ہجرت نبوی کا نواں سال

سورہ التوبہ ۷۳تا۱۲۹

یَا أَیُّهَا النَّبِیُّ جَاهِدِ الْكُفَّارَ وَالْمُنَافِقِینَ وَاغْلُظْ عَلَیْهِمْ ۚ وَمَأْوَاهُمْ جَهَنَّمُ ۖ وَبِئْسَ الْمَصِیرُ ‎﴿٧٣﴾‏ یَحْلِفُونَ بِاللَّهِ مَا قَالُوا وَلَقَدْ قَالُوا كَلِمَةَ الْكُفْرِ وَكَفَرُوا بَعْدَ إِسْلَامِهِمْ وَهَمُّوا بِمَا لَمْ یَنَالُوا ۚ وَمَا نَقَمُوا إِلَّا أَنْ أَغْنَاهُمُ اللَّهُ وَرَسُولُهُ مِن فَضْلِهِ ۚ فَإِن یَتُوبُوا یَكُ خَیْرًا لَّهُمْ ۖ وَإِن یَتَوَلَّوْا یُعَذِّبْهُمُ اللَّهُ عَذَابًا أَلِیمًا فِی الدُّنْیَا وَالْآخِرَةِ ۚ وَمَا لَهُمْ فِی الْأَرْضِ مِن وَلِیٍّ وَلَا نَصِیرٍ ‎﴿٧٤﴾(التوبة)
اے نبی ! کافروں  اور منافقوں  سے جہاد جاری رکھواور ان پر سخت ہوجاؤ ان کی اصلی جگہ دوزخ ہے جو نہایت بدترین جگہ ہے،یہ اللہ کی قسمیں  کھا کر کہتے ہیں  کہ انہوں  نے نہیں  کہا حالانکہ یقیناً کفر کا کلمہ ان کی زبان سے نکل چکا ہےاور یہ اپنے اسلام کے بعد کافر ہوگئے ہیں  اور انہوں  نے اس کام کا قصد بھی کیا جو پورا نہ کرسکے، یہ صرف اسی بات کا انتقام لے رہے ہیں  کہ انہیں  اللہ نے اپنے فضل سے اور اس کے رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم ) نے دولت مند کردیا ، اگر یہ بھی توبہ کرلیں  تو یہ ان کے حق میں  بہتر ہے اور اگر منہ موڑے رہیں  تو اللہ تعالیٰ انہیں  دنیا و آخرت میں  دردناک عذاب دے گا اور زمین بھر میں  ان کا کوئی حمایتی اور مددگار نہ کھڑا ہوگا۔

چنانچہ حکم فرمایاگیاکہ آئندہ ان کے ساتھ کوئی نرمی نہ برتی جائے،اوروہی سخت برتاؤ،سخت اقدام ان چھپے ہوئے منکرین حق کے ساتھ بھی ہوجوکھلے منکرین حق کے ساتھ ہوتاہے،مشوروں  میں  انہیں  الگ رکھاجائے،ان کی شہادتیں  غیر معتبر سمجھی جائیں  ،ان پر عہدوں  اور منصب کے دروازے بندرکھے جائیں  ،اگریہ کوئی جرم کریں  تواس پرپردہ نہ ڈالاجائے تاکہ سوسائٹی میں  ان کے لئے عزت واعتبارکاکوئی مقام باقی بہ رہے ،

عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ، فِی قَوْلِهِ تَعَالَى: {جَاهِدِ الْكُفَّارَ وَالْمُنَافِقِینَ} قَالَ: بِیَدِهِ، فَإِنْ لَمْ یَسْتَطِعْ فَبِلِسَانِهِ،فَإِنْ لَمْ یَسْتَطِعْ فَبِقَلْبِهِ، فَإِنْ لَمْ یَسْتَطِعْ فَلْیَكْفَهِرَّ فِی وَجْهِهِ

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما نے’’کفاراورمنافقین دونوں  کاپوری قوت سے مقابلہ کرو۔۔۔۔‘‘کے بارے میں  فرمایاہے ان سے اپنے ہاتھ سے لڑواگراس کی طاقت نہ ہوتوزبان سے لڑواگراس کی بھی طاقت نہ ہوتودل سے براجانواوراگراس کی بھی استطاعت نہ ہوتوچہرے کے تاثرات سے سختی کامظاہرہ کرو۔[1]

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَوْلُهُ تَعَالَى:یَا أَیُّهَا النَّبِیُّ جَاهِدِ الْكُفَّارَ وَالْمُنَافِقِینَ وَاغْلُظْ عَلَیْهِمْ، فَأَمَرَهُ اللهُ بِجِهَادِ الْكُفَّارِ بِالسَّیْفِ وَالْمُنَافِقِینَ بِاللِّسَانِ، وَأَذْهَبَ الرِّفْقَ عَنْهُمْ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما آیت کریمہ’’اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم !کفاراورمنافقین دونوں  کاپوری قوت سے مقابلہ کرواوران کے ساتھ سختی سے پیش آؤ۔‘‘ کے بارے میں  فرماتے ہیں  اللہ تعالیٰ نے کافروں  کے ساتھ تلوارسے اورمنافقین کے ساتھ زبان سے جہادکرنے کاحکم دیااوران کے ساتھ نرمی کے ساتھ برتاؤکوختم کردیا۔[2]

دنیامیں  تویہ جیسے چاہیں  زندگی گزارلیں  لیکن آخرکاران کاانجام جہنم ہی ہے ،اس بدترین جائے قرار میں  یہ ہمیشہ رہیں  گے۔

جب منافقین کے بارے میں  یہ آیات نازل ہوئیں  تو جلاس بن عویدبن صامت جس کے گھر میں  عمیربن سعدکی والدہ تھیں  کہنے لگا

وَاَللهِ، لَئِنْ كَانَ مُحَمّدٌ صَادِقًا لَنَحْنُ شَرّ مِنْ الْحَمِیرِ!فَقَالَ لَهُ عُمَیْرٌ: یَا جُلَاسُ، قَدْ كُنْت أَحَبّ النّاسِ إلَیّ وَأَحْسَنَهُمْ عِنْدِی أَثَرًا، وَأَعَزّهُمْ عَلَیّ أَنْ یَدْخُلَ عَلَیْهِ شَیْءٌ نَكْرَهُهُ، وَاَللهِ، لَقَدْ قُلْت مَقَالَةً لَئِنْ ذَكَرْتهَا لَتَفْضَحَنّكَ، وَلَئِنْ كَتَمْتهَا لَأَهْلِكَنّ، وَإِحْدَاهُمَا أَهْوَنُ عَلَیّ مِنْ الْأُخْرَى!

اللہ کی قسم! اگریہ شخص اپنے قول میں  سچاہے توہم توگدھوں  سے بھی بدترہیں  ،عمیر بن سعد رضی اللہ عنہ جن کوان کی والدہ ساتھ لے گئیں  تھیں  یہ سن کرفرمانے لگے اے جلاس! یوں  توآپ مجھے سب سے زیادہ محبوب ہیں  ،بے حدعزیزہیں  اورمیں  پسندنہیں  کرتاکہ تمہیں  کوئی بری بات لاحق ہو،اللہ کی قسم! آپ نے اس وقت ایسی بات منہ سے نکالی ہے کہ اگرمیں  اسے پہنچاؤں  توتیری رسوائی ہے اورنہ پہنچاؤں  تومیری ہلاکت ہے،اورایک سے دوسری بڑھ کرتکلیف دہ ہے۔[3]

فقال عمیر: أشهد إنه لصادق، وَإِنك شر من الحمیر

ایک روایت میں  ہےجب عمیر رضی اللہ عنہ بن سعدنے جلاس کے منہ سے یہ الفاظ سنے تووہ اگرچہ نوعمرتھے مگران کاخون کھول اٹھااوربولے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ضرورسچے ہیں  اورتم یقیناًگدھوں  سے بدترہو۔[4]

وكان الجلاس قَدْ حلف أن لا ینفق عَلَى عمیر

جلاس رضی اللہ عنہ نے عمیر رضی اللہ عنہ کی بات سنی توسناتے میں  آگئے کہ یہ لڑکاجس نے کبھی ان کے سامنے آنکھ تک نہ اٹھائی آج ان کے منہ آرہاتھابڑے جزجزہوئے اورقسم کھائی کہ اب وہ عمیر رضی اللہ عنہ کی کفالت نہیں  کریں  گے۔[5]

فَذَكَرَ لِلنّبِیّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مَقَالَةَ الْجُلَاسِ، فَبَعَثَ النّبِیّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ إلَى الْجُلَاسِ فَسَأَلَهُ عَمّا قَالَ عُمَیْرٌ، فَحَلَفَ بالله ما تكلّم به قطّ، وأنّ عمیر الكاذب،اللهُمّ، أَنْزِلْ عَلَى رَسُولِك بَیَانَ مَا تَكَلّمْت بِهِ!فَأَنْزَلَ اللهُ عَلَى نَبِیّهِ یَحْلِفُونَ بِاللهِ مَا قالُوا وَلَقَدْ قالُوا كَلِمَةَ الْكُفْرِ، فَتَابَ بَعْدَ ذَلِكَ الْجُلاسُ، وَاعْتَرَفَ بِذَنْبِهِ، وَحَسُنَتْ تَوْبَتُهُ

یہ کہہ کرعمیر رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں  حاضرہوئے اورساری بات آپ کے گوش گزارکردی، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نےجلاس کوبلوایااورعمیر رضی اللہ عنہ نے جوکہاتھااس کے بارے میں  دریافت کیا،مگراس نےقسمیں  کھاکھاکرکہاکہ عمیر رضی اللہ عنہ جھوٹاہے میں  نے یہ بات ہرگزنہیں  کہی،عمیر رضی اللہ عنہ نے کہااے میرے رب!جوکچھ اس نے کہاتھااپنے رسول پرنازل فرمادے،چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پریہ آیت’’یہ لوگ اللہ کی قسم کھا کھا کر کہتے ہیں  کہ ہم نے وہ بات نہیں  کی، حالانکہ انہوں  نے ضرور وہ کافرانہ بات کہی ہے وہ اسلام لانے کے بعد کفر کے مرتکب ہوئے اور انہوں  نے وہ کچھ کرنے کا ارادہ کیا جسے کر نہ سکے،یہ ان کا سارا غصّہ اسی بات پر ہے تاکہ اللہ اور اس کے رسول نے اپنے فضل سے ان کو غنی کر دیا ہے ! اب اگر یہ اپنی اس روش سے باز آجائیں  تو انہی کے لیے بہتر ہے اور اگر یہ باز نہ آئے تو اللہ ان کو نہایت دردناک سزا دے گا ، دنیا میں  بھی اور آخرت میں  بھی، اور زمین میں  کوئی نہیں  جو ان کا حمایتی اور مددگار ہو ۔‘‘نازل فرمائی، چنانچہ اس نے جلاس نے اپنی غلطی کوتسلیم کرلیااور توبہ کی اور اپنے کسی قول یافعل سے کبھی شکایت کاموقع نہ دیا۔[6]

وقَالَ ابْن سِیرِینَ: لَمَّا نَزَلَ الْقُرْآنُ أخذ النَّبِیّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بِأُذُنِ عُمَیْرٍ، وقَالَ:یَا غُلام، وَفَتْ أُذُنُكَ ، وَصَدَّقَكَ رَبُّكَ

ابن سیرین رحمہ اللہ فرماتے ہیں  جب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی تونبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے شفقت آمیزاندازمیں  عمیر رضی اللہ عنہ کاکان پکڑکرمسکراتے ہوئےفرمایالڑکے تیرے کانوں  نے ٹھیک سناتھااوراللہ تعالیٰ نے تیری بات کی تصدیق فرمائی۔([7]

قَالَ ابن سیرین: لم یر بعد ذلك من الجلاس شیء یكره.

ابن سیرین رحمہ اللہ فرماتے ہیں  اس کے بعدجلاس رضی اللہ عنہ سے پھرکوئی قابل اعتراض قول یافعل ظاہرنہ ہوا۔ [8]

پھراللہ تعالیٰ فرمایاکیا وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر اس لئے ناراض ہیں  کہ اللہ کے فضل وکرم اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت کی وجہ سے مدینہ کومرکزی حیثیت حاصل ہوگئی ہے جس کی وجہ سے وہاں  تجارت اور کاروبارکوبھی فروغ ملا ، اور اہل مدینہ (اوس وخزرج)کی معاشی حالت جویہودکی سازشوں  کی وجہ سے آپس کی لڑائیوں  میں  بدحال ہوچکے اورمال وجاہ کے لحاظ سے کوئی اونچا درجہ نہ رکھتے تھے تھے بہت اچھی ہوگئی ہے ،اورمنافقین کوبھی اس سے خوب فائدہ حاصل ہوا،یعنی یہ ناراضی اورغضب والی بات تونہیں  بلکہ ان کوتواللہ کا شکر گزار ہونا چاہیے کہ اس نے انہیں  فقروتنگ دستی سے نکال کرخوش حال بنادیا ہے ، اور رسول کی تعظیم وتوقیرکریں  اوراس پرایمان لائیں  ، پھرتنبیہ فرمائی کہ تمہیں  سوچنے سمجھنے اوردین حق کوپرکھنے کاکافی وقت دیاجاچکاہے، اب تمہارے لئے وقت کم ہے اپنی منافقانہ روش سے بازآجاؤ،توبہ کرکے دنیاوآخرت کی سعادت حاصل کرو اور اگرمنہ پھیروگے تو اللہ اس دنیامیں  بھی اورآخرت میں  بھی تمہیں  ذلیل و رسوا کرنے والاناقابل برداشت عذاب دے گا،اور وہاں  تمہاراکوئی حمائتی،مددگار یاسفارشی نہیں  ہوگاجوتمہیں  اس سے نجات دلاسکے۔

وَمِنْهُم مَّنْ عَاهَدَ اللَّهَ لَئِنْ آتَانَا مِن فَضْلِهِ لَنَصَّدَّقَنَّ وَلَنَكُونَنَّ مِنَ الصَّالِحِینَ ‎﴿٧٥﴾‏ فَلَمَّا آتَاهُم مِّن فَضْلِهِ بَخِلُوا بِهِ وَتَوَلَّوا وَّهُم مُّعْرِضُونَ ‎﴿٧٦﴾‏ فَأَعْقَبَهُمْ نِفَاقًا فِی قُلُوبِهِمْ إِلَىٰ یَوْمِ یَلْقَوْنَهُ بِمَا أَخْلَفُوا اللَّهَ مَا وَعَدُوهُ وَبِمَا كَانُوا یَكْذِبُونَ ‎﴿٧٧﴾‏ أَلَمْ یَعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ یَعْلَمُ سِرَّهُمْ وَنَجْوَاهُمْ وَأَنَّ اللَّهَ عَلَّامُ الْغُیُوبِ ‎﴿٧٨﴾‏ الَّذِینَ یَلْمِزُونَ الْمُطَّوِّعِینَ مِنَ الْمُؤْمِنِینَ فِی الصَّدَقَاتِ وَالَّذِینَ لَا یَجِدُونَ إِلَّا جُهْدَهُمْ فَیَسْخَرُونَ مِنْهُمْ ۙ سَخِرَ اللَّهُ مِنْهُمْ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِیمٌ ‎﴿٧٩﴾‏(التوبة)
ان میں  وہ بھی ہیں  جنہوں  نے اللہ سے عہد کیا تھا کہ اگر وہ اپنے فضل سے مال دے گا تو ہم ضرور صدقہ و خیرات کریں  گے اور آپکی طرح نیکوکاروں  میں  ہوجائیں  گے، لیکن جب اللہ نے اپنے فضل سے انہیں  دیا تو یہ اس میں  بخیلی کرنے لگےاور ٹال مٹول کر کے منہ موڑ لیا، پس اس کی سزا میں  اللہ نے ان کے دلوں  میں  نفاق ڈال دیا اللہ سے ملنے کے دنوں  تک،کیونکہ انہوں  نے اللہ سے کئے ہوئے وعدے کے خلاف کیا اور کیونکہ وہ جھوٹ بولتے رہے، کیا وہ نہیں  جانتے کہ اللہ تعالیٰ کو ان کے دل کا بھید اور ان کی سرگوشی سب معلوم ہے اور اللہ تعالیٰ غیب کی تمام باتوں  سے خبردار ہے ،جو لوگ ان مسلمانوں  پر طعنہ زنی کرتے ہیں  جو دل کھول کر خیرات کرتے ہیں  اور ان لوگوں  پر جنہیں  سوائے اپنی محنت مزدوری کے اور کچھ میسر ہی نہیں  ، پس یہ ان کا مذاق اڑاتے ہیں  اللہ بھی ان سے تمسخر کرتا ہے انہی کے لیے دردناک عذاب ہے۔

اللہ تعالیٰ نے منافقین کی محسن کشی پرملامت فرمائی کہ ان منافقین میں  ایسے لوگ بھی ہیں  جنہوں  نے عہدکیاتھاکہ اگراللہ تعالیٰ ہمیں  دنیامیں  کشادگی پیدافرمادے گا،توہم صلہ رحمی ومہمان نوازی کریں  گے،اورراہ حق میں  لوگوں  کی مددکریں  گے،مگرجب اللہ تعالیٰ نے اپنافضل وکرم کردیاتو بخل کیااور اطاعت سے منہ موڑگئے، انہوں  نے اپنی بات میں  جھوٹ بولا،عہدکرکے بدعہدی کی اوروعدہ کرکے پورانہ کیا،چنانچہ اللہ نے سزاکے طورپرقیامت تک ان کے دلوں  میں  نفاق ڈال دیا،

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:آیَةُ المُنَافِقِ ثَلاَثٌ: إِذَا حَدَّثَ كَذَبَ، وَإِذَا وَعَدَ أَخْلَفَ، وَإِذَا اؤْتُمِنَ خَانَ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایامنافق کی تین نشانیاں  ہیں  جب بات کرے توجھوٹ بولے،جب عہدکرے توبدعہدی سے کام لے، اورجب اس کو امین بنایاجائے توخیانت کرے۔[9]

وَقَدْ ذَكَرَ كَثِیرٌ مِنَ الْمُفَسِّرِینَ، مِنْهُمُ ابْنُ عَبَّاسٍ، وَالْحَسَنُ الْبَصْرِیُّ: أَنَّ سَبَبَ نُزُولِ هَذِهِ الْآیَةِ الْكَرِیمَةِ فِی ثَعْلَبَةَ بْنِ حَاطِبٍ الْأَنْصَارِیِّ، أَنَّهُ قَالَ لِرَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: ادع الله أن یرزقنی مَالًا، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:وَیْحَكَ یَا ثَعْلَبَةُ قَلِیلٌ تُؤَدِّی شُكْرَهُ خَیْرٌ مِنْ كَثِیرٍ لَا تُطِیقُهُ،قَالَ: ثُمَّ قَالَ مَرَّةً أُخْرَى، فَقَالَ:أَمَا تَرْضَى أَنْ تَكُونَ مِثْلَ نَبِیِّ اللهِ، فَوَالَّذِی نَفْسِی بِیَدِهِ لَوْ شِئْتُ أَنْ تَسِیرَ مَعِیَ الْجِبَالُ ذَهَبًا وَفِضَّةً لَسَارَتْ،قَالَ: وَالَّذِی بَعَثَكَ بِالْحَقِّ لَئِنْ دَعَوْتَ اللهَ فَرَزَقَنِی مَالًا لَأُعْطِیَنَّ كُلَّ ذِی حَقٍّ حَقَّهُ ،فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:اللهُمَّ ارْزُقْ ثَعْلَبَةَ مَالًا،اللهُمَّ ارْزُقْ ثَعْلَبَةَ مَالًا، اللهُمَّ ارْزُقْ ثَعْلَبَةَ مَالًا

اس سلسلہ میں  مفسرین کی ایک کثیرتعدادنے جن میں  عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما اورحسن بصری رحمہ اللہ شامل ہیں  کہاہے کہ یہ آیت کریمہ ثعلبہ بن حاطب انصاری کے بارے میں  نازل ہوئی،وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں  حاضرہوااوردرخواست کی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم میرے لئے مالداری کی دعافرمائیں  ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے ثعلبہ !تجھ پرافسوس تھوڑامال جس کا شکراداہواس مال سے بہت اچھاہے جواپنی طاقت سے زیادہ ہو،اس نے دوبارہ درخواست کی توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھرسمجھایاکہ تو اپنا حال اللہ کے نبی جیسارکھناپسندنہیں  کرتا؟واللہ اگرمیں  چاہتاتوپہاڑسونے چاندی کے بن کرمیرے ساتھ چلتے،اس نے کہا اللہ کی قسم جس نے آپ کوحق کے ساتھ بھیجاہے میراارادہ ہے کہ اگراللہ تعالیٰ نے اپنے فضل وکرم سے مجھے نواز دیاتومیں  اللہ کے راستے میں  بڑھ چڑھ کر صدقہ کروں  گا،صلہ رحمی کروں  گااورراہ حق میں  خرچ کروں  گا،چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے لیے دعافرمائی اے اللہ!ثعلبہ کے مال میں  برکت عطا فرما ، اے اللہ!ثعلبہ کے مال میں  برکت عطافرما، اے اللہ!ثعلبہ کے مال میں  برکت عطافرما۔

قَالَ: فَاتَّخَذَ غَنَمًا، فَنَمَتْ كَمَا یَنْمُو الدُّودُ، فَضَاقَتْ عَلَیْهِ الْمَدِینَةُ ، فَتَنَحَّى عَنْهَا، فَنَزَلَ وَادِیًا مِنْ أَوْدِیَتِهَا، حَتَّى جَعَلَ یُصَلِّی الظُّهْرَ وَالْعَصْرَ فِی جَمَاعَةٍ، وَیَتْرُكَ مَا سِوَاهُمَا،ثُمَّ نَمَتْ وكَثُرت، فَتَنَحَّى حَتَّى تَرَكَ الصَّلَوَاتِ إِلَّا الْجُمُعَةَ،وَهِیَ تَنْمُو كَمَا یَنْمُو الدُّودُ، حَتَّى تَرَكَ الْجُمُعَةَ. فَطَفِقَ یَتَلَقَّى الرُّكْبَانَ یَوْمَ الْجُمُعَةِ، یَسْأَلُهُمْ عَنِ الْأَخْبَارِ

آپ کی دعاکی برکت سے اس شخص کی بکریوں  کے ریوڑ میں  اس طرح زیادتی شروع ہوئی جیسے کیڑے بڑھ رہے ہوں  یہاں  تک کہ مدینہ منورہ اس کے جانوروں  کے لیے تنگ ہوگیاتویہ ایک وادی میں  نکل گیا یہاں  تک کہ وہ نمازپنجگانہ میں  سے نمازظہروعصرمیں  حاضرہوتاتھا لیکن باقی نمازیں  جماعت سے نہیں  ملتی تھیں  ،پھراس کے ریوڑمیں  اوراضافہ ہوااورپھراوردورچلاگیا،یہاں  تک کہ وہ صرف جمعہ کی نمازمیں  حاضرہوتاتھا،جب بکریاں  بہت زیادہ ہوگئیں  تووہ اور دور چلا گیا اوراس نے جماعت اورجمعہ دونوں  میں  حاضرہونابندکردیا،اورآنے جانے والوں  سے پوچھ لیاکرتاتھاکہ جمعہ کے دن کیابیان ہوا؟

فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:مَا فَعَلَ ثَعْلَبَةُ؟فَقَالُوا: یَا رَسُولَ اللهِ، اتَّخَذَ غَنَمًا فَضَاقَتْ عَلَیْهِ الْمَدِینَةُ. فَأَخْبَرُوهُ بِأَمْرِهِ ،فَقَالَ:یَا وَیْحَ ثَعْلَبَةَ، یَا وَیْحَ ثَعْلَبَةَ، یَا وَیْحَ ثَعْلَبَةَ، فَبَعَثَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ رَجُلَیْنِ عَلَى الصَّدَقَةِ: رَجُلًا مِنْ جُهَیْنَة، وَرَجُلًا مِنْ سُلَیْمٍ، وَكَتَبَ لَهُمَا كَیْفَ یَأْخُذَانِ الصَّدَقَةَ مِنَ الْمُسْلِمِینَ وَقَالَ لَهُمَا:مُرا بِثَعْلَبَةَ، وَبِفُلَانٍ رَجُلٌ مِنْ بَنِی سُلَیْمٍ فَخُذَا صَدَقَاتِهِمَا

جب وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کونظرنہ آیا توآپ نے اس کے بارے میں  پوچھاکہ ثعلبہ کہاں  چلاگیا؟صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا اس کاریوڑاس قدربڑھ گیاکہ وہ مدینہ منورہ سے باہرچلاگیااوراس کے حال کے بارے میں  آگاہ کیاگیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین مرتبہ فرمایااے ثعلبہ تجھ پرافسوس، اے ثعلبہ تجھ پرافسوس ،اے ثعلبہ تجھ پرافسوس،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دواشخاص کوجن میں  ایک قبیلہ جھینہ اوردوسراقبیلہ سلیم سے تھا تحصیلدار بناکراس کے گھر صدقات کی وصولی کے لئے بھیجا اورانہیں  فرمایا ثعلبہ کے اورفلاں  شخص کے پاس جاؤاورصدقہ وصول کرکے آؤ،

فَخَرَجَا حَتَّى أَتَیَا ثَعْلَبَةَ، فَسَأَلَاهُ الصَّدَقَةَ، وَأَقْرَآهُ كِتَابَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَ: مَا هَذِهِ إِلَّا جِزْیَةٌ. مَا هَذِهِ إِلَّا أُخْتُ الْجِزْیَةِ، مَا أَدْرِی مَا هَذَا انْطَلِقَا حَتَّى تفرُغا ثُمَّ عُودا إِلَیَّ ،فَانْطَلَقَا وَسَمِعَ بِهِمَا السُّلَمِیُّ، فَنَظَرَ إِلَى خِیَارِ أَسْنَانِ إِبِلِهِ، فَعَزْلَهَا لِلصَّدَقَةِ، ثُمَّ اسْتَقْبَلَهُمَا بِهَا فَلَمَّا رَأَوْهَا قَالُوا: مَا یَجِبُ عَلَیْكَ هَذَا، وَمَا نُرِیدُ أَنْ نَأْخُذَ هَذَا مِنْكَ. قَالَ: بَلَى، فَخُذُوهَا، فَإِنَّ نَفْسِی بِذَلِكَ طَیِّبَةٌ، وَإِنَّمَا هِیَ لَهُ. فَأَخَذُوهَا مِنْهُ.

وہ لوگ ثعلبہ کے پاس پہنچے اورآپ کافرمان دکھاکرصدقہ طلب کیا،ثعلبہ نے کہایہ توجزیہ ہے جیسے کفارسے لیاجاتاہے ، یہ توجزیہ کی بہن ہے،یہ کیابات ہے ،اچھاابھی توجاؤلوٹتے ہوئے آنا،دوسراشخص سلمی جب اسے معلوم ہواتواس نے اپنے بہترین جانور نکالے اورانہیں  لے کرخودہی آگے بڑھا،انہوں  نے ان جانوروں  کودیکھ کرکہانہ تویہ ہمارے لینے کے لیے لائق اورنہ تجھ پران کادیناواجب ،اس نے کہامیں  تواپنی خوشی سے ہی بہترین جانوردیناچاہتاہوں  آپ لوگ انہیں  قبول فرمائیں  ، بالآخرانہوں  نے وہ جانورلے لیے،

فَلَمَّا فَرَغَا مِنْ صَدَقَاتِهِمَا رَجَعَا حَتَّى مَرَّا بِثَعْلَبَةَ، فَقَالَ: أَرُونِی كِتَابَكُمَا فَنَظَرَ فِیهِ، فَقَالَ: مَا هَذِهِ إِلَّا أُخْتُ الْجِزْیَةِ، انْطَلِقَا حَتَّى أَرَى رَأْیِی ،فَانْطَلَقَا حَتَّى أَتَیَا النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَلَمَّا رَآهُمَا قَالَ:یَا وَیْحَ ثَعْلَبَةَ قَبْلَ أَنْ یُكَلِّمَهُمَا، وَدَعَا لِلسُّلَمِیِّ بِالْبَرَكَةِ، فَأَخْبَرَاهُ بِالَّذِی صَنَعَ ثَعْلَبَةُ وَالَّذِی صَنَعَ السُّلَمِیُّ ،فَأَنْزَلَ اللهُ، عَزَّ وَجَلَّ:وَمِنْهُمْ مَنْ عَاهَدَ اللهَ لَئِنْ آتَانَا مِنْ فَضْلِهِ لَنَصَّدَّقَنَّ

زکوٰة کے عامل لوٹتے ہوئے پھرثعلبہ کے پاس آئے،اس نے کہامجھے وہ پرچہ توپڑھاؤجوتمہیں  دیاگیاہے پڑھ کرکہنے لگایہ توصاف صاف جزیئے کی بہن ہے،اچھاتم جاؤمیں  اس بارے میں  سوچ لوں  ،یہ لوگ واپس ہوئے اورنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچے جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں  دیکھاتوان سے بات کرنے سے قبل فرمایاافسوس ثعلبہ کے لیے ہلاکت ہے! اورسلمی کے لیے برکت کی دعافرمائی ،اب انہوں  نے بھی ثعلبہ اورسلمی دونوں  کاواقعہ کہہ سنایا،پس اللہ عزوجل نے یہ آیات وَمِنْهُمْ مَنْ عَاهَدَ اللهَ لَئِنْ آتَانَا مِنْ فَضْلِهِ لَنَصَّدَّقَنَّ نازل فرمائیں  ،

قَالَ: وَعِنْدَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ رَجُلٌ مِنْ أَقَارِبِ ثَعْلَبَةَ، فَسَمِعَ ذَلِكَ، فَخَرَجَ حَتَّى أَتَاهُ فَقَالَ: وَیْحَكَ یَا ثَعْلَبَةُ. قَدْ أَنْزَلَ اللهُ فِیكَ كَذَا وَكَذَا. فَخَرَجَ ثَعْلَبَةُ حَتَّى أَتَى النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَسَأَلَهُ أَنْ یَقْبَلَ مِنْهُ صَدَقَتَهُ، فَقَالَ:إِنَّ اللهَ مَنَعَنِی أَنْ أَقْبَلَ مِنْكَ صَدَقَتَكَ،فَجَعَلَ یَحْثُو عَلَى رَأْسِهِ التُّرَابَ ،فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:[هَذَا] عَمَلُكَ، قَدْ أَمَرْتُكَ فَلَمْ تُطِعْنِی

جب اس کے بارے اوراس جیسے دیگر لوگوں  کے بارے میں  یہ آیت نازل ہوئی تواس کے گھروالوں  میں  سے کوئی شخص اس کے پاس گیااوراس آیت کے بارے میں  آگاہ کیا،چنانچہ زکوٰة لے کررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں  حاضرہوا اوردرخواست کی کہ اس کاصدقہ قبول کیاجائے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااللہ نے مجھے تیراصدقہ قبول کرنے سے منع فرمادیاہے، یہ سن کروہ اپنے سرپرخاک ڈالنے لگا،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے فرمایایہ سب توتیراہی کیادھراہے، میں  نے توتمہیں  سمجھایا تھالیکن اس وقت تم نے میری بات نہ مانی،

فَلَمَّا أَبَى أَنْ یَقْبِضَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ رَجَعَ إِلَى مَنْزِلِهِ، فقُبِض رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَلَمْ یَقْبَلْ مِنْهُ شَیْئًا. ثُمَّ أَتَى أَبَا بَكْرٍ، رَضِیَ اللهُ عَنْهُ، حِینَ اسْتُخْلِفَ، فَقَالَ: قَدْ عَلِمْتَ مَنْزِلَتِی مِنْ رَسُولِ اللهِ، وَمَوْضِعِی مِنَ الْأَنْصَارِ، فَاقْبَلْ صَدَقَتِی ،فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ: لَمْ یَقْبَلْهَا مِنْكَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، وَأَبَى أَنْ یَقْبَلَهَا، فَقُبِضَ أَبُو بَكْرٍ وَلَمْ یَقْبَلْهَا

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے انتقال تک اس کی کوئی چیزقبول نہیں  کی ،پھریہ خلافت سیدنا ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ میں  ان کے پاس آیااورکہنے لگامیری جوعزت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھی اورمیراجومرتبہ انصارمیں  ہےاس سے آپ خوب واقف ہیں  آپ میراصدقہ قبول فرمائیں  ،سیدناابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایاجب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تیراصدقہ قبول نہیں  فرمایاتومیں  کیسے قبول کرسکتاہوں  ؟الغرض انہوں  نے بھی صدقہ قبول کرنے سے انکارکردیاسیدناابوبکر رضی اللہ عنہ فوت ہوگئے مگراپنے دورخلافت میں  انہوں  نے اس کاصدقہ قبول نہیں  کیا،

فَلَمَّا وَلِی عُمَرُ، رَضِیَ اللهُ عَنْهُ، أَتَاهُ فَقَالَ: یَا أَمِیرَ الْمُؤْمِنِینَ، اقْبَلْ صَدَقَتِی ،فَقَالَ: لَمْ یَقْبَلْهَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَلَا أَبُو بَكْرٍ، وَأَنَا أَقْبَلُهَا مِنْكَ! فَقُبِضَ وَلَمْ یَقْبَلْهَا،ثُمَّ وَلِیَ عُثْمَانُ، رَضِیَ اللهُ عَنْهُ، [فَأَتَاهُ] فَسَأَلَهُ أَنْ یَقْبَلَ صَدَقَتَهُ، فَقَالَ: لَمْ یَقْبَلْهَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَلَا أَبُو بَكْرٍ وَلَا عُمَرُ، وَأَنَا أَقْبَلُهَا مِنْكَ! فَلَمْ یَقْبَلْهَا مِنْهُ، وَهَلَكَ ثَعْلَبَةُ فِی خِلَافَةِ عُثْمَانَ

جب امیرالمومنین سیدناعمر رضی اللہ عنہ بن خطاب مسلمانوں  کے امیرمقررہوئے تویہ پھر ان کے پاس آیااورکہاامیرالمومنین آپ میراصدقہ قبول فرمائیں  ،انہوں  نے جواب دیاجب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تیراصدقہ قبول نہیں  فرمایا،اورخلیفہ اول سیدناابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ نے بھی قبول نہیں  کیا،تواب میں  کیسے تیراصدقہ قبول کرسکتاہوں  ؟چنانچہ انہوں  نے بھی اپنے دورخلافت میں  اس کاصدقہ قبول نہیں  فرمایا،پھرخلافت سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے سپردہوئی تویہ ان کے پاس آیااورکہاکہ اس کاصدقہ قبول کیاجائےانہوں  نے کہاجب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اورخلیفہ اول سیدناابوبکرصدیق اورخلیفہ دوئم سیدناعمرفاروق رضی اللہ عنہ نے تیراصدقہ قبول نہیں  کیاتومیں  کیسے قبول کرسکتاہوں  ،اور وہ سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے عہدخلافت میں  فوت ہوگیا۔[10]

ثعلبہ کا یہ واقعہ بہت سے مفسرین نے ذکرکیاہے لیکن اس کوامام ابن حزم رحمہ اللہ ، بیہقی رحمہ اللہ ، ہیثمی رحمہ اللہ ، عراقی رحمہ اللہ ،ابن حجر رحمہ اللہ ،سیوطی رحمہ اللہ اورامام مناوی رحمہ اللہ نے ضعیف قرار دیا ہے،اس روایت کی سندمیں  علی بن یزیدراوی متروک ہے۔[11]

معان بن رفاعة ،قاسم بن عبدالرحمان ضعیف اورعلی بن یزیدجو ابو عبد الملک الھانی تمام راوی ضعیف ہیں  ۔[12]

لیکن بظاہر کوئی اور ہے۔[13]

لَكِنَّهُ حَدِیثٌ ضَعِیفٌ لَا یحْتَج بِهِ

یہ حدیث ضعیف اور ناقابل حجت ہے[14]

یكذبون الحدیث

سارے رواة جھوٹے ہیں  ۔[15]

بیہقی رحمہ اللہ نے اس کو متن کے اعتبارسے بھی ضعیف قرار دیا ہے۔[16]

کیاان لوگوں  کومعلوم نہیں  کہ اللہ جوعلام الغیوب ہے وہ ان کے دلوں  کے پوشیدہ رازاورسازشوں  کاعلم رکھتاہے،وہ ان دولت مندبخیل منافقین کواچھی طرح جانتاہے جو بررضاورغبت دل کھول کرخیرات کرنے والے مسلمانوں  پر عیب جوئی اورطعن کرتے تھے کہ وہ صرف ریاء اور شہرت کی خاطراپنامال خرچ کرتے ہیں  ، اورکم حیثیت مسلمانوں  سے جو کارخیرمیں  شامل ہونے کے لئے اپنی محنت ومشقت سے کمائی ہوئی مزدوری لاکرحاضرخدمت کر دیتے ہیں  تمسخراڑاتے ہوئے کہتے اللہ تعالیٰ ان کے صدقات سے بے نیاز ہے،اللہ نے ان کے تمسخرکے مقابلے میں  ان سے تمسخرکیاہے اوران کے لئے المناک عذاب ہے۔

اسْتَغْفِرْ لَهُمْ أَوْ لَا تَسْتَغْفِرْ لَهُمْ إِن تَسْتَغْفِرْ لَهُمْ سَبْعِینَ مَرَّةً فَلَن یَغْفِرَ اللَّهُ لَهُمْ ۚ ذَٰلِكَ بِأَنَّهُمْ كَفَرُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ ۗ وَاللَّهُ لَا یَهْدِی الْقَوْمَ الْفَاسِقِینَ ‎﴿٨٠﴾(التوبة)
ان کے لیے تو استغفار کر یا نہ کر، اگر تو ستر مرتبہ بھی ان کے لیے استغفار کرے تو بھی اللہ انہیں  ہرگز نہ بخشے گایہ اس لیے کہ انہوں  نے اللہ سے اور اس کے رسول سے کفر کیا ہے ایسے فاسق لوگوں  کو رب کریم ہدایت نہیں  دیتا

اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم !آپ منافقین کے لئے بخشش مانگیں  یانہ مانگیں  اگرآپ ان آستین کے سانپوں  کے لئے سترمرتبہ بھی بخشش مانگیں  گے (سترمرتبہ کالفظ مبالغہ کے طور پر استعمال کیاگیاہے)یعنی آپ کتنی ہی کثرت سے ان کے لئے استغفارکرلیں  تب بھی اللہ ان کوہرگزنہیں  بخشے گا،اورعدم مغفرت کی علت بیان فرمائی کہ انہوں  نے اللہ اوراس کے رسول سے کفر کیا یعنی اللہ اوراس کے رسول کی اطاعت نہ کی ،اورکافرجب تک اپنے کفرپرقائم ہے اسے کوئی استغفارکام دے سکتاہے نہ کوئی نیک عمل،جن لوگوں  کاوصف فسق بن چکاہو،تواللہ ان کوسزاکے طورپرمطلوب ایمان کی توفیق سے محروم کردیتاہے۔

فَرِحَ الْمُخَلَّفُونَ بِمَقْعَدِهِمْ خِلَافَ رَسُولِ اللَّهِ وَكَرِهُوا أَن یُجَاهِدُوا بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنفُسِهِمْ فِی سَبِیلِ اللَّهِ وَقَالُوا لَا تَنفِرُوا فِی الْحَرِّ ۗ قُلْ نَارُ جَهَنَّمَ أَشَدُّ حَرًّا ۚ لَّوْ كَانُوا یَفْقَهُونَ ‎﴿٨١﴾‏ فَلْیَضْحَكُوا قَلِیلًا وَلْیَبْكُوا كَثِیرًا جَزَاءً بِمَا كَانُوا یَكْسِبُونَ ‎﴿٨٢﴾‏ فَإِن رَّجَعَكَ اللَّهُ إِلَىٰ طَائِفَةٍ مِّنْهُمْ فَاسْتَأْذَنُوكَ لِلْخُرُوجِ فَقُل لَّن تَخْرُجُوا مَعِیَ أَبَدًا وَلَن تُقَاتِلُوا مَعِیَ عَدُوًّا ۖ إِنَّكُمْ رَضِیتُم بِالْقُعُودِ أَوَّلَ مَرَّةٍ فَاقْعُدُوا مَعَ الْخَالِفِینَ ‎﴿٨٣﴾‏(التوبة)
پیچھے رہ جانے والے لوگ رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے جانے کے بعد اپنے بیٹھے رہنے پر خوش ہیں  ، انہوں  نے اللہ کی راہ میں  اپنے مال اور اپنی جانوں  سے جہاد کرنا ناپسند رکھا اور انہوں  نے کہہ دیا اس گرمی میں  مت نکلو، کہہ دیجئے کہ دوزخ کی آگ بہت ہی سخت گرم ہے کاش کہ وہ سمجھتے ہوتے ، پس انہیں  چاہیے کہ بہت کم ہنسیں  اور بہت زیادہ روئیں  بدلے میں  اس کے جو یہ کرتے تھے، پس اگر اللہ تعالیٰ آپ کو ان کی کسی جماعت کی طرف لوٹا کر واپس لے آئے پھر یہ آپ سے میدان جنگ میں  نکلنے کی اجازت طلب کریں  تو آپ کہہ دیجئے کہ تم میرے ساتھ ہرگز چل نہیں  سکتے اور نہ میرے ساتھ تم دشمنوں  سے لڑائی کرسکتے ہو،تم نے پہلی مرتبہ ہی بیٹھ رہنے کو پسند کیا تھا پس تم پیچھے رہ جانے والوں  میں  ہی بیٹھے رہو ۔

منافقین جن کاایک جرم تواللہ کے حکم کی خلاف ورزی تھی ،ان کادوسراجرم جھوٹے عذرات پیش کرکے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت سے کنارہ کشی کی تھی ،ان کاتیسراجرم مسلمانوں  کی بھی حوصلہ شکنی کی کوشش کی تھی، اوروہ یہ کہہ کران کاحوصلہ پست کرنے کی کوشش کررہے تھے کہ اس شدیدگرمی میں  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سفرجہادکرنے کے بجائے گھروں  میں  بیٹھے رہو ، انہوں  نے حق وباطل کی اس کشمکش میں  اللہ کی راہ میں  مال وجان سے جہادکرکے اللہ کی رضاوخوشنودی حاصل نہ کی تھی،انہوں  نے دنیاکی مختصرسی عارضی سکون کوابدی راحت پرترجیح دی تھی، ان کے بارے میں  فرمایاکہ وہ معصیت کے اس فعل پرخوش اورفخرمحسوس کرتے ہیں  اگرانہیں  علم ہوتاکہ جہنم کی آگ کی گرمی کے مقابلے میں  دنیاکی گرمی کوئی حیثیت نہیں  رکھتی، تووہ اپنے جان ومال کواللہ کی راہ میں  قربان کرنے پرتل جاتے اور کبھی پیچھے نہ رہتے ،

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:نَارُكُمْ جُزْءٌ مِنْ سَبْعِینَ جُزْءًا مِنْ نَارِ جَهَنَّمَ، قِیلَ یَا رَسُولَ اللَّهِ إِنْ كَانَتْ لَكَافِیَةً قَالَ:فُضِّلَتْ عَلَیْهِنَّ بِتِسْعَةٍ وَسِتِّینَ جُزْءًا كُلُّهُنَّ مِثْلُ حَرِّهَا

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاتمہاری( دنیاکی) آگ جہنم کی آگ کے مقابلے میں  (اپنی گرمی اورہلاکت خیزی میں  )سترواں  حصہ ہے،کسی نے پوچھااے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !(کفاراورگنہگاروں  کے عذاب کے لیے تو)یہ ہماری دنیاکی آگ بھی بہت تھی،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایادنیاکی آگ کے مقابلے میں  جہنم کی آگ انہترگنابڑھ کرہے۔[17]

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: أُوقِدَ عَلَى النَّارِ أَلْفَ سَنَةٍ حَتَّى احْمَرَّتْ، ثُمَّ أُوقِدَ عَلَیْهَا أَلْفَ سَنَةٍ حَتَّى ابْیَضَّتْ، ثُمَّ أُوقِدَ عَلَیْهَا أَلْفَ سَنَةٍ حَتَّى اسْوَدَّتْ فَهِیَ سَوْدَاءُ مُظْلِمَةٌ.

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ایک ہزارسال تک آتش دوزخ دھونکی گئی تو سرخ ہوگئی، پھر ایک ہزارتک جلائی گئی توسفیدہوگئی، پھرایک ہزارسال تک دھونکی گئی توسیاہ ہوگئی، پس وہ اندھیری رات جیسی سخت سیاہ ہے۔[18]

عَنِ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِیرٍ، قَالَ: سَمِعْتُ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَقُولُ:إِنَّ أَهْوَنَ أَهْلِ النَّارِ عَذَابًا یَوْمَ القِیَامَةِ رَجُلٌ، عَلَى أَخْمَصِ قَدَمَیْهِ جَمْرَتَانِ، یَغْلِی مِنْهُمَا دِمَاغُهُ كَمَا یَغْلِی المِرْجَلُ وَالقُمْقُمُ

نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے میں  نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کوفرماتے ہوئے سناکہ سب سے ہلکے عذاب والادوزخ میں  وہ ہوگاجس کے دونوں  پاؤں  میں  دوجوتیاں  آگ کی تسمے سمیت ہوں  گی جس کی گرمی سے اس کی کھوپڑی ابل رہی ہوگی، اوروہ سمجھ رہاہوگاکہ سب سے زیادہ عذاب اسی کوہورہاہے حالانکہ سب سے ہلکاعذاب اس کا ہوگا۔ [19]

اللہ تعالیٰ نے جہنم کی آگ کے بارے میں  متعددمقامات پرفرمایا

كَلَّا۝۰ۭ اِنَّهَا لَظٰى۝۱۵ۙنَزَّاعَةً لِّلشَّوٰى۝۱۶ۚۖ [20]

ترجمہ:ہرگز نہیں  ، وہ تو بھڑکتی ہوئی آگ کی لپٹ ہوگی جو منہ اور سر کی کھال کھینچ لانے والی ہے۔

۔۔۔یُصَبُّ مِنْ فَوْقِ رُءُوْسِهِمُ الْحَمِیْمُ۝۱۹ۚیُصْهَرُ بِهٖ مَا فِیْ بُطُوْنِهِمْ وَالْجُلُوْدُ۝۲۰ۭوَلَهُمْ مَّقَامِعُ مِنْ حَدِیْدٍ۝۲۱كُلَّمَآ اَرَادُوْٓا اَنْ یَّخْرُجُوْا مِنْهَا مِنْ غَمٍّ اُعِیْدُوْا فِیْهَا۝۰ۤ وَذُوْقُوْا عَذَابَ الْحَرِیْقِ۝۲۲ [21]

ترجمہ: ان کے سروں  پر کھولتا ہوا پانی ڈالا جائے گا جس سے ان کی کھالیں  ہی نہیں  پیٹ کے اندر کے حصے تک گل جائیں  گےاور ان کی خبر لینے کے لیے لوہے کے گرز ہوں  گے،جب کبھی وہ گھبرا کر جہنم سے نکلنے کی کوشش کریں  گے پھر اسی میں  دھکیل دیے جائیں  گے کہ چکھو اب جلنے کی سزا کا مزہ۔

اِنَّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا بِاٰیٰتِنَا سَوْفَ نُصْلِیْهِمْ نَارًا۝۰ۭ كُلَّمَا نَضِجَتْ جُلُوْدُھُمْ بَدَّلْنٰھُمْ جُلُوْدًا غَیْرَھَا لِیَذُوْقُوا الْعَذَابَ۝۰ۭ اِنَّ اللهَ كَانَ عَزِیْزًا حَكِــیْمًا۝۵۶ [22]

ترجمہ:جن لوگوں  نے ہماری آیات کو ماننے سے انکار کر دیا ہے انہیں  بالیقین ہم آگ میں  جھونکیں  گے اور جب ان کے بدن کی کھال گل جائے گی تو اس کی جگہ دوسری کھال پیدا کر دیں  گے تاکہ وہ خوب عذاب کا مزا چکھیں  ، اللہ بڑی قدرت رکھتا ہے اور اپنے فیصلوں  کو عمل میں  لانے کی حکمت خوب جانتا ہے۔اللهُمَّ احْفَظْنَامنھا

ایک عربی شاعر کہتاہے۔

عُمرُكَ بالحمیَة أفْنَیْتَه ، مَخَافَةَ الْبَارِدِ والحَار …

تونے اپنی عمرسردی گرمی سے بچنے کی کوشش میں  گزاردی

وَكانَ أولَى بِكَ أنْ تَتقی ، مِنَ المعَاصِی حَذرَ النَّار …

حالانکہ تجھے لائق تھاکہ اللہ کی نافرمانیوں  سے بچتاکہ جہنم کی آگ سے بچ جائے۔

پھراللہ تعالیٰ نے تنبیہ فرمائی کہ اس مختصرسی زندگی میں  تم لوگ جتناچاہئے فائدہ اٹھا لو،اس کی لذتوں  سے فرحت حاصل کرلو،اس کے بعد اس کے بعدآنے والی ابدی زندگی کے دردناک عذاب میں  روناہی روناہے ، یہ اس کابدلہ ہے جووہ کماتے تھے،

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَوْلُهُ:فَلْیَضْحَكُوا قَلِیلا، قَالَ: الدُّنْیَا قَلِیلٌ،فَلْیَضْحَكُوا فِیهَا مَا شَاءُوا وَلْیَبْكُوا كَثِیرًا فَإِذَا انْقَطَعَتِ الدُّنْیَا وَصَارُوا إِلَى اللهِ،اسْتَأْنَفُوا بُكَاءً لَا یَنْقَطِعُ أَبَدًا

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے آیت’’اب چاہیے کہ یہ لوگ ہنسناکم کریں  اورروئیں  زیادہ۔‘‘کے بارے میں  روایت ہے دنیاکی زندگی بہت قلیل ہے، یہ اس میں  جس قدرچاہیں  ہنس لیں  ، جب دنیاختم ہوجائے گی اوریہ اللہ تعالیٰ کے پاس پہنچیں  گے توانہیں  اس قدرروناپڑے گاجوکبھی ختم نہ ہوگا۔[23]

عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَقُولُ:یَا أَیُّهَا النَّاسُ، ابْكُوا، فَإِنْ لَمْ تَبْكُوا فَتَبَاكَوْا، فَإِنَّ أَهْلَ النَّارِ یَبْكُونَ حَتَّى تَسِیلَ دُمُوعُهُمْ فِی وُجُوهِهِمْ كَأَنَّهَا جَدَاوِلُ، حَتَّى تَنْقَطِعَ الدُّمُوعُ فَتَسِیلَ الدِّمَاءُ فَتَقَرَّحُ الْعُیُونُ. فَلَوْ أَنَّ سُفُنًا أُزْجِیَتْ فِیهَا لَجرَت.

انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے میں  نےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوفرماتے ہوئے سناکہ اےلوگو!روؤ،اوررونانہ آئے توزبردستی روؤ،جہنمی روئیں  گے یہاں  تک کہ ان کے رخساروں  پرنہروں  جیسے گڑھے پڑ جائیں  گے، آخر آنسو ختم ہوجائیں  گے اب آنکھیں  خون برسانے لگیں  گی،ان کی آنکھوں  سے اس قدرآنسواورخون بہاہوگاکہ اگرکوئی اس میں  کشتیاں  چلانی چاہے توچلاسکتاہے۔[24]

وَأَضْعَفُ مَنْ فِیهِ یَزِیدُ الرَّقَاشِیُّ، وَقَدْ وُثِّقَ عَلَى ضَعْفِهِ

اس روایت میں  یزیدالرقاشی ضعیف راوی ہےاور اس کے ضعیف ہونے پر پورا وثوق واعتماد ہے۔[25]

اور جب اللہ تعالیٰ آپ کو سلامتی کے ساتھ واپس مدینہ پہنچادے، اوران میں  سے کوئی جماعت آپ سے کسی اورغزوے میں  جس میں  وہ سہولت دیکھیں  اورآپ کے ساتھ چلنے کی خواہش ظاہر کرے، توان کے غم وحسرت میں  اضافہ کے لئے صاف کہہ دیناکہ نہ توتم مجاہدین کے ساتھ چل سکتے ہواورنہ ہی میری ہمراہی میں  دشمنوں  سے جنگ کر سکتے ہو،اللہ نے مجھے تم سے بے نیازکردیاہے،جیسے عمرہ حدیبیہ کے بارے میں  فرمایا

سَیَقُوْلُ الْمُخَلَّفُوْنَ اِذَا انْطَلَقْتُمْ اِلٰى مَغَانِمَ لِتَاْخُذُوْہَا ذَرُوْنَا نَتَّبِعْكُمْ۝۰ۚ یُرِیْدُوْنَ اَنْ یُّبَدِّلُوْا كَلٰمَ اللہِ۝۰ۭ قُلْ لَّنْ تَتَّبِعُوْنَا كَذٰلِكُمْ قَالَ اللہُ مِنْ قَبْلُ۝۰ۚ فَسَیَقُوْلُوْنَ بَلْ تَحْسُدُوْنَنَا۝۰ۭ بَلْ كَانُوْا لَا یَفْقَہُوْنَ اِلَّا قَلِیْلًا۝۱۵ [26]

ترجمہ:جب تم مال غنیمت حاصل کرنے کے لیے جانے لگو گے تو یہ پیچھے چھوڑے جانے والے لوگ تم سے ضرور کہیں  گے کہ ہمیں  بھی اپنے ساتھ چلنے دو، یہ چاہتے ہیں  کہ اللہ کے فرمان کو بدل دیں  ، ان سے صاف کہہ دینا کہ تم ہرگز ہمارے ساتھ نہیں  چل سکتے اللہ پہلے ہی یہ فرما چکا ہے، یہ کہیں  گے کہ نہیں  بلکہ تم لوگ ہم سے حسد کر رہے ہو (حالانکہ بات حسد کی نہیں  ہے) بلکہ یہ لوگ صحیح بات کو کم ہی سمجھتے ہیں  ۔

جب تم حق وباطل کی کشمکش میں  پہلی مرتبہ ہی گھربیٹھنے پرراضی رہے تواب تم اس لائق نہیں  کہ تمہیں  کسی بھی معرکہ میں  ساتھ لے جایاجائے ،اب عورتوں  ،بچوں  ، بوڑھوں  اورمعذوروں  کی طرح گھروں  میں  بیٹھے رہو۔

وَإِذَا أُنزِلَتْ سُورَةٌ أَنْ آمِنُوا بِاللَّهِ وَجَاهِدُوا مَعَ رَسُولِهِ اسْتَأْذَنَكَ أُولُو الطَّوْلِ مِنْهُمْ وَقَالُوا ذَرْنَا نَكُن مَّعَ الْقَاعِدِینَ ‎﴿٨٦﴾رَضُوا بِأَن یَكُونُوا مَعَ الْخَوَالِفِ وَطُبِعَ عَلَىٰ قُلُوبِهِمْ فَهُمْ لَا یَفْقَهُونَ ‎﴿٨٧﴾‏ لَٰكِنِ الرَّسُولُ وَالَّذِینَ آمَنُوا مَعَهُ جَاهَدُوا بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنفُسِهِمْ ۚ وَأُولَٰئِكَ لَهُمُ الْخَیْرَاتُ ۖ وَأُولَٰئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ ‎﴿٨٨﴾‏ أَعَدَّ اللَّهُ لَهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِی مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِینَ فِیهَا ۚ ذَٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِیمُ ‎﴿٨٩﴾‏(التوبة)
جب کوئی سورت اتاری جاتی ہے کہ اللہ پر ایمان لاؤ اور اس کے رسول کے ساتھ مل کر جہاد کروتو ان میں  سے دولت مندوں  کا ایک طبقہ آپ کے پاس آکر یہ کہہ کر رخصت لے لیتا ہے کہ ہمیں  تو بیٹھے رہنے والوں  میں  ہی چھوڑ دیجئے ،یہ تو خانہ نشین عورتوں  کا ساتھ دینے پر ریجھ گئے اور ان کے دلوں  پر مہر لگا دی گئی اب وہ کچھ سمجھ عقل نہیں  رکھتے، لیکن خود رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) اور اس کے ساتھ کے ایمان والے اپنے مالوں  اور جانوں  سے جہاد کرتے ہیں  ، یہی لوگ بھلائیوں  والے ہیں  اور یہی لوگ کامیابی حاصل کرنے والے ہیں  ،انہی کے لیے اللہ نے وہ جنتیں  تیار کی ہیں  جن کے نیچے نہریں  جاری ہیں  جن میں  یہ ہمیشہ رہنے والے ہیں  ، یہی بہت بڑی کامیابی ہے۔

اوراللہ جب کوئی ایسی سورت نازل فرماتاہے جس میں  ان کوجہادفی سبیل اللہ کاحکم دیاگیاہو،توآپ نے ان صاحب حیثیت اورصحت مند لوگوں  کوجن کواللہ نے مال اور بیٹوں  سے نوازرکھاہے دیکھاکہ اللہ کاشکرکرنے کے بجائے جہادسے کنارہ کشی کرنے کے لئے آپ سے حیلے تراش کر رخصت کی درخواستیں  کرنے لگے کہ ہم ان عورتوں  ، بچوں  اور بوڑھوں  کے ساتھ رہیں  گے جوجہادکے لئے نہیں  نکلے،چونکہ انہوں  نے اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے کے بجائے چوڑیاں  پہن کر عورتوں  میں  بیٹھناپسندکیا،اس لئے اللہ تعالیٰ نے ان کے اس عمل کی وجہ سے ان کےدلوں  پر مہر لگادی ہے، اس لئے اب وہ سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سے عاری ہوگئے ہیں  ،اب وہ اپنے مفادکونہیں  سمجھتے ،اس کے مقابل اہل ایمان کاوہ گروہ ہیں  جونیکی کے کاموں  میں  بڑھ چڑھ کرحصہ لیتے ہیں  ، جنہوں  نے اللہ اوررسول کی آوازپرلبیک کہا،ہرراحت وآرام کوچھوڑکر اپنی جان ومال سے جہادفی سبیل اللہ میں  شرکت کی، یہی لوگ ہیں  جو دنیاوآخرت میں  رب کی طرف سے بے شمارراحتیں  ،نعمتیں  اوررب کی رضاپانے والے ہے،اللہ نے ان کے لئے ان لوگوں  کے لئے بھر پور لازوال نعمتوں  ،ابدی راحتوں  سے مزین جنتیں  تیارکررکھی ہیں  جس میں  وہ ہمیشہ ہمیشہ رہیں  گے، اوراگریہ سمجھیں  تویہی عظیم الشان کامیابی ہے۔

وَجَاءَ الْمُعَذِّرُونَ مِنَ الْأَعْرَابِ لِیُؤْذَنَ لَهُمْ وَقَعَدَ الَّذِینَ كَذَبُوا اللَّهَ وَرَسُولَهُ ۚ سَیُصِیبُ الَّذِینَ كَفَرُوا مِنْهُمْ عَذَابٌ أَلِیمٌ ‎﴿٩٠﴾(التوبة)
بادیہ نشینوں  میں  سے عذر والے لوگ حاضر ہوئے کہ انہیں  رخصت دے دی جائےاور وہ بیٹھ رہے جنہوں  نے اللہ سے اور اس کے رسول سے جھوٹی باتیں  بنائی تھیں  ، اب تو ان میں  جتنے کفار ہیں  انہیں  دکھ دینے والی مار پہنچ کر رہے گی ۔

اہل مدینہ منورہ کے منافقوں  کے علاوہ بنوغفارکے بادیہ نشینوں  نے بھی اللہ تعالیٰ اوراس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے ایمان کاجھوٹادعویٰ کیاتھامگرمشکل کی اس گھڑی میں  جہادفی سبیل اللہ پرجانے کے بجائے پیچھے رہ جانے کے لئے جھوٹے حیلے بہانے پیش کیے تھے،ان کے علاوہ کئی لوگ ایسے بھی تھے جنہوں  نے حاضرخدمت ہوکر معذرت کرنے کی بھی پروہ نہیں  کی تھی اورگھروں  میں  دبکے رہے انہیں  دنیاوآخرت میں  المناک عذاب سے نوازاجائے گا۔

لَّیْسَ عَلَى الضُّعَفَاءِ وَلَا عَلَى الْمَرْضَىٰ وَلَا عَلَى الَّذِینَ لَا یَجِدُونَ مَا یُنفِقُونَ حَرَجٌ إِذَا نَصَحُوا لِلَّهِ وَرَسُولِهِ ۚ مَا عَلَى الْمُحْسِنِینَ مِن سَبِیلٍ ۚ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَّحِیمٌ ‎﴿٩١﴾‏ وَلَا عَلَى الَّذِینَ إِذَا مَا أَتَوْكَ لِتَحْمِلَهُمْ قُلْتَ لَا أَجِدُ مَا أَحْمِلُكُمْ عَلَیْهِ تَوَلَّوا وَّأَعْیُنُهُمْ تَفِیضُ مِنَ الدَّمْعِ حَزَنًا أَلَّا یَجِدُوا مَا یُنفِقُونَ ‎﴿٩٢﴾‏ ۞ إِنَّمَا السَّبِیلُ عَلَى الَّذِینَ یَسْتَأْذِنُونَكَ وَهُمْ أَغْنِیَاءُ ۚ رَضُوا بِأَن یَكُونُوا مَعَ الْخَوَالِفِ وَطَبَعَ اللَّهُ عَلَىٰ قُلُوبِهِمْ فَهُمْ لَا یَعْلَمُونَ ‎﴿٩٣﴾‏(التوبة)
ضعیفوں  پر اور بیماروں  پر اور ان پر جن کے پاس خرچ کرنے کو کچھ بھی نہیں  کوئی حرج نہیں  بشرطیکہ وہ اللہ اور اس کے رسول کی خیر خواہی کرتے رہیں  ، ایسے نیک کاروں  پر الزام کی کوئی راہ نہیں  ، اللہ تعالیٰ بڑی مغفرت اور رحمت والا ہے ،ہاں  ان پر بھی کوئی حرج نہیں  جو آپ کے پاس آتے ہیں  کہ آپ انہیں  سواری مہیا کردیں  تو آپ جواب دیتے ہیں  کہ میں  تمہاری سواری کے لیے کچھ بھی نہیں  پاتا تو وہ رنج و غم سے اپنی آنکھوں  سے آنسو بہاتے ہوئے لوٹ جاتے ہیں  کہ انہیں  خرچ کرنے کے لیے کچھ بھی میسر نہیں  ، بیشک انہیں  لوگوں  پر راہ الزام ہے جو باوجود دولت مند ہونے کے آپ سے اجازت طلب کرتے ہیں  ،یہ خانہ نشین عورتوں  کا ساتھ دینے پر خوش ہیں  اور ان کے دلوں  پر مہر خداوندی لگ چکی ہےجس سے وہ محض بےعلم ہوگئے ہیں  ۔

ہاں  وہ لوگ جودشمن سے لڑنے کی طاقت وقوت نہیں  رکھتے ،اوربیمارومعذوراوروہ صادق الایمان لوگ جن کاجہادکاعزم توہو، مگر ان کے پاس زادراہ نہ ہوپیچھے رہ جائیں  ، توان پراعتراض کی کوئی بات نہیں  ،یہ اللہ کی وسیع مغفرت اوربے پایاں  رحمت ہی ہے کہ اس نے ایسے لوگوں  کومعاف فرمادیا، اوران کی نیت کے مطابق ان کوقدرت رکھنے والوں  کے برابرثواب عطاکرتاہے،

عَنِ الْأَوْزَاعِیِّ:خَرَجَ النَّاسُ إِلَى الِاسْتِسْقَاءِ ، فَقَامَ فِیهِنَّ بِلَالُ بْنُ سَعْدٍ فَحَمِدَ اللهَ وَأَثْنَى عَلَیْهِ ثُمَّ قَالَ: یَا مَعْشَرُ مَنْ حَضَرَ أَلَسْتُمْ مُقِرِّینَ بِالْإِسَاءَةِ؟قَالُوا: اللهُمَّ نَعَمْ ، قَالَ: اللهُمَّ إِنَّا نَسْمَعُكَ تَقُولُ: {مَا عَلَى الْمُحْسِنِینَ مِنْ سَبِیلٍ}وَقَدْ أَقْرَرْنَا بِالْإِسَاءَةِ فَاغْفِرْ لَنَاوَارْحَمْنَا وَاسْقِنَا، وَرَفَعَ یَدَیْهِ وَرَفَعُوا أَیْدِیَهُمْ فَسُقُوا

امام اوزاعی رحمہ اللہ نے لکھاہے لوگ نمازاستسقاکے لیے نکلے،توان میں  بلال بن سعدکھڑے ہوئے،انہوں  نے اللہ تعالیٰ کی حمدوثنابیان کی،اورفرمایااے حاضرین!کیاتم اپنے گناہوں  کااقرارنہیں  کرتے ہو؟ انہوں  نے کہااے اللہ! ہم اقرارکرتے ہیں  ،انہوں  نے کہااے اللہ!ہم نے سناکہ تونے فرمایاایسے محسنین پراعتراض کی کوئی گنجائش نہیں  ہے،اے اللہ!ہم اپنے گناہوں  کااقرارکرتے ہیں  ،توہمیں  معاف فرمادے ،ہمارے حال پررحم فرمااورہمیں  بارش عطافرما،انہوں  نے دعاکے لیے ہاتھ اٹھادیے، لوگوں  نے بھی ہاتھ اٹھادیے ،تواللہ تعالیٰ نے ان کی دعاکوشرف قبولیت سے نوازتے ہوئے باران رحمت عطافرمادی۔[27]

اورنہ ان لوگوں  پرکوئی حرج ہے جواپنی کم مائیگی کے باعث آپ کے پاس جہادپرجانے کے لئے سواری کی درخواست کرنے آئے، اورآپ نے ان سے فرمایامیں  کوئی ایسی چیزنہیں  پاتاکہ میں  تم کواس پرسوارکراؤں  ، تووہ اس حزن و غم میں  کہ وہ خرچ کرنے کوکچھ نہیں  پاتے،بے بسی سے آنکھوں  سے آنسوبہاتے لوٹ گئے،

عَنْ مُجَاهِدٍ:{وَلَا عَلَى الَّذِینَ إِذَا مَا أَتَوْكَ لِتَحْمِلَهُمْ قُلْتَ لَا أَجِدُ مَا أَحْمِلُكُمْ عَلَیْهِ}قَالَ: هُمْ مِنْ مُزَیْنَةَ

مجاہد رحمہ اللہ نے آیت’’اسی طرح ان لوگوں  پر بھی کوئی اعتراض کا موقع نہیں  ہے جنہوں  نے خود آکر تم سے درخواست کی تھی کہ ہمارے لیے سواریاں  بہم پہنچائی جائیں  اور جب تم نے کہا کہ میں  تمہارے لیے سواریوں  کا انتظام نہیں  کرسکتا ۔‘‘کے بارے میں  کہا یہ آیت مزینہ کے بنی مقرن(قبیلے)کے بارے میں  نازل ہوئی ہے۔[28]

عَنِ الْحَسَنِ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ لَقَدْ خَلَّفْتُمْ بِالْمَدِینَةِ أَقْوَامًا مَا أَنْفَقْتُمْ مِنْ نَفَقَةٍ وَلا قَطَعْتُمْ وَادِیًا وَلا نِلْتُمْ مِنْ عَدُوٍّ نَیْلا، إِلا وَقَدْ شَارَكوُكُمْ فِی الأَجْرِ ثُمَّ قَرَأَ وَلا عَلَى الَّذِینَ إِذَا مَا أَتَوْكَ لِتَحْمِلَهُمْ قُلْتَ لا أَجِدُ الآیَةَ

حسن بصری رحمہ اللہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایابلاشبہ تم نے مدینہ میں  کچھ ایسے لوگوں  کواپنے پیچھے چھوڑاکہ تم نے جوبھی خرچ کیاجس وادی کوبھی طے کیایادشمن کی طرف سے جوتکلیف اٹھائی،وہ تمہارے ساتھ اجروثواب میں  شریک ہیں  ،پھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کریمہ’’ اسی طرح ان لوگوں  پربھی کوئی اعتراض کاموقع نہیں  ہے جنہوں  نے خودآکرتم سے درخواست کی تھی کہ ہمارے لئے سواریاں  بہم پہنچائی جائیں  اورجب تم نے کہاکہ میں  تمہارے لئے سواریوں  کا انتظام نہیں  کرسکتا تووہ مجبوراًواپس گئے اورحال یہ تھاکہ ان کی آنکھوں  سے آنسوجاری تھے اورانہیں  اس بات کابڑارنج تھاکہ وہ اپنے خرچ پرشریک جہاد ہونے کی مقدرت نہیں  رکھتے۔‘‘کی تلاوت فرمائی۔[29]

عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ رَجَعَ مِنْ غَزْوَةِ تَبُوكَ فَدَنَا مِنَ المَدِینَةِ، فَقَالَ:إِنَّ بِالْمَدِینَةِ أَقْوَامًا، مَا سِرْتُمْ مَسِیرًا، وَلاَ قَطَعْتُمْ وَادِیًا إِلَّا كَانُوا مَعَكُمْ، قَالُوا: یَا رَسُولَ اللَّهِ، وَهُمْ بِالْمَدِینَةِ؟ قَالَ:وَهُمْ بِالْمَدِینَةِ، حَبَسَهُمُ العُذْرُ

انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہےجب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غزوہ تبوک سے واپس ہوئے اورمدینہ منورہ کے قریب پہنچےتوآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایابے شک مدینہ میں  کچھ ایسے لوگ بھی ہیں  جہاں  بھی تم چلے اورجس وادی کوبھی تم نے قطع کیاوہ(اپنے دل سے)تمہارے ساتھ ساتھ تھے، صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کی اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !اگرچہ ان کاقیام اس وقت بھی مدینہ میں  ہی رہاہو؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاہاں  وہ مدینہ میں  رہتے ہوئے بھی(اپنے دل سے تمہارے ساتھ تھے)وہ کسی عذرکی وجہ سے رک گئے تھے۔[30]

گناہ اورملامت توان لوگوں  پرہے جوصاحب حیثیت ہیں  اورجہاد فی سبیل اللہ پرجانے کے لئے قادرہیں  ،پھربھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت طلب کرتے ہیں  ،وہ اپنے دین اوراپنی ذات کے بارے میں  خوش ہیں  کہ وہ عورتوں  اوربچوں  کے ساتھ گھروں  میں  رہیں  ،یہ اس وجہ سے تھاکہ اللہ نے ان کے دلوں  پرمہرلگادی ہے اس لئے ان کے اندرکوئی بھلائی داخل نہیں  ہوسکتی،وہ لوگ نہیں  جانتے کہ یہ اس گناہ کی سزاہے جس کاانہوں  نے ارتکاب کیاہے۔

یَعْتَذِرُونَ إِلَیْكُمْ إِذَا رَجَعْتُمْ إِلَیْهِمْ ۚ قُل لَّا تَعْتَذِرُوا لَن نُّؤْمِنَ لَكُمْ قَدْ نَبَّأَنَا اللَّهُ مِنْ أَخْبَارِكُمْ ۚ وَسَیَرَى اللَّهُ عَمَلَكُمْ وَرَسُولُهُ ثُمَّ تُرَدُّونَ إِلَىٰ عَالِمِ الْغَیْبِ وَالشَّهَادَةِ فَیُنَبِّئُكُم بِمَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ ‎﴿٩٤﴾‏ سَیَحْلِفُونَ بِاللَّهِ لَكُمْ إِذَا انقَلَبْتُمْ إِلَیْهِمْ لِتُعْرِضُوا عَنْهُمْ ۖ فَأَعْرِضُوا عَنْهُمْ ۖ إِنَّهُمْ رِجْسٌ ۖ وَمَأْوَاهُمْ جَهَنَّمُ جَزَاءً بِمَا كَانُوا یَكْسِبُونَ ‎﴿٩٥﴾‏ یَحْلِفُونَ لَكُمْ لِتَرْضَوْا عَنْهُمْ ۖ فَإِن تَرْضَوْا عَنْهُمْ فَإِنَّ اللَّهَ لَا یَرْضَىٰ عَنِ الْقَوْمِ الْفَاسِقِینَ ‎﴿٩٦﴾(التوبة)
یہ لوگ تمہارے سامنے عذر پیش کریں  گے جب تم ان کے پاس واپس جاؤ گے، آپ کہہ دیجئے کہ یہ عذر پیش مت کرو ہم کبھی تم کو سچا نہ سمجھیں  گے،اللہ تعالیٰ ہم کو تمہاری خبر دے چکا ہے اور آئندہ بھی اللہ اور اس کا رسول تمہاری کارگزاری پھر وہ تم کو بتادے گا جو کچھ تم کرتے تھے، ہاں  وہ اب تمہارے سامنے اللہ کی قسمیں  کھاجائیں  گے جب تم ان کے پاس واپس جاؤ گے تاکہ تم ان کو ان کی حالت پر چھوڑ دو سو تم ان کو ان کی حالت پر چھوڑ دو ،وہ لوگ بالکل گندے ہیں  اور ان کا ٹھکانا دوزخ ہے ان کاموں  کے بدلے جنہیں  وہ کیا کرتے تھے، یہ اس لیے قسمیں  کھائیں  گے کہ تم ان سے راضی ہوجاؤ      سو اگر تم ان سے راضی بھی ہوجاؤ تو اللہ تو ایسے فاسق لوگوں  سے راضی نہیں  ہوتا ۔‘‘

اس غزوہ کے بعدجب آپ ان کے پاس لوٹیں  گے تویہ منافقین آپ کے پاس معذرت کرنے کے لیے آئیں  گے مگرآپ ان سے صاف صاف کہہ دیں  اب معذرت پیش کرنے کاکوئی فائدہ نہیں  ، اللہ تعالیٰ جواپنے قول میں  سچاہے نے ہمیں  تمہارے حالات سے خبردارکردیاہے ،ہم تمہاری جھوٹی معذرتوں  کی تصدیق نہیں  کریں  گے،کیونکہ عمل صداقت کی میزان ہے،دعوی ایمان کے لیے ثبوت بھی چاہیے، لہذااب ہم تمہارے آئندہ اعمال دیکھیں  گے کہ تم اپنے قول وفعل میں  سچے ہویاجھوٹے،پھرایک وقت مقرر پر تم اللہ مالک یوم الدین کے پاس لوٹائے جاؤگے جوظاہراورپوشیدہ کاجاننے والاہے، اس وقت تمہارے اعمال نامے تمہارے ہاتھوں  میں  تھمادئیے جائیں  گے، اور تمہارے اعمالوں  کاوزن کیا جائے گا،جس کے نیک اعمال زیادہ ہوں  گے وہ جنت کی لازوال ابدی نعمتوں  سے فیض یاب ہوگا،اورجس کے برے عمل زیادہ ہوں  گے وہ جہنم کا حقدارگرداناجائے گا، جس میں  وہ نہ جی سکے گااورنہ موت ہی آئے گی ،جیسے فرمایا

اِنَّہٗ مَنْ یَّاْتِ رَبَّہٗ مُجْرِمًا فَاِنَّ لَہٗ جَہَنَّمَ۝۰ۭ لَا یَمُوْتُ فِیْہَا وَلَا یَحْیٰی۝۷۴ [31]

ترجمہ:حقیقت یہ ہے کہ جو مجرم بن کر اپنے رب کے حضور حاضر ہوگا اس کے لیے جہنم ہے جس میں  وہ نہ جیے گا نہ مرے گا۔

جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان لوگوں  کی طرف واپس آؤگے تویہ آپ کے سامنے قسمیں  کھائیں  گے تاکہ آپ ان سے درگزکریں  ،وہ ناپاک اورخبیث ہیں  اور اس قابل نہیں  کہ ان کی پرواہ کی جائے لہذاآپ ان سے کوئی تعلق واسطہ نہ رکھیں  ، ان کے کرتوتوں  کی پاداش میں  ان کاٹھکانہ جہنم ہے، یہ آپ کوراضی کرنے کے لئے قسمیں  کھائیں  گے تاکہ آپ ان سے کوئی تعرض نہ کریں  ،اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم !اگرآپ ان سے راضی ہوبھی جائیں  تو اللہ مالک یوم الدین ایسے نافرمان لوگوں  سے کبھی راضی نہ ہوگاجن کاایمان معتبرنہ ہو،جواللہ اوراس کے رسول کے اطاعت گزارنہ ہوں  ۔

