِ جَذِیمَةَ بْنِ دَرَّاعِ بْنِ عَدِیِّ بْنِ الدَّارِ بْنِ هَانِئِ بْنِ حَبِیبِ بْنِ نُمَارَةَ بْنِ لَخْمٍ وَیَزِیدُ بْنُ قَیْسِ بْنِ خَارِجَةَ وَالْفَاكِهُ بْنُ النُّعْمَانِ بْنِ جَبَلَةَ بْنِ صَفَّارَةَ قَالَ الْوَاقِدِیُّ: صَفَّارَةُ، وَقَالَ هِشَامٌ: صَفَّارُ بْنُ رَبِیعَةَ بْنِ دَرَّاعِ بْنِ عَدِیِّ بْنِ الدَّارِ وَجَبَلَةُ بْنُ مَالِكِ بْنِ صَفَّارَةَ وَأَبُو هِنْدٍ وَالطَّیِّبُ ابْنَا ذَرٍّ وَهُوَ عَبْدُ اللهِ بْنُ رَزِینِ بْنِ عِمِّیتِ بْنِ رَبِیعَةَ بْنِ دَرَّاعِ وَهَانِئُ بْنُ حَبِیبٍ وَعَزِیزٌ وَمُرَّةُ ابْنَا مَالِكِ بْنِ سَوَّادِ بْنِ جَذِیمَةَ

نوہجری میں  جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غزوہ تبوک سے واپس تشریف لائے توالداریون کاایک وفدشام سے مدینہ منورہ آیا،یہ وفددس آدمیوں  پرمشتمل تھا،یہ لوگ مذہباًنصرانی تھے،اس وفدمیں  تمیم رضی اللہ عنہ بن اوس داری اوران کے بھائی نعیم رضی اللہ عنہ بن اوس داری بھی شامل تھےیزید بن قیس بن خارجہ ، فاکہ بن نعمان بن جبلہ بن صفارة، یہ واقدی نے کہا ہے، جبکہ ابن ہشام کے مطابق صفار بن ربیعہ بن دراع بن عدی بن الدار، جبلہ بن مالک بن صفارة ، ابو ھند ، طیب دونوں  ابو زر کے بیٹے ہیں  جوکہ عبد اللہ بن رزین بن عمیت بن ربیعہ بن دراع ، ہانی بن حبیب ، عزیز اور مرہ یہ دونوں  مالک بن سواد بن جذیمہ کے بیٹے ہیں  ،

فَأَسْلَمُوا وَسَمَّى رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ الطَّیِّبَ عَبْدَ اللهِ وَسَمَّى عَزِیزًا عَبْدَ الرَّحْمَنِ وَأَهْدَى هَانِئُ بْنُ حَبِیبٍ لِرَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ رَاوِیَةَ خَمْرٍ وَأَفْرَاسًا وَقَبَاءً مُخَوَّصًا بِالذَّهَبِ،فَقَبِلَ الْأَفْرَاسَ وَالْقَبَاءَ،وَأَعْطَاهُ الْعَبَّاسَ بْنَ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، فَقَالَ: مَا أَصْنَعُ بِهِ؟ قَالَ:انْتَزِعِ الذَّهَبَ فَتُحَلِّیَهُ نِسَاءَكَ أَوْ تَسْتَنْفِقَهُ ثُمَّ تَبِیعَ الدِّیبَاجَ فَتَأْخُذَ ثَمَنَهُ ، فَبَاعَهُ الْعَبَّاسُ مِنْ رَجُلٍ مِنْ یَهُودَ بِثَمَانِیَةِ آلافِ دِرْهَمٍ

اہل وفدنے اسلام قبول کیا سیدالامم صلی اللہ علیہ وسلم نے طیب کانام عبداللہ اور عزیز کا نام عبدالرحمٰن رکھا،ہانی بن حبیب نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں  شراب، گھوڑے اورایک ریشمی جبہ جس میں  سونے کے پترلگے ہوئے تھے بطور ہدیہ پیش کیے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نےگھوڑوں  اورقباکو قبول فرمالیا(اورشراب کوقبول نہ کیا) یہ جبہ عباس رضی اللہ عنہ بن عبدالمطلب کو عطافرمائی،عباس رضی اللہ عنہ نے عرض کیاکہ میں  اسے کیاکروں  ؟(کیونکہ اس کاپہنناجائزنہیں  )فرمایاسونانکال کراپنی عورتوں  کے لیے اس کازیوربنوالواسے (فروخت کرکے )خرچ کرلو،جبہ کے ریشم کوفروخت کرڈالو،عباس رضی اللہ عنہ نے اسے ایک یہودی کے ہاتھ آٹھ ہزاردرہم میں  فروخت کردیاوفدکے تمام اراکین اسی موقع پرمشرف بہ اسلام ہوگئے،

وَقَالَ تَمِیمٌ: لَنَا جِیرَةٌ مِنَ الرُّومِ لَهُمْ قَرْیَتَانِ یُقَالُ لإِحْدَاهُمَا حَبْرَى. وَالأُخْرَى بَیْتُ عَیْنُونَ. فَإِنْ فَتَحَ اللهُ عَلَیْكَ الشَّامَ فَهَبْهُمَا لِی،قَالَ: فَهُمَا لَكَ

ابن سعدکاکہناہےتمیم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی کہ ہمارے اطراف میں  روم کی ایک قوم ہے جن کے دوگاؤں  ہیں  ایک کانامحبری اوردوسرے کابیت عینون ہے ، اگراللہ تعالیٰ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کوملک شام پرفتح عطافرمائے تویہ دونوں  گاؤں  مجھے ہبہ فرمادیں  ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاوہ تمہارے ہی ہوں  گے۔[9]

اوریہ وثیقہ لکھواکران کے سپردکردیا۔

وَكَتَبَ رَسُولُ اللهِ صلّى الله علیه وسلم لِنُعَیْمِ بْنِ أَوْسٍ أَخِی تَمِیمٍ الدَّارِیِّ

أَنَّ لَهُ حَبْرَى وَعَیْنُونَ بِالشَّامِ قَرْیَتَهَا كُلَّهَا سَهْلَهَا وَجَبَلَهَا وَمَاءَهَا وَحَرْثَهَا وَأَنْبَاطَهَا وَبَقَرَهَا وَلِعَقِبِهِ مِنْ بَعْدِهِ لَا یُحَاقُّهُ فِیهَا أَحَدٌ، وَلَا یَلِجُهُ عَلَیْهِمْ بِظُلْمٍ وَمَنْ ظَلْمَهُمْ وَأَخَذَ مِنْهُمْ شَیْئًا فَإِنَّ عَلَیْهِ لَعْنَةَ اللهِ وَالْمَلَائِكَةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِینَ.

