ہجرت نبوی کا نواں سال

سرکاری ملازم کا تحفہ لیناحرام ہے

أَبُو حُمَیْدٍ السَّاعِدِیُّ، قَالَ:قَالَ: اسْتَعْمَلَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ رَجُلًا مِنَ الأَزْدِ، یُقَالُ لَهُ ابْنُ الأُتْبِیَّةِ عَلَى الصَّدَقَةِ، فَلَمَّا قَدِمَ قَالَ:هَذَا لَكُمْ وَهَذَا أُهْدِیَ لِی،فَقَالَ لَهُ:أَفَلاَ قَعَدْتَ فِی بَیْتِ أَبِیكَ وَأُمِّكَ، فَنَظَرْتَ أَیُهْدَى لَكَ أَمْ لاَ،ثُمَّ قَامَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عَشِیَّةً بَعْدَ الصَّلاَةِ، فَتَشَهَّدَ وَأَثْنَى عَلَى اللهِ بِمَا هُوَ أَهْلُهُ،ثُمَّ قَالَ: أَمَّا بَعْدُ، فَمَا بَالُ العَامِلِ نَسْتَعْمِلُهُ، فَیَأْتِینَا فَیَقُولُ:هَذَا مِنْ عَمَلِكُمْ، وَهَذَا أُهْدِیَ لِی، أَفَلاَ قَعَدَ فِی بَیْتِ أَبِیهِ وَأُمِّهِ فَنَظَرَ:هَلْ یُهْدَى لَهُ أَمْ لاَ، فَوَالَّذِی نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِیَدِهِ، لاَ یَغُلُّ أَحَدُكُمْ مِنْهَا شَیْئًا إِلَّا جَاءَ بِهِ یَوْمَ القِیَامَةِ یَحْمِلُهُ عَلَى عُنُقِهِ، إِنْ كَانَ بَعِیرًا جَاءَ بِهِ لَهُ رُغَاءٌ، وَإِنْ كَانَتْ بَقَرَةً جَاءَ بِهَا لَهَا خُوَارٌ، وَإِنْ كَانَتْ شَاةً جَاءَ بِهَا تَیْعَرُ، فَقَدْ بَلَّغْتُ فَقَالَ أَبُو حُمَیْدٍ: ثُمَّ رَفَعَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَدَهُ، حَتَّى إِنَّا لَنَنْظُرُ إِلَى عُفْرَةِ إِبْطَیْهِ، ثُمَّ قَالَ:اللهُمَّ هَلْ بَلَّغْتُ ثَلَاثًا

ابوحمیدساعدی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ازدکے ایک شخص جس کوابن اتبیہ کہتے تھے عامل بناکربھیجا،جب وہ اپنے کام سے فارغ ہوکررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں  حاضرہوئے توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے حساب لیا،انہوں  نے کہااے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم !یہ آپ کامال ہے اوریہ مجھے تحفہ ملاہے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے فرمایااگرتم سچے ہو تو اپنے ماں  باپ کے گھرمیں  کیوں  نہ بیٹھے رہے،پھردیکھتے کہ تمہیں  تحفہ ملتاہے یانہیں  ، پھرشام کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم منبرپر(کھڑے ہوکر)خطبہ دیا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کی حمدو ثناء بیان کی جس کے وہ لائق ہیں  ،پھرفرمایا امابعد،عامل کایہ حال ہے کہ جب میں  اسے تحصیل زکوٰة کے لئے بھیجتاہوں  تووہ میرے پاس آتاہے اوریہ کہتاہے یہ آپ کامال ہے اور یہ مجھے تحفہ میں  ملاہے،وہ اپنے ماں  باپ کے گھربیٹھ کردیکھتاکہ اسے تحفہ ملتاہے یانہیں  ،اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں  محمدکی جان ہے تم میں  سے جوشخص ذراسی بھی خیانت کرے گاتووہ قیامت کے دن اسے اپنی گردن پراٹھاکرلائے گا،اگراونٹ ہوگاتواس کولے کرآئے گااوروہ آوازکرتاہوگا،اگرگائے ہوگی تواسے لے کرآئے گااوروہ آواز کرتی ہوگی، اوراگربکری ہوگی تواسے لے کرآئے گااوروہ آوازکرتی ہوگی،پھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاتحقیق میں  نے پہنچادیا،ابوحمید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں  پھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپناہاتھ بلندکیایہاں  تک کہ آپ کی بغل کی سفیدی دکھائی دی،پھرتین مرتبہ فرمایااے اللہ کیامیں  نے پہنچادیا۔[1]

وفدبنی طی:

یہ ایک عظیم قحطانی قبیلہ تھااوریہ کہلان سے ہیں  ،ان کاوطن یمن تھا،پھرازدکے خروج کے بعدوہاں  سے نکل آئے اورنجدمیں  بنواسدکے پڑوس میں  قیام کیا،پھران کے دوپہاڑوں  اجاء اورسلمیٰ پران کومغلوب کرلیااورشمالی نجدکے ان پہاڑوں  کے درمیان آبادہوگئے ،عجمی ممالک میں  بعض لوگ سارے عربوں  کوطائی سمجھتے تھے اسی لئے ایران میں  عربوں  کوتازی کہاجاتاتھا،اس قبیلے کے سربرآوردہ روساء زیدالخیل اورعدی بن حاتم طائی تھے،ان کے حدودحکومت الگ الگ تھے ،یہ دونوں  الگ الگ ہی مختلف موقعوں  پر بارگاہ رسالت میں  حاضرہوئے۔

زیدالخیل زمانہ جاہلیت کے مشہورشاعراورخطیب تھے،وجاہت،فیاضی اوربہادری میں  اپنی مثال آپ تھے،اصل نام زیدبن مہلہل تھامگراپنی شہسواری کی وجہ سے زیدالخیل کے نام سے مشہورہوگئے،

قَالُوا: قَدِمَ وَفْدُ طَیِّئٍ عَلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ خَمْسَةَ عَشَرَ رَجُلا. رَأْسُهُمْ وَسَیِّدُهُمْ زَیْدُ الْخَیْرِ. وَهُوَ زَیْدُ الْخَیْلِ بْنُ مُهَلْهِلٍ مِنْ بَنِی نَبْهَانَ وَفِیهِمْ وَزَرُ بْنُ جَابِرِ بْنِ سَدُوسِ بْنِ أَصْمَعَ النَّبْهَانِیُّ وَقَبِیصَةُ بْنُ الْأَسْوَدِ بْنِ عَامِرٍ مِنْ جَرْمِ طَیِّئٍ وَمَالِكُ بْنُ عَبْدِ اللهِ بْنِ خَیْبَرِیٍّ مِنْ بَنِی مَعْنٍ وَقُعَیْنُ بْنُ خُلَیْفِ بْنِ جَدِیلَةَ، وَرَجُلٌ مِنْ بَنِی بَوْلَانَ، فَدَخَلُوا الْمَدِینَةَ، وَرَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فِی الْمَسْجِدِ فَعَقَدُوا رَوَاحِلَهُمْ بِفِنَاءِ الْمَسْجِدِ، ثُمَّ دَخَلُوا فَدَنَوْا مِنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَعَرَضَ عَلَیْهِمُ الْإِسْلَامَ فَأَسْلَمُوا

نوہجری میں  قبیلہ طے کے پندرہ آدمیوں  کاایک وفدبارگاہ رسالت میں  حاضرہواجن کے رئیس زیدالخیرتھےیہی زیدالخیرزیدالخلیل بن مہلہل تھے جوبنی بنہان میں  سے تھے ان لوگوں  میں  وزربن جابربن سدوس بن اصمع بنھانی وقبیصہ بن الاسودبن عامربھی تھے جوطے کی شاخ جرم سے تعلق رکھتے تھے،بنی معن میں  سے مالک بن عبداللہ بن خیبری اورقعین بن خلیف بن جدیلہ تھے،بنی بولان سے بھی ایک شخص تھا، یہ لوگ جب مدینہ منورہ میں  داخل ہوئے تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسجدہی میں  تشریف فرما تھے ،ان لوگوں  نے اپنی سواریوں  کومسجدکے سامنے والے میدان میں  باندھ دیا اورمسجدکے اندرداخل ہوئے اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں  حاضرہوئے ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان لوگوں  کے سامنے اسلام پیش کیاتوتمام اہل وفدنے صدق دل سے اسلام قبول کرلیا۔

فَقَالَ: یَا رَسُولَ اللهِ, إنی أتیتك من مسیرة تسع، أصهبت راحلتی، وأسهرت لیلی، وأظمأت نهاری، أسألك عن خصلتین أسهرتانی

ابن اثیر رحمہ اللہ کابیان ہےزید رضی اللہ عنہ نے بارگاہ رسالت میں  حاضرہوکرعرض کیااے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم !میں  نودن کی دشوارگزارمسافت طے کرکے آیاہوں  ،سفرمیں  میری سواری تھک گئی ، میری راتیں  جاگتے اوردن پیاس کی حالت میں  گزرےمیں  نے یہ ساری مشقت صرف دوباتیں  دریافت کرنے کے لئے برداشت کیں  ۔

فقال له النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:ما اسم؟

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھاتمہارانام کیاہے؟

قال: أنا زَیْدُ الْخَیْلِ

انہوں  نے عرض کیازیدالخیل۔

قال:بل أنت زَیْدَ الْخَیْرِفاسأل

آپ نے فرمایانہیں  تم زیدالخیرہو،جوپوچھناچاہتے ہوپوچھو۔

فقال: أسألك عن علامة الله تعالى فیمن یرید, وعلامته فیمن لا یرید

انہوں  نے عرض کیاجوشخص اللہ کوچاہتاہواس کی کیاعلامت ہے، اورجواللہ کونہیں  چاہتااس کی کیاعلامت ہے؟(بروایت دیگرجسے اللہ چاہتاہے اورجسے نہیں  چاہتااس کی کیا علامت ہے)

فقال له صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:كیف أصبحت؟

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاتم زندگی کے شب وروزکیسے گزارتے ہو؟

قال: أصبحت أحب الخیر وأهله ومن یعمل به، وإن عملت به أیقنت بثوابه، وإن فاتنی منه شیء حننت إلیه

انہوں  نے عرض کیامیں  نیکی اورنیکی کرنے والوں  اوراس پرعمل کرنے والوں  کوپسندکرتاتھا،اگرمیں  اس پرعمل کرتاتھاتواس سے دلی طمانیت حاصل ہوتی تھی(کہ اس کا اجر ملے گا)،اورجب یہ عمل چھوٹ جاتاتھاتوغمگین ہوجاتاتھا۔

فقال له النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:هذه علامته فیمن یرید، وعلامته فیمن لا یرید ضد ذلك، ولو أرادك بالأخرى هیأك لها، ثم لم یبال من أی واد هلكت

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجواللہ کوچاہتاہے اورجونہیں  چاہتااس کی یہی علامت ہے (یاجسے اللہ چاہتاہے اورجسے نہیں  چاہتااس کی یہی علامت ہے)اگراللہ اس کے خلاف تمہارے لئے کچھ چاہتاتوتم کواس کے لئے تیارکرتاپھراس کواس کی پرواہ نہ ہوتی کہ تم کس وادی میں  ہلاک ہوگئے۔[2]

مَا ذكر رَجُلٌ مِنَ الْعَرَبِ بِفَضْلٍ ثُمَّ جَاءَنِی إِلَّا رَأَیْتُهُ دُونَ مَا یُقَالُ فِیهِ، إِلَّا زَیْدَ الْخَیْلِ، فَإِنَّهُ لَمْ یَبْلُغْ كُلَّ الَّذِی فِیهِ .ثُمَّ سَمَّاهُ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ زید الْخَیْر

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےان کے بارے میں  فرمایاعرب کے جس شخص کی بھی فضیلت بیان کی گئی پھروہ میرے پاس آیاتوجوکچھ اس کے بارے میں  کہاگیاتھامیں  نے اسے اس سے کم ترپایا،سوائے زیدالخیرکے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کانام زیدالخیررکھا۔[3]

وَجَازَهُمْ بِخَمْسِ أَوَاقٍ فِضَّةٍ كُلَّ رَجُلٍ مِنْهُمْ. وَأَعْطَى زَیْدَ الْخَیْلِ اثْنَتَیْ عَشْرَةَ أُوقِیَّةً وَنَشًّا

جب یہ وفدرخصت ہونے لگاتورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وفدکے تمام اراکین کوپانچ پانچ اوقیہ چاندی عطافرمائی اورزیدالخیر رضی اللہ عنہ کوبارہ اوقیہ چاندی اورعمدہ خوشبوعنایت فرمائی۔[4]

وَقَطَعَ لَهُ فَیْدَ وَأَرْضِینَ فَكَتَبَ لَهُ بِذَلِكَ كِتَابًا وَرَجَعَ مَعَ قَوْمِهِ،فَلَمَّا كَانَ بِمَوْضِعٍ یُقَالُ لَهُ: الْفَرْدَةُ مَاتَ هُنَاكَ فَعَمَدَتِ امْرَأَتُهُ إِلَى كُلِّ مَا كَانَ النَّبِیُّ صلّى الله علیه وسلم كَتَبَ لَهُ بِهِ فَخَرَّقَتْهُ

ابن اسحاق کابیان ہےآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے زید رضی اللہ عنہ الخیرکوایک تحریری فرمان کے ذریعے فید(گاؤں  ) اور اس کے آس پاس کی زمینیں  بھی بطورجاگیر عطا فرمائیں  اوروہ اپنی قوم کی طرف لوٹ گئے،مگرجب مقام فردہ پہنچے توفوت ہوگئے ان کی بیوی نے تمام حکم ناموں  پرقبضہ کرلیاجورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زید رضی اللہ عنہ کولکھے تھے اورپھاڑڈالے۔[5]

فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:إِنْ یُنْجَ زید مِنْ حُمَّى الْمَدِینَةِ ، فَإِنَّهُ قَالَ: وَقَدْ سَمَّاهَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بِاسْمٍ غَیْرِ الْحُمَّى وَغَیْرِ أُمِّ مِلْدَمٍ، فَلَمْ یُثْبِتْهُ، فَلَمَّا انْتَهَى إِلَى مَاءٍ مِنْ مِیَاهِ نَجْدٍ یُقَالُ لَهُ فَرْدَةُ، أَصَابَتْهُ الْحُمَّى بِهَا فَمَاتَ

ابن اسحاق نے لکھاہےجب یہ آپ سے رخصت ہوکرواپس جانے لگے تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا،اگرزید رضی اللہ عنہ مدینہ طیبہ کے بخارسے بچ نکلاتوپھراس کے لئے کوئی خطرہ نہیں  ،چنانچہ ابھی یمن کے فردہ نامی ایک چشمہ پرہی پہنچے تھے کہ بخارنے آگھیرااوراسی بخارکی وجہ سے فوت ہوگئے۔[6]

أنه صلى الله علیه وسلم قال له: یا زید تقتلك أم ملدم یعنی الحمى.

ایک اورروایت میں  ہے آپ نے فرمایا اے زید رضی اللہ عنہ ! تمہاری موت بخارسے ہوگی چنانچہ یہی ہواجب گھرپہنچے توبخارمیں  مبتلاہوکروفات پائی۔[7]

 وكان یكنى أبا مكنف، وكان له ابنان: مكنف، وحریث، أسلما وصحبا النَّبِیّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وشهدا قتال الردة مع خَالِد بْن الْوَلِید

اور ان کی کنیت ابو مکنف تھی ان کے دوبیٹے مکنف رضی اللہ عنہ اور حریث رضی اللہ عنہ اسلام لائے ،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شرف صحبت سے مشرف ہوئے اوراہل ردت کے ساتھ لڑائی میں  خالد رضی اللہ عنہ بن ولیدکے ساتھ شرکت کی۔[8]

قال ابن عبد البر: وقیل مات فی آخر خلافة عمر

ابن عبدالبر رحمہ اللہ کہتے ہیں  انہوں  نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ بن خطاب کے عہدخلافت میں  وفات پائی۔[9]

بحرین کاجزیہ:

أَنَّ عَمْرَو بْنَ عَوْفٍ الأَنْصَارِیَّ :أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بَعَثَ أَبَا عُبَیْدَةَ بْنَ الجَرَّاحِ إِلَى البَحْرَیْنِ یَأْتِی بِجِزْیَتِهَا، وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ هُوَ صَالَحَ أَهْلَ البَحْرَیْنِ، وَأَمَّرَ عَلَیْهِمُ العَلاَءَ بْنَ الحَضْرَمِیِّ، فَقَدِمَ أَبُو عُبَیْدَةَ بِمَالٍ مِنَ البَحْرَیْنِ، فَسَمِعَتِ الأَنْصَارُ بِقُدُومِ أَبِی عُبَیْدَةَ، فَوَافَتْ صَلاَةَ الصُّبْحِ مَعَ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَلَمَّا صَلَّى بِهِمُ الفَجْرَ انْصَرَفَ، فَتَعَرَّضُوا لَهُ، فَتَبَسَّمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ حِینَ رَآهُمْ، وَقَالَ:أَظُنُّكُمْ قَدْ سَمِعْتُمْ أَنَّ أَبَا عُبَیْدَةَ قَدْ جَاءَ بِشَیْءٍ؟، قَالُوا: أَجَلْ یَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ:فَأَبْشِرُواوَأَمِّلُوا مَا یَسُرُّكُمْ، فَوَاللَّهِ لاَ الفَقْرَ أَخْشَى عَلَیْكُمْ، وَلَكِنْ أَخَشَى عَلَیْكُمْ أَنْ تُبْسَطَ عَلَیْكُمُ الدُّنْیَا كَمَا بُسِطَتْ عَلَى مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ، فَتَنَافَسُوهَا كَمَا تَنَافَسُوهَا وَتُهْلِكَكُمْ كَمَا أَهْلَكَتْهُمْ

عمروبن عوف رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوعبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ کوجزیہ لانے کے لئے بحرین روانہ کیا،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بحرین کے لوگوں  سے صلح کی تھی اوران پرعلاء بن حضرمی رضی اللہ عنہ کوحاکم بنایاتھا،جب ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ بحرین سے بہت سامال لے کرآئےتوانصارکومعلوم ہوگیاکہ ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ آگئے ہیں  ،چنانچہ فجرکی نمازسب لوگوں  نے(اپنے محلہ کی مسجدکے بجائے)مسجدنبوی میں  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اداکی،نمازکے بعدجب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مقتدیوں  کی طرف منہ کیاتوانصارسامنے آگئے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کودیکھ کرمسکرائے اورفرمایامیں  سمجھتاہوں  کہ تم کوابوعبیدہ رضی اللہ عنہ کے مال لانے کی خبرہوگئی ؟انہوں  نے کہاہاں  اے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم !رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاخوش ہوجاؤاوراس چیزکی امیدرکھوجوتمہیں  اچھی معلوم ہوتی ہے،اللہ کی قسم!مجھے تمہارے متعلق فقرکاخوف نہیں  ، بلکہ مجھے اس بات کاخوف ہے کہ تم پردنیااس طرح فراخ کردی جائے گی جس طرح تم سے پہلے لوگوں  پرکی گئی تھی، پھرتم اس میں  ایک دوسرے سے جھگڑوگے جس طرح پہلے لوگ جھگڑے تھے، اورپھروہ تم کو اسی طرح ہلاک کردے گی جس طرح ان کوہلاک کیاتھا۔[10]

رمضان المبارک(نوہجری)

وفدبنی ثقیف:

یہ مشہورعدنانی قبیلہ ہے جوقیس عیلان کی نسل سے تھا،یہ بنوخصفہ بن قیس کے بطن بنوہوزان کی ایک شاخ بنومنبہ کابطن تھایہ لوگ طائف میں  آبادتھے ،رمضان المبارک نوہجری میں  چھ یاانیس آدمیوں  پرمشتمل بنی ثقیف کاایک وفدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں  حاضرہوا،اس وفدکوتاریخ اسلام میں  خاص اہمیت حاصل ہے،ثقیف طائف کابڑاناموراورجنگجوقبیلہ تھا،دس نبوی میں  قبیلہ کے سرداروں  عبدیالیل ،مسعوداورحبیب نے نہ صرف دعوت اسلام کوردکردیاتھا،بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسانازیباسلوک بھی کیاتھاکہ انسانیت سر پیٹ کررہ گئی تھی،تاہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعافرمائی تھی کہ الٰہی!بنی ثقیف کوہدایت عطافرمااوران کومیرے پاس بھیج دے، صلح حدیبیہ کے موقع پراسی قبیلے کے رئیس عروہ بن مسعودثقفی قریش کی طرف سے سفیرمقررہوکرآپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے تھےجب واپس گئے توقریش کوبتلایا۔

أَیْ قَوْمِ، وَاللهِ لَقَدْ وَفَدْتُ عَلَى الْمُلُوكِ؛ وَفَدْتُ عَلَى قَیْصَرَ، وَكِسْرَى، وَالنَّجَاشِیِّ، وَاللهِ إِنْ رَأَیْتُ مَلِكًا قَطُّ یُعَظِّمُهُ أَصْحَابُهُ مَا یُعَظِّمُ أَصْحَابُ مُحَمَّدٍ مُحَمَّدًا، وَاللهِ إِنْ تَنَخَّمَ نُخَامَةً إِلَّا وَقَعَتْ فِی كَفِّ رَجُلٍ مِنْهُمْ فَدَلَّكَ بِهَا وَجْهَهُ وَجِلْدَهُ، وَإِذَا أَمَرَهُمُ ابْتَدَرُوا أَمْرَهُ، وَإِذَا تَوَضَّأَ كَادُوا یَقْتَتِلُونَ عَلَى وَضُوئِهِ، وَإِذَا تَكَلَّمُوا خَفَضُوا أَصْوَاتَهُمْ عِنْدَهُ، وَمَا یُحِدُّونَ إِلَیْهِ النَّظَرَ تَعْظِیمًا لَهُ، وَإِنَّهُ قَدْ عَرَضَ عَلَیْكُمْ خُطَّةَ رُشْدٍ فَاقْبَلُوهُ

اے قوم !واللہ میں  بادشاہوں  کے دربارمیں  وفدلے کرگیاہوں  ،میں  قیصر،کسریٰ اور نجاشی کے درباروں  میں  پیش ہواہوں  ،واللہ میں  نے آج تک کسی بادشاہ کوایسانہیں  دیکھا کہ اس کے مقربین،مصاحبین اس کی اتنی تعظیم کرتے ہوں  جتنی محمدکے اصحاب ان کی کرتے ہیں  ،واللہ آپ تھوکتے ہیں  توآپ کاتھوک اٹھانے میں  ایک دوسرے پرمسابقت کرتے ہیں  اورجسے یہ ہاتھ لگ جائے وہ اسے اپنے جسم پرمل لیتاہے،جب آپ کوئی ارشادفرماتے ہیں  تو تعمیل حکم میں  صحابہ ایک دوسرے پرسبقت لے جانے کودوڑتے ہیں  ، جب آپ وضوفرماتے ہیں  توصحابہ رضی اللہ عنہم وضوکے پانی کولینے کے لئے ایسے جھپٹتے ہیں  گویاباہم جھگڑپڑیں  گے ، جب آپ گفتگوفرماتے ہیں  آپ کے رعب و عظمت کی وجہ سے سب خاموش ہوجاتے ہیں  اور انتہائی تعظیم کی بناپر آپ کی طرف نظراٹھاکرنہیں  دیکھتے، محمدنے تمہارے سامنے ایک بہتربات رکھی ہے بہتریہی ہے کہ تم اسے منظورکرلو ۔[11]

عروہ رضی اللہ عنہ اسلام سے متاثرتواسی وقت ہوگئے تھے لیکن قبول اسلام کاشرف انہیں  اس وقت حاصل ہوا،جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غزوہ حنین سے واپس تشریف لارہے تھے،اسلام قبول کر کے واپس گئے اوراپنے قبیلے کوبھی دعوت اسلام دی ،جواب تیروں  کی بوچھاڑکی صورت میں  ملااوروہ وہیں  شہیدہوگئے،۸ہجری میں  غزوہ حنین پیش آیاتوقبیلہ بنوثقیف نے قبیلہ ہوزان کاساتھ دیا،قبیلہ ہوزان کی شکست کے بعدرسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے طائف کامحاصرہ کرلیا،لیکن ان لوگوں  نے اپنے قلعے کی برجیوں  سے مسلمانوں  پرآگ اورتیروں  کامینہ برسادیا،لیکن جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے درختوں  کاکاٹنے کاحکم دیاتوانہوں  نے پیغام بھیجاکہ اللہ کے لئے ہمیں  ہماری روزی سے محروم نہ کریں  ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان خوفناک دشمنوں  کی استدعاقبول فرمالی اورمحاصرہ اٹھاکرمدینہ منورہ تشریف لے آئے،اہل طائف کواب اپنی قدرعافیت معلوم ہوگئی تھی،قریب قریب سارا عرب حلقہ بگوش اسلام ہوچکاتھا،اوروہ اچھی طرح سمجھ گئے تھے کہ اب مسلمانوں  سے مقابلہ ان کے بس کاروگ نہیں  رہا،اسی بے بسی کے احساس نے انہیں  وفدکی صورت میں  بارگاہ رسالت میں  حاضرہونے پرمجبورکیا

قَالَ ابْنُ إِسْحَاقَ: ثمَّ أَقَامَتْ ثَقِیفٌ بَعْدَ قَتْلِ عُرْوَةَ أَشْهُرًا، ثمَّ إنَّهم ائتمروا بینهم، رأوا أنَّه لَا طَاقَةَ لَهُمْ بِحَرْبِ مَنْ حَوْلَهُمْ مِنَ الْعَرَبِ وَقَدْ بَایَعُوا وَأَسْلَمُوا، فَائْتَمَرُوا فِیمَا بَیْنَهُمْ وَذَلِكَ عَنْ رَأْیِ عَمْرِو بْنِ أُمَیَّةَ أَخِی بَنِی عِلَاجٍ فَائْتَمَرُوا بَیْنَهُمْ ثمَّ أَجْمَعُوا عَلَى أَنْ یُرْسِلُوا رَجُلًا مِنْهُمْ فَأَرْسَلُوا عَبْدَ یا لیل بْنَ عَمْرِو بْنِ عُمَیْرٍ وَمَعَهُ اثْنَانِ مِنَ الْأَحْلَافِ وَثَلَاثَةٌ مِنْ بَنِی مَالِكٍ، وَهُمْ الْحَكَمُ بْنُ عَمْرِو بْنِ وَهْبِ بْنِ مُعَتِّبٍ، وَشُرَحْبِیلُ بْنُ غَیْلَانَ بْنِ سَلَمَةَ بْنِ مُعَتِّبٍ، وَعُثْمَانُ بْنُ أَبِی الْعَاصِ، وَأَوْسُ بْنُ عَوْفٍ أَخُو بَنِی سَالِمٍ، وَنُمَیْرُ بْنُ خَرَشَةَ بْنِ رَبِیعَةَ

ابن اسحاق کہتے ہیں  کہ عروہ رضی اللہ عنہ کے قتل کے بعدثقیف کئی ماہ تک ٹھیرے رہے ،پھرانہوں  نے آپس میں  مشورہ کیااورسمجھ لیاکہ وہ اپنے اردگردکے مسلمانوں  اورعمروعربوں  سے جنگ کرنے کی ہمت وسکت نہیں  رکھتےتوانہوں  نے بنی علاج کے بھائی عموبن امیہ کے مشورے کے مطابق اپنے باہمی معاملات کے بارے میں  مشورہ کیا،اورپھراپنے میں  سے ایک آدمی بھیجنے کے بارے میں  متفق ہوگئے ،پس انہوں  نے عبدیالیل بن عمرو بن عمیرکواحلاف کے دوآدمیوں  اوربنی مالک کے تین آدمیوں  کے ساتھ بھیجا،جن کے نام یہ ہیں  الحکم بن عمروبن وہب بن معتب،شرحبیل بن غیلان بن سلمہ بن معتب،عثمان بن ابوالعاص،بنی سالم کااوس بن عوف اورنمیربن خرشہ بن ربیعہ۔

وَقَالَ مُوسَى بْنُ عُقْبَةَ: كَانُوا بِضْعَةَ عَشَرَ رَجُلًا فِیهِمْ كِنَانَةُ بْنُ عَبْدِ یَالِیلَ وَهُوَ رَئِیسُهُمْ وَفِیهِمْ عُثْمَانُ بْنُ أَبِی الْعَاصِ وَهُوَ أَصْغَرُ الْوَفْدِ، فَخَرَجَ عَبْدُ یَالِیلَ وَابْنَاهُ كِنَانَةُ وَرَبِیعَةُ وَشُرَحْبِیلُ بْنُ غَیْلانَ بْنِ سَلَمَةَ وَالْحَكَمُ بْنُ عَمْرِو بْنِ وَهْبِ بْنِ مُعَتِّبٍ وَعُثْمَانُ بْنُ أَبِی الْعَاصِ وَأَوْسُ بْنُ عَوْفٍ وَنُمَیْرُ بْنُ خَرَشَةَ بْنِ رَبِیعَةَ فَسَارُوا فِی سَبْعِینَ رَجُلا وَهَؤُلاءِ السِّتَّةُ رُؤَسَاؤُهُمْ، وَقَالَ بَعْضُهُمْ: كَانُوا جَمِیعًا بضعة عَشَرَ رَجُلا. وَهُوَ أَثْبَتُ

موسی بن عقبہ کہتے ہیں  وہ دس بارہ آدمی تھے جن میں  کنانہ عبدیالیل ان کالیڈرتھااوران میں  عثمان بن ابوالعاص بھی شامل تھاجووفدمیں  سب سے چھوٹاتھا،چنانچہ عروہ مسعودثقفی کی شہادت کے آٹھ ماہ بعد عبدیالیل اوران کے دوبیٹے کنانہ وربیعہ اورشرحبیل بن غیلان بن سلمہ اورحکم بن عمروبن وہب بن معتب وعثمان بن ابی العاص واوس بن عوف ونمیربن خرشہ بن ربیعہ نکلے اورسترآدمیوں  کے ساتھ روانہ ہوئے ،یہ چھ آدمی ان کے رئیس ہوئے،بعض اہل علم نے کہایہ سب انیس آدمی تھے یہی زیادہ ٹھیک ہے،

قَالَ الْمُغِیرَةُ بْنُ شُعْبَةَ: إِنِّی لَفِی رِكَابِ الْمُسْلِمِینَ بِذِی حُرُضٍ. فَإِذَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِی الْعَاصِ تَلَقَّانِی یَسْتَخْبِرُنِی. فَلَمَّا رَأَیْتُهُمْ خَرَجْتُ أَشْتَدُّ أُبَشِّرُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بِقُدُومِهِمْ،فَأَلْقَى أَبَا بكر الصدیق رضی الله عَنْهُ فَأَخْبَرْتُهُ بِقُدُومِهِمْ. فَقَالَ: أَقْسَمْتُ عَلَیْكَ لا تَسْبِقْنِی إِلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بِخَبَرِهِمْ!

مغیرہ بن شعبہ نے کہاکہ میں  مسلمانوں  کے ساتھ مقام ذی حرض میں  (مسلمانوں  کے ساتھ اونٹ چرارہا) تھاکہ اتفاق سےعثمان بن ابی العاص مجھ سے مل کرحالات دریافت کرنےلگے،جب مجھے وفدکے آنے کی غرض وغایت معلوم ہوئی تومیں  قدرخوش ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اطلاع دینے کے لئے مدینہ کی طرف دوڑپڑا،راستے میں  سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ مل گئے(انہوں  نے پوچھاخیرتوہے اس طرح بے تحاشا کیوں  بھاگ رہے ہو؟) تومیں  نے ان لوگوں  (ثقیف) کے آنے کی خبردی ،مغیرہ رضی اللہ عنہ نے واقعہ بیان کیا توسیدناابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہاکہ میں  تمہیں  قسم دیتاہوں  کہ مجھ سے پہلے ان لوگوں  کے آنے کی خبررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کونہ دینامغیرہ رضی اللہ عنہ نے اجازت دے دی،

فَدَخَلَ فَأَخْبَرَ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَسُرَّ بِمَقْدِمِهِمْ. وَنَزَلَ مَنْ كَانَ مِنْهُمْ مِنَ الأَحْلافِ عَلَى الْمُغِیرَةِ بْنِ شُعْبَةَ فَأَكْرَمَهُمْ. وَضَرَبَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ لِمَنْ كَانَ فِیهِمْ مِنْ بَنِی مَالِكٍ قُبَّةً فِی الْمَسْجِدِ لِكَیْ یَسْمَعُوا الْقُرْآنَ، وَیَرَوُا النَّاسَ إِذَا صَلَّوْا

چنانچہ انہوں  نے جب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کوبنوثقیف کے آنے کی اطلاع دی توآپ بھی بے حدمسرورہوئے،ان میں  جولوگ پیچھے تھے وہ مغیرہ بن شعبہ کے پاس اترے ،مغیرہ نے ان لوگوں  کااکرام کیا،جولوگ بنی مالک میں  سے تھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان لوگوں  کے لیےمسجدنبوی میں  خیمہ نصب فرمایاتاکہ قرآن کی آوازان کے کانوں  میں  پڑتی رہے اورمسلمانوں  کی نمازمیں  محویت دیکھ کران پراثرپڑے،وفدکی خبرگیری اورمہمانی خالد رضی اللہ عنہ بن سعیدبن العاص کے سپردکی،

خَالِدُ بْنُ سَعِیدِ بْنِ الْعَاصِ هُوَ الَّذِی یَمْشِی بَیْنَهُمْ وَبَیْنَ رَسُولِ اللهِ.وَكَانُوا لَا یَأْكُلُونَ طَعَامًا یَأْتِیهِمْ مِنْ عِنْدِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى یَأْكُلَ مِنْهُ خالد حَتَّى أَسْلَمُوا، فَكَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَأْتِیهِمْ كُلَّ لَیْلَةٍ بَعْدَ الْعِشَاءِ فَیَقِفُ عَلَیْهِمْ وَیُحَدِّثُهُمْ حَتَّى یُرَاوِحَ بَیْنَ قَدَمَیْهِ وَیَشْكُو قُرَیْشًا وَیُذْكُرُ الْحَرْبَ الَّتِی كَانَتْ بَیْنَهُ وَبَیْنَهُمْ

خالدبن سعیدبن العاص رضی اللہ عنہ ان کے اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان آتے جاتے تھے اورجب وہ ان کے پاس کھانالے کرآتے توجب تک خالد رضی اللہ عنہ بن سعیداس کھانے سے نہ کھالیتے وفدکے لوگ وہ کھانانہ کھاتے تھے ،وہ لوگ فی الواقع رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس تدبیرسے اسلام سے بڑے متاثرہوکر اسلام لے آئے،سیدالامم صلی اللہ علیہ وسلم خودبھی عشاء کی نمازکے بعدان کے پاس تشریف لے جاتے اوربڑی دیرتک ان سے گفتگوفرماتے رہتے،یہاں  تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی ایک قدم پرکھڑے ہوتے تھے کبھی دوسرے قدم پر ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم قریش کی شکایت کرتے تھے اوراس جنگ کاذکرفرماتے تھے جوآپ صلی اللہ علیہ وسلم اورقریش کے درمیان ہوئی تھی۔[12]

وَكَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ إِذَا خَطَبَ لَا یَذْكُرُ نَفْسَهُ، فَلَمَّا سَمِعَهُ وَفْدُ ثَقِیفٍ قَالُوا: یَأْمُرُنَا أَنْ نَشْهَدَ أَنَّهُ رَسُولُ اللهِ وَلَا یَشْهَدُ بِهِ فِی خُطْبَتِهِ ،فَلَمَّا بَلَغَهُ قَوْلُهُمْ قَالَ: فَإِنِّی أَوَّلُ مَنْ شَهِدَ أَنِّی رَسُولُ اللهِ ،فَمَكَثَ الْوَفْدُ یَخْتَلِفُونَ إِلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ یَدْعُوهُمْ إِلَى الْإِسْلَامِ فَأَسْلَمُوا، فَقَالَ كِنَانَةُ بْنُ عَبْدِ یالَیْل: هَلْ أَنْتَ مُقَاضِینَا حَتَّى نَرْجِعَ إِلَى قَوْمِنَا؟ قَالَ:نَعَمْ، إِنْ أَنْتُمْ أَقْرَرْتُمْ بِالْإِسْلَامِ أُقَاضِیكُمْ، وَإِلَّا فَلَا قَضِیَّةَ وَلَا صُلْحَ بَیْنِی وَبَیْنَكُمْ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب خطبہ ارشادفرماتے تواپنے آپ کاتذکرہ نہ فرماتے تھے چنانچہ جب وفدثقیف نے یہ (اندازخطاب)سناتوکہنے لگےمحمد صلی اللہ علیہ وسلم چاہتے ہیں  کہ ہم اس امرکی گواہی دیں  کہ وہ اللہ کے رسول ہیں  ، حالانکہ خطبہ کے دوران میں  وہ خوداپنے نبی ہونے کی شہادت نہیں  دیتے،جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کوان کے اس قول کی خبرملی توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایامیں  سب سے پہلے اس بات کی شہادت دیتاہوں  کہ اللہ نے مجھے نبی اوررسول بنا کربھیجاہے، اوراس کی طرف سے میں  خلقت کی ہدایت اوراصلاح کے لئے مبعوث ہواہوں  ، وفد کچھ مدت تک مدینہ منورہ میں  قیام پذیررہااوربرابررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں  حاضرہوتارہا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں  اسلام کی دعوت دیتے رہے آخریہ وفدمسلمان ہوگیا، کنانہ بن عبدیالیل نے دریافت کیاکیاآپ ہم سے مصالحت کریں  گے اگرہم ابھی قوم کے پاس جاکرواپس آجائیں  ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاہاں  !اگرتم نے اسلام کااقرارکرلیاتومیں  تم سے مصالحت کرلوں  گاورنہ کوئی صلح نہیں  ہوگی اورنہ میرے اورتمہارے درمیان کوئی عہدہوگا،ا ٓہستہ آہستہ یہ لوگ چندشرائط کے ساتھ اسلام قبول کرنے پرآمادہ ہوگئے،اس سلسلہ میں  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اورامیروفدعبدیالیل کے درمیان جو گفتگو ہوئی وہ اس طرح تھی۔

قَالَ أَفَرَأَیْتَ الزِّنَى، فَإِنَّا قَوْمٌ نَغْتَرِبُ وَلَا بُدَّ لَنَا مِنْهُ؟

عبدیالیل:ہمارے ہاں  مردعام طورپرمجردرہتے ہیں  اس لئے وہ زناکاری پرمجبورہیں  ،کیااس کی اجازت ہوگی؟

قَالَ: هُوَ عَلَیْكُمْ حَرَامٌ، فَإِنَّ اللهَ عَزَّ وَجَلَّ یَقُولُ:وَلَا تَقْرَبُوا الزِّنَا إِنَّهُ كَانَ فَاحِشَةً وَسَاءَ سَبِیلًا