‏ الْأَعْرَابُ أَشَدُّ كُفْرًا وَنِفَاقًا وَأَجْدَرُ أَلَّا یَعْلَمُوا حُدُودَ مَا أَنزَلَ اللَّهُ عَلَىٰ رَسُولِهِ ۗ وَاللَّهُ عَلِیمٌ حَكِیمٌ ‎﴿٩٧﴾‏ وَمِنَ الْأَعْرَابِ مَن یَتَّخِذُ مَا یُنفِقُ مَغْرَمًا وَیَتَرَبَّصُ بِكُمُ الدَّوَائِرَ ۚ عَلَیْهِمْ دَائِرَةُ السَّوْءِ ۗ وَاللَّهُ سَمِیعٌ عَلِیمٌ ‎﴿٩٨﴾‏ وَمِنَ الْأَعْرَابِ مَن یُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ وَیَتَّخِذُ مَا یُنفِقُ قُرُبَاتٍ عِندَ اللَّهِ وَصَلَوَاتِ الرَّسُولِ ۚ أَلَا إِنَّهَا قُرْبَةٌ لَّهُمْ ۚ سَیُدْخِلُهُمُ اللَّهُ فِی رَحْمَتِهِ ۗ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَّحِیمٌ ‎﴿٩٩﴾‏(التوبة)
دیہاتی لوگ کفر اور نفاق میں  بھی بہت ہی سخت ہیں  اور ان کو ایسا ہونا چاہیے کہ ان کو ان احکام کا علم نہ ہو جو اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول پر نازل فرمائے ہیں  اور اللہ بڑا علم والا بڑی حکمت والا ہے، اور ان دیہاتیوں  میں  سے بعض ایسے ہیں  کہ جو کچھ خرچ کرتے ہیں  اس کو جرمانہ سمجھتے ہیں  اور تم مسلمانوں  کے واسطے برے وقت کے منتظر رہتے ہیں  ،برا وقت ان ہی پر پڑنے والا ہے اور اللہ سننے والا جاننے والا ہے، اور بعض اہل دیہات میں  ایسے بھی ہیں  جو اللہ تعالیٰ پر اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتے ہیں  اور جو کچھ خرچ کرتے ہیں  اس کو عنداللہ قرب حاصل ہونے کا ذریعہ اور رسول اللہ کی دعا کا ذریعہ بناتے ہیں  ، اد رکھو کہ ان کا یہ خرچ کرنا بیشک ان کے لیے موجب قربت ہےان کو اللہ تعالیٰ ضرور اپنی رحمت میں  داخل کرے گا اللہ تعالیٰ بڑی مغفرت والا بڑی رحمت والا ہے۔

صحرانشین بدومدینہ منورہ میں  ایک منظم طاقت کواٹھتے دیکھ کرپہلے تومرعوب ہوئےپھرحق وباطل کی کشمکش میں  ایک مدت تک موقع شناسی اورابن الوقتی کی روش پرگامزن رہے، مگر جب اسلامی ریاست کااقتدارعرب کے ایک بڑے حصے پرچھاگیااورمخالف قبائل کازورٹوٹنے لگاتومصلحت کے تحت دائرہ اسلام میں  داخل تو ہوگئےمگرانہیں  نماز روزے کی پابندی ،زکوٰة کی ادائیگی ،اسلامی نظم وضبط ،جہادفی سبیل اللہ کے لئے جان ومال کی قربانیاں  شدت سے ناگوارتھیں  اوران سے پیچھاچھڑانے کے لئے طرح طرح کی چالبازیاں  کرتے رہتے تھے ،ان میں  کچھ منافقین اسے تھے جواسلام کے اقتداروحکومت کے باعث مفادپرستانہ خواہشات کے تحت اسلام سے وابستہ ہوگئے لیکن مخالفین سے بھی اپناتعلق بددستورقائم رکھے ہوئے تھے تاکہ دونوں  طرف سے حسب موقع فوائدبھی حاصل کرسکیں  اوردونوں  طرف کے خطرات سے بھی محفوظ رہیں  ۔کچھ منافقین ایسے تھے جوذہنی طورپراسلام اورکفرکے درمیان مترددتھے نہ انہیں  اسلام کی حقانیت پرکاملامل اعتمادتھانہ وہ اپنی سابقہ کفریاجاہلیت پرمطمئن تھے وہ اورں  کے دیکھادیکھی مسلمان ہوگئے تھے لیکن اسلام ان کے اندرراسخ نہیں  ہواتھا۔کچھ منافقین ایسے تھے جواسلام کوتوحید،احکام الہی اوراخرت وغیرہ پرایمان لانے کی حدتک توتسلیم کرتے تھے لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی اوروفاداری سے گریزاں  تھے ، نہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت وسیادت دل سے ماننے کوتیارتھے اورنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حاکمیت وشفاعت،اس میں  وہ اپنی ہتک اورذلت محسوس کرتے تھے ،چنانچہ وہ تعلق نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے بغیرذات ربانی تک رسائی حاصل کرنے کے خواہاں  ےتھے۔کچھ منافقین ایسے تھے جواسلام کوحق سمجھتے ہوئے دل سے اس کے قائل توہوچکے تھے لیکن پرانے اوہام وعقائداوررسم ورواج کوچھوڑنے ،دینی اوراخلاقی پابندیوں  کوقبول کرنے اوراوامرونواہی کے نظام پرعمل پیراہونے کے لیے ان کانفس تیارنہیں  ہورہاتھا۔

ان ابن الوقت لوگوں  کے بارے میں  فرمایاکہ یہ صحرائی لوگ شہروالوں  کی نسبت کفرو نفاق میں  زیادہ سخت ہیں  کیونکہ شہری لوگ جن میں  لطافت طبع پائی جاتی ہے، مسلمانوں  کی صحبت میں  رہ کرکچھ دین کواوراس کی حدودکوجان جاتے ہیں  مگر بدوؤں  کواللہ اوررسول صلی اللہ علیہ وسلم کی باتیں  سننے کااتفاق نہیں  ہوتا، اس لئے ان کااصول ایمان اوراوامرونواہی سے ناواقف رہنے کے امکانات زیادہ ہیں  (سیدناابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کے عہدخلافت میں  منع زکوٰة کاجوفتنہ برپاہواتھااس کاسب سے بڑاسبب یہی تھاکہ انہیں  دین کی کچھ سمجھ نہ تھی)

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:مَنْ سَكَنَ الْبَادِیَةَ، جَفَا، وَمَنِ اتَّبَعَ الصَّیْدَ، غَفَلَ، وَمَنْ أَتَى السُّلْطَانَ، افْتَتَنَ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجوجنگل میں  سکونت اختیارکرے گاوہ سخت دل ہوجائے گا،اورجوشکارکے پیچھے لگے گاوہ غافل ہوجائے گا، جوبادشاہ کے پاس جائے گاوہ فتنے میں  مبتلاہوجائے گا۔[32]

اللہ حکمت والااورداناہے وہ سب کچھ جانتا ہے ، بدوؤں  کی پہلی قسم کے بارے میں  فرمایاکیونکہ بدوؤں  میں  لطافت طبع نہیں  ہوتی،ان کے اخلاق وکردارمیں  درشتی اورکھردراپن پایاجاتاہے ،بعض احادیث سے بھی ان کے کردارپرروشی پڑتی ہے،

عَنْ عَائِشَةَ، رَضِیَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ: جَاءَ أَعْرَابِیٌّ إِلَى النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: تُقَبِّلُونَ الصِّبْیَانَ؟ فَمَا نُقَبِّلُهُمْ، فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:أَوَأَمْلِكُ لَكَ أَنْ نَزَعَ اللَّهُ مِنْ قَلْبِكَ الرَّحْمَةَ،

ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہےایک موقع پرکچھ اعرابی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں  حاضر ہوئے اورانہوں  نے پوچھاکیاتم اپنے بچوں  کوبوسہ دیتے ہو؟صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیاہاں  ،انہوں  نے کہااللہ کی قسم !ہم توبوسہ نہیں  دیتے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سن کرفرمایااگراللہ نے تمہارے دلوں  سے رحم وشفقت کا جذبہ نکال دیاہے تومیرااس میں  کیااختیارہے۔[33]

وہ مال ومتاع کے زیادہ حریص ہوتے ہیں  اورمال کے بارے میں  ان میں  زیادہ بخل پایاجاتاہے،

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ، أَنَّ أَعْرَابِیًّا أَهْدَى لِرَسُولِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بَكْرَةً فَعَوَّضَهُ مِنْهَا سِتَّ بَكَرَاتٍ فَتَسَخَّطَهَا، فَبَلَغَ ذَلِكَ النَّبِیَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَحَمِدَ اللَّهَ وَأَثْنَى عَلَیْهِ ثُمَّ قَالَ: إِنَّ فُلاَنًا أَهْدَى إِلَیَّ نَاقَةً فَعَوَّضْتُهُ مِنْهَا سِتَّ بَكَرَاتٍ فَظَلَّ سَاخِطًا، لَقَدْ هَمَمْتُ أَنْ لاَ أَقْبَلَ هَدِیَّةً إِلاَّ مِنْ قُرَشِیٍّ أَوْ أَنْصَارِیٍّ أَوْ ثَقَفِیٍّ أَوْ دَوْسِیٍّ.

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ایک اعرابی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوایک اونٹنی ہدیہ میں  پیش کی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے عوض اسے چھ اونٹنیاں  عنایت فرمائیں  پھربھی وہ خفارہا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کویہ خبرپہنچی توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کی حمدوثناکی اور فرمایاکہ فلاں  شخص نے مجھے ایک اونٹنی دی ہے اورمیں  نے اس کے بدلے اسے چھ اونٹنیاں  دی ہیں  جب بھی وہ خفاہے، تواب میں  نے قصدکیاہے کہ سوائے قریشی، انصاری ،ثقفی یادوسی کے(کیونکہ یہ چاروں  مکہ مکرمہ ،طائف،مدینہ منورہ اوریمن کے شہروں  میں  رہنے والے تھے) کسی کاتحفہ قبول نہ کروں  گا۔[34]

اس کے علاوہ انہوں  نے خلوص نیت سے نہیں  بلکہ باحالت مجبوری اسلام قبول کیا ہے، اس لئے جب ان سے جہادفی سبیل اللہ کے لئے کچھ طلب کیا جاتا ہے،یاان پرمسافروں  کی ضیافت ومہمانداری کاحق عائدکیاجاتاہے، یازکوٰة وصول کی جاتی ہے، تویہ اسے دلی جذبہ سے اللہ کی رضاکی خاطرنہیں  بلکہ بادل ناخواستہ ناحق کاتاوان اوراپناصریح نقصان سمجھ کراداکرتے ہیں  ،دراصل وہ توآپ صلی اللہ علیہ وسلم اورمسلمانوں  کے حق میں  مصائب زمانہ کے منتظرہیں  کہ آپ اور مسلمان کب کسی حوادث وآفات میں  گرفتارہوجائیں  تووہ اس دین کی اطاعت کاقلاوہ اتار پھینکیں  مگران کی حسرتیں  ان کے دلوں  میں  ہی دم توڑدیں  گی اوریہ گردش ایام الٹاانہی کواپنی لپیٹ میں  لے لے گی یعنی یہ اس کے زیادہ مستحق ہیں  ،اللہ علم رکھنے والا اور حکمت والاہے وہ بندوں  کی نیتوں  کوخوب جانتاہے،ان بدوؤں  کی دوسری قسم بیان فرمائی کہ ان بدوؤں  میں  محدود چند ہی ایسے لوگ بھی ہیں  جنہوں  نے خلوص نیت سے دین اسلام قبول کیاہے، اس لئے فرمایاتمام اعراب قابل مذمت نہیں  ہیں  بلکہ ان میں  کچھ ایسے لوگ بھی ہیں  جن کواللہ نے شہرسے دوررہنے کے باوجوداللہ وحدہ لاشریک اوریوم آخرت پرایمان لانے کی توفیق عطافرمائی ہے اوروہ ایمان کے تقاضوں  کے مطابق عمل کرتے ہیں  ،وہ اللہ کی راہ میں  خرچ کردہ مال کوجرمانہ سمجھنے کے بجائے اللہ کی رضاوخوشنودی اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے رحمت وبرکت کی دعائیں  لینے کاذریعہ سمجھتے ہیں  اور اس پرثواب کی امیدرکھتے ہیں  ،اللہ تعالیٰ نے خوشخبری دی کہ بیشک یہ صدقات اللہ کے تقرب کاذریعہ ہیں  اوراللہ ان لوگوں  کواپنے جملہ نیک بندوں  میں  شامل کرے گا،بیشک اللہ بخشنے والااورمہربان ہے جوکوئی توبہ کرتاہے اللہ اس کے بڑے بڑے گناہوں  کوبخش دیتاہے اوراس پراپنی رحمت نازل فرماتاہے۔

وَالسَّابِقُونَ الْأَوَّلُونَ مِنَ الْمُهَاجِرِینَ وَالْأَنصَارِ وَالَّذِینَ اتَّبَعُوهُم بِإِحْسَانٍ رَّضِیَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ وَأَعَدَّ لَهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِی تَحْتَهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِینَ فِیهَا أَبَدًا ۚ ذَٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِیمُ ‎﴿١٠٠﴾‏(التوبہ)
اور جو مہاجرین اور انصار سابق اور مقدم ہیں  اور جتنے لوگ اخلاص کے ساتھ ان کے پیرو ہیں  اللہ ان سب سے راضی ہوا اور وه سب اس سے راضی ہوئے اور اللہ نے ان کے لیے ایسے باغ مہیا کر رکھے ہیں  جن میں  وہ ہمیشہ رہیں  گے ،یہ بڑی کامیابی ہے۔

اوروہ مہاجرین جواسلام کی خاطراللہ اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم پراپناسب کچھ چھوڑکرمکہ مکرمہ اوردیگرعلاقوں  سے ہجرت کرکے مدینہ منوہ آگئے ، دوسرے انصارجومدینہ میں  رہائش پذیرتھے انہوں  نے ہرموقع پررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدداورحفاظت کی ،مہاجرین کی بھی خوب پذیرائی وتواضع کی اوراپناسب کچھ ان کی خدمت میں  پیش کردیا ، ان میں  سے وہ لوگ جنہوں  نے ایمان،ہجرت،جہاداوراقامت دین میں  سبقت کی اس کی تعریف میں  اختلاف ہے،

وَقَالَ أَبُو مُوسَى الْأَشْعَرِیُّ، وَسَعِیدُ بْنُ الْمُسَیَّبِ، وَمُحَمَّدُ بْنُ سِیرِینَ، وَالْحَسَنُ، وَقَتَادَةُ: هُمُ الَّذِینَ صَلَّوْا إِلَى الْقِبْلَتَیْنِ مَعَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ

ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ ،سعیدبن مسیب رضی اللہ عنہ ،محمدبن سیرین رحمہ اللہ ،الحسن رحمہ اللہ اورقتادہ رحمہ اللہ کے نزدیک سابقون اولون وہ ہیں  جنہوں  نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ دونوں  قبلوں  کی طرف نمازپڑھی تھی یعنی تحویل قبلہ سے پہلے مسلمان ہونے والے مہاجرین وانصار۔[35]

بعض کے نزدیک یہ اہل بدرہیں  ،

قَالَ الشَّعْبِیُّ: السَّابِقُونَ الْأَوَّلُونَ مِنَ الْمُهَاجِرِینَ وَالْأَنْصَارِ مَنْ أَدْرَكَ بَیْعَةَ الرِّضْوَانِ عَامَ الْحُدَیْبِیَةِ

شعبی رحمہ اللہ کہتے ہیں  ان سے مرادوہ مہاجروانصار ہیں  جوبیعت الرضوان میں  شامل تھے۔[36]

امام شوکانی کہتے ہیں  کہ یہ سارے ہی مرادہوسکتے ہیں  ،

اور تیسرے وہ لوگ (بعض کے نزدیک تابعین)جنہوں  نے عقائد،اقوال اوراعمال میں  ان مہاجرین وانصار کی پیروی کی،اللہ نے ان کی نیکیاں  قبول فرمالیں  اوران کی بشری لغزشوں  کومعاف فرمادیا، اوروہ اللہ مالک الملک سے راضی ہوگئے ،اللہ نے ان کے لئے ایسے گھنے سایوں  والے باغ تیارکیے ہیں  جن کے نیچے انواع واقسام کی نہریں  بہتی ہیں  اوروہ اس میں  ہمیشہ ہمیشہ رہیں  گے ،حقیقت میں  یہی سب سے بڑی کامیابی ہے جس کی طرف مسلمانوں  کو سبقت کرنے چاہیے،ایک ٹولے کاعقیدہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رحلت کے بعدپانچ کے علاوہ باقی سب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم (نَعُوذُ بِاللهِ) مرتد ہو گئے تھے حالانکہ اللہ علام الغیوب نے ان کے ایمان کوکسوٹی قراردیا،اوران کی شان میں  فرمایا

فَاِنْ اٰمَنُوْا بِمِثْلِ مَآ اٰمَنْتُمْ بِهٖ فَقَدِ اھْتَدَوْا۝۰ۚ وَاِنْ تَوَلَّوْا فَاِنَّمَا ھُمْ فِیْ شِقَاقٍ۝۰ۚ فَسَیَكْفِیْكَهُمُ اللهُ۝۰ۚ وَھُوَالسَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ۝۱۳۷ۭ [37]

ترجمہ:پھر اگر وہ اسی طرح ایمان لے آئیں  جس طرح تم ایمان لائے ہو توہدایت پرہیں  ، اور اگراس سے منہ پھریں  توکھلی بات ہے کہ وہ ہٹ دھرمی میں  پڑ گئے ہیں  لہذا اطمینان رکھوکہ ان کے مقابلے میں  اللہ تمہاری حمایت کے لیے کافی ہے وہ سب کچھ سنتا اور جانتا ہے۔

۔۔۔ اُولٰۗىِٕكَ كَتَبَ فِیْ قُلُوْبِهِمُ الْاِیْمَانَ وَاَیَّدَهُمْ بِرُوْحٍ مِّنْهُ۝۰ۭ وَیُدْخِلُهُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْهَا۝۰ۭ رَضِیَ اللهُ عَنْهُمْ وَرَضُوْا عَنْهُ۔۔۔۝۰۝۲۲ۧ [38]

ترجمہ: یہ وہ لوگ ہیں  جن کے دلوں  میں  اللہ نے ایمان ثبت کر دیا ہے اور اپنی طرف سے ایک رُوح عطا کر کے ان کو قوت بخشی ہے،وہ ان کو ایسی جنتوں  میں  داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں  بہتی ہوں  گی اِن میں  وہ ہمیشہ رہیں  گےاللہ ان سے راضی ہوا اور وہ اللہ سے راضی ہوئے۔

وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَهَاجَرُوْا وَجٰهَدُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللهِ وَالَّذِیْنَ اٰوَوْا وَّنَصَرُوْٓا اُولٰۗىِٕكَ هُمُ الْمُؤْمِنُوْنَ حَقًّا۝۰ۭ لَهُمْ مَّغْفِرَةٌ وَّرِزْقٌ كَرِیْمٌ۝۷۴ وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْۢ بَعْدُ وَهَاجَرُوْا وَجٰهَدُوْا مَعَكُمْ فَاُولٰۗىِٕكَ مِنْكُمْ ۔۔۔۝۰۝۷۵ۧ [39]

ترجمہ:جو لوگ ایمان لائے اور جنہوں  نے اللہ کی راہ میں  گھر بار چھوڑے اور جدوجہد کی اور جنہوں  نے پناہ دی اور مدد کی ،وہی سچے مومن ہیں  ان کے لیے خطاؤں  سے درگزر ہے اور بہترین رزق ہے،اور جو لوگ بعد میں  ایمان لائے اور ہجرت کر کے آ گئے، اور تمہارے ساتھ مل کر جدو جہد کرنے لگے وہ بھی تم ہی میں  شامل ہیں  ۔

عَنْ جَابِرٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:لَنْ یَدْخُلَ النَّارَ رَجُلٌ شَهِدَ بَدْرًا وَالْحُدَیْبِیَةَ

جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جوشخص غزوہ بدریاغزوہ حدیبیہ میں  شریک ہواوہ دوزخ میں  داخل نہ ہوگا۔[40]

عَنْ حَفْصَةَ، قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:إِنِّی لَأَرْجُو أَنْ لَا یَدْخُلَ النَّارَ، إِنْ شَاءَ اللَّهُ، أَحَدٌ شَهِدَ بَدْرًا، وَالْحُدَیْبِیَةَ

اورام المومنین حفصہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجوشخص غزوہ بدراورغزوہ حدیبیہ میں  شریک ہواوہ ان شاء اللہ دوزخ میں  داخل نہیں  ہوگا۔[41]

حَدِیثِ جَابِرٍ مَرْفُوعًا لَنْ یَدْخُلَ النَّارَ أَحَدٌ شَهِدَ بَدْرًا

جابر رضی اللہ عنہ سے مرفوعاًمروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجوشخص غزوہ بدرمیں  حاضرہواوہ ہرگزجہنم میں  نہ جائے گا۔[42]بدری صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بارے میں  اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے فرمایا

 ۔۔۔رَضِیَ اللهُ عَنْهُمْ وَرَضُوْا عَنْهُ۝۰ۭ ذٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ۝۱۱۹ [43]

ترجمہ:اللہ ان سے راضی ہوا اور وہ اللہ سے یہی بڑی کامیابی ہے۔

ایک صحابی خدمت اقدس میں  حاضرہوئے اورعرض کیااے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم !میرے چچاکابیٹامنافق ہوگیاہے کیاآپ کی اجازت ہے کہ میں  اس کی گردن اڑادوں  ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاوہ جنگ بدرمیں  شریک ہوئے ہیں  امیدہے کہ اللہ تعالیٰ اس کے جہادکوان کے گناہ کاکفارہ کردے گا،

ایک روایت میں  ہےتمہیں  کیامعلوم ہے کہ حق تعالیٰ نے اہل بدرکے انجام پرمطلع ہونے پرہی یہ فرمایاہے

اعْمَلُوا مَا شِئْتُمْ، فَقَدْ وَجَبَتْ لَكُمُ الجَنَّةُ

اے اہل بدرتم جوچاہوکرو تمہارے لئے جنت واجب ہوگئی۔[44]

یایہ فرمایا

أَوْ: فَقَدْ غَفَرْتُ لَكُمْ

میں  نے تمہاری مغفرت کردی ہے۔[45]

اگرتمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے مرتدہی ہوناتھاتواللہ علام الغیوب مہاجرین وانصار اورتابعین کوجنتوں  کی بشارت نہ دیتا،جب اللہ نے ان کی ساری لغزشیں  معاف فرمادیں  تواب تنقیص وتنقیدکے طورپران کی کوتاہیوں  کاتذکرہ کرناکسی مسلمان کی شان کے لائق نہیں  اوران سے عداوت اوربغض وعنادرضائے الٰہی سے محرومی کاباعث ہے۔

وَمِمَّنْ حَوْلَكُم مِّنَ الْأَعْرَابِ مُنَافِقُونَ ۖ وَمِنْ أَهْلِ الْمَدِینَةِ ۖ مَرَدُوا عَلَى النِّفَاقِ لَا تَعْلَمُهُمْ ۖ نَحْنُ نَعْلَمُهُمْ ۚ سَنُعَذِّبُهُم مَّرَّتَیْنِ ثُمَّ یُرَدُّونَ إِلَىٰ عَذَابٍ عَظِیمٍ ‎﴿١٠١﴾‏ (التوبہ)
اور کچھ تمہارے گردو پیش والوں  میں  اور کچھ مدینے والوں  میں  ایسے منافق ہیں  کہ نفاق پر اڑے ہوئے ہیں  ،آپ ان کو نہیں  جانتے ان کو ہم جانتے ہیں  ہم ان کو دوہری سزا دیں  گے پھر وہ بڑے بھاری عذاب کی طرف بھیجے جائیں  گے۔

آپ کے گروپیش بستیوں  میں  جوبدوی رہتے ہیں  ان میں  سے بہت سے منافق ہیں  ،اسی طرح مدینہ طیبہ کے باشندوں  میں  بھی بہت سے منافق موجودہیں  جواپنے نفاق پراڑے ہوئے ہیں  اورنفاق میں  ان کی سرکشی بڑھتی جارہی ہے ،آپ اپنی کمال درجے کی فراست کے باوجودان کونہیں  پہچان سکتے کہ ان کے نفاق کے مطابق ان کے ساتھ معاملہ کر سکیں  (واضح الفاظ میں  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے علم غیب کی نفی فرمائی گئی)مگراللہ علام الغیوب ہے،جودلوں  کے خفیہ بھیداورآنکھوں  کی خیانت جانتاہے انہیں  خوب جانتا ہے ،جیسے فرمایا

یَعْلَمُ خَاۗىِٕنَةَ الْاَعْیُنِ وَمَا تُخْفِی الصُّدُوْرُ۝۱۹ [46]

ترجمہ:اللہ نگاہوں  کی چوری تک سے واقف ہے اور راز تک جانتا ہے جو سینوں  نے چھپا رکھے ہیں  ۔

عَنْ قَتَادَةَ فِی قَوْلِهِ تَعَالَى: {وَمِمَّنْ حَوْلَكُمْ مِنَ الْأَعْرَابِ مُنَافِقُونَ} إِلَى قَوْلِهِ تَعَالَى: {لَا تَعْلَمُهُمْ نَحْنُ نَعْلَمُهُمْ} قَالَ: فَمَا بَالُ أَقْوَامٍ یَتَكَلَّفُونَ عِلْمَ النَّاسِ؟قَالَ: فُلَانٌ فِی الْجَنَّةِ , وَفُلَانٌ فِی النَّارِ، فَإِذَا سَأَلْتَ أَحَدَهُمْ عَنْ نَفْسِهِ قَالَ: لَا أَدْرِی، لَعَمْرِی لَأَنْتَ بِنَفْسِكَ أَعْلَمُ مِنْكَ بِأَعْمَالِ النَّاسِ، وَلَقَدْ تَكَلَّفْتَ شَیْئًا مَا تَكَلَّفَهُ الْأَنْبِیَاءُ قَبْلَكَ،قَالَ نَبِیُّ اللهِ نُوحٌ عَلَیْهِ السَّلَامُ وَمَا عِلْمِىْ بِمَا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ،قَالَ: نَبِیُّ اللهِ شُعَیْبٌ بَقِیَّةُ اللهِ خَیْرٌ لَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِینَ , وَمَا أَنَا عَلَیْكُمْ بِحَفِیظٍ ،وَقَالَ لِنَبِیِّهِ:لَا تَعْلَمُهُمْ نَحْنُ نَعْلَمُهُمْ لَا تَعْلَمُهُمْ نَحْنُ نَعْلَمُهُمْ

قتادہ رحمہ اللہ سے اس آیت کریمہ’’تمہارے گردوپیش جو بدوی رہتے ہیں  ان میں  بہت سے منافق ہیں  اور اسی طرح خود مدینہ کے باشندوں  میں  بھی منافق موجود ہیں  جو نفاق میں  طاق ہوگئے ہیں  تم انہیں  نہیں  جانتے، ہم ان کو جانتے ہیں  ۔‘‘ کی تفسیر میں  روایت ہے لوگوں  کاکیاحال ہے کہ وہ لوگوں  کے بارے میں  یہ جاننے کاتکلف کرتے ہیں  ؟ کہتے ہیں  فلاں  جنت میں  ہے اورفلاں  جہنم میں  ہے لیکن جب آپ ان میں  سے کسی ایک سے خوداس کے بارے میں  پوچھیں  تووہ کہے گاکہ مجھے معلوم نہیں  ، حالانکہ اللہ کی قسم ! لوگوں  کے احوال کی نسبت تواپنے بارے میں  زیادہ بہترجانتاہے اورتوایسی بات کابوجھ اٹھارہاہے جس کا بوجھ توانبیائے کرام علیہ السلام نے بھی نہیں  اٹھایاتھا ،اللہ کے نبی نوح علیہ السلام نے فرمایاتھا’’میں  کیا جانوں  کہ ان کے عمل کیسے ہیں  ۔‘‘ اللہ کے نبی شعیب علیہ السلام نے فرمایاتھا’’اللہ کی دی ہوئی بچت تمہارے لیے بہتر ہے اگر تم مومن ہو اور بہر حال میں  تمہارے اوپر کوئی نگران کار نہیں  ہوں  ۔‘‘اوراللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے مخاطب ہوکرفرمایا’’تم انہیں  نہیں  جانتے ہم ان کوجانتے ہیں  ۔‘‘[47]

اس نفاق کے جرم میں  اللہ انہیں  دنیا میں  مال وجاہ اورعزت کے بجائے ذلت ورسوائی ،دین اسلام کے فروغ کوروکنے کے لئے اپنی خواہشوں  اورکوششوں  میں  نامرادی ، قبرمیں  سخت عذاب اورآخرت میں  جہنم کادائمی عذاب دے گاجوبہت ہی براٹھکانہ ہے،

عَنْ مُجَاهِدٍ:سَنُعَذِّبُهُمْ مَرَّتَیْنِ،قَالَ: الْقَتْلُ وَالسِّبَاءُ

مجاہد رحمہ اللہ نے’’ قریب ہے وہ وقت جب ہم ان کو دوہری سزا دیں  گے۔‘‘ کے بارے میں  کہاہے دوہرے عذاب سے مرادقتل اورقیدہونے کاعذاب ہے ۔[48]

عَنْ مُجَاهِدٍ {سَنُعَذِّبُهُمْ مَرَّتَیْنِ} بِالْجُوعِ، وَعَذَابِ الْقَبْرِ

اور مجاہد رحمہ اللہ سے’’قریب ہے وہ وقت جب ہم ان کو دوہری سزا دیں  گے۔‘‘کے بارے میں  ایک اورروایت میں  ہے کہ اس سے بھوک اورقبرکاعذاب مرادہے ۔[49]

وَالَّذِینَ اتَّخَذُوا مَسْجِدًا ضِرَارًا وَكُفْرًا وَتَفْرِیقًا بَیْنَ الْمُؤْمِنِینَ وَإِرْصَادًا لِّمَنْ حَارَبَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ مِن قَبْلُ ۚ وَلَیَحْلِفُنَّ إِنْ أَرَدْنَا إِلَّا الْحُسْنَىٰ ۖ وَاللَّهُ یَشْهَدُ إِنَّهُمْ لَكَاذِبُونَ ‎﴿١٠٧﴾‏ لَا تَقُمْ فِیهِ أَبَدًا ۚ لَّمَسْجِدٌ أُسِّسَ عَلَى التَّقْوَىٰ مِنْ أَوَّلِ یَوْمٍ أَحَقُّ أَن تَقُومَ فِیهِ ۚ فِیهِ رِجَالٌ یُحِبُّونَ أَن یَتَطَهَّرُوا ۚ وَاللَّهُ یُحِبُّ الْمُطَّهِّرِینَ ‎﴿١٠٨﴾‏ أَفَمَنْ أَسَّسَ بُنْیَانَهُ عَلَىٰ تَقْوَىٰ مِنَ اللَّهِ وَرِضْوَانٍ خَیْرٌ أَم مَّنْ أَسَّسَ بُنْیَانَهُ عَلَىٰ شَفَا جُرُفٍ هَارٍ فَانْهَارَ بِهِ فِی نَارِ جَهَنَّمَ ۗ وَاللَّهُ لَا یَهْدِی الْقَوْمَ الظَّالِمِینَ ‎﴿١٠٩﴾‏ لَا یَزَالُ بُنْیَانُهُمُ الَّذِی بَنَوْا رِیبَةً فِی قُلُوبِهِمْ إِلَّا أَن تَقَطَّعَ قُلُوبُهُمْ ۗ وَاللَّهُ عَلِیمٌ حَكِیمٌ ‎﴿١١٠﴾‏(التوبة)
اور بعض ایسے ہیں  جنہوں  نے اغراض کے لیے مسجد بنائی ہے کہ ضرر پہنچائیں  اور کفر کی باتیں  کریں  اور ایمانداروں  میں  تفریق ڈالیں  اور اس شخص کے قیام کا سامان کریں  جو اس پہلے سے اللہ اور رسول کا مخالف ہے، اور قسمیں  کھائیں  گے کہ ہم بجز بھلائی کے اور ہماری کچھ نیت نہیں  ، اور اللہ گواہ ہے کہ وہ بالکل جھوٹے ہیں  ، آپ اس میں  کبھی کھڑے نہ ہوں  ، البتہ جس مسجد کی بنیاد اول دن سے تقویٰ پر رکھی گئی ہے وہ اس لائق ہے کہ آپ اس میں  کھڑے ہوں  ، اس میں  ایسے آدمی ہیں  کہ وہ خوب پاک ہونے کو پسند کرتے ہیں  اور اللہ تعالیٰ خوب پاک ہونے والوں  کو پسند کرتا ہے، پھر آیا ایسا شخص بہتر ہے جس نے اپنی عمارت کی بنیاد اللہ سے ڈرنے پر اور اللہ کی خوشنودی پر رکھی ہو یا وہ شخص کہ جس نے اپنی عمارت کی بنیاد کسی گھاٹی کے کنارے پر جو کہ گرنے ہی کو ہو رکھی ہو پھر وہ اس کو لے کر آتش دوزخ میں  گرپڑےاور اللہ تعالیٰ ایسے ظالموں  کو سمجھ ہی نہیں  دیتا، ان کی یہ عمارت جو انہوں  نے بنائی ہےہمیشہ ان کے دلوں  میں  شک کی بنیاد پر (کانٹا بن کر) کھٹکتی رہے گی، ہاں  مگر ان کے دل ہی اگر پاش پاش ہوجائیں  تو خیر، اور اللہ تعالیٰ بڑا علم والا بڑی حکمت والا ہے۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے غزوہ تبوک روانہ ہونے سے قبل منافقین نے مسجدکے نام سے ایک محفوظ پناہ گاہ تیارکی تھی ، اوراس کومقبول عام کرنے کے لئے کوشش کی تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس میں  آکرایک مرتبہ نمازپڑلیں  مگررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس معاملہ کوتبوک سے واپسی تک موخرفرمادیاتھا،اب جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ طیبہ کی جانب رواں  دواں  تھے کہ اللہ نے منافقین کی اس سازش کوطشت ازبام کردیا، فرمایاکہ وہ لوگ جنہوں  نے اہل ایمان اوران کی اس مسجدکونقصان پہنچانے ،اللہ کی بندگی کے بجائے کفرکی خاطر اور مسلمانوں  میں  تفرق وانتشار ڈالنے تاکہ ان کی طاقت منتشرہوجائے ،سازشیں  تیارکرنے اوردشمنوں  کوپناہ دینے کے لئے مسجدبنائی،اس شخص (ابوعامر راہب فاسق) کے اشارے پر جو پہلے سے اللہ تعالیٰ اوراس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے لڑرہاہے یعنی جو دین اسلام کوکاراستہ روکنے کے لئے ہرجتن اور کوششیں  کررہاہے،اب وہ آپ کے پاس آکر قسمیں  کھائیں  گے کہ اس مسجد کی تعمیرسے ہماراارادہ توبارش ،سردی اوراس قسم کے موقعوں  پرمحض کمزور،معذوراورنابینااہل ایمان کے ساتھ خیروبھلائی کا تھا،مگراللہ ان کے اس مکروفریب کے بارے میں  گواہی دیتاہے کہ یہ لوگ جھوٹے ہیں  ،آپ اس مسجدمیں  جاکرکبھی نمازنہ پڑھنا ، البتہ وہ مسجد(بعض کے نزدیک مسجدقبا اور بعض کے نزدیک مسجدنبوی صلی اللہ علیہ وسلم ) جس کی بنیادپہلے دن سے تقویٰ پررکھی گئی تھی، اس بات کی زیادہ مستحق ہے کہ آپ اس میں  اللہ وحدہ لاشریک کی عبادت اوراللہ کا ذکرکریں  ،

وَفِی الْحَدِیثِ:أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ لَمَّا بَنَاهُ وَأَسَّسَهُ أَوَّلَ قُدُومِهِ وَنُزُولِهِ عَلَى بَنِی عَمْرِو بْنِ عَوْفٍ، كَانَ جِبْرِیلُ هُوَ الَّذِی عَیَّن لَهُ جِهَة الْقِبْلَةِ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب بنی عمروبن عوف میں  تشریف آوری کے وقت اس مسجدکوتعمیرفرمایاتوجبریل امین نے قبلے کی سمت کاتعین کیا تھا۔[50]

أُسَیْدَ بْنَ ظُهَیْرٍ الأَنْصَارِیَّ، وَكَانَ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِیِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یُحَدِّثُ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: الصَّلاَةُ فِی مَسْجِدِ قُبَاءٍ كَعُمْرَةٍ.