 وَكَتَبَ عَلِیٌّ

یہ تحریرہے محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے تمیم بن اوس داری کے حق میں  ۔

کہ عینون کاگاؤں  سارے کاسارا،اس کے میدان،پہاڑ،کنوئیں  کاپانی ،کھیت ،انگورکی بیلیں  اورگائے بیل ان کی ملک میں  ہیں  اوران کے بعدان کی اولاد کے،اس پرکوئی اورشخص اپناحق نہ جتائے اورنہ ناجائزطریقہ پران کے خلاف مداخلت کرے،پھرجس نے ان کویاان (کی اولاد)میں  سے کسی کو ستانا چاہا تو اس پر اللہ کی،فرشتوں  کی اورتمام انسانوں  کی لعنت ہو۔

اس کوسیدناعلی رضی اللہ عنہ نے لکھا۔[10]

وفدبنی مرہ:

بنومرہ کانام متعددعدنانی اورقحطانی قبائل کے لئے بولاجاتاہے،جس بنومرہ کاوفدبارگاہ رسالت میں  حاضرہواوہ عدنانی قبیلہ غطفان کی ایک بطن تھا،اس کاقیام نجدمیں  وادی القریٰ اورجبال طے کے قریب تھا۔

وَقَدِمَ عَلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَفْدُ ذِی مُرَّةَ ثَلَاثَةَ عَشَرَ رَجُلًا، رَأْسُهُمُ الحارث بن عوف غَالِبٍ،فَقَالُوا: یَا رَسُولَ اللهِ، إِنَّا قَوْمُكَ وَعَشِیرَتُكَ، نَحْنُ قَوْمٌ مِنْ بَنِی لُؤَیِّ بْنِ غَالِبٍ،فَتَبَسَّمَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَقَالَ للحارث:أَیْنَ تَرَكْتَ أَهْلَكَ؟قَالَ بِسَلَاحَ وَمَا وَالَاهَا

نوہجری میں  جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غزوہ تبوک سے واپس مدینہ منورہ تشریف لائے توبنومرہ کاایک تیرہ رکنی وفدآپ کی خدمت میں  حاضرہوا،اس وفدکی قیادت حارث رضی اللہ عنہ بن عوف کررہے تھے،اراکین وفدنے اسلام قبول کرکے آپ کی بیعت کاشرف حاصل کیا۔اس موقع پرامیروفدحارث رضی اللہ عنہ بن عوف نے عرض کیااے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم !ہم لوئی بن غالب کی اولادہیں  ،یوں  ہماراقریش سے قریبی تعلق ہے۔ان کی بات سن کر سیدالمرسلین محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے متبسم ہوکران(رئیس وفدحارث بن عوف) سے دریافت کیاتمہارے اہل وعیال اب کہاں  مقیم ہیں  ؟انہوں  نے عرض کیاسلاح اوراس کے نواح میں  ۔

قَالَ وَكَیْفَ الْبِلَادُ؟قَالَ: وَاللهِ إِنَّا لَمُسْنِتُونَ مَا فِی الْمَالِ مُخٌّ فَادْعُ اللهَ لَنَا،فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: اللهُمَّ اسْقِهِمُ الْغَیْثَ،فَأَقَامُوا أَیَّامًا ثُمَّ أَرَادُوا الِانْصِرَافَ إِلَى بِلَادِهِمْ، فَجَاءُوا رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مُوَدِّعِینَ لَهُ، فَأَمَرَ بلالا أَنْ یُجِیزَهُمْ، فَأَجَازَهُمْ بِعَشْرِ أَوَاقٍ فِضَّةً،وفَضَلَ الحارث بن عوف أَعْطَاهُ اثْنَتَیْ عَشْرَةَ أُوقِیَّةً ، وَرَجَعُوا إِلَى بِلَادِهِمْ فَوَجَدُوا الْبِلَادَ مَطِیرَةً، فَسَأَلُوا: مَتَى مُطِرْتُمْ؟ فَإِذَا هُوَ ذَلِكَ الْیَوْمُ الَّذِی دَعَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فِیهِ، وَأَخْصَبَتْ بَعْدَ ذَلِكَ بِلَادُهُمْ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھاتمہارے علاقے کاکیاحال ہے؟انہوں  نے عرض کیاخشک سالی کاشکارہے،آپ ہمارے لئے دعاکریں  کہ اللہ خشک سالی دورفرمادے،چنانچہ سرورعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے دعافرمائی اے اللہ انہیں  بارش سے سیراب کر۔یہ وفدکچھ دن مدینہ منورہ میں  قیام پذیررہااورپھراپنے علاقے میں  واپس جانے کی اجازت چاہی،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بلال رضی اللہ عنہ کوحکم فرمایاکہ انہیں  تحفے دیے جائیں  ،انہوں  نے وفدکے ہرفردکودس اوقیہ چاندی دی، اوروفدکے رئیس حارث بن عوف رضی اللہ عنہ کوبارہ اوقیہ چاندی عطاکی، اوریہ وفداپنے علاقے میں  پہنچاتودیکھاکہ وہاں  بارش ہوئی ہے، انہوں  نے پوچھابارش کب ہوئی تھی،معلوم ہواکہ اس روزبارش ہوئی تھی جس روزرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بارش کی دعافرمائی تھی، پھرتوان کاعلاقہ سرسبزوشاداب ہوگیا۔[11]

وفدہمدان:

یہ کہلان بن سباء کی نسل سے ایک بڑاقحطانی قبیلہ تھا،بنوہمدان کے دیاریمن کے مشرق میں  تھے۔

أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بَعَثَ خَالِدَ بْنَ الْوَلِیدِ إِلَى أَهْلِ الْیَمَنِ یَدْعُوهُمْ إِلَى الْإِسْلَامِ، قَالَ البراء: فَكُنْتُ فِیمَنْ خَرَجَ مَعَ خَالِدِ بْنِ الْوَلِیدِ، فَأَقَمْنَا سِتَّةَ أَشْهُرٍ یَدْعُوهُمْ إِلَى الْإِسْلَامِ، فَلَمْ یُجِیبُوهُ،ثُمَّ إِنَّ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بَعَثَ عَلِیَّ بْنَ أَبِی طَالِبٍ رَضِیَ اللهُ عَنْهُ ، فَأَمَرَهُ أَنْ یُقْفِلَ خالدا إِلَّا رَجُلًا مِمَّنْ كَانَ مَعَ خالد أَحَبَّ أَنْ یُعْقِبَ مَعَ علی رَضِیَ اللهُ عَنْهُ، فَلْیُعْقِبْ مَعَهُ، قَالَ البراء: فَكُنْتُ فِیمَنْ عَقَّبَ مَعَ علی، فَلَمَّا دَنَوْنَا مِنَ الْقَوْمِ خَرَجُوا إِلَیْنَا، فَصَلَّى بِنَا علی رَضِیَ اللهُ عَنْهُ، ثُمَّ صَفَّنَا صَفًّا وَاحِدًا، ثُمَّ تَقَدَّمَ بَیْنَ أَیْدِینَا، وَقَرَأعَلَیْهِمْ كِتَابَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ

فتح مکہ کے بعدنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خالد رضی اللہ عنہ بن ولیدکو قبیلہ ہمدان میں  اشاعت اسلام کے لئے بھیجا،براء رضی اللہ عنہ کہتے ہیں  میں  بھی ان میں  سے تھاجوخالد رضی اللہ عنہ بن ولیدکے ساتھ تھے،ہم چھ مہینے وہیں  مقیم رہ کرانہیں  دعوت اسلام پیش کرتے رہےمگربنو ہمدان نے دعوت اسلام قبول نہیں  کی،پھرنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ بن ابی طالب کواسی مقصدکے تحت ان کی طرف بھیجا،اور حکم دیا کہ سوائے ایک آدمی کے جو سیدنا علی کے ساتھ جائے سیدنا خالد کو روکے ، سیدنا براء فرماتے ہیں  کہ میں  ہی وہی آدمی تھا جو سیدنا علی کے ساتھ رہا، چنانچہ جب ہم قوم کے قریب ہوئے توسیدناعلی رضی اللہ عنہ نے ہمیں  نمازپڑھائی، اورہماری ایک صف بنائی اورہمارے آگے بڑھے، اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کامکتوب پڑھ کرسنایا،چنانچہ تمام قبیلہ ہمدان حلقہ بگوش اسلام ہوگیا،

فَكَتَبَ علی رَضِیَ اللهُ عَنْهُ إِلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بِإِسْلَامِهِمْ، فَلَمَّا قَرَأَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ الْكِتَابَ خَرَّ سَاجِدًا، ثُمَّ رَفَعَ رَأْسَهُ فَقَالَ:السَّلَامُ عَلَى هَمْدَانَ، السَّلَامُ عَلَى هَمْدَانَ