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم :زناتوقطعاًحرام ہے،اس کے بارے میں  اللہ تعالیٰ کاحکم ہے

وَلَا تَقْرَبُوا الزِّنَا إِنَّهُ كَانَ فَاحِشَةً وَسَاءَ سَبِیلًا [13]

ترجمہ: زنا کے قریب بھی نہ پھٹکووہ بہت برافعل ہے اوربڑاہی براراستہ۔

قَالُوا: أَفَرَأَیْتَ الرِّبَا فَإِنَّهُ أَمْوَالُنَا كُلُّهَا؟

عبدیالیل:اورسودکے بارے میں  آپ کاکیاحکم ہےیہ توہمارااپناہی مال ہے۔

قَالَ: لَكُمْ رُءُوسُ أَمْوَالِكُمْ إِنَّ اللهَ تَعَالَى یَقُولُ:یَاأَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا اتَّقُوا اللهَ وَذَرُوا مَا بَقِیَ مِنَ الرِّبَا إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِینَ

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم :تم اپنااصل روپیہ لے سکتے ہولیکن سودتوبالکل حرام ہے،اللہ کاحکم ہے

یَا أَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا اتَّقُوا اللهَ وَذَرُوا مَا بَقِیَ مِنَ الرِّبَا إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِینَ [14]

ترجمہ:اے لوگوجوایمان لائے ہو،اللہ سے ڈرواورجوکچھ تمہاراسودلوگوں  پرباقی رہ گیاہے اسے چھوڑدواگرواقعی تم ایمان لائے ہو۔

قَالُوا: أَفَرَأَیْتَ الْخَمْرَ، فَإِنَّهُ عَصِیرُ أَرْضِنَا لَا بُدَّ لَنَا مِنْهَا؟

عبدیالیل:اورشراب کے بارے میں  آپ کاکیاحکم ہے ؟ہم لوگ توپشت ہاپشت سے شراب کے عادی ہیں  کہ یہ ہمارے ملک کے انگوروں  کاعرق ہے اس کی اجازت تو مرحمت فرمائیں  ۔

قَالَ: إِنَّ اللهَ قَدْ حَرَّمَهَا، وَقَرَأَ:یَاأَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا إِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَیْسِرُ وَالْأَنْصَابُ وَالْأَزْلَامُ رِجْسٌ مِنْ عَمَلِ الشَّیْطَانِ فَاجْتَنِبُوهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم :اللہ تعالیٰ نے جوئے وغیرہ کے ساتھ شراب کو بھی حرام کردیا ہے،پھرآپ نے یہ آیت تلاوت فرمائی

یَا أَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا إِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَیْسِرُ وَالْأَنْصَابُ وَالْأَزْلَامُ رِجْسٌ مِنْ عَمَلِ الشَّیْطَانِ فَاجْتَنِبُوهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ [15]

ترجمہ:اے لوگوجوایمان لائے ہو شراب اور جوا اوریہ آستانے اورپانسے یہ سب گندے شیطانی کام ہیں  ان سے پرہیزکروامیدہے کہ تمہیں  فلاح نصیب ہوگی۔

وَقَدْ كَانُوا یَسْأَلُونَهُ أَنْ یُعْفِیَهُمْ مِنَ الصَّلَاةِ

عبدیالیل:یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں  نمازسے تومعاف فرمادیں  ۔

فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ :لَا خَیْرَ فِی دِینٍ لَا صَلَاةَ فِیهِ

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم :اس دین میں  کوئی اچھائی نہیں  جس میں  نماز نہ پڑھی جائے۔

فقالواسَنُؤْتِیكَهَا وَإِنْ كَانَتْ دَنَاءَةً

عبدیالیل:اگرچہ یہ ایک کمینگی ہے لیکن ہم اسے آپ کے لیے اداکریں  گے۔

فَاشْتَرَطُوا عَلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وسلَّم أَنْ لَا یُحْشَرُوا وَلَا یُعْشَرُوا وَلَا یُجَبُّوا

یہ درخواستیں  نامنظورہوگئیں  تواہل وفدنے زکواة،عشر اورجہادسے استثناء کی درخواست کی ۔

فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ لَكُمْ أَنْ لَا تُحْشَرُوا وَلَا تجبوا

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم :رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایانہ تم جنگوں  میں  جاؤاورنہ زکوٰة دو۔

وأنَّه سَمِعَ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وسلَّم یَقُولُ بَعْدَ ذَلِكَ سیتصدَّقون وَیُجَاهِدُونَ إِذَا أَسْلَمُوا

جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہےمیں  نے بعدمیں  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کویہ فرماتے سناکہ جب یہ لوگ صدق دل سے اسلام قبول کرلیں  گے توجہادبھی کریں  گے اور زکوٰة بھی دیں  گے ۔[16]

لَكَ مَا سَأَلْتَ، أَرَأَیْتَ الرَّبَّةَ مَاذَا نَصْنَعُ فِیهَا؟

عبدیالیل:آپ ہماری دیوی ربہ کے ساتھ کیاسلوک کریں  گے؟

قَالَ : اهْدِمُوهَا

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم :آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااسے منہدم کرڈالو۔

قَالُوا: هَیْهَاتَ، لَوْ تَعْلَمُ الرَّبَّةُ أَنَّكَ تُرِیدُ هَدْمَهَا، لَقَتَلَتْ أَهْلَهَا

یہ لوگ اپنے بت سے اتنے خوفزدہ تھے کہ آپ کاارشادسن کربہت حیران ہوئے، اورکہنے لگے ہائے ہائے! اگردیوی ربہ کویہ معلوم ہوگیاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسے ختم کرنے کاارادہ کررہے ہیں  تووہ وہاں  کے لوگوں  کوہلاک کردی گی۔

وَقَدْ كَانَ فِیمَا سَأَلُوا رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَنْ یَدَعَ لَهُمُ الطَّاغِیَةَ، وَهِیَ اللاتُ لَا یَهْدِمُهَا ثَلَاثَ سِنِینَ فَمَا بَرِحُوا یَسْأَلُونَهُ سَنَةً سَنَةً وَیَأْبَى عَلَیْهِمْ، حَتَّى سَأَلُوهُ شَهْرًا وَاحِدًا بَعْدَ قُدُومِهِمْ، فَأَبَى عَلَیْهِمْ أَنْ یَدَعَهَا شَیْئًا مُسَمًّى

عبدیالیل:اورکہنے لگے کہ تین سال تک طاغیہ کوان کے واسطے نہ توڑاجائے، اورمسلسل آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سال سال کے بارے میں  سوال کرتے رہے اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم انکار کرتے رہے ،یہاں  تک انہوں  نے اپنے کم عقل لوگوں  کومتالف کرنے کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنی آمدکے ایک ماہ بعدتک کاسوال کیا،لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی نامزدچیزکوچھوڑنے سے انکارکردیا۔

فَقَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ: وَیْحَكَ یَا ابن عبد یالیل، مَا أَجْهَلَكَ، إِنَّمَا الرَّبَّةُ حَجَرٌ

سیدناعمر رضی اللہ عنہ جواس موقع پرموجودتھے ان سے ضبط نہ ہوسکااوربول اٹھے اورفرمایااے ابن عبدیالیل !افسوس ،توکس قدرجاہل ہے تیرامعبودربہ توایک پتھرکے سواکچھ نہیں  ہے۔

فَقَالُوا: إِنَّا لَمْ نَأْتِكَ یَا ابن الخطاب

اہل وفدنے برہم ہوکرکہااے ابن خطاب ! تم ہمارے درمیان مت بولوہم تمہارے پاس نہیں  آئے ۔

وَقَالُوا لِرَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ تَوَلَّ أَنْتَ هَدْمَهَا، فَأَمَّا نَحْنُ، فَإِنَّا لَا نَهْدِمُهَا أَبَدًا

سیدناعمر رضی اللہ عنہ خاموش ہوگئےتوانہوں  نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا،ربہ کوگرانے کاکام ہم سے توکبھی نہیں  ہوسکے گاآپ صلی اللہ علیہ وسلم خودجوچاہیں  کریں  ۔

قَالَ فَسَأَبْعَثُ إِلَیْكُمْ مَنْ یَكْفِیكُمْ هَدْمَهَا

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسکراتے ہوئے فرمایااچھاتویہ بت شکنی ہمارے ذمہ ہی رہی تم لوگ یہ کام نہ کرنا۔

اس کے بعدسب اراکین وفدنے اسلام قبول کرلیا۔[17]

ایک روایت میں  ہے کہ جوشرائط وفد ثقیف نے پیش کیں  وہ ان سب کوایک معاہدے کی صورت میں  لکھ کراپنے ساتھ لائے تھے، اورچاہتے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس پراپنی مہر ثبت فرمادیں  ،لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کومحبت اورحکمت سے سمجھایاتواپنی تمام لغوشرائط سے دست بردار ہوگئے، اور اس تحریری معاہدے پردستخط کرنے پرتیارہوگئے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تجویزفرمایا۔

ابوعبیدہ رحمہ اللہ نے یہ معاہدہ کتاب الاموال میں  پورے کاپورانقل کیاہے اس کامضمون یہ تھا۔

بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِیمِ

هَذَا كِتَابُ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ لِثَقِیفٍ:

هَذَا كِتَابٌ مِنْ مُحَمَّدٍ النَّبِیِّ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ لِثَقِیفٍ، كَتَبَ أَنَّ لَهُمُ ذِمَّةَ اللهِ الَّذِی لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ، وَذِمَّةَ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ اللهِ النَّبِیِّ عَلَى مَا كَتَبَ لَهُمْ فِی هَذِهِ الصَّحِیفَةِ:

 أَنَّ وَادِیَهُمْ حَرَامٌ مُحَرَّمٌ لِلَّهِ كُلُّهُ، عِضَاهُهُ وَصَیْدُهُ وَظُلْمٌ فِیهِ وَسَرْقٌ فِیهِ أَوْ إِسَاءَةٌ.

 وَثَقِیفٌ أَحَقُّ النَّاسِ بِوَجٍّ، وَلَا یُغَیَّرُ طَائِفُهُمْ لَهُمْ، وَلَا یُدْخِلُهُ عَلَیْهِمْ أَحَدٌ مِنَ الْمُسْلِمِینَ یَغْلِبُهُمْ عَلَیْهِ، وَمَا شَاءُوا أَحْدَثُوا فِی طَائِفِهِمْ مِنْ بُنْیَانٍ أَوْ سِوَاهُ بِوَادِیهِمْ.

 وَلَا یُحْشَرُونَ وَلَا یُعْشَرُونَ، وَلَا یُسْتَكْرَهُونَ بِمَالٍ وَلَا نَفْسٍ.

 وَمَا كَانَ لَهُمْ مِنْ دَیْنٍ إِلَى أَجَلِهِ فِی رَهْنٍ، فَإِنَّهُ لِوَاطٌ مُبَرَّأٌ مِنَ اللهِ.

 وَمَا كَانَ لَهُمْ مِنْ دَیْنٍ فِی رَهْنٍ وَرَاءَ عُكَاظٍ، فَإِنَّهُ یَقْضِی إِلَى عُكَاظٍ بِرَأْسِهِ.

 وَمَا كَانَ مِنْ دَیْنٍ فِی صَحِیفَتِهِمُ الْیَوْمَ الَّذِی أَسْلَمُوا عَلَیْهِ فِی النَّاسِ فَإِنَّهُ لَهُمْ.

 وَمَا كَانَ لِثَقِیفٍ مِنْ وَدِیعَةٍ فِی النَّاسِ أَوْ مَالٍ أَوْ نَفْسٍ غَنِمَهَا مُودِعُهَا أَوْ أَضَاعَهَا، أَلَا فَإِنَّهَا مُؤَدَّاةٌ.

 وَمَا كَانَ لِثَقِیفٍ مِنْ نَفْسٍ غَائِبَةٍ، أَوْ مَالٍ، فَإِنَّ لَهُ مِنَ الْأَمْرِ مِثْلَ مَا لِشَاهِدِهِمْ وَمَا كَانَ لَهُمْ مِنْ مَالٍ بَلِیةٌ، فَإِنَّ لَهُمْ مِنَ الْأَمْرِ مِثْلَ مَا لَهُمْ بِوَجٍّ.

 وَمَا كَانَ لِثَقِیفٍ مِنْ حَلِیفٍ أَوْ تَاجِرٍ فَأَسْلَمَ، فَإِنَّ لَهُ مِثْلَ قِصَّةِ أَمْرِ ثَقِیفٍ.

 وَإِنْ طَعَنَ طَاعِنٌ عَلَى ثَقِیفٍ أَوْ ظَلَمَهُمْ ظَالِمٌ، فَإِنَّهُ لَا یُطَاعُ فِیهِمْ فِی مَالٍ وَلَا نَفْسٍ، وَأَنَّ رَسُولَ الله یَنْصُرَهُمْ عَلَى مَنْ ظَلَمَهُمْ، وَالْمُؤْمِنُونَ.

 وَمَنْ كَرِهُوا أَنْ یَلِجَ عَلَیْهِمْ مِنَ النَّاسِ، فَإِنَّهُ لَا یَلِجُ عَلَیْهِمْ.

 وَإِنَّ السُّوقَ وَالْبَیْعَ بِأَفْنِیَةِ الْبُیُوتِ.

 وَإِنَّهُ لَا یُؤَمَّرُ عَلَیْهِمْ إِلَّا بَعْضُهُمْ عَلَى بَعْضٍ: عَلَى بَنِی مَالِكٍ أَمِیرُهُمْ، وَعَلَى الْأَحْلَافِ أَمِیرُهُم.

 وَمَا سَقَتْ ثَقِیفٌ مِنْ أَعْنَابِ قُرَیْشٍ، فَإِنَّ شَطْرَهَا لِمَنْ سَقَاهَا.

 وَمَا كَانَ لَهُمْ مِنْ أَسِیرٍ بَاعَهُ رَبُّهُ، فَإِنَّ لَهُ بَیْعَهُ، وَمَا لَمْ یُبَعْ، فَإِنَّ لَهُ فِیهِ سِتَّ قَلَائِضَ، نِصْفَانِ حَقَائِقُ وَبَنَاتُ لَبُونٍ كِرَامٌ سِمَانٌ.

وكتب خالد بن سعید

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

یہ تحریرہے اللہ کے رسول اورنبی محمدکی ،ثقیف کے لئے۔

x ان کواس اللہ کاذمہ دیاجاتاہے جس کے سواکوئی معبودنہیں  اورمحمدبن عبداللہ کاذمہ اس چیزکے متعلق جواس دستاویزمیں  لکھاجاتاہے ۔

x بیشک ان کی وادی حرام ہے اورسب کی سب اللہ کے لئے حرام کی گئی ہے ،وہاں  کے جنگلی خارداردرخت ،وہاں  کاشتکار،وہاں  کاظلم کرنا،چوری کرنا یاکوئی اوربرائی کرنا(سب حرام ہیں  )۔

x اوراس وادی دج پرثقیف ہی کاسب سے زیادہ حق ہے ،ان کے طائف کومفتوح نہیں  کیاجائے گااورنہ کوئی مسلمان وہاں  جاکران کووہاں  سے نکال سکے گا،وہ اپنے شہرطائف میں  یااپنی وادی میں  جوعمارت چاہیں  گے بناسکیں  گے۔

x ان کونہ فوجی خدمت کے لئے مجبورکیاجائے گااورنہ ان سے (بزور)عشرلیاجائے گانہ زکواة،یہ مسلمانوں  ہی کی ایک جماعت ہیں  ،مسلمانوں  میں  جہاں  آناجاناچاہیں  آجاسکیں  گے ،وہ کسی کوقیدی بنائیں  گے تواس بارے میں  خودہی فیصلہ کرسکیں  گے ،ان کورہن کی ضمانت پرجوقرض وصول کرنا ہواس پرسودنہیں  لیاجائے گا،اگراس کے اداکرنے کی مدت آجائے اورادانہ کیاجائے توقرض کی رقم کا بڑھانا سود ہے اوراللہ سے برات اورجوقرض رہن کی ضمانت پرآنے والے موسم عکاظ کے بعدتک کے لئے ہوتواس کااصل راس المال عکاظ میں  اداکردیاجائے اورثقیف کوان کے کھاتوں  میں  ان کے قبول اسلام کے دن سے جووصول طلب دیوان ہیں  وہ ان کوملیں  گے۔

x اورثقیف کولوگوں  سے جوامانت یامال یاآدمی(لونڈی غلام)جسے امانت رکھوانے والے نے مال غنیمت میں  پایا تھایا کھویاتھا وصول طلب ہوتوضرورواپس کیاجائے گا۔

x اورثقیف کے جوآدمی یاسامان(اب)موجودنہ ہوں  توان کوبھی وہی تحفظ حاصل ہوگاجوحاضرالوقت کوہے اوران کاجومال لیہ(وادی دج کاایک مقام)میں  ہوتواس کوبھی وہی تحفظ حاصل ہوگاجودج کے مال کوہے۔

xاورثقیف کاجوحلیف یاتجارتی معاملت دارہواس کوبھی ثقیف ہی کے حقوق حاصل ہوں  گے۔

xاوراگرثقیف پرکوئی الزام لگانے والاالزام لگائے یاکوئی ظلم کرنے والاان پرظلم کرے تواس کی بات نہیں  مانی جائے گی خواہ مال کے متعلق ہویاجان کے ،اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور تمام مسلمان ثقیف کی مدداس شخص کے خلاف کریں  گے جوان پرظلم کرے۔

xاورثقیف کوجس شخص کااپنے ہاں  آناپسندنہ ہوگاوہ ان کے ہاں  نہ جاسکے گااوربازاراوربیوپارگھروں  کے صحنوں  میں  ہوگا۔

xان کاامیرانہیں  میں  سے ہواکرے گاکوئی دوسرانہیں  ،بنومالک پران کااپناامیراوراحلاف پران کااپناامیرہوگا۔

xاورثقیف والے قریش کے جن تاکستانوں  کوپانی فراہم کریں  گے توپانی فراہم کرنے والے کوپیداوارکاآدھاملے گا۔

xاوران کے پاس جواسیرہوجسے اس کے مالک نے بیچ دیاہوتواسی کواس کی بیع کاحق ہوگااورجوبیچانہ گیاہوتواس میں  (فدیہ)چھ اونٹنیاں  ہوں  گی آدھوں  آدھ تین سالہ اونٹنیاں  اوردودھ پلائی عمدہ موٹی۔

xاورجس نے معاملہ بیع کرکے کچھ خریداہوتواس بیع کااسی کوحق ہے۔

کاتب خالد بن سعید۔[18]

حافظ ابن عبدالبر رحمہ اللہ اوربعض دوسرے علماء نے اس معاہدے کی کچھ شقوں  کامتن مختلف صورت میں  دیاہے،بدکاری اورشراب خوری سے بچنے اورنمازکی پابندی جیسے احکام کومعاہدہ میں  اندراج کامحتاج نہیں  سمجھاگیا،کیونکہ ان میں  کسی قسم کی رعایت ممکن ہی نہ تھی ،البتہ فوجی خدمات کے بارے میں  (وقتی طورپر)ان کورعایت اس لئے دی گئی کہ جہادفرض کفایہ ہے ہرشخص پرواجب نہیں  ، اورجب واجب بھی ہوتواس کے خاص مواقع ہیں  روزکاکام نہیں  ،اسی طرح زکوٰة کے بارے میں  شق اس لئے شامل کی گئی کہ یہ سال کے بعد واجب ہوتی ہے ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کویقین تھاکہ جب ان لوگوں  کے دلوں  میں  ایمان راسخ ہوجائے گاتوخودبخودہی زکوٰة بھی اداکریں  گے، اورجہادکے لئے بھی نکلیں  گے اورفی الواقع بعدمیں  یہی ہوا۔