اسیدبن ظہیرانصاری رضی اللہ عنہ سے مروی ہےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایامسجدقباء میں  نمازکاثواب عمرے کے برابرہے۔[51]

عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عُمَرَ،أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ كَانَ یَأْتِی قُبَاءً یَعْنِی كُلَّ سَبْتٍ كَانَ یَأْتِیهِ رَاكِبًا وَمَاشِیًا

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اکثرہفتہ کے روزسواراورپیدل اس مسجد میں  تشریف لے جاتے اوراس میں  نمازادافرماتے تھے۔[52]

کیونکہ یہ فضیلت والی مسجدہے،اس لئے اللہ تعالیٰ نے اس میں  نمازپڑھنے والوں  کی مدح کرتے ہوئے فرمایااس میں  ایسے لوگ ہیں  جواس بات کو پسند کرتے ہیں  کہ وہ گناہوں  اورناپاکی سے پاک رہیں  ،اوراللہ تعالیٰ شرک ، اخلاق رذیلہ اورنجاستوں  سے پاک رہنے والوں  کوپسندکرتاہے ، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کوجب کسی مسئلے میں  اشکال پیش آتاتووہ بلاجھجک اس بارے میں  آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے استفسارکرتے تھے، چنانچہ جب اہل قباکی مدح میں  یہ آیت نازل ہوئی تو

ومعن بن عدی،فَأَمَّا عُوَیْمُ بْنُ سَاعِدَةَ فَهُوَ الَّذِی بَلَغَنَا أَنَّهُ قِیلَ لِرَسُولِ اللهِ: مَنِ الَّذِینَ قَالَ اللهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى لَهُمْ: فِیهِ رِجَالٌ یُحِبُّونَ أَنْ یَتَطَهَّرُوا وَاللهُ یُحِبُّ الْمُطَّهِّرِینَ،فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:نِعْمَ الْمَرْءُ مِنْهُمْ عُوَیْمُ بْنُ سَاعِدَةَ

معن بن عدی کہتے ہیں  عویم رضی اللہ عنہ بن ساعدہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھااے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! اس آیت فِیهِ رِجَالٌ یُحِبُّونَ أَنْ یَتَطَهَّرُوا وَاللهُ یُحِبُّ الْمُطَّهِّرِینَ میں  اللہ تعالیٰ نے جن لوگوں  کی طرف اشارہ کیاہے وہ کون ہیں  ؟رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایاان میں  ایک مردصالح عویم رضی اللہ عنہ بن ساعدہ بھی ہے۔[53]

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِی اللهُ عَنْهُمَا، قَالَ: لَمَّا نَزَلَتِ الْآیَةُ {فِیهِ رِجَالٌ یُحِبُّونَ أَنْ یَتَطَهَّرُوا}،[54] بَعَثَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ إِلَى عُوَیْمِرِ بْنِ سَاعِدَةَ فَقَالَ:مَا هَذَا الطُّهُورُ الَّذِی أَثْنَى الله عَزَّ وَجَلَّ عَلَیْكُمْ؟ فَقَالُوا: یَا رَسُولَ اللهِ مَا خَرَجَ مِنَّا رَجُلٌ وَلَا امْرَأَةٌ مِنَ الْغَائِطِ إِلَّا غَسَلَ فَرْجَهُ أَوْ قَالَ: مَقْعَدَتَهُ فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:هُوَ هَذَا

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے جب سورہ توبہ کی آیت’’اس میں  ایسے لوگ ہیں  جو پاک رہنا پسند کرتے ہیں  ۔‘‘ نازل ہوئی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عویم رضی اللہ عنہ بن ساعدہ سے پوچھااللہ تعالیٰ نے تمہاری طہارت کی تعریف فرمائی ہے تم کیاکرتے ہو ؟ انہوں  نے عرض کیااے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !ہم میں  سے مردیاعورت ضرورت سے فارغ ہونے کے بعداپنی شرم گاہوں  کوپانی سے دھوتے ہیں  ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایایہی وجہ ہے۔[55]

عَنْ عُوَیْمِ بْنِ سَاعِدَةَ الْأَنْصَارِیِّ، أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّى الله عَلَیْه وَسَلَّمَ أَتَاهُمْ فِی مَسْجِدِ قُبَاءَ فَقَالَ:إنَّ اللهَ عَزَّ وَجَلَّ قَدْ أَحْسَنَ إِلَیْكُم الثَّنَاءَ فِی الطُّهُورِ فِی قِصَّةِ مَسْجِدِكُمْ فَمَا هُو الطُّهُورُ الَّذِی تَطَّهَّرُونَ بِهِ؟ قَالُوا: یَا رَسُولَ اللهِ مَا نَعْلَمُ شَیْئًا إِلَّا أَنَّه كَان لَنَا جِیرَانٌ مِن الْیَهُودِ، فَكَانُوا یَغْسِلُونَ أَدْبَارَهُمْ مِنَ الْغَائِطِ فَغَسَلْنَا كَمَا غَسَلُوا

عویم بن ساعدہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مسجدقباء میں  تشریف لے گئے اورفرمایا اللہ عزوجل نے تمہاری طہارت کی تعریف فرمائی ہے تم کس طرح طہارت حاصل کرتے ہو،انہوں  نے عرض کی اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !واللہ ہم اس بارے میں  کچھ نہیں  جانتے سوائے اس کےکہ ہمارے پڑوس میں  کچھ یہودی رہتے تھےاوروہ قضائے حاجت کے بعداپنی پیٹھوں  کودھوتے تھے توہم نے بھی انہی کی طرح دھوناشروع کردیا۔[56]

مِنْ ذِی الْكَلَاعِ، أَنَّهُ صَلَّى مَعَ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ الصُّبْحَ فَقَرَأَ بِالرُّومِ، فَتَرَدَّدَ فِی آیَةٍ فَلَمَّا انْصَرَفَ قَالَ:إِنَّهُ یَلْبِسُ عَلَیْنَا الْقُرْآنَ، أَنَّ أَقْوَامًا مِنْكُمْ یُصَلُّونَ مَعَنَا لَا یُحْسِنُونَ الْوُضُوءَ، فَمَنْ شَهِدَ الصَّلَاةَ مَعَنَا فَلْیُحْسِنِ الْوُضُوءَ

ابوروح الکلاعی سے مروی ہےمیں  نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ صبح کی نمازپڑھی جس میں  آپ نے سورۂ  روم کی تلاوت شروع کی مگرآپ اس میں  بھولنے لگے، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نمازسے فارغ ہوئے توفرمایا بے شک ہمیں  قرآن پڑھنے میں  التباس ہوجاتاہے اوریہ اس لیے کہ کچھ لوگ ہمارے ساتھ نمازتوپڑھتے ہیں  مگروہ اچھی طرح وضونہیں  کرتے،لہذاجوشخص ہمارے ساتھ نمازاداکرنے کے لیے آئے تواسے چاہیے کہ وہ وضوخوب اچھی طرح کرے۔[57]

اللہ تعالیٰ نے مومن اورمنافق کے عمل کی مثالیں  بیان فرمائیں  کہ جس شخص نے مسجدکی بنیادتقویٰ اوراللہ کی رضامندی کے لئے رکھی ہو زیادہ بہترہے، یاوہ شخص جس نے اپنی عمارت کی بنیاد ایک بے بنیاد ککرجومنہدم ہونے کے قریب ہورکھی ہو،پھروہ اس کولے کرجہنم کی آگ میں  گرپڑی ہو،اللہ تعالیٰ فتنہ وفسادبرپاکرنے والوں  کوصراط المستقیم کی ہدایت نہیں  دیاکرتا،اتنے بڑے مکروفریب کے بعد یہ عمارت موت تک ان کے دلوں  میں  مزیدشک ونفاق کرنے کاذریعہ بنی رہے گی، جس طرح بچھڑے کے پجاریوں  میں  بچھڑے کی محبت رچ بس گئی تھی ،سوائے اس کے کہ وہ انتہائی ندامت کے ساتھ اپنے رب کی طرف رجوع کریں  تب اللہ جوہرطرح کے گناہوں  کومعاف کردینا پسند کرتا ہے ان کے گناہوں  کوبخش دے گا ،اللہ علم وحکمت والاہے ۔

مسجدضرارکومنہدم کرنا:

فَلَمَّا نَزَلَ بِذِی أَوَانٍ أَتَاهُ خبرُ الْمَسْجِدِ

جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ کے قریب مقام ذی اوان پرپہنچے اوراللہ نےآپ کومسجدضرارکے بارے مطلع کیاگیا

فَدَعَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مَالِكَ بْنَ الدُّخْشُم أَخَا بَنِی سَالِمِ بْنِ عَوْفٍ، وَمَعْنَ بْنَ عَدِیٍّ أَوْ: أَخَاهُ عَامِرِ بْنِ عَدِیٍّ أَخَا بَلْعِجْلَانَ فَقَالَ:انْطَلِقَا إِلَى هَذَا الْمَسْجِدِ الظَّالِمِ أَهْلُهُ، فَاهْدِمَاهُ وَحَرِّقَاهُ ،فَخَرَجَا سَرِیعَیْنِ حَتَّى أَتَیَا بَنِی سَالِمِ بْنِ عَوْفٍ، وَهُمْ رَهْطُ مَالِكِ بْنِ الدُّخْشُمَ، فَقَالَ مَالِكٌ لِمَعْنٍ: أَنْظِرْنِی حَتَّى أَخْرُجَ إِلَیْكَ بِنَارٍ مِنْ أَهْلِی، فَدَخَلَ أَهْلَهُ فَأَخَذَ سَعَفا مِنَ النَّخْلِ، فَأَشْعَلَ فِیهِ نَارًاثُمَّ خَرَجَا یَشتدَّان حَتَّى دَخَلَا الْمَسْجِدَ وَفِیهِ أَهْلُهُ، فَحَرَقَاهُ وَهَدَمَاهُ وَتَفَرَّقُوا عَنْهُ

توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنو سلیم بن عوف کے مالک بن دخشم اورمعن بن عدی بن عامر یا ان کے بھائی عامر بن عدی کوبلایااورمسجد ضرار کے منہدم کرنے اور اسے جلانے کے لئے آگے روانہ فرمایاحکم سنتے ہی یہ لوگ تیزی سے روانہ ہوکربنی سالم بن عوف کے محلہ میں  پہنچے جو مالک بن دخشم کے قبیلہ کے لوگ تھے،مالک رضی اللہ عنہ نے معن سے کہاتم یہیں  میرا انتظارکرو،میں  اپنے گھرسے آگ لے کرآتاہوں  ،یہ گھرپہنچے اورکھجورکی ایک ٹہنی جلاکرلے آئے،اورپھریہ سب جلدی سے روانہ ہو کر مسجدضرارمیں  داخل ہوگئے جہاں  اس کے بانی منافقین بیٹھے ہوئے تھے ،صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اس میں  آگ لگاکر مسمارکردیا ، منافقین اس سے نکل کربھاگے۔[58]

قَالَ جَابِرُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ: رَأَیْتُ الْمَسْجِدَ الَّذِی بُنِیَ ضِرَارًا یَخْرُجُ مِنْهُ الدُّخَانُ عَلَى عَهْدِ النَّبِیِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ.

جابربن عبداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں  میں  نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں  مسجدضرارسے دھواں  نکلتے دیکھا۔[59]

وَقَالَ ابْنُ جُرَیْج ذُكر لَنَا أَنَّ رِجَالًا حَفَروا فَوَجَدُوا الدُّخَانَ یَخْرُجُ مِنْهُ

ابن جریج رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں  کہ جن لوگوں  نے اس مسجدکوتوڑااوراس کی بنیادیں  اکھیڑ پھینکیں  انہوں  نے اس کے نیچے سے دھواں  اٹھتاپایا۔[60]

وَقَالَ خَلَفُ بْنُ یَاسِینَ الْكُوفِیُّ: رَأَیْتُ مَسْجِدَ الْمُنَافِقِینَ الَّذِی ذَكَرَهُ اللَّهُ تَعَالَى فِی الْقُرْآنِ، وَفِیهِ جَحَرٌ یَخْرُجُ مِنْهُ الدُّخَانُ، وَهُوَ الْیَوْمُ مَزْبلة.

اورخلف بن یاسین الکوفی کہتے ہیں  میں  نے منافقین کی مسجدجس کاذکراللہ تعالیٰ نے قرآن میں  کیاہےدیکھاکہ اس کے ایک پتھرسے دھواں  نکل رہاتھا(پھررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم فرمایاکہ اس جگہ کوکوڑا گھر بنادواوریہیں  غلاظت اورکوڑا کرکٹ پھینکاکرو)اب وہ کوڑاکرکٹ ڈالنے کی جگہ بنی ہوئی ہے۔[61]

فَلَمَّا أَسْلَمَ أَهْلُ الطَّائِفِ لَحِقَ بِالشَّامِ. فَمَاتَ بِهَا طَرِیدًا غَرِیبًا وَحِیدًا

اہل طائف کے دائرہ اسلام میں  داخل ہونے کے بعدیہ شام چلاگیااوروہیں  اپنی حسرتیں  اپنے دل میں  لئے ہوئے ہلاک ہوگیا۔

إِنَّ اللَّهَ اشْتَرَىٰ مِنَ الْمُؤْمِنِینَ أَنفُسَهُمْ وَأَمْوَالَهُم بِأَنَّ لَهُمُ الْجَنَّةَ ۚ یُقَاتِلُونَ فِی سَبِیلِ اللَّهِ فَیَقْتُلُونَ وَیُقْتَلُونَ ۖ وَعْدًا عَلَیْهِ حَقًّا فِی التَّوْرَاةِ وَالْإِنجِیلِ وَالْقُرْآنِ ۚ وَمَنْ أَوْفَىٰ بِعَهْدِهِ مِنَ اللَّهِ ۚ فَاسْتَبْشِرُوا بِبَیْعِكُمُ الَّذِی بَایَعْتُم بِهِ ۚ وَذَٰلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِیمُ ‎﴿١١١﴾‏التَّائِبُونَ الْعَابِدُونَ الْحَامِدُونَ السَّائِحُونَ الرَّاكِعُونَ السَّاجِدُونَ الْآمِرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَالنَّاهُونَ عَنِ الْمُنكَرِ وَالْحَافِظُونَ لِحُدُودِ اللَّهِ ۗ وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِینَ ‎﴿١١٢﴾‏(التوبة)
بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں  سے ان کی جانوں  کو اور ان کے مالوں  کو اس بات کے عوض خرید لیا ہے کہ ان کو جنت ملے گی، وہ لوگ اللہ کی راہ میں  لڑتے ہیں  جس میں  قتل کرتے ہیں  اور قتل کئے جاتے ہیں  ، اس پر سچا وعدہ کیا گیا ہے تورات میں  اور انجیل میں  اور قرآن میں  اور اللہ سے زیادہ اپنے عہد کو کون پورا کرنے والا ہے ، تو تم لوگ اس بیع پر جس کا تم نے معاملہ ٹھہرایا ہے خوشی مناؤ، اور یہ بڑی کامیابی ہے، وہ ایسے ہیں  جو توبہ کرنے والے، عبادت کرنے والے، حمد کرنے والے، روزہ رکھنے والے (یا راہ حق میں  سفر کرنے والے) رکوع اور سجدہ کرنے والے، نیک باتوں  کی تعلیم کرنے والے اور بری باتوں  سے باز رکھنے والے ، اور اللہ کی حدوں  کا خیال رکھنے والےاور ایسے مومنین کو خوشخبری سنا دیجئے ۔

مجاہدین کے لئے استثنائی انعامات :اللہ ہی مخلوقات کاخالق ومالک ہے، وہی اپنی ان گنت مخلوقات کوجہاں  سے چاہتاہےرزق عطافرماتاہے، مگریہ اللہ کاخاص فضل وکرم ہے کہ اس نے مومنوں  کو ان کے جان ومال کے عوض جوانہوں  نے اللہ کی راہ میں  خرچ کی جنت عطافرمادی ہے،

عَنْ قَتَادَةَ، أَنَّهُ تَلَا هَذِهِ الْآیَةَ: {إِنَّ اللهَ اشْتَرَى مِنَ الْمُؤْمِنِینَ أَنْفُسَهُمْ وَأَمْوَالَهُمْ بِأَنَّ لَهُمُ الْجَنَّةَ}قَالَ: ثَامَنَهُمُ اللهُ فَأَغْلَى لَهُمُ الثَّمَنَ

قتادہ رحمہ اللہ نے اس آیت کریمہ’’حقیقت یہ ہے کہ اللہ نے مومنوں  سے ان کے نفس اور ان کے مال جنت کے بدلے خرید لیے ہیں  ۔‘‘کی تلاوت کی ،اورفرمایا اللہ تعالیٰ نے ان سے سوداکیا اورانہیں  بہت ہی گراں  قیمت ادافرمادی ہے۔[62]

عَنْ شِمْرِ بْنِ عَطِیَّةَ، قَالَ: مَا مِنْ مُسْلِمٍ وَلِلَّهِ فِی عُنُقِهِ بَیْعَةً وَفَّى بِهَا أَوْ مَاتَ عَلَیْهَا، فِی قَوْلِ اللهِ: {إِنَّ اللهَ اشْتَرَى مِنَ الْمُؤْمِنِینَ إِلَى قَوْلِهِ: {وَذَلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِیمُ

شمربن عطیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں  ہرمسلمان کی گردن میں  اللہ تعالیٰ کی بیعت ہے،خواہ وہ اسے پوراکرے یااس پرفوت ہوجائے، پھرانہوں  نے اس آیت کریمہ’’ حقیقت یہ ہے کہ اللہ نے مومنوں  سے ان کے نفس اور ان کے مال جنت کے بدلے خرید لیے ہیں  وہ اللہ کی راہ میں  لڑتے اور مارتے اور مرتے ہیں  ان سے(جنّت کا وعدہ) اللہ کے ذمے ایک پختہ وعدہ ہے تورات اور انجیل اور قرآن میں  اور کون ہے جو اللہ سے بڑھ کر اپنے عہد کا پورا کرنے والا ہو ؟ پس خوشیاں  مناؤ اپنے اس سودے پر جو تم نے خدا سے چکا لیا ہے، یہی سب سے بڑی کامیابی ہے۔‘‘ کی تلاوت کی ۔[63]

جس میں  ہروہ چیزہوگی جس کی نفس خواہش کریں  گے اورآنکھیں  لذت حاصل کریں  گی ، یعنی انواع اقسام کی لذتیں  ، فرحتیں  ، مسرتیں  ،چھپائے گئے موتیوں  کی طرح خوبصورت،بڑی بڑی آنکھوں  والی کنواری حوریں  ، اورموتیوں  سے تیارکیے گئےدلکش بالاخانے ۔وہ دشمنوں  کے خلاف اللہ کے کلمہ کوسربلندکرنے اوراس کے دین کوغالب کرنے کے لئے اپنی جان ومال خرچ کرتے ہیں  ،وہ اللہ کی راہ میں  جہادکرتے ہوئے اس بات کی پرواہ نہیں  کرتے کہ ہم مارے جائیں  گے ،اورنہ اللہ کے دشمنوں  پروارکرنے میں  انہیں  کوئی تامل ہوتاہے، چاہئے مدمقابل ان کااپناخون ہی کیوں  نہ ہو،

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ : أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:تَكَفَّلَ اللَّهُ لِمَنْ جَاهَدَ فِی سَبِیلِهِ، لاَ یُخْرِجُهُ إِلَّا الجِهَادُ فِی سَبِیلِهِ، وَتَصْدِیقُ كَلِمَاتِهِ بِأَنْ یُدْخِلَهُ الجَنَّةَ، أَوْ یَرْجِعَهُ إِلَى مَسْكَنِهِ الَّذِی خَرَجَ مِنْهُ، مَعَ مَا نَالَ مِنْ أَجْرٍ أَوْ غَنِیمَةٍ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجوشخص رسولوں  کی سچائی مان کراللہ کی راہ میں  جہادکے لئے نکل کھڑاہو،اللہ تعالیٰ اسے فوت کرکے بہشت بریں  میں  لے جاتاہے یاپورے پورے اجراوربہترین غنیمت کے ساتھ اسے (غازی بناکر)واپس لوٹاتاہے۔[64]

اللہ نے یہ سچاوعدہ پچھلی الہامی کتابوں  تورات ،انجیل میں  بھی کیا تھا اوراب ان تمام کتابوں  میں  سے سب سے افضل واعلیٰ کتاب قرآن مجیدمیں  بھی کیاہےاوراللہ سے بڑھ کرعہدکوکون پوراکرنے والا ہے ؟جیسے فرمایا

۔۔۔وَمَنْ اَصْدَقُ مِنَ اللہِ قِیْلًا۝۱۲۲ [65]

ترجمہ: اور اللہ سے بڑھ کر کون اپنی بات میں  سچا ہوگا ۔

اللہ تعالیٰ کے وعدے پر قائم رہنے والے مومنو ! اپنے اس سودے پرجوتم نے اللہ کے ساتھ کیاہے خوشیاں  مناؤ،ایک دوسرے کوجہادفی سبیل اللہ کی ترغیب دو،حقیقت میں  یہ بہت بڑی کامیابی ہے،جس سے بڑی جلیل القدر، ابدی سعادت ،دائمی نعمت اوراللہ کی رضااورکوئی نہیں  ،اعمال صالحہ کی قدرت تفصیل بیان کرکے مومنوں  کی صفات جمیلہ بیان فرمائیں  جن کی جانوں  اورمالوں  کاسودااللہ نے کرلیاہے ، جن کوعزت واکرام کی خوشخبری ہے، ان کی اولین صفت یہ ہے کہ اگران سے بشری کمزوریوں  کے تحت غیرشعوری طورپر گناہ اورفواہش سرزدہوجائیں  ، تواپنے انحراف پرجمے رہنے کے بجائے اللہ کی بارگاہ میں  بارباراستغفارومغفرت طلب کرنے والے ہوتے ہیں  ،پابندی وقت کے ساتھ اپنے رب کی عبادت کرنے والے،رنج وراحت ،تنگ دستی وفراغی میں  دن رات اپنی زبان سے اللہ کی کثرت سے حمدوثنابیان کرنے والے،اللہ کے تقرب کے لئے حج ،عمرہ ،جہاد،کفرزدہ علاقوں  سے ہجرت اور دعوت دین واصلاح خلق کے لئے گھروں  سے نکلنے والے،بعض کے نزدیک اللہ کی رضاوخوشنودی کے لئے روزے رکھنے والے،اپنے رب کے بارگاہ میں  کثرت سے رکوع و سجود کرنے والے،وہ اہل ایمان جونیکی کاحکم دیتے ہیں  ، اوربرائی کے کاموں  سے خودبھی اجتناب کرتے ہیں  اوردوسروں  کوبھی روکتے ہیں  ،اوراللہ تعالیٰ نے عقائد، عبادات ، اخلاق ،معاشرت ،تمدن ، معیشت ،سیاست ،عدالت اورصلح وجنگ کے معاملات میں  جوحدیں  مقرر فرما دیں  ہیں  کوپامال نہیں  بلکہ ان کی پوری پابندی کے ساتھ ملحوظ رکھتے ہیں  ، ایسے ہی مومن کامل خوشخبری کے مستحق ہیں  ۔

مَا كَانَ لِلنَّبِیِّ وَالَّذِینَ آمَنُوا أَن یَسْتَغْفِرُوا لِلْمُشْرِكِینَ وَلَوْ كَانُوا أُولِی قُرْبَىٰ مِن بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَهُمْ أَنَّهُمْ أَصْحَابُ الْجَحِیمِ ‎﴿١١٣﴾‏ وَمَا كَانَ اسْتِغْفَارُ إِبْرَاهِیمَ لِأَبِیهِ إِلَّا عَن مَّوْعِدَةٍ وَعَدَهَا إِیَّاهُ فَلَمَّا تَبَیَّنَ لَهُ أَنَّهُ عَدُوٌّ لِّلَّهِ تَبَرَّأَ مِنْهُ ۚ إِنَّ إِبْرَاهِیمَ لَأَوَّاهٌ حَلِیمٌ ‎﴿١١٤﴾‏(التوبة)
پیغمبر کو اور دوسرے مسلمانوں  کو جائز نہیں  کہ مشرکین کے لیے مغفرت کی دعا مانگیں  اگرچہ وہ رشتہ دار ہی ہوں  اس امر کے ظاہر ہوجانے کے بعد کہ یہ لوگ دوزخی ہیں  ،اور ابراہیم (علیہ السلام) کا اپنے باپ کے لیے دعائے مغفرت کرنا وہ صرف وعدہ کے سبب تھا جو انہوں  نے ان سے وعدہ کرلیا تھا، پھر جب ان پر یہ بات ظاہر ہوگئی کہ اللہ کا دشمن ہے تو وہ اس سے محض بےتعلق ہوگئے، واقعی ابراہیم (علیہ السلام) بڑے نرم دل اور بردبار تھے ۔

قَالَ: لَمَّا حَضَرت أَبَا طَالِبٍ الْوَفَاةُ دَخَلَ عَلَیْهِ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَعِنْدَهُ أَبُو جَهْلٍ، وَعَبْدُ اللهِ بْنُ أَبِی أُمَیَّةَ، فَقَالَ:أیْ عَمّ، قُلْ: لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ. كَلِمَةٌ أُحَاجُّ لَكَ بِهَا عِنْدَ اللهِ، عَزَّ وَجَلَّ، فَقَالَ أَبُو جَهْلٍ وَعَبْدُ اللهِ بْنُ أَبِی أُمَیَّةَ: یَا أَبَا طَالِبٍ، أَتَرْغَبُ عَنْ ملَّة عَبْدِ الْمُطَّلِبِ؟قَالَ: فَلَمْ یَزَالَا یُكَلِّمَانِهِ، حَتَّى قَالَ آخَرُ شَیْءٍ كَلَّمَهُمْ بِهِ: عَلَى مِلَّةِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: لَأَسْتَغْفِرَنَّ لَكَ مَا لَمْ أُنْهَ عَنْكَ،فَنَزَلَتْ:مَا كَانَ لِلنَّبِیِّ وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَنْ یَّسْتَغْفِرُوْا لِلْمُشْرِكِیْنَ وَلَوْ كَانُوْٓا اُولِیْ قُرْبٰى مِنْۢ بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَھُمْ اَنَّھُمْ اَصْحٰبُ الْجَحِیْمِ

جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچاابوطالب کاآخری وقت آیاتونبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس تشریف لے گئے،اس وقت ابوطالب کے پاس فرعون ملت ابوجہل اورعبداللہ بن ابی امیہ بھی بیٹھے ہوئے تھے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااےچچاجان! کلمہ توحید لاالٰہ الااللہ پڑھ لیں  ،قیامت کے روز میں  اس کلمہ کی وجہ سے اللہ عزوجل کے ہاں  جھگڑا(تیری سفارش) کروں  گا،ابوجہل اورعبداللہ بن ابی امیہ نے فوراً کہااے ابوطالب ! کیاعبدالمطلب کے مذہب سے پھرجاؤگے،؟ وہ اسے ورغلاتے ہی رہےحتی کہ آخری بات ابوطالب نے یہ کی کہ میں  توعبدالمطلب کے ہی دین پرہوں  ،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجب تک اللہ تعالیٰ کی طرف سے مجھے روک نہیں  دیاجاتامیں  آپ کے لئے استغفار کرتا رہوں  گاجس پریہ آیت’’نبی کو اور ان لوگوں  کو جو ایمان لائے ہیں  زیبا نہیں  کہ مشرکوں  کے لیے مغفرت کی دعا کریں  ، چاہے وہ ان کے رشتہ دار ہی کیوں  نہ ہوں  جب کہ ان پر یہ بات کھل چکی ہے کہ وہ جہنّم کے مستحق ہیں  ۔‘‘ نازل ہوئی، جس میں  مشرکین کے لئے مغفرت کی دعاکرنے سے روک دیاگیا۔[66]

اس سلسلہ میں  یہ آیت کریمہ بھی نازل ہوئی ،

اِنَّكَ لَا تَهْدِیْ مَنْ اَحْبَبْتَ وَلٰكِنَّ اللهَ یَهْدِیْ مَنْ یَّشَاۗءُ۝۰ۚ وَهُوَاَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِیْنَ۝۵۶ [67]

ترجمہ:اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! تم جسے چاہو اسے ہدایت نہیں  دے سکتے مگر اللہ جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے اور وہ ان لوگوں  کو خوب جانتا ہے جو ہدایت قبول کرنے والے ہیں  ۔

عَنِ ابْنِ بُرَیْدَةَ، عَنْ أَبِیهِ قَالَ: قَالَ: كُنَّا مَعَ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَنَزَلَ بِنَا وَنَحْنُ مَعَهُ قَرِیبٌ مِنْ أَلْفِ رَاكِبٍ،فَصَلَّى رَكْعَتَیْنِ، ثُمَّ أَقْبَلَ عَلَیْنَا بِوَجْهِهِ وَعَیْنَاهُ تَذْرِفان ، فَقَامَ إِلَیْهِ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ وفَداه بِالْأَبِ وَالْأُمِّ، وَقَالَ: یَا رَسُولَ اللهِ، مَا لَكَ؟ قَالَ:إِنِّی سَأَلْتُ رَبِّی، عَزَّ وَجَلَّ، فِی الِاسْتِغْفَارِ لِأُمِّی فَلَمْ یَأْذَنْ لِی ،فَدَمِعَتْ عَیْنَایَ رَحْمَةً لَهَا مِنَ النَّارِ ،

ابوبریدہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےہم ایک ہزار آدمی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک سفرمیں  تھے آپ منزل پراترے دورکعت نمازادافرمائی اورپھرہماری طرف منہ کرکے بیٹھ گئےاس وقت آپ کی آنکھوں  سے آنسو جاری تھے،سیدناعمر رضی اللہ عنہ یہ دیکھ کربے تاب ہوگئے اٹھ کرعرض کیااے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! میرے ماں  باپ آپ پرفداہوں  کیابات ہے ؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایامیں  نے اپنے رب سے اپنی والدہ کے لئے استغفارکرنے کی اجازت طلب کی،مگرمجھے اجازت نہ ملی اس پرمیری آنکھیں  بھرآئیں  کہ میری ماں  ہے اور جہنم کی آگ ہے،

وَإِنِّی كُنْتُ نَهَیْتُكُمْ عَنْ ثَلَاثٍ ، نَهَیْتُكُمْ عَنْ زِیَارَةِ الْقُبُورفَزُورُوهَا لِتُذَكِّرَكُمْ زیارتُها خَیْرًا، وَنَهَیْتُكُمْ عَنْ لُحُومِ الْأَضَاحِیِّ بَعْدَ ثَلَاثٍ،فَكُلُوا وَأَمْسِكُوا مَا شِئْتُمْ ، وَنَهَیْتُكُمْ عَنِ الْأَشْرِبَةِ فِی الْأَوْعِیَةِ فَاشْرَبُوا فِی أَیِّ وِعَاءٍ وَلَا تَشْرَبُوا مُسْكِرًا

میں  نے تمہیں  تین چیزوں  سے منع کیا تھااب وہ ممانعت ہٹ گئی ہے، قبروں  کی زیارت سے منع کیاتھااب زیارت کیاکرو، کیونکہ اس سے تمہیں  بھلائی یادآئے گی، میں  نے تمہیں  تین دن سے زیادہ قربانی کے گوشت کوروکنے سے منع کیاتھا اب تم کھاؤ اورجس طرح چاہومحفوظ کرواورمیں  نے تمہیں  بعض خاص برتنوں  میں  پینے کومنع کیاتھا لیکن اب تم جس برتن میں  چاہوپی سکتے ہولیکن خبردارنشے والی چیزہرگزنہ پیناجس پریہ آیت نازل ہوئی۔[68]

اوریہ حکم قیامت تک کے لیے عام ہے ۔

عَنْ عَلِیٍّ عَلَیْهِ السَّلَام، قَالَ: قُلْتُ لِلنَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّ عَمَّكَ الشَّیْخَ الضَّالَّ قَدْ مَاتَ، قَالَ:اذْهَبْ فَوَارِ أَبَاكَ، ثُمَّ لَا تُحْدِثَنَّ شَیْئًا، حَتَّى تَأْتِیَنِی فَذَهَبْتُ فَوَارَیْتُهُ وَجِئْتُهُ فَأَمَرَنِی فَاغْتَسَلْتُ وَدَعَا لِی

سیدناعلی رضی اللہ عنہ سے مروی ہےابوطالب کی موت پرمیں  نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اورخبردی کہ آپ کے بوڑھے چچاگمراہی پرمرگئے ہیں  ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجاؤانہیں  زمین میں  دباآؤپھرکوئی کام نہ کرناحتی کہ میرے پاس آجانا،چنانچہ میں  گیااوراسے زمین میں  دباآیااورآپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں  حاضرہوگیا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے حکم دیاتومیں  نے غسل کیااورآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے لیے دعافرمائی[69]

یہ حدیث واضح دلیل ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچاابوطالب کی وفات اسلام پرنہیں  ہوئی بلکہ کفرپرہوئی اس لیے ان کی نمازجنازہ بھی نہیں  پڑھی گئی ،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نمازجنازہ پڑھی نہ سیدناعلی رضی اللہ عنہ نے اورنہ کسی اورنے،ابوطالب چونکہ نعمت اسلام سے انکاری رہے اورشرک ہی پرمرےاس لیے ایسے آدمی کی تکفین وتدفین کے لیے کوئی شرعی آداب نہیں  حتی کہ لفظ دفن بھی استعمال نہیں  کیاگیا،مشرک رشتہ دارکوگڑھے میں  دبا دینا ہی کافی ہے ایسی صورت میں  بعدازدفن غسل کرنامسنون ہے۔

اللہ تعالیٰ نے فرمایاکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اوراہل ایمان کی شان کے لائق نہیں  کہ اس بات کے واضح ہو جانے کے بعد جن لوگوں  نے کفرکیا،اوراللہ تعالیٰ کی عبادت میں  غیراللہ کو شریک کیاجس کی بناپروہ جہنم کے مستحق ہوچکے ہیں  ،وہ ان لئے استغفارکریں  چاہئے وہ ان کے رشتہ دارہی کیوں  نہ ہوں  ،اگرابراہیم خلیل اللہ نے اپنے باپ کے لئے استغفار کیا تھاتووہ ایک وعدے کی بناپرتھاجوانہوں  نے ہجرت کرتے وقت اپنے والد سے کیاتھا۔جیسے متعددمقامات پر فرمایا

قَالَ سَلٰمٌ عَلَیْكَ۝۰ۚ سَاَسْتَغْفِرُ لَكَ رَبِّیْ۝۰ۭ اِنَّهٗ كَانَ بِیْ حَفِیًّا۝۴۷ [70]

ترجمہ:ابراہیم علیہ السلام نے کہاسلام ہے آپ کو،میں  اپنے رب سے دعاکروں  گاکہ آپ کومعاف فرما دے ،میرارب مجھ پربڑاہی مہربان ہے۔

۔۔۔لَاَسْتَغْفِرَنَّ لَكَ وَمَآ اَمْلِكُ لَكَ مِنَ اللهِ مِنْ شَیْءٍ۔۔۔۝۰۝۴ [71]

ترجمہ:میں  آپ کے لئے مغفرت کی درخواست ضرورکروں  گا اوراللہ سے آپ کے لیے کچھ حاصل کرلینامیرے بس میں  نہیں  ۔

وَاغْفِرْ لِاَبِیْٓ اِنَّهٗ كَانَ مِنَ الضَّاۗلِّیْنَ۝۸۶ۙوَلَا تُخْزِنِیْ یَوْمَ یُبْعَثُوْنَ۝۸۷ۙیَوْمَ لَا یَنْفَعُ مَالٌ وَّلَا بَنُوْنَ۝۸۸ۙاِلَّا مَنْ اَتَى اللهَ بِقَلْبٍ سَلِیْمٍ۝۸۹ۭ [72]

ترجمہ:اورمیرے باپ کومعاف کردے بیشک وہ گمراہ لوگوں  میں  سے تھااوراس دن مجھے رسوانہ کرجبکہ سب انسان اٹھائے جائیں  گے جبکہ نہ مال کسی کے کچھ کام آئے گانہ اولاد،نجات صرف وہ پائے گاجواپنے رب کے حضوربغاوت سے پاک دل لے کرحاضرہواہو۔

مگرجب ابراہیم علیہ السلام پرواضح ہوگیاکہ ان کاباپ اللہ کاکھلاباغی ہے اوراسے جہنم کاہی ایندھن بنناہے، توانہوں  نے اس سے اظہاربرات کردیا ، یعنی سمجھایاگیاکہ اللہ اور اس کے دین کے ساتھ ہماری محبت بالکل بے لاگ ہو،اللہ کادوست ہمارادوست ہو،اوراس کادشمن ہمارادشمن قرارپائے ،بیشک ابراہیم علیہ السلام رقیق القلب ، کثرت سے گریہ وزاری کرنے والے اورمخلوق الٰہی پربہت مہربان تھےاوراپنے مزاج کی وجہ سے ابتدامیں  باپ کے لئے مغفرت کی دعاکرتے رہے ۔

‏ وَمَا كَانَ اللَّهُ لِیُضِلَّ قَوْمًا بَعْدَ إِذْ هَدَاهُمْ حَتَّىٰ یُبَیِّنَ لَهُم مَّا یَتَّقُونَ ۚ إِنَّ اللَّهَ بِكُلِّ شَیْءٍ عَلِیمٌ ‎﴿١١٥﴾‏ إِنَّ اللَّهَ لَهُ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۖ یُحْیِی وَیُمِیتُ ۚ وَمَا لَكُم مِّن دُونِ اللَّهِ مِن وَلِیٍّ وَلَا نَصِیرٍ ‎﴿١١٦﴾‏(التوبة)
اوراللہ ایسا نہیں  کرتا کہ کسی قوم کو ہدایت کرکے بعد میں  گمراہ کردے جب تک کہ ان چیزوں  کو صاف صاف نہ بتلا دے جن سے وہ بچیں  بیشک اللہ تعالیٰ ہر چیز کو خوب جانتا ہے،بلاشبہ اللہ ہی کی سلطنت ہے آسمانوں  اور زمین میں  ، وہی جلاتا اور مارتا ہے، اور تمہارا اللہ کے سوا کوئی یار ہے اور نہ کوئی مددگار۔

جب اللہ تعالیٰ نے مشرکین کے حق میں  دعاء مغفرت کرنے سے روکاتوبعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کوجنہوں  نے اپنے فوت شدہ عزیزواقارب کے لئے مغفرت کی دعائیں  کی تھیں  اندیشہ لاحق ہواکہ ایساکرکے انہوں  نے گمراہی کاکام تونہیں  کیا؟اس پرایک کلیہ قاعدہ بیان فرمایاکہ جب تک اللہ تعالی اپنے انبیاء اوراپنی کتابوں  کے ذریعہ سے کسی قوم پر تمام امورکی وضاحت نہیں  کردیتاہے جن پرانہوں  نے عمل کرناہے اورجن چیزوں  سے بچناہے، اس وقت تک اس سے مواخذہ بھی نہیں  فرماتا،اورنہ اسے گمراہی قرار دیتا ہے ، البتہ جب حجت پوری ہوجائے اور لوگ ان کاموں  سے اجتناب نہ کریں  جن سے روکاجاچکاہو،اوراپنی غلط کاری پراصرارکیے جائیں  ، تواللہ تعالیٰ ان کوزبردستی راست بیں  اورراست رونہیں  بناتا،بلکہ ان کی ہدایت ورہنمائی سے ہاتھ کھینچ لیتاہے، اوراسی غلط راہ پرانہیں  دھکیل دیتاہے جس پروہ خودجاناچاہتاہے ،چنانچہ پہلے جوہوچکا سو ہو چکا ، اب جوہمارے حکم کومان گیااوراللہ کی ممانعت کے کام سے رک گیا،اس پر ان کامواخذہ نہیں  ہوگا،کیونکہ انہیں  مسئلے کااس وقت علم ہی نہیں  تھا،بیشک اللہ ہرچیزسے واقف ہے ،بیشک اللہ ہی ہے جس کے لئے آسمانوں  اورزمین کی بادشاہت ہے ،وہی زندگی بخشتاہے اوروہی موت دیتاہے،تووہ کیونکراپنے بندوں  کوجاہل اورگمراہ چھوڑ سکتا ہے، یاد رکھواللہ کے سوا تمہاراکوئی حمایتی اورمددگارنہیں  ہے،اس لئے اس پربھروسہ رکھواوراپنی مشکلات وپریشانیوں  میں  اسی کوپکارو،اس کے سواکوئی اور تمہاری ضروریات کو پورا کرنے کی قدرت نہیں  رکھتاہے۔