سیدناعلی رضی اللہ عنہ بن ابی طالب نے ایک خط لکھ کررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوبنوہمدان کے حلقہ بگوش اسلام ہو جانے کی اطلاع دی،جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خط پڑھاتوآپ صلی اللہ علیہ وسلم سجدہ میں  گرگئےاورپھرسرمبارک اٹھاکرفرمایاہمدان پرسلامتی ہو، ہمدان پرسلامتی ہو۔[12]

فَلَقُوا رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مَرْجِعَهُ مِنْ تَبُوكَ،أنهم كانوا مِائَةً وَعِشْرِینَ نفسًا

جب آپ غزوہ تبوک سے واپس تشریف لائے تو بنوہمدان کاایک سوبیس رکنی وفد آپ کی خدمت میں  حاضرہوا۔[13]

مِنْهُمْ مَالِكُ ابْن نَمَطٍ، وَأَبُو ثَوْرٍ، وَهُوَ ذُو الْمِشْعَارِ، وَمَالِكُ بْنُ أَیْفَعَ وَضِمَامُ بْنُ مَالِكٍ السَّلْمَانِیُّ وَعَمِیرَةُ بْنُ مَالِكٍ الْخَارِفِیَّ، فَلُقُوا رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مَرْجِعَهُ مِنْ تَبُوكَ ،وَعَلَیْهِمْ مُقَطَّعَاتُ الْحِبَرَاتِ ، وَالْعَمَائِمُ الْعَدَنِیَّةُ، بِرِحَالِ الْمَیْسِ عَلَى الْمَهْرِیَّةِ وَالْأَرْحَبِیَّةِ وَمَالِكِ بْنِ نَمَطٍ وَرَجُلٍ آخَرَ یَرْتَجِزَانِ بِالْقَوْمِ

جس میں  بنوہمدان کے بہت سے عمائدشامل تھے،ان میں  مالک رضی اللہ عنہ بن نمط ابوثورجوبہت خوش گوشاعرتھے اور ذوالمشعار کے لقب سے مشہورتھے،عمیرہ رضی اللہ عنہ بن مالک الخارفی ،ضمام رضی اللہ عنہ بن مالک السلمانی اور مالک بن ایفع کے نام خصوصیت سے قابل ذکرہیں  ،ان لوگوں  نے یمنی منقش چادریں  اوڑھ رکھی تھیں  اورعدنی پگڑیاں  باندھ رکھی تھیں  اورمہری اورارجنی اونٹنیوں  پرسوار تھے ،بڑے ادب اورجوش سے چلتے ہوئے آئے،مالک رضی اللہ عنہ بن نمط اور دوسرا آدمی ذوالمشعارنےرجزیہ اشعارپڑھ رہے تھے۔

هَمْدَانُ خَیْرٌ سُوقَةً وَأَقْیَالْ،لَیْسَ لَهَا فِی الْعَالَمِینَ أَمْثَالْ

ہمدان کے باشندے بہترین رہنمااورفرمانرواہیں         دنیامیں  ان کی کوئی نظیرنہیں  ہے۔

مَحَلُّهَا الْهَضْبُ وَمِنْهَا الْأَبْطَالْ،لَهَا إطَابَاتٌ بِهَا وَآكَالْ

وہ بلندجگہ کے رہنے والے ہیں  اوران میں  بڑے بڑے مردان دلاورہیں  ،جن کوتحفے اورنذرانے دیئے جاتے ہیں  ۔

إلَیْكَ جَاوَزْنَ سَوَادَ الرِّیفِ

ہم آپ کی خدمت میں  ایسے علاقے سے آئے ہیں  جہاں  سرسبززمینیں  بھی ہیں  اوربنجربھی۔

فِی هَبَوَاتِ الصَّیْفِ وَالْخَرِیفِ ،مُخَطَّمَاتٍ بِحِبَالِ اللِّیفِ

وہاں  گرمیوں  اورخزاں  میں  بارآلودہوائیں  چلتی ہیں  ،ہم ایسی اونٹنیوں  پرسوارہوکرآئے ہیں  جن کی ناک میں  کھجورکی چھال کی مہاریں  ہیں  ۔(ابن هشام ۵۹۷؍۲)

فَقَامَ مَالِكُ بْنُ نَمَطٍ بَیْنَ یَدَیْهِ، فَقَالَ: یَا رَسُولَ اللهِ، نَصَّیةٌ مِنْ هَمْدَانَ، مِنْ كُلِّ حَاضِرٍ وَبَادٍ، أَتَوْكَ عَلَى قُلُصٍ نَوَاجٍ ، مُتَّصِلَةٌ بِحَبَائِلِ الْإِسْلَامِ لَا تَأْخُذُهُمْ فِی اللهِ لَوْمَةُ لَائِمٍ، مِنْ مِخْلَافِ خَارِفٍ وَیَامٍ وَشَاكِرٍ أَهْلُ السُّودِ وَالْقَوَدِ ، أَجَابُوا دَعْوَةَ الرَّسُولِ، وَفَارَقُوا الْإِلَهَاتِ الْأَنْصَابَ ، عَهْدُهُمْ لَا یُنْقَضُ مَا أَقَامَتْ لَعْلَعٌ ، وَمَا جَرَى الْیَعْفُورُ

جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے آکرکھڑے ہوئے تومالک بن نمط نے عرض کیااے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !ہمدان کے لوگ شہر اور دیہات سے آپ کی خدمت اقدس میں  حاضر ہوئےہیں  ، اور اسلام کے احکامات پر عمل پیرائی ان کا شیوہ بن چکی ہے، اللہ کے معاملے میں  کسی ملامت کافکرنہیں  کرتے ،بڑے بہادرہیں  انہوں  نے اللہ اوراس کے رسول کی دعوت اسلام کوقبول کرلیاہے اوربت پرستی چھوڑدی ہے،یہ لوگ عہدکے بڑے پکے ہیں  ان کاعہدوپیمان کبھی شکستہ نہیں  ہوسکتا۔

وأمَّرَ علیهم مالك بن النمط، واستعمله جعله عاملًا، أی: أمیرًا على من أسلم من قومه وَأَمَرَهُ بِقِتَالِ ثَقِیفٍ، وَكَانَ لَا یَخْرُجُ لَهُمْ سَرْحٌ إِلَّا أَغَارُوا عَلَیْهِ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مالک رضی اللہ عنہ بن نمط کوبنوہمدان کا امیر مقرر فرمایا،اورجوبھی ان میں  سے مسلمان ہوتااس کاامیرانہی کوقراردیتے تھے، اورانہیں  ثقیف کے ساتھ جہادکرنے کاحکم دیا،ان کی حالت یہ تھی کہ جوجماعت بھی اس طرف نکلتی یہ لوگ اس (ثقیف)پرغارت گری کرتے۔[14]

اس کی سندضعیف ہے۔

اورایک تحریری فرمان کے ذریعے بنوہمدان کووہ جاگیریں  عطافرمائیں  جو انہوں  نے مانگیں  ۔

فَكَتَبَ لَهُمْ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ كِتَابًا فِیهِ:

اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک فرمان لکھ کرعنایت فرمایا اس فرمان کامضمون یہ تھا۔