عَنْ عُثْمَانَ بْنِ أَبِی الْعَاصِ قَالَ: قُلْتُ یَا رَسُولَ اللهِ اجْعَلْنِی إِمَامَ قَوْمِی،قَالَ: أَنْتَ إِمَامُهُمْ

وفدثقیف نے مدینہ منورہ میں  چندروزقیام کے بعدوطن کومراجعت کاعزم کیاتوعثمان بن ابوالعاص رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے درخواست کی کہ مجھے اپنی قوم کا امام مقررفرمادیں  ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاتوان کاامام ہے۔

وَقَالُوا: یَا رَسُولَ اللهِ! أَمِّرْ عَلَیْنَا رَجُلًا یَؤُمُّنَا مِنْ قَوْمِنَا،فَأَمَّرَ عَلَیْهِمْ عُثْمَانَ بْنَ أَبِی الْعَاصِ لِمَا رَأَى مِنْ حِرْصِهِ عَلَى الْإِسْلَامِ،وَكَانَ قَدْ تَعَلَّمَ سُوَرًا مِنَ الْقُرْآنِ قَبْلَ أَنْ یَخْرُجَ

ایک روایت میں  ہے اہل وفدنے عرض کیااے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !ہم میں  سے ایک آدمی کوہماراامیر مقرر فرما دیں  جوہماری امارت کرے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عثمان بن ابی العاص کی خواہش دین فہمی سے واقف تھے، لہذاانہی کوان کاامیرمقررفرمادیا،تمام اراکین وفدنے آپ کے حکم کے سامنے سر جھکا دیا،ان لوگوں  نے مدینہ منورہ سے نکلنے سے قبل قرآن مجیدکی چندسورتیں  یادکرلی تھیں  ۔

پھر آپ نے عثمان رضی اللہ عنہ بن ابی العاص سے مخاطب ہوکرفرمایا۔

قَالَ یَا عُثْمَانُ تجوَّز فِی الصَّلاة، وَاقْدُرِ النَّاس بِأَضْعَفِهِمْ فإنَّ فِیهِمُ الْكَبِیرَ والصَّغیر والضَّعیف وَذَا الْحَاجَةِ

نمازپڑھاتے وقت لوگوں  کی حالت کاخیال رکھناان میں  بوڑھے،بچے ،بیمار،کمزوراورکاروباری ہرقسم کے لوگ ہوتے ہیں  ۔

قَالَ: أَنْتَ إِمَامُهُمْ فَاقْتَدِ بِأَضْعَفِهِمْ واتَّخذ مُؤَذِّنًا لَا یَأْخُذُ عَلَى أذانه أجراً

ایک روایت میں  ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا توان کاامام ہے پس ان کے کمزوروں  کی اقتداء کراورایسے شخص کوموذن مقررکرجواپنی اذان میں  اجرت نہ لے۔[19]

یعنی افضل واعلی یہی ہے کہ یہ منصب کسی ایسے شخص کے سپردکیاجائے جواللہ کی رضاکے لیے یہ کام کرے،اگرایساکوئی شخص میسرنہ ہوتوتنخواہ پرموذن رکھا جا سکتا ہےکیونکہ اس عمل میں  ایک اہم دینی مصلحت ہے۔

وَكَانُوا یَغْدُونَ إِلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ كُلَّ یَوْمٍ، وَیُخَلِّفُونَ عُثْمَانَ بْنَ أَبِی الْعَاصِ عَلَى رِحَالِهِمْ لِأَنَّهُ أَصْغَرُهُمْ،فَكَانَ عثمان كُلَّمَا رَجَعَ الْوَفْدُ إِلَیْهِ وَقَالُوا بِالْهَاجِرَةِ، عَمَدَ إِلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: فَسَأَلَهُ عَنِ الدِّینِ وَاسْتَقْرَأَهُ الْقُرْآنَ،فَاخْتَلَفَ إِلَیْهِ عثمان مِرَارًا حَتَّى فَقِهَ فِی الدِّینِ وَعَلِمَ، وَكَانَ إِذَا وَجَدَ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ نَائِمًا عَمَدَ إِلَى أبی بكر، وَكَانَ یَكْتُمُ ذَلِكَ مِنْ أَصْحَابِهِ، فَأَعْجَبَ ذَلِكَ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَأَحَبَّهُ

یہ وفدہرروزرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں  حاضرہوتا،اورعثمان بن ابی العاص کواپنے سامان کانگران بناکرانہیں  پیچھے چھوڑآتے کیونکہ یہ وفدثقیف کے سب سے کم عمررکن تھے، لیکن فہم وفراست ،شوق تعلیم اورجوش ایمانی کی بناپروہ سب اہل وفدپرفائق تھے چنانچہ جب وفدواپس آتاتوعثمان رضی اللہ عنہ بن ابی العاص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں  حاضرہوتے اوردین کے مسائل پوچھتے اورقرآن کی تعلیم حاصل کرتے،اسی طرح عثمان رضی اللہ عنہ کوبکثرت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں  حاضرہونے کے مواقع ملتے رہے یہاں  تک کہ دین کے مختلف معاملات ومسائل میں  بلاکی مہارت اورتفقہ حاصل کرلیا، کبھی ایسابھی ہوتاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سوئے ہوئے ہوتے تویہ سیدناابوبکر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں  حاضرہوتے اورفہم دین حاصل کرتے، عثمان رضی اللہ عنہ نے خدمت اقدس میں  اپنی حاضری کواپنے ساتھیوں  سے خفیہ اورپوشیدہ رکھا،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوعثمان بن ابی العاص کی یہ ادابھاگئی توآپ صلی اللہ علیہ وسلم ان سے محبت کرنے لگے۔[20]

وفدثقیف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے رخصت ہوکرطائف پہنچاتوبیشتربنوثقیف اوران کے احلاف حلقہ بگوش اسلام ہوگئے،

أنه لم یبق بمكّة والطّائف أحد من قریش وثقیف فی حَجّةِ الْوَدَاعِ إلّا كان أسلم وشهدها

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لکھاہے کچھ عرصہ بعدحجة الوداع کا موقع آیاتومکہ اورطائف سےکوئی قریشی اورثقفی ایسانہ تھاجومسلمان ہوکرنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شریک نہ ہواہو۔[21]

بَعَثَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مَعَهُمْ أَبَا سُفْیَانَ بْنَ حَرْبٍ وَالْمُغِیرَةَ بْنَ شُعْبَةَ فِی هَدْمِ الطَّاغِیَةِ،فَلَمَّا قَدِمُوا عَمَدُوا إِلَى اللاتِ لِیَهْدِمُوهَا، وَاسْتَكَفَّتْ ثَقِیفٌ كُلُّهَا الرِّجَالُ وَالنِّسَاءُ وَالصِّبْیَانُ، حَتَّى خَرَجَ الْعَوَاتِقُ مِنَ الْحِجَالِ لَا تَرَى عَامَّةُ ثَقِیفٍ أَنَّهَا مَهْدُومَةٌ یَظُنُّونَ أَنَّهَا مُمْتَنِعَةٌ، فَقَامَ الْمُغِیرَةُ بْنُ شُعْبَةَ فَأَخَذَ الْكِرْزَیْنِ وَقَالَ لِأَصْحَابِهِ: وَاللهِ لَأُضْحِكَنَّكُمْ مِنْ ثَقِیفٍ، فَضَرَبَ بِالْكِرْزَیْنِ ثُمَّ سَقَطَ یَرْكُضُ، فَارْتَجَّ أَهْلُ الطَّائِفِ بِضَجَّةٍ وَاحِدَةٍ، وَقَالُوا: أَبْعَدَ اللهُ المغیرة قَتَلَتْهُ الرَّبَّة، وَفَرِحُوا حِینَ رَأَوْهُ سَاقِطًا

وفدکی روانگی کے چنددن بعدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مغیرہ رضی اللہ عنہ بن شعبہ اورابوسفیان رضی اللہ عنہ (اورایک روایت کے مطابق خالد رضی اللہ عنہ بن ولید )کوبھی لات اوراس کے معبدکوزمین بوس کرنے کے لئے طائف بھیجا،اہل طائف میں  سے اکثرمسلمان ہوچکے تھے لیکن پھربھی ان کے دل سے لات کی ہیبت نہیں  گئی تھی،جب یہ لوگ پہنچے اورانہوں  نے لات کومنہدم کرنے کاارادہ کیاتواس منظرکودیکھنے کے لیے بنوثقیف کے تمام مردعورتیں  اوربچے حتی کہ پردہ دارعورتیں  بھی باہرنکل آئیں  اورثقیف کے عوام کایہ عقیدہ تھاکہ اسے گرایانہیں  جاسکتا،مغیرہ رضی اللہ عنہ بن شعبہ اٹھے اور بڑا سا کلہاڑا پکڑااوراپنے ساتھیوں  سے کہااللہ کی قسم !ثقیف (کی جہالت کے باعث )میں  آپ لوگوں  کوخوب ہنساؤں  گا،اس کے بعدانہوں  نےلات پرگرزمارا اور لڑکھڑاتے ہوئے (قصداً) گر پڑے اور ایڑیاں  پٹکنے لگے ،اہل طائف میں  ایک شوربلندہوااوروہ آپس میں  کہنے لگے اللہ مغیرہ کوہلاک کرے ،اسے ہماری دیوی ربہ نے ہلاک کردیا ہے، اور انہیں  گرا ہوادیکھ کرخوب خوش ہوئے،

وَقَالُوا: مَنْ شَاءَ مِنْكُمْ فَلْیَقْرَبْ وَلْیَجْتَهِدْ عَلَى هَدْمِهَا، فَوَاللهِ لَا تُسْتَطَاعُ ، فَوَثَبَ الْمُغِیرَةُ بْنُ شُعْبَةَ فَقَالَ: قَبَّحَكُمُ اللهُ یَا مَعْشَرَ ثَقِیفٍ، إِنَّمَا هِیَ لَكَاعُ حِجَارَةٍ وَمَدَرٍ، فَاقْبَلُوا عَافِیَةَ اللهِ وَاعْبُدُوهُ، ثُمَّ ضَرَبَ الْبَابَ فَكَسَرَهُ، ثُمَّ عَلَا سُورَهَا وَعَلَا الرِّجَالُ مَعَهُ، فَمَا زَالُوا یَهْدِمُونَهَا حَجَرًا حَجَرًا حَتَّى سَوَّوْهَا بِالْأَرْضِ

اورکہنے لگے اب تم میں  سے جوچاہے آگے بڑھے اوراس دیوی کو منہدم کرنے کی کوشش کردیکھے، بخدا!یہ کام کسی کے بس کاروگ نہیں  ،ناممکن ہے محال ہے،ان کی یہ باتیں  سن کرمغیرہ کپڑے جھاڑتے ہوئے کھڑے ہوگئے اور فرمایااے ثقیف کے لوگو! اللہ تمہارامنہ کالا کرے یہ توپتھراورمٹی کاایک ٹکڑا ہے ،اس لیے اللہ کی پناہ میں  آؤاوراسی کی عبادت کروپھر دروازہ کو ٹھوکر مار توڑ دیا اور آدمیوں  سمیت اوپر چڑھ گئے اور ایک ایک پتھر گرا کر اسے منہدم کرکے زمین سے ملا دیا۔

مغازی واقدی میں  ان کے یہ الفاظ ذکرکیے گئے ہیں

فَقَالَ: یَا مَعْشَرَ ثَقِیفٍ، كَانَتْ الْعَرَبُ تَقُولُ: مَا مِنْ حَیّ مِنْ أَحْیَاءِ الْعَرَبِ أَعْقَلُ مِنْ ثَقِیفٍ، وَمَا مِنْ حَیّ مِنْ أَحْیَاءِ الْعَرَبِ أَحْمَقُ مِنْكُمْ!وَیْحَكُمْ، وَمَا اللّاتُ وَالْعُزّى، وَمَا الرّبّةُ؟ حَجَرٌ مِثْلُ هَذَا الْحَجَرِ، لَا یَدْرِی من عبده ومن لم یعبده! ویحكم، أتسع اللّاتُ أَوْ تُبْصِرُ أَوْ تَنْفَعُ أَوْ تَضُرّ؟

اے ثقیف کے لوگو!عرب کہا کرتے تھے کہ عرب کے قبیلوں  میں  بھی ثقیف سے بڑا عقلمند نہیں  اور اب تم سے زیادہ کوئی احمق اور بےوقوف بھی کوئی نہیں  ،تم پرافسوس!یہ لات اورعزی اورربہ کچھ نہیں  ہیں  ،یہ ایک پتھردوسرے پتھروں  کی طرح ،اوریہ نہیں  جانتاکہ کون اس کی عبادت کررہاہے اورکون نہیں  ،تم پرافسوس!کیالات سنتااوردیکھتاہے یاکیایہ نفع یانقصان پہنچانے پرقدرت رکھتاہے۔[22]

اس کے بعددروازے پرضرب لگائی اوراسے توڑدیا،پھرمعبدکی فصیل پرچڑھ گئے اوردوسرے لوگ بھی ان کے ساتھ اوپرچڑھ گئے اوراسے منہدم کرناشروع کردیا ، اور آخرکارسب نے مل کرنہ صرف عمارت کاایک ایک پتھرگرادیا،بلکہ اس کی بنیادیں  تک کھود ڈالیں  ،

وَجَعَلَ صَاحِبُ الْمِفْتَاحِ یَقُولُ: لَیَغْضَبَنَّ الْأَسَاسُ فَلْیَخْسِفَنَّ بِهِمْ ، فَلَمَّا سَمِعَ ذَلِكَ المغیرة قَالَ لخالد: دَعْنِی أَحْفِرْ أَسَاسَهَا، فَحَفَرَهُ حَتَّى أَخْرَجُوا تُرَابَهَا وَانْتَزَعُوا حُلِیَّهَا وَلِبَاسَهَا، فَبُهِتَتْ ثَقِیفٌ ، فَقَالَتْ عَجُوزٌ مِنْهُمْ:لِنَبْكِیَنَّ دُفَّاعْ ،أَسْلَمَها الرِضَاعْ ،لَمْ یُحْسِنُوا المَصَاعْ، وَأَقْبَلَ الْوَفْدُ حَتَّى دَخَلُوا عَلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بِحُلِیِّهَا وَكِسْوَتِهَا، فَقَسَمَهُ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مِنْ یَوْمِهِ، وَحَمِدَ اللهَ عَلَى نُصْرَةِ نَبِیِّهِ وَإِعْزَازِ دِینِهِ

معبدکے کلیدبردارنے کہااس کی بنیادضرورغضب ڈھائے گی اورانہیں  زمین میں  دھنسادے گی، جب مغیرہ رضی اللہ عنہ نے یہ سناتوخالد رضی اللہ عنہ بن ولیدسے کہنے لگے ٹھہروذرامیں  اس کی بنیادکھودڈالوں  ،انہوں  نے بنیادکھودکراس کی مٹی نکالی اورپھردیوی کےزیورات اورلباس نکال لئے،یہ دیکھ کرثقیف حران رہ گئے،اوران کی ایک بڑھیاکہنے لگی لوگوں  پرروکہ بزدلوں  نےاپنے بتوں  کودشمنوں  کےحوالے کردیااوران سے معرکہ آرانہ ہوئے،پھریہ وفدزیورات اورلباس وغیرہ لے کررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں  حاضرہوا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی وقت اسے تقسیم فرمادیا،اوراللہ کی حمدوثنابیان فرمائی کہ اس نے اپنے نبی کی نصرت فرمائی اوراپنے دین کواعزازوشرف بخشا۔[23]

فَلَمَّا أَسْلَمَ أَهْلُ الطَّائِفِ، سَأَلَ أبو ملیح رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَنْ یَقْضِیَ عَنْ أَبِیهِ عروة دَیْنًا كَانَ عَلَیْهِ مِنْ مَالِ الطَّاغِیَةِ ، فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ : نَعَمْ،فَقَالَ لَهُ قَارِبُ بْنُ الْأَسْوَدِ: وَعَنِ الأسود یَا رَسُولَ اللهِ فَاقْضِهِ وعروة والأسود أَخَوَانِ لِأَبٍ وَأُمٍّ ،فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ :إِنَّ الْأَسْوَدَ مَاتَ مُشْرِكًا،فَقَالَ قَارِبُ بْنُ الْأَسْوَدِ: یَا رَسُولَ اللهِ لَكِنْ تَصِلُ مُسْلِمًا ذَا قَرَابَةٍ یَعْنِی نَفْسَهُ وَإِنَّمَا الدَّیْنُ عَلَیَّ، وَأَنَا الَّذِی أُطْلَبُ بِهِ، فَأَمَرَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أبا سفیان أَنْ یَقْضِیَ دَیْنَ عروة والأسود مِنْ مَالِ الطَّاغِیَةِ، فَفَعَلَ

جب اہل طائف نے اسلام قبول کرلیاتو ابوملیح رضی اللہ عنہ نےعرض کیااے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم ! طاغیہ کے معبدسے ہمارے باپ عروہ کاقرضہ اداکردیاجائے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااچھی بات ہے،قارب بن اسودنے عرض کیااے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !آپ میرے باپ اسودکے قرض کوبھی اداکردیں  عروہ اور اسود دونوں  سگے بھائی تھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااسودتومشرک مراہے،قارب نے عرض کیااے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم !مسلمانوں  کے ساتھ سلوک کریں  یعنی میرے ساتھ کیونکہ اب تووہ قرض مجھ کواداکرناہے،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوسفیان رضی اللہ عنہ کوحکم دیاکہ لات کے بت خانے سے جومال برآمدہواول اس سے عروہ اوراسودکاقرضہ اداکردینا جوادا کردیا گیا ۔[24]

لات اورپھرمعبدکی بربادی کے بعداہل طائف کے دلوں  میں  توحیدکی بنیاد مستحکم ہوگئی اوروہ اسلام کے بازوئے شمشیر بن گئے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رحلت کے بعدجب ارتدادکی لہرچلی توبنوثقیف نے بھی اسی میں  بہنے کا عزم کیا،مگرعثمان رضی اللہ عنہ بن ابی العاص نے اپنی قوم کو مخاطب ہوکرکہااے ثقیف کے لوگو!تم سے قبائل سے آخرمیں  ایمان کی نعمت سے سرفرازہوئے ہو،تمہارے لئے مناسب نہیں  کہ سب سے پہلے اسلام سے پلٹ جاؤ،ان کایہ پرخلوص جملہ سن کران کی قوم اسلام پرثابت قدم رہی۔

عدی رضی اللہ عنہ بن حاتم کاقبول اسلام

ربیع اولا ل نوہجری کورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ بن ابی طالب کوبنوطے کی طرف روانہ فرمایاتھاجس میں  عدی بن حاتم شام کی طرف فرارہوگئے تھے ،مگرپھرنوہجری کے اختتام پرماہ رمضان میں  قبول اسلام کے لئے بارگاہ رسالت میں  حاضرہوئے،وہ اپنے اسلام قبول کرنے کاواقعہ یوں  بیان کرتے ہیں  ۔

