ہجرت نبوی کا نواں سال

نمازجنازہ

میت پرنمازجنازہ پڑھناواجب ہے:

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ كَانَ یُؤْتَى بِالرَّجُلِ المُتَوَفَّى عَلَیْهِ الدَّیْنُ، فَیَسْأَلُ:هَلْ تَرَكَ لِدَیْنِهِ فَضْلًا؟ فَإِنْ حُدِّثَ أَنَّهُ تَرَكَ وَفَاءً صَلَّى، وَإِلَّا قَالَ لِلْمُسْلِمِینَ:صَلُّوا عَلَى صَاحِبِكُمْ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جب کسی ایسے شخص کاجنازہ لایاجاتاجس پرقرض ہوتاتوآپ صلی اللہ علیہ وسلم دریافت فرماتے مرنے والے نے قرض کی ادائیگی کے لیے ترکہ چھوڑاہےیانہیں  ؟اگرکہاجاتاکہ اتناچھوڑاہے جس سے ان کاقرض اداہوسکتاہے توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نمازپڑھتے ،ورنہ مسلمانوں  سے کہتے کہ اپنے ساتھی پرتم ہی نمازپڑھ لو۔[1]

إِنَّمَا كَانَ یَتْرُكُ الصَّلَاةَ عَلَیْهِ لِیُحَرِّضَ النَّاسَ عَلَى قَضَاءِ الدَّیْنِ فِی حَیَاتِهِمْ وَالتَّوَصُّلِ إِلَى الْبَرَاءَةِ مِنْهَا لِئَلَّا تَفُوتَهُمْ صَلَاةُ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ

امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں  آپ صلی اللہ علیہ وسلم قرضدارپراس لیے نمازنہ پڑھتے تھے تاکہ جولوگ زندہ ہیں  اس کوڈرپیداہو،اوروہ قرض کی ادائیگی میں  کوشش کریں  ، ایسانہ ہوکہ مرجائیں  اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان پرنمازنہ پڑھیں  ۔[2]

الصَّلَاةُ عَلَى مَوْتَى الْمُسْلِمِینَ: فَرْضٌ

ابن حزم رحمہ اللہ کہتے ہیں  مسلمانوں  کے مرنے والوں  پرنمازجنازہ پڑھنافرض ہے۔[3]

الصلاة على الجنازة فرض كفایة

صدیق حسن خاں  رحمہ اللہ کہتے ہیں  میت پرنمازجنازہ پڑھنا فرض کفایہ ہے۔[4]

 والصلاة على المیت المسلم فرض كفایةمسلم

شیخ البانی رحمہ اللہ کہتے ہیں  میت پرنمازجنازہ پڑھنافرض کفایہ ہے۔[5]

امام مردکے سرکے برابراورعورت کے درمیان میں  کھڑاہو:

عَنْ نَافِعٍ أَبِی غَالِبٍ، قَالَ: كُنْتُ فِی سِكَّةِ الْمِرْبَدِ، فَمَرَّتْ جَنَازَةٌ مَعَهَا نَاسٌ كَثِیرٌ قَالُوا: جَنَازَةُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَیْرٍ، فَتَبِعْتُهَا فَإِذَا أَنَا بِرَجُلٍ عَلَیْهِ كِسَاءٌ رَقِیقٌ عَلَى بُرَیْذِینَتِهِ، وَعَلَى رَأْسِهِ خِرْقَةٌ تَقِیهِ مِنَ الشَّمْسِ، فَقُلْتُ: مَنْ هَذَا الدِّهْقَانُ؟ قَالُوا: هَذَا أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ، فَلَمَّا وُضِعَتِ الْجَنَازَةُ قَامَ أَنَسٌ فَصَلَّى عَلَیْهَا، وَأَنَا خَلْفَهُ لَا یَحُولُ بَیْنِی وَبَیْنَهُ شَیْءٌ، فَقَامَ عِنْدَ رَأْسِهِ فَكَبَّرَ أَرْبَعَ تَكْبِیرَاتٍ، لَمْ یُطِلْ وَلَمْ یُسْرِعْ، ثُمَّ ذَهَبَ یَقْعُدُ، فَقَالُوا: یَا أَبَا حَمْزَةَ الْمَرْأَةُ الْأَنْصَارِیَّةُ. فَقَرَّبُوهَا وَعَلَیْهَا نَعْشٌ أَخْضَرُ، فَقَامَ عِنْدَ عَجِیزَتِهَا فَصَلَّى عَلَیْهَا نَحْوَ صَلَاتِهِ عَلَى الرَّجُلِ، ثُمَّ جَلَسَ، فَقَالَ الْعَلَاءُ بْنُ زِیَادٍ، یَا أَبَا حَمْزَةَ، هَكَذَا كَانَ یَفْعَلُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یُصَلِّی، عَلَى الْجَنَازَةِ كَصَلَاتِكَ یُكَبِّرُ عَلَیْهَا أَرْبَعًا، وَیَقُومُ عِنْدَ رَأْسِ الرَّجُلِ وَعَجِیزَةِ الْمَرْأَةِ، قَالَ: نَعَمْ

نافع ابوغالب رحمہ اللہ کابیان ہےمیں  (بصرہ میں  )مربدمحلہ کی ایک گلی میں  تھاکہ ایک جنازہ گزرا،اس کے ساتھ بہت سے لوگ تھے ،لوگوں  نے کہایہ عبداللہ بن عمیرکاجنازہ ہے تومیں  بھی اس کے ساتھ ہولیا،میں  نے ایک آدمی کودیکھاجوایک باریک سی اونی چادراوڑھے ہوئے اپنے چھوٹے سے گھوڑے پرسوارتھااوردھوپ سے بچاؤکے لیے اس نے اپنے سرپرکپڑارکھاہواتھا،میں  نے پوچھایہ محترم بزرگ کون ہیں  ؟لوگوں  نے کہایہ(صحابی رسول)انس بن مالک رضی اللہ عنہ ہیں  ،جب میت کورکھاگیاتوانس رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اوراس کاجنازہ پڑھایا،میں  ان کے پیچھے تھامیرے اوران کے درمیان کوئی چیزحائل نہ تھی، آپ اس میت کے سرکے مقابل کھڑے ہوئے اورچارتکبیریں  کہیں  ،آپ نے نمازمیں  طوالت کی نہ جلدی،پھربیٹھنے لگے تولوگوں  نے کہااے حمزہ!(انس رضی اللہ عنہ کی کنیت)یہ ایک انصاری خاتون(کاجنازہ)ہے،اوروہ اسے قریب لائے اورمیت کے اوپرسبزرنگ کاپردہ تھا(تابوت نمارکاوٹ جوعورت کی نعش پررکھی جاتی ہے)،توآپ اس کی کمرکے مقابل کھڑے ہوئے اورجنازہ پڑھایاجیسے کہ مردکاپڑھایاتھا،پھرآپ بیٹھ گئے توعلاء بن زیادنے پوچھااے ابوحمزہ!کیارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی ایسے ہی جنازہ پڑھایاکرتے تھے جیسے کہ آپ نے پڑھایاہے کہ چارتکبیریں  کہتے اور مرد کے لیے اس کے سرکے سامنے، اورعورت کے لیے اس کی کمرکے مقابل کھڑے ہواکرتے تھے، توانہوں  نے کہاہاں  ۔[6]

عَنْ سَمُرَةَ بْنِ جُنْدَبٍ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ:صَلَّیْتُ وَرَاءَ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عَلَى امْرَأَةٍ مَاتَتْ فِی نِفَاسِهَا، فَقَامَ عَلَیْهَا وَسَطَهَا

سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے میں  نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے عورت(ام کعب رضی اللہ عنہ ) کی نمازجنازہ پڑھی جوحالت نفاس میں  فوت ہوئی تھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے درمیان میں  کھڑے ہوئے۔[7]

وَفِیهِ دَلِیلٌ عَلَى أَنَّ الْمُصَلِّیَ عَلَى الْمَرْأَةِ الْمَیِّتَةِ یَسْتَقْبِلُ وَسْطَهَا

امام شوکانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں  یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ عورت کی نمازجنازہ میں  درمیان میں  کھڑے ہوں  گے۔

 مِنْ الْقِیَامِ عِنْدَ رَأْسِ الرَّجُلِ وَوَسْطِ الْمَرْأَةِ ذَهَبَ الشَّافِعِیُّ وَهُوَ الْحَقُّ

امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں  مردکے سرکے پاس اورعورت کے درمیان کھڑاہوناحق ہے۔

وَقَالَ أَبُو حَنِیفَةَ: حِذَاءَ صَدْرِهِمَا

امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں  مرداورعورت دونوں  کے دل کے برابرکھڑاہوناچاہیے۔

وَقَالَ مَالِكٌ: حِذَاءَ الرَّأْسِ مِنْهُمَا

امام مالک رحمہ اللہ فرماتے ہیں  مردوعورت کے سرکے پاس کھڑے ہوں  گے۔

وَقَالَ الْهَادِی: حِذَاءَ رَأْسِ الرَّجُلِ وَثَدْیِ الْمَرْأَةِ

اورہادی رحمہ اللہ فرماتے ہیں  مردکے سرکے پاس اورعورت کے کمرکے پاس کھڑے ہوں  گے۔[8]

وَیَقِفُ الْإِمَامُ وراء رَأْسِ الرَّجُلِ وَوَسْطِ الْمَرْأَةِ

شیخ البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں  امام مردکے سرکے برابراورعورت کے درمیان میں  کھڑاہو۔[9]

جنازہ میں  چاریاپانچ تکبیریں  کہنا

چارتکبیروں  کے دلائل:

عَنْ جَابِرٍ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ:أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ صَلَّى عَلَى أَصْحَمَةَ النَّجَاشِیِّ فَكَبَّرَ أَرْبَعًا

جابربن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اصمہ نجاشی کاجنازہ پڑھایاتواس پرچارتکبیریں  کہیں  ۔[10]

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ، أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ صَلَّى عَلَى النَّجَاشِیِّ فَكَبَّرَ أَرْبَعًا

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نجاشی کاجنازہ پڑھایاتواس پر چار تکبیریں  کہیں  ۔[11]

عَنْ أَبِی أُمَامَةَ أَنَّهُ قَالَ:إِنَّ السُّنَّةَ فِی الصَّلَاةِ عَلَى الْجَنَائِزِ أَنْ یُقْرَأَ فِی التَّكْبِیرَةِ الْأُولَى بِأُمِّ الْقُرْآنِ مُخَافَتَةً ثُمَّ یُكَبِّرُ ثَلَاثًا وَالتَّسْلِیمُ عِنْدَ الْآخِرَةِ

ابوامامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے نمازجنازہ میں  سنت یہ ہے کہ پہلی تکبیرکے بعدامام سورۂ فاتحہ ہلکی آوازمیں  تلاوت کرے، پھرتین تکبیریں  کہے اورآخری تکبیرکے ساتھ سلام پھیردے۔[12]

عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ أَبِی أَوْفَى،قَالَ: إِنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ كَانَ یُكَبِّرُ أَرْبَعًا

عبداللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چارتکبیریں  کہاکرتے تھے۔[13]

پانچ تکبیروں  کے دلائل:

عَنِ ابْنِ أَبِی لَیْلَى، قَالَ: كَانَ زَیْدٌ یَعْنِی ابْنَ أَرْقَمَ، یُكَبِّرُ عَلَى جَنَائِزِنَا أَرْبَعًا، وَإِنَّهُ كَبَّرَ عَلَى جَنَازَةٍ خَمْسًا، فَسَأَلْتُهُ، فَقَالَ:كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یُكَبِّرُهَا

عبدالرحمٰن بن ابی لیلی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے زیدبن ارقم رضی اللہ عنہ ہمارے جنازوں  پرچارتکبیریں  کہتے تھے لیکن ایک جنازے پرانہوں  نے پانچ تکبیریں  کہیں  ، لہذامیں  نے اس سے دریافت کیاتوانہوں  نے کہارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ(یعنی پانچ)تکبیریں  بھی کہاکرتے تھے۔[14]

چھ اورسات تکبیروں  کے دلائل:

سَمِعَهُ مِنْ ابْنِ مَعْقِلٍ، أَنَّ عَلِیًّا رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، كَبَّرَ عَلَى سَهْلِ بْنِ حُنَیْفٍ فَقَالَ:إِنَّهُ شَهِدَ بَدْرًا

ابن معقل سے مروی ہےسیدناعلی رضی اللہ عنہ نے سہل بن حنیف رضی اللہ عنہ کے جنازے پرچھ تکبیریں  کہیں  اورفرمایایہ غزوہ بدرمیں  حاضرتھے ۔[15]

عَنْ مُوسَى بْنِ عَبْدِ اللهِ بْنِ یَزِیدَ: أَنَّ عَلِیًّا رَضِیَ اللهُ عَنْهُ صَلَّى عَلَى أَبِی قَتَادَةَ فَكَبَّرَ عَلَیْهِ سَبْعًا وَكَانَ بَدْرِیًّا

موسیٰ بن عبداللہ بن یزید رضی اللہ عنہ سے مروی ہے سیدناعلی رضی اللہ عنہ نے ابوقتادہ رضی اللہ عنہ کی نمازجنازہ پڑھائی اوراس پرسات تکبیریں  کہیں  ،اوروہ بدری صحابی تھے۔[16]

هَكَذَا رُوِیَ وَهُوَ غَلَطٌ لِأَنَّ أَبَا قَتَادَةَ رَضِیَ اللهُ عَنْهُ بَقِیَ بَعْدَ عَلِیٍّ رَضِیَ اللهُ عَنْهُ مُدَّةً طَوِیلَةً

امام بیہقی رحمہ اللہ فرماتے ہیں  یہ جوبیان کیاگیاہے صحیح نہیں  ہے، کیونکہ ابوقتادہ رضی اللہ عنہ سیدناعلی رضی اللہ عنہ کے بعدکافی عرصہ تک زندہ رہے۔[17]

نوتکبیروں  کے دلائل:

عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ الزُّبَیْرِ، رَضِیَ اللهُ عَنْهُمَا أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَمَرَ یَوْمَ أُحُدٍ بِحَمْزَةَ فَسُجِّیَ بِبُرْدِهِ ثُمَّ صَلَّى عَلَیْهِ , فَكَبَّرَ تِسْعَ تَكْبِیرَاتٍ

عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ احدکے دن سیدالشہداء حمزہ رضی اللہ عنہ کی نمازجنازہ پڑھائی توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نوتکبیریں  کہیں  ۔[18]

نمازجنازہ کی تکبیروں  کی تعدادمیں  اگرچہ علماء نے اختلاف کیاہے لیکن اکثریت نے چارتکبیروں  کوہی ترجیح دی ہے۔

وَإِلَى مَشْرُوعِیَّةِ الْأَرْبَعِ التَّكْبِیرَاتِ فِی الْجِنَازَةُ

جمہورفرماتے ہیں  جنازہ میں  چارتکبیروں  کوترجیح حاصل ہے۔[19]

الْعَمَلُ عَلَیْهِ عِنْدَ أَكْثَرِ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَغَیْرِهِمْ یَرُونَ التَّكْبِیرَ عَلَى الْجِنَازَةِ أَرْبَعَ تَكْبِیرَاتٍ، وَهُوَ قَوْلُ سُفْیَانَ الثَّوْرِیِّ وَمَالِكِ بْنِ أَنَسٍ وَابْنِ الْمُبَارَكِ وَالشَّافِعِیِّ وَأَحْمَدَ وَإِسْحَاقَ

امام ترمذی رحمہ اللہ فرماتے ہیں  صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اوران کے بعدوالوں  میں  سے اکثراہل علم چارتکبیروں  کے قائل ہیں  ، جن میں  سفیان ثوری،مالک بن انس،ابن مبارک اورامام شافعی،امام احمد رحمہ اللہ اوراسحاق شامل ہیں  ۔[20]

ذَهَبَ أَكْثَرُ أَهْلِ الْعِلْمِ إلَى أَنَّ التَّكْبِیرَ أَرْبَعٌ

ابن منذر رحمہ اللہ کہتے ہیں  اکثراہل علم چارتکبیروں  کے قائل ہیں  ۔[21]

واعلم أنه لم یصح شیء فی الزِّیَادَةِ على الْخَمْسَ ولا فی النَّقْصِ عن أربع مرفوعا إلی رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ والأخذ بِالْأَرْبَعِ

امام شوکانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے چارسے کم اورپانچ سے زیادہ تکبیریں  کسی مرفوع حدیث سے ثابت نہیں  نیزچارتکبیریں  اختیارکرنازیادہ راجح اوربہتر ہے۔[22]

وَقَدْ صَحَّ أَنَّهُ عَلَیْهِ السَّلَامُ كَبَّرَ خَمْسًا وَأَرْبَعًا، فَلَا یَجُوزُ تَرْكُ أَحَدِ عَمَلَیْهِ لِلْآخَرِ

ابن حزم رحمہ اللہ فرماتے ہیں  چارسے کم اورپانچ سے زیادہ تکبیریں  نہیں  کہنی چاہیں  ۔[23]

جن لوگوں  نے چارسے زائدتکبیروں  کوممنوع قراردیاہے ان کے دلائل حسب ذیل ہیں  ۔اس پراجماع ہوچکاہے۔

قَالَ ابْنُ عَبْدِ الْبَرِّ: وَانْعَقَدَ الْإِجْمَاعُ بَعْدَ ذَلِكَ عَلَى أَرْبَعٍ، وَأَجْمَعَ الْفُقَهَاءُ وَأَهْلُ الْفَتْوَى بِالْأَمْصَارِ عَلَى أَرْبَعٍ

ابن عبدالبر رحمہ اللہ فرماتے ہیں  چارتکبیروں  پرفقہاء اوراہل فتوی حضرات کااجماع ہوچکاہے۔[24]

بعض روایات میں  یہ الفاظ بھی مذکورہیں  ،

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ , قَالَ:كَانَ آخِرُ مَا كَبَّرَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عَلَى الْجِنَازَةِ أَرْبَعًا

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے آخرمیں  جورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تکبیریں  کہیں  وہ چارتھیں  ۔[25]

أنه حَدِیثِ ضَعِیفٌ

شیخ البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں  یہ حدیث ضعیف ہے۔[26]

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ صَلَّى عَلَى قَتْلَى أُحُدٍ، فَكَبَّرَ عَلَیْهِمْ تِسْعًا تِسْعًا، ثُمَّ سَبْعًا سَبْعًا، ثُمَّ أَرْبَعًا أَرْبَعًا حَتَّى لَحِقَ بِاللهِ عَزَّ وَجَلَّ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ احدکے مقتولین کی نمازجنازہ پڑھائی تونونوتکبیریں  کہیں  ،پھرسات سات،اورپھرچارچارتکبیریں  کہیں  ۔[27]

فَهُوَ مَرْدُودٌ

شیخ البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں  یہ روایت مردودہے۔[28]

پہلی تکبیرکے بعد سورۂ فاتحہ اورکوئی سورت پڑھنا:

چونکہ نمازجنازہ بھی ایک نمازہی ہے اس لیے دیگرنمازوں  کی طرح اس میں  بھی سورۂ  فاتحہ کی قرات ضروری ہے۔

عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:لاَ صَلاَةَ لِمَنْ لَمْ یَقْرَأْ بِفَاتِحَةِ الكِتَابِ

عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجس شخص نے سورۂ  فاتحہ نہ پڑھی اس کی کوئی نمازنہیں  ۔[29]

عَنْ طَلْحَةَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَوْفٍ، قَالَ: صَلَّیْتُ خَلْفَ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُمَا عَلَى جَنَازَةٍ فَقَرَأَ بِفَاتِحَةِ الكِتَابِ قَالَ: لِیَعْلَمُوا أَنَّهَا سُنَّةٌ

طلحہ بن عبداللہ بن عوف رضی اللہ عنہ سے مروی ہے میں  نے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے پیچھے نمازجنازہ پڑھی جس میں  انہوں  نے سورۂ  فاتحہ کی قرات کی اورکہا(یہ اس لیے پڑھی ہے)تاکہ تمہیں  علم ہوجائے کہ یہ سنت ہے۔[30]

عَنْ طَلْحَةَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَوْفٍ، قَالَ: صَلَّیْتُ خَلْفَ ابْنِ عَبَّاسٍ عَلَى جَنَازَةٍ، فَقَرَأَ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ، وَسُورَةٍ وَجَهَرَ حَتَّى أَسْمَعَنَا، فَلَمَّا فَرَغَ أَخَذْتُ بِیَدِهِ، فَسَأَلْتُهُ فَقَالَ:سُنَّةٌ وَحَقٌّ

طلحہ بن عبداللہ بن عوف رضی اللہ عنہ سے مروی ہےمیں  نے ابن عباس رضی اللہ عنہما کے پیچھے ایک میت کاجنازہ پڑھا انہوں  نے سورۂ فاتحہ اورایک اور سورت پڑھی اور(دونوں  )بلندآوازسے پڑھیں  حتی کہ ہمیں  سنائی دیں  ،جب وہ فارغ ہوئے تومیں  نے ان کاہاتھ پکڑااوران سے اس بارے میں  مسئلہ پوچھا،توانہوں  نے فرمایاکہ بے شک یہ سنت اورحق ہے۔[31]

عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ یَزِیدَ، قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:إِذَا صَلَّیْتُمْ عَلَى الْجِنَازَةِ فاقْرَءُوا بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ

اسماء بنت یزیدسے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب تم جنازہ پرنمازپڑھوتوسورۂ فاتحہ پڑھاکرو ۔[32]

أُمُّ عَفِیفٍ، قَالَتْ:وَأَمَرَنَا أَنْ نَقْرَأَ عَلَى مَیِّتِنَا بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ

ام عفیف سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں  جنازہ کی نمازمیں  سورۂ فاتحہ پڑھنے کاحکم فرمایا۔[33]

حَدَّثَنِی شُرَحْبِیلُ بْنُ سَعْدٍ، قَالَ: حَضَرْتُ عَبْدَ اللهِ بْنَ عَبَّاسٍ صَلَّى بِنَا عَلَى جِنَازَةٍ بِالْأَبْوَاءِ فَكَبَّرَ، ثُمَّ قَرَأَ بِأُمِّ الْقُرْآنِ رَافِعًا صَوْتَهُ بِهَا،۔۔۔۔۔ثُمَّ انْصَرَفَ فَقَالَ:یَا أَیُّهَا النَّاسُ إِنِّی لَمْ أَقْرَأْ عَلَیْهَا إِلَّا لِتَعْلَمُوا أَنَّهَا سُنَّةٌ

شرجیل بن سعد رحمہ اللہ کہتے ہیں  میں  عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما کے پیچھے ایک جنازہ میں  بمقام ابواء شریک ہواآپ نے سورۂ  فاتحہ اوردروداوردعاؤں  کوبلندآوازسے پڑھا۔۔۔۔پھرمتوجہ ہوکرفرمایاکہ میں  جہرسے نہ پڑھتامگراس لئے پڑھاتاکہ تم جان لوکہ یہ سنت ہے۔[34]

عَنْ زَیْدِ بْنِ طَلْحَةَ التَّیْمِیِّ، قَالَ: سَمِعْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ، رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَرَأَ عَلَى جَنَازَةٍ فَاتِحَةِ الْكِتَابِ وَسُورَةٍ وَجَهَرَ بِالْقِرَاءَةِ وَقَالَ:إِنَّمَا جَهَرْتُ لِأُعْلِمَكُمْ أَنَّهَا سُنَّةٌ

زیدبن طلحہ تیمی رحمہ اللہ سے مروی ہے میں  نے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے پیچھے ایک جنازہ کی نمازپڑھی جس میں  انہوں  نے سورۂ فاتحہ اورایک سورت کوبلندآوازسے پڑھا اور بعدمیں  فرمایاکہ میں  نے اس لئے جہرکیاہے تاکہ تم کوسکھلاؤں  کہ یہ سنت ہے۔[35]

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ أَنَّهُ كَانَ یَقْرَأُ بِأُمِّ الْقُرْآنِ بَعْدَ التَّكْبِیرَةِ الْأُولَى عَلَى الْجِنَازَةِ، وَبَلَغَنَا ذَلِكَ عَنْ أَبِی بَكْرٍ الصِّدِّیقِ وَسَهْلِ بْنِ حُنَیْفٍ وَغَیْرِهِمَا مِنْ أَصْحَابِ النَّبِیِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ -.