بِسْمِ اللهِ الرّحْمَنِ الرّحِیمِ

هَذَا كِتَابٌ مِنْ رَسُولِ اللهِ مُحَمّدٍ، لِمِخْلَافِ خَارِفٍ وَأَهْلِ جَنَابِ الْهَضْبِ وَحِقَافِ الرّمْلِ مَعَ وَفْدِهَا ذِی الْمِشْعَارِ مَالِكِ بْنِ نَمَطٍ وَمَنْ أَسْلَمَ مِنْ قَوْمِهِ عَلَى أَنّ لَهُمْ فِرَاعَهَا وَوِهَاطَهَا، مَا أَقَامُوا الصّلَاةَ وَآتَوْا الزّكَاةَ یَأْكُلُونَ عِلَافَهَا وَیَرْعَوْنَ عَافِیَهَا، لَهُمْ بِذَلِكَ عَهْدُ اللهِ وَذِمَامُ رَسُولِهِ وَشَاهِدُهُمْ الْمُهَاجِرُونَ وَالْأَنْصَارُ

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

محمدرسول اللہ( صلی اللہ علیہ وسلم )کی تحریرہے قبیلہ خارف کے شہری ،بلنداورریگستانی زمین والوں  کے لئے جن کے ساتھ ان کانمائندہ ذوالمشعار(مالک بن نمط) ہے ، اور ان لوگوں  کے لئے جوان کی قوم سے اسلام لائے ہیں  ،ان کے لئے ان کی بلنداورنشیبی زمینیں  ہیں  جب تک وہ نمازقائم کرتے رہیں  گے اورزکوٰة ادا کرتے رہیں  گے،یہ لوگ وہاں  کی پیداوارکھائیں  گے اورگھاس جانوروں  کوکھلائیں  گے ،ان کے لئے اللہ اوراس کے رسول کاعہدہے،اس پرمہاجرین وانصارگواہ ہیں  ۔[15]

فَقَالَ فِی ذَلِكَ مَالِكُ بْنُ نَمَطٍ:

علامہ بن اثیر رحمہ اللہ کابیان ہےمالک رضی اللہ عنہ بن نمط نے بارگاہ نبوت میں  اوربھی بہت سے فصیح وبلیغ اشعارپڑھے،ان میں  سے کچھ یہ ہیں  ۔

ذَكَرْت رَسُولَ اللهِ فِی فَحْمَةِ الدّحَى، ،وَنَحْنُ بِأَعْلَى رَحْرَحَانَ وَصَلْدَدِ

میں  نے کفرکے گھٹاٹوپ اندھیرے میں  اس وقت رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم )کویادکیاجب ہم رحرحان(پہاڑ)اورصلددکی بلندیوں  پرتھے،

وَهُنّ بِنَا خُوصٌ طَلَائِحُ تَعْتَلِی ،بِرُكْبَانِهَا فِی لَاحِبٍ مُتَمَدّدِ

ہماری اونٹنیاں  ہمیں  نشیب میں  لارہی تھیں  اورتھک گئی تھیں  ،یہ اونٹنیاں  اپنے سواروں  کولئے صاف اورکشادہ راہوں  کی طرف بڑھ رہی تھیں  ۔

عَلَى كُلّ فَتْلَاءِ الذّرَاعَیْنِ جَسْرَةٍ ،تَمُرّ بِنَا مَرّ الْهِجَفّ الخَفَیْدَدِ

ان کی مضبوط ٹانگوں  پرگھنے بال تھے اوروہ ہمیں  یوں  اڑائے لئے جارہی تھیں  جیسے تیزرفتارشترمرغ دوڑتاہے۔

حَلَفْت بِرَبّ الرّاقِصَاتِ إلَى مِنًى،صَوَادِرَ بِالرّكْبَانِ مِنْ هَضْبِ قَرْدَدِ

میں  قسم کھاتاہوں  منٰی کی طرف جھومتے ہوئے جانے والی اونٹنیوں  کے رب کی جوبلندوبالازمینوں  سے سواروں  کولے کرواپس آتی ہیں  ۔

بِأَنّ رَسُولَ اللهِ فِینَا مُصَدّقٌ ،رَسُولٌ أَتَى مِنْ عِنْدِ ذِی الْعَرْشِ مُهْتَدِی

ہمیں  بتایاگیاہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جوہم میں  موجودہیں  وہ صادق ہیں  اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی وہ رسول ہیں  جوراہ راست دکھانے والے ہیں  اورمالک عرش کی طرف سے بھیجے گئے ہیں  ۔

فَمَا حَمَلَتْ مِنْ نَاقَةٍ فَوْقَ رَحْلِهَا ،أَشَدّ عَلَى أَعْدَائِهِ مِنْ مُحَمّدِ

آج تک کسی اونٹنی کے کجاوے سے کسی شخص نے  اپنے دشمنوں  پرمحمد صلی اللہ علیہ وسلم سے شدیدترحملہ نہیں  کیا۔

وَأَعْطَى إذَا مَا طَالِبُ الْعُرْفِ جَاءَهُ ، ،وَأَفْضَى بِحَدّ الْمَشْرَفِیّ الْمُهَنّدِ

جب بھی کوئی مالی امدادمانگنے والاآپ کی خدمت میں  آتاہے توآپ اسے بے حساب عطافرماتے ہیں  اورآپ کی قوت فیصلہ مہندی مشرفی تلوارکی دھارسے بھی تیزہے۔[16]

سانڈھے کاگوشت:

أَخْبَرَهُ أَنَّ خَالِدَ بْنَ الوَلِیدِ، الَّذِی یُقَالُ لَهُ سَیْفُ اللَّهِ، أَخْبَرَهُ أَنَّهُ دَخَلَ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عَلَى مَیْمُونَةَ، وَهِیَ خَالَتُهُ وَخَالَةُ ابْنِ عَبَّاسٍ، فَوَجَدَ عِنْدَهَا ضَبًّا مَحْنُوذًا، قَدْ قَدِمَتْ بِهِ أُخْتُهَا حُفَیْدَةُ بِنْتُ الحَارِثِ مِنْ نَجْدٍ، فَقَدَّمَتِ الضَّبَّ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، وَكَانَ قَلَّمَا یُقَدِّمُ یَدَهُ لِطَعَامٍ حَتَّى یُحَدَّثَ بِهِ وَیُسَمَّى لَهُ، فَأَهْوَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَدَهُ إِلَى الضَّبِّ،

خالدبن ولید رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ایک دن وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ ام المومنین میمونہ رضی اللہ عنہا کے ہاں  گئےام المومنین ان کی اورابن عباس رضی اللہ عنہما کی خالہ ہیں  ،ان کے یہاں  بھناہواساہنہ موجودتھاجو ان کی بہن حفیدہ نجدسے لائی تھی،انہوں  نے وہ گوشت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں  پیش کیا،ایسابہت کم ہوتاتھاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کسی کھانے کے لیے اس وقت تک ہاتھ بڑھائیں  جب تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کواس کے متعلق بتانہ دیاجائے کہ یہ فلاں  کھاناہے لیکن اس مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے(بغیردریافت کئے)بھنے ہوئے ساہنے کے گوشت کی طرف ہاتھ بڑھایا

 فَقَالَتِ امْرَأَةٌ مِنَ النِّسْوَةِ الحُضُورِ: أَخْبِرْنَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مَا قَدَّمْتُنَّ لَهُ، هُوَ الضَّبُّ یَا رَسُولَ اللَّهِ، فَرَفَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَدَهُ عَنِ الضَّبِّ، فَقَالَ خَالِدُ بْنُ الوَلِیدِ: أَحَرَامٌ الضَّبُّ یَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ:لاَ، وَلَكِنْ لَمْ یَكُنْ بِأَرْضِ قَوْمِی، فَأَجِدُنِی أَعَافُهُ قَالَ خَالِدٌ: فَاجْتَرَرْتُهُ فَأَكَلْتُهُ، وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَنْظُرُ إِلَیَّ