وَأَمَّا عَدِیُّ بْنُ حَاتِمٍ فَكَانَ یَقُولُ، فِیمَا بَلَغَنِی: مَا مِنْ رَجُلٍ مِنْ الْعَرَبِ كَانَ أَشَدَّ كَرَاهِیَةً لِرَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ حِینَ سَمِعَ بِهِ مِنِّی، أَمَا أَنَا فَكُنْتُ امْرَأً شَرِیفًا، وَكُنْتُ نَصْرَانِیًّا، وَكُنْتُ أَسِیرُ فِی قَوْمِی بِالْمِرْبَاعِ ، فَكُنْتُ فِی نَفْسِی عَلَى دِینٍ، وَكُنْتُ مَلِكًا فِی قَوْمِی، لِمَا كَانَ یُصْنَعُ بِی ،فَلَمَّا سَمِعْتُ بِرَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ كَرِهْتُهُ،فَقُلْتُ لِغُلَامِ كَانَ لِی عَرَبِیٍّ، وَكَانَ رَاعِیًا لِإِبِلِی : لَا أَبَا لَكَ، أَعْدِدْ لِی مِنْ إبِلِی أَجَمَالًا ذُلُلًا سِمَانًا، فَاحْتَبِسْهَا قَرِیبًا مِنِّی، فَإِذَا سَمِعْتَ بِجَیْشِ لِمُحَمَّدِ قَدْ وَطِئَ هَذِهِ الْبِلَادَ فَآذِنِّی

عرب میں  مجھ سے زیادہ کوئی شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نفرت کرنے والانہ ہوگا،میں  ایک شریف نصرانی آدمی تھامیں  اپنی قوم کی آمدنی کا چوتھائی حصہ لیتا ہوں  اور اپنی قوم کابادشاہ تھااوران کے سارے انتظام میں  ہی کرتاتھا،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت مدینہ کے بعدہرطرف سے لوگ دائرہ اسلام میں  داخل ہونے لگے مگرمجھے اپنے دین کی صداقت پرپورایقین تھا،ادھررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی فتوحات کادائرہ روزبروزوسیع ہونے لگااب میں  اپنی حکومت اوردین کے بارے میں  خطرہ محسوس کرنے لگا،اسی زمانے میں  ایک شخص مدینہ سے آیااوراس نے مجھے بتایاکہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے بارے میں  فرمایاہے کہ کسی دن بنوطے کے سردارعدی کاہاتھ میرے ہاتھ میں  ہوگا،جب میں  نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں  سناتو میں  پریشان ہوگیا،میراایک عربی غلام تھاجومیرے اونٹ چرایاکرتاتھا،میں  نے اسے حکم دیاکہ تو میرے اونٹوں  میں  سے چندموٹے تازے ،سدھائے ہوئے ،تیزرفتاراونٹ ہروقت تیاررکھو،اورجب تو محمد( صلی اللہ علیہ وسلم )کےلشکرکے اس طرف آنے کی خبرسنے توفوراً ًمجھے اطلاع کردینا،

فَفَعَلَ، ثُمَّ إنَّهُ أَتَانِی ذَاتَ غَدَاةٍ، فَقَالَ: یَا عَدِیُّ، مَا كُنْتَ صَانِعًا إذَا غَشِیَتْكَ خَیْلُ مُحَمَّدٍ، فَاصْنَعْهُ الْآنَ، فَإِنِّی قَدْ رَأَیْتُ رَایَاتٍ، فَسَأَلْتُ عَنْهَا، فَقَالُوا: هَذِهِ جُیُوشُ مُحَمَّدٍ،قَالَ: فَقُلْتُ: فَقَرِّبْ إلَیَّ أَجْمَالِی، فَقَرَّبَهَا، فَاحْتَمَلْتُ بِأَهْلِی وَوَلَدِی، ثُمَّ قلت: ألحق بأهلى دِینِی مِنْ النَّصَارَى بِالشَّامِ فَسَلَكْتُ الْجَوْشِیَّةَ ، وَیُقَالُ: الْحَوْشِیَّةُ فِیمَا قَالَ ابْنُ هِشَامٍ وَخَلَّفْتُ بِنْتًا لِحَاتِمِ فِی الْحَاضِرِ ، فَلَمَّا قَدِمْتُ الشَّامَ أَقَمْتُ بِهَا

اس نے میری ہدایت کے مطابق عمل کیا،اورایک دن وہ غلام دوڑتاہوامیرے پاس آیااورمجھے بتلایا کہ اے عدی!میں  نے لہراتے ہوئے جھنڈے دیکھے ہیں  ، محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم )!کے لشکرکے آنے پرجوکچھ تم نے کرناہے وہ آج کرلو،میں  نے پوچھایہ جھنڈے کیسے ہیں  ،تولوگوں  نے بتایایہ محمد( صلی اللہ علیہ وسلم )کے لشکرکے جھنڈے ہیں  عدی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں  میں  نے غلام سے کہاتوجلدجاکراونٹوں  کولے آ،غلام اونٹوں  کو لے آیااورمیں  اپنے اہل وعیال کوان پرسوارکرکے اپنے ہم مذہب عیسائیوں  کے پاس ملک شام روانہ ہوافقط ایک میری بہن حاتم طائی کی بیٹی مجھ سے بچھڑگئی اس کومیں  اس افراتفری مچی میں  اپنے ساتھ نہ لاسکااورمیں  نے ملک شام میں  جوشیہ بستی میں  سکونت اختیارکرلی،

 وَتُخَالِفُنِی خَیْلٌ لِرَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَتُصِیبُ ابْنَةَ حَاتِمٍ، فِیمَنْ أَصَابَتْ ، فَقُدِمَ بِهَا عَلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فِی سَبَایَا مِنْ طیِّئ، وَقَدْ بَلَغَ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ هَرَبِی إلَى الشَّامِ، قَالَ: فَجُعِلَتْ بِنْتُ حَاتِمٍ فِی حَظِیرَةٍ بِبَابِ الْمَسْجِدِ، كَانَتْ السَّبَایَا یُحْبَسْنَ فِیهَا

میرے بعد وہاں  محمد( صلی اللہ علیہ وسلم ) کالشکر پہنچا اور دوسرے لوگوں  کے ساتھ حاتم طائی کی بیٹی سفانہ کوبھی گرفتارکرلیااورپھرقیدیوں  کومدینہ میں  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں  پیش کیا،اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کومیرے شام کی طرف فرار ہونے کی اطلاع ملی، اوران سب قیدیوں  کوایک خیمہ میں  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مسجدکے دروازے کے آگے رکھاگیا،انہی میں  میری بہن بھی تھی اوروہ بڑی ہمت اورجرات اورعقل مندعورت تھی،

فَمَرَّ بِهَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَقَامَتْ إلَیْهِ، وَكَانَتْ امْرَأَةً جَزْلَةً ، قَالَتْ: یَا رَسُولَ اللهِ، نَأَى الْوَافِدُ، وَانْقَطَعَ الْوَلَدُ، وَأَنَا عَجُوزٌ كَبِیرَةٌ، مَا بِی مِنْ خِدْمَةٍ، فَمُنَّ عَلَیَّ، مَنَّ اللهُ عَلَیْكَ،قَالَ:مَنْ وَافِدُكِ؟قَالَتْ: عَدِیُّ بْنُ حَاتِمٍ،قَالَ:الَّذِی فَرَّ مِنَ اللهِ وَرَسُولِهِ؟قَالَتْ: ثُمَّ مَضَى رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَتَرَكَنِی

ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب اس خیمہ کے پاس سے گزرے تووہ کھڑی ہوگئی، اوراس نے عرض کیااے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم !میراباپ مرچکاہےمیرانگران بھاگ کردوسرے ملک چلاگیاہے،میں  بہت بوڑھی ہو چکی ہوں  اورکسی خدمت کے قابل نہیں  ہوں  آپ مجھ پراحسان فرمائیں  اللہ آپ پراحسان فرمائے گا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھاتیرانگران کون تھا؟وہ بولی عدی بن حاتم میں  اس کی بہن ہوں  ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاوہی عدی جواللہ اوراس کے رسول سے بھاگ گیاہے،میری بہن سفانہ نے اثبات میں  جواب دیا،مگررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے وہاں  چھوڑکرآگے چلے گئے،

حَتَّى إذَا كَانَ مِنْ الْغَدِ مَرَّ بِی، فَقُلْتُ لَهُ مِثْلَ ذَلِكَ ، وَقَالَ لِی مِثْلَ مَا قَالَ بِالْأَمْسِ ،قَالَتْ: حَتَّى إذَا كَانَ بَعْدَ الْغَدِ مَرَّ بِی وَقَدْ یَئِسْتُ مِنْهُ، فَأَشَارَ إلَیَّ رَجُلٌ مِنْ خَلْفِهِ أَنْ قُوْمِی فَكَلِّمِیهِ،قَالَتْ: فَقُمْتُ إلَیْهِ، فَقُلْتُ: یَا رَسُولَ اللهِ هَلَكَ الْوَالِدُ، وَغَابَ الْوَافِدُ، فَامْنُنْ عَلَیَّ مَنَّ اللهُ عَلَیْكَ،فَقَالَ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: قَدْ فَعَلْتُ، فَلَا تَعْجَلِی بِخُرُوجِ حَتَّى تَجِدِی مِنْ قَوْمِكَ مَنْ یَكُونُ لَكَ ثِقَةً، حَتَّى یُبَلِّغُكَ إلَى بِلَادِكَ ثُمَّ آذِنِینِی

دوسرے دن آئے تومیں  نے وہی بات کہی جوپہلے دن کہی تھی، اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی مجھے وہ باتیں  کیں  جوکل کہی تھیں  ،تیسرے دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم پھرتشریف لائے لیکن مایوس ہونے کی وجہ سے میں  خاموش رہی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ نہ کہا، آپ کے پیچھے آنے والے ایک شخص نے اشارہ کیاکہ کھڑی ہوکرآپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بات کروں  ،چنانچہ میں  نے کھڑے ہوکرکہااے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم !میراباپ مرچکاہے،میرانگران بھاگ گیا ہے مجھ پراحسان فرمائیں  اللہ آپ پراحسان فرمائے گا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایابہت اچھا،جب تک باوثوق آدمی نہ ملے جوتمہیں  تمہاری قوم میں  پہنچا دے یہاں  سے نہ جانا،اور جاتے وقت مجھے اطلاع دے کرجانا،

فَسَأَلْتُ عَنْ الرَّجُلِ الَّذِی أَشَارَ إلَیَّ أَنْ أُكَلِّمَهُ، فَقِیلَ: عَلِیُّ بْنُ أَبِی طَالِبٍ رِضْوَانُ اللهِ عَلَیْهِ،وَأَقَمْتُ حَتَّى قَدِمَ رَكْبٌ مِنْ بَلِیَّ أَوْ قُضَاعَةَ، قَالَتْ: وَإِنَّمَا أُرِیدُ أَنْ آتِیَ أَخِی بِالشَّامِ، قَالَتْ: فَجِئْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَقُلْتُ: یَا رَسُولَ اللهِ، قَدْ قَدِمَ رَهْطٌ مِنْ قَوْمِی، لِی فِیهِمْ ثِقَةٌ وَبَلَاغٌ،قَالَتْ: فَكَسَانِی رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، وَحَمَلَنِی، وَأَعْطَانِی نَفَقَةً، فَخَرَجْتُ مَعَهُمْ حَتَّى قَدِمْتُ الشَّامَ

پھرمیں  نے اس آدمی کے متعلق پوچھاجس نے آپ سے بات کرنے کے متعلق اشارہ کیاتھاتولوگوں  نے کہاوہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ بن ابی طالب ہیں  ،کہتی ہیں  میں  وہیں  تھی یہاں  تک کہ بنیقضاعہ کے چندلوگ آئےجوشام جارہے تھے، اورمیں  بھی اپنے بھائی عدی کے پاس شام میں  جاناچاہتی تھی،میں  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں  حاضرہوئی اورعرض کیااے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !میری قوم کے چندمعتبرلوگ آئے ہیں  جن پرمجھے بھروسہ ہے، آپ مجھے جانے کی اجازت فرمائیں  ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ازراہ لطف وکرم مجھے پہننے کے لئے کپڑے،سواری کے لئے اونٹ اورخرچ کرنے کے لئے کچھ نقدی عطافرمائی، میں  ان کے ساتھ روانہ ہوگئی یہاں  تک کہ میں  شام پہنچ گئی،سفانہ رضی اللہ عنہ کوعلم تھاکہ عدی کاقیام کس جگہ ہے ،مدینہ منورہ سے وہ سیدھی جوشیہ پہنچیں  ،

قَالَ عدىّ: فو الله إنِّی لَقَاعِدٌ فِی أَهْلِی، إذْ نَظَرْتُ إلَى ظَعِینَةٍ تَصُوبُ إلَیَّ تُؤْمِنَاقَالَ: فَقُلْتُ ابْنَةُ حَاتِمٍ، قَالَ: فَإِذَا هِیَ هِیَ،فَلَمَّا وَقَفَتْ عَلَیَّ انْسَحَلَتْ تَقُولُ: الْقَاطِعُ الظَّالِمُ، احْتَمَلْتَ بِأَهْلِكَ وَوَلَدِكَ، وَتَرَكْتُ بَقِیَّةَ وَالِدِكَ عَوْرَتَكَ،قَالَ: قُلْتُ: أَیْ أُخَیَّةُ، لَا تَقُولِی إِلَّا خیرا، فو الله مَا لِی مِنْ عُذْرٍ، لَقَدْ صَنَعْتُ مَا ذَكَرْتُ

عدی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں  ایک روزمیں  نے دیکھاکہ اونٹ پرایک عورت سوار چلی آرہی ہےمجھے شک گزراکہ یہ میری بہن ہے لیکن پھرخیال آیاکہ اسے تومسلمان اسیرکرکے لے گئے ہیں  وہ یہاں  کیسے آسکتی ہے،معاًمحمل کاپردہ اٹھااوریہ الفاظ میرے کانوں  میں  پڑےظالم،قاطع رحم،تف ہے تجھ پر!اپنے اہل وعیال کولے آئے اورمجھے وہاں  تنہا چھوڑ دیا یہ تونے کیاحرکت کی، عدی کہتے ہیں  بہن کی باتیں  سن کرمیں  سخت شرمندہ ہوااورکہااے میری بہن تمہیں  مجھے ایسانہیں  کہناچاہیے ،میں  اس افراتفری میں  بالکل مجبور ہوگیاتھاورنہ تمہیں  ضروراپنے ساتھ یہاں  لے کرآتا،

قَالَ: ثُمَّ نَزَلَتْ فَأَقَامَتْ عِنْدِی، فَقُلْتُ لَهَا: وَكَانَتْ امْرَأَةً حَازِمَةً، مَاذَا تَرَیْنَ فِی أَمْرِ هَذَا الرَّجُلِ؟قَالَتْ: أَرَى وَاَللَّهِ أَنْ تَلْحَقَ بِهِ سَرِیعًا، فَإِنْ یَكُنْ الرَّجُلُ نَبِیًّا فَلِلسَّابِقِ إلَیْهِ فَضْلُهُ، وَإِنْ یَكُنْ مَلِكًا فَلَنْ تَذِلَّ فِی عِزِّ الْیَمَنِ، وَأَنْتَ أَنْتَ،قُلْتُ: وَاَللَّهِ إنَّ هَذَا الرَّأْیُ، قَالَ عدی: فَأَتَیْتُهُ وَهُوَ جَالِسٌ فِی الْمَسْجِدِ، فَقَالَ الْقَوْمُ: هَذَا عَدِیُّ بْنُ حَاتِمٍ ،وَجِئْتُ بِغَیْرِ أَمَانٍ وَلَا كِتَابٍ

وہ خاموش ہوگئی ،پھرسواری سے اتر کر کچھ دیرآرام کرچکی تومیں  نے پوچھاتم نے اس شخص کوکیسے پایا؟ میری بہن کہنے لگی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے ساتھ وہ سلوک فرمایاہے جوتیراباپ بھی نہیں  کرسکتا تھا ، عدی نے بہن سے پوچھاتمہاری کیارائے ہیں  ؟سفانہ نے کہااللہ کی قسم !میری رائے ہے کہ تم جلدازجلدجاکران سے ملو،اگروہ واقعی نبی ہیں  توان کی خدمت میں  پہلے حاضرہونے والے کوفضیلت حاصل ہوگی، اور اگر وہ بادشاہ ہیں  توآپ بھی ذی رتبہ خاندانی آدمی ہیں  ،ان کی مصاحبت میں  باعزت منصب پرفائزرہ سکیں  گے اورتوتوہی ہے ،عدی رضی اللہ عنہ نے اپنی بہن سے کہااللہ کی قسم! یہ بہترین رائے ہے،عدی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں  بہن کے اصرار پرمیں  بھی آپ کی خدمت میں  حاضرہوا،اس وقت آپ مسجدمیں  تشریف فرماتھے، لوگوں  نے مجھے دیکھ کرکہایہ عدی بن حاتم آرہاہے،میں  کسی کی چٹھی یاامان لے کرنہیں  آیاتھا،

فَقَامَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَانْطَلَقَ بِی إِلَى بَیته، فو الله إنَّهُ لَعَامِدٌ بِی إلَیْهِ، إذْ لَقِیَتْهُ امْرَأَةٌ ضَعِیفَةٌ كَبِیرَةٌ، فَاسْتَرْقَفْتُهُ، فَوَقَفَ لَهَا طَوِیلًا تُكَلِّمُهُ فِی حَاجَتِهَا،قَالَ: قُلْتُ فِی نَفْسِی: وَاَللَّهِ مَا هَذَا بِمَلِكِ،قَالَ: ثُمَّ مَضَى بِی رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى إذَا دَخَلَ بِی بَیْتَهُ، تَنَاوَلَ وِسَادَةً مِنْ أَدَمٍ مَحْشُوَّةٍ لِیفًا، فَقَذَفَهَا إلَیَّ، فَقَالَ: اجْلِسْ عَلَى هَذِهِ، قَالَ: قُلْتُ: بَلْ أَنْتَ فَاجْلِسْ عَلَیْهَا،فَقَالَ: بَلْ أَنْتَ، فَجَلَسْتُ عَلَیْهَا وَجَلَسَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بِالْأَرْضِ،قَالَ: قُلْتُ فِی نَفْسِی: وَاَللَّهِ مَا هَذَا بِأَمْرِ مَلِكٍ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوگئے اورمجھے ساتھ لے کراپنے مکان کی طرف روانہ ہوئے ، راستہ میں  ایک ضعیف عورت ملی اوراس نےآپ صلی اللہ علیہ وسلم کوروک کردیرتک اپنی حاجت عرض کی ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی خاطرکھڑے رہے،میں  نے اپنے دل میں  کہااللہ کی قسم!یہ بادشاہ نہیں  ہے ،بادشاہوں  کے ایسے اخلاق نہیں  ہوتے،پھررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے لے کراپنے گھرمیں  داخل ہوئے اورایک موٹاگدااٹھاکرمیری طرف ڈال دیااورفرمایااس پربیٹھو، میں  نے عرض کیاآپ اس پرتشریف رکھیں  ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایانہیں  تم ہی اس پربیٹھومیں  اس گدے پربیٹھ گیااوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سامنے زمین پربیٹھ گئے،میں  نے اپنے دل میں  کہایہ بات ہرگزبادشاہوں  کی سی نہیں  ہے،