عبداللہ بن عمروبن عاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے وہ نمازجنازہ میں  تکبیراولی کے بعد سورۂ  فاتحہ کی تلاوت کرتے تھے اورفرماتے تھے کہ سیدنا ابوبکر صدیق اورسہل بن حنیف اورنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دوسرے اصحاب بھی ایساہی کرتے تھے۔[36]

مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ عَطَاءٍ: أَنَّ الْمِسْوَرَ بْنَ مَخْرَمَةَ صَلَّى عَلَى الْجِنَازَةِ فَقَرَأَ فِی التَّكْبِیرَةِ الْأُولَى فَاتِحَةَ الْكِتَابِ وَسُورَةً قَصِیرَةً، رَفَعَ بِهِمَا صَوْتَهُ، فَلَمَّا فَرَغَ قَالَ: لَا أَجْهَلُ أَنْ تَكُونَ هَذِهِ الصَّلَاةُ عَجْمَاءَ، وَلَكِنِّی أَرَدْت أَنْ أُعَلِّمَكُمْ أَنَّ فِیهَا قِرَاءَةً.

محمدبن عمروبن عطاء سے مروی ہےمسوربن مخرمہ رضی اللہ عنہ نے ایک جنازہ میں  پہلی تکبیرمیں  سورۂ  فاتحہ اورایک مختصرسی سورت پڑھی اوراپنی آوازبلندکی،جب فارغ ہوئےتوفرمایامیں  نے قرات جہرسے اس لئے کی ہے کہ تم جان لوکہ اس نمازمیں  بھی قرات ہے اوریہ نمازگونگی(بغیرقرات والی)نہیں  ہے ،میں  نے اپنی آوازاس لیے بلندکی تاکہ تمہیں  معلوم ہوجائے کہ اس میں  قرات کی جاتی ہے۔[37]

وَطَلْحَةُ بْنُ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَوْفٍ هُوَ ابْنُ أَخِی عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ،قال الترمذی عقب الحدیث:هَذَا حَدِیثٌ حَسَنٌ صَحِیحٌ، وَالعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ العِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِیِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَغَیْرِهِمْ: یَخْتَارُونَ أَنْ یُقْرَأَ: بِفَاتِحَةِ الكِتَابِ بَعْدَ التَّكْبِیرَةِ الأُولَى، وَهُوَ قَوْلُ الشَّافِعِیِّ، وَأَحْمَدَ، وَإِسْحَاقَ.

طلحہ بن عبداللہ بن عوف کی روایت کاتعاقب کرتے ہوئےامام ترمذی رحمہ اللہ فرماتے ہیں  یہ حدیث صحیح ہے اوراصحاب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم میں  بعض اہل علم اوردوسروں  کااس پرعمل ہے جوپہلی تکبیرکی بعد سورۂ فاتحہ پڑھتے ہیں  اوریہ امام شافعی رحمہ اللہ ،امام احمد رحمہ اللہ اوراسحاق رحمہ اللہ کاقول ہے۔

وقَالَ بَعْضُ أَهْلِ العِلْمِ: لاَ یُقْرَأُ فِی الصَّلاَةِ عَلَى الجَنَازَةِ، إِنَّمَا هُوَ ثَنَاءٌ عَلَى اللهِ، وَالصَّلاَةُ عَلَى النَّبِیِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، وَالدُّعَاءُ لِلْمَیِّتِ، وَهُوَ قَوْلُ الثَّوْرِیِّ، وَغَیْرِهِ مِنْ أَهْلِ الكُوفَةِ.

اوربعض اہل علم جوکہتے ہیں  کہ جنازے میں  کوئی قرات نہیں  ،یہ تواللہ کی ثنااورنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پردروداورمیت کے لیے دعاہے،یہ اہل کوفہ میں  سےثوری رحمہ اللہ وغیرہ کاقول ہے ۔[38]

أَنَّهُ لَیْسَ فِیهَا قِرَاءَةٌ

امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ اورامام مالک رحمہ اللہ فرماتے ہیں  جنازے میں  کوئی قرات نہیں  ۔[39]

أَجْمَعُوا عَلَى أَنَّ قَوْلَ الصَّحَابِیِّ مِنْ السُّنَّةِ

امام حاکم رحمہ اللہ فرماتے ہیں  تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اس پرمتفق ہیں  کہ یہ سنت ہے۔[40]

وَهُوَ الا قَوِیٌّ دَلِیلًا

عبدالحی لکھنوی حنفی رحمہ اللہ لکھتے ہیں  ازروئے دلیل کے یہی قوی تربات ہے کہ سورۂ فاتحہ نمازجنازہ میں  پڑھنی چاہیے۔[41]

جولوگ کہتے ہیں  کہ قرات کی نیت سے نہیں  بلکہ ثناء ودعاکی نیت سے پڑھ سکتے ہیں  کوئی حرج نہیں  ،عبدالحی لکھنوی حنفی نے ان کاسخت ردکرتے ہوئے ان کی اس بات کوبے دلیل قراردیاہے۔[42]

وعلیه فمن العجائب أن لا یأخذ الحنفیة بهذا الحدیث، وهی قولهم أن قراء سبحانك – بعد التكبیرة الأولى من سنن الصلاة على الجنازة

شیخ البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں  یہ کتنی تعجب خیزبات ہے کہ احناف قرات (جوثابت ہے)اس کاانکارکرتے ہیں  اورثنا،سُبْحَانَكَ اللهُمَّ۔۔۔۔(جوثابت نہیں  ہے)کی قرات کونمازجنازہ کی سنتوں  میں  شمارکرتے ہیں  ۔[43]

جنازے میں  قرات سری اورجہری دونوں  طرح ثابت ہے:

شیخ البانی اسی کے قائل ہیں  ۔[44]

عَنْ طَلْحَةَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَوْفٍ، قَالَ: صَلَّیْتُ خَلْفَ ابْنِ عَبَّاسٍ عَلَى جَنَازَةٍ، فَقَرَأَ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ، وَسُورَةٍ وَجَهَرَ حَتَّى أَسْمَعَنَا، فَلَمَّا فَرَغَ أَخَذْتُ بِیَدِهِ، فَسَأَلْتُهُ فَقَالَ:سُنَّةٌ وَحَقٌّ

جہری قرات کی دلیل طلحہ بن عبداللہ بن عوف کی روایت ہےمیں  نے ابن عباس رضی اللہ عنہما کے پیچھے ایک میت کاجنازہ پڑھا انہوں  نے سورۂ فاتحہ اورایک اور سورت پڑھی اور (دونوں  )بلندآوازسے پڑھیں  حتی کہ ہمیں  سنائی دیں  ،جب وہ فارغ ہوئے تومیں  نے ان کاہاتھ پکڑااوران سے اس بارے میں  مسئلہ پوچھاتوانہوں  نے فرمایاکہ بے شک یہ سنت اورحق ہے۔[45]

عَوْفَ بْنَ مَالِكٍ، یَقُولُ: صَلَّى رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عَلَى جَنَازَةٍ، فَحَفِظْتُ مِنْ دُعَائِهِ وَهُوَ یَقُولُ:اللهُمَّ، اغْفِرْ لَهُ وَارْحَمْهُ وَعَافِهِ وَاعْفُ عَنْهُ، وَأَكْرِمْ نُزُلَهُ، وَوَسِّعْ مُدْخَلَهُ، وَاغْسِلْهُ بِالْمَاءِ وَالثَّلْجِ وَالْبَرَدِ، وَنَقِّهِ مِنَ الْخَطَایَا كَمَا نَقَّیْتَ الثَّوْبَ الْأَبْیَضَ مِنَ الدَّنَسِ، وَأَبْدِلْهُ دَارًا خَیْرًا مِنْ دَارِهِ، وَأَهْلًا خَیْرًا مِنْ أَهْلِهِ وَزَوْجًا خَیْرًا مِنْ زَوْجِهِ، وَأَدْخِلْهُ الْجَنَّةَ وَأَعِذْهُ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ أَوْ مِنْ عَذَابِ النَّارِ قَالَ:حَتَّى تَمَنَّیْتُ أَنْ أَكُونَ أَنَا ذَلِكَ الْمَیِّتَ

اس کی تائیداس حدیث سے بھی ہوتی ہے جس میں  عوف بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک جنازہ پرنمازپڑھی اورمیں  نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعامیں  سے یہ لفظ یادرکھے ،اے اللہ!اس کے گناہ بخش دے اوراس پررحم فرما،اوراسے خیریت سے رکھ ،اس کی اچھی مہمان نوازی فرمااوراس کاٹھکاناوسیع فرما،اوراسے پانی،برف اوراولوں  کے ساتھ دھو دے، اوراسے غلطیوں  سے اس طرح صاف فرمادے جس طرح سفیدکپڑے کومیل کچیل سے صاف کیاجاتاہے، اوراسے اس کے(دنیاوی)گھرسے بہترگھرعطافرما،اوراس کے(دنیوی) گھروالوں  سے بہترگھرعطافرما،اوراس کے جوڑے سے بہترجوڑاعطافرما،اوراسے قبرکے عذاب اورآگ کے عذاب سے بچا، عوف رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں  اس میت کے لیے یہ(جامع)دعائیں  سن کرمجھے خواہش ہوئی کہ کاش میں  یہ میت ہوتا۔[46]

معلوم ہواکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جنازہ بلندآوازسے پڑھ رہے تھے لہذاجنازے میں  جہر جائزہے۔

سری قرات کی دلیل :

عَنْ أَبِی أُمَامَةَ أَنَّهُ قَالَ:السُّنَّةُ فِی الصَّلَاةِ عَلَى الْجَنَازَةِ أَنْ یَقْرَأَ فِی التَّكْبِیرَةِ الْأُولَى بِأُمِّ الْقُرْآنِ مُخَافَتَةً، ثُمَّ یُكَبِّرَ ثَلَاثًا، وَالتَّسْلِیمُ عِنْدَ الْآخِرَةِ

ابوامامہ بن سہل رضی اللہ عنہ سے مروی ہے نمازجنازہ میں  سنت یہ ہے کہ پہلی تکبیرکے بعد سورۂ  فاتحہ آہستہ پڑھے، پھرتین تکبیریں  کہے(روایت مختصرہے یعنی تین تکبیریں  اکٹھی نہیں  کہی جائیں  گی بلکہ تمام مل کرتین ہوں  گی،یعنی الگ الگ،دوسری کے بعددرود،تیسری کے بعددعااورچوتھی کے بعدسلام) اورآخری تکبیرکے بعدسلام پھیردے۔[47]

بقیہ تکبیروں  کے درمیان مسنون دعائیں  :

أَخْبَرَنِی أَبُو أُمَامَةَ بْنُ سَهْلٍ، أَنَّ السُّنَّةَ فِی الصَّلَاةِ عَلَى الْجِنَازَةِ أَنْ یُكَبِّرَ الْإِمَامُ، ثُمَّ یَقْرَأُ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ بَعْدَ التَّكْبِیرَةِ الْأُولَى سِرًّا فِی نَفْسِهِ، ثُمَّ یُصَلِّی عَلَى النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، وَیُخْلِصُ الدُّعَاءَ لِلْجِنَازَةِ، فِی التَّكْبِیرَاتِ( الثَّلَاثِ)

ابوامامہ بن سہل رضی اللہ عنہ سے مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں  سے کسی نے انہیں  خبردی، نمازجنازہ میں  سنت طریقہ یہ ہے کہ امام تکبیرکہے،پھرپہلی تکبیرکے بعدسری طورپراپنے دل میں  سورۂ  فاتحہ پڑھے، پھرنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پردرودبھیجے،اورپھرخالص ہوکر(تیسری)تکبیرمیں  جنازہ کے لیے دعاکرے۔[48]

وَالسُّنَّةُ أَنْ یَفْعَلَ مِنْ وَرَائِهِ مِثْلَ مَا فَعَلَ أَمَامَهُ

سنت یہی ہے کہ ابوامامہ رضی اللہ عنہ کی حدیث پرعمل کیاجائے(یعنی دوسری تکبیرکے بعددرود(ابراہیمی)تیسری کے بعددعائیں  اورچوتھی کے بعدسلام پھیردیاجائے)۔[49]

وظاهر قوله بعد أن ذكر القراءة ثم یصلى على النبیصَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ إنما تكون بعد التَّكْبِیرَةِ الثانیة لاقبلها ،لانه لو كان قبلها لم تقع فی التكبیرات بل قبلها، كما هو واضح، وبه قالت الحنفیة والشافعیة وغیرهم، خلافا لابن حزم والشوكانی

شیخ البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں  آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کاظاہریہی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پردروددوسری تکبیرکے بعدپڑھاجائے گا،کیونکہ اگرپہلے ہوتاتواسے تکبیرات میں  ذکرنہ کیاجاتا،حنفیہ وشافعیہ وغیرہ اسی کے قائل ہیں  ،البتہ امام ابن حزم رحمہ اللہ اورامام شوکانی رحمہ اللہ نے اس کی مخالفت کی ہے۔[50]

تیسری تکبیرکے بعدمسنون دعائیں  پڑھی جائیں  گی۔

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ، قَالَ:سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: یَقُولُ:إِذَا صَلَّیْتُمْ عَلَى الْمَیِّتِ فَأَخْلِصُوا لَهُ الدُّعَاءَ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےمیں  نےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوفرماتے ہوئے سناآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجب تم میت کی نمازجنازہ پڑھوتواس کے لیے خالص دعاکرو۔[51]

چندمسنون دعائیں  :

عَوْفَ بْنَ مَالِكٍ، یَقُولُ: صَلَّى رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عَلَى جَنَازَةٍ، فَحَفِظْتُ مِنْ دُعَائِهِ وَهُوَ یَقُولُ:اللهُمَّ، اغْفِرْ لَهُ وَارْحَمْهُ وَعَافِهِ وَاعْفُ عَنْهُ، وَأَكْرِمْ نُزُلَهُ، وَوَسِّعْ مُدْخَلَهُ، وَاغْسِلْهُ بِالْمَاءِ وَالثَّلْجِ وَالْبَرَدِ، وَنَقِّهِ مِنَ الْخَطَایَا كَمَا نَقَّیْتَ الثَّوْبَ الْأَبْیَضَ مِنَ الدَّنَسِ، وَأَبْدِلْهُ دَارًا خَیْرًا مِنْ دَارِهِ، وَأَهْلًا خَیْرًا مِنْ أَهْلِهِ وَزَوْجًا خَیْرًا مِنْ زَوْجِهِ، وَأَدْخِلْهُ الْجَنَّةَ وَأَعِذْهُ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ أَوْ مِنْ عَذَابِ النَّارِ

عوف بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک جنازہ پرنمازپڑھی اورمیں  نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعامیں  سے یہ لفظ یادرکھے ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم یوں  دعافرمارہے تھے،اے اللہ!اس کے گناہ بخش دے اوراس پررحم فرمااوراسے خیریت سے رکھ ،اس کی اچھی مہمان نوازی فرمااوراس کاٹھکاناوسیع فرمااوراسے پانی،برف اوراولوں  کے ساتھ دھو دے اوراسے غلطیوں  سے اس طرح صاف فرمادے جس طرح سفیدکپڑے کومیل کچیل سے صاف کیاجاتاہے اوراسے اس کے(دنیاوی)گھرسے بہترگھرعطافرمااوراس کے(دنیوی)گھروالوں  سے بہترگھرعطافرمااوراس کے جوڑے سے بہتر جوڑا عطا فرمااوراسے قبرکے عذاب اورآگ کے عذاب سے بچا۔[52]

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ قَالَ:كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ إِذَا صَلَّى عَلَى جِنَازَةٍ یَقُولُ:اللهُمَّ اغْفِرْ لِحَیِّنَا وَمَیِّتِنَا، وَشَاهِدِنَا وَغَائِبِنَا، وَصَغِیرِنَا وَكَبِیرِنَا، وَذَكَرِنَا وَأُنْثَانَا، اللهُمَّ مَنْ أَحْیَیْتَهُ مِنَّا فَأَحْیِهِ عَلَى الْإِسْلَامِ، وَمَنْ تَوَفَّیْتَهُ مِنَّا فَتَوَفَّهُ عَلَى الْإِیمَانِ، اللهُمَّ لَا تَحْرِمْنَا أَجْرَهُ، وَلَا تُضِلَّنَا بَعْدَهُ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب نمازجنازہ پڑھاتے تویہ دعاکرتے اے اللہ!ہمارے زندوں  اورمرنے والوں  کوبخش دے،اورچھوٹوں  اوربڑوں  کو،مردوں  کواورعورتوں  کو،حاضرموجودلوگوں  کواورجوموجودنہیں  ہیں  انہیں  بھی بخش دے،اے اللہ!ہم میں  سے جسے روزندہ رکھے تواسے اسلام کے ساتھ زندہ رکھ اورجسے توموت دے اسے ایمان پرموت دے،اے اللہ!ہمیں  اس مرنے والے کے اجرسے محروم نہ رکھ اوراس کے بعدہمیں  کمراہ بھی نہ کردینا۔[53]

عَنْ وَاثِلَةَ بْنِ الْأَسْقَعِ، قَالَ: صَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عَلَى رَجُلٍ مِنَ الْمُسْلِمِینَ، فَأَسْمَعُهُ یَقُولُ:اللَّهُمَّ إِنَّ فُلَانَ بْنَ فُلَانٍ فِی ذِمَّتِكَ، وَحَبْلِ جِوَارِكَ، فَقِهِ مِنْ فِتْنَةِ الْقَبْرِ، وَعَذَابِ النَّارِ، وَأَنْتَ أَهْلُ الْوَفَاءِ وَالْحَقِّ، فَاغْفِرْ لَهُ وَارْحَمْهُ، إِنَّكَ أَنْتَ الْغَفُورُ الرَّحِیمُ

واثلہ رضی اللہ عنہ بن اسقع سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مسلمان پر(جنازے کی) نمازپڑھی،میں  سن رہاتھاآپ فرمارہے تھے،اے اللہ!فلاں  بن فلاں  تیرے ذمے(کفایت)میں  ہے اورتیری ہمسائیگی اورامان میں  آگیا ہے،سوتواسے قبرکی آزمائش اورآگ کے عذاب سے محفوظ فرمادے ،تواپنے وعدے وفاکرنے والااورحق والاہے،اے اللہ!اسے بخش دے اوراس پررحم فرمابلاشبہ تو بہت ہی بخشنے والااوررحم کرنے والاہے۔[54]

یہ حدیث بھی دلیل ہے کہ جنازے میں  دعابلندآوازسے پڑھی گئی تھی۔

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ كَانَ إِذَا صَلَّى عَلَى جَنَازَةٍ یَقُولُ:اللهُمَّ عَبْدُكَ، وَابْنُ عَبْدِكَ، وَابْنُ أَمَتِكَ. كَانَ یَشْهَدُ أَنْ لاَ إِلَهَ إِلاَّ أَنْتَ. وَأَنَّ مُحَمَّداً عَبْدُكَ وَرَسُولُكَ. وَأَنْتَ أَعْلَمُ بِهِ. اللهُمَّ إِنْ كَانَ مُحْسِناً، فَزِدْ فِی إِحْسَانِهِ. وَإِنْ كَانَ مُسِیئاً، فَتَجَاوَزْ عَنْ سَیِّئَاتِهِ. اللهُمَّ لاَ تَحْرِمْنَا أَجْرَهُ. وَلاَ تَفْتِنَّا بَعْدَهُ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب نمازجنازہ پڑھتے تویوں  دعافرماتے تھے،اے اللہ تیرا بندہ اور تیرے بندے کا بیٹا اور تیری لونڈی کا بیٹا اس بات کی گواہی دیتا تھا کہ کوئی معبود سچا تیرے سوا نہیں  ہے اور بے شک محمد صلی اللہ علیہ وسلم تیرے بندے اور تیرے پیغمبر ہیں  اور تو اس کا حال خوب جانتا ہے، اے پروردگار اگر وہ نیک ہو تو اس کااجرزیادہ فرما، اور جو گناہگار ہو تواس کے گناہوں  سے درگزر فرما، اے پروردگار!ہم کواس مت کے ثواب سے محروم نہ فرما اوراس کے بعدہم کوفتنہ میں  مت ڈال۔[55]

آخری تکبیرکے بعددونوں  جانب سلام پھیراجائے:

عَنْ عَبْدِ اللهِ، قَالَ:ثَلَاثُ خِلَالٍ كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَفْعَلُهُنَّ، تَرَكَهُنَّ النَّاسُ ، إِحْدَاهُنَّ: التَّسْلِیمُ عَلَى الْجِنَازَةِ مِثْلُ التَّسْلِیمِ فِی الصَّلَاةِ

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تین کام کیاکرتے تھے جنہیں  لوگوں  نے چھوڑدیاہے ان میں  سے ایک نمازجنازہ میں  اس طرح سلام پھیرناہے جیسے نمازمیں  سلام پھیراجاتاہے۔[56]

رَوَاهُ الْبَیْهَقِیُّ بِإِسْنَادٍ جَیِّدٍ

امام بیہقی رحمہ اللہ نے اس کی سندکو جید کہا ہے۔[57]

رَوَاهُ الطَّبَرَانِیُّ فِی الْكَبِیرِ، وَرِجَالُهُ ثِقَاتٌ.