مَا كَانَ لِأَهْلِ الْمَدِینَةِ وَمَنْ حَوْلَهُم مِّنَ الْأَعْرَابِ أَن یَتَخَلَّفُوا عَن رَّسُولِ اللَّهِ وَلَا یَرْغَبُوا بِأَنفُسِهِمْ عَن نَّفْسِهِ ۚ ذَٰلِكَ بِأَنَّهُمْ لَا یُصِیبُهُمْ ظَمَأٌ وَلَا نَصَبٌ وَلَا مَخْمَصَةٌ فِی سَبِیلِ اللَّهِ وَلَا یَطَئُونَ مَوْطِئًا یَغِیظُ الْكُفَّارَ وَلَا یَنَالُونَ مِنْ عَدُوٍّ نَّیْلًا إِلَّا كُتِبَ لَهُم بِهِ عَمَلٌ صَالِحٌ ۚ إِنَّ اللَّهَ لَا یُضِیعُ أَجْرَ الْمُحْسِنِینَ ‎﴿١٢٠﴾‏ وَلَا یُنفِقُونَ نَفَقَةً صَغِیرَةً وَلَا كَبِیرَةً وَلَا یَقْطَعُونَ وَادِیًا إِلَّا كُتِبَ لَهُمْ لِیَجْزِیَهُمُ اللَّهُ أَحْسَنَ مَا كَانُوا یَعْمَلُونَ ‎﴿١٢١﴾‏(التوبة)
مدینہ کے رہنے والوں  کو اور جو دیہاتی ان کے گردو پیش ہیں  ان کو یہ زیبا نہیں  تھا کہ رسول اللہ کو چھوڑ کر پیچھے رہ جائیں  اور نہ یہ کہ اپنی جان کو ان کی جان سے عزیز سمجھیں  ، یہ اس سبب سے کہ ان کو اللہ کی راہ میں  جو پیاس لگی اور جو تھکان پہنچی اور جو بھوک لگی اور جو کسی ایسی جگہ چلے جو کفار کے لیے موجب غیظ ہوا ہو اور دشمنوں  کی جو خبر لی ان سب پر ان کا (ایک ایک) نیک کام لکھا گیا، یقیناً اللہ تعالیٰ مخلصین کا اجر ضائع نہیں  کرتا،اور جو کچھ چھوٹا بڑا انہوں  نے خرچ کیا اور جتنے میدان ان کو طے کرنے پڑے یہ سب بھی ان کے نام لکھا گیا تاکہ اللہ تعالیٰ ان کے کاموں  کا اچھے سے اچھا بدلہ دے۔

غزوہ تبوک کے موقع پررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے اس میں  شرکت کے لئے اعلان عام کردیاگیاتھا اس لئے عورتوں  ،بچوں  ،بوڑھوں  اورمعذوروں  کے علاوہ سب مسلمانوں  کا اس میں  شریک ہوناضروری تھالیکن اس اعلان کے باوجودمدینہ منورہ اوراس کے اطراف کے کئی قبائل اس جہادمیں  شریک نہیں  ہوئے تھے، اللہ تعالیٰ نے ان کی زجروتوبیخ کرتے ہوئے فرمایا کہ مدینہ کے مہاجرین وانصاراورمدینہ منورہ کے اردگردرہنے والوں  کویہ زیبانہیں  کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جان سے زیادہ اپنی جانوں  کو چاہیں  ، بلکہ مسلمانوں  کاشیوہ یہ ہوناچاہیے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی جان کواپنی جانوں  سے زیادہ عزیزسمجھیں  ، انہیں  اپنی ذات پرمقدم رکھیں  اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم پراپنی جان قربان کردے،جہادکے ثواب کاذکرفرمایاکہ عمل صالحہ صرف یہی نہیں  کہ آدمی مسجدمیں  یاکسی ایک گوشے میں  بیٹھ کرنوافل ،تلاوت قرآن ،ذکرالٰہی میں  وغیرہ میں  مشغول رہےبلکہ جہادفی سبیل اللہ میں  جوتھوڑابہت خرچ کروگے،سفرمیں  جوجسمانی مشقت،بھوک وپیاس اورتکالیف برداشت کروگے اوردوران سفرجتنے بھی میدان یاعلاقے طے کروگے یا ایسے اقدامات اور وہ کاروائیاں  کروگے جن سے دشمن کے دلوں  میں  خوف پیداہواور جن سے کافروں  کے غیظ وغضب بھڑکے گا ،اسی طرح دوران جنگ دشمنوں  کے آدمیوں  کو قتل کروگےانہیں  شکست سے دوچارکرکے اسیر بناؤگےاور مال غنیمت حاصل کروگے ،ان میں  سے ہرایک چیز اللہ تعالیٰ کے ہاں  عمل صالحہ لکھی جائے گی اورہرایک کا بہترین بدلہ دیاجائے گا،

عَنْ قَتَادَةَ، قَوْلُهُ:وَلَا یُنْفِقُونَ نَفَقَةً صَغِیرَةً وَلَا كَبِیرَةً} الْآیَةَ، قَالَ: مَا ازْدَادَ قَوْمٌ مِنْ أَهْلِیهِمْ فِی سَبِیلِ اللهِ بُعْدًا إِلَّا ازْدَادُوا مِنَ اللهِ قُرْبًا

قتادہ رحمہ اللہ نے آیت کریمہ’’ اسی طرح یہ بھی کبھی نہ ہوگا کہ (اللہ کی راہ میں  ) تھوڑا یا بہت کوئی خرچ وہ اٹھائیں  اور (سعی جہاد میں  ) کوئی وادی وہ پار کریں  اور ان کے حق میں  اسے لکھ نہ لیا جائے تاکہ اللہ ان کے اس اچھے کارنامے کا صلہ انہیں  عطا کرے۔ ‘‘کے بارے میں  فرمایاہےجوکوئی قوم اللہ کے رستے میں  اپنے اہل وعیال سے جس قدردورہوتی ہے، وہ اسی قدراللہ تعالیٰ سے نزدیک ہوتی ہے۔[73]

اس لئے مسلمانوں  کواس عمل سے پیچھے نہیں  رہنا چاہیے یعنی محض شوق عبادت میں  بھی جہادسے گریزصحیح نہیں  چہ جائیکہ بغیرعذرکے آدمی جہادفی سبیل اللہ سے جی چرائے ،جو لوگ اللہ اوراس کے رسول کے حکم کی اطاعت اور حقوق اللہ اورحقوق العباد کو احسن طریقے سے پوراکرتے ہیں  تواللہ ایسے نیکوکاروں  کااجرضائع نہیں  کرتا،جیسے فرمایا

۔۔۔اِنَّا لَا نُضِیْعُ اَجْرَ مَنْ اَحْسَنَ عَمَلًا۝۳۰ۚ [74]

ترجمہ: یقینا ہم نیکو کار لوگوں  کا اجر ضائع نہیں  کیا کرتے ۔

وَمَا كَانَ الْمُؤْمِنُونَ لِیَنفِرُوا كَافَّةً ۚ فَلَوْلَا نَفَرَ مِن كُلِّ فِرْقَةٍ مِّنْهُمْ طَائِفَةٌ لِّیَتَفَقَّهُوا فِی الدِّینِ وَلِیُنذِرُوا قَوْمَهُمْ إِذَا رَجَعُوا إِلَیْهِمْ لَعَلَّهُمْ یَحْذَرُونَ ‎﴿١٢٢﴾‏(التوبة)
اور مسلمانوں  کو یہ نہ چاہیے کہ سب کے سب نکل کھڑے ہوں  ، سو ایسا کیوں  نہ کیا جائے کہ ان کی ہر بڑی جماعت میں  سے ایک چھوٹی جماعت جایا کرے تاکہ وہ دین کی سمجھ بوجھ حاصل کریں  اور تاکہ یہ لوگ اپنی قوم کو جب کہ وہ ان کے پاس آئیں  ڈرائیں  تاکہ وہ ڈر جائیں  ۔

تعلیم دین ،فرض کفایہ :پہلے فرمایاگیاتھا

اَلْاَعْرَابُ اَشَدُّ كُفْرًا وَّنِفَاقًا وَّاَجْدَرُ اَلَّا یَعْلَمُوْا حُدُوْدَ مَآ اَنْزَلَ اللهُ عَلٰی رَسُوْلِهٖ۝۰ۭ وَاللهُ عَلِیْمٌ حَكِیْمٌ۝۹۷ [75]

ترجمہ:یہ بدوی عرب کفر و نفاق میں  زیادہ سخت ہیں  اور ان کے معاملہ میں  اس امر کے امکانات زیادہ ہیں  کہ اس دین کے حدود سے ناواقف رہیں  جو اللہ نے اپنے ر سول پر نازل کیا ہے ، اللہ سب کچھ جانتا ہے اور حکیم و دانا ہے۔

اس آیت میں  فرمایاکہ ان بدوؤں  کواس حالت میں  نہ رہنے دیاجائے بلکہ ان کی جہالت کودورکرنے اور ان کے اندراسلامی شعورپیداکرنے کاباقاعدہ انتظام ہونا چاہیے تاکہ ان میں  دین کی سمجھ پیداہو،اوروہ اس حدتک باخبرہوجائیں  کہ وہ غیرمسلمانہ رویہ زندگی سے بچنے لگیں  ،اس لئے مسلمانوں  کوحکم دیاگیاکہ دین کا سیکھنا اور سکھانا فرض کفایہ کے طورپراداکرو،اس کام کے لئے ہربڑی جماعت یاقبیلے میں  سے کچھ لوگ دین کاعلم حاصل کرنے کے لئے اپناگھربارچھوڑدیں  اورمدارس ومراکزعلم میں  جا کر اسے حاصل کریں  اورپھرواپس آکراپنی قوم میں  وعظ ونصیحت کریں  ،اپنی قوم کے اندرامربالمعروف ونہی عن المنکرکافریضہ انجام دیں  ،

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَوْلُهُ: {وَمَا كَانَ الْمُؤْمِنُونَ لِیَنْفِرُوا كَافَّةً}،[76] یَقُولُ: مَا كَانَ الْمُؤْمِنُونَ لِیَنْفِرُوا جَمِیعًا وَیَتْرُكُوا النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَحْدَهُ. {فَلَوْلَا نَفَرَ مِنْ كُلِّ فِرْقَةٍ مِنْهُمْ طَائِفَةٌ}، [77] یَعْنِی عَصَبَةً، یَعْنِی السَّرَایَا، وَلَا یَتَسَرُّوا إِلَّا بِإِذْنِهِ، فَإِذَا رَجَعَتِ السَّرَایَا، وَقَدْ نَزَلَ بَعْدَهُمْ قُرْآنٌ تَعَلَّمَهُ الْقَاعِدُونَ مِنَ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، قَالُوا: إِنَّ اللَّهَ قَدْ أَنْزَلَ عَلَى نَبِیِّكُمْ بَعْدَكُمْ قُرْآنًا وَقَدْ تَعَلَّمْنَاهُ؛ فَیَمْكُثُ السَّرَایَا یَتَعَلَّمُونَ مَا أَنْزَلَ اللَّهُ عَلَى نَبِیِّهِمْ بَعْدَهُمْ وَیَبْعَثُ سَرَایَا أُخَرَ، فَذَلِكَ قَوْلُهُ: لِیَتَفَقَّهُوَا فِی الدِّینِ،[78] یَقُولُ: یَتَعَلَّمُونَ مَا أَنْزَلَ اللَّهُ عَلَى نَبِیِّهِ، وَیُعَلِّمُونَهُ السَّرَایَا إِذَا رَجَعَتْ إِلَیْهِمْ لَعَلَّهُمْ یَحْذَرُونَ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے آیت کریمہ’’اور یہ کچھ ضروری نہ تھا کہ اہل ایمان سارے کے سارے ہی نکل کھڑے ہوتےمگر ایسا کیوں  نہ ہوا کہ ان کے آبادی کے ہر حصہ میں  سے کچھ لوگ نکل کر آتے اور دین کی سمجھ پیدا کرتے اور واپس جا کر اپنے علاقے کے باشندوں  کو خبردار کرتے تاکہ وہ (غیر مسلمانہ روش سے ) پرہیز کرتے۔کے بارے میں  فرمایاہےاس کے معنی یہ ہیں  کہ تمام مومنوں  کویہ بات زیب نہیں  دیتی کہ وہ سب کے سب نکل جائیں  اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوتنہاچھوڑجائیں  ، مگرایساکیوں  نہ ہواکہ ان کی آبادی کے ہرحصہ میں  سے کچھ لوگ نکل کرآتے،یعنی سب کونہیں  بلکہ ایک جماعت کواوروہ بھی آپ کی اجازت سے نکلناچاہیےاورجب یہ لوگ جہادسے واپس آئیں  اوران کے بعدقرآن کاکچھ حصہ نازل ہواہوجسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھ رہنے والوں  نے سیکھ لیاہواوروہ ان سے یہ کہیں  کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے بعداپنے نبی پرقرآن کایہ حصہ نازل فرمایاہے جسے ہم نے سیکھ لیاہے، تویہ مجاہدین بھی اسے سیکھنے کے لیے رک جائیں  جوان کے بعدنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پرنازل ہواہو،اوران کے بجائے دوسرے مجاہدین کوجہادکے لیے روانہ کردیاجائے،جیسے فرمان الٰہی ہے تاکہ علم دین سیکھ لیں  ،یعنی اسے سیکھ لیں  جواللہ تعالیٰ نے اپنے نبی پرنازل فرمایاہے اورمجاہدین کوبھی ان کی واپسی پر سکھادیں  تاکہ وہ ڈریں  ۔[79]

عَنْ مُجَاهِدٍ، {وَمَا كَانَ الْمُؤْمِنُونَ لِیَنْفِرُوا كَافَّةً فَلَوْلَا نَفَرَ مِنْ كُلِّ فِرْقَةٍ مِنْهُمْ طَائِفَةٌ}، [80] قَالَ: نَاسٌ مِنْ أَصْحَابِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ خَرَجُوا فِی الْبَوَادِی، فَأَصَابُوا مِنَ النَّاسِ مَعْرُوفًا وَمَنَ الْخِصْبِ مَا یَنْتَفِعُونَ بِهِ، وَدَعُوا مَنْ وَجَدُوا مِنَ النَّاسِ إِلَى الْهُدَى، فَقَالَ النَّاسٌ لَهُمْ: مَا نَرَاكُمْ إِلَّا قَدْ تَرَكْتُمْ أَصْحَابَكُمْ وَجِئْتُمُونَا فَوَجَدُوا فِی أَنْفُسِهِمْ مِنْ ذَلِكَ حَرَجًا، وَأَقْبَلُوا مِنَ الْبَادِیَةِ كُلُّهُمْ حَتَّى دَخَلُوا عَلَى النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ اللَّهُ: {فَلَوْلَا نَفَرَ مِنْ كُلِّ فِرْقَةٍ مِنْهُمْ طَائِفَةٌ}،[81] یَبْتَغُونَ الْخَیْرَ، {لِیَتَفَقَّهُوَا}،[82] وَلِیَسْمَعُوا مَا فِی النَّاسِ، وَمَا أَنْزَلَ اللَّهُ بَعْدَهُمْ، {وَلِیُنْذِرُوا قَوْمَهُمْ}،[83] النَّاسَ كُلَّهُمْ، {إِذَا رَجَعُوا إِلَیْهِمْ لَعَلَّهُمْ یَحْذَرُونَ ۔، [84]

اورمجاہد رحمہ اللہ آیت کریمہ’’اور یہ کچھ ضروری نہ تھا کہ اہل ایمان سارے کے سارے ہی نکل کھڑے ہوتے مگر ایسا کیوں  نہ ہوا کہ ان کے آبادی کے ہر حصہ میں  سے کچھ لوگ نکل کر آتے اور دین کی سمجھ پیدا کرتے اور واپس جا کر اپنے علاقے کے باشندوں  کو خبردار کرتے تاکہ وہ(غیر مسلمانہ روش سے ) پرہیز کرتے۔‘‘ کے بار میں  فرماتے ہیں  یہ آیت ان صحابہ رضی اللہ عنہم کے بارے میں  نازل ہوئی ہے جودیہاتوں  کی طرف نکل گئے تھے، لوگوں  نے ان سے اچھاسلوک کیا ،زمین کی سرسبزی وشادابی سے بھی انہیں  نے فائدہ اٹھایااورلوگوں  کو انہوں  نے ہدایت قبول کرنے کی دعوت دی تولوگوں  نے ان سے کہاتم اپنے ساتھیوں  کوچھوڑکرہمارے پاس آگئےہوتوانہوں  نے اسے محسوس کیا اوردیہاتوں  سے آکرنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں  حاضرہوگئے،تواس موقع پراللہ تعالیٰ نے اس آیت کریمہ’’ مگرایساکیوں  نہ ہواکہ ان کی آبادی کے ہرحصہ میں  سے کچھ لوگ نکل کرآتے۔‘‘ کونازل فرمایاجوخیرکوتلاش کرتے،تاکہ دین کاعلم سیکھتے،اورلوگوں  کے بارے میں  سنتے اورجواللہ تعالیٰ نے ان(جہادپرجانے والوں  )کے بعدنازل کیاہے،اسے بھی توجہ سے سنتےاورتاکہ وہ اپنی قوم کوڈرائیں  ،اورتمام لوگوں  کوبھی ڈرائیں  جب ان کی طرف لوٹیں  تاکہ وہ(پیچھے والے بھی اللہ سے)ڈریں  ۔[85]

عَنْ قَتَادَةَ، قَوْلُهُ:{وَمَا كَانَ الْمُؤْمِنُونَ لِیَنْفِرُوا كَافَّةً}، [86] . . إِلَى قَوْلِهِ: {لَعَلَّهُمْ یَحْذَرُونَ}، [87] قَالَ: هَذَا إِذَا بَعَثَ نَبِیُّ اللَّهِ الْجُیُوشَ أَمَرَهُمْ أَنْ لَا یُعَرُّوا نَبِیَّهُ؛ وَتُقِیمْ طَائِفَةٌ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ تَتَفَقَّهُ فِی الدِّینِ، وَتَنْطَلِقُ طَائِفَةٌ تَدْعُو قَوْمَهَا وَتُحَذِّرُهُمْ وَقَائِعَ اللَّهُ فِیمَنْ خَلَا قَبْلَهُمْ

قتادہ رحمہ اللہ اس آیت کریمہ’’ اور یہ کچھ ضروری نہ تھا کہ اہل ایمان سارے کے سارے ہی نکل کھڑے ہوتے مگر ایسا کیوں  نہ ہوا کہ ان کے آبادی کے ہر حصہ میں  سے کچھ لوگ نکل کر آتے اور دین کی سمجھ پیدا کرتے اور واپس جا کر اپنے علاقے کے باشندوں  کو خبردار کرتے تاکہ وہ(غیر مسلمانہ روش سے ) پرہیز کرتے۔‘‘کے بارے میں  فرماتے ہیں  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب جہادکے لیے لشکرروانہ فرمائیں  تواللہ تعالیٰ نے مسلمانوں  کوحکم دیاہے کہ وہ بھی جہادمیں  اللہ کے نبی کے ساتھ شامل ہوجائیں  اورکچھ لوگ دین سیکھنے کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہی رہیں  اورکچھ لوگ نکل جائیں  تاکہ اپنی اپنی قوم کودین کی دعوت دیں  اورپہلے لوگوں  کے حالات وواقعات بیان کرکے انہیں  اللہ کے عذاب سے ڈرائیں  ۔[88]

یَا أَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا قَاتِلُوا الَّذِینَ یَلُونَكُم مِّنَ الْكُفَّارِ وَلْیَجِدُوا فِیكُمْ غِلْظَةً ۚ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ مَعَ الْمُتَّقِینَ ‎﴿١٢٣﴾‏ وَإِذَا مَا أُنزِلَتْ سُورَةٌ فَمِنْهُم مَّن یَقُولُ أَیُّكُمْ زَادَتْهُ هَٰذِهِ إِیمَانًا ۚ فَأَمَّا الَّذِینَ آمَنُوا فَزَادَتْهُمْ إِیمَانًا وَهُمْ یَسْتَبْشِرُونَ ‎﴿١٢٤﴾‏ وَأَمَّا الَّذِینَ فِی قُلُوبِهِم مَّرَضٌ فَزَادَتْهُمْ رِجْسًا إِلَىٰ رِجْسِهِمْ وَمَاتُوا وَهُمْ كَافِرُونَ ‎﴿١٢٥﴾‏ أَوَلَا یَرَوْنَ أَنَّهُمْ یُفْتَنُونَ فِی كُلِّ عَامٍ مَّرَّةً أَوْ مَرَّتَیْنِ ثُمَّ لَا یَتُوبُونَ وَلَا هُمْ یَذَّكَّرُونَ ‎﴿١٢٦﴾‏(التوبة)
اے ایمان والو ! ان کفار سے لڑو جو تمہارے آس پاس ہیں  اور ان کے لیے تمہارے اندر سختی پانا چاہیے اور یہ یقین رکھو کہ اللہ تعالیٰ متقی لوگوں  کے ساتھ ہے،اور جب کوئی سورت نازل کی جاتی ہے تو بعض منافقین کہتے ہیں  کہ اس سورت نے تم میں  سے کس کے ایمان کو زیادہ کیا، سو جو لوگ ایمان والے ہیں  اس سورت نے ان کے ایمان کو زیادہ کیا ہے اور وہ خوش ہو رہے ہیں  ، اور جن کے دلوں  میں  روگ ہے اس سورت نے ان میں  ان کی گندگی کے ساتھ اور گندگی بڑھا دی اور وہ حالت کفر ہی میں  مرگئے، اور کیا ان کو نہیں  دکھلائی دیتا کہ یہ لوگ ہر سال ایک بار یا دو بار کسی نہ کسی آفت میں  پھنستے رہتے ہیں  ،پھر بھی نہ توبہ کرتے اور نہ نصیحت قبول کرتے ہیں

جنگی معاملات میں  تدبیرمیں  اہل ایمان کی راہنمائی کے بعداللہ تعالیٰ نے اس بات کی طرف راہنمائی فرمائی کہ ان کفارسے جنگ کی ابتداکی جائے جوسب سے قریب ہیں  ، اسی وجہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سب سے پہلے جزیرہ العرب کے مشرکین مکہ مکرمہ،مدینہ منورہ،طائف،یمن،یمامہ،ہجر،خیبر،حضرموت کے خلاف جہادکیاتھا،پھرجب اللہ تعالیٰ نے دیگراورعلاقوں  پربھی فتح عطافرمادی توپھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل کتاب سے جہادشروع کیا،اوراس کاآغازرومیوں  سے کیاکیونکہ وہ جزیرہ العرب کے سب سے زیادہ قریب تھے، اس سلسلہ میں  آپ صلی اللہ علیہ وسلم تبوک بھی تشریف لے گئے تھے،فرمایاان کے ساتھ رویہ سخت رکھاجائے اورجنگ میں  ان کانہایت سختی ،بہادری اورثابت قدمی کے ساتھ مقابلہ کیاجائے،اورایک مسلمان کی شان ہی یہی ہے کہ وہ مسلمانوں  کے لیے نہایت رحم دل اورکافروں  کے لیے فولادسے زیادہ سخت ہوں  ،جیسے متعددمقامات پر فرمایا

۔۔۔ فَسَوْفَ یَاْتِی اللہُ بِقَوْمٍ یُّحِبُّہُمْ وَیُحِبُّوْنَہٗٓ۝۰ۙ اَذِلَّةٍ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ اَعِزَّةٍ عَلَی الْكٰفِرِیْنَ۔۔۔۝۰۝۵۴ [89]

ترجمہ:اللہ اور بہت سے لوگ ایسے پیدا کر دے گا جو اللہ کو محبوب ہوں  گے اور اللہ ان کو محبوب ہوگا ، جو مومنوں  پر نرم اور کفار پر سخت ہوں  گے ۔

مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہِ۝۰ۭ وَالَّذِیْنَ مَعَہٗٓ اَشِدَّاۗءُ عَلَی الْكُفَّارِ رُحَمَاۗءُ بَیْنَہُمْ۔۔۔ ۝۲۹ۧ [90]

ترجمہ:محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) اللہ کے رسول ہیں  ، اور جو لوگ ان کے ساتھ ہیں  وہ کفار پر سخت اور آپس میں  رحیم ہیں  ۔

یٰٓاَیُّہَا النَّبِیُّ جَاہِدِ الْكُفَّارَ وَالْمُنٰفِقِیْنَ وَاغْلُظْ عَلَیْہِمْ ۔۔۔۝۹ [91]

ترجمہ:اے پیغمبر جہاد کرو کھلے کافروں  سے بھی اور منافقوں  سے بھی اوران کے معاملے میں  سختی سے کام لو ۔

اورتمہیں  علم ہوناچاہیے کہ اللہ کی تائیدوحمایت پرہیزگاروں  کے ساتھ ہے ، منافقین کے کردارکی نقاب کشائی کی گئی کہ جب کوئی سورت یااس کاکوئی حصہ نازل ہوتا ہے جس کے اندراوامرونواہی نازل کئے گئے ہوں  ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اپنے بارے میں  خبر دی گئی ہو،امورغائبہ سے آگاہ کیاگیاہواورجہادفی سبیل اللہ کی ترغیب دی گئی ہو، تومنافقین استہزااورمذاق کے طورپر آپس میں  کاناپھوسی کرتے ہیں  کہ اس سورت کے نزول سے تم میں  سے کس کے ایمان میں  اضافہ ہوا ہے؟چنانچہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے منافقین اورمسلمانوں  کاتقابلی حال بیان فرمایا کہ اہل ایمان کے ایمان میں  ہر سورت کے علم وفہم،اس پر اعتقاد ، اس پرعمل،بھلائی کے کاموں  میں  رغبت اوربرائی کے کام سے رکنے کے ذریعے سے ضرور اضافہ ہی ہوتا ہے، اوروہ اپنے ایمان کے اضافے پرخوش ہوتے ہیں  (محدثین کا مذہب یہی ہے کہ ایمان میں  کمی بیشی ہوتی ہے ، اور یہ آیت اس کی بہت بڑی دلیل ہے )لیکن جن لوگوں  کے دلوں  میں  کفرونفاق کاروگ لگاہواہے، ہر سورت کے نزول کے ساتھ ان کے کفرونفاق میں  اضافہ ہی ہوتاہے،اوروہ اپنے کفرونفاق میں  اس طرح پختہ ترہوجاتے ہیں  کہ توبہ کی توفیق نصیب نہیں  ہوتی اوران کاخاتمہ کفرپرہی ہوتا ہے ،کیاوہ اس چیزپرغوروفکرنہیں  کرتے کہ اللہ تعالیٰ ان کوتنبیہ کرنے کے لئے تاکہ یہ حق وسچ کاپہچانیں  اورسیدھی راہ اختیارکریں  سال میں  ایک یادومرتبہ مصیبتوں  ،تکالیف ، فصلوں  اور پھلوں  میں  نقصانات ،مہلک امراض یاغزوات سے آزمائش میں  ڈالتا ہے،مگران چیزوں  سے نہ یہ عبرت حاصل کرتے ہیں  اورنہ ان برائیوں  سے تائب ہوتے ہیں  ۔

وَإِذَا مَا أُنزِلَتْ سُورَةٌ نَّظَرَ بَعْضُهُمْ إِلَىٰ بَعْضٍ هَلْ یَرَاكُم مِّنْ أَحَدٍ ثُمَّ انصَرَفُوا ۚ صَرَفَ اللَّهُ قُلُوبَهُم بِأَنَّهُمْ قَوْمٌ لَّا یَفْقَهُونَ ‎﴿١٢٧﴾(التوبة)
اورجب کوئی سورت نازل کی جاتی ہے تو ایک دوسرے کو دیکھنے لگتے ہیں  کہ تم کو کوئی دیکھتا تو نہیں  پھر چل دیتے ہیں  اللہ تعالیٰ نے ان کا دل پھیر دیا اس وجہ سے کہ وہ بےسمجھ لوگ ہیں  ۔

سیدالامم صلی اللہ علیہ وسلم کاقاعدہ یہ تھاکہ جب کوئی سورت یااس کاکوئی حصہ نازل ہوتاتھا تومسلمانوں  کوجمع ہونے کااعلان کراتے ،جب وہ جمع ہوجاتے تواس مجمع عام میں  اس سورت کو خطبے کے طورپرسناتے تھے، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم تواس خطبے کوہمہ تن گوش سنتے اوران کے ایمان میں  اضافہ ہوجاتا،لیکن منافقین اپنی منافقت کوقائم رکھنے کے لے بددلی سے حاضر تو ہوجاتے مگرانہیں  کلام الٰہی سے کوئی دلچسپی نہیں  ہوتی تھی، اس لئے مناسب وقت دیکھ کر کہ کوئی مسلمان انہیں  دیکھ کونہیں  رہااس طرح خاموشی سے کھسک جاتے جیسے گدھاشیرکودیکھ کرکھسکتاہے ،جیسے فرمایا

فَمَا لَہُمْ عَنِ التَّذْكِرَةِ مُعْرِضِیْنَ۝۴۹ۙكَاَنَّہُمْ حُمُرٌ مُّسْتَنْفِرَةٌ۝۵۰فَرَّتْ مِنْ قَسْوَرَةٍ۝۵۱ۭۙ [92]

ترجمہ:آخر ان لوگوں  کو کیا ہو گیا ہے کہ یہ اس نصیحت سے منہ موڑ رہے ہیں  گویا یہ جنگلی گدھے ہیں  جو شیر سے ڈر کر بھاگ پڑے ہیں  ۔

آیات الٰہی میں  غوروتدبرنہ کرنے کی وجہ سے اللہ نے ان کے دلوں  کوخیراورہدایت سے پھیردیاہے،جیسے فرمایا

۔۔۔فَلَمَّا زَاغُوْٓا اَزَاغَ اللہُ قُلُوْبَہُمْ۝۰ۭ وَاللہُ لَا یَہْدِی الْقَوْمَ الْفٰسِقِیْنَ۝۵ [93]

ترجمہ:پھر جب انہوں  نے ٹیڑھ اختیار کی تو اللہ نے ان کے دل ٹیڑھے کر دی، اللہ فاسقوں  کو ہدایت نہیں  دیتا۔

کیونکہ یہ ایسے لو گ ہیں  جوسمجھ سے کام نہیں  لیتے ،اللہ کے کلام کوبے پرواہی سننے ، اس پرغوروتدبرنہ کرنے اورمنہ موڑلینے کایہ بدلہ ہے۔

لَقَدْ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مِّنْ أَنفُسِكُمْ عَزِیزٌ عَلَیْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِیصٌ عَلَیْكُم بِالْمُؤْمِنِینَ رَءُوفٌ رَّحِیمٌ ‎﴿١٢٨﴾‏ فَإِن تَوَلَّوْا فَقُلْ حَسْبِیَ اللَّهُ لَا إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ ۖ عَلَیْهِ تَوَكَّلْتُ ۖ وَهُوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِیمِ ‎﴿١٢٩﴾‏(التوبة)
تمہارے پاس ایک ایسے پیغمبر تشریف لائے ہیں  جو تمہاری جنس سے ہیں  جن کو تمہاری مضرت کی بات نہایت گراں  گزرتی ہے جو تمہاری منفعت کے بڑے خواہش مند رہتے ہیں  ایمانداروں  کے ساتھ بڑے ہی شفیق اور مہربان ہیں  ، پھر اگر روگردانی کریں  تو آپ کہہ دیجئے کہ میرے لیے اللہ کافی ہے،اس کے سوا کوئی معبود نہیں  ، میں  نے اسی پر بھروسہ کیا اور وہ بڑے عرش کا مالک ہے ۔

سورت کے آخرمیں  نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی صورت میں  جواحسان عظیم فرمایاگیااس کاذکرکیاکہ وہ تمہاری جنس یعنی جنس بشریت سے ہیں  (وہ نورمن اللہ نورنہیں  )،جیسے فرمایا

لَقَدْ مَنَّ اللہُ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ اِذْ بَعَثَ فِیْھِمْ رَسُوْلًا مِّنْ اَنْفُسِھِمْ ۔۔۔۝۱۶۴ [94]

ترجمہ:درحقیقت اہل ایمان پر تو اللہ نے یہ بہت بڑا احسان کیا ہے کہ ان کے درمیان خود انہی میں  سے ایک ایسا پیغمبر اٹھایا ۔

كَمَا قَالَ جَعْفَرُ بْنُ أَبِی طَالِبٍ لِلنَّجَاشِیِّ، وَالْمُغِیرَةُ بْنُ شُعْبَةَ لِرَسُولِ كِسْرَى: إِنَّ اللهَ بَعَثَ فِینَا رَسُولًا مِنَّا، نَعْرِفُ نَسَبَهُ وَصِفَتَهُ، وَمُدْخَلَهُ وَمُخْرَجَهُ، وَصِدْقَهُ وَأَمَانَتَهُ

جیسے جعفر رضی اللہ عنہ بن ابی طالب نے نجاشی سے اورمغیرہ بن شعبہ نے کسریٰ کے سفیرسے یہ کہاتھاکہ اللہ تعالیٰ نے ہم میں  ایک ایسے رسول کومبعوث فرمایاہے جن کے حسب ونسب ، اوصاف واطواراورجن کی آمدورفت اورصداقت وامانت کوہم خوب جانتے ہیں  ۔[95]

وہ تمہارابے انتہاخیرخواہ ہے اس لئے اس کوتمہاری ہرقسم کی تکلیف ومشقت گراں  گزرتی ہے،

قَالَ:بُعِثْتُ بِالْحَنِیفِیَّةِ السَّمْحَةِ

اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایامیں  آسان دین حنیفی دے کربھیجاگیاہوں  ۔[96]

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:إِنَّ الدِّینَ یُسْرٌ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایابے شک یہ دین آسان ہے۔[97]

وہ تمہاری دنیاوی وآخروی منفعت کاخواہش مندہے اورتمہاراجہنم میں  جاناپسندنہیں  کرتے ،

 أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا هُرَیْرَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ: أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَقُولُ:إِنَّمَا مَثَلِی وَمَثَلُ النَّاسِ كَمَثَلِ رَجُلٍ اسْتَوْقَدَ نَارًا، فَلَمَّا أَضَاءَتْ مَا حَوْلَهُ جَعَلَ الفَرَاشُ وَهَذِهِ الدَّوَابُّ الَّتِی تَقَعُ فِی النَّارِ یَقَعْنَ فِیهَا، فَجَعَلَ یَنْزِعُهُنَّ وَیَغْلِبْنَهُ فَیَقْتَحِمْنَ فِیهَا، فَأَنَا آخُذُ بِحُجَزِكُمْ عَنِ النَّارِ، وَهُمْ یَقْتَحِمُونَ فِیهَا

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ میری اورلوگوں  کی مثال ایک ایسے شخص کی ہے جس نے آگ جلائی جب اس کے چاروں  طرف روشنی ہوگئی توپروانے اوریہ کیڑے مکوڑے جوآگ میں  گرتے ہیں  اس میں  گرنے لگے، اورآگ جلانے والاانہیں  اس میں  سے نکالنے لگالیکن وہ اس کے قابومیں  نہیں  آئے اورآگ میں  گرتے ہی رہے،اسی طرح میں  تمہیں  تمہاری پشتوں  سے پکڑپکڑکرکھینچتاہوں  لیکن تم مجھ سے دامن چھڑا کر زبردستی جہنم میں  داخل ہوتے ہو۔[98]

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:إِنَّ اللَّهَ لَمْ یُحَرِّمْ حُرْمَةً إِلَّا وَقَدْ عَلِمَ أَنَّهُ سَیَطَّلِعُهَا مِنْكُمْ مُطَّلِعٌ، أَلَا وَإِنِّی آخِذٌ بِحُجَزِكُمْ أَنْ تَهَافَتُوا فِی النَّارِ كَتَهَافُتِ الْفَرَاشِ، أَوِ الذُّبَابِ

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایابے شک اللہ تعالیٰ نے کسی چیزکوبھی حرام قرارنہیں  دیا مگراسے معلوم ہے کہ تم میں  سے کوئی نہ کوئی اس کی طرف ضرورجھانکے گا،اورمیں  تمہیں  تمہاری کمروں  سے پکڑرہاہوں  تاکہ تم جہنم کی آگ میں  اس طرح نہ گرنے لگو، جس طرح پروانے یامکھیاں  آگ میں  گرتی ہیں  ۔[99]

اورآپ کی چوتھی صفت یہ ہے کہ آپ مومنوں  پرنہایت شفقت کرنے والے اوربڑے مہربان ہیں  ،جیسے فرمایا

وَاخْفِضْ جَنَاحَكَ لِمَنِ اتَّبَعَكَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ۝۲۱۵ۚفَاِنْ عَصَوْكَ فَقُلْ اِنِّىْ بَرِیْۗءٌ مِّمَّا تَعْمَلُوْنَ۝۲۱۶ۚوَتَوَكَّلْ عَلَی الْعَزِیْزِ الرَّحِیْمِ۝۲۱۷ۙ [100]

ترجمہ:اور ایمان لانے والوں  میں  سے جو لوگ تمہاری پیروی اختیار کریں  ان کے ساتھ تواضع سے پیش آؤ لیکن اگر وہ تمہاری نافرمانی کریں  تو ان سے کہہ دو کہ جو کچھ تم کرتے ہو اس سے میں  بری الذمہ ہوں  اور اس زبردست اور رحیم پر توکل کرو۔

اگروہ ایمان لے آئیں  تویہ ان کی خوش نصیبی اورتوفیق الٰہی ہے، لیکن اگریہ آپ کی لائی ہوئی شریعت اوردین رحمت سے روگردانی کریں  توآپ کہہ دیں  کہ تمام امورمیں  میرے لئے اللہ کافی ہے، جومجھے کفرواعراض کرنے والوں  کے مکروفریب سے بچالے گااس کے سوا کوئی معبودبرحق نہیں  اورمیں  اس پر اعتماد و بھروسہ کرتاہوں  ،جیسے فرمایا