اتنے میں  وہاں  موجودعورتوں  میں  سے ایک عورت نے کہاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوبتاکیوں  نہیں  دیتیں  کہ اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے جوتم نے پیش کیاہے وہ ساہنہ ہے ، اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !(یہ سن کر)آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپناہاتھ ساہنہ سے ہٹالیا،خالد رضی اللہ عنہ بن ولیدنے پوچھااے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم !کیاساہنہ حرام ہے؟رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایانہیں  ہمارے ملک میں  چونکہ پایانہیں  جاتااس لئے میری طبیعت پسندنہیں  کرتی،خالد رضی اللہ عنہ نے بیان کیاکہ پھرمیں  نے اسے اپنی طرف کھینچ لیااوراسے کھایااس وقت رسول اللہ مجھے دیکھ رہے تھے۔[17]

تہجدکاایک واقعہ:

أَنَّ ابْنَ عَبَّاسٍ أَخْبَرَهُ، أَنَّهُ بَاتَ لَیْلَةً عِنْدَ مَیْمُونَةَ أُمِّ الْمُؤْمِنِینَ، وَهِیَ خَالَتُهُ، قَالَ: فَاضْطَجَعْتُ فِی عَرْضِ الْوِسَادَةِ، وَاضْطَجَعَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَأَهْلُهُ فِی طُولِهَا، فَنَامَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى انْتَصَفَ اللَّیْلُ، أَوْ قَبْلَهُ بِقَلِیلٍ، أَوْ بَعْدَهُ بِقَلِیلٍ، اسْتَیْقَظَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَجَعَلَ یَمْسَحُ النَّوْمَ عَنْ وَجْهِهِ بِیَدِهِ، ثُمَّ قَرَأَ الْعَشْرَ الْآیَاتِ الْخَوَاتِمَ مِنْ سُورَةِ آلِ عِمْرَانَ، ثُمَّ قَامَ إِلَى شَنٍّ مُعَلَّقَةٍ، فَتَوَضَّأَ مِنْهَا فَأَحْسَنَ وُضُوءَهُ، ثُمَّ قَامَ فَصَلَّى،

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہےایک رات میں  ام المومنین میمونہ رضی اللہ عنہا کے گھررہےجو کہ ان کی خالہ تھی، اورمیراارادہ یہ تھاکہ آج رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نمازدیکھوں  گا،میری خالہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے گدابچھادیا،میں  بسترکے عرض میں  لیٹ گیا،اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اورآپ کی زوجہ مطہرہ رضی اللہ عنہا اس کے طول میں  لیٹ گئے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آدھی رات تک سوتے رہےیاکچھ پہلے یاکچھ بعدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جاگے، اور نیندکااثردورکرنے کے لئے اپنے ہاتھوں  کوچہرہ پرملنے لگے،پھرسورہ آل عمران کی آخری دس آیات تلاوت فرمائیں  ،پھرایک لٹکی ہوئی پرانی مشک کے پاس گئے اوراس سے وضوکیااورخوب اچھی طرح سے وضوکیاپھر نمازپڑھنے کے لیے کھڑے ہوگئے،

قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: فَقُمْتُ فَصَنَعْتُ مِثْلَ مَا صَنَعَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ ذَهَبْتُ فَقُمْتُ إِلَى جَنْبِهِ، فَوَضَعَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَدَهُ الْیُمْنَى عَلَى رَأْسِی، وَأَخَذَ بِأُذُنِی الْیُمْنَى یَفْتِلُهَا، فَصَلَّى رَكْعَتَیْنِ، ثُمَّ رَكْعَتَیْنِ، ثُمَّ رَكْعَتَیْنِ، ثُمَّ رَكْعَتَیْنِ، ثُمَّ رَكْعَتَیْنِ، ثُمَّ رَكْعَتَیْنِ، ثُمَّ أَوْتَرَ، ثُمَّ اضْطَجَعَ حَتَّى جَاءَ الْمُؤَذِّنُ، فَقَامَ فَصَلَّى رَكْعَتَیْنِ خَفِیفَتَیْنِ، ثُمَّ خَرَجَ فَصَلَّى الصُّبْحَ

ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں  پھرجوکچھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیاتھاوہی سب کچھ میں  نے بھی کیااورپھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بائیں  جانب کھڑاہوگیا،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپناسیدھاہاتھ میرے سرپر رکھااورمیراداہنا کان (شفقت سے) پکڑکرمروڑتے تھے(تاکہ بچہ کونیندنہ آجائے)پھر آپ نے دورکعتیں  پڑھیں  ،پھردورکعتیں  پڑھیں  ،پھردورکعتیں  ،پھردورکعتیں  ،پھردورکعتیں  ،پھردورکعتیں  پڑھیں  پھروترپڑھاپھرآپ لیٹ گئے ، پھر جب موذن نے آذان دی تواذان کے بعددوہلکی رکعتیں  پڑھیں  ،پھرآپ باہر تشریف لے گئے اورصبح کی نمازپڑھائی۔[18]

اسی طرح عبداللہ رضی اللہ عنہ بن عباس ایک رات پھراپنی خالہ کے گھرپررہے اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے وضوکاپانی بھرکررکھا،

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ،: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلّى الله علیه وسلم كَانَ فِی بَیْتِ مَیْمُونَةَ فَوَضَعَتُ لَهُ وَضُوءًا مِنَ اللَّیْلِ، فَقَالَتْ مَیْمُونَةُ: یَا رَسُولَ اللَّهِ وَضَعَ لَكَ هَذَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبَّاسٍ فَقَالَ:اللَّهُمَّ فَقِّهْهُ فِی الدِّینِ، وَعَلِّمْهُ التَّأْوِیلَ

عبداللہ رضی اللہ عنہ بن عباس سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میری خالہ ام المومنین میمونہ کے گھرپرتھے میں  نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے تہجدکے لیےرات کووضوکاپانی بھرکررکھ دیا ،جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم تہجدکے لیے بیدارہوئے تووضوکے لیے ایک برتن میں  پانی موجودپایاوضوفرمانے کے بعدآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ام المومنین میمونہ رضی اللہ عنہا سے پوچھاوضوکاپانی کون لایا تھا،ام المومنین میمونہ رضی اللہ عنہا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہااے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! یہ وضوکاپانی عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے آپ کے وضوکے لیے بھرکررکھاہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم بہت خوش ہوئے اوردعافرمائی اے اللہ!اس کوتفقہ فی الدین عطافرمااورتاویل کاطریقہ سکھا[19]

زاہر رضی اللہ عنہ بن حرام اشجعی

عَنْ رَجُلٍ مِنْ أَشْجَعَ یُقَالُ لَهُ زَاهِرُ بْنُ حَرَامٍ الْأَشْجَعِیُّ قَالَ: وَكَانَ بَدْوِیًّا لَا یَأْتِی النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ إِلَّا بِطُرْفَةٍ أَوْ بِهَدِیَّةٍ فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:لِكُلِّ حَاضِرَةٍ بَادِیَةٌ وَبَادِیَةُ آلِ مُحَمَّدٍ زَاهِرُ بْنُ حَرَامٍ

قبیلہ اشجعی کے ایک شخص تھے جن کانام زاہر رضی اللہ عنہ بن حرام اشجعی تھا،ان کی سکونت دیہات میں  تھی،انہیں  سرورعالم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس قدرعقیدت اورمحبت تھی کہ جب کبھی اپنے گاؤں  سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں  حاضرہوتے تودیہات سے ضرورکوئی تحفہ لے کرآتے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایاکرتے تھے ہرشہری کاکوئی نہ کوئی دیہاتی(بادیہ نشین)دوست ہوتاہے آل محمدکادیہاتی دوست زہر رضی اللہ عنہ بن حرام ہے۔[20]