امام ہیثمی رحمہ اللہ رقمطرازہیں  اس روایت کوطبرانی کبیرمیں  روایت کیاگیاہے اوراس کے رجال ثقہ ہیں  ۔[58]

اس حدیث سے ثابت ہواکہ نمازجنازہ میں  بھی عام نمازوں  کی طرح دائیں  اوربائیں  دونوں  جانب سلام پھیرناچاہیے، تاہم اگرصرف ایک جانب ہی سلام پھیردیاجائے تویہ بھی کفایت کرجاتاہے ۔

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ , أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ صَلَّى عَلَى جِنَازَةٍ فَكَبَّرَ عَلَیْهَا أَرْبَعًا , وَسَلَّمَ تَسْلِیمَةً وَاحِدَةً

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نمازجنازہ پڑھائی اورچارتکبیریں  کہیں  اورایک مرتبہ ہی سلام پھیرا۔[59]

خائن،خودکشی کرنے والے(گناہ کبیرہ ہے)کافر،اورشہیدکی نمازجنازہ نہیں  پڑھی جائے گی:

هو الذی سرق من الغنیمة قبل قسمها

واضح رہے خائن سے مرادایساشخص ہے جومال غنیمت سے تقسیم سے پہلے کوئی چیزچرالے۔[60]

عَنْ زَیْدِ بْنِ خَالِدٍ الْجُهَنِیِّ، أَنَّ رَجُلًا مِنْ أَصْحَابِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ تُوُفِّیَ یَوْمَ خَیْبَرَ، فَذَكَرُوا ذَلِكَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ:صَلُّوا عَلَى صَاحِبِكُمْ. فَتَغَیَّرَتْ وُجُوهُ النَّاسِ لِذَلِكَ، فَقَالَ:إِنَّ صَاحِبَكُمْ غَلَّ فِی سَبِیلِ اللَّهِ. فَفَتَّشْنَا مَتَاعَهُ فَوَجَدْنَا خَرَزًا مِنْ خَرَزِ یَهُودَ لَا یُسَاوِی دِرْهَمَیْنِ

زیدبن خالدجھنی رضی اللہ عنہ سے مروی ہےاصحاب رسول میں  سے ایک شخص جنگ خیبر میں  وفات پا گیا، پس صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے (اسکی موت کا اور اس پر نماز جنازہ پڑھنے کا) ذکر آپ سے کیا ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اپنے ساتھی پر تم خود ہی نماز پڑھ لو (میں  نہیں  پڑھوں  گا) آپکی یہ بات سن کر لوگوں  کے چہرے متغیر ہو گئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تمہارے ساتھی نے مال غنیمت میں  چوری کی ہےہم نے اسکے سامان کی تلاشی لی تو ہمیں  اسکے سامان میں  سے یہودی عورتوں  کے پہننے کا ایک کپڑا ملا جسکی قیمت دو درہم بھی نہ تھی۔[61]

حكم الألبانی: ضعیف

فِیهِ جَوَازُ الصَّلَاةِ عَلَى الْعُصَاةِ. وَأَمَّا تَرْكُ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ لِلصَّلَاةِ عَلَیْهِ فَلَعَلَّهُ لِلزَّجْرِ عَنْ الْغُلُولِ كَمَا امْتَنَعَ مِنْ الصَّلَاةِ عَلَى الْمَدْیُونِ وَأَمَرَهُمْ بِالصَّلَاةِ عَلَیْهِ

امام شوکانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں  اس سے معلوم ہواکہ گنہ گارلوگوں  کی نمازجنازہ پڑھی جاسکتی ہے، البتہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص کی نمازجنازہ غالباً خیانت سے ڈانٹنے کے لیے نہیں  پڑھائی بعینہ جیساکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مقروض کی نمازجنازہ خودتونہیں  پڑھائی لیکن لوگوں  کواس کاحکم دیا۔[62]

شیخ البانی رحمہ اللہ اسی کوترجیح دیتے ہیں  ۔[63]

وَذَهَبَ مَالِكٌ وَالشَّافِعِیُّ وَأَبُو حَنِیفَةَ وَجُمْهُورُ الْعُلَمَاءِ إلَى أَنَّهُ یُصَلَّى عَلَى الْفَاسِقِ

امام مالک رحمہ اللہ ،امام شافعی رحمہ اللہ ،امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ اورجمہورکاکہناہے کہ نافرمانوں  کی نمازجنازہ پڑھی جائے گی۔[64]

عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ، قَالَ:أُتِیَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بِرَجُلٍ قَتَلَ نَفْسَهُ بِمَشَاقِصَ، فَلَمْ یُصَلِّ عَلَیْهِ

جابربن سمرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایسے آدمی کا جنازہ لایا گیا جس نے اپنے آپ کو چوڑے تیر سے مار ڈالا تھا،تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر نماز جنازہ نہ پڑھی۔[65]

عَنْ ابْنِ سَمُرَةَ، أَنَّ رَجُلًا قَتَلَ نَفْسَهُ بِمَشَاقِصَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:أَمَّا أَنَا فَلَا أُصَلِّی عَلَیْهِ

جابربن سمرہ رضی اللہ عنہ سےایک روایت میں  ہے ایک شخص نے اپنے ہی تیر سے خود کو ہلاک کر لیا، تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا کہ میں  اس شخص کی نماز (جنازہ) نہیں  پڑھوں  گا ۔[66]

اس سے بھی یہ بات اخذکی جاسکتی ہے کہ عام افراداس کابھی نمازجنازہ پڑھ سکتے ہیں  ۔

فَذَهَبَ أَكْثَرُهُمْ إِلَى أَنَّهُ یُصلَّى عَلَیْهِ، وَكَانَ عُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِیزِ لَا یَرَى الصَّلاةَ عَلَیْهِ، وَبِهِ قَالَ الأَوْزَاعِیُّ، وَقَالَ أَحْمَدُ: لَا یُصَلِّی عَلَیْهِ الإِمَامُ، وَیُصَلِّی عَلَیْهِ غَیْرُهُ

امام بغوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں  اکثرمذہب یہی ہے کہ خودکشی کرنے والے کی نمازجنازہ پڑھی جائے گی ،اورعمربن عبدالعزیزاس شخص کی نمازجنازہ نہیں  پڑھتے تھے ،امام اوزعی رحمہ اللہ اور امام احمد رحمہ اللہ فرماتے ہیں  امام اس کی نمازجنازہ نہ پڑھائے کوئی دوسراپڑھادے۔[67]

اللہ تعالیٰ نے فرمایا

مَا كَانَ لِلنَّبِیِّ وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَنْ یَّسْتَغْفِرُوْا لِلْمُشْرِكِیْنَ وَلَوْ كَانُوْٓا اُولِیْ قُرْبٰى مِنْۢ بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَھُمْ اَنَّھُمْ اَصْحٰبُ الْجَحِیْمِ۝۱۱۳ [68]

ترجمہ:نبی کو اور ان لوگوں  کو جو ایمان لائے ہیں  ، زیبا نہیں  ہے کہ مشرکوں  کے لیے مغفرت کی دعا کریں  چاہے وہ ان کے رشتہ دار ہی کیوں  نہ ہوں  جب کہ ان پر یہ بات کھل چکی ہے کہ وہ جہنم کے مستحق ہیں  ۔

وَلَا تُصَلِّ عَلٰٓی اَحَدٍ مِّنْهُمْ مَّاتَ اَبَدًا وَّلَا تَقُمْ عَلٰی قَبْرِهٖ۝۰ۭ اِنَّهُمْ كَفَرُوْا بِاللهِ وَرَسُوْلِهٖ وَمَاتُوْا وَهُمْ فٰسِقُوْنَ۝۸۴ [69]

ترجمہ:اور آئندہ ان میں  سے جو کوئی مرے اس کی نمازِ جنازہ بھی تم ہرگز نہ پڑھنا اور نہ کبھی اس کی قبر پر کھڑے ہوناکیونکہ انہوں  نے اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ کفر کیا ہے اور وہ مرے ہیں  اس حال میں  کہ وہ فاسق تھے ۔

اگرچہ یہ آیت رئیس المنافقین عبداللہ بن ابی کے بارے میں  نازل ہوئی لیکن چونکہ اس کاحکم عام ہے اس لیے ہرایساشخص جس کی موت کفرونفاق پرہواس میں  شامل ہے۔

عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: كَانَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَجْمَعُ بَیْنَ الرَّجُلَیْنِ مِنْ قَتْلَى أُحُدٍ فِی ثَوْبٍ وَاحِدٍ، ثُمَّ یَقُولُ:أَیُّهُمْ أَكْثَرُ أَخْذًا لِلْقُرْآنِ، فَإِذَا أُشِیرَ لَهُ إِلَى أَحَدِهِمَا قَدَّمَهُ فِی اللَّحْدِ، وَقَالَ:أَنَا شَهِیدٌ عَلَى هَؤُلاَءِ یَوْمَ القِیَامَةِ، وَأَمَرَ بِدَفْنِهِمْ فِی دِمَائِهِمْ، وَلَمْ یُغَسَّلُوا، وَلَمْ یُصَلَّ عَلَیْهِمْ

جابربن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم غزوہ احد کے دن شہداء میں  سے دو شخصوں  کو ایک کپڑے میں  جمع کرتے تھے پھرفرماتے ان میں  سے کس کوقرآن زیادہ یادہے؟جب ان میں  سے کسی ایک کی طرف اشارہ کیا جاتا تو قبر میں  پہلے اس کو رکھا جاتا(تاکہ اس کی فضیلت ظاہرہو) اور فرماتے کہ میں  ان پر قیامت کے دن گواہ ہوں  گا اور ان کے خون سمیت دفن کرنے کا حکم دیا(تاکہ ان کی مظلومیت قائم رہے اورقیامت کے دن ان کی فضیلت ظاہرہوکیونکہ جس حال میں  کوئی دفن ہوگااسی حال میں  قیامت کے دن اٹھایاجائے گا) اور نہ غسل دیا(شہیدکوغسل اور جنازے کے بغیردفن کرنااس کی امتیازی شان ہے) اور نہ نماز پڑھی۔[70]

عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ،قَالَ:مَرَّ النَّبِیُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عَلَى حَمْزَةَ وَقَدْ مُثِّلَ بِهِ، وَلَمْ یُصَلِّ عَلَى أَحَدٍ مِنْ الشُّهَدَاءِ غَیْرِهِ۔۔۔۔إنَّهَا بِأَسَانِیدَ لَا تَثْبُت فَسَتَعْرِفُ الْكَلَامَ عَلَیْهَا، وَفِی الصَّلَاةِ عَلَى الشَّهِیدِ أَحَادِیثُ

انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حمزہ رضی اللہ عنہ کی نعش پر تشریف لائے جن کا مثلہ ہوچکا تھا ان کے علاوہ کسی شہید پر نماز جنازہ نہیں  پڑھی،۔۔۔شہدائے غزوہ بدرکے متعلق بھی نمازجنازہ کاکوئی ذکراحادیث میں  منقول نہیں  ( حالانکہ اگرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی نمازجنازہ پڑھائی ہوتی تودیگرصحابہ کرام رضی اللہ عنہم اسے ضروربیان کرتے ۔[71]

اس سے معلوم ہواکہ شہداء پرنمازجنازہ پڑھناواجب نہیں  ۔اس کامطلب یہ ہرگزنہیں  کہ شہداء کی نمازجنازہ پڑھناجائزنہیں  ، بلکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے شہداء کی نمازجنازہ پڑھناصحیح احادیث سے ثابت ہے ۔

عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ: أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ خَرَجَ یَوْمًا، فَصَلَّى عَلَى أَهْلِ أُحُدٍ صَلاَتَهُ عَلَى المَیِّتِ، ثُمَّ انْصَرَفَ إِلَى المِنْبَرِ، فَقَالَ:إِنِّی فَرَطٌ لَكُمْ، وَأَنَا شَهِیدٌ عَلَیْكُمْ، وَإِنِّی وَاللَّهِ لَأَنْظُرُ إِلَى حَوْضِی الآنَ، وَإِنِّی أُعْطِیتُ مَفَاتِیحَ خَزَائِنِ الأَرْضِ أَوْ مَفَاتِیحَ الأَرْضِ وَإِنِّی وَاللَّهِ مَا أَخَافُ عَلَیْكُمْ أَنْ تُشْرِكُوا بَعْدِی، وَلَكِنْ أَخَافُ عَلَیْكُمْ أَنْ تَنَافَسُوا فِیهَا

عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نکلے اور اہل احد کی قبروں  پر پہنچ کر نماز جنازہ پڑھی، پھر واپس آکر منبر پر رونق افروز ہوئے اور فرمایا میں  تمہارا انتظار کروں  گا اور میں  تمہارے لیے گواہی دوں  گا،بخدا میں  اس وقت بھی اپنے حوض کو دیکھ رہا ہوں  ، یاد رکھو! مجھے زمین کے خزانوں  کی چابیاں  دی گئی ہیں  ، بخدا! مجھے تمہارے متعلق یہ اندیشہ نہیں  ہے کہ میرے پیچھے تم شرک کرنے لگو گے بلکہ مجھے یہ اندیشہ ہے کہ تم دنیا میں  منہمک ہو کر ایک دوسرے سے مسابقت کرنے لگو گے۔[72]

عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ الْمَعْنَى،أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مَرَّ بِحَمْزَةَ، وَقَدْ مُثِّلَ بِهِ،وَلَمْ یُصَلِّ عَلَى أَحَدٍ مِنَ الشُّهَدَاءِ غَیْرِهِ یعنی شهداء أحد

انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حمزہ رضی اللہ عنہ کو دیکھا ان کو کافروں  نے مثلہ کیا تھا، اور آپ نے ان کے سوا کسی شہید کی نماز جنازہ نہیں  پڑھی۔[73]

عَنْ شَدَّادِ بْنِ الْهَادِ، أَنَّ رَجُلًا مِنَ الْأَعْرَابِ جَاءَ إِلَى النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَآمَنَ بِهِ وَاتَّبَعَهُ، ثُمَّ قَالَ: أُهَاجِرُ مَعَكَ، فَأَوْصَى بِهِ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بَعْضَ أَصْحَابِهِ، فَلَمَّا كَانَتْ غَزْوَةٌ غَنِمَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ سَبْیًا، فَقَسَمَ وَقَسَمَ لَهُ، فَأَعْطَى أَصْحَابَهُ مَا قَسَمَ لَهُ، وَكَانَ یَرْعَى ظَهْرَهُمْ، فَلَمَّا جَاءَ دَفَعُوهُ إِلَیْهِ، فَقَالَ: مَا هَذَا؟، قَالُوا: قِسْمٌ قَسَمَهُ لَكَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ،

شدادبن ھاد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ایک آدمی جو کہ جنگل کا باشندہ تھا خدمت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں  حاضر ہوا اور وہ مشرف با اسلام ہوا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہوگیا، پھر کہنے لگا کہ میں  آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہجرت کروں  گا،رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے واسطے بعض صحابہ کرام کو وصیت کی،جس وقت غزوہ ختم ہوگیا یعنی غزوہ میں  مسلمانوں  کو بکریاں  حاصل ہوئیں  تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان بکریوں  کو تقسیم فرمایا، اور اس کا بھی حصہ لگایا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام نے اس کا حصہ اس کو دیا،وہ ان کے سواری کے جانور چوری کیا کرتا تھا،جس وقت اس کا حصہ دینے کے واسطے آئے تو اس سے دریافت کیا کہ یہ کیا ہے؟لوگوں  نے عرض کیا کہ یہ تمہارا حصہ ہے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تم کو عطا فرمایا ہے،

 فَأَخَذَهُ فَجَاءَ بِهِ إِلَى النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: مَا هَذَا؟ قَالَ:قَسَمْتُهُ لَكَ، قَالَ: مَا عَلَى هَذَا اتَّبَعْتُكَ، وَلَكِنِّی اتَّبَعْتُكَ عَلَى أَنْ أُرْمَى إِلَى هَاهُنَا، وَأَشَارَ إِلَى حَلْقِهِ بِسَهْمٍ، فَأَمُوتَ فَأَدْخُلَ الْجَنَّةَ فَقَالَ:إِنْ تَصْدُقِ اللَّهَ یَصْدُقْكَ، فَلَبِثُوا قَلِیلًا ثُمَّ نَهَضُوا فِی قِتَالِ الْعَدُوِّ،

اس نے لے لیا اور اس کو لے کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں  حاضر ہوا اور عرض کیا کیا ہوگیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ تمہارا حصہ میں  نے دیا ہے، اس نے عرض کیا کہ میں  اس وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ نہیں  ہوا تھا بلکہ میں  نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کی اس وجہ سے کی ہے میری جگہ پر (یعنی حلق کی طرف) اشارہ کیا کہ تیر مارا جائے (یعنی غزوہ میں  ) پھر میرا انتقال ہو جائے اور میں  جنت میں  داخل ہو جاؤں  ، رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اگر تو اللہ کو سچا کرے گا تو اللہ بھی تم کو سچا کرے گا، پھر کچھ دیر تک لوگ ٹھیرے رہے اس کے بعد دشمن سے جنگ کرنے کے واسطے اٹھے اور لڑائی شروع ہوئی،

فَأُتِیَ بِهِ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یُحْمَلُ قَدْ أَصَابَهُ سَهْمٌ حَیْثُ أَشَارَ، فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: أَهُوَ هُوَ؟قَالُوا: نَعَمْ، قَالَ:صَدَقَ اللَّهَ فَصَدَقَهُ، ثُمَّ كَفَّنَهُ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فِی جُبَّةِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ قَدَّمَهُ فَصَلَّى عَلَیْهِ، فَكَانَ فِیمَا ظَهَرَ مِنْ صَلَاتِهِ:اللَّهُمَّ هَذَا عَبْدُكَ خَرَجَ مُهَاجِرًا فِی سَبِیلِكَ فَقُتِلَ شَهِیدًا أَنَا شَهِیدٌ عَلَى ذَلِكَ

لوگ اس کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں  لے کر حاضر ہوئے اس شخص کے تیر لگا ہوا تھا اسی جگہ پر اس شخص نے بتلایا تھا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اللہ تعالیٰ کو اس نے سچ کیایعنی خداوند قدوس نے مجاہدین کی جو صفات بیان فرمائی ہیں  ان تمام کو اس نے سچ کیا تو خداوند قدوس نے بھی اس کو سچا کیا یعنی اس شخص کی مراد پوری ہوئی یہ شخص شہید ہوا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے مبارک جبہ کا کفن اس کو دے دیا، اور آگے کی جانب رکھا اور اس پر نماز ادا کی، تو جس قدر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز میں  سے لوگوں  کو سنائی دیا وہ یہ تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ یا اللہ یہ تیرا بندہ ہے اور تیرے راستے میں  ہجرت کر کے نکلا، اور یہ شخص راہ خدا میں  شہید ہوگیا میں  اس بات کا گواہ ہوں  ۔[74]

عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ الزُّبَیْرِ، رَضِیَ اللهُ عَنْهُمَا أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَمَرَ یَوْمَ أُحُدٍ بِحَمْزَةَ فَسُجِّیَ بِبُرْدِهِ ثُمَّ صَلَّى عَلَیْهِ , فَكَبَّرَ تِسْعَ تَكْبِیرَاتٍ , ثُمَّ أُتِیَ بِالْقَتْلَى یُصَفُّونَ , وَیُصَلِّی عَلَیْهِمْ وَعَلَیْهِ مَعَهُمْ

عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ احدکے دن حمزہ رضی اللہ عنہ کوایک چادرسے ڈھانپنے کاحکم فرمایا، پھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی نمازجنازہ پڑھائی اورنوتکبیریں  کہیں  ،پھردیگرشہدائے لائے جاتے اوران کی صف بنائی جاتی اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم ان سب پراوران کے ساتھ سیدالشہداء حمزہ رضی اللہ عنہ پرنمازجنازہ پڑھتے۔[75]

لاَ یُصَلَّى عَلَى الشَّهِیدِ

امام شافعی رحمہ اللہ ،امام احمد رحمہ اللہ اورامام مالک رحمہ اللہ فرماتے ہیں  شہداء کی نمازجنازہ نہیں  پڑھی جائے گی۔

یُصَلَّى عَلَى الشَّهِیدِ

امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں  شہداء کی نمازجنازہ پڑھی جائے گی۔[76]

راجح یہ ہے کہ شہداءکی نمازجنازہ پڑھنے اورنہ پڑھنے میں  انسان کواختیارہے لیکن زیادہ بہترپڑھناہی ہے، کیونکہ یہ دعااورعبادت ہی ہے جواجروثواب میں  اضافے کاباعث ہے۔

والصواب فی المسألة أنه مخیر بین الصلاة علیهم وتركها لمجئ

امام حافظ ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں  اس مسئلے میں  درست بات یہ ہے کہ پڑھنے اورچھوڑنے میں  اختیارہے۔[77]

وَأَیُّهَا كَانَ فَقَدْ ثَبَتَ بِصَلَاتِهِ عَلَیْهِمْ الصَّلَاةُ عَلَى الشُّهَدَاءِ

امام شوکانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں  شہیدکی نمازجنازہ پڑھناہی بہترہے۔[78]

أَنَّ الصَّلَاةَ عَلَى الشَّهِیدِ لَیْسَتْ بِوَاجِبَةٍ فَیَجُوزُ أَنْ یُصَلَّى عَلَیْهَا وَیَجُوزُ تَرْكُهَا

عبدالرحمٰن مبارکپوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں  شہیدکی نمازجنازہ واجب نہیں  ہے،لہذاپڑھنااورچھوڑنادونوں  طرح جائزہے۔[79]

ولاشك أن الصلاة علیهم أفضل من الترك إذا تیسرت لأنها دعاء وعبادة

شیخ البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں  پڑھنااورچھوڑنادونوں  طرح درست ہے لیکن پڑھناافضل ہے۔[80]

نمازجنازہ قبرپراورغائبانہ بھی پڑھی جاسکتی ہے:

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ: صَلَّى النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عَلَى رَجُلٍ بَعْدَ مَا دُفِنَ بِلَیْلَةٍ، قَامَ هُوَ وَأَصْحَابُهُ وَكَانَ سَأَلَ عَنْهُ، فَقَالَ:مَنْ هَذَا؟ فَقَالُوا: فُلاَنٌ دُفِنَ البَارِحَةَ، فَصَلَّوْا عَلَیْهِ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص پر رات کو دفن کئے جانے کے بعد نماز جنازہ پڑھی، آپ اور آپ کے صحابہ اٹھے اور اس کے متعلق پوچھ رہے تھے کہ یہ کون ہے؟ لوگوں  نے عرض کیا کہ یہ فلاں  شخص کی قبر ہے جو گزشتہ رات کو دفن کیا گیا، تو لوگوں  نے اس پر نماز پڑھی۔[81]

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: مَاتَ إِنْسَانٌ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَعُودُهُ، فَمَاتَ بِاللَّیْلِ، فَدَفَنُوهُ لَیْلًا، فَلَمَّا أَصْبَحَ أَخْبَرُوهُ، فَقَالَ:مَا مَنَعَكُمْ أَنْ تُعْلِمُونِی؟قَالُوا: كَانَ اللَّیْلُ فَكَرِهْنَا، وَكَانَتْ ظُلْمَةٌ أَنْ نَشُقَّ عَلَیْكَ فَأَتَى قَبْرَهُ فَصَلَّى عَلَیْهِ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہےایک شخص کی وفات ہوگئی ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی عیادت کے لئے جایاکرتے تھے،چونکہ ان کاانتقال رات میں  ہواتھااس لیے رات کولوگوں  نے انہیں  دفن کردیا،اورجب صبح ہوئی توآپ صلی اللہ علیہ وسلم کوخبردی ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا(کہ جنازہ تیارہوتے وقت)مجھے بتانے میں  (کیا)رکاوٹ تھی؟لوگوں  نے کہاکہ رات تھی اوراندھیرابھی تھااس لیے ہم نے مناسب نہیں  سمجھاکہ کہیں  آپ کوتکلیف ہو،پھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی قبرپرتشریف لائے اوراس کی نماز(جنازہ) پڑھی ۔[82]

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ: أَنَّ أَسْوَدَ رَجُلًا أَوِ امْرَأَةً كَانَ یَكُونُ فِی المَسْجِدِ یَقُمُّ المَسْجِدَ، فَمَاتَ وَلَمْ یَعْلَمُ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بِمَوْتِهِ، فَذَكَرَهُ ذَاتَ یَوْمٍ فَقَالَ:مَا فَعَلَ ذَلِكَ الإِنْسَانُ؟قَالُوا:مَاتَ یَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ :أَفَلاَ آذَنْتُمُونِی؟فَقَالُوا: إِنَّهُ كَانَ كَذَا وَكَذَا قِصَّتُهُ قَالَ: فَحَقَرُوا شَأْنَهُ، قَالَ:فَدُلُّونِی عَلَى قَبْرِهِ فَأَتَى قَبْرَهُ فَصَلَّى عَلَیْهِ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےایک سیاہ مرد یا عورت مسجد میں  جھاڑو دیتی تھی وہ مر گیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر نہ ہوئی،اس کو ایک دن آپ نے یاد کیا اور فرمایا کہ وہ آدمی کہاں  گیا ؟ لوگوں  نے کہااے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم وہ تو مر گیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے اطلاع کیوں  نہیں  دی؟ لوگوں  نے کہا کہ اس کا فلاں  فلاں  واقعہ ہےگویا اس کے مرتبہ کو لوگوں  نے حقیر سمجھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اسکی قبر مجھے بتلاؤ ،چنانچہ آپ اس کی قبر پر آئے اور اس پر نماز(جنازہ) پڑھی۔[83]

عَنْ یَزِیدَ بْنِ ثَابِتٍ، وَكَانَ أَكْبَرَ مِنْ زَیْدٍ، قَالَ: خَرَجْنَا مَعَ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَلَمَّا وَرَدَ الْبَقِیعَ فَإِذَا هُوَ بِقَبْرٍ جَدِیدٍ، فَسَأَلَ عَنْهُ، فَقَالُوا: فُلَانَةُ، قَالَ: فَعَرَفَهَا وَقَالَ أَلَا آذَنْتُمُونِی بِهَاقَالُوا: كُنْتَ قَائِلًا صَائِمًا، فَكَرِهْنَا أَنْ نُؤْذِیَكَ، قَالَ:فَلَا تَفْعَلُوا، لَا أَعْرِفَنَّ مَا مَاتَ مِنْكُمْ مَیِّتٌ مَا كُنْتُ بَیْنَ أَظْهُرِكُمْ إِلَّا آذَنْتُمُونِی بِهِ؛ فَإِنَّ صَلَاتِی عَلَیْهِ لَهُ رَحْمَةٌ ثُمَّ أَتَى الْقَبْرَ، فَصَفَفْنَا خَلْفَهُ، فَكَبَّرَ عَلَیْهِ أَرْبَعًا

یزیدبن ثابت رضی اللہ عنہ سے مروی ہےہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ باہر آئے جب آپ بقیع پہنچے تو ایک نئی قبر دیکھی اسکے بارے میں  پوچھا،لوگوں  نے عرض کیا کہ فلاں  خاتون ہیں  ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہچان لیا اور فرمایا کہ مجھے اطلاع کیوں  نہ دی،لوگوں  نے عرض کیا آپ روزے میں  دوپہر کو آرام فرما رہے تھے اسلئے ہم نے آپ کو تکلیف دینا مناسب نہ سمجھا،فرمایا آئندہ ایسا نہ کرنا کہ مجھے پتہ ہی نہ چلے، تم میں  جو بھی فوت ہو تو جب میں  تمہارے درمیان ہوں  مجھے اسکی اطلاع دینا، کیونکہ میرا جنازہ پڑھنا اس کیلئے رحمت کا باعث ہے،پھر آپ قبر پر تشریف لے گئے اور ہم نے آپ کے پیچھے صفیں  بنائیں  ، آپ نے چار تکبیریں  کہیں  ۔[84]

انطلقوا، فانطلقوا مع رسول الله صلى الله علیه وسلم حتى قاموا على قبرها فصفوا وراء رسول الله صلى الله عیه وسلم كما یصف للصلاة على الجنازة فصلى علیها رسول الله صلى الله علیه وسلم وكبر أربعا كما یكبر على الجنائز

ایک اورروایت میں  ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مسکین عورت کی قبرپرجاکرباجماعت نمازجنازہ پڑھائی جیساکہ اس میں  یہ لفظ ہیں  ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایامجھے اس کی قبرپرلے چلو،لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ چلے حتی کہ اس عورت کی قبرکے پاس کھڑے ہوگئے،اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے اس طرح صفیں  درست کرلیں  جیساکہ نمازجنازہ کے لیے صفیں  درست کی جاتی ہیں  ، پھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی نمازجنازہ پڑھائی اورچارتکبیرات کہیں  جیسے جنازے میں  کہی جاتی ہیں  ۔[85]

 أَیْ عَلَى مَشْرُوعِیَّةِ الصَّلَاةِ عَلَى الْقَبْرِ۔۔۔۔لَا یَنْفِی مَشْرُوعِیَّةَ الصَّلَاةِ عَلَى الْقَبْرِ

جمہور،امام احمد رحمہ اللہ اورامام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں  یہ روایت قبرپرنمازجنازہ پڑھنے پرمشروع ہے،امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ اورامام مالک رحمہ اللہ فرماتے ہیں  قبرپرنمازجنازہ پڑھنامشروع نہیں  ۔[86]

غیرمشروع کہنے والوں  کی دلیل وہ حدیث ہے جس میں  مسجدمیں  جھاڑودینے والی عورت کی قبرپرنمازجنازہ کاذکرہے اس میں  یہ لفظ ہیں

إِنَّ هَذِهِ الْقُبُورَ مَمْلُوءَةٌ ظُلْمَةً عَلَى أَهْلِهَا، وَإِنَّ اللهَ عَزَّ وَجَلَّ یُنَوِّرُهَا لَهُمْ بِصَلَاتِی عَلَیْهِمْ

یہ قبریں  اہل قبورکے لیے اندھیروں  سے بھری ہوئی ہیں  اورمیری نمازسے ان کی قبروں  میں  روشنی ہو جاتی ہے۔[87]

اس سے اس طرح استدلال کرتے ہیں

إنَّ قَوْلَهُ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ :وَإِنَّ اللهَ یُنَوِّرُهَا بِصَلَاتِی عَلَیْهِمْ یَدُلُّ عَلَى أَنَّ ذَلِكَ مِنْ خَصَائِصِهِ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کایہ فرمان کہ میری نمازسے ان کی قبروں  میں  روشنی ہوجاتی ہے یہ اس بات کی دلیل ہے کہ( قبرپرنمازجنازہ)صرف نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کےخصائص میں  سے ہے۔[88]

فَقَالَ فِی تَرْكِ إنْكَارِهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عَلَى مَنْ صَلَّى مَعَهُ عَلَى الْقَبْرِ بَیَانُ جَوَازِ ذَلِكَ لِغَیْرِهِ، وَأَنَّهُ لَیْسَ مِنْ خَصَائِصِهِ. وَتَعَقَّبَ هَذَا التَّعَقُّبَ بِأَنَّ الَّذِی یَقَعُ بِالتَّبَعِیَّةِ لَا یَنْتَهِضُ دَلِیلًا لِلْأَصَالَةِ

امام ابن حبان رحمہ اللہ اس کے تعاقب میں  فرماتے ہیں  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کی معیت میں  قبر پر جنازہ پڑھااور اس پر کوئی انکار نہ کیا جو غیر کے لیے بھی جواز کی دلیل ہے،اور یہ صرف نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے خاص نہیں  بلکہ اس کے بعد اگر کوئی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کرتے ہوئے قبر پر جنازہ پڑھے تو یہ فعل حقیقت کی دلیل پر مبنی نہ ہوگا۔[89]

وَمِنْ جُمْلَةِ مَا أَجَابَ بِهِ الْجُمْهُورُ عَنْ هَذِهِ الزِّیَادَةِ أَنَّهَا مُدْرَجَةٌ فِی هَذَا الْإِسْنَادِ

اورجمہوراس کاجواب یوں  دیتے ہیں  کہ اس حدیث میں  مذکورہ الفاظ کااضافہ مدرج ہے جیساکہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے بھی اسی کوترجیح دی ہے اورثابت کیاہے۔[90]

أَنَّ الِاخْتِصَاصَ لَا یَثْبُت إلَّا بِدَلِیلٍ

خامام شوکانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں  صوصیت صرف دلیل سے ہی ثابت ہوتی ہے۔[91]

اہل قبرپرتدفین کے وقت نمازپڑھی گئی ہویانہ پڑھی گئی ہوبعدمیں  قبرپرنمازپڑھی جاسکتی ہے جیساکہ گزشتہ احادیث اس پرشاہدہیں  ۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نجاشی کی غائبانہ نمازجنازہ ادافرمائی ۔

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ:أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ نَعَى النَّجَاشِیَّ فِی الیَوْمِ الَّذِی مَاتَ فِیهِ، وَخَرَجَ بِهِمْ إِلَى المُصَلَّى، فَصَفَّ بِهِمْ، وَكَبَّرَ عَلَیْهِ أَرْبَعَ تَكْبِیرَاتٍ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول صلی اللہ علیہ وسلم نے نجاشی کی وفات کی خبر اسی دن سنائی جس دن وہ انتقال ہوا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ساتھ مصلی کی طرف تشریف لے گئے پھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نےلوگوں  کی صف بندی کرائی، اوراس پرچار تکبیریں  کہیں  ۔[92]

جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُمَا، یَقُولُ: قَالَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:قَدْ تُوُفِّیَ الیَوْمَ رَجُلٌ صَالِحٌ مِنَ الحَبَشِ، فَهَلُمَّ، فَصَلُّوا عَلَیْهِ، قَالَ: فَصَفَفْنَا، فَصَلَّى النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عَلَیْهِ وَنَحْنُ مَعَهُ صُفُوفٌ قَالَ أَبُو الزُّبَیْرِ: عَنْ جَابِرٍ كُنْتُ فِی الصَّفِّ الثَّانِی

جابربن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے بھی اسی معنی میں  روایت مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا آج حبش کا ایک مرد صالح فوت ہوگیا اس لئے آؤ اور اس پر نماز پڑھو، ہم لوگوں  نے صفیں  قائم کیں  تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور ہم لوگ صف بستہ تھے اورنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی نمازجنازہ پڑھائی، ابوزبیر نے جابر رضی اللہ عنہ سے روایت کیا کہ میں  دوسری صف میں  تھا۔[93]

عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَیْنٍ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:إِنَّ أَخَاكُمْ النَّجَاشِیَّ قَدْ مَاتَ فَصَلُّوا عَلَیْهِ، فَقَامَ فَصَفَّنَا خَلْفَهُ، فَإِنِّی لَفِی الصَّفِّ الثَّانِی فَصَلَّى عَلَیْهِ

عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے بھی ایساہی مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تمہارا بھائی فوت ہو چکا ہے، کھڑے ہو جاؤ اور اس پر نماز پڑھو، ہم کھڑے ہوئے اورہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتدامیں  نمازپڑھی، ہم نے دو صفیں  بنائیں  اورمیں  دوسری صف میں  تھا۔[94]

مَشْرُوعِیَّةِ الصَّلَاةِ عَلَى الْمَیِّتِ الْغَائِبِ عَنِ الْبَلَدِ وَبِذَلِكَ قَالَ الشَّافِعِیُّ وَأحمد وَجُمْهُور السّلف

جمہور،امام شافعی رحمہ اللہ اورامام احمد رحمہ اللہ غائبانہ نمازجنازہ کےقائل ہیں  ۔

لَمْ یَأْتِ عَنْ أَحَدٍ مِنْ الصَّحَابَةِ مَنْعُهُ

ابن حزم رحمہ اللہ فرماتے ہیں  کسی صحابی سے بھی اس کی ممانعت منقول نہیں  ۔

أَنَّهَا لَا تُشْرَعُ الصَّلَاةُ عَلَى الْغَائِبِ مُطْلَقًا

امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ اورامام مالک رحمہ اللہ فرماتے ہیں  غائبانہ نمازجنازہ مطلق طورپرمشروع ہی نہیں  ۔[95]

غائبانہ نمازجنازہ کوناجائزقراردینے والوں  کایہ بھی کہناہے

أَنَّ ذَلِكَ خَاصٌّ بِالنَّجَاشِیِّ

یہ صرف نجاشی کے ساتھ خاص تھا۔

کیونکہ ایک روایت میں  مذکورہے

كُشِفَ لِلنَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عَنْ سَرِیرِ النَّجَاشِیِّ حَتَّى رَآهُ وَصَلَّى عَلَیْهِ

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے زمین کے تمام پردے ہٹادیے گئے اورنجاشی کی میت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے تھی اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پرنمازپڑھی۔[96]

طُوِیَتْ لَهُ الْأَرْضُ وَأُحْضِرَتْ الْجِنَازَةُ بَیْنَ یَدَیْهِ

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے زمین سکیڑ دی گئی اور جنازہ سامنے حاضر کر دیاگیا تھا۔[97]

فِیهِ خَیَالَاتٍ أَجَابَ عَنْهَا

امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں  یہ روایت (جس میں  ہے کہ نجاشی کی میت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کردی گئی)محض اوہام وخیالات میں  سے ہے اس کی کچھ حقیقت نہیں  ۔[98]

أن هذا التأویل فاسد

شیخ البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں  یہ تاویل(کہ یہ عمل صرف نجاشی کے ساتھ خاص تھا)فاسدہے۔[99]

یادرہے کہ چونکہ اس عمل کی نجاشی کے ساتھ خصوصیت کی کوئی دلیل موجودنہیں  ، اس لیے یہ عمل بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ساری زندگی کے دیگرتمام اعمال کی طرح ہمارے لیے بھی اسوہ وسنت ہے۔

الصواب أن الغائب إن مات ببلد لم یصل علیه فیه، صلی علیه صلاة الغائب كما صلى النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ على النَّجَاشِیَّ لأنه مات ببن الكفار

امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں  اگرغائب شخص ایسے شہرمیں  فوت ہوکہ جہاں  اس کی نمازجنازہ نہ اداکی گئی ہو،توپھراس کی غائبانہ نمازجنازہ پڑھی جائے گی جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نجاشی کی نمازجنازہ پڑھی جوکفارکے درمیان فوت ہوگئے تھے۔[100]

 لَا یُصَلَّى عَلَى الْغَائِبِ إلَّا إذَا وَقَعَ مَوْتُهُ بِأَرْضٍ لَیْسَ فِیهَا مَنْ یُصَلِّی عَلَیْهِ

امام خطابی رحمہ اللہ فرماتے ہیں  کسی غائب کی نمازجنازہ نہیں  پڑھی جائے گی سوائے اس کے کہ اگرغائب شخص ایسے شہرمیں  فوت ہوکہ جہاں  اس کی نمازجنازہ نہ اداکی گئی ہوتوپھراس کی غائبانہ نمازجنازہ پڑھی جائے گی۔[101]

إنَّ أَخَاكُمْ مَاتَ بِغَیْرِ أَرْضِكُمْ فَقُومُوا صَلُّوا عَلَیْهِ

ان کی دلیل وہ حدیث ہے جس میں  یہ لفظ ہیں  ’’یقیناًتمہاراایک بھائی تمہارے علاقے سے باہرفوت ہواہے لہذااٹھواس کی نمازجنازہ پڑھو‘‘۔[102]

اس روایت سے یوں  استدلال کرتے ہیں

أَنَّهُ كَانَ بِأَرْضٍ لَمْ یُصَلِّ عَلَیْهِ بِهَا أَحَدٌ فَتَعَیَّنَتِ الصَّلَاةُ عَلَیْهِ لِذَلِكَ