رَبُّ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَفَاتَّخِذْہُ وَكِیْلًا۝۹ [101]

ترجمہ:وہ مشرق و مغرب کا مالک ہےاس کے سوا کوئی الٰہ نہیں  ہےلہذا اسی کو اپنا وکیل بنا لو۔

اوروہ عرش عظیم کامالک ہے،جوتمام مخلوقات پرسایہ فگن ہے ،

عَنْ أُمِّ الدَّرْدَاءِ، عَنْ أَبِی الدَّرْدَاءِ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ:مَنْ قَالَ إِذَا أَصْبَحَ وَإِذَا أَمْسَى، حَسْبِیَ اللَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ، عَلَیْهِ تَوَكَّلْتُ وَهُوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِیمِ، سَبْعَ مَرَّاتٍ، كَفَاهُ اللَّهُ مَا أَهَمَّهُ صَادِقًا كَانَ بِهَا أَوْ كَاذِبًا

ابوالدرداء رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں  جوشخص یہ آیت’’ حَسْبِیَ اللهُ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ، عَلَیْهِ تَوَكَّلْتُ وَهُوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِیمِ صبح وشام سات سات مرتبہ پڑھ لے گااللہ تعالیٰ اس کی پریشانیوں  میں  اس کی کفایت فرمائے گاخواہ اس نے سچے دل سے یہ کلمہ کہاہویا جھوٹے دل سے۔[102]

حكم الألبانی:موضوع

احدپہاڑجوہم سے محبت کرتاہے:

عَنْ أَبِی حُمَیْدٍ، قَالَ: أَقْبَلْنَا مَعَ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مِنْ غَزْوَةِ تَبُوكَ، حَتَّى إِذَا أَشْرَفْنَا عَلَى المَدِینَةِ قَالَ: هَذِهِ طَابَةُ، وَهَذَا أُحُدٌ، جَبَلٌ یُحِبُّنَا وَنُحِبُّهُ

ابوحمیدساعدی رضی اللہ عنہ سے مروی ہےجب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پچاس روزبعداحدپہاڑکے نزدیک پہنچے اورمدینہ طیبہ کے آثاربھی نظرآنے لگے توآپ نے فرمایایہ رہاطابہ(مدینہ منورہ کاایک نام) اوریہ ہے احد،یہ وہ پہاڑ ہے جوہم سے محبت کرتا ہے اورہم بھی اس سے محبت کرتے ہیں  ۔[103]

خلوص نیت کااجر:

عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ رَجَعَ مِنْ غَزْوَةِ تَبُوكَ فَدَنَا مِنَ المَدِینَةِ، فَقَالَ:إِنَّ بِالْمَدِینَةِ أَقْوَامًا، مَا سِرْتُمْ مَسِیرًا، وَلاَ قَطَعْتُمْ وَادِیًا إِلَّا كَانُوا مَعَكُمْ، قَالُوا: یَا رَسُولَ اللَّهِ، وَهُمْ بِالْمَدِینَةِ؟ قَالَ:وَهُمْ بِالْمَدِینَةِ، حَبَسَهُمُ العُذْرُ

انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہےجب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سفرکے مصائب برداشت کرتے ہوئے مدینہ منورہ کے بالکل قریب پہنچ گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کومخاطب ہو کر فرمایا مدینہ منورہ میں  کچھ لوگ ایسے ہیں  کہ تم نے کوئی وادی طے نہیں  کی اور کوئی کوچ نہیں  کیاجس میں  وہ تمہارے ساتھ ساتھ نہ رہے ہوں  ،صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے تعجب سے کہا کیا مدینہ منورہ میں  رہتے ہوئے ؟ فرمایا ہاں  ، مدینہ طیبہ ہی میں  رہتے ہوئے کیونکہ مجبوری نے انہیں  روک لیاتھاورنہ وہ خودرکنے والے نہ تھے۔[104]

انصارکے بہترین خاندان:

عَنْ أَبِی حُمَیْدٍ السَّاعِدِیِّ،أَلاَ أُخْبِرُكُمْ بِخَیْرِ دُورِ الأَنْصَارِقَالُوا: بَلَى، قَالَ:دُورُ بَنِی النَّجَّارِ، ثُمَّ دُورُ بَنِی عَبْدِ الأَشْهَلِ، ثُمَّ دُورُ بَنِی سَاعِدَةَ أَوْ دُورُ بَنِی الحَارِثِ بْنِ الخَزْرَجِ وَفِی كُلِّ دُورِ الأَنْصَارِ یَعْنِی خَیْرًا

ابوحمیدساعدی رضی اللہ عنہ سے مروی ہےغزوہ تبوک سے واپسی کے وقت مدینہ منورہ کودیکھ کررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکیامیں  تم کوانصارکے بہترین خاندان نہ بتاؤں  ،صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیااے اللہ کےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !ضروربتلائیں  ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا انصارکے بہترین قبیلے بنونجارپھربنوعبدالاشہل پھر بنو ساعدہ پھربنوحارث بن خزرج ہیں  ،اورویسے توانصارکے ہر خاندان میں  خیرہے۔[105]

قَالَ أَبُو أُسَیْدٍ: أُتَّهَمُ أَنَا عَلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ؟ لَوْ كُنْتُ كَاذِبًا لَبَدَأْتُ بِقَوْمِی بَنِی سَاعِدَةَ،وَبَلَغَ ذَلِكَ سَعْدَ بْنَ عُبَادَةَ، فَوَجَدَ فِی نَفْسِهِ، وَقَالَ خُلِّفْنَا فَكُنَّا آخِرَ الْأَرْبَعِ، أَسْرِجُوا لِی حِمَارِی آتِی رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ،وَكَلَّمَهُ ابْنُ أَخِیهِ سَهْلٌ، فَقَالَ: أَتَذْهَبُ لِتَرُدَّ عَلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ؟وَرَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَعْلَمُ،أَوَلَیْسَ حَسْبُكَ أَنْ تَكُونَ رَابِعَ أَرْبَعٍ،فَرَجَعَ وَقَالَ: اللهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، وَأَمَرَ بِحِمَارِهِ فَحُلَّ عَنْهُ

ابواسید رضی اللہ عنہ جب اس حدیث کوبیان کرتے توکہتے تھے کیامیں  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف غلط بیانی کروں  گااگرمیں  جھوٹاہوتاتوسب سے پہلے اپنے قبیلہ بنوساعدہ کا نام لیتا،سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کا تعلق اسی قبیلہ سے تھا،انہیں  جب یہ خبرپہنچی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے قبیلہ کاذکرسب سے آخرمیں  فرمایاہے توانہیں  بہت افسوس ہوا،اوروہ کہنے لگے ہم چاروں  قبیلوں  کے آخرمیں  رہے،یہ کہہ کرانہوں  نے کہامیرے لئے گدھے پرزین کسومیں  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں  جاؤں  گا،ان کے بھتیجے سہل رضی اللہ عنہ نے کہاکیاآپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات کا ردکرنے جارہے ہیں  ، حالانکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خوب جانتے ہیں  (کہ کون کس مقام پر ہے)؟ان کی قوم کے اورلوگوں  نے بھی کہااے سعد رضی اللہ عنہ !بیٹھ جاؤکیاتم اس بات پرراضی نہیں  کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمہارے قبیلہ کو چار بہترین قبیلوں  میں  شمار کیا، اورجن قبیلوں  کانام آپ نے نہیں  لیاوہ ان قبیلوں  سے جن کاآپ نے ذکرلیاکہیں  زیادہ ہیں  ،یہ بات سن کرسعد رضی اللہ عنہ بن عبادہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جانے سے بازآگئے اورگدھے سے زین کھولنے کاحکم دیا۔[106]

فَقَالَ:یَا رَسُولَ اللهِ خَیَّرْتَ دُورَ الْأَنْصَارِ، فَجَعَلْتَنَا آخِرًا،فَقَالَ:أَوَلَیْسَ بِحَسْبِكُمْ أَنْ تَكُونُوا مِنَ الْخِیَارِ

اس کے بعدجب سعد رضی اللہ عنہ کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات ہوئی توانہوں  نے عرض کیااے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم !آپ نے انصارکے قبیلوں  کی فضیلت بتائی توہمیں  آپ نے سب سے آخیرمیں  رکھا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تمہارے لئے یہ کافی نہیں  کہ تم بہترین قبیلوں  میں  سے ہو[107]

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کااستقبال :

جب مدینہ منورہ میں  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آمدکی خبرپہنچی توآپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ولہانہ استقبال کے لئے مدینہ منورہ کے باہر جمع ہو گئے،

عَنِ السَّائِبِ بْنِ یَزِیدَ، یَقُولُ:أَذْكُرُ أَنِّی خَرَجْتُ مَعَ الغِلْمَانِ إِلَى ثَنِیَّةِ الوَدَاعِ، نَتَلَقَّى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ،

سائب بن یزید رضی اللہ عنہ سے مروی ہے مجھے یادہے جب میں  بچوں  کے ساتھ  ثَنِیَّةِ الوَدَاعِ کی گھاٹی پربچوں  کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے استقبال کرنے گیاتھا۔[108]

اورخوشی سے یہ شعرپڑھنے لگے۔

طَلَعَ الْبَدْرُ عَلَیْنَا ،مِنْ ثَنِیَّاتِ الْوَدَاعْ

ہم پرچاندطلوع ہو،وادی ثنیة الواع سے(یہ شام کے راستہ پرہے)                

وَجَبَ الشُّكْرُ عَلَیْنَا،مَا دَعَا لِلَّهِ دَاعْ

ہم پراللہ کاشکرفرض ہے،جب تک پکارنے والااللہ کوپکارے                                  

کعب رضی اللہ عنہ بن مالک کی پریشانی:

كَعْبَ بْنَ مَالِكٍ، یُحَدِّثُ:فَلَمَّا بَلَغَنِی أَنَّهُ تَوَجَّهَ قَافِلًا حَضَرَنِی هَمِّی، وَطَفِقْتُ أَتَذَكَّرُ الكَذِبَ، وَأَقُولُ: بِمَاذَا أَخْرُجُ مِنْ سَخَطِهِ غَدًا، وَاسْتَعَنْتُ عَلَى ذَلِكَ بِكُلِّ ذِی رَأْیٍ مِنْ أَهْلِی، فَلَمَّا قِیلَ: إِنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَدْ أَظَلَّ قَادِمًا زَاحَ عَنِّی البَاطِلُ، وَعَرَفْتُ أَنِّی لَنْ أَخْرُجَ مِنْهُ أَبَدًا بِشَیْءٍ فِیهِ كَذِبٌ، فَأَجْمَعْتُ صِدْقَهُ

کعب بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں  جب مجھے معلوم ہواکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم واپس مدینہ منورہ تشریف لارہے ہیں  تواب مجھ پرفکرسوارہوئی اورمیراذہن کوئی ایسابہانہ تلاش کرنے لگاجس سے میں  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ناراضگی سے بچ جاؤں  ،میں  نے اس سلسلہ میں  اپنے گھرکے ذی عقل لوگوں  سے بھی مشورہ لیا(لیکن وہ کوئی فیصلہ نہ کرسکے)پھرجب مجھے معلوم ہواکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ کے بالکل قریب پہنچ چکے ہیں  تویہ خیال باطل میرے دل سے نکل گئے (یعنی انہوں  نے حیلہ بہانہ کرنے کاخیال چھوڑ دیا ) اور مجھے یقین ہوگیاکہ اس معاملہ میں  جھوٹ بول کرمیں  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے غصہ سے نہیں  بچ سکتا لہذامیں  نے قطعی طور پر یہ فیصلہ کرلیاکہ میں  سچ ہی بولوں  گا(خواہ انجام کچھ ہی ہو )۔[109]

مدینہ منورہ میں  داخلہ :

وَصَبَّحَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَادِمًا، وَكَانَ إِذَا قَدِمَ مِنْ سَفَرٍ، بَدَأَ بِالْمَسْجِدِ فَرَكَعَ فِیهِ رَكْعَتَیْنِ، ثُمَّ جَلَسَ لِلنَّاسِ، فَلَمَّا فَعَلَ ذَلِكَ جَاءَهُ الْمُخَلَّفُونَ، فَطَفِقُوا یَعْتَذِرُونَ إِلَیْهِ، وَیَحْلِفُونَ لَهُ،وَكَانُوا بِضْعَةً وَثَمَانِینَ رَجُلًا، فَقَبِلَ مِنْهُمْ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عَلَانِیَتَهُمْ، وَبَایَعَهُمْ وَاسْتَغْفَرَ لَهُمْ، وَوَكَلَ سَرَائِرَهُمْ إِلَى اللهِ،

صبح کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ میں  داخل ہوئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم حسب معمول مسجدنبوی میں  تشریف لے گئے اوردورکعت نمازادافرمائی، اور پھر لوگوں  سے ملاقات کے لئے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ساتھ وہیں  تشریف فرماہوگئے،منافقین کوتویقین کامل تھاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اوران کے ساتھیوں  کارومی صفایاکریں  گے اس لئے وہ اپنی جان بچانے کے لئے ساتھ ہی نہیں  گئے تھے، مگرجب انہوں  نے صورت حال مختلف دیکھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اوران کے ساتھی مظفرومنصورہوکرآئے ہیں  توآکرقسمیں  کھا کھا کراپنے نہ جانے کی معذرتیں  کرنے لگے،ان لوگوں  کی تعداد اسی (۸۰)سے کچھ زیادہ تھی، کیونکہ ان سے خلوص کی امیدہی نہیں  تھی اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم کسی نیت پرشک وشبہ نہیں  فرماتے تھے ،اس لئے منافقین نے اپنے نہ جانے کا جو جھوٹا عذر بیان کیااسے منظور فرما لیا، اوران کے باطن کواللہ پرچھوڑدیا،اوران سے بیعت فرماکران کے لئے دعائے مغفرت فرمائی۔[110]

ان منافقین میں  پندرہ آدمی عقبہ والے کہلاتے ہیں  (چندمنافقین نے سازش کی تھی کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جنگ تبوک سے واپس تشریف لائیں  تو آپ کووفقتاًحملہ کرکے شہیدکردیں  یہ منافقین عقبہ والے کہلاتے ہیں  )

وَعَذَرَ ثَلَاثَةً، قَالُوا: مَا سَمِعْنَا مُنَادِیَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَلَا عَلِمْنَا بِمَا أَرَادَ الْقَوْمُ

ان میں  سے تین آدمیوں  نے عذرکیاکہ ہم نے منادی کی آوازنہیں  سنی اس لئے ہمیں  یہ معلوم نہیں  ہوسکاکہ لوگوں  کاکیاارادہ ہے(یعنی ہمیں  جہادپرجانے کاعلم نہیں  ہوسکالہذاہمیں  معذور سمجھا جائے)۔[111]

وَآخَرُونَ اعْتَرَفُوا بِذُنُوبِهِمْ خَلَطُوا عَمَلًا صَالِحًا وَآخَرَ سَیِّئًا عَسَى اللَّهُ أَن یَتُوبَ عَلَیْهِمْ ۚ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَّحِیمٌ ‎﴿١٠٢﴾‏(التوبة)
اور کچھ اور لوگ ہیں  جن کا معاملہ اللہ کا حکم آنے تک ملتوی ہےان کو سزا دے گا یا ان کی توبہ قبول کرلے گا اور اللہ خوب جاننے والا بڑا حکمت والا ہے۔

چونکہ ان کامعاملہ مشکوک تھانہ توابھی انہیں  منافق کہاجاسکتاتھااورنہ مسلمان،اللہ تعالیٰ جوان کے ایمان یانفاق کوجانتاتھا نے اپنی حکمت ومشیت کے تحت ان کے معاملہ کو ملتوی رکھاتاکہ مسلمان ان کے طرزعمل سے خودان کوپرکھیں  اورفیصلہ کریں  ۔

وَآخَرُونَ اعْتَرَفُوا بِذُنُوبِهِمْ خَلَطُوا عَمَلًا صَالِحًا وَآخَرَ سَیِّئًا عَسَى اللَّهُ أَن یَتُوبَ عَلَیْهِمْ ۚ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَّحِیمٌ ‎﴿١٠٢﴾‏ خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّیهِم بِهَا وَصَلِّ عَلَیْهِمْ ۖ إِنَّ صَلَاتَكَ سَكَنٌ لَّهُمْ ۗ وَاللَّهُ سَمِیعٌ عَلِیمٌ ‎﴿١٠٣﴾‏ أَلَمْ یَعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ هُوَ یَقْبَلُ التَّوْبَةَ عَنْ عِبَادِهِ وَیَأْخُذُ الصَّدَقَاتِ وَأَنَّ اللَّهَ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِیمُ ‎﴿١٠٤﴾‏ وَقُلِ اعْمَلُوا فَسَیَرَى اللَّهُ عَمَلَكُمْ وَرَسُولُهُ وَالْمُؤْمِنُونَ ۖ وَسَتُرَدُّونَ إِلَىٰ عَالِمِ الْغَیْبِ وَالشَّهَادَةِ فَیُنَبِّئُكُم بِمَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ ‎﴿١٠٥﴾(التوبة)
اور کچھ لوگ ہیں  جو اپنی خطا کے اقراری ہیں  جنہوں  نے ملے جلے عمل کئے تھےکچھ بھلے اور کچھ برے، اللہ سے امید ہے کہ ان کی توبہ قبول فرمائے، بلاشبہ اللہ تعالیٰ بڑی مغفرت والا بڑی رحمت والا ہے، آپ ان کے مالوں  میں  سے صدقہ لے لیجئے جس کے ذریعہ سے آپ ان کو پاک صاف کردیں  اور ان کے لیے دعا کیجئے بلاشبہ آپ کی دعا ان کے لیے موجب اطمینان ہےاور اللہ تعالیٰ خوب سنتا ہے جانتا ہے،کیا ان کو یہ خبر نہیں  کہ اللہ ہی اپنے بندوں  کی توبہ قبول کرتا ہے اور وہی صدقات کو قبول فرماتا ہے اور یہ کہ اللہ ہی توبہ قبول کرنے میں  اوررحمت کرنے میں  کامل ہے، کہہ دیجئے کہ تم عمل کئے جاؤ تمہارے عمل اللہ خود دیکھ لے گا اور اس کا رسول اور ایمان والے (بھی دیکھ لیں  گے) اور ضرور تم کو ایسے کے پاس جانا ہے جو تمام چھپی اور کھلی چیزوں  کا جاننے والا ہے،سو وہ تم کو تمہارا سب کیا ہوا بتلا دے گا ۔

صحابہ کی ایک جماعت کاخودکوسزادینا:

یہ آیات ابولبابہ بن عندالمنذراوران کے چھ ساتھیوں  کے معاملہ میں  نازل ہوئی تھیں  ،ابولبابہ ان لوگوں  میں  سے تھے جوبیت عقبہ کے موقع پرہجرت سے پہلے اسلام لائے تھے ،غزوہ بدر،غزوہ احداوردوسرے معرکوں  میں  برابرشریک رہے مگرغزوہ تبوک کے موقع پرنفس کی کمزوری نے غلبہ کیااوریہ کسی شرعی عذرکے بغیر گھربیٹھے رہے ،ایسے ہی مخلص ان کے دوسرے ساتھی بھی تھے،ان سے بھی یہ کمزوری سرزدہوگئی ، جب ان لوگوں  کومقام تبوک میں  اللہ اوراس کے رسول کی رائے

دَعُوهُ فَإِنْ یَكُ فِیهِ خَیْرٌ فَسَیُلْحِقُهُ اللهُ بِكُمْ، وَإِنْ یَكُ غَیْرَ ذَلِكَ فَقَدْ أَرَاحَكُمُ اللهُ مِنْهُ

انہیں  رہنے دواگران میں  ایمان ہوا توعنقریب اللہ انہیں  تم سے ملادے گااور اگر دوسری صورت ہوئی تو اللہ نے تمہیں  ان سے نجات دے دی۔[112]

کاعلم ہواتوانہیں  سخت ندامت ہوئی ، ان میں  سے کسی نے عذرات نہیں  تراشے، بلکہ انہوں  نے اپنے قصورکوخودہی مان لیا، اوراپنے گناہ کی تلافی کے لئے سخت بے چین ہوگئے،

وَقَالَ عُثْمَانُ بْنُ سَعِیدٍ الدَّارِمِیُّ : كَانُوا عَشَرَةَ رَهْطٍ تَخَلَّفُوا عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فِی غَزْوَةِ تَبُوكَ، فَلَمَّا حَضَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَوْثَقَ سَبْعَةٌ مِنْهُمْ أَنْفُسَهُمْ بِسَوَارِی الْمَسْجِدِ، وَكَانَ یَمُرُّ النَّبِیُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ إِذَا رَجَعَ فِی الْمَسْجِدِ عَلَیْهِمْ، فَلَمَّا رَآهُمْ قَالَ: مَنْ هَؤُلَاءِ الْمُوثِقُونَ أَنْفُسَهُمْ بِالسَّوَارِی؟ قَالُوا: هَذَا أبو لبابة وَأَصْحَابٌ لَهُ، تَخَلَّفُوا عَنْكَ یَا رَسُولَ اللَّهِ، أَوْثَقُوا أَنْفُسَهُمْ حَتَّى یُطْلِقَهُمُ النَّبِیُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَیَعْذِرَهُمْ، قَالَ: وَأَنَا أُقْسِمُ بِاللَّهِ لَا أُطْلِقُهُمْ وَلَا أَعْذِرُهُمْ حَتَّى یَكُونَ اللَّهُ هُوَ الَّذِی یُطْلِقُهُمْ، رَغِبُوا عَنِّی وَتَخَلَّفُوا عَنِ الْغَزْوِ مَعَ الْمُسْلِمِینَ،

عثمان بن سعیددارمی کہتے ہیں  یہ دس آدمی تھے جوغزوہ تبوک میں  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ نہ گئے تھے اورپیچھے رہ گئے تھے ،جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم واپس مدینہ منورہ تشریف لائے توان میں  سےسات آدمیوں  نے خودہی اپنے آپ کو ایک ستون سے باندھ لیا،اورکہاجب تک ہمیں  معاف نہ کردیا جائے ہم پرسونا اورکھانا پیناحرام ہےیاپھرہم مرجائیں  ، جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم واپسی پرمسجدمیں  ان کے قریب سے گزررہے تھے تودریافت فرمایایہ کون لوگ ہیں  جنہوں  نے اپنے آپ کومسجدکے ستوں  کے ساتھ باندھ رکھاہے؟عرض کیاگیایہ ابولبابہ رضی اللہ عنہ اوران کے ساتھی ہیں  جوکہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !غزوہ تبوک میں  آپ کے پیچھے رہ گئے اورہمراہ نہیں  گئے، ان لوگوں  نے اپنے آپ کومسجدکے ستونوں  کے ساتھ باندھ دیاہے تاآنکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی انہیں  کھولیں  اوران کی معذرت قبول فرمالیں  ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااللہ کی قسم !میں  نہ انہیں  کھولوں  گااورنہ ان کی معذرت قبول کروں  گاجب تک کہ اللہ تعالیٰ انہیں  کھولے یہ لوگ مجھ سے اعراض کرگئے اورمجاہدین اسلام کے ہمراہ غزوہ تبوک میں  شریک ہونے سے پیچھے رہ گئے،

فَلَمَّا بَلَغَهُمْ ذَلِكَ قَالُوا: وَنَحْنُ لَا نُطْلِقُ أَنْفُسَنَا حَتَّى یَكُونَ اللَّهُ هُوَ الَّذِی یُطْلِقُنَا، فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ {وَآخَرُونَ اعْتَرَفُوا بِذُنُوبِهِمْ خَلَطُوا عَمَلًا صَالِحًا وَآخَرَ سَیِّئًا عَسَى اللَّهُ أَنْ یَتُوبَ عَلَیْهِمْ}، [113] وَعَسَى مِنَ اللَّهِ وَاجِبٌ {إِنَّهُ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِیمُ}،[114] فَلَمَّا نَزَلَتْ أَرْسَلَ إِلَیْهِمُ النَّبِیُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَأَطْلَقَهُمْ وَعَذَرَهُمْ،

جب ان لوگوں  کویہ معلوم ہواتوکہنے لگے ہم اپنے آپ کوہرگزنہیں  کھولیں  گے جب تک کہ اللہ تعالیٰ ہی ہمیں  نہ کھولے(کئی روزتک وہ اسی طرح بغیرسوئے اورکھائے پیئے بغیر بندھے رہے آخرایک دن بیہوش ہوکرگر پڑے )،اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی’’کچھ اور لوگ ہیں  جنہوں  نے اپنے قصوروں  کا اعتراف کر لیا ہے ان کا عمل مخلوط ہے کچھ نیک اور کچھ بد ، بعید نہیں  کہ اللہ ان پر پھر مہربان ہو جائے کیونکہ وہ درگزر کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے۔‘‘ ’’اللہ بخشنے والا اور رحم کرنے والا ہے۔‘‘جب یہ آیت نازل ہوئی تونبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی طرف کسی کوبھیجااورانہیں  آزادکرکے ان کاعذرقبول فرمالیا،

فَجَاءُوا بِأَمْوَالِهِمْ فَقَالُوا: یَا رَسُولَ اللَّهِ هَذِهِ أَمْوَالُنَا فَتَصَدَّقْ بِهَا عَنَّا وَاسْتَغْفِرْ لَنَا، قَالَ: مَا أُمِرْتُ أَنْ آخُذَ أَمْوَالَكُمْ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّیهِمْ بِهَا وَصَلِّ عَلَیْهِمْ}،[115]

انہوں  نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیااے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! (ہماری توبہ میں  یہ بھی شامل ہے کہ جس جس گھرکی آسائش نے ہمیں  فرض سے غافل کیااسے اوراپنے تمام مال کو اللہ کی راہ میں  دے دیں  )ہمارے یہ مال حاضرہیں  ہماری جانب سے ان کاصدقہ فرمادیں  ، اورہمارے لیے بخشش کی دعافرمائیں  ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایامجھے تمہارامال لینے کاحکم نہیں  دیاگیاہے،چنانچہ اللہ تعالیٰ نے یہ آیت’’۔‘‘اے نبی، تم ان کے اموال میں  سے صدقہ لے کر انہیں  پاک کرو اور (نیکی کی راہ میں  ) انہیں  بڑھاؤ، اور ان کے حق میں  دعائے رحمت کرو کیونکہ تمہاری دعا ان کے لیے وجہ تسکین ہوگی، اللہ سب کچھ سنتا اور جانتا ہے۔‘‘ نازل فرمائی۔اس پررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کامال قبول فرماکرصدقہ کردیااوران کے لیے بخشش کی دعافرمائی ۔[116]

کیاان لوگوں  کومعلوم نہیں  ہے کہ وہ اللہ وحدہ لاشریک ہی ہے جواپنے بندوں  کی توبہ قبول کرتاہے اوران کی خیرات کوقبولیت عطافرماتاہے اوریہ کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں  کے گناہوں  ،لغزشوں  اورخطاؤں  کو بہت معاف کرنے والااوررحیم ہے،اوراے نبی صلی اللہ علیہ وسلم !ان لوگوں  سے کہہ دوکہ تم عمل کرواللہ اوراس کارسول اورمومنین سب دیکھیں  گے کہ تمہاراطرزعمل اب کیارہتاہےپھرایک مقررہ وقت پرتم اس کی طرف پلٹائے جاؤگے جوکھلے اورچھپے سب کچھ جانتاہے اور وہ تمہیں  بتادے گاکہ تم دنیامیں  کیاعمل کرتے رہے ہو۔

تین صحابہ رضی اللہ عنہم کامقاطعہ:

جب ان تین مومنین کعب بن مالک رضی اللہ عنہ ،مرارہ بن ربیع رضی اللہ عنہ اور ہلال بن امیہ رضی اللہ عنہ (کہاجاتاہے کہ یہ تینوں  بدری صحابہ ہیں  مگریہ صحیح نہیں  ان میں  ایک بھی بدری صحابی نہیں  ) جن کے ایمان میں  کوئی شک وشبہ نہ تھا،اوراس سے پہلے اپنے اپنے اخلاص کابار بار ثبوت دے چکے تھے ،قربانیاں  دے چکے تھے مگر غزوہ تبوک پر ساتھ جانے سے رک گئے تھے،باری آئی توانہوں  نے صاف صاف اقرارکیاکہ وہ بغیرکسی مجبوری کے مدینہ منورہ میں  رک گئے تھے،

فَجِئْتُهُ فَلَمَّا سَلَّمْتُ عَلَیْهِ تَبَسَّمَ تَبَسُّمَ المُغْضَبِ، ثُمَّ قَالَ:تَعَالَ فَجِئْتُ أَمْشِی حَتَّى جَلَسْتُ بَیْنَ یَدَیْهِ ، فَقَالَ لِی:مَا خَلَّفَكَ،أَلَمْ تَكُنْ قَدْ ابْتَعْتَ ظَهْرَكَ،فَقُلْتُ: بَلَى إِنِّی وَاللهِ لَوْ جَلَسْتُ عِنْدَ غَیْرِكَ مِنْ أَهْلِ الدُّنْیَا، لَرَأَیْتُ أَنْ سَأَخْرُجُ مِنْ سَخَطِهِ بِعُذْرٍ، وَلَقَدْ أُعْطِیتُ جَدَلًا، وَلَكِنِّی وَاللهِ، لَقَدْ عَلِمْتُ لَئِنْ حَدَّثْتُكَ الیَوْمَ حَدِیثَ كَذِبٍ تَرْضَى بِهِ عَنِّی، لَیُوشِكَنَّ اللهُ أَنْ یُسْخِطَكَ عَلَیَّ، وَلَئِنْ حَدَّثْتُكَ حَدِیثَ صِدْقٍ، تَجِدُ عَلَیَّ فِیهِ، إِنِّی لَأَرْجُو فِیهِ عَفْوَ اللهِ،لاَ وَاللهِ، مَا كَانَ لِی مِنْ عُذْرٍ، وَاللهِ مَا كُنْتُ قَطُّ أَقْوَى، وَلاَ أَیْسَرَ مِنِّی حِینَ تَخَلَّفْتُ عَنْكَ

کعب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں  جب میری باری آئی میں  نے آگے بڑھ کر سلام عرض کیاجب میں  نے السلام علیکم کہاتوآپ صلی اللہ علیہ وسلم میری طرف دیکھ کرمسکرائے مگرتبسم میں  غصہ کے آثارنمایاں  تھے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاآگے آجاؤ،میں  آگے آیااورآپ کے سامنے بیٹھ گیا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا تم غزوہ میں  کیوں  شریک نہیں  ہوئے؟کیاتم نے سفرکے لئے سواری نہیں  خریدی تھی ؟میں  نے عرض کیامیرے پاس سواری موجودتھی،اللہ کی قسم!اگرمیں  آپ کے سواکسی دنیادارشخص کے سامنے آج بیٹھاہواہوتاتوکوئی نہ کوئی عذرگھڑکراس کی خفگی سے بچ سکتاتھا،مجھے خوبصورتی کے ساتھ گفتگوکاسلیقہ معلوم ہے ،لیکن اللہ کی قسم !مجھے یقین ہے کہ اگرآج میں  آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کوئی جھوٹاعذربیان کرکے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کوراضی کرلوں  توبہت جلداللہ تعالیٰ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کومجھ سے ناراض کردے گا،اس کے بجائے اگرمیں  آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سچی بات بیان کردوں  تویقیناًآپ صلی اللہ علیہ وسلم کومیری طرف سے خفگی ہوگی لیکن اللہ سے مجھے معافی کی پوری امیدہے،نہیں  ،اللہ کی قسم! مجھے کوئی عذرنہیں  تھا،اللہ کی قسم !میں  ایساقوی اورفارغ البال بھی کبھی نہیں  تھاجتناکہ اس موقع پرتھا،اورپھربھی میں  آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ غزوہ میں  شریک نہیں  ہوسکا،

فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:أَمَّا هَذَا فَقَدْ صَدَقَ، فَقُمْ حَتَّى یَقْضِیَ اللهُ فِیكَ ،فَقُمْتُ، وَثَارَ رِجَالٌ مِنْ بَنِی سَلِمَةَ فَاتَّبَعُونِی، فَقَالُوا لِی: وَاللهِ مَا عَلِمْنَاكَ كُنْتَ أَذْنَبْتَ ذَنْبًا قَبْلَ هَذَا، وَلَقَدْ عَجَزْتَ أَنْ لاَ تَكُونَ اعْتَذَرْتَ إِلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بِمَا اعْتَذَرَ إِلَیْهِ المُتَخَلِّفُونَ، قَدْ كَانَ كَافِیَكَ ذَنْبَكَ اسْتِغْفَارُ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ لَكَ، فَوَاللهِ مَا زَالُوا یُؤَنِّبُونِی حَتَّى أَرَدْتُ أَنْ أَرْجِعَ فَأُكَذِّبَ نَفْسِی،ثُمَّ قُلْتُ لَهُمْ: هَلْ لَقِیَ هَذَا مَعِی أَحَدٌ؟قَالُوا: نَعَمْ، رَجُلاَنِ، قَالاَ مِثْلَ مَا قُلْتَ ، فَقِیلَ لَهُمَا مِثْلُ مَا قِیلَ لَكَ، فَقُلْتُ: مَنْ هُمَا؟قَالُوا: مُرَارَةُ بْنُ الرَّبِیعِ العَمْرِیُّ، وَهِلاَلُ بْنُ أُمَیَّةَ الوَاقِفِیُّ

اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااس نے سچی بات کہی ہے ، اچھااٹھ جاؤاور انتظار کرویہاں  تک کہ اللہ تمہارے معاملہ میں  کوئی فیصلہ فرمادے،میں  اٹھ کرچلااورمیرے پیچھے قبیلہ بنوسلمہ کے چندلوگ بھی اٹھ کران کے ساتھ چلے، راستہ میں  وہ کہنے لگے اللہ کی قسم! ہمیں  توعلم نہیں  کہ اس سے پہلے تم نے کبھی کوئی گناہ کیاہے ،جس طرح منافقین نے عذرپیش کیااسی طرح عذرکرنے سے تم عاجزتھے ؟ہم تویہ سمجھتے ہیں  کہ اس گناہ کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعائے مغفرت تمہارے لئے کافی ہوگی،اللہ کی قسم ! یہ لوگ برابرمجھے ملامت کرتے رہے، اوریہ باتیں  سن کرمیرانفس بھی کچھ آمادہ ہونے لگاکہ پھر حاضر ہوکرکوئی جھوٹاعذربناآؤں  ،(اسی دوران )میں  نے ان سے پوچھاکیااس حال میں  کوئی اوربھی میراشریک ہے ؟ان لوگوں  نے کہاہاں  ،دوشخص اورہیں  جنہوں  نے وہی کہاہے جوتم نے کہاہے اوران سے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہی فرمایاہے جوتم سے فرمایا ہے،میں  نے پوچھادودونوں  کون ہیں  ؟انہوں  نے کہامرارہ بن ربیع رضی اللہ عنہ اورہلال بن امیہ واقفی رضی اللہ عنہ

فَذَكَرُوا لِی رَجُلَیْنِ صَالِحَیْنِ، قَدْ شَهِدَا بَدْرًا، فِیهِمَا أُسْوَةٌ، فَمَضَیْتُ حِینَ ذَكَرُوهُمَا لِی،وَنَهَى رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ المُسْلِمِینَ عَنْ كَلاَمِنَا أَیُّهَا الثَّلاَثَةُ مِنْ بَیْنِ مَنْ تَخَلَّفَ عَنْهُ ، وَتَغَیَّرُوا لَنَا حَتَّى تَنَكَّرَتْ فِی نَفْسِی الأَرْضُ فَمَا هِیَ الَّتِی أَعْرِفُ،فَلَبِثْنَا عَلَى ذَلِكَ خَمْسِینَ لَیْلَةً، فَأَمَّا صَاحِبَایَ فَاسْتَكَانَا وَقَعَدَا فِی بُیُوتِهِمَا یَبْكِیَان ،وَأَمَّا أَنَا، فَكُنْتُ أَشَبَّ القَوْمِ وَأَجْلَدَهُمْ فَكُنْتُ أَخْرُجُ فَأَشْهَدُ الصَّلاَةَ مَعَ المُسْلِمِینَ ،وَأَطُوفُ فِی الأَسْوَاقِ وَلاَ یُكَلِّمُنِی أَحَدٌ

ان دوایسے صحابہ رضی اللہ عنہم کانام انہوں  نے لے دیاتھاجو بڑے صالح تھےاورغزوہ بدرمیں  شریک ہوئے تھے،ان کا طرزعمل میرے لئے بڑااچھانمونہ بن گیاچنانچہ انہوں  نے جب ان بزرگوں  کانام لیاتومیں  اپنے گھرچلاآیا،اس کے بعدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عام حکم فرمادیاکہ ہم تینوں  آدمیوں  سے کوئی بات چیت نہ کرے ،بہت سے لوگ جوغزوے میں  شریک نہیں  تھے ان میں  صرف ہم تین تھے، لوگ ہم سے الگ تھلگ رہنے لگے اورسب لوگ بدل گئے ،ایسانظرآتاتھاکہ ہم سے ساری دنیابدل گئی ہے،ہمارااس سے کوئی واسطہ ہی نہیں  ہے ،پچاس دن تک ہم اسی طرح رہے ،میرے دوساتھیوں  نے اپنے گھروں  سے نکلناہی چھوڑدیا،بس انہیں  (رات دن)سوائے رونے کے اورکوئی کام نہ تھا،لیکن میرے اندرہمت تھی کہ میں  گھرسے باہرنکلتاتھااورمسلمانوں  کے ساتھ باجماعت نمازپڑھتاتھااوربازاروں  میں  گھوماکرتا تھا لیکن مجھ سے بولتاکوئی نہ تھا،