فَیُجَهِّزُهُ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ إِذَا أَرَادَ أَنْ یَخْرُجَ ،قال: وكان النَّبِیّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یحبه

جب وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے رخصت ہوتے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی انہیں  کوئی نہ کوئی چیزضرورعطافرماتے تھے،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کوزاہر رضی اللہ عنہ سے بڑاانس اورلگاؤتھا۔[21]

اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم ان سے گاہے گاہے مذاق بھی فرمالیتے تھے،

ووجده رَسُول اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یوما بسوق المدینة، فأخذه مِنْ وَرَائِهِ، ووضع یدیه على عینیه، وَقَالَ: مَنْ یَشْتَرِی الْعَبْدَ؟ فأحس به زاهر، وفطن أنه رَسُول اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: إذن تَجِدُنِی یَا رَسُولَ اللهِ كَاسِدًا، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: بل أنت عِنْدَ اللهِ رَبِیحٌ، شهد بدرًا مع النَّبِیّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ

ایک دن زاہر رضی اللہ عنہ مدینہ منورہ کے بازارمیں  کچھ بیچ رہے تھے اتفاق سے سیدالامم صلی اللہ علیہ وسلم ادھرسے گزرے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے زاہر رضی اللہ عنہ کو دیکھا تو ان کی پشت کی طرف جاکران کی آنکھوں  پراپنے دست مبارک رکھ دیئے، اورفرمایااس غلام کوکون خریدتاہے؟زاہر رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کوپہچان لیااورخیال کیاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں  اورعرض کیا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !اس تجارت میں  توآپ مجھے نہایت کم قیمت پائیں  گے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایانہیں  توبارگاہ الٰہی میں  بہت قیمتی ہے،انہوں  نے غزوہ بدرمیں  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہمرکابی کاشرف حاصل کیا۔[22]

 ثم انتقل زاهر ابن حرام إلى الكوفة

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعدزاہر رضی اللہ عنہ بن حرام کوفہ میں  مستقل سکونت اختیارکرلی تھی۔[23]

رئیس المنافقین کاانتقال(ذو القعدہ نوہجری)

غزوہ تبوک سے واپسی پر بیس دن بیماررہنے کے بعدذی القعدہ نوہجری میں  رئیس المنافقین عبداللہ بن ابی بن سلول کاانتقال ہوگیا،

عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: لَمَّا تُوُفِّیَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أُبَیٍّ، جَاءَ ابْنُهُ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَسَأَلَهُ أَنْ یُعْطِیَهُ قَمِیصَهُ یُكَفِّنُ فِیهِ أَبَاهُ، فَأَعْطَاهُ، ثُمَّ سَأَلَهُ أَنْ یُصَلِّیَ عَلَیْهِ

ابن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہےجب عبداللہ بن ابی فوت ہوگیاتواس کے بیٹے عبداللہ بن عبداللہ جومخلص مسلمانوں  میں  سے تھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں  حاضرہوئے اورعرض کیاکہ ایک توآپ (بطورتبرک)اپنی قمیص عنایت فرمادیں  تاکہ میں  اپنے باپ کواس میں  کفنادوں  ،آپ نے کمال فراخ دلی کے ساتھ قمیص بھی عنایت فرمادی، پھراس نے درخواست کی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی نمازجنازہ پڑھادیں  ۔[24]

جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: لَمَّا كَانَ یَوْمَ بَدْرٍ أُتِیَ بِأُسَارَى، وَأُتِیَ بِالعَبَّاسِ وَلَمْ یَكُنْ عَلَیْهِ ثَوْبٌ، فَنَظَرَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ لَهُ قَمِیصًا، فَوَجَدُوا قَمِیصَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أُبَیٍّ یَقْدُرُ عَلَیْهِ، فَكَسَاهُ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ إِیَّاهُ، فَلِذَلِكَ نَزَعَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَمِیصَهُ الَّذِی أَلْبَسَهُ قَالَ ابْنُ عُیَیْنَةَ كَانَتْ لَهُ عِنْدَ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَدٌ فَأَحَبَّ أَنْ یُكَافِئَهُ

جابربن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے غزوہ بدرکی لڑائی سے قیدی (مشرکین مکہ)لائے گئے جن میں  عباس رضی اللہ عنہ بن عبدالمطلب بھی تھے ان کے بدن پرکوئی کپڑانہیں  تھا،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لیے قمیص تلاش کروائی (وہ لمبے قدکے تھے)اس لیے عبداللہ بن ابی (منافق )کی قمیص ہی ان کے بدن پرپوری آئی اورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں  وہ قمیص پہنادی، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے(عبداللہ بن ابی کی موت کے بعد)اپنی قمیص اتارکراسے پہنائی،ابن عیینہ نے کہاکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پرجواس کااحسان تھارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چاہاکہ اسے اداکردیں  ۔[25]

عَنْ عُمَرَ بْنِ الخَطَّابِ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّهُ قَالَ:فَلَمَّا قَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَثَبْتُ إِلَیْهِ، فَقُلْتُ: یَا رَسُولَ اللَّهِ أَتُصَلِّی عَلَى ابْنِ أُبَیٍّ، وَقَدْ قَالَ یَوْمَ كَذَا: كَذَا وَكَذَا، قَالَ: أُعَدِّدُ عَلَیْهِ قَوْلَهُ، فَتَبَسَّمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَقَالَ:أَخِّرْ عَنِّی یَا عُمَرُ فَلَمَّا أَكْثَرْتُ عَلَیْهِ قَالَ:إِنِّی خُیِّرْتُ فَاخْتَرْتُ، لَوْ أَعْلَمُ أَنِّی إِنْ زِدْتُ عَلَى السَّبْعِینَ یُغْفَرْ لَهُ لَزِدْتُ عَلَیْهَا قَالَ: فَصَلَّى عَلَیْهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ انْصَرَفَ، فَلَمْ یَمْكُثْ إِلَّا یَسِیرًا،

سیدناعمر رضی اللہ عنہ بن خطاب فرماتے ہیں  جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی نمازجنازہ پڑھانے کے لئے تشریف لے گئے تومیں  نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کادامن تھام کر بار بار اصرارکیااے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم کیاآپ ابن ابی پرنمازجنازہ پڑھیں  گے حالانکہ اس نے فلاں  فلاں  دن اس اس طرح کی باتیں  (اسلام کے خلاف)کی تھیں  ؟سیدناعمر رضی اللہ عنہ نے بیان کیاکہ میں  اس کی کہی ہوئی باتیں  ایک ایک کرکے اس کے اقوال قبیحہ گننے لگا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کی یہ سب باتیں  سن کر مسکراتے رہے، اوراپنی اس رحمت کی بناپرجودوست دشمن سب کے لئے عام تھی آپ نے اس بدترین دشمن کے حق میں  بھی دعائے مغفرت کرنے میں  تامل نہ کیا،اورفرمایااے عمر رضی اللہ عنہ !ہٹ جاؤ(اورصف میں  جاکے کھڑے ہوجاؤ)جب میں  نے بارباراصرارکیا،توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااللہ نے مجھے (دعاکرنے یانہ کرنے کا) اختیاردیاگیاہے(یعنی مطلق منع نہیں  کیا)اس لیے میں  نے (اس کے لیے استغفارکرنے اوران کی نمازجنازہ پڑھانے ہی کو)پسندکیااگرمجھے یہ معلوم ہوجائے کہ سترمرتبہ سے زیادہ استغفارکرنے سے اس کی مغفرت ہوجائے گی تومیں  سترمرتبہ سے زیادہ استغفار کروں  گاچنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نمازجنازہ پڑھا ئی اورواپس تشریف لائےاور تھوڑی ہی دیر ٹھیرے تھے۔[26]

عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُمَا، أَنَّهُ قَالَ: فَصَلَّى عَلَیْهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَصَلَّیْنَا مَعَهُ

ابن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہےسیدناعمر رضی اللہ عنہ نے بیان کیاپھررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پرنمازجنازہ پڑھی اورہم نے بھی اس کے ساتھ پڑھی۔[27]

جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ، رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ:أَتَى النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ أُبَیٍّ بَعْدَ مَا أُدْخِلَ قَبْرَهُ، فَأَمَرَ بِهِ فَأُخْرِجَ، وَوُضِعَ عَلَى رُكْبَتَیْهِ، وَنَفَثَ عَلَیْهِ مِنْ رِیقِهِ، وَأَلْبَسَهُ قَمِیصَهُ، فَاللَّهُ أَعْلَمُ

جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قبرستان پہنچے تومعلوم ہواکہ عبداللہ بن ابی کودفنایاجاچکاہے ،چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے قبر سے نکلوایااوراپنے گھٹنوں  پررکھ کراس پراپنالعاب دہن تھوکا،اپنی قمیص اسے پہنائی(پھراسے دفن کرادیا) ۔[28]

حَتَّى نَزَلَتِ الآیَتَانِ مِنْ بَرَاءَةٌ: {وَلاَ تُصَلِّ عَلَى أَحَدٍ مِنْهُمْ مَاتَ أَبَدًا}،[29] إِلَى قَوْلِهِ {وَهُمْ فَاسِقُونَ}، [30]

اس کے بعداللہ تعالیٰ نے یہ آیت’’اور آئندہ ان میں  سے جو کوئی مرے اس کی نماز جنازہ بھی تم ہرگز نہ پڑھنا اور نہ کبھی اس کی قبر پر کھڑے ہونا کیونکہ انہوں  نے اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ کفر کیا ہے اور وہ مرے ہیں  اس حال میں  کہ وہ فاسق تھے۔ ‘‘ نازل فرمائی۔[31]

عَنْ عُمَرَ بْنِ الخَطَّابِ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّهُ قَالَ:فَعَجِبْتُ بَعْدُ مِنْ جُرْأَتِی عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَاللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ

سیدناعمر رضی اللہ عنہ بن خطاب کہتے تھےمجھے اپنی جرات پرتعجب ہوا حالانکہ اللہ اوراس کا رسول ہی زیادہ جانتے ہیں  ۔[32]

أَنَّ أَبَا هُرَیْرَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:مَنْ شَهِدَ الجَنَازَةَ حَتَّى یُصَلِّیَ، فَلَهُ قِیرَاطٌ، وَمَنْ شَهِدَ حَتَّى تُدْفَنَ كَانَ لَهُ قِیرَاطَانِ، قِیلَ: وَمَا القِیرَاطَانِ؟ قَالَ:مِثْلُ الجَبَلَیْنِ العَظِیمَیْنِ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص جنازے میں  جائے اورنمازپڑھے جانے تک ساتھ رہے اسے ایک قیراط ثواب ملتاہے اورجودفن تک ساتھ رہے اسے دوقیراط ملتے ہیں  ، صحابہ رضی اللہ عنہم نے پوچھاقیراطان کیا ہے ؟ فرمایاسب سے بڑے دو پہاڑوں  کی مانند۔[33]

کیونکہ اب یہ مستقل پالیسی مقرر کی جاچکی تھی کہ مسلمانوں  کی جماعت میں  منافقین کوکسی طرح پنپنے نہ دیا جائے، اورکوئی ایساکام نہ کیاجائے جس سے اس گروہ کی ہمت افزائی ہو،اس لئے اللہ نے فیصلہ صادر فرما دیا کہ جن لوگوں  کاکرداراس قدرگھناؤناہوکہ ان کاخاتمہ کفروفسق پر ہوان کی نہ نمازجنازہ پڑھنی چاہیے، اورنہ ان کے لئے مغفرت کی دعاکرنی جائزہے،یعنی اب کسی شفاعت کرنے والے کی شفاعت ان کے کام نہ آئے گی،

حَدَّثَنِی عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِی قَتَادَةَ، عَنْ أَبِیهِ قَالَ:، كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: إِذَا دُعِیَ لِجِنَازَةٍ سَأَلَ عَنْهَا، فَإِنْ أُثْنِیَ عَلَیْهَا خَیْرٌ قَامَ فَصَلَّى عَلَیْهَا، وَإِنْ أُثْنِیَ عَلَیْهَا غَیْرُ ذَلِكَ قَالَ لِأَهْلِهَا:شَأْنُكُمْ بِهَا وَلَمْ یُصَلِّ عَلَیْهَا

ابوقتادہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں  اس کے بعدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاطریقہ ہوگیاتھاکہ جب کسی جنازہ پر تشریف لے جاتے توپہلے مرنے والے کے متعلق دریافت فرماتے اگرمعلوم ہوجاتا کہ اس کاچلن صحیح تھا تو آپ اس کی نماز جنازہ پڑھاتےاور اگر چال چلن صحیح نہیں  تھاتوآپ اس کاجنازہ نہ پڑھاتےاور اس کے گھروالوں  سے فرما دیتے کہ تمہیں  اختیارہے جس طرح چاہواسے دفن کر دو۔ [34]

وَلَا تُصَلِّ عَلَىٰ أَحَدٍ مِّنْهُم مَّاتَ أَبَدًا وَلَا تَقُمْ عَلَىٰ قَبْرِهِ ۖ إِنَّهُمْ كَفَرُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ وَمَاتُوا وَهُمْ فَاسِقُونَ ‎﴿٨٤﴾‏ وَلَا تُعْجِبْكَ أَمْوَالُهُمْ وَأَوْلَادُهُمْ ۚ إِنَّمَا یُرِیدُ اللَّهُ أَن یُعَذِّبَهُم بِهَا فِی الدُّنْیَا وَتَزْهَقَ أَنفُسُهُمْ وَهُمْ كَافِرُونَ ‎﴿٨٥﴾‏(التوبة)
ان میں  سے کوئی مرجائےتوآپ اس کے نمازجنازے کی ہرگزنمازنہ پڑھیں  اورنہ اس کی قبرپرکھڑے ہوں  ، یہ اللہ اوراس کے رسول کے منکرہیں  اورمرتے وقت تک بدکاربے اطاعت رہے ہیں  ،آپ کو ان کے مال و اولادکچھ بھی بھلے نہ لگیں  !اللہ کی چاہت یہی ہے کہ انہیں  ان چیزوں  سے دینوی سزادے اوریہ اپنی جانیں  نکلنے تک کافرہی رہیں

اوراے محمد صلی اللہ علیہ وسلم !آئندہ ان میں  سے جوکوئی منافق مرجائے توآپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی نمازجنازہ بھی ہرگزنہ پڑھنااورنہ کبھی اس کی قبرپرکھڑے ہوناکیونکہ انہوں  نے اللہ اوراس کے رسول کے ساتھ کفرکیاہے اوراس حال میں  انہیں  موت آئی ہے کہ وہ فاسق تھے،اوراللہ نے اپنی حکمت ومشیت سے ان لوگوں  کوجومال ودولت اوراولادسے نوازرکھاہے اس سے دھوکانہ کھائیں  کیونکہ اللہ تویہی چاہتاہے کہ ان کوان چیزوں  کی وجہ سے دنیا میں  عذاب میں  رکھے پس وہ اس کے حصول میں  تکالیف اورمشقتیں  برداشت کرتے ہیں  ،اس کے زوال سے خائف رہتے ہیں  ،مال،جاہ ومرتبہ اوراولادکی محبت ان کواللہ اورآخرت سے غافل کردیتے ہیں  یہاں  تک کہ وہ کفرکی حالت میں  ان تمام چیزوں  کوچھوڑکرجن سے وہ محبت کرتے تھے اس دنیا کو چھوڑ کرچل دیتے ہیں  اوراپنی آخرت بربادکرلیتے ہیں  ۔