نجاشی کاجنازہ اس کے علاقے میں  نہیں  پڑھاگیاتھااس لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی غائبانہ نمازجنازہ پڑھائی،اس کاجواب اس طرح دیاگیاہے کہ علاقے سے باہرفوت ہونے سے یہ لازم نہیں  آتاکہ اس شخص کی نمازجنازہ بھی نہیں  پڑھی گئی، اورنہ ہی اس حدیث میں  کوئی ایسی وضاحت موجودہے،

لَمْ أَقِفْ فِی شَیْءٍ مِنَ الْأَخْبَارِ عَلَى أَنَّهُ لَمْ یُصَلِّ عَلَیْهِ فِی بَلَدِهِ أَحَدٌ وَمِنْ ذَلِكَ

جیساکہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ رقمطرازہیں  ایسی کوئی خبرمیرے علم میں  نہیں  کہ(جس سے معلوم ہوتاکہ)نجاشی کی نمازجنازہ اس کے شہرمیں  نہیں  پڑھی گئی تھی۔[103]

کفارومنافقین کی نمازجنازہ یاان کے لیے دعاواستغفارقطعاًناجائزہے:

ارشادباری تعالیٰ ہے

 وَلَا تُصَلِّ عَلٰٓی اَحَدٍ مِّنْهُمْ مَّاتَ اَبَدًا وَّلَا تَقُمْ عَلٰی قَبْرِهٖ۝۰ۭ اِنَّهُمْ كَفَرُوْا بِاللهِ وَرَسُوْلِهٖ وَمَاتُوْا وَهُمْ فٰسِقُوْنَ۝۸۴ [104]

ترجمہ:اور آئندہ ان میں  سے جو کوئی مرے اس کی نمازِ جنازہ بھی تم ہرگز نہ پڑھنا اور نہ کبھی اس کی قبر پر کھڑے ہوناکیونکہ انہوں  نے اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ کفر کیا ہے اور وہ مرے ہیں  اس حال میں  کہ وہ فاسق تھے ۔

مَا كَانَ لِلنَّبِیِّ وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَنْ یَّسْتَغْفِرُوْا لِلْمُشْرِكِیْنَ وَلَوْ كَانُوْٓا اُولِیْ قُرْبٰى مِنْۢ بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَھُمْ اَنَّھُمْ اَصْحٰبُ الْجَحِیْمِ۝۱۱۳ [105]

ترجمہ:نبی کو اور ان لوگوں  کو جو ایمان لائے ہیں  زیبا نہیں  ہے کہ مشرکوں  کے لیے مغفرت کی دعا کریں  چاہے وہ ان کے رشتہ دار ہی کیوں  نہ ہوں  جب کہ ان پر یہ بات کھل چکی ہے کہ وہ جہنم کے مستحق ہیں  ۔

الصَّلَاةُ عَلَى الْكَافِرِ وَالدُّعَاءُ لَهُ بِالْمَغْفِرَةِ فَحَرَامٌ بِنَصِّ الْقُرْآنِ وَالْإِجْمَاعِ

امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں  کافرکی نمازجنازہ اوراس کے لیے بخشش کی دعاکرنانص قرآن اوراجماع امت کی وجہ سے حرام ہے۔[106]

شیخ البانی رحمہ اللہ اسی کے قائل ہیں  ،[107]

جسے شرعی حدلگائی گئی ہواس کی نمازجنازہ پڑھی جائے گی:

عَنْ جَابِرٍ: أَنَّ رَجُلًا مِنْ أَسْلَمَ، جَاءَ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَاعْتَرَفَ بِالزِّنَا، فَأَعْرَضَ عَنْهُ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى شَهِدَ عَلَى نَفْسِهِ أَرْبَعَ مَرَّاتٍ، قَالَ لَهُ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:أَبِكَ جُنُونٌ قَالَ: لاَ، قَالَ:آحْصَنْتَ قَالَ: نَعَمْ، فَأَمَرَ بِهِ فَرُجِمَ بِالْمُصَلَّى، فَلَمَّا أَذْلَقَتْهُ الحِجَارَةُ فَرَّ، فَأُدْرِكَ فَرُجِمَ حَتَّى مَاتَ. فَقَالَ لَهُ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ خَیْرًا، وَصَلَّى عَلَیْهِ

جابربن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےا قبیلہ اسلم کا ایک آدمی(ماغراسلمی رضی اللہ عنہ ) آیا اور اس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اپنے متعلق بدکاری کا اعتراف کیا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی طرف سے منہ پھیر لیا،جب اس طرح چار مرتبہ وہ اپنے متعلق گواہی دے چکا(کہ میں  نے زناکیاہے)تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم مجنوں  تو نہیں  ہو(مجنون پرحدنہیں  ہے)اس نے کہا نہیں  ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نےپوچھاشادی شدہ ہو(شادی شدہ نہ ہوتوسزاکوڑے ہیں  رجم نہیں  )اس نے کہا جی ہاں  ،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا اور اسے عید گاہ میں  سنگسار کر دیا گیا، جب اسے پتھر لگے تو وہ بھاگ کھڑا ہوا لوگوں  نے اسے پکڑ کر اتنے پتھر مارے کہ وہ مر گیا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے متعلق اچھے جملہ کہے(کیونکہ اس نے سچی توبہ کرلی حتی کہ جان قربان کردی) اور اس کی نماز جنازہ پڑھائی ۔[108]

بعض روایات میں  ہے

وَلَمْ یُصَلِّ عَلَیْهِ

نمازجنازہ نہیں  پڑھائی۔[109]

عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَیْنٍ، أَنَّ امْرَأَةً مِنْ جُهَیْنَةَ أَتَتْ نَبِیَّ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَهِیَ حُبْلَى مِنَ الزِّنَى، فَقَالَتْ: یَا نَبِیَّ اللهِ، أَصَبْتُ حَدًّا، فَأَقِمْهُ عَلَیَّ، فَدَعَا نَبِیُّ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَلِیَّهَا، فَقَالَ:أَحْسِنْ إِلَیْهَا، فَإِذَا وَضَعَتْ فَأْتِنِی بِهَا، فَفَعَلَ، فَأَمَرَ بِهَا نَبِیُّ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَشُكَّتْ عَلَیْهَا ثِیَابُهَا، ثُمَّ أَمَرَ بِهَا فَرُجِمَتْ، ثُمَّ صَلَّى عَلَیْهَا، فَقَالَ لَهُ عُمَرُ: تُصَلِّی عَلَیْهَا یَا نَبِیَّ اللهِ وَقَدْ زَنَتْ؟ فَقَالَ:لَقَدْ تَابَتْ تَوْبَةً لَوْ قُسِمَتْ بَیْنَ سَبْعِینَ مِنْ أَهْلِ الْمَدِینَةِ لَوَسِعَتْهُمْ، وَهَلْ وَجَدْتَ تَوْبَةً أَفْضَلَ مِنْ أَنْ جَادَتْ بِنَفْسِهَا لِلَّهِ تَعَالَى؟

عمران رضی اللہ عنہ بن حصین سے مروی ہے جہنیہ قبیلہ کی ایک عورت اللہ کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں  حاضر ہوئی اس حال میں  کہ وہ زنا سے حاملہ تھی، اس نے عرض کیا اے اللہ کے نبی! میں  حد کے جرم کو پہنچی ہوں  پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم مجھ پر (حد) قائم کریں  ، اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے ولی کو بلایا اور فرمایا کہ اس سے حسن سلوک کرنا،جب حمل وضع ہو جائے تو اسے میرے پاس لے آنا، پس جب اس نے بچہ جن لیاتووہ اسے لے کرآیا، اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عورت کے بارے میں  حکم دیا تو اس پر اس کے کپڑے مضبو طی سے باندھ دیے گئے(تاکہ بے پردگی نہ ہو) پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا تو اسے سنگسار کردیا گیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا جنازہ پڑھایا، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا اے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسکا جنازہ پڑھاتے ہیں  حالانکہ اس نے زنا کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تحقیق! اس نے ایسی توبہ کی ہے اگر مدینہ والوں  میں  ستر آدمیوں  کے درمیان تقیسم کی جائے تو انہیں  کافی ہو جائے ،اور کیا تم نے اس سے افضل توبہ پائی ہے کہ اس نے اپنے آپ کو اللہ کی رضا و خوشنودی کے لیے پیش کردیا ہے۔[110]

أَنَّهُ اتَّفَقَ الْعُلَمَاءُ عَلَى أَنَّ الْمَرْأَةَ تُرْجَمُ قَاعِدَةً

امام شوکانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں  رجم ششدہ شخص کی نمازجنازہ پڑھنے (کے جواز)پراجماع ہے۔[111]

قَالَ النَّوَوِیُّ: قَالَ الْقَاضِی: مَذْهَبُ الْعُلَمَاءِ كَافَّةً الصَّلَاةُ عَلَى كُلِّ مُسْلِمٍ وَمَحْدُودٍ وَمَرْجُومٍ وَقَاتِلِ نَفْسِهِ وَوَلَدِ الزِّنَا

امام نووی رحمہ اللہ قاضی عیاض کاکاقول نقل فرماتے ہیں  کہ تمام علماء کامذہب یہ ہے کہ ہرمسلمان خواہ اسے حدلگی ہو،رجم شدہ ہو،خودکشی کرنے والاہو،یاولدزناہواس کی نمازجنازہ پڑھی جائے گی۔[112]

بچہ خواہ مردہ پیداہواس کی نمازجنازہ پڑھی جاسکتی ہے:

عَنِ الْمُغِیرَةِ بْنِ شُعْبَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:الرَّاكِبُ خَلْفَ الْجِنَازَةِ وَالْمَاشِی حَیْثُ شَاءَ مِنْهَا وَالطِّفْلُ یُصَلَّى عَلَیْهِ

مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا سوار آدمی جنازے کے پیچھے چلے ،پیدل چلنے والے کی مرضی ہے (آگے چلے یا پیچھے، دائیں  جانب چلے یا بائیں  جانب) اور نابالغ بچے کی نماز جنازہ پڑھی جائے گی۔[113]

عَنِ الْمُغِیرَةِ بْنِ شُعْبَةَ، وَأَحْسَبُ أَنَّ أَهْلَ زِیَادٍ أَخْبَرُونِی أَنَّهُ رَفَعَهُ إِلَى النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:الرَّاكِبُ یَسِیرُ خَلْفَ الْجَنَازَةِ، وَالْمَاشِی یَمْشِی خَلْفَهَا، وَأَمَامَهَا، وَعَنْ یَمِینِهَا، وَعَنْ یَسَارِهَا قَرِیبًا مِنْهَا، وَالسِّقْطُ یُصَلَّى عَلَیْهِ، وَیُدْعَى لِوَالِدَیْهِ بِالْمَغْفِرَةِ وَالرَّحْمَةِ

مغیرہ رضی اللہ عنہ بن شعبہ سےایک روایت میں  ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا سوار آدمی جنازے کے پیچھے چلے، اور پیدل لوگ اس کے پیچھے،آگے، دائیں  اوربائیں  اس کے قریب چلیں  ، اوربچہ جوناقص پیداہواس کی بھی نمازجنازہ پڑھی جائےاور اس کے ماں  باپ کے لئے مغفرت اور رحمت کی دعاء کی جائے۔[114]

عَائِشَةَ أُمِّ الْمُؤْمِنِینَ قَالَتْ: أُتِیَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بِصَبِیٍّ مِنْ صِبْیَانِ الْأَنْصَارِ یُصَلِّی عَلَیْهِ قَالَتْ عَائِشَةُ: فَقُلْتُ: طُوبَى لِهَذَا عُصْفُورٌ مِنْ عَصَافِیرِ الْجَنَّةِ لَمْ یَعْمَلْ سُوءًا وَلَمْ یُدْرِكْهُ قَالَ: أَوَغَیْرَ ذَلِكَ یَا عَائِشَةُ خَلَقَ اللهُ الْجَنَّةَ وَخَلَقَ لَهَا أَهْلًا وَخَلَقَهُمْ فِی أَصْلَابِ آبَائِهِمْ وَخَلَقَ النَّارَ وَخَلَقَ لَهَا أَهْلًا وَخَلَقَهُمْ فِی أَصْلَابِ آبَائِهِمُ

ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس انصاریوں  کاایک (فوت شدہ)بچہ لایاگیا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی نمازجنازہ پڑھی، میں  نے کہااسے مبارک ہویہ توجنت کی چڑیوں  میں  سے ایک چڑیاہے، اس نے کوئی برائی کی نہ برائی کی عمرپائی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااے عائشہ رضی اللہ عنہا !کیاپتہ کوئی اوربات ہوجائے ؟اللہ تعالیٰ نے جنت بنائی تواس میں  جانے والے بھی بنادیے، اورانہیں  باپوں  کی پشتوں  میں  پیداکیا، اسی طرح آگ بنائی تواس میں  جانے والے بھی بنائے، اورانہیں  باپوں  کی پشتوں  میں  پیداکیا۔[115]

فِیهِ دَلِیلٌ عَلَى مَشْرُوعِیَّةِ الصَّلَاةِ عَلَى السِّقْطِ

امام شوکانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں  یہ روایت اس بات کی دلیل ہے کہ ناقص بچے کی نمازجنازہ پڑھی جائے گی۔[116]

فَذَهَبَ قَوْمٌ إِلَى أَنَّهُ لَا یُصَلَّى عَلَیْهِ ، وَهُوَ قَوْلُ الثَّوْرِیِّ، وَالأَوْزَاعِیِّ، وَمَالِكٍ، وَالشَّافِعِیِّ، وَأَصْحَابِ الرَّأْیِ ،وَذَهَبَ قَوْمٌ إِلَى أَنَّهُ یُصَلَّى عَلَیْهِ ، وَبِهِ قَالَ ابْنُ سِیرِینَ، وَابْنُ الْمُسَیِّبِ، وَهُوَ قَوْلُ أَحْمَدَ

امام بغوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں  بہت سے لوگوں  کاخیال ہے کہ اس پرنمازجنازہ نہیں  پڑھی جائے گی،ان میں  امام ثوری رحمہ اللہ ،امام اوزاعی رحمہ اللہ امام مالک رحمہ اللہ ،امام شافعی رحمہ اللہ اوراصحاب الرائے شامل ہیں  ،اوربہت سے لوگوں  کاخیال ہے کہ اس کی نمازجنازہ پڑھی جائے گی،ان میں  ابن سیرین رحمہ اللہ ،ابن مسیب رحمہ اللہ اورامام احمد رحمہ اللہ شامل ہیں  ۔[117]

( وَالسِّقْطُ) بِتَثْلِیثِ السِّینِ وَالْكَسْرُ أَشْهَرُ مَا بَدَا بَعْضُ خَلْقِهِ،فِی الْقَامُوسِ السِّقْطُ مُثَلَّثَةٌ الْوَلَدُ لِغَیْرِ تمام،وَقَالَ الْخَطَّابِیُّ اخْتَلَفَ النَّاسُ فِی الصَّلَاةِ عَلَى السقط ،فروى عن بن عُمَرَ أَنَّهُ قَالَ یُصَلَّى عَلَیْهِ وَإِنْ لَمْ یستهل وبه قال بن سیرین وبن المسیب ، وَقَالَ أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ وَإِسْحَاقُ بْنُ رَاهَوَیْهِ كُلُّ مَا نُفِخَ فِیهِ الرُّوحُ وَتَمَّتْ لَهُ أَرْبَعَةُ أَشْهُرٍ وَعَشْرٌ صُلِّیَ عَلَیْهِ، وروى عن بن عَبَّاسٍ أَنَّهُ قَالَ إِذَا اسْتَهَلَّ وَرِثَ وَصُلِّیَ عَلَیْهِ، وَعَنْ جَابِرٍ إِذَا اسْتَهَلَّ صُلِّیَ عَلَیْهِ وَإِنْ لَمْ یَسْتَهِلَّ لَمْ یُصَلَّ عَلَیْهِ وَبِهِ قَالَ أَصْحَابُ الرَّأْیِ وَهُوَ قَوْلُ مَالِكٍ وَالْأَوْزَاعِیِّ وَالشَّافِعِیِّ (وَیُدْعَى لِوَالِدَیْهِ) إِنْ كَانَا مُسْلِمَیْنِ

امام خطابی رحمہ اللہ فرماتے ہیں  سین پرتینوں  حرکات کے ساتھ اس سے مرادناتمام بچہ ہے، اورقاموس میں  ہے السِّقْطُ سے مرادوہ بچہ ہے جوناقص پیداہواہو،امام خطابی رحمہ اللہ فرماتےہیں  ناتمام پیداہونے والے بچے کی نمازجنازہ اداکرنے کی بابت اختلاف ہے،عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کاقول ہے کہ بچہ اگرزندگی کی علامت کے ساتھ پیدانہ ہوتوبھی اس کی نمازجنازہ پڑھی جائے گی،یہی قول ابن سیرین اورابن مسیب رحمہ اللہ کاہے، امام احمدبن حنبل رحمہ اللہ اوراسحاق بن راہویہ رحمہ اللہ کاقول ہے کہ اگراس پرچارمہینے دس دن گزرچکے ہوں  اوراس میں  روح پھونک دی گئی ہوتواس کی نمازجنازہ پڑھی جائے گی،عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کاقول ہے کہ جب پیداہواورعلامت زندگی موجودہو،تواس کی نمازجنازہ پڑھی جائے گی،جابر رضی اللہ عنہ نے اتنامزیدکہاہے کہ اگرزندگی کی علامت نہ ہوتونمازجنازہ نہیں  پڑھی جائے گی ،اس کے قائل امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ ،امام مالک رحمہ اللہ ،امام اوزاعی رحمہ اللہ اورامام شافعی رحمہ اللہ ہیں  ۔[118]

واللفظا للنسائی،وإسناده صحیح ،والظاهر أن السقط إنما یصلی علیه إذا كان قد نفخت فیه الروح، وذلك إذا استكمل أربعة أشهر، ثم مات، فإما إذا سقط قبل ذلك، لانه لیس بمیت كما لا یخفى

شیخ البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں  یہ لفظ سنن نسائی کے ہیں  اوراس کی سندصحیح ہے (مزیدبیان کرتے ہیں  )یہ بات ظاہرہے کہ ناتمام سے مرادوہ بچہ ہے جس کے چارماہ مکمل ہوچکے ہوں  اوراس میں  روح پھونک دی گئی ہوپھروفات پائے ،تاہم اس مدت سے پہلے اگرکسی صورت میں  ساقط ہوجائے تواس کی نمازجنازہ نہیں  پڑھی جائے گی کیونکہ وہ میت کہلاہی نہیں  سکتا ۔[119]

قَالَ عَبْدُ اللَّهِ: حَدَّثَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ الصَّادِقُ المَصْدُوقُ، قَالَ:إِنَّ أَحَدَكُمْ یُجْمَعُ خَلْقُهُ فِی بَطْنِ أُمِّهِ أَرْبَعِینَ یَوْمًا، ثُمَّ یَكُونُ عَلَقَةً مِثْلَ ذَلِكَ، ثُمَّ یَكُونُ مُضْغَةً مِثْلَ ذَلِكَ، ثُمَّ یَبْعَثُ اللَّهُ مَلَكًا فَیُؤْمَرُ بِأَرْبَعِ كَلِمَاتٍ، وَیُقَالُ لَهُ: اكْتُبْ عَمَلَهُ، وَرِزْقَهُ، وَأَجَلَهُ، وَشَقِیٌّ أَوْ سَعِیدٌ، ثُمَّ یُنْفَخُ فِیهِ الرُّوحُ،

جیسے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما کی حدیث میں  ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے بیان فرمایااوروہ سچے ہیں  اورسچے کئے گئے ہیں  ، تمہاری خلقت کو شکم مادر میں  چالیس دن تک جمع رکھا جاتا ہے، پھر اتنے ہی دن وہ جما ہوا خون ہوتا ہے،پھر اتنے ہی دن وہ گوشت کا لوتھڑا ہوتا ہے، پھر اس کے پاس ایک فرشتے کو بھیجاجاتا ہے اور وہ اس میں  روح پھونک دیتا ہے، پھر چار چیزوں  کا حکم دیا جاتا ہے، اس کے رزق کا، اس کی موت کا، اس کے اعمال کا اور یہ کہ یہ بد نصیب ہوگا یا خوش نصیب؟

فَإِنَّ الرَّجُلَ مِنْكُمْ لَیَعْمَلُ حَتَّى مَا یَكُونُ بَیْنَهُ وَبَیْنَ الجَنَّةِ إِلَّا ذِرَاعٌ، فَیَسْبِقُ عَلَیْهِ كِتَابُهُ، فَیَعْمَلُ بِعَمَلِ أَهْلِ النَّارِ، وَیَعْمَلُ حَتَّى مَا یَكُونُ بَیْنَهُ وَبَیْنَ النَّارِ إِلَّا ذِرَاعٌ، فَیَسْبِقُ عَلَیْهِ الكِتَابُ، فَیَعْمَلُ بِعَمَلِ أَهْلِ الجَنَّةِ