وَآتِی رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَأُسَلِّمُ عَلَیْهِ وَهُوَ فِی مَجْلِسِهِ بَعْدَ الصَّلاَةِ فَأَقُولُ فِی نَفْسِی: هَلْ حَرَّكَ شَفَتَیْهِ بِرَدِّ السَّلاَمِ عَلَیَّ أَمْ لاَ؟ثُمَّ أُصَلِّی قَرِیبًا مِنْهُ، فَأُسَارِقُهُ النَّظَرَ،فَإِذَا أَقْبَلْتُ عَلَى صَلاَتِی أَقْبَلَ إِلَیَّ، وَإِذَا التَفَتُّ نَحْوَهُ أَعْرَضَ عَنِّی،حَتَّى إِذَا طَالَ عَلَیَّ ذَلِكَ مِنْ جَفْوَةِ النَّاسِ، مَشَیْتُ حَتَّى تَسَوَّرْتُ جِدَارَ حَائِطِ أَبِی قَتَادَةَ وَهُوَ ابْنُ عَمِّی وَأَحَبُّ النَّاسِ إِلَیَّ، فَسَلَّمْتُ عَلَیْهِ، فَوَاللهِ مَا رَدَّ عَلَیَّ السَّلاَم، فَقُلْتُ: یَا أَبَا قَتَادَةَ، أَنْشُدُكَ بِاللهِ هَلْ تَعْلَمُنِی أُحِبُّ اللهَ وَرَسُولَهُ؟فَسَكَتَ،فَعُدْتُ لَهُ فَنَشَدْتُهُ فَسَكَتَ، فَعُدْتُ لَهُ فَنَشَدْتُهُ، فَقَالَ: اللهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ،فَفَاضَتْ عَیْنَایَ، وَتَوَلَّیْتُ حَتَّى تَسَوَّرْتُ الجِدَارَ

جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نمازکے بعدصحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی مجلس میں  تشریف فرماہوتے تومیں  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں  بھی حاضرہوتاتھااورآپ صلی اللہ علیہ وسلم کوسلام کرتاتھا،میں  اس کی جستجومیں  لگارہتاتھاکہ دیکھوں  سلام کے جواب میں  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لب مبارک نے جنبش کی یانہیں  ؟پھرمیں  آپ کے نزدیک کھڑاہوکرنمازپڑھتااور نظریں  چراکررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کودیکھتاتھا،جب میں  نمازمیں  مشغول ہوجاتاتورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میری جانب دیکھتے رہتے، مگرجونہی میں  آپ کی طرف دیکھتاتو آپ صلی اللہ علیہ وسلم میری طرف سے رخ مبارک پھیرلیتے،آخرجب اس طرح لوگوں  کی بے رخی بڑھتی ہی گئی توایک روز میں  گھبراکر ابوقتادہ رضی اللہ عنہ کے باغ کی دیوارپرچڑھ گیا،وہ میرے چچازادبھائی تھے اورمجھے ان سے بہت گہراتعلق تھا، میں  نے انہیں  سلام کیالیکن اللہ کی قسم !انہوں  نے میرے سلام کا جواب نہیں  دیا،( جب میں  نے دیکھاکہ انہوں  نے میرے سلام کا جواب تک نہ دیاتو) میں  نے کہاابوقتادہ رضی اللہ عنہ !میں  تم کواللہ کی قسم دے کرپوچھتاہوں  ، کیاتم نہیں  جانتے کہ مجھے اللہ اوراس کے رسول سے کتنی محبت ہے؟انہوں  نے کوئی جواب نہیں  دیااور خاموش رہے،میں  نے اللہ کی قسم دے کر دوبارہ ان سے یہی سوال کیاوہ پھر خاموش رہے، میں  نے پھراللہ کاواسطہ دے کران سے یہی سوال گیااس مرتبہ انہوں  نے بس اتناکہاکہ اللہ اوراس کا رسول ہی بہترجانتاہے،ان کی اس قدر سردمہری کودیکھ کرمیری آنکھوں  میں  آنسورواں  ہوگئے اورمیں  دیوارپھلانگ کر نیچے اترآیا ۔

کعب رضی اللہ عنہ کی آزمائش :

قَالَ: فَبَیْنَا أَنَا أَمْشِی بِسُوقِ المَدِینَةِ، إِذَا نَبَطِیٌّ مِنْ أَنْبَاطِ أَهْلِ الشَّأْمِ، مِمَّنْ قَدِمَ بِالطَّعَامِ یَبِیعُهُ بِالْمَدِینَةِ، یَقُولُ: مَنْ یَدُلُّ عَلَى كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ،فَطَفِقَ النَّاسُ یُشِیرُونَ لَهُ، حَتَّى إِذَا جَاءَنِی دَفَعَ إِلَیَّ كِتَابًا مِنْ مَلِكِ غَسَّانَ، فَإِذَا فِیهِ، أَمَّا بَعْدُ، فَإِنَّهُ قَدْ بَلَغَنِی أَنَّ صَاحِبَكَ قَدْ جَفَاكَ وَلَمْ یَجْعَلْكَ اللهُ بِدَارِ هَوَانٍ، وَلاَ مَضْیَعَةٍ، فَالحَقْ بِنَا نُوَاسِكَ،فَقُلْتُ لَمَّا قَرَأْتُهَا: وَهَذَا أَیْضًا مِنَ البَلاَءِ، فَتَیَمَّمْتُ بِهَا التَّنُّورَ فَسَجَرْتُهُ بِهَا

کعب رضی اللہ عنہ نے بیان کیاکہ ایک دن میں  مدینہ منورہ کے بازارمیں  جارہاتھاکہ شام کا نبطی نصرانی شخص جوغلہ بیچنے مدینہ منورہ آیاہواتھاپوچھ رہاتھا کہ کعب بن مالک کہاں  رہتے ہیں  ؟لوگوں  نے میری طرف اشارہ کیاتووہ میرے پاس آیااور اس نے شاہ غسان کا حریرمیں  لپٹاہواخط انہیں  دیا،میں  نے کھول کر پڑھا تواس میں  تحریرتھا امابعد!مجھے معلوم ہواہے کہ تمہارے صاحب(یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ) نے تم پرستم توڑرکھاہے ،اللہ تعالیٰ نے تمہیں  کوئی ذلیل آدمی نہیں  پیداکیاہے کہ تمہاراحق ضائع کیاجائے، تم ہمارے پاس آجاؤہم تمہاری قدرومنزلت کریں  گے، خط پڑھ کرمیں  نے خیال کیاکہ یہ اللہ کی طرف سے ایک آزمائش ہےاوراسی وقت اس خط کوتنورمیں  جلاکردیا

حَتَّى إِذَا مَضَتْ أَرْبَعُونَ لَیْلَةً مِنَ الخَمْسِینَ، إِذَا رَسُولُ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَأْتِینِی، فَقَالَ: إِنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَأْمُرُكَ أَنْ تَعْتَزِلَ امْرَأَتَكَ،فَقُلْتُ: أُطَلِّقُهَا؟ أَمْ مَاذَا أَفْعَلُ؟قَالَ: لاَ، بَلِ اعْتَزِلْهَا وَلاَ تَقْرَبْهَاوَأَرْسَلَ إِلَى صَاحِبَیَّ مِثْلَ ذَلِكَ،فَقُلْتُ لِامْرَأَتِی: الحَقِی بِأَهْلِكِ، فَتَكُونِی عِنْدَهُمْ، حَتَّى یَقْضِیَ اللهُ فِی هَذَا الأَمْرِ

ان پچاس دونوں  میں  سے جب چالیس دن گزرچکے تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایلچی میرے پاس آئے اورکہاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمہیں  حکم دیاہے کہ اپنی بیوی کے بھی قریب نہ جاؤ،میں  نے پوچھاکیاطلاق دے دوں  یاپھرمجھے کیاکرناچاہیے ؟ انہوں  نے بتایاکہ نہیں  بس الگ رہواوراس کے قریب نہ جاؤ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے دونوں  ساتھیوں  کی طرف بھی یہی حکم بھیجاتھا،چنانچہ میں  نے اپنی بیوی سے کہہ دیاکہ تم اپنے میکے چلی جاؤ اور انتظارکرویہاں  تک کہ اللہ اس معاملہ کافیصلہ کردے،

قَالَ كَعْبٌ: فَجَاءَتِ امْرَأَةُ هِلاَلِ بْنِ أُمَیَّةَ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتْ: یَا رَسُولَ اللهِ: إِنَّ هِلاَلَ بْنَ أُمَیَّةَ شَیْخٌ ضَائِعٌ، لَیْسَ لَهُ خَادِمٌ، فَهَلْ تَكْرَهُ أَنْ أَخْدُمَهُ؟قَالَ:لاَ، وَلَكِنْ لاَ یَقْرَبْكِ، قَالَتْ: إِنَّهُ وَاللهِ مَا بِهِ حَرَكَةٌ إِلَى شَیْءٍ،وَاللهِ مَا زَالَ یَبْكِی مُنْذُ كَانَ مِنْ أَمْرِهِ، مَا كَانَ إِلَى یَوْمِهِ هَذَا،فَقَالَ لِی بَعْضُ أَهْلِی: لَوِ اسْتَأْذَنْتَ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فِی امْرَأَتِكَ كَمَا أَذِنَ لِامْرَأَةِ هِلاَلِ بْنِ أُمَیَّةَ أَنْ تَخْدُمَهُ؟فَقُلْتُ: وَاللهِ لاَ أَسْتَأْذِنُ فِیهَا رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، وَمَا یُدْرِینِی مَا یَقُولُ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ إِذَا اسْتَأْذَنْتُهُ فِیهَا، وَأَنَا رَجُلٌ شَابٌّ؟فَلَبِثْتُ بَعْدَ ذَلِكَ عَشْرَ لَیَالٍ، حَتَّى كَمَلَتْ لَنَا خَمْسُونَ لَیْلَةً مِنْ حِینَ نَهَى رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عَنْ كَلاَمِنَا

کعب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں  یہ حکم سن کرہلال بن امیہ کی بیوی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں  حاضرہوئی اورکہنے لگی اے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم !ہلال بن امیہ بہت ہی بوڑھے اورکمزورہیں  ،خدمت کرنے کے لئے اس کے پاس کوئی خادم نہیں  ہے اگرمیں  اس کی خدمت کروں  توآپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کوناپسندفرمائیں  گے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیانہیں  مگروہ تمہارے قریب نہ جائے،وہ بولی اللہ کی قسم!وہ توکسی چیزکے لیے حرکت بھی نہیں  کرسکتے،اللہ کی قسم !جب سے اس کامقاطعہ ہواہے وہ دن ہے اورآج کادن ہے ان کے آنسوتھمنے میں  نہیں  آتے،میرے گھرکے لوگوں  نے کہاکہ جس طرح ہلال بن امیہ رضی اللہ عنہ کی بیوی کوان کی خدمت کرتے رہنے کی اجازت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دے دی ہے آپ بھی اسی طرح اجازت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے لے لیجئے،میں  نے کہااللہ کی قسم !میں  اس کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت نہیں  لوں  گا،میں  نوجوان آدمی ہوں  معلوم نہیں  جب اجازت لینے جاؤں  تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیافرمائیں  ؟اس طرح دس راتیں  اورگزرگئی اورجب سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے بات چیت کرنے کی ممانعت فرمائی تھی اس کےپچاس دن پورے ہوگئے۔

فَكَانَتْ أُمّ سَلَمَةَ زَوْجُ النّبِیّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ تَقُولُ: قَالَ لِی رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مِنْ اللّیْلِ: یَا أُمّ سَلَمَةَ، قَدْ نَزَلَتْ تَوْبَةُ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ وَصَاحِبَیْهِ. فَقُلْت: یَا رَسُولَ اللهِ، أَلَا أَرْسَلْت إلَیْهِمْ فَأُبَشّرَهُمْ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: یَمْنَعُونَك النّوْمَ آخِرَ اللّیْلِ، وَلَكِنْ لَا یُرَوْنَ حَتّى یُصْبِحُوا،قَالَ: فَلَمّا صَلّى رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ الصّبْحَ أَخْبَرَ النّاسَ بِمَا تَابَ اللهُ عَلَى هَؤُلَاءِ النّفَرِ: كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ، وَمُرَارَةَ بْنِ الرّبِیعِ، وَهِلَالِ بْنِ أُمَیّةَ

ایک روایت میں  ہےاس رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے ہاں  تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایاکعب رضی اللہ عنہ کی توبہ قبول ہوگئی،یہ خوشخبری سن کرام سلمہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیااے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم !کیامیں  یہ خوشخبری سنانے کے لئے کسی آدمی کوان کی طرف بھیج دوں  ؟رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایالوگوں  کاہجوم ہوجائے گااورتمہیں  کوئی سونے نہیں  دے گا،کعب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں  کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صبح کی نمازکے بعداللہ کی طرف سے ہماری توبہ قبول ہونے کااعلان فرمایاکہ کعب بن مالک ،مرارہ بن ربیع اورہلال بن امیہ کی توبہ قبول ہوگئی ہے۔[117]

فَلَمَّا صَلَّیْتُ صَلاَةَ الفَجْرِ صُبْحَ خَمْسِینَ لَیْلَةً، وَأَنَا عَلَى ظَهْرِ بَیْتٍ مِنْ بُیُوتِنَا، فَبَیْنَا أَنَا جَالِسٌ عَلَى الحَالِ الَّتِی ذَكَرَ اللهُ، قَدْ ضَاقَتْ عَلَیَّ نَفْسِی، وَضَاقَتْ عَلَیَّ الأَرْضُ بِمَا رَحُبَتْ، سَمِعْتُ صَوْتَ صَارِخٍ، أَوْفَى عَلَى جَبَلِ سَلْعٍ بِأَعْلَى صَوْتِهِ: یَا كَعْبُ بْنَ مَالِكٍ أَبْشِر قَالَ: فَخَرَرْتُ سَاجِدًا، وَعَرَفْتُ أَنْ قَدْ جَاءَ فَرَجٌ ، وَآذَنَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بِتَوْبَةِ اللهِ عَلَیْنَا حِینَ صَلَّى صَلاَةَ الفَجْرِ، فَذَهَبَ النَّاسُ یُبَشِّرُونَنَا، وَذَهَبَ قِبَلَ صَاحِبَیَّ مُبَشِّرُونَ

پچاسویں  رات کی صبح کوجب میں  فجرکی نمازپڑھ چکااوراپنے گھرکی چھت پربیٹھاہواتھا،اس طرح جیساکہ اللہ تعالیٰ نے ذکرکیاہے میرادم گھٹاجارہاتھا،اورزمین اپنی تمام وسعتوں  کے باوجودمیرے لیے تنگ ہوتی جارہی تھی، کہ میں  نے ایک پکارنے والے کی آوازسنی، جبل سلع پرچڑھ کرکوئی بلندآوازسے کہہ رہاتھااے کعب بن مالک رضی اللہ عنہ !تمہیں  بشارت ہو،انہوں  نے بیان کیاکہ یہ سنتے ہی میں  سجدے میں  گرپڑااورمجھے یقین ہوگیاکہ اب فراغی ہوجائے گی،فجرکی نمازکے بعدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کی بارگاہ میں  ہماری توبہ کی قبولیت کااعلان کردیاتھا،لوگ میرے یہاں  بشارت دینے کے لیے آنے لگے اورمیرے دوساتھیوں  کوبھی جاکربشارت دی،

وَرَكَضَ إِلَیَّ رَجُلٌ فَرَسًا، وَسَعَى سَاعٍ مِنْ أَسْلَمَ، فَأَوْفَى عَلَى الجَبَلِ، وَكَانَ الصَّوْتُ أَسْرَعَ مِنَ الفَرَسِ، فَلَمَّا جَاءَنِی الَّذِی سَمِعْتُ صَوْتَهُ یُبَشِّرُنِی، نَزَعْتُ لَهُ ثَوْبَیَّ، فَكَسَوْتُهُ إِیَّاهُمَا، بِبُشْرَاهُ وَاللهِ مَا أَمْلِكُ غَیْرَهُمَا یَوْمَئِذٍ ، اسْتَعَرْتُ ثَوْبَیْنِ فَلَبِسْتُهُمَا، وَانْطَلَقْتُ إِلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَیَتَلَقَّانِی النَّاسُ فَوْجًا فَوْجًا، یُهَنُّونِی بِالتَّوْبَةِ، یَقُولُونَ: لِتَهْنِكَ تَوْبَةُ اللهِ عَلَیْكَ،قَالَ كَعْبٌ: حَتَّى دَخَلْتُ المَسْجِدَ، فَإِذَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ جَالِسٌ حَوْلَهُ النَّاسُ، فَقَامَ إِلَیَّ طَلْحَةُ بْنُ عُبَیْدِ اللهِ یُهَرْوِلُ حَتَّى صَافَحَنِی وَهَنَّانِی، وَاللهِ مَا قَامَ إِلَیَّ رَجُلٌ مِنَ المُهَاجِرِینَ غَیْرَهُ، وَلاَ أَنْسَاهَا لِطَلْحَةَ

ایک صاحب(زبیربن العوام رضی اللہ عنہ )اپناگھوڑادوڑاتے آرہے تھے ادھرقبیلہ اسلم کے ایک صحابی رضی اللہ عنہ نے پہاڑی پرچڑھ کر(آوازدی)اورآوازگھوڑے سے تیزتھی جب وہ(پہاڑی پرچڑھ کرآوازدینے والا) میرے پاس بشارت دینے آئے تواس بشارت کی خوشی میں  میں  نے اپنے دونوں  کپڑے اتارکرانہیں  دے دیئے اللہ کی قسم!اس وقت ان دوکپڑوں  کے سوا(دینے کے لائق)میرے پاس کوئی چیزنہیں  تھی، پھرمیں  نے (ابوقتادہ رضی اللہ عنہ سے)دوکپڑے مانگ کرپہنے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں  حاضرہوا،جوق درجوق لوگ مجھ سے ملاقات کرتے جاتے اورمجھے توبہ کی قبولیت پربشارت دیتے جاتے تھے،کہتے تھے اللہ کی بارگاہ میں  توبہ کی قبولیت مبارک ہو،کعب رضی اللہ عنہ نے بیان کیاآخرمیں  مسجدمیں  داخل ہوارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف فرماتھے اورچاروں  طرف صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کامجمع تھاطلحہ بن عبیداللہ رضی اللہ عنہ دوڑکرمیری طرف بڑھے اورمجھ سے مصافحہ کیا اور مبارک باددی،اللہ کی قسم! (وہاں  موجود)مہاجرین میں  سےکوئی بھی ان کے سوامیرے آنے پرکھڑانہیں  ہوا طلحہ رضی اللہ عنہ کایہ احسان میں  کبھی نہیں  بھولوں  گا،

قَالَ كَعْبٌ: فَلَمَّا سَلَّمْتُ عَلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، وَهُوَ یَبْرُقُ وَجْهُهُ مِنَ السُّرُورِ:أَبْشِرْ بِخَیْرِ یَوْمٍ مَرَّ عَلَیْكَ مُنْذُ وَلَدَتْكَ أُمُّكَ، قَالَ: قُلْتُ: أَمِنْ عِنْدِكَ یَا رَسُولَ اللهِ، أَمْ مِنْ عِنْدِ اللهِ؟قَالَ:لاَ، بَلْ مِنْ عِنْدِ اللهِ،وَكَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ إِذَا سُرَّ اسْتَنَارَ وَجْهُهُ حَتَّى كَأَنَّهُ قِطْعَةُ قَمَرٍ وَكُنَّا نَعْرِفُ ذَلِكَ مِنْهُ

کعب رضی اللہ عنہ نے بیان کیا میں  نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوسلام کیاتوآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (چہرہ مبارک خوشی اورمسرت سے دمک اٹھاتھا)اس مبارک دن کے لیے تمہیں  بشارت ہو،جوتمہاری عمرکاسب سے مبارک دن ہے،کعب نے بیان کیامیں  نے عرض کیااے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !یہ بشارت آپ کی طرف سے ہے یااللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے؟ فرمایانہیں  بلکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی بات پرخوش ہوتے توچہرہ مبارک روشن ہوجاتاایساجیسے چاند کا ٹکڑا ہو، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مسرت ہم چہرہ مبارک سے سمجھ جاتے تھے،

فَلَمَّا جَلَسْتُ بَیْنَ یَدَیْهِ قُلْتُ: یَا رَسُولَ اللهِ، إِنَّ مِنْ تَوْبَتِی أَنْ أَنْخَلِعَ مِنْ مَالِی صَدَقَةً إِلَى اللهِ وَإِلَى رَسُولِ اللهِ، قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:أَمْسِكْ عَلَیْكَ بَعْضَ مَالِكَ فَهُوَ خَیْرٌ لَكَ،قُلْتُ: فَإِنِّی أُمْسِكُ سَهْمِی الَّذِی بِخَیْبَرَ،فَقُلْتُ: یَا رَسُولَ اللهِ، إِنَّ اللهَ إِنَّمَا نَجَّانِی بِالصِّدْقِ، وَإِنَّ مِنْ تَوْبَتِی أَنْ لاَ أُحَدِّثَ إِلَّا صِدْقًا، مَا بَقِیتُ

پھرجب میں  آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے بیٹھ گیا توعرض کیااے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! اپنی توبہ کی قبولیت کی خوشی میں  ،میں  اپناسارامال اللہ اوراس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی راہ میں  صدقہ کر دوں  ؟رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایالیکن کچھ مال اپنے پاس بھی رکھ لویہ زیادہ بہترہے،میں  نے عرض کیاپھرمیں  خیبرکاحصہ اپنے پاس رکھ لوں  ، پھرمیں  نے عرض کیااے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !اللہ تعالیٰ نے مجھے سچ بولنے کی وجہ سے نجات دی ہے، اب میں  اپنی توبہ کی قبولیت کی خوشی میں  یہ عہدکرتاہوں  کہ جب تک زندہ رہوں  گاسچ کے سوااورکوئی بات زبان پرنہ لاؤں  گا،

فَوَاللهِ مَا أَعْلَمُ أَحَدًا مِنَ المُسْلِمِینَ أَبْلاَهُ اللهُ فِی صِدْقِ الحَدِیثِ مُنْذُ ذَكَرْتُ ذَلِكَ لِرَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، أَحْسَنَ مِمَّا أَبْلاَنِی، مَا تَعَمَّدْتُ مُنْذُ ذَكَرْتُ ذَلِكَ لِرَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ إِلَى یَوْمِی هَذَا كَذِبًا، وَإِنِّی لَأَرْجُو أَنْ یَحْفَظَنِی اللهُ فِیمَا بَقِیت ، وَأَنْزَلَ اللهُ عَلَى رَسُولِهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:لَقَدْ تَابَ اللهُ عَلَى النَّبِیِّ وَالمُهَاجِرِینَ وَالأَنْصَارِ

پس اللہ کی قسم !جب سے میں  نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے یہ عہدکیاہے میں  کسی ایسے مسلمان کونہیں  جانتاجسے اللہ تعالیٰ نے سچ بولنے کی وجہ سے اتنانوازاہوجتنی بشارت اس کی مجھ پرسچ بولنے کی وجہ سے ہیں  ، (اس واقعہ کے کافی عرصہ بعدکعب رضی اللہ عنہ کہاکرتے تھے)جب سے میں  نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے یہ عہد کیا پھر آج تک کبھی جھوٹ کاارادہ بھی نہیں  کیااورمجھے امیدہے کہ اللہ تعالیٰ باقی زندگی بھی مجھے اس سے محفوظ رکھے گااوراللہ تعالیٰ نے اپنے رسول پریہ آیت’’اللہ نے معاف کردیا نبی کو اور ان مہاجرین و انصار کو جنہوں  نے بڑی تنگی کے وقت میں  نبی کا ساتھ دیا۔‘‘ہمارے بارے میں  نازل کی تھی۔[118]

فلمّا جلست بینی یَدَیْهِ قُلْت: یَا رَسُولَ اللهِ، إنّ مِنْ تَوْبَتِی إلَى اللهِ وَإِلَى رَسُولِهِ أَنْ أَنْخَلِعَ مِنْ مَالِی إلَى اللهِ وَرَسُولِهِ! فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: أَمْسِكْ عَلَیْك [بَعْضَ] مَالِك، هُوَ خَیْرٌ لَك!قَالَ قُلْت: إنّی مُمْسِكٌ بِسَهْمِی الّذِی بِخَیْبَرَ!قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: لَا ،قُلْت: النّصْفُ! قَالَ:لَا!قُلْت: فَالثّلُثُ!قَالَ: نَعَمْ!

ایک روایت میں  ہےجب میں  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے آکربیٹھاتومیں  نے عرض کیااے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم !میں  اپنی توبہ کی خوشی میں  اپناسارامال اللہ کی راہ میں  صدقہ کرتا ہوں  ، فرمایا کچھ اپنے لئے رہنے دویہ تمہارے لئے بہتر ہے،میں  نے کہاپھرمیں  اپناخیبرکاحصہ اپنے لئے رکھتاہوں  ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں  یہ زیادہ ہے، میں  نے عرض کیاتمام مال کانصف صدقہ کرتاہوں  ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایانہیں  یہ بھی زیادہ ہے، میں  نے کہاتمام مال کاتیسراحصہ صدقہ کرتاہوں  ،فرمایایہ ٹھیک ہے۔[119]

لَّقَد تَّابَ اللَّهُ عَلَى النَّبِیِّ وَالْمُهَاجِرِینَ وَالْأَنصَارِ الَّذِینَ اتَّبَعُوهُ فِی سَاعَةِ الْعُسْرَةِ مِن بَعْدِ مَا كَادَ یَزِیغُ قُلُوبُ فَرِیقٍ مِّنْهُمْ ثُمَّ تَابَ عَلَیْهِمْ ۚ إِنَّهُ بِهِمْ رَءُوفٌ رَّحِیمٌ ‎﴿١١٧﴾‏وَعَلَى الثَّلَاثَةِ الَّذِینَ خُلِّفُوا حَتَّىٰ إِذَا ضَاقَتْ عَلَیْهِمُ الْأَرْضُ بِمَا رَحُبَتْ وَضَاقَتْ عَلَیْهِمْ أَنفُسُهُمْ وَظَنُّوا أَن لَّا مَلْجَأَ مِنَ اللَّهِ إِلَّا إِلَیْهِ ثُمَّ تَابَ عَلَیْهِمْ لِیَتُوبُوا ۚ إِنَّ اللَّهَ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِیمُ ‎﴿١١٨﴾‏ یَا أَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَكُونُوا مَعَ الصَّادِقِینَ ‎﴿١١٩﴾(التوبة)
اللہ تعالیٰ نے پیغمبر کے حال پر توجہ فرمائی اور مہاجرین اور انصار کے حال پر بھی جنہوں  نے ایسی تنگی کے وقت پیغمبر کا ساتھ دیا ، اس کے بعد ان میں  سے ایک گروہ کے دلوں  میں  کچھ تزلزل ہو چلا تھا، پھر اللہ نے ان کے حال پر توجہ فرمائی،بلاشبہ اللہ تعالیٰ ان سب پر بہت ہی شفیق مہربان ہے،اور تین شخصوں  کے حال پر بھی جن کا معاملہ ملتوی چھوڑ دیا گیا تھا، یہاں  تک کہ جب زمین باوجود اپنی فراخی کے ان پر تنگ ہونے لگی اور وہ خود اپنی جان سے تنگ آگئے اور انہوں  نے سمجھ لیا کہ اللہ سے کہیں  پناہ نہیں  مل سکتی بجز اس کے کہ اسی کی طرف رجوع کیا جائے، پھر ان کے حال پر توجہ فرمائی تاکہ وہ آئندہ بھی توبہ کرسکیں  ، بیشک اللہ تعالیٰ بہت توبہ قبول کرنے والا بڑا رحم والا ہے اے ایمان والو ! اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور سچوں  کے ساتھ رہو ۔

اللہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پروحی نازل فرمائی کہ یہ اللہ کااپنے پیغمبراورمہاجرین وانصارپرلطف واحسان ہے کہ اس نے ان کی تمام لغزشیں  معاف فرمادیں  ،انہیں  بے شمارنیکیاں  عطاکیں  اورانہیں  بلندترین مراتب پر فائزفرمایا،جومشکل کی گھڑی (غزوہ تبوک)میں  دشمن سے جنگ کرنے کے لئے آپ کے ساتھ نکلے جبکہ شدیدگرمی کی وجہ سے دل آرام وراحت اورسکون کی طرف مائل تھے،فصلیں  تیارتھیں  ،تبوک کاسفرلمبااوردشوارگزارتھا،راستوں  میں  پانی نہ تھا،سامان رسدکی اتنی کمی تھی کہ دودوآدمیوں  میں  ایک ایک کھجوربٹتی تھی، مگر انہوں  نے ہرآرام اورہرراحت اورہرخیال کوبالائے طاق رکھ کراللہ اوراس کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم پربالاتامل لبیک کہا،اوردوسرے گروہ کا ذکرفرمایاجومذکورہ دنیاوی اسباب کی وجہ سے شریک جہادہونے میں  تذبذب اورترددتھا ،لیکن پھرجلدہی وہ اس کیفیت سے نکل آیا اور بخوشی جہادفی سبیل اللہ میں  شریک ہوا ، تو اللہ نے ان کی لغزشوں  ،کوتاہیوں  کومعاف فرمادیا، بیشک وہ ان پرنہایت شفقت کرنے والامہربان ہے، اورتینوں  اصحاب رسول کعب بن مالک رضی اللہ عنہ ، مرارہ بن ربیع اورہلال بن امیہ جونہایت مخلص مسلمان تھے، جواس سے قبل ہرغزوے میں  شریک رہے تھے مگراس غزوہ میں  تساہلاشریک نہیں  ہوئے ،بعدمیں  انہیں  اپنی غلطی کااحساس ہواتوسوچاکہ ایک غلطی توہوہی گئی ہے، لیکن اب منافقین کی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں  جھوٹاعذرپیش کرنے کی غلطی نہیں  کریں  گے، چنانچہ آکراپنی غلطی کااعتراف کر لیا تھا اوراس کی سزاکے لئے اپنے آپ کوپیش کردیاتھا،اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے معاملے کواللہ تعالیٰ کے سپردکردیاکہ وہ جوچاہئے ان کے بارے میں  کوئی حکم نازل فرمائے، اورمسلمانوں  کوان کے شوشل بائیکاٹ کاحکم دیا،چنانچہ فرمایاکہ جب وہ بہت غم زدہ ہوگئے ،ان کی جانیں  ان پربارہوگئی ،ہرمحبوب چیزان پرتنگ ہوگئی اور انہوں  نے سمجھ لیاکہ اللہ وحدہ لاشریک کے علاوہ اورکوئی انہیں  اس سختیوں  سے نجات دینے والانہیں  جس کے پاس پناہ لی جائے توانہوں  نے رب کے ساتھ اپناتعلق جوڑلیا،اوروہ پچاس راتوں  تک اس شدت اور کیفیت میں  مبتلارہے تواللہ نے ان تینوں  کی سچائی کی وجہ سے نہ صرف توبہ قبول فرمالی بلکہ ان کی توبہ کوقرآن بناکرنازل فرمادیا ، بیشک اللہ، رحمت جس کاوصف ہے کثرت سے توبہ قبول فرماتاہے اوربہت کثرت سے لغزشوں  اور نقائص کوبخش دیتاہے،اس لئے مسلمانوں  کوحکم دیاگیاکہ اللہ سے ڈرواورسچوں  کے ساتھ رہو،اس لئے ایک حدیث میں  ہے کہ مومن سے کچھ اورکوتاہیوں  کاصدورہوسکتاہے لیکن وہ جھوٹانہیں  ہوتا،

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:إِنَّ الصِّدْقَ یَهْدِی إِلَى البِرِّ، وَإِنَّ البِرَّ یَهْدِی إِلَى الجَنَّةِ، وَإِنَّ الرَّجُلَ لَیَصْدُقُ حَتَّى یَكُونَ صِدِّیقًا. وَإِنَّ الكَذِبَ یَهْدِی إِلَى الفُجُورِ، وَإِنَّ الفُجُورَ یَهْدِی إِلَى النَّارِ، وَإِنَّ الرَّجُلَ لَیَكْذِبُ حَتَّى یُكْتَبَ عِنْدَ اللَّهِ كَذَّابًا

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایابلاشبہ سچ آدمی کونیکی کی طرف بلاتاہے اورنیکی جنت کی طرف لے جاتی ہے، اورایک شخص سچ بولتارہتاہے یہاں  تک کہ وہ صدیق کالقب اورمرتبہ حاصل کرلیتاہے،اوربلاشبہ جھوٹ برائی کی طرف لے جاتاہے، اوربرائی جہنم کی طرف، اورایک شخص جھوٹ بولتارہتاہے یہاں  تک کہ وہ اللہ کے یہاں  بہت جھوٹالکھ دیاجاتاہے۔[120]

جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تبوک سے واپس آئے توعویمرعجلانی رضی اللہ عنہ نے اپنی بیوی کوحاملہ پایا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں  کے درمیان لعان کرایا۔

سہل بن سعدساعدی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ عویمر رضی اللہ عنہ ،عاصم بن عدی رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اورکہامجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بات پوچھ کربتائیں  کہ اگرکوئی شخص اپنی بیوی کے ساتھ کسی (غیر)مردکو(گناہ میں  ملوث) دیکھے اور (غصے میں  آکر)اسے قتل کردے توکیااسے (قصاص میں  )قتل کیاجائے گا؟ورنہ وہ کیاکرے ؟عاصم رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ (مسئلہ )دریافت کیاتورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (اس قسم کے)سوالات کوناپسندفرمایا،بعدمیں  عویمر رضی اللہ عنہ ،عاصم رضی اللہ عنہ سے ملے توان سے دریافت کیا اور کہاتم نے کیاکیا؟انہوں  نے کہاہوایہ ہے کہ تجھ سے مجھے بھلائی نہیں  پہنچی ، میں  نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے (مسئلہ)دریافت کیاتوآپ نے سوالات کوناپسندفرمایا،عویمر رضی اللہ عنہ نے کہا اللہ کی قسم !میں  ضروررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں  حاضرہوکریہ بات پوچھوں  گا،چنانچہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں  حاضرہوئے تومعلوم ہواکہ آپ پران کے بارے میں  وحی نازل ہوچکی ہے ،آپ نے ان دونوں  (میاں  بیوی)میں  لعان کرادیا،عویمر رضی اللہ عنہ نے کہااےاللہ کے رسول !اگراب میں  اس عورت کو(گھر)لے جاؤں  (تواس کا مطلب ہے کہ )میں  نے اس پرجھوٹاالزام لگایاہے ،چنانچہ انہوں  نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم دینے سے پہلے ہی اس عورت کوطلاق دے دی ،پھرلعان کرنے والوں  میں  یہی طریقہ جاری ہوگیا،اس کے بعدنبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایادیکھو!اگراس عورت کے ہاں  سیاہ فام ،سیاہ آنکھوں  والا،بڑے سرینوں  والابچہ پیداہواتومیرے خیال میں  اس (عویمر رضی اللہ عنہ ) نے یقیناًسچ کہاہے اوراگر اس کے ہاں  بیربہوٹی جیساسرخ بچہ پیداہواتومیرے خیال میں  اس (عویمر رضی اللہ عنہ )نے ضرورجھوٹ بولاہے ،راوی بیان کرتے ہیں  ،پھراس عورت کے ہاں  بری صورت والابچہ پیداہوا۔

لعان کاطریقہ:

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ہلال بن امیہ رضی اللہ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں  حاضرہوکراپنی بیوی پر شریک بن سحماء سے ملوث ہونے کاالزام لگایا، تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاگواہ پیش کروورنہ تمہاری پیٹھ پر(قذف کی)حدلگے گی،ہلال بن امیہ رضی اللہ عنہ نے کہاقسم ہے اس ذات کی جس نے آپ کوحق کے ساتھ مبعوث فرمایاہے میں  بالکل سچاہوں  ، اوراللہ تعالیٰ میرے معاملے میں  ضرور(وحی)نازل فرمائے گا،جس سے میری پیٹھ(حدلگنے سے)بچ جائے گا،توراوی فرماتے ہیں  کہ تب یہ آیات نازل ہوئیں

 وَالَّذِیْنَ یَرْمُوْنَ اَزْوَاجَهُمْ وَلَمْ یَكُنْ لَّهُمْ شُهَدَاۗءُ اِلَّآ اَنْفُسُهُمْ فَشَهَادَةُ اَحَدِهِمْ اَرْبَعُ شَهٰدٰتٍؚبِاللهِ۝۰ۙ اِنَّهٗ لَمِنَ الصّٰدِقِیْنَ۝۶وَالْخَامِسَةُ اَنَّ لَعْنَتَ اللهِ عَلَیْهِ اِنْ كَانَ مِنَ الْكٰذِبِیْنَ۝۷وَیَدْرَؤُا عَنْهَا الْعَذَابَ اَنْ تَشْهَدَ اَرْبَعَ شَهٰدٰتٍؚبِاللهِ۝۰ۙ اِنَّهٗ لَمِنَ الْكٰذِبِیْنَ۝۸ۙوَالْخَامِسَةَ اَنَّ غَضَبَ اللهِ عَلَیْهَآ اِنْ كَانَ مِنَ الصّٰدِقِیْنَ۝۹ [121]

ترجمہ:اوروہ لوگ جواپنی بیویوں  پرتہمت لگاتے ہیں  اوران کے پاس اپنے سواکوئی گواہ نہ ہوتوان میں  سے ایک کی شہادت اس طرح ہوگی کہ چارباراللہ کی قسم کھاکرکہے کہ بیشک وہ سچوں  میں  سے ہے ،اورپانچویں  باریہ کہے کہ اگروہ جھوٹوں  میں  سے ہوتواس پراللہ کی لعنت ہو،اورعورت سے تب سزاٹلتی ہے کہ وہ چار باراللہ کی قسم کھاکرکہے کہ بلاشبہ وہ(اس کاخاوند)جھوٹوں  میں  سے ہے،اورپانچویں  باریہ کہے کہ اگروہ (اس کاخاوند)سچوں  میں  سے ہوتو اس (عورت) پراللہ کاغضب ہو۔

فَانْصَرَفَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَأَرْسَلَ إِلَیْهِمَا، فَجَاءَا، فَقَامَ هِلَالُ بْنُ أُمَیَّةَ، فَشَهِدَ، وَالنَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، یَقُولُ:اللهُ یَعْلَمُ أَنَّ أَحَدَكُمَا كَاذِبٌ، فَهَلْ مِنْكُمَا مِنْ تَائِبٍ؟ثُمَّ قَامَتْ فَشَهِدَتْ، فَلَمَّا كَانَ عِنْدَ الْخَامِسَةِ أَنَّ غَضَبَ اللهِ عَلَیْهَا إِنْ كَانَ مِنَ الصَّادِقِینَ، وَقَالُوا لَهَا: إِنَّهَا مُوجِبَةٌ