ثُمَّ قَالَ: إیِهِ یَا عَدِیَّ بْنَ حَاتِمٍ! أَلَمْ تَكُ رَكُوسِیًّا ؟قَالَ: قُلْتُ: بلَى،(قَالَ) : أولم تَكُنْ تَسِیرُ فِی قَوْمِكَ بِالْمِرْبَاعِ؟قَالَ: قُلْتُ: بَلَى،قَالَ: فَإِنَّ ذَلِكَ لَمْ یَكُنْ یَحِلُّ لَكَ فِی دِینِكَ، قَالَ قُلْتُ: أَجَلْ وَاَللَّهِ،وَقَالَ: وَعَرَفْتُ أَنَّهُ نَبِیٌّ مُرْسَلٌ، یَعْلَمُ مَا یُجْهَلُ،ثُمَّ قَالَ:لَعَلَّكَ یَا عَدِیُّ إنَّمَا یَمْنَعُكَ مِنْ دُخُولٍ فِی هَذَا الدِّینِ مَا تَرَى من حَاجتهم، فو الله لَیُوشِكَنَّ الْمَالُ أَنْ یَفِیضَ فِیهِمْ حَتَّى لَا یُوجد من یَأْخُذهُ،وَلَعَلَّكَ إنَّمَا یَمْنَعُكَ مِنْ دُخُولٍ فِیهِ مَا تَرَى مِنْ كَثْرَةِ عَدُوِّهِمْ وَقلة عَددهمْ، فو الله لِیُوشِكَنَّ أَنْ تَسْمَعَ بِالْمَرْأَةِ تَخْرَجُ مِنْ الْقَادِسِیَّةِ عَلَى بَعِیرِهَا (حَتَّى) تَزُورَ هَذَا الْبَیْتَ، لَا تَخَافُ ، وَلَعَلَّكَ إنَّمَا یَمْنَعُكَ مِنْ دُخُولٍ فِیهِ أَنَّكَ تَرَى أَنَّ الْمُلْكَ وَالسُّلْطَانَ فِی غَیْرِهِمْ،وَاَیْمُ اللهِ لَیُوشِكَنَّ أَنَّ تَسْمَعَ بِالْقُصُورِ الْبِیضِ مِنْ أَرْضِ بَابِلَ قَدْ فُتِحَتْ عَلَیْهِمْ، قَالَ: فَأَسْلَمْتُ

پھرفرمایااے عدی !بتاؤتم رکوسی(نصاریٰ کاایک فرقہ) نہیں  تھے؟میں  نے عرض کیاکیوں  نہیں  ،فرمایاکیاتم اپنی قوم سے آمدنی کا چوتھا حصہ نہیں  لیتے تھے؟میں  نے کہاہاں  میں  اپنی قوم سے آمدنی کا چوتھاحصہ لیتاتھا،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاحالانکہ یہ تمہارے مذہب میں  حرام تھا، میں  نے کہااللہ کی قسم!آپ درست فرماتے ہیں  ،میں  نے جان لیاہے کہ آپ واقعی اللہ کے رسول ہیں  ، آپ وہ باتیں  جانتے ہیں  جن سے دوسرے ناواقف ہیں  ، پھر فرمایا اے عدی!شایدتم دین اسلام کو اس لئے قبول نہیں  کرتے کہ اس کے ماننے والے محتاج ہیں  ، اللہ کی قسم!عنقریب ان کواتنامال ملے گاکہ ان میں  اس کولینے والاکوئی نہیں  رہے گا،شایدتم دین اسلام کواس لئے قبول نہیں  کرتے کہ اس کے ماننے والے تھوڑے اور اس کے دشمن زیادہ ہیں  ،اللہ کی قسم!جلدوہ وقت آنے والاہے ،تم سنوگے کہ ایک عورت تن تنہاقادسیہ سے اونٹ پر سوار ہوکر نکلے گی اوربیت اللہ کاحج کرےگی ،اللہ کے سوا اس کوکوئی خوف نہیں  ہوگا،شایدتم دین اسلام میں  اس لئے داخل نہیں  ہوتے کہ حکومت اورسلطنت اس کے دشمنوں  کے ہاتھ میں  ہے؟اللہ کی قسم!تم جلدسن لوگے کہ بابل کے سفید محل فتح ہوکراہل اسلام کے قبضہ میں  آگئے ہیں  ،عدی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں  کہ میں  آپ کی تقریرسن کرحلقہ بگوش اسلام ہوگیا۔ [25]

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوان کے قبول اسلام پربہت خوشی ہوئی اورآپ نے انہیں  اپنی طرف سے قبیلہ طے کی امارت پرممتازفرمایا،بعض روایات کے مطابق عدی رضی اللہ عنہ بن حاتم کے قبول اسلام کاواقعہ ۱۰ہجری کاہے۔

ابن اسحاق کی دوسری روایت میں  ہے،جب میں  آپ کے سامنے بیٹھ گیاآپ نے اللہ کی حمدوثنابیان فرمائی

فَقَالَ لَهُ: یَا عَدِیُّ بْنَ حَاتِمٍ مَا أَفَرَّكَ أَنْ یُقَالَ: لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ؟فَهَلْ مِنْ إِلَهٍ إِلَّا اللهُ؟ مَا أَفَرَّكَ أَنْ یُقَالَ: اللهُ أَكْبَرُ؟ فَهَلْ شَیْءٌ هُوَ أَكْبَرُ مِنَ اللهِ عَزَّ وَجَلَّ؟ قَالَ: فَأَسْلَمْتُ، فَرَأَیْتُ وَجْهَهُ اسْتَبْشَرَ، وَقَالَ:إِنَّ الْمَغْضُوبَ عَلَیْهِمُ الْیَهُودُ، وإنَّ الضَّالِّینَ النَّصَارَى، قَالَ: فَقُلْتُ: إِنِّی حَنِیفٌ مُسْلِمٌ،قَالَ: فَرَأَیْتُ وَجْهَهُ یَنْبَسِطُ فَرَحًا،قَالَ: ثُمَّ أَمَرَنِی فَأُنْزِلْتُ عِنْدَ رَجُلٍ مِنَ الْأَنْصَارِ وَجَعَلْتُ أَغْشَاهُ، آتِیهِ طَرَفَیِ النَّهَارِ

اورفرمایاتم کس چیزسے بھاگ رہے ہو؟کیالاالٰہ الااللہ کا اقرار کرنے سے بھاگ رہے ہو ؟کیا تمہارے علم میں  اللہ کے سواکوئی اور معبود ہے؟پھرفرمایاکیاتم اللہ اکبرکہنے سے بھاگ رہے ؟ کیاتم اللہ کے سواکسی اور کو بڑا سمجھتے ہو ؟ تو عدی نے اسلام کا اعتراف کیا، اور عدی رضی اللہ عنہ کے اسلام پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ خوشی سے پھولا نہ سمایا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا!یہوداللہ کے غضب کے مستحق ہیں  اورعیسائی گمراہ ہیں  ،میں  نے عرض کی میں  ان دونوں  گروہوں  سے الگ ہوکرمسلمان ہوں  ، میں  نے دیکھاکہ یہ سن کرآپ کاچہرہ خوشی سے کھل گیا،عدی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں  پھرآپ نے مجھے ایک انصاری کے گھر رہنے کاحکم دیا میں  صبح وشام دووقت آپ کی خدمت میں  حاضرہوتاتھا۔[26]

فَقَالَ:یَا عَدِیُّ بْنَ حَاتِمٍ، أَسْلِمْ تَسْلَمْ،فَقُلْتُ: إِنِّی عَلَى دِینٍ، قَالَ:أَنَا أَعْلَمُ بِدِینِكَ مِنْكَ،قُلْتُ: أَنْتَ أَعْلَمُ بِدِینِی مِنِّی؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ:أَلَسْتَ رَكُوسِیًّا؟قُلْتُ: بَلَى،قَالَ:أَوَلَسْتَ تَرْأَسُ قَوْمَكَ؟ فَقُلْتُ: بَلَى،قَالَ:أَوَلَسْتَ تَأْخُذُ الْمِرْبَاعَ؟قُلْتُ: بَلَى،قَالَ:ذَاكَ لَا یَحِلُّ لَكَ فِی دِینِكِ، قَالَ: فَلَمَّا قَالَهَا، تَوَاضَعَتْ مِنِّی هُنَیَّةٌ، فَذَكَرَ الْحَدِیثَ

ایک روایت ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاعدی بن حاتم مسلمان ہوجاؤسلامت سے رہوگے،میں  نے کہا میں  توپہلے ہی دین دار ہوں  ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں  تیرے دین کوتجھ سے زیادہ جانتاہوں  ،میں  نے عرض کیاآپ صلی اللہ علیہ وسلم میرے دین کومجھ سے زیادہ جانتے ہیں  ؟فرمایاہاں  ،کیاتم کورسی نہیں  تھے؟میں  نے عرض کیا ہاں  ،فرمایا کیا تم اپنی کے بادشاہ نہ تھے، میں  نے عرض کیاہاں  ،فرمایاکیاتم اپنی قوم کی آمدنی کاچوتھاحصہ نہیں  لیتے تھے؟میں  نے کہاہاں  میں  اپنی قوم سے آمدنی کاچوتھاحصہ لیتاتھا،فرمایاتیرے مذہب میں  تیرے لئے یہ جائزنہیں  ہے، عدی کہتے ہیں  یہ بات سن کرمجھے اپنا سر نیچا کرنا پڑا،اس کے بعدامام احمدنے وہی ذکرکیاہے جوپہلے بیان ہواہے [27]

عدی رضی اللہ عنہ کی سحری کے وقت میں  غلط فہمی:

عَنْ عَدِیِّ بْنِ حَاتِمٍ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: لَمَّا نَزَلَتْ:وَكُلُوْا وَاشْرَبُوْا حَتّٰى یَتَبَیَّنَ لَكُمُ الْخَیْطُ الْاَبْیَضُ مِنَ الْخَیْطِ الْاَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ[28]۰۱۸۷عَمَدْتُ إِلَى عِقَالٍ أَسْوَدَ، وَإِلَى عِقَالٍ أَبْیَضَ، فَجَعَلْتُهُمَا تَحْتَ وِسَادَتِی، فَجَعَلْتُ أَنْظُرُ فِی اللیْلِ، فَلاَ یَسْتَبِینُ لِی ،قَالَ لَهُ عَدِیُّ بْنُ حَاتِمٍ: یَا رَسُولَ اللهِ، إِنِّی أَجْعَلُ تَحْتَ وِسَادَتِی عِقَالَیْنِ: عِقَالًا أَبْیَضَ وَعِقَالًا أَسْوَدَ، أَعْرِفُ اللیْلَ مِنَ النَّهَارِ،فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:إِنَّ وِسَادَتَكَ لَعَرِیضٌ، إِنَّمَا هُوَ سَوَادُ اللیْلِ، وَبَیَاضُ النَّهَارِ

عدی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں  جب قرآن مجیدکی یہ آیت ترجمہ: نیز راتوں  کو کھاؤ پیو یہاں  تک کہ تم کو سیاہیِ شب کی دھاری سے سپیدئہ صبح کی دھاری نمایاں  نظر آ جائے ۔ نازل ہوئی تومیں  نے ایک سیاہ اورایک سفیدڈورالیااوران کواپنے تکیہ کے نیچے رکھ لیاپھررات بھرانہیں  بارباردیکھتا رہا،لیکن ان میں  کوئی امتیازنہ کرسکایہاں  تک کہ صبح ہوگئی ،جب صبح ہوئی تومیں  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں  حاضرہوا اورعرض کیااے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !میں  اپنے تکیہ کے نیچے دورسیاں  رکھتاہوں  ایک سفیداورایک سیاہ اوراس سے میں  رات اوردن کوپہچان لیتاہوں  ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بطورمذاح کےفرمایاپھرتوتمہاراتکیہ بہت ہی وسیع وعریض ہے(کہ صبح کاسفیدخط اورسیاہ خط اس کے نیچے آگیاتھا)ڈوروں  سے رات کی سیاہی اوردن کی سفیدی مرادہے[29]

خط کشیدہ الفاظ صحیح مسلم میں  ہیں  ۔

عرب میں  مکمل امن وامان کی پشین گوئی :

 عَنْ عَدِیِّ بْنِ حَاتِمٍ، قَالَ: بَیْنَا أَنَا عِنْدَ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ إِذْ أَتَاهُ رَجُلٌ فَشَكَا إِلَیْهِ الفَاقَةَ، ثُمَّ أَتَاهُ آخَرُ فَشَكَا إِلَیْهِ قَطْعَ السَّبِیلِ، فَقَالَ:یَا عَدِیُّ، هَلْ رَأَیْتَ الحِیرَةَ؟ قُلْتُ: لَمْ أَرَهَا، وَقَدْ أُنْبِئْتُ عَنْهَا، قَالَ فَإِنْ طَالَتْ بِكَ حَیَاةٌ، لَتَرَیَنَّ الظَّعِینَةَ تَرْتَحِلُ مِنَ الحِیرَةِ، حَتَّى تَطُوفَ بِالكَعْبَةِ لاَ تَخَافُ أَحَدًا إِلَّا اللَّهَ،

عدی رضی اللہ عنہ سے مروی ہےمیں  نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں  بیٹھاتھاکہ ایک شخص آیااوراس نے فقروفاقہ کی شکایت کی ،پھرایک اورشخص آیااوراس نے راستوں  کی بدامنی کی شکایت کی،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااےعدی رضی اللہ عنہ !کیاتم نے حیرہ (کوفہ کے پاس ایک بستی کو)دیکھاہے؟میں  نے کہادیکھا تونہیں  البتہ نام سناہے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااگرتمہاری زندگی کچھ اورلمبی ہوئی توتم دیکھو گے کہ ہودج میں  ایک عورت اکیلی حیرہ سے سفرکرے گی اور(مکہ مکرمہ پہنچ کر) بیت اللہ کاطواف کرے گی اور(راستہ میں  )اسے اللہ کے سواکسی کاڈروخوف نہ ہوگا،

قُلْتُ فِیمَا بَیْنِی وَبَیْنَ نَفْسِی فَأَیْنَ دُعَّارُ طَیِّئٍ الَّذِینَ قَدْ سَعَّرُوا البِلاَدَ ، وَلَئِنْ طَالَتْ بِكَ حَیَاةٌ لَتُفْتَحَنَّ كُنُوزُ كِسْرَى، قُلْتُ: كِسْرَى بْنِ هُرْمُزَ؟ قَالَ: كِسْرَى بْنِ هُرْمُزَ، وَلَئِنْ طَالَتْ بِكَ حَیَاةٌ، لَتَرَیَنَّ الرَّجُلَ یُخْرِجُ مِلْءَ كَفِّهِ مِنْ ذَهَبٍ أَوْ فِضَّةٍ، یَطْلُبُ مَنْ یَقْبَلُهُ مِنْهُ فَلاَ یَجِدُ أَحَدًا یَقْبَلُهُ مِنْهُ،

میں  نے اپنے (حیرت سے)دل میں  کہا پھرقبیلے طے کے ان ڈاکوؤں  کاکیاہوگا،جنہوں  نے شہروں  کوتباہ کردیا،اورانہوں  نے فسادکی آگ سلگارکھی ہے،اوراگرتم کچھ دنوں  اورزندہ رہے توکسریٰ کے خزانے فتح کروگے،میں  نے تعجب سے پوچھاکیاکسریٰ بن ہومز(کے خزانے)،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا(ہاں  )کسریٰ بن ہومز(کے خزانے)،اوراگرتمہاری زندگی درا ز ہوئی توتم دیکھ لو گے کہ ایک آدمی ہاتھ میں  سوناچاندی بھرکر نکلے گا،اورایسے شخص کوتلاش کرے گا(جواس کی زکوٰة) کوقبول کرلے مگراس مال کوقبول کرنے والاکوئی شخص نہ ملے گا،

وَلَیَلْقَیَنَّ اللَّهَ أَحَدُكُمْ یَوْمَ یَلْقَاهُ، وَلَیْسَ بَیْنَهُ وَبَیْنَهُ تَرْجُمَانٌ یُتَرْجِمُ لَهُ، فَلَیَقُولَنَّ لَهُ: أَلَمْ أَبْعَثْ إِلَیْكَ رَسُولًا فَیُبَلِّغَكَ؟ فَیَقُولُ: بَلَى، فَیَقُولُ: أَلَمْ أُعْطِكَ مَالًا وَأُفْضِلْ عَلَیْكَ؟ فَیَقُولُ: بَلَى، فَیَنْظُرُ عَنْ یَمِینِهِ فَلاَ یَرَى إِلَّا جَهَنَّمَ، وَیَنْظُرُ عَنْ یَسَارِهِ فَلاَ یَرَى إِلَّا جَهَنَّمَ

پھر فرمایااللہ تعالیٰ سے ملاقات کاجودن مقررہے، اس وقت تم میں  سے ہرکوئی اللہ سے اس حال میں  ملاقات کرے گاکہ درمیان میں  کوئی ترجمان نہ ہوگا،جواس کی گفتگوکی ترجمانی کرے(بلکہ پروردگارسے بلاواسطہ باتیں  کرے گا)،اللہ تعالیٰ فرمائے گا کیا میں  نے تیرے پاس رسول نہیں  بھیجے تھے جنہوں  نے تم تک میراپیغام پہنچادیاہو؟وہ عرض کرے گابیشک بھیجے تھے،اللہ تعالیٰ دریافت فرمائے گاکیامیں  نے تمہیں  مال اوراولادنہیں  دیا تھا؟کیامیں  نے ان کے ذریعہ تمہیں  فضیلت نہیں  دی تھی،وہ عرض کرے گابیشک تونے دیاتھا،پھروہ شخص اپنی داہنی طرف دیکھے گاتوسوائے جہنم کے کچھ نظرنہیں  آئے گا،پھروہ اپنی بائیں  طرف دیکھے گاتوسوائے جہنم کے کچھ نظرنہیں  آئے گا،

قَالَ عَدِیٌّ: سَمِعْتُ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، یَقُولُ:اتَّقُوا النَّارَ وَلَوْ بِشِقَّةِ تَمْرَةٍ فَمَنْ لَمْ یَجِدْ شِقَّةَ تَمْرَةٍ فَبِكَلِمَةٍ طَیِّبَةٍقَالَ عَدِیٌّ: فَرَأَیْتُ الظَّعِینَةَ تَرْتَحِلُ مِنَ الحِیرَةِ حَتَّى تَطُوفَ بِالكَعْبَةِ لاَ تَخَافُ إِلَّا اللَّهَ ، وَكُنْتُ فِیمَنِ افْتَتَحَ كُنُوزَ كِسْرَى بْنِ هُرْمُزَ وَلَئِنْ طَالَتْ بِكُمْ حَیَاةٌ، لَتَرَوُنَّ مَا قَالَ النَّبِیُّ أَبُو القَاسِمِ: صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یُخْرِجُ مِلْءَ كَفِّهِ

عدی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں  میں  نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کوفرماتے ہوئے سناآپ صلی اللہ علیہ وسلم فرمارہے تھے جہنم سے ڈروآگرچہ کھجورکاایک ٹکڑاہی دے کرسہی،اگرکسی کوکھجورکاٹکڑابھی میسرنہ آسکےتو(کسی سے)ایک اچھاکلمہ ہی کہہ دے، عدی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں  میں  نے ہودج میں  بیٹھی ہوئی ایک اکیلی عورت کوتوخوددیکھ لیاکہ تنہاحیرہ سے سفرکے لیے نکلی، اور(مکہ مکرمہ پہنچ کر)اس نےبیت اللہ کاطواف کیا،اورراستہ میں  اسے اللہ کے سواکسی کا خوف نہیں  تھا، اورمجاہدین اسلام کی اس جماعت میں  تومیں  خودشریک تھاجنہوں  نے کسریٰ بن ہومزکے خزانے فتح کیے،اور(اے لوگو!)اگرتم لوگ کچھ دنوں  اورزندہ رہے تووہ بھی دیکھ لوگے جورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ ایک شخص اپنے ہاتھ میں  (زکوٰة کاسوناچاندی)بھرکرنکلے گا (اورکوئی اسے کوئی قبول کرنے والانہیں  ہوگا )۔[30]