اس ذات کی قسم! جس کے علاوہ کوئی معبود نہیں  ، تم میں  سے ایک شخص اہل جنت کی طرح اعمال کرتا رہتا ہے، جب اس کے اور جنت کے درمیان صرف ایک گز کا فاصلہ رہ جاتا ہے تو تقدیر غالب آ جاتی ہے اور وہ اہل جہنم والے اعمال کر کے جہنم میں  داخل ہو جاتا ہے، اور ایک شخص جہنمیوں  والے اعمال کرتا رہتا ہے یہاں  تک کہ اس کے اور جہنم کے درمیان صرف ایک گز کا فاصلہ رہ جاتا ہے کہ اس پر تقدیر غالب آ جاتی ہے، اور اس کا خاتمہ جنتیوں  والے اعمال پر ہو جاتا ہے اور وہ جنت میں  داخل ہوجاتا ہے۔[120]

إذَا اسْتَهَلَّ السَّقَطُ صُلِّیَ عَلَیْه ِوَوُرِثَ

جس روایت میں  یہ لفظ ہیں  جب ناتمام بچہ چیخ پڑے تواس کی نمازجنازہ پڑھی جائے گی اوراسے وارث بھی بنایاجائے گا۔[121]

وَفِی إسْنَادِهِ إسْمَاعِیلُ بن مسلم وَهُوَ ضَعِیفٌ

اس روایت کی سندمیں  اسماعیل بن مسلم ہے جو ضعیف ہے۔[122]

ولكنه حَدِیث ضَعِیفٌ لا یحتج به، كما بینه العلماء

شیخ البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں  مگریہ حدیث ضعیف ہے اس سے استدلال نہیں  کیاجاسکتاجیساکہ علماء جانتے ہیں  ۔[123]

بوقت ضرورت مسجدمیں  بھی نمازجنازہ پڑھی جاسکتی ہے:

أَنَّ عَائِشَةَ، لَمَّا تُوُفِّیَ سَعْدُ بْنُ أَبِی وَقَّاصٍ، قَالَتْ: ادْخُلُوا بِهِ الْمَسْجِدَ حَتَّى أُصَلِّیَ عَلَیْهِ، فَأُنْكِرَ ذَلِكَ عَلَیْهَا، فَقَالَتْ:وَاللهِ، لَقَدْ صَلَّى رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عَلَى ابْنَیْ بَیْضَاءَ فِی الْمَسْجِدِ سُهَیْلٍ وَأَخِیهِ

ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے جب سعدبن ابی وقاص رضی اللہ عنہ فوت ہوئے توعائشہ رضی اللہ عنہا نے حکم فرمایاکہ ان کاجنازہ مسجدکے اندرلائیں  تاکہ آپ بھی نمازپڑھیں  ،لوگوں  نے اس پرتعجب کیاتوعائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایااللہ کی قسم!رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیضاء کے دونوں  بیٹوں  کی نمازجنازہ مسجدمیں  ادافرمائی۔[124]

قَالَ الْعُلَمَاءُ: بَنُو بَیْضَاءَ ثَلَاثَةُ إخْوَةٍ سَهْلٌ وَسُهَیْلٌ وَصَفْوَانُ، وَأُمُّهُمْ الْبَیْضَاءُ اسْمُهَا دَعْدُ، وَالْبَیْضَاءُ وَصْفٌ، وَأَبُوهُمْ وَهْبُ بْنُ رَبِیعَةَ الْقُرَشِیُّ الْفِهْرِیُّ

امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں  علماء کہتے ہیں  بنوبیضاء کے تین بھائی تھے، سہیل،سہل اورصفوان،ان کی والدہ کانام دعداوربیضاء وصف تھا،اوران کے والدکانام وہب بن ربیعہ القرشی تھا۔

سہیل رضی اللہ عنہ نوہجری میں  فوت ہوئےان کاجنازہ مسجدمیں  پڑھاگیا،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاعام معمول تومسجدسے باہرپڑھنے کاتھامگرمسجدمیں  پڑھنابھی ثابت ہے ،بعدمیں  سیدناابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور سیدنا عمرفاروق رضی اللہ عنہ کے جنازے بھی مسجدنبوی ہی میں  پڑھے گئے ،سعدبن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کاجنازہ ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے حکماً مسجدمیں  پڑھوایا ، لہذا ضرورت پڑے تومسجدمیں  جنازہ پڑھاجاسکتاہے چونکہ دفن باہرکیاجاتاہے لہذاعموماً جنازہ باہرہی پڑھاجاتاہے،یہ وجہ نہیں  کہ مسجدمیں  کراہت ہے بلکہ ضرورت نہیں  ، ضرورت ہوتومسجدمیں  بلاکراہت درست ہے،احناف سرے سے مسجدمیں  جنازہ درست ہی نہیں  سمجھتے ۔

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:مَنْ صَلَّى عَلَى جَنَازَةٍ فِی الْمَسْجِدِ، فَلَا شَیْءَ لَهُ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے جس نے مسجدمیں  جنازہ پڑھا،اسے خاص اجر نہیں  ملے گا [125]

بعض نسخوں  میں  ہے

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: مَنْ صَلَّى عَلَى جَنَازَةٍ فِی الْمَسْجِد، ِ فَلَا شَیْءَ عَلَیْهِ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجس نے مسجدمیں  جنازہ پڑھا، اسے کوئی گناہ نہیں  ۔[126]

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:مَنْ صَلَّى عَلَى جِنَازَةٍ فِی الْمَسْجِدِ، فَلَیْسَ لَهُ شَیْءٌ

اورابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےجوشخص مسجدمیں  جنازہ پرنمازپڑھے اس کے لیے کچھ نہیں  ہے۔[127]

ضعیف روایت ہے اس کی سندمیں  صالح ہےاوربما لَا رَیْبَ فِیهِ ’’ غرض اس میں  کوئی حرج نہیں  ‘‘کے الفاظ بھی ہیں  لیکن پہلے الفاظ ہی درست ہیں  ، جس کامطلب یہ ہے کہ خاص اجرنہیں  ملے گا ،جیساکہ علامہ سندھی حنفی رحمہ اللہ نے تطبیق دی ہے صرف نمازجنازہ کااجرملے گا،مطلق اجرکی نفی اس لیے نہیں  کی جاسکتی کہ صحیح حدیث سے خودرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کانمازجنازہ مسجدمیں  پڑھناثابت ہے،اس لیے مسجدمیں  نمازجنازہ پڑھنے کوناجائزنہیں  کہاجاسکتا،البتہ مسجدسے باہر پڑھنا افضل قرارپائے گا۔

وَعَنْ ابْنِ عُمَرَ قَالَ:إنَّ عُمَرَ صَلَّى عَلَى أَبِی بَكْرٍ فِی الْمَسْجِدِ وَإِنَّ صُهَیْبًا صَلَّى عَلَى عُمَرَ فِی الْمَسْجِدِ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے سیدناعمر رضی اللہ عنہ نے سیدناابوبکر رضی اللہ عنہ کی نمازجنازہ مسجدمیں  پڑھی، اورصہیب رضی اللہ عنہ نےسیدناعمر رضی اللہ عنہ کی نمازجنازہ مسجدمیں  ادافرمائی۔[128]

مَا صُلِّیَ عَلَى أَبِی بَكْرٍ إِلَّا فِی الْمَسْجِدِ

سیدناابوبکر رضی اللہ عنہ کی نمازجنازہ مسجدمیں  پڑھی گئی۔[129]

وَالْحَدِیثُ یَدُلُّ عَلَى جَوَازِ إدْخَالِ الْمَیِّتِ إلَى الْمَسْجِدِ وَالصَّلَاةِ عَلَیْهِ فِیهِ

جمہور،امام احمد رحمہ اللہ ،اسحاق رحمہ اللہ اورامام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں  یہ حدیث اس بات کاجوازہے کہ میت کومسجدمیں  لایاجاسکتاہے اوراس کی نمازجنازہ بھی پڑھائی جاسکتی ہے۔[130]

أَبُو حَنِیفَةَ وَمَالِكٌ ذَہَبَا بِكَرَاهَةِ صَلَاةِ الْجِنَازَةِ فِی الْمَسْجِدِ

امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ اورامام مالک رحمہ اللہ فرماتے ہیں  مسجدمیں  نمازجنازہ پڑھنامکروہ ہے۔[131]

یادرہے کہ کراہت کی کوئی دلیل موجودنہیں  ۔

لكن الأفضل الصلاة علیها خارج المسجد فی مكان معد للصلاة على الجنائز كما كان الأمر على عهد النبی صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، وهو الغالب على هدیه فیها

شیخ البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں  مسجدمیں  نمازجنازہ جائزہے، لیکن افضل یہ ہے کہ مسجدسے باہرجنازہ گاہ میں  جنازے کی نمازاداکی جائے، جیساکہ (اکثروبیشتر)نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں  (ایساہی)ہوتاتھا۔[132]

بَابُ الصَّلاَةِ عَلَى الجَنَائِزِ بِالْمُصَلَّى وَالمَسْجِدِ

امام بخاری رحمہ اللہ نے صحیح بخاری میں  اس طرح باب قائم کیاہےجنازہ گاہ اورمسجددونوں  جگہ نمازجنازہ اداکرنا(درست ہے) ۔[133]

قبروں  کے درمیان نمازجنازہ جائزنہیں  :

عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:نَهَى أَنْ یُصَلَّى عَلَى الْجَنَائِزِ بَیْنَ الْقُبُورِ

انس رضی اللہ عنہ بن مالک سے مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قبروں  کے درمیان کھڑے ہوکرنمازجنازہ پڑھنے سے منع فرمایاہے۔[134]

رَوَاهُ الطَّبَرَانِیُّ فِی الْأَوْسَطِ، وَإِسْنَادُهُ حَسَنٌ

امام ہیثمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں  امام طبرانی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب معجم الاوسط میں  اس کی اسناد حسن قرار دیا ہے۔[135]

ولا تجوز الصلاة علیها بین القبور

شیخ البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں  قبروں  کے درمیان کھڑے ہوکرنمازپڑھناجائزنہیں  ہے۔[136]

جنازے کی تکبیروں  میں  رفع الیدین:

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: كَبَّرَ عَلَى جَنَازَةٍ، فَرَفَعَ یَدَیْهِ فِی أَوَّلِ تَكْبِیرَةٍ، وَوَضَعَ الیُمْنَى عَلَى الیُسْرَى.

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے بے شک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نمازجنازہ کے لیے تکبیرکہی اورپہلی تکبیرکے ساتھ رفع الدین کیا،پھردائیں  ہاتھ کوبائیں  پررکھ لیا۔[137]

عَنْ ابْنِ عُمَرَإنَّهُ كَانَ یَرْفَعُ یَدَیْهِ فِی جَمِیعِ تَكْبِیرَاتِ الْجِنَازَةِ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نمازجنازہ کی ہرتکبیرکے ساتھ رفع الیدین کرتے تھے۔[138]

قال الترمذی عقب الحدیث الأول: هذا حدیث غریب، واختلف أهل العلم فی هذا، فرأى أكثر أهل العلم من أصحاب النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وغیرهم أن یرفع الرجل یدیه فی كل تكبیرة وهو قول ابن المبارك والشافعی وأحمد وإسحاق

امام ترمذی اول روایت کے تعاقب میں  فرماتے ہیں  یہ حدیث غریب ہے، اورعلماء نے اس بارے میں  اختلاف کیاہے،مگراصحاب نبوی کے اکثراہل علم نے روایت کی ہے کہ انسان کوہرتکبیرکے ساتھ رفع الیدین کرناچاہیے،اوریہ ابن مبارک رحمہ اللہ ،امام شافعی رحمہ اللہ ،امام احمداورامام اسحاق رحمہ اللہ کاقول ہے۔[139]

لا یرفع یدیه إلا فی أول مرة

احناف اورامام ثوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں  صرف پہلی تکبیرکے ساتھ رفع الیدین کیاجائے گا۔[140]

أجمعوا على أنه یرفع فی أول تكبیرة، واختلفوا فی سائرها

ابن منذری رحمہ اللہ فرماتے ہیں  اس پراجماع ہے کہ پہلی تکبیرکے وقت ہاتھ اٹھائے جائیں  گے۔[141]

وَاخْتَلَفُوا فِی رَفْعِ الْأَیْدِی فِی هَذِهِ التَّكْبِیرَاتِ وَمَذْهَبُ الشَّافِعِیِّ الرَّفْعُ فی جمیعها وحكاه بن المنذر عن بن عُمَرَ وَعُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِیزِ وَعَطَاءٍ وَسَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللهِ وَقَیْسِ بْنِ أَبِی حَازِمٍ والزهرى والأوزاعى وأحمد واسحاق واختاره بن الْمُنْذِرِ ، وَقَالَ الثَّوْرِیُّ وَأَبُو حَنِیفَةَ وَأَصْحَابُ الرَّأْیِ لَا یَرْفَعُ إِلَّا فِی التَّكْبِیرَةِ الْأُولَى

امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں  تکبیرات جنازہ میں  ہرتکبیرپررفع الیدین کرنے میں  علمانے اختلاف کیاہے،امام شافعی رحمہ اللہ کامذہب یہ ہے کہ ہرتکبیرپررفع الیدین کیاجائے اس کوعبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ اورعمربن عبدالعزیز رحمہ اللہ اورعطاء اورسالم بن عبداللہ اورقیس بن ابی حازم اورزہری اوراوزاعی رحمہ اللہ اوراحمد رحمہ اللہ اوراسحاق رحمہ اللہ سے نقل کیاہے، اورابن منذر رحمہ اللہ کے نزدیک مختارمذہب یہی ہے،اورامام ثوری رحمہ اللہ اورامام ابوحنیفہ رحمہ اللہ اوراصحاب الرائے کاقول یہ ہے کہ صرف تکبیراولیٰ میں  ہاتھ اٹھائے جائیں  ، ہر تکبیر پر رفع الیدین کے متعلق کوئی صحیح مرفوع حدیث موجودنہیں  ہے۔[142]

مردوں  اورعورتوں  کے(ایک سے زائد) جنازے اکٹھے ہوجائیں  تو؟:

جنازےخواہ مردوں  اورعورتوں  کے ہوں  ان سب پرایک ہی نمازپڑھی جاسکتی ہے نیزمردوں  کے جنازوں  کوامام کی جانب اورعورتوں  کے جنازوں  کوقبلہ کی جانب رکھنا بہتر ہے۔

نَافِعًا، یَزْعُمُ أَنَّ ابْنَ عُمَرَ، “ صَلَّى عَلَى تِسْعِ جَنَائِزَ جَمِیعًا فَجَعَلَ الرِّجَالُ یَلُونَ الْإِمَامَ وَالنِّسَاءُ یَلِینَ الْقِبْلَةَ فَصَفَّهُنَّ صَفًّا وَاحِدًا وَوُضِعَتْ جِنَازَةُ أُمِّ كُلْثُومٍ بِنْتِ عَلِیٍّ امْرَأَةِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ وَابْنٍ لَهَا یُقَالُ لَهُ: زَیْدٌ وُضِعَا جَمِیعًا وَالْإِمَامُ یَوْمَئِذٍ سَعِیدُ بْنُ الْعَاصِ وَفِی النَّاسِ ابْنُ عَبَّاسٍ وَأَبُو هُرَیْرَةَ وَأَبُو سَعِیدٍ وَأَبُو قَتَادَةَ فَوُضِعَ الْغُلَامُ مِمَّا یَلِی الْإِمَامَ “ فَقَالَ رَجُلٌ: فَأَنْكَرْتُ ذَلِكَ فَنَظَرْتُ إِلَى ابْنِ عَبَّاسٍ وَأَبِی هُرَیْرَةَ وَأَبِی سَعِیدٍ وَأَبِی قَتَادَةَ فَقُلْتُ: مَا هَذَا؟ قَالُوا: هِیَ السُّنَّةُ

نافع سے مروی ہےعبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے نوجنازوں  کی اکٹھی نمازجنازہ پڑھی، اورمردوں  کوامام کی جانب رکھا،اور عورتوں  کوقبلے کی جانب اوران سب کوایک سیدھ میں  رکھا، اور(اسی طرح)سیدناعمر رضی اللہ عنہ بن خطاب کی بیوی ام کلثوم بنت علی اوران کے بیٹے جن کانام زید تھا کواکٹھارکھاگیا،اس وقت امام سعیدبن عاص رضی اللہ عنہ تھے،اورحاضرین میں  عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ ،ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ،ابوسعید رضی اللہ عنہ اورابوقتادہ رضی اللہ عنہ شامل تھے، بچے کوامام کی جانب رکھاگیا،ایک آدمی نے کہاکہ میں  نے اس کودرست نہ سمجھاتومیں  نے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما ، ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ، ابوسعید رضی اللہ عنہ اورابوقتادہ رضی اللہ عنہ کی طرف دیکھااورکہایہ کیاہے؟ان سب نے کہایہی مسنون طریقہ ہے۔[143]

حَدَّثَنِی عَمَّارٌ، مَوْلَى الْحَارِثِ بْنِ نَوْفَلٍ،أَنَّهُ شَهِدَ جَنَازَةَ أُمِّ كُلْثُومٍ، وَابْنِهَا، فَجُعِلَ الْغُلَامُ مِمَّا یَلِی الْإِمَامَ فَأَنْكَرْتُ ذَلِكَ وَفِی الْقَوْمِ ابْنُ عَبَّاسٍ، وَأَبُو سَعِیدٍ الْخُدْرِیُّ، وَأَبُو قَتَادَةَ، وَأَبُو هُرَیْرَةَ،فَقَالُوا:هَذِهِ السُّنَّةُ

حارث بن نوفل کے آزادکردہ غلام عمارسے مروی ہے وہ ام کلثوم (دخترسیدناعلی رضی اللہ عنہ بن ابی طالب،زوجہ سیدناعمر رضی اللہ عنہ بن خطاب)اوران کے صاحبزادے (زیداکبر)کے جنازے میں  حاضرتھے ،پس(امیرمدینہ نے)بچے کوامام کی طرف رکھا،تومیں  نے اس کاانکارکیا، جماعت میں  عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما ،ابوسعیدخدری رضی اللہ عنہ ،ابوقتادہ رضی اللہ عنہ اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہ موجود تھے توانہوں  نے کہایہی سنت ہے۔[144]

 أن یصلى على كل واحدة من الجنائز صلاة، لأنه الأصل، ولأن النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فعل ذلك فی شهداء أحد

زیادہ جنازوں  کی الگ الگ نمازجنازہ پڑھنابھی درست ہے، کیونکہ یہی اصل ہے جیساکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے شہدائے احدکے جنازوں  میں  ایساہی کیا۔[145]

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ:لَمَّا وَقَفَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عَلَى حَمْزَةَ أَمَرَ بِهِ فَهُیِّءَ إِلَى الْقِبْلَةِ ثُمَّ كَبَّرَ عَلَیْهِ تِسْعًا، ثُمَّ جَمَعَ عَلَیْهِ الشُّهَدَاءَ كُلَّمَا أُتِی بِشَهِیدٍ وُضِعَ إِلَى حَمْزَةَ فَصَلَّى عَلَیْهِ، وَعَلَى الشُّهَدَاءِ مَعَهُ، حَتَّى صَلَّى عَلَیْهِ وَعَلَى الشُّهَدَاءِ اثْنَتَیْنِ وَسَبْعِینَ صَلَاةً

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حمزہ رضی اللہ عنہ کے پاس تشریف لائےتوآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم فرمایاکہ انہیں  قبلہ رخ رکھاجائے،پھران پرنوتکبیرات کہیں  ، پھر دوسرے شہیدکو ان کے قریب رکھاگیاتوآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حمزہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ اس شہیدکی نمازجنازہ پڑھائی،اس طرح تمام شہیدان کے قریب رکھے جاتے رہے اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم نمازجنازہ پڑھتے رہے، حتی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نےشہداء پربہتر(۷۲)مرتبہ جنازہ پڑھا۔[146]

خواتین کی نمازجنازہ میں  شرکت:

خواتین کی نمازجنازہ میں  شریک ہوسکتی ہیں  لیکن جنازے کے پیچھے چل کے جاناان کے لیے جائزنہیں  ۔

أَنَّ عَائِشَةَ، لَمَّا تُوُفِّیَ سَعْدُ بْنُ أَبِی وَقَّاصٍ، قَالَتْ: ادْخُلُوا بِهِ الْمَسْجِدَ حَتَّى أُصَلِّیَ عَلَیْهِ، فَأُنْكِرَ ذَلِكَ عَلَیْهَا، فَقَالَتْ:وَاللهِ، لَقَدْ صَلَّى رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عَلَى ابْنَیْ بَیْضَاءَ فِی الْمَسْجِدِ سُهَیْلٍ وَأَخِیهِ

ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے جب سعدبن ابی وقاص رضی اللہ عنہ فوت ہوئے توعائشہ رضی اللہ عنہا نے حکم فرمایاکہ ان کاجنازہ مسجدکے اندرلائیں  تاکہ آپ بھی نمازجنازہ پڑھیں  ،لوگوں  نے اس پرتعجب کیاتوعائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایااللہ کی قسم!رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیضاء کے دونوں  بیٹوں  کی نمازجنازہ مسجدمیں  ادافرمائی۔[147]

الصلاة على الجنازة مشروعة للرجال والنساء لكن لیس للنساء اتباع الجنائز إلى المقبرة لآنهن منهیات عن ذلك

ابن باز رحمہ اللہ فرماتے ہیں  خواتین کے لیےنمازجنازہ میں  شرکت ثابت توہے لیکن وہ جنازوں  کی تدفین کے لیے نہیں  چلیں  گی کیونکہ اس سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے ۔[148]

عَنْ أُمِّ عَطِیَّةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: «نُهِینَا عَنِ اتِّبَاعِ الجَنَائِزِ، وَلَمْ یُعْزَمْ عَلَیْنَا