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم لوٹے توان دونوں  کوبلابھیجا،وہ آگئے توہلال بن امیہ رضی اللہ عنہ نے کھڑے ہو کر گواہی دی اورنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرمارہے تھےاللہ کومعلوم ہے کہ تم میں  سے ایک جھوٹا ہے توکیادونوں  میں  سے کوئی ایک توبہ کرتاہے؟پھرخاتون کھڑی ہوئی اوراس نے گواہی دی(اورقسمیں  کھائیں  ) جب وہ پانچویں  (گواہی)کے وقت یہ کہنے لگی کہ اگروہ جھوٹی ہوتواس پراللہ کاغضب نازل ہوتوحاضرین نے اسے کہایہ قسم(اللہ کے غضب کو)واجب کردینے والی ہے ۔

قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: فَتَلَكَّأَتْ وَنَكَصَتْ حَتَّى ظَنَنَّا أَنَّهَا سَتَرْجِعُ، فَقَالَتْ: لَا أَفْضَحُ قَوْمِی سَائِرَ الْیَوْمِ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان فرمایا(یہ سن کر)اس نے توقف کیااورپیچھے ہٹی حتی کہ ہمیں  یہ خیال پیداہواکہ وہ(بے گناہ ہونے کے دعوے سے)رجوع کرلے گی ،پھراس نے کہاقسم ہے اللہ کی!میں  اپنی قوم کوہمیشہ کے لئے بدنام نہیں  کروں  گی (اور پانچویں  قسم بھی کھالی)۔[122]

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں  تین بارسمجھایا،

عَنْ سَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ،وَقَالَ:اللَّهُ یَعْلَمُ أَنَّ أَحَدَكُمَا كَاذِبٌ، فَهَلْ مِنْكُمَا تَائِبٌ فَأَبَیَا، وَقَالَ:اللَّهُ یَعْلَمُ أَنَّ أَحَدَكُمَا كَاذِبٌ، فَهَلْ مِنْكُمَا تَائِبٌ فَأَبَیَا، فَقَالَ:اللَّهُ یَعْلَمُ أَنَّ أَحَدَكُمَا كَاذِبٌ، فَهَلْ مِنْكُمَا تَائِبٌ فَأَبَیَا، فَفَرَّقَ بَیْنَهُمَا

سعیدبن جبیر رضی اللہ عنہ سے مروی ہےاور فرمایا تھا کہ اللہ جانتا ہے کہ تم میں  سے ایک یقیناً جھوٹا ہے، اس لئے تم میں  سے کون تائب ہوتا ہے دونوں  نے انکار کیا،پھر فرمایا کہ اللہ جانتا ہے کہ تم میں  سے ایک یقیناً جھوٹا ہے،پس تم سے کون اپنے قول سے رجوع کرتا ہے دونوں  نے انکار کیا،پھر فرمایا تھا کہ اللہ جانتا ہے کہ تم میں  سے ایک یقیناً جھوٹا ہے، اس لئے تم میں  سے کون تائب ہوتا ہےدونوں  نے انکار کیا،تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں  کے مابین تفریق کرا دی۔[123]

فَفَرَّقَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بَیْنَهُمَا، وَقَضَى أَنْ لَا یُدْعَى وَلَدُهَا لِأَبٍ، وَلَا تُرْمَى، وَلَا یُرْمَى وَلَدُهَا، وَمَنْ رَمَاهَا أَوْ رَمَى وَلَدَهَا فَعَلَیْهِ الْحَدُّ، وَقَضَى أَنْ لَا بَیْتَ لَهَا عَلَیْهِ، وَلَا قُوتَ مِنْ أَجْلِ أَنَّهُمَا یَتَفَرَّقَانِ مِنْ غَیْرِ طَلَاقٍ، وَلَا مُتَوَفَّى عَنْهَا

چنانچہ اس کے نتیجے میں  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں  کے درمیان تفریق کرا دی، اور یہ فیصلہ فرمایا کہ اس کے بچہ کو باپ کی طرف منسوب نہیں  کیا جائے گا، اور نہ ہی اس عورت کو زنا کے الزام سے متہم کیا جائے گا، اور نہ اس کے بچہ کو ولدالزنا کہا جائے گا، اور جو شخص اس عورت پر زنا کی اور اس کے بچہ پر ولدالزنا ہونے کی تہمت لگائے تو اس پر حد قذف جاری کی جائے گی، اور یہ بھی فیصلہ فرمایا کہ مرد کے ذمہ عورت کے لیے ٹھکانا فراہم کرنا اور نان و نفقہ دینا لازم نہیں  ہے، کیونکہ کہ یہ دونوں  بغیر طلاق کے جدا ہوئے ہیں  اور نہ اس کے شوہر کی وفات ہوئی بلکہ ان کے مابین تفریق بلاطلاق ہوئی ہے۔[124]

وَذَكَرَ عَمْرُو بْنُ شُعَیْبٍ، عَنْ أَبِیهِ، عَنْ جَدِّهِ، قَالَ:قَضَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فِی وَلَدِ الْمُتَلَاعِنَیْنِ، أَنَّهُ یَرِثُ أُمَّهُ، وَتَرِثُهُ أُمُّهُ، وَمَنْ قَفَاهَا بِهِ جُلِدَ ثَمَانِینَ، وَمَنْ دَعَاهُ وَلَدَ زِنًا جُلِدَ ثَمَانِینَ

عمروبن شعیب عن ابیہ عن جدہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لعان کرنے والوں  کے بچے کے متعلق یہ فیصلہ کیاکہ وہ اپنی ماں  کاوارث ہوگا،اوراس کی ماں  اس کی وارث ہوگی، جس نے اس بچے کی وجہ سے تہمت لگائی اسے اسی (۸۰) کوڑے لگائے جائیں  گے۔[125]

عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ:فَرَّقَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بَیْنَهُمَا وَقَالَ: لَا یَجْتَمِعَانِ أَبَدًا . وَقَوْلُ الزَّوْجِ: یَا رَسُولَ اللَّهِ مَالِی؟ قَالَ لَا مَالَ لَكَ؛ إِنْ كُنْتَ صَدَقْتَ عَلَیْهَا فَهُوَ بِمَا اسْتَحْلَلْتَ مِنْ فَرْجِهَا، وَإِنْ كُنْتَ كَذَبْتَ عَلَیْهَا فَهُوَ أَبْعَدُ لَكَ مِنْهَا

سہل بن سعدسے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں  میں  تفریق کردی اورفرمایا اب کبھی تمہارا ملاپ نہیں  ہوسکتا، شوہرنے کہااے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !اورمیرامال؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاتیرامال کیسا؟اگرتونے سچ کہاہے تواتنے دن اس سے متمتع بھی ہوتے رہےاوراگرجھوٹ بولاہے توپھرتجھے کچھ پانے کاکیاحق رہا؟۔[126]

وأنه لیس للملاعنة على زوجها سكنى ولا نفقة، وإلیه ذهب الشافعی، وقال أبو حنیفة ومحمد بن الحسن اللعان تطلیقة بائنة ولها السكنى والنفقة فی العدة

امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں  لعان کرنے والی عورت کونفقہ یاسکونت کوئی چیزبھی نہیں  دی جائے گی،امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ اورمحمدبن حسن رحمہ اللہ فرماتے ہیں  کہ لعان سے ایک بائن طلاق واقع ہوتی ہے، اورعدت کے دوران اسے نفقہ اورسکونت مہیاکی جائے گی۔[127]

امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں  جب بائن طلاق پانے والی عورت کونفقہ اورسکونت مہیانہیں  کی جاتی، تولعان والی عورت کوبطریق اولی یہ دونوں  چیزیں  مہیانہیں  کی جائیں  گی، اس لیے کہ بائن طلاق والی عورت کاخاوندتوعدت کے دوران اس کے ساتھ (دوسری مرتبہ)نکاح کرسکتاہے، مگرلعان والی عورت کے ساتھ اس کاخاوندکسی صورت میں  بھی نکاح نہیں  کرسکتا،نہ عدت کے دوران اورنہ اس کے بعد،لہذالعان کرنے والی عورت کے خاوندپرنفقہ وسکونت واجب ہونے کی کوئی وجہ نہیں  ، اس لیے کہ ان کاتعلق کلی طورپرمنقطع ہوچکاہے۔

فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: أَبْصِرُوهَا، فَإِنْ جَاءَتْ بِهِ أَكْحَلَ الْعَیْنَیْنِ، سَابِغَ الْأَلْیَتَیْنِ، خَدَلَّجَ السَّاقَیْنِ، فَهُوَ لِشَرِیكِ بْنِ سَحْمَاءَ ،فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:لَوْلَا مَا مَضَى مِنْ كِتَابِ اللهِ، لَكَانَ لِی وَلَهَا شَأْنٌ

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا دیکھو اگر اس کا بچہ کالی آنکھوں  والا بڑے بڑے سرین والا اور موٹی موٹی پنڈلیوں  والا پیدا ہوا تو وہ شریک بن سحماء کا ہے تو پھر اس کے ایسا ہی بچہ پیدا ہوا،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااگراللہ کی کتاب کاحکم نازل نہ ہو چکا ہوتا تو میرااس عورت سے (دوسرا) معاملہ ہوتا(یعنی اس پر حد زنا جاری کرتا )۔[128]

اورالخطابی کی کتاب میں  ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

وان جاء ت بہ اسحم احتم فھوللمکروہ

اور اگر نہایت سیاہ فام لڑکاپیداہوتووہ زناکی پیداوارہے ۔

قَالَ ابْنُ شِهَابٍ:وَكَانَ ابْنُهَا یُدْعَى لِأُمِّهِ، قَالَ: ثُمَّ جَرَتِ السُّنَّةُ فِی مِیرَاثِهَا أَنَّهَا تَرِثُهُ وَیَرِثُ مِنْهَا مَا فَرَضَ اللهُ لَهُ

ابن شہاب نے کہاکہ اس عورت کے بیٹے کواس کی ماں  کے نام پر پکارا جاتا تھا ،پھر میراث کے بارے میں  یہ سنت جاری ہوگئی کہ ماں  اس لڑکے کی وارث ہوگی اورلڑکااس کاوارث بنے گا۔[129]

عَنْ وَاثِلَةَ بْنِ الْأَسْقَعِ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:الْمَرْأَةُ تَحْرِزُ ثَلَاثَ مَوَارِیثَ: عَتِیقِهَا، وَلَقِیطِهَا، وَوَلَدِهَا الَّذِی لَاعَنَتْ عَلَیْهِ

واثلہ بن اسقع سے مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاعورت تین آدمیوں  سے ورثہ پائے گی ،اس غلام سے جس کواس نے آزادکیاہو،جوبچہ اسے پڑاہواملاہواوراس نے اسے پالا ہو، جس بچے کے بارے میں  اس نے اپنے خاوندسے لعان کیاہو۔[130]

ابْنُ جُرَیْجٍ قَالَ: حَدَّثَنَا دَاوُدُ بْنُ أَبِی هِنْدٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ یَعْنِی ابْنَ عُبَیْدِ بْنِ عُمَیْرٍ قَالَ: كَتَبْتُ إِلَى رَجُلٍ مِنْ بَنِی زُرَیْقٍ مِنْ أَهْلِ الْمَدِینَةِ یَسْأَلُ عَنِ ابْنِ الْمُلَاعِنَةِ مَنْ یَرِثُهُ؟ فَكَتَبَ إِلَیَّ أَنَّهُ سَأَلَ فَاجْتَمَعُوا عَلَى، أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:قَضَى بِهِ لِلْأُمِّ، وَجَعَلَهَا بِمَنْزِلَةِ أَبِیهِ وَأُمِّهِ

ابن جریج رحمہ اللہ سے مروی ہےانہوں  نے اہل مدینہ میں  سے قبیلہ بنی زریق کے ایک شخص کوخط لکھ کردریافت کیاکہ لعان کرنے والی عورت کے بیٹے کاوارث کون ہوگا؟اس نے جواباً تحریرکیاکہ اس نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے یہی بات دریافت کی تھی اوروہ اس بات پرمتفق تھے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی ماں  کووارث قرار دیا تھا، گویا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ماں  کووالدین کاقائم مقام ٹھیرایا۔[131]

عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ،: حَضَرْتُ هَذَا عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَمَضَتِ السُّنَّةُ بَعْدُ فِی الْمُتَلَاعِنَیْنِ أَنْ یُفَرَّقَ بَیْنَهُمَا ثُمَّ لَا یَجْتَمِعَانِ أَبَدًا

سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے مروی ہےاس لعان کے بعددولعان کرنے والوں  کے متعلق یہ طریقہ جاری ہوگیاکہ ان کے درمیان جدائی ڈال دی جاتی اورپھرکبھی وہ اکٹھے نہ ہو سکتے ۔[132]

قال عمر رضى الله عنه: المتلاعنان یفرق بینهما ولا یجتمعان أبدا

سیدناعمر رضی اللہ عنہ نے فرمایادولعان کرنے والوں  کے درمیان جدائی ڈال دی جائے گی اوروہ کبھی اکٹھے نہیں  ہوسکیں  گے۔[133]

وإن سلم فالفرق بینهما أن الزوجیة تنقطع بالموت

امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں  جب شوہرشہادت مکمل کرلے، تواسی وقت عورت مردپرہمیشہ ہمیشہ کے لیے حرام ہوجائے گی۔[134]

مسجدمیں  لعان کرانادرست ہے جیساکہ روایت ہے

 فَتَلاَعَنَا فِی المَسْجِدِ

ان دونوں  نے مسجدمیں  لعان کیا۔[135]

بچوں  کارنگ مختلف ہونے کی وجہ سے بیوی پرتہمت زنالگاناجائزنہیں  ہے۔

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ، أَنَّ رَجُلًا أَتَى النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: یَا رَسُولَ اللَّهِ، وُلِدَ لِی غُلاَمٌ أَسْوَدُ، فَقَالَ:هَلْ لَكَ مِنْ إِبِلٍ؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ:مَا أَلْوَانُهَا؟ قَالَ: حُمْرٌ، قَالَ:هَلْ فِیهَا مِنْ أَوْرَقَ؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ:فَأَنَّى ذَلِكَ؟قَالَ: لَعَلَّهُ نَزَعَهُ عِرْقٌ، قَالَ:فَلَعَلَّ ابْنَكَ هَذَا نَزَعَهُ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ایک شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں  حاضر ہوا اور عرض کیا اے اللہ کےرسول ! میرے ہاں  سیاہ فام لڑکا پیدا ہوا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیا تیرے پاس کوئی اونٹ ہے؟اس نے کہا ہاں  !آپ نے پوچھا وہ کس رنگ کے ہیں  ، اس نے کہا سرخ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ ان میں  کوئی سفید مائل سیاہ بھی ہے، اس نے کہا ہاں  ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ایسا کیوں  کر ہوا ؟اس نے کہا شاید کسی رگ نے اس کو کھینچا ہو (یعنی اپنی نسل کے کسی بہت پہلے کے اونٹ پرپڑاہوگا ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاپھراسے(تمہارے بچے)کوبھی کوئی رگ کھینچ لائی ہوگی۔[136]

حدودکانفاذ:

حَدَّثَنِی عَبْدُ اللَّهِ بْنُ بُرَیْدَةَ، عَنْ أَبِیهِ قَالَ: كُنْتُ جَالِسًا عِنْدَ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَجَاءَتْهُ امْرَأَةٌ مِنْ غَامِدٍ فَقَالَتْ: یَا نَبِیَّ اللَّهِ، إِنِّی قَدْ زَنَیْتُ، وَأَنَا أُرِیدُ أَنْ تُطَهِّرَنِی. فَقَالَ لَهَا النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:ارْجِعِی . فَلَمَّا أَنْ كَانَ مِنَ الْغَدِ أَتَتْهُ أَیْضًا فَاعْتَرَفَتْ عِنْدَهُ بِالزِّنَا فَقَالَتْ: یَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّی قَدْ زَنَیْتُ، وَأَنَا أُرِیدُ أَنْ تُطَهِّرَنِی. فَقَالَ لَهَا النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: ارْجِعِی. فَلَمَّا أَنْ كَانَ مِنَ الْغَدِ أَتَتْهُ أَیْضًا فَاعْتَرَفَتْ عِنْدَهُ بِالزِّنَا فَقَالَتْ: یَا نَبِیَّ اللَّهِ، طَهِّرْنِی فَلَعَلَّكَ أَنْ تَرْدُدْنِی كَمَا رَدَدْتَ مَاعِزَ بْنَ مَالِكٍ فَوَاللَّهِ إِنِّی لَحُبْلَى. فَقَالَ لَهَا النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:ارْجِعِی حَتَّى تَلِدِی. فَلَمَّا وَلَدَتْ جَاءَتْ بِالصَّبِیِّ تَحْمِلُهُ فَقَالَتْ: یَا نَبِیَّ اللَّهِ، هَذَا قَدْ وَلَدْتُ. قَالَ:فَاذْهَبِی فَأَرْضِعِیهِ حَتَّى تَفْطِمِیهِ . فَلَمَّا فَطَمَتْهُ جَاءَتْ بِالصَّبِیِّ فِی یَدِهِ كِسْرَةُ خُبْزٍ قَالَتْ: یَا نَبِیَّ اللَّهِ، هَذَا قَدْ فَطَمْتُهُ،

بریدہ سے مروی ہے میں  ایک دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھا تھا کہ ایک غامدیہ عورت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اورکہنے لگی یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھ سے زناکاارتکاب ہو گیا ہے، میں  چاہتی ہوں  کہ آپ مجھے پاک کردیں  ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایاواپس لوٹ جاؤ، وہ دوسرے دن پھرآئی اوریہی بات کہی،اگلے دن پھرآئی اوربولی اے اللہ کےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھ!ے پاک کردیں  شایدجس طرح آپ نے ماعزکوواپس کیاتھا مجھے بھی واپس کرنا چاہتے ہیں  ،اللہ کی قسم!میں  توزناسے حاملہ ہوچکی ہوں  ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااب واپس جاؤ،بچہ پیداہونے کے بعدآنا، چنانچہ جب اس کے یہاں  بچہ پیداہوچکا تو وہ بچے کو اٹھائے ہوئے پھر آگئی اور کہنے لگی کہ اے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! یہ بچہ پیدا ہوگیا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جاؤ اور اسے دودھ پلاؤ،چنانچہ جب اس نے اس کا دودھ بھی چھڑادیاہے تو وہ بچے کو لے کر آئی اس وقت بچے کے ہاتھ میں  روٹی کاٹکڑا تھا اور کہنے لگی اے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! میں  نے اس کا دودھ بھی چھڑادیاہے،

فَأَمَرَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بِالصَّبِیِّ فَدَفَعَهُ إِلَى رَجُلٍ مِنَ الْمُسْلِمِینَ، وَأَمَرَ بِهَا فَحُفِرَ لَهَا حُفْرَةٌ فَجُعِلَتْ فِیهَا إِلَى صَدْرِهَا، ثُمَّ أَمَرَ النَّاسَ أَنْ یَرْجُمُوهَا، فَأَقْبَلَ خَالِدُ بْنُ الْوَلِیدِ بِحَجَرٍ فَرَمَى رَأْسَهَا، فَنَضَحَ الدَّمُ عَلَى وَجْنَةِ خَالِدٍ فَسَبَّهَا، فَسَمِعَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ سَبَّهُ إِیَّاهَا فَقَالَ:مَهْلًا یَا خَالِدُ بْنَ الْوَلِیدِ لَا تَسُبَّهَا فَوَالَّذِی نَفْسِی بِیَدِهِ لَقَدْ تَابَتْ تَوْبَةً لَوْ تَابَهَا صَاحِبُ مَكْسٍ لَغُفِرَ لَهُ فَأَمَرَ بِهَا فَصَلَّى عَلَیْهَا وَدُفِنَتْ

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ بچہ ایک مسلمان کے حوالے کردیا اور اس عورت کے لئے گڑھاکھودنے کا حکم دے دیا پھر اسے سینے تک اس میں  اتارا گیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں  کوحکم دیاکہ اس کورجم کردیں  ،خالد رضی اللہ عنہ بن ولیدنے اس کے سرپرایک پتھرماراجس سےخون کے چندقطرے ان کے منہ پرگرے، توخالد رضی اللہ عنہ نے اسے برابھلاکہا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سناتوفرمایاٹھہروخالد!اس کوگالی مت دو،اللہ کی قسم ! جس کے ہاتھ میں  محمدکی جان ہے اس نے ایسی توبہ کی ہے کہ اگر چنگی لینے والابھی ایسی توبہ کرے تواس کے بھی گناہ دورہوجائیں  ،پھرآپ نے حکم دیااس کاجنازہ پڑھا گیا اوراسے سپرخاک کردیا۔[137]

[1] تفسیرطبری۳۵۸؍۱۴

[2] تفسیرطبری۳۵۹؍۱۴

[3] تفسیرابن کثیر۱۸۰؍۴

[4] اسد الغابة ۲۸۰؍۴،الاستیعاب فی معرفة الأصحاب۱۲۱۵؍۳

[5] اسدالغابة۲۸۰؍۴

[6] مغازی واقدی ۱۰۰۵؍۳

[7] اسدالغابة ۷۹۰؍۳،الاستیعاب فی معرفة الأصحاب ۱۲۱۶؍۳

[8] الاستیعاب فی معرفة الأصحاب۲۶۴؍۱

[9] صحیح بخاری کتاب الایمان بَابُ عَلاَمَةِ المُنَافِقِ۳۳،صحیح مسلم کتاب الایمان بَابُ بَیَانِ خِصَالِ الْمُنَافِقِ۲۱۱،جامع ترمذی ابواب الایمان بَابُ مَا جَاءَ فِی عَلاَمَةِ الْمُنَافِقِ ۲۶۳۱،سنن الکبری للنسائی ۱۱۰۶۲ ،مسنداحمد۸۶۸۵

[10] المعجم الکبیرللطبرانی۷۸۷۳

[11] مجمع الزوائد۳۱؍۷

[12] المحلی بالآثار ۱۳۷؍۱۲

[13] الاصابة فی تمیزالصحابة۵۱۶؍۱

[14]۔فتح الباری ۲۶۶؍۳

[15] لباب النقول۱۰۸؍۱

[16] فیض القدیر۵۲۶؍۴

[17] صحیح بخاری کتاب بدء الخلق بَابُ صِفَةِ النَّارِ، وَأَنَّهَا مَخْلُوقَةٌ ۳۲۶۵،صحیح مسلم کتاب الجنتة بَابٌ فِی شِدَّةِ حَرِّ نَارِ جَهَنَّمَ وَبُعْدِ قَعْرِهَا وَمَا تَأْخُذُ مِنَ الْمُعَذَّبِینَ۷۱۶۵،فتح الباری ۳۳۴؍۶،مسنداحمد۱۰۲۰۱

[18] سنن ترمذی کتاب صفة جہنم باب منہ فی صفة الناروانھاسودامظلمة ۲۵۹۱،سنن ابن ماجہ کتاب الزھد باب صفة النار ۴۳۲۰

[19] صحیح بخاری کتاب الرقاق بَابُ صِفَةِ الجَنَّةِ وَالنَّارِ ۶۵۶۲،صحیح مسلم کتاب الایمان بَابُ أَهْوَنِ أَهْلِ النَّارِ عَذَابًا۵۱۶،جامع ترمذی ابواب الجہنم بَابٌ۲۶۰۴، مسند احمد ۱۸۴۱۳

[20] المعارج۱۵،۱۶

[21] الحج۱۹تا۲۲

[22] النساء ۵۶

[23] تفسیرابن ابی حاتم۱۸۵۵؍۶

[24] مسند أبی یعلى الموصلی۴۱۳۴،شرح السنة للبغوی۴۴۱۸

[25] مجمع الزوائد ۳۹۱؍۱۰

[26] الفتح۱۵

[27] تفسیرابن ابی حاتم۱۸۶۲؍۶

[28] تفسیرطبری۴۲۱؍۱۴

[29] تفسیرابن ابی حاتم۱۸۶۳؍۶

[30] صحیح بخاری كِتَابُ المَغَازِی باب ۴۴۲۳،صحیح مسلم كِتَابُ الْإِمَارَةِ بَابُ ثَوَابِ مَنْ حَبَسَهُ عَنِ الْغَزْوِ مَرَضٌ أَوْ عُذْرٌ آخَرُ۴۹۳۲

[31] طہ۷۴

[32] مسنداحمد۳۳۶۲،سنن ابوداودكِتَاب الصَّیْدِ بَابٌ فِی اتِّبَاعِ الصَّیْدِ۲۸۵۹،جامع ترمذی أَبْوَابُ الْفِتَنِ باب۲۲۵۶، السنن الکبری للنسائی۴۸۰۲،السنن الکبری للبیہقی۲۰۲۵۳، الجامع الصحیح للسنن والمسانید ۴۰۵؍۱۰

[33] صحیح بخاری کتاب الادب بَابُ رَحْمَةِ الوَلَدِ وَتَقْبِیلِهِ وَمُعَانَقَتِهِ۵۹۹۸،صحیح مسلم کتاب الفضائل بَابُ رَحْمَتِهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ الصِّبْیَانَ وَالْعِیَالَ وَتَوَاضُعِهِ وَفَضْلِ ذَلِكَ۶۰۲۷،سنن ابن ماجہ کتاب الادب بَابُ بِرِّ الْوَالِدِ، وَالْإِحْسَانِ إِلَى الْبَنَاتِ ۳۶۶۵

[34] سنن ترمذی کتاب المناقب بَابٌ فِی ثَقِیفٍ وَبَنِی حَنِیفَةَ۳۹۴۵،سنن ابوداودکتاب البیوع بَابٌ فِی قَبُولِ الْهَدَایَا۳۵۳۷

[35] تفسیرابن کثیر۲۰۳؍۴

[36] تفسیرطبری۴۳۵؍۱۴

[37] البقرة ۱۳۷

[38] المجادلة۲۲

[39] الانفال۷۴،۷۵

[40] مسند احمد ۱۵۲۶۲

[41] مسند احمد ۲۶۴۴۰

[42]فتح الباری ۳۹۸۲،۳۰۵؍۷

[43] المائدة۱۱۹

[44] فتح الباری ۳۹۸۲، ۲۸۶؍۷،مسنداحمد۶۰۰

[45] صحیح بخاری کتاب المغازی بَابُ فَضْلِ مَنْ شَهِدَ بَدْرًا۳۹۸۳

[46] المومن۱۹

[47] تفسیر طبری ۴۴۱؍۱۴، تفسیر عبدالرزاق ۱۶۱؍۲

[48] تفسیر طبری ۴۴۲؍۱۴

[49] تفسیرطبری۴۴۲؍۱۴

[50] تاریخ المدینہ المنورہ۳۹؍۱

[51] جامع ترمذی أَبْوَابُ الصَّلاَةِ بَابُ مَا جَاءَ فِی الصَّلاَةِ فِی مَسْجِدِ قُبَاءٍ۳۲۴،سنن ابن ماجہ كِتَابُ إِقَامَةِ الصَّلَاةِ، وَالسُّنَّةُ فِیهَا بَابُ مَا جَاءَ فِی الصَّلَاةِ فِی مَسْجِدِ قُبَاءَ ۱۴۱۱

[52] صحیح بخاری کتاب فضل الصلاة بَابُ مَسْجِدِ قُبَاءٍ ۱۱۹۱،صحیح مسلم کتاب الحج بَابُ فَضْلِ مَسْجِدِ قُبَاءٍ، وَفَضْلِ الصَّلَاةِ فِیهِ، وَزِیَارَتِهِ۳۳۹۶

[53] الإصابة فی تمییز الصحابة ۶۲۰؍۴،ابن سعد۴۶۰؍۳،ابن ہشام۶۶۰؍۲

[54] التوبة: 108

[55] المعجم الکبیر للطبرانی ۱۱۰۶۵

[56] صحیح ابن خزیمة۸۳،المعجم الکبیرللطبرانی۳۴۸،تفسیرابن کثیر۲۱۳؍۴، تفسیرطبری ۴۸۴؍۱۴، البدایة والنہایة۲۵۵؍۳،السیرة النبویة لابن کثیر۲۹۲؍۲

[57] مسنداحمد۱۵۸۷۴

[58] زادالمعاد ۴۸۰؍۳، ابن ہشام۵۳۰؍۲،الروض الانف ۴۰۴؍۷، عیون الآثر۲۷۵؍۲،تاریخ طبری ۱۱۰؍۳،تفسیرطبری ۴۶۸؍۱۴، تفسیر ابن کثیر۲۱۲؍۴

[59] تفسیرابن کثیر۲۱۷؍۴، تفسیر طبری ۴۹۴؍۱۴

[60] تفسیرابن کثیر ۲۱۷؍۴، تفسیرطبری ۴۹۳؍۱۴

[61] تفسیرابن کثیر۲۱۷؍۴

[62] تفسیرطبری۴۹۹؍۱۴

[63] تفسیرطبری۴۹۹؍۱۴

[64] صحیح بخاری کتاب فرض الخمس بَابُ قَوْلِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أُحِلَّتْ لَكُمُ الغَنَائِمُ ۳۱۲۳،صحیح مسلم کتاب الصلوٰة بَابُ فَضْلِ الْجِهَادِ وَالْخُرُوجِ فِی سَبِیلِ اللهِ۴۸۶۱

[65] النسائ۱۲۲

[66] صحیح بخاری کتاب التفسیرسورة التوبة بَابُ قَوْلِهِ مَا كَانَ لِلنَّبِیِّ وَالَّذِینَ آمَنُوا أَنْ یَسْتَغْفِرُوا لِلْمُشْرِكِینَ ۴۶۷۵

[67] القصص ۵۶

[68] مسند احمد ۲۳۰۰۳ ، صحیح مسلم کتاب الجنائزبَابُ اسْتِئْذَانِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ رَبَّهُ عَزَّ وَجَلَّ فِی زِیَارَةِ قَبْرِ أُمِّهِ۲۲۶۰ مختصراً

[69] سنن ابوداودکتاب الجنائزبَابُ الرَّجُلِ یَمُوتُ لَهُ قَرَابَةٌ مُشْرِكٌ۳۲۱۴،سنن نسائی کتاب الجنائزبَابُ مُوَارَاةِ الْمُشْرِكِ۲۰۰۸،تحفة المحتاج۸۶۸

[70] مریم۴۷

[71] الممتحنة ۴

[72] الشعراء ۸۶تا۸۹

[73] تفسیرطبری۵۶۵؍۱۴

[74] الکہف۳۰

[75] التوبة۹۷

[76] التوبة: 122

[77]التوبة: 122

[78]التوبة: 122

[79] تفسیرطبری۵۶۷؍۱۴

[80]التوبة: 122

[81] التوبة: 122

[82] التوبة: 122

[83] التوبة: 122

[84]التوبة: 122

[85] تفسیر طبری۵۶۶؍۱۴

[86]التوبة: 122

[87][التوبة: 122 ]

[88] تفسیر طبری ۵۶۸؍۱۴

[89] المائدة۵۴

[90] الفتح۲۹

[91] التحریم۹

[92] المدثر۴۹تا۵۱

[93] الصف۵

[94] آل عمران۱۶۴

[95] تفسیرابن کثیر۲۴۱؍۴

[96] مسند احمد۲۲۲۹۱

[97] صحیح بخاری کتاب الایمان بَابٌ الدِّینُ یُسْرٌ۳۹

[98] صحیح بخاری کتاب الرقاق بَابُ الِانْتِهَاءِ عَنِ المَعَاصِی۶۴۸۳

[99] مسنداحمد۳۷۰۴،۴۰۲۷

[100] الشعرائ۲۱۵تا۲۱۷

[101] المزمل۹

[102] سنن ابوداودکتاب الادب بَابُ مَا یَقُولُ إِذَا أَصْبَحَ۵۰۸۱

[103] صحیح بخاری کتاب المغازی بَابُ نُزُولِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ الحِجْرَ۴۴۲۲

[104] صحیح بخاری کتاب الجہاد بَابُ مَنْ حَبَسَهُ العُذْرُ عَنِ الغَزْوِ۲۸۳۹، وکتاب المغازی باب غزوہ تبوک۴۴۲۳،صحیح مسلم کتاب الامارة باب ثواب من جسہ عن الغزدعن جابر ۴۹۳۲،السنن الصغیرللبیہقی۲۷۶۲، زادالمعاد ۴۷۳؍۳، عیون الآثر ۲۷۴؍۲،البدایة والنہایة۲۸؍۵،ابن سعد۱۶۸؍۲،السیرة الحلیبة۲۰۲؍۳

[105] صحیح بخاری کتاب الزکوٰة بَابُ خَرْصِ الثَّمَرِ ۱۴۸۱

[106] صحیح مسلم کتاب الفضائل بَابٌ فِی خَیْرِ دُورِ الْأَنْصَارِ رَضِیَ اللهُ عَنْهُمْ عن ابی اسید ۶۴۲۱،۶۴۲۵

[107]۔صحیح مسلم کتاب الفضائل بَابٌ فِی مُعْجِزَاتِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عن ابی اسید ۵۹۴۸

[108] صحیح بخاری کتاب المغازی بَابُ كِتَابِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ إِلَى كِسْرَى وَقَیْصَرَ ۴۴۲۶

[109] صحیح بخاری کتاب المغازی بَابُ حَدِیثِ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ، وَقَوْلُ اللهِ عَزَّ وَجَلَّ:وَعَلَى الثَّلاَثَةِ الَّذِینَ خُلِّفُوا ۴۴۱۸، صحیح مسلم کتاب التوبة بَابُ حَدِیثِ تَوْبَةِ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ وَصَاحِبَیْهِ۷۰۱۶

[110] صحیح مسلم کتاب التوبة بَابُ حَدِیثِ تَوْبَةِ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ وَصَاحِبَیْهِ۷۰۱۶

[111]صحیح مسلم كِتَابُ صِفَاتِ الْمُنَافِقِینَ وَأَحْكَامِهِمْ۷۰۳۷

[112] زادالمعاد۴۶۷؍۳،ابن ہشام۵۲۳؍۲،الروض الانف۳۹۲؍۷،عیون الآثر۲۷۰؍۲،تاریخ طبری ۱۰۷؍۳،شرح الزرقانی علی المواھب۸۲؍۴

[113]التوبة: 102

[114] البقرة: 37

[115] التوبة: 103

[116] زادالمعاد ۴۸۷؍۳، البدایة والنہایة ۳۲؍۵،دلائل النبوة للبیہقی۲۷۱؍۵،شرح الزرقانی علی المواھب۱۱۱؍۴

[117] مغازی واقدی۱۰۵۳؍۳

[118] صحیح بخاری کتاب المغازی بَابُ حَدِیثِ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ، وَقَوْلُ اللهِ عَزَّ وَجَلَّ:وَعَلَى الثَّلاَثَةِ الَّذِینَ خُلِّفُوا۴۴۱۸،صحیح مسلم کتاب التوبةبَابُ حَدِیثِ تَوْبَةِ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ وَصَاحِبَیْهِ ۷۰۱۶، مسنداحمد۱۵۷۸۹، زادالمعاد۴۸۵؍۳،ابن ہشام۵۳۵؍۲،الروض الانف۴۱۰؍۷،عیون الآثر۲۷۹؍۲، البدایة والنہایة۳۱؍۵،دلائل النبوة للبیہقی ۲۷۳؍۵

[119] مغازی واقدی۱۰۵۳؍۳

[120] صحیح بخاری کتاب الادب بَابُ قَوْلِ اللهِ تَعَالَى:یَا أَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا اتَّقُوا اللهَ وَكُونُوا مَعَ الصَّادِقِینَ ۶۰۹۴،صحیح مسلم کتاب البروالصلة بَابُ قُبْحِ الْكَذِبِ وَحُسْنِ الصِّدْقِ وَفَضْلِهِ۶۶۳۷

[121] النور۶تا۹

[122] سنن ابوداودكِتَاب الطَّلَاقِ بَابٌ فِی اللِّعَانِ۲۲۵۴

[123] صحیح بخاری كِتَابُ الطَّلاَقِ بَابُ صَدَاقِ المُلاَعَنَةِ۵۳۱۱

[124] سنن ابوداودكِتَاب الطَّلَاقِ بَابٌ فِی اللِّعَانِ۲۲۵۶

[125] مسنداحمد۷۰۲۸، الفتح الربانی من فتاوى الإمام الشوكانی۴۸۰۵؍۱۰

[126] زادالمعاد ۳۱۹؍۵

[127] معالم السنن۲۶۹؍۳

[128] سنن ابوداود كِتَاب الطَّلَاقِ بَابٌ فِی اللِّعَانِ۲۲۵۴

[129] صحیح بخاری كِتَابُ الطَّلاَقِ بَابُ التَّلاَعُنِ فِی المَسْجِدِ ۵۳۰۹

[130] سنن ابن ماجہ كِتَابُ الْفَرَائِضِ بَابُ تَحْرِزُ الْمَرْأَةُ ثَلَاثَ مَوَارِیثَ۲۷۴۲،سنن ابوداودكِتَاب الْفَرَائِضِ بَابُ مِیرَاثِ ابْنِ الْمُلَاعَنَةِ۲۹۰۶، جامع ترمذی أَبْوَابُ الْفَرَائِضِ بَابُ مَا جَاءَ مَا یَرِثُ النِّسَاءُ مِنَ الوَلاَءِ۲۱۱۵حكم الألبانی:ضعیف

[131]مصنف عبدالرزاق۱۲۴۷۶

[132] سنن ابوداود كِتَاب الطَّلَاقِ بَابٌ فِی اللِّعَانِ۲۲۵۰

[133] إرواء الغلیل فی تخریج أحادیث منار السبیل ۲۱۰۵، ۱۸۸؍۷

[134] تفسیراللباب فی علوم الکتاب۲۹۸؍۱۴

[135] صحیح بخاری كِتَابُ الطَّلاَقِ بَابُ التَّلاَعُنِ فِی المَسْجِدِ۵۳۰۹

[136] صحیح بخاری كِتَابُ الطَّلاَقِ بَابُ إِذَا عَرَّضَ بِنَفْیِ الوَلَدِ۵۳۰۵

[137] مسند احمد ۲۲۹۴۹ ، السنن الکبری للبیہقی ۱۶۹۶۶

Related Articles