[1] ابن هشام ۵۸۹،۵۹۰؍۲،الروض الأنف۴۱۴،۴۱۵؍۷

[2] الاموال لابن زنجویہ ۹۵۹ ، صحیح ابن حبان ۴۵۰۴ ، الأحادیث المختارة ۲۰۸۳

[3] موارد الظمآن الی زوائد ابن حبان ۱۶۲۸

[4] زادالمعاد۵۷۱؍۳

[5] زادالمعاد۴۴۲؍۱،ابن سعد ۲۹۷؍۱ ،السیرة النبویة لابن کثیر۱۷۱؍۴

[6] مجموعة الوثائق السیاسیة للعهد النبوی والخلافة الراشدة۲۴۶؍۱،ابن سعد۲۰۴؍۱

[7] مجموعة الوثائق السیاسیة للعهد النبوی والخلافة الراشدة۱۲۸؍۱،ابن سعد۲۰۴؍۱

[8] مجموعة الوثائق السیاسیة للعهد النبوی والخلافة الراشدة۱۶۹؍۱،ابن سعد۲۰۵؍۱

[9] ابن سعد۲۵۹؍۱

[10]ابن سعد ۲۶۴؍۱

[11] ابن سعد۲۹۷؍۱،البدایة والنہایة۱۰۴؍۵،زاد المعاد ۵۷۸؍۳،عیون الاثر۳۱۶؍۲، شرح الزرقانی علی المواھب۲۱۷؍۵،السیرة النبویة لابن کثیر۱۷۲؍۴

[12] زادالمعاد۵۴۵؍۳،دلائل النبوة للبیہقی۳۹۶؍۵،البدایة والنہایة۱۲۱؍۵،تاریخ طبری ۱۳۲؍۳،شرح الزرقانی علی المواھب ۱۷۷؍۵،السیرة النبویة لابن کثیر ۲۰۳؍۴

[13] شرح الزرقانی علی المواھب ۱۷۷؍۵

[14]زادالمعاد۵۴۴؍۳،عیون الآثر۳۰۷؍۲،شرح الزرقانی علی المواھب ۱۷۷؍۵

[15] ابن ہشام۵۹۷؍۲،الروض الانف۴۹۷؍۷،شرح الزرقانی علی المواھب۴۲۶؍۵

[16] ابن هشام ۵۹۸،۵۹۹؍۲، الروض الانف۴۹۸ ،۴۹۷؍۷،عیون الآثر۳۰۷؍۲،شرح الزرقانی علی المواھب۱۷۴؍۵

[17] صحیح بخاری کتاب الاطعمة بَابُ مَا كَانَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ لاَ یَأْكُلُ حَتَّى یُسَمَّى لَهُ، فَیَعْلَمُ مَا هُوَ۵۳۹۱

[18] صحیح بخاری کتاب التفسیر سورة آل عمران بَابُ الَّذِینَ یَذْكُرُونَ اللهَ قِیَامًا وَقُعُودًا وَعَلَى جُنُوبِهِمْ، وَیَتَفَكَّرُونَ فِی خَلْقِ السَّمَوَاتِ وَالأَرْضِ۴۵۷۰،صحیح مسلم کتاب صلاة المسافرین بَابُ الدُّعَاءِ فِی صَلَاةِ اللیْلِ وَقِیَامِهِ۱۷۸۹

[19]۔ابن سعد۲۷۹؍۳

[20] معجم الصحابة لابن قانع ۲۳۷؍۱

[21] اسد الغابة ۳۰۲؍۲

[22] اسدالغابة۳۰۲؍۲

[23] الاستیعاب فی معرفة الأصحاب۵۰۹؍۲

[24] صحیح بخاری کتاب التفسیرسورة التوبہ بَابُ قَوْلِهِ اسْتَغْفِرْ لَهُمْ أَوْ لاَ تَسْتَغْفِرْ لَهُمْ إِنْ تَسْتَغْفِرْ لَهُمْ سَبْعِینَ مَرَّةً فَلَنْ یَغْفِرَ اللهُ لَهُمْ ۴۶۷۰،صحیح مسلم کتاب الفضائل بَابُ مِنْ فَضَائِلِ عُمَرَ رَضِیَ اللهُ تَعَالَى عَنْهُ۶۲۰۷

[25] صحیح بخاری كِتَابُ الجِهَادِ وَالسِّیَرِبَابُ الكِسْوَةِ لِلْأُسَارَى عن جابر ۳۰۰۸

[26] صحیح بخاری کتاب تفسیرسورہ برات بَابُ قَوْلِهِ اسْتَغْفِرْ لَهُمْ أَوْ لاَ تَسْتَغْفِرْ لَهُمْ إِنْ تَسْتَغْفِرْ لَهُمْ سَبْعِینَ مَرَّةً فَلَنْ یَغْفِرَ اللهُ لَهُمْ۴۶۷۱، صحیح مسلم کتاب الفضائل صِفَاتِ الْمُنَافِقِینَ وَأَحْكَامِهِمْ۷۰۲۷،مسنداحمد۹۵

[27] صحیح بخاری کتاب التفسیرسورة براة بَابُ قَوْلِهِ وَلاَ تُصَلِّ عَلَى أَحَدٍ مِنْهُمْ مَاتَ أَبَدًا، وَلاَ تَقُمْ عَلَى قَبْرِهِ۴۶۷۲

[28] صحیح بخاری کتاب اللباس بَابُ لُبْسِ القَمِیصِ ۵۷۹۵، وکتاب الجنائزبَابٌ هَلْ یُخْرَجُ المَیِّتُ مِنَ القَبْرِ وَاللحْدِ لِعِلَّةٍ ۱۳۵۰،صحیح مسلم کتاب الفضائل باب صِفَاتِ الْمُنَافِقِینَ وَأَحْكَامِهِمْ۷۰۲۵

[29] التوبة: 84

[30] التوبة: 84

[31] صحیح بخاری کتاب التفسیرسورة براة بَابُ قَوْلِهِ وَلاَ تُصَلِّ عَلَى أَحَدٍ مِنْهُمْ مَاتَ أَبَدًا، وَلاَ تَقُمْ عَلَى قَبْرِ هِ۴۶۷۲

[32] صحیح بخاری کتاب التفسیرسورہ التوبہ بَابُ قَوْلِهِ اسْتَغْفِرْ لَهُمْ أَوْ لاَ تَسْتَغْفِرْ لَهُمْ إِنْ تَسْتَغْفِرْ لَهُمْ سَبْعِینَ مَرَّةً فَلَنْ یَغْفِرَ اللهُ لَهُمْ۴۶۷۱، وکتاب الجنائزبَابُ مَا یُكْرَهُ مِنَ الصَّلاَةِ عَلَى المُنَافِقِینَ، وَالِاسْتِغْفَارِ لِلْمُشْرِكِینَ ۱۳۶۶

[33] صحیح بخاری کتاب الجنائزبَابُ مَنِ انْتَظَرَ حَتَّى تُدْفَنَ ۱۳۲۵، صحیح مسلم کتاب الجنائز بَابُ فَضْلِ الصَّلَاةِ عَلَى الْجَنَازَةِ وَاتِّبَاعِهَا ۲۱۹۳،مسنداحمد۷۱۸۸

[34] مسنداحمد۲۲۵۵۵

Related Articles