عَنْ عَدِیِّ بْنِ حَاتِمٍ قَالَ:ثُمَّ سَأَلُوهُ، فَحَمِدَ اللَّهَ تَعَالَى، وَأَثْنَى عَلَیْهِ، ثُمَّ قَالَ:أَمَّا بَعْدُ، فَلَكُمْ أَیُّهَا النَّاسُ أَنْ تَرْتَضِخُوا مِنَ الْفَضْلِ، ارْتَضَخَ امْرُؤٌ بِصَاعٍ بِبَعْضِ صَاعٍ، بِقَبْضَةٍ، بِبَعْضِ قَبْضَةٍ . قَالَ شُعْبَةُ: وَأَكْثَرُ عِلْمِی أَنَّهُ قَالَ:بِتَمْرَةٍ، بِشِقِّ تَمْرَةٍ. وَإِنَّ أَحَدَكُمْ لَاقِی اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ، فَقَائِلٌ مَا أَقُولُ: أَلَمْ أَجْعَلْكَ سَمِیعًا بَصِیرًا؟ أَلَمْ أَجْعَلْ لَكَ مَالًا وَوَلَدًا؟ فَمَاذَا قَدَّمْتَ؟ فَیَنْظُرُ مِنْ بَیْنِ یَدَیْهِ، وَمِنْ خَلْفِهِ، وَعَنْ یَمِینِهِ وَعَنْ شِمَالِهِ، فَلَا یَجِدُ شَیْئًا، فَمَا یَتَّقِی النَّارَ إِلَّا بِوَجْهِهِ، فَاتَّقُوا النَّارَ وَلَوْ بِشِقِّ تَمْرَةٍ، فَإِنْ لَمْ تَجِدُوهُ، فَبِكَلِمَةٍ لَیِّنَةٍ، إِنِّی لَا أَخْشَى عَلَیْكُمُ الْفَاقَةَ، لَیَنْصُرَنَّكُمُ اللَّهُ تَعَالَى، وَلَیُعْطِیَنَّكُمْ، أَوْ لَیَفْتَحَنَّ لَكُمْ، حَتَّى تَسِیرَ الظَّعِینَةُ بَیْنَ الْحِیرَةِ ویَثْرِبَ إِنَّ أَكْثَرَ مَا تَخَافُ السَّرَقَ عَلَى ظَعِینَتِهَا

ایک روایت یوں  ہے عدی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں  ایک دن میں  مجلس میں  بیٹھاتھا کہ آپ کے پاس اون کے کمبلوں  میں  ملبوس کچھ آدمی آئے جن کابھوک وپیاس سے براحال تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نمازکے بعد کھڑے ہوکرلوگوں  کوان کے ساتھ تعاون کرنے کی ترغیب دی اورفرمایا لوگو !جس کے پاس کچھ بچاہواہے وہ صدقہ کرے، صاع، آدھا صاع،مٹھی یاآدھی مٹھی دے سکتاہے تو وہ اس کے دینے سے دریغ نہ کرے،شعبہ نے کہا کہ میرے علم کے مطابق انہوں  نے یہ کہا آدھی کھجورتک دے کراپنی جان آگ سے بچاؤ،تم میں  سے ہرایک نے اللہ کے پاس جاناہے،اوراس نے تم سے وہ باتیں  پوچھنی ہیں  جومیں  بتاتاہوں  ،وہ پوچھے گاکیامیں  نے تمہیں  سننے اوردیکھنے کی صلاحیت نہیں  دی تھی ؟کیامیں  نے تمہیں  مال اوراولادنہیں  دیے تھے؟(جواب ملے گاکیوں  نہیں  یااللہ تونے سب کچھ عطافرمایاتھا)اللہ تعالیٰ فرمائے گاپھرتم نے اپنے لئے کیا آگے بھیجا؟ اس وقت انسان اپنے آگے پیچھے اوردائیں  بائیں  دیکھے گامگراسے دوزخ سے بچانے والی کوئی چیزنظرنہیں  آئے گی،اس لئے آج صدقہ خیرات کرکے خواہ آدھی کھجورہی دواپنے آپ کو جہنم کی آگ سے بچالو،اگردینے کے لئے کچھ نہیں  ہے تواچھی بات ہی کہو،مجھے تم پرفقروفاقہ کاخوف نہیں  اللہ تمہاری مددفرمائے گااورتمہیں  اتنادے گاکہ ایک عورت مدینہ اور حیرہ کے درمیان اکیلی سفرکرے گی، مگراونٹنی چوری ہونے سے زیادہ اس کوکوئی خوف نہیں  ہوگا ۔[31]

فَدَخَلَ عَلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَفِی عُنُقِ عَدِیّ صَلِیبٌ مِنْ فِضَّةٍ، فَقَرَأَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ هَذِهِ الْآیَةَ: اِتَّخَذُوْٓا اَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللهِ وَالْمَسِیْحَ ابْنَ مَرْیَمَ وَمَآ اُمِرُوْٓا اِلَّا لِیَعْبُدُوْٓا اِلٰــهًا وَّاحِدًا۰ۚ لَآ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ۰ۭ سُبْحٰنَهٗ عَمَّا یُشْرِكُوْنَ،قَالَ: فَقُلْتُ: إِنَّهُمْ لَمْ یَعْبُدُوهُمْ، فَقَالَ: بَلَى، إِنَّهُمْ حَرَّمُوا عَلَیْهِمُ الْحَلَالَ، وَأَحَلُّوا لَهُمُ الْحَرَامَ، فَاتَّبَعُوهُمْ، فَذَلِكَ عِبَادَتُهُمْ إِیَّاهُمْ

عدی رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں  حاضرہوا،اس وقت عدی کے گلے میں  چاندی کی صلیب لٹک رہی تھی، اس وقت آپ یہ آیت تلاوت فرما رہے تھے:انہوں  نے اپنے علماء اوردرویشوں  کواللہ کے سوااپنارب بنالیاہے اوراسی طرح مسیح ابن مریم کوبھی حالانکہ ان کوایک معبودکے سواکسی کی بندگی کرنے کا حکم نہیں  دیاگیا تھا وہ جس کے سوا کوئی مستحق عبادت نہیں  ،پاک ہے وہ ان مشرکانہ باتوں  سے جویہ لوگ کرتے ہیں  ۔[32]عدی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں  میں  نے عرض کیا ہم تواپنے علماء اوردرویشیوں  کی عبادت نہیں  کرتے تھے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکیوں  نہیں  !جوکچھ یہ لوگ حرام قراردیتے ہیں  اسے تم حرام مان لیتے ہو،اورجوکچھ یہ حلال قراردیتے ہیں  اسے حلال مان لیتے ہو؟انہوں  نے عرض کیایہ توہم ضرورکرتے ہیں  ،فرمایابس یہی ان کواپنارب بنالیناہے۔[33]

شکارکے مسائل

قَالَ:إِذَا أَرْسَلْتَ كَلْبَكَ وَسَمَّیْتَ فَأَمْسَكَ وَقَتَلَ فَكُلْ، وَإِنْ أَكَلَ فَلاَ تَأْكُلْ، فَإِنَّمَا أَمْسَكَ عَلَى نَفْسِهِ، وَإِذَا خَالَطَ كِلاَبًا، لَمْ یُذْكَرِ اسْمُ اللهِ عَلَیْهَا، فَأَمْسَكْنَ وَقَتَلْنَ فَلاَ تَأْكُلْ، فَإِنَّكَ لاَ تَدْرِی أَیُّهَا قَتَلَ،وَإِنْ رَمَیْتَ الصَّیْدَ فَوَجَدْتَهُ بَعْدَ یَوْمٍ أَوْ یَوْمَیْنِ لَیْسَ بِهِ إِلَّا أَثَرُ سَهْمِكَ فَكُلْ، وَإِنْ وَقَعَ فِی المَاءِ فَلاَ تَأْكُلْ

عدی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں  میں  نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے تیرکے شکارکامسئلہ دریافت کیارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجب تم اپناکتاچھوڑواورچھوڑتے وقت بسم اللہ کہہ لوتوپھراسے کھاسکتے ہو،بشرطیکہ اس نے اسے تمہارے لئے روک رکھاہو(یعنی اس میں  سے خودکچھ نہ کھایاہو)،اس کاپکڑلینااس کے ذبح کرنے کے قائم مقام ہے،اگروہ اس میں  سے کچھ کھالے توپھرتم نہ کھاؤ،اس لئے کہ پھراس نے اس شکارکوتمہارے لئے نہیں  پکڑابلکہ اپنے لئے پکڑاہے،اوراگردوسرے کتے جن پراللہ کانام نہ لیاگیاہواس کتے کے ساتھ شکارمیں  شریک ہوجائیں  ، اورشکارکوپکڑکرمارڈالیں  توایساشکارنہ کھاؤکیونکہ تمہیں  معلوم نہیں  کہ کس کتے نے ماراہے،اوراگرتم نے شکارپرتیرمارا،پھروہ شکارتمہیں  دویاتین دن بعدملا،اوراس پرتمہارے تیرکے نشان کے سواکوئی دوسرانشان نہیں  توایساشکارکھاؤ،لیکن اگرشکارپانی میں  گرکرمرجائے تواسے نہ کھاؤ۔[34]

قُلْتُ لَهُ: فَإِنِّی أَرْمِی بِالْمِعْرَاضِ الصَّیْدَ، فَأُصِیبُ ، فَقَالَ:إِذَا رَمَیْتَ بِالْمِعْرَاضِ فَخَزَقَ فَكُلْهُ، وَإِنْ أَصَابَهُ بِعَرْضِهِ، فَلَا تَأْكُلْهُ

عدی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں  میں  نے پوچھامیں  معراض پھینکتا ہوں  اس سے شکارکومارتاہوں  ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااگرمعراض پھینکے پھروہ (نوک کی طرف سے شکارکے جسم میں  )گھس جائے تواسے کھالواوراگراس جانورکوعرضالگے(یعنی دھارشکارپرنہ لگے) تواسے مت کھاؤاس لیے کہ وہ چوٹ سے مراہے۔[35]

ناجائزنذرپوری نہ کی جائے:

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: بَیْنَا النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَخْطُبُ، إِذَا هُوَ بِرَجُلٍ قَائِمٍ، فَسَأَلَ عَنْهُ فَقَالُوا: أَبُو إِسْرَائِیلَ، نَذَرَ أَنْ یَقُومَ وَلاَ یَقْعُدَ، وَلاَ یَسْتَظِلَّ، وَلاَ یَتَكَلَّمَ، وَیَصُومَ. فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:مُرْهُ فَلْیَتَكَلَّمْ وَلْیَسْتَظِلَّ وَلْیَقْعُدْ، وَلْیُتِمَّ صَوْمَهُ

ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہےایک دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ ارشادفرمارہے تھے کہ آپ کی نظرایک ایسے شخص پرپڑی جو(چلچلاتی دھوپ میں  )کھڑاہواتھا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے متعلق دریافت کیا،صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے بتایاکہ یہ ابواسرائیل ہے،اس نے نذرمانی ہے کہ کھڑارہے گا اور بیٹھے گانہیں  ،اپنے اوپرسایہ نہ کرے گااورکلام بھی نہ کرے گااور ہمیشہ روزہ رکھے گا،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااس کاحکم دوکہ کلام کرے،اپنے اوپرسایہ کرے ،بیٹھ جائے اورپھرروزہ پوراکرے۔[36]

کثرت عبادت کی ممانعت:

عبداللہ بن عمروبن العاص رضی اللہ عنہ نے ایک دن یہ کہااللہ کی قسم میں  ہمیشہ دن کوروزہ رکھوں  گااورہمیشہ رات بھرنمازپڑھاکروں  گا،ان کے والدعمرو رضی اللہ عنہ بن العاص (کوجب اس بات کی خبرہوئی توانہوں  )نے ان کی بیوی سے ان کاحال دریافت کیا،عبداللہ رضی اللہ عنہ کی بیوی نے کہابہت اچھے آدمی ہیں  لیکن جب سے میری شادی ہوئی ہے نہ وہ میرے ساتھ سوئے اورنہ مجھ سے انہیں  کوئی مطلب،عمرو رضی اللہ عنہ بن العاص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کواس بات کی خبردی،

فَدَخَلَ عَلَیَّ، فَأَلْقَیْتُ لَهُ وِسَادَةً مِنْ أَدَمٍ حَشْوُهَا لِیفٌ، فَجَلَسَ عَلَى الْأَرْضِ، وَصَارَتِ الْوِسَادَةُ بَیْنِی وَبَیْنَه،قَالَ لِی رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:یَا عَبْدَ اللهِ، أَلَمْ أُخْبَرْ أَنَّكَ تَصُومُ النَّهَارَ، وَتَقُومُ اللیْلَ؟فَقُلْتُ: بَلَى یَا رَسُولَ اللهِ، قَالَ:فَلاَ تَفْعَلْ صُمْ وَأَفْطِرْ، وَقُمْ وَنَمْ، فَإِنَّ لِجَسَدِكَ عَلَیْكَ حَقًّا، وَإِنَّ لِعَیْنِكَ عَلَیْكَ حَقًّا، وَإِنَّ لِزَوْجِكَ عَلَیْكَ حَقًّا، وَإِنَّ لِزَوْرِكَ عَلَیْكَ حَقًّا،وَإِنَّ لِوَلَدِكَ عَلَیْكَ حَقًّا،قَالَ:إِنَّكَ إِذَا فَعَلْتَ ذَلِكَ هَجَمَتْ لَهُ العَیْنُ، وَنَفِهَتْ لَهُ النَّفْسُ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے گھرتشریف لے آئے،میں  نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے چمڑے کاایک گدابچھایا،لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم زمین پرہی بیٹھ گئے اورگداہم دونوں  کے درمیان پڑارہا،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے فرمایااے عبداللہ رضی اللہ عنہ !مجھے یہ خبرنہیں  دی گئی ہے کہ تم دن کوروزہ رکھتے ہواوررات بھر نمازپڑھتے ہو،میں  نے کہااے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم ! بیشک میں  ایساکرتاہوں  ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاایسانہ کروروزہ بھی رکھواورافطاربھی کرو،نمازبھی پڑھواورنیندبھی پوری کرو،اس لئے کہ بیشک تمہارے جسم کابھی تم پرحق ہے ،بیشک تمہاری آنکھوں  کابھی تم پرحق ہے،بیشک تمہاری بیوی کابھی تم پرحق ہے،تمہاری اولادکابھی تم پرحق ہے،اوربیشک تم سے ملاقات کرنے والوں  کابھی تم پرحق ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااگرتویونہی کرتارہاتوآنکھیں  دھنس جائیں  گی اورتوبے حدکمزورہوجائے گا،

وَإِنَّكَ عَسَى أَنْ یَطُولَ بِكَ عُمُرٌ ، وَإِنَّ بِحَسْبِكَ أَنْ تَصُومَ كُلَّ شَهْرٍ ثَلاَثَةَ أَیَّامٍ، فَإِنَّ لَكَ بِكُلِّ حَسَنَةٍ عَشْرَ أَمْثَالِهَا، فَإِنَّ ذَلِكَ صِیَامُ الدَّهْرِ كُلِّهِ،فَشَدَّدْتُ، فَشُدِّدَ عَلَیَّ قُلْتُ: یَا رَسُولَ اللهِ إِنِّی أَجِدُ قُوَّةً،قَالَ: قُلْتُ: یَا رَسُولَ اللهِ، قَالَ:خَمْسًا،قُلْتُ: یَا رَسُولَ اللهِ، قَالَ:سَبْعًا،قَالَ: إِنِّی لَأَقْوَى لِذَلِكَ،قُلْتُ: یَا رَسُولَ اللهِ، قَالَ: تِسْعًا،قُلْتُ: یَا رَسُولَ اللهِ، قَالَ:إِحْدَى عَشْرَةَ،قُلْتُ: أُطِیقُ أَكْثَرَ مِنْ ذَلِكَ،قَالَ:فَصُمْ صِیَامَ نَبِیِّ اللهِ دَاوُدَ عَلَیْهِ السَّلاَمُ ، وَلاَ تَزِدْ عَلَیْهِ

امیدہے کہ تمہاری عمرلمبی ہوگی، بستمہارے لئے بس یہ کافی ہے کہ مہینہ میں  تین روزے رکھ لواورکیونکہ ہرنیکی کادس گناثواب ملتاہے لہذایہ پورے سال کے روزوں  کے برابرہوجائیں  گے، لیکن میں  نے اپنے اوپرسختی چاہی تومجھ پرسختی کردی گئی ،عبداللہ رضی اللہ عنہ نے عرض کیامجھ میں  اس سے زیادہ قوت ہے،میں  نے عرض کیااے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !(کچھ اوربڑھادیں  )رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااچھاپانچ دن کے روزے رکھ لو،میں  نے عرض کیااے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !(کچھ اوربڑھادیں  )رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااچھاسات دن کے روزے رکھ لو، میں  نے کہامجھ میں  اس سے زیادہ طاقت ہے،میں  نے عرض کیااے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !(کچھ اوربڑھا دیں  )رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااچھانو دن کے روزے رکھ لو، میں  نے عرض کیااے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! (کچھ اوربڑھادیں  )رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااچھاگیارہ دن کے روزے رکھ لو،عبداللہ رضی اللہ عنہ نے عرض کیااے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم !میں  اپنے میں  اس سے زیادہ طاقت پاتاہوں  ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاپھرتم داود علیہ السلام کے طریقہ پرروزے رکھ لواس سے زیادہ روزے نہ رکھو،

قُلْتُ: وَمَا كَانَ صِیَامُ نَبِیِّ اللهِ دَاوُدَ عَلَیْهِ السَّلاَمُ؟قَالَ: نِصْفُ الدَّهْرِ،قُلْتُ: أُطِیقُ أَكْثَرَ مِنْ ذَلِكَ،ثُمَّ قَالَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:لاَ صَوْمَ فَوْقَ صَوْمِ دَاوُدَ عَلَیْهِ السَّلاَمُ شَطْرَ الدَّهَرِ، صُمْ یَوْمًا، وَأَفْطِرْ یَوْمًا، فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:لَا صَامَ مَنْ صَامَ الْأَبَدَ، لَا صَامَ مَنْ صَامَ الْأَبَدَ، لَا صَامَ مَنْ صَامَ الْأَبَدَ

میں  نے پوچھاداود علیہ السلام کے روزے رکھنے کاکیاطریقہ تھا؟رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایانصف سال،لہذاتم ایک دن روزہ رکھواورایک دن افطارکرو،میں  نے عرض کیامجھ میں  اس سے بھی زیادہ قوت ہے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاداؤد علیہ السلام کے روزے کے طریقے کے سوااورکوئی طریقہ (شریعت میں  )جائزنہیں  ،یعنی زندگی کے آدھے دنوں  میں  ایک دن کاروزہ رکھ اورایک دن کاروزہ چھوڑدیاکر، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجس نے ہمیشہ روزے رکھے اس نے روزے رکھے ہی نہیں  ،جس نے ہمیشہ روزے رکھے اس نے روزے رکھے ہی نہیں  ،جس نے ہمیشہ روزے رکھے اس نے روزے رکھے ہی نہیں  ،

وَاقْرَأِ الْقُرْآنَ فِی كُلِّ شَهْرٍ،قَالَ قُلْتُ: یَا نَبِیَّ اللهِ، إِنِّی أُطِیقُ أَفْضَلَ مِنْ ذَلِكَ،قَالَ:فَاقْرَأْهُ فِی كُلِّ عِشْرِینَ،قَالَ قُلْتُ: یَا نَبِیَّ اللهِ، إِنِّی أُطِیقُ أَفْضَلَ مِنْ ذَلِكَ،قَالَ:فَاقْرَأْهُ فِی كُلِّ عَشْرٍ،قَالَ قُلْتُ: یَا نَبِیَّ اللهِ، إِنِّی أُطِیقُ أَفْضَلَ مِنْ ذَلِكَ،قَالَ:فَاقْرَأْهُ فِی كُلِّ سَبْعٍ، وَلَا تَزِدْ عَلَى ذَلِكَ،قَالَ قُلْتُ: یَا نَبِیَّ اللهِ، إِنِّی أُطِیقُ أَفْضَلَ مِنْ ذَلِكَ، حَتَّى قَالَ:اقْرَأْ فِی كُلِّ ثَلَاثٍ