جیساکہ ام عطیہ رضی اللہ عنہا سے مروی روایت میں  ہے ہمیں  (یعنی عورتوں  کو)جنازے کے ساتھ چلنے سے منع کیاگیا،مگرتاکیدسے منع نہیں  ہوا۔[149]

نمازجنازہ کے لیے صفیں  طاق ہوناضروری نہیں  :

کیونکہ ایسی کوئی دلیل موجودنہیں  جس سے معلوم ہوتاکہ صفیں  طاق ہوناضروری ہے،جولوگ طاق صفیں  بنانامستحب گردانتے ہیں  ان کی دلیل یہ حدیث ہے۔

عَنْ مَالِكِ بْنِ هُبَیْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:مَا مِنْ مُسْلِمٍ یَمُوتُ فَیُصَلِّی عَلَیْهِ ثَلَاثَةُ صُفُوفٍ مِنَ الْمُسْلِمِینَ، إِلَّا أَوْجَبَ، قَالَ: فَكَانَ مَالِكٌ إِذَا اسْتَقَلَّ أَهْلَ الْجَنَازَةِ جَزَّأَهُمْ ثَلَاثَةَ صُفُوفٍ لِلْحَدِیث

مالک بن ہبیرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجوکوئی بھی مسلمان فوت ہوجائےاورپھراس پرمسلمانوں  کی تین صفیں  اس کی نمازجنازہ میں  شریک ہوجائیں  تواللہ اس کے لیے(جنت)لازم کردیتاہے،بیان کیاکہ مالک رضی اللہ عنہ جب کسی جنازہ میں  لوگوں  کی تعدادکم پاتے توانہیں  تین صفوں  میں  تقسیم کردیاکرتے تھے۔[150]

حكم الألبانی: ضعیف لكن الموقوف حسن

شیخ البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں  یہ روایت ضعیف مگر موقوفاً حسن ہے۔[151]

نمازیوں  کی تعدادجتنی زیادہ ہوگی میت کواتنازیادہ فائدہ ہوگا:

عَنْ عَائِشَةَ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:مَا مِنْ مَیِّتٍ تُصَلِّی عَلَیْهِ أُمَّةٌ مِنَ الْمُسْلِمِینَ یَبْلُغُونَ مِائَةً، كُلُّهُمْ یَشْفَعُونَ لَهُ، إِلَّا شُفِّعُوا فِیهِ

ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجس میت پرمسلمانوں  کاایک گروہ جن کاعددسوتک پہنچتاہونمازجنازہ پڑھے، وہ سب اس کے لیے سفارش کریں  (یعنی اللہ سے اس کی مغفرت کی دعاکریں  ) تواس(میت)کے حق میں  ان کی سفارش قبول کرلی جاتی ہے۔[152]

عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَبَّاسٍ،فَإِنِّی سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، یَقُولُ:مَا مِنْ رَجُلٍ مُسْلِمٍ یَمُوتُ، فَیَقُومُ عَلَى جَنَازَتِهِ أَرْبَعُونَ رَجُلًا، لَا یُشْرِكُونَ بِاللهِ شَیْئًا، إِلَّا شَفَّعَهُمُ اللهُ فِیهِ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہےمیں  نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کوفرماتے سناجوکوئی مسلمان فوت ہوجائے اورپھراس پرچالیس آدمی کھڑے ہوکرجنازہ پڑھیں  جواللہ کے ساتھ کسی کوشریک نہ ٹھہراتے ہوں  (یعنی شرک وبدعت سے بے زاراوربری ہوں  ) تواس میت کے بارے میں  ان کی سفارش قبول کرلی جاتی ہے(مشرک ومبتدع لاکھوں  اکٹھے ہوجائیں  توکیافائدہ)۔[153]

نمازجنازہ کی فضیلت:

أَنَّ أَبَا هُرَیْرَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:مَنْ شَهِدَ الجَنَازَةَ حَتَّى یُصَلِّیَ، فَلَهُ قِیرَاطٌ، وَمَنْ شَهِدَ حَتَّى تُدْفَنَ كَانَ لَهُ قِیرَاطَانِ، قِیلَ: وَمَا القِیرَاطَانِ؟ قَالَ:مِثْلُ الجَبَلَیْنِ العَظِیمَیْنِ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجس نے جنازے میں  شرکت کی پھرنمازجنازہ پڑھی تواسے ایک قیراط ثواب ملتاہے،اورجودفن تک ساتھ رہاتواسے دوقراط ثواب ملتاہے،پوچھاگیاکہ دوقراط کتنے ہوتے ہیں  ؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ دوعظیم پہاڑوں  کے برابر۔[154]

نمازجنازہ کے بعداجتماعی دعا:

ولم یثبت عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ ، الدعاء بعد صلاة الجنازة ولم یكن هذا من سنته ولا سنة أصحابه

ابن باز رحمہ اللہ فرماتے ہیں  نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اورخلفائے راشدین سے ایساکچھ ثابت نہیں  ۔[155]

سعودی مجلس افتائ۔انہوں  نے اسی کے مطابق فتوی دیتے ہوئے اس دعاکوبدعت کہاہے۔[156]

[1] صحیح بخاری کتاب النفقات بَابُ قَوْلِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مَنْ تَرَكَ كَلًّا أَوْ ضَیَاعًا فَإِلَیَّ۵۳۷۱،صحیح مسلم کتاب الفرائض بَابُ مَنْ تَرَكَ مَالًا فَلِوَرَثَتِهِ۴۱۵۷،سنن ابن ماجہ کتاب الصدقات بَابُ مَنْ تَرَكَ دَیْنًا أَوْ ضَیَاعًا فَعَلَى اللهِ وَعَلَى رَسُولِهِ ۲۴۱۵،جامع ترمذی ابواب الجنائز بَابُ مَا جَاءَ فِی الصَّلاَةِ عَلَى الْمَدْیُونِ۱۰۷۰،مسنداحمد۷۸۹۹

[2] شرح النووی علی مسلم۶۰؍۱۱

[3] المحلی بالآثار۳۳۶؍۳

[4] الدررالبھیہ۴۴۷؍۱

[5] احکام الجنائز۷۹؍۱

[6] سنن ابوداودکتاب الجنائز بَابُ أَیْنَ یَقُومُ الْإِمَامُ مِنَ الْمَیِّتِ إِذَا صَلَّى عَلَیْهِ ۳۱۹۴

[7] صحیح بخاری کتاب الجنائزبَابُ الصَّلاَةِ عَلَى النُّفَسَاءِ إِذَا مَاتَتْ فِی نِفَاسِهَا ۱۳۳۱،۱۳۳۲،صحیح مسلم کتاب الجنائز بَابُ أَیْنَ یَقُومُ الْإِمَامُ مِنَ الْمَیِّتِ لِلصَّلَاةِ عَلَیْهِ۲۲۳۵، سنن ابوداودکتاب الجنائز بَابُ أَیْنَ یَقُومُ الْإِمَامُ مِنَ الْمَیِّتِ إِذَا صَلَّى عَلَیْهِ ۳۱۹۵،جامع ترمذی ابواب الجنائز بَابُ مَا جَاءَ أَیْنَ یَقُومُ الإِمَامُ مِنَ الرَّجُلِ وَالمَرْأَةِ ۱۰۳۵،سنن ابن ماجہ کتاب الجنائز بَابُ مَا جَاءَ فِی أَیْنَ یَقُومُ الْإِمَامُ  ِذَا صَلَّى عَلَى الْجِنَازَةِ ۱۴۹۳،السنن الکبری للنسائی ۲۱۱۴، مسنداحمد۲۰۱۶۲،صحیح ابن حبان۳۰۶۷،شرح السنة للبغوی۱۴۹۷،معرفة السنن والآثار۷۶۹۴

[8] نیل الاوطار۸۱؍۴

[9] احکام الجنائز۱۰۸؍۱

[10] صحیح بخاری کتاب الجنائزبَابُ التَّكْبِیرِ عَلَى الجَنَازَةِ أَرْبَعًا ۱۳۳۴،صحیح مسلم کتاب الجنایز بَابٌ فِی التَّكْبِیرِ عَلَى الْجَنَازَةِ۲۲۰۷، مسند احمد ۱۴۸۸۹،السنن الکبری للبیہقی۶۹۳۳

[11] جامع ترمذی ابواب الجنائز بَابُ مَا جَاءَ فِی التَّكْبِیرِ عَلَى الجَنَازَةِ ۱۰۲۲،مسنداحمد۷۱۴۷

[12] احکام الجنائز ۱۱۱؍۱،السنن الکبری للنسائی۲۱۲۷،المجموع شرح المھذب۲۳۳؍۵

[13] سنن ابن ماجہ کتاب الجنائز بَابُ مَا جَاءَ فِی التَّكْبِیرِ عَلَى الْجِنَازَةِ أَرْبَعًا ۱۵۰۳،احکام الجنائز۱۱۲؍۱،السنن الکبری للبیہقی۶۹۳۷

[14] صحیح مسلم کتاب الجنائزبَابُ الصَّلَاةِ عَلَى الْقَبْرِ۲۲۱۶ ،سنن ابوداود کتاب الجنائز بَابُ التَّكْبِیرِ عَلَى الْجَنَازَةِ ۳۱۹۷،جامع ترمذی ابواب الجنائز بَابُ مَا جَاءَ فِی التَّكْبِیرِ عَلَى الجَنَازَةِ ۱۰۲۳،سنن ابن ماجہ کتاب الجنائز بَابُ مَا جَاءَ فِیمَنْ كَبَّرَ خَمْسًا ۱۵۰۵،السنن الکبری للبیہقی۶۹۴۱،مصنف ابن ابی شیبة۱۱۴۴۸،مسنداحمد۱۹۳۲۰،شرح السنة للبغوی۱۴۹۰،۳۴۴؍۵،احکام الجنائز۱۱۲؍۱

[15] صحیح بخاری کتاب المغازی بَابُ شُهُودِ المَلاَئِكَةِ بَدْرًا ۴۰۰۴

[16] احکام الجنائز۱۱۳؍۱،معرفة السنن والآثار۳۳۲۷،مصنف ابن ابی شیبة ۱۱۴۵۹،السنن الکبری للبیہقی۶۹۴۳

[17] السنن الکبری للبیہقی۶۹۴۳

[18] احکام الجنائز ۸۲؍۱، شرح معانی الآثار۲۸۸۷

[19] نیل الاوطار۷۱؍۴

[20] نیل الاوطار۷۱؍۴

[21] نیل الاوطار۷۱؍۴

[22] السیل الجرار۲۱۷؍۱

[23] المحلی بالآثار۳۵۰؍۳

[24] نیل الاوطار۷۱؍۴،السیل الجرار۲۱۷؍۱

[25] احکام الجنائز۱۱۵؍۱،سنن الدارقطنی۱۸۱۸

[26] احکام الجنائز۱۱۵؍۱

[27] احکام الجنائز۱۱۵؍۱،المعجم الکبیرللطبرانی۱۱۴۰۳

[28] احکام الجنائز۱۱۵؍۱

[29] صحیح بخاری کتاب الاذان بَابُ وُجُوبِ القِرَاءَةِ لِلْإِمَامِ وَالمَأْمُومِ فِی الصَّلَوَاتِ كُلِّهَا، فِی الحَضَرِ وَالسَّفَرِ، وَمَا یُجْهَرُ فِیهَا وَمَا یُخَافَتُ ۷۵۶

[30] صحیح بخاری کتاب الاذان بَابُ قِرَاءَةِ فَاتِحَةِ الكِتَابِ عَلَى الجَنَازَةِ ۱۳۳۵،سنن ابوداودکتاب الجنائز بَابُ مَا یَقْرَأُ عَلَى الْجَنَازَةِ ۳۱۹۸، جامع ترمذی ابواب الجنائز بَابُ مَا جَاءَ فِی القِرَاءَةِ عَلَى الجَنَازَةِ بِفَاتِحَةِ الكِتَابِ۱۰۲۷،سنن نسائی کتاب الجنائز باب الدُّعَاءُ۱۹۸۸

[31] سنن نسائی کتاب الجنائز باب الدُّعَاءُ۱۹۸۷،صحیح ابن حبان۳۰۷۱،شرح السنة للبغوی۱۴۹۴،السنن الکبری للبیہقی۶۹۵۴،معرفة السنن والآثار۷۵۹۸،مسندابی یعلی۲۶۶۱

[32]المعجم الکبیر للطبرانی ۴۱۳

[33] المعجم الکبیر للطبرانی ۴۱۰

[34] السنن الکبری للبیہقی۶۹۸۰، مستدرک حاکم۱۳۲۹

[35]المنتقی لابن الجارود۵۳۶

[36]المنتقی لابن الجارود۵۳۶

[37] المحلی بالآثار۳۵۲؍۳

[38] جامع ترمذی کتاب الجنائز بَابُ مَا جَاءَ فِی القِرَاءَةِ عَلَى الجَنَازَةِ بِفَاتِحَةِ الكِتَابِ۱۰۲۷،احکام الجنائز۱۱۹؍۱

[39]المبسوط۶۴؍۲،سبل السلام۴۸۷؍۱،احکام الجنائز۱۲۰؍۱

[40] سبل السلام۴۸۷؍۱

[41] عمدة الرعایہ

[42] امام الکلام۳۱۴

[43] احکام الجنائز۱۲۰؍۱

[44] احکام الجنائز۱۲۱تا ۱۲۳

[45] سنن نسائی کتاب الجنائز باب الدُّعَاءُ۱۹۸۷،صحیح ابن حبان۳۰۷۱،شرح السنة للبغوی۱۴۹۴،السنن الکبری للبیہقی۶۹۵۴،معرفة السنن والآثار ۷۵۹۸،مسندابی یعلی۲۶۶۱

[46] صحیح مسلم کتاب الجنائزبَابُ الدُّعَاءِ لِلْمَیِّتِ فِی الصَّلَاةِ۲۲۳۲ ،جامع ترمذی ابواب الجنائز بَابُ مَا یَقُولُ فِی الصَّلاَةِ عَلَى الْمَیِّتِ ۱۰۲۵،سنن نسائی کتاب الجنائزباب الدُّعَاءُ ۱۹۸۵، مسنداحمد۲۳۹۷۵،صحیح ابن حبان۳۰۷۵،شرح السنة للبغوی۱۴۹۵،السنن الکبری للبیہقی۶۹۶۵

[47] سنن نسائی کتاب الجنائز باب الدُّعَاءُ۱۹۹۱،احکام الجنائز۱۱۱؍۱

[48] الام للشافعی۳۰۸؍۱،السنن الکبری للبیہقی۶۹۵۹ ، معرفة السنن والآثار۷۶۰۱،مستدرک حاکم ۱۳۳۱،احکام الجنائز۱۲۱؍۱

[49] مستدرک حاکم ۱۳۳۱،السنن الکبری للبیہقی ۶۹۶۲،احکام الجنائز۱۲۱؍۱

[50] احکام الجنائز۱۲۲؍۱

[51] ارواء الغلیل۱۷۹؍۳،سبل السلام۴۸۹؍۱،سنن ابوداودکتاب الجنائز بَابُ الدُّعَاءِ لِلْمَیِّتِ۳۱۹۹،سنن ابن ماجہ کتاب الجنائز بَابُ مَا جَاءَ فِی الدُّعَاءِ فِی الصَّلَاةِ عَلَى الْجِنَازَةِ ۱۴۹۷،السنن الکبری للبیہقی۶۹۶۴،صحیح ابن حبان۳۰۷۶،معرفة السنن والآثار۷۶۲۲،احکام الجنائز۱۲۳؍۱

[52] صحیح مسلم کتاب الجنائزبَابُ الدُّعَاءِ لِلْمَیِّتِ فِی الصَّلَاةِ۲۲۳۲ ،جامع ترمذی ابواب الجنائز بَابُ مَا یَقُولُ فِی الصَّلاَةِ عَلَى الْمَیِّتِ ۱۰۲۵،سنن نسائی کتاب الجنائزباب الدُّعَاءُ ۱۹۸۵، مسنداحمد۲۳۹۷۵،صحیح ابن حبان۳۰۷۵،شرح السنة للبغوی۱۴۹۵،السنن الکبری للبیہقی۶۹۶۵

[53] احکام الجنائز۱۲۴؍۱،سنن ابوداودکتاب الجنائزبَابُ الدُّعَاءِ لِلْمَیِّتِ۳۲۰۱،جامع ترمذی ابواب الجنائز بَابُ مَا یَقُولُ فِی الصَّلاَةِ عَلَى الْمَیِّتِ ۱۰۲۴،سنن ابن ماجہ کتاب الجنائزبَابُ مَا جَاءَ فِی الدُّعَاءِ فِی الصَّلَاةِ عَلَى الْجِنَازَةِ ۱۴۹۸، مسند احمد ۸۸۰۹، مستدرک حاکم۱۳۲۶،السنن الکبری للبیہقی۶۹۷۱،شرح السنة للبغوی۱۴۹۴،سبل السلام۴۸۸؍۱

[54] سنن ابن ماجہ کتاب الجنائز بَابُ مَا جَاءَ فِی الدُّعَاءِ فِی الصَّلَاةِ عَلَى الْجِنَازَةِ ۱۴۹۹،سنن ابوداود کتاب الجنائز بَابُ الدُّعَاءِ لِلْمَیِّتِ ۳۲۰۲، احکام الجنائز۱۲۵؍۱،سبل السلام ۴۸۹؍۱،مسنداحمد۱۶۰۱۸،صحیح ابن حبان۳۰۷۴

[55] موطاامام مالک۷۷۵،صحیح ابن حبان۳۰۷۳،مصنف عبدالرزاق۶۴۲۵،احکام الجنائز۱۲۵؍۱

[56] السنن الکبری للبیہقی۶۹۸۹،معرفة السنن والآثار۷۶۳۵،احکام الجنائز۱۲۷؍۱

[57] المجموع شرح المہذب ۲۳۹؍۵

[58] مجمع الزوائدومنبع الفوائد ۴۱۷۱

[59] سنن الدرقطنی۱۸۱۷،احکام الجنائز۱۲۸؍۱،مستدرک حاکم۱۳۳۲،السنن الکبری للبیہقی۶۹۸۲

[60] التعلیقات الرضیة علی الروضة الندیة للالبانی۴۴۷؍۱

[61] سنن ابوداودکتاب الجہادبَابٌ فِی تَعْظِیمِ الْغُلُولِ ۲۷۱۰،موطاامام مالک کتاب الجہادمَا جَاءَ فِی الْغُلُولِ،شرح السنة للبغوی۲۷۲۹،معرفة السنن والآثار۱۸۱۴۲،السنن الکبری للبیہقی۱۸۲۰۵،احکام الجنائز۷۹؍۱

[62] نیل الاوطار۵۸؍۴،الدررالبھیة والروضة الندیة والتعلیقات الرضیة۴۴۷؍۱

[63] التعلیقات الرضیة علی الروضة الندیة للالبانی۴۴۷؍۱

[64] نیل الاوطار۵۸؍۴

[65] صحیح مسلم کتاب الجنائزبَابُ تَرْكِ الصَّلَاةِ عَلَى الْقَاتِلِ نَفْسَهُ ۲۲۶۲،السنن الکبری للبیہقی۶۸۳۳

[66] سنن نسائی کتاب الجنائزتَرْكُ الصَّلَاةِ عَلَى مَنْ قَتَلَ نَفْسَهُ۱۹۶۶ ،السنن الکبری للبیہقی۶۸۳۳، مسنداحمد ۲۰۸۶۱

[67] شرح السنة للبغوی۳۷۳؍۵

[68] التوبة۱۱۳

[69] التوبة۸۴

[70]صحیح بخاری کتاب الجنائزبَابُ الصَّلاَةِ عَلَى الشَّهِیدِ ۱۳۴۳،سنن ابوداود کتاب الجنائز بَابٌ فِی الشَّهِیدِ یُغَسَّلُ۳۱۳۸،۳۱۳۹،سنن نسائی کتاب الجنائز باب تَرْكُ الصَّلَاةِ عَلَیْهِمْ۱۹۵۷،سنن ابن ماجہ کتاب الجنائز بَابُ مَا جَاءَ فِی الصَّلَاةِ عَلَى الشُّهَدَاءِ وَدَفْنِهِمْ ۱۵۱۴،جامع ترمذی ابواب الجنائز بَابُ مَا جَاءَ فِی تَرْكِ الصَّلاَةِ عَلَى الشَّهِیدِ ۱۰۳۶،صحیح ابن حبان۳۱۹۷،سنن الدارقطنی ۴۲۰۷،شرح السنة للبغوی۱۵۰۰،السنن الکبری للبیہقی۶۷۹۵

[71] نیل الاوطار۵۳؍۴،احکام الجنائز۸۲

[72] صحیح بخاری کتاب الجنائز بَابُ الصَّلاَةِ عَلَى الشَّهِیدِ ۱۳۴۴،وکتاب المناقب بَابُ عَلاَمَاتِ النُّبُوَّةِ فِی الإِسْلاَمِ ۳۵۹۶، وکتاب المغازی بَابٌ أُحُدٌ یُحِبُّنَا وَنُحِبُّهُ ۴۰۸۵، مسند احمد ۱۷۳۴۴

[73] سنن ابوداودکتاب الجنائزبَابٌ فِی الشَّهِیدِ یُغَسَّلُ ۲۶۹۰، احکام الجنائز۸۲؍۱