پھرفرمایاایک مہینہ میں  ایک مرتبہ قرآن پڑھو(یعنی اتنی دیرقیام کروکہ بس ایک پارہ اس میں  پڑھاجائے،لمباقیام نہ کرو)عبداللہ رضی اللہ عنہ نے کہااے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم !میں  اس سے زیادہ طاقت رکھتاہوں  ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایابیس دن میں  ختم کرو، میں  نے کہااے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم !میں  اس سے زیادہ طاقت رکھتاہوں  ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایادس دن میں  ختم کرو،میں  نے کہااے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم !میں  اس سے زیادہ طاقت رکھتاہوں  ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاسات دن میں  ختم کرلیاکرواوراس سے زیادہ نہ پڑھو(اس لیے کہ اس سے کم میں  تدبراورتفکرقرآن میں  ممکن نہیں  )میں  نے کہااے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم !میں  اس سے زیادہ طاقت رکھتاہوں  ،وہ برابرزیادتی کے لئے درخواست کرتے رہے یہاں  تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاتین راتوں  میں  قرآن ختم کرو اور اس سے زیادہ ختم نہ کرو۔[37]

خط کشیدہ الفاظ صحیح مسلم میں  ہیں  ،تین دن میں  قرآن ختم کرنے کی اجازت صحیح بخاری میں  ہے۔

اعتکاف:

عَنْ عَائِشَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: كَانَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، یَعْتَكِفُ فِی العَشْرِ الأَوَاخِرِ مِنْ رَمَضَانَ، فَكُنْتُ أَضْرِبُ لَهُ خِبَاءً فَیُصَلِّی الصُّبْحَ ثُمَّ یَدْخُلُهُ، فَاسْتَأْذَنَتْ حَفْصَةُ عَائِشَةَ أَنْ تَضْرِبَ خِبَاءً، فَأَذِنَتْ لَهَا، فَضَرَبَتْ خِبَاءً، فَلَمَّا رَأَتْهُ زَیْنَبُ ابْنَةُ جَحْشٍ ضَرَبَتْ خِبَاءً آخَرَ، فَلَمَّا أَصْبَحَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ رَأَى الأَخْبِیَةَ، فَقَالَ:مَا هَذَا؟فَأُخْبِرَ، فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:أَلْبِرَّ تُرَوْنَ بِهِنَّ فَتَرَكَ الِاعْتِكَافَ ذَلِكَ الشَّهْرَ، ثُمَّ اعْتَكَفَ عَشْرًا مِنْ شَوَّالٍ

ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کامعمول تھاکہ رمضان المبارک کے آخری عشرہ میں  اعتکاف فرماتے تھے،اسی مقصدکے لئے میں  آپ کے لئے مسجدنبوی میں  خیمہ لگادیتی تھی اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم صبح کی نمازپڑھ کراس میں  داخل ہوجایاکرتے تھے،حسب معمول آپ کے لئے اعتکاف کے لئے مسجدمیں  خیمہ لگایا گیا ،پھرام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے بھی حکم کیااوران کے لئے خیمہ لگایاگیا،پھرام المومنین حفصہ رضی اللہ عنہا نے بھی عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سےاپناخیمہ نصب کرنے کی (اپنے اعتکاف کے لیے) اجازت چاہی ،عائشہ رضی اللہ عنہا نے اجازت دے دی اور انہوں  نے ایک خیمہ نصب کرلیا،جب ام المومنین زینب رضی اللہ عنہا بنت جحش نے دیکھاتوانہوں  نے بھی( اپنے لئے) ایک خیمہ نصب کرلیا،جب صبح ہوئی تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کئی خیمے دیکھے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت کیایہ کیاہے؟صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کوکیفیت بتائی،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکیاان خیموں  سے نیکی کاارادہ کیاگیاہے؟یعنی یہ ثواب کی نیت سے نہیں  صرف ایک دوسرے کی ریس سے کیاگیاہے،پھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس رمضان میں  اعتکاف ترک کردیااور(اس کے بدلہ)شوال کے عشرہ میں  اعتکاف فرمایا۔[38]

نمازعیدالفطر:

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: شَهِدْتُ الفِطْرَ مَعَ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَأَبِی بَكْرٍ، وَعُمَرَ، وَعُثْمَانَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُمْ یُصَلُّونَهَا قَبْلَ الخُطْبَةِ، ثُمَّ یُخْطَبُ بَعْدُ، خَرَجَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ كَأَنِّی أَنْظُرُ إِلَیْهِ حِینَ یُجَلِّسُ بِیَدِهِ، ثُمَّ أَقْبَلَ یَشُقُّهُمْ حَتَّى جَاءَ النِّسَاءَ مَعَهُ بِلاَلٌ، فَقَالَ: {یَا أَیُّهَا النَّبِیُّ إِذَا جَاءَكَ المُؤْمِنَاتُ یُبَایِعْنَكَ} [39]الآیَةَ،

ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہےمیں  نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اورسیدناابوبکر رضی اللہ عنہ ،سیدناعمر رضی اللہ عنہ اورسیدناعثمان رضی اللہ عنہ کے ساتھ عیدالفطرپڑھنے گیاہوں  ، یہ سب حضرات خطبہ سے پہلے نماز پڑھتے اوربعدمیں  خطبہ ارشادفرماتے تھے،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اٹھے،میری نظروں  کے سامنے وہ منظرہے جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں  کواپنے دست مبارک سے بیٹھنے کااشارہ فرمارہے تھے (جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مردوں  کے سامنے خطبہ دے چکے تولوگوں  نے سمجھاکہ اب خطبہ ختم ہوگیاہے اورانہیں  واپس جاناچاہیے ،چنانچہ لوگ واپسی کے لیے اٹھے لیکن نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں  ہاتھ کے اشارہ سے روکاکہ ابھی بیٹھے رہیں  ، کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم عورتوں  کوخطبہ دینے جارہے تھے )پھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم صفوں  سے گزرتے ہوئے عورتوں  کی طرف تشریف لائےبلال رضی اللہ عنہ بھی آپ کے ہمراہ تھے،اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت تلاوت فرمائی

یَا أَیُّهَا النَّبِیُّ إِذَا جَاءَكَ الْمُؤْمِنَاتُ یُبَایِعْنَكَ عَلَى أَنْ لَا یُشْرِكْنَ بِاللهِ شَیْئًا وَلَا یَسْرِقْنَ وَلَا یَزْنِینَ وَلَا یَقْتُلْنَ أَوْلَادَهُنَّ وَلَا یَأْتِینَ بِبُهْتَانٍ یَفْتَرِینَهُ بَیْنَ أَیْدِیهِنَّ وَأَرْجُلِهِنَّ وَلَا یَعْصِینَكَ فِی مَعْرُوفٍ فَبَایِعْهُنَّ وَاسْتَغْفِرْ لَهُنَّ اللهَ إِنَّ اللهَ غَفُورٌ رَحِیمٌ [40]

ترجمہ:اے نبی جب تمہارے پاس مومن عورتیں  بیعت کرنے کے لئے آئیں  اوراس بات کی عہدکریں  کہ وہ اللہ کے ساتھ کسی چیزکوشریک نہ کریں  گی،چوری نہ کریں  گی،زنانہ کریں  گی،اپنی اولادکوقتل نہ کریں  گی،اپنے ہاتھ پاؤں  کے آگے کوئی بہتان گھڑکرنہ لائیں  گی،اورکسی امرمعروف میں  تمہاری نافرمانی نہ کریں  گی توان سے بیعت لے لواوران کے حق میں  دعائے مغفرت کرو،یقیناًاللہ درگزرفرمانے والااوررحم کرنے والاہے۔

ثُمَّ قَالَ حِینَ فَرَغَ مِنْهَا:آنْتُنَّ عَلَى ذَلِكِ؟قَالَتِ امْرَأَةٌ وَاحِدَةٌ مِنْهُنَّ، لَمْ یُجِبْهُ غَیْرُهَا: نَعَمْ، لاَ یَدْرِی حَسَنٌ مَنْ هِیَ قَالَ:فَتَصَدَّقْنَ فَبَسَطَ بِلاَلٌ ثَوْبَهُ، ثُمَّ قَالَ:هَلُمَّ، لَكُنَّ فِدَاءٌ أَبِی وَأُمِّی فَیُلْقِینَ الفَتَخَ وَالخَوَاتِیمَ فِی ثَوْبِ بِلاَلٍ

پھرجب خطبہ سے فارغ ہوئے تو ان سے دریافت فرمایاکیاتم ان باتوں  پرقائم ہو؟ایک عورت(اسماء بنت یزید،جواپنی فصاحت وبلاغت کی وجہ سے خطیبة النساء کے نام سے مشہورتھیں  ) نے عرض کیاہاں  ،اس کے علاوہ کوئی عورت نہ بولی، حسن کومعلوم نہیں  کہ بولنے والی خاتون کون تھیں  ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں  صدقہ دینے کی ترغیب فرمائی اوربلال صلی اللہ علیہ وسلم نے اپناکپڑاپھیلادیااورکہا کہ لاؤتم پر میرے ماں  باپ فداہوں  ، چنانچہ عورتیں  اپنے چھلے اورانگوٹھیاں  بلال رضی اللہ عنہ کے کپڑے میں  ڈالنے لگیں  ۔[41]

[1] صحیح بخاری کتاب الایمان والنذوربَابٌ كَیْفَ كَانَتْ یَمِینُ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ ۶۶۳۶،وکتاب الھبة وفضلھا بَابُ مَنْ لَمْ یَقْبَلِ الهَدِیَّةَ لِعِلَّةٍ۲۵۹۷، وکتاب الاحکام بَابُ هَدَایَا العُمَّالِ۷۱۷۴، وکتاب الحیل بَابُ احْتِیَالِ العَامِلِ لِیُهْدَى لَهُ۶۹۷۹،صحیح مسلم کتاب الامارةبَابُ تَحْرِیمِ هَدَایَا الْعُمَّالِ۴۷۳۸،سنن الدارمی۱۷۱۱، مسنداحمد۲۳۵۹۸

[2] شرح الزرقانی علی المواھب۱۵۸؍۵، اسدالغابة۳۷۶؍۲

[3] عیون الاثر۲۹۴؍۲،ابن سعد۲۴۳؍۱

[4] ابن سعد۲۴۳؍۱

[5] ابن سعد۳۲۱؍۱

[6] زادالمعاد۵۳۹؍۳،ابن ہشام۵۷۸؍۲،الروض الانف ۴۷۳؍۷،عیون الآثر۲۹۴؍۲،البدایة والنہایة ۷۵؍۵،تاریخ طبری۱۴۵؍۳

[7] السیرة الحلیبة۳۱۶؍۳

[8] اسدالغابة۳۷۶؍۲، شرح الزرقانی علی المواھب۱۵۹؍۵

[9] زادالمعاد۵۳۹؍۳،شرح الزرقانی علی المواھب۱۵۹؍۵،اسدالغابة۳۷۶؍۲

[10] صحیح بخاری کتاب الجزیة بَابُ الجِزْیَةِ وَالمُوَادَعَةِ مَعَ أَهْلِ الحَرْبِ ۳۱۵۸،وکتاب المغازی باب ۱۲،ح۴۰۱۵، وکتاب الرقاق بَابُ مَا یُحْذَرُ مِنْ زَهَرَةِ الدُّنْیَا وَالتَّنَافُسِ فِیهَا۶۴۲۵،صحیح مسلم کتاب الزھدوالرقاق باب الدُّنْیَا سِجْنُ الْمُؤْمِنِ، وَجَنَّةُ الْكَافِرِ۷۴۲۵،جامع ترمذی ابواب القیامة باب بَابٌ۲۴۶۲،سنن ابن ماجہ کتاب الفتن بَابُ فِتْنَةِ الْمَالِ ۳۹۹۷

[11] صحیح بخاری کتاب الشروط بَابُ الشُّرُوطِ فِی الجِهَادِ وَالمُصَالَحَةِ مَعَ أَهْلِ الحَرْبِ وَكِتَابَةِ الشُّرُوطِ ۲۷۳۱،زاد المعاد ۲۶۱؍۳

[12] ابن سعد۲۳۷؍۱

[13] بنی اسرائیل۳۲

[14] البقرة ۲۷۸

[15] المائدة ۹۰

[16] سنن ابوداودكِتَاب الْخَرَاجِ وَالْإِمَارَةِ وَالْفَیْءِ بَابُ مَا جَاءَ فِی خَبَرِ الطَّائِفِ۳۰۲۵

[17] زادالمعاد۴۳۶،۵۲۲؍۳،البدایة والنہایة۴۰؍۵،دلائل النبوة للبیہقی۳۰۲؍۵

[18] مجموعہ الوثائق۳۸۵؍۱،کتاب الاموال لابن زنجویہ۴۵۲؍۲،الاموال للقاسم بن سلام۲۴۷؍۱

[19] سنن ابوداودکتاب الصلاة بَابُ أَخْذِ الْأَجْرِ عَلَى التَّأْذِینِ۵۳۱،جامع ترمذی ابواب الصلوٰةبَابُ مَا جَاءَ فِی كَرَاهِیَةِ أَنْ یَأْخُذَ الْمُؤَذِّنُ عَلَى الأَذَانِ أَجْرًا۲۰۹،مستدرک حاکم۷۱۵

[20] زادالمعاد۵۲۱؍۳

[21] الاصابة به فی تمیزالصحابة۴۳۴؍۶

[22] مغازی واقدی۹۷۲؍۳

[23] زادالمعاد۵۲۴؍۳،دلائل النبوة للبیہقی۳۰۳؍۵

[24] زادالمعاد ۴۳۹؍۳،ابن ہشام ۵۴۲؍۲،الروض الانف۴۲۰؍۷،عیون الآثر۲۸۳؍۲،شرح الزرقانی علی المواھب ۱۲۶؍۵

[25] ابن ہشام۵۸۰؍۲،الروض الانف۴۷۸؍۷،عیون الآثر۲۹۶؍۲، تاریخ طبری ۱۱۴؍۳، البدایة والنہایة۷۷؍۵،السیرة الحلیبة ۳۱۷؍۳، السیرة النبویة لابن کثیر۱۲۵؍۴

[26] زادالمعاد۴۵۳؍۳،تاریخ طبری ۱۱۲؍۳،البدایة والنہایة۷۸؍۵،دلائل النبوة للبیہقی۳۳۹؍۵

[27] مسنداحمد۱۹۳۷۸،دلائل النبوة للبیہقی۳۴۲؍۵

[28] البقرة ۱۸۷

[29] صحیح بخاری کتاب الصوم بَابُ قَوْلِ اللهِ تَعَالَى وَكُلُوا وَاشْرَبُوا حَتَّى یَتَبَیَّنَ لَكُمُ الخَیْطُ الأَبْیَضُ مِنَ الخَیْطِ الأَسْوَدِ مِنَ الفَجْرِ ثُمَّ أَتِمُّوا الصِّیَامَ إِلَى اللیْلِ۱۹۱۶،وکتاب التفسیرسورة البقرہ بَابُ قَوْلِهِ:وَكُلُوا وَاشْرَبُوا حَتَّى یَتَبَیَّنَ لَكُمُ الخَیْطُ الأَبْیَضُ مِنَ الخَیْطِ الأَسْوَدِ مِنَ الفَجْرِ ثُمَّ أَتِمُّوا الصِّیَامَ إِلَى اللیْلِ وَلاَ تُبَاشِرُوهُنَّ وَأَنْتُمْ عَاكِفُونَ فِی المَسَاجِدِ۴۵۱۰،صحیح مسلم کتاب الصوم بَابُ بَیَانِ أَنَّ الدُّخُولَ فِی الصَّوْمِ یَحْصُلُ بِطُلُوعِ الْفَجْرِ۲۵۳۳

[30] صحیح بخاری کتاب الزکوٰة باب الصدقتہ قبل الرد۱۴۱۳،وکتاب فضائل ومناقب بَابُ عَلاَمَاتِ النُّبُوَّةِ فِی الإِسْلاَمِ۳۵۹۵

[31] مسند احمد ۱۹۳۸۱،دلائل النبوة للبیہقی۳۳۹؍۵،البدایة والنہایة۷۸؍۵

[32] التوبة۳۱

[33]تفسیرابن کثیر۱۳۵؍۴

[34] صحیح بخاری کتاب الذبائح والصید بَابُ الصَّیْدِ إِذَا غَابَ عَنْهُ یَوْمَیْنِ أَوْ ثَلاَثَةً۵۴۸۴،صحیح مسلم کتاب الصیدبَابُ الصَّیْدِ بِالْكِلَابِ الْمُعَلَّمَةِ۴۹۸۱

[35] صحیح مسلم کتاب الصیدبَابُ الصَّیْدِ بِالْكِلَابِ الْمُعَلَّمَةِ۴۹۷۲

[36]صحیح بخاری کتاب الایمان والنذوربَابُ النَّذْرِ فِیمَا لاَ یَمْلِكُ وَفِی مَعْصِیَةٍ۶۷۰۴

[37] صحیح بخاری کتاب الصیام فی ابواب متفرقة، وکتاب فضائل القرآن بَابٌ فِی كَمْ یُقْرَأُ القُرْآنُ۵۰۵۲، وکتاب الادب باب حق الضیف ۶۱۳۴،صحیح مسلم کتاب الصیام بَابُ النَّهْیِ عَنْ صَوْمِ الدَّهْرِ لِمَنْ تَضَرَّرَ بِهِ أَوْ فَوَّتَ بِهِ حَقًّا أَوْ لَمْ یُفْطِرِ الْعِیدَیْنِ وَالتَّشْرِیقَ، وَبَیَانِ تَفْضِیلِ صَوْمِ یَوْمٍ، وَإِفْطَارِ یَوْمٍ ۲۷۳۰،مسنداحمد۶۷۶۴

[38] صحیح بخاری کتاب الصوم بَابُ اعْتِكَافِ النِّسَاءِ۲۰۳۳،وبَابُ الِاعْتِكَافِ فِی شَوَّالٍ۲۰۴۱،صحیح مسلم کتاب الصوم بَابُ مَتَى یَدْخُلُ مَنْ أَرَادَ الِاعْتِكَافَ فِی مُعْتَكَفِهِ۲۷۸۵،سنن ابوداودکتاب الصیام بَابُ الِاعْتِكَافِ۲۴۶۴،سنن ابن ماجہ کتاب الصیام بَابُ مَا جَاءَ فِیمَنْ یَبْتَدِئُ الِاعْتِكَافَ، وَقَضَاءِ الِاعْتِكَافِ ۱۷۷۱

[39] الممتحنة: 12

[40] الممتحنة۱۲

[41] صحیح بخاری کتاب العیدین بَابُ مَوْعِظَةِ الإِمَامِ النِّسَاءَ یَوْمَ العِیدِ ۹۷۹،وکتاب التفسیرسورة الممتحنة بَابُ إِذَا جَاءَكَ المُؤْمِنَاتُ یُبَایِعْنَكَ۴۸۹۵،صحیح مسلم کتاب العیدین ۲۰۴۴،مسنداحمد۳۰۶۳

Related Articles