[74] سنن نسائی کتاب الجنائز الصَّلَاةُ عَلَى الشُّهَدَاءِ۱۹۵۵

[75] احکام الجنائز۸۲؍۱، شرح معانی الآثار۲۸۸۷

[76] المغنی۳۹۴؍۲،بدائع الصنائع۳۲۵؍۱،نیل الاوطار۵۴؍۴،تحفة الاحوذی۱۰۹؍۴

[77] تھذیب السنن۲۹۵؍۴

[78] نیل الاوطار۵۴؍۴

[79] تحفة الاحوذی۱۱۱؍۴

[80] احکام الجنائز۸۳؍۱

[81] صحیح بخاری کتاب الجنائزبَابُ الدَّفْنِ بِاللیْلِ ۱۳۴۰،صحیح ابن حبان۳۰۹۱،السنن الکبری للبیہقی۷۰۰۰

[82] صحیح بخاری کتاب الجنائز بَابُ الإِذْنِ بِالْجَنَازَةِ۱۲۴۷ ، سنن ابن ماجہ کتاب الجنائز بَابُ مَا جَاءَ فِی الصَّلَاةِ عَلَى الْقَبْرِ۱۵۳۰،مسنداحمد۸۶۳۴،شرح السنة للبغوی ۱۴۹۹، السنن الکبری للبیہقی۶۹۰۹،احکام الجنائز۸۷؍۱

[83]صحیح بخاری کتاب الجنائز بَابُ الإِذْنِ بِالْجَنَازَةِ ۱۲۳۷،صحیح مسلم کتاب الجنائزبَابُ الصَّلَاةِ عَلَى الْقَبْرِ۲۲۱۵،سنن ابوداودکتاب الجنائز بَابُ الصَّلَاةِ عَلَى الْقَبْرِ ۳۲۰۳،سنن ابن ماجہ کتاب الجنائزبَابُ مَا جَاءَ فِی الصَّلَاةِ عَلَى الْقَبْرِ ۱۵۲۷، مسنداحمد۸۶۳۴،السنن الکبری للبیہقی۶۹۰۹،صحیح ابن خزیمة،شرح السنة للبغوی۱۴۹۹،احکام الجنائز۸۷؍۱

[84] سنن ابن ماجہ کتاب الجنائز بَابُ مَا جَاءَ فِی الصَّلَاةِ عَلَى الْقَبْرِ۱۵۲۸ ،مسنداحمد۱۹۴۵۲،مصنف ابن ابی شیبة ۱۱۲۱۷،صحیح ابن حبان ۳۰۸۷،احکام الجنائز۸۸؍۱

[85] احکام الجنائز ۸۹؍۱، السنن الکبری للبیہقی۷۰۱۹

[86] تحفة الاحوذی۱۱۳؍۴،نیل الاوطار۶۴؍۴

[87] صحیح بخاری کتاب الجنائز بَابُ الإِذْنِ بِالْجَنَازَةِ۱۲۳۷، صحیح مسلم کتاب الجنائزبَابُ الصَّلَاةِ عَلَى الْقَبْرِ۲۲۱۵،سنن ابوداودکتاب الجنائز بَابُ الصَّلَاةِ عَلَى الْقَبْرِ ۳۲۰۳،سنن ابن ماجہ کتاب الجنائزبَابُ مَا جَاءَ فِی الصَّلَاةِ عَلَى الْقَبْرِ ۱۵۲۷، مسنداحمد۸۶۳۴،السنن الکبری للبیہقی۶۹۰۹،شرح السنة للبغوی۱۴۹۹،احکام الجنائز۸۷؍۱

[88] نیل الاوطار۶۴؍۴

[89] نیل الاوطار۶۴؍۴،تحفة الاحوذی۱۱۳؍۴

[90] فتح الباری ۵۵۳؍۱، نیل الاوطار۶۴؍۴

[91] نیل الاوطار۶۴؍۴

[92] صحیح بخاری کتاب الجنائزبَابُ التَّكْبِیرِ عَلَى الجَنَازَةِ أَرْبَعًا ۱۳۳۳،صحیح مسلم کتاب الجنائز بَابٌ فِی التَّكْبِیرِ عَلَى الْجَنَازَةِ ۲۲۰۴،سنن ابوداودکتاب الجنائز بَابٌ فِی الصَّلَاةِ عَلَى الْمُسْلِمِ یَمُوتُ فِی بِلَادِ الشِّرْكِ ۳۲۰۴،سنن ابن ماجہ کتاب الجنائز بَابُ مَا جَاءَ فِی الصَّلَاةِ عَلَى النَّجَاشِیِّ۱۵۳۴،سنن نسائی کتاب الجنائزالصُّفُوفُ عَلَى الْجَنَازَةِ ۱۹۷۳،السنن الکبری للبیہقی۶۹۳۱،صحیح ابن حبان۳۰۶۸،مسنداحمد۷۷۷۶،موطاامام مالک کتاب الجنائز مَا جَاءَ فِی التَّكْبِیرِ عَلَى الْجَنَائِزِ،شرح السنة للبغوی ۱۴۸۹،معرفة السنن والآثار۷۵۷۷،احکام الجنائز۱۰۷؍۱

[93] صحیح بخاری کتاب الجنائزبَابُ الصُّفُوفِ عَلَى الجِنَازَةِ۱۳۲۰،صحیح مسلم کتاب الجنائز بَابٌ فِی التَّكْبِیرِ عَلَى الْجَنَازَةِ۲۲۰۹

[94] صحیح مسلم کتاب الجنائزبَابٌ فِی التَّكْبِیرِ عَلَى الْجَنَازَةِ۲۲۰۹ ، سنن ابن ماجہ کتاب الجنائز بَابُ مَا جَاءَ فِی الصَّلَاةِ عَلَى النَّجَاشِیِّ ۱۵۳۵،سنن نسائی کتاب الجنائز الصُّفُوفُ عَلَى الْجَنَازَةِ۱۹۷۷ ،مسنداحمد۱۹۸۶۷،صحیح ابن حبان۳۰۹۹

[95] نیل الاوطار۶۱؍۴،فتح الباری ۱۸۷؍۳،المجموع شرح المہذب ۲۶۸؍۵

[96] نیل الاوطار۶۲؍۴،تحفة الاحوذی ۱۱۵؍۴

[97] فتح الباری ۱۸۹؍۳،عون المعبود ۷؍۹

[98] المجموع شرح المھذب۲۵۳؍۵

[99] احکام الجنائز۹۳؍۱

[100] احکام الجنائز۹۲؍۱

[101] نیل الاوطار۶۱؍۴،فتح الباری ۱۸۸؍۳

[102] سنن ابن ماجہ کتاب الجنائز بَابُ مَا جَاءَ فِی الصَّلَاةِ عَلَى النَّجَاشِیِّ ۱۵۳۶

[103] فتح الباری۱۸۸؍۳

[104] التوبة۸۴

[105] التوبة۱۱۳

[106] المجموع شرح المھذب۱۴۴؍۵،احکام الجنائز۹۷؍۱

[107] احکام الجنائز۹۶؍۱

[108] صحیح بخاری کتاب الحدودبَابُ الرَّجْمِ بِالْمُصَلَّى ۶۸۲۰،صحیح مسلم کتاب الحدود بَابُ مَنِ اعْتَرَفَ عَلَى نَفْسِهِ بِالزِّنَى۴۴۲۰، مسند احمد ۱۴۴۶۲

[109] سنن ابوداودکتاب الحدود بَابُ رَجْمِ مَاعِزِ بْنِ مَالِكٍ ۴۴۳۰،جامع ترمذی ابواب الحدودبَابُ مَا جَاءَ فِی دَرْءِ الحَدِّ عَنِ الْمُعْتَرِفِ إِذَا رَجَعَ ۱۴۲۹،سنن نسائی کتاب الجنائزبَابُ تَرْكِ الصَّلَاةِ عَلَى الْمَرْجُومِ۱۹۵۸،السنن الکبری للبیہقی۱۶۹۵۵،سنن الدارقطنی۳۲۴۰،مصنف عبدالرزاق۱۳۳۳۷، معرفة السنن والآثار۱۶۷۹۲

[110] صحیح مسلم کتاب الحدودبَابُ مَنِ اعْتَرَفَ عَلَى نَفْسِهِ بِالزِّنَى ۴۴۳۳ ،سنن ابوداودکتاب الحدود بَابُ الْمَرْأَةِ الَّتِی أَمَرَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بِرَجْمِهَا مِنْ جُهَیْنَةَ۴۴۴۰،سنن نسائی کتاب الجنائز باب الصَّلَاةُ عَلَى الْمَرْجُومِ۱۹۵۹، جامع ترمذی ابواب الحدودبَابُ تَرَبُّصِ الرَّجْمِ بِالحُبْلَى حَتَّى تَضَعَ۱۴۳۵،سنن ابن ماجہ کتاب الحدودبَابُ الرَّجْمِ۲۵۵۵،سنن الدارمی۲۳۷۰،صحیح ابن حبان ۴۴۰۳،سنن الدارقطنی۳۱۶۰،مصنف عبدالرزاق۱۳۳۴۸،مصنف ابن ابی شیبة۲۸۸۱۰،احکام الجنائز۸۳؍۱

[111] نیل الاوطار۱۳۵؍۷

[112] شرح نووی علی مسلم۴۷؍۷،نیل الاوطار۶۰؍۴

[113] السنن الکبری للنسائی ۲۰۸۰،جامع ترمذی ابواب الجنائزمَا جَاءَ فِی الصَّلاَةِ عَلَى الأَطْفَالِ۱۰۳۱، مسند احمد ۱۸۱۶۲، صحیح ابن حبان ۳۰۴۹،مستدرک حاکم ۱۳۱۳،السنن الکبری للبیہقی۶۷۸۱،مصنف ابن ابی شیبة۱۱۲۵۳

[114] سنن ابوداودکتاب الجنائزبَابُ الْمَشْیِ أَمَامَ الْجَنَازَةِ ۳۱۸۰،السنن الکبری للبیہقی ۶۷۷۹،معرفة السنن والآثار۷۵۰۳، مستدرک حاکم۱۳۴۴،مسنداحمد۱۸۱۷۴

[115] صحیح مسلم کتاب القدر بَابُ مَعْنَى كُلِّ مَوْلُودٍ یُولَدُ عَلَى الْفِطْرَةِ وَحُكْمِ مَوْتِ أَطْفَالِ الْكُفَّارِ وَأَطْفَالِ الْمُسْلِمِینَ ۶۷۶۸،سنن نسائی کتاب الجنائز باب الصَّلَاةُ عَلَى الصِّبْیَانِ۱۹۵۹، مسند احمد ۲۴۱۳۲، احکام الجنائز۸۰؍۱

[116] نیل الاوطار۵۶؍۴

[117] شرح السنة للبغوی ۳۷۳؍۵

[118] عون المعبود۳۲۵؍۸

[119] احکام الجنائز۸۰؍۱

[120] صحیح بخاری کتاب بدئ الخلق بَابُ ذِكْرِ المَلاَئِكَةِ ۳۲۰۸،صحیح مسلم کتاب القدر بَابُ كَیْفِیَّةِ خَلْقِ الْآدَمِیِّ فِی بَطْنِ أُمِّهِ وَكِتَابَةِ رِزْقِهِ وَأَجَلِهِ وَعَمَلِهِ وَشَقَاوَتِهِ وَسَعَادَتِهِ۶۷۲۳،سنن ابوداودکتاب السنة بَابٌ فِی الْقَدَرِ۴۷۰۸،جامع ترمذی ابواب القدربَابُ مَا جَاءَ أَنَّ الأَعْمَالَ بِالخَوَاتِیمِ۲۱۳۷،سنن ابن ماجہ کتاب السنة بَابٌ فِی الْقَدَرِ ۷۶،مسنداحمد۳۶۲۶، مسند حمیدی ۱۲۶،شعب الایمان۱۸۴،السنن الکبری للبیہقی۱۵۴۲۱

[121] سنن الدارمی ۳۱۷۲،سنن ابن ماجہ کتاب الفرائض بَابُ إِذَا اسْتَهَلَّ الْمَوْلُودُ وَرِثَ ۲۷۵۰،صحیح ابن حبان ۶۰۳۲،شرح السنة للبغوی ۲۲۳۳،احکام الجنائز۸۱؍۱ ، تلخیص الحبیر۲۶۶؍۲،الجموع شرح المھذب ۲۵۵؍۵

[122] الجموع شرح المھذب۲۵۵؍۵

[123] احکام الجنائز۸۱؍۱

[124] صحیح مسلم کتاب الجنائزبَابُ الصَّلَاةِ عَلَى الْجَنَازَةِ فِی الْمَسْجِدِ۲۲۵۲،سنن ابوداودکتاب الجنائزبَابُ الصَّلَاةِ عَلَى الْجَنَازَةِ فِی الْمَسْجِدِ ۳۱۸۹، جامع ترمذی ابواب الجنائز بَابُ مَا جَاءَ فِی الصَّلاَةِ عَلَى الْمَیِّتِ فِی الْمَسْجِدِ ۱۰۳۳،سنن نسائی کتاب الجنائز الصَّلَاةُ عَلَى الْجَنَازَةِ فِی الْمَسْجِدِ۱۹۶۹ ،سنن ابن ماجہ کتاب الجنائزبَابُ مَا جَاءَ فِی الصَّلَاةِ عَلَى الْجَنَائِزِ فِی الْمَسْجِدِ ۱۵۱۸،مصنف ابن ابی شیبة۱۱۹۷۰،معرفة السنن والآثار۷۶۸۰،السنن الکبری للبیہقی۷۰۳۶،شرح السنة للبغوی۱۴۹۲،صحیح ابن حبان۳۰۶۵،مستدرک حاکم۶۶۴۵

[125] مسنداحمد۹۸۶۵

[126] سنن ابوداودکتاب الجنائزبَابُ الصَّلَاةِ عَلَى الْجَنَازَةِ فِی الْمَسْجِدِ۳۱۹۱

[127] سنن ابن ماجہ کتاب الجنائزبَابُ مَا جَاءَ فِی الصَّلَاةِ عَلَى الْجَنَائِزِ فِی الْمَسْجِدِ۱۵۱۷

[128] نیل الاوطار۸۳؍۴

[129] مصنف عبدالرزاق۶۵۷۶

[130] نیل الاوطار۸۴؍۴

[131] نیل الاوطار ۸۴؍۴

[132] احکام الجنائز۱۰۶؍۱

[133] صحیح بخاری کتاب الجنائز

[134] المعجم الاوسط للطبرانی ۵۶۳۱،احکام الجنائز۱۰۸؍۱

[135] مجمع الزوائد ومنبع الفوائد ۴۱۸۷

[136] احکام الجنائز۱۰۸؍۱

[137] جامع ترمذی ابواب الجنائز بَابُ مَا جَاءَ فِی رَفْعِ الیَدَیْنِ عَلَى الجَنَازَةِ۱۰۷۷،سنن الدارقطنی۱۸۳۱،نیل الاوطار ۷۷؍۴،احکام الجنائز۱۱۵؍۱

[138] نیل الاوطار۷۶؍۴

[139] احکام الجنائز۱۱۵؍۱

[140]جامع ترمذی ابواب الجنائز بَابُ مَا جَاءَ فِی رَفْعِ الیَدَیْنِ عَلَى الجَنَازَةِ۱۰۷۷،احکام الجنائز۱۱۵؍۱

[141] احکام الجنائز۱۱۵؍۱

[142] شرح النووی علی مسلم۲۴؍۷

[143] احکام الجنائز۱۰۳؍۱ ،سنن نسائی کتاب الجنائز باب اجْتِمَاعُ جَنَائِزِ الرِّجَالِ وَالنِّسَاءِ ۱۹۸۰، السنن الکبری للبیہقی۶۹۱۹،نیل الاوطار۸۲؍۴

[144] سنن ابوداودکتاب الجنائزبَابٌ إِذَا حَضَرَ جَنَائِزُ رِجَالٍ وَنِسَاءٍ مَنْ یُقَدَّمُ۳۱۹۳،السنن الکبری للبیہقی ۶۹۲۰، احکام الجنائز۱۰۴؍۱

[145] احکام الجنائز۱۰۴؍۱

[146] المعجم الکبیرللطبرانی ۱۱۰۵۱،احکام الجنائز۱۰۴؍۱

[147] صحیح مسلم کتاب الجنائزبَابُ الصَّلَاةِ عَلَى الْجَنَازَةِ فِی الْمَسْجِدِ۲۲۵۲،سنن ابوداودکتاب الجنائزبَابُ الصَّلَاةِ عَلَى الْجَنَازَةِ فِی الْمَسْجِدِ ۳۱۸۹، جامع ترمذی ابواب الجنائز بَابُ مَا جَاءَ فِی الصَّلاَةِ عَلَى الْمَیِّتِ فِی الْمَسْجِدِ ۱۰۳۳،سنن نسائی کتاب الجنائز الصَّلَاةُ عَلَى الْجَنَازَةِ فِی الْمَسْجِدِ۱۹۶۹ ،سنن ابن ماجہ کتاب الجنائزبَابُ مَا جَاءَ فِی الصَّلَاةِ عَلَى الْجَنَائِزِ فِی الْمَسْجِدِ ۱۵۱۸،مصنف ابن ابی شیبة۱۱۹۷۰،معرفة السنن والآثار۷۶۸۰،السنن الکبری للبیہقی۷۰۳۶،شرح السنة للبغوی۱۴۹۲،صحیح ابن حبان۳۰۶۵،مستدرک حاکم۶۶۴۵

[148] الفتاوی الاسلامیة۲۸؍۲

[149] صحیح بخاری کتاب الجنائز بَابُ اتِّبَاعِ النِّسَاءِ الجَنَائِزَ۱۲۷۸،صحیح مسلم کتاب الجنائز بَابُ نَهْیِ النِّسَاءِ عَنِ اتِّبَاعِ الْجَنَائِزِ ۲۱۶۶،سنن ابن ماجہ کتاب الجنائزبَابُ مَا جَاءَ فِی اتِّبَاعِ النِّسَاءِ الْجَنَائِزَ۱۵۷۷ ،مسنداحمد۲۷۳۰۳،المعجم الاوسط للطبرانی ۱۲۵۶،مصنف عبدالرزاق ۶۲۸۸،مصنف ابن ابی شیبة۱۱۲۹۴،السنن الکبری للبیہقی۷۲۰۰،احکام الجنائز۷۰؍۱

[150] سنن ابوداودکتاب الجنائزبَابٌ فِی الصُّفُوفِ عَلَى الْجَنَازَةِ ۳۱۶۶،جامع ترمذی ابواب الجنائز بَابُ مَا جَاءَ فِی الصَّلاَةِ عَلَى الجَنَازَةِ وَالشَّفَاعَةِ لِلْمَیِّتِ ۱۰۲۸،سنن ابن ماجہ کتاب الجنائز بَابُ مَا جَاءَ فِیمَنْ صَلَّى عَلَیْهِ جَمَاعَةٌ مِنَ الْمُسْلِمِینَ ۱۴۹۰،شرح السنة للبغوی۱۵۰۵،السنن الکبری للبیہقی۶۹۰۵

[151] سنن ابوداودکتاب الجنائزبَابٌ فِی الصُّفُوفِ عَلَى الْجَنَازَةِ ۳۱۶۶

[152] صحیح مسلم کتاب الجنائز بَابُ مَنْ صَلَّى عَلَیْهِ مِائَةٌ شُفِّعُوا فِیهِ۲۱۹۸،سنن نسائی کتاب الجنائز باب فَضْلُ مَنْ صَلَّى عَلَیْهِ مِائَةٌ۱۹۹۳،جامع ترمذی ابواب الجنائز بَابُ مَا جَاءَ فِی الصَّلاَةِ عَلَى الجَنَازَةِ وَالشَّفَاعَةِ لِلْمَیِّتِ ۱۰۲۹،المعجم الاوسط للطبرانی۶۰۳۹،شعب الایمان۸۸۱۱،معرفة السنن والآثار۷۶۴۲،السنن الکبری للبیہقی۶۹۰۳، مسند احمد ۱۳۸۰۴، صحیح ابن حبان ۳۰۸۱، مصنف ابن ابی شیبة۱۱۶۲۲،احکام الجنائز۹۸؍۱

[153] صحیح مسلم کتاب الجنائز بَابُ مَنْ صَلَّى عَلَیْهِ مِائَةٌ شُفِّعُوا فِیهِ۲۱۹۸،سنن ابوداودکتاب باب ۳۱۷۰،سنن ابن ماجہ کتاب الجنائز بَابُ مَا جَاءَ فِیمَنْ صَلَّى عَلَیْهِ جَمَاعَةٌ مِنَ الْمُسْلِمِینَ ۱۴۸۹،مسنداحمد۲۵۰۹،صحیح ابن حبان۳۰۸۲،شعب الایمان۸۸۱۱،شرح السنة للبغوی۱۵۰۵،السنن الکبری للبیہقی۵۶۲۱

[154] صحیح بخاری کتاب الجنائزبَابُ مَنِ انْتَظَرَ حَتَّى تُدْفَنَ ۱۳۲۵،صحیح مسلم کتاب الجنائزبَابُ فَضْلِ الصَّلَاةِ عَلَى الْجَنَازَةِ وَاتِّبَاعِهَا۲۱۸۹،السنن الکبری للنسائی ۲۱۳۲، مسند احمد۷۱۸۸

[155] فتاوی إسلامیة۳۰؍۲

[156] فتاوی إسلامیة۳۰؍۲

Related